Chitral Times

Mar 19, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

جشنِ نوروز اور بہار کی نوید…..تحریر : سردار علی سردارؔ اپر چترال

شیئر کریں:

جشنِ نوروز ہر سال 21 مارچ کو عالمِ اسلام اور خاص طور پر عالمِ شیعیت میں بڑی عقیدت اور احترام  اور جوش و خروش کے ساتھ منایا جاتا ہے ۔ اس دن سورج برج ِ حمل میں داخل ہوتاہے اور زمین پر سرسبزی اور شادابی کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔

روایات قصص میں آیا ہے کہ قدیم اہلِ بابل اور مصریوں کے ہاں بھی نئے سال کے آغاز میں جشن مناتے تھے ۔لیکن نوروز کا تاریخی تعلق ایران سے رہا ہے ۔ایران کے عظیم افسانوی بادشاہ جمشید نے نوروز کوقومی عید کی حیثیت سے منایا اور اسے بہت زیادہ  اہمیت دی۔سرزمین ایران میں اسلام کی روشنی آنے کے بعد بھی یہ روایت نسل در نسل باقی رہی اور ابھی تک اس روایت کو بڑی تزک و احتشام کے ساتھ منائی جاتی ہے۔

تاریخ سے ثابت ہے کہ نوروز دنیا کے مختلف ممالک میں نئے سال کے آغاز میں بہار کے تہوار کے طور پر منایا جاتا رہا ہے اور یہ تہوار کسی ایک علاقے کے لئے مخصوص نہیں بلکہ مختلف ثقافتوں، عقائد اور رسم ورواج سے تعلق رکھنے والے لوگ اپنے اپنے علاقوں اور اپنے رسم ورواج کے مطابق اس کو مناتے ہیں۔کیونکہ دینِ اسلام کی یہ خاصیت رہی ہے کہ اس نے دنیا کی مختلف ثقافتوں کو اپنے رنگ میں رنگا ہے اور ان کی پرورش کی ہے ۔اس لئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ نوروز دنیا کے مختلف علاقوں میں مختلف ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ اس تہوار کو سال کے آغاز کی خوشی کے طور پر مناتے ہیں۔نوروز سے پہلے یخ بستہ ہوائیں اور سخت سردیاں انسان کی حرکات و سکنات میں جمود کی سی کیفیت پیدا کی ہوئی ہوتی ہیں جس سے فطرت کی ہرچیز   میں نیم مردگی کے آثار نمودار ہوتی ہیں۔لیکن بہار کے آتے ہی ہر ذی روح کو ایک نئی خوشی اور زندگی ملتی ہے۔ اس زندگی کو سال نو یعنی نوروز سے تعبیر  کی گئی ہے۔اس لئے اس کی آمد سے  نہ صرف ایران بلکہ  تاجکستان ،افغانستان اور پاکستان میں بھی نوروز کی یہ تہوار شان وشوکت اور دبدبےسے منائی جاتی ہے۔پاکستان کے شہری علاقوں کے علاوہ گلگت بلتستان اور چترال میں اس تہوار کی شان اور بھی دوبالا ہوتی ہے۔

ان علاقوں میں اس تہوار کی آمد سے ایک ہفتہ پہلے پورے گاؤں اور گھر کی مکمل صفائی کی جاتی ہے۔اس صفائی کو مقامی زبان میں “سوئی دیک ” کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔سوئی دیک کے بعد  گھر میں ایک مخصوص ڈش جسے مقامی زبان میں “شوشپ”کہتے ہیں  اور  جسے آخروٹ کے گھی اور آٹہ دونوں کی امیزش سے پکائی جاتی ہے گھر کے لوگ مل کر کھاتے ہیں اور ہمسائیگی میں بھی بھیجتے ہیں۔ پہلے زمانے میں ہمارے گھر وں کی تعمیر پُرانے طریقوں اور رسم ورواج کے مطابق ہوتی تھیں ۔ آج کل زمانہ جدیدیت کی طرف مائل ہونے کی وجہ سے تعمیرات میں بھی تبدیلی آئی ہے لیکن نوروز کی آمد کے موقع پر   اُن  کی بھی   حسب ِ روایت  خوب صفائی  کی جاتی ہے اور ان کو دلہن کی طرح سجایا جاتا ہے۔نوروز کے دن گھر کے تمام افراد صبح سویرے اٹھتے ہیں اور خدا کے حضور  سربسجود ہونے کے بعد نئے لباس زیب تن کرتے ہوئے ناشتے کے لئے سب اکٹھے بیٹھ جاتے ہیں اس دوران گھر کے سربراہ گھر والوں کوخوشحالی اور مبارک بادی کے پیغامات کی دعائیں دیتے ہوئے گھر میں داخل ہوتا ہےاورگھر کے پانچ  ستونوں میں مُٹھی بھر  آٹا  ڈال کر (جو بہار کی نوید کی علامت ہوتی ہے)گھر والوں کے ساتھ مل بیٹھتا ہے پھر گھر کے تمام افراد گھر میں  دودھ سے تیار کردہ  خوراک (اشپیری)تناول کرتے ہیں۔ناشتے سے فارغ ہوکر ہمسائیوں اور رشتہ داروں سے ملنے انکے گھر چلے جاتے ہیں اور ان کو اپنی خوشیوں میں شامل کرتے ہیں اور یہ خوشیاں ایک ہفتے تک  جاری رہتی ہیں۔

اس موقع پر تمام رشتہ داروں بہن، چچی، تایا اور بیٹی کو بھی گھر سے تحفے اور تحائف بھیجنا جسے مقامی زبان میں “بش” کہا جاتا ہے اس تہوار کا لازمی حصّہ شمار کیا جاتا ہے ۔آجکل یہ تمام رسم ورواج آہستہ آہستہ ختم ہوتے جارہے ہیں لیکن اس تہوار کی روح اور تقدس اپنی جگہ برقرار  ہےاور لوگ نئے ولولے اور جذبے کے ساتھ نئے سال کے آغاز ہی سے اپنی زندگی کی شروعات کرتے ہیں کیونکہ نوروز کے معنی نئے دن کے ہوتے ہیں کیونکہ اسی دن کائنات مردگیء خزان سے بہارِ حیات کا سفر شروع کرتی ہے اور زمین پر شادابی اور روئیدگی کی نئی روح نمودار ہونے لگتی ہے ۔ کائنات کی ہرچیز  جو موسمِ سرما کی سختیوں سے تنگ ہوکر پردہ ءاخفا میں گئی ہوئی تھی پھر سے سر اٹھاتی ہے اور انالحق کا نعرہ لگاتی ہے اور دنیا کو بہارِ نو کی خوشخبری سناتی ہے۔ڈاکٹر عزیز اللہ نجیب ؔ نے کیا خوبصورت شعر لکھا ہے

آگئی نوروز کی تازہ بہار

پھر گل و گلشن میں رنگ و نکھار 

تن بدن میں جان آئی جان  ہے

طوطی و درّاج کی ہر سو پکار          

نوروز پھر علم و عمل کا نام ہے

ورنہ یہ دن آرہے ہیں بار بار

گویا نوروز کا یہ دن ہر انسان کے اندر حرکت و تبدیلی کا پیغام دیتا ہے ۔ نباتات اپنا پرانا لباس اُتار کر نیا لباس پہنتے ہیں اور دنیا والوں کو یہ پیغام دیتی ہیں کہ دنیا میں ہر ذی روح کو جینے کا حق حاصل ہے۔موسموں کی اس تبدیلی کے پسِ پردہ خلاقِ کائنات نے ایک بڑی حقیقت مخفی رکھی ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنفَعُ النَّاسَ وَمَا أَنزَلَ اللَّهُ مِنَ السَّمَاءِ مِن مَّاءٍ فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِيهَا مِن كُلِّ دَابَّةٍ وَتَصْرِيفِ الرِّيَاحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ ۔  (2.164)

ترجمہ: بےشک آسمانوں اور زمین کی پیدائیش اور رات دن کے ادلنے بدلنے اور کشتیوںمیں جو دریاؤں میں چلتی پھرتی ہیں جن سے لوگوں کو فائدہ پہنچتا ہے اور اس پانی میں جو اللہ تعالیٰ نے بلندی سے اُتارا ہے پھر اس سے زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کردیا اور ہر چلنے والا جاندار اس میں پھیلادیا اور ہواؤں کے چلنے اور اُن بادلوں میں جو آسمانوں اور زمین کے درمیان مسخر ہیں سمجھنے والوں کے لئے بہت ہی نشانیاں موجود ہیں۔

اس ارشادِ ربانی سے یہ حقیقت وضح ہے کہ اللہ رب العزت نے فطرت اور انسان کے مابین ایک گہرا تعلق قائم کر رکھا ہے اور مظاہر قدرت پر غور وفکر کرنے کی تاکید کی ہے۔جس میں ہر دانشمند کے لئے ایک عجیب کشش موجود ہے۔ جب بھی انسان مظاہر قدرت کا مطالعہ کرتا ہے تو اس کے اندر ایک روحانی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے اور اس سے وہ اپنے خالق کی تخلیق کو بہتر انداز میں سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

 سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنفُسِهِمْ حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ۔(41.53 )

ترجمہ: ہم عنقریب ہی اپنی نشانیاں اطراف عالم اور خود ان میں دکھادینگےیہاں تک کہ ان پر  ظاہر ہوجائےکہ وہی( خدا ) یقیناََ حق ہے۔

مظاہر قدرت خدا کی ایک زندہ کتاب ہے جس کے ہر حرف پر تدبرو تفکر کرنے کی ضرورت  ہےکیونکہ اس  کتاب کے اندر خدا شناسی کی ایک حقیقت پنہان ہے۔نوروز کے دن مظاہر قدرت میں سرسبز و شادابی کی وجہ سے بہار کا سماں ہوتا ہے اور زمین کی

پژمردگی میں حرکت پیدا ہوتی  ہے اور زندگی کی ہرچیز میں قوتِ گویائی کے آثار نمودار ہونے لگتی ہیں  جس سے انسان  کے اندر اپنے اپکو پھر سے تازہ دم کرنے کی ایک جستجو پیدا ہوتی ہے ۔اگر اس ظاہری عالم میں بہار کا عمل شروع ہو لیکن مومن کے دل میں پھر بھی خزان و زمستان کے آثار باقی ہوں تو اس صورت میں نوروز کی اہمیت کیا ہوگی۔ کیا خوب فرمایا کسی شاعر نے:

نوروز ظاہری بود تغیر ماہ وسال

نوروز باطنی بود تغیر کیف وحال

نوروز اہلِ صدق بود ترکِ فعل بد

نوروز اہلِ کزب بود زیب وجسم و مال

ترجمہ: ظاہری نوروز ماہ وسال کی تبدیلی کا نام ہے جبکہ باطنی نوروز اندرونی کیفیتوں اور حالتوں کی تبدیلی سے تعبیر ہے۔ اہل صدق کا نوروز اندرونی افعال کو ترک کرنے کانام ہے اور اہلِ کزب کا نوروز اپنے ظاہری جسم کو سنورنے اور مال ودولت کی نمائش کا نام ہے ۔

جاننا چاہئے کہ نوروز کی حقیقت اس صورت میں درست ہوگی کہ انسان گزرے ہوئے تمام حالات کو حال کے آئینے میں مشاہدہ کرنے کی کوشش کرے۔اگر سال کے تین سو پیینسٹھ دن نیک اعمال کی بجا آوری میں کوتاہی ہو  تو  اہلِ خرد کے نزدیک وہ اصل زندگی نہیں بلکہ پژمردگی کی علامت ہے۔ اس لئے اپنی کوتاہیوں پر نظر ڈال کر نیک اعمال کے لئے آگے بڑھنا اور  اپنی مادی اور روحانی زندگی کو احکامِ ربانی سےمنضبط کرنا ہی زندہ دلی کی نشانی ہے۔جیسا کہ ہز ہائی نس شہزادہ کریم آغاخان نے رنگوں میں 21 مارچ 1960 ء کو  نوروز کے دن کے موقع پر یوں فرمایا  “اس نئے برس کے درمیان تمہارے دنیاوی اور روحانی سکھ میں دس گنا اضافہ ہو اور ہم چاہتے ہیں کہ اس نئے برس کے آغاز ہی سے تم اپنے مستقبل میں تھوڑا آگے سوچنے کی کوشش کریں ۔  ہر نوروز کے موقع پر اپنے آپ سے سوال کریں کہ کیا ہم نے اپنے فرائض کی ادائیگی کی ہے  جو ایسا کریں گے تو ہم حقیقتاََ خوش ہوں گے”۔

انسان کو معلوم نہیں کہ کب  اس کی زندگی کا اختتام ہوگا ہر لمحہ ہمیں اس کے لئے تیار رہنا چاہئے ۔ ہر نیا دن ہمیں یہ موقع فراہم کرتا ہے کہ ہم اپنی کوتاہیوں کو دور کرنے کی کوشش کریں۔کیونکہ زندگی وہ نہیں جو ہم آرام وسکون اور عیاشی کے ساتھ گزارتے ہیں اور کسی چیز کی بھی  فکر نہیں کرتے  بلکہ زندگی اسی کا نام ہے کہ لوگ ہمارے بارے میں نیک خواہشات کا اظہار کریں اور عزت و احترام کے ساتھ ہمارا  نام لیں۔مولا علی کرم اللہ وجہہ کا ارشاد گرامی ہے کہ کہ” زندگی اسطرح گزارو ، لوگوں سے میل جول رکھوکہ اگر مرجاؤ تو لوگ روئیں اور زندہ رہوتو تم سے ملنا چاہیں”۔(نہج البلاغہ ترجمہ: رئیس احمد جعفری)

 مختصر یہ کہ ہم اپنی زندگی میں مخلوقِ خدا کی رضامندی کو مقصد بنائیں۔ غریبوں اور بےسہارا لوگوں کی مدد کریں اور ان کو اپنی خوشیوں میں شامل کریں۔ہوسکتا ہے یہ خوبصورت زندگی کل ہمارے  پاس نہ رہے۔ اس لئے ہر لمحہ اس کی قدر کرتے ہوئے مخلوقِ خدا کی خدمت کو عنمیت سمجھے۔ شیخ سعدیؒ اپنے ایک قصیدے میں فرماتے ہیں کہ

اے کہ دستت می رسد کارے بکن

پیش ازان کز تو نیاید ہیچ کار

ترجمہ:اے انسان (اس وقت) جبکہ تیرا ہاتھ پہنچتا ہےتو کوئی کام کرلے اس سے پہلے کہ وقت تیرے پاس نہ رہےیعنی تجھ سے کچھ کام نہ ہوسکے۔

سعدیؒ کے اس پرحکمت شعر سے یہ سبق ہمیں ملتا ہے کہ ہر انسان کو اپنی زندگی میں  ہی لوگوں کے ساتھ بھلائی کرے اور نیک کام کے لئے  اپنا ہاتھ بڑھائے ،ہوسکتا ہے کہ کل یہ ہاتھ آگے بڑھانے کا موقع نہ ملے۔اس لئے نوروز کا یہ مبارک دن ہم سب کو یہ دعوت دیتا ہے کہ اپنے گزشتہ اعمال و فرائض کا سرسری جائزہ لے اور نئے آنے والے سال کے لئے اپنی  ذمہ داریوں اور فرائض کی بجاآوری کے لئے عزمِ صمیم کے ساتھ  آگے بڑھنے کا تہیہ کرلے۔ جہاں  کہیں بھی دینی و دنیوی امور کی انجام دہی میں غفلت اور کاہلی نظر آئی ہو انہیں پورا کرنے کا مصمم ارادہ ہو۔ لہذا اہلِ دل کے نزدیک یہی تو نوروز ہے اور اسی امید کے ساتھ ہم سب کو اگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔


شیئر کریں: