Chitral Times

Apr 24, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

کیا بنے گا پاکستان کا – تحریر : عطاواللہ جان عسکری ـ قسط نمبر 3

شیئر کریں:

کیا بنے گا پاکستان کا – تحریر : عطاواللہ جان عسکری ـ قسط نمبر 3

اج کی موضوع کو بچپن کی ایک کہانی سے شروع کیا
جاتا ہے ـ جس کا عنوان جھوٹ کےانجام سے ہےـ

کہانی کا کردار ایک جھوٹ بولنے والا چرواہے کے گرد گھومتی ـ جس میں چرواہا چراگاہ سے اونچی اواز میں گاؤں والوں کو مدد کے لیے پکارتا ہے کہ بھیڑیا مال مویشیوں پر حملہ کر چکا ہے مدد کے لیے پہنچ جاؤ۔ گاؤں والے تیزی کے ساتھ چرواہے کے پاس پہنچ جاتے ہیں تو معلام ہوا کہ چرواہا نے جھوٹ بولا ہےـ چند دنوں بعد چروہا پھر اونچی اواز میں شور مچاتا ہے کہ بھیڑیا جانوروں پر حملہ کر چکا ہے کوئی ہے ، مدد کے لیے جلدی پہنچ جاؤ ـ گاؤں کے لوگ بھاگتے بھاگتےمدد کو پہنچ جاتے ہیں لیکن پتہ چلا کہ چرواہا نے دوسری مرتبہ بھی جھوٹ بولا ہےـ چند دن گذرے تھے کہ سچ مچ بھیڑیا مال مویشیوں پر اچانک حملہ کردیتا ہے اور چرواہا اُنچی اواز میں گاؤں والوں کو پکارنے لگانے لگا لیکن گاؤں والے چرواہے کی اواز پر کوئی دھیان نہیں دیتے ـ یوں اس بار سچ مچ بھیڑیا حملہ بھی کر چکا تھا اور چرواہا سمیت بہت سے مال مویشوں کو ہلاک بھی کر چکے تھے ـ

بالکل اسی طرح ہمارے ملک کے حالات ہیں ـ ہر انے والے حکمرانوں کی زبانی یہ سنتے سنتے ہمارے کان بھی پک چکے تھے کہ ملک ایک نازک دور سے گذر رہی ہےـ لیکن اج کے حالات کو دیکھ کر یقین ہونے لگا ہے ک واقعی اب ملک ایک انتہائی نازک دور سے گذر رہی ہے ـ ملک کے اندر سیاسی عدم استحکام کے علاوہ معیشت کا برا حال ہے ـ مہنگائی ، بے روزگاری میں اضافہ ہورہا ہے ـ اداروں کے درمیان ایک زبردست قسم کی ٹکراؤ پایا جاتا ہے ـ ملک دوالیہ ہو چکا ہے ـ کوئی بھی ملک قرضہ دینے کے لیے تیار نہیں ، ملک کے دو اسمبلیاں ٹوٹ چکی ہیں ـ لیکن 90 دنوں کے اندر انتخابات کا کرانے کا ائینی معاملہ عدالت اور الیکشن کمیشن کے درمیان اٹکی ہوئی ہے ـ جیل بھرو اور ائین بچاؤ کی تحریک چلنے والی ہے ، دہشت گردی پھر سے سر اُٹھانے لگی ہے وغیرہ وغیرہ ـ

کیا پچھتر سالوں کے بعد ان تمام وجوہات اور نا اہلیوں کا سبب ہم عام عوام ہیں؟ ؟ نہیں ، بلکہ ہم عوام اس کے ذمہ دار بلکل بھی نہیں ہیں ـ وہ اس لیے کہ ہم ابھی تک ایران، ایراق، یا افغان قوم کی طرح خود کو ایک ازاد قوم نہیں کہہ سکتے ہیں ،اور نہ ہی ہم ایک ازاد قوم کی طرح ذندگی بسر کرتے ہیں ـ اس ملک کے باسیوں کے ساتھ ابھی تک جو کچھ بھی ہوا ہے ایسے رویے قوموں کے ساتھ نہیں ہوا کرتی بلکہ ایک ہجوم کے ساتھ یہ رویہ اختیار کی جاتی ہے جس میں ایک طاقت ور طبقہ ڈنڈے اور بندوق کی نوک پر ہجوم کو اپنے قابو میں رکھنے کی کوشش کرتا ہے ـ اس لیے ہم ایک قوم نہیں بلکہ ایک ہجوم ہیں ۔ ہمارے ملک میں دستور کا دہرا معیار ہے ـ کمزور کے لیے الگ اور طاقتور کے لیے الگ نظام موجود ہے ـ ہمارے اوپر بہت سے پاندیاں ہیں ـ ہم اپنی اسلامی جمہوریہ میں جمہوری انداز میں ووٹ ڈالنے کی کوشش تو کرتے ہیں اور نمائندہ بھی منتخب کرلیتے ہیں ـ لیکن وہ بے اختیار ہیں اور مدت پوری کیے بغیر ایک ڈیکٹیٹر کی جانب سے انھیں برخواست کیا جاتا ہے اور یوں اب تک اکثرو بیشتر صرف ایک شخص22 کروڑ عوام کی منڈیٹ کے ساتھ کھیلتا رہا ہے ـاس تباہی کا ذمہ دار وہ حکمران طبقہ ہے جس کی شکل و صورت

جیسی بھی ہو ـ جو غیر ملکی حکومتوں
کے غلام ہیں ـ جس کی وجہ سے پاکستان کے غریب عوام ایک قوم ہونے کے بجاۓ غلاموں کے غلام بن کر بیٹھے ہیں ـ
بقول محمد نادر خان المعروف چار ویلو خان چترال کے کہوار شاعر کہتے ہیں کہ
” اوا جمعہ خانو نوکر جمعہ خان بابوو نوکر شا چرا بندی
مہ ہردی شیشو غون کی اوچھیتاۓ اے برارگینیان نو بوۓ پوندی
ترجمہ؛ میں جمعہ خان کا نوکر ہوں اور جمعہ خان خود بابو کا نوکر ہے ـ جس کی وجہ سے میری حالت ایک قیدی جیسی ہے۔
میرا دل شیشے کی مانند ہے گر ٹوٹ جاۓ تو پھر پیوند کاری نہیں کی جا سکتی ـ
یہی حال پاکستانی عوام کا ہے کہ ہم غلاموں کی غلامی کرتے کرتے دل شیشے کی مانند ٹوٹ کر چُور چُور ہوچکا ہے ـ

اس ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔لیکن اب
تک اسلامی اقدار کے مطابق حکومت نظر اتی، اور نہ ہی مکمل جمہوری قرار پایاہے ـ اسلام امن و سلامتی کا پیغام ہے ۔ لیکن اس ملک میں اب تک کسی اقلیت کی اور نہ کسی مسلمان کی جان محفوظ ہے۔ نہ دین کی باتیں کرنے والوں کی جان بخشی ہے ـ اور نہ ہی ازادی کی تشریح کرنے والوں کو امن و امان نصیب ہوا ہے ـ نہ یہاں پر ملاوٹ سے پاک چیزیں دستیاب ہوئیں اور نہی میرٹ پر کسی کے حقوق محفوظ ہیں ـ جس طرف بھی نظر دوڑائی جاۓ بدعنوانی ،کرپشن، مہنگائی، لُٹ مار ، قتل و غارت نظر اتی ہے ـ انصاف ، نام کی کوئی چیز نہیں ـ اس ملک میں جس کی لاٹھی اُس کی بھنس والی بات چلتی رہی ہے۔ یہاں پر کو ئی ازاد نہیں۔ اس ملک کے اندر سچ بولنے والوں کے لیے سزا مقرر ہے ـ

صحافت ازاد نہیں ـ جب بھی صحافی اپنے پیشے کے ساتھ مخلص رہا اور اپنی پیشے کا حق ادا کیا تو سچ بولنے کی پاداش میں اُسے حراسان کیا جاتا رہا ـ انھیں ٹارچر کی گئی اور کسی کو جیل میں ڈالا گیا ـ بعض کو موت کے گھاٹ اتار دیے گئے ہیں ـ
اب بات قابو سے باہر ہوچکی ہے ، عوام امریکہ اور اس کے حواریوں سے ازادی حاصل کرنا چاہتی ہے ـ تاکہ ہم خود کو ایک قوم بنا سکیں اور اپنی پاؤں پر خود کھڑی ہو سکیں ـ لوگ اسی جذبے کے ساتھ اس دلدل سے نکلنا تو چاہتے ہیں

لیکن مجبوری یہ ہے کہ عوام پر مسلط کی گئی حکمران ، خود مسلط کرنے والوں کے مقروض ہیں ـ وہ اس ملک کے نام پر ڈالرز لیتے رہے جوکرپشن کی نظر ہوئی ہے ـ ان رقوم حاصل کرنے کے لیے عوام اور اس ملک کے اثاثوں کو گیروی رکھا گیا، ڈالرز لیے گیے ،اور پھر ان ڈالروں کو اپنے نام پر باہر کے ملکوں میں منتقیل کیا گیا ـ ان حکمرانوں نے اس قوم سمیت ملک کو بھیج چکے ہیں ـ

غلام قوم ہونے کی دوسری صورت یہ ہے کہ اگر چہ ہمارے ملک میں تیل کی ذاخائیر موجود ہیں لیکن ہم امریکہ کی اجازت کے بغیر تیل نہیں نکال سکتے ـ ہم اپنی پڑوسی ملک ایران سے گیس نہیں خرید سکتے ہیں ـ کیونکہ اس سے امریکہ ناراض ہوجاتا ہےـ دوائی ہم خود نہیں بناسکتے ہیں ـ کیونکہ ہم کیمیکل باہر سے منگواتے ہیں ـ ہم اپنی ملک کے لیے پالیسیاں نہیں بناسکتے ہیں ـ کیونکہ امریکہ اور ائی ایم ایف ہمیں پالیسیاں بنا کر دیتی ہیں ـ

ان تمام مسائل سے نجات حاصل کرنے کے لیے اگر دو تہائی کی اکثریت سے جیتنے والی جماعت ایک ازاد اور شفاف الیکشن کی صورت میں نہیں جیت جاتی اور ایک جامع اور مضبوط حکمت عملی کے مطابق ہر ایک کو احتساب کے عمل سے نہیں گذارتے ، تب تک یہ ملک اپنی دروست سمت کا تعین نہیں کر سکتا ہےـ یہ اس وقت ممکن ہوسکتا جب فوج اپنی کھوئی ہوئی ساگھ کو دوبارہ بحال رکھنے کے لیے اُن تمام کرپٹ عناصر کو با زور شمشیر احتساب کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کے لیے عدالتوں کے لیے معاونت کرے ـ بصورت دیگر یہ چند مافیا قسم کے اداروں میں موجود لوگ اس ملک کی باقی ماندہ اثاثے بھی بیھج ڈالیں گے ـ یہ مافیا لوگ ایٹمی اثاثوں کے علاوہ کشمیر کا سودہ کر نے سے بھی دریغ نہیں کریں گے ـ یہ اخری موقع ہے اس ملک کو ڈوبنے سے بچانے کا ، ورنہ کرپشن کی اس اندوناک روایت کو ختم کرنے میں بہت دیر ہو جاۓ گی ـ

اب وقت اگیا ہے کہ طاقت ور ادارے پھر سے اپنی عزت کو بحال رکھتے ہوۓ اس جھوٹی مصلیحت پر کھڑی عمارت کو گرادے ـ ملک میں ائین کے تحت نوے روز میں انتخابات کراۓ اور اسے طول دینے کی کوشش سے باز رہے، اور ایک نئی صبح اور ایک نئی شام کے ساتھ از سرنو اس ملک کی تعمیرو ترقی کا اغاز کردیا جاۓ ـ تا کہ سانپ بھی مرے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے ـ


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
71856