Chitral Times

Apr 26, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

اور کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتارہا …….افضل محمد صدیقی ریری

Posted on
شیئر کریں:

راقم سوشل میڈیا چونکہ بہت ہی کم استعمال کرتا ہے اخبار بینی کا بھی کم ہی موقع ملتا ہے اس لئے اکثر خبروں سے بے خبر ہی رہتا ہوں چند روز پہلے ایک قریبی دوست سے ملاقات ہوئی ،تو ا نہوں نے گذشتہ دنوں ثقافت ڈے کی مناسبت سے پشاور میں ہونے والی ایک بیہودہ پروگرام کا ذکر کیا ،جس میں چترال کے عالی قدر روایات کا انتہائی بھونڈے طریقے سے مذاق اڑایا گیا مجھے تو پہلے سن کر یقین نہیں آیا مگر انہوں نے وہ ویڈیو دیکھائی جسے دیکھ کر میں تو ششدر رہ گیا ،ایک سٹیج سجایا گیا جس میں چترال سے تعلق رکھنے والی چند بیٹیاں ڈھول کے تھاپ پر چترالی زبان میں گاناگارہی تھیں ،اور ساتھ میں رقص بھی کررہی تھیں ۔میرے ناقص معلومات کے مطابق چترال کی تاریخ میں ایسی بے ہودگی پہلی مرتبہ ہوئی جس میں چترال کی بیٹیوں کا ثقافت کے خوش نما نام پریوں سر عام تماشا بنایا گیا ۔وطن عزیز میں بسنے والی چترالی قوم اپنے خاص روایات رکھتی ہے اعلیٰ اقدار سے متصف یہ قوم دنیا کے جس کونے میں بھی رہتی ہے انہیں قدر ومنزلت کی نگاہوں سے دیکھا گیا ہے اور دیکھا جاتا ہے ۔جس کی بنیادی وجہ اس قوم کی اسلام سے محبت اور اپنا ایک خاص مزاج جس میں پُر امن رہنا محنت کشی اور شرم و حیا سے متصف رہنا سر فہرست ہے ۔لیکن کلچر جیسے دلفریب الفاظ میں اس قوم کے اعلیٰ اقدار کے ساتھ کوئی سوچی سمجھی سازش ہورہی ہے ۔جس کے نتائج مستقبل میں پوری قوم کے لئے بھیانک ہوسکتے ہیں ۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ دین اسلام اس طرح کے تقریبات کی بالکل حوصلہ افزائی نہیں کرتا قرآن و حدیث میں گاناگانے پر شدید وعیدیں آئی ہیں ،

جناب نبی کریم ﷺکی ایک طویل حدیث ہے فرمایا جب گانے والی عورتوں اور باجوں گاجوں کا رواج عام ہوجائے اور شراب پی جانے لگیں تو تم اس وقت انتظار کرو ایک سرخ آندھی کا اور زلزلہ کا اور زمین میں خسف ہوجانے کا اور صورتیں مسخ ہوجانے کا ۔ایک اور حدیث میں جناب نبی کریم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں ’’میری امت کے کچھ لوگ شراب کو اس کا نام بدل کر پئیں گے اس کے سامنے معازف ومزامیر(ڈھول باجے) کے ساتھ عورتوں کا گانا ہوگا ،اللہ تعالیٰ ان کو زمین میں خسف (دھنسا )کردے گا اور بعض کی صورتیں مسخ کرکے بندر اور سور بنادے گا ‘‘

اتنے واضح وعیدوں کے بعد اس طرح کے غیر شائستہ پروگرام کا انعقاد کرانا ایک بہت بڑی جسارت معلوم ہوتی ہے اور گناہوں پر اعلانیہ جسارت کرنے والا مجاہرکہلاتا ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے نبی کا ارشاد ہے ’’میری امت کے تمام خطاکاروں کی بخشش ہوگی مگر اعلانیہ گناہ کرنے والوں کو نہیں بخشا جائے گا ‘‘ایک طرف اس رنگ کے غیر شائستہ پروگرام کیا جارہا ہے اور پھر ستم بالائے ستم یہ کہ ہمارے چترال کے کچھ حضرات اس نامناسب عمل کی مذمت کے بجائے اس کی حمایت میں تحریریں جھاڑ رہے ہیں اور ویڈیو پیغامات کے ذریعے ان بیٹیوں کو خراج تحسین پیش کررہے ہیں اب اس ہٹ دھرمی پر آنسو ہی بہایا جاسکتا ہے ۔ویسے سوچنے کی بات ہے ہم معاشرتی طور پر اندر سے کتنے دوغلے اور کھوکھلے ہوچکے ہیں جب بات اپنی گھر کی عورت کی آتی ہے تو ہماری غیرت کو جوش آجاتاہے ،مگر جب دوسرے کی بہن بیٹی ہو پھر ہم ایک نہیں بلکہ دو دو ہاتھوں سے سلام پیش کرتے ہیں ۔

میں ان تمام قابل احترام دوستوں کی خدمت میں ادب و احترام کے تمام تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے ایک سوال رکھنے کی جسارت کروں گا تلخ نوائی پر پیشگی معذرت بھی چاہوں گا ۔آپ کچھ دیر کے لئے خود کو ان بیٹیوں کے باپ بھائی کے منصب پر رکھیں آپ کی بہن بیٹی کا ثقافت کے نام پر یو ں سرے عام تماشہ بن جائے اور اس کے بعد آپ کو خراج تحسین کے پیغامات بھی وصول ہوجائیں تو آپ کا کیا رد عمل ہوگا ؟؟بحیثیت مسلمان مجھے کم از کم اپنی بہن بیٹی کا یوں رسوا ہونا بالکل بھی برداشت نہیں ہے ۔پھر ہمیں دوسروں کی بہن بیٹیوں کو بھی اتنا ہی احترام وعزت دینا ہوگا ۔ورنہ یہ دو رنگی سخت نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے ۔بقول شیخ سعدی ؒ

ترسم کہ نہ رسی بہ کعبہ اے اعرابی
کیں رہ کہ تو می روی بترکستان است

آخر میں چترال کے تمام علماء کرام دانشور اور غیور عوام سے دلی درخواست ہے کہ اس طرح کے پروگرامات کو روکنے کی کوشش کریں کم ازکم ہماری نئی نسل ان بیہودگیوں بچ جائیں ۔

اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی
ہم نے تو دل جلا کے سر عام رکھ دیا


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
20981