Chitral Times

Apr 26, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

آغا خان کا فلسفہء جمہوریت……تحریر: افضل ولی بدخشؔ

شیئر کریں:

آج ہم ہزہائنس پرنس کریم آغا خان کےیوم ولادت کے موقع پر اس کے تقریر کا متن پیش کرنے جا رہے ہیں جوشاید دورِ حاضر میں ہونے والے سیاسی معاملات کی بہتر سمجھ میں مدد فراہم کر سکے۔ یہ تقریر Athens Democracy Forum کے زیر قیادت منائے جانے والی جمہوریت کے عالمی دن کے موقع پر فرمایا گیا تھا۔ ہزہائنس کی اس تقریر کو بے حد سراہا گیا تھا اور اس کے پیش کئے گئے چار اہم جمہوری عوامل کو سامعین کی طرف سے بہت پزیرائی ملی تھی۔


یاد رہے کہ ایتھنز قدیم یونان کا وہ شہر ہے جو عالمِ دنیا کو ایک نئے سیاسی نظام سے متعارف کروایا تھا جسے وہ Democracy کہا کرتے تھے۔ یعنی Demo کا مطلب لوگ اور cracy کےمعنٰی حکومت۔ اس لئے ان کے ہاں Democracy کا مطلب یہی تھا کہ


It is the rule of people, by the people and for the people.
ہزہائنس پرنس کریم آغا خان کےاس تقریر کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو جہاں ہزہائنس جمہوریت کی تعریف کرتے ہیں وہاں جمہوریت کی تنقید سے بھی پیچھے نہیں ہٹتے ۔ اس تقریر میں اہم نکتہ یہ ہے کہ ہزہائنس اپنے پورے تقریر میں توازن کے اصطلاح اور اصولوں یعنی Notion and principles of Balance کا دامن نہیں چھوڑے جس کی جھلک ہمیں ان کے دوسرے تقاریر اور فرامین میں بھی فراوانی سے ملتے ہیں۔ اس تقریر میں جہاں جمہوریت کے نظام کی کامیابیوں کا اظہار ہے وہاں جمہوریت کی ناکامیوں کا تکرار بھی ہے، جہاں جمہوریت کو درپیش مسائل کا فکر اس تقریر میں پنہاں ہیں وہیں ان کا حدالامکاں اور منظم حل بھی سامعیں کیلئے موجود ہیں، جہاں کامیاب جمہوریت کے پیچھے موجود عناصر کی قدردانی ہے وہاں ناکام جمہوری نظام کے پسِ پشت عوامل کا برملا اظہار بھی، جہاں جمہوریت کے تاریخی پسِ منظر پر روشنی ڈالی گئی ہے وہاں اس کے مستحکم مستقبل کے حوالے سے عقلی اور اخلاقی دلائل کی فراوانی بھی سامعین و قارئین کیلئے دستیاب ہیں۔ العرض یہ تقریر سیاسیات کے موضوع پر ایک نایاب، متوزن اور دورِحاضر کے سیاسی نظام میں بہتریں جمہوریت کا ترجمان ہے۔


اس تقریر کے شروع ہی میں ہزہائنس پرنس کریم آغا خان حق اور عدل وانصاف کے لئے کی گئی کوششوں پر اپنی قدردانی کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کے حصول کی کاوش میں سرگرداں دوسرے قومی اور بین الاقوامی اداراں کیساتھ امامتی اداروں کو بھی قابل تحسیں گردانتے ہیں ۔ جمہوریت کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ I believe that the progress of democracy in our world is fundamentally linked to improving the quality of human life. The promise of democracy is that the people themselves best know how to achieve such progress. But if that promise is disappointed, then democracy is endangered.


یہ میرا یقیں ہے کہ ہماری دنیا میں جمہوریت کی ترقی کا براہ راست تعلق انسانوں کی بہتر معیارِ زندگی سے ہے۔ جمہوریت اس ضامن میں لوگوں کو اس قابل بنائے کہ وہ خود اس ترقی کے حصول کے گُر کی جان کاری کے متحمل ہو۔ جمہوریت کو خطرہ تب ہوگا جب وہ اپنے اس ایفا و عہد کا پاس نہ رکھ سکے۔
ہز ہائنس ہمارے سامنے چار ایسے عناصر رکھتے ہیں جن کے نہ ہونے سے معاشروں میں ایک مستحکم جمہوری نظام کا قیام ناممکن ہے۔ ایک کامیاب یا ناکام جمہوری نظام کا درومدار ان چار عناصر کی دستیابی یا غیر دستیابی پر ہے۔گویا یہ چار عناصر جمہوری نظام کو چلانے کیلئے چار پہیوں کا کام دیتے ہیں۔ اس پورے تقریر کا متن ان چار عناصر کی تعریف و تشریح اور تصحیح و تغلیب کے گرد گھومتی ہے۔

ان میں پہلا پہیہ Improved constitutional understanding یعنی آئین کی بہتر سمجھ بوجھ، دوسرا independent and pluralistic Media ، تیسرا
Potential of Civil Society اور چوتھا. Genuine Democratic Ethic


ہزہائنس فرماتے ہیں کہ حکمرانی کے حالیہ چلینجز جمہوری مسائل کی وجہ سے نہیں بلکہ آئینی کمزوریوں کی وجہ سے ہے۔ بہت سے ممالک آج کے دور میں بھی اپنے فرسودہ حال آئینی ڈھانچے کے بل بوتے پر اپنا سیاسی نظام چلا رہے ہیں جو نہ تو ان کے جدید معاشی ترجیحات کا خواہاں ہے ، نہ حوصلہ افزا سول سوسائٹی کا روادار اور نہ ہی انسانی حقوق کا محافظ۔ اس سے بھی ذیادہ دکھ کی بات یہ ہے کہ ایسے آئین کی تبدیلی یا نظرثانی بھی بہت مشکل ہے۔ ایسے ممالک میں آئین کا وجود نہ تعلیمی نصاب میں نظر آتی ہے اورنہ میڈیا میں اس پر کوئی منطقی گُفت و شُنید ہوتی ہے۔ اس وجہ سے ان ممالک کے عوام اپنے ہی آئین سے بیگانہ ہیں۔ نہ ان کو اپنے حقوق کا ادراک اور نہ ذمہ داریوں کا پتہ۔ ہزہائنس کے نزدیک ایک بہترین Democratic Governanceکے لئے پہلا قدم عوام کی اپنے آئینی اصولوں (Constitutional Principles) کی بہتر سمجھ ہے۔ لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ بڑے بڑے حکومتی فیصلوں کا ڈھورا اکثریتی عوام کے ہاتھوں میں دینا چاہئے۔


جمہوریت کے بنیادی تعریف پر تنقید کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ کہنا آسان ہوگا کہ
Democracy is the rule of people, by the people and for the people.
لیکن کیا حکومتی فیصلے کثرت رائے ، ریفرنڈم یا عوامی انتخاب کے رحم و کرم پر چھوڑا جاسکتا ہے ۔ ہزہائنس کسی بھی ایسے عمل کو خطرہ قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں ۔


Such misapplied versions of democracy can produce irrational leadership choices and poorly informed policies. Sometimes, efforts to impose simplistic popular democracy can create voids of governance, which can be exploited to dangerous ends۔

قدیم یونان اور موجودہ دور کی جمہوری نظام میں ایک فرق آبادی کا تناسب ہے۔کسی اہم فیصلے کی خاطر چند افراد کو ایک صحت مند ماحول میں بیٹھا کر کسی ممکنہ نکتے پر متفق کیا جا سکتا ہے جو کہ قدیم یونان کے جمہوری عمل کے لئے مثالی ہے لیکن لوگوں کے ہجوم کا ایسا ہونا تقریباً قابلِ عمل نہیں۔ ایسے میں میڈیا وہ واحد ذریعہ ہے جو اس عمل میں معاون و مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ لیکن کیا میڈیا پر من وعن بھروسہ کیا جاسکتا ہے؟ ہزہائنس کے نزدیک باہمی فاصلوں اور گوناگونی کو درپیش مسائل پر قابو پانے کے لئے محض communication technologiesپر انحصار عقل مندی نہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ یہی موصلاتی آلات مختلف ادوار میں ہمیں یکجا کرنے کے بجائے ہمارے درمیاں دوریاں پیدا کرنے کے موجب بنے۔ پرنٹنگ پریس،ٹیلی گراف، مائکروفون، ٹیلی وژن، کیمرہ،موبائل فون اور انٹرنیٹ جیسے موصلاتی آلات ہم سے کئے گئےاپنے وعدے پر نہ اُتر سکے۔ ان آلات کی جدد سے اگر information کی ترسیل میں تیزی آئی لیکن اس کے ساتھ ساتھ misinformation اور disinformation کی ابلاغ میں بھی اضافہ ہوا۔ جتنی جلدی اور وسیع پیمانے پر سچائی کا پرچار ہو سکتا ہے اتنا ہی جھوٹ اور افواہ بھی پھیلائی جا سکتی ہے۔ ہزہائنس ہماری توجہ ایک اہم نکتے کی جانب کی طرف کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ہمارا technology نہ ہمیں بچا سکتا ہے اور نہ ہمیں نقصان پہنچا سکتاہے البتہ یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم ان کا استعمال کن معنوں میں کرتے ہیں۔ ہمارے مستقبل کا تعین ان آلات کے صحیح یا غلط استعمال پر ہوگا نہ کہ ان آلات کی طاقت پر۔


یہ سب سے اہم ہے کہ ترجیحی بنیادوں پر نہ صرف آذاد میڈیا کے کردار کو یقینی بنایا جائے بلکہ ان کے آزاد تکثری آواز کی قدردانی بھی کی جائے ۔ یاد رہے کہ Nation Media Group افریقی میڈیا نیٹ ورک میں سب سے پہلا اور سب سے بڑا میڈیا گروپ ہے جسے ہزہائنس پرنس کریم آغا خان نے کینیا کی آزادی کے موقع پر قائم کیا تھا جو کہ۶۰ سالوں سے افریقہ کے حالاتِ حاضرہ پر شفاف خبروں اور تبصروں سے دنیا کو باخبر رکھے آرہا ہے۔


ایک بہترین جمہوری نظام کا تیسرا اہم پہیہ سول سوسائٹی ہے جس پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ہم اکثر private sector اور public sector کا ذکر کرتے رہتے ہیں لیکن ایک اور اہم سیکٹر سول سوسائٹی بھی ہے جو جمہوری ناامیدیوں کے خلا کو پُر کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ سول سوسائٹی کی آبیاری زندگی کے تمام شعبوں پر مشتمل نجی طاقتوں کی کوششوں سے آتی ہے جن میں تعلیم کا شعبہ، صحت، سائنٹفیک ریسرچ، کامرس، ادب و فنی تنظیمیں، مذاہب، مواصلات اور ماحولیات کے شعبے ہیں۔ یہ تمام نجی طاقتیں ایک ایسی سول سوسائٹی کی تشکیل کرتے ہیں جو بہتر کے انتخاب میں سرگردان رہتا ہے۔ سول سوسائٹی اپنی صلاحیت اور قابلیت سے جمہوریت کے classical definition کی بہتر ترجمانی کرتا ہے۔
Democratic Ethicsکو ہزہائنس پرنس کریم آغا خان آئیڈیل ڈیموکریسی کے چوتھے پہیہ کے طور پر پیش کرتے ہیں ۔ فرماتے ہیں کہ جمہوری اقدار انسانی ترقی میں حائل روکاوٹوں کو دور کرنے میں اور بہتر معیارِ زندگی کے حصول میں پُر عزم ہوتےہیں۔ انسانی معاملات میں برداشت، رواداری اور جہالت و بے حسی کے خلا کو پُر کرنے میں اخلاقی اقدار کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ Democratic Ethics میں نہ صرف گوناگونی اور اختلاف کو خوش آمدید کہنے کی صلاحیت ہوتی ہے بلکہ اس کی بہتر تشریح کرنے میں بھی فراح دلی کا عنصر موجود ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ایک آئیڈیل ڈیموکریسی میں اختلافات کو بوجھ ماننے کے بجائے عظیم نعمت تسلیم کرنا جمہوری اقدار کے مرہوں منت ہے۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
43462