Chitral Times

پاکستانی تاریخ کے پراسرار قتل – پروفیسر عبدالشکور شاہ

پراسرار واقعات اورحادثات کاانسانی تاریخ سے گہرا تعلق ہے۔ ادوار کے تنوع، انسانی تخلیقی صلاحیتوں میں رونما ہونے والی تبدیلیوں اورجدید ٹیکنالوجی کے باوجود، ابھی تک ایسے بے شمارپراسرار واقعات موجودہیں جنہیں ہم حل کرنے میں ناکام رہے۔ دیگر دنیا کی طرح پاکستانی تاریخ میں بھی بہت سارے پراسرار واقعات ہیں جن کی گھتی ہم آج تک سلجھانے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ان پراسرار واقعات میں سے ایک قتل محترمہ بینظیر بھٹو کا ہے۔ بینظیر بھٹو کو27دسمبر 2007کوایک جلسے کے دوران  راولپنڈی لیاقت باغ میں شہید کر دیا گیا۔فائرنگ کے فورا بعد خودکش دھماکہ کیا گیا۔محترمہ کی شہادت کے بعد ان کی پارٹی برسراقتدار آئی اور ان کے خاوند آصف علی زرداری ملک کے سربراہ ہونے کے باوجود محترمہ کے قاتلوں کو تلاش کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہے۔

پیپلز پارٹی کی اعلی قیادت بھی محترمہ کے قتل سے متعلق ایک پیج پر نہ تھی۔محترمہ کی شہادت کے فورا بعد ان کا ریکارڑ حکومتی حکام نے قبضے میں لے لیااور متعلقہ ڈاکٹرز کو بھی اس معاملے پر بات کرنے سے روک دیا گیا۔ بدقستمی سے تدفین سے قبل کوئی روائیتی آٹوپسی تک نہ کی گئی کیونکہ محترمہ بھٹو کے شوہر نے آٹوپسی کرنے سے منع کر دیا تھا۔ اس معمے کو حل کرنے کے لیے سکاٹ لینڈ یارڈکی مدد بھی لی گئی مگر وہ بھی اس پراسرار کیس کو سلجھانے میں ناکام ہو گے۔ القاعدہ کمانڈر مصطفی الیزیدی نے اس منصوبے کی ذمہ داری قبول کی جبکہ سی آئی کے ڈائیریکٹر مائیکل ہیڈن کے بقول اس پراسرار قتل میں معسود گروپ ملوث تھا۔3اکتوبر2016کو محترمہ بھٹو کی جانب سے جنرل مشرف کو لکھے گئے خط میں اعجاز شاہ،ارباب غلام رحیم، چوہدری پرویز الٰہی اور جنرل حمید گل کو اپنے ممکنہ قتل کی منصوبہ بندی کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا۔

banazir bhutto shaheed ppp ex pm pakistan

محترمہ کی 4خفیہ ای میلز جنرل مشرف کو ممکنہ قتل کا موردالزام ٹھہراتی ہیں۔ بہت سے لوگ محترمہ کے خاوند کو ان کے قتل کا ذمہ دار تصور کر تے ہیں۔تاہم اتنا عرصہ گزر جانے کے باوجود بھی پاکستانی تاریخ کا یہ پراسرار قتل نہیں سلجھ نہ سکا۔ اسی طرح دوسرا پراسرار قتل جنرل ضیاء الحق کا ہے۔ جنرل ضیاء الحق حادثے کے وقت ملک کے صدر اور فوج کے سربراہ بھی تھے۔جنرل ضیاء الحق 17اگست1988کو ایک C-130طیارے کے حادثے میں شہید ہو گئے۔ بہت سے اعلی سو ل اور فوجی افسران بھی اس حادثے میں جان کی بازی ہار گئے۔اس حادثے کی تحقیقات کے لیے امریکہ نے ایئر فورس کی ایک ٹیم پاکستان بھیجی جس نے حادثے کی وجہ کو ایک تکنیکی خراب قرار دیا۔ پاکستان کی جانب سے تحقیقاتی ٹیم نے 365صفحات پر مشتمل خفیہ رپورٹ پیش کی جس میں دھماکہ خیز مواد کی آموں میں موجودگی ظاہر کی گئی۔جنرل حمید گل نے امریکہ کو حادثے کاممکنہ ذمہ دار ٹھہرایااور بین الاقوامی خفیہ ایجنسوں کو اس سازش میں ملوث قرار دیا گیا۔ کچھ لوگوں کے مطابق ضیاء الحق کو شہید کرنے کے درپے ایک حریف گروہ ال ذولفقار اور کچھ مذہبی گروہ تھے۔ کچھ اعلی فوجی افسران کو اس منصوبے کا ذمہ دار تصورکرتے ہیں مگر ان تمام مفروضوں کے باوجود اس پر اسرار قتل کی گھتی نہیں سلجھ سکی۔

پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو قتل بھی ایک معمہ ہے۔لیاقت علی خان کو 16اکتوبر1951کوراولپنڈی میں ایک جلسے کے دوران سینے میں دوگولیاں مار کرشہید کر دیا گیا۔ ایک پولیس افسر نے قاتل سید اکبر ببراک کو فورا موقعہ پر ہی گولی مار دی۔ قاتل ہزارہ کا رہنے والا ایک افغانی ماہر اور تربیت یافتہ قاتل تھا۔ کہا جا تا ہے کہ قاتل کو گولی مارنے والا پولیس افسر بھی اس سازش میں شامل تھا۔لیاقت علی خان کو شہیدکیا جانے والا اسلحہ اور گولیاں امریکی ساختہ تھی اور یہ اعلی امریکی فوجی افسران کے استعمال میں ہوتی ہیں۔کچھ طبقات گورنر جنرل غلام محمد اور کچھ مشتاق احمد گورمنی کو لیاقت علی خان کے قتل کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ کچھ طبقات امریکہ کو افغان حکومت کے زریعے لیاقت علی خان کوقتل کروانے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔تاہم ان تمام مفروضوں اور قیاس آرائیوں کے باوجود پاکستانی تاریخ کا یہ قتل بھی ابھی تک ایک معمہ بنا ہوا ہے۔

حکیم محمد سعید صاحب کا قتل بھی ایک پہیلی ہے۔ حکیم محمد سعیدایک عالم، طبعی محقق کے علاوہ سندھ کے سابقہ گورنر بھی رہ چکے تھے۔آپ ہمدرر فاونڈیشن کے بانی ہونے کے ساتھ ساتھ تقریبا200کتابوں کے مصنف بھی تھے۔آپ کو1998میں ہمدرد لبارٹیریز جاتے ہوئے شہید کر دیا گیا۔ متحدہ قومی مومنٹ کے نامعلوم قاتلوں کو گرفتا رکر کے سزائے موت دے دی گئی مگر اس قتل کے پیچھے کون تھا یہ راز ابھی تک حل طلب ہے۔لوگوں کی اکثریت الطاف حسین کو اس بے گناہ قتل کا ذمہ دار گردانتی ہے۔القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو 2مئی2011کو ممکنہ طور پر ایبٹ آباد میں امریکی سپیشل فورسسز نے ایک آپریشن کے زریعے شہید کرنے کادعوی کیا۔ امریکہ نے آئی ایس آئی کے سربراہ پر اسامہ کی موجودگی کے بارے علم ہونے کا الزام لگایا۔ اسامہ پرپینٹاگون حملے کا الزام تھا۔ امریکہ نے اسامہ کو ممکنہ طور پر مارنے کے بعد سمندر میں پھینک دیا۔ اسامہ کی لاش کوسمندر میں پھیکنے، اس کی تصاویر شائع نہ کرنے اور ا س کے ڈی این اے کے فوری نتائج نے اس آپریشن کو معمہ بنا دیا ہے کہ آیا اسامہ ایبٹ آباد میں موجودبھی تھا یا نہیں۔

بعض لوگوں کے مطابق اسامہ طالبان امریکی جنگ کے اوائل ہی میں شہید ہو گیا تھا اور امریکہ نے ایک نفسیاتی ڈرامہ رچایا۔اسامہ بن لادن کے خلاف آپریشن اور اسامہ بن لادن کی شہادت بھی ایک معمہ ہے۔ مصحف علی میرپاکستان فضائیہ کے سولہویں سربراہ تھے۔ آپ 20فروری2003کوطیارے کے ایک حادثے میں اپنی بیوی اور دیگر افسران سمیت کوہاٹ کے قریب شہید ہو گئے۔ فضائیہ کے مطابق حادثہ پائلٹ کی غلطی اور شدید موسمی خرابی کے باعث پیش آیا۔ایک تحقیق صحافی جیرالڈ پوزنرکی کتاب کے مطابق یہ حادثہ نہیں تھابلکہ مصحف علی میر سمیت تین دیگر اہم شخصیات سعودی شہزادہ ترکی بن فیصل السعودجو سعودی خفیہ ایجنسی کے سربراہ بھی تھے اور اسامہ بن لادن ایک منصوبے کے تحت شہید کیے گئے ہیں۔ سعودی شہزادہ مریکہ کے ہاتھوں پاکستانی اڈوں کے استعمال کے شدید مخالف تھا۔مصحف علی میر کی شہادت بھی دیگر پر اسرار واقعات کی طرح ایک معمہ ہی ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
56690

دوائے دل ۔ پیکر خلوص و شرافت مولانا محمد نعمت اللہ چترالیؒ ۔ (محمد شفیع چترالی)


جامعہ دارالعلوم کراچی کے بزرگ استاذ اور راقم الحروف کے سسر محترم مولانا محمد نعمت اللہ چترالی گزشتہ ہفتے اچانک حرکت قلب بند ہوجانے سے اللہ کو پیارے ہوگئے۔ انا للہ وانا الیہ ارجعون۔ اس طرح خلوص، شفقت، محبت، سادگی اور عاجزی و انکساری کا ایک باب بند ہوا اور مجھ سمیت حضرت کے ہزاروں متعلقین، شاگرد اور عقیدت مند دعاؤں کے ایک بڑے سہارے سے محروم ہوگئے۔ ان للہ ما اخذ ولہ ما اعطیٰ و کل شئی عندہ باجل مسمیٰ


مولانا محمد نعمت اللہؒ غالباً 1952ء میں چترال کی مردم خیز وادی تریچ کے گاؤں لونکوہ میں مولانا محمد خانزادہ مرحوم کے ہاں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں میں حاصل کی۔ 1967ء میں دینی علوم کی باقاعدہ تعلیم کے لیے چھوٹی عمر میں کراچی کا سفر کیا اور سیدھے دارالعلوم کراچی پہنچے جہاں عمر بھر کے تعلق اور خدمت کی سعادت ان کی منتظر تھی۔ اعدادیہ سے لے کر تخصص تک مکمل تعلیم ایک ممتاز طالب علم کی حیثیت سے دارالعلوم میں حاصل کی اور 1977ء میں دارالعلوم سے سند فراغت حاصل کی۔ دار العلوم کے افق پر اس زمانے میں علم و عمل کے متعدد آفتاب و ماہتاب جلوہ گر تھے جن سے مولانا مرحوم نے استفادہ کیا تاہم ان کی سب سے بڑی سعادت یہ تھی کہ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ کی نظر عنایت ان پر پڑی اور انہوں نے دارالعلوم کے سینکڑوں طلبہ اور اپنے ہزاروں متعلقین میں سے ان کو اپنی ذاتی معاونت اور خدمت کے لیے چنا۔

مفتی صاحب رحمہ اللہ کی زندگی کے آخری مہینوں میں ان کے کمرے اور دفتر میں جن حضرات کو باریابی، خدمت اور مہمانداری کا موقع ملا ان میں مولانا مرحوم نمایاں تھے۔ مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ کا آخری فتویٰ جو ان کی وفات سے چند گھنٹے قبل جاری ہوا، مولانا محمد نعمت اللہ کے قلم سے لکھا گیا۔ مفتی اعظم پاکستان کی پیرانہ سالی میں خدمت کے نتیجے میں جو دعائیں ملیں، مولانا مرحوم انہی کو اپنی زندگی کا سب سے بڑا اثاثہ سمجھتے تھے مگر ان کے خلوص کا عالم یہ تھا کہ اپنے اس اعزاز کا تذکرہ لوگوں کے سامنے کرنے سے کتراتے تھے۔ راقم کو زندگی میں صرف ایک بار میرے پوچھنے پر بچشم تر اپنی ان حسین یادوں میں شریک کیا اور بتایا کہ میرے حضرت نے مجھے اپنے خاندان کے ایک فرد کا درجہ دیا ہوا تھا اور مجھ سے اپنے بچوں جیسا برتاؤ کیا کرتے تھے۔ مفتی صاحبؒ کی وفات کے بعد ان کے خاندان نے بھی مولانا کا بہت خیال رکھا۔ وہ شادی کے بعد پہلی دفعہ فیملی کو کراچی لے آئے تو شیخ الاسلام مولانا مفتی محمد تقی عثمانی کے گھر کے متصل مکان میں انہیں رہائش دی گئی۔ مولانا کی وفات پر تعزیت کے لیے شیخ الاسلام مولانا مفتی محمد تقی عثمانی، مولانا زبیر اشرف عثمانی، مولانا ڈاکٹرعمران اشرف عثمانی اور حضرت مفتی شفیعؒ کے خاندان کے دیگر حضرات الگ الگ تشریف لائے اور ہر ایک نے مولانا کے ساتھ اپنے خاندانی تعلق کا خصوصی حوالہ دیا۔ مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب نے فرمایا کہ مولانا نے ہمارے والد ماجد کی نہایت پرخلوص خدمت کی۔ وہ علم اور عمل دونوں میں قابل رشک تھے۔ مولانا زبیر اشرف صاحب کا کہنا تھا کہ ہم نے جب سے ہوش سنبھالا، مولانا کو اپنے خاندان کے ایک فرد کی طرح ہی دیکھا۔ ان کی اور مولانا رشید اشرف سیفیؒ کی جوڑی مشہور تھی۔ دونوں نے اعدادیہ سے تخصص تک ساتھ پڑھا اور دار العلوم کی انتظامی خدمت میں ہمیشہ شانہ بشانہ رہے۔
ظاہر ہے کہ یہ سعادتیں بزور بازو نہیں ملا کرتیں۔ مولانا نعمت اللہ میں سادگی، خلوص، شرافت اور دیانت کی طبعی صفات تھیں جن کو مفتی اعظم پاکستان اور دارالعلوم کے دیگر بزرگوں کی صحبت اور تربیت نے صیقل کردیا۔ وہ حدیث مبارک ”المومن غر کریم“ (مومن سیدھا سادہ اور مہربان ہوتا ہے) کا بہترین مصداق تھے۔ وہ چالاکی، عیاری، بناوٹ، دکھاوا اور خود نمائی سے کوسوں دور رہنے والے تھے۔ ان کی مجلس میں غیبت کی جگہ نہیں ہوتی تھی۔ میں نے کبھی ان کو کسی معاصر پر منفی تبصرہ کرتے نہیں سنا۔ وہ نہایت معصوم طبیعت کے مالک تھے۔
مولانا محمد نعمت اللہ نے تقریباً44 سال کا عرصہ دارالعلوم میں تدریس اور انتظامی امور کی انجام دہی میں گزارا، وہ طویل عرصے تک دارالاقامہ کے قیم رہے اور کسی مرحلے میں بھی اپنے بزرگوں کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچنے دی۔ جس دن ان کی وفات ہوئی اس دن بھی انہوں نے اپنے حصے کے چاروں اسباق پڑھائے اور امتحان ششماہی کے پرچوں کی جانچ کے دوران سینے میں اچانک درد اٹھا جو چند گھنٹوں کے اندر ان کے سفر آخرت کا نقطہ آغاز ثابت ہوا۔ انہیں ہر کام جلدی نمٹانے کی عادت تھی، ایسا لگتا ہے کہ اللہ نے بھی ان کے ساتھ ان کے مزاج کا معاملہ کیا۔ چپکے سے اپنے پاس بلا لیا۔
میرے ساتھ ان کی شفقت اور خلوص کی کہانی اگر لکھنے بیٹھ جاؤں تو شاید دفتر کے دفتر بھر جائیں۔ میں جامعہ بنوری ٹاؤن کا ایک مسکین سا طالب علم تھا۔ ایک دن سہراب گوٹھ میں سڑک پار کرتے ہوئے ایک من ہوہنی صورت کے بزرگ کو کسی کا منتظر پایا تو قریب جاکر سلام کیا۔ انہوں نے کسی تک ایک پیغام پہنچانے کی چھوٹی سی خدمت میرے ذمے لگائی، میں وہ پیغام پہنچاکر آیا اور ان کو اس کی اطلاع دی تو بہت خوش ہوئے اور خوب دعائیں دیں۔ علاقائی نسبت سے ان کی شخصیت سے غائبانہ تعارف تھا اور اس وقت تک چونکہ میرے دو چار مضامین اور نظمیں ”ضرب مومن“ میں چھپ چکی تھیں، اس لیے وہ بھی مجھے غائبانہ جانتے تھے۔ اس لیے جب تعارف ہوا تو بہت خوش ہوئے اور مجھے دارالعلوم آنے کی دعوت دی۔ اس طرح ان سے محبت و عقیدت کا ایک تعلق بنا جو آگے چل کر ایک میٹھے اور پرخلوص رشتے میں تبدیل ہوگیا۔ نسبت طے ہونے کے ایک ہفتے بعد ایک گفتگو میں بر سبیل تذکرہ میرے خاندان کا ایک حوالہ سامنے آیا جس سے وہ واقف تھے تو بہت خوش ہوئے اور کہنے لگے میں نے تو آپ کو رشتہ دیتے وقت صرف یہ دیکھا تھا کہ آپ دین کے طالب علم ہیں اور دوسرے یہ کہ آپ میرے حضرت (مفتی اعظم پاکستان مفتی محمدشفیعؒ) کے ہم نام ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ خلوص اور فنا فی الشیخ کے کس درجے میں تھے۔ تعلیم سے فراغت کے فوراً بعد جب شادی کا مرحلہ آیا تو اس وقت چونکہ میرا کراچی میں کوئی ٹھکانہ نہیں تھا، اس لیے وہ میرے لیے سسر اور باپ دونوں کی جگہ پر تھے، انہوں نے میرے لیے زندگی کے تمام لوازم کا اہتمام کیا اور اس کے بعد بھی آخر دم تک قدم قدم پر مجھے ان کی رہنمائی، دعائیں اور شفقتیں میسر رہیں۔ وہ صرف میرے لیے ہی نہیں بلکہ اپنے تمام متعلقین اور شاگردوں کے لیے بھی رحمت کا ایک سائبان تھے۔ طلبہ نے بتایا کہ جب امتحان کے دن ہوتے تو ہماری کوشش ہوتی کہ کسی طرح مولانا نعمت اللہ صاحب کی کوئی خدمت کی جائے تاکہ امتحان میں کامیابی کے لیے ان کی دعا حاصل کی جاسکے کیونکہ وہ اس معاملے میں خاص طور پر مستجاب الدعوات مشہور تھے۔
میں اپنے قارئین سے مولانا محمد نعمت اللہؒ کے لیے کامل مغفرت اور بلندی درجات کی دعا کی درخواست کرتا ہوں۔

Posted in تازہ ترین, مضامین
56680

نفرت کے سوداگر۔ محمد شریف شکیب

پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی حدبندی ڈیورنڈ لائن کی تاریخ 128سال پرانی ہے۔یہ معاہدہ 12نومبر 1893 کو افغانستان اور برطانیہ کے درمیان طے پایاتھا۔ معاہدے پر افغانستان کے امیر عبدالرحمان اور برطانوی ہند کے سیکرٹری سر مارٹیمر ڈیورنڈ نے دستخط کیے تھے۔اسی حوالے سے اسے ڈیورنڈ لائن ایگریمنٹ کہا جاتا ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان 2640 کلومیٹر طویل سرحدواقع ہے اس کا گیارہ سو کلومیٹر حصہ بلوچستان اور پندرہ سو کلو میٹر خیبر پختونخوا کے ساتھ منسلک ہے۔

امیر عبدالرحمان کی وفات کے بعد 21 مارچ 1905 کو برطانیہ اور افغانستان کے درمیان ایک نیا معاہدہ طے پایا۔ جس میں 1893کے معاہدے کی توثیق کی گئی۔اینگلو افغان تیسری جنگ کے بعد 8 اگست 1919 کو افغانستان اور برطانیہ کے درمیان طے پانے والے تیسرے معاہدے کی دفعہ پانچ میں ڈیورنڈ لائن کو ہی بین الاقوامی سرحد تسلیم کیا گیا۔1919 کے سمجھوتے کے تحت ڈیورنڈ لائن کو پہلے بادشاہ کی زندگی تک برقرار رکھنے کی شرط ختم کرتے ہوئے باضابطہ بین الاقوامی سرحد تسلیم کیا گیا۔ 22نومبر1921 کو کابل میں برطانیہ اور افغانسان کے مابین دوستانہ تعلقات کے معاہدے میں بھی 1919کے معاہدے کی توثیق کی گئی۔

اس معاہدے کی دفعہ دو میں میں کہا گیا ہے کہ فریقین ہندوستان اور افغانستان کے درمیان وہی سرحد تسلیم کرتے ہیں جو 1919کے معاہدے کی شق نمبر آٹھ میں درج ہے۔ڈیورنڈ لائن کے معاہدے کے تحت واخان، وادی کیلاش کا کچھ حصہ نورستان، اسمار، مومند، لال پورہ اور وزیرستان کا کچھ علاقہ لیکر افغانستان کو دیاگیا۔ استانیہ،چمن، نوچغائی، وزیرستان، بلند خیل،کرم، باجوڑ، سوات، بونیر، دیر، چلاس اور چترال پر افغانستان اپنے دعوے سے مستقل طور پردستبردار ہو گیا۔

دستاویز کے مطابق 14 اگست 1947ء کوتقسیم ہند اور پاکستان کی آزادی کے بعد برطانوی ہند کی جانشین ریاست کے طور پرپاکستان معاہدہ کے تحت افغان حکومت کو مالی معاوضہ ادا کرتا رہا۔ ڈیورنڈ لائن معاہدے کی شق 2 اور 3 میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ افغانستان کبھی بھی ڈیورنڈ لائن کے اس پار کسی قسم کی مداخلت نہیں کرے گا۔پاکستان نے حال ہی میں دہشت گردوں کی آمدورفت روکنے کے لئے ڈیورنڈ لائن پر خار دار باڑ لگانے کا کام شروع کیاتھا۔ جس کا90 فی صد کام مکمل ہو چکا ہے۔گذشتہ روز ڈیورنڈ لائن پر افغان فورسز کی وردیوں میں ملبوس چند شدت پسندوں نے سرحدی باڑ اکھاڑ دی اور پاکستان کے خلاف نعرے باری بھی کی۔

شدت پسندوں نے آئندہ باڑ لگانے کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دیں۔پاکستان اور افغانستان کے درمیان دوبارہ سرحدی حدبندی کے حوالے سے حامد کرزئی اور اشرف غنی کے ادوار میں بھی صدائے بازگشت سنائی دیتی رہی ہے۔پاکستان نے باڑ اکھاڑنے کا معاملہ کابل میں طالبان حکومت کے ساتھ اٹھایاہے۔ جب پاکستان نے طورخم کی سرحد پر گیٹ تعمیر کیاتو پوری دنیا نے طورخم بارڈر کو پاکستان اور افغانستان کے درمیان بین الاقوامی سرحد تسلیم کیا ہے۔افغانستان کی موجودہ کشیدہ صورتحال میں شرپسندوں کی طرف سے باڑ اکھاڑنا اور پاکستان کے خلاف نعرے بازی طالبان حکومت کو بدنام اور پاکستان کو افغانوں سے بدظن کرنے کی دانستہ اور سوچی سمجھی سازش معلوم ہوتی ہے۔

طالبان حکومت کو معاملے کی سنجیدگی سے تحقیقات کرنی چاہئے۔افغانستان کی موجودہ غیر یقینی صورتحال میں پاکستان ہی افغان عوام کے ساتھ کندھے سے کندھا ملاکر کھڑا ہے۔ ادویات، خوراک اور دیگر امدادی سامان کی فراہمی کے ساتھ پاکستان نے بھارت سمیت تمام ممالک کے لئے اپنی سرحدیں کھول دی ہیں تاکہ مصیبت کی اس گھڑی میں افغان عوام کی مدد کی جاسکے۔ اسلام آباد میں ہونے والی اسلامی ممالک کی تنظیم کے اجلاس میں بھی افغانستان کی امداد کے ون پوائنٹ ایجنڈے پر بحث کی گئی۔

افغانستان کی امداد اور بحالی کے لئے ٹرسٹ فنڈ قائم کیاگیا۔ اس مرحلے پر پاکستان اور افغان عوام کے درمیان نان ایشو پر نفرت پیدا کرنے والے افغانستان اور افغان عوام کے دشمن ہیں جن کا کھوج لگاکر کیفرکردار تک پہنچانا طالبان حکومت کی ذمہ داری ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
56678

ماں جی نرالے روپ – خاطرات :امیرجان حقانی

ماں جی کو دیکھتے ہی یادوں کے دریچے کھل جاتے ہیں.بہت سی حسین یادیں ہیں. آج ایک دو کا ذکر ہوجائے. یہ تب کی بات ہے جب ہم گاؤں میں رہتے تھے.تب مجھے پانچ بیٹیوں میں، ماں جی کے اکلوتے بیٹے کا “شرف” حاصل  تھا.

گھر میں جب گوشت پکتا تھا. ہمارے ہاں رواج ہے کہ ہر ایک کو اس کے گوشت کا حصہ الگ الگ ہاتھ میں دیا جاتا ہے. ماں جی اپنے حصے کی بوٹی سنبھال کر رکھتی اور صبح مجھے دے دیتی. تب تو مجھے یہ اندازہ نہیں ہوتا تھا کہ رات اس نے کھایا ہے یا نہیں مگر اب خوب اندازہ ہوتا ہے کہ ماں جی نے اپنے حصے کی اچھی بوٹی میرے لیے سنبھال کر رکھا تھا. ہماری جوائنٹ فیملی تھی جس میں کسی کے لیے الگ سے رکھنا ممکن نہیں ہوتا. ویسے بھی گوشت نسالو کا ہو اور  سردی کے دونوں میں رات کو پکا کر صبح کھایا جائے تو کمال کا مزہ آتا. صبح جب ماں جی اپنے حصہ کی بوٹی دیتی تو مزے سے کھا جاتا.

کھبی گھر میں مالٹے آتے، یہ سال میں ایک دو دفعہ ہوتا.گاؤں میں یہی ہوتا تھا تب، ماں جی اپنا مالٹا سنبھال رکھتی اور کئی دن بعد اچانک مجھے دیتی.یہی حال کسی ٹافی، بسکٹ یا شہر سے آیا ہوا فروٹ یا سوغات کیساتھ ہوتا.ماں جی بہت دنوں بعد اچانک اپنا حصہ مجھے تھما دیتی. ویسے بھی دیہاتوں میں جوائنٹ فیملیز میں عورتوں کو خوراک پورا نہیں ملتا جو غذائیت کی کمی پورا کرے، ایسے میں جو  عورت اپنا حصہ بچا کر  کسی اور  کو دے، تو وہ عورت صرف اور صرف ماں ہی ہوسکتی ہے. دنیا کی دوسری کوئی عورت ایسی جرات کم کرتی ہے.

پھر جب میں تعلیم کے لئے بڑے شہر سدھار گیا تو ماں جی سال بھر میرے لیے ہر چیز کا اسٹاک کر لیتی. تب ہماری فیملی بھی جوائنٹ نہیں تھی.

گرمیوں میں بنڈی سکھائی جاتی اور جب سردیوں میں گاؤں آتا تو وہ سوکھی بنڈی نسالو کے گوشت کے ساتھ صرف میرے لیے ماں جی پکاتی. صرف میرے لیے الگ پتیلے میں.اور کسی کو پکانے بھی نہیں دیتی. خود ہی پکا لیتی. آج تک ذائقہ یاد ہے. مکئی، دیسی مٹر (بوکک) اور درم کا آٹا الگ سنبھال رکھتی. اور اس کی روٹی خود پکاتی. واہ یار! کیا دور تھا، کتنی محبت تھی، کتنا خلوص تھا.

سردیوں میں کیا جانے والا نسالو کا گوشت گرمیوں تک یا اگلے سال تک میرے لیے سنبھال رکھتی. یہی حال دیسی گھی کے ساتھ ہوتا.

اگر میں سال بعد بھی گھر نہ آتا تو میرا حصہ کراچی پہنچ جاتا، گاؤں کے کسی طالب علم کے ساتھ. 

ہمارا درختوں کا بڑا باغ ہے. خوبانی، بادام، سیپ، خوبانی کی گری، خشک آڑو، شہتوت، انگور، انار، انجنئیر، دیسی بیئر غرض چیز سیزن میں میرے لیے الگ خشک ہوتا. تب میرے دو چھوٹے بھائی بھی تھے. پتہ نہیں ان کے لیے تب یہ اہتمام ہوتا کہ نہیں، مگر میرے لیے لازم تھا.واللہ! گاجر، شلجم، مکئی کے بٹھے، دیسی لوکی (وون)، کچالو، تک میرے لیے الگ رکھا جاتا. اور ہاں چلغوزہ تو بھول ہی گیا.چھانٹی کرکے میرے لیے معیاری چلغوزہ ماں جی الگ کرتی.نانی مرحومہ سے الگ ڈرائی فروٹس لاکر اسٹاک کرتی میرے لیے.

ہاں پھر جب میں بالغ ہوا تو ماں جی نے اپنا زیور بیچ کر تمام رقم میرے حوالے کی تھی. یہ بات والد صاحب کو کئی سال بعد معلوم ہوئی.

بس یار آج اتنا کافی ہے. میری ماں کے میرے لیے ہزاروں روپ ہیں. کس کس کو بیان کروں. اتنی دعا ضرور ہے کہ جس حال میں بھی رکھے مگر اللہ میری ماں کا سایہ دیر تک مجھ پر رکھے. آمین 

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
56675

چھٹی قومی اہل قلم کانفرنس – تحریر : محمد نفیس دانش

اکادمی ادبیات اطفال، بچوں کے مقبول ترین میگزین پھول، محکمہ بلدیات پنجاب اور لاہور الحمراء آرٹس کونسل کے زیر اہتمام بچوں کے ادب کے فروغ کے لئے چھٹی قومی اہل قلم کانفرنس 2021 کا انعقاد الحمرا حال نمبر 2 میں کیا گیا. اس میں شرکت کرنا یہ میرے لئے بہت اعزاز کی بات ہے. کانفرنس کا آغاز تلاوت قرآن کریم اور نعت رسول مقبول سے عمل میں آیا۔اس کانفرنس کی کی مکمل نظامت ماہنامہ پھول کے ایڈیٹر اور پاکستان چلڈرن میگزین سوسائٹی کے صدر محترم شعیب مرزا صاحب نے سر انجام دی جبکہ اس ادبی کانفرنس کی صدارت معروف ڈرامہ نگار، افسانہ نگار، شاعرہ اور سابق رکن قومی اسمبلی محترمہ بشری رحمان کر رہی تھیں. 

ویسے لاہور کی سرزمین ادب کے اعتبار سے کافی زرخیز ہے۔یہاں وقفہ وقفہ سے اردو ادب کے فروغ کے لئے مشاعروں، ادبی میلوں اور بک فیر کا انعقاد عمل میں آتا رہتا ہے. خوش کی بات یہ ہے کہ شعیب مرزا صاحب بچوں کے معیاری ادب کی تخلیق و فروغ کے لئے تسلسل کے ساتھ ہر سال قومی سطح پر کانفرنس کا اہتمام کر رہے ہیں.اور یہ چھٹی کانفرنس تھی جس کے تین سیشنز ہوئے جس میں ملک بھر سے بچوں کا معیاری ادب تخلیق کرنے والے ادیبوں اور لکھاریوں نے اپنے اپنے انداز میں اظہار خیال کیا. 

ایڈوائز ٹو چیف منسٹر، وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار صاحب پنجاب کے خصوصی معاون اور ترجمان حسان خاور نے اپنے صدارتی خطاب میں شعبہ اردو اور صدرِ شعبہ ادب اطفال کی ادب اطفال کے حوالہ سے کارکردگی کی تعریف و توصیف کی،اور تمام مہمانوں خصوصاً دور دراز سے آئے ہوئے مہمانانِ خصوصی اور مقالہ نگاران کا شکریہ ادا کرتے ہوئے فرمایا کہ” اگر ہم اپنے بچوں کو ذہین بنانا چاہتے ہیں تو ان کو کہانی سنائی جائے اور اگر زیادہ ذہین بنانا چاہتے ہیں تو زیادہ کہانیاں سنائیں جائیں” 

عینک والے جن ڈرامہ کے پروڈیوسر محترم حفیظ طاہر صاحب اور ایک ماہر نفسیات صاحب نے اپنے کلیدی خطاب میں بچوں کے ادب کی اہمیت،ضرورت،افادیت اور عصری تقاضے پر تفصیلی روشنی ڈالی،انہوں نے کلیدی خطاب میں فرمایا کہ بچوں کا ادب تحریر کرنا کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے،اس کے لئے بچوں کی عمر اور ان کی نفسیات سے آگاہ ہونا بے حد ضروری ہے،جس طرح ہم بچوں سے باتیں کرنے کے لئے گھٹنوں کے بل کھڑے ہوتے ہیں،تاکہ ان سے آنکھیں ملا سکیں اور اپنی بات کو سمجھا سکیں،اسی طرح زبان و بیان کو ان کی سطح پر لانا ہوتا ہے، ورنہ ترسیل کا عمل مکمّل نہیں ہو پائے گا. محترمہ ڈاکٹر فضیلت بانو صاحبہ نے عصرِ حاضر میں بچوں کے ادب کے حوالہ سے فرمایا کہ فوڈ سٹریٹ کی طرح ہمیں چاہیے کہ بک سٹریٹ بھی قائم کیے جائیں. اور مزید فرمایا کہ ہم نے بچوں کے ہاتھوں میں موبائل فون تھما دیاہے،اور تعلیم و تربیت سے بے فکر ہو گئے ہیں،

آج بچے سب کچھ موبائل اور ٹی وی سے ہی سیکھ رہے ہیں،اور ادب و ثقافت اور سماج و معاشرت سے کٹ گئے ہیں،وہ صرف میکانکی زندگی جینا جانتے ہیں، ایسے میں تہذیبی و ثقافتی اقدار پامال ہو رہے ہیں،اور ہم ایک عظیم نقصان سے دو چار ہو رہے ہیں،آج کے تشکیک وانتشار کے دور میں بچوں کی نصابی تعلیم کے علاوہ ان کی ہمہ جہت شخصیت کو پروان چڑھانے کی ضرورت ہے۔اب ان کے ہاتھوں سے موبائل یا ٹکنالوجی واپس لینا کارِ عبث ہے،بلکہ اس ٹکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے ان کی ذہنی،جسمانی،روحانی اور جذباتی سطح پر تربیت کرنا بے حد ضروری ہے،مختلف ویب سائٹس پر بچوں کے ادب کو اپ لوڈ کرنا چاہئے،دل چسپ آڈیو اور ویڈیو کلپس تیّار کئے جائیں،انہوں نے اپنے کلیدی خطاب کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ آج بچوں کے ادیب و شعراء پر لازم ہے کہ وہ موجودہ دور کے بچوں کی ضروریات کو پیشِ نظر رکھیں،ان میں سائنٹفک اپروچ پیدا کرنے کی کوشش کریں،اپنی تحریروں کے ذریعہ اوہام پرستی،نسلی بھید بھاؤ،جنسی عدمِ مساوات اور سماج ومعاشرے کی مختلف امراض کا خاتمہ کرنے کی تلقین کریں،آپس میں بھائی چارگی،امدادِباہمی اور محبّت و الفت کو پیدا کرنے کی کوشش کریں،حقیقی موضوعات پر پوری صداقت کے ساتھ مواد تیّار کریں۔آج کا بچہ بہت باشعور ہو چکا ہے،سوال کرنا جانتا ہے،ہر چیز کی وضاحت طلب کرتا ہے،اپنی تحریروں میں بچوں کی موجودہ صلاحیتوں کو سامنے رکھیں،تبھی وہ آپ کی طرف متوجّہ ہو گا،ورنہ آپ کی تحریریں آپ کا منھ چڑاتی رہیں گی،اپنی تحریروں کے ذریعہ ان میں حوصلہ اور شجاعت کے جذبات پروان چڑھائیں،تاکہ وہ حقیقی معنوں میں ملک و قوم کا سرمایہ ثابت ہو سکیں،گھروں اور خاندانوں میں چلڈرن سرکل کا احیا کریں،تاکہ اجتماعی طور پر بھی ان کی تربیت ہوسکے۔


دوپہر میں ظہرانہ کے وقفہ کے بعد یک روزہ کانفرنس میں آخری خطاب معروف ڈرامہ نگار، افسانہ نگار، شاعرہ اور سابق رکن قومی اسمبلی محترمہ بشری رحمان نے اپنے خطبۂ اختتامیہ میں معزّز مہمانوں کا استقبال و خیر مقدم کرنے کے بعد کہا کہ یہ شعبہ اردو اور اہلِ ادب کے لئے مسرّت اور سعادت کی بات ہے کہ محترم شعیب مرزا صاحب ہر سال تسلسل کے ساتھ قومی سطح پر اس کانفرنس کو سجاتے ہیں اس دفعہ یہ چھٹی قومی اہل قلم کانفرنس ہے الحمد للہ میں ہر کانفرنس میں شرکت کرتی ہوں اس دفعہ شدید سردی کے باوجود بھی شعیب مرزا صاحب کے اصرار اور محبت کی وجہ سے شریک ہونا پڑا. ہمارا اور ہمارے فکر مند احباب کا ارادہ ہے کہ لاہور کے نونہال طلبہ و طالبات کی علمی،ادبی،تہذیبی وثقافتی سرگرمیوں کا مرکز بنایا جائے،یہاں نوخیز نسل کی ایسی تربیت کی جائے کہ وہ مستقبل میں اچھے قلم کار،ادیب،شاعر،صحافی،مصنّف،سائنس داں،ماہرِ تعلیم،ماہرِ قانون، ماہرِطب،فرض شناس سیاسی و سماجی قائد،اچھے انسان اور اچھے شہری بن کر نہ صرف بلکہ پورے ملک و قوم کا نام روشن کریں؛ کیونکہ ملک و ملت کی ترقّی کا معیار بچوں کی نشو ونمااور پنپتے دماغ کا تحفّظ یا ان کے حقوق کا تحفّظ ہے،کیوں کہ آج یہ ثابت ہو چکا ہے کہ اقتصادی ترقی سماجی ترقی کی ضامن نہیں ہے،آپ اچھی طرح جان لیجئے کہ ادبِ اطفال ہی بچوں کی ذہن ساز ی کا بہترین ذریعہ اور ان کے دماغ کے تحفظ کا نہایت مؤثر ہتھیارہے۔

میں ہر دفعہ ارادہ کرتی ہوں اور اس دفعہ بھی شعیب مرزا سے وعدہ کرتی ہوں کہ ایک کتاب بچوں کے ادب پر ضرور لکھوں گی اور ہر لکھاری کو چاہیے کہ وہ بچوں کے ادب کے حوالے سے ایک کتاب ضرور لکھیں. انہوں نے اپنے خصوصی خطاب میں بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کی نشوونما اور تربیت سازی پرزور دیا،انہوں نے تمام آنے والے لکھاریوں کو بچوں کے لیے کہانیاں لکھنے کی ترغیب دی. 2021 کے تمام مصنفین اور درجنوں ادیبوں کو ان کی محنت، جستجو اور عمدہ پیش کشی پر ” پروفیسر دلشاد کلانچوی” اور اکادمی ادبیات اطفال ایوارڈز سمیت دیگر کئی قسم کے بیش قیمت ایوارڈز بھی دئیے گئے اور نقدی رقم سے نوازا گیا ۔ اور انھیں مبارک باد بھی دی گئی ۔ اس کے علاوہ اکادمی ادبیات اطفال کی جانب سے تمام ادیبوں کو ان کی خدمات سراہتے ہوئے محترمہ بشری رحمان کے ہاتھوں ایوارڈز اور اسناد یش کی گئیں. اور اس طرح شعیب مرزا صاحب کی یہ محبتوں والی پرخلوص یک روزہ چھٹی قومی اہل قلم کانفرنس اپنے اختتام کو پہنچی.اللہ تعالیٰ بھائی شعیب مرزا صاحب کو ہر قسم کے شرور و فتنوں،آفات و مصیبتوں سے محفوظ رکھے۔اللہ تعالیٰ سے میری دعا ہے کہ اس چمن میں ایسے پھول کِھلیں کہ جن کی خوشبوؤں سے فضا معطر ہو جائے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
56673

اماارات اسلامی کے نادان دوست – قادر خان یوسف زئی کے قلم سے

افغانستان اس وقت سلامتی، بدترین معاشی بحران اور عالمی تنہائی سے دوچار ہے۔ افغان طالبان کی غیر تسلیم شدہ امارات اسلامی کو دوحہ معاہدے کے مطابق آئینی، معاشی اور انسانی حقوق کی بحالی میں درپیش بحرانوں کے حل کے لئے عالمی برادری کا تعاون ناگزیر ہے، جن حالات میں اقتدار سنبھالا، مدنظر رکھا جائے تو اس اَمر کا ادراک ہونا چاہیے کہ انہیں ایک نہیں بلکہ کئی بحرانوں کا سامنا ہے۔ ملکی معیشت کی بحالی، بے روزگاری، صحت عامہ، تعلیم، غذائی قلت و قحط کا بدترین بحران اور سب سے بڑھ کر تشدد کے خاتمے کے لئے ایسے موثر اقدامات کرنا جس سے عالمی برادری ان پر اعتماد کرسکے۔ امارات اسلامی نے مسلح مزاحمت کی بنیاد اپنی حکومت کے خاتمے، غیر ملکی افواج اور امریکہ کی مداخلت کے خلاف ’’اسلامی نظام کو رائج کرنے کا دعویٰ‘‘ 40 برسوں پر محیط ہے، قیام امن کے لئے پڑوسی ممالک کا کردار نظرانداز نہیں کرنا چاہیے، بالخصوص پاکستان نے چار دہائیوں سے جس طرح افغان عوام کا ساتھ دیا، اس کو تو کبھی جھٹلایا نہیں جاسکتا۔


پاکستان کو افغانستان میں جنگ و خانہ جنگیوں کے موجب ہزاروں جانوں کی قربانیاں اور اربوں ڈالرز کے مالی نقصان کے علاوہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کا آج بھی سامنا ہے۔ ایک ایسے وقت میں کہ جب کوئی بھی ملک افغان عوام کو درپیش مسائل کے حل میں غیر مشروط تیار نہیں، پاکستان نے وہ کر دکھایا، جس کا اعتراف عالمی برادری کو بھی کرنا پڑا۔ حالاںکہ خود متنوع مسائل میں الجھے ہیں، لیکن افغان عوام کے لئے پڑوسی ملک ہونے کے ناتے ان ممالک سے بھی رابطے کیے جو ماضی میں ان کا ہر سطح پر ساتھ دیتے رہے، لیکن اہم معاملات میں انہوں نے سائیڈ لائن کرکے ناراض کردیا تھا۔


امریکہ کی دونوں حاشیہ بردار کابل انتظامیہ نے پاکستان کے خلاف متعصبانہ رویہ، دشنام طرازی سے بھی گریز نہیں کیا، سرحدی علاقوں میں پاکستانی سکیورٹی فورسز اور عوام پر حملے کیے تو افغان سرزمین کو دہشت گردوں کے لئے محفوظ پناہ گاہ کے طور پر استعمال کرنے کی اجازت اور سہولت کاری بھی کی۔ دیرینہ دشمن کے کندھے سے کندھا ملاکر ہر گھٹیا سازش میں کلیدی کردار ادا کیا، یہاں تک کہ افغان طالبان کے خلاف بھی ہر ممکن حد تک گئے۔ افغان نوجوانوں کی برین واشنگ کی گئی اور انہیں امارات اسلامی سے بھی اس قدر بدظن کیا کہ وہ اپنے آبا و اجداد کی سرزمین پر رہنے کو تیار نہیں اور جن قوتوں نے چار دہائیوں سے افغان عوام پر دنیا کی شدید بم باری اور تباہ کن کارروائیاں کیں، ان کے سہولت کار بنے۔ ہنرمند ہونے کے بعد انہوں نے اپنے تباہ حال ملک کی خدمت کے بجائے مغربی ممالک کی ثقافت کو اپنالیا۔ افغان طالبان کے خلاف عالمی ذرائع ابلاغ میں جن تحفظات کا اظہار بشکل انٹرویو کیے، یقینی طور پر حساس و غور طلب ہیں۔


امریکہ پاکستان سے کیا چاہتا رہا اور اب بھی اس کے کیا مقاصد ہیں، اس سے کوئی بے خبر نہیں، پاکستان اور افغانستان کو جن چیلنجز کا سامنا ہے، اس معاملے میں دنیا کی واحد سپرپاور امریکہ براہ راست ملوث ہے۔ امریکہ نے افغانستان میں افغان طالبان اور القاعدہ کے خلاف جتنے بھی عرصے جنگ کی، اس کے براہ راست اثرات پاکستان پر بھی پڑے، دنیا کے باشعور اور فہمیدہ حلقوں کو بخوبی علم ہے کہ امریکہ کا رویہ دونوں ممالک کے ساتھ کیا رہا۔ پالیسی ساز تو حقائق سے بخوبی آگاہ ہیں، عام آدمی کو بھی آئے روز خودکُش حملوں کے ذریعے بعض معاملات سے آگاہی ہوئی۔ پاک افغان تعلقات قیام پاکستان سے لے کر آج تک مد وجزر کا شکار رہے، اقوام متحدہ میں قیام پاکستان کے بعد افغانستان کی جانب سے رکنیت دینے کی مخالفت کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں، بھارت کا افغانستان کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنے کا وتیرہ بھی مخفی نہیں۔


تشکیل ِ پاکستان کے بعد سب سے اہم مسئلہ جس سے ہمیں دوچار ہونا پڑا، وہ مسئلہ کشمیر تھا۔ یہ مسئلہ دن بہ دن پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتا چلاگیا اور اب وہ اس نازک مرحلے میں آپہنچا، جس کے بعد اسے سلجھانے کے لئے ہمیں سر دھڑ کی بازی ایک بار پھر لگادینی پڑے گی۔ بھارت نے جو رویہ اختیار کر رکھا، اس کے پیش نظر صاف دکھائی دیتا ہے کہ اب کشمکش سخت اور تیز ہوجائے گی۔ دوسرا جو مسئلہ ہمارے لئے سوہان روح بنا، وہ سرحدی تنازعات تھے، جیسے نشۂ قوت میں سرمست طاقتیں کسی معقول اور مناسب بات سننے کے لئے تیار نہیں تھیں۔ قائداعظمؒ نے کرم خوردہ پاکستان کو قبول کیا۔ بائونڈری کمیشن نے ہر سطح پر پاکستان کے ساتھ ناانصافی کی اور ایک ایسی مملکت کا اعلان کیا، جس کے بارے میں انہیں غلط فہمیاں تھیں کہ چند برسوں میں یہ کمزور ملک دوبارہ بھارت کا حصہ بن جائے گا، لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ مشرقی پاکستان کے سقوط کے بعد بھی پاکستان کے خلاف سازشیں جاری ہیں اور بھارت نے اپنی پست سوچ کے تحت پہلے مشرقی پاکستان کے بنگالیوں کو نسلی و لسانی تعصب کا زہر بھر کر استعمال کیا اور شمال مغربی سرحدوں پر افغانیوں کے دلوں میں پاکستان کے خلاف زہر آلودہ اور کینہ پرور پالیسیوں کو استعمال کیا۔


افغان طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد کئی ایسی اشتعال انگیز کارروائیاں سرحدوں پر ہوچکیں، جس سے پاکستان کی مخلصانہ کوششوں پر براہ راست اثر پڑرہا ہے۔ امدادی ٹرکوں پر پاکستانی پرچم کی بے حرمتی ہو یا پھر سرحدی علاقوں میں متکبرانہ لب و لہجے کیساتھ پاکستانی سکیورٹی اہلکاروں کو مخاطب کرتے ہوئے دشنام طرازی کرنا۔ امارات اسلامی کو زیب نہیں دیتا کہ انکے اہلکار بدنظمی کرتے رہیں۔ پاکستانی صحافیوں کے ساتھ بیشتر افغان طالبان اہلکاروں کا رویہ انتہائی نامناسب و قابل مذمت رہا، لیکن اسے نظرانداز صرف اس لئے کیا کیونکہ اُس وقت حالات اعصاب شکن تھے، اب افغان طالبان سفارت کاری اور انسانی اقدار کو فرنٹ لائن پر رکھ کر افغان عوام کے مسائل کا حل نکالیں اور یقینی طور پر نہیں چاہیں گے کہ انسانی ہمدردی اور افغان عوام کے مسائل کو حل کرنیکی مخلصانہ کوششوں کو نقصان پہنچے۔ امارات اسلامی اپنے عہدے داروں کو تحمل و بردباری سے کام لینے کے احکامات جاری کرتے ہوئے ان پر مکمل عمل درآمد کو بھی یقینی بنانے کی کوشش کرے۔ امارات اسلامی کو جب تک عالمی برادری تسلیم نہیں کرتی، انہیں شہد کے جتھے میں ہاتھ ڈالنے میں احتیاط کرنا ہوگی۔ کسی بھی معاملے میں تحفظات پر ایک تسلیم شدہ حکومت ہی سفارتی چینل سے مذاکرات کا راستہ اختیار کرتی ہے، افغان نادان دوست منافرت پر مبنی رویے کو لگام دیں تو بہتر ہوگا۔Thanks & Regards

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
56671

ہندوکُش کے دامن سے چرواہے کی صدا – چترال میں بلدیاتی الیکشن کی تیاریاں – عبدالباقی چترالی

ہندوکُش کے دامن سے چرواہے کی صدا – چترال میں بلدیاتی الیکشن کی تیاریاں – عبدالباقی چترالی

 لوئر اور اپر چترال میں سیاسی جماعتیں آنے والےبلدیاتی انتخابات کی تیاریوں میں مصروف ہوگئے ہیں۔ موجودہ بلدیاتی نظام کے تحت تحصیل کونسل کا عہدہ سب سے اہم ہوتا ہے۔ تحصیل چیئرمین کا عہدہ حاصل کرنے کے لیے تمام سیاسی جماعتیں اپنے اپنے امیدوار میدان میں اتارنے کے لئے دوڑدھوپ کر رہے ہیں۔ 2015 کے بلدیاتی انتخابات میں مذہبی جماعتوں نے اتحاد کرکے کامیابی حاصل کی تھی۔ اس وقت بھی مذہبی جماعتوں کے بلدیاتی انتخابات جیتنے کے لیے اتحادوقت کی اہم ضرورت ہے جو کہ فی الحال ایسا ہوتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا ہے۔اس وقت یہ مذہبی جماعتوں کے قیادت پر انحصار کرتا ہے کہ وہ موجودہ سیاسی حالات کو مدنظر رکھتےہوئے اپنے چھوٹے موٹے اختلافات کو پس پشت ڈال کر دوبارہ اتحاد قائم کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں؟ اگر مذہبی جماعتیں اتحاد قائم کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو دوسری جماعتوں کے لئے مذہبی جماعتوں کا مقابلہ کرنا مشکل ہوجائے گا۔

مذہبی جماعتوں کے اتحاد نہ ہونے کی صورت میں پاکستان تحریک انصاف اور دوسری سیاسی جماعتوں کا مقابلہ کرنا مذہبی جماعتوں کے لیے مشکل ثابت ہوگا۔ اس وقت چترال کے دونوں عوامی نمائندے مذہبی جماعتوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان دونوں عوامی نمائندوں کی مایوس کن کارکردگی کی وجہ سے اس وقت مذہبی جماعتوں کا سیاسی پوزیشن کمزور دکھائی دے رہا ہے.  ایم این اے صاحب وعدے اور دعوے تو بہت کر رہے ہیں مگر حقیقت میں چترالی عوام کے مسائل حل کرنے میں تاحال کامیاب نہیں ہوئے۔ایم پی اے صاحب کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے مستقبل میں ان کی پارٹی کو شدید نقصان پہنچنے کا امکان موجود ہے۔اس کی سیاسی ناتجربہ کاری اور اقربا پروری کی وجہ سے پارٹی بھی بد نام ہو رہی ہے۔ نہ وہ اپنی پارٹی منشور کا خیال رکھتا ہے ہے اور نہ ہی وہ ضلعی امیر کے مشوروں پر عمل کرتا ہے۔

موجودہ نمائندوں کے مایوس کن کارکردگی کے اثرات آنے والے بلدیاتی انتخابات میں ضرور  اثر انداز ہوں گے۔ایم این اے صاحب اور ایم پی اے صاحب کی ناقص کارکردگی کا خمیازہ مذہبی جماعتوں کو آنے والے بلدیاتی انتخابات میں بھگتنا پڑے گا۔ ایم پی اے صاحب کی ناقص کارکردگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے تین سالوں کے دوران اپنے حلقے موڑکھو میں ایک ندی کے اوپر لکڑی کا ایک عارضی پل تعمیر کرنے میں کامیاب ہوا ۔اہالیان موڑکھو یہ شاندار کارنامہ انجام دینے پر ایم پی اے صاحب اور ان کی پارٹی کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ ایم پی اے صاحب آئندہ بھی ایسی ہی شاندار اور تاریخی کارنامے انجام دیتے رہیں گے۔

تمہارے یہ شاندار کارنامے تاریخ میں سنہری حروف میں لکھے جائیں گے اور موڑکھو کی آنے والی نسلیں تمہارے اس شاندار کارنامے کو یاد رکھیں گے اور مستقبل میں تمہاری پارٹی کا نام بھی روشن ہوگا اور ملکوں کے عوام آپ کے اس کو شاندار قومی خدمت کو مدنظر رکھتے ہوئےآئیندہ بھی نمہیں نمائندہ منتخب کریں گے۔ چترال کے عوام جے یو آئی کی اعلیٰ قیادت کو سلام پیش کرتے ہیں کہ آئندہ پارٹی قیادت ٹکٹ دیتے وقت جمہوری اصولوں اور قابلیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسے امیدوار کو ٹکٹ دیں گے کہ جنہوں نے قلیل مدت میں اپنی بے پناہ صلاحیتوں اور قابلیت کی وجہ سے چترالی عوام کے مشکل مسائل حل کر دیے اور پارٹی کا نام روشن کردیا۔

چترال کے عوام جے یو آئی کی اعلی قیادت سے امید رکھتے ہیں کہ وہ آئندہ بھی اپنی سیاسی بصیرت اور تجربہ کی بنیاد پر پر ایسے ہی قابل لوگوں کو ٹکٹ دے دیں گے۔  کے پی کے بعض اضلاع میں حال ہی میں ہوئے بلدیاتی انتخابات میں حکمران جماعت پی ٹی آئی کو بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ اس کے آٹھ سالہ ناقص کارکردگی کا نتیجہ ہے۔ اگر موجودہ بلدیاتی انتخابات مقررہ تاریخ کو منعقد ہوئے تو کمر توڑ مہنگائی، بے روزگاری اور بیڈ گورننس کی وجہ سے پاکستان تحریک انصاف کے امیدواروں کے لیے عوام کا سامنا کرنا مشکل ہوجائے گا اور چترال میں بھی پشاور جیسا حشر ہونے کا امکان موجود ہے۔ پی ٹی آئی کے 8 سالہ دور حکومت میں چترال میں کوئی بڑی ترقیاتی کام نہیں ہوئے بلکہ سابقہ دور حکومت میں چترال کے لیے منظور شدہ منصوبوں کو بھی پاکستان تحریک انصاف کی موجودہ حکومت نے دفن کرکے سرد خانوں میں  ڈال دیا۔

اپر چترال کوالگ ضلع کا درجہ دے کر اس کے لیے کوئی ترقیاتی فنڈ ابھی تک جاری نہیں کیا گیا۔  ا پر چترال اب کا غذی ضلع بنا ہوا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی موجودہ صوبائی حکومت کی تعلیم کے مسائل اپر چترال کے مسائل حل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا ہے۔اس کا واضح ثبوت وزیر اعلی کے پی کے کا اپرچترال کا دورہ نہ کرنا ہے۔ اس کے اثرات آنے والے بلدیاتی انتخابات میں پی ٹی آئی کے امیدوار ضرور محسوس کریں گے۔ کمر توڑ مہنگائی کی وجہ سے عوام کا جینا مشکل ہوہوچکا ہے۔اس وجہ سے پی ٹی آئی کی حکومت کے خلاف سخت غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ آنے والے بلدیاتی انتخابات میں پشاور کے عوام کی طرح چترالی عوام کا بھی اپنی ناراضگی کا اظہار کرنے کا امکان موجود ہے۔

پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے لیے پی ٹی آئی اور مذہبی جماعتوں کے ناراض ووٹروں کو اپی جانب راغب کرنے کا یہ بہترین موقع ہے۔ پی پی پی اور مسلم لیگ کی قیادت اس موقع سے فائدہ اٹھانے کی بھرپور کوشش کریں گے۔ اگر ان پارٹیوں کے ضلعی قیادت اس موقع سے فائدہ اٹھاکر تحصیل چئیرمین کےلیے اچھی شہرت کے حامل امیدوار لانے کامیاب ہوئے تو اُنکے الیکشن جیتنے کے امکانات موجود ہیں۔ چترال کے لیے سب سے زیادہ خدمات اے این پی نے اپے سابقہ دور حکومت میں انجام دے ہیں۔ اس کے باوجود اے این پی چترال میں ایک غیر فعال پارٹی تصور کی جاتی ہے۔ اس کی بڑی وجہ برائے نام ضلعی قیادت ، عدم فعالیت اور عوامی امور میں عدم دلچسپی اور بےتوجہی ہے۔ اگراے این پی چترال میں تھوڑی بہت فعالیت کا مظاہرہ کرے تو اس مستقبل بھی چترال میں تابناک ہے۔ چترال کے لوگ محب وطن اور احسان شناس قوم ہیں جس سے ہر ایک پاکستانی واقف ہے۔

اے این پی کی طرح مسلم لیگ نون کوبھی چترال میں ریکارڈ ترقیاتی کام کرنے کے باوجود ایک غیر فعال اور بے سہارا پارٹی سمجھا جاتا ہے۔ مسلم لیگ ن کی ضلعی قیادت کی دورُخی سیاست چترالی عوام خوب واقف ہیں کیونکہ وہ موقع کی مناسبت سے پارٹی تبدیل کرنے کے ماہر اور دوسرے سیاسی بارات میں جانے کا شوقین لیڈر سمجھے جاتے ہیں۔ اسی وجہ سے مسلم لیگ ن کے نظریاتی کارکن ہر وقت مایوس، نالاں اور شرمندہ دکھائی دیتے ہیں اور الیکشن کے موقع پر کوئی بھی گرمجوشی دکھانے سے قاصر رہتے ہیں۔ ان محرکات کا اثر مسلم لیگ ن پر پڑنا یقینی بات ہے۔ اگرمسلم لیگ ن کی ضلعی قیادت اپنی دورُخی سیاست ختم کرکے نظریاتی کارکنوں کے دل جیتنے میں کامیاب ہوجائے تو چترال میں مسلم لیگ ن کا مستقبل بھی تابناک ہونے قوی امکانات موجود ہیں۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
56652

تنازعات کے حل کا نیافارمولہ ۔ محمد شریف شکیب

پارٹیوں کے درمیان سیاسی معاملات، قوموں کے تنازعات اور افراد کے مابین لڑائی جھگڑوں کے بعد حتمی فیصلہ مذاکرات کے ذریعے ہوتا ہے۔ اور یہ دستور روز اول سے چل رہا ہے۔ وقت گذرنے کے ساتھ تنازعات حل کرنے کے متبادل طریقے تلاش کئے جارہے ہیں۔ شنید ہے کہ حال ہی میں برازیل کے دوسیاستدان کے درمیان سیاسی تنازعہ باکسنگ رنگ تک پہنچ گیا۔برازیل کے مرکزی شہربوربا میں واٹرپارک قائم رکھنے یا ختم کرنے کا تنازعہ حل کرنے کے لئے شہر کے مئیراوران کے حریف سابق کونسلرکے درمیان بیانات کی جنگ ہوتی رہی۔ تنازعہ حل کرنے کے لئے مذاکرات اورثالثی کا راستہ بھی اختیار کیاگیا۔ مگر مسئلے کا کوئی حل نہیں نکل سکا۔ ب

الاخر دونوں میں طے پایا کہ فیصلہ باکسنگ رنگ میں ہوگا۔ جو بھی فائٹ جیتا۔ واٹر پارک کے حوالے سے اسی کے موقف کی جیت فریقین قبول کریں گے۔مقامی اسکول کے جمنازیم میں ہونے والی فائٹ کودیکھنے کے لئے 100ڈالر کا ٹکٹ مقرر کیاگیا تھا۔ سیاست دانوں کے درمیان مقابلہ دیکھنے کے لئے ہزاروں تماشائی جمنازیم پہنچ گئے۔ 39سالہ مئیر اور اس کے سیاسی حریف کے درمیان مقابلہ شروع ہوا اور نوجوان میئر نے تیسرے راونڈ میں اپنے حریف سینئرسیاستدان کوچاروں شانے چت کرکے مقابلہ جیت لیا۔ مکسڈ مارشل آرٹس کامقابلہ مقامی ٹی وی پر بھی دکھایا گیا۔ باکسنگ کے مشہور امپائرز مقابلے کو سپروائز کر رہے تھے۔فائٹ ختم ہونے کے بعد دونوں نے سپورٹس مین سپرٹ کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک دوسرے کو گلے لگایا اور اس طرح ایک مثبت سرگرمی کے ساتھ تنازع بھی حل ہوگیا۔

ہمارے زیادہ تر مسائل ناک کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں اپنی ناک اونچی رکھنے کے لئے لوگ بڑے بڑے معرکوں میں کود پڑتے ہیں جان کی بازیاں لگاتے ہیں۔ایک بار ناک ٹوٹ جائے تو ساری مستی کافور ہوجاتی ہے۔ اوربندہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتا۔ ناک توڑنے کے لئے باکسنگ سے بہتر کوئی ذریعہ نہیں۔ دنیا میں روز نئی تبدیلیاں آتی ہیں پرانی کہاوتیں اور ضرب الامثال بھی وقت گذرنے کے ساتھ متروک ہوجاتی ہیں کہاجاتا تھا کہ دنیا میں سارے لڑائی جھگڑے، جنگیں، محاذآرائیاں اور تنازعات مذاکرات کی میز پر ہی حل ہوسکتے ہیں۔ برازیل والوں نے اس کہاوت کو غلط ثابت کردیا ہے اور ثابت کیا ہے کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔ممکن ہے کہ بوربا شہر کا میئر ماضی میں باکسر رہا ہو۔ اس لئے انہوں نے اس کھیل کو سیاسی تنازعے کے حل کا ذریعہ بنادیا۔

تنازعات حل کرنے کے لئے سیاست دانوں کے درمیان کرکٹ، ہاکی، جوڈوکراٹے،برفیلی پہاڑ پر چڑھنے، گہرے پانیوں میں غوطہ لگانے، گھڑ سواری اورتیراندازی کے مقابلے بھی کرائے جاسکتے ہیں۔لیکن کھیل اور سیاست سے لے کر زندگی کے ہر شعبے میں سپورٹس مین سپرٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے لوگوں کے مزاج میں ایک خرابی یہ ہے کہ ہارنے کے باوجود وہ شکست قبول نہیں کرتے۔ امپائر خواہ غیر جانبدار ہی کیوں نہ ہوں اس کا فیصلہ تسلیم نہیں کیاجاتا۔اس لئے برازیل والوں کے آزمودہ طریقے کو یہاں اختیار کرنے سے پہلے امپائر کا فیصلہ قبول کرنے اور اپنی شکست کو صدق دل سے تسلیم کرنے کی روایت کو فروغ دینے کی ضرورت ہے اور اس کام میں صدیوں بھی لگ سکتے ہیں۔

اپنے لوگوں میں ایک بنیادی خامی یہ بھی ہے کہ ہم دوسروں کی بری عادتوں کو توفوری طور پر اپنالیتے ہیں لیکن اچھی عادتوں کو اپنانا اپنی شان اور اناکے خلاف سمجھتے ہیں۔حالانکہ کوئی کام قومی مفاد میں ہو۔تو انفرادی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر اسے اختیار کرنا چاہئے۔مگر یہاں بھی ایک بنیادی سوال اٹھتا ہے کہ قومی مفاد کا فیصلہ کون کرے گا۔ ہمارے یہاں تو قومی مفاد کی آڑ میں ہی ذاتی مفاد کی آبیاری کی جاتی ہے۔ اس بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ ہم ہر چیز کو اپنے مفادات کے ترازو میں تولتے ہیں۔اس کی ایک بڑی مثال جمہوری نظام ہے۔ جن لوگوں نے یہ نظام وضع کیاتھا۔وہ اب تک جمہوریت کے بنیادی تصور کے ساتھ چمٹے ہوئے ہیں ہم نے اپنے ہاں جس نظام کو جمہوریت کا نام دیا ہے۔ وہ حقیقی جمہوریت سے میل نہیں کھاتا۔لیکن یہ ہمارے مزاج سے ہم آہنگ ہے اس لئے اسے ترک کرنے کی ہمت نہیں ہورہی۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
56646

برٹش کونسل کے زیر اہتمام انٹرنیشنل سکول ایورڈ کی شاندار تقریب ۔ نورالہدٰی یفتالی

برٹش کونسل  سکول ایورڈ   میں صوبہ خیبر پختواخواہ سے   ۳۳ اضلاع  کے ۴۸۰ سکولوں نے شرکت  کی،جبکہ اس  ایورڈ  کی دوڑ میں صوبے  میں ۲۶ سکول برٹش انڑنشنل ایورڈ کے  طے  کردہ معیار پر اترے،سکول لیڈرشپ اور کانیکٹکنگ کلاس  روم پروگرام کے تحت تربیت پانےوالے سکول نے  شاندار   پوزیشن حاصل کی۔ضلع چترال سے  گورنمنٹ گرلز ہائی سکینڈری  سکول چترال شیاقوٹیک  بھی نے انٹرنشل سکول ایورڈ اپنے نام کر لیا۔

کہتے ہیں کہ !

اگر ایک خاتوں گھر چلانے کی ذمہ داریارں احس طریقے سے  سرانجام دیتی ہو تو یقین اسے  معاشرے کی اصلاح  کرنے  میں کوئی دوشواری پیش نہیں آئے گی،انٹرنیشل سکول ایورڈ اپنے نام کرنےوالی  خاتوں محترمہ حسینہ واجد صاحبہ    نے بھی   اس ایورڈ کے دوڑ میں   سب سے آگے رہی، حسینہ واجد صاحبہ نے  بین الااقومی   سکولوں کیساتھ  اپنی نصابی سرگرمیوں  کا تبادلہ کیا،ان بین الااقوامی سکولوں میں  مختلف ممالک  جن میں انڈیا،تایئوان،سری لنکا،بنگلہ دیش،پاکستان شامل تھے۔

یاد رہے، حسینہ واجد  یورنیورسٹی  آف سے پشاور سے معاشیات میں ماسٹر کر چکی ہے اور ساتھ اسی جامعہ سے  ہی ایم فل کر چکی ہے،اورملک کے معروف بین الااقوامی اداروں میں کام کرنے کا وسیع تجربہ رکھتی ہے۔

chitraltimes british council award chitral

گورنمنٹ  گرلز ہائی سکنڈری   سکول  چترال شیاقوٹیک    اور جی جی ایچ ایس بلچ  نے   بھی میدان مار لی۔

ضلع لویئر چترال میں ڈسٹرکٹ کوارڈینٹر نصرت جہان صاحبہ  کے زیر انتظام   زیادہ سکولوں نے یہ ایورڈ اپنے  نام کرلئے۔جن کی تعداد چار ہے اسی طرح پورے صوبے  میں سب سے زیادہ ایورڈ  جتنے کا سہرا بھی   لویئر چترال نے اپنے ساتھ جوڑ لیا،

اس  تقریب میں   برٹش کونسل کی جانب سے چمپین سکول کے اعلیٰ عہدہ داروں  کو ایورڈ سے نوازا گیا، اس تقریب میں  شاندار    پوزیش والے سکول کے استاتدہ  ،ڈسٹرکٹ کوارڈینٹر  میں   معیار تعلیم  کو بہتر بنانے کے حوالے سے   سرٹیفیکٹ تقسیم کئے گئے۔اس موقع پر صوبہ خیبرپختوانخواہ کے صوبائی وزیر تعلیم شہرام خان ترکئی،جائینٹ سکٹریٹری شہناز طاہر،ڈاریکٹر برٹشل کونسل ڈاکٹر نشاط ریاض  اور  ماہر تعلیم اس تقریب میں مدعو تھے۔

chitraltimes british council award2
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
56640

نوزائیدہ بلدیاتی اداروں کا مستقبل ۔ محمد شریف شکیب

الیکشن کمیشن نے خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کا شیڈول تاحکم ثانی جاری کرنے سے روک دیاہے جس باعث خیبرپختونخوا کے اٹھارہ اضلاع میں بلدیاتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ تاخیر سے شروع ہونے کا امکان ہے۔ موسم کی صورتحال کے باعث بلدیاتی انتخابات مارچ یا اپریل میں کرانے پر مشاورت شروع کر دی گئی ہے، الیکشن کمیشن حکام کے مطابق جنوری اور فروری میں بیشتر اضلاع میں شدید برف باری کے امکان کے پیش نظر انتخابات کا التواء زیر غور ہے۔الیکشن کمیشن کو متعدد جماعتوں نے دوسرے مرحلہ کا انتخاب تاخیر سے کرانے کی درخواست دی تھی، الیکشن کمیشن جلد ہی صوبے میں بلدیاتی انتخاب کے دوسرے مرحلے کے شیڈول کا اعلان کرے گا۔ اس سے قبل الیکشن کمیشن نے 16جنوری کو خیبرپختونخوا میں دوسرے مرحلے کے بلدیاتی انتخابات کروانے کا اعلان کیا تھا۔19دسمبر کو صوبائی دارالحکومت پشاور کے علاوہ مردان، چارسدہ، صوابی، بونیر، باجوڑ، نوشہرہ، کوہاٹ، کرک، ڈیرہ اسماعیل خان، بنوں، ٹانک، ہری پور، ہنگو، لکی مروت، مہمند اور ضلع خیبر میں بلدیاتی اداروں کے انتخابات ہوئے ہیں سترہ اضلاع میں 66تحصیلوں سمیت ویلج اور نیبرہڈ کونسلوں کے انتخابات کے نتائج بھی آچکے ہیں۔ ج

ن اٹھارہ اضلاع میں دوسرے مرحلے کے انتخابات ہونے ہیں ان میں اپرچترال، لوئرچترال، اپردیر، لوئر دیر، ملاکنڈ، سوات، شانگلہ، تورغر، اپر کوہستان، لوئر کوہستان، بٹگرام، مانسہرہ، ایبٹ آباد، اورکزئی، کرم، شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان شامل ہیں۔ یہ تمام پہاڑی علاقے ہیں جہاں دسمبر سے مارچ تک برفباری ہوتی ہے اور رابطہ سڑکیں بند اور کاروبار زندگی تقریباً مفلوج ہوجاتا ہے۔ ان علاقوں میں جنوری میں انتخابات کا انعقاد ممکن ہی نہیں تھا۔ جس کی نشاندہی مختلف سیاسی جماعتوں نے بھی کی تھی۔ بلدیاتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ اپریل میں بھی انجام پایا تو خیبر پختونخوا طویل وقفے کے بعد بلدیاتی ادارے بحال کرنے والا پہلا صوبہ بن جائے گا۔ صوبائی حکومت کا اصل امتحان منتخب بلدیاتی اداروں کو اختیارات اور وسائل کی منتقلی ہے۔

حکومت نے ویلج اور تحصیل کونسلوں کے بجٹ کی تیاری اسسٹنٹ کمشنرز اور تحصیل کونسلوں کی ڈپٹی کمشنرز کے سپرد کردی ہے۔ حالیہ بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں بیشتر اضلاع میں اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی جماعتوں کے امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیاصوبائی حکومت جے یو آئی اور اے این پی کے منتخب میئرز اور چیئرمینوں کو تمام مالی و انتظامی اختیارات سونپتی ہے یا انہیں بیوروکریسی کے رحم و کرم پر چھوڑا جاتا ہے۔یہ حقیقت ہے کہ اگر حکومت نچلی سطح پر عوام کے مسائل ان کی دہلیز پر حل کرنا چاہتی ہے تو بلدیاتی اداروں کو مالی طور پر خودکفیل اور بااختیار بنانا ہوگا۔ یہی بلدیاتی ادارے گلیوں اور نالیوں کی پختگی، صاف پانی کی فراہمی، نکاسی آب، صحت و صفائی اور شہریوں کے چھوٹے موٹے مسائل حل کرتے ہیں۔

وسائل اور اختیارات کے بغیر بلدیاتی اداروں کا قیام سعی لاحاصل ہے۔ محدود وسائل اور اختیارات کے ساتھ شہری سہولیات کی فراہمی کا کام ٹی ایم اوزکی وساطت سے بھی ہوتا رہتا تھا۔ کروڑوں اربوں روپے خرچ کرکے انتخابات کرانے کی چنداں ضرورت نہیں تھی۔بلدیاتی اداروں کو جمہوریت کی نرسری قرار دیا جاتا ہے۔ جب نرسریاں سرسبزوشادات اور ہری بھری ہوں گی تب ملک میں جمہوری قدروں کو فروغ ملے گا۔ تعجب خیز امر یہ ہے کہ منتخب جمہوری حکومتوں نے ہمیشہ بلدیاتی اداروں کو نظر انداز کئے رکھا۔ ملک میں پہلی بار بنیادی جمہوریتوں کے نام سے بلدیاتی ادارے 1960کے عشرے میں فوجی حکمران کے عہد میں قائم ہوئے۔ دوسری بار 1980کے عشرے میں دوسرے فوجی حکمران نے بلدیاتی ادارے قائم کئے۔تیسری بارسن2000کے بعد جنرل مشرف نے اپنے دور میں بلدیاتی انتخابات کروائے۔ آج جمہوری حکومت کے دور میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد نہایت خوش آئند ہے۔نومنتخب عوامی نمائندے اور عوام بھی توقع رکھتے ہیں کہ صوبائی اور مرکزی حکومت نوزائیدہ بلدیاتی اداروں کی سرپرستی کریں گی تاکہ اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کے ثمرات عوام تک پہنچ سکیں۔

Posted in تازہ ترین, مضامین
56606

پاکستانی سیاست کاایک عہدساز باب – پروفیسر غفوراحمدؒ؛-ڈاکٹر ساجد خاکوانی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

26)دسمبریوم وفات کے موقع پر خصوصی تحریر)آ

                ان کااصل نام ”عبدالغفوراحمد“ تھا،لیکن پاکستان کی سیاسی تاریخ میں وہ ”پروفیسرغفوراحمد“کے نام سے مشہور رہے۔26جون کو ہندوستانی ریاست اترپردیش(یوپی) کے مشہورشہر”بریلی“میں پیداہوئے۔آپ کے والد تاجرتھے اور ایک دکان کرتے تھے۔یہ دورغلامی تھا،اور امت مسلمہ کی کوکھ اس بدقسمت دورمیں بھی بیدارمغزقیادت سے سرسبزوشاداب رہی۔ننھے پروفیسرغفوراحمدنے ابتدائی تعلیم اپنے علاقائی مقامی تعلیمی اداروں میں ہی حاصل کی۔ایک انٹرویومیں آپ نے خود بتایاکہ آپ کی تعلیم کاآغاز مسجد سے ہواتھا۔اسلامیہ ہائی سکول بریلی سے 1942ء میں دسویں کاامتحان پاس کیا۔بی کام کی تعلیم کے لیے آگرہ تشریف لے گئے اوروہاں کی ”آگرہ یونیورسٹی“سے مذکورہ تعلیم مکمل کی۔1948ء میں لکھنؤیونیورسٹی سے تجاریات(کامرس) میں ماسٹرزکی سند حاصل کی،”لکھنؤیونیورسٹی“اس وقت کے متحدہ ہندوستان کے چندبہترین اعلی تعلیمی اداروں میں سے ایک تھی۔صنعتی حسابات(انڈسٹریل اکاؤنٹس)کی تعلیم اس پر اضافی تھی۔اسی سال اسلامیہ کالج لکھنؤمیں شعبہ تجاریات قائم ہوا تو پروفیسرغفوراحمدنے یہاں سے تدریسی خدمات کاآغازکیا۔آزادی کے بعد آپ نے اپنے خاندان کے ساتھ ہجرت کی اور کراچی جیسے زرخیزشہر میں مستقل سکونت اختیارکی۔اپنی تعلیمی استعداد کی بنیاد پر آپ نے متعدد تجارتی و کاروباری اداروں میں خدمات سرانجام دیں اوران اداروں میں اچھے مناصب پر تعینات بھی رہے۔لیکن فطری طورپرآپ کارجحان تعلیم و تدریس کی طرف تھا،چنانچہ اپنی کاروباری متعلقہ سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ آپ نے تدریس کی طرف بھی توجہ دینا شروع کی اور پھر ایک وقت آیا کہ پروفیسر غفوراحمدکلی طورپرتعلیم کے شیوہ سے ہی وابسطہ ہوکررہ گئے۔آپ نے انسیٹیوٹ آف چارٹرڈاکاؤنٹس پاکستان اوراردوکالج کراچی سے اپنی تدریسی سرگرمیوں کاباقائدہ آغاز کیا۔تعلیم سے فطری شغف بہت جلدآپ کو جامعہ جیسی بلندترین مادرعلمی کے مقام تک لے گیااورآپ پہلے سندھ یونیورسٹی اور پھر کراچی یونیورسٹی سے ایک طویل عرصہ تک وابسطہ رہے۔ان دونوں جامعات کے نصاب سازادارے بھی آپ کی تخلیقی وتحقیقی صلاحیتوں سے فیض یاب ہوئے۔

                وطن عزیزمیں آپ کاتعارف میدان سیاست میں دیانتداراوربااصول سیاستدان کی حیثیت سے جاناجاتاہے۔پروفیسرغفوراحمدنے اگرچہ تئیس سال کی عمرمیں اپنے سیاسی مستقبل کاسفرباقائدہ سے شروع کیالیکن زمانہ طالب علمی میں بھی آپ بہترین مقرراور اپنے کالج میں طلبہ یونین میں بھرپور حصہ لینے والے طالب علم راہنمارہے تھے۔اسی زمانہ طالب علمی میں آپ نے مولانا مودودی کی تحریروں سے تعارف حاصل کیا۔آپ نے سب سے پہلے مولانا مودودی کی کتاب ”خطبات“پڑھی پھرخود بتاتے ہیں کہ اس کے بعد مولانا کتابیں ڈھونڈ ڈھونڈ کرپڑھاکرتاتھا۔1941ء میں جماعت اسلامی قائم ہوئی اور 1944ء تک آپ اس جماعت سے مکمل تعارف حاصل کرچکے تھے۔آپ نے 1950ء میں جماعت اسلامی کراچی میں رکن کی حیثیت سے شمولیت اختیارکی۔یہ جماعت اسلامی کا شعبہ نوجوانان تھا۔اپنی خداداصلاحیتوں کی بدولت آپ نے جماعت اسلامی میں بہت جلد اعلی مقام حاصل کرلیا۔جماعت اسلامی کے بانی امیرمولاناموددیؒکے آپ کے ساتھ بہت برادرانہ ودوستانہ تعلقات رہے،ان سے پہلی ملاقات لاہورمیں ہوئی۔کراچی میں مولانا مودودی ؒکا قیام آپ ہی گھرمیں ہواکرتاتھا۔تنظیمی و سیاسی معاملات میں پروفیسرغفوراحمد کا مشورہ جماعت اسلامی اسلامی کے لیے قندیل راہبانی کی حیثیت رکھاکرتاتھا۔کراچی سمیت کل ملکی منصوبہ بندی میں جماعت اسلامی کی راہنمائی فرمایاکرتے تھے۔کراچی سے باہر جب دوسرے شہروں کادورہ کرتے تو جماعت اسلامی کے کارکنان سمیت عوام کاایک جم غفیر آپ کے دائیں بائیں متحرک ہواکرتاتھا۔ایک طویل عرصے تک سندھ کی مجلس عاملہ اور پاکستان کی مرکزی مجلس شوری کے رکن رہے۔تین سال تک جماعت اسلامی کراچی کے امیر بھی رہے بعد میں انہیں کل پاکستان کانائب امیر بنالیاگیا۔

                 1958ء میں آپ کراچی کے مقامی  بلدیاتی انتخابات میں عوام کی تائید سے رکن بلدیہ منتخب ہوئے۔بہترین کارکردگی کی بنیادوں پر کراچی کی باشعورعوام نے آپ کو 1970اور 1977کے عام انتخابات میں پاکستان کی قومی اسمبلی کارکن بھی منتخب کیا۔1973ء کے پاکستانی آئین کی منظوری پر آپ کے ہاتھوں سے کیے ہوئے دستخط بھی موجود ہیں۔پاکستان کے دولخت ہونے پرپارلیمان کے اندراور پارلیمان کے باہر بھی آپ کاکردار سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے۔اس وقت پوری پاکستانی قوم ایک بہت بڑے سانحے سے دوچارہوچکی تھی اور پروفیسرغفوراحمدان چند راہنماؤں میں سے تھے جنہوں نے اس کڑے وقت میں قوم کو حوصلہ دیا۔اس وقت تک آپ صرف جماعت اسلامی کے راہنماؤں میں شمارہوتے تھے لیکن 28جنوری1973کو انہوں نے پاکستان ٹیلی ویژن پر ایک مایہ ناز انٹرویودیا،اس کے بعد سے پاکستان کے سیاسی حلقوں میں ان کی پزیرائی میں بے حد اضافہ ہوگیااور عوام کی عدالت میں ان کو بے پناہ قدرومنزلت اورقبول عام حاصل ہوا جس کے نتیجے میں انہیں پورے ملک میں ایک سیاسی جماعت کی بجائے قومی راہنماکامقام حاصل ہوگیا۔

                دوسری بار یعنی1977ء کے انتخابات میں آپ نے ”پاکستان قومی اتحاد“کے مشترکہ اتحادسے کامیابی حاصل کی تھی۔اس سیاسی اتحاد نے جب تحریک چلائی تو 1977ء تا1978ء تک اس اتحاد کے سیکریڑی جنرل بھی رہے،اور اس وقت کی تحریک نظام مصطفی کے روح رواں رہے۔بعد میں جب اس اتحادنے وقت کے حکمرانوں سے مزاکرات کافیصلہ کیاتو مزاکراتی ٹیم کااہم حصہ ہونے کے ناطے پوری قوم کی نظریں آپ پر جمی رہتی تھیں۔1978تا1979 وفاقی وزارت صنعت وپیداوارکاقلمدان بھی آپ کے پاس رہا۔”اسلامی جمہوری اتحاد“کاسیکریٹری جنرل رہناآپ کی اتحادی سیاست کاآخری سنگ میل ثابت ہوا۔جب آپ کی سیاسی جماعت اس اتحاد سے الگ ہوئی تواس وقت آپ اپنی سیاسی جماعت،جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر تھے۔یہی منصب تاحیات آپ کے پاس رہا۔2002تا2005پاکستان کے ایوان بالا کے رکن بھی رہے۔آخری عمر میں کراچی کے حالات پر سخت پریشان رہتے تھے۔کراچی کاغم ہی آپ کی وفات کاباعث بنااور کم و بیش پچاسی برس کی عمر میں دس دن ہسپتا ل میں گزارنے کے بعد 26دسمبر2012ء کو خالق حقیقی سے جاملے۔

                پروفیسرغفوراحمد نے بانی جماعت اسلامی مولانا مودودی ؒ کے شانہ بشانہ کام کیا۔پھر میاں طفیل محمدکی قیادت آئی تو بھی جماعت اسلامی کی مرکزی قیادت میں آپ کاشمارہوتاتھا۔قاضی حسین احمد آپ سے چھوٹے تھے لیکن جب وہ امیر جماعت اسلامی منتخب ہوئے توپروفیسرغفوراحمدان کے ساتھ بھی بطورنائب امیر کے کام کرتے رہے۔جب ان کاانتقال ہواتو سید منور حسن امیرجماعت اسلامی پاکستان تھے۔پاکستان کی دیگرسیاسی جماعتوں میں ایسانہیں ہواکرتا،یہ پروفیسرغفوراحمدکی سادگی اور اطاعت نظم کی عمدہ مثال ہے کہ انہوں نے چھوٹوں کی قیادت کوتسلیم کیااور کوئی الگ سے گروہ بندی نہیں کی۔گزشتہ صدی میں اسی(۰۸) کی دہائی کے اواخر میں ملتان تشریف لائے تو راقم الحروف نے بھی ان سے شرف ملاقات حاصل کیا،لیکن یہ زمانہ طالب علمی تھااور ملاقات صرف علیک سلیک اور ان کے خطاب کی سماعت تک محدود رہی۔البتہ ایک نماز کی ادائگی کے لیے ان کی معیت میں مسجد جانایادہے،جب گنتی کے چندافرادہی ہمراہ تھے۔ جماعت اسلامی ملتان کے بزرگوں سے ان کی تفصیلی ملاقات کے مناظر اب بھی اس یادداشت میں محفوظ ہیں۔

                انتہائی سادہ طبیعت،پروقار شخصیت اور بااصول کردارپروفیسرغفوراحمدکی زندگی کاخاصہ رہاہے۔انہیں اسمبلی سے اٹھاکر باہر سڑک پر پھینکاگیا،قیدوبندکی صعوبتیں ان کے راستے میں آئیں،انتخابات میں ناکامیوں کاایک تسلسل جوان کی جماعت کامقدربنارہااورعمربھرکی سیاست سے صرف نیک نامی کی کمائی،ان سب کے باوجود ثابت قدمی سے اقامت دین کی جدوجہدمیں جتے رہنااور اپنی تمام کاوشوں کا بدلہ صرف اپنے رب سے ہی چاہناوہ خواص ہیں جو ایک دینی جماعت کی نسبت سے پروفیسرغفوراحمدکو میسر آئے۔پاکستان کی کون سی سیاسی جماعت ہے جس کے راہنماکے اجدادیااولادسے قوم واقف نہیں ہے؟؟؟لیکن پروفیسرغفوراحمدکی شخصیت کے علاوہ سب کچھ پردہ اخفامیں ہی ہے۔یہ ایک حقیقی راہنماکی نشانی ہے کہ اس کاسب کچھ اس کی قوم کے لیے ہی ہوتاہے،حتی کہ اس کے مناصب ومقامات بھی اس کے بعد اہل تر لوگوں کے حصے میں آتے ہیں بجائے اقرباوخواص کے۔یہ لوگ ہیں جن کے لیے ان کے رب کے سچے وعدے موجود ہیں وہ لوگوں سے اپنے کیے کابدلہ نہیں مانگتے اور نہ ہی اپنی خدمات کاکوئی صلہ چاہتے ہیں بلکہ ان کا بدلہ ان کے رب کے ہاں محفوظ ہوتاہے۔

[email protected]

Posted in تازہ ترین, مضامین
56561

داد بیداد ۔ طرز زند گی اور مہنگا ئی ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

اس میں دورائے نہیں کہ ملک میں مہنگا ئی ہے البتہ مہنگا ئی کی وجو ہات پر دو یا دو سے زیا دہ اراء ہو سکتی ہیں سب سے معتبر رائے یہ ہے کہ ڈالر اور تیل کی وجہ سے مہنگا ئی بڑھ گئی ہے دوسری رائے یہ ہے کہ سر کاری مشینری اشیائے صرف کی قیمتوں کے سر کاری نر خ پر عملدرآمد کرانے میں نا کام ہوئی ہے تیسری رائے یہ ہے کہ مہنگا ئی کا تعلق طرز زندگی سے ہے ہم نے اپنی ضروریات کا دائرہ غیر ضروری طور پر وسیع کر دیا ہے اس لئے مہنگا ئی سے متا ثر ہو رہے ہیں.

ایک ما ہر معا شیات کی نظر میں مہنگا ئی کی دو سطحیں ہو تی ہیں پہلی سطح شہری زند گی میں نظر آتی ہے جہاں لو گوں کے پا س زمین کی پیداوار نہیں ہو تی گھر سے بازار لے جا کر فرفروخت کرنے کے قابل کوئی جنس نہیں ہو تی گھر یلو بجٹ کا دارو مدار نقد کما ئی پر ہو تا ہے اور گھریلو استعمال کی ہر چیز بازار سے خرید نی پڑ تی ہے مہنگا ئی کی یہ سطح بہت زیا دہ متاثر کرتی ہے دوسری سطح دیہا تی زند گی میں دیکھنے کو ملتی ہے جہاں دودھ، گوشت، مر غی، انڈے، سلاداور ایندھن وغیرہ مفت ملتا ہے بعض گھرانوں میں آٹا بھی زمین کی پیداوار سے آتا ہے دالیں بھی گھریلو پیدا وار میں شامل ہو تی ہیں سبزیاں بھی زمین پر اگائی جا تی ہیں سر دیوں کے لئے ذخیرہ کر کے رکھی جا تی ہیں

سروے کرنے والی ایک کمپنی نے گاوں میں ایک بڑھیا کا انٹر ویو کیا کمپنی نے پو چھا مو جو دہ مہنگا ئی کے بارے میں تمہا ری کیا رائے ہے بڑھیا نے کہا مو جو دہ حا لات میں کوئی مہنگا ئی نہیں 80سال پہلے ایک مر غی کے بدلے جتنی چائے آتی تھی اب بھی اتنی ہی چائے آتی ہے ایک درجن انڈوں کے عوض میرے بچپن میں جتنی چینی آتی تھی آج بھی اتنی ہی چینی آتی ہے بڑھیا کو روپے پیسے کے حساب کا علم نہیں تا ہم اس کے تجربے اور مشا ہدے کا مفہوم یہ ہے کہ 1941ء میں چائے 4روپے سیر آتی تھی، مر غی کی قیمت 8آنے تھی اور 8آنے میں آدھ پا ؤ چائے آتی تھی جس گھر میں بازار میں فروخت کرنے کے قا بل کوئی جنس ہے وہ مہنگا ئی سے متا ثر نہیں ہو تا گاوں کی بڑھیا کہتی ہے کہ 80سال پہلے ہم گھی اور چاول، بازار سے نہیں خرید تے تھے،

80سال پہلے بجلی اور گیس کے بل نہیں تھے بچوں کے سکول کی فیس نہیں تھیں، آج کل ایسے ایسے اخرا جا ت آگئے ہیں کہ ہماری سمجھ میں نہیں آتے اگر چہ بڑھیا نے ذکر نہیں کیا تا ہم بسوں میں سفر، ٹیکسی، رکشہ وغیرہ کے کرایے، میک اپ کے سامان اُس کے بچپن میں نہیں تھے 80سال پہلے لو گ سال میں ایک بار کپڑے بنا تے تھے ایک بار جو تے خرید تے تھے آج کل ہر ماہ دو جو ڑے کپڑے اور دو جوڑے جو تے ہر ایک کے لئے خرید نے پڑ تے ہیں یہ طرز زند گی یا لائف سٹا ئل کا معا ملہ ہے مو جو دہ مہنگا ئی میں لا ئف سٹا ئل کا بڑا دخل ہے طرز بود باش کا بڑا حصہ ہے لا زمی خریداری اور غیر ضروری خریداری میں تمیز یا فرق نہ کرنے کا دخل ہے اس وجہ سے مہنگا ئی بری طرح محسوس ہو رہی ہے .

صا رفین نے بازار کا بائیکا ٹ کر کے کئی بار ثا بت کیا ہے کہ مہنگا ئی مصنو عی تھی بائیکا ٹ کے بعد ختم ہو گئی مثلا ً پیا ز، ٹما ٹر، آلو، ٹینڈا، مر غی، انڈہ وغیرہ لا زمی اجنا س کی فہر ست میں جگہ نہیں پا تے اس طرح گھی کا بھی بائیکا ٹ کیا جا سکتا ہے صابن اور ڈٹر جنٹ کی بے شما ر اقسام بازار میں مو جود ہیں ان میں سے جو چیز مہنگی ہو اس کا بائیکا ٹ کر کے نر خوں کو معقول سطح پر لا یا جا سکتا ہے صارفین کو اپنی طاقت کا اندازہ ہونا چا ہئیے مہنگا ئی کا 50فیصد تعلق ڈالر، تیل اور سر کا ری نر خ نا مے سے ہے تو 50فیصدکا تعلق ہمارے طرز زندگی یا لائف سٹا ئل سے ہے اگر وہ ہمارے بس میں نہیں تو یہ ہمارے بس میں ہے

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
56575

دھڑکنوں کی زبان -“آے قائد اعظم ذرا خواب میں آ۔۔” محمد جاوید حیات

آج 25 دسمبر کا تاریخ ساز دن ہے عیسایوں کے لیے بھی ہمارے لیے بھی ۔آج کے دن محمد علی جناح نے پونجا جناح کے ہاں جنم لی ۔باپ تاجر تھا لیکن علم سے محبت تھی بیٹے کو پڑھانا چاہتا تھا خود ایک آزمودہ تاجر وقت کا پابند اپنے کام کا خاص خیال رکھنے والا منتظم اور کامیاب بندہ تھا ۔ان کا بیٹا بھی نمایان صلاحیتیں لے کے دنیا میں آیے تھے پڑھ لکھ کر نام کمایا اور ایک قوم اور بے دست وپا قوم کو ساتھ لےکر دنیا کے نقشے کو ہی بدل دیا ۔قاید اعظم کہلایا اور ان کے کاروان میں جو لوگ شامل تھے ان کے گرو بن گئے ان لوگوں نے ان کے حکم پر لبیک کہا اور ناممکن کو ممکن بنا کر تاریخ رقم کی ۔۔

قاید اعظم ایک پاکیزہ صفت انسان تھے اور اپنے وژن پہ یقین رکھتے تھے اس نوزایدہ پاکستان کو اپنی سوچ کی طرح پاک صاف ستھرا اور ہر کوتاہی سے پاک رکھنا چاہتے تھے ۔ان کا وژن یقین تنظیم اتحاد اور عمل پیہم تھا لیکن بدقسمتی تھی ایک سال سے کچھ زیادہ عرصے اس قوم کے ساتھ رہے پھر دنیا نے وہ وژن اور ترتیب نہیں دیکھی جو اس کے پاس تھا اور اس ملک کے لیے تھا اب ملک خداداد کی حالت دیکھ کر قاید اعظم رہ رہ کے یاد آتا ہے جی چاہتا ہے کہ کہیں خواب میں آجائے تو اس کو سب بتا دیا جائے ۔کہ بابا ہم نے آپ کے حاصل کردہ وطن کے بڑے ٹکڑے کو گنوا دیا اچھا کیا کہ وہ اب وہ ٹکڑا مستحکم ہے برابر ترقی کر رہا ہے ۔

ہم آبادی کے لحاظ سے بڑھتے بڑھتے بیس کروڑ تک پہنچ گئےہیں لیکن ہماری تربیت کی جگہ بے تربیتی ترقی کر رہی ہے ہمارے ادارے ہمارے قوانین ہمارے اصول ہمارے کردار ہمارا دستور ہمارا آئین ہمارا پارلیمنٹ ہمارا ایمان ہماری غیرت سب بچوں جیسی ہیں ان کا کوئی اعتبار نہیں نہ ان پر بھروسہ کیا جاسکتا ہے ۔۔تو نے اپنی ایک تقریر میں کہا تھا کہ ملک کو کھوکھلا کرنے والی ناسور کرپشن ہے اس”ناسور ” میں خیر سے ہم دنیا کے ٹاپ ممالک میں شامل ہوگئے ہیں تو نے خود انحصاری اور خود اعتمادی کا درس دیا تھا ہم نے “خود” کو کاٹ کر “انحصار ” پر اتنا بھر پور عمل کیا کہ قرضوں تلے دب گئےہیں اب ہم اپنی مرضی سے ایک روپیہ بھی خرچ نہیں کر سکتے دوسروں کے پیسے کیسے خرچ کریں ۔تو نے ہنر سیکھنے کی تعلیم حاصل کرنے کا سبق پڑھایا تھا ہم ستر سالوں میں بھی ایک ڈھنگ کا تعلیمی ادارہ نہیں بنا سکے ۔

تو نے راہنمائی کے گر سیکھائے تھے کہ راہنما امین صادق پرخلوص اہل اور بد عنوانی سے پاک ہوتا ہے ۔یہاں ایسا نہیں ہے لیڈر دوسروں کو یہ سبق پڑھاتا ہے لیکن خود اس کو ان اوصاف سے دور دور کا بھی تعلق نہیں ۔ان کا کام وفاداریاں بھیجنا پارٹیاں تبدیل کرنا اور جائیدادیں بنانا یے ۔ہم ابھی تک دوسروں کی جنگ لڑ رہے ہیں ہمارے محافظ اپنے گھر آنگن میں کٹ مر رہے ہیں ۔ ہم نے 22 سال پہلے اٹیمی طاقت بنے مگر اس طاقت نے ہمیں کوئی فایدہ نہیں دیا۔۔ہم اسی طرح دوسروں سے خوفزدہ ہیں ہم نے اپنے محسن “ایٹم بم بنانے والے ” کو گھر کے اندر قید کیا وہ تمہاری طرف آگئے ہیں تم نے کہا تھا “ہم نے ایک آزاد ،خود مختار اور الگ ملک حاصل کیا”۔ یہ الگ سہی لیکن آزاد اور خود مختار کے خواب ابھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوئے ۔

تمہارے انگریز جنرل نے تمہیں کشمیر کے بارے میں رپورٹ دی کہ ہندوستان نے کشمیر میں اپنی فوج اتاری ہے تو نے فورا کہا تھا جاو لڑو ان کو نکال دو۔ وہ زمانہ بے سرو سامانی کا تھا لیکن ہم اب تک ان کو نہیں نکال سکے بلکہ وہ مذید مستحکم ہوگئے ۔ہم دہشت گردی کے شکار رہے ہماری فوج 15 سالوں سے مسلسل لڑ رہی ہے لیکن اغیار ہم سے ناراض ہی ہیں جنگ ان کی ہے تباہ ہم ہو رہے ہیں پھر شک ہم پر ہے الزام ہم پر ہے ۔سر ہمارے وزراء نغوذو بااللہ چوری کر رہے ہیں ۔۔ہماری پالیسیاں ناقص ہیں ناکام ہیں ۔ہماری عدالتیں ہم پر سوالیہ نشان ہیں ۔ہماری پولیس کی کارکردگی پر دنیا کو شک ہے ہمارے اساتذہ قوم کے نونہالوں کو خاک بازی کا درس دے رہے ہیں ۔ہماری قومی شناخت مٹ رہی ہے ۔قومی کھیل ہاکی کا کباڑہ ہوا ہے۔

قومی زبان اردو اپنی موت مر رہی ہے ۔قومی پھول چنبیلی گلشنوں سے ناپید ہے قومی پرندہ چوکور جنگل چھوڑ رہا ہے اس لیے کہ شکاریوں نے اس کا جینا حرام کر دیا ہے ۔قومی لباس شلوار قمیص مردوں کے بدن سے غائب تھا اب خواتین کے ہاں سے بھی غائب ہو رہا ہے ۔کردار مٹ رہے ہیں آئے روز ایسے واقعات سننے کو ملیں کہ انسان لرزہ براندام ہو جائے ۔آے قاید اعظم خواب میں آ ۔۔یہ سب کچھ آپ کو بتا کر دل کا بوجھ ہلکا کریں ۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
56563

استاد کو چاہیے کہ وہ استاد کو عزت دے -خاطرات : امیرجان حقانی

 “استاد، استاد کی قدر نہیں کرتا، باقی معاشرے کے تمام طبقات اپنی فیلڈ، منصب اور پیشہ سے منسلک اشخاص و افراد کو انتہائی عزت دیتے ہیں. استاد کو چاہیے کہ وہ ہر حال میں استاد کو عزت دے. فوجی فوجی کو سرپر بٹھائے گا، ڈاکٹر دوسرے ڈاکٹر کا ریفرنس سن کر آدھی فیس معاف کرجاتا ہے مگر استاد استاد کو زک پہنچائے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتا. اس لیے میرا طریق کار ہے کہ اصولوں پر ایڈمنسٹریشن کے بڑے سے بڑے آدمی کی بات نہیں سنتی مگر استاد کا کام ترجیحی بنیادوں پر کرتی اور انہیں مکمل ریگارڈ دینے کی کوشش کرتی ہوں”.


یہ کلمات میڈیم گل رخشندہ کے تھے جوہمارے سینئر کولیگ پروفیسر شہنشاہ کی شریک حیات ہیں اور خود بہترین مدرسہ(استانی) بھی ہیں . یہ 2019 مارچ کی بات ہے. میں گورنمنٹ گرلز ہائی سکول جوٹیال کے لان میں کھڑا تھا. میرے ساتھ میری بھانجی تھی جس کا ایڈمیشن کرانا تھا. میں ابھی ایڈمیشن آفس کا پتہ کرنے والا تھا، اتنے میں سکول کا چوکیدار میری طرف آیا، اور تڑاخ سے کہا، آپ کو پرنسپل صاحبہ اندر آفس میں بلا رہی ہے. میں ذہنی طور پر ڈانٹ سننے کے لیے تیار ہوا، مجھے لگا کہ گرلز سکول میں داخل نہیں ہونا چاہیے تھا مگر ہوچکا تھا. اگلے لمحے سوچا کہ سوری کرکے باہر نکل جاؤں گا. یہی سوچتے ہوئے ایک صاف ستھری اور نسبتا بڑی آفس میں داخل ہوا. ایک سمارٹ خاتون سیٹ سے کھڑی ہوئی اور فورا کہا. حقانی صاحب تشریف رکھیے. آپ کو سکول کے دروازے پر کھڑے دیکھا تو اندر بلا لیا.یقینا کسی کام سے آئے ہونگے.یقین جانیں! جان میں جان آئی اور بھانجی کو بھی اندر بلوالیا. دیامر میں مارچ کو امتحان ہوتے ہیں جبکہ گلگت میں دسمبر کو. عرض کیا بچی کا رزلٹ نہیں آیا ہے. ایڈوانس ہی گاؤن سے لے آیا  ہوں  تاکہ پڑھائی ضائع نہ ہو. بچی کی پوری پوزیشن ان کے سامنے رکھی. میڈم نے فوری طور پر داخلہ بھی دیا اور بچی کو ایک عدد چادر بھی عنایت کی اور کہا کہ گھر میں بھی بچی کی تعلیم پر توجہ دیں، دیہاتی بچیوں کا شہری بچیوں کے ساتھ چلنا مشکل ہوتا ہے، میں کلاس ٹیچر کو بھی اسپیشلی بچی پر توجہ دینے کا کہونگی بلکہ خود نگرانی بھی کرونگی . اور جیسے ہی رزلٹ نکلے سرٹیفکیٹ بھجوا دینا تاکہ پراپر بچی کو داخل کیا جاسکے.


 اتفاق سے میڈم گل رخشندہ مجھے پہلے سے جانتی تھی اور میری تحاریر پڑھتی رہی تھی.بڑی حوصلہ افزائی کی. پھر اپنے سکول کی تعلیم و تربیت پر ایک مفصل بریفنگ دی. بس اتنا کہوں گا کہ ان کے زمانے میں گلگت بلتستان کے تمام سرکاری اسکولز میں جوٹیال گرلز سکول ٹاپ پر آتا رہا. میٹرک رزلٹ سو فیصد ہوتا. پانچویں اور آٹھویں کی بورڈ کی پوزیشنیں  اس سکول کی طالبات لیتی رہیں.جب میڈیم گل رخشندہ کا بطور پرنسپل گریڈ 19 میں ایف پی ایس سی سے تقرری کا نوٹیفکیشن دیکھا تو بہت خوشی ہوئی. اللہ ان کو مزید ترقی دے.ایسے لوگ قابل احترام ہیں جو اپنے پیشے کے ساتھ مخلص بھی ہیں اور اپنے ہم پیشہ افراد کو عزت بھی دیتے ہیں.میڈم لالا رخ کو بھی مبارک ہو. 


میں نے زندگی میں پہلی دفعہ دیکھا کہ بطور مدرس کوئی دوسرا مدرس قدر کررہا ہے. ورنا عموما میرے ساتھ یہ ہوتا ہے کہ لوگ یا تو مولوی ہونے کی بنا پر عزت دیتے ہیں یا رائٹر ہونے کی بنا پر پہچانتے بھی ہیں عزت افزائی بھی کرتے ہیں.اور علمی محافل میں بھی بلاتے ہیں. بطور استاد، تلامذہ کے علاوہ کوئی پوچھتا ہی نہیں. بلکہ سرکاری دفاتر میں موجود نااہل قسم کے لوگ سامنے سامنے اساتذہ کی تضحیک کرنے میں بھی دیر نہیں لگاتے. جن لوگوں نے دو لفظ جوڑنے کا فن ان اساتذہ سے سیکھا ہوتا ہے وہ بھی پیٹ میں حرام کے لقمے بھرتے ہوئے اساتذہ کے گریڈ اور چھٹیوں پر تبصرہ کر رہے ہوتے ہیں.حلال کھانے والے اساتذہ پر تبصرہ نہیں کیا کرتے. کاش کہ وہ ایسا نہ کرتے!خاموش پیغام یہ ہے کہ اساتذہ واقعتا اپنی ویلیو چاہتے ہیں تو اک دوسروں کی تعظیم کریں اس تعظیم میں یہ تخصیص نہیں ہونی چاہیے کہ یہ مدارس کا استاد ہے یہ یونیورسٹیز کا، یہ سکول کا استاد ہے یہ کالج کا. یہ مکتب کا استاد ہے یہ جامعہ کا، بلکہ نورانی قاعدہ کا استاد ہو یا پی ایچ ڈی کا استاد، بہر حال قدر کریں تاکہ قدر کیے جاؤ.

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
56559

تعلیمات مسیح ابن مریم علیہماالسلام ۔ ڈاکٹر ساجد خاکوانی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

(25دسمبر،کرسمس کے موقع پر مسیحی برادری کے لیے خصوصی تحریر(

                اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا َو الَّذِیْنَ ہَادُوْا وَ النَّصٰرٰی وَ الصّٰبِءِیْنَ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِوَ عَمِلَ صَالِحًا فَلَہُمْ اَجْرُہُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَ لَا ہُمْ یَحْزَنُوْنَ (۲:۲۶)ترجمہ: ”مسلمان ہوں،یہودی ہوں،مسیحی ہوں یاصابی ہوں جوکوئی بھی اللہ تعالی پر اور قیامت کے دن پر ایمان لائے اورنیک عمل کرے ان کے اجر انکے رب کے پاس محفوظ ہیں اور ان پر نہ تو کوئی خوف ہے اور نہ ہی کوئی اداسی وغم“۔قرآن مجیدکی سورہ بقرہ کی اس باسٹھ نمبر آیت میں اللہ تعالی نے یہ واضع کیا ہے کہ اللہ تعالی کی رحمت پر کسی مذہب والوں کی ٹھیکیداری نہیں،کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والااگر اپنا عقیدہ و عمل درست کر لے تو اس کے لیے اللہ تعالی کی رحمت کے دروازے کھلے ہیں۔اورظاہرہے کہ عقیدہ و عمل کی درستگی صرف انبیاء علیھم السلام کی تعلیمات سے ہی ممکن ہے۔اسی طرح سورہ المائدہ میں ایک مقام پر قرآن مجیدنے فرمایا”اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا َو الَّذِیْنَ ہَادُوْا وَ الصَّابِئُوْنَ وَ النَّصٰرٰی مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَلَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَ لَا ہُمْ یَحْزَنُوْنَ(۵:۹۶)“ترجمہ:”مسلمان ہوں یایہودی یاصابی یاعیسائی،جوبھی اللہ تعالی اورروزآخرپرایمان لائے گااورنیک عمل کرے گابے شک اس کے لیے نہ کسی خوف کامقام ہے اورنہ ہی رنج کا“۔

                حضرت عیسی علیہ السلام بنی اسرائیل میں اللہ تعالی کے آخری نبی تھے۔انکی نانی اماں حضرت حنہ بنت فاقود جوحضرت عمران کی زوجہ محترمہ تھیں قرآن مجید نے سورۃ آل عمران میں انکا تفصیلی ذکر کیا ہے۔انکے ہاں اولاد نہیں تھی،اس بزرگ خاتون نے منت مانی کی اگر ان کے ہاں بچہ ہوا تو وہ اسے ساری عمر کے لیے بیت المقدس میں اعتکاف بٹھا دیں گی۔بنی اسرائیل کی شریعت میں یہ عمل جائز تھا جبکہ شریعت محمدی ﷺ میں اسکی اجازت نہیں اور یہ عمل منسوخ ہوگیاہے۔ساری عمراعتکاف میں بیٹھنے والے عبادت گزارحضرات صرف معبدمیں مراسم عبودیت بجالاتے تھے اوران کی جملہ ضروریات معاشرہ کے ذمہ ہوتی تھیں،گویا شریعت موسوی میں یہ فرض کفایہ کی ایک شکل تھی۔اس طرح کی منت کے بعد عموماََبیٹا پیدا ہوا کرتا تھا لیکن حضرت عمران کے ہاں بیٹی پیداہوگئی۔انہوں نے اسکا نام مریم رکھا اور بڑی ہونے پر بیت المقدس کے ایک کونے میں اعتکاف کے لیے بھیج دیا۔بیت المقدس میں مرد لوگ ہی اعتکاف کیا کرتے تھے اور جب ایک خاتون بھی وہاں اسی مقصد کے لیے داخل ہوگئیں تو متولیوں کے درمیان اس لڑکی کی سرپرستی کے لیے نزاع پیداہوئی۔اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے کرہ اندازی ہوئی کہ کون اس نوواردخاتون کی ذمہ داریاں پوری کرے گا۔کرہ فال حضرت زکریاعلیہ السلام کے نام نکلا جواللہ تعالی کے برگزیدہ نبی ہونے کے علاوہ رشتہ میں حضرت مریم علیہا السلام کے خالو بھی لگتے تھے۔یہ صبح شام بی بی پاک مریم علیہا السلام کے پاس آتے اور انکی جملہ ضروریات پوری کرتے اورحیرانی سے دیکھتے کہ انکے پاس بے موسمے پھل دھرے ہیں۔استفسارپروہ بتاتیں کہ اللہ تعالی انہیں کھلاتا پلاتا ہے۔حضرت زکریاعلیہ السلام کے ہاں اولاد نہیں تھی،انہوں نے دعا کی کہ اگر اس بیٹی کو بے موسمے پھل مل سکتے ہیں تو مجھے بھی تو اس پیرانہ سالی میں بے موسمی اولاد مل سکتی ہے۔چنانچہ اللہ تعالی نے انہیں حضرت زکریا علیہ السلام جیسا بیٹا عطا کیا۔اللہ تعالی نے یہ ساراواقعہ ”سورہ آل عمران“میں نقل کیاہے۔

                حضرت مریم علیہا السلام کوحضرت جبریل مریم علیہ السلام نے خوشخبری دی کہ انکے ہاں ایک بیٹا ہوگا،بی بی پاک مریم علیہا السلام نے پوچھا ایسا کیونکر ہو سکتا ہے جبکہ مجھے تو کسی مرد نے چھوا بھی نہیں؟؟حضرت جبریل علیہ السلام نے جواب دیا کہ اللہ تعالی جیسا چاہتا ہے ویسا ہی کرتا ہے۔انہیں اندازہ تھاکہ بن باپ کے بیٹاپیداکرنے سے معاشرے میں کتنابڑاطوفان اٹھ کھڑاہوگا،خاص طورپرجب کہ اس معاشرے کی زمام علم یہودی علماء کے ہاتھوں ہو۔چنانچہ اس شرمندگی سے بچنے کے لیے انہوں نے فرمایا: فَاَجَآءَ ہَا الْمَخَاضُ اِلٰی جِذْعِ  النَّخْلَۃِ قَالَتْ یٰلَیْتَنِیْ مِتُّ قَبْلَ ہٰذَا وَ کُنْتُ نَسِیًّا مَّنْسِیًّا(۹۱:۳۲) ترجمہ:”پھرزچگی کی تکلیف نے انہین ایک درخت کے نیچے پہنچادیا ہ کہنے لگیں کاش میں اس سے پہلے ہی مرجاتی اور میرانام و نشان نہ رہتا“۔بچے کی پیدائش کے لیے بی بی پاک مریم ساتھ کے گاؤں سدھارگئیں۔اس گاؤں کانام ”ناصرہ“تھاجہاں حضرت عیسی علیہ اسلام پیدا ہوئے۔بائبل مقدس نے اسی گاؤں کی نسبت سے حضرت عیسی کو یسوع ناصری کہا ہے اور قرآن مجید نے بھی اسی گاؤں کی نسبت سے مسیحیوں کونصاری کہاہے۔حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش کے وقت بھی حضرت جبریل علیہ السلام تشریف لائے اور بی بی کے سر کی طرف زمین پراپناپر مارا جس سے صحت بخش پانی کا ایک چشمہ پھوٹ نکلاجسے بی بی پاک نے نوش جان فرمایا اور ساتھ ہی حضرت جبریل علیہ السلام نے کہا کہ اس درخت کو ہلائیے،کھجور کے درخت سے کھجوریں ٹپکیں تو زچگی وقت بی بی پاک صاحبہ نے وہ کھجوریں بھی تناول فرمائیں۔بی بی پاک مریم علیہا السلام نے پوچھا کہ کہ میں اپنی قوم کو کیا جواب دوں گی کہ یہ کس کا بچہ ہے؟حضرت جبریل علیہ السلام نے کہا کہ آپ اشارے سے کہنا کہ میں چپ کے روزے سے ہوں،کیونکہ شریعت موسوی میں چپ کاروزہ بھی ہوتاتھالیکن شریعت محمدی میں اس طرح کاروزہ منسوخ ہوگیا،پھرجبریل علیہ السلام نے کہاکہ یہ بچہ جواب دے گا۔بی بی پاک صاحبہ نے پوچھایہ بچہ کیا بولے گا؟؟؟حضرت جبریل علیہ السلام نے پھر پہلے والا جواب دیا کہ اللہ تعالی جیسا چاہتا ویسا ہی کرتا ہے۔

                بی بی پاک مریم علیہا السلام جب بچہ اٹھائے بیت المقدس پہنچیں تولوگوں نے کہا بی بی آپ تو نبیوں کے خاندان سے ہویہ کیاپاپ کر آئی ہو؟انہوں نے اشارے سے کہا کہ میں چپ کے روزے سے ہوں اور یہ بچہ جواب دے گا۔لوگ جیسے ہی بچے کی طرف متوجہ ہوئے تو پنگھوڑے میں موجود حضرت عیسی علیہ السلام بول اٹھے فَاَتَتْ بِہٖ قَوْمَہَا تَحْمِلُہ‘ قَالُوْا یٰمَرْیَمُ لَقَدْ جِءْتِ شَیْءًا فَرِیًّا(۹۱:۷۲) یٰٓاُخْتَ ہٰرُوْنَ مَا کَانَ اَبُوْکِ امْرَاَ سَوْءٍ وَّ مَا کَانَتْ اُمُّکِ بَغِیًّا(۹۱:۸۲) فَاَشَارَتْ اِلَیْہِ قَالُوْا کَیْفَ نُکَلِّمُ مَنْ کَانَ فِی الْمَہْدِ صَبِیًّا(۹۱:۹۲) قَالَ اِنِّیْ عَبْدُ اللّٰہِ اٰتٰنِیَ الْکِتٰبَ وَ جَعَلَنِیْ نَبِیًّا(۹۱:۰۳) وَّ جَعَلَنِیْ مُبٰرَکًا اَیْنَ مَا کُنْتُ وَ اَوْصٰنِیْ بِالصَّلٰوۃِ وَ الزَّکٰوۃِ مَا دُمْتُ حَیًّا(۹۱:۱۳) وَّ بَرًّا بِوَالِدَتِیْ وَ لَمْ یَجْعَلْنِیْ جَبَّارًا شَقِیًّا(۹۱:۲۳) وَ السَّلٰمُ عَلَیَّ یَوْمَ وُلِدْتُّ وَ یَوْ مَ اَمُوْتُ وَ یَوْمَ اُبْعَثُ حَیًّا(۹۱:۳۳) ذٰلِکَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِیْ فِیْہِ یَمْتَرُوْنَ(۹۱:۴۳)ْ”ترجمہ:”پھروہ اپنے بچے کو لیے اپنی قوم میں آئیں،لوگ کہنے لگے اے مریم یہ تونے کیاپاپ کر ڈالا؟؟اے ہارون ؑ کی بہن تیراباپ کوئی براآدمی نہ تھااور تیری ماں بھی کوئی بدکارعورت نہ تھی،بی بی پاک مرعیم نے بچے کی طرف اشارہ کردیا،لوگوں نے کہاہم اس سے کہابات کریں جو گہوارے نے پڑاہواایک بچہ ہے،بچہ بول اٹھامیں اللہ کا بندہ ہوں،اس نے مجھے کتاب عطا فرمائی اور مجھے اپنا پیغمبر بنایاہے،اور اس نے مجھے بابرکت کیا ہے جہاں بھی میں ہوں،اور اس نے مجھے نماز اور زکوۃ کا حکم دیا ہے جب تک بھی میں زندہ رہوں،اور اس نے مجھے اپنی والدہ کا خدمت گاربنایا ہے اورمجھے سرکش و بدبخت نہیں کیااور مجھ پر میری پیدائش کے دن اور میری موت کے دن اور جس دن کہ میں دوبارہ زندہ کیا جاؤں،سلام ہی سلام ہے،یہ ہیں حضرت عیسی بن مریم اوریہ ہے ان کے بارے میں سچی بات جس میں لوگ شک کررہے ہیں“۔توحید کا درس حضرت عیسی علیہ السلام سمیت سب انبیاء کااورکل آسمانی کتب کا اولین درس ہے۔قرآن نے بھی اہل کتاب سے یہی کہا کہ آؤ ایک ایسی بات کی طرف جوہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے کہ ہم اللہ تعالی کے سوا کسی کی عبادت نہیں کریں گے۔کسی کو اللہ تعالی کا ساجھی قرار دینا،اسکا ہم سرقراردینا،اس جیسا قرار دینا یا اسکی ذات کا حصہ یا اسکے اختیارات میں برابر کاقرار دینا،یا کسی کے بارے میں سمجھنا کہ وہ اللہ تعالی پر کوئی دباؤ یا زبردستی استعمال کر سکتا ہے سب توحید کے برخلاف ہے اور شرک میں داخل ہے۔اللہ تعالی نے کسی کواپنا بیٹا قرار نہیں دیا کیونکہ بیٹا کمزوری ہوتا ہے اور اللہ تعالی ہر کمزوری سے پاک ہے۔اور یہی عقیدہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سمیت کل انبیاء علیھم السلام کابھی تھا۔

                انجیل مقدس کاآفاقی کلام آج بھی شرک سے پاک ہے۔ انجیل کے علاوہ بائبل میں جو انسانی کلام ہے اس میں لوگوں کی طرف سے حضرت عیسی علیہ السلام کے بارے میں وہ کچھ کہا گیا ہے جو تعلیمات انبیاء علیھم السلام کے بالکل خلاف ہے۔پوری بائبل میں حضرت عیسی علیہ السلام نے کہیں بھی خود کو خدا یا خدا کا بیٹا نہیں کہا۔ہر نبی نے توحید کی تعلیم دی،ایک وقت تھا جب لوگ سونے چاندی اور پتھروں کے بنے ہوئے بتوں کی پوجا کرتے تھے وقت کے ساتھ ساتھ انسان نے نئے نئے خدا تراش لیے ہیں دولت،دنیا،اولاد،شہرت،مذہب،اقتدار،پیٹ کی خواہش اور پیٹ سے نیچے کی خواہش،رنگ،نسل،علاقہ،زبان اور نہ جانے کتنے کتنے خدا ہیں جو ایک ایک انسان کے سینے میں براجمان ہیں اور دن رات وہ انکی پوجا میں مصروف ہے،حضرت عیسی علیہ السلام سمیت سب انبیا کی یہ تعلیمات ہیں کہ دنیاوآخرت میں صرف ایک خدا کا پجاری ہی نجات کا مستحق قرار پائے گا۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک بت خانے میں گھس کر تمام بتوں کو توڑ ڈالا تھا اسی طرح اپنے سینے میں موجودتمام بتوں کو توڑ کر صرف ایک خداکاپجاری بنناہی کل انبیاء کی تعلیمات کااہم نکتہ ہے۔

                پچیس سال کی عمر میں حضرت عیسی علیہ السلام پرنزول وحی کا آغاز ہوا اور انجیل جیسی شاندار کتاب ان پر نازل کی گئی۔آپ علیہ السلام کو بہت سے معجزے بھی عطا کیے گئے۔اللہ تعالی اپنے برگزیدہ انسانوں کو نبوت کے لیے منتخب کرتااورانہیں اپنے دعوی نبوت کی صداقت کے لیے معجزات عطاکرتاتھا۔انبیاء علیھم السلام یہ معجزات بطورسند نبوت کے پیش کرتے تھے۔مداریوں،جادوگروں اور تماشبینوں کے کرتب اور نبیوں کی معجزات میں یہ فرق ہوتاتھاکہ انبیاء کے ہاتھوں سے خرق عادت معجزے کاصدورہوتااور وہ فرماتے کہ یہ اللہ تعالی کے حکم سے ہورہاہے جب کہ غیرانبیاء کہتے تھے کہ یہ ہم کررہے ہیں۔بطورمعجزہ آپ علیہ السلام مردے کو اللہ تعالی کے حکم سے زندہ کر دیتے تھے۔روایات میں لکھاہے کہ کسی قبرپر کھڑے ہوکر آپ علیہ السلام فرماتے”قم باذن اللہ“کہ اللہ تعالی کے حکم سے اٹھ کر کھڑاہوجا اور قبر میں موجود مردہ زندہ ہوجاتا۔کہاجاتاہے کہ آپ علیہ السلام کے معجزے کے نتیجے میں حضرت نوح علیہ السلام کابیٹا بھی زندہ ہوا،اسے فوت ہوئے اگرچہ ہزاروں سال بیت چکے تھے لیکن اس نے کہا کہ موت کی کڑواہٹ ابھی بھی میرے حلق میں موجود ہے۔آپ علیہ السلام کوڑھ کے مریض پر ہاتھ پھیرتے جاتے،جہاں جہاں سے یہ مقدس ہاتھ گزرتا وہاں وہاں سے مریض کی جلد ایسے ہوجاتی کہ جیسے کوڑھ جیسا موذی مرض کبھی تھا ہی نہیں۔پیدائشی اندھے کی آنکھوں پر اپنا دست مبارک پھیرتے تو اللہ تعالی کے حکم سے اسے بینائی جیسی نعمت مل جاتی۔حضرت عیسی علیہ السلام مٹی سے پرندے بناتے اور ان میں پھونک مارتے تو وہ اللہ تعالی کے حکم سے زندہ ہوکر اڑنے لگتے۔

لوگوں کے اسرارپر ”مائدہ“نامی دسترخوان بھی آپ علیہ السلام کے معجزے کے نتیجے میں شروع ہواجس پر بعض اوقات ہزاروں لوگ ایک وقت میں کھانا کھاتے لیکن وہ کھانا کبھی بھی ختم نہ ہوتا۔اللہ تعالی کوآنے والے کل کے لیے بچانا پسند نہیں ہے،کیونکہ یہ توکل علی اللہ کے خلاف ہے۔چنانچہ اللہ تعالی نے مائدہ کے جاری رہنے کے لیے حکم دیاتھا کہ اس کاکھانا بچاکر نہ رکھاجائے۔جب لوگ بچابچاکر گھرلے جانے لگے تواللہ تعالی نے ”مائدہ“ختم کردیا۔آپ علیہ السلام لوگوں کو بتادیتے کہ کیا کھاکر آئے ہیں اور گھرمیں کیاکیا غلہ رکھادھراہے۔ان سب معجزات کے ساتھ آپ علیہ السلام لوگوں کو باور کراتے کہ یہ سب کچھ اللہ تعالی کے حکم سے ہی ہے اور اس کائنات کا اول و آخر حکمران اللہ تعالی ہی ہے جو ہر طرح کے شرک سے پاک ہے۔حضرت عیسی علیہ السلام کے معجزوں میں سے ایک معجزہ یہ بھی ہے کہ وہ قیامت سے پہلے ایک بار پھر اس دنیامیں تشریف لائیں گے۔چنانچہ قرآن مجید کہتاہے اِذْ قَالَ اللّٰہُ یٰعِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ اذْکُرْ نِعْمَتِیْ عَلَیْکُمْ وَ عَلَی وَالِدَتِکَ اِذْ اَیَّدْتُّکَ بِرُوْحِ الْقُدُسِ تُکَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَہْدِ وَ کَہْلًا وَ اِذْ عَلَّمْتُکَ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ وَ التَّوْرٰتَ وّ الْاِنْجِیْلَ وَ اِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّیْنِ کَہَیْءَۃِ الطَّیْرِ بِاِذْنِیْ فَتَنْفُخُ فِیْہَا فَتَکُوْنَ طَیْرًا بِاِذْنِیْ وَ تُبْرِیئُ الْاَکْمَہَ وَ الْاَبْرَصَ بِاِذْنِیْ وَ اِذْ تُخْرِجُ الْمَوْتٰی بِاِذْنِیْ وَ اِذْ کَفَفْتُ بَنِیْٓ اِسْرَآءِ یْلَ عَنْکَ اِذْ جَءْتَہُمْ بِالْبَیِّنٰتِ فَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْہُمْ اِنْ ہٰذَآ اِلاَّ سِحْرٌ مُّبِیْنٌ(۵:۰۱۱) ترجمہ:جب اللہ تعالی حضرت عیسی علیہ السلام سے کہے گااے عیسی بن مریم علیھماالسلام میری اس نعمت کویاد کریں جو میں نے آپ پر اورآپ کی والدہ پرکی تھی،میں نے روح پاک سے آپ کی مدد کی،آپ گہوارے میں اور بڑھاپے میں لوگوں سے گفتگوکرتے تھے،میں نے آپ کو کتاب و حکمت اور توریت اورانجیل کی تعلیم دی،آپ مٹی کاپرندہ بناکر پھونک مارتے اور وہ اللہ تعالی کے حکم سے اڑنے لگتاتھا،آپ مادرزاداندھے اور کوڑھ کے مریض کواللہ تعالی کے حکم سے شفایاب کردیتے تھے،اورمیرے حکم سے مردوں کو نکالتے تھے،اورجب آپ یہ واضع نشانیاں لے کر بنی اسرائیل کے پاس آئے توانہوں نے کہا یہ توکھلاجادوہے۔“اس ساری آیت میں اللہ تعالی نے حضرت عیسی علیہ السلام کے معجزات گنوائے ہیں جن میں سے ایک معجزہ یہ بھی ہے کہ آپ علیہ السلام بڑھاپے میں لوگوں سے بات کریں گے،حالانکہ بڑھاپے میں توسب ہی لوگ باتیں کرتے ہیں۔لیکن چونکہ آپ علیہ السلام عہدجوانی میں آسمانوں کی طرف اٹھالیے گئے تھے اس لیے قرب قیامت میں واپس آئیں گے بڑھاپاپائیں گے اور لوگوں سے بات کریں گے تب یہ معجزہ بن جائے گا۔

            علمائے بنی اسرائیل نے اس نوجوان نبی علیہ السلام کے خلاف اعلان بغاوت کیاکیونکہ حضرت عیسی علیہ السلام انکے گمراہ عقائد اور سیاہ اعمال پرانہیں سرزنش کرتے تھے اور اصلاح احوال کے لیے انہیں تبلیغ کرتے تھے۔قرآن مجید نے یہودیوں پر جو الزامات لگائے ہیں ان میں سرفہرست انبیاء علیھم السلام کاقتل ہے۔چنانچہ یہودیوں کے ان علماء نے حسب سابق حضرت عیسی علیہ السلام کے قتل پر اجماع کیا اور بادشاہ سے کہا ایک ڈاکوکوآزاد کردواورحضرت عیسی علیہ السلام کو پھانسی دے دی جائے۔اس وقت حضرت عیسی علیہ السلام کی عمر مبارک چالیس سال تھی جب آپ کے ایک مقدس ساتھی نے آپ کی جگہ پھانسی پر چڑھنا قبول کر لیااور آپ علیہ السلام کو آسمانوں پر زندہ اٹھا لیا گیا۔لوگوں نے اس مقدس ساتھی کو حضرت عیسی سمجھ کرپھانسی دے دی۔آسمانی کتب نے خبر دی ہے کہ قیامت کے نزدیک ایک بار پھر حضرت عیسی علیہ السلام دنیا میں امتی کی حیثیت سے تشریف لائیں گے لیکن ان کی ذہنی عقلی اور روحانی سطح تو بہرحال ایک نبی کی ہی ہوگی،اس وقت جب زمین ظلم سے بھر چکی ہوگی۔روایات میں موجود ہے کہ وہ شریعت محمدی ﷺ نافذ

 کریں گے اور کم و بیش چالیس سالوں تک پوری دنیا میں حکومت کریں گے اور مدینہ منورہ میں حجرہ عائشہ رضی للہ عنھا کے اندر جہاں ایک قبر کی جگہ ہنوز خالی ہے اس انسان عظیم الشان کو دفنادیا جائے گاکیونکہ ہر انسان نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے اور صرف خداوندخدا ہے جوہمیشہ زندہ رہے گا اور اسے کبھی موت نہیں آئے گی۔

[email protected]

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
56556

بلدیاتی انتخابات اور جمعیت علمائے اسلام کی برتری – تحریر :محمد نفیس دانش

ہر طرف خیبر پختونخوا کے بلدیاتی الیکشن کے چرچے ہیں , پاکستان میں آج تک کا ریکارڈ ہم نے یہی دیکھا ہے کہ صوبائی حکومت بلدیاتی انتخابات کرواتی ہے اور صوبائی حکومت ہی بلدیاتی انتخابات میں جیت جاتی ہے , 2005 میں سندھ میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں پیپلزپارٹی صرف دو اضلاع میں ضلعی ناظم بنانے میں کامیاب ہوئی تھی ایک ضلع جامشورو اور دوسرا ضلع نوابشاہ , باقی سندھ بھر میں مشرف کی ق لیگ نے جھاڑو پھیر دی تھی , یعنی صوبائی گورنمنٹ بلدیاتی انتخابات جیت جاتی ہے یہی روایت رہی تھی , لیکن گذشتہ دنوں خیبرپختونخوا میں تاریخ بدل گئی , 64 تحصیلوں اور سٹی کے پہلے مرحلے میں انتخابات ہوئے , 55 کے نتائج آگئے , 9 کے نتائج 24 دسمبر تک آئیں گے , لیکن 2018 میں خیبر پختونخوا میں کلین سوئیپ کرنے والی تحریک انصاف اب تک 64 میں سے صرف 13 تحصیل یا سٹی جیت سکی ہے ,

یہ حقیقت میں شرمناک رزلٹ ہے , جس کے بعد یقیناً فیصلہ ساز بھی 2023 کے عام انتخابات کے حوالے سے ضرور سوچیں گے , میں نے گذشتہ کالموں میں ذکر کیا تھا کہ 2023 میں ن لیگ آئے گی , اب یہ رائے مزید مضبوط ہوگئی ہے کیونکہ ن لیگ کی سینئر قیادت نے بطور وزیراعظم میاں شہباز شریف کا نام لینا شروع کر دیا ہے , مریم نواز کے نام کی ضد سے نقصان ہو سکتا تھا اور سیاست اسی چیز کا نام ہے کہ کبھی دو قدم پیچھے ہٹ کر بھی راستے بنائے جاتے ہیں , ن لیگ اور بالخصوص میاں شہباز شریف راستے بنانے کے ماہر ہیں , اس لئے ایک بار نہیں کئی بار وہ اپنی پارٹی کو بحرانوں سے نکالنے میں کامیاب رہے ہیں , خیبر پختونخوا کے بلدیاتی انتخابات میں جمعیت کی شاندار کامیابی یقننا اس اعتبار سے خوش آیند ہے کہ تمام تر حربوں اور پروپیگنڈوں کے باوجود دینی ووٹ بینک آج بھی موجود ہے , اس کے ساتھ جمعیت کے کارکنان کا امیر کی اطاعت کا جذبہ بھی ان کی 20 سیٹوں پر کامیابی کا سبب بنا کیونکہ جمعیت کے کارکنان مولانا فضل الرحمن صاحب کے ہر درست اور غلط فیصلے کو من و عن قبول کرتے ہیں.

دراصل جمعیت علمائے اسلام اسی جمعیت علمائے ہند کی وارث ہے دارالعلوم دیوبند سے اٹھنے والی تحریک احیا نے اپنی سرگرمیوں کو تین دائروں میں منظم کر دیا تھا:1:علمی سرمائے کے تحفظ کے لئے مدارس. 2:دعوت و تبلیغ کے لیے تبلیغی جماعت. 3:اور سیاست کے لیے جمعیت علمائے ہند. مولانا فضل الرحمن صاحب جس جمعیت علمائے اسلام کے رہنما ہیں وہ اسی روایت کے امین ہیں. تحریک انصاف کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ ان میں ماننے والا مادہ نہیں چنانچہ تحریک انصاف کے ایک صوبائی وزیر کہہ رپے تھے کہ ہماری پارٹی میں امیر کی اطاعت کا کلچر نہیں ہے , کارکنان کو جو بات اچھی نہ لگے وہ کسی کی بھی نہیں مانتے , بالخصوص نچلی سطح پر تو تحریک انصاف کے کارکنان ایک دوسرے کی عیب جوئی میں ہی لگے رہتے ہیں , جس کی وجہ سے حکومت میں ہونے کے باوجود تحریک انصاف ایک منظم جماعت نہیں بن پائی ہے , تحریک انصاف میں جس کے ساتھ 10 بندے ہیں وہ الگ سے لیڈر ہے ,

یہی وجہ بنی کہ ہر خودساختہ لیڈر پارٹی ڈسپلین کو توڑ کر خود امیدوار بن گیا , اپنی ہی پارٹی کے مقابل الیکشن لڑا , تصویر عمران خان کی لگائی , سو نتیجہ بھی سب نے دیکھ لیا , یاد رکھیں پارٹی ڈسپلین یعنی نظم و ضبط پر کبھی کمپرومائز نہ کریں , پارٹی کے مقابل الیکشن لڑنا یا پارٹی کے مقابلے میں آکر جلسے کرنا یہ جماعت کی بنیادیں ہلانے والی باتیں ہیں , ایسے لوگ جتنی مرضی مخلصی کے دعوے کریں حقیقت میں وہ جماعت کو نقصان پہنچا رہے ہوتے ہیں , خیبر پختونخوا کا بلدیاتی الیکشن تحریک انصاف کے لئے ڈراؤنا خواب ثابت ہوا ہے اس کے بعد ممکنہ طور پر تحریک انصاف کے خلاف ہوائیں چلیں گی اور لوگ اب اس کشتی سے اترنا شروع ہوں گے , خیبر پختونخوا کے بلدیاتی انتخابات جماعت اسلامی کے لئے بھی دھچکا ثابت ہوئے ہیں ,

جماعت اسلامی نے گذشتہ 3 سالوں میں جو عجیب و غریب سیاست کی اور دو ٹوک فیصلوں سے دور رہی اس کا نقصان جماعت اسلامی نے اٹھایا اور صرف دو سیٹوں پر ہی کامیاب ہو سکی , اس سے پہلے جماعت اسلامی کے احباب تحریک انصاف کی اتنی تعریف کرتے تھے کہ جماعت اسلامی کا اکثریتی ووٹر تحریک انصاف میں منتقل ہو گیا.اس صورتحال میں مسلم لیگ ن نے بھی تیاریوں کا آغاز کر دیا ہے۔ترجمان مسلم لیگ ن عظمی بخاری نے بیان دیا ہے کہ ’جس طرح کے پی کے میں جے یو آئی نے پی ٹی آئی کو شکست دی اسی طرح پنجاب میں مسلم لیگ ن انہیں ہرانے کی تیاری کر چکی ہے۔ تبدیلی جس طرح آئی تھی اسی طرح روانہ ہوجائے گی۔‘واضح رہے کہ سابقہ دور حکومت میں پنجاب کے بلدیاتی انتخابات میں بھی مسلم لیگ ن کے امیدواروں نے اکثریت سے کامیابی حاصل کی تھی اور لاہور سمیت بیشتر شہروں میں ن لیگ کے امیدوار کامیاب ہوئے تھے۔اور ابھی بھی صورتحال کچھ یہی نظر آ رہی ہے. 

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
56541

نئے سیاسی بیانیہ کی گنجائش ہے یا نہیں ؟ – قادر خان یوسف زئی کے قلم سے

ؒ
حکومت کے فرائض و واجبات کیا اور ایک اچھی حکومت کسے کہتے ہیں، یہ وہ سوالات ہیں جن کے متعلق افلاطون کے زمانے سے لے کر آج تک اتنا کچھ لکھا جاچکا کہ اسے یکجا کیا جائے تو انبار لگ جائیں، لیکن اس تمام ذخیرے کو اگر سمیٹا جائے تو اس میں سے قدرِ مشترک یہ نکلے گی کہ حکومت کا وجود اس لئے ضروری ہے کہ افرادِ مملکت امن، آرام اور اطمینان کی زندگی بسر کریں، امن ہر قسم کے خطرات سے، آرام جسمانی ضروریات کے باآسانی اور باافراط میسر آجانے سے اور اطمینان قلبی مسرتوں اور ذہنی خوشگواریوں کی رو سے۔ بنا بریں ایک اچھی حکومت وہ ہوگی جس میں ہر فرد کی جان، مال، عزت، آبرو، عصمت اور متاع زندگی کی ہر متاع ِ عزیز محفوظ رہے، جس میں ان کی ضروریات ِ زندگی جگر پاش مشقوں کے بغیر پوری ہوتی رہیں، انہیں اپنے معاملات کے سلجھانے اور سنوارنے میں کوئی پریشانی نہ اٹھانی پڑے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے کسی کو مجال انکار نہیں اچھی اور بُری، کامیاب اور ناکام،حکومت کے پرکھنے کی یہ ایسی کسوٹی ہے جس میں کسی کو اختلاف نہیں ہوسکتا۔


سب سے پہلے حفاظت کو دیکھ لیتے ہیں، ڈاکو دن دیہاڑے کھلے چہرے یا نقاب ڈالے،دور افتادہ تو کبھی پوش آبادی کے کسی بھی گھر میں بے خوف ڈاکہ مار کر فرار ہوجاتے ہیں، ان میں ایسے رہزن بھی ہیں جو دوپہر یا شام کے کسی بھی پہر کسی بھی فرد کو اس کے مال سے محروم کردیتے ہیں، اکیلا فرد ہو یا خاتون محلے میں راہ چلتے رہزنوں سے محفوظ نہیں۔ ٹھگوں کے فراڈ بھی عروج پر کہ کسی کو ملازمت تو کسی کو منافع کی لالچ  پر لوٹا،کچھ اعتماد کرنے پر دھوکے کا شکار ہوئیکیونکہ ٹھگ اپنا پورا پورا اعتماد قائم کرلیتے اور جب وہ اس طرح اپنی حفاظت سے بے خبر ہوجاتا تو پھر اسے دھوکا دیتے۔جنسی استحصال کا یہ عالم کہ جنسی بھڑیئے بچوں اور بچیوں کو اپنی ہوس کا شکار بناکر ان کی زندگی کو بھی پھول کی طرح مسل دیتے ہیں۔ بچے بچیاں اسکول ہو یا مدارس میں غیر محفوظ، تو کئی کو راہ چلتے اٹھا لینے کا ڈر، قلیل المدت اغوا برائے تاوان، لڑکیاں کام یا تعلیم کے حصول کے لئے گھر سے نکلیں تو اُن کو راستے میں روک  لینا، کسی بد نصیب کو گاڑی میں ڈال کر بھگا لیا جاتا تو کوئی فلیٹ میں جنسی زیادتی کا نشانہ بنا دی جاتی ہے، سیکڑوں ایسی کہ انہیں عصمت فروشی پر مجبور کردیا جاتا اور ان سے انسان نما درندوں کی ہوس خون آشامی کا مستقل ذریعہ بنی رہتی اور جہنم کی زندگی بسر کرتی ہیں،

خواتین حق مانگنے نکلیں تو بالوں سے گھسیٹ کر گاڑیوں میں اغوا کرلیا جاتا ہے تو کبھی کسی لڑکی کی لاش درخت سے لٹکتی نظر آتی ہے۔غرض یہ کہ کوئی ایسی صبح ایسی نہیں گذرتی کہ آپ اخبار اٹھائیں اور اس میں اس قسم کی قتل و غارت گیری۔ قزاقی اور رہزنی اور عصمت دری اور مختلف قسم کی درندگی کا واقعات درج نہ ملیں۔ نتیجہ اس کا یہ ہے کہ ہر شریف اور سفید پوش اپنے اپنے ہاں ڈرا اور سہما ہوا زندگی کے دن بسر کررہا  اور کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اس کے ساتھ کل کیا ہونے والا ہے۔


غور فرمایئے کہ جہاں زندگی اس شکل سے گزر رہی ہو، وہاں لوگوں کی قلبی کیفیت کیا ہوگی؟،بخوبی معلوم ہے کہ ان میں سے ہر جرم کے لئے قانون موجود ہے، قانون نافذ کرنے والے، عدالتیں، لیکن ان سب کے باوجود یہ روز مرہ کے واقعات پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ ا س نظام میں کہیں کوئی سقم موجود ہے اور بہت بڑا سقم،کہ اس کی وجہ سے بد معاشوں کے دل سے قانون کا ڈر اورشریفوں کے دل سے اس کا اعتماد جاتا رہا اور ظاہر ہے کہ جس سرزمین میں قانون کا ڈر اور اعتماد باقی نہ رہے وہ سرزمین بے آئین ہوجاتی ہے،دیکھنا  چاہے کہ وہ سقم کہاں اور اُسے کیسے دور کیا جاسکتا ہے، درحقیقت ایسا ہی ہے کہ غلط انتخاب مسائل کی اصل جڑ کا موجب ہے۔


حکمراں جماعت کے بیشتر اراکین کا کہنا یہ بھی ہے کہ مہنگائی کا سونامی بلدیاتی انتخابات میں شکست کی کلیدی وجہ ہے تو اس مہنگائی کو کنٹرول نہ کرنے اور بروقت پالیسیاں نہ بنانے کا ذمے دار کون ہوا، کیا اسے نقارہ خلق سمجھا جائے، یہ حقیقت ہے کہ مہنگائی اور گراں نرخ پر ذخیرہ اندوزوں کی وجہ سے سفید پوش طبقہ پریشان کہ اس طرح گزراہ کیسے چل سکے گا ؟ بے شمار چیزیں تو ایسی ہیں جن کی قیمتیں مقرر نہیں، اس لئے جو کسی کے جی میں آئے وہ مانگ لیتا ہے اور آپ اس کے خلاف ایک لفظ تک نہیں کہہ سکتے، جن چیزوں کی قیمتیں مقرر ہیں، وہ بھی کبھی مقررہ قیمتوں پر نہیں ملتیں، اگر انہیں مقررہ قیمت پر فروخت کرنے پر اصرار کریں تو وہ چیزیں بازار سے گم اور ضرورت مند بے چارہ مارا مارا پھرتا ہے، دوائیوں کے معاملہ میں یہ اب بازار کا معمول بن چکا، جو چیزیں ملتی ہیں، ان کے متعلق کوئی نہیں کہہ سکتا کہ ان کا نام کیا اور وہ درحقیقت ہیں کیا؟۔

زندگی کی اساس ہوا پر ہے اور آلودہ ماحول اتنا بھیانک کہ کوئی سانس لے سکتا کہ بیماریوں کے جراثیم اور گرد و غبار کے ساتھ صاف پانی میں غلاظت اس طرح ’شیر و شکر‘ ہو رہے ہیں کہ انہیں الگ الگ کیا ہی نہیں جاسکتا، پانی کو روئیں کہ آٹے، دودھ اور گھی کے خالص نہ ہونے پر اشک بہائیں۔ سو کس کس کے متعلق کیا کیا لکھا، کہا، سنا یا دیکھا جائے کہ اب تک سب اچھا ہے، بوٹ پالش اور دیز لین کی طنزیں اب پرانی اور فرسودہ ہوچکے ہیں اور جدید طنزیں لوگوں نے اس لئے وضع کرنی چھوڑ دی کہ کہنے والوں نے کس قدر سچ کہا تھا کہ
نکالا چاہتا ہے کام کیا طعنوں سے تو غالبتیرے بے مہر کہنے سے وہ تجھ پر مہرباں کیوں ہواس نسل کو تو اب چھوڑیئے کہ کسی نہ کسی طرح زندگی کے دن پورے کرکے مرجائیں گے، سوال آنے والی نسل کا ہے جس نے گل کو ملت ِ پاکستانیہ بننا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ان تمام امور کے لئے محکمے اور شعبے متعین ہیں اور ان کے پیچھے قانون کی قوت بھی موجود ہے لیکن اس کے باوجود، جو کچھ ہورہا ہے اسے جھٹلایا بھی نہیں جاسکتا، سوال صرف یہ ہے کہ یہ تمام انتظامات اپنا صحیح نتیجہ کیوں نہیں دے رہے؟۔ 

Posted in تازہ ترین, مضامین
56539

چترال بلدیاتی معرکہ ۔ تحریر۔ شہزادہ مبشرالمک

بلدیاتی افٹرشاک۔۔۔۔ کے بعد بہت سارے معزز دوستوں نے چترال میں سجنے والے دھنگل کے حوالے سے تحریر کا مطالبہ کیا۔۔۔۔ پیلے والے آرٹیکل کو پسند کرنے پر میں تمام احباب کا شکر گزار ہوں اور پی ٹی آئی کے ان دوستوں کا بھی ممنوں ہوں جو اب بھی اپنی اصلاح کی بجاے عمران خانی ہٹ دھرمی پر بضد ہیں اور اپنی پارٹی کی مستقبل کو مزید تاریک تر بنانے میں تلے ہوئے ہیں یا ۔۔۔۔ ا ا بیل مجھے مار کا صدق دل سے نمونہ بننے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ جناب عمران خان حالیہ بلدیاتی نتایج کے بعد ایک دلدل میں پھنس چکے ہیں اگر انتخابات کا دوسرا مرحلہ شروع کرتے ہیں تو اور بھی بھیانک نظارے جلوہ دیکھانے کے منتظر ہیں اگر پنجاب میں معرکہ سجا تو وہ عمران خان کے لیے۔۔۔ ہلاکو خان۔۔۔ کی یلغار ثابت ہوگی۔اب اگر خان صاحب ناکامی کے بعد بلدیاتی اداروں کے فنڈ روک لیتے ہیں ۔جو ان کے ۔۔۔ زلفوں والے سرکار۔۔۔ کہہ رہے ہیں تو وہ اور بھی بدنامی اور سیاسی انتشار کا سبب بنیں گے۔اس بھنور سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ معاشی استحکام نصیب ہوں تو وہ ان وزرا کے ہوتے ہوے ممکن بہیں کیونکہ۔


۔۔ نہ تیر اٹھے گی نہ تلوار ان سے
یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں


تو کہنے کا مطلب یہی ہے کہ خان صاحب مکمل گھرے میں ائے ہوے ہیں جہاں سے نکلنا ایک معجزہ ہی ہوتا ہے اگر نکل گیے تو بہت بڑی حیرت اور کامیابی ہوگی۔یہ حقیقت ہے کہ تمام پارٹیاں لیڈر شب کے حوالے سے یتیم ہی ہیں اور جن پارٹیوں کے لیڈران کرپشن کے داغ سے بچے ہوے ہیں ان کے پاس نہ سیاست کی ظرف ہے اور نہ کرپشن کرنے کاحوصلہ اور مواقع۔گزشتہ آرٹیکل میں کءی دوستوں نے ان خدشات کا اظہار کیا کہ مولانا فضل الرحمان صاحب بھی کرپشن کے معاملے میں پی پی اور ن لیگ کے اصل گرو ہیں۔اور کجھ نے فواد چودھری سمت مولانا کو پاکستان کی بدقسمتی۔سیاسی بونا اور اسلام نظام کی راہ میں اصل رکاوٹ قرار دیا۔ جے یو ای کے دوستوں نے مجھے مخالف اور کجھ نے نیا یارانہ بنانے کا الزام بھی لگا یا۔ان سب کا جواب پھر کھبی اور مولانا کی قدکاٹ بھی اءیندہ پر چھوڑ کر چترال کی جانب بڑھتے ہیں کہ یہاں کیا ہونے والا ہے۔


جترال۔۔۔۔ کا معرکہ بھی بہت سارے سیاسی گند کے ساتھ اپنا ایک منفرد مقام کا حامل ہے۔۔۔ یہاں پارٹیوں میں ایک دوسرے کی مخالفت کھل کے سامنے اکر نہیں ہونگے بلکہ مسکراتے ہوئے ہاتھ بلکہ گلے اور ۔۔۔۔ بقول منیرکاکی کے۔۔۔۔ بوسہ ماری۔۔۔ کے پردے میں منافقانہ سیاست سرگرمی عمل ہوگی۔جس طرح پی ٹی آی والے چترال سے باہر ایک دوسرے کی ٹانگیں توڑ دیں اس میں ہم چترالی ید طولی رکھتے ہیں سیاست کے دنوں میں ۔۔۔ شیطان اپنے چیلوں کو مسلط کرکے خود چلہ لگانے چلا جاءے گا۔پی ٹی آی والوں میں۔۔۔ جناب سرتاج میرے لیے ایک مخلص چترالی ہیں جو ہمارے درد کا درمان رکھتے ہیں لیکن اس کی راہوں میں بہت سارے اپنے ہی پارٹی کے۔۔۔۔ کوڑو زوخو۔۔۔ حایل ہیں۔نشنل پارٹی میں ون این اونلی۔۔۔ عابد جان لالہ ہیں مگر اس فقیر منیش کو گرا کر گھر والے ہی آگے کی تمنا رکھیں گے۔ شہزادہ پرویز و افتخار کے لیے میرے بھائی شہزادہ نثار اور بیرسٹر کوثر


۔۔۔۔ حب علی نہ صہیع بغض معاویہ کی صہیع کارول ادا کریں گے یا کروائے جائیں۔ گے۔ بے باک لیڈران میں اگرچہ ایڈوکیٹ عبدالدولی صاحب بھی ایک مضبوط امیدوار ہیں لیکن ان کے بھی دوستوں میں مخلصیں کی کمی ہے اور قسمت بھی بار بار لب بام آگے ساتھ چھوڑ جاتا ہے ۔


اگر جے یو ای اور جماعت اسلامی میں اتحاد ہوگیا جس کا امکان مجھے لگ رہا ہے کہ ہوگا کیونکہ حاجی مغفرت شاہ صاحب ایک منجھے ہوے کھلاڑی ہیں جو یہ اتحاد کروا بلکہ جیتوا کے چھوڑے گا۔اگر اتحاد نہ ہوا تو ہماری جماعت پر فتوے اور کلمے والے جھنڈے کی پھڑ پھڑاہٹ سے بہت سارے حضرتاان کے پیٹ میں درد اور رات کی نیند اڑ جاءے گی۔پیپلز پارٹی میں میرے دوست سلم خان صاحب بھی ایک گرو سے کم نہیں تاہم پی پی کے چانس مجھے روشن دیکھائی نہیں دے رہے اگر کسی بڑے نے دورا کیا تو سرد پڑی رگوں میں مردہ بھٹو جاگ جانے اور ژندہ ہونے میں دیر نہیں لگاے گا۔ بحرحال اسٹیج ایم ایم اے کے لیے سجے گا

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
56494

داد بیداد ۔ افغان اہداف و مقا صد ۔ ڈاکٹرعنا یت اللہ فیضی

افغا ن ان 4کروڑ عوام کو کہتے ہیں جنکو اس وقت ہمارے پڑوسی میں سنگین معا شی اور سما جی بحران کا سامنا ہے آنے والے مہینوں میں اس آبا دی کو شدید قحط کی صورت حال بھی پیش آسکتی ہے اسلام اباد میں اسلا می ملکوں کی تنظیم او آئی سی کے وزرائے خارجہ کا غیر معمو لی اجلا س منعقد ہوا جس میں 20مما لک کے وزرائے خا رجہ 10مما لک کے نا ئب وزرائے خا ر جہ اور 437سما جی مندو بین نے شر کت کی اجلا س کے آخر میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور سکر ٹری جنرل حسن ابراہیم طٰہٰ نے مثردہ سنا یا کہ افغا نستان کے لئے ٹر سٹ فنڈ قائم کیا جا ئے گا.

اگلے سال مارچ کے مہینے میں او آئی سی کا ایک اور غیر معمولی اجلا س ہو گا اجلا س کی بڑی بات یہ تھی ایران اور سعودی عرب دونوں نے اس میں شر کت کی امریکہ کے نما ئیندہ خصوصی بھی اجلا س میں شریک ہوئے سردست یہ بات سامنے نہیں آئی کہ اجلا س کے لئے کیا کیا اہداف اور مقا صد رکھے گئے تھے؟ مارچ کا غیر معمولی اجلا س آنے والا ہے اس کے لئے واضح اہداف اور مقا صد کا ہو نا ضروری ہے اجلا س کی کا میا بی یااس کی نا کا می کو اُن اہداف اور مقا صد کے تنا ظر میں جا نچا جا ئے گا مقا صد اور اہداف مقرر کر تے وقت افغا ن عوام کے بنیا دی مسائل کو سامنے رکھنا ضروری ہے.

اس وقت افغا ن عوام کو سامنے رکھنا ضروری ہے اس وقت افغا ن عوام کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ امارت اسلا می افغا نستان کی حکومت کو تسلیم کیا جا ئے اگر 57اسلا می مما لک اسلا می حکومت کو تسلیم کرینگے تو چین اور روس بھی اس کو تسلیم کرینگے، یورپ کے آزاد اور خود مختار مما لک بھی تسلیم کرینگے براعظم امریکہ کے مما لک میں سے کیوبا، وینز ویلا، برازیل اور کینڈا بھی اس کو تسلیم کرینگے افغا ن عوام کے 50فیصد مسا ئل صرف اسی ایک اقدام سے حل ہو جا ئینگے افغا نستا ن کے بینکوں کو فعال ہونے میں مدد ملے گی با ہر سے سر ما یہ کا ری آئیگی ملک کے اندر معا شی سر گرمیاں شروع ہو جا ئینگی.

بے روز گاری میں کمی آئیگی اس اعلا ن کے لئے سر براہ اجلا س کی ضرورت نہیں وزرائے خار جہ کی طرف سے اما رت اسلا می کی حکومت کو تسلیم کرنے کا اعلا ن کا فی ہو گا اس اعلان کے بعد 57اسلا می مما لک ایک ایک ہو کر اما رت اسلا می کو تسلیم کرنے کے اعلا نات کرینگے دوسری اہم بات یہ ہے کہ مستقبل کا صیغہ اور گا، گے، گی والی باتوں سے فائدہ نہیں ہو تا، اسلا می ملکوں کے وزرائے خا ر جہ ما رچ میں یکجا ہو ئے تو افغا نستا ن کے لئے ٹرسٹ فنڈ کے عطیات جمع کر یں اگر ہر ملک ایک ارب ڈا لرٹرسٹ فنڈ میں جمع کرے تو ایک ہی دن میں 57ارب ڈا لر کا فنڈ ہا تھ آجا ئے گا .

اس کے بعد چین، روس، یو رپی، افریقی اور دیگر ایشیا ئی مما لک بھی اپنا حصہ ڈا لینگے”ہم یہ کرینگے، ہم وہ کرلینگے، ہم افغا ن عوام کو تنہا نہیں چھوڑ ینگے“یہ کھو کھلے نعرے اور کھو کھلی باتیں ہیں ایسی باتوں کا کوئی فائدہ نہیں درین اثنا ء یہ بات خوش آئیند ہے کہ امریکی کا نگریس کے ممبروں نے بائیڈن انتظا میہ کی تو جہ افغا ن عوام کے مستقبل کی طرف دلا تے ہوئے کہاہے کہ ہم نے 20سال افغا ن عوام کی مدد اور تعاون سے اس ملک میں دہشتگر دی کے خلا ف جنگ لڑی ہے ازما ئش کی اس گھڑی میں ان کی مدد کرنا ہماری ذمہ داری ہے عالمی سامراجی اور استعما ری قوتیں افغا نستا ن جیسے مجبور مما لک کو استعما ل کر نے کے بعد ٹیشو پیپر کی طرح پھینک دیتی ہیں اور افغا نستا ن کے ساتھ دوسری بار ایسا ہونے والا ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامین
56467

ہندو کُش کے دامن سے چرواہے کی صدا-موروثی سیا ست اورالیکشن کمیشن-عبدالباقی چترالی

ملک میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔ الیکشن کمیشن ایک خودمختار اور بااختیار ادارہ ہے۔ ملک کی تمام سیاسی جماعتیں الیکشن کمیشن کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں۔ کوئی بھی پارٹی الیکشن کمیشن کے ساتھ رجسٹرڈ ہوئے بغیر انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتی ہے۔ ملک میں جتنے بھی الیکشن ہوئے ہیں وہ سب الیکشن کمیشن کی نگرانی میں ہوئے ہیں۔ الیکشن میں کامیاب ہونے والی پارٹی الیکشن کو صاف شفاف اور منصفانہ قرار دیتی ہے جبکہ ہارنے والوں کی رائے ہمشہ یہی ہوتی ہے کہ اس سے زیادہ دھاندلی زدہ الیکشن ملک میں اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئے تھے۔


ہارنے والی پارٹیاں الیکشن کمیشن پر ہمیشہ اس طرح کے الزامات لگاتے رہتے ہیں۔ گزشتہ کئی سالوں سے ملک میں موروثی سیاست جاری ہے۔ موروثی سیاست کو روکنے میں الیکشن کمیشن ابھی تک کامیاب نہیں ہوا۔ اس کی بری وجہ سیاسی پارٹیوں میں بروقت پارٹی انتخابات نہ ہونا ہے۔ ہر سیاسی پارٹی اپنی مرضی اور منشاء کے مطابق برائے نام اور خود ساختہ پارٹی انتخابات کراتی ہے۔

اس برائے نام پارٹی انتخابات کے نتیجے میں دوبارہ وہی لوگ پارٹی سربراہ بن جاتے ہیں یا ان کے خاندان کا کوئی فرد پارٹی کا عہدہ حاصل کرتا ہے۔ گزشتہ کئی سالوں سے ملک میں یہ لُولی لنگڑی جمہوری تماشہ جاری ہے۔اس جمہوری نظام سے نہ عوام کو کوئی فائدہ پہنچا اور نہ ملک میں جہوریت مستحکم ہوئی۔ عوام موجودہ جمہوری نظام سے متنفر ہو رہے ہیں۔ ملک کے عوام کا اعتماد اور اعتبار اس نظام سے اٹھ رہا ہے۔

اس بابرکت جمہوری نظام کی وجہ سے ملک قرضوں میں ڈوپ چکا ہے اور عوام مہنگائی کے ہاتھوں بدحال ہوچکے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ موروثی سیاست ہے۔ الیکشن کمیشن کی کمزوریوں کی وجہ سے ملک میں موروثی سیاست کو فروغ مل رہا ہے۔ الیکشن کمیشن کو اپنے دائرۂ کار کے اندر رہتے ہوئے جمہوری طریقہ کار کے مطابق اپنی نگرانی میں ہر پارٹی کے اندر مقررہ مدت میں الیکشن کرانا چاہیے تاکہ موجودہ موروثی سیاست سے عوام کو نجات مل سکے۔ الیکشن کمیشن اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے ملک کے تمام سیاسی جماعتوں کو اس بات کا پابند کرے کہ تمام سیاسی جماعتیں ایک مقررہ مدت کے اندر الیکشن کمیشن کے زیر نگرانی میں تحصیل سے لیکر صوبہ لیول تک صاف شفاف اور جمہوری طریقہ کار کے مطابق انتخابات منعقد کریں۔

جمہوری طریقہ کار کے مطابق کسی بھی سیاسی پارٹی کا سربراہ کارکنوں کے ووٹ سے منتخب ہوتا ہے جبکہ اس وقت ہر سیاسی پارٹی اپنی مرضی کے مطابق برائے نام پارٹی انتخابات کراتا ہے اور خود ہی پارٹی سربراہ بن جاتا ہے۔اس وقت ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ نون اور جمیعت علمائے اسلام (ف) ملک میں جاری موروثی سیاست کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ یہ گزشتہ کئی برسوں سے اپنی پارٹیوں کی سربراہی خود کررہے ہیں۔ اس کے باوجود اپنی پارٹیوں کو جمہوری پارٹی قرار دے رہے ہیں جبکہ ان کی پارٹیوں میں ان سے بہتر، قابل اور اہل لوگ موجود ہیں۔

مگر موروثی سیاست کی وجہ سے قابل اور اہل لوگوں کو پارٹی سربراہ بننے کا موقع نہیں ملتا۔ کسی بھی پارٹی میں سیاسی تجربہ کار، اعلیٰ تعلیم یافتہ اور دیانت دار لوگوں کی کمی نہیں ہے لیکن جمہوری اصولوں پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے ان حقدار لوگوں کی حق تلفی ہوتی ہے۔ قابل اور اہل لوگ رہ جاتے ہیں۔ نااہل اور نالائق لوگ اپنے اثر و رسوخ اور دولت کی وجہ سے پارٹی عہدیدار بن جاتے ہیں۔


ملک کی بعض سیاسی جماعتیں جمہوریت کو یرغمال بنائے ہوئے ہیں۔ دولت کی طرح پارٹی قیادت بھی ان لوگوں کی میراث بن چکی ہے جوکہ مسلسل ایک ہی خاندان میں نسل درنسل منتقل ہوتا رہتا ہے۔ گزشتہ کئی سالوں سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ لہٰذا الیکشن کمیشن کو اپنے اختارات بروئے کار لاتے ہوئے موروثی سیاست کو روکنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ الیکشن کمیشن اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآء نہ ہونے کی وجہ سے ملک میں موروثی سیاست کو تقویت مل رہی ہے۔موجودہ سیاسی جماعتوں میں جمہوریت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ لہٰذا الیکشن کمیشن تمام سیاسی جماعتوں کو پابند کرے کہ وہ پہلے اپنی پارٹی کے اندر جمہوریت نافذ کریں اور اس پر عمل درآمد کرائیں۔ اگر کوئی سیاسی پارٹی جمہوری طریقہ کار کے مطابق پارٹی انتخابات نہ کرائے تو ان پارٹیوں کو الیکشن میں حصہ لینے سے روک دیا جائے اور ان پر پابندی لگائی جائے۔

الیکشن کمیشن اور دوسری جمہوری قوتوں کو مل کر ملک میں موروثی سیاست کو روکنے کے لیے مؤثر اقدامات اٹھانا چاہیے تاکہ ملک میں موروثی سیاست کو روکا جاسکے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
56415

بہار ہو کہ خزاں، لااِلٰہ اِلا اللہ-قادر خان یوسف زئی کے قلم سے


مقامِ شکر کہ بہت مدت بعد اس غم کدہ میں ایک خوشی کا لمحہ اس حوالے سے آیا جب 19 دسمبر کو 41 برس بعد او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کا غیر معمولی اجلاس اسلام آباد میں منعقد ہوا۔ یہ اجلاس کم از کم اس حوالے سے بھی باعث ِ تازگیٔ روح اور وجہ کشادِ قلب ہے کہ مسلم اکثریتی ممالک سمیت یورپ، امریکہ و اہم ممالک نے ایک ایسے وقت میں اہم کانفرنس میں شرکت کی جب بیشتر عالمی قوتیں و شرپسند عناصر وطن عزیز کو عالمی تنہائی کی طرف دھکیلنے کی روش پر سرگرم عمل ہیں اور عالمی برادری کے ساتھ بھی بدگمانیوں اور بدظنی کو فروغ دینے کا سبب بن رہے تھے۔ غیر معمولی اجلاس کا ہونا اس لئے بھی ہمارے لئے وجہ ٔ تسکین خاطر ہے کہ ایک تو تمام مسلم اکثریتی ممالک، مغربی ملکوں کے مبصرین اور مالیاتی اداروں کے نمائندے ایک اہم مقصد کے لئے ایک نکتے پر جمع ہوئے تو دوسری وجہ اس لئے کہ اس اجتماعیت کے اہتمام کی سعادت مملکتِ پاکستان کے حصے میں آئی۔


تشکیل پاکستان کے وقت کم و بیش تمام مسلم اکثریتی ممالک نے اس مملکت کی تخلیق پر مرحبا کہا تھا اور پاکستان کو اپنا امام تسلیم کرلیا تھا، ازاں بعد ہماری اپنی ہی غلطیوں کی وجہ سے ہمارے اس مقام میں تبدیلی پیدا ہونی شروع ہوئی اور اس طرح ان کی نگاہوں میں ہمارا وقار و احترام کم ہوتا چلاگیا۔ توقع کی جاسکتی ہے کہ برادر مسلم ملک افغانستان میں انسانی بحران کے حل کے لئے کی جانے والی کوششوں سے ہمارا اپنا وقار بھی پھر بحال ہوجائے گا،

بشرطیکہ ہم اُن تقاضوں اور مہمان نوازی پر پورے اُترنے میں کامیاب ہوں، جو زمینی حقائق سے مطابقت رکھتے ہوں، بالخصوص عرب ممالک اس باب میں بڑے نازک طبع اور ذکی الحس واقع ہوئے ہیں۔ افغانستان کے نمائندے بھی باقاعدہ مجوزہ کانفرنس میں شریک ہوئے، اس طرح یہ پہلا موقع بنا کہ براہ راست عالمی برادری بالخصوص مسلم اکثریتی ممالک نے اپنے تحفظات اور اقدامات سے افغان طالبان کو آگاہ کیا اور اسی طرح انہوں نے بھی اس اہم موقع سے فائدہ اٹھایا اور مسلم دنیا کو مخاطب کرتے ہوئے عالمی برادری کو مملکت میں کیے جانے والے اقدامات اور افغان عوام کو درپیش مشکلات کے حل کے لئے اپنی ترجیحات سے آگاہ کیا۔ کانفرنس کے نتائج کتنے دوررس نکلتے ہیں، یہ آنے والا وقت بتائے گا، لیکن یہاں غور طلب پہلو یہ بھی ہے کہ دنیا بھر سے مسلم اکثریتی ممالک میں رنگ، نسل، زبان وطن کے گوناگوں اختلافات کے باوجود ان سب میں ایک قدر مشترک جو ملی وحدت کا موجب بنی وہ اسلام ہے۔ 21 اگست 1969کو مسجد اقصیٰ پر یہودی حملے کے ردّعمل کے طور پر 25 ستمبر 1969کو مراکش کے شہر رباط میں او آئی سی کا قیام عمل میں آیا تھا، اُس وقت بھی جسم کے کسی حصے کی تکلیف کی وجہ سے وجود کو درد کے احساس نے اہم مقصد کے لئے اکٹھا کیا تھا۔
مسلماں کو مسلماں کردیا طوفانِ مغرب نے
تلاطم ہائے دریا ہی سے ہے گوہر کی سیرابی


اسلامی تنظیم تعاون کا قیام ہی اسرائیلی چیرہ دستیوں کی وجہ سے عمل میں لایا گیا۔ عرب ممالک سے وحدتِ عمل کے لئے اہم قدم اٹھایا گیا تھا، جب تیل کی سپلائی میں کمی کا فیصلہ کیا گیا تو اُس وقت اس نہایت خفیف سے اجتماعی عمل نے یورپ اور امریکہ کی فضائوں میں ارتعاش پیدا کردیا تھا۔ اگر ہم اپنے فیصلوں کے سیاسی امور میں وحدت پیدا کرلیں تو دنیا میں طاقت کا توازن ہی نہیں بلکہ دنیا کا نقشہ بھی بدل سکتا ہے کہ دنیا کی دوسری سب سے بڑی مسلم آبادی کو درپیش مشکلات و تکالیف کے حل کے لئے قدرت کے بیش بہا ذخائر اور اجتماعیت کا یہ اعلان کہ ہمارے درمیان کسی بھی معاملے پر کوئی اختلا ف نہیں، کوئی افتراق نہیں، چاہے ان ممالک کی مقامی زبانیں کچھ بھی ہوں لیکن پیام اسلام یہی ہے کہ ہمارا دین امن، سلامتی اور خلوص و اخوت کا پرچار کرتا ہے۔ دہشت گردی اور انتہاپسندی سے دین اسلام کا کوئی تعلق نہیں۔ آج دنیا بھر میں مسلم امہ کو متنوع مسائل کا سامنا ہے۔ کانفرنس جس مقصد کے لئے منعقد ہوئی، اس پر ہونے والی بحث کے علاوہ اسلامی تنظیم تعاون کے فعال ہونے کا پیام عالمی برادری کو جانا چاہیے۔ پاکستان جو خود دہشت گردی اور انتہاپسندی کا شکار اور شدت پسندی کے خلاف جنگ میں اتحادی بننے کی وجہ سے ہزاروں قیمتی جانوں کی قربانی اور اربوں ڈالر کا مالی نقصان اٹھاچکا، وہ اس ہنگامی اجتماع کے بعد صرف مسلمانوں کو ہی نہیں بلکہ عالمگیر انسانیت کے ارباب ِ نظم و نسق سے گزارش کرے کہ:


جو کرے گا امتیاز رنگ و خوں، مٹ جائے گا
ترک خرگاہی ہو یا اعرابی والا گہر
نسل اگر مسلم کی مذہب پر مقدم ہوگئی
اڑ گیا دنیا سے تو مانند خاک رہ گزر
تاخلافت کی بنا دنیا میں ہو پھر استور
لا کہیں سے ڈھونڈ کر اسلاف کا قلب و جگر
دعا ہے کہ مجوزہ کانفرنس اپنے مقاصد میں کامیاب ہو اور امت میں اتحاد و اتفاق پیدا کرنے کی طرف کوئی مثبت قدم اٹھانے کا پیش خیمہ بن سکے۔ پاکستان برادر اسلامی ملک کے عوام کے لئے تواتر سے دنیا کو باور کرارہا ہے کہ ان حالات میں افغانستان پر مفروضوں کی بنیاد پر پابندیاں عائد کرنے اور معاشی شکنجہ کسنے کا موقع درست اقدام نہیں، کیونکہ چاردہائیوں کے بعد بالآخر ایک ایسا موقع میسر آیا ہے، جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے خطے سمیت دنیا بھر کو محفوظ بنایا جاسکتا ہے۔ افغان عوام کی امانت کو امریکہ کی جانب سے اس جواز پر روک لینا کہ نائن الیون کے متاثرین نے نقصانات کے ازالے کے لئے درخواستیں دی ہیں، یہ عمل سراسر مضحکہ خیز معلوم ہوتا ہے، کیونکہ گذشتہ 20 برسوں میں امریکہ نے جتنا نقصان افغانستان کو پہنچایا، اگر اس کے نقصانات کی تلافی کرنے کا غیر جانب دارانہ فیصلہ ہوجائے تو امریکہ ایک لمحے میں دیوالیہ ہوجائے اور زر تلافی بھی ممکن نہیں بناسکے گا۔ عوام اس موقع پر مسلم اکثریتی

ممالک سے درخواست گزار ہیں کہ
 یہ ہندی وہ خراسانی یہ افغانی وہ تورانی
تو اے شرمندۂ ساحل اچھل کر بے کراں ہوجا
غبار آلود رنگ و نسب ہیں بال و پر تیرے
تو اے مرغ حرم اڑنے سے پہلے پرفشاں ہوجا
خودی میں ڈوب جا غافل یہ سر زندگانی ہے
نکل کر حلق شام و سحر سے جاوداں ہوجا

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
56413

نوائے سُرود ۔ شکرکی دولت ۔ شہزادی کوثر

یہ جو گزرتے سمے تیزی کے ساتھ نامعلوم سمت کی طرف رواں دواں ہیں ہمیں کتنی نعمتوں سے نواز رہے ہیں ۔یہ اونچے اونچے پہاڑ جن کی چوٹیاں نومبر کے آغاز میں ہی برف کی چادر اوڑھ لیتی ہیں۔ درختوں کے پتوں سے ٹکراتی ہوا جو گرمیوں میں راحت کا ذریعہ ہے اور خزاں میں بکھرتے پتوں سے سرگوشی کرتی ہے کہ ایک زندگی کا خاتمہ دوسری زندگی کی نوید ہے۔ کسی جھرنے کے کناروں پہ جمی برف پہ پڑنے والی دھوپ زندگی کے جمود کو توڑنے کا درس دیتی ہے ۔

تیر کی طرح وجود میں گھستی ہوئی سردی کی شدید لہراعصاب کو شل کرتی ہے ایسے میں آگ کی تپش اور دھوپ کی تمازت سے کتنی راحت کا احساس ملتا ہے ۔اس موسم میں اگر کوئی بڑی نعمت ہے تو صرف دھوپ اور حرارت ہے جو یخ بستہ ہواوں اور خون جما دینے والی ٹھنڈ کا واحد علاج ہے ۔اس کا اندازہ تب ہوتا ہے جب ٹھنڈ کی وجہ سے وجود میں سنسنی سی دوڑتی محسوس ہوتی ہے۔ ایسے میں آتشدان میں الاو یا انگیٹھی میں دہکتے انگارے کی قربت میسر آجائے تو اپنی خوش قسمتی پہ رشک آنے لگتا ہے۔ لیکن ہم ہیں کہ اس زاویے سے سوچنے کی زحمت نہیں اٹھاتے ۔

سال کے چار خوب صورت موسم اپنی تمام تر جمالیاتی کیف کے ساتھ آتے اور ہزاروں نعمتوں سے ہمیں سرفراز کر جاتے ہیں لیکن ہم ہیں کہ سب کچھ نذر نسیاں کر کے بیٹھے ہوئے ہیں ۔ایک بیچ سے درخت بن کے پھل لگنے تک کا عرصہ کتنا لمبا اور تھکا دینے والا ہوتا ہے ،ہم چونکہ اس عمل میں شریک نہیں ہوتے سب کچھ بنا بنایا ہمیں ملتا ہے اس لئے چیزوں کی قدر اور شکر نہیں کرتے ، شاید شکر کرنے کے جذبات ہم نے اوپر سے اوڑھ رکھے ہیں ان کی ہمارے دل ودماغ سے وابستگی نہیں ہے۔ کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ کیا ہم ایسے ہی شکر کرنے کے مواقع ضائع کرتے رہیں گے،کیا اوپر والے سے ایسا کوئی تعلق نہیں بنانا  جو ہماری فلاح کا ذریعہ بنے۔اتنی ساری نعمتیں ملی ہیں جن کا حد وحساب انسان کے بس کی بات نہیں۔ ہمیں سب معلوم ہے کہ ہماری محنت اور کارکردگی ان نعمتوں کا عشرعشیر بھی پیدا نہیں کر سکتی ،اس لیے تو قرآن فرماتا ہے                           

کہ تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاو گے۔”                               

کتنا نا سمجھ ہے نا انسان کہ اتنی بڑی عقل اور شعور کی دولت ملی ہے لیکن رب کی عطا کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ اصل میں ہمیں جینا ہی نہیں آتا پھر شاکی ہوتے ہیں کہ زندگی بہت مختصر ہے۔ زندگی مختصر اتنی نہیں ہوتی ہم جینا ہی دیر سے سیکھتے ہیں اور جب صحیح معنوں میں جینا آتا ہے تو واپسی کا وقت آ چکا ہوتا ہے ۔ شکر کرنے کا موقع گنوا دیتے ہیں ،خوشحالی میں ،صحت میں ،بڑے عہدے کے نشے میں اللہ سے رجوع نہیں کر پاتے ،ہمارے رجوع کرنے کا زمانہ تب آتا ہے جب دنیا ہمیں رد کر دیتی ہے ،ہر در سے دھتکارے ہوئے راندہ ہو کر اللہ کے درپہ دستک دیتے ہیں۔ اگر بیماریاں گھیر لیں یا علاج کرنے کے باوجود شفایابی کی کوئی صورت نظر نہ آئے تب ہمارا دھیان اس طرف جاتا ہے۔

دنیاوی ضروریات کی عدم دستیابی ہمیں دوسروں کے در پہ لے جاتی ہے لیکن بلاواسطہ ہمارا رابطہ اوپر سے نہیں جڑ پاتا۔ دولت پاس ہو تو عیاشیوں اور شباب وکباب کی محفلیں سجتی ہیں انسان خدا بن جاتا ہے ایسا خدا جو صرف دولت مندوں کی طرف دیکھنے کا عادی ہے۔غریبوں اور ضرورت مندوں کے لیے اس کے پاس کچھ نہیں ہوتا ۔ جب گردش ماہ وسال کی گرفت میں آ کر سب کچھ بدل جاتا ہے تب انسان کو ہوش آتا ہے کہ یہ سب میری نا شکری کی وجہ سے مجھ سے چھن گیا ۔ نعمتوں کی موجودگی میں ہی اگر خالق سے رابطہ جڑ جائے تو نعمتوں کو زوال نہیں ایا کرتا ۔

ہم خود کو انسانوں کے ہجوم میں ، خواہشات کے ڈھیر میں اور آرزوں کے طوفان میں کہیں کھو دیتے ہیں ہماری اولین ترجیح دنیا ہوتی ہے ہر آسائش اور نعمت کو پا لینے کے بعد بھی ہماری حرص ختم نہیں ہوتی  نہ کبھی پیٹ بھرتا ہے اور انکھیں سیر چشمی کی نعمت سے محروم ہی رہتی ہیں لیکن مجال ہے کہ ہم کبھی شرمندگی محسوس کریں ،کاش ہم پلٹنے سے پہلے شعور کی اس سطح کو پالیں جو شکر سے سیراب ہوتا ہے ۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ تمام تر توانائیوں اور طاقت کی موجودگی میں انسان شکر کرنا سیکھ لے ،شکر انسان میں انکساری پیدا کرتا ہے اور انکساری وہ مقام عطا کرتی ہے جس کے سامنے بادشاہت بھی فقیری ہے                                         

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامین
56406

قومی ترانے کے شاعر حفیظ جالندھری کا یومِ وفات-از قلم : کلثوم رضا

قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری کا اصل نام ابوالاثر حفیظ تھا ۔آپ 14 جنوری سن 1900ء کو شمالی پنجاب کے شہر جالندھر میں پیدا ہوئے۔


آپ نے ابتدائی تعلیم آبائی قصبے سے حاصل کرنے کے بعد کسب معاش کا آغاز ریلوے میں ملازمت سے کیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد آپ نے مستقل طور پر لاہور میں سکونت اختیار کی اور ڈائریکٹر جنرل مورال آرمڈ سروسز آف پاکستان مقرر ہوئے۔ اس کے بعد آپ نے فیلڈ ڈائریکٹر آف پبلسٹی ویلج ایڈمنسٹریشن اور ڈائریکٹر ادارہ نو پاکستان کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔


آپ کو شاعری سے اتنا لگاؤ تھا کہ مشکل سے مشکل وقت میں بھی شاعری سے ناطہ نبھاتے رہے۔ یوں آپ نے کئی گیت، غزلیں اور نظمیں لکھیں لیکن آپ کی وجہِ شہرت “شاہنامہِ اسلام ” بنا جس میں آپ نے تاریخ اسلام کو نظم کی صورت میں لکھا ہے۔
1952ء میں آپ نے قومی ترانہ لکھا جو 13 اگست 1954ء کو ریڈیو پاکستان سے نشر ہوا۔ جس کی دھن ایک سندھی موسیقار احمد غلام علی چھاگلا نے ترانے کے بول سے پہلے بنائی تھی۔ جس سال یہ جاری کیا گیا اسی سال گیارہ بڑے گلوکاروں نے اسے اپنی آوازوں میں ریکارڈ کرایا۔ تین بندوں پر مشتمل اس مخمس ترانے میں حفیظ جالندھری نے وطن عزیز کے لیے جن اچھی خواہشات اور نیک تمناؤں کا اظہار کیا ہے اسے ترجمے کے ساتھ پڑھتے ہیں۔

پاک سر زمین شاد باد
اے میرے وطن کی پاکیزہ زمین تو ہمیشہ خوش رہے

کِشورِ حسین شاد باد
اے میرے خوبصورت ملک تو ہمیشہ خوشیوں سے بھرا رہے

تُو نِشانِ عظمِ عالی شان
ارضِ پاکستان
اے پاک سر زمین تو ہمارے بزرگوں کے شاندار عَظم اور ان کے پکے ارادے کی نشانی ہے

مرکزِ یقین شاد باد
ہمارے ایمان اور یقین کا یہ مرکز سدا خوش رہے

پاک سر زمین کا نظام
قوتِ اخوتِ عوام
اس پاک سر زمین کا نظام اس میں بسنے والوں کے اتحاد کی طاقت اور ان کے بھائی چارے سے چلتا ہے

قوم ملک و سلطنت
پائندہ تابندہ باد
ہماری قوم، ہمارا ملک، ہماری یہ سلطنت ہمیشہ قائم رہے اور چمکتی دمکتی رہے

شاد باد منزلِ مراد
ہماری امیدوں اور مرادوں کی یہ منزل ہمیشہ خوشیوں سے بھری رہے

پرچمِ ستارہ و ہلال
رہبرِ ترقی و کمال
ہمارا یہ چاند ستارے والا پرچم زندگی کے ہر شعبے میں ترقی اور عظمت کی طرف رہنمائی کرتا ہے

ترجمانِ ماضی شانِ حال
جانِ استقبال
یہ سبز پرچم ہمارے شاندار ماضی کی کہانی بیان کرنے کے ساتھ ساتھ موجودہ زمانے میں بھی ہماری شان بڑھاتا ہے اور ہمارے مستقبل کی شان بھی سبز ہلالی پرچم ہے

سایہِ خدائے ذوالجلال
ہمارا پرچم ہم پر خدا کا سایہ ہے۔ اس خدا کا سایہ جو بڑی بزرگی اور عظمت والا ہے

21 دسمبر 1982ء کو 82 سال کی عمر میں قومی ترانے کے عظیم شاعر نے داعیِ اجل کو لبیک کہا اور ماڈل ٹاون لاہور میں مینارِ پاکستان کے سائے تلے مدفون ہوئے۔ ان کی خدمات کے اعتراف میں انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی اور ہلالِ امتیاز سے نوازا گیا ۔حفیظ جالندھری کو اپنے خالقِ حقیقی سے ملے 39 سال گزر چکے ہیں لیکن ان کی یاد ہمارے اور ہماری نسلوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہے گی۔ان کا لکھا ہوا یہ خوبصورت ترانہ تا ابد ارضِ پاک پر گونجتا رہے گا ان شاءالله۔
آپ کی دیگر تصانیف میں چراغِ سحر، نغمہِ زار، تلخابہِ شیرین، تصویرِ کشمیر، شاہنامہِ اسلام، سوزوساز اور غیر ملکی افسانوں کا ترجمہ “معیاری افسانے” کے نام سے مشہور ہیں۔

qomi tarana hafiz jhalandri
Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
56393

بلدیاتی آفٹر شاک ۔ تحریر۔ شہزادہ مبشرالملک

وزیر اعظم جناب عمران خان کو یہ اعزاز حاصل ہوا ہے کہ پرویز مشرف کے بعد ایک منتخب وزیراعظم نے پارلیمانی اور سیاسی رویت کو پس پشت ڈال کر اپنے انتخابی وعدے کو نبھاتے ہوے ۔۔۔ بلدیاتی انتخابات کرواءے اگرجہ یار لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہ سب کچھ۔۔۔۔ سپریم کورٹ ۔۔۔ کے سپریم ڈنڈے کے طفیل ممکن ہوا۔لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ کے پی بلدیاتی دھنگل نے خان صاحب اور اس کے خیالی دنیا کے وزرا کو بھی غفلت کی نیند سے جگا دیا ہے۔مجھ جیسے کم ظرف لکھاری مدتوں سے خان صاحب کو یہی بات سمجھانے کی ناکام کوشیش میں لگے ہوے تھے کہ عوام کے ساتھ جوڑے رہیں یہ عالمی سیاست یہ بلند وبانگ دعوے یہ غیبی مخلوقات پہ بھروسہ خزان کے پتوں کی طرح ہوا کرتے ہیں جو جھڑ جانے پہ آجاءیں تو ہوا کا ایک ہی جھونکا انہیں کہیں سے کہیں پہنچا دیتا ہے۔


حالیہ انتخابات کے نتایج ورکرز ،وزرا،مشیران، جو خان صاحب کے آگے دوزانو ہوکے اخلاقیات کا درس جو لیتے رہے اور دوسروں تک رائی کو پہاڑ بناکر شاہ سے شاباش پاتے رہے یہ اسی سیاسی گند کا پیش خیمہ ہے ۔

یہ بات ہمارے نظر نہ آنے والی مخلوقات کے لیے بھی نوشتہ دیوار ہے کہ ۔۔۔ جمہور کو جمہور سمجھ کر ڈیل کیا جاءے بدخشان سے لاءے گیے ۔۔۔ بیھڑ اور دنبے نہیں۔کءی سالوں کی جنگ جس کے سبب لاکھوں لوگ ایک اذیت ناک حالات سے دو چار ہوے ان علاقوں میں حکومت کے شروع کیے گیے اچھے اقدامات بھی عوام کے دلوں میں وہ جگہ نہ بناسکے جو اس کاحق بنتا تھا۔کرونا کی سونامی نے بھی حکومت کا منہ کالا کرنے میں اہم رول ادا کیا اور عالمی اقتصادی مشکلات کی حقیقت سے بھی نااہل مشروں اور وزرا نے لوگوں کو قایل کرنے میں روایتی نالایقی کا بار بار مظاہرہ کیے رکھے۔اءی ایم آف کے اشاروں پر آنکھیں بند کرکے عمل کرنا بھی حکومت کی مقبولیت کے گراف کو ۔۔ روشنی کی رفتار سے تیز نیچے لانے میں مدد دی مگر وزیراعظم سمیت ۔۔

خیالی اور خلاءی بھی تنزلی کے اس سفر سے بے خبر ہی رہے۔تمام تر خرابیوں کا زمہ دار نواز شریف اور زرداری کو ٹھرانے کی ۔۔۔ غزل سرائی بھی مسلسل سنانے کے بعد عوام کی کانوں کو بھلا لگنے کی بجاءے بوریت اور بے زاری کاسبب بنا رہا۔۔ نیب کی۔۔۔ فرنڈلی فاءیر۔۔۔ اور مخالفین کے لیے حقیقی احتساب کی جگہ ۔۔۔سیاسی انتقام۔۔۔ کالیبل چسپاں کیے رکھا ۔عدلتوں میں کیسوں کے التواء چکر بھی احتساب سے زیادہ سیاست کی سلامی کا ذریعہ بنا رہا جس سے لوگ اور بھی متنفر ہوئے۔


افغانستان میں طالبان کی عالمی پابندیوں،امریکہ بہادر کے ڈاگے اور غنڈہ گردہ کے باوجود بے سروسمانی کے عالم میں ایک چالیس سالہ جنگ زدہ ملک میں امن کا قیام اور تمام عالم کفر اور اللہ کے دیے ہوے نظام اسلام سے


متنفر عالم اسلام کے بزدل حکمرانوں کے مخالفت کے باوجود ۔۔۔شریعت محمدی۔۔۔ کانفاذ بھی پاکستان میں بلعموم بلوچستان اور کے پی میں بلخصوص اسلامی بیداری کا دور دوبارہ لوٹ لایا ہے۔جو آنے والے دنوں میں ایک مقبول مطالبہ بن کے گھر گھر کی آواز بن سکتی ہے۔خان صاحب کی حکومت میں مدینے کی ریاست کی باتیں تو زوروں سے ہوتی ہیں مگر رفتار ۔۔۔ کھچوے۔۔ سے بھی سست ہونے کی وجہ سے اسلام پسند عناصر جو خان صاحب کو امید کا آخری سہارہ سمجھ رہے تھے وہ بھی مایوسیوں کے اتھاگہرایوں میں دبتے جارہے ہیں۔اور خان صاحب کے دن ختم ہوتے جارہے ہیں اور کوئی نتیجہ سامنے آنے کا نام نہیں لے رہا۔

اب مولانا آرہا ہے کے نعرے کو تقویت ملتی جارہی ہے اور آنے والا کل اگر مولانا ثابت قدم رہے تو اللہ کی مدد نصرت بھی شامل حال ہوسکتی ہے اور افغانستان میں طالبان کی کامیابی ہمارے عالمی حالات کو سدھارنے کے لیے پالیسی سازوں اور خلاءیوں کو مجبور کر سکتی ہے کہ وہ حضرت مولانا کو سینے سے لگا ہی دیں حالیہ کامیابی میں بھی مجھے ۔۔۔ قربتیں نظر آرہی ہیں جو مستقبل میں ۔۔۔ تبدیلی سرکار کے لیے وقت سے پہلے ہی تبدیلی کے۔۔۔۔ آفٹر شاک۔۔۔ ثابت ہوسکتے ہیں

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
56380

اتحاد بین المسلمین کی ضرورت ۔ محمد شریف شکیب

اتحاد بین المسلمین کی ضرورت ۔ محمد شریف شکیب

بھارت میں جب سے نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی نے اقتدار سنبھالاہے مذہبی اقلیتوں پر عرصہ حیات روز بروز تنگ ہوتا جارہا ہے۔ تاریخی بابری مسجد کی شہادت کے بعد ہندو انتہاپسندوں نے ہندوستان کے کئی مقامات پر مسلم دور کی کئی نشانیوں کو مٹادیا۔کئی عید گاہیں مسمار کردی گئیں۔بھارت میں سیکولرازم کا پرچار کرنے والے موہن داس کرم چند نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ مسلمان یا تو ہمارے ہی لوگ ہیں جنہوں نے ہندو مذہب چھوڑ کر اسلام قبول کیا۔یا وہ درانداز ہیں۔باہر سے آکر ہم پر حکومت کرتے رہے۔ جو باہرسے آئے تھے وہ اپنے ملکوں کو واپس چلے جائیں اور جنہوں نے مذہب تبدیل کیاتھا۔وہ دوبارہ ہندو مذہب اختیار کرے کیونکہ ہندوستان میں ہندوؤں کے سوا کسی کو رہنے کا حق نہیں۔ بعد میں سیاسی مفادات کی خاطر جواہر لعل نہرواور گاندھی جی نے ہندومسلم اتحادکا نعرہ لگایا۔ اس موقع پر قائد اعظم محمد علی جناح نے یہ تاریخی الفاظ کہے کہ کسی مسلمان اور ہندو کی شادی نہیں ہوسکتی۔ مسلمانوں کا ہیرو ہندوؤں کا دشمن اور ان کا ہیرو ہمارا دشمن ہے۔

وہ ایک دسترخوان پر بیٹھ کر کھانا نہیں کھا سکتے۔ مسلمان گائے کو ذبح کرکے کھاتے ہیں اور ہندو اس کی پوجا کرتے ہیں۔ دونوں کو ایک قوم قرار دے کر ایک ملک میں رہنے پر مجبور کرنا پورے ملک کی تباہی کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ اسی دو قومی نظریے کی بنیاد پر پاکستان وجود میں آیاتھا۔ تقسیم ہند کے بعد بھی دلی کی تخت شاہی پر براجمان ہونے والے ہر حکمران نے اکھنڈ بھارت کا نعرہ لگایا لیکن مذہبی اقلیتوں پر موجودہ حکومت نے جو مظالم ڈھائے ہیں ان کی مثال ہندوستان کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں مسلمان اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے لئے قانون میں تبدیلی کے ساتھ ہندوؤں کو وہاں لاکر بسانے کا منصوبہ روبہ عمل ہے۔ بھارتی ریاست ہریانہ میں بی جے پی کے وزیراعلیٰ منوہر لال نے حال ہی میں پوری ریاست میں مسلمانوں کے کھلے مقامات پر نماز ادا کرنے پر پابندی کا اعلان کیا ہے۔ منوہر لال نے کھلے مقامات پر نماز اور دیگر مذہبی سرگرمیوں کی ادائیگی کے عمل کو ’ناقابل برداشت‘ قرار دے دیا۔

وزیراعلیٰ نے انتظامیہ کو احکامات جاری کئے ہیں کہ مسلمانوں کو عبادات کی ادائیگی کے لئے گھروں تک محدود رکھاجائے۔منوہر لال کا کہنا ہے کہ کوئی نماز پڑھتا ہے، کوئی پاٹھ کرتا ہے، کوئی پوجا کرتا ہے ان سب کے لئے الگ الگ مقامات مختص ہیں۔ انہوں نے 2018 میں مسلمانوں کے ساتھ مذہبی آزادی کے حوالے سے طے پانے والے معاہدے کو بھی ختم کرنے کا اعلان کیا۔ میڈیا کے مطابق حال ہی میں کھلے مقامات پر نماز جمعہ ادا کرنے پر سینکڑوں افراد کو گرفتار کرلیاگیا۔دنیا کے تمام مذاہب میں انتہاپسند اور میانہ رو دونوں طبقے موجود ہیں یہودی اور ہندو مذہب کے پیروکاروں کی اکثریت انتہاپسندانہ سوچ رکھتی ہے لیکن انتہاپسندی کو صرف مسلمانوں کے ساتھ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت نتھی کیاجارہا ہے۔

مسلم اقوام کے خلاف یہود و ہنود سمیت ہر عقیدے سے تعلق رکھنے والے متحد ہیں کیونکہ وہ صرف اسلام کو ہی اپنے لئے خطرہ سمجھتے ہیں۔انہیں بخوبی معلوم ہے کہ جب مسلمان متحد ہوجائیں تو وہ قصر و کسریٰ کی سلطنتوں کی اینٹ سے اینٹ بجاسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مسلمانوں کو آپس میں لڑاکران کی طاقت کو توڑنے کی سازشوں میں مصروف ہیں۔ اور بدقسمتی سے یہ نکتہ مسلمانوں کی سمجھ میں نہیں آرہا۔ہم اتنے مادیت پرست اور خود غرض ہوچکے ہیں کہ اپنی نشاۃ الثانیہ کے بارے میں سوچتے ہی نہیں۔ہمیں قومیت، علاقائیت، لسانیت اور جاگیر و جائیداد اور مال و دولت سے بالاتر ہوکر امت بن کر سوچنا ہوگا۔ ہماری سیاسی و مذہبی قیادت کو بھی اقتدار و اختیار کے حرص کے بجائے پاکستان کے بائیس کروڑ عوام کو ایک متحد قوم بنانے پر سوچنا ہوگا۔ہمارے اساتذہ، علماء، دانشوروں اور رائے عامہ ہموار کرنے والوں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ ہم متحد ہوں گے تو اپنی سلامتی اور بقاء کا دفاع کرسکیں گے۔اور دنیا میں جہاں جہاں کلمہ گو ظلم و بربریت کا شکار ہیں ان کے لئے آواز اٹھاسکیں گے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
56377

افغانستان میں انسانی بحران و قحط میں او آئی سی نشستن،گفتن و برخاستن؟-قادر خان یوسف زئی

 تنظیم تعاون اسلامی کے وزرائے خارجہ کا غیر معمولی اجلاس اسلام آباد میں پاکستان کی میزبانی میں منعقد ہوا، جس کا بنیادی مقصد دفترِ خارجہ کے مطابق افغانستان میں انسانی بحران آنے سے قبل ضروری اقدامات کرنا بتایا گیا۔ دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ ہم نے کانفرنس میں سلامتی کونسل کے مستقل اراکین، ورلڈ بینک سمیت دیگر عالمی مالیاتی اداروں کو بھی شریک ہونے کی دعوت دی۔ خیال رہے کہ او آئی کا دوسرا سربراہی اجلاس اور پاکستان میں پہلا  22فروری 1974 کو لاہورمیں، جب کہ پہلا غیر معمولی سربراہی اجلاس 23مارچ 1997کو اسلام آباد میں ہوا تھا۔  1980کے بعد او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کاپاکستان میں ہوا۔ جو افغانستان  میں مستقل و مستحکم قیام امن کے لئے عالمی برداری سے تعاو ن کا عندیہ دے رہا ہے تو دوسری جانب خطے میں کروڑوں عوام  بدترین تکالیف سے بچنے کی مثبت کوششوں کو مزید بڑھانے پر سنجیدگی کا اعلیٰ مظاہرے کے منتظر  ہیں۔

 خیال رہے کہ او آئی سی اقوام متحدہ کے بعد اقوام عالم کی سب سے بڑی تنظیم ہے جس کے 57 ممالک ممبران اور چار مبصرین ہیں۔ کانفرنس میں  20ممالک کے وزرائے خارجہ 10نائب وزرائے خارجہ اوردیگر نمائندوں و مبصرین نے شرکت کی۔  اسلام آباد میں کانفرنس سے مسلم امہ کو درپیش چیلنج کا متفقہ حل نکالنے کا مثبت پیغام دنیا کو جانا چاہے اور انسانی ہمدردی کے طور پر عملی اقدامات عالمی برداری کے لئے عمدہ مثال بنے۔ سعودیعرب نے ایک ارب ریال امداد کا اعلان بھی کیا۔ پاکستان نے افغانستان کو مستقبل میں درپیش مسائل کے حل کے لئے مسلم اکثریتی ممالک میں بانی رکن اور او آئی سی کے چھ رکنی ایگزیکٹیو کمیٹی کے رکن کے حیثیت سے اپنا فرض ادا کرتے ہوئے ایک بار پھر او آئی سی کے کردار کو امہ کے اجتماعی آواز کے طور پر پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا۔افغانستان کو موجودہ حالات میں کن مسائل کا سامنا ہے، اس کے جائزے میں دیکھنا ہوگا کہ کیا او آئی سی اس حوالے سے حقیقی معنوں میں مثبت و عملی کردار ادا کر پائے گی یا نہیں یہ آنے والا وقت تعین کرے گا۔

یورپی یونین کی ہائی کمشنر برائے امور داخلہ یلوا جوہانسن کا کہنا تھا کہ یورپی یونین کے رکن پندرہ ممالک چالیس ہزار افغان مہاجرین کو قبول کریں گے۔یورپی یونین کے انصاف و وزرائے داخلہ اجلاس کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب میں جوہانسن نے کہا کہ مذکورہ فیصلہ نہایت متاثر کن اور باہمی اتحاد کی ایک مثال ہے۔انہوں نے کہا کہ مذکورہ فیصلہ غیر منّظم نقل مکانی کے سدّباب کے خاطر قانونی اقدامات میں سرمایہ کاری کے لئے بھی ایک اہم قدم کی حیثیت رکھتا ہے، تاہم انہوں نے اس بارے میں کوئی معلومات فراہم نہیں کیں کہ  40 ہزار افغان مہاجرین کو قبول کرنے والے 15 ممالک کون سے ہیں۔ درحقیقت افغانستان اس وقت اپنی تاریخ کے نازک دور سے گذر رہا ہے۔

 امریکہ اور نیٹو افواج کی واپسی کے بعد نئے افغانستان کو اس وقت سنگین مشکلات کا سامنا ہے۔ ایک طرف افغانستان میں طویل ترین جنگ کے خاتمے کے بعد امن کے ثمرات نہیں مل پارہے تو دوسری جانب معاشی طور پر بدحالی عوام کی مشکلات میں اضافے کا سبب بن رہا ہے۔ افغانیوں کی بڑی تعداد اپنے غیر یقینی مستقبل کے پیش نظر ایسے ممالکسے آس لگائے بیٹھے ہیں، جو انہیں ایک ایسا معاشی محفوظ مستقبل دے سکے، جس کے وہ خواب دیکھتے چلے آرہے ہیں ،  ان میں بڑی تعداد ایسے ہنر مند اور تعلیم یافتہ افغانیوں کی ہے جو افغانستان میں امریکی و غیر ملکی افواج کے سہولت کاری کرتے رہے اور ان کی توقع کے برخلاف قبل ازوقت کابل انتظامیہ کی تبدیلی سے ان کے سہانے خواب چکنا چور ہوگئے۔دوحہ میں امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان مفاہمتی عمل معاہدے میں یہ طے پایا گیا تھا کہ امریکہ، افغان طالبان کے خلاف پابندی ہٹانے میں تعاون کرے گا لیکن امریکہ کی جانب سے پابندیاں ہٹانا تو ایک طرف بلکہ مزید مالی پابندیاں عائد کردیں گئیں جس سے نئی افغان حکومت اور عوا م کو پریشانی کا سامنا ہے۔

کسی بھی ملک میں پائدار امن کے لئے مستحکم یا پھر ترقی پر گامزن معیشت کا ہونا ضروری ہے۔ انتہا پسندی کے مختلف عناصر میں یہ امر بھی غالب رہا ہے کہ غربت، تنگ دستی اور معاشی کمزوری سے پریشان حال نوجوان کا رجحان مذہب اور نظریئے کے مقابلے میں کہیں زیادہ اثر پذیر ہوتا ہے۔ تصور کیا جائے کہ اگر کوئی ترقی یافتہ مملکت اپنے عوام اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سمیت حکومتی ڈھانچے کی تنخواہیں روک دے تو تمام فلسفے اور شعور کچرے میں پڑے نظر آئے گا اور بھوک و تنگ دستی کے خلاف بڑی سے بڑی طاقت ور مملکت کے اداروں میں کام کرنے والے سڑکوں پر نظر آئیں گے۔ ان حالات میں کہ جب امریکہ جنگ کے لئے کھربوں ڈالر پانی کی طرح بہا رہا تھا اور اُسے ان حالات میں بھی من پسند نتائج نہیں مل پائے، اب افغانستان میں جنگ کے خاتمے کے بعد کمزور معاشی مملکت کو انارکی اور خانہ جنگی کی جانب دھیکیلنا کسی بھی جمہوریت پسند حکومت کو زیب نہیں دیتا۔امریکہ میں جمہوری نظام سینکڑوں برس سے ارتقائی منازل طے کررہا ہے،

عورت کو ووٹ کا حق نہ دینے سے لے کر نسلی بنیادوں پر انتخابی پالیسیاں آج بھی تنازع کا شکار ہیں، امریکہ کی پوری جمہوری تاریخ میں کسی بھی خاتون کا صدر امریکہ نہ بننا، خود ان کے سیاسی و جمہوری نظام پر سوالیہ نشان ہے کہ کیا سینکڑوں برسوں میں کسی بھی سیاسی جماعت کے پاس اس قابل کوئی خاتون نہیں تھی جسے صدر امریکہ بنایا جاسکتا۔ موجودہ نائب صدر نے نسلی اور صنفی بنیادوں پر منتخب ہوکر ایک تواتر سے چلے آنے والے سلسلے کو ختم کرنے میں پہل کی، لیکن اب بھی یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ امریکی معاشرے میں ڈیمو کریٹس اور ری پبلکن میں آنے والا صدر کا عہدہ کسی خاتون کو مل سکتا ہے۔امریکہ سمیت یورپی اور مغربی ممالک میں بھی کوئی ایسی مثال نہیں پائی جاتی کہ اکثریتی جماعت، اپنے امور مملکت میں مخالف جماعت کے عہدے داروں کو اپنی کرسی کے ساتھ جگہ دے۔  سوئیڈن کے ادارے انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ڈیموکریسی اینڈ الیکٹورل اسسٹنس (انٹرنیشنل آئیڈیا) کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں 98 ممالک میں جمہوریت ہے اور یہ تعداد گزشتہ کئی برسوں کے بعد اپنی کم ترین سطح پر ہے۔

روس، مراکش اور  ترکی سمیت 20 ممالک میں ہائبرڈجمہوریت ہے جبکہ چین، سعودی عرب، ایتھوپیا اور ایران سمیت 47 ممالک میں مطلق العنان حکومت ہیں۔ رپورٹ کے اعداد و شمار کے جائزے میں عیاں ہے کہ کسی بھی ملک میں ایسی کوئی بھی اقوام متحدہ کو تسلیم حکومت نہیں جس نے حزب اختلاف کو اپنے اقتدار نے شریک کیا ہو، بلکہ صرف ایک جماعت نہیں، کسی بھی ملک کے اندر نسلی اکائیوں کو بھی شریک کار بنایا گیا ہو۔  افغانستان میں عبوری انتظامیہ حکومت میں ایک امر ضرور دیکھا جاسکتا ہے کہ نسلی اکائیوں کو بھی عہدے تقویض کئے گئے، ایسی مثال دنیا کے کسی بھی جمہوری، ہائبرڈ یا مطلق العنان حکومت میں نہیں دیکھی جاسکتی۔تاہم یہ مطالبہ کیا جانا کہ امریکہ جو کہ شکست کے بعد افغانستان سے نکلا، وہ اپنے اتحادیوں کو اقتدار میں دیکھنا چاہتا ہے تو اس مطالبے کو تسلیم کرنا عبث و مضحکہ خیزہے۔افغانستان میں سب سے بڑا مسئلہ تشدد، خانہ جنگی اور جنگ کا خاتمہ تھا، یہ ایک دیرینہ مسئلہ تھا، جو قریباََ 98فیصد حل ہوچکا۔ افغانستان میں ایک بار پھر سوویت یونین کے انخلا کے بعد جیسی صورت حال نہیں اور امریکہ کے جانے کے بعد جس خانہ جنگی کے امکانات زور و شور سے ظاہر کئے جا رہے تھے،

خلاف توقع ایسا کچھ نہیں ہوا اور پورے افغانستان پر بلا شرکت غیرے امارات اسلامیہ افغانستان کی عبوری حکومت قائم ہوچکی  اور ماسوائے عالمی دہشت گرد تنظیم داعش خراساں کے علاوہ ایسا کوئی گروپ نہیں جو افغان طالبان کے خلاف لڑ رہا ہو۔ داعش کی سرپرستی اور انہیں افغان طالبان کے خلاف کون مسلح اور فنڈنگ کررہا ہے یہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، تاہم اس انتہا پسندی کا رخ پاکستان کی جانب موڑنے کی کوششیں ظاہر کررہی ہیں کہ خطے میں امن کے بجائے جنگ کے دائرے کو بتدریج ایک مخصوص اسٹریجک پالیسی کے تحت پھیلایا جارہا ہے، جس کی زد میں ایران، چین، تائیون اور بھارت آسکتے ہیں، یہ عالمی قوتوں کا ایران اور چین کو کمزور کرنے کے لئے ایسا منصوبہ بھی قرار دیا جاسکتا ہے، جس کے اشارے، تائیوان کا آزادی کے نام پر چین سیجنگ، بھارت۔ چین کے درمیان لداخ و سرحدی تنازع، ایران۔ اسرائیل جھڑپ، روس کا یوکرائن کے معاملے پر طاقت کا مظاہرہ اور یورپ کے لئے مشکلات پیدا ہونا،  وسط ایشیا  کے بعض ممالک کا افغانستان سے تاریخی تنازع، یہاں تک کہ سب سے بڑی اور بھیانک صورت حال پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کے معاملے پت ایٹمی جنگ بھی ہوسکتی ہے، جس کے نتائج سے صرف ایک خطہ نہیں بلکہ پوری دنیا متاثر ہوسکتی ہے۔ عظیم مشرق وسطیٰ میں کسی بھی وقت عالمی قوتوں کی ایما پر کسی بھی ملک کا طاقت کا استعمال تیسری عالمی جنگ کے امکانات کو بڑھانے کا سبب بن سکتی ہے۔

خطے میں موجود غیر یقینی صورت حال اور مستقبل کو درپیش خطرات کے پیش نظر یورپ اور امریکہ کو غور کرنا ناگزیر ہے کہ 20برس کی لاحاصل جنگ کے بعد افغانیوں کی بڑی تعداد کو اپنے ساتھ لے جانا، انہیں ایسی جگہ رکھنا جہاں انہیں نقل و حرکت کی آزادی نہ ہو، امیگریشن قوانین کے مطابق ان کے مستقبل کا فیصلہ کرنا اور صرف چند ہزار افغانیوں کو یورپ کے 15ممالک کی جانب سے پناہ دینے جانے کا ’اعلان‘  ناکافی ہے۔ اس وقت افغانستان میں ڈھائی کروڑ سے زائد افغانیوں کو خوراک کی کمی کا مسئلہ درپیش ہے، ایک انسانی المیہ جنم لے چکا ہے۔عالمی ادارہ خوراک کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ڈیوڈ بیسلے نے اس صورتحال پر جوتجزیہ پیش کیا وہ تشویش ناک ہے۔ ڈیوڈ نے کہا کہ ‘یہ(صورت حال) اتنی خراب ہے جتنی کہ آپ تصور کر سکتے ہیں۔ درحقیقت ہم زمین پر بدترین انسانی المیے کا سامنا کر رہے ہیں۔’اُن کا  مزیدکہنا تھا کہ ’95 فیصد لوگوں کے پاس کافی خوراک نہیں ہے اور اب ہمارے سامنے دو کروڑ 30 لاکھ کے قریب افراد ہیں جو قحط کا شکار ہونے والے ہیں۔اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ آنے والے مہینوں میں افغانستان میں ایک ملین بچے بھوک سے مر سکتے ہیں۔ اگلے چھ مہینے آفت کی طرح ہوں گی۔ یہ زمین پر جہنم ہوں گے۔’ صحت عامہ کی صورت حال بھی بڑی تشویش ناک ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس ادھانوم گیبریئس اور مشرقی بحیرہ روم کے لیے عالمی ادارہ صحت کے علاقائی ڈائریکٹر احمد المدھاری کا کہنا ہے کہ صحت کے عالمی ادارے کو یہ موقع ملا کہ وہ افغان عوام کی فوری ضروریات کا جائزہ لے سکے اور متعلقہ عہدے داروں سے مل کر یہ تعین کر سکے کہ ڈبلیو ایچ او کس طرح ان کی مدد کر سکتا ہے۔

 ٹیڈروس کے مطابق ملک کے صحت کی دیکھ بھال کے سب سے بڑے منصوبے، ‘صحت مندی پراجیکٹ’ کے لیے بین الاقوامی عطیات دہندگان کی مدد میں کمی سے ہزاروں افراد کے لیے صحت کی سہولیات، طبی ساز و سامان اور صحت کے عملے کی تنخواہوں کے مالی وسائل کو دھچکا لگا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘صحت مندی پراجیکٹ’ کی صحت کی سہولیات کا صرف 17 فیصد کلی فعال ہے۔ انہوں نے کہا کہ بہت سے شعبوں نے اب اپنی سرگرمیاں محدود یا بند کر دی ہیں، ” علاج معالجہ کرنے والا طبی عملہ فنڈز کی کمی کے باعث یہ فیصلے کرنے پر مجبور ہو گیا ہے کہ کس کا علاج کرنا ہے اور کس کو دوا کے بغیر مرنے کے لیے چھوڑ دینا ہے۔

اقوام متحدہ کے بچوں کی بہبود کے ادارے یونیسیف کے مطابق افغانستان میں 40 لاکھ سے زائد بچے اسکولوں سے باہر ہیں، جن میں لڑکیاں سب سے زیادہ ہیں۔اقوام متحدہ کے ادارے نے یہ بھی کہا کہ اس نے گزشتہ تین مہینوں میں 142,700 افغان بچوں کو تعلیم دینے کے لیے مدد فراہم کی ہے۔یونیسیف  کے مطابق   انہوں  نے 5,350 کمیونٹی پر مبنی تعلیمی کلاسوں کی مدد کی جو پورے افغانستان میں 142,700 سے زیادہ بچوں کے لیے تعلیم کے حصول کو یقینی بناتی ہے۔ ابھی مزید کام کرنے کی ضرورت ہے،”۔اقوام متحدہ، امریکہ، یورپ، مغربی سمیت مسلم اکثریتی ممالک کو اب یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ افغانستان میں انسانی ہمدردی کے بنیاد پر قحط سے لاکھوں انسانوں کو ہلاک ہونے دیا جائے یا پھر ان کی مدد کے لئے حقیقی معنوں میں اقدامات کئے جائیں۔

خواتین و بچوں کے حقوق کے نام پر مغرب اور ایسے ممالک جنہوں نے افغانستان پر چڑھائی کرکے تین نسلوں کو برباد ہونے دیا، کیا ان کے امدادی فنڈز روک کر خدمتکرے گی یا پھر معاشی جنگ لاکھوں انسانوں کی ہلاکت پر اختتام پزیر ہوگی، آج یورپ 45ہزار افغان مہاجرین کو 15ممالک میں تقسیم کرنے میں مہینے بلکہ برسوں لگارہا ہے لیکن یہ پہلو کیوں نظر انداز کررہے ہیں کہ چار دہائیوں کی جنگ میں لاکھوں افغان مہاجرین، پاکستان، ایران میں پناہ گزیں ہیں اور یہ ایسے ممالک ہیں جنہیں عالمی قوتوں کے فروعی مفادات کا سامنا ہے۔

اگر افغانستان میں قحط کا بحران خدانکردہ بڑھا تو اس کا بوجھ کیا پڑوسی ممالک اٹھانے کے متحمل ہوسکتے ہیں، جو پہلے ہی عالمی قوتوں کی وجہ سے بدترین معاشی صورت حال کا شکار ہیں، سیاسی عدم استحکام نے ان ممالک میں گھیر رکھا ہے اور دیرینہ دشمن ملک ہر لمحے جنگ اور حملے کی دھمکیاں دیتے رہتے ہیں۔ او آئی سی کا غیر معمولی اجلاس منعقد ہوچکا ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ مسلم اکثریتی ممالک عالمی برداری کو کس طرح افغان عوام کے لئے امداد پر اپنی ذمے داری پوری کر پائے گی یا پھر نشستن، گفتن و برخاستن۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
56368

پس وپیش ۔ ستائشستان کی بیماری – اے۔ایم۔خان

پس وپیش ۔ ستائشستان کی بیماری – اے۔ایم۔خان

گزشتہ چند سالوں سے ایک بیماری نہ صرف نوجوان نسل میں عام ہو چُکا ہے بلکہ اب درازعمر کے لوگ بھی اس سے متاثر ہورہے ہیں

اس بیماری میں عام طور پر بندہ زیادہ وقت مصروف رہتا ہے لیکن کوئی عملی کام نہیں کرتا اور  ہوسکتا ہوتا ہے ۔

اس بیماری میں اپنی ‘شہرت اور دوسروں کی حجت’ ٹھیک کرنے کی غرض سے شب و روز محنت کرنا پڑتی ہے۔ اس میں کئی ایک کام کرنا پڑتے ہیں جسمیں فوٹو ، لکھ کر، آڈیو یا ویڈیو  پیغام کے ذریعے کیا جاتا ہے۔

تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ اس بیماری کی وجہ سے اگر  رات کی نیند اور دن کا کام متاثر ہو بھی جائے لیکن شہرت اور حجت کی ذمہ داری جاری رہے یہ جانتے ہوئے بھی کہ چینی زیادہ استعمال کرنے  سے افاقہ ہونے کے بجائے بیماری قابو سے باہر کیوں نہ ہو چُکا ہو۔

ستائشستان میں یہ پہلا کام ہوتا ہے جسمیں’ کام سے زیادہ نام’ پر توجہ دی جاتی ہے۔

 اس ملک میں اگر کوئی شہری  اس بیماری میں مبتلا نہ ہونا چاہے تو کوئی قدغن نہیں۔ اُس وقت تک جب وہ  اپنے اوپر خود یہ قدغن نہ لگا دے تب تک ہر معاشرتی، سیاسی اور معاشی قدغن نہیں ہوتی۔ ایک تکلیف یہ ہوتی ہے کہ اس میں ‘پسند اور تعریف’ کرنے والے گھٹنے  کا خدشہ رہتا ہے اور ساتھ زیادہ ہونے کی وقتی خوشی بھی۔

 اس بیماری میں پسند اور تعریف کرنے والے  زیادہ  ہونا  بیماری کا فوری علاج ہے لیکن یہ بیماری کا بنیادی  وجہ بھی جس سے یہ بیماری روز بروز بڑھ جاتی  ہے۔  

اس بیماری کا ایک تاثیر یہ ہوتی ہے کہ سامنے اور موبائل میں موجود اس ایک فرد میں آسانی سے فرق کیا جاسکتا ہے  اور یہ اندازہ بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اُس کی بیماری کس نوعیت کی ہے۔ عام علامات میں نیند کی کمی، آنکھوں میں جلن، تنہائی، الجھن، بے کیفی اور تعلیمی کمزوری نمایاں ہوتے ہیں اس کے علاوہ ذہنی افسردگی بھی بعض لوگوں میں عام نظر آتا ہے۔  

اس بیماری کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ بیمار بندہ چوبیس گھنٹے میں جاگتا اور  عملی کام کے باوجود مصروف رہتا ہے

ستائشستان میں چینی کی ہوش ربا استعمال سے شوگر کی بیماری روز بروز بڑھ رہی ہے۔ حالیہ اعداو شمار کے مطابق پاکستان میں چار کم سن افراد میں ایک اس بیماری کا شکار ہے۔ اگر یہ بیماری ایک حد میں پہنچ جائے جس کا علاج پھر ممکن نہیں ہوتا۔ اسلئیے عام استعمال میں حد سے زیادہ چینی کے استعمال کو کم کیا جائے اور کڑوے چیزیں کھانے کی عادت بنانے کا مشورہ ڈاکٹرز دیتے ہیں  تاکہ وقت پر اس بیماری پر قابو پایا جا سکے۔ ستائشستان میں اس بیماری سے ہلاکت کی کوئی خبر اب تک موصول نہیں ہوئی ہے۔ اس بیماری کی نوعیت قریہ قریہ مختلف ہے لیکن ترقی یافتہ لوگوں اور دیہات میں علامات زیادہ نظر آرہے ہیں۔

تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق چینی کے تھوک و پرچون  یعنی دونوں کاروبار پر  کئی سال سے ادب کے لوگ قابض ہیں، اور یہ جاری ہے کیونکہ اب اس میں مندی کی گنجائش نہیں ہے۔  قیاس کے مطابق ایک عشرہ  گزرنے کے بعد لوگ افاقہ کی خاطر  خود چینی کا استعمال معمول سے کم کرنا شروع کردیں گے تو بیماری میں بھی کمی ہوسکتی ہے۔  

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
56348

بھارت روس معائدے اور امریکی مفادات ۔ پروفیسرعبدالشکور شاہ

بھارت اور روس کے مابین آمدہ عشرے کے لیے تجارتی اور دفاعی معائدے مستقبل قریب میں جنوبی ایشیاء میں طاقت کے توازن کی منتقلی کا نقارہ بجاتے دکھائے دیتے ہیں۔ یہ بات غور طلب ہے کہ افغانستان سے امریکی انخلاء کے بعد روس جنوبی ایشیاء میں پہلے سے زیادہ متحرک دکھائی دیتا ہے۔ حالیہ بھارت روس دفاعی معائدے جنوبی ایشیاء میں بھارتی اجارہ داری کے مضموم عزائم کی ایک کڑی ہے۔بھارت اور روس 2025تک تجارتی ہدف30بلین ڈالرز مقرر کر چکے ہیں۔ چین کے خلاف بھارت امریکہ گھٹ جوڑ کے بعدروس کی آمدسے ایک دلچسپ تکون بن چکی ہے۔ روس پہلے ہی چین کے خلاف انڈین پیسیفک میں بھارت، امریکہ، جاپان اور آسٹریلیا کے منصوبے پر اپنے تحفظات کا اظہار کر چکا ہے۔یوں لگتا ہے روس بھارت قربتیں کسی تکون کی تشکیل کے بجائے دیگر مقاصد کے لیے ہیں۔اگرچہ بھارت امریکہ اور روس دونوں کے ساتھ یارانہ نبھانا چاہتا ہے تاہم بھارت دومصیبتوں کے درمیان پھنس چکا ہے۔ سرد جنگ میں روس پربھارتی دفاعی انحصار کی وجہ سے بھارت امریکہ سے ہاتھ ملانے سے گریزاں رہا۔

امریکی صدر ٹرمپ کے دور میں بھارت اور امریکہ میں 3بلین ڈالر کے دفاعی معائدے مکمل ہوئے او ر دوطرفہ دفاعی تجارت کا حجم جو کہ سال2008میں تقریباصفر سے2019میں بڑھ کر17بلین ڈالر تک پہنچ گیا۔ بھارت کی روسی ساختہ S-400 میزائل سسٹم کی خریداری چین کو روکنے کے ساتھ ساتھ امریکی ناراضگی کا سبب بھی بن سکتی ہے۔روس نے بھارت کو ممکنہ امریکی پابندیوں کی بھٹی میں جھونک دیا ہے۔ بھارت روس قربت کی بنیادی دو وجوہات ہو سکتی ہیں یا تو بھارت امریکہ تعلقات میں پہلے جیسا جنوں نہیں رہا یا بھارت اس بات کو بھانپ چکا ہے امریکی دوستی مفادات پر منحصر ہے اور مشکل کی گھڑی میں امریکہ دغا دینے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔اس وقت بھارت کی دفاعی سمت چین روس اور امریکہ کے درمیان ڈگمگا رہی ہے۔بھارت کی خواہش ہے کہ وہ یوروایشیائی طاقت بن جائے ایشیاء اور یورپ دونوں طاقتوں کو ایک ساتھ لے کر آگے بڑھے۔ بھارت ماسکو کی دفاعی،چین کی معاشی اور امریکہ کی دفاعی منصوبہ بندی کے درمیان کھٹ پتلی بنا ہوا ہے۔

عالمی افق پر ابھرتی ہوئی چینی معاشی طاقت او ر رو س چین بڑھتی قربتوں نے بھارت کو شش و پنچ میں مبتلا کر رکھا ہے۔ چین روس کی دوستی یا دشمنی دونوں ہی عالمی سطح پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہے اور یہ دونوں صورتحال بھارت پر گہرے نقوش مرتب کریں گی اول تاریخی اور دوئم مستقبل کے پس منظر کے لحاظ سے۔ بھارت روس تعلقات بھارت امریکہ تعلقات سے کہیں زیادہ گہرے اور مضبوط ہیں۔ روس نے بھارت کی عسکری اور سیاسی پرفائل کو مضبوط کرنے کے علاوہ بے شمار علاقائی مسائل میں بھارت کی بھر پور مدد کی ہے۔ روس اور چین ماضی میں بھی دفاعی اور معاشی ٹیکنالوجی کے تبادلے کے ساتھ باہمی تجارت کو فروغ دیتے رہے ہیں۔ چین اور روس میں بڑھتے مراسم شائد چین بھارت سردمہری کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کریں اور شائد یہ اقدام امریکہ کو افغانستان کی طرح جنوبی ایشیاء سے بے دخل کرنے میں معاون ثابت ہوں۔ یہ بات بھی خارج از امکان نہیں کہ روس انڈیا اور چین آر آئی سی طرزکا کوئی گروپ بنا لیں اور بھارت کی جانب روسی جھکاو شائد چین بھارت کشیدگی کو کم کرتے ہوئے امریکہ کردار کو جنوبی ایشیاء سے نکال باہر کرے۔

بھارت سرد جنگ کے دوران بھی نان الائن بلاک بنا کردرمیانی راستے پر گامزن رہ چکا ہے۔ روس کی سرد مہری کی وجہ سے بھارت مجبورا امریکہ سے ہاتھ ملانے پر راضی ہوااور امریکہ کے لیے بھی خطے میں چین کو روکنے کے لیے بھارت کے علاوہ کوئی اور آپشن موجود نہ تھا۔ اس لیے دونوں کے مشترکہ مفادات نے بھارت اور امریکہ کو باہمی حلیف بنا دیا۔ امریکہ بھارت کے زریعے چین کو روکنا چاہتا ہے جبکہ بھارت امریکہ کے زریعے ایشیائی بادشاہت کا تاج سر پر سجانا چاہتا ہے۔ 50 کی دہائی میں بھارت چین جنگ میں روس نے بھارت کوجدید اسلحہ سے لیس کیااور چین روس جنگ میں بھی روس نے بھارت کو سمندری آبدوزوں اور دیگر آلات سے مزین کیا تاکہ بھارت امریکی دباو کا سامنا کر سکے۔ روس کے فراہم کردہ اسلحہ کی مدد سے بھارت 1971میں پاکستان کو دولخت کرنے میں کامیاب ہوا۔ روس کے ٹوٹنے کے بعد نئی دہلی کو شدید دھچکا لگا اور دونوں ممالک کی باہمی تجارت انتہائی کم ہو کر رہ گئی۔ مغرب میں نیٹو کی توسیع اور افغانستان میں امریکہ موجودگی ماسکو اور بیجنگ کو قریب لانے میں سنگ میل ثابت ہوئی۔ اگر ماضی کی 60سالہ تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے کیونکہ چین اور روس ماضی میں دوست اور دشمن دونوں کردار ادا کر چکے ہیں اور یہی صورتحال یورپ اور روس کے تعلقات میں نظرآتی ہے۔موجودہ صورتحال میں روس اور چین کو ایک دوسرے سے جدا رکھنا بہترین امریکی مفادات میں ہے۔

کم از کم جنوبی ایشیاء میں امریکہ روس دوستی تقریبا ناممکن دکھائی دیتی ہے۔ بھارت کو اپنے سارے انڈے امریکی ٹوکری میں ڈالنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔ وسط ایشیاء میں چینی اثرورسوخ روسی مفادات کے لیے نقصان دہ ثابت ہو رہا ہے۔شائد روس یہ خلا بھارت روس دوستی کے بعد ایران کے زریعے وسط ایشیاء میں اپنے پنجے مضبوط کرنے کے اہداف کے تحت منصوبہ بندی کر رہا ہو۔روس بھارت قربت داری کی ایک اور بڑی وجہ امریکہ اور جاپان کے فری اور اوپن انڈو پیسیفک منصوبے پر بھارتی ناراضگی ہے۔ہو سکتا ہے بھارت کو اس بات کا یقین ہو چکا ہو کہ امریکہ دوستی سے نہ صرف بھارت چینی تعاون کو کھو دے گا بلکہ روس کی جانب سے بھی دھچکا لگنے کا امکان ہے۔ روس ممکنہ طور پر نئی ہلی اور بیجنگ کے درمیان کشیدگی کو کم کر کے امریکہ کی جانب بھارتی جھکاو کو کم کرنے کو شش کر رہا ہو کیونکہ خطے میں امریکی موجودگی روس اور چین دونوں کے مفادات کے خلاف ہے۔ بھارت بھی افغانستان سے امریکی روانگی کے بعد مایوسی کا شکار ہے کیونکہ افغانستان میں بھارتی اثرورسوخ صفر ہو چکا ہے جبکہ روس اور چین افغانستان پاکستان کی مدد سے اپنی گرفت مضبوط کر رہے ہیں۔ عقلمندی کا تقاضہ یہی ہیکہ بھارت امریکہ نوازی کے بجائے روس اور چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو خوشگوار بنائے۔

Posted in تازہ ترین, مضامین
56298

خودداری اور خود انحصاری۔ محمد شریف شکیب

وزیراعظم عمران خان نے امریکہ پر واضح کیا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی جنگ میں ساتھ دینے کا سب سے زیادہ نقصان پاکستان کو پہنچا ہے۔افغانستان میں فوجی ناکامی کا نزلہ پاکستان پر نہیں گرایا جاسکتا۔ افغانستان میں امریکہ کی ناکامی کا سبب پاکستان نہیں خود امریکہ کی غلط پالیسیاں ہیں۔دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ میں امریکہ اور اس کے کسی بھی اتحادی ملک نے اتنی بڑی قربانی نہیں دیں جتنی ہم نے دی ہیں۔ہماری طرح کسی ملک کا 80 ہزار جانوں کا نقصان نہیں ہوا، کہیں 30 سے 40 لاکھ افراد اندرونِ ملک ہی دربدر نہیں ہوئے۔چالیس لاکھ پناہ گزینوں کا بوجھ کسی ملک پر نہیں پڑا۔ نہ ہی کسی کی معیشت کو 100 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان پہنچا۔ مسلمان ممالک میں ایسے تھنک ٹینکس کہاں ہیں جو جواب دیتے کہ اسلام اور دہشت گرد ی کاآپس میں کوئی تعلق نہیں۔ وزیراعظم نے واضح کیا کہ کوئی مذہب دہشت گردی کی اجازت نہیں دیتا۔

نائن الیون کے بعد مسلمانوں اور دہشت گردی کو کس نے اور کیوں نتھی کیا۔ بھارت انسانی حقوق کی دھجیاں اڑا رہا ہے مگر کوئی مغربی ملک اس پر تنقید نہیں کرتا۔بے مثال قربانیوں اور جانی و مالی نقصان کے باوجود کسی نے پاکستان کو کریڈٹ نہیں دیا بلکہ ڈبل گیم کھیلنے کا الزام لگاکر الٹا بدنام کیا گیا۔ غلطیاں وہ کررہے تھے اور قربانی کا بکرا پاکستان بن رہا تھا۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان ان الزامات کا مؤثر جواب نہیں دے سکا کیوں کہ کوئی ایسا تھنک ٹینک نہیں تھا جو قیادت کو آگاہی دیتا، پاکستان اس جنگ کا شکار بنا یاگیا تھا، وہ دور ہمارے لئے باعث تضحیک تھا کہ ہم ساتھ بھی دے رہے تھے، اپنے آپ کو اتحادی بھی کہہ رہے تھے اور وہ اتحادی ہم پر ہی بم برسا رہا تھا جس سے ہمارے لوگ مرے اور الزام بھی ہم پر لگائے گئے، کہتے تھے ہم آپ کو امداد دے رہے ہیں جبکہ معاشی نقصان کے مقابلے وہ امداد اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے۔

ہمارا المیہ یہ رہا ہے کہ سیاسی قوتیں حکومت میں آنے اور اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے کے لئے امریکہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے کوشاں رہتی ہیں۔ ہمارے کسی سربراہ کو حقائق دنیا کے سامنے رکھنے، امریکہ اور یورپ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کی جرات نہیں ہوئی۔ یہ صورتحال قیام پاکستان کے کچھ ہی عرصے بعد قائد اعظم محمد علی جناح کی اچانک رحلت کے بعد شروع ہوئی۔ اس وقت کے وزیراعظم کو افسر شاہی نے سوویت یونین کی دعوت ٹھکرا کر امریکہ کا پہلا سرکاری دورہ کرنے کا مشورہ دیا۔ جاور ہم نے غیر مشروط طور پر خود کو امریکہ کی جھولی میں ڈال دیا۔

صدر ایوب خان کو گیارہ سالہ اقتدارکے خاتمے کے بعد احساس ہوا کہ ہماری خارجہ پالیسی درست نہیں۔اپنی خود نوشت سوانح حیات میں لکھتے ہیں کہ”ترقی پذیر ممالک کو ایسے دوستوں کی ضرورت ہے جو عزت و احترام کے بدلے ہمار ا احترام کریں،ہماری کی ضرورتوں کو پوری کریں۔ اچھے برے وقت میں ہمارا ساتھ دیں۔ہمیں آقاؤں کی نہیں بلکہ دوستوں کی ضرورت ہے“ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دور حکومت میں خود انحصاری کی پالیسی اختیار کرنے کی کوشش کی۔ مغرب پر تکیہ کرنے کے بجائے قدرتی وسائل سے مالامال مسلمان ملکوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کی کوشش کی۔ دو قطبی نظام کے مقابلے میں غیر وابستہ ممالک پر مشتمل تیسری دنیا تشکیل دینے کی کوشش کی۔ دفاعی استحکام کے لئے پاکستان کا جوہری پروگرام شروع کیا۔

امریکہ پر انحصار کرنے کے بجائے چین اورسوویت یونین سے دوستانہ تعلقات قائم کرنے کو یترجیح دی۔ روس نے جنوبی ایشیاء کا سب سے بڑا سٹیل مل ہمیں تحفے میں دیا۔ چین نے شاہرام قراقرم تعمیر کرکے ہمارے لئے تجارت کے راستے کھول دیئے۔پاکستان ہیوی میکینکل کمپلیکس کا تحفہ دیا۔ امریکہ نے بدلہ لینے کے لئے بین الاقوامی سازش کے تحت ذوالفقار علی بھٹو کو ایک من گھڑت مقدمہ میں پھنسا کر پھانسی گھاٹ تک پہنچا دیا۔ امریکہ کے ساتھ غیر مشروط اور یکطرفہ دوستی کا ہمیں نقصان ہی ہوا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کریں دیگر اقوام کی طرح قومی مفادات کی بنیاد پر اقوام کے ساتھ تعلقات قائم کرنے ہوں گے۔ اور دوسروں پر انحصار کی پالیسی ختم کرکے اپنے پاؤں پر خود کھڑے ہونے کا عملی مظاہرہ کرنا ہوگا۔

Posted in تازہ ترین, مضامین
56300

او آئی سی وزارتی کونسل کا اجلاس ۔ محمد شریف شکیب

افغانستان کی مخدوش صورتحال پر غور اور وہاں ممکنہ انسانی بحران کا خطرہ ٹالنے کے لئے اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی کی وزرائے خارجہ کونسل کا غیر معمولی اجلاس 19دسمبر کو اسلام آباد میں ہورہا ہے۔افغانستان او آئی سی کے بانی ممبر ممالک میں شامل ہے۔ رواں سال اگست میں غیر ملکی افواج کے انخلا اور طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد امریکہ اور یورپ نے افغانستان کی مالی امداد روک دی ہے۔اور امریکی بینکوں میں افغانستان کے دس ارب ڈالر کے اثاثے بھی منجمد کئے گئے ہیں۔ عالمی برادری کی طرف سے امداد بند ہونے کی وجہ سے افغانستان میں اشیائے خوردونوش اور ادویات کی شدید قلت پیدا ہوگئی ہے۔

اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یواین ایچ سی آر کی حالیہ رپورٹ کے مطابق افغانستان میں 32لاکھ بچوں کی زندگی خوراک کی کمی کے باعث خطرے کی زد میں ہے۔ 3کروڑ 80لاکھ کی آبادی کے اس ملک میں 60فیصد افراد غذائی قلت کے مسئلے سے دوچار ہیں عالمی ادارے کی رپورٹ کے مطابق رواں سال جنوری سے ستمبر تک چھ لاکھ 65ہزار افغانی اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں جبکہ 29لاکھ افغانی گذشتہ چالیس سالوں سے پاکستان سمیت دوسرے ملکوں میں پناہ گزین کے طور پر زندگی گذار رہے ہیں۔آنے والے دنوں میں برفباری کے باعث راستے بند ہونے سے امدادی سامان کی ترسیل میں بھی مشکلات پیش آسکتی ہیں۔29نومبر کو سعودی عرب نے افغانستان کی گھمبیر صورتحال پر غور کے لئے او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کا ہنگامی اجلاس بلانے کی تجویز پیش کی۔

پاکستان نے سعودی تجویز کی نہ صرف بھرپور حمایت کی بلکہ وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاس کی میزبانی کرنے کی بھی پیش کش کی۔ 19دسمبر کو اسلام آباد میں ہونے والے وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاس میں اقوام متحدہ کے نمائندوں، آئی ایف آئیز، بین الاقوامی اور علاقائی تنظیموں کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔ او آئی سی کے وزارتی اجلاس میں افغانستان کی صورتحال کے ون پوائنٹ ایجنڈے پر غور کیا جائے گا۔افغانستان کا مسئلہ اب سیاسی نہیں رہا۔ یہ انسانی بقاء کا مسئلہ بن چکا ہے۔ ایک مسلمان ملک ہونے کے ناطے اسلامی ممالک کی تنظیم نے اپنا مذہبی فرض گردانتے ہوئے افغان عوام، خواتین اور بچوں کی زندگی بچانے کے لئے قدم اٹھایا ہے۔ توقع ہے کہ او آئی سی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اقوام متحدہ اور انسانی بقاء کے لئے کام کرنے والے بین الاقوامی ادارے بھی افغان عوام کی مدد کے لئے آگے آئیں گے۔

پاکستان انتہائی قریبی ہمسایہ ہونے کے ناطے اپنے افغان بھائیوں کی ہر ممکن مدد کر رہا ہے۔ جب ساری دنیا نے افغانستان سے سفارتی تعلقات منقطع کئے تب بھی کابل میں پاکستان کا سفارتخانہ کام کرتا رہا۔ اب مختلف ممالک اپنے سفارت خانے اور قونصل خانے وہاں کھولنے لگے ہیں۔ پاکستان کی کوششوں سے افغانستان کا انسانی مسئلہ اب بین الاقوامی اہمیت اختیار کرگیا ہے۔پاکستان نے افغان عوام کے مفاد کی خاطر بھارت سے آنے والے امدادی سامان کو بھی کابل پہنچانے کے انتظامات کئے ہیں۔اور پاکستان کے مختلف امدادی ادارے غذائی اجناس، ادویات، گرم کپڑے اور دیگر سامان افغانستان پہنچا رہے ہیں۔ او آئی سی کے وزارتی اجلاس میں افغان عوام کی غذائی اور مالی امداد کا طریقہ کار وضع کیا جائے گا۔جب انسانی المیے کا خطرہ ٹل جائے اس کے بعد سیاسی اور سفارتی تعلقات کی راہ خود بخود ہموار ہوجائے گی۔

او آئی سی کے اہم وزارتی اجلاس میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں سے افغانوں کے منجمد اثاثے افغان عوام کے حوالے کرانے سے متعلق بھی پیش رفت متوقع ہے۔ پاکستان اور طالبان حکومت کی کوششوں سے عالمی سطح پر افغان عوام کے ساتھ ہمدردی میں اضافہ ہورہا ہے۔ اب یورپ سے بھی افغانستان کے منجمد اثاثے وا گذار کرنے کی آوازیں بلند ہورہی ہیں وائٹ ہاؤس کو عالمی دباؤ کے پیش نظر وضاحت کرنی پڑی کہ افغان اثاثے غیر منجمد کرنے میں بعض فنی مشکلات حائل ہیں نائن الیون کے متاثرہ خاندان ان اثاثوں کو لواحقین میں تقسیم کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نائن الیون کے واقعے میں کوئی ایک افغان شہری بھی ملوث نہیں تھا۔ افغان عوام کی امانت نائن الیون کے متاثرین کو دینے کا کوئی قانونی اور اخلاقی جواز نہیں بنتا۔ توقع ہے کہ او آئی سی وزارتی اجلاس میں اس اہم ایشو پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو قائل کرنے کا کوئی لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
56285

آریہ سماج مسلم تشخص کے خلاف تاریخی سازش کا پس نظر – منظورقادر خان یوسف زئی


ہندوستان میں مسلمانوں نے جب تقسیم ہند کا مطالبہ کیا اور ہندوؤں کی تمام تر مخالفت کے باوجود دو قومی نظریئے کے تحت الگ مملکت پاکستان قائم کرلی تو اس  وقت سے ہندوشدت پسندوں کی طرف سے مخالفت کا آغاز ہوا جو آہستہ آہستہ بڑھتے بڑھتے پہلے جنگ ستمبر 65اور پھر جنگ71کی شکل میں سامنے آچکا ۔ تاریخی حقائق ہیں کہ کہ ہندوؤں کی طرف سے مسلمانوں کی مخالفت بلکہ عداوت کا سلسلہ ہزار برس پہلے سے شروع ہوا تھا جو  انہیں اندر ہی اندر بدلے کی آگ میں سلگا رہا تھا کیونکہ ہندوستان پر مسلم حکمرانوں کی حکومت، انہیں تمام تر مراعات اور آزادی کے باوجود قابل قبول نہیں رہی تھی۔ خیال رہے کہ ہزاروں برس قبل ایران کی طرف سے ایک قوم کی شاخیں مغربی دروں کو عبور کرکے ہندوستان میں داخل ہوئی جسے تاریخ میں آریہ ورت کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ ہندوستان کے قدیم قبائلی باشندوں کے مقابلے میں آریہ قوم میں طاقت و قوت زیادہ تھی، آریہ(معزز، بلند مرتبہ) نے بزور طاقت  مقامی لوگ جنہیں یہ داس (غلام)یا تشا(حقیر) اور پشیا جی (کچا گوشت کھانے والے) کہتے تھے، انہیں  جنگلوں اور پہاڑوں کی جانب دھکیل دیا اور باقیوں کو اپنی خدمت کے لئے غلامی کی زنجیروں میں جکڑ لیا، طبقاتی تفریق کے طور پر انہیں شودر یا اچھوت کا درجہ دے کر معاشرے میں پست ترین مقام دیا۔


آریہ کے بعد متعدد اقوام ہندستان میں حملہ آور کی حیثیت سے آئے اور بیشتر نے اپنی حکومت بھی قائم کیں، تاریخی طور پر تجزیہ کیا جائے تو جو حملہ آور آتا اس کا اپنا ایک قومی تشخص تھا،اپنا جداگانہ نسلی امتیار، اپنی زبان،اپنی ثقافت اور اپنا مذہب بھی تھا، ہندوستان میں جداگانہ تشخص کا تصور نہیں تھا بلکہ حملہ آوروں کے بس جانے کے بعد ان میں ان امتیازات میں سے کوئی بھی باقی نہ رہا اور پھر یہ سب کے سب”ہندو“ کہلائے جانے لگے۔لیکن باہر سے آنے والوں میں ایک قوم ایسی تھی جسے ہزار حربوں کے باوجود ختم نہیں کیا جاسکا اور اس نے اپنا جداگانہ تشخص اور امتیاز برقرار رکھا۔یہ قوم مسلمان تھے جن کا تشخص ختم کرنے کے لئے ہزار جتن کئے گئے، حتیٰ کہ ہندو راجاؤں نے مسلمان بادشاہوں کے ساتھ رشتے بھی بنائے اور اپنی لڑکیوں کی شادیاں کیں،حالاں کی ہندو کسی غیر ہندو میں اپنی ذات برداری کے باہر رشتہ نہیں کرتا، ذات تو ایک طرف وہ تو مکمل تحقیق و تفتیش کے بعد اپنی برداری میں ہی رشتے کو ترجیح دیتا آیا ہے۔قابل غور طلب پہلو یہ بھی ہے کہ جب کسی ہندو راجا نے اپنے مذہبی احکام اور نسلی روایات تک کو بالائے طاق رکھ کر مسلمان باشاہوں کو اپنی بیٹیاں دیں تو ان کے بطن سے پیدا ہونے والے لڑکے بھی مسلمان ہی رہے اور ہندو نہ بن سکے۔


یہ ایک ایسی تاریخی حقیقت ہے کہ انتہا پسند ہندو اس کو آج تک بھلا نہیں سکے بلکہ ان کے شدت پسند اقدامات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، ہندو انتہا پسند اپنی تاریخ کو دوہراتے ہوئے اپنے دل میں عداوت، نفرت، حسد اور انتقام کی آگ کو صدیوں سے سلگتے رہے،اوراسے آج بھی بھڑکانے میں شدو مد کے ساتھ مصروف ہیں۔ مسلمان حکمرانوں کی حکومت قریب قریب سارے ہندوستان پر میحط تھی اور جب مغل سلطنت کا زوال شروع ہوا تو ہندوؤں کی مسلمانوں کے خلاف نہ رکنے والا سازشوں کا سلسلہ اور تدابیر اختیار کی جانے لگیں۔ مغلیہ سلطنت کے انحطاط پر سب سے پہلے مرہٹوں کو ابھارا گیا اور سیوا جی کو سمرتھ را مداس نے مسلمانوں کے خلاف تیار  کرنے کی حکمت عملی کا آغاز کردیا، لالہ راجپت رائے کی تصنیف کردہ ’سیواجی کی سوانح حیات‘ میں لکھا ہے کہ”سیوا جی کو بار بار اسلا م کے خلاف جنگ کرنے کا مشورہ دیا گیا۔ سیوا جی نے راجہ جے سنگھ کے نام خط میں لکھا کہ میری تلوار مسلمانوں کے خون کی پیاسی ہے، افسوس صد ہزار افسوس کہ یہ تلوار مجھے ایک اور ہی مہم کے لئے میان سے نکالنی پڑی، اسے مسلمانوں کے سر پر بجلی بن کر گرنا چاہے تھا، میری بادلوں کی طرح گرجنے والے فوجیں مسلمانوں پرتلواروں کی وہ بارش برسائیں گی کہ دکن کے ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک مسلمان اس سیلاب ِ خون میں بہہ جائیں گے اور ایک مسلمان کا نشان بھی باقی نہ رہے گا۔(ویر کیشری شواجی مصنف پنڈت نندکمار شرما) سیوا جی اپنی زندگی میں تو اپنے مذموم خواب کو پورا نہ کرسکا، لیکن سمرتھ رامداس نے اس کے بیٹے سنبھاجی کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکانے کا سلسلہ برقرار رکھا۔ اس نے سیواجی کے بیٹے کو کہا کہ  ”آپس میں محبت سے رہو لیکن اپنے مسلمان دشمنوں کو ڈھونڈ کر اپنے راستے سے ہٹادو، لوگوں کے دل میں ان ملچھیوں کا مقابلہ کرنے کا خیال پیدا کرو۔ (تاریخ مہاراشٹر، بھائی ہر مانند)۔


 بغاوت ہند کے بعد مغلیہ سلطنت کا خاتمہ ہوگیا، لیکن مسلمانوں نے اپنا جدگانہ تشخص برقرار رکھا، اسے ختم نہ کیا جاسکا، بال گنگا دھرتلک اور سوامی دیا نند سرسوتی (آریہ سماج کا بانی) کا جامع منصوبہ تھا کہ مسلسل اور وسیع پیمانے پراپیگنڈا کے ذریعے ہندوؤں کے دل میں مسلمانوں کے خلاف نفرت اور انتقام کی آگ کو بھڑکائی جائے اور ہندوؤں کو منظم کرکے ایک متحدہ محاذ کی شکل دے دی جائے، ان کے عزائم اس قدر خطرناک تھے کہ انگریز حکومت کو خود ایک کمیٹی تحقیق کے لئے جسٹس ایس اے ٹی رولٹ کی صدارت میں بنانی پڑی جو رولٹ کمیٹی کے نام سے متعارف ہوئی، اس کمیٹی نے انتہا پسند تنظیم کے عزائم اور مسلمانوں کے خلاف سازشوں کو آشکارہ کیا۔


  ہندو انتہا پسندوں کے عزائم میں ہردیا ل کا نام بھی سرفہرست دکھائی دے گا۔13 جون 1925کو شائع ملاپ اخبار میں لالہ ہردیا ل کے عزائم کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ’جب ہندو قوم میں پورا پورا جوش پیدا ہوجائے گا تو سوراج، شدھی اور افغانستا ن کی فتح کے علاوہ ممکن ہے کہ ہم مشرقی افریقہ، فجی، اور دوسرے ملکوں پر قابض ہوجائیں جہاں ہندو بھائی آباد ہیں، کیونکہ ہم کسی ہندو بھائی کو غلامی کی حالت میں نہیں چھوڑیں گے، بس ہندوستان کو اگر آزادی ملے گی تو یہاں ہندو راج قائم ہوگا،بلکہ مسلمانوں کی شدھی افغانستان کی فتح وغیرہ باقی آردش (نصب العین) بھی پورے ہوجائیں گے۔“ ہندو قوم پرستوں کے انتہا پسند عزائم ہی تھے کہ مسلمانوں کے لئے دو قومی نظریئے کی بنیاد پر پاکستان کا مطالبہ کیا گیا، انڈین نیشنل کانگریس کی تشکیل کا مقصد یہی تھا کہ ہندوستان میں بسنے والے تمام افراد ہندو، مسلمان وغیرہ سب ایک ”قوم“ ہیں۔ خیال رہے کہ ہندی قومیت کا تصور ان لوگوں (ہندوؤں) کی طرف سے پیش کیا جارہا تھا جن کی زبان میں ’قوم‘کے لئے کوئی لفظ ہی نہیں تھا، ان کے ہاں ’جاتی‘  کا لفظ ہے یعنی ’ذات‘، جو لوگ ورنوں کی رُو سے پیدائشی طور طور پر مختلف ذاتوں میں بٹے ہوئے ہوں۔


 انڈین نیشنل کانگریس اور آریہ سماج مسلمانوں کے تشخص کے خلاف میدان میں تھی۔ جس کا مقصد 26اپریل1925میں اخبار پرکاش لاہور میں شائع اس بیان سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ ’’ہندوستان میں سوائے ہندو راج کے دوسرا راج ہمیشہ قائم نہیں رہ سکتا، ایک دن آئے گا کہ ہندوستان کے سب مسلمان شدھ (صاف، پاک)ہو کر آریہ سماج ہوجائیں گے اور اس طرح آخر یہاں ہندو ہی رہ جائیں گے، یہ ہمارا آدرش (نصب العین) ہے، یہی ہماری آشنا (آرزو) ہے، سوامی جی مہاراج نے آریہ سماج کی بنیاد اسی اصول کو لے کر ڈالی تھی۔“ پروفیسر رام دیو نے بھی اعلان کیا تھا کہ ہندوستان کی ہر مسجد پر آریہ سماج کا جھنڈا بلند کیا جائے گا۔


قیام پاکستان کا ہونا انتہا پسند ہندوؤں کے لئے قابل قبول نہ تھا یہی وجہ تھی کہ گاندھی کو انتہا پسند قوم پرست ہندو نتھو رام نے برلا ہاؤس میں قتل کردیا۔ اکھنڈ بھارت کے لئے سازشوں کا سلسلہ پاکستان کے قیام کے بعد بھی جاری رہا اور کرم خوردہ مملکت کو بکھیرنے کی سازشوں میں ریڈ کلف اوارڈ نے کلیدی کردار ادا کیا، حیدرآباد، جونا گڑھ مناو پر پولیس ایکشن ر اور کشمیر پر غاصبانہ قبضے، تقسیم ہند کے بعد دسمبر1947میں ہی پاکستان پر حملہ کرنے کے منصوبے بنائے گئے، مشرقی پاکستان میں موجود انتہا پسند ہندوؤں کے مسلسل پراپیگنڈوں نے پہلے65کی جنگ مسلط کی جو ناکام رہی تو نسلی عصبیت کی بنیادپر سازش کرکے 71کی جنگ چھیڑدی گئی۔ اس وقت تک ملکی سیاسی حالات اور نسلی و صوبائی عصبیت اور نا اتفاقی اس عروج پر پہنچ چکی تھی کہ قائد اعظم کے بنائے پاکستان کو دولخت ہونا پڑا اور مشرقی پاکستان کو سقوط ہوگیا۔ اب بھی بار بار بھارت کی جانب سے اشتعال انگیزیاں اور سازشوں کا مقصد وہی ہے جو قیام پاکستان سے قبل آریہ سماج کے لئے سوراج اور شدھی تحریکوں کی بنیاد رکھی گئی اور آر ایس ایس کے فاشٹ نظریات اور اقدامات نے بھارت میں رہنے والوں مسلمانوں کا جینا بھی حرام کیا ہوا ہے۔ شعائر اسلام کی توہین اور مساجد پر قبضے سمیت مسلمانوں کے نام پر مشتمل شہروں اور جگہوں کے نام تبدیل کرنا مقصد آریہ سماج بنانا مقصود ہے۔  رگ وید کے عہد میں چار ذاتیں براہمن، راجاتیہ، ویشہ، اور شودر، مستقل ذات پات کے نظام کی بنیاد بنی جو آج بھی  بھارت میں نچلی ذاتوں اور اقلیتوں کے لئے عذاب مسلسل ہیں۔ سقوط ڈھاکہ درحقیقت آریہ سماج کا ایجنڈا تھا جسے تکمیل کرنے کے لئے مذموم سازشیں کی گئیں۔

Posted in تازہ ترین, مضامین
56281

داد بیداد ۔ شہر گر دی ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

پشاور شہر کو ہر شخص اپنے زاویے سے دیکھتا ہے کسی کوپشاورکے پیشے نظر آتے ہیں کسی کو دریا ئے باڑو کے کنا رے صفائی والی کہا نیاں یا د آتی ہیں کسی کو شہر کے قدیم دروازے یا د آتے ہیں کسی کو آتہیں دال گراں بٹیر بازاں،نعل بندی وغیرہ نا موں سے مو سوم تاریخی محلے نظر آتے ہیں، کسی کو تالاب، نوشو با با اور طورہ قل بائے جیسے نا مو ں کی مساجد نظر آتی ہیں کوئی کہتا ہے پشاور قلعہ بالا حصار اور مسجد مہابت خان کا نا م ہے میں نے پشاور میں ایسی شخصیت کو دیکھا ہے جو پشاور کو بے نا م اور بے چہرہ لو گوں کے زاویے سے دیکھتا تھا خاجی معراج الدین سول سروس کے صو فی افیسر تھے اتورا کے دن فارغ ہو تے تو کہتے آؤ ”شہر گردی“ کریں انکی اپنی اصلا حات اور ترا کیب ہو تی تھیں اپنے دوستوں کے گروپ کو ”سلسلہ، خوراکیہ“ کہتے تھے، بے روز گار نو جوا نوں کو ”انا ج دشمن عنا صر“کا نا م دیتے تھے شہر گردی کے لئے ان کو ایک ہم خیال دوست کی ضرورت ہو تی تھی اور میری خو ش قسمتی یہ تھی کہ وہ مجھے شہر گردی میں ہمر کا بی کے قابل سمجھتے تھے .

ہمر کا بی کے اداب میں سے ایک ادب یہ تھا کہ ان سے کوئی بات پوچھی نہ جا ئے جو کچھ وہ بتا ئیں اس کو غور سے سن لیا جا ئے اور سرہلا نے کا فریضہ انجا م دیا جا ئے شہر گر دی میں موٹر کا استعمال منع تھا پیدل چلنے کو وہ گیارہ نمبر کی مو ٹر کار کہتے تھے ہم پیدل نکلتے تو کبھی ہشتنگری سے داخل ہو کر گنج در وازے پر پہنچ جا تے کبھی کا بلی سے داخل ہو کر نمک منڈی سے ہوتے ہوئے رام داس تک گلیوں کی خا ک چھا نتے کبھی پیپل منڈی سے داخل ہو کر ڈبگری تک تنگ گلیوں سے گزر نے کا لطف اٹھا تے ان میں ایک گلی چمڑے کے تا جروں کی تھی معراج صاحب کا گو ہر مقصود اس گلی میں بھی ملتا تھا ان گلیوں کی خا ک چھاننا بے مقصد نہیں تھا.

شہر میں چند بے نا م اور بے چہرہ لو گ تھے جن کے بارے میں اُن کا پختہ یقین تھا کہ شہر پر حکمرانی کسی سیا ستدان یا افیسر کی نہیں بلکہ ان بے نا م، بے چہرہ لو گوں کی حکمرانی ہے چلتے چلتے ایک مو چی کے پا س رک جا تے سلا م کر کے خیریت دریا فت کر تے تھوڑی دیر زمین پر ان کے پا س بیٹھتے مو سم پر گفتگو کر تے ایک لفا فہ ان کے ہاتھ میں تھما دیتے اور اجا زت لے لیتے تھوڑی دیر چلنے کے بعد رک جا تے اور کہتے یہ مو چی برگزیدہ ہستیوں میں سے ہے.

اس نے جو کہا کہ اچھا مو سم آنے والا ہے اس سے مراد عالم اسلا م کا غلبہ ہے آگے کسی تنگ گلی میں ایک ٹھیلے والے کے پا س رک جاتے کوئی پھل خرید لیتے بڑا نوٹ دیکر ریز گاری واپس نہ لیتے پھل بھی گلی میں کھیلنے والے بچوں میں بانٹ دیتے تھوڑی دور جا کر ٹھیلے والے کے بارے میں خبر دیتے کہ ان کا در جہ متصرف اور ولی کے درمیان ہے شب جمعہ کو پیران پیر کی زیا رت ہوتی ہے اگلے ہفتے کے لئے احکا مات ملتے ہیں، چلتے چلتے ایک دھو بی کی دکا ن پر سستا نے کے لئے ٹھہر جا تے ٹو ٹے بنچ پر بھیٹتے دھو بی کے شاگرد کو پیسے دیکر مٹھا ئی لا نے کے لئے بھیجدیتے اور دھو بی سے حا لات حا ضرہ پر گفتگو کر تے مٹھا ئی لا نے والے سے ریز گاری واپس نہ لیتے مٹھا ئی دھو بی کو دیدیتے اور با ہر نکل کر مجھے بتا تے کہ اس کے ذمے شہریوں کی حفاظت ہے.

یہ روحا نی سلسلے کا کوتوال ہے اس نے جن خبروں کا حوالہ دیا ان سے مراد عالم بالا کی خبریں تھیں اس طرح شہر بھر میں دس بارہ بے چہرہ، بے نا م لو گ تھے جن کو وہ خد ارسیدہ ولی مانتے تھے شہر گردی میں ایسے ایسے واقعات کے اشارے ملتے تھے جن کو سال دو سال بعد ہم نے میڈیا پردیکھنا اور سننا تھا یہ لو گ آج بھی شہر میں مو جود ہیں ان کو پہچا ننے والے آج بھی پہچانتے ہیں مگر ہم نے شہر گردی کرانے والا رہبر کھو دیا ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
56279

ممکنہ انسانی المیے کا تدارک ۔ محمد شریف شکیب

برطانیہ کی ایک درجن سے زائد امدادی ایجنسیوں نے افغانستان کی تین کروڑ80لاکھ کی آبادی کو قحط سے بچانے کے لیے عوامی عطیات کی ہنگامی اپیل کردی ہے۔مہاجرین کی آباد کاری سے متعلق اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یواین ایچ سی آر کی حالیہ رپورٹ کے مطابق اگلے تین ماہ میں دس لاکھ افغان بچے غذائی قلت کے باعث موت کے خطرے سے دوچار ہوسکتے ہیں اور22 ملین سے زیادہ افراد بھوک کا شکار ہوں گے۔برطانیہ کے 13 خیراتی ادارے مل کر آفت سے بچنے میں مدد کے لیے رقم اکھٹی کریں گے۔ ڈیزاسٹر ایمرجنسی کمیٹی نے خبردار کیاہے کہ افغانستان میں کورونا کی وبا، مختلف گروہوں کے درمیان باہمی تنازعات اور خشک سالی نے ملک کو ایک خطرناک پوائنٹ پر پہنچا دیا ہے۔

افغانستان ایک چوتھائی صدی سے بدترین خشک سالی کی لپیٹ میں ہے، ملک میں گندم اور دیگر فصلیں برباد ہوچکی ہیں جس کے نتیجے میں آٹے اور دیگر اشیائے خوردونوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔افغانستان میں سردی کی شدت بھی بڑھنے لگی ہے اکثر علاقوں میں درجہ حرارت منفی پندرہ سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا ہے اور برفباری سے سڑکیں بند ہونے کی وجہ سے امدادی سامان کی ترسیل میں مشکلات کا سامنا ہے۔ ڈیزاسٹر ایمرجنسی کمیٹی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر صالح سعید کے مطابق افغانستان کی موجودہ صورتحال میں ہم صرف بیٹھ کر تماشہ نہیں کرسکتے۔ ہم انسانی المیہ رونما ہوتا نہیں دیکھ سکتے۔لاکھوں خاندانوں کو ہنگامی خوراک اور نقد رقم فراہم کرنے، چھوٹے بچوں اور ماؤں کے لیے نیوٹریشن کی فراہمی اور ہیلتھ کیئر وہ شعبے ہیں جن پر ہنگامی بنیادوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

سعودی عرب اور دیگر اسلامی ملکوں نے بھی افغانستان کو امدادی سامان کی فراہمی شروع کردی ہے۔ پاکستان گذشتہ چار مہینوں سے اپنے افغان مسلمان بھائیوں کی دامے، درمے اور سخنے مدد کر رہا ہے۔ طورخم اور چمن کی سرحد پر پابندیاں نرم کی گئی ہیں۔ پاکستان کی شبانہ روز کوششوں سے اسلام آباد میں اسلامی ممالک کی تنظیم کا وزارتی اجلاس ہورہا ہے جس میں 57اسلامی ملکوں کے وزرائے خارجہ شرکت کر رہے ہیں۔ او آئی سی کا وزارتی اجلاس اس حوالے سے اہم ہے کہ اسلامی ممالک اخوت اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر افغان عوام کی فوری مدد کی کوئی حکمت عملی مرتب کریں گے۔ جس سے ممکنہ انسانی المیے کو روکنے میں مدد ملے گی۔ دوسری جانب او آئی سی کے رکن ممالک طالبان حکومت کو عالمی برادری کے ساتھ کئے گئے وعدے پورے کرنے پر قائل بھی کریں گے جن کی تکمیل کی شرط پر مغربی ممالک نے کابل میں امدادی کاروائیاں روک دی ہیں اور امریکہ کو بھی اپنے بینکوں میں افغانستان کے منجمد اثاثے غیر منجمد کرنے پر قائل کرنے کی بھی کوئی سبیل نکل سکتی ہے۔

ایک تاثر یہ ہے کہ پاکستان اپنے قومی مفادات حاصل کرنے اور طالبان کو ممنون بنانے کے لئے افغانستان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کر رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کو اپنے پڑوسی ملک میں بھوک کی وجہ سے بڑے پیمانے پر انسانی ہلاکتوں کی فکر ہے اور مسلمان پڑوسی ملک ہونے کے ناطے بدنامی سے بچنے کی راہیں تلاش کر رہا ہے۔اگر افغانستان میں قحط کی صورتحال پیدا ہوگی تو قریب ترین ملک ہونے کی وجہ سے لاکھوں افغانی جانیں بچانے کے لئے پاکستان ہی آئیں گے۔ جبکہ پاکستان گذشتہ بیالیس سالوں سے 35لاکھ افغان مہاجرین کی میزبانی کر رہا ہے۔توقع ہے کہ او آئی سی کے وزارتی اجلاس میں مسلم ممالک کو ایسا متفقہ لائحہ عمل تیار کرنے میں کامیاب ہوں گے کہ کسی بھی طاقت کو آئندہ اپنے مذموم مقاصد کے لئے کسی اسلامی ملک پر چڑھائی کرنے کی جرات نہ ہو۔ اور دنیا کے کسی خطے میں مسلمانوں پر مظالم اور استحصال کی صورت میں تمام مسلمان ممالک ان کی مدد کو پہنچ سکیں۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
56261

16/17 دسمبر کی درمیانی شب-قادر خان یوسف زئی کے قلم سے۔

غنیمت ہے کہ سقوط مشرقی پاکستان کے ذمہ داروں کے نشۂ قوت کی بدمستیوں اور خوش فہمیوں کا پردہ 50 برسوں میں کلی طور پر چاک ہوچکا ہے۔ بنگلادیش بنانے والوں کی فریب کاریوں کے نقاب تاریخ الٹ رہی ہے۔ ثابت ہوچکا کہ بنگلادیش بنانے کے لئے بھارت کے ساتھ مل کر سنگین سازش رچائی گئی۔ بھارت کا سقوط ڈھاکہ میں کلیدی کردار تھا۔ سرکاری و سیاسی سطح پر ہندو انتہاپسندوں کا کھلا اعتراف ثابت کرچکا کہ ملک کا بدترین غدار، انتہائی کینہ توز کے طور پر تاریخ کے سیاہ حرفوں میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اس بدتمیز اور محسن کش نے سابق صدر ذوالفقار علی بھٹو کے متعلق کہا تھا کہ ’’اگر بھٹو یہ سمجھتا ہے کہ وہ (مجیب) پاکستان کے ساتھ کسی قسم کا تعلق یا واسطہ رکھے گا تو وہ ( بھٹو) دیوانہ ہے۔ اسے پاگل خانے بھیج دینا چاہیے۔‘‘مشرقی پاکستان میں غیر بنگالیوں کو ’بہاری‘ کہنے والے نے قیامت ڈھائی اور ڈھٹائی کا یہ عالم کہ یہ اعلان کردیاکہ پاکستانی فوج نے 30 لاکھ بنگالیوں کو قتل کردیا اور پاکستان میں رہنے والے بنگالیوں پر انتہائی مظالم توڑے جارہے ہیں۔

مجیب نے یہ بھی کہا کہ پاکستان بنگلادیش میں بسنے والے 20 لاکھ ’’بہاریوں‘‘ کو سنبھالے اور قریباً چار لاکھ بنگالیوں کو اُدھر بھیج دیا جائے۔ بنگلادیش مملکت بنا تو اس میں بسنے والے شہری غیر بنگالی کیسے ہوگئے۔ درحقیقت ان کا قصور صرف اتنا تھا کہ انگریز و ہندوئوں کی غلامی سے آزادی حاصل کرنے کے بعد، لاکھوں جانوں کی قربانی دے کر پاکستان حاصل کیا اور قیمتی جان و عزت لٹاکر ہجرت کی تو انہیں صرف اس لئے نکالا جانے لگا کہ وہ بنگالی نسل نہیں، یعنی بنگلادیش میں غیر مسلم بنگالی تو رہ سکتے تھے صرف بنگالی نسل، اس کے علاوہ کسی مسلم غیر بنگالی، جسے بہاری کہا گیا، ان کے لئے کوئی جگہ نہ تھی، آج   50برسوں بعد بھی انہیں وہ حقوق نہیں ملے جو کسی بنگالی ہندو یا مسلمان کو ملتے ہیں، بہاری قرار دئیے جانے والوں کی کثیر تعداد کو دوسری ہجرت میں بھی قیمتی جان و مال اور عصمت کی قربانیاں دینا پڑیں اور بنگلادیش میں رہنے والے غیر بنگالیوں کو آج بھی شہریت نہ مل سکی۔

بھارتی مصنفہ شرمیلا بوس نے اپنی کتاب ’’ڈیڈ ریکوننگ، میموریز آف دی 1971 بنگلا وار‘‘ میں 71 کی جنگ کے حوالے سے تمام باتوں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ’’نہ تو اس جنگ میں لاکھوں لوگ مارے گئے تھے، نہ ہی بے حرمتیوں کا تناسب بیان کے مطابق تھا اور نہ ہی یہ پاکستانی فوجیوں نے کیا تھا۔‘‘ شرمیلا کے مطابق 71 کی جنگ کے حوالے سے جو دستاویزات دیکھنے کو ملیں، وہ اتنی کمزور تھیں کہ ان کی بنیاد پر کوئی دعویٰ کرنا کسی طرح دانش مندی نہیں۔ بھارتی مصنفہ کی تحقیق کے مطابق ڈھاکا میں 14 اور 15 دسمبر کو آزادی (علیحدگی) کے حامی بنگالی دانشوروں کو ان کے گھروں سے اغوا کیے جانے اور بعد میں قتل کیے جانے میں پاکستانی فوج کے ملوث ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ مصنفہ نے مارے جانے والے دانشوروں کے خاندان کے وہ بیانات بھی پیش کیے، جن میں وہ کہتے ہیں کہ ان تمام افراد کو گھروں سے لے جانے والے مسلح سویلین تھے۔ اسی طرح وہ 26-25 مارچ کو ڈھاکا یونیورسٹی کے ویمن ہاسٹل پر پاکستانی فوجی حملے کی تردید کرتی ہیں کہ یہ درست نہیں۔

بھارتی مصنفہ کا یہ بھی ماننا ہے کہ جیسور میں آزادی (علیحدگی) کے حامی بنگالیوں نے مغربی پاکستانیوں کو مارا تھا، وہ ایسے کئی واقعات کی مثالیں دیتی ہیں۔ ان کے مطابق علیحدگی کے حامی بنگالی مغربی پاکستانی فوجیوں کو انویڈر یا درانداز کہتے تھے جب کہ اس جنگ میں درانداز صرف بھارت تھا۔ شرمیلا برصغیر کے معروف رہنما سبھاش چندر بوس کی پوتی ہیں۔ ان کی اس کتاب نے بھارت اور بنگلادیش کے ان لوگوں کے جھوٹے پراپیگنڈے کا پردہ چاک کیا جو قوم پرستی کا کاروبار کرتے ہیں۔سقوط ڈھاکہ کی تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کی جاتی رہتی ہے۔ معروف بھارتی مصنفہ کے حوالہ جات اور مجموعی طور پر پوری کتاب تاریخ ہے، جس کے لئے انہوں نے کافی عرصہ محنت کی اور اس واقعے سے جڑے بنگالی، پاکستانی، بھارتی متاثرہ خاندانوں سے ملاقاتیں کیں، اس کے علاوہ بھارتی لیفٹیننٹ جنرل اروڑا نے 30 لاکھ افراد کے مارے جانے کے دعوے کو ناممکن قرار دیا تھا۔ بنگلادیش دعویٰ کرتا ہے کہ 9 ماہ کی جنگ کے دوران 30 لاکھ بنگالیوں کا قتل عام کیا گیا، لیکن حقیقت پسندانہ نظر اس سے بھی لمبی اور تلخ لڑائیوں پر ڈالی جائے تو اس دعوے کی قلعی کھل جاتی ہے۔ 1965 میں امریکی جنگی دستے بڑی تعداد میں ویت نام پہنچے اور 1973 تک رہے، ویت نام میں امریکہ کی جانب سے ایٹم بم کے علاوہ قریب قریب تمام مہلک ہتھیار استعمال کر ڈالے۔

جنگ میں جنوبی ویت نام کے سب سے زیادہ یعنی 15 لاکھ 81 ہزار باشندے مارے گئے۔ کمبوڈیا کے 7 لاکھ، شمالی ویت نام کے20 لاکھ اور لاؤس کے قریباً 50 ہزار شہری اس جنگ میں مارے گئے۔ شمالی ویت نام اور اس کے اتحادیوں کا کُل جانی نقصان 11 لاکھ 77 ہزار 446 ہوا۔ الجیریا کی ساڑھے7 سالہ جنگ میں ایک لاکھ، افغانستان کی 20 برس کی جنگ میں 2 لاکھ 41 ہزار افراد، سوویت یونین کے ساتھ 14برس کی جنگ میں 20لاکھ افغانی جاں بحق ہوئے، بوسنیا میں مسلمانوں کا تین سال قتل عام کیا گیا، اس میں ایک لاکھ 42 ہزار افرادجاں بحق ہوئے۔ اس پر 9 ماہ میں 30 لاکھ ہلاکتوں کا دعویٰ مضحکہ خیز ہے۔بنگلادیش بننے کی تمام وجوہ کو زیر بحث لانا ممکن نہیں بلکہ یہ بتانا مقصود ہے کہ مشرقی پاکستان سے بنگلادیش بنانے والوں کی سوچ کیا تھی؟ اور کیوں  محب وطن پاکستانی رہنمائوں کو سزائیں دی جارہی ہیں۔ پاکستان کا قیام دو قومی نظریے کے تحت عمل میں لایا گیا، لیکن بعدازاں لسانی معاملے کا جواز بناکر مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے عوام میں نفرتیں اور دُوریاں پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔ جنگ کے دوران محب وطن پاکستانیوں کا جو بھی، کسی کا بھی، جیسا بھی کردار ادارہا، وہ سقوط ڈھاکا کو بچانے کے لئے تھا، اسی ضمن میں بھارت نے پاکستان کو دولخت کرنے کے لئے جو کردار ادا کیا وہ قابل مذمت تھا اور رہے گا، بھارت مسلسل بنگلادیش جیسی صورت حال سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں پیدا کررہا ہے۔ صوبائیت ، لسانیت اور قوم پرستی کے اس سیاسی تناظر میں بھارتی سازش کو قطعی طور پر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ اہل وطن اور ارباب سیاست و دیگر کو ماضی سے سیکھنا ہوگا کہ دشمن کے وار کا گھائو کبھی نہیں بھرتا۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
56255

پنجاب اسمبلی کا تاریخی کارنامہ – تحریر : محمد نفیس دانش

پنجاب میں ختم نبوت کی گواہی کی حامل آیات اور احادیث دفاتر میں آویزاں کرنے کا حکم دینا اور عملدرآمد کروانا یقیناً یہ ایک تاریخی کام ہے، جس پر عملدرآمد کرنے کا اجر تو اللہ تعالیٰ ہی دے گا. ختم نبوت کے عقیدہ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ کے زمانے میں ایک شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا اور کہا کہ مجھے موقع دو کہ میں اپنی نبوت کے علامات پیش کروں اس پر امام اعظم نے فرمایا کہ جو شخص اس سے نبوت کی کوئی علامت طلب کرے گا وہ بھی کافر ہوجائے گا کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماچکے ہیں کہ ”لاَنَبِیَّ بَعْدِیْ“

ختم نبوت اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے اسلام کی ساری خصوصیات اورامتیازات اسی پر موقوف ہیں۔ ختم نبوت ہی کے عقیدہ میں اسلام کا کمال اور دوام باقی ہے۔ 

چنانچہ پنجاب اسمبلی کی نئی عمارت میں ختم نبوت کے متعلق سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر 40 سنہری حروف میں جو مزین کی گئی ہے اس آیت میں ترجمہ کے ساتھ اس کی پوری وضاحت اور ہرطرح کی صراحت موجود ہے کہ” نہیں ہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ لیکن اللہ کے رسول اور تمام انبیاء کے سلسلہ کو ختم کرنے والے ہیں اور اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے” اس قرآنی اعلان اور پیغام کا مقصد یہ بتانا ہے کہ اگرچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ نبوت دنیا میں رہ جانے والی نہیں ہے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا بدل کارِ نبوت کی شکل میں ہمیشہ تاقیامت باقی ہے۔ یعنی ختم نبوت کے معنی قطعِ نبوت کے نہیں ہیں کہ نبوت منقطع ہوگئی ختم نبوت کے حقیقی معنی تکمیل نبوت کے ہیں کہ نبوت اپنی انتہا کو پہنچ کر حدکمال کو پہنچ گئی ہے اب کوئی درجہ نبوت کا ایسا باقی نہیں رہا کہ بعد میں کوئی نبی لایا جائے اوراس درجہ کو پورا کرایا جائے۔ ایک ہی ذاتِ اقدس نے ساری نبوت کو حد کمال پر پہنچادیا کہ نبوت کامل ہوگئی تو ختم نبوت کے معنی تکمیل نبوت کے ہیں۔ قطع نبوت کے نہیں ہیں گویا کہ ایک ہی نبوت قیامت تک کام دے گی، کسی اور نبی کے آنے کی ضرورت نہیں اس لئے کہ نبوت کے جتنے کمالات تھے وہ سب ایک ذاتِ بابرکات میں جمع کردئیے گئے۔گویاکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرہست مکمل کردی کہ اب نہ کوئی نبی زائد ہوسکتا ہے اور نہ کم ہوسکتا ہے.آنحضرت نے فرمایا مجھے چھ باتوں میں دیگر انبیا پر فضیلت دی گئی ہے: 

(1) مجھے جامع و مختصر بات کہنے کی صلاحیت دی گئی.

 (2) مجھے رعب کے ذریعے نصرت بخشی گئی.

(3) میرے لئے اموالِ غنیمت حلال کئے گئے.

(4) میرے لئے زمین کو مسجد بھی بنادیاگیا اور پاکیزگی حاصل کرنے کا ذریعہ بھی یعنی میری شریعت میں نماز مخصوص عبادت گاہوں میں ہی نہیں بلکہ روئے زمین میں ہرجگہ پڑھی جاسکتی ہے اور پانی نہ ملنے کی صورت میں تیمم کرکے وضو کی حاجت بھی پوری کی جاسکتی ہے.

(5) مجھے تمام دنیاکیلئے رسول بنایا گیا ہے.

(6) اور میرے اوپر انبیاء کا سلسلہ ختم کردیاگیا۔

ختم نبوت مسلمانوں کے لئے ایک ایسا مضبوط عقیدہ ہے جس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے دور سے لے کر آج تک مسلمان کسی بھی قسم کا کوئی سمجھوتہ کرنا گوارا نہیں کرتے چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور میں سب سے پہلے جو کام ہوا وہ یہ تھا کہ حضرت ابوبکر نے مسیلمہ کذاب جس نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا اسکی سرکوبی کیلئے حضرت خالد بن ولید کو صحابہ کرام کی ایک جماعت کے ساتھ روانہ فرمایا تو حضرت خالد بن ولید نے مسیلمہ بن کذاب سمیت اٹھائیس ہزار جوانوں کو ٹھکانے لگاکر فاتح کی حیثیت سے مدینہ واپس ہوئے۔ صدیقی دور میں ایک اور شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا جس کا نام طلیحہ بن خویلد بتایاجاتا ہے اس کے قتل 0کیلئے بھی حضرت خالد بن ولید روانہ کئے گئے تھے۔ ”اسی طرح خلیفہ عبدالملک کے دور میں جب حارث نامی شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا تو خلیفہ وقت نے صحابہ و تابعین سے فتوے لیے اور متفقہ طور پر اسے قتل کیاگیا۔ خلیفہ ہارون رشید نے بھی اپنے دور میں نبوت کا دعویٰ کرنے والے شخص کو علماء کے متفقہ فتویٰ پر قتل کی سزا دی ہے. 

الحمد للہ تمام مسلمانوں کا یہ اجماعی عقیدہ ہے کہ نبوت کا وہ سلسلہ جو حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوا تھا وہ بالآخر سیدالمرسلین خاتم النّبیین صلی اللہ علیہ وسلم پر مکمل و ختم فرمایا دیا ہے. اس لیے آج کل کا ادنیٰ مسلمان بھی عقیدہ ختم نبوت پر اپنی جان کی بازی لگا دے گا مگر نبی کی نبوت اور رسالت پر کبھی بھی آنچ نہیں آنے دے گا ان شاء اللہ…! 

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
56213

بزمِ درویش۔ ایک اور دسمبر ۔ تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

دسمبر کا آغاز پورے ہفتے کی بھرپور تھکاوٹ صبح چھٹی کا دن نرم و گداز آرام دہ بستر میں طویل بھر پور پر سکون نیند لے کر اٹھا تو جسم شاندار دن گزارنے کے لیے بلکل تیار تھا پر دہ سرکا کر باہر دیکھا تو دسمبر کا سورج حرارت آمیز زیست آمیز سنہری شعاعیں بانٹتا نظر آیا نیلے آسمان پر چمکتے سورج کو دیکھتے ہی رگ و پے دھوپ کا تقاضہ کرنے لگے میری بہترین تفریح فطرت اور اُس کے فطری مناظر کے ساتھ وقت گزارنا ہوتی ہے دسمبر کا پہلا ہفتہ آسمان بادلوں سے صاف سورج سرور آمیز شعاعیں زمین پر پھیلاتا ہوا میں نے چند گھنٹے فطرت کے ساتھ گزارنے کا فیصلہ کیا اورواش روم میں گھس گیا واش روم جانے سے پہلے بھر پور ناشتے کا کہتا گیا نہانے کے بعد دھوپ میں پڑی چارپائی پر دھوپ کی تمازت کا لطف اٹھانے لگا اِسی دوران ادرک ہرا دھنیا پودینہ ہر ی مرچوں میں مکس مولی کے کڑک کرسپی دیسی گھی کے پراٹھوں کی آمد شروع ہو گئی .

اب مولی والے پراٹھوں کو خالص دہی اچار کے ساتھ معدے کو سر شاری اور توانائی کے دریا بہانے لگا دسمبر کی سرور آمیز دھوپ اور دیسی گھی کے پراٹھوں کو تازے مکھن دہی اچار کے ساتھ کھانا ہر نوالا بہشت کی یاد دلانے لگا آج کا دن یوم بد پرہیزی تھا اور میں آج سارے ریکارڈ توڑنے پر آمادہ تھا ہر نوالے سے دیسی خالص گندم دیسی گھی مکھن دہی اچار ہرا دھنیا ہری مرچوں کا خاص احساس کہ مدہوشی سی طاری تھی میں شراب نوشوں کی قسمت کو کوس رہا تھا کہ وہ نشے کے لیے حرام چیز سے اپنے معدے جگر کا ستیا ناس کر تے ہیں کاش ایسی خالص غذا سے نشہ حاصل کریں میری رگوں میں پراٹھوں کی توانائی اور مکھن دیسی گھی نشیلے احساس کے ساتھ دوڑنے لگی خوب ناشتہ کرنے کے بعد خالص گڑ والی لسی کے بعد الائچی گڑ والی دودھ پتی دار چینی ڈال کر حلق سے اتارنے لگا خوب جی بھر کر ناشتہ کر لیا تو احساس جاگا کہ تم عمر کے جس حصے میں ہو اتنی خالص غذا ئیں اب تمہارے لیے نقصان دہ بھی ہو سکتی ہیں لہذا بہتری اِسی میں ہے کہ قریبی پارک میں جا کر چکنائی کو زائل کر نے کی کو شش کی جائے اب میں جو گر پہن کر اکیلا قریبی پارک کی طرف جانے لگا .

میں فطرت کے ساتھ جب بھی وقت گزارتا ہوں تو اکیلا رہنا پسند کر تا ہوں تاکہ فطرت اور میرے درمیان کوئی حائل نہ ہو اور میں فطرت کے مناظر کے ساتھ بھرپور وقت گزار سکوں میں جیسے ہی لاہور شہر کے وسیع و عریض سبزے سے لبالب بھرے ہوئے پارک کے مین دروازے سے اندر داخل ہوا تو پارک کا وسیع و عریض دامن قدرتی مناظر دیوقامت درختوں پھولوں کی لاتعداد قطاروں کے ساتھ بانہیں کھولے کھڑا تھا میں واکنگ ٹریک پر طویل واک کے لیے چڑھ گیا آج میرا ارادہ دس کلومیٹر واک کا تھا قدرتی مناظر اور دیو قامت صدا بہار درختوں کے درمیان موڑ کا ٹتا ہوا ٹریک خوابوں کی دنیامیں لے جاتا ہے میں آہستہ قدموں کے بعد پھر تیز قدموں کے ساتھ ٹریک پر چلتا چلا گیا چاروں طرف دسمبر کی دھوپ پھیلی ہو ئی میرا صحت مند جسم پوری توانائی سے ٹریک پر رواں دواں تھا دسمبر کی دھوپ میں عجیب سی اداسی کا عنصر شامل ہو تا ہے.

انسان ماضی حال میں ڈوبتا تیرتا ہے فطرت کے مناظر اور دسمبر کی دھوپ کو ذکر الٰہی کے ساتھ میں خوب انجوائے کر رہا تھا تقریباً سات کلومیٹر واک کے بعد میں نے بریک کا سوچھا تو میری قدم اُس میدان کی طرف اٹھنے لگے جدھر سینکڑوں کی تعدا میں ہرن چھوڑ دئیے گئے ہیں میں وہاں جا کر بیٹھ گیا میرے سامنے بہت بڑی تعداد میں ہرن ادھر اُدھر قلانچیں مارتے پھر رہے تھے ہرنوں کی پھرتی چشتی معصومیت بھاگ دوڑ میں نیم دراز ہو کر دھوپ کے ساتھ ہرنوں کو انجوائے کر نے لگا لسی دہی مکھن پراٹھوں نے اپنا کام شروع کر دیا تھا نشیلا سا احساس اعصاب پر غنودگی سی طاری کر نے لگا دسمبر کی سنہری دھوپ اس کی تمازت جسم آرام دہ زون میں داخل ہو اتو خمار ہ نیند میں ڈھلنے لگا میں نے جسم کو ڈھیلا چھوڑ ا اور دسمبر کی دھوپ کو انجوائے کر نے لگا پتہ نہیں کتنی دیر مراقباتی سرور آمیز کیفیت میں رہا کہ اچانک نوجوانوں کا گروپ چور مچاتا میرے سر پر آدھمکا وہ مل کر دوستی پیار میں اپنے ہی دوست کو دبوچ کر تنگ کر رہے تھے اُن کے شور سے میں بیدار ہو گیا جوانوں کو دیکھنے لگا جو جوانی کے نشے میں اپنی جوانی کو انجوائے کر رہے تھے جوانوں کی مستیاں دیکھ کر میں بھی ماضی کی چلمن میں جھانکنے لگا جہاں پر میرے کالج کے دوست تھے اور میرا جوانی کا وقت جب کالج کے دنوں میں ہم دسمبر کے پہلے اتوارکا انتظار کر تے تھے.

اُس اتوار کو بہت دوست میرے ٹیوب ویل اور زمینوں پر میری دعوت پر آکر دو دن گزارتے کیا دن تھے ہم رات بھی وہی قیام کر تے پہلے دن پرندوں کا شکار رات کو خرگوش کا شکار اگلے دن ہیڈ بلوکی پر مچھلی کا شکار پھر اِس شکار کی دعوت سرخاب مرغابیوں کا یخنی پلاؤ کھوئے والی کھیر گجریلا بادلوں والی رات کو پرندوں کا باربی کیو مچھلی بھون کر کھانے گا جر اور گنوں کا خالص رس شکر قندی راکھ میں بھون کر کھانا رات کو لکڑیاں جلا کر اُس الاو کے گرد گرم چادروں چار خانوں والے کھیسوں میں بیٹھ کر ساری رات گپیں ہانکنا جوانی کے دن مستقبل کے سہانے خوابوں کا تذکرہ دل و دماغ میں بسنے والی پری چہروں کا تذکرہ یاروں کی چھیڑ چھاڑ منگنیوں شادیوں کے تذکرے ایک دوسرے کے حساس نازک حصوں کو چھیڑنا تنگ کرنا مذاق بڑھتے بڑھتے جسمانی حرکات میں داخل ہو جانا موقع ملنے پر دوڑ کر مقابلے تاش کی بازیاں ناکام کشتی پہلوانی کے مقابلے دسمبر کی دھوپ میں گھنٹوں مچھلی کے شکار کے لیے کنڈیاں ڈال کر انتظار کر تا مچھلی پکڑی جانے پر شور و غل نعرے چیخ و پکار اڑتے پرندوں کو نشانہ لگنے پر نعرے طوفان برپا ہو جاتا.

اِس طرح دسمبر یادگار ہو جاتا ہے دسمبر ہے ہی ایسا دلربا سا حساس دل کوچھوتا ہے چھیڑتا ہے آپ کسی پارک میں چلے جائیں دیوقامت درخت دور تک پھیلی پھولوں کی کیاریاں پت جھڑ کے بعد سڑکوں پر دور تک پھیلے ہوئے خشک پتے خا موشی سناٹا سنہری دھوپ بچپن جوانی کی یادیں دسمبر کی راتوں کا سناٹا نرم و گداز آرام دہ بستر رضائی کی تپش پسندیدہ کتاب اور چاروں طرف اڑتی رنگ برنگی تتلیاں دسمبر آپ کے باطن کے نہاں خانوں تک سرایت کر جاتا ہے عجیب سی اداسی آپ کے دل و دماغ پر حاوی ہو جاتی ہے دسمبر کے آتے ہی سال کے خاتمے کا احساس پچھلے دسمبر کی یادیں دسمبر دیہات کے ساتھ شہری علاقوں کے مکینوں کو بھی اپنی سحر انگیز لپیٹ میں لے لیا ہے دسمبر کا دل گداز احساس جب شاعروں پر اترتا ہے تو وہ یوں لکھتے ہیں۔


چاند بھی تنہا رات بھی تنہا اور تنہا میر ی ذات ہے
پھر ٹوٹ کے وہ یاد عجیب دسمبر کی یہ رات ہے
ہلکی ہلکی سی سرد ہوا ہلکا ہلکا سا درد ِ دل
انداز اچھا ہے اے دسمبر تیرے آنے کا
سرد ہوا ئیں کیا چلی میرے شہر میں
ہر طرف یادوں کا دسمبر بکھر گیا
چاندنی رات تھی سرد ہوا سے کھڑکی بجتی تھی
ان ہاتھوں میں ہاتھ تھے میرے اور دسمبر تھا
دسمبر میں کہا تھا ناں کہ واپس لوٹ آؤ گے
ابھی تک تم نہیں لوٹے دسمبر لوٹ آیا ہے

Posted in تازہ ترین, مضامین
56210

سقوط ڈھاکہ کے 50 سال – تحریر : راجہ منیب

پاکستان کی تشکیل میں مشرقی بازوکے عوام اور مسلم لیڈرزنے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا اس پر ابتدا ئی چند سالوں میں تعمیر ی قوتیں غالب رہیں لیکن اس کے بعد اندرونی اور بیرونی سازشوں کا آغاز ہوگیا اور اُن   میں بتدریج اضافہ ہوتا چلا گیا بعض عناصر بہروپ بن کر اندر سے نقب لگانے میں مصروف ہوئے ۔ پاکستان کے مشرقی بازومیں اغیار نے سازشیں کرکے سادہ لوح عوام کو احساس ِمحرومی کا شکا ر کرکے بغاوت پرا کسایا اور آخر کار 14اگست کو پاکستان کی صورت میں دُنیا کے نقشہ پرا بھرنے والی عظیم مملکت کو 16دسمبر 1971ء کو مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش بن گیا۔ بنگلہ دیش کی آزادی، جسے بنگالی میں مکتی جدھو اور پاکستان میں سقوط مشرقی پاکستان یا سقوط ڈھاکہ کہا جاتا ہے، پاکستان کے دو بازوؤں، مشرقی و مغربی پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والی جنگ تھی جس کے نتیجے میں مشرقی پاکستان آزاد ہو کر بنگلہ دیش کی صورت میں دنیا کے نقشے پر ابھرا۔

چھبیس مارچ 1971 کو اس وقت مشرقی پاکستان کے اہم سیاسی رہنما شیخ مجیب الرحمٰن نے بنگلہ دیش کی آزادی کا اعلان کیا تھا جس کے بعد فوجی آپریشن شروع ہوا جو نو ماہ تک جاری رہا۔تاریخ پر نظر رکھنے والے ماہرین کے مطابق بنگلہ دیش کے قیام کی آوازیں اس وقت زور پکڑ گئی تھیں جب 1970 میں پاکستان میں ہونے والے عام انتخابات میں شیخ مجیب الرحمٰن کی عوامی لیگ کو اکثریت ملی تھی۔ بھارت نے مشرقی پاکستان میں بغاوت کو ہوا دی اور علیحدگی پسندوں کو بھارت میں تربیت دے کر پاکستانی فوج کے خلاف لڑنے کے لیے استعمال کیا تھا۔سولہ دسمبر انیس سو اکہتر کے سانحہ مشرقی پاکستان کی یاد میں پاکستان بھر میں یوم سقوط ڈھاکہ منایا جاتا ہے۔ شیخ مجیب الرحمن کی مدد سے مکتی باہنی کے نام پر بھارت نے اپنی فوجیں مشرقی پاکستان میں داخل کی اور پھر حکومتِ وقت کیخلاف بغاوت کی فضا پیدا کرکے مغربی پاکستان پر بھی جنگ مسلط کر دی گئی۔

وقت کرتا ہے پرورش برسوں حادثہ ایک دم نہیں ہوتا۔اور چرچل کا کہنا تھا کہ ’’آپ ماضی سے جتنا زیادہ واقف ہوں گے اتنے ہی بہتر انداز میں مستقبل کی تیاری کر سکیں گے‘‘ تحقیق ریسرچ ایک مشکل اور کٹھن فن ہے۔ اکثر مؤرخین ونامہ نگاروں  نے سقوط ڈھاکہ کے بارے میں مخصوص ایجنڈے کے تحت لکھا لہٰذا تاریخ کا اصل سچ سامنے نہیں آ سکا۔ عارضی ماحول پروپیگنڈے اور منظر سے متاثر ہو کر تاریخ لکھنے والے مؤرخین سقوط ڈھاکہ کی بنیادوں تک نہ پہنچ سکے۔اس  سانحہ کے تلخ حقائق کو سپرد قلم کرنا نہ صرف بہت مشکل بلکہ زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے۔ مگر سقوط ڈھاکہ کے دلخراش تاریخی واقعات  اور جھوٹے پروپیگنڈوں کا ذکر ضروری اس لیے یہ کہ خدانخواستہ اسی طرح کی سازشیں ہمارے  وطن عزیز کو اپنی لپیٹ میں لے کرپھر سے نقصان نہ پہنچا س سکیں۔سا نحہ مشرقی پاکستان کے پچاس سال مکمل ہو چکے۔

ہندوستان کی دخل اندازی اور جارحیت صرف اقوامِ متحدہ کے چارٹر کی کھلی خلاف ورزی تھی۔ خطے میں آج تک جو آگ لگی ہوئی یہ ہندوستان کی لگائی ہوئی ہے۔ جب کہ مشرقی پاکستان   کے لوگوں نے پاکستان کیلئے اپنے گھر بار لُٹا دیے۔  اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو امن کا جزیرہ بنایا مگر ہم بجائے اللہ تعالیٰ  کا شکر ادا کرتے ا اور اس کی قدر کرتے ہم نے ہی اپنے ملک میں فتنہ و فساد کی آگ بھڑکانا شروع کی ہوئی ہے۔1970  کا سال  ایسے ہی گزارا جیسے آج کل سیاست دان لڑ جھگڑ رہے ہیں ۔سیاسی بابے 70 کے حالات اور آج کل کے حالات کا جائزہ لیں  اور غیرت مندی کا مظاہرہ کریں۔اس وقت بھی تمام سیاسی جماعتوں  کے رولے تھے اور چاہے کوئی بھی  ہو اوررہی بات سرخوں کی تو اس وقت  پی ٹی ایم کی جگہ اس وقت بھاشانی گروپ ہوا کرتا تھا۔ 

چلیں مختصر ذکر کر ہی دیتا ہوںمگر اس سے صرف سبق سیکھیں اس لیے  بتاتا ہوں کہ عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان سے 162میں سے 160نشستیں جیت لیں جبکہ مغربی پاکستان سے ایک نشست بھی حاصل نہ کرسکی مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی نے 138میں سے 8نشستیں سند ھ اور پنجاب سے جیت لیں اور مشرقی پاکستان سےمغربی پاکستان کی کوئی جماعت کامیاب نہ ہوسکی ۔دونوں حصوں میں نتائج کے اعلان سے صوبائی عصبیت کو فروغ حاصل ہوا اور اقتدار کا مسلٔہ صوبائی صبیت میں بدل گیا۔ مگر اب تو پچاس سال گزر گئے ہیں ۔ پھر وہی رولے ہیں ۔ اندر سے ملک کو تمام سیاسی پارٹیاں کمزور کرنے پر لگی ہوئی ہیں۔ جب اس وقت سیاسی پارٹیاں آپس میں لڑ رہی تھی تو  کچھ سرخوں  کی جماتوں ، فراریوں ، کلعدم تنظیموں، لبرلز وغیرہ نے مل کر بھار ت سے مدد طلب کر نے کا منصوبہ بنایا اور اسی منصوبے کے تحت بھارت نے 50 ہزار گوریلوں پر مشتمل مکتی باہنی قائم کر کے شرارت و ظلم و ستم شروع کر دیے۔ادھر سیاسی پارٹیاں   بین الا قوامی طور پر خود کو مظلوم ظاہر کرنے میں کامیاب ہو گئے مگر پاکستانی  عوام ان کے مظالم دنیا کو آگاہ نہ کر سکے۔بھارت 65 ء کی جنگ کا بدلہ چاہتا تھا ۔جبکہ مغربی میڈیا  خاص کربرطانیوی میڈیاپاکستان کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی حد سے زیادہ کرنے لگ گیا جیسا کہ اس وقت اور آجکل بھی بی بی سی کر رہا ہے۔71 کی جنگ میں بی بی سی نے تمام ہمدردیاں مجیب الرحمٰن کے ساتھ کر دی تھیں۔روس اس وقت پاکستان کو صرف اور صرف   چائنہ یعنی چین کا دوست سمجھتا تھا۔ اور چین اور روس میں اس وقت سخت مخالفت تھی جیسا کہ آجکل چین و امریکہ کے حالات ہیں۔

روس کا بھارت کی طرف جھکاوّ تھا ۔ بھارت کے ساتھ دفاعی معاہد ہ کر کے خفیہ طور پر مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے کا معاہدہ کر لیا ۔ بڑی طاقتیں چین سے پہلے ہی ڈرتی تھیں اس لیے مشرقی پاکستان کو الگ کر کے اسکے اڈے چین کے خلاف استعمال کرنا چاہتی تھیں۔ ادھر شیخ مجیب نے ہزاروں باغیوں کو بھارت بھیج کر مسنگ پرسن کا ڈرامہ رچا کر پاکستان پر حملے کا جواز بنا لیا جبکہ بھارت نے اپنا طیارہ گنگا اغوا ہونے کا ڈرامہ رچا کر مغربی پاکستان کے درمیان ہوائی راستہ بند کر دیا تا کہ مددو رسد نہ پہنچ سکے۔روس کے ساتھ 25 سال کا دفاعی معاہدہ پہلے ہی تھا اس مرتبہ بھارت نے مشرقی پاکستان کے بدلے روس کو بحری اڈہ جو روس کی دکھتی رگ تھا آفر کر دیا ۔  22 نومبر 1971 ء کو بھارت نے باقاعدہ مشرقی پاکستان پر حملہ کر دیا ۔ مکتی باہنی کے تخریب کاروں نے تمام اہم مقامات اور تنصیبات تباہ کردیںاور بھارتی فضائیہ نے پہلے سے موجود ہوائی جہازوں کو زمین پر ہی تباہ کردیااور ڈھاکہ کا ہوائی اڈہ اسلئے کھنڈر بنادیاتاکہ مغربی پاکستان سے کسی دوسرے راستے پہنچنے والا امدادی سامان وہاں اتارا نہ جاسکے۔ ایک تو پاکستانی افواج کو فضائی تحفظ نہ مِل سکا دوسرا بھارت نے چھاتہ بردار فوج اتار کر پشت سے حملہ کردیا۔

چند دنوں تک پاکستانی افواج نے ڈٹ کر مقابلہ کیا لیکن کمک نہ پہنچ سکنے کے باعث زیادہ دیر تک مقابلہ کرنا ممکن نہ تھا۔مشرقی پاکستان سے توجہ ہٹانے کیلئے مغربی محاذ پر دباو ڈالنے کی بھارت نے بے حد کوشش کی لیکن گولا باری کے تبادلے سے بات آگے نہ بڑھ سکی ۔ 8جنوری کی رات کو ایک خصوصی طیارے کے ذریعہ شیخ مجیب الرحمٰن کو غیر مشروط طور پر رہا کرکے لند ن بجھوایا گیا جہاں پہنچ کراُنہوں نے آزاد جمہوریہ بنگلہ دیش کا اعلان کیا ۔اسکے بعد نئی دہلی میں اپنے محسنوں کا شکریہ ادا کرکے بنگلہ دیش پہنچے اور صدارتی ذمہ داریاں سنبھال لیں۔بھارت کے جراثیم  یعنی کارندے مشرقی پاکستان میں اہم عہدوں پر فائز رہے اس لیے  بھی وہاں کے معاملات خراب ہوئے اور  پاکستان کے خلاف نفر ت کا بیچ بوتے رہے۔جیسا کہ چند مثالیں دے ہی دیتا ہوں تا کہ حقیقت جاننے والوں پر حقیقت واضح ہو سکے۔ کہ کیسے بھارتی عناصر بنگالی بن کر پاکستان کے خلاف اور کیا کیا پروپیگنڈا کرتے رہے ہیں ۔

مثلاً  پاک فوج پر ایک اور بھارت اور بنگلہ دیش کے کچھ لوگ الزام لگاتے ہیں کہ پاک مسلح افواج نے 30 لاکھ سے زیادہ معصوم بنگالیوں کو قتل کیا اور 200,000 بنگالی خواتین کی عصمت دری کی  تو جناب  اس افسانے کی اصل کا پتہ دسمبر 1971 سے لگایا جا سکتا ہے جب سوویت اخبار ‘پراودا’ نے 23 دسمبر 1971 کے اداریے میں ‘دشمن کا قبضہ’ کے عنوان سے رپورٹ کیا کہ 1971 کی جنگ میں تقریباً 30 لاکھ اموات ہوئیں اور جلد ہی بنگلہ دیش میں بڑے پیمانے پر پھیل گئی۔غیر ملکی مصنفین نے مجیب الرحمان کو جارحانہ اور اقتدار کے لیے بے چین قرار دیا۔ ان کی اور ان کی پارٹی کے ارکان نے 30 لاکھ مارے جانے والے اعداد و شمار بتائے تھے جبکہ 1971 میں اموات کی اصل تعداد ایک لاکھ تک بھی نہیں پہنچی۔30 لاکھ کے اعداد و شمار کی توثیق مجیب نے 18 جنوری 1972 کو ڈیوڈ فراسٹ (برطانوی صحافی) کے ساتھ اپنے انٹرویو میں کی تھی۔

انہوں نے زور دے کر کہا، “30 لاکھ لوگ مارے گئے، جن میں بچے، خواتین، دانشور، کسان، مزدور، طلباء شامل ہیں”۔مجیب الرحمان 30 لاکھ بنگالیوں اور 200,000 بنگالی خواتین کی عصمت دری کے افسانے کے لیے مستند ذرائع فراہم نہیں کر سکے، جب ان سے ذرائع کے بارے میں پوچھا گیا تو اس نے کہا: میرے آنے سے پہلے میرے لوگوں نے معلومات اکٹھی کرنا شروع کر دی تھیں۔ میرے پاس ان تمام علاقوں سے پیغامات آرہے ہیں جہاں میرا بیس ہے۔ ہم نے حتمی طور پر یہ نتیجہ اخذ نہیں کیا، یہ زیاددہ ہوسکتا ہے، لیکن یقینی طور پر، یہ تین ملین سے کم نہیں ہوگا۔کئی تحقیقاتی اکاؤنٹس نے عوامی لیگ کی حکومت کے ان واضح طور پر غیر تائید شدہ دعووں کو مسترد کر دیا ہے۔ یہاں تک کہ بنگلہ دیش کے قیام کے بعد عوامی لیگ کی فوری حکومت بھی 30 لاکھ کے اپنے پیدا کردہ افسانے کو ثابت کرنے میں ناکام رہی۔مجیب نے جنوری 1972 میں 30 لاکھ نسل کشی کے اعداد و شمار کو پورا کرنے کے لیے فضائی انکوائری کمیٹی بنائی لیکن ناکام رہی کیونکہ کمیٹی پچاس ہزار سے زیادہ نہیں تھی۔ اسی طرح عالمی میڈیا نے بھی تیس لاکھ کے اعداد و شمار کی تردید کی۔یا پھر یہ کہ بنگلہ دیش کو مرکز نے نظر انداز کیا / استحصال کیا؟  

مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان معاشی تفاوت ایک تاریخی میراث تھی۔ چونکہ روم ایک دن میں نہیں بنایا گیا تھا، اس لیے بنگلہ دیش کی بھارت سے ملنے والی  تاریخی معاشی محرومیوں کو مختصر عرصے میں ختم نہیں کیا جا سکتا ۔فطرت، سالانہ طوفانوں اور سیلابوں کی شکل میں، مشرقی پاکستان کے معاملے میں بھی دوستانہ نہیں تھی۔ نیز، مشرقی پاکستان میں خوراک کی فراہمی قحط سے بحال نہیں ہو سکی۔صنعت کاری، انفراسٹرکچر/ایئر لائن کی ترقی، بندرگاہوں، آئل فیلڈز/ریفائنری اور ہائیڈرو الیکٹرک پراجیکٹس وغیرہ کی کوششوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ آزادی کے بعد بنگلہ دیش کی ترقی پر بھارت کے ایجنٹوں نے جو کرتادھرتا تھے انھوں نے  خاصی توجہ نہیں  دی گئی۔ یا پھر یہ کہ بنگلہ دیش کا قیام دو قومی نظریہ کی نفی ہے؟ بنگلہ دیش کی تخلیق مذہبی خطوط پر نہیں ہوئی، یہ مختلف ثقافت/سیاسی اختلافات کی بنیاد پر ہوئی ہے – جس کا استحصال کسی ظاہری غیر ملکی ہاتھ نے کیا۔مزید یہ کہ دو قومی نظریہ کی نفی کا مطلب یہ ہوگا کہ پاکستان سے علیحدگی کے بعد بنگلہ دیش کو ہندوستان کے ساتھ الحاق کرنا پڑا جیسا کہ تقسیم سے پہلے کے دور میں تھا، جو اس نے نہیں کیا۔دو قومی نظریہ کا مطلب یہ تھا کہ ہندو اور مسلمان دو مختلف قومیں ہیں۔ پاکستان سے کامیاب ہونے کے بعد بھی بنگلہ دیش کے مسلمان خود کو ہندوؤں جیسا نہیں سمجھتے۔

دو قومی نظریہ کی حمایت میں سب سے بڑا ثبوت مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد ہندوستان میں شروع ہونے والے واقعات کا سلسلہ ہے۔ مسلمانوں پر ظلم کیا جا رہا ہے/مزید دیوار سے لگایا جا رہا ہے۔ متعدد اقدامات – آرٹیکل 370 کی منسوخی، رام مندر کی تعمیر، شہریت ترمیمی ایکٹ (CAA) / شہریوں کے لیے قومی رجسٹر (NRC) – نے ہندوستانی مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہاں تک کہ بھارت نواز کشمیری رہنما (مفتی اور عبداللہ) بھی اپنے آباؤ اجداد کے یونین آف انڈیا میں رہنے کے فیصلے پر سوال اٹھا رہے ہیں۔آر ایس ایس / زہریلے ہندوتوا نظریہ سے متاثر مودی نے دو قومی نظریہ کو کامیابی سے ثابت کیا ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح کا یہ فرمان کہ ’’جو مسلمان پاکستان کی مخالفت کر رہے ہیں وہ ساری زندگی ہندوستان سے وفاداری کا ثبوت دیتے ہوئے گزاریں۔یا پھر پاکستانیوں اور بنگالیوں کے درمیان نفرت ہے۔

پاکستانیوں میں بنگالیوں کے خلاف دشمنی کا کوئی نشان نہیں ہے۔ بے ترتیب ادب سے لے کر نصابی کتابوں تک، بنگالیوں کے خلاف کوئی مذمتی مواد نہیں ہے۔ اور مغربی پاکستان کی علیحدگی کو بڑی حد تک ایک دردناک قومی سانحہ کے طور پر یاد کیا جاتا ہے جو روح کی تلاش اور خود احتسابی کی ضمانت دیتا ہے۔علیحدگی کے بعد سے آج تک پاکستان میں کسی بھی فورم پر بنگلہ دیش کو نیچا دکھانے یا اسے نظرانداز کرنے کے لیے کوئی بدنیتی پر مبنی مہم نہیں چلائی گئی۔ بلکہ اسے برادر مسلم خودمختار ریاست سمجھا جاتا ہے۔بنگلہ دیش میں حالیہ میچوں میں پاکستانی کرکٹرز کی زبردست حمایت دونوں لوگوں کے درمیان موجودہ تعلق کی عکاسی کرتی ہے جسے دشمن قوتیں شکست دینے میں ناکام رہی ہیں۔حقیقت میں دیکھا جائے تو پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان باہمی احترام، اعتماد اور مفاد پر مبنی مفاہمت اور ہم آہنگی کو متاثر کرنے کے لیے کافی گنجائش موجود ہے۔ دونوں ممالک کے لیے بہتر ہے کہ وہ کھلے دل سے ناخوشگوار ماضی کا جائزہ لیں/ بھول جائیں اور جیو اکنامکس اور علاقائی انضمام کے ڈھلتے ہوئے دور میں مشترکہ خوشحال مستقبل کی طرف دیکھیں۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
56208

انسداد منشیات، اداروں کی تطہیر ناگزیر۔ محمد شریف شکیب

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کو بتایاگیا کہ گذشتہ 12سالوں میں منشیات کا کاروبار کرنے والوں کی 68کروڑکی جائیدادیں ضبط کی گئیں۔قائمہ کمیٹی نے برہمی کااظہارکرتے ہوئے کہاکہ اتنی مالیت تو صرف افیون کی ایک بوری کی ہوتی ہے جو حکام نے 12سا ل میں ضبط کیں ہیں،ہمارے بچے تباہ ہورہے ہیں سعودی عرب کی طرح پاکستان میں بھی منشیات فروشوں کے سر قلم کا قانون بنانے کی ضرورت ہے۔ حکام نے بتایاکہ منشیات کی سمگلنگ کونہیں روکاجاسکتا۔پاک بھارت سرحد پردونوں ممالک کی طرف سے سخت سیکورٹی انتظامات کے باوجود آ ج بھی جانوروں کی سمگلنگ ہورہی ہے۔ملک کے تمام اضلاع اور جیلوں میں منشیات کے عادی افراد کے لیے بحالی مرکز بنانا ضروری ہوگیاہے۔

کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ وزیراعظم اورچاروں وزرائے اعلیٰ سے ملاقات کرکے انہیں منشیات کے کاروبار کے خاتمے کے لئے اپنی سفارشات پیش کرے گی۔ انسداد منشیات کے وفاقی وزیر نے انکشاف کیا کہ پہلے تمام ہسپتالوں میں ایک وارڈ منشیات کے عادی افراد کے علاج اور بحالی کے لیے مختص کئے گئے تھے۔ منشیات کے عادی افراد نے ہسپتالوں کے سٹاف کوہی منشیات پر لگادیا اس وجہ سے یہ وارڈ ختم کرنے پڑے۔ انہوں نے شکوہ کیا کہ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں منشیات کے استعمال کی شکایات مل رہی ہیں لیکن تعلیمی اداروں میں اے این ایف کو جانے سے منع کردیا گیاہے۔خیبر پختونخوا حکومت نے قانون سازی کرکے صوبے میں اے این ایف کے اختیارات ختم کردیئے ہیں۔

پولیس منشیات فروشوں کے خلاف ٹارگٹ آپریشن نہیں کرتی۔چیئر مین کمیٹی نے کہاکہ منشیات فروش چھوٹے بچوں کو استعمال کرتے ہیں خود آزادپھیرتے ہوتے ہیں غریب کے بچے پکڑے جاتے ہیں۔ منشیات فروش ارب پتی بن گئے ہیں ان کو کوئی نہیں پکڑتا۔ پاکستان میں منشیات کے 20بڑے ڈیلرز پکڑکر قرار واقعی سزا دی جائے تو مسئلہ حل ہوجائے گا۔پشاور میں سڑک کنارے جھاڑیوں اور پلوں کے نیچے منشیات استعمال کرنے والوں نے اپنے مستقل ٹھکانے بنارکھے ہیں۔سرعام ہیروئن اور آئس کا استعمال کیاجارہا ہے۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ حکومت نے سڑکوں پر نشہ کرنے کی کھلی اجازت دے رکھی ہے۔

کارخانو مارکیٹ نشے کے عادی افراد کا مرکز بن چکا ہے۔ نشے کے عادی ان ہزاروں افراد کو کہاں سے منشیات سپلائی ہوتی ہیں ان بارے میں پولیس، انسداد منشیات فورس اور ایجنسیوں کو بخوبیعلم ہے۔ مگر ان پر ہاتھ ڈالنے کی کسی کو جرات نہیں ہوتی۔ عام تاثر یہی ہے کہ منشیات کے اس کاروبار میں سرکاری حکام کو روزانہ کی بنیاد پر باقاعدگی سے حصہ ملتا ہے یہی وجہ ہے کہ عوامی مطالبے اور حکومتی اعلانات کے باوجود منشیات کا دھندہ کم ہونے کی بجائے روزبروز بڑھتا جارہا ہے۔ اکثر نوجوان برے ماحول کی وجہ سے نشے کی لت میں پڑجاتے ہیں۔ کچھ لوگ اپنے گھریلوپریشانیوں کے باعث نشے میں سکون تلاش کرتے ہیں ایک بار منہ سے یہ کافر لگ جائے تو چھوٹنے کا نام نہیں لیتا۔چرس، افیون، بھنگ کے بعد ہیروئن اور اب آئس اورشیشہ کا استعمال عام ہونے لگا ہے۔

کسی دل جلے نے یہ بات مشہور کردی کہ آئس اور شیشے کے استعمال سے نیند اڑجاتی ہے کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلبا و طالبات نے شروع میں پڑھائی پر توجہ مرکوز رکھنے کے لئے نشہ استعمال کرنا شروع کیا۔ اب اس کے عادی ہوکر تعلیم ہی نہیں بلکہ دنیا و مافیہا سے بے خبر ہونے لگے ہیں اور قوم کا مستقبل داؤ پر لگ گیا ہے۔اگر منشیات کی تیاری، کاروبار اور استعمال کی روک تھام کے لئے قائم نصف درجن ادارے معاشرے سے اس لعنت کو ختم کرنے میں ناکام رہے ہیں تو ان کی تنظیم نو ضروری ہے۔کیونکہ اس برائی کو فروغ دینے میں اس کی روک تھام پر مامور اداروں کی کوتاہی کا بڑا ہاتھ ہے۔ عام تاثر یہی ہے کہ معاشرے میں 80فیصد جرائم میں پولیس والوں کا ہاتھ ہوتا ہے اسی طرح 90فیصد منشیات کے کاروبار میں بھی سرکاری اداروں کی سرپرستی حاصل ہے۔

منشیات کے کاروباراور استعمال کی روک تھام متعلقہ سرکاری اداروں کی تطہیر کے بغیر ممکن نہیں۔ قائمہ کمیٹی کی سفارش کے مطابق منشیات فروشوں کے خلاف سخت قانون سازی اب ناگزیر ہوچکی ہے۔ سعودی عرب سمیت بعض ممالک نے منشیات کے کاروبار اور استعمال پر موت کی سزا مقرر کرکے اس دھندے پر قابو پالیا ہے۔ہمارے ہاں بھی قانون سازی کے ساتھ قوانین پر عمل درآمد یقینی بنانے کے لئے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔ منشیات پر کنٹرول کا قوم کے مستقبل سے براہ راست تعلق ہے۔ اپنے مالی مفادات کے لئے قوم کا مستقبل خطرے میں ڈالنا ملک سے غداری کے زمرے میں آتا ہے اور اس کا قومی سلامتی سے بھی براہ راست تعلق بنتا ہے۔ قانون سازی کے ذریعے منشیات کی پیداوار، کاروبار، سپلائی اور استعمال کو قومی مفادات سے متصادم قرار دے کر ہی اس برائی سے قوم کو بچایا جاسکتا ہے۔ صرف حکومت اور سرکاری ادارے ہی نہیں، سول سوسائٹی، تعلیمی اداروں، محراب و منبر اور فلاحی تنظیموں کو بھی اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
56170

توانا آواز کے لیے یکجہتی درکارہے۔ تحریر: شمس الحق نوازش غذری

توانا آواز کے لیے یکجہتی درکارہے۔ تحریر: شمس الحق نوازش غذری

بابائے جمہوریت نوابزادہ نصر اللہ خان پاکستان کے آخری جینون سیاستدانوں میں سے ایک تھے۔انھیں ذوالفقار علی بھٹو سے مفتی محمود جیسے سیاست دانوں،جنرل ضیاء سے لیکر جنرل ایوب جیسے ڈکٹیٹروں کے ساتھ سیاست کے اکھاڑے میں پنجہ آزمائی کا بھرپور ملکہ حاصل تھا۔بابائے جمہوریت سیاسی حریفوں کو مذاکرات کی میز میں جب روبرو بیٹھایا کرتے تھے تو انکے قلوب میں ایک دوسرے کے لیے بغض وعناد کی چربی ایسے پگھلاکرتی تھی،جیسےگرم توے میں گھی کا ٹکیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اپ بھٹو کے جیالوں اور جنرل ضیاء کے عقیدت مندوں کے مابین بھی چٹکیوں میں محبت اور اخوت کا رشتہ قائم فرما دیتے۔اپ مذہبی پارٹیوں کے سربراہوں اور

قبائلی گروہوں کے سرداروں کو بھی کسی نہ کسی ایک نقطے پر اکھٹا کرکے انھیں اقتدار کی راہداریوں میں پہنچا کرخود وہاں سے روٹھے ہوئے بچے کی طرح واپس لوٹتے۔

گزشتہ ماہ کے دوسرے عشرے میں تحصیل گوپس کے مسلم لیگ ن کی قیادت نے  گوپس میں نواب زادہ نصر اللہ خان جیسے کردار ادا کرنے میں سُرخرو رہے۔انکی مخلصانہ کاوشوں اور کوششوں سے غذر کے مختلف سیاسی جماعتوں اور سابق آ زاد امیدواروں کو مفاہمتی ٹیبل میسر ہوا۔ روبرو بیٹھتے ہی مغلوب المزاج کے حاملین کو بھی سیاسی رنجشیں بھلا کر باہمی اخوت اور بھائی چارگی سے مضبوط رشتے میں ہی قوم کو درپیش سنگین مسائل کا حل نظر آ یا۔ دلوں میں مخفی بھیدوں کے تبادلے کے بعد جہاں اختلافی مسائل کی گھتیاں اور الجھنیں خود بخود کھلتی چلی گئیں۔وہاں احساس ندامت نے سب کے قلوب کو حقیقت شناسی کی طرف مائل کر دیا۔ دور جدید کے مختلف سیاسی جماعتوں سے وابستہ پولیٹیکل ورکرز کو دور قدیم کے قدیم روایات ” راست گوئی” اور ” سادہ سچائی” میں ملک و ملت کی کامیابی کا راز دکھنے لگا۔باہمی گفت وشنید کے بعد یہ منطق سب کے دلوں کی گہرائیوں میں اتر گئی۔ جہاں مفادات اور نقصانات مشترک ہوں۔ وہاں اختلافات کو موافقت اور مواخات پر ترجیح دینے کی روایت صرف غاروں کے مکینوں کا وطیرہ رہا ہے۔ جبکہ حاضرین اس دور میں جی رہے ہیں جس دور میں دنیا انسانی انگلی کے مرضی کی تابع ہے۔

ہر قومی اور اجتماعی ایشو سے نبردآزما ہونے کےلئے کریڈٹ کی تلاش کو مورخ مورکھ پن نہیں تو بازیچہ اطفال ضرور لکھے گا۔کیونکہ تاریخ میں انانیت کے غبارے میں منافقت کی ہوا بھرنے والوں کا بھرم ہوا سے محروم غبارے سے مختلف نہیں رہا ہے۔ طبعی طور پر یہاں کے باسی انتہائی نرم خو اور صلح جو مزاج کے حامل رہے ہیں۔حلقہ یاراں میں ریشم کی طرح نرم رویوں کا عملی مظاہرہ زندگی کا لازمی حصہ ہے۔معرکہ رزم حق و باطل میں فولادی کردار کی نقد ادائیگی کے واسطے خطہ اول میں فرائض کی انجام دہی کو زندگی کا پہلا اور آخری منشاء سمجھنے کا تصور طفل شیر خواری میں ہی سیکھایا اور سمجھا یا گیا ہے۔اگر حقیقت کا اظہار حقیقی معنوں میں تحریر ہو تو یہ جملہ لکھنے میں ہرگز باک اور آرنہیں کہ فرزندانِ وادی شہداء اپنے قول اور فعل کے اعتبار سے علامہ اقبال کے ان اشعار کی عملی تفسیر ہیں۔

ہو حلقہء یاراں تو بریشم کی طرح نرم

رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن

زمانہ الیکشن میں سیاسی اختلافات کا اظہار فطری ہے لیکن پارٹی پالیسی کے دائرہ کار میں خود کو مقید کر کے بیان کے لئے انداز مہذب  اور مخالفین کے قابلِ تنقید پالیسیوں پر نکتہ چینی کا پیمانہ مؤدبانہ رہا ہے۔ سیاسی جلسوں میں جہاں عوام کا رویّہ قابلِ تقلید ہوتا ہے وہیں سیاسی رہنما بھی قومی،علاقائی اور سماجی مسائل میں مستغرق خطے کو گرداب مسائل سے رہائی دلانے میں اجتماعی کردار کے حامی رہے ہیں۔اس قسم کی اعلیٰ ظرفی پر یہاں کے تقریباً تمام پولیٹیکل ورکرز اور سیاسی رہنما داد تحسین کے مستحق ہیں جبکہ ملک کے اکثر حصوں میں معرکہء انتخابات کے دوران حصول فتح کے خمار میں مست امید وار سکندر اعظم کے طرز اور رستم زماں کے لہجے میں انسانوں کے ہجوم سے مخاطب ہو تے ہیں۔اور صرف اپنی ذات کی کامرانی کے خواب کو عملی جامہ پہنانے کی غرض سے  سیاسی اختلافات کے حدود و قیود سے  تجاوز کر کے مخاصمت اور عداوت کی سرحد میں قدم رکھنے سے نہیں ہچکچاتے۔عین اس وقت یہاں کے امیدوار مودت اور مؤدب انداز میں ایسے بیٹھک کے لئے خوش انتظامی کا اہتمام کرنے لگ جاتے ہیں۔جس میں مافی الضمیر کے اظہار کے لئے یکسوئی سے مزین ماحول میسر ہو۔یک دلی اور اتفاق سے یک جہت آور متحد ہونا اس وقت ممکن ہے جب یکجہتی کے لئے قلوب میں مطابقت اور مزاج میں موافقت بغیر کسی دنیوی اور ذاتی نفع و ناموری کے مقصود ہو۔۔۔۔

خطے کی پسماندگی کے تناظر میں خطے کے واسطے اپنے ہاتھوں سے اپنی خواہشات کو ذبح کر نے کا جذبہ سہل نہیں۔انتخابات کے موسم میں سیاست کا جنوں میدان سیاست میں سیاسی کھلاڑیوں سے زیادہ سیاسی وابستگی رکھنے والوں پر طاری رہتا ہے۔ اکثر امیدواروں کی پرجوش سیاسی گہما گہمی انتخابی مہم کے دوران انہیں انکی اوقات سے یکسر بیگانہ کر دیتی ہے۔ حامیوں کے نعروں کے نرغے میں اپنی شان وشوکت میں اپنی قد کاٹھ سےکئی گنا زیادہ جھوٹی سچی قصیدہ گوئی مسلسل سماعت فرمانے کے بعد انکا یہ خوش فہم یقین میں بدل جاتا ہے کہ عوام میں ان کی پائے کا کوئی ہیرو تو موجود ہی نہیں سنگین کوتاہی یہ تصور کرنے لگتے ہیں کہ انہوں نے رہبری میں بڑی دیر کر دی۔اب وہ ہر قسم کی رکاوٹوں کو روند کر وہاں پہنچنے کی تگ و دو میں لگ جاتے ہیں جہاں اختیارات کا سرچشمہ اقتدار کی صورت میں ان کا منتظر ہے۔عین اس وقت احساس کی وجودیاتی گہرائی میں ڈوب کر فہم و فراست کو ناصح یا مشیر کے طور پر قبول کرنا ایسے لوگوں کے لئے ناممکنات میں سے ایک ہے۔مسائل کی فہم و ادراک انکی ذہنی جسامت کے سایے تک کو چھو نہیں سکتا۔اس وقت وہ لوگ انسانی تمناؤں کے عدو ہی تصور ہوتے ہیں۔ جو انفرادی خواہشات کی لگام کو قابو میں رکھ کر اجتماعی مفادات کےلئے سر جوڑنے کی جدوجہد کرتے ہیں۔اور حیات انسانی کے لئے بنیادی آسائشوں سے محروم خطوں اور لوگوں کے نمائندوں کو اقتدار کی راہداری تک رسائی کے لئے راہ ہموار کرنے کے واسطے کمر کستے ہیں۔

یہ لوگ حالات اور وقت کی سازگاری کے باوجود جذباتی ردعمل کے قائل نہیں۔صبروقناعت اور برداشت و سکوت کورنجشوں کی نشوونما کو روکنے کا وسیلہ سمجھتے ہیں۔ یہ کلیہ دنیاوی زندگی کی  گزربسر کو پر سکون بنانے کےلئے ضروری ہی نہیں بلکہ انتہا درجے کی مجبوری بھی ہے خصوصاً اس دور میں جہاں میڈیا ہر کس و ناکس کے فنگر کے پوروں تلے آوارہ ساز میں ناچ رہاہو۔ وہاں انسانی دل و دماغ میں اگنے والے خیالات کو چھان پھٹک کر انتہائی احتیاط سے طشت ازبام نہ کیا جائے تو انسانوں کا رویّہ دنیا کے ساتھ پیٹرول اور دیا سلائی سے مختلف نہیں ہو گا۔

۔اجتماعی مفادات کی آبیاری کی خاطر اجتماعییت کو انفرادیت پر ترجیح دینے کا درس تو ہر بقراط کے زبان سے سنتے آرہے تھے لیکن عملاً ایسے نایاب نظاروں کی زیارت ہمارے نصیب کے حصے میں لکھے ہی نہیں گئے تھے۔شاید یہ حیات انسانی کے نشیب و فراز کی باریکیوں پر باریک بینی سے نظر رکھنے والے دوراندیش منصوبہ ساز بلبل جان کی منصوبہ بندی کا نتیجہ ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یااس کی بنیادوں میںکل وقتی پولیٹیکل ورکرخان اکبر خان کی حکمت پنہان ۔۔۔۔۔۔۔۔اس کی تہ در تہ میں انتہائی سنجیدہ اور متین قانون دان نادر خان کی رہنمائی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔یا یہ علم وادب کی دنیا میں علوم عصری کی آ بیاری کے ماہر موسی مدد کی عالمانہ تجربات کا پیش خیمہ۔۔۔۔۔۔۔۔یہ فاصلے میں نمو پانے کے قائل  نباتاتیہ کے شاخوں کو اجتماعیت کے تناور درخت میں پیوند کاری کے ہنر سےمالامال شاہد اقبال کا کمال ہو یا یہ صوفی مزاج پولیٹیکل ورکر روزیمن شاہ کی شب خیزی میں گڑگڑاتے ہوئے آ ہ بکا کا ردعمل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ریٹائرڈ صوبیدار شیرتولا کی اخلاص پر مبنی کاوشوں کی مرہونِ منت ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یا یہ ان سب کی دستگیری سے ( ماضی قریب میں) دست قدرت سے فیضیاب ہونے والے سابق وزیر سیاحت فداخان کی استادی۔۔۔۔قصہ مختصر! یہ جس کسی کی بھی سوچ ہے۔۔۔۔۔۔۔جس کسی کا بھی آئیڈیا ہے۔۔۔جس کسی کا بھی نظریہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس کو میری زبان میں زبردست نہیں،کمال نہیں،ویری گڈ نہیں،بلکہ آ فرین کہتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔

آ ج پھر اس خطے کی مٹی کو کوڑی کے داموں ہتھیانے کےلئے ایسا اسکرپٹ تیار ہوا  ہے جس  کا پیش منظر اس کے پس منظر سے یکسر مختلف ہے۔۔۔۔ 164 فراخی پر مشتمل شاہراہِ کی پیمائش کا آغاز فراز سے نشیب کی طرف۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟… سیاحوں کی بہشت میں اس لنگڑاتے ہوئے عذر کے سہارے حسن وجمال سے آ راستہ آراضیات کو نیلام کرنے کا اہتمام ہورہا ہے۔۔۔۔کہ یہاں کے باسیوں کے پاس مناسب معاوضے کے عوض بقعہ خاکی بیچنے کا کوئی ثبوت موجود نہیں۔۔۔۔۔۔اس بحث سے قطع نظر کہ پھنڈر تحصیل نے ابتک خود جان نہیں پکڑی ہے۔۔۔۔۔۔ کسی خطے کے معاوضے کے لئے کیا یہ دلیل کافی نہیں۔۔۔۔۔۔۔کہ وہاں اکلوتا انڈا 25 روپیے اور کلو ڈالڈا 500 روپیے میں دستیاب ہے ۔۔۔۔۔اس قسم کے بےشمار شواہد موجود ہونے کے باوجود وہاں کے آ ارضیات کو  نیلام کرنے کا اختیار سرکاری بابوؤں کو کس نے دیا۔   لہذا وطن کی مٹی اور وطن کی ہوائیں تمہیں پکارتی ہیں۔ وطن کی مٹی کی خاطر توانا آواز کے لئے  ایک بار نہیں بار بار یکجا ہو جا ۔۔!!

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
56150

ہم تو ڈوبے ہیں صنم۔۔۔۔۔۔ قادر خان یوسف زئی کے قلم سے

تیل کی قیمتوں میں اتار چڑھائو عالمی سطح پر آنا شروع ہوگیا ہے، کرونا وبا کے بعد عالمی مارکیٹ میں تیل کی پیداوار میں کمی نے صورت حال خاصی مختلف اختیار کی اور اس کے نتائج عوام کو بھگتنا پڑرہے ہیں، اس امر کو بھی نہیں جھٹلایا جاسکتا کہ تیل کی عالمی قیمتوں میں اضافے کے بعد عالمی سطح پر قیمتوں میں کمی کا رجحان شروع ہوگیا اور نمایاں کمی کے بعد عوام کو توقع تھی کہ وہ قوت برداشت سے زیادہ خرید کے بعد تھوڑا ریلیف بھی حاصل کرسکیں گے لیکن دیکھنے میں آیا کہ عوام کو عالمی سطح پر کم ہوتی قیمتوں کا فائدہ نہیں پہنچا اور ماہرین کے خیال میں حکومت اب بھی پیٹرول پر بہت زیادہ منافع لے رہی ہے، ہماری سرکار کی یہ ’’خوبی‘‘ ہے کہ عالمی مارکیٹ میں تیل مہنگا ہوتے ہی یہاں اس کے نرخ اس طرح بڑھا دیئے جاتے ہیں جیسے گھنٹوں قبل ہی خریداری کی ہو اور کمی ہوجائے تو ریلیف کا تصور ہی بدل جاتا ہے اور اب تو یہ خواب سا بن گیا ہے کہ کوئی ایسا ریلیف ملے جو سبسڈی مافیاکو ملنے کے بجائے عوام تک پہنچ سکے۔


معاشی ماہرین آنے والے وقت پر عوام کو خبردار کررہے ہیں کہ وہ اس امر کا احساس کریں کہ ایک کڑا وقت دوبارہ ملک پر آنے والا ہے او ر اس کا نزلہ صرف غریب عوام پر ہی گرے گا۔ تیل کی قیمت بڑھنے کے ساتھ ہی مہنگائی کا ایک طوفان از خود برپا ہوجاتا ہے۔ جس قسم کی معاشی پالیسیاں اس وقت لائی جا رہی ہیں اس میں آئی ایم ایف اور بالخصوص سعودی عرب سے قرض نے بڑی بے چینی پیدا کی ہوئی ہے، متعلقہ ادارے تو بحران کا سارا بوجھ غریب اور متوسط طبقے پر منتقل کردیتے ہیں لیکن دیکھنے میں یہی آرہا ہے کہ اس کے اثرات سے کوئی بھی طبقہ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ رہا۔ آئی پی پیز سے مہنگی بجلی خریدی جارہی ہے، بتایا جاتا ہے کہ بجلی کی پیدوار کم ہو یا زیادہ، اس کے مقرر کردہ ریٹ کی وجہ سے گھریلو، تجارتی اور کمرشل صارفین متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔دوسری جانب زرعی شعبے پر بھی اس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے، حکومت کو بخوبی علم ہے کہ ٹیوب ویل بجلی سے چلتے ہیں، اضافی بوجھ پڑنے سے لامحالہ زرعی شعبے سے منسلک افراد سبزیاں اور دیگر اجناس مہنگے داموں فروخت کرنے پر مجبور ہیں اور مختلف ہاتھو ں سے ہوتی ہوئی یہ اجناس جب عام لوگوں تک پہنچتی ہیں تو ان کے نرخ یکدم آسمانوں سے بات کرنے لگتے ہیں، جب تک حکومت بادی ٔ النظر کوئی اقدامات کرتی ہے تو اربوں کھربوں روپیہ کا ٹیکہ عوام کو لگ چکا ہوتا ہے، جو مافیاکی جیبوں سے کس طرح نکالیں جائیں اس کا کوئی موثر حل بھی سامنے نہیں۔


مہنگائی کے اس سونامی میں منی بجٹ کی آمدآمد ہے اور ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق12جنوری سے قبل اس کو پارلیمنٹ میں منظور کروانا بھی ضروری ہے۔ منی بجٹ کے خدوخال بھی سامنے آچکے ہیں اور حزب اختلاف ان خدشات کا اظہار کررہی ہے کہ منی بجٹ سے مہنگائی کا بھیانک بدترین سیلاب آنے والا ہے۔ حکومت موجودہ معاشی حالات کا ذمہ دار سابقہ حکومتوں کی پالیسیوں کو قرار دینے میں مصر ہے کہ اگر ان کی ترجیحات درست سمت پر ہوتیں تو آج مملکت کو اس قسم کی گھمبیر صورت حال کا سامنا نہ ہوتا۔ حکومتی موقف اپنی جگہ لیکن عوام یہ سمجھنا چاہتی ہے کہ آخر کب تک سود کی ادائیگی کے لئے بھی حکومت کو بیرونی قرضوں پر انحصار کی پالیسی اپنا نا ہوگی۔ سعودی عرب جیسے دوست ملک کی جانب سے جن شرائط پر اس بار قرضے دیئے گئے ہیں وہ ملکی معیشت کو وقتی سہارا تو شاید دے دیں لیکن ان کی شرائط سے سمجھنا ہوگا کہ آئی ایم ایف، سعودی عرب اور دیگر مالیاتی اداروں کی جانب سے اتنی سخت شرائط ملکی تاریخ میں پہلی بار کیوں لگائی جا رہی ہیں؟۔


بلدیاتی انتخابات قریب آرہے ہیں اور قریباََ تمام سیاسی جماعتوں کی توجہ ممکنہ انتخابات پر مبذول ہو چکی، آنے والے مہینے عوام کے لئے سخت امتحان ثابت ہوں گے کہ ایک جانب معاشی صورت حال گھمبیر و گنجلگ ہے تو دوسری جانب بلدیات کے بعد قومی و صوبائی انتخابات کا دور بھی قریب پہنچ چکا ہوگا۔ انہیں ایسے وقت میں ریلیف کی توقع ہوتی ہے اور کوئی بھی برسر ِ اقتدار جماعت بھی کبھی نہیں چاہے گی کہ ان پر اضافی بوجھ نہ ڈالا جائے، لیکن سوال پھر سامنے آکھڑا ہوتا ہے کہ کیا ملکی معیشت تاریخ کے مہنگے ترین انتخابات کا بوجھ بھی ان حالات میں اٹھاسکے گی کہ 60فیصد حکومتی اخراجات کے لئے بیرون قرضوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے اور کڑی سے کڑی شرائط کو طوعاََ و کرہاََ قبول بھی کرنا پڑتا ہے۔ آنے والے دور میں حکومت جس کی بھی ہو، لیکن معیشت کی جو درگت اِس وقت بنی ہوئی ہے اُسے درست کرنے میں دانتوں تلے پسینہ اور عوام کی کمر ٹوٹ جانی ہے۔


وزیراعظم حکومتی اداروں کو اپنے انتظامی اخراجات کو کم کرنے کی کئی بار ہدایات دے چکے، حال ہی میں غیر ملکی دوروں میں کمی کرنے پر احکامات جاری کئے گئے، لیکن پھر وہی ایک سوال کہ کیا اداروں نے اپنے اخراجات حقیقی معنوں میں اتنے کم کرلئے ہیں کہ ملکی معیشت کو سہارا مل سکے اور اداروں کا بوجھ صارفین پر منتقل نہ ہو۔ ایسے کئی سوالات ہیں جن کا جواب عوام کے نزدیک اور، حزب اختلاف کے لئے کچھ اور اور حزب اقتدار کے لئے دوسرا ہے۔ حکومت کو معاشی سمت کی بحالی کے لئے عام صارفین پر بوجھ منتقل کرنے کے بجائے اشرافیہ سے ٹیکس کی وصولی پر توجہ مبذول کرنی چاہیے، لاکھوں ایسے لوگ ہیں جو ٹیکس دائرے میں نہیں اور قانونی پیچیدگیوں کا فائدہ اٹھا کر حکومت کو ٹیکس ادا نہیں کرتے، برآمدات، درآمدات، احتساب اور منی لانڈرنگ پر حکومتی اقدامات کے نتائج حوصلہ افزا اور دور رس نہیں کیونکہ پاکستان اپنی بساط کے مطابق جتنا کرسکتا ہے وہ اتنا ہی کرے گا، سب سے اہم معاملہ ٹیکس نادہندگان سے رقوم کی وصولی ہے۔ عوام تو چھوٹی سی چھوٹی اشیا ضروریہ کے لئے ٹیکس ادا کردیتے ہیں لیکن لاکھوں پُرتعیش محلات میں رہنے والے کتنا ٹیکس ادا کرتے ہیں، اس کا اندازہ خود اراکین اسمبلی کے ٹیکس گوشواروں سے لگایا جا سکتا ہے۔ جب کروڑوں روپے خرچ کرکے الیکشن میں جیتنے کے بعد ’’عوامی نمائندے‘‘ ایوانوں میں پہنچ سکتے ہیں تو ان کی جیب میں ٹیکس دینے کے لئے رقم کیوں نہیں ہوتی، اس سوال کو بھی کئی بار پوچھا جاچکا ہے لیکن جواب ندارد۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
56097