Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

 گلگت بلتستان لیجسلٹیو اسمبلی میں یکساں نمائیندگی اور پھنڈر۔ شاہ عالم علیمی

شیئر کریں:

 گلگت بلتستان لیجسلٹیو اسمبلی میں یکساں نمائیندگی اور پھنڈر۔ شاہ عالم علیمی

سب سے زیادہ نظرانداز خطہ تحصیل پھنڈر اور گوپس ہے۔ لسانی مذہبی اور علاقی تعصبات سے پُر گلگت بلتستان میں مہذب بننا اجتماعی محرومی کا باعث بنتا جارہا ہے۔

چترال جیسے انتہائی مہذب تہذیب کا حصہ ہونے کی وجہ سے یہ علاقہ ہرنوسرباز کو  اپنا لیڈر مانتا رہا اور جواب میں دھوکے کے سوا کچھ نہیں ملا۔

حلقہ نمبر 2 میں ووٹرز کی اکثریت اس علاقہ میں ہے۔ مگر یہاں کا براہ راست نمائندہ کبھی منتخب نہیں ہوا۔

اس کی وجہ اوپر بیان کی گئی وجہ کے علاوہ کچھ پڑھے لکھے مقامی دھوکہ بازوں کی حرکتیں بھی رہی ہیں جنھوں نے قوم (قبیلہ) کے نام پر یہاں کینسر پھیلایا اور اپنا الو سیدھا کرتے رہے۔

نتیجہ یہ نکلا کہ نمائیندہ منتخب کرنا تو دور جن لوگوں نے اپنی اپنی سیاسی جماعتوں کے لیے زندگی بھر قربانیاں دی تھی ان کو بھی کسی نے نہیں پوچھا۔

سرکاری اداروں سے لیکر این جی اوز تک کے اہم ادارے اپنے اسکول اور ہسپتال دوسری جگہوں میں بنائے۔ سرکاری ملازمتوں میں دوسرے علاقوں کے لوگوں کو فرقہ علاقہ اور زبان کی بنیاد پر نوکریاں ملتی رہتی ہے جب کہ یہاں کا کوئی پوچھنے والا نہیں۔

دو مثالیں دیکھیں؛ ٹراوٹ مچھلی پھنڈر میں ہے اور اس کے محکمہ کے ستر فیصد ملازمین (خاص کر اوپر کے اسیکل کے) پونیال سے ہیں۔ کچھ دن پہلے پولیس کے محکمہ میں کانسٹیبل کی بھرتیاں ہوئیں اکثریت رکھنے والا پھنڈر سے بمشکل دس فیصد جوانوں کو ملازمتیں ملیں۔ انسپکٹر جنرل آف جی بی پولیس نے دعوی کیا کہ بھرتیاں بہت شفاف طریقے سے ہوئیں۔

نہیں جناب پھر بھی شفاف نہیں ہوئیں۔ آپ آئیندہ یونین کونسل کے کوٹہ کے تحت بھرتیاں کروائیں پھر ہم مانیں گے۔

پاکستان پیپلز پارٹی سے لیکر مسلم لیگ نواز تک کے دور میں یہ علاقہ زیادتیوں کا نشانہ رہا۔ اور اب بھی وہی صورتحال جاری ہے۔

ایک سڑک بن رہی ہے جس کا یاجوج اور ماجوج سب کریڈٹ لے رہے ہیں۔ اور پالیشئے اور مالیشئے بھی اپنے اپنے آقاوں کے چمکانے میں مصروف ہیں۔

سڑک کے ٹینڈر کے فوراً بعد غذر کی زمینوں کو مٹی کے بھاو ہتھیانے کی کوشش کی گئی۔ سخت عوامی دباو کے بعد اب کہہ رہے ہیں کہ مارکیٹ ریٹ کے مطابق معاوضہ ملے گا۔

اس کا سارا کریڈٹ میرے بھائی شمس الحق نوازش کو جاتی ہے جنھوں نے موثر انداز سے مذہمت کی اور دھوکہ بازوں کو بے نقاب کیا۔

کوئی اپنے آقاوں کو خوش کرنے کے لیے عوام کو بلیک میل نہ کریں۔ اگر حکومت نے یہاں روڑ نہیں بنوانا تو اس سے کچھ خاص فرق نہیں پڑے گا۔ پہلے کونسا یہاں روڑ بنا تھا! گلگت سے پھنڈر تک روڑ بیس سال پہلے بنا لیکن مٹوٹی پل سے لیکر شندور تک نہیں بنایا گیا۔ اس کے 800 ملین روپے مہدی شاہ حافظ اور ان جیسے پکے مومنین نے اپنی جیب میں ڈالا۔

روڑ بنانے کے نام پر اب  کسی کو نوسرباز بننے نہیں دیا جائے گا تاوقتیکہ کمپنسیشن صیح طریقے سے لوگوں کو نہیں ملتا اور ضرورت سے زیادہ زمین نہیں چھوڑا جاتا۔

اب آتے ہیں دوسری بات کی طرف ؛ گلگت میں بنی اس نام نہاد اسمبلی پر پھنڈر کے لوگوں کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا کسی اور گلگت بلتستانی کا ہے۔ فرقہ زبان اور علاقہ کی بنیاد پر دھونس دھندلی اور دہشتگردی کے ذریعے مشیر اور وزیر لگوانے والے پھنڈر کو بھی اس کا حق دے دیں۔

یہاں سے بھی موجودہ حکومتی پارٹی کے لوگوں نے بھی اس حکومت کو بنانے  میں قربانیاں دی ہیں۔

اس بات کے باوجود کہ یہ علاقہ ایک الگ ضلع بن سکتا یا کم از کم ایک الگ حلقہ بن سکتا ہے آج تک یہاں سے ، جیسا کہ اوپر بھی مذکور ہوا ، کوئی بالواسطہ نمائیندہ اس اسمبلی میں نہیں جاسکا ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ اس تعصبستان میں کسی کو پھنڈر سے کوئی ایسا نظر نہیں آیا جو مشیر اور ایڈوائزر وغیرہ ہی بننے کے قابل سمجھا جاسکے۔

دنیا میں انسانی تہذیب نے بہت ترقی کی ہے۔ قومیں مہذب ہوچکیں ہیں فیصلے عقل علم اور انصاف کی بنیاد پر ہورہے ہیں۔ ہمیں بھی تھوڑا سا مہذب ہونا چاہیے۔ ہمارے فیصلے بھی تھوڑا بہت  انصاف پر مبنی ہونا چاہیے۔ کب تک مذہب زبان اور علاقہ کی تعصبات کے تحت ہم دھونس دھندلی کی حرام خوری کرتے رہیں گے۔

آخر میں کہنا یہ ہے کہ گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی میں پھنڈر کو بھی نمائیندگی دی جائے  اور سرکاری نوکریوں میں کوٹہ  تحصیل اور یونین کونسل کی بنیاد پر فراہم کی جائیں تاکہ سب کو ان کا حق ملے اور سب کے ساتھ انصاف ہو۔

 


شیئر کریں: