Chitral Times

گلگت بلتستان: وفاداری کے بدلے میں انصاف کی ضرورت – خاطرات: امیرجان حقانی

Posted on

گلگت بلتستان: وفاداری کے بدلے میں انصاف کی ضرورت – خاطرات: امیرجان حقانی

 

گلگت بلتستان کے لوگوں کے لیے ایک اہم سوال یہ ہے کہ ان کا وطن کہاں ہے؟ اگرچہ وہ خود کو پاکستان کا حصہ تصور کرتے ہیں اور پاکستان کے ساتھ اپنی وابستگی اور محبت کا اظہار کرتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ گلگت بلتستان ان کا اصل وطن ہے۔ یہ وہ سرزمین ہے جہاں وہ پیدا ہوئے، پلے بڑھے، اور جہاں ان کے آباواجداد کی قبریں ہیں۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں کی مٹی، دریا، پہاڑ اور ہوائیں ان کی شناخت کا حصہ ہیں۔گلگت اور بلتستان کے لوگوں کا ہزاروں سال سے اپنی وطن مالوف کیساتھ گہرا تعلق اور جذباتی وابستگی ہے۔اور یہ وابستگی کسی مفاد یا معاہدہ کا مرہون منت نہیں، یہ مکمل فطری ہے۔

 

پاکستان کی ریاست سے ان کا تعلق ایک مفاداتی تعلق ہے، یہ تعلق ریاست پاکستان کے وجود ممیں آنے کے بعد بنا ہے۔ پاکستان ایک قومی ریاست ہے جس کا وجود 1947 کو ممکن ہوا ہے۔اور گلگت بلتستان کا پاکستان کے ساتھ ساتھ تعلق نومبر 1947 اور اگست 1948 کو کچھ امیدوں، مفادات اور ھمدردی اور دینی جذبے کی بنیاد پر قائم ہوا ہے۔

 

قومی ریاستوں کے ساتھ ان کے شہریوں اور یونٹس کا تعلق آئینی معاہدہ کے تحت طے پاتا ہے۔ اس معاہدے کے تحت ریاست اپنے شہریوں کے حقوق تسلیم کرتی ہے، اور بدلے میں شہری اپنی کچھ آزادیاں اور وفاداریاں ریاست کے ساتھ جوڑتے ہیں۔ تاہم، گلگت بلتستان کی ایک منفرد حیثیت ہے، کیونکہ وہ اب تک پاکستان کے آئینی ڈھانچے میں شامل نہیں ہے۔ یہ ایک معاہدہ کی غیر موجودگی کا نتیجہ ہے، جو گلگت بلتستان کے لوگوں کو تحریری حقوق سے محروم رکھتا ہے اور ان کی وفاداریوں کو تسلیم کرنے میں تاخیر کا باعث بنتا ہے۔ گلگت بلتستان کا پاکستان کے آئینی ڈھانچے میں شامل نہ ہونے کی کچھ وجوہات بین الاقوامی ہیں، کچھ انڈیا کی ہٹ دھڑمی ہے اور کچھ اپنوں کی بے رعنائیاں ہیں۔

 

اس صورتحال میں، یہ ریاست پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ گلگت بلتستان کے عوام کے دلوں کو جیتے اور ان کی خدمات اور قربانیوں کا اعتراف کرے۔ صرف وفاداری اور قربانیوں کی توقع کرنا اور بدلے میں لولی پاپ دینا ناانصافی ہے۔ گلگت بلتستان کے لوگ پاکستان کے لیے جانیں قربان کرتے ہیں، لیکن ان کے بدلے میں ان کے حقوق کی عدم تسلیم، ان کی قربانیوں کو بے وقعت بناتا ہے۔

 

ریاست پاکستان کو اس معاملے کو سنجیدگی سے لینا ہوگا اور گلگت بلتستان کے لوگوں کو وہ سہولیات اور مراعات فراہم کرنی ہوں گی جو وہ مستحق ہیں۔ یہ نہ صرف ان کے حقوق کا اعتراف ہوگا بلکہ ان کی وفاداریوں کا صحیح معنوں میں اعتراف بھی ہوگا۔ پاکستان کے ساتھ گلگت بلتستان کا تعلق مضبوط تر تبھی ہوسکتا ہے جب ریاست اپنے شہریوں کی فلاح و بہبود کو اولین ترجیح دے اور ان کے جذباتی تعلقات کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کی ضروریات کا خیال رکھے۔

 

گلگت بلتستان کے لوگوں کی دلجوئی اور ان کی فلاح و بہبود کے لیے ضروری ہے کہ ان کو قانونی، آئینی اور عملی طور پر پاکستان کے شہری کے طور پر تسلیم کیا جائے۔ یہ ایک نہایت اہم اقدام ہوگا جو نہ صرف گلگت بلتستان کے لوگوں کو ان کا حق دلائے گا بلکہ ریاست پاکستان کی ساکھ کو بھی مستحکم کرے گا۔ اگر سردست ایسا کرنا ناممکن ہے تو بہترین سہولیات اور گڈ گورننس اور گلگت بلتستان کے لوگوں کی معیار زندگی بہتر بنانے میں تو انڈیا یا بین الاقوامی طاقتیں رکاوٹ نہیں، لہذا اس پر فوکس کیا جائے۔

 

یہ وقت ہے کہ ریاست پاکستان گلگت بلتستان کے عوام کے ساتھ اپنے تعلقات کو از سر نو دیکھے اور ان کو وہ مقام دے جو وہ حق رکھتے ہیں۔ صرف زبانی وفاداریوں کی توقع رکھنا اور ان کی خدمات کو نظرانداز کرنا ایک ایسی ناانصافی ہے جو ریاست کی ساکھ اور گلگت بلتستان کے عوام کی عزت نفس کو مجروح کرتی ہے۔ اس کے لیے فوری طور پر عملی اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ دونوں طرف سے ایک مضبوط اور پائیدار رشتہ قائم ہو سکے۔

 

 

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
92247

گلگت بلتستان سے باہر گندم اور اس سے بننے والی مصنوعات کی ترسیل پر مکمل پابندی عائد کر دی

حکومت گلگت بلتستان نے صوبے سے باہر گندم اور اس سے بننے والی مصنوعات کی ترسیل پر مکمل پابندی عائد کر دی

گلگت(چترال ٹایمزرپورٹ )  حکومت گلگت بلتستان نے صوبے سے باہر گندم اور اس سے بننے والی مصنوعات کی ترسیل پر مکمل پابندی عائد کر دی ہے۔ اس اقدام کا مقصد گلگت بلتستان کے عوام کو سبسڈی کی مد میں فراہم کئے جانیوالے گندم کی شفاف تقسیم یقینی بنانا اور سمگلنگ کے ذریعے گندم کا بحران پیدا کرنیوالے عناصر کے خلاف قانونی کاروائی عمل میں لانا ہے۔
گلگت بلتستان سے باہر گندم کی غیر قانونی ترسیل روکنے کیلئے داخلی و خارجی راستوں بشمول تھور، بابوسر اور غذر میں واقع چیک پوسٹس پر پولیس اہلکاروں کو گندم کی غیر قانونی اسمگلنگ کرنے والوں کے خلاف گرینڈ آپریشن کی تیاری کیلئے ناکہ بندی و چیکنگ کیلئے جامع حکمت عملی بنانے کیلئے محکمہ پولیس کو ہدایات جاری کی گئی ہیں اور سمگلنگ میں ملوث عناصر کے خلاف قانون کے مطابق سخت تادیبی کاروائی عمل میں لانے کیلئے محکمہ خوراک کو ضلعی انتظامیہ اور پولیس کے اشتراک سے کریک ڈاون کرنے کا حکم جاری کر دیا گیا ہے۔
سیکریٹری خوارک کو ٹارگٹڈ سبسڈی اور گندم کی منصفانہ تقسیم کیلئے جامع سفارشات تیار کرنے کے بھی احکامات جاری کر دئیے گئے ہیں۔
صوبائی حکومت نے عوام سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ گندم کی غیر قانونی ترسیل اور ذخیرہ اندوزی میں شامل عناصر کی نشاندہی کریں اور حکومت کو بروقت مطلع کردیں تاکہ گلگت بلتستان میں گندم کا بحران درپیش نہ ہو۔ سیکریری سبسڈی کی مد میں فراہم کئے جانیوالے گندم کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنایا جا سکے۔

chitraltimes GB notification for ban on transportation of wheat

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, مضامینTagged ,
79014

گلگت بلتستان؛  پچھتر سال کی ترقی دو سال میں -شاہ عالم علیمی 

Posted on

گلگت بلتستان؛  پچھتر سال کی ترقی دو سال میں . شاہ عالم علیمی

فرماتے ہیں کہ پچھتر سال میں جو ترقی ہوئی تھی وہ ہمارے دو سال میں ہوگئی ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ گلگت بلتستان کے لوگ بھوک سے مرنے لگے،  گندم کے دانے دانے کو ترسنے لگے ہیں اور کسی اشیاء ضروریہ کا کیا مذکور۔
دوسری طرف ڈپارٹمنٹل ٹیسٹ کے نام پر نوکریوں کی بندر بانٹ چند بااثر لوگوں کی من مانی سے اسی طرح جاری ہے۔ آج کے ڈیجٹیل دور میں ہارڈ کاپی پر فارم جاری کیے جاتے ہیں،  غریب نوجوانوں سے فیس کے نام پر پیسے لیے جاتے ہیں،  پھر ان کو یا تو ٹیسٹ کے لیے سرے سے بلایا ہی نہیں جاتا یا ٹیسٹ کے بعد انٹرویوز میں ان کا حق مارا جاتا ہے اور حق دار کے کوٹے پر بھی رشوت خوروں اور سفارشی لوگوں کو لگوایا جاتا ہے۔
ان میں اور مہدی شاہ اور حفیظ الرحمان کے دور میں کیا فرق ہے؟  کوئی فرق نہیں ہے۔ یہ سب لوگ اپنے غیرمقامی باسز کے لیے کام کرتے ہیں۔ ان کے اشارے پر چل رہے ہیں۔
ان کا ذہنی لیول سبھی کا ایک جیسا ہے۔ یہ لوگ ایشیاء کے سب سے غریب خطے کے انتہائی غریب ناچار اور بےدست لوگوں پر بوجھ ہیں۔ یہ ان کی رہنمائی کے قابل نہیں ہیں۔
ان کا بیوروکریسی پر کنٹرول نہ ہونے کے برابر ہے۔ بیوروکریسی جو چاییے کرتی ہے۔ نوکری بانٹے اور پیکیچ یا ٹینڈر اور ٹھیکہ۔ جبکہ یہ لوگ اپنے زاتی مفادات کے پیچھے ہیں،  جہاں ان کا حصہ مل گیا تو ٹھیک بصورت ديگر ایک دوسرے پر الزام تراشی کرکے اپنا الو سیدھا کرتے ہیں۔
سیاست اصول اور زمینی حقائق پر ہوتی ہے ورنہ وہ سیاست نہیں بلکہ فاشزم کہلاتا ہے۔ فاشزم یہ ہے کہ چند لوگ اپنی ذہنی اختراعات عوام پر تھوپے اور ان کا حق مارے۔
اصول کیا ہے؟
بات جب گلگت بلتستان کی ہوتی ہے تو پھر اصول کو دیکھنے کے لئے زمینی حقائق کو دیکھنا بہت ضروری ہوجاتا ہے۔
زمینی حقائق کیا ہیں؟
زمینی حقائق یہ ہیں کہ گلگت بلتستان پاکستان کا حصہ نہیں ہے۔ گلگت بلتستان ریاست کشمیر کے مسلے کا ایک فریق اور حصہ ہے۔ ریاست کے باشندوں کی مرضی کے بیغیر نہ تو کوئی گلگت بلتستان کو کسی ملک کا حصہ بنا سکتا ہے اور نہ ہی ان کے حقوق پر ڈاکہ ڈال سکتا ہے۔ جب تک ریاست کا مسلہ حل نہیں ہوتا گلگت بلتستان اور اس کے شہریوں کے حقوق کی فراہمی اور ان کی حفاظت  1949ء کے کراچی میں ہوئے معاہدے کے تحت ریاست پاکستان کی زمہ داری ہے۔
آج حالت یہ ہے کہ گلگت بلتستان کو انسانی اور سیاسی حقوق تو درکنار بنیادی اشیاء ضروریہ بمثل گندم وغیرہ کی فراہمی پاکستانی مقتدر حلقوں نے روک دی ہے۔ دوسری طرف موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے اس سال پورے گلگت بلتستان میں چھ مہینہ کے لیے مقامی گندم کی پیداوار بارشوں کی نذر ہوکر تباہ ہوچکی ہے۔
منفی دس ڈگری سردی میں لوگ حسرت و یاس سے دیکھ رہے ہیں کہ کوئی ان کی مدد کو آئے۔ بھوک سے بچے اور بوڑھے نڈھال ہیں۔
جبکہ دوسری طرف غیرمقامی سیاسی جماعتوں کے لئے کام کرنے والے مقامی کارندوں کے تین گروپ سیاست سیاست کررہے ہیں اور بے پر کی اڑا رہے ہیں۔
ان کا پچھتر سال کی ترقی دو سال میں ہونے کا دعوی اسی طرح ہی مضحکہ خیز ہے جس طرح حفیظ الرحمان نے 2017ء میں کہا تھا کہ ہم گلگت کو دبئی بنا رہے ہیں۔
گلگت بلتستان کے سیاست دانوں میں تھوڑا سا بھی ایمان باقی ہے تو یکجا ہوکر گلگت بلتستان کے بنیادی انسانی اور سیاسی حقوق کا مطالبہ کریں۔  1949ء کے معاہدوں کے تحت پاکستان کے مقتدر حلقوں سے بنیادی اشیاء ضروریہ کی فوراً فراہمی کا مطالبہ کریں۔
کشمیریوں پر جموں سے لیکر گلگت بلتستان تک ظلم ہورہا ہے۔ بحثیت انسان کشمیری شہری بھی اتنے ہی انسانی حقوق کے حق دار ہیں جتنے بھارتی اور پاکستانی ہیں۔
آج گلگت بلتستان میں جو کچھ ہورہا ہے انسانی حقوق کی تنظیموں کو اس کا نوٹس لینا چاہیے۔ گلگت بلتستان کے لوگ بہت برے حالات سے گزر ہیں۔ بھوک افلاس نے لوگوں کی کمر توڑ دی ہے، اشیاء ضروریہ کی ترسیل سیاست کی نذر ہوگئی ہے نوجوان بسوں سے اتر کر خود کو دریا برد کررہے ہیں،  دہشت گرد اسکولوں کو آگ لگا رہے ہیں انتہا پسند ہسپتال چلارہے ہیں جہاں فرقوں کی بنیاد پر سلوک کیا جارہا ہے۔ روزگار کے کوئی مواقع دستیاب نہیں ہیں۔ ذہنی اذیت میں اضافہ نے خودکشی کے رجحان میں بے تحاشا اضافہ کر دیا ہے۔ ایسے میں غیر منطقی باتیں خالی خولی دعوے عوام کے زخموں پر نمک پاشی ہے۔
Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
68881

گلگت بلتستان کے تمام کالجز میں انعامی تقریبات کا انعقاد کیا جائے گا ۔ڈائریکٹرایجوکیشن

Posted on

طلبہ و طالبات کے شاندار مستقبل کے لیے عملی اقدامات بہت ضروری ہیں۔ ڈائریکٹر ایجوکیشن پروفیسر جمعہ گل
طلبہ و طالبات ہی قوم کا اصل سرمایہ ہیں۔ پروفیسر اویس احمد
گلگت بلتستان کے تمام کالجز میں انعامی تقریبات کا انعقاد کیا جائے گا۔ڈپٹی ڈائریکٹرفضل کریم
ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ بہتر تعلیم کے لیے کوشش کریں۔ پروفیسر محمدزمان
یہی پوزیشن ہولڈر طلبہ و طالبات ہیں جنہوں نے ملک و ملت کی تعمیر کرنی ہے۔ امیرجان حقانی

 

گلگت(امیرجان حقانی سے)طلبہ و طالبات کے شاندار مستقبل کے لیے عملی اقدامات بہت ضروری ہیں۔ہماری کوشش ہوگی کہ ڈائریکٹ آف ایجوکیشن میں کام کی رفتار تیز تر کر دیا جائے۔طلبہ و طالبات اور کالجز کے حوالے سے ڈائریکٹریٹ اور ہائی اتھارٹیز کے مراسلات فوری طور پر کالجز کے پرنسپل تک ذاتی طور پر بھی پہنچا دیتا ہوں تاکہ تعلیمی، تربیتی اور کالجز کے دیگر تعمیراتی ایشوز میں تعطل نہ آجائے اور کام سپیڈی چلے۔کالجز کی اصل ترقی اساتذہ، پرنسپل اور طلبہ و طالبات سے ہے۔ تعلیمی اداروں کے اصل اسٹیک ہولڈر، طلبہ وطالبات، اساتذہ اور کالجز کے سربراہان ہیں۔ ہم ڈائریکٹریٹ والے اور دیگر حکومتی آفیشل طلبہ و طالبات اور اساتذہ کی بہتری اور ان کی تعمیر و ترقی کے لیے جدوجہد کرنے والے لوگ ہیں۔ہمارے سرکاری کالجز انتہائی کمزور بچوں کو بھی تعلیم دیتی ہیں۔ اصل کمال یہی ہے۔ معاشرے سے انتہائی ٹیلنٹ بچوں کو داخلہ دے کر اچھا رزلٹ دینا کمال نہیں بلکہ کمزور اور غریب طلبہ کو داخلہ دے کر انہیں سنوارنا، تربیت کرنا اور کسی مقام تک پہنچانا اصل خدمت اور کام ہے جو الحمد اللہ سرکاری کالجز بہتر انداز میں کررہی ہیں۔اور یہ بھی ذہن میں رہے کہ کچھ علاقوں میں کمیونٹی کی انوالمنٹ بہت کم ہے اور کچھ علاقوں میں کمیونٹی، ممبران اسمبلی اور دیگر لیڈروں کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے انوالمنٹ بہت اچھی ہے۔وہ کالجز میں آکر اپنے حصے کا کام کرنے اور حوصلہ دینے کی کوشش کرتے ہیں جس کے بہترین نتائج بھی آرہے ہیں۔ہماری کوشش ہوگی کہ والدین، کمیونٹی اور دیگر سماجی لوگ ہمارے اداروں میں زیادہ سے زیادہ شراکت دار ہوں تاکہ سب کی رہنمائی، کوشش اور محنت سے کالجز میں تعلیم و تربیت کا سلسلہ بہتر سے بہتر بنایا جاسکے۔جن علاقوں میں تمام کام کالج پر چھوڑ دیے جائے اور مشکل حالات میں خبر تک نہ لی جائے تو وہاں اچھے نتائج بھی نہیں آسکتے ہیں۔

 

ان خیالات کا اظہارڈائریکٹ آف ایجوکیشن کالجزگلگت میں منعقدہ تقریب بعنوان”ڈسٹری بیوشن آف کیش ایوارڈ اینڈ سبسڈی ٹو نیڈی اسٹوڈنٹ جی بی کالجز” میں ڈائریکٹر ایجوکیشن گلگت بلتستان پروفیسرجمعہ گل نے اپنے صدراتی خطبے میں کیا۔ انہوں نے مزید کہا آج ضلع گلگت کے جن ہونہار پوزیشن ہولڈرطلبہ وطالبات اور اسپیشل طلبہ کو کیش ایوارڈ، ٹرافی اور تعارفی اسناد دیے گئے ہیں یہ سارے بچے ہمارے اصل ہیرو ہیں ہیں۔ہمارا کل ایسے ہی محنتی طلبہ و طالبات سے وابستہ ہے۔ڈائریکٹر کالجز نے پوزیشن ہولڈر طلبہ و طالبات اور ان کے پرنسپل و اساتذہ کرام کو بھی مبارک باد دیا۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پروفیسر اویس احمدنے کہاطلبہ و طالبات ہی قوم کا اصل سرمایہ ہیں۔ ہمارا اصل مرکز و محور طلبہ و طالبات ہیں۔ہم سب ان کی بہتری و بھلائی اور تعلیم و تربیت کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہتے ہیں۔طلبہ و طالبات کو مزید محنت کرنا چاہیے۔پروفیسر محمدزمان نے کہاتعارفی اسناد، ٹرافی اور کیش ایوارڈ سے یقینا ہونہار اور اسپیشل طلبہ کو تعلیمی میدان میں تقویت ملے گی۔یہی طلبہ طالبات ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے فخر ہیں۔تقریب سے خطاب کرتے ہوئے امیرجان حقانی نے کہایہی پوزیشن ہولڈر طلبہ و طالبات ہیں جنہوں نے ملک و ملت کی تعمیر کرنی ہے۔ یہی کل کو ملک کے سب شعبے سنبھال لیں گے۔

 

ڈیٹی ڈائریکٹر اکیڈمکس پرفیسر فضل کریم نے کہاگلگت بلتستان کے تمام کالجز میں پوزیشن ہولڈر اور نیڈی طلبہ و طالبات میں کیش ایوارڈ اور سرٹیفکیٹ دیے جائیں گے۔تقریبات کا انعقاد کیا جائے گا۔بہت جلد ڈائیریکٹر ایجوکیشن کالجز کی سرپرستی میں تمام اضلاع کے کالجز میں انعامی تقریبات منعقد کی جائیں گی۔آج صرف ضلع گلگت کی پانچ کالجز جن میں پوسٹ گریجویٹ کالج مناور گلگت، فاطمہ جناح ویمن کالج گلگت، ڈگری کالج محمود آباد گلگت، رتھ فاو گرلز کالج سلطان آباد گلگت اور انٹرکالج بسین گلگت کے پوزیشن ہولڈر، اسپیشل اور ضرورت مند طلبہ کو انعامات دیے گئے ہیں۔اور ڈگری کالج چلاس کے پرنسپل پروفیسر بلال نے بھی اپنی کالج کے طلبہ کے کیش ایوارڈ اور سرٹیفیکٹ وصول کیے۔جن طلبہ و طالبات کو کیش ایوارڈ، ٹرافی اور تعارفی اسناد دیے گئے ان،پوزیشن ہولڈرزمیں، ضیاء الحق اور علی عباس پوسٹ گریجویٹ کالج مناور گلگت،محمدنقی ڈگری کالج دنیورگلگت،ارم زہر فاطمہ جناح ویمن کالج گلگت،کامران اللہ انٹرکالج بسین گلگت اونایاب سخی رتھ فاو کالج سلطان آباد شامل ہیں۔جن نیڈی اور اسپیشل اسٹوڈنٹس کو کیش ایوار دیا گیا ان میں پوسٹ گریجویٹ کالج کے داور عباس،ڈگری کالج دنیو ر کے مبین عباس،فاطمہ جناح کالج گلگت کی فریدہ پروین،انٹرکالج بسین کے محمدانس اور رتھ فاو کالج سلطان آباد کی نہا راحت شامل ہیں۔

 

تقریب میں پروفیسرمحمدعالم،پروفیسر محمدبلال، پروفیسرمحمد اویس، پروفیسر محمد زمان، ڈپٹی ڈائریکٹر جمشیدعلی،پروفیسر میڈم ثیرا،لیکچرار نسرین،ڈپٹی ڈائریکٹر میڈم صدف،پروفیسر اجلال حسین نے شرکت کی۔اسٹیج سیکریٹری کے فرائض امیرجان حقانی نے ادا کیے جبکہ تلاوت کلام پاک کی سعادمہدی الحسن نے حاصل کی۔طالبہ ارم زہرا نے نعت نبی مقبول پیش کی۔ تمام طلبہ وطالبات نے انتہائی خوشی کا اظہار کیا اور اپنی پرفامنس مزید بہتر بنانے کا عزم کیا۔

chitraltimes gilgit baltistan directorate of colleges program 1 chitraltimes gilgit baltistan directorate of colleges program 2 chitraltimes gilgit baltistan directorate of colleges program 3 chitraltimes gilgit baltistan directorate of colleges program 4

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستانTagged
66833

گلگت بلتستان، عوام کے جان ومال کی حفاظت اورمحفوظ مقامات پر منتقلی یقینی بنائی جائے۔وزیراعظم

Posted on

وزیراعظم شہبازشریف کا شیشپر گلیشیئر جھیل سے پانی کے اخراج سے ہونے والی تباہی پر ہنگامی اقدامات کاحکم

 

اسلام آباد(چترال ٹایمز رپورٹ)وزیراعظم شہبازشریف نے شیشپر گلیشیئر جھیل سے پانی کے اخراج سے ہونے والی تباہی پر ہنگامی اقدامات کاحکم دیتے ہوئیکہا ہے کہ عوام کے جان ومال کی حفاظت اورمحفوظ مقامات پر منتقلی یقینی بنائی جائے۔اتوار کو وزیراعظم آفس میڈیا ونگ سے جاری بیان کے مطابق وزیراعظم نے متاثرہ علاقوں میں خوراک، ادویات اور ضروری ہنگامی سامان پہنچانے کا حکم دیا۔وزیراعظم نے وفاقی اداروں کو گلگت بلتستان کی حکومت کی بھرپور معاونت کا حکم دیتے ہوئینقصانات اور متاثرہ عوام کے حوالے سے رپورٹ طلب کرلی۔وزیراعظم نے شاہراہِ قراقرم پر حسن آباد پل گر نے کے سبب متبادل راستہ تیار کرنے، زرعی اور پینے کے پانی کے نظام کی تباہی سے نقصانات، 2 بجلی گھر متاثر ہونے کا تخمینہ لگانے کی بھی ہدایت کرتے ہوئے 700 اور250 میگاواٹ بجلی گھروں کی جنگی بنیادوں پر بحالی کا حکم دے دیا۔وزیر اعظم نے ہدایت کی کہ بجلی گھروں کی بحالی ومرمت پر اخراجات وفاقی حکومت ادا کرے گی،شاہراہ قراقرم کو پہنچنے والے نقصان کے بارے میں بھی رپورٹ طلب کی گئی ہے۔وزیر اعظم نے کہا کہ متاثرہ عوام کی بھرپور ہنگامی مدد اور بحالی کے لئے تمام ممکنہ اقدامات کریں گے۔وزیر اعظم نیمتاثرہ خاندانوں سے نقصانات پر اظہار ہمدردی اور افسوس کا اظہار کیا۔

 

وزیر اعظم کے مشیر برائے امور کشمیر قمرزمان کائرہ کا چیف سیکرٹری گلگت بلتستان سے ٹیلی فونک رابطہ
، گلیشیئر پگھلنے سے پیدا ہونے والی سیلابی صورتحال سے شہریوں کو بچانے کے لئے اقدامات کی ہدایت

اسلام آباد(سی ایم لنکس)وزیر اعظم کے مشیر برائے امور کشمیر و گلگت بلتستان قمرزمان کائرہ نے متعلقہ حکام کو ہدایت کی ہے کہ گلگت بلتستان میں گلیشیئر پگھلنے سے پیدا ہونے والی سیلابی صورتحال سے شہریوں کو بچانے کے لئے اقدامات اٹھائے جائیں۔مشیر برائے امور کشمیر و گلگت بلتستان نے اتوار کو گلگت بلتستان میں گلیشیئر پگھلنے سے پیدا ہونے والی سیلابی صورتحال سے آگاہی بارے چیف سیکرٹری گلگت بلتستان سے ٹیلیفونک رابطہ کیا۔انہوں نیگلیشیر پگھلنے کے بعد کی سیلابی صورتحال سے ہونے والے نقصان پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے ہدایت کی کہ تمام سرکاری وسائل کو بروئے کار لا کر عوام کو فوری ریلیف دیا جائے،شہریوں کو قدرتی آفت سے بچانے کے لیے فوری اقدامات اٹھائے جائیں۔قمر زمان کائرہ نے زمینی رابطے اور معمولات زندگی بحال کرنے کے لیے جنگی بنیادوں پر کام کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ ملکی و غیر ملکی سیاحوں کی حفاظت پر خصوصی توجہ دی جائے۔

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, گلگت بلتستانTagged
60995

گلگت بلتستان حکومت اور فوڈ پانڈا کے درمیان مفاہمتی یاداشت پر دستخط

کراچی(چترال ٹائمز رپورٹ) ملک میں صف اول کے فوڈ ڈیلیوری پلیٹ فارم اور ای کامرس کمپنی، فوڈ پانڈا نے حال ہی میں گلگت بلتستان حکومت کے ساتھ مفاہمتی یاد داشت کے معاہدے پر دستخط کئے ہیں جس کا مقصد خطے میں معاشی ترقی کے عمل کو آگے بڑھانا ہے۔ اس معاہدے پر دستخط کے لئے کراچی میں فوڈ پانڈا کے ہیڈ کوارٹرز میں خصوصی تقریب منعقد ہوئی جس میں گلگت بلتستان کے وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی اور وزیر اعلیٰ کے معاون خصوصی، حسین شاہ اور فوڈ پانڈا کے سی ای او، نعمان سکندر کے ساتھ ساتھ دیگر اہم شخصیات نے شرکت کی۔

اس مفاہمتی یاد داشت کے تحت دونوں ادارے عوام کے لئے معاشی مواقع پیدا کرنے کے لئے مل کر کام کریں گے۔ فوڈ پانڈا گلگت بلتستان میں ریسٹورنٹس، پانڈا مارٹ، شاپس سمیت مختلف شعبوں میں اپنے آپریشنز میں تیزی لائے گا جبکہ گلگت بلتستان کی حکومت سازگار کاروباری ماحول پیدا کرکے اسکی توسیع میں سہولت فراہم کرے گی۔

فوڈ پانڈا کے سی ای او، نعمان سکندر نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا، “گلگت بلتستان کے لوگوں کو معاشی طور پر بااختیار بنانے کے لئے ہم ریسٹورنٹس، شاپس، ہوم شیفس، پانڈا مارٹ اور پانڈا کچن کے ذریعے اپنی خدمات میں تیزی سے وسعت لارہے ہیں۔ اس سے نہ صرف لوگوں کی آمدن میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا بلکہ گلگت بلتستان کے لوگوں کے لئے مالی اور ڈیجیٹل سہولیات پیدا ہوں گی۔ ہم اپنے وسیع نیٹ ورک کو استعمال کرکے اس اقدام (#MYGB)کو اجاگر کرکے عوام میں آگہی پیدا کریں گے اور اپنا قابل ذکر کردار ادا کریں گے۔

گلگت بلتستان کے وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی اور وزیر اعلیٰ کے معاون خصوصی حسین شاہ نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا، “
میں فوڈ پانڈا کا مشکور ہوں جو اس بڑے کام کے لئے اپنی خدمات وسعت لارہے ہیں اور معاشی بااختیاری کو فروغ دے رہے ہیں۔ ہمارے لوگ انتہائی محنتی ہیں اور وہ اچھے مواقع کا حق رکھتے ہیں جو انہیں فوڈ پانڈا پیش کررہا ہے۔ ہم اپنی آئی ٹی کی وزارت کے ذریعے کمپنی کے روانی سے پھیلاؤ کو یقینی بنائیں گے اور فوڈ پانڈا کو اراضی کے حصول اور انٹرنیٹ کے انفراسٹرکچر سمیت دیگر مقامی ضروریات کی فراہمی کے لئے اپنا تعاون فراہم کریں گے۔ ہم اس اہم اشتراک کے ذریعے پانڈا مارٹ پر گوشت، خشک میوہ جات، نمکین اشیاء اور ایسی دیگر مصنوعات مقامی سطح پر تیار کریں گے۔”

chitraltimes gov gb and frood panda mou sign 2
Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستانTagged
57001