Chitral Times

Mar 23, 2023

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

کیا بنے گا پاکستان کا؟  –  تحریر: سید عطاواللہ جان عسکری

شیئر کریں:

کیا بنے گا پاکستان کا ؟  –  تحریر: سید عطاواللہ جان عسکری

ہم ایک ایسے ملک کے باسی کہلاتے ہیں جس کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستا۔ن ہے۔لیکن  اس ملک کی بدقسمتی یہ ہے کہ اج تک ہم اس ملک کو اسلامی جمہوریہ کا لباس نہیں پہنا سکے ہیں۔قیام پاکستان سے  لیکر اج تک جتنے بھی حکمران اس ملک سے گزرے ہیں ان میں سے ماسواۓ قاید اعظمؒ اور بھٹو خاندان کے کسی نے بھی جمہوریت کو اپنا زیر  موضوع نہیں بنایا۔ اج تک کسی پارٹی کے سربراہ نے جمہوریت کے لیے اپنی جان کی قربانی نہیں دی۔کسی نے جمہوری ازادی کے خاطر جیل کی سعبتیں برداشت نہیں کیں۔ اگر کوئی یہ دعوا کرتا کہ جمہرہت کے لیے ان کی قربانیاں موجود ہیں ، سراسر جھوٹ اور بد دیانتی پر مبنی ہیں ـ

قیام پاکستان سے پہلے یہاں ریاستی امراء کا دور تھا۔کوئی وڈیرہ تو کوئی سردار،کوئی نواب تو کوئی چودھری، کوئی خان تو کوئی شہزادہ وغیرہ۔ان لوگوں کے زیر عتاب وہ عام لوگ تھے جن کی جان و مال پر ان مذکورہ لوگوں نے قبضہ کیا ہوا تھا۔جب یہ ملک وجود میں انے لگا تو اس کی بھر پور حمایت بھی ان ہی عام لوگوں نے کیا تھاـ جو اپنے مالکان سے نجات حاصل کرنا چاہتے تھے۔جب تقسیم ہند کا سلسلہ شروع ہوا تو اس وقت  عام لوگوں کی اکثریت پاکستان کو اپنا مسکن سمجھتے ہوۓ اس خطے کی جانب ہجرت کرنا شروع کیے، تو چھوٹے چھوٹے ریاستوں پر اجاراداری قائم رکھنے والے اشرافیوں نے اُن عام لوگوں پر ظلم کی ایک نہ بھولنے والی داستان رقم کئے۔ حقیقت میں یہ اشرافیہ انگریزوں کے مراعات یافتہ لوگ تھے جو پاکستان بننے کے سخت مخالف تھے۔جب بات ان کی بس سے باہر ہونے لگی تو انہوں نے اپنی جاگیروں کی حفاظت کے خاطر نہ چاہتے ہوۓ پاکستان کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوۓ۔بلکہ انہوں نے ایک تیر سے دو شکار کھیلےـ ایک طرف ان کی جاگیر محفوظ رہے تو دوسری طرف وہ اس ملک میں اپنی روایتی حکمرانی  کو برقرار رکھنے کی کوششیں تیز کر دیں ـ رہی بات ان جانصاروں کی جنھوں نے اس ملک کی ازادی کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھاـ اج تک ان ظالموں اور غدارجیسے اشرافیہ کی غلامی میں ان کے لیے چارہ بنی ہوئی ہیں۔ یہ ظالم لوگ اج تک ان غریب لوگوں کو بھڑ بکریاں سمجھتے ہوۓ ان کے خون چوسنے کی روایت کو جاری رکھا ہوا ہے ـ یہی اشرافیہ  اس  ملک کے سیاہ و سفید پر غالب بن بیٹھے ہیں۔

یہ لوگ اج تک ملک کو کھنگال دوالیہ کرنے میں سر فہرست ہیں ـاس ملک سے پیسے چوری کرکے بیرونی ملکوں میں منتقیل کرتے رہے ہیں ۔اس ملک کے غریب عوام کو اپنا غلام بنانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑا ـ خود امریکہ کے غلام رہے اور عام عوام ان کی غلامی میں زندگی گذارنے پر مجبور ہوۓ ـ  ان کو جمہورت سے اس قدر ڈر اور نفرت ہے کہ کہیں غریب اور عام لوگ اس ملک کے زر مبادلہ اور مجموعی امدانی میں اپنا برابر کا حصہ نہ لے جائیں۔ جاگیردار طبقہ عوام کو اپنی کھیتوں پر کام کرنے والا ہاری سمجھنے لگتا ہے ۔سرمایہ دار عوام کو اپنی فیکٹریوں میں کام کرنے والے مزدورں  ہی سمجھ بیٹھے ہیں۔ ملکی وسائل کا 85 فیصد کے بجٹ پر افواج پاکستان قبضہ کر بیٹھا ہےـ باقیہ 15 فیصد کرپشن کا شکار رہا جس سے عوام کو کیا ترقی کرنا تھاـ ہمارے حکمرانوں کے دل و دماغ سے خوف خدا اُٹھ چکی ہے ـ عوام کو بنیادی سہولیات جیسے نظام تعلیم ، صحت ،روڈ، بجلی سے محروم رکھا گیاـ با اثر لوگ خود کو پاکستانی شہری سمجھنے سے پہلے امریکی سٹیزن ہونے کو فوقیت دیتے رہے۔ پاکستانی شہری صرف پاکستان کے غریب عوام کو ہی سمجھنے لگے ہیں۔ اب غریب عوام کے پاس وہی پرانا نعرہ ہے کہ پاکستان کا مطلب کیا ،لا الہ  اللہ۔اس پر بھی مولویوں کا قبضہ ہےـ جس کے ذریعے ملک کے اندر فرقہ واریت کو ہوا دی گئی ـ جس سے دشمن کو فائدہ تو پہنچا۔اندرونی اور ہمسایہ ملک افغانستان میں انھیں خوب استعمال کیا گیا ـکبھی مجاہد تو کبھی انھیں دہشت گرد کے القابات سے پکار گیاـ لیکن اس ملک کے مسلمانوں کو نفاق کے سوا کچھ نہ ملا ـ

اس ملک کے حکمرانوں کے دل پر اس بابرکت کلمے کا کچھ بھی اثر نہ ہواـ  بلکہ اس ملک کے حکمرانوں نے اس ملک کے باسیوں کا خون کا سودا کیاـحکمرانوں کی مختلف صورتیں اس ملک کی دولت کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے رہے اور بیوروکریٹ اس کرپشن میں حکمرانوں کا ساتھ دیتے رہے اور خود بھی کسی سے پیچھے نہ رہےـ جس سے عوام کی غربت میں نہ صرف اضافہ ہوا بلکہ لوگوں میں انارکی، اشتعال انگیزی، چوری، ڈکیتی، اغوا براۓ توان، وغیرہ جیسے برائیاں نیچلے سطح کے لوگوں تک سرائیت کر گئی ـجس سے یہ ہوا کہ اس ملک سے ہر شہری کا اعتبار ختم ہوتا گیا اور  پاکستان کے عام عوام کی رسائی یا وزرت عظمیٰ کی نشست کا خیال یا وہاں تک اپنی اواز پہنچانا  تو دور کی بات ہےـ کیونکہ وہاں مورثیت جڑی اس قدر مضبوط ہو چکی ہیں کہ جن کوعوام کی متحد ہوۓ بغیر نہیں اکھاڑا جاسکتاـجس عوام کو اج تین وقت کی روٹی میاثر نہیں ـ وہ کیا ازادی چھین لے گاـ وہ صبح سے شام تک اپنے اور اپنے بچوں کی پیٹ پالنے کی چکر ادھر اُدھر بھٹکتا رہتا ہےـ ہم نے اس پاک کلمے کی لاج نہیں رکھا ورنہ اس پاک کلمے کی بنیاد پر کھڑی ہونے والی مملکت خداداد اس نہج تک نہ پہننچ جاتی کہ اج ہم دوسروں کے سامنے بھیک مانگنے پر مجبور ہوۓ ہیں ـ جس کی وجہ سے اس ملک سے برکت اُٹھی اور اج ملک کو دیوالہ قرار دئے جانے کا امکان واضح ہونے لگی ہے۔ اس ملک کے ساتھ کھیلوار بہت ہوگیا۔جس کی وجہ سے اب ایک انقلاب برپا ہونےکے راستے ہموار ہونے لگی ہیں جسے بہت پہلے انا چاہئے تھا لیکن دیر کر دی ۔بہرحال دیر ایت درست ایت۔انقلاب لوگوں ذہنوں سے اُٹھتی ہے ایک جموری اور ائینی انقلاب کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔ ورنہ یہ انقلاب ایک خونی انقلاب ہوگی جس کا مقصد تخت یا تختہ ـ کیونکہ 75 سالوں سے یہ لاوا پک رہا تھا ۔اب پوری قوم ایک اتش فشاں کے اوپر کھڑی ہے جو کسی وقت بھی پھٹ سکتی ہے۔جس کے ایک طرف اشرافیہ اپنی وارثین سمیت کھڑی ہیں  جبکہ دوسری جانب پاکستان کے غریب عوام کی اکثریت دنیا کی نظروں میں نظریں ملا کر کھڑی ہےـ جس کے پاس وہی نعرہ کہ
پاکستان کا مطلب کیا لا الہ اللہ کہ جس کے زیر ساۓ  میں قانون کی حکمرانی چلے گی ـپاکستان ذندہ باد


شیئر کریں: