Chitral Times

Mar 19, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

مشاہداتِ بلقیس…..میرا جسم میری مرضی…..ساقیہ کوثر بلقیس شعبہ اردو پشاور یونیورسٹی

Posted on
شیئر کریں:

کہنے کو تو ہم 1947 میں آزاد ہوے تھے۔ مگر حقیقت میں ہم آج بھی آزاد نہیں ۔ ہم آج بھی یورپ کی ذہنی غلامی میں مبتلاء ہیں۔ ان کے ہر اچھے برے کام کی بلا تحقیق تقلید شروع کر دیتے ہیں۔ یہ سوچے بنا کہ یہ کام ہماری روایات مذہب اور معاشرتی اقدار کے موافق ہے یا نہیں بس آندھی تقلید میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی طرح یورپ کی بے حیاء گلیوں سے ایک نعرہ ” میرا جسم میری مرضی ” نکل کے مسلم معاشرے میں پھیلتی جارہی ہے۔
سب سے پہلے اگر دیکھا جائے ہمارے جسم پہ ہماری نہیں ہمارے خاندان بلکہ ہمارے معاشرے کی مرضی ہوتی ہے۔ ہم ہاتھوں سے چوری نہیں کرسکتے تاکہ معاشرے میں کسی کو تکلیف نہ پہنچے۔ ہم زبان کا استعمال بے جا نہیں کرسکتے کسی کو گالی نہیں دے سکتے، ہم بیمار کے سامنے بلند آواز میں گانا نہیں گا سکتے ، ہم آنکھوں سے کسی کے گھر میں بلا ضرورت جھانک نہیں سکتے۔ ہم کسی ادارے میں رہتے ہوے اس ادارے کی مخصوص وردی کے پابند ہیں۔ خاندان ، معاشرہ اور اداروں کی طرح اس جسم پر اس کے بنانے والے خالق کا بھی حق ہے جس رب نے اسے پیدا کیا اس کے بھی کچھ احکامات ہیں ان کے مجموعے کو شریعت کہا جاتا ہے۔ ہم ایک خدا اور تمام انبیاء کرام کی محنت اور آسمانی کتابوں کا خلاصہ ایک قرآن اور ایک نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کو مانتے ہیں۔ہمارا معاشرہ ایک اسلامی معاشرہ ہے اور جس مذہب کی ہم پیروی کرتے ہیں وہ اسلام ہے اسلام ایک ایسا دین جس نے انسان کو حقیقی معنوں میں اذادی دی۔ اس سے پہلے انسان انسان کی غلامی میں جکڑا ہوا تھا۔ جس کی لاٹھی اس کا بھینس والا نظام تھا۔ طاقتور کمزور کو کچل دیتا تھا۔ اور انتہائی گھائل حالت میں اپنا غلام بناتا۔ عورتوں کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک کیا جاتا تھا۔حتی کہ عورتوں کے وجود کو بھی باعث شرم سمجھا جاتا تھا۔ اور انھیں زندہ درگور کر دیا جاتا۔ اور بیویوں کے ساتھ نہایت وحشیانہ سلوک کیا جاتا تھا۔
کفر اور ظلم کی گھٹا ٹوپ فضاؤں میں جب اسلام کا سورج طلوع ہوا۔تو سب کے لئے سلامتی کا پیغام لے کر ایا تمام انسانوں کو برابر حقوق دئیے ۔ عورتوں کو معاشرے کا زمہ دار فرد بنا کر ماں ،بیٹی ،بہن اور بیوی جیسے عظیم ناموں سے نوازا گیا۔ کل تک جس عورت کو باعث شرم سمجھا جاتا رہا اسلام نے اسی عورت کے پاؤں تلے دنیا آخرت کی بشارت سنادی۔ تو عورت بھی بہترین معاشرے کی تکمیل میں حصہ ڈالتی رہی ۔ اور تاریخ کے اوراق عورت کی بیشمار قربانیوں سے بھری پڑی ہے۔ کبھی مردوں کے شانہ بشانہ میدان کار زار میں کودتی ہے۔ تو کبھی دشمن کا سر قلم کرکے قلعے کی دیوار سے باہر پھینکتی ہے۔ اور کبھی اماں عائشہ کے روپ میں نصف دین کا علم حاصل کرلیتی ہے۔ اسلام نے عورت کو گھر کی چاردیواری میں قید نہیں کیا ہاں البتہ چادر کی صورت میں زینت ضرور بخشی ہے۔ عورت کو گھر کے کاموں اور بچے پیدا کرنے تک محدود نہ رکھا جائے اس کو وہ تمام مواقع فراہم کرنا چاہیے اور ہر ایک کو حسب مقدور سپورٹ بھی کرنا چاہیے حصول تعلیم کے سلسلے میں ہو یا زندگی کے کسی بھی شعبے جس میں وہ دلچسپی رکھتیں ہیں کیونکہ بیٹی کسی ایک کی نہیں بلکہ قوم کی بیٹی ہوتی ہے۔
اسلام کے بعد جب ہم اس نعرے کو دیکھتے ہیں تو یہ ایک بعاوت ہے معاشرتی اقداروں کے خلاف ،ہماری کلچر کے خلاف اور ہماری تہذیب کے خلاف ۔معاشرے کے لیے جو بہتریں اصول بنائے گیے ہیں انہی کی بدولت ہمارا معاشرہ ایک پر امن معاشرہ ہے یہ پرامن اس لیے ہے کہ ہماری تہذیب اج بھی زندہ ہے أج بھی ہم اپنی شاندار روایت کی پابندی کرتے ہیں اگر اس میں رہنے والوں کو بالکل اذاد چھوڑ دیا جائے۔ تو شاید اس کی اصل روح برقرار نہ رہے۔ ہماری امن پسندی، باہمی تعاون اور محبت شاید نہ رہے۔
معاشرے کی بگاڑ اور سدھار کی اصل وجہ فرد کو قرار دیا جاتا ہے لیکن فرد کے ساتھ ساتھ اجتماع کا کردار بھی انتہائی اہم ہے ۔فرد اپنے اپ کو اگر اس طرح کے نعروں سے مذہب، تہذیبی رویوں اور معاشرتی اقداروں کو مدنظر رکھتے ہوئے بچا لے تو کافی حد تک ہمارا معاشرہ محفوظ رہے گا کسی سے نا شایستہ،غیر مہذب اور نا پسندیدہ فعل نا دانستہ طور پر ہو بھی جائے۔ تو اجتماع کی ذمہ داری یہ ہے وہ سرزنش کرے ،ڈانٹے اور رہنمائی کرے نہ کہ اس غلطی کو اچھالے پھر کسی حد تک ہم اپنی حسین وادی جس نے ہمیں پہچاں دیا کو بچا سکتے ہیں .
(مہ غون گدیریو سار بشار بیروا گیسام ۔۔تن ہوشہ قلمدار نو بیسام۔۔ مجھ جیسے پاگل کو اگر کوئی سمجھانے کی کوشش کرتا تو شاید سدھر جاتا)
یاد رکھنا چاہیے کو کوئی شاخ درخت سے ٹوٹ کر ذیادہ دیر تک سرسبز شاداب نہیں رہتا بالکل اسی طرح انسان اپنے اصل کو بھلا کر تا دیر خوش نہیں رہ سکتا۔ اپنے اصل کو بھلا کر الگ راہ منتحب کرکے دوسروں کی پیروی کرنے والوں کے بارے میں لکھتے ہیں
” تمہاری تہذیب اپنی خنجر أپ خودکشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ أشیانہ بنے گا نا پاٸیدار ہوگا“
انسان ایک ہی کام کو جب بار بار کرتا ہے تو یہ اس کی عادت بن جاتی ہے اس کا رہن سہن ،اٹھنا بٹھنا ،گفتگو کا انداز اور چالن درست معاشرتی اقدار کے مطابق ہو تو اسے تبدیل کرنے کی خواہش کم عقلی کے سوا کچھ نہیں۔ اسی طرح ہم اپنی شاندار روایات کو پس پشت ڈال کر میرا جسم میری مرضی کا کھوکھلا نعرہ کیسے لگا سکتے ہیں؟ اور نہ کسی کو اس کی اجازت ہونی چاہیے کیونکہ اگر معاشرے میں رہنا ہے تو اجتماع کے ساتھ مل کر رہنا ہو گا تہذیب انسانوں کی ایک منظم اجتماعیت کا نام ہے اس کا حصہ رہنے کے لیے۔ ضروری ہے کہ طے شدہ اصولوں کا پابند ہو ۔یورپ کے کسی شہر میں چند روز قبل خاتوں نے بیٹے کے خلاف مقدمہ درج کروائی میرے بیٹے نے کتا پال رکھا ہے اور سارا دن اس کے ساتھ رہتا ہے میرے لیے اس کے پاس وقت نہیں ہوتا لہذاعدالت اسے اس بات کا پابند بناۓ کہ وہ دن میں ایک مرتبہ میرے کمرے سے ہوکر گزرے تو عدالت یہ کہہ کر خاتون کے خلاف فیصلہ دیا ہم أٹھارہ سال سے ذیادہ عمر کے لوگوں پر یہ پابندی نہیں لگا سکتے اور وہاں کی عورتیں میز کے نیچے جھولا لگا کر دودھ پیتے بچوں کو لیٹا کر اوپر چیزیں رکھ کر بیچتی ہیں کیونکہ اگر ان کو اس حالت میں چھوڑ دیا گیا تو اپنے اور اپنے بچوں کی پرورش کر سکیں تو بھائی یہ ہے یورپی معاشرہ و أذادی اور ہمارے ہاں تو ہمارے اپنے ہماری ہر قسم کی ذمہ داری اٹھانے کے لیے تیار ہیں پھر بھی ہمیں أخر یورپ جیسی آزادی کی تمنا کیوں؟؟؟؟


شیئر کریں: