Chitral Times

Apr 26, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

سیلاب زدہ علاقوں میں متاثرہ لوگوں کے لیے گرم کپڑوں اور لحاف کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے، احسن اقبال

شیئر کریں:

سیلاب زدہ علاقوں میں متاثرہ لوگوں کے لیے گرم کپڑوں اور لحاف کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے، احسن اقبال کی ہدایت

اسلام آباد(چترال ٹایمز رپورٹ )وفاقی وزیر منصوبہ بندی، ترقی، اصلاحات و خصوصی اقدامات اور سربراہ این ایف آر سی سی پروفیسر احسن اقبال نے ہدایت کی ہے کہ سیلاب زدہ علاقوں میں جہاں موسم سرد ہو چکا ہے وہاں متاثرہ لوگوں کے لیے گرم کپڑوں اور لحاف کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔یہ ہدایت انہوں نے بدھ کو این ایف آر سی سی میں اپنی زیر صدارت اجلاس میں دیں۔ اس موقع پر این ڈے ایم اے اور صوبائی حکام نیبریفنگ دی۔ اجلاس میں وفاقی وزیر نے ہدایت کی کہ سیلاب زدہ علاقوں میں جہاں موسم سرد ہے وہاں متاثرہ لوگوں کے لیے گرم کپڑوں اور لحافوں کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔انہوں نے سیلاب سے متاثرہ کسانوں کو بلا سود کیقرضے دینیکی ہدایت کی تاکہ وہ اپنی فصیل دوبارہ تیار کر سکیں۔وفاقی وزیر نے فصلوں کی کاشت کے لیے مشینری کی خریداری کے لیے متعلقہ حکام کو جلد لائحہ عمل تیار کرنے کی بھی ہدایت کی۔ اجلاس میں وزارت خوارک کو اس حوالے سے جلد بریفنگ کی ہدایت کی گئی ہے۔

 

پاکستان میں 33ملین لوگ سیلاب سے متاثرہ ہیں،عالمی بنک نے سیلابی نقصانات کا ابتدائی تخمینہ 40ارب ڈالر لگایا ہے،وفاقی وزیر شیری رحمن

اسلام آباد(سی ایم لنکس)وفاقی وزیر موسمیاتی تبدیلی سینیٹر شیری رحمن نے کہاہے کہ موسمیاتی تبدیلیاں پوری دنیا کے لیے بڑا چیلنج ہیں،پاکستان میں 33ملین لوگ سیلاب سے متاثرہ ہیں، عالمی بنک نے سیلابی نقصانات کا ابتدائی تخمینہ 40ارب ڈالر لگایا ہے، سیلاب متاثرین کی بڑی آبادی کی بحالی کے چیلنج سے نمٹنا تنہا کسی ملک کا کام نہیں ہے، سیلاب سے شدید متاثرہ انفراسٹرکچر کی بحالی کے لیے بڑے پیمانے پر وسائل درکار ہیں۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے بدھ کو پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ میں ایک اہم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔انہوں نے کہاکہ سیلاب کی صورتحال بہت خراب ہے،سیلاب متاثرہ علاقوں میں جگہ جگہ پانی کھڑا ہے اور وہ علاقے جو سطح سمندر سے نیچے ہیں وہاں سے پانی کا اخراج ایک مشکل مرحلہ ہے،پوری دنیا میں موسمیاتی تبدیلی کا ایسا عمل پہلے دیکھنے میں نہیں آیا،موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے بارشوں اور سیلاب نے ریکارڈ توڑ ا ہے۔

 

پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں سے ہونے والے نقصان کا ورلڈ بنک نے 40بلین ڈالرز کا تخمینہ لگایا ہے،33ملین سیلاب متاثرین بہت بڑی تعداد ہے جو کہ آسٹریلیا جیسے بڑے ملک سے ساڑھے سات ملین زیادہ ہے،2010 کے سیلاب میں 20ملین افراد سیلاب سے متاثر ہوئے تھے جن کی بحالی کے لیے 40بلین کا ہی تخمینہ لگا تھا تاہم اس تخمینہ میں احتیاط برتنا ہوگی۔20.6ملین متاثرین ابھی بھی امداد کے منتظر ہیں۔یہ پرتگال اور سوئٹزر لینڈ کی مجموعی آبادی سے زیادہ ہے۔اسی لیے وہاں پر اٹھارہواں ہفتہ چل رہاہے کہ ریسکیو ختم،اموات ختم ہو گئی ہیں لیکن ریلیف آپریشن تاحال جاری ہیں جون کے وسط تک 1717اموات ہوئی تھیں اور 12867افراد زخمی ہوئے،سیلاب کی شدت اس قدر تھی کہ 13ہزار کلومیٹر سڑکیں تباہ ہوئیں جن کی بحالی کے لیے کس قدر وسائل کی ضرورت ہے،436پل تباہ ہوئے جن کی مرمت و تعمیر نو کا کام ہوگا۔1400صحت کے مراکز کو نقصان پہنچا یا وہ مکمل تباہ ہیں خاص طور پر سندھ میں ابھی بھی صحت کے مراکز ڈسپنسریاں وغیرہ ابھی بھی زیر آب ہیں اورعالمی ادارہ صحت کے اعدادو شمار کے مطابق 8.2ملین لوگوں کو ارجنٹ ہیلتھ کیئر کی ضرورت ہے۔ان میں چار فیصد زچگی کے کیسز ہیں۔انہیں محفوظ رہائش دینا ہے۔سندھ کے گیارہ اضلاع میں اس وقت بھی پانی کھڑا ہے، چھ لاکھ عارضی شیلٹرز بنائے گئے ہیں اور ابھی 7.9ملین کو ابھی بھی امداد کی ضرورت ہے۔

 

اس حوالے سے جینیوا میں بھی فلیش اپیل کی ہے،9.4ملین ایکڑ پر کھڑی فصلات تباہ ہوئیں، فوڈ اینڈ ایگریکلچر نقصانات سے 14 ملین افراد براہ راست متاثر ہوں گے اس سے امپورٹ بل پر بھی اثر پڑے گا،15.4ملین لوگ غربت کی لکیر سے نیچے آئیں گے۔ان میں سے 7.1 ملین کو غذائی نیوٹریشنز کے لیے ٹارگٹ کیاگیاہے سیلاب سے مجموعی طور پر متاثریں میں سے 70فیصد بچے اور خواتین ہیں۔متاثرین میں 65ارب روپے کی امداد تقسیم کی جا چکی ہے۔سیلاب سے چاول، روئی،گنا، گندم وغیرہ کی فصلات کا نقصان ہوا جو کہ کیش کراپس میں شمار ہوتی ہیں اور مقامی آبادیوں کا انحصار بھی انہی پر تھا۔ سندھ میں مجموعی طور پر 79فیصد فصلات تباہ ہوئیں،بلوچستان میں 53فیصد،پنجاب میں 15فیصد، کے پی کے 14 فیصد جبکہ آزاد جموں کشمیر کے 25فیصدفصلات کے نقصانات ہیں۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, چترال خبریںTagged
66861