
ملک کو ائینی بحران کا خطرہ – تحریر: سید عطاواللہ جان عسکری
کیا بنے گا پاکستان کا
تحریر: سید عطاواللہ جان عسکری
ملک کو ائینی بحران کا خطرہ
قسط نمبر٩
یہ پہلی دفعہ ہوا ہے کہ پاکستان کے تمام بڑ ے ادارے ایک دوسرے کے ساتھ متصادم ہیں ـ اس میں تیزی اس وقت ائی جب ملک کے اندر دو صوبوں یعنی خیبر پختونخواہ اور پنجاب اسمبلیاں تحلیل ہوۓ ـ یہ تنازعہ ٩٠ دنوں کے اندر الیکشن کرانے یا نہ کرانے کی وجہ سے پیدا ہو ئی ہے ـ حکمران جماعت کے علاوہ الیکشن کمشن، صوبائی گورنرز اور صدر مملکت کے مابین نوے روز کے اندر الیکشن کرانے یا نہ کرانے کا معاملہ ایک گھمبیر صورت حال میں داخل ہو چکی ہے ـ٩٠ دن میں سے غالباً ایک مہینہ سے زیادہ کا عرصہ گذر چکا ہے ـ جس کی وجہ سے سپریم کورٹ سوموٹو نوٹس لے کر معاملے کو ائین اور قانون کے مطابق سلجھانے کی کوشش کی ہے ـ لیکن سیاست دانوں کے علاوہ طاقت ور حلقوں اور الیکشن کمیشن اس بات پر اپنی تحفظات کا اظہار کرتے ہوۓ مختلف طریقوں سے آئین کی تشریح کرنے میں لگے ہوۓ ہیں کہ کسی صورت یہ الیکشن نہ ہونے پاۓ ـ پاکستانی عوام کی اکثریت ٩٠ دن کے اندر انتخابات کرانے کے معاملےکو ائینی قرار دے کر اپنی موقف پر ڈٹی ہوئی ہے ـ جبکہ مسلیم لیگ کےرہنما مریم نواز اب پہلے احتساب پھر انتخابات کا نعرہ بلند کی ہوئی ہے ـ جو کسی زمانے میں ضیاءالحق یہ نعرہ دیا کرتا تھا ـ ضیاء نے اس نعرے کی اڑ میں کئی دہائیوں تک اس ملک پر حکمرانی کی ـ لیکن انھوں نے ماسواۓ بھٹو قتل کے کسی ایک کا بھی احتساب نہ کر پایا ـ اج پھر اس نعرے کے سہارے مریم بی بی یہ تاثر دینے کی کوشش کررہی ہیں کہ ان کے باب نواز شریف کو کیوں نکالا گیا ـ
دیکھا جاۓ توپاکستان کی موجودہ حالات پاکستانی کی تاریخ کا ایک بڑا المیہ ہے ـ جس میں نہ اسٹبلشمنٹ اور نہ ہی سیاست دانوں میں اپس میں مل بیٹھ کر حالات کو معمول پر لانے کی جستجو ہے ـ نہ بروکریٹس اور الیکشن کمیشن اس معاملے کو ہنڈل کرنے کی پوزیشن میں ہیں ـ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ تمام ادارے قیام پاکستان سے لیکر اب تک اپنی ناقص پالیسیوں کے سبب سے عوام کی نظروں میں اپنی ساگھ کھو بیٹھے ہیں ـ صدر پاکستان کی جانب سے الیکشن کمیشن کو ٩٠ روز کے اندر الیکشن کرانے کے حکم کو بھی سردخانے میں ڈال دیا گیا ہے ـ بالاخر سپریم کورٹ کو اس قومی اور ائینی معاملے پر سوموٹو لینا ہی پڑا ـ لیکن اس معاملے میں نہ صرف پی ڈی ایم کی حکومت سپریم کورٹ کی اس اقدام پر سوال اٹھانا شروع کیا بلکہ عدالت میں بھی اس امر کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے ـ کیونکہ اس مرتبہ اگر سپریم کورٹ کے جج کو متنازعہ بناکر پہلے ججوں کی طرح گھر بھیج دیاجاۓ تو اس کی بحالی کی تحریک میں کوئی جان باقی نہیں رہ جاۓ گی ـ یہی نہیں بلکہ سیاست دانوں نے اب تو بڑی شدو مد کے ساتھ اس ضرورت کو محسوس کرنے لگے ہیں کہ وہ نظریہ ضرورت کے تحت پارلیمنٹ اور سینٹ سے ایک قانون سازی کی بل پاس کرایا جاسکے ـ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے بڑی عجلت میں یہ بل منظور کرانے میں بظاہر کامیابی حاصل کی ہیں ـ جس کا مقصد ہی سپریم کورٹ کی جج کی جانب سے سو مو ٹو لینے کی اختیارات کو دوسرے ججز کے ساتھ مشروط قرار دے کر فرد واحد کی سوموٹو کو بے توقیر بنایا جاۓ ـ تاکہ کسی طرح فلحال الیکشن سے راہ فرار اختیار کیا جاسکے ـ ان کا دعوا ہے کہ اس کیس میں سوموٹو لینے کی گنجائش موجود نہیں ـ یعنی سپریم کورٹ کے جج صاحبان بھی اپس میں اُلجھے ہوۓ ہیں ـ لندن میں بیٹھے مسلم لیگ ن کے نواز شریف اور کے حواریوں کا کہنا ہے کہ ایک لارجر بنج تشکیل دیا جاۓ جس میں سپریم کورٹ کے تمام ججز شامل ہوں ـ
سپریم کورٹ کے اندر دوسرے معزز ججز کو سیاسی جماعتیں خود سے وابسطہ قرار دے کر حسب روایت ان سے اپنی مرضی کے فیصلوں کی امید لے کر بیٹھے ہوۓ ہیں ـ سپریم کورٹ کی نو رکنی بنج کی تشکیل دینے کے بعد ان لوگوں کی جانب سے شروع کے دو ججز پر مسلسل دباؤ ڈالا گیا ـ جس کی وجہ سے نو رکنی بینج سکڑتے ہوۓ اب تین ججز پر مشمل رہ گئی ہے ـ اب سوموار کو تین رکنی بینج اس کیس کی سماعت کرے گی ـ پوری قوم سپرہم کورٹ کے ساتھ کھڑے رہنے کا اندیہ دے چکی ہے ـ اس حوالے سے کل 3 اپریل یعنی سماعت کے روز وکلاء اور سول سوسائیٹی کے لوگ شاہراہ دستور پر جمع ہو کر سپریم کی جج کے ازادانہ فیصلے کی حمایت میں موجود رہیں گے ـ یہ تین رکنی بینج سپریم کورٹ کی نمائیندگی کرتے ہوۓ اتخابات کرانے سے متعلق فیصلہ کرے گی کہ ایا ائین کے تحت اسمبلیاں ٹوٹ جانے کے بعد نوے روز کے اندر انتخابات ہونا چاہیے یا نہیں ـ ائین کے تحت نوے روز کے اندر انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے ـ پی ٹی ائی کے چیرمین عمران خان کا یہ دعوا ہے کہ الیکشن ہونے کی صورت میں پی ڈی ایم کو بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ـ اس لیے وہ الیکشن سے بھاگ رہی ہے ـ
دوسری طرف مسلم لیگ ن کی جماعت چاہتی ہے کہ ججز کا انتخاب ان کی مرضی کے مطابق ہو ـ یعنی حسب روایت وہ معزز ججز کو اپنے دباؤ میں رکھنا چاہتی ہے ، جو وہ پہلے کی طرح اج بھی خود کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں ،جو اُن کے سابقہ ریکارڈ کا حصہ ہے ۔ اسی قسم کے بینج سابقہ ادوار میں بھی فیصلہ دے چکے ہیں لیکن اُس وقت سیاست دانوں کو اس میں ترمیم کرنے کی ضرورت کیوں پیش نہیں ائی تھی ـ اب کیا ہوگیا ہے کہ فل کورٹ بنانے کی ضرورت پیش ائی ہے ـ لہذا اب کی بار فل بینج کی تمہید باندھنا اور وہ بھی اتنی عجلت میں ، بدنیتی پر مبنی ہے ـ اگر چہ فل کورٹ کی قیام کا مسلہ سپریم کورٹ کی اندرونی، اصولی ، اور قانونی معاملہ ہے ـ اس معاملے کو کسی بیرونی قوتوں کی جانب سے ملنے والی ڈیکٹیشن کے مطابق عمل میں نہیں لائی جاسکتی ہے ـ وہ بھی ایک ایسے وقت میں جہاں ملک کے تمام ائینی ادارے ایک دوسرے کے ساتھ متصادم ہیں ـ ہماری دعا ہے کہ سیاست دان ان مسائل کو حل کرنے میں انھیں مل بیٹھنے کی توفیق نصیب ہو ـ آمین ـ