Chitral Times

ملک کو ائینی بحران کا خطرہ – تحریر: سید عطاواللہ جان عسکری

کیا بنے گا پاکستان کا
تحریر: سید عطاواللہ جان عسکری
ملک کو ائینی بحران کا خطرہ
قسط نمبر٩

یہ پہلی دفعہ ہوا ہے کہ پاکستان کے تمام بڑ ے ادارے ایک دوسرے کے ساتھ متصادم ہیں ـ اس میں تیزی اس وقت ائی جب ملک کے اندر دو صوبوں یعنی خیبر پختونخواہ اور پنجاب اسمبلیاں تحلیل ہوۓ ـ یہ تنازعہ ٩٠ دنوں کے اندر الیکشن کرانے یا نہ کرانے کی وجہ سے پیدا ہو ئی ہے ـ حکمران جماعت کے علاوہ الیکشن کمشن، صوبائی گورنرز اور صدر مملکت کے مابین نوے روز کے اندر الیکشن کرانے یا نہ کرانے کا معاملہ ایک گھمبیر صورت حال میں داخل ہو چکی ہے ـ٩٠ دن میں سے غالباً ایک مہینہ سے زیادہ کا عرصہ گذر چکا ہے ـ جس کی وجہ سے سپریم کورٹ سوموٹو نوٹس لے کر معاملے کو ائین اور قانون کے مطابق سلجھانے کی کوشش کی ہے ـ لیکن سیاست دانوں کے علاوہ طاقت ور حلقوں اور الیکشن کمیشن اس بات پر اپنی تحفظات کا اظہار کرتے ہوۓ مختلف طریقوں سے آئین کی تشریح کرنے میں لگے ہوۓ ہیں کہ کسی صورت یہ الیکشن نہ ہونے پاۓ ـ پاکستانی عوام کی اکثریت ٩٠ دن کے اندر انتخابات کرانے کے معاملےکو ائینی قرار دے کر اپنی موقف پر ڈٹی ہوئی ہے ـ جبکہ مسلیم لیگ کےرہنما مریم نواز اب پہلے احتساب پھر انتخابات کا نعرہ بلند کی ہوئی ہے ـ جو کسی زمانے میں ضیاءالحق یہ نعرہ دیا کرتا تھا ـ ضیاء نے اس نعرے کی اڑ میں کئی دہائیوں تک اس ملک پر حکمرانی کی ـ لیکن انھوں نے ماسواۓ بھٹو قتل کے کسی ایک کا بھی احتساب نہ کر پایا ـ اج پھر اس نعرے کے سہارے مریم بی بی یہ تاثر دینے کی کوشش کررہی ہیں کہ ان کے باب نواز شریف کو کیوں نکالا گیا ـ

 

دیکھا جاۓ توپاکستان کی موجودہ حالات پاکستانی کی تاریخ کا ایک بڑا المیہ ہے ـ جس میں نہ اسٹبلشمنٹ اور نہ ہی سیاست دانوں میں اپس میں مل بیٹھ کر حالات کو معمول پر لانے کی جستجو ہے ـ نہ بروکریٹس اور الیکشن کمیشن اس معاملے کو ہنڈل کرنے کی پوزیشن میں ہیں ـ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ تمام ادارے قیام پاکستان سے لیکر اب تک اپنی ناقص پالیسیوں کے سبب سے عوام کی نظروں میں اپنی ساگھ کھو بیٹھے ہیں ـ صدر پاکستان کی جانب سے الیکشن کمیشن کو ٩٠ روز کے اندر الیکشن کرانے کے حکم کو بھی سردخانے میں ڈال دیا گیا ہے ـ بالاخر سپریم کورٹ کو اس قومی اور ائینی معاملے پر سوموٹو لینا ہی پڑا ـ لیکن اس معاملے میں نہ صرف پی ڈی ایم کی حکومت سپریم کورٹ کی اس اقدام پر سوال اٹھانا شروع کیا بلکہ عدالت میں بھی  اس امر کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے  ـ کیونکہ اس مرتبہ اگر سپریم کورٹ کے جج کو متنازعہ بناکر پہلے ججوں کی طرح گھر بھیج دیاجاۓ تو اس کی بحالی کی تحریک میں کوئی جان باقی نہیں رہ جاۓ گی ـ یہی نہیں بلکہ سیاست دانوں نے اب تو بڑی شدو مد کے ساتھ اس ضرورت کو محسوس کرنے لگے ہیں کہ وہ نظریہ ضرورت کے تحت پارلیمنٹ اور سینٹ سے ایک قانون سازی کی بل پاس کرایا جاسکے ـ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے بڑی عجلت میں یہ بل منظور کرانے میں بظاہر کامیابی حاصل کی ہیں ـ جس کا مقصد ہی سپریم کورٹ کی جج کی جانب سے سو مو ٹو لینے کی اختیارات کو دوسرے ججز کے ساتھ مشروط قرار دے کر فرد واحد کی سوموٹو کو بے توقیر بنایا جاۓ ـ تاکہ کسی طرح فلحال الیکشن سے راہ فرار اختیار کیا جاسکے ـ ان کا دعوا ہے کہ اس کیس میں سوموٹو لینے کی گنجائش موجود نہیں ـ یعنی سپریم کورٹ کے جج صاحبان بھی اپس میں اُلجھے ہوۓ ہیں ـ لندن میں بیٹھے مسلم لیگ ن کے نواز شریف اور کے حواریوں کا کہنا ہے کہ ایک لارجر بنج تشکیل دیا جاۓ جس میں سپریم کورٹ کے تمام ججز شامل ہوں ـ

 

سپریم کورٹ کے اندر دوسرے معزز ججز کو سیاسی جماعتیں خود سے وابسطہ قرار دے کر حسب روایت ان سے اپنی مرضی کے فیصلوں کی امید لے کر بیٹھے ہوۓ ہیں ـ سپریم کورٹ کی نو رکنی بنج کی تشکیل دینے کے بعد ان لوگوں کی جانب سے شروع کے دو ججز پر مسلسل دباؤ ڈالا گیا ـ جس کی وجہ سے نو رکنی بینج سکڑتے ہوۓ اب تین ججز پر مشمل رہ گئی ہے ـ اب سوموار کو تین رکنی بینج اس کیس کی سماعت کرے گی ـ پوری قوم سپرہم کورٹ کے ساتھ کھڑے رہنے کا اندیہ دے چکی ہے ـ اس حوالے سے کل 3 اپریل یعنی سماعت کے روز وکلاء اور سول سوسائیٹی کے لوگ شاہراہ دستور پر جمع ہو کر سپریم کی جج کے ازادانہ فیصلے کی حمایت میں موجود رہیں گے ـ یہ تین رکنی بینج سپریم کورٹ کی نمائیندگی کرتے ہوۓ اتخابات کرانے سے متعلق فیصلہ کرے گی کہ ایا ائین کے تحت اسمبلیاں ٹوٹ جانے کے بعد نوے روز کے اندر انتخابات ہونا چاہیے یا نہیں ـ ائین کے تحت نوے روز کے اندر انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے ـ پی ٹی ائی کے چیرمین عمران خان کا یہ دعوا ہے کہ الیکشن ہونے کی صورت میں پی ڈی ایم کو بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ـ اس لیے وہ الیکشن سے بھاگ رہی ہے ـ

 

دوسری طرف مسلم لیگ ن کی جماعت چاہتی ہے کہ ججز کا انتخاب ان کی مرضی کے مطابق ہو ـ یعنی حسب روایت وہ معزز ججز کو اپنے دباؤ میں رکھنا چاہتی ہے ، جو وہ پہلے کی طرح اج بھی خود کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں ،جو اُن کے سابقہ ریکارڈ کا حصہ ہے ۔ اسی قسم کے بینج سابقہ ادوار میں بھی فیصلہ دے چکے ہیں لیکن اُس وقت سیاست دانوں کو اس میں ترمیم کرنے کی ضرورت کیوں پیش نہیں ائی تھی ـ اب کیا ہوگیا ہے کہ فل کورٹ بنانے کی ضرورت پیش ائی ہے ـ لہذا اب کی بار فل بینج کی تمہید باندھنا اور وہ بھی اتنی عجلت میں ، بدنیتی پر مبنی ہے ـ اگر چہ فل کورٹ کی قیام کا مسلہ سپریم کورٹ کی اندرونی، اصولی ، اور قانونی معاملہ ہے ـ اس معاملے کو کسی بیرونی قوتوں کی جانب سے ملنے والی ڈیکٹیشن کے مطابق عمل میں نہیں لائی جاسکتی ہے ـ وہ بھی ایک ایسے وقت میں جہاں ملک کے تمام ائینی ادارے ایک دوسرے کے ساتھ متصادم ہیں ـ ہماری دعا ہے کہ سیاست دان ان مسائل کو حل کرنے میں انھیں مل بیٹھنے کی توفیق نصیب ہو ـ آمین ـ

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
73160

کیا بنے گا پاکستان کا – تحریر: سید عطاواللہ جان عسکری (قسط نمبر 4)

Posted on

کیا بنے گا پاکستان کا – تحریر: سید عطاواللہ جان عسکری (قسط نمبر 4)

جدوجہد ازادی کی تحریک ازادی 1857اور اس کے اثرات سے لیکر دو قومی نظریہ اور تحریک پاکستان تک ، پھر ظہور پاکستان کے بعد سے اج تک کا جائزہ لیا جاۓ تو اج اس مردم خیز خطے کی بگڑی ہوئی صورت حال کو دیکھ کر علامہ اقبال کے شعر کا وہ حصہ یاد اجاتا ہے کہ” سارے جہاں  سے اچھا ہندوستان ہمارا “ـ علامہ اقبال اج ذندہ ہوتے تو اس شعر کے نازل ہونے کے موقع کےاوپر  اپنی وجدانی کیفیت پر فخر بھی محسوس کرتے ـ لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان سے متعلق اپنے خوابوں کے ادھورہ ہونے پر شاید افسردہ بھی ہوتے ـ

اج وہ یہ محسوس کرتے اور یہ دیکھ کر حیراں بھی ہو جاتے کہ اج بھی وہ مسلمان جو قیام پاکستان کے انتہائی مخالف اور دشمن تھے ، اس ملک میں اپنی اُن برطانوی سمراجوں کے کٹ پتلی ایجنٹ بننے کی روایات کو ذندہ رکھے ہوۓ ہیں جو وہ پہلے کرتے رہتے تھے ـ وہ یہ دیکھ کر بھی پریشاں  ہوجاتے کہ ان کے شاہینوں کے لیے اس ملک کو پنجرہ بنایا گیا ہے  ـ

وہ یہ دیکھتے ہی رہ جاتےکہ پچھتر سال گذرنے کے باوجود اس ملک میں نہ اسلامی دستور ہے اور نہ ہی بین الامذاہب کے مشترکہ اقدار موجود ہیں ـ پچھتر سالوں کے بعد بھی اس خطے کے مسلمان اپنی پاؤں پر کھڑا نہ ہوسکے ہیں بلکہ اج بھی اُ ن غیر ملکی سامراجوں  پر انحصار کرتے کرتے اپنی تشخص اور اپنی خودی کو بھی کھو بیٹھے ہیں ـ

وہ جب اس ملک کی تاریخ کو پڑھتے ، تو پڑھتے پڑھتے ان کی انکھوں میں انسو اجاتے کہ سامرجی قوتوں نے اس ملک کے اندر اپنی مقاصد کے حصول کے لیے کئی دھڑوں کو اس قدر مضبوط کیا ہوا ہے کہ اس ملک کی ترقی اور جمہوری نظام کو مضبوط بنانے والوں کو مسلسل قتل کرواتے رہے ہیں ـ اس ملک کے وسائل پر قبضہ کرنے کے لیے وہ یہاں کے غاصیبوں  کی مدد کرتے رہے ـ جو اس ملک کے عوام کو ترقی دینے کے بجاۓ حسب معمول غلام ہی بنا کر رکھا گیا ہے ـ اس ملک کے عوام کے ساتھ وہی غلاموں جیسا سلوک کو روا رکھاگیا ہے جو وہ  متحدہ ہندوستان میں رہنے کے دوران کرتے رہے تھے ـ گویا اُ ن برطانوی سامراجی قوتوں نے اج بھی اپنی تاریخ کی اُن نقوش کو نہیں مٹانا چاہا ہے جو برصعر پاک و ہند پر اُن کے قبضہ کے دوران سے اب تک موجود رہے ہیں ـ

حاکم الاُمت کو اس بات کا بھی بہت ہی افسوس ہوتا  کہ اس ملک میں اپس کی سیاسی اختلافات کو ذاتیات کی حد تک لے جاکر اس ملک کے تمام اداروں کو متنازعہ بنا رکھا گیا ہے ـ تمام اداروں میں موجود لوگ قومی مفاد کے بجاۓ ذاتی انا کو اداروں پر مسلط کئے ہوۓ ہیں ـ عدلیہ ، فوج ،الیکشن کمشن، صدر مملکت ،  صوبوں کےگورنرز سب ایک دوسرے کے ساتھ متصادم نظر اتے ہیں ـ علامہ کو وہ زمانہ بھی یاد اتا ہوگا کہ جب متحیدہ ہندوستان کے عوام انگریزوں کی غلامی سے نجات حاصل کرنے تیار تھے ،مگر مختلف فرقوں کے مختلف سوچ ازادی کی راہ میں جب رکاوٹ بننے کا خدشہ پیدا ہوا  تو اقبال نے یہ شعر پڑھ کر سب کو منظم کرنے کی کوشش کی تھی کہ
” مذہب نہیں سکھاتا اپس میں بیر رکھنا
ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستان ہمارا”ـ

یہ بات اپنی جگہ پر اہمیت کے حامل ہے کہ یہ ملک اسلام کے نام پر وجود میں ایا تھا لیکن اب تک غلامی، بدعنوانی اور ظلم و تشدد میں کمی واقع نہیں ہو سکی ہے ـ جس طرح مغرب میں وطن پرستی اور جمہوریت کی تحریکو ں کے سبب سے  مغربی ممالک کو ازادی نصیب ہوئی تھی ـ اسی طرح مسلمانوں نے بھی وطن پرستی اور اسلامی جمہوری اقدار کے تحت یہ ملک حاصل کیا تھا ـ لیکن برطانوی حکمرانوں نے اس وطن پر اپنے چند مراعات یافتہ اشرافیہ کو مسلط کر کے اس ملک کے سیاہ و سفید پر قبضہ جمانے میں اج تک ان کی مدد کرتی رہی ـ جس کی وجہ سے اج ملک ترقی اور ازادی حاصل کرنے کے بجاۓ غلامی ، محرومی، نا امیدی، کی وجہ سے اج یہ  ملک  دیوالیہ ہو چکا ہے ـ اسٹبلشمنٹ شروع سے ہی اس کھیل کا سرغنہ رہا ہے اور مکمل طور پر سیاسی کردار ادا کرتا رہا ہے اور بار بار آئین اور سیاسی اداروں کو پامال کرتے رہے ـ لیکن سامراجی قوتوں نے 75 سال گذرنے کے باوجود بھی ازادی اور جمہوری تحریک کو پاکستانی عوام کے دلوں سے نکالا نہیں جا سکا ـ اب تو اسبلشمنٹ کو بھی یہ احساس ہونے لگی ہے کہ انھیں اندر ونی طور پر دو حصوں میں تقسیم ہونے کا خطرہ لاحق ہو گیاہے ـ  جس کی وجہ سے فوج میں خدا نخواستہ بغاوت کے امکانات کا خدشہ  ہے ـ کیونکہ فوج کے اندر بھی جمہوریت پسند لوگ موجود ہیں اور ملک کے حکمرانوں کے کردار پر گہری نظر رکھتے ہیں ـ

دوسری جانب کئی دہائیوں سے فوج کے کندھوں میں بیٹھ کر انے والے سیاست دان اس ملک کی سیاست میں اپنا  اجاراداری قائم رکھنے اور اپنی سابقہ چوری اور بدعنوانیوں  کو چھپانے کے لیے انصاف دینے والے عدلیہ کو جلسوں میں برا بلا کہتے پھیر رہے ہیں ـ جبکہ اب عوام کی اکثریت بھی اس ملک کے اسٹبلیمنٹ سے نالاں نظر انے لگے ہیں اور فوج کو غیر سیاسی رہتے ہوۓ اپنی اصل ذمہ اریوں پر توجہ دینے ضرورت پر زور دے رہے ہیں ـ عوام کی جانب سے گذشتہ پچھتر سالوں سے اس ملک کے لوٹنے والے سیاست دانوں کے علاوہ طاقت ور ادراروں کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ـ جو قومی خزانے کو لوٹ کر باہرکے ملکوں میں بڑے بڑے پرپرٹی اورجزیرے خریدینے میں لگےہوۓ ہیں  ـ یعنی ابھی صورت حال یہ ہے کہ قومی دولت کو دونوں ہاتھوں سے لُو ٹنے والے سب اکھٹے ہوۓ ہیں ـ جبکہ عوام کی اکثریت دوسری جانب امریکہ اور برطانوی سامراجی قوتوں کے کٹ پتلیوں کی انکھوں میں انکھیں ڈال صاف اور شفاف انتخابات کے مطالبے پر ڈٹے ہوۓ ہیں ـ ملک کے دو اسمبلیاں بھی ٹوٹ چکے ہیں ـ  اس ملک کو لوٹنے والے لوگ انتخابات سے کتراتے ہیں کہ کہیں اس ملک میں ایک ایسی انقلابی تبدیلی رونما نہ ہونے پاۓ  کہ جس سے ان سب کو احتساب کے عمل سے گذرنا پڑ ے ، اور ملک کے اندر ملکی وسائل منصفانہ طریقے سے تقسیم ہونا شروع ہوجاۓ ـ اقبال جاتے جاتے اپنی مایوسیو ں کا اظہار ان الفاظ میں  کرتے کہ
“نشانٍ برگ گل تک بھی نہ چھوڑا اس باغ میں گلچیں
تیری قسمت سے رزم آرائیاں ہیں باغبانوں میں
وطن کی فکر کر ناداں ،مصیبت انے والی ہے
تیری بربادیوں کے مشورے ہیں اسمانوں میں” ـ

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
71984

کیا بنے گا پاکستان کا – تحریر : عطاواللہ جان عسکری ـ قسط نمبر 3

کیا بنے گا پاکستان کا – تحریر : عطاواللہ جان عسکری ـ قسط نمبر 3

اج کی موضوع کو بچپن کی ایک کہانی سے شروع کیا
جاتا ہے ـ جس کا عنوان جھوٹ کےانجام سے ہےـ

کہانی کا کردار ایک جھوٹ بولنے والا چرواہے کے گرد گھومتی ـ جس میں چرواہا چراگاہ سے اونچی اواز میں گاؤں والوں کو مدد کے لیے پکارتا ہے کہ بھیڑیا مال مویشیوں پر حملہ کر چکا ہے مدد کے لیے پہنچ جاؤ۔ گاؤں والے تیزی کے ساتھ چرواہے کے پاس پہنچ جاتے ہیں تو معلام ہوا کہ چرواہا نے جھوٹ بولا ہےـ چند دنوں بعد چروہا پھر اونچی اواز میں شور مچاتا ہے کہ بھیڑیا جانوروں پر حملہ کر چکا ہے کوئی ہے ، مدد کے لیے جلدی پہنچ جاؤ ـ گاؤں کے لوگ بھاگتے بھاگتےمدد کو پہنچ جاتے ہیں لیکن پتہ چلا کہ چرواہا نے دوسری مرتبہ بھی جھوٹ بولا ہےـ چند دن گذرے تھے کہ سچ مچ بھیڑیا مال مویشیوں پر اچانک حملہ کردیتا ہے اور چرواہا اُنچی اواز میں گاؤں والوں کو پکارنے لگانے لگا لیکن گاؤں والے چرواہے کی اواز پر کوئی دھیان نہیں دیتے ـ یوں اس بار سچ مچ بھیڑیا حملہ بھی کر چکا تھا اور چرواہا سمیت بہت سے مال مویشوں کو ہلاک بھی کر چکے تھے ـ

بالکل اسی طرح ہمارے ملک کے حالات ہیں ـ ہر انے والے حکمرانوں کی زبانی یہ سنتے سنتے ہمارے کان بھی پک چکے تھے کہ ملک ایک نازک دور سے گذر رہی ہےـ لیکن اج کے حالات کو دیکھ کر یقین ہونے لگا ہے ک واقعی اب ملک ایک انتہائی نازک دور سے گذر رہی ہے ـ ملک کے اندر سیاسی عدم استحکام کے علاوہ معیشت کا برا حال ہے ـ مہنگائی ، بے روزگاری میں اضافہ ہورہا ہے ـ اداروں کے درمیان ایک زبردست قسم کی ٹکراؤ پایا جاتا ہے ـ ملک دوالیہ ہو چکا ہے ـ کوئی بھی ملک قرضہ دینے کے لیے تیار نہیں ، ملک کے دو اسمبلیاں ٹوٹ چکی ہیں ـ لیکن 90 دنوں کے اندر انتخابات کا کرانے کا ائینی معاملہ عدالت اور الیکشن کمیشن کے درمیان اٹکی ہوئی ہے ـ جیل بھرو اور ائین بچاؤ کی تحریک چلنے والی ہے ، دہشت گردی پھر سے سر اُٹھانے لگی ہے وغیرہ وغیرہ ـ

کیا پچھتر سالوں کے بعد ان تمام وجوہات اور نا اہلیوں کا سبب ہم عام عوام ہیں؟ ؟ نہیں ، بلکہ ہم عوام اس کے ذمہ دار بلکل بھی نہیں ہیں ـ وہ اس لیے کہ ہم ابھی تک ایران، ایراق، یا افغان قوم کی طرح خود کو ایک ازاد قوم نہیں کہہ سکتے ہیں ،اور نہ ہی ہم ایک ازاد قوم کی طرح ذندگی بسر کرتے ہیں ـ اس ملک کے باسیوں کے ساتھ ابھی تک جو کچھ بھی ہوا ہے ایسے رویے قوموں کے ساتھ نہیں ہوا کرتی بلکہ ایک ہجوم کے ساتھ یہ رویہ اختیار کی جاتی ہے جس میں ایک طاقت ور طبقہ ڈنڈے اور بندوق کی نوک پر ہجوم کو اپنے قابو میں رکھنے کی کوشش کرتا ہے ـ اس لیے ہم ایک قوم نہیں بلکہ ایک ہجوم ہیں ۔ ہمارے ملک میں دستور کا دہرا معیار ہے ـ کمزور کے لیے الگ اور طاقتور کے لیے الگ نظام موجود ہے ـ ہمارے اوپر بہت سے پاندیاں ہیں ـ ہم اپنی اسلامی جمہوریہ میں جمہوری انداز میں ووٹ ڈالنے کی کوشش تو کرتے ہیں اور نمائندہ بھی منتخب کرلیتے ہیں ـ لیکن وہ بے اختیار ہیں اور مدت پوری کیے بغیر ایک ڈیکٹیٹر کی جانب سے انھیں برخواست کیا جاتا ہے اور یوں اب تک اکثرو بیشتر صرف ایک شخص22 کروڑ عوام کی منڈیٹ کے ساتھ کھیلتا رہا ہے ـاس تباہی کا ذمہ دار وہ حکمران طبقہ ہے جس کی شکل و صورت

جیسی بھی ہو ـ جو غیر ملکی حکومتوں
کے غلام ہیں ـ جس کی وجہ سے پاکستان کے غریب عوام ایک قوم ہونے کے بجاۓ غلاموں کے غلام بن کر بیٹھے ہیں ـ
بقول محمد نادر خان المعروف چار ویلو خان چترال کے کہوار شاعر کہتے ہیں کہ
” اوا جمعہ خانو نوکر جمعہ خان بابوو نوکر شا چرا بندی
مہ ہردی شیشو غون کی اوچھیتاۓ اے برارگینیان نو بوۓ پوندی
ترجمہ؛ میں جمعہ خان کا نوکر ہوں اور جمعہ خان خود بابو کا نوکر ہے ـ جس کی وجہ سے میری حالت ایک قیدی جیسی ہے۔
میرا دل شیشے کی مانند ہے گر ٹوٹ جاۓ تو پھر پیوند کاری نہیں کی جا سکتی ـ
یہی حال پاکستانی عوام کا ہے کہ ہم غلاموں کی غلامی کرتے کرتے دل شیشے کی مانند ٹوٹ کر چُور چُور ہوچکا ہے ـ

اس ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔لیکن اب
تک اسلامی اقدار کے مطابق حکومت نظر اتی، اور نہ ہی مکمل جمہوری قرار پایاہے ـ اسلام امن و سلامتی کا پیغام ہے ۔ لیکن اس ملک میں اب تک کسی اقلیت کی اور نہ کسی مسلمان کی جان محفوظ ہے۔ نہ دین کی باتیں کرنے والوں کی جان بخشی ہے ـ اور نہ ہی ازادی کی تشریح کرنے والوں کو امن و امان نصیب ہوا ہے ـ نہ یہاں پر ملاوٹ سے پاک چیزیں دستیاب ہوئیں اور نہی میرٹ پر کسی کے حقوق محفوظ ہیں ـ جس طرف بھی نظر دوڑائی جاۓ بدعنوانی ،کرپشن، مہنگائی، لُٹ مار ، قتل و غارت نظر اتی ہے ـ انصاف ، نام کی کوئی چیز نہیں ـ اس ملک میں جس کی لاٹھی اُس کی بھنس والی بات چلتی رہی ہے۔ یہاں پر کو ئی ازاد نہیں۔ اس ملک کے اندر سچ بولنے والوں کے لیے سزا مقرر ہے ـ

صحافت ازاد نہیں ـ جب بھی صحافی اپنے پیشے کے ساتھ مخلص رہا اور اپنی پیشے کا حق ادا کیا تو سچ بولنے کی پاداش میں اُسے حراسان کیا جاتا رہا ـ انھیں ٹارچر کی گئی اور کسی کو جیل میں ڈالا گیا ـ بعض کو موت کے گھاٹ اتار دیے گئے ہیں ـ
اب بات قابو سے باہر ہوچکی ہے ، عوام امریکہ اور اس کے حواریوں سے ازادی حاصل کرنا چاہتی ہے ـ تاکہ ہم خود کو ایک قوم بنا سکیں اور اپنی پاؤں پر خود کھڑی ہو سکیں ـ لوگ اسی جذبے کے ساتھ اس دلدل سے نکلنا تو چاہتے ہیں

لیکن مجبوری یہ ہے کہ عوام پر مسلط کی گئی حکمران ، خود مسلط کرنے والوں کے مقروض ہیں ـ وہ اس ملک کے نام پر ڈالرز لیتے رہے جوکرپشن کی نظر ہوئی ہے ـ ان رقوم حاصل کرنے کے لیے عوام اور اس ملک کے اثاثوں کو گیروی رکھا گیا، ڈالرز لیے گیے ،اور پھر ان ڈالروں کو اپنے نام پر باہر کے ملکوں میں منتقیل کیا گیا ـ ان حکمرانوں نے اس قوم سمیت ملک کو بھیج چکے ہیں ـ

غلام قوم ہونے کی دوسری صورت یہ ہے کہ اگر چہ ہمارے ملک میں تیل کی ذاخائیر موجود ہیں لیکن ہم امریکہ کی اجازت کے بغیر تیل نہیں نکال سکتے ـ ہم اپنی پڑوسی ملک ایران سے گیس نہیں خرید سکتے ہیں ـ کیونکہ اس سے امریکہ ناراض ہوجاتا ہےـ دوائی ہم خود نہیں بناسکتے ہیں ـ کیونکہ ہم کیمیکل باہر سے منگواتے ہیں ـ ہم اپنی ملک کے لیے پالیسیاں نہیں بناسکتے ہیں ـ کیونکہ امریکہ اور ائی ایم ایف ہمیں پالیسیاں بنا کر دیتی ہیں ـ

ان تمام مسائل سے نجات حاصل کرنے کے لیے اگر دو تہائی کی اکثریت سے جیتنے والی جماعت ایک ازاد اور شفاف الیکشن کی صورت میں نہیں جیت جاتی اور ایک جامع اور مضبوط حکمت عملی کے مطابق ہر ایک کو احتساب کے عمل سے نہیں گذارتے ، تب تک یہ ملک اپنی دروست سمت کا تعین نہیں کر سکتا ہےـ یہ اس وقت ممکن ہوسکتا جب فوج اپنی کھوئی ہوئی ساگھ کو دوبارہ بحال رکھنے کے لیے اُن تمام کرپٹ عناصر کو با زور شمشیر احتساب کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کے لیے عدالتوں کے لیے معاونت کرے ـ بصورت دیگر یہ چند مافیا قسم کے اداروں میں موجود لوگ اس ملک کی باقی ماندہ اثاثے بھی بیھج ڈالیں گے ـ یہ مافیا لوگ ایٹمی اثاثوں کے علاوہ کشمیر کا سودہ کر نے سے بھی دریغ نہیں کریں گے ـ یہ اخری موقع ہے اس ملک کو ڈوبنے سے بچانے کا ، ورنہ کرپشن کی اس اندوناک روایت کو ختم کرنے میں بہت دیر ہو جاۓ گی ـ

اب وقت اگیا ہے کہ طاقت ور ادارے پھر سے اپنی عزت کو بحال رکھتے ہوۓ اس جھوٹی مصلیحت پر کھڑی عمارت کو گرادے ـ ملک میں ائین کے تحت نوے روز میں انتخابات کراۓ اور اسے طول دینے کی کوشش سے باز رہے، اور ایک نئی صبح اور ایک نئی شام کے ساتھ از سرنو اس ملک کی تعمیرو ترقی کا اغاز کردیا جاۓ ـ تا کہ سانپ بھی مرے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے ـ

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
71856

کیا بنے گا پاکستان کا – تحریر: سید عطاواللہ جان عسکری

Posted on

کیا بنے گا پاکستان کا – تحریر: سید عطاواللہ جان عسکری قسط نمبر ٢

قیام پاکستان  سے لیکر اب تک پاکستانی عوام  اس ملک کو ایک فلاحی اور ترقی یافتہ ملک دیکھنے تمننادل میں لیے ایک طویل عرصہ گزارا ہے۔ لیکن ہر انے والا حکمران کی کاردگی کو مد نظر رکھتے ہوۓ یوں محسوس ہونے لگتا ہے جیسے بقول ایک شاعر کہ،
لُٹیروں نے جنگل میں شمع روشن کئے
مسافر سمجھا کہ منزل یہی ہے ۔
ہر انے والا حکمران کو ہم نے گفتار کے غازی پایا لیکن کار کردگی کے لحاظ سب کو چور اورقوم کو مایوس دیکھنا پڑا ۔کسی نے ملک کی نا گفتبہ صورت حال کی زمہ داری پیچھلے حکومتوں  پر ڈال کر خود کو بری الذمہ قرار دیا، توکسی نے حکومت کی مدت پوری نہ ہونے کا رونا رویا ـ لیکن دونوں صورتوں میں ایک بات  مشترک ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے اوپر کرپشن کے کیسسز کھلنے معاملے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوششوں میں لگے رہے ـ فوجی امروں نےاس ملک پر چار مرتبہ مارشل لاء کا نفاذ کرکے اسلامی جمہوریہ کے ساتھ شب و خون ماراـ جس کی وجہ سےملک کے اندر جمہوریت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچاـ
ایک لمحے کے لیے ملک کی اس صورت حال کا طائرانہ جائزا لیا جاۓ تو ہمیں معلوم ہوگا کہ اس ملک کو اس قدر دوالیہ پن سے دوچار کرنے کے ذمہ دار  کون ہیں ـ وہ کون ہیں جو ہمارے مقتدر اداروں کو اس قدر اُکساتے ہیں کہ وہ بار بار اس ملک کے ائین کو اپنے بوٹوں تلے روندتے چلے جاتے ہیں ـ وہ کون لوگ ہیں کہ اس ملک میں جمہوری نظام کا قیام ان کی انکھوں کو کھٹکتی ہے ـ وہ کون لوگ ہیں جو ہمیں اپس میں لڑواتے رہتے ہیں کبھی فرقہ واریت کے نام پر خون خرابہ تو کبھی ہم کو افغانستان کی جنگ میں دھکلتے رہے ـ کیا اس ملک کو کراۓ کے قاتلوں کے لیے ایک اڈہ جیسا بنایا گیاتھا ـ کیا اس ملک کی اپنی کوئی حیثیت نہیں تھی کہ اپنا فیصلہ خود کرسکےـ اس ملک کی عمر اب 75 سال سے گذر رہی ہے ـ لیکن اج تک ہم اپنے دشمن کو نہ چاہتے ہوۓ بھی مسلسل خوش اور ہر حکم کی تعمیل کرنے میں گزارے ہیں ـ کیوں؟ کیونکہ ہم مادہ پرستی میں اس قدر حد سے بڑھ چکے ہیں کہ ہم اپنی اصلیت کھو بیٹھے ہیں ـ ہم محسوس کرنے لگتے ہیں اور ہمیں یہ اندیشہ ہے کہ ہم بھوکے ہیں اور
امریکہ ہمیں روٹی کھیلاتا ہےـ ہمیں شروع سے اس بات کا خوف رہا ہے کہ اگر امریکہ اور ائی ایم ایف ہماری مدد نہ کرے گی تو ہم ذندہ نہیں رہ پائیں گے ـ
 بحثیت مسلمان کیا یہ بات ہمیں ذیب دیتا ہے کہ ہم اپنی نسلوں کی ذندگیوں کا سودہ  کسی غیر مسلموں کے ہاتھوں غلام چھوڑ کر جائیں اور  نسل در نسل  ان کی غلامی کرتی رہیں ـ اگر یہی مقصد ذندگی ہے تو کدھر گیا ھمارا عقیدہّ توحید ؟ کدھر گیا ھماری ناموس رسالت ؟جب ہم سنت رسول پر یقین رکھتے ہیں تو اپنی پیٹ پر پتھر کیوں نہیں بھاند دیتے ـ کس قدر ہم بے حس ہو گیے ہیں  ـ
بقول اقبال کہ”خدا سے مانگ جو کچھ مانگنا ہو اے مفلس
یہی وہ در ہے کہ ذلت نہیں سوال کے بعد”ـ
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
71565

کیا بنے گا پاکستان کا؟  –  تحریر: سید عطاواللہ جان عسکری

کیا بنے گا پاکستان کا ؟  –  تحریر: سید عطاواللہ جان عسکری

ہم ایک ایسے ملک کے باسی کہلاتے ہیں جس کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستا۔ن ہے۔لیکن  اس ملک کی بدقسمتی یہ ہے کہ اج تک ہم اس ملک کو اسلامی جمہوریہ کا لباس نہیں پہنا سکے ہیں۔قیام پاکستان سے  لیکر اج تک جتنے بھی حکمران اس ملک سے گزرے ہیں ان میں سے ماسواۓ قاید اعظمؒ اور بھٹو خاندان کے کسی نے بھی جمہوریت کو اپنا زیر  موضوع نہیں بنایا۔ اج تک کسی پارٹی کے سربراہ نے جمہوریت کے لیے اپنی جان کی قربانی نہیں دی۔کسی نے جمہوری ازادی کے خاطر جیل کی سعبتیں برداشت نہیں کیں۔ اگر کوئی یہ دعوا کرتا کہ جمہرہت کے لیے ان کی قربانیاں موجود ہیں ، سراسر جھوٹ اور بد دیانتی پر مبنی ہیں ـ

قیام پاکستان سے پہلے یہاں ریاستی امراء کا دور تھا۔کوئی وڈیرہ تو کوئی سردار،کوئی نواب تو کوئی چودھری، کوئی خان تو کوئی شہزادہ وغیرہ۔ان لوگوں کے زیر عتاب وہ عام لوگ تھے جن کی جان و مال پر ان مذکورہ لوگوں نے قبضہ کیا ہوا تھا۔جب یہ ملک وجود میں انے لگا تو اس کی بھر پور حمایت بھی ان ہی عام لوگوں نے کیا تھاـ جو اپنے مالکان سے نجات حاصل کرنا چاہتے تھے۔جب تقسیم ہند کا سلسلہ شروع ہوا تو اس وقت  عام لوگوں کی اکثریت پاکستان کو اپنا مسکن سمجھتے ہوۓ اس خطے کی جانب ہجرت کرنا شروع کیے، تو چھوٹے چھوٹے ریاستوں پر اجاراداری قائم رکھنے والے اشرافیوں نے اُن عام لوگوں پر ظلم کی ایک نہ بھولنے والی داستان رقم کئے۔ حقیقت میں یہ اشرافیہ انگریزوں کے مراعات یافتہ لوگ تھے جو پاکستان بننے کے سخت مخالف تھے۔جب بات ان کی بس سے باہر ہونے لگی تو انہوں نے اپنی جاگیروں کی حفاظت کے خاطر نہ چاہتے ہوۓ پاکستان کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوۓ۔بلکہ انہوں نے ایک تیر سے دو شکار کھیلےـ ایک طرف ان کی جاگیر محفوظ رہے تو دوسری طرف وہ اس ملک میں اپنی روایتی حکمرانی  کو برقرار رکھنے کی کوششیں تیز کر دیں ـ رہی بات ان جانصاروں کی جنھوں نے اس ملک کی ازادی کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھاـ اج تک ان ظالموں اور غدارجیسے اشرافیہ کی غلامی میں ان کے لیے چارہ بنی ہوئی ہیں۔ یہ ظالم لوگ اج تک ان غریب لوگوں کو بھڑ بکریاں سمجھتے ہوۓ ان کے خون چوسنے کی روایت کو جاری رکھا ہوا ہے ـ یہی اشرافیہ  اس  ملک کے سیاہ و سفید پر غالب بن بیٹھے ہیں۔

یہ لوگ اج تک ملک کو کھنگال دوالیہ کرنے میں سر فہرست ہیں ـاس ملک سے پیسے چوری کرکے بیرونی ملکوں میں منتقیل کرتے رہے ہیں ۔اس ملک کے غریب عوام کو اپنا غلام بنانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑا ـ خود امریکہ کے غلام رہے اور عام عوام ان کی غلامی میں زندگی گذارنے پر مجبور ہوۓ ـ  ان کو جمہورت سے اس قدر ڈر اور نفرت ہے کہ کہیں غریب اور عام لوگ اس ملک کے زر مبادلہ اور مجموعی امدانی میں اپنا برابر کا حصہ نہ لے جائیں۔ جاگیردار طبقہ عوام کو اپنی کھیتوں پر کام کرنے والا ہاری سمجھنے لگتا ہے ۔سرمایہ دار عوام کو اپنی فیکٹریوں میں کام کرنے والے مزدورں  ہی سمجھ بیٹھے ہیں۔ ملکی وسائل کا 85 فیصد کے بجٹ پر افواج پاکستان قبضہ کر بیٹھا ہےـ باقیہ 15 فیصد کرپشن کا شکار رہا جس سے عوام کو کیا ترقی کرنا تھاـ ہمارے حکمرانوں کے دل و دماغ سے خوف خدا اُٹھ چکی ہے ـ عوام کو بنیادی سہولیات جیسے نظام تعلیم ، صحت ،روڈ، بجلی سے محروم رکھا گیاـ با اثر لوگ خود کو پاکستانی شہری سمجھنے سے پہلے امریکی سٹیزن ہونے کو فوقیت دیتے رہے۔ پاکستانی شہری صرف پاکستان کے غریب عوام کو ہی سمجھنے لگے ہیں۔ اب غریب عوام کے پاس وہی پرانا نعرہ ہے کہ پاکستان کا مطلب کیا ،لا الہ  اللہ۔اس پر بھی مولویوں کا قبضہ ہےـ جس کے ذریعے ملک کے اندر فرقہ واریت کو ہوا دی گئی ـ جس سے دشمن کو فائدہ تو پہنچا۔اندرونی اور ہمسایہ ملک افغانستان میں انھیں خوب استعمال کیا گیا ـکبھی مجاہد تو کبھی انھیں دہشت گرد کے القابات سے پکار گیاـ لیکن اس ملک کے مسلمانوں کو نفاق کے سوا کچھ نہ ملا ـ

اس ملک کے حکمرانوں کے دل پر اس بابرکت کلمے کا کچھ بھی اثر نہ ہواـ  بلکہ اس ملک کے حکمرانوں نے اس ملک کے باسیوں کا خون کا سودا کیاـحکمرانوں کی مختلف صورتیں اس ملک کی دولت کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے رہے اور بیوروکریٹ اس کرپشن میں حکمرانوں کا ساتھ دیتے رہے اور خود بھی کسی سے پیچھے نہ رہےـ جس سے عوام کی غربت میں نہ صرف اضافہ ہوا بلکہ لوگوں میں انارکی، اشتعال انگیزی، چوری، ڈکیتی، اغوا براۓ توان، وغیرہ جیسے برائیاں نیچلے سطح کے لوگوں تک سرائیت کر گئی ـجس سے یہ ہوا کہ اس ملک سے ہر شہری کا اعتبار ختم ہوتا گیا اور  پاکستان کے عام عوام کی رسائی یا وزرت عظمیٰ کی نشست کا خیال یا وہاں تک اپنی اواز پہنچانا  تو دور کی بات ہےـ کیونکہ وہاں مورثیت جڑی اس قدر مضبوط ہو چکی ہیں کہ جن کوعوام کی متحد ہوۓ بغیر نہیں اکھاڑا جاسکتاـجس عوام کو اج تین وقت کی روٹی میاثر نہیں ـ وہ کیا ازادی چھین لے گاـ وہ صبح سے شام تک اپنے اور اپنے بچوں کی پیٹ پالنے کی چکر ادھر اُدھر بھٹکتا رہتا ہےـ ہم نے اس پاک کلمے کی لاج نہیں رکھا ورنہ اس پاک کلمے کی بنیاد پر کھڑی ہونے والی مملکت خداداد اس نہج تک نہ پہننچ جاتی کہ اج ہم دوسروں کے سامنے بھیک مانگنے پر مجبور ہوۓ ہیں ـ جس کی وجہ سے اس ملک سے برکت اُٹھی اور اج ملک کو دیوالہ قرار دئے جانے کا امکان واضح ہونے لگی ہے۔ اس ملک کے ساتھ کھیلوار بہت ہوگیا۔جس کی وجہ سے اب ایک انقلاب برپا ہونےکے راستے ہموار ہونے لگی ہیں جسے بہت پہلے انا چاہئے تھا لیکن دیر کر دی ۔بہرحال دیر ایت درست ایت۔انقلاب لوگوں ذہنوں سے اُٹھتی ہے ایک جموری اور ائینی انقلاب کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔ ورنہ یہ انقلاب ایک خونی انقلاب ہوگی جس کا مقصد تخت یا تختہ ـ کیونکہ 75 سالوں سے یہ لاوا پک رہا تھا ۔اب پوری قوم ایک اتش فشاں کے اوپر کھڑی ہے جو کسی وقت بھی پھٹ سکتی ہے۔جس کے ایک طرف اشرافیہ اپنی وارثین سمیت کھڑی ہیں  جبکہ دوسری جانب پاکستان کے غریب عوام کی اکثریت دنیا کی نظروں میں نظریں ملا کر کھڑی ہےـ جس کے پاس وہی نعرہ کہ
پاکستان کا مطلب کیا لا الہ اللہ کہ جس کے زیر ساۓ  میں قانون کی حکمرانی چلے گی ـپاکستان ذندہ باد

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
71343