Chitral Times

Apr 25, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

محجورزیست…..میرے کچھ شکوے…..تحریر:دلشاد پری بونی

Posted on
شیئر کریں:

خوب سے خوب تر کی تلاش انسان کی ازلی فطرت ہے یہی وجہ ہے کہ میں نے بھی ایک اچھی پوسٹ کے لئے قسمت آزمائی کی۔اور دن رات محنت کرتی رہی۔ اور چھ ماہ کی طویل انتظار کے ببعدوہ لمحہ ایا بھی تو جنوری کے مہینے میں َ۔شش و پنج میں رہنے کے بعد آخر کار رخت سفر باندھ لی۔اتنی سردی اور خراب موسم میں کوئی کوا بھی اپنے بچوں کو باہر نہیں چھوڑ سکتا۔ جنوری کا مہینہ اور اوپر سے برف باری اور اتنے خراب راستے۔جانا تو تھا ۔کیا کرتی۔اللہ پاک کا نام لے کر روانہ ہو گئی۔ہچکولے کھاتی گاڑی ان کھنڈر نما راستوں سے گزر کرلواری ٹنل میں ُ پہنج گئی تو قیامت کا منظر دیکھنے کو ملا۔۔تمام گاڑی پھنسے ہوئے اوراوپر سے برف باری۔چار گھنٹے انتظار کے بعد اخر کار ہم لوگ چترال سے نکل ہی گئے۔جوں جوں برف زمین میں گر کر جذب ہوتے جا رہے تھے توں توں میرے ذہن سے سارے ازبر کئے ہوئے سوالات غائب ہو رہے تھے۔پورے اٹھارہ گھنٹے سفر کرنے کے بعد جب پشاور پہنچ گئی تو تھکان دور کرنے لیٹ گئی اور اانکھ اس وقت کھل گئی جب ایگزام سے فارغ ہوکے لوگ نکل رہے تھے۔اس وقت مجھے غصہ نہی رونا آیا۔پھر بے اختیار ان نو جوانوں کا خیال ایا کہ نجانے کتنے چترالی جوانان آئے روز اپنے مستقبل سنوارنے نکل رہے ہونگے۔ہم لوگ تو اللہ پاک کے فضل سے برسر روزگار ہیں۔نجانے کتنے ایسے بھی ہونگے جو اپنے گھر کا چولہا جلانے کے اتنی طویل مسافت طے کرکے ایک ایگزام کے پیچھے خوار ہو رہے ہونگے۔

ہم میں سے ہر ایک کی تو رشتہ دار وہاں پہ تھوڑی ہیں۔ایک غریب آدمی کو کتنے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب وہ کچھ بننے کے خواب آنکھوں میں سجا کر اپنے مستقبل سنوارنے اتنی دور جاتے ہیں تو وہ کیا کرے گا؟ٹیسٹ کی تیاری کرے گا یا کرایے کی فکر کرے یا رہائش کی؟کیا ایسا نہی ہو سکتا کہ ہمارے مغزز لیڈران ایک دوسرے پر طنز کا گولہ برسانے کے بجائے کچھ فلاحی کاموں میں حصہ لے کر یا کھنڈر راستوں کی کچھ مرمت کرے یا ہمارے مقابلے کے تمام امتحانات چاہے وہ پی ایم ایس ہو۔سی ایس ایس ہو ۔این،ٹی ایس یا پبلک سروس کمیشن کا کوئی اور ایگزام۔ان کا ایگزامینیشن سنٹر چترال ہی میں رکھنے کے لئے آواز اٹھائے۔کیونکہ سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا ہمیں کرنا پڑ رہاہے۔سب سے دور علاقہ بھی ہمارا۔پسماندہ بھی ہم۔اگر کے پی کے دیگر علاقوں کے لوگ اپنے گھروں سے صبح نکلتے ہیں تو شام کو ٹیسٹ دے کر واپس اپنے گھر پہنچ جاتے ہیں۔نہ انہیں چترالیوں کی طرح نہ لمبا سفر کرنا پڑتا ہے۔نہ ان کے علاقوں کے راستے اتنے خراب ہیں۔۔دو تین سرکاری عہدے داروں کو سرکاری خرچے پہ زحمت دے کے یہاں پہ بلانا ٹھیک ہے بہ نسبت پورے چترالی عوام کو پشاور گھسیٹنے سے۔۔
.
جب خودکشی وغیرہ کی بات آتی ہے تو کہتے ہیں کہ زہنی تناوٗ بڑی وجہ ہے۔اور یہ وجہ وہ لوگ بتاتے ہیں جو خود تو پکے راستوں کے عادی ہیں اور مرسیڈیز میں سفر کرتے ہیں ََ۔کھبی کسی نے غلطی سے بھی اس زہنی تناؤ کو دور کرنے کا کوئی موقع ہمیں عنایت کیا ہے؟
.
واپسی میں جب سوات موٹر وے سے ہو کر آگے بڑھتے رہے تو بی پی غصے سے ہائی ہونے لگا اور اپنے آپ پر بلی چوہے ہونے کا گماں ہوا۔کیونکہ وہ سوات جو 2010 تک دہشت گردی کی زد میں ہونے کی وجہ سے پسماندگی کی طرح چلا گیا تھا وہ اتنے کم عرصے میں پھر ترقی کی راہ میں گامزن۔یاتو اس کے عوام اپنے حق کے لئے لڑنا جانتے ہیں یا اس کے لیڈر با شعور ہیں۔

ہونا تو یہی چاہیئے تھا کی پاکستان کا سب سے پر امن علاقہ چترال ترقی کے میدان میں سب سے آگے نکل جاتا کیونکہ یہاں پہ کسی بھی نا خوشگوار واقعہ رونما ہونے کا ڈر نہی۔مگر شومئی قسمت ہم ابھی سوئے ہیں اور جو جاگے ہوئے کچھ لوگ ہیں ان کو بھی حالات پھر سو جا نے پہ ہی مجبور کر دیتے ہیں۔آخر کب تک؟کیا ہماری کوئی پہچان نہی؟کیا ہمیں بھی جینے کا کوئی حق نہی؟؟؟؟
.
ایک روٹی جو پشاور میں دس روپے پہ فروخت ہو جاتی ہے اور وہی روٹی چترال میں بیس روپے پہ فروخت ہو جاتی ہے۔۔اگر دیگر علاقوں کیطرح ہمیں بھی صحت کے بنیادی سہولیات فراہم کی جائے تو لاکھوں روپے خرچ کرکے شہر کا رخ نہ کرنا پڑے گا۔تقریروں میں خوب چترال کے ساتھ ہمدردی رچائی جاتی ہے۔مگر عملی زندگی میں ہمارے مشکلات دور کرنے والا کوئی بھی نہی۔
ایک اشتہا ر پہ نظر پڑی تو اور بھی اپنے کم مائیگی پہ افسوس ہونے لگا۔یا جس میں لکھا تھا کہ بلوچستان فرنٹیئر کور میں بھرتی برائے لیڈی اسسٹنٹ اینڈ لیڈی سولجر اور ساتھ ہی لکھا تھا کہ ضلع چترال بھرتی مقام مردان ۔۔جی ہاں اب مردان میں جا کے ہمارے بیٹیوں کو خوار ہونا پڑے گا،کیا یہ بھرتیاں ہمارے اپنے علاقے کے اندر نہی ہوسکتے؟؟؟
.
میں اپنے لیڈروں سے اس تحریر کی وساطت سے درخواست کرتی ہوں کہ کچھ نہ کچھ ہمارے فائدے کے لئے کرے۔ہمارے حق کے لئے آواز اٹھائیں۔ کیونکہ غربت بیروزگاری سب مواقع اور سہولیات زندگی فراہم کرنے سے ختم ہوسکتے ہیں۔اور زہنی سکون بھی زندگی کی بنیادی ضروریات زند گی کی فراہمی سے ملتی ہے۔۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
31548