Chitral Times

بلدیاتی نمائندوں کے اختیارات کم کرنے کا کوئی قانون زیر غور نہیں۔ بیرسٹر محمد علی سیف

فیصلہ سازی اور ترقیاتی سکیموں کا اختیار بلدیاتی نمائندوں کے پاس ہی ہوگا۔ ڈی ڈی او سرکاری افسران ہوتے ہیں۔ معاون خصوصی اطلاعات

پشاور ( چترال ٹائمز رپورٹ ) وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے معاون خصوصی برائے اطلاعات و تعلقات عامہ بیرسٹر محمد علی سیف نے نئے بلدیاتی نظام میں منتخب نمائندوں سے اختیارات لے کر انتظامی افسران کو دینے کی خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسا کوئی قانون زیر غور نہیں۔ نئی ترقیاتی سکیمیں لانے اور فیصلہ سازی کے تمام اختیارات بلدیاتی نمائندوں کے پاس ہی ہوں گے۔ ہر محکمے اور ادارے میں ڈرائنگ اینڈ ڈسبرسنگ آفیسر ہمیشہ سرکاری افسر ہی ہوتا ہے۔ اپنے دفتر سے جاری ایک بیان میں بیرسٹر محمد علی سیف کا کہنا تھا کہ خیبرپختونخوا اسمبلی سے منظور شدہ لوکل گورنمنٹ ایکٹ کے تحت بنائے گئے رولز آف بزنس کا ڈرافٹ جانچ پڑتال کے لیے محکمہ قانون کو ارسال کیا گیا تھا اور تاحال یہ رولز آف بزنس صوبائی کابینہ میں غور اور منظوری کے لیے پیش نہیں کیے گئے ہیں۔

تجویز کردہ رولز آف بزنس میں ایک بھی ایسی شق موجود نہیں جس کے تحت تحصیل، سٹی، ویلیج یا نیبرہوڈ کونسل کے امور و اختیارات کو محدود یا کم کیا گیا ہو بلکہ خیبرپختونخوا حکومت کا موجودہ لوکل گورنمنٹ ترمیمی ایکٹ پہلے کے بلدیاتی نظاموں کے مقابلے میں زیادہ قانون سازی، ایگزیکٹو اور فنانشل اختیارات کا حامل قانون ہے۔ معاون خصوصی اطلاعات نے کہا کہ ہر ادارے اور محکمے میں ڈرائنگ اینڈ ڈسبرسنگ آفسر ایک سرکاری افسر ہی ہوتا ہے اور تجویز کردہ رولز آف بزنس میں بھی ڈی ڈی او انتظامی افسر ہی ہیں۔

اس سے یہ نظام مزید مضبوط اور شفاف ہوگا۔ رولز آف بزنس کا یہ مسودہ بلدیاتی انتخابات سے بہت پہلے محکمہ قانون کو ارسال کیا گیا۔ بیرسٹر محمد علی سیف نے کہا کہ بلدیاتی نمائندوں، تحصیل/ سٹی یا ویلیج و نیبرہوڈ کونسلز کے اختیارات کے کم کرنے کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں۔ خیبرپختونخوا حکومت نے حقیقتی معنوں میں اختیارات نچلی سطح پر منتقل کرنے کے بہترین بلدیاتی نظام بنایا ہے تاکہ صوبہ ترقی کرے اور عوام خوشحال ہوں۔

Posted in تازہ ترین, چترال خبریںTagged
56546

بلدیاتی آفٹر شاک ۔ تحریر۔ شہزادہ مبشرالملک

وزیر اعظم جناب عمران خان کو یہ اعزاز حاصل ہوا ہے کہ پرویز مشرف کے بعد ایک منتخب وزیراعظم نے پارلیمانی اور سیاسی رویت کو پس پشت ڈال کر اپنے انتخابی وعدے کو نبھاتے ہوے ۔۔۔ بلدیاتی انتخابات کرواءے اگرجہ یار لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہ سب کچھ۔۔۔۔ سپریم کورٹ ۔۔۔ کے سپریم ڈنڈے کے طفیل ممکن ہوا۔لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ کے پی بلدیاتی دھنگل نے خان صاحب اور اس کے خیالی دنیا کے وزرا کو بھی غفلت کی نیند سے جگا دیا ہے۔مجھ جیسے کم ظرف لکھاری مدتوں سے خان صاحب کو یہی بات سمجھانے کی ناکام کوشیش میں لگے ہوے تھے کہ عوام کے ساتھ جوڑے رہیں یہ عالمی سیاست یہ بلند وبانگ دعوے یہ غیبی مخلوقات پہ بھروسہ خزان کے پتوں کی طرح ہوا کرتے ہیں جو جھڑ جانے پہ آجاءیں تو ہوا کا ایک ہی جھونکا انہیں کہیں سے کہیں پہنچا دیتا ہے۔


حالیہ انتخابات کے نتایج ورکرز ،وزرا،مشیران، جو خان صاحب کے آگے دوزانو ہوکے اخلاقیات کا درس جو لیتے رہے اور دوسروں تک رائی کو پہاڑ بناکر شاہ سے شاباش پاتے رہے یہ اسی سیاسی گند کا پیش خیمہ ہے ۔

یہ بات ہمارے نظر نہ آنے والی مخلوقات کے لیے بھی نوشتہ دیوار ہے کہ ۔۔۔ جمہور کو جمہور سمجھ کر ڈیل کیا جاءے بدخشان سے لاءے گیے ۔۔۔ بیھڑ اور دنبے نہیں۔کءی سالوں کی جنگ جس کے سبب لاکھوں لوگ ایک اذیت ناک حالات سے دو چار ہوے ان علاقوں میں حکومت کے شروع کیے گیے اچھے اقدامات بھی عوام کے دلوں میں وہ جگہ نہ بناسکے جو اس کاحق بنتا تھا۔کرونا کی سونامی نے بھی حکومت کا منہ کالا کرنے میں اہم رول ادا کیا اور عالمی اقتصادی مشکلات کی حقیقت سے بھی نااہل مشروں اور وزرا نے لوگوں کو قایل کرنے میں روایتی نالایقی کا بار بار مظاہرہ کیے رکھے۔اءی ایم آف کے اشاروں پر آنکھیں بند کرکے عمل کرنا بھی حکومت کی مقبولیت کے گراف کو ۔۔ روشنی کی رفتار سے تیز نیچے لانے میں مدد دی مگر وزیراعظم سمیت ۔۔

خیالی اور خلاءی بھی تنزلی کے اس سفر سے بے خبر ہی رہے۔تمام تر خرابیوں کا زمہ دار نواز شریف اور زرداری کو ٹھرانے کی ۔۔۔ غزل سرائی بھی مسلسل سنانے کے بعد عوام کی کانوں کو بھلا لگنے کی بجاءے بوریت اور بے زاری کاسبب بنا رہا۔۔ نیب کی۔۔۔ فرنڈلی فاءیر۔۔۔ اور مخالفین کے لیے حقیقی احتساب کی جگہ ۔۔۔سیاسی انتقام۔۔۔ کالیبل چسپاں کیے رکھا ۔عدلتوں میں کیسوں کے التواء چکر بھی احتساب سے زیادہ سیاست کی سلامی کا ذریعہ بنا رہا جس سے لوگ اور بھی متنفر ہوئے۔


افغانستان میں طالبان کی عالمی پابندیوں،امریکہ بہادر کے ڈاگے اور غنڈہ گردہ کے باوجود بے سروسمانی کے عالم میں ایک چالیس سالہ جنگ زدہ ملک میں امن کا قیام اور تمام عالم کفر اور اللہ کے دیے ہوے نظام اسلام سے


متنفر عالم اسلام کے بزدل حکمرانوں کے مخالفت کے باوجود ۔۔۔شریعت محمدی۔۔۔ کانفاذ بھی پاکستان میں بلعموم بلوچستان اور کے پی میں بلخصوص اسلامی بیداری کا دور دوبارہ لوٹ لایا ہے۔جو آنے والے دنوں میں ایک مقبول مطالبہ بن کے گھر گھر کی آواز بن سکتی ہے۔خان صاحب کی حکومت میں مدینے کی ریاست کی باتیں تو زوروں سے ہوتی ہیں مگر رفتار ۔۔۔ کھچوے۔۔ سے بھی سست ہونے کی وجہ سے اسلام پسند عناصر جو خان صاحب کو امید کا آخری سہارہ سمجھ رہے تھے وہ بھی مایوسیوں کے اتھاگہرایوں میں دبتے جارہے ہیں۔اور خان صاحب کے دن ختم ہوتے جارہے ہیں اور کوئی نتیجہ سامنے آنے کا نام نہیں لے رہا۔

اب مولانا آرہا ہے کے نعرے کو تقویت ملتی جارہی ہے اور آنے والا کل اگر مولانا ثابت قدم رہے تو اللہ کی مدد نصرت بھی شامل حال ہوسکتی ہے اور افغانستان میں طالبان کی کامیابی ہمارے عالمی حالات کو سدھارنے کے لیے پالیسی سازوں اور خلاءیوں کو مجبور کر سکتی ہے کہ وہ حضرت مولانا کو سینے سے لگا ہی دیں حالیہ کامیابی میں بھی مجھے ۔۔۔ قربتیں نظر آرہی ہیں جو مستقبل میں ۔۔۔ تبدیلی سرکار کے لیے وقت سے پہلے ہی تبدیلی کے۔۔۔۔ آفٹر شاک۔۔۔ ثابت ہوسکتے ہیں

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
56380

بلدیاتی انتخابات کیلئے ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسرز چترال لوئر کی تقرریوں کا اعلامیہ جاری

چترال( چترال ٹائمز رپورٹ ) الیکشن کمیشن آف پاکستان نے دوسرے مرحلے کےلئےچترال سمیت صوبہ خیبرپختونخوا کے باقی ماندہ 18اضلاع میں بلدیاتی انتخابات کےانعقادکے لئے ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسرز، ریٹرننگ آفیسرز اوراسسٹنٹ ریٹرننگ آفیسرزکی تقرری کا ترمیم شدہ نیا اعلامیہ جاری کردیاہے۔ ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر چترال کے آفس سے جاری پریس ریلیز کے مطابق تحصیل کونسل چترال کے لئے شاہدحسین DDEO جبکہ دروش کے لئے حیات شاہ DMO EMA ریٹرننگ آفیسرہونگے۔ جبکہ ویلیج کونسلزکے نشستوں کے لئے ثقلین سلیم AC ہیڈکوارٹرز، فداء الکریم سیٹلمنٹ آفیسر، عبدالحقAC دروش، سردارآفتاب احمدDAO، حفیظ اللہAAC اور محمد سلیم کامل پرنسپل کوریٹرننگ آفیسرز کی ذمہ داریاں دی گئی ہیں۔ ان کی معاونت کے لئے اسسٹنٹ ریٹرننگ آفیسرز کی تقرری بھی عمل میں لائی گئی ہے۔


اسی طرح الیکشن کمیشن آف پاکستان کے نوٹیفیکیشن مصدرہ 23 نومبر 2021 کے مطابق چترال کے ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر حفیظ اللہ چمرکن، بروز، دومون، آیون-I, آیون-II, بیریر، بمبوریت اور گہریت ویلیج کونسلز/ نیبرہوڈ کونسلز کے جملہ نشستوں ( جنرل، کسان، یوتھ، لیڈی اور اقلیتی کونسلرز) کےبلدیاتی انتخابات کےانعقادکے لئے ریٹرننگ آفیسر جبکہ سمیع الرحمان ASDEO لوئر چترال اسسٹنٹ ریٹرننگ آفیسر ہوں گے۔ الیکشن کا شیڈول الیکشن کمیشن کی جانب سے تاحال جاری نہیں ہواہے۔

election schedule
Posted in تازہ ترین, چترال خبریںTagged
55258

بلدیاتی اداروں کی بحالی کی امید ۔ محمد شریف شکیب

دوسال کے طویل انتظار کے بعد بالاخر صوبے میں بلدیاتی اداروں کے قیام کی امید پیدا ہوگئی۔الیکشن کمیشن نے صوبے میں دو مراحل میں بلدیاتی انتخابات کا شیڈول جاری کردیاہے۔ پہلے مرحلے میں صوبے کے 17اضلاع میں 19دسمبر کو نیبرہڈ کونسل، ویلج کونسل اور تحصیل کونسل کے انتخابات ہوں گے دوسرے مرحلے میں صوبے کے باقی ماندہ 18اضلاع میں بلدیاتی انتخابات اور تحصیل کونسل کے چیئرمینوں کا چناؤ16جنوری کو ہوگا۔ خیبرپختونخوا حکومت نے صوبے میں 15 دسمبراور25مارچ کو دو مراحل میں بلدیاتی انتخابات کرانے کی الیکشن کمیشن کو تجویز دی تھی۔

محکمہ بلدیات خیبرپختونخوا کی جانب سے سیکرٹری الیکشن کمیشن کو لکھے گئے خط میں کہا گیاتھا کہ 15دسمبر کو نیبرہڈ اور ویلج کونسلوں کے انتخابات کرائے جائیں گے جبکہ تحصیل کونسل کے چیئرمینوں کا انتخاب25مارچ کو کیاجائے گا۔ تاہم الیکشن کمیشن نے صوبائی حکومت کی اس تجویز سے اتفاق نہیں کیا۔ سیکرٹری بلدیات نے اپنے خط میں موقف اختیار کیا تھا کہ صوبائی حکومت بلدیاتی اداروں کی مدت مکمل ہونے پر انتخابات وقت پر کرانا چاہتی تھی تاہم کورونا وبا، فاٹا انضمام، حد بندی اور مغربی سرحدوں پر امن وامان کے مسائل کے باعث بلدیاتی انتخابات کرانے میں تاخیر ہوئی۔خیبر پختونخوا میں بلدیاتی اداروں کی معیاد28اگست 2019کو ختم ہوگئی تھی۔ آبادی کے سرکاری اعداد وشمار کی اشاعت میں وقت لگنے، کورونا وبااور امن وامان کی صورت حال کے پیش نظر بلدیاتی انتخابات مسلسل التواء کا شکار رہے۔

الیکشن ایکٹ کی دفعہ (4) 219کے تحت بلدیاتی اداروں کی معیاد ختم ہونے کے بعد 120دنوں کے اندرانتخابات کا انعقادآئینی تقاضا ہے۔ صوبے میں آبادی کے اعدادوشمار 6مئی 2021کو شائع ہو چکے ہیں۔اس لئے انتخابات میں مزید تاخیرکا کوئی جواز نہیں رہتا تھا۔صوبائی حکومت کے مراسلے اورالیکشن کمیشن کے جاری کردہ شیڈول سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ بلدیاتی انتخابات دو درجاتی ہوں گے۔ شہری علاقوں میں نچلی سطح پر نیبر ہڈ کونسل اور بالائی سطح پر تحصیل اورٹاؤن کونسل ہوں گی۔جبکہ دیہی علاقوں کے بلدیاتی ادارے ویلج کونسل اور تحصیل کونسل پر مشتمل ہوں گے۔ ضلع کونسل کا تیسرا درجہ ختم کردیاگیا ہے۔ نیبرہڈ اور ویلج کونسلوں کے چیئرمین بلحاظ عہدہ تحصیل کونسلوں کے ممبران ہوں گے جبکہ تحصیل اور ٹاؤن کونسل کے چیئرمین کا انتخاب براہ راست ہوگا۔ ضلع کونسل کے خاتمے سے دفاتر، اعزازیے، ٹرانسپورٹ،بجلی، گیس، پٹرول اور دیگر مدات میں بلدیاتی اداروں کے انتظامی اخراجات میں خاطر خواہ کمی آئے گی اور یہ رقم عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ ہوسکے گی۔

بلدیاتی اداروں کی عدم موجودگی کے باعث نچلی سطح پر عوامی فلاحی منصوبے ٹھپ ہوکر رہ گئے تھے۔ جن میں سڑکوں اور نالیوں کی صفائی، پینے کے صاف پانی کی فراہمی، نکاسی آب، برتھ اور ڈیتھ سرٹیفکیٹس کا اجراء، ڈومیسائل سرٹیفکیٹ کی تصدیق، گلیوں اور نالیوں کی پختگی،بجلی و گیس کی فراہمی جیسے چھوٹے موٹے مسائل شامل ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ بلدیاتی نمائندے عام لوگوں کی پہنچ میں ہوتے ہیں وہ عوام کے دکھ درد اور غمی خوشی میں شریک رہتے ہیں۔عام لوگوں کو ایم پی ایز اور ایم این ایز تک رسائی نہیں ہوتی اور نہ ہی صوبائی وقومی اسمبلی اور سینٹ کے ممبران عام لوگوں سے رابطے میں ہوتے ہیں۔اکثر ایم این ایز اور ایم پی ایز منتخب ہونے کے بعد پانچ سال تک اپنے حلقے کا دورہ بھی نہیں کرتے ایسی صورتحال میں بلدیاتی نمائندوں کی عدم موجودگی عوام شدت سے محسوس کر رہے تھے۔

خیبر پختونخوا نے بلدیاتی انتخابات کروانے میں بھی دیگر صوبوں سے سبقت لے لی۔ حالانکہ صوبائی حکومت کے سامنے فاٹا انضمام کے بعد نئی حلقہ بندیاں کرانے اور وسائل کی کمی سمیت بہت سی رکاوٹیں تھیں۔ توقع ہے کہ خیبرپختونخوا حکومت صوبائی فنانس کمیشن کے تحت بلدیاتی اداروں کو عوامی فلاح و بہبود اور ترقی کے لئے خاطر خاطر وسائل بھی فراہم کرے گی تاکہ نچلی سطح پر عوام کے مسائل حل کرنے میں مدد مل سکے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
53959

بلدیاتی الیکشن ۔ محمد شریف شکیب

الیکشن کمیشن نے خیبر پختونخوامیں نومبر میں پہلے مرحلے کے بلدیاتی انتخابات کا انعقاد یقینی بنانے کے لئے 14اکتوبر کو اہم اجلاس طلب کرلیا ہے۔اور صوبائی حکومت کو ہدایت کی گئی ہے کہ صوبہ میں بلدیاتی انتخابات کے مرحلہ وار انعقاد کا مکمل شیڈول الیکشن کمیشن کے اجلاس میں پیش کرے تاکہ ان انتخابات کے لئے بروقت تیاریاں مکمل کی جاسکیں۔ الیکشن کمیشن نے آئندہ عام انتخابات کے لئے انتخابی فہرستوں پر نظر ثانی کا بھی فیصلہ کر لیااور عام انتخابات کے انعقاد سے قبل تمام ضروری انتظامات کی بروقت تکمیل کو بھی یقینی بنانے کا حکم دے دیا، الیکشن کمیشن نے یہ فیصلہ بھی کیا ہے کہ آئندہ عام انتخابات کے لئے نئی حلقہ بندی حکومت کی طرف سے شائع شدہ آبادی کے اعدادوشمار کو سامنے رکھ کرازسرنو کی جائے گی۔الیکشن کمیشن نے دیگر صوبائی حکومتوں کو ہدایت کی کہ الیکشن کمیشن کے تحریری فیصلے کا انتظار کئے بغیر فوری طور پر آئندہ بلدیاتی انتخابات کی مرحلہ وار ترتیب اور اضلاع کی تفصیل مہیا کی جائے۔

خیبر پختونخوا حکومت نے پہلے ہی اعلان کیاتھا کہ وہ رواں سال نومبر اور دسمبر میں مرحلہ وار بلدیاتی انتخابات کروانے کے لئے تیار ہے۔ پہلے مرحلے میں صوبے کے میدانی علاقوں میں انتخابات ہوں گے۔اگر حکومت 20نومبر کے بعد انتخابات کرانا چاہتی ہے تو حکومت کے پاس صرف ڈیڑھ مہینے کی مہلت باقی ہیں۔الیکشن شیڈول کا اعلان ہونا ہے۔ امیدواروں کو کاغذات نامزدگی جاری کئے جائیں گے۔ان کی وصولی اور جانچ پڑتال ہوگی، حتمی فہرست جاری کی جائے گی۔ امیدواروں کو انتخابی نشانات الاٹ ہوں گے اور انتخابی مہم چلانے کے لئے بھی کم از کم دو ہفتوں کی مہلت درکار ہوگی۔ اس سارے عمل کے لئے ڈیڑھ ماہ کا عرصہ بہت کم ہے۔انتخابی عمل کے علاوہ کئی دیگر عوامل کا فیصلہ بھی ہونا باقی ہے۔ ابھی تک یہ طے نہیں ہوا کہ بلدیاتی انتخابات جماعتی بنیادوں پر ہوں گے یا غیر جماعتی ہوں گے۔ بلدیاتی اداروں کی ہیئت کیا ہوگی۔

کیا ضلع کونسل کے انتخابات بھی ہوں گے یا صرف میونسپل کارپوریشن، ٹاون کونسل، تحصیل، نیبرہڈ اور ویلج کونسل کے ہی انتخابات ہوں گے۔ صوبائی حکومت کورونا کی وباء کے پیش نظر بلدیاتی انتخابات اگلے سال مارچ میں کرانا چاہتی تھی تاہم الیکشن کمیشن نے صوبائی حکومت کی تجویز سے اتفاق نہیں کیا اور انتخابات ہر صورت میں اسی سال کرانے کی ہدایت کی۔بلدیاتی اداروں کی غیر موجودگی میں نچلی سطح پر عوامی مسائل گذشتہ دو سالوں سے جوں کے توں ہیں۔جن میں گلیوں کی پختگی، نالیوں کی تعمیر، صفائی کے انتظامات، بجلی، گیس سے متعلق چھوٹے چھوٹے مسائل، اسناد کی تصدیق وغیرہ شامل ہیں۔ ان کاموں کے لئے لوگ ایم پی اے، ایم این اے اور سینیٹرز کے پیچھے جانے سے قاصر ہیں اور ان سے ملاقات بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ایک اہم قومی ضرورت ہی نہیں بلکہ ایک آئینی تقاضا بھی ہے۔

تاہم عجلت میں ادھورے اور غلط فیصلے کرنے سے بہتر ہوگا کہ بلدیاتی انتخابات نومبر کے بجائے میدانی علاقوں میں دسمبر اور پہاڑی علاقوں میں مارچ میں کرائے جائیں تاکہ اداروں اور امیدواروں کو تیاری کا مناسب موقع مل سکے۔اس عرصے میں حکومت کو بھی نئے بلدیاتی ڈھانچے کی نوک پلک درست کرنے کا بھی موقع ملے گا۔ بلدیاتی اداروں کو جمہوریت کی نرسری قرار دیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں جمہوری نظام کمزور ہونے کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہے کہ یہاں بلدیاتی انتخابات کو جمہوری حکومتوں کی سرپرستی حاصل نہیں رہی۔ غیر جمہوری حکومتوں نے بلدیاتی ادارے قائم کئے اور جمہوری حکومتیں ان کی بساط لپیٹتی رہیں۔ اگر حکومت بلدیاتی انتخابات غیر سیاسی بنیادوں پر کرانے کا اعلان کرے تو زیادہ پڑھے لکھے، قابل اور اہل لوگ بلدیاتی اداروں میں منتخب ہوکر آسکتے ہیں جس سے اس نظام کو تقویت بھی ملے گی۔اور زیادہ اہل لوگ صوبائی اور قومی سطح کی سیاست میں آئیں گے۔ جس سے جمہوریت کو استحکام حاصل ہوگا۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
53366