Chitral Times

Apr 27, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

16 دسمبر،ایک تلخ دن …..تحریر : ماجد رحمن

شیئر کریں:

ویسےتو سال کے بارہ مہینے ہوتے ہیں لیکن اگست اور دسمبر ہماری تاریخ میں الگ اہمیت کے حامل ہیں. ایک مہینہ خوشیاں لے کر آیا اور ایک مہینہ غموں کے پہاڑ سے ہمارا منہ چڑا رہا ہوتا ہے.
جب بھی اگست کا مہینہ آتا ہے ، عجیب سی فرحت ہوتی ہے، گلیوں ، کوچوں ، چوراہوں ، محلوں ، بازاروں اور شہروں میں پاکستان کا جھنڈا لہراتے دیکھ کر میرا بھی جی کرتا ہے کہ میں بھی ایسے ہی ہوا میں لہراوں ، اور بچے جوان، ادھیڑ عمر اور بوڑھے سارے یہی نغمہ گارہے ہوتے ہیں کہ “اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہے “
ان تمام غازیوں اور شہیدوں کے لیے دل سے دعائیں نکلتی ہیں جنہوں نے ہمارے آج کل لیے اپنا کل تیاگ دیا، انہی کی ناقابل فراموش قربانیوں کی وجہ سے ہم آج کھلی فضاء میں سانس لے پارہے ہیں.

تصورات کے صحرا میں ان مناظر کو لانے کی کوشش کرتا ہوں جب 14 اگست کی رات کو پاکستان کے قیام کا اعلان ہوا ، تو اس وقت لوگوں کے چہروں پر وہ خوشی کیسی دیدنی ہوگی ، ان کی ظاہری اور باطنی حالت کیسے ہوگی ، وہ کیسے جھومے ہونگے ، کیسے ایک دوسرے کو مبارکباد دیے ہونگے.

پھر اپنا بچپن اور بچپن سے جھڑی یادیں ، گھر بار، عزیزواقارب کو چھوڑ کر کیسے عجلت میں پاکستان کی طرف ہجرت کیے ہونگے، اور راستے میں ہندوں کا ستم , سکھوں کا حملہ، اپنے پیاروں کا ایک دوسرے سے بچھڑنا ، نظروں کے سامنے اپنوں کو تڑپنا دیکھنا اور بےگوروکفن لاشیں چھوڑ کر پاکستان کی طرف رخ کرنا، اور یہاں پہنچ کر مہاجر کیمپیوں میں پہنچ کر دھکے کھانا ، اپنوں کے طعنے سننا ، امارت میں پلے ہوئے لوگوں کا ایک دم غربت کو اپنے سائبان میں اترتے دیکھنا ، کیسے کیسے امتحانوں سے لوگ گزررے ہیں ، شہاب نامہ میں ایسے مناظر دیکھ کر رونگھنٹے کھڑے ہوجاتےہیں ،

اور جب دسمبر آتا ہے تو پھر ایک دفعہ پھر ذہن مختلف خیالات میں غلطاں نظر آتا ہے، سولہ دسمبر ان غازیوں پر جو سولہ دسمبر 1971 کو زندہ تھے کیسے پہاڑ بن کر ٹوٹا ہوگا، کیسے ان کے خوابوں کا محل ان کے آنکھوں کےسامنے گرا ہوگا؟

اسکول کے دنوں میں تو بلکل یقین نہیں کہ اقبال کے شاہین کیسے ہندوں بنیوں کے آگے ہتھیار ڈال سکتے ہیں، کہاں خالد بن ولیدؓ ساٹھ جانثاروں کے ساتھ ساٹھ ہزار کے مجمع میں گھس جاتےہیں اور فتح ان کا مقدر بن جاتی ہے کہاں ان کے نام لیوا پورا ملک ہی دشمنوں کے حوالے کرتے ہیں.
مجھے لگتا تھا کہ یہ سب جھوٹ ہوگا، ایسا نہیں ہوگا یہ کوئی افسانہ ہوگا، لیکن جب خود پڑھا ، خود سنا تو یقین کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا ،

انگریزوں کی عیاری، اپنوں کی غداری، مرہٹوں سے جنگ، جنگ آزادی ، ہندووں کی چالاکی، سکھوں کا جبروستم، جانے کتنے جوکھموں کے بعد یہ ملک حاصل کیا تھا ، جس کی بنیاد لاالہ الا اللہ بنا تھا ، جو ملک قومیت کا بت توڑ کر مذہب اور نظریہ کی بنا پر بنا تھا ، پوری قوم اقبال کی اس مصرعہ کی عملی تصویر بن گئی تھی،
بتان رنگ و بو کو توڑ کر ملت میں گم ہوجا

وہی ملک 24 سال کر اندر دو لخت ہوا اور قومیت و لسانیت کے نام پر بنگلہ دیش بنا،

ایک اضطراب سا ہے اندر ہی اندر ، کونسے محرکات تھے ؟، کیا وجوہات تھیں؟ ، ایسے عداوتیں کیوں پالی گئیں؟، کیوں نفرت کے ایسے بیج بوئیں گئے ؟
جس کی وجہ سے مذہب کی نام پر بننے والا ملک ٹوٹا اور وجہ قومیت بنی، یعنی وطن خدا بنا.
ذہن اس بات کو مان ہی نہیں رہا ہے ،
مسلم لیگ کی بنیاد ڈھاکہ میں رکھی گئی، قرارداد پاکستان ڈھاکہ میں پیش کی گئی ، پیش کرنیوالا مولوی اے کیوں فضل الحق وہی کا تھا ، آزادی کی جنگ ایک دوسرے کے ساتھ شانہ بشانہ لڑے، پھر آزادیوں کی خوشیاں ملکر منائیں ، اس کے بعد ایسا کیا ہوا اور کیوں ہوا،
برگیڈ صدیق سالک کو پڑھا , انہوں نے وہی لکھا ہے، جو ایک فوجی پر گزری ، ایک فوجی نے محسوس کیا۔

ایک سویلین محب وطن سے کیسے غدار کیسے بنا, وہ کیوں اپنے بھائیوں کے خون کے پیاسے ہوئے؟
نہ اس پہ اسکولوں میں بحث کی جاتی ہے, نہ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں میں پڑھایا جاتا ہے، درسی کتب میں بھی صرف ایک ہی جملہ رٹایا جاتا ہے ، ” اپنوں کی نااتفاقی اور غیروں کے ستم کی وجہ سے ملک دو حصوں میں تقسیم ہوا
کیا صرف ایک جملہ سے ہم آنیوالی نسلوں کو مطمن کرسکیں گے؟

کس نے اندرا گاندھی کو کہنے کا موقع دیا کہ آج میں نے دو قومی نظریہ گنگا میں دفن کردیا؟

آج بھی سوشل میڈیا پر کسی انڈین سے بحث ہو تو وہ آگے سے جنرل اروڑا سنگھ کے سامنے جنرل نیازی کا جھکا ہوا سر والی تصویر لگا کر ہمارا منہ چڑاتا ہے، جیتی ہوئی بحث کو ایک تصویر سے ہرادیتے ہیں۔
کسی بنگلہ دیشی سے بات کرو تو اس کےلب و لہجہ میں وہی اپنایت ہوتی ہے وہ بھی اس سانحہ ہر آج تک بیچین ہیں ، ویسے تو یہ کہاجاتا ہے بنگلہ دیش معیشت میں ہم سے آگے نکل گیا، لیکن غریب وہاں بھی غریب ہے ، یہاں بھی
میرے بس میں تو تو میں سولہ دسبر کو کلینڈر اور تاریخ دونوں سے اکھاڑ پھینکو , لیکن ایسا ممکن نہیں

قائد اعظم کہ وفات کے بعد کے حالات کا تجزیہ کیا جائے تو بنگلہ دیش کا قیام ناگزیر تھا،ہاں البتہ اتنی جلدی ایسا سانحہ ہوگا ، یہ شاید کسی کے بھی وہی و گماں میں نہ ہو، بقول شاعر

حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
وقت کرتا ہے پرورش برسوں،

میرے نزدیک سانحہ مشرقی پاکستان جنگ عظیم اول اور دوئم سے بڑا حادثہ ہے، دو عالمی جنگوں کے بعد دنیا نے سبق سیکھا اور ایسے خوفناک جنگوں سے بچنے کے لیے اقوام متحدہ کا قیام عمل میں لایا گیا، کیا ہم نے ایسے سانحات سے بچنے کے لیے کوئی سیر حاصل بحث کی؟ کیا ہم نے اپنے غلطیوں کی نشاندہی کی؟ کیا ہم نے مستقبل کے لیے کوئی روڑ میپ بنالیا؟ جواب نفی میں ہے,

آج پھر سے وہی حالات ہیں خاکم بدہن ، آج پھر ہم بیج منجھارپر کھڑے ہیں،
ہر پارٹی اپنے آپ کو محب وطن اور دوسروں کو غدار سمجھتی ہے۔ وہی غداری کے فتوے ، وہی لسانی لڑائیاں ، وہی قومیت کے نام ہر منافرت ،سیاست کے نام پر دشنام طرازی کا بازار گرم ہے،
کوئی ایسا شخص ، ادارہ یا تنظیم ہے جو ہمیں ان بکھیڑوں سے نکال کر مستقبل کی صحیح سمت کا تعین کرے؟
ماضی کی غلطیوں پر معافی مانگنے اور ان کو سدھارنے سے ہی مستقبل میں غلطیاں کم سے کم ہونگی، اس بات کا ادراک ہمیں کب ہوگا؟

جاپانیوں کی مثال ہمارے سامنے ہیں ، کیسی ذلت آمیز شکت کے بعد دوبارہ سے ایک قوم بن گئے۔ آج بھی ان کے بچے ایٹمی دھماکوں اور اسکے تباہ کاریوں کی وجہ سے معذور پیدا ہورہے ہیں لیکن اپنے علم و دانش سے پھر سے ترقی کی زینوں پر دوڑتے جارہے ہیں۔اور دنیا ان کو تسلیم کررہی ہے. ہمیں ایسا ہی کرنا ہوگا.آگے بڑھنے کے لیے ماضی کی غلطیوں سے سیکھنا ہوگا. ماضی سے چشم پوشی کرکے وہی غلطیاں دھرا کر قومی و ملکی تعمیر و ترقی ناممکن ہے. اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو.


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
43459