Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

سیاسی سکولوں کا انضمام …….محمد شریف شکیب

شیئر کریں:

خیبر پختونخوا حکومت نے صوبے بھر میں 184سکولوں کو طلبا کی پچاس سے کم تعداد کی وجہ سے قریبی سکولوں میں ضم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جن میں پشاور کے 22، سوات51، ڈیرہ اسماعیل خان12، لکی مروت 56، ایبٹ آباد 32، بنوں گیارہ، شانگلہ نو، ملاکنڈ پانچ، بونیر تین، مانسہرہ تین اور ہنگو کے دوپرائمری سکول شامل ہیں۔راشنیلائزیشن پالیسی کے تحت جن سکولوں کو بند کیا جارہا ہے اس سے حکومت کو ڈیڑھ کروڑ روپے کی بچت ہوگی۔ کرائے کی عمارتوں میں قائم سکول مالکان کو واپس کئے جائیں گے اور جن سکولوں کی اپنی عمارتیں موجود ہیں وہ غیر روایتی سکولوں کو دیئے جائیں گے۔ محکمہ تعلیم کے مطابق بند کئے جانے والے سکولوں میں زنانہ و مردانہ پرائمری اور مڈل سکول شامل ہیں یہ سکول پالیسی کے برعکس دوسرے سکولوں سے ڈیڑھ کلو میٹر سے کم فاصلے پر تعمیر کئے گئے تھے اور وہاں طلبہ کی تعداد چالیس سے بھی کم تھی ۔ مطلوبہ تعداد سے کم طلبا کے حامل سکولوں کو بند کرنے کا فیصلہ سابقہ صوبائی حکومت نے 2017میں ہی کیا تھا۔ سابقہ حکومت نے ایسے ایک ہزار سکولوں کی نشاندہی کی تھی جن میں پشاور کے پنتالیس، مانسہرہ کے سو، ایبٹ آباد کے پنسٹھ، بنوں کے ساٹھ، بٹگرام کے نوے، کوہستان کے ستاسی، چارسدہ کے اٹھاون، چترال کے پچپن، مردان کے ساٹھ، ہری پور کے ساٹھ ، صوابی کے پچپن، لکی مروت کے ساٹھ، ڈیرہ اسماعیل خان کے بارہ، ملاکنڈ کے پندرہ، سوات اور ٹانک کے دس دس، تورغر کے سات اور نوشہرہ کے چار سکول شامل تھے۔یہ سکول گذشتہ بیس سالوں کے دوران سیاسی بنیادوں پر قائم کئے گئے تھے۔ محکمہ تعلیم نے پالیسی پر عمل کرنے کی کوشش کی تو ایم پی ایز ناراض ہوگئے اور انہوں نے اوپر سے احکامات جاری کروادیئے۔ سیاسی مفادات کی بنیاد پر قائم کئے گئے ان سکولوں میں اکثر سٹاف بھی نہیں ہوتاتھا۔سوچنے کی بات ہے کہ آج اگر ان سکولوں میں بچوں کی تعداد پچاس سے کم ہے تو دس پندرہ سال پہلے جب انہیں کھولا گیا تھا۔ اس وقت تعداد پندرہ بیس سے زیادہ نہیں ہوگی۔ اپنے سیاسی مفاد کی خاطر لوگوں نے قومی خزانے کو اربوں کا نقصان پہنچایا۔ اور بالاخر ان سکولوں کو بند کرنا پڑا۔کہا جاتا ہے کہ کسی قوم کی ترقی سکول سے شروع ہوتی ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت نے اس قومی ضرورت کا احساس کرتے ہوئے تعلیم کو اپنی اولین ترجیح قرار تو دیا ہے لیکن پانچ سالہ دور حکومت میں بھی مطلوبہ مقاصد حاصل نہ کرسکی۔ آج بھی خیبر پختونخوا میں سکولوں کی حالت ناگفتہ بہہ ہے۔2005کے ہولناک زلزلے سے 2700سکول تباہ ہوئے۔جن کے ڈیڑھ لاکھ بچے ابھی تک کھلے آسمان تلے تحصیل علم کے لئے کوشاں ہیں۔ دہشت گردی کی لہر میں صوبے کے 237سکول مکمل طور پرتباہ اور367کو جزوی نقصان پہنچا۔ 2010کے تباہ کن سیلاب میں 1694سکول صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔ اور ان میں پڑھنے والے لاکھوں بچوں کا تعلیمی مستقبل داو پر لگ گیا۔ صوبے بھر میں پانچ سے سولہ سال کی عمر کے بچوں کی تعداد 71لاکھ سے زیادہ ہے۔ سکول جانے والے 73فیصد بچے سرکاری سکولوں،26فیصد پرائیویٹ سکولوں اور ایک فیصد مدرسوں میں پڑھتے ہیں۔25لاکھ بچے اب بھی سکولوں سے باہر ہیں جن میں68فیصدلڑکیاں اور 32فیصد لڑکے شامل ہیں۔شہری علاقوں میں تعلیم نسواں کی شرح بہتر ہے لیکن دیہی علاقوں میں صورتحال ناگفتہ بہہ ہے۔ لکی مروت میں خواتین کی شرح خواندگی صرف دس فیصد اور کوہستان میں صرف تین فیصد ہے۔سکول چھوڑنے والی لڑکیوں کی شرح43فیصد اور لڑکوں کی 29فیصد ہے۔ پرائمری
کلاس میں داخلہ لینے والی 100میں سے صرف 28لڑکیاں مڈل یا میٹرک کی سطح تک پہنچ پاتی ہیں۔ صوبے بھر میں ایک ہزار چھ سو سکول آج بھی غیر فعال ہیں۔تعلیمی ایمرجنسی کے نفاذ اور اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود 22فیصد سکولوں کی عمارتیں مخدوش ہیں۔ 48فیصدسکول بجلی ،35فیصد صاف پانی،25فیصد بیت الخلاء کی سہولت اور 27فیصد سکول چاردیواری سے محروم ہیں۔صوبائی حکومت جب تک سکولوں سے باہرموجود پچیس لاکھ بچوں کو سکول لانے کی حکمت عملی وضع نہیں کرتی۔ تعلیم مفت اورعام کرنے کے مقاصد حاصل نہیں ہوسکتے۔ بھوت سکولوں اور بھوت اساتذہ پر ضائع ہونے والے قومی وسائل بچانے کے لئے بھی کوئی لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا۔ تاکہ قومی وسائل کا نقصان روکا جاسکے۔


شیئر کریں: