Chitral Times

داد بیداد ۔ پشاور کا گھنٹہ گھر۔ ڈاکٹرعنا یت اللہ فیضی

پشاور اور فیصل اباد کے گھنٹہ گھروں کو ملکی سیا ست، صحا فت اور ادب میں خا ص مقا م حا صل ہے 1962ء میں ایک لطیفہ مشہور ہوا تھا لطیفہ یہ تھا کہ آئین میں صدر کی ذات گرامی کو گھنٹہ گھر کا در جہ دیا گیا ہے جو چاروں طرف نظر آتا ہے پشاور کا گھنٹہ گھر ایسی جگہ پر ایستادہ ہے جو شہر کا دل کہلا تا ہے اس کے ایک طرف تحصیل گورکٹھڑی ہے دوسری طرف محلہ سیٹھیاں کا تاریخی مقا م ہے تیسری طرف چوک یا د گار اور مسجد مہا بت خا ن واقع ہے چوتھے سمت پر قصہ خوانی کا مشہور بازار ہے .

گھنٹہ گھر سے کریم پورہ کا مشہور بازار شروع ہوتا ہے جو ہشت نگری تک جا تا ہے گھنٹہ گھر آج سے 600سال پہلے وقت دیکھنے اور وقت معلوم کرنے کا واحد ذریعہ تھا پھر گھڑ یوں کا زما نہ آیا گھروں، دکا نوں اور مسجدوں میں گھڑیاں نصب کی گئیں، لو گوں نے جیبی گھڑیوں سے اپنی جیبوں کو سجا یا، کلا ئیوں پر ہاتھوں کی گھڑیاں آگئیں پھر زما نہ بدل گیا، مو با ئل فون آگئے تو جیبوں اور ہاتھوں کی گھڑیاں بھی فراموش کر دی گئیں پشاور کا گھنٹہ گھر اب ریفرنس اور حوالے کے طور پر زبان پر آتا ہے لو گ کہتے ہیں مینا بازار کو گھنٹہ گھر سے راستہ جا تا ہے لو گ بتاتے ہیں کہ ریتی بازار گھنٹہ گھر کے قریب واقع ہے،

لوگ کہتے ہیں تازہ مچھلی گھنٹہ گھر میں دستیاب ہے مجھے گھنٹہ گھر کی جو روایت پسند ہے وہ خدا ترسی،فیا ضی،مہمان نوازی اور سخا وت کی روایت ہے گھنٹہ گھر کے تندوروں پر غریبوں، نا داروں، مسافروں، معذوروں، یتیموں اور بیواووں کی قطاریں نظر آتی ہیں ان کو ہر شام گھنٹہ گھر، محلہ سیٹھیاں کریم پورہ ریتی بازار اور موچی لڑہ کے مخیر سوداگر اللہ کے نا م پر روٹیاں تقسیم کرتے ہیں گھنٹہ گھر کا یہ منظر دیکھنے والا ہوتا ہے اور دیکھنے والوں کو مدینہ منورہ کے شہریوں کی فیا ضی یا د آجا تی ہے مجھے پشاور کا گھنٹہ گھر کئی حوالوں سے یا د آتا ہے میرے دوست منورشاہ یہاں رہتے ہیں،

میں سات سال چوک یاد گار کی عظمت بلڈنگ میں رہا اور گھنٹہ گھر سے دودھ لے جا کر چائے بنا تا رہا گھنٹہ گھر کا دودھ مجھے رہ رہ کر یا د آتا ہے گو کہ گھنٹہ گھر نزدیک نہیں تھا پھر بھی میں دودھ کے لئے گھنٹہ گھر آجا تا تھا میرے دوست امان اللہ ریتی بازار میں رہتے تھے انہوں نے پہلے دن مجھے گھنٹہ گھر کا راستہ دکھا یا پھر یہ راستہ مجھ سے کبھی نہیں بھولا مجھے مو چی لڑہ کا بازار بھی گھنٹہ گھر کے حوالے سے یا دہے موچی لڑہ کی مسجد میں ہم جمعہ پڑھنے آتے تھے مولا نا پیر محمد چشتی یہاں اوقاف کی مسجد میں جمعہ پڑھا تے تھے نما ز اور دعا کے بعد ہمیں قھوہ پلا تے تھے .

مولا نا محمد افضل یہاں پنج وقتہ نما زوں کی اما مت کراتے تھے مر نج مرنجاں شخصیت کے ما لک تھے مو چی لڑہ کے اندر جو توں کی دکا نیں تھیں بازار کی پُشت پر قصائیوں کے تھڑوں پر چھوٹے سری پا یے خوب صورت ترتیب سے سجا ئے جا تے تھے شہرکے مشہور وکلا ء ڈاکٹر ز اور پرو فیسر اتوار کے روز بیگمات کے ساتھ اس بازار میں آکر من پسند خریداریوں کا لطف اٹھا تے تھے یہ گلی گھنٹہ گھر کی طرف نکلتی ہے چوک یاد گار اور پیپل منڈی کی طرف سے آنے کا راستہ تنگ ہے پارکنگ کی جگہ نہیں اس لئے لو گ گھنٹہ گھر سے ہو کر آتے تھے اب بھی گھنٹہ گھر کا وہی ہے چلن ہے گھنٹہ رہی ہے ہم ویسے نہیں رہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
56085

مسلم لیگ نون کے دور اقتدار میں چترال کی ترقی۔ ہندوکُش کے دامن سے چرواہے کی صدا -عبدالباقی چترالی

سابقہ فوجی صدر پرویز مشرف کے بعض فیصلوں سے ملک اور قوم کو شدید نقصان پہنچا۔ ملک دہشت گردی کا شکار ہوگیا۔کئی قیمتی جانیں جائع ہوئیں اور کئی قیمتی املاک کو نقصان پہنچا مگر پرویز مشرف چترالی عوام کے لیے کارہائے نمایان انجام دیا۔ پرویز مشرف نے اپنے اقتدار کے دوران لواری ٹنل کے لیے بھاری مقدار میں فنڈ جاری کرکے ٹنل پر کام کا آغاز کردیا۔ ٹنل پر کام شروع ہونے سے چترالی عوام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور چترالی عوام پرویز مشرف کو دعائیں دینے لگے۔ کیونکہ ٹنل کا مسلہ چترالی عوام کے لیے زندگی اور موت کا مسلہ بن چکا تھا۔

لواری ٹنل تعمیر نہ ہونے سے چترالی عوام کو سفر کے سلسلے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔خاص کر سردیوں کے موسم میں برف باری ہونے کی وجہ سے لواری ٹاپ کا زمینی راستہ بند ہونے کی وجہ سے چترال ملک کے دوسرے حصوں سے کٹ کر رہ جاتا تھا۔ صرف ہوائی جہاز کے ذریعے ملک کے دوسرے حصوں سے رابطہ ممکن ہوتا تھا۔ جہاز کا فلائٹ بھی موسم پر انحصار کرتا تھا۔ موسم صاف ہونے کی صورت میں پشاور سے چترال کے لیے روزانہ دو تا تین فلائٹ آجاتے تھے۔ موسم خراب ہونے کی صورت میں وہ بھی کینسل ہوتے تھے۔ سردیوں کے موسم میں بعض دفعہ ہفتوں اور مہینوں تک موسم خراب رہتا تھا تو اس صورت میں لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ سردیوں کے موسم میں چترال سے پشاور جانے والے کئی مسافر لواری ٹاپ میں برفانی تودوں کی زد میں آکر ہلاک ہوجاتے تھے۔ ان میں سے بعض کی لاشیں بھی نہیں ملتی تھیں اور بعض کی لاشوں کو بعد میں نکال کر دفنایا جاتا تھا۔


چترالی عوام نے ٹنل کی خوشی میں پرویز مشرف کی پارٹی کے امیدوار کو ووٹ دیکر چترال سے کامیاب کرائے جبکہ پرویز مشرف کی پارٹی ملک کے دوسرے حصوں سے سیٹ جیتنے میں کامیاب نہیں ہوئی۔ دوہزار تیرہ کے الیکشن میں چترالی عوام نے پرویز مشرف کی پارٹی کو کامیاب کرکے اپنی وفاداری کا ثبوت دیا۔ چترالی عوام ٹنل کی تعمیر کو پرویز مشرف کا کارنامہ سمجھتے ہیں۔
دوہزار آٹھ کے انتخابات میں مرکز میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوگئی تو لواری ٹنل کا کام روک کر فنڈ دوسرے جگہے منتقل کردیا گیا۔ جس کی وجہ سے چار سال تک ٹنل کاکام تاخیر کا شکار رہا۔دوہزار تیرہ کا الیکشن مسلم لیگ نون نے جیت لی اور نواز شریف صاحب وزیر آعظم منتخب ہوگئے۔

نوازشریف صاحب نے چترالی عوام کی مشکلات کومدنظر رکھتے ہوئے ٹنل کے لیے ترقیاتی فنڈ جاری کرکے دوبارہ کام کا آغاز کردیا اور سامبو کمپنی کو ٹنل کا کام جلدی مکمل کرنے کی ہدایت کی۔ وزیر آعظم نواز شریف نے ذاتی دلچسپی لے کر دو بار ٹنل کا دورہ کیا۔ اس طرح نواز شریف نے ستائیس ارب روپے کی بھاری فنڈ فراہم کرکے لواری ٹنل کو پایۂ تکمیل کو پہنچایا۔اس طرح چترالی عوام کا دیرینہ مسلہ نواز شریف صاحب کی کوششوں سے حل ہوا۔ چترال کا دوسرا بڑا مسلہ بجلی کا تھا۔ چترال کے مقامی بجلی گھر سے چترال کے بڑھتی ہوئی آبادی کی بجلی کی ضرورت پوری نہیں ہورہی تھی۔انتہائی طویل اور غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کی وجہ سے عوام کی زندگی اجیرن ہوچکی تھی۔

چترال بجلی کی شدید کمی کے باعث تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔جبکہ موجودہ اپر چترال کو ریشن پاؤرہاؤس سے بجلی فراہم ہوتی تھی لیکن ریشن بجلی گھر کی پیداواری صلاحیت کم ہونے کی وجہ سے اپر چترال کے عوام کو بھی بجلی کی شدید قلت کا سامنا تھا۔ چترال میں بجلی کی قلت کو دور کرنے کے لیے مسلم لیگ نون کی حکومت نے گولین گول پاؤر پراجیکٹ کے لیے بھاری مقدار میں فنڈ فراہم کیئے۔ اس سے پہلے پراجیکٹ کے لیے فنڈ نہ ہونے وجہ سے کام سست روی کا شکار تھا۔ اُس وقت کے ایم این اے افتخار الدین نے وزیر آعظم نواز شریف کی توجہ چترالی عوام کے مسائل کی طرف مبذول کرکے بجلی کے مسلے کو حل کرنے کے لیے بھاری مقدار میں فنڈ جاری کرادیا۔ فنڈ مہیا ہونے کی وجہ سے گولین گول پاؤر پراجیکٹ جلدی تکمیل کو پہنچا۔اُس وقت کے وزیرآعظم شاہد حاقان عباسی صاحب نے گولین گول پاؤر پراجیکٹ کا افتتاح کیااور لوئر چترال کو ضرورت کے مطابق بجلی فراہم کی گئی جبکہ اپر چترال کو بجلی فراہم نہیں کی گئی۔ اس ناانصافی کے خلاف اپر چترال کے عوام نے شدید احتجاج کرکے گولین گول بجلی گھر کی طرف جلوس کی شکل میں لانگ مارچ کیا۔

شدید سردی کے موسم میں کئی میل پیدل سفر کرکے جب احتجاجی جلوس برنِس کے مقام پر پہنچا تو وہاں موجود پولیس اور سکاؤٹس کے جوانوں نے جلوس کو آگے بڑھنے سے روک دیاتو مزید تصادم کا خطرہ پیدا ہوگیاتھا۔ اُس وقت ایم این اے افتخار الدین نے جلوس کے نمائندوں اور انتظامیہ کے ذمہ داران سے بات چیت کرکے صورت حال کو خراب ہونے سے بچالیا اور بجلی کی فراہمی کے مسلے کو جلد حل کرنے کی یقین دہانی کرنے کے بعد جلوس پُرامن طور واپس اپر چترال کی طرف روانہ ہوگیا اور پولیس کے جوان عوامی ڈنڈے کھائے بغیر سلامتی کے ساتھ چترال واپس لوٹ گئے۔ اس کے چند دن بعد حسب وعدہ اپر چترال کو بجلی فراہم کی گئی جوکہ تاحال جاری ہے۔


اس کے علاوہ بھی مسلم لیگ نون کی حکومت نے چترال کی ترقی کے لیے بڑے منصوبوں کی منظوری دی۔ ان بڑے منصوبوں میں گیس پلانٹ کے منصوبے کی تعمیر کے لیے لوئرچترال کے دو مقامات پر زمین خریدی گئی اور وزیر آعظم نواز شریف کے دورۂ چترال کے موقع پر دو سو پچاس بستروں والے بڑے ہسپتال کا اعلان کیا تھا جوکہ صوبائی حکومت اور ضلعی انتظامیہ کی نااہلی کے باعث ہسپتال کے لیے مناسب جگہے کا تعین نہ ہونے کی وجہ سے ناکام ہوا۔ اور چترال کے عوام کو اس بڑی سہولت سے محروم کردیا گیا۔ موجودہ حکومت نے مسلم لیگ نون کی حکومت میں چترال کے لیے منظورشدہ گیس پلانٹ منصوبے کو ختم کرکے چترالی عوام کے ساتھ ظلم و زیادتی کی انتہا کی جو کہ آنے والے وقتوں میں چترال میں پی ٹی آئی کی سیاست کے لیے کوئی اچھی شگون نہیں ہے۔

مسلم لیگ نون کی حکومت میں چترال کی ترقی کے لیے کئی اور منظور شدہ منصوبوں کو موجودہ حکومت نے التواء میں ڈال دیا ہے۔ان ترقیاتی منصوبوں میں چکدرہ ٹو چترال روڈ، چترال ٹو شندور روڈ، اپر چترال میں خاندان کے مقام پر بجلی کا گرڈ اسٹیشن اور کاغلشٹ کے مقام پر گیس پلانٹ کا منصوبہ شامل تھا۔ موجودہ حکومت نے ان تمام منصوبوں پر پانی پھیر دیا۔ مسلم لیگ نون حکومت چترال کے بنیادی مسائل حل کرنے کے باوجود دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات میں اس کے دونوں امیدوار سیٹ جیتنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ چترال کے دونوں سیٹوں پر مذہبی جماعتوں کے امیدوار کامیاب ہوگئے۔

مسلم لیگ کی چترال میں سیٹ ہارنے کی کئی وجوہات تھیں۔ سب سے پہلے مسلم لیگ نون کی پارٹی چترال میں غیرفعال ہونا اور منظم نہ ہونا ہے۔ دوسری بڑی وجہ سابق ایم این اے افتخارالدین اپنی سیاسی ناتجربہ کاری کی وجہ سے سیٹ جیتنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ وہ سیاست میں نووارد ہونے کی وجہ سے چترالی عوام کا مزاج اچھے طریقے سے نہیں جان سکے۔ وہ اپنے والد محترم جناب شھزادہ محی الدین صاحب کے طرز سیاست سے اختلاف رکھتے ہیں۔وہ سیاسی جوڑتوڑ اور برادریزم کو پسند نہیں کرتے۔ وہ صاف ستھری سیاست کرنا چاہتے ہیں۔ وہ گزشتہ انتخابی مہم کے دوران مسلم لیگ نون کے اقتدار میں چترال میں کیے گئے ریکارڈ ترقیاتی کاموں کو عوام کے سامنے اجاگر کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔

وہ مذہبی جماعتوں کا توڑ کرنے کی بجائے پی پی پی اور پی ٹی آئی کو اپنے راستے کا پھتر سمجھتا رہا۔ تیسری وجہ ایک ایسے امیدوار کو صوبائی کا ٹکٹ دیا گیا جو اپنے پیشے کے لحاظ سے بہت معروف اور نامور وکیل ہیں۔ وہ کافی عرصے سے سیاست میں سرگرم ہیں مگر سیاست میں وہ کسی ایک شاخ پر مستقل گھونسلہ بنا کر نہیں رہتا۔ وہ موسم کے مطابق اپنا گھونسلہ بدلتا رہتا ہے۔ کسی ایک شاخ پہ گھونسلہ بنا کر رہنا اس کو پسند نہیں۔ اس وجہ سے گزشتہ انتخابات میں اس کو عوام کی جانب سے کوئی پذیرائی نہیں ملی۔ وہ انتخابی مہم کے دوران مسلم لیگ نون کے اقتدار میں چترال میں کیے گئے ریکارڈ ترقیاتی کاموں کو عوام کے سامنے اجاگر کرنے میں ناکام رہے۔ وہ انتخابات کے موقع پر اپنے ذاتی اثر و رسوخ سے وقتی طور پر کسی پارٹی میں شامل ہوکر ٹکٹ حاصل کرکے الیکشن لڑتا ہے۔ انتخابی رزلٹ آنے کے بعد وہ سیاسی منظر سے غائب ہوجاتا ہے۔ وہ اپنے تمام خوبیوں اور قابلیت کے باوجود چترالی عوام کے مزاج سے تاحال ناآشنا ہے۔ وہ کافی عرصے سے سیاست میں ہونے کے باوجود ابھی تک چترالی عوام کا دل جیتنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ اگر ایڈوکیٹ صاحب حقیقی معنوں میں مستقبل میں سیاست کرنا چاہتے ہیں تو اپنے مصروفیات میں سے کچھ وقت نکال کر چترال کی تعمیر و ترقی اور عوامی مسائل حل کرنے کے لیے جد و جہد کرنا چاہیے۔


دوہزار اٹھارہ کے انتخابات سے پہلے نواز شریف کو اقتدار سے ہٹایا گیا اور پارٹی صدارت سے بھی برطرف کردیا گیا جس کے اثرات پارٹی پر بھی پڑے۔ مسلم لیگ نون کو توڑنے کی بھرپور کوشش کی گئی اور پارٹی قیادت کو بدنام کرنے کے لیے ہر قسم کے حربے استعمال کیے گئے۔ پارٹی رہنماؤں کو قید و بند کی سزائیں دی گئیں اور پارٹی میں پھوٹ ڈالنے کے لیے تمام حربے آزمائے گئے۔ ان سب کوششوں کے باوجود مسلم لیگ نون اب بھی قائم ہے اور فعال ہے اور آنے والے انتخابات کی تیاریوں میں مصروف ہے۔ آنے والے وقتوں میں موجودہ حکومت کی ناقص کارکردگی اور بدترین مہنگائی کی وجہ سے مسلم لیگ نون کا مستقبل روشن دکھائی سے رہا ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
56083

جائیدادوں کا خفیہ سروے ۔ محمد شریف شکیب

فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی طرف سے پشاور میں اراضی کے حوالے سے خفیہ سروے شروع کرنے کا انکشاف ہوا ہے۔سروے کے دوران ان کاروباری شخصیات اور سرکاری افسران وملازمین سمیت مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کی اراضی کے بارے میں معلومات اکھٹی کی جائیں گی۔جنہیں اب تک خفیہ رکھا گیا ہے اور ٹیکس کی ادائیگی آمدن کے تناسب سے نہیں ہورہی۔ پشاور کے علاوہ صوبے کے بڑے شہروں مردان، نوشہرہ، چارسدہ، کوہاٹ، ڈیرہ اسماعیل خان، بنوں، سوات، ہری پوراور ایبٹ آبادمیں بھی خفیہ سروے کے لئے خصوصی ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں۔یہ ٹیمیں محکمہ مال سمیت دیگر صوبائی و وفاقی محکموں کے اہلکاروں کے اثاثوں کی تفصیلات حاصل کر یں گی۔

حیات آباد، سٹی، کینٹ، ٹاؤن اور شہر کے نواحی علاقوں میں اراضی کے حوالے سے خفیہ سروے مکمل کرنے کے بعد ٹیکس نہ دینے والوں کے خلاف کاروائی کی جائیگی اور انہیں ٹیکس نیٹ میں لایا جائے گا۔ جن سرکاری اہلکاروں نے حیات آباد،گل بہار، ڈیفنس، شامی روڈ اور دیگر پوش علاقوں میں اپنے نام پر، اپنی بیگمات،بچوں، رشتہ داروں اور ملازمین کے نام پر جو جائیدادیں بنائی ہیں ان کی تفصیلات بھی حاصل کی جائیں گی۔ایف بی آر کو توقع ہے کہ خفیہ سروے کے نتیجے میں نہ صرف ہزاروں کی تعداد میں ٹیکس نادھندگان کا کھوج لگایاجائے گا۔ بلکہ غیر قانونی طریقے سے جائیدادیں بنانے والوں کے بارے میں بھی ثبوتوں کے ساتھ معلومات حاصل ہوں گی۔ ملک کی بائیس کروڑ سے زائد آبادی میں سے کم از کم دو تین کروڑ افراد پر ٹیکس لاگو ہوتاہے جن میں انکم ٹیکس، پراپرٹی ٹیکس، بزنس ٹیکس اور دیگر محاصل شامل ہیں

ملک میں ٹیکس دھندگان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے ان میں بھی اکثریت ان ٹیکس دھندگان کی ہے جن کی تنخواہوں سے پیشگی انکم ٹیکس کی کٹوتی ہوتی ہے۔ ماہانہ کروڑوں کا کاروبار کرنے والے اور خدمات کی فراہمی کے عوض لاکھوں ماہانہ کمانے والے بھی ٹیکس نہیں دیتے۔ریاست کا انتظام و انصرام ٹیکسوں کے ذریعے چلتا ہے۔ سکول، کالج، یونیورسٹیاں، ہسپتال، سڑکیں، پل،ڈیم، بجلی گھر اور تعمیر و ترقی کے منصوبے اور فلاحی سکیموں کے لئے ریاست کو وسائل درکار ہوتے ہیں جو ٹیکسوں کے ذریعے حاصل ہوتے ہیں۔اگر ٹیکس دینے کے قابل تمام لوگ اپنی قومی ذمہ داری ایمانداری، دیانت داری اور قومی خدمت کے جذب سے ادا کریں تو ملک میں ترقی کی رفتار بھی تیز ہوگی اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے سخت شرائط پر قرضے لینے کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی۔ لیکن لوگوں کی طرف سے ٹیکس نہ دینے کی بھی بہت سی وجوہات ہیں لوگوں کو اعتماد نہیں کہ ٹیکسوں کی مد میں ان سے وصول کی جانے والی رقم قومی خزانے تک پہنچے گی۔

جس دن ٹیکس جمع کرنے کا نظام شفاف ہوگا اور مڈل مین کا کردار ختم ہوجائے گا لوگ خود اپنے ذمے کے ٹیکس قومی خزانے میں جمع کرائیں گے۔بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی مثال ہی لے لیں۔ ہمارے صوبے میں چالیس فیصد بجلی چوری ہوتی ہے۔ لوگ ڈائریکٹ کنڈے لگاکر گھروں میں ائرکنڈیشنڈ چلاتے ہیں۔گھروں میں کارخانے بھی چوری کی بجلی سے چل رہے ہیں۔ گھروں کے علاوہ دکانوں، دفاتر،فارم ہاوسز، پولیٹری اور ڈیری فارمز میں بھی چوری کی بجلی استعمال ہوتی ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ علاقے کے میٹر ریڈر کو کنڈے لگانے والوں کے بارے میں علم نہ ہو۔پشاور کے بیشتر نواحی علاقوں کے جن گھروں میں بھی میٹر لگے ہوئے ہیں عصر کے بعد میٹر بند کرکے کنڈے لگائے جاتے ہیں۔سرکاری عمال کی ملی بھگت سے اس کرپشن کا بوجھ لائن لاسز کے نام پر باقاعدگی سے بل ادا کرنے والے صارفین پر ڈال دیاجاتا ہے۔ حکومت ٹیکس نیٹ بڑھانے کے ساتھ اس بات کو بھی ہرقیمت پر یقینی بنائے کہ ٹیکسوں کی رقم افراد کی جیبوں میں جانے کے بجائے قومی خزانے میں جمع ہو۔ٹیکس جمع کرنے والے اداروں کی تطہیر کے بغیر ٹیکس نیٹ بڑھانا عوام پر اضافی بوجھ لادنے کے مترادف ہوگا۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
56055

چترال کا ایک اور اعزاز -محمد علی الرحمن قاضی چترالی

الحمد للہ چترال ہمیشہ سے مردم خیز رہا ہے۔ چترال کیہونہار سپوت اپنی محنت اور قابلیت سے زندگی کے تمام شعبوں میں چترال کا نام روشن کرتے آرہے ہیں۔ جن پر چترالی عوام کو فخر ہے۔ آج بھی میں اس فرزند چترال کا تذکرہ کرنے لگا ہوں جو تمام چترال کیلئے یقینا قابل فخر ہے۔


دنین لشٹ چترال کے مشہورکاروباری اور سماجی شخصیت حاجی ظاہر خان کے فرزند ارجمند اور چیف آفیسر رحمت کبیر خان(کجو) کے داماد جناب ارشادالرحمن رحمانی بھی چترال کے ان قابل فخر سپوتوں میں سے ایک ہیں، جنہوں نے اللہ کے فضل و عنایت اور اپنی ان تھک محنت کے بل بوتے پر انتہائی کم عرصے میں ترقی کی کافی ساری منزلیں طے کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔
ارشاد الرحمن رحمانی نے بہت ہی کم عمری میں قرآن مجید فرقان حمید حفظ کرنے کی سعادت حاصل کی۔ یہاں تک کہ کم عمری کی

chitraltimes irshadur rehman rahmani daninlasht phd scholor 3

وجہ سے کئی سال تک تراویح پڑھانے کی اجازت نہیں ملی۔ اس کے بعد پاکستان کیمشہور دینی ادارہ جامعہ فریدیہ اسلام آباد میں امتیازی حیثیت سے دینی علم حاصل کی۔ اس طرح 2004 میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے شعبہ قانون اور شریعہ میں داخلہ لینے میں کامیاب ہوگیا۔ اس کے بعد اسی یونیورسٹی سے بین الاقوامی قانون میں ایل ایل ایم کی سند حاصل اور بین الاقوامی اسلامی یونورسٹی کے شعبہ قانون اور شریعہ میں لیکچرر کی حیثیت سے کام کرنا شروع کیا۔ شریعہ اینڈ لا‌ء ڈیپارٹمنٹ میں پہلا چترالی استاد ہونے کا اعزاز بھی انہیں حاصل ہے۔ 2014 میں اکسفورڈ کالج دبئی میں لیکچرر تعینات ہوئے اور ایک سال تک وہاں طلباء کا علمی پیاس بجھاتیرہے۔ 2015 کے اواخر میں پاکستان واپس آئے اور پاکستان کے مشہور ادارہ اسلامیہ کالج یونیورسٹی پشاور کے شریعہ اینڈ لاء ڈیپارٹمنٹ میں لیکچرر کے حیثیت سے پانچ سال کام کیا۔ اسی دوران سیکاس یونیورسٹی پشاور سے بھی وابستہ رہے اور اپنی قابلیت اور علمی صلاحیتوں سیطلباء کو مستفید کرتے رہے۔ اسی عرصے 2017 میں پشاور میں زلمی فٹنس جم کی بنیاد رکھی،جو پنپ کر اب ایک باعتماد ادارہ بن چکا ہے اور رحمانی صاحب اس ادارے کیچیف ایگزیکٹیو ہیں، اور رحمانی لاء چیمبر بھی قائم کیا جو لوگوں کو قانونی تعاون فراہم کرنے میں مگن ہے۔


موصوف نے تعلیمی سرگرمیوں کے ساتھ غیر نصابی میدان میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ فٹبال سے شغف رکھنے والے دوست بخوبی جانتے ہیں کہ رحمانی صاحب نے فٹبال کی دنیا میں بھی کافی کامیاب رہ چکے ہیں۔ چھ سال تک اسلامی یونیورسٹی فٹبال ٹیم کے کیپٹن رہے ہیں اور اسلامی یونیورسٹی کی تاریخ میں پہلا پاکستانی فٹبال کیپٹن بننے کا اعزاز بھی رحمانی کو حاصل ہے اور اپنی سربراہی میں ٹیم کو پورے پاکستان میں ابھارا۔ آل پاکستا ن یونیوسٹی فٹ بال ٹیم کا کپتان بھی رہ چکے ہیں۔
اللہ تعالی نے موصوف کو بے شمار صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ رحمانی صاحب آٹھ مختلف زبانوں پر عبور رکھتے ہیں جن میں بین الاقوامی زبانیں انگریزی، عربی، فارسی بھی شامل ہیں۔ موصوف چترالی، اردو، عربی اور فارسی میں شاعری بھی کرتے ہیں۔
مختصر یہ کہ موصوف نے زندگی کے مختلف شعبوں میں کسی نہ کسی طرح حصہ لیا اور ہر شعبہ میں کامیابی اپنے نام کرنے میں کامیاب رہے۔

chitraltimes irshadur rehman rahmani daninlasht phd scholor 2


ارشادالرحمان رحمانی ایک بہترین محقق اور سکالر ہیں بیسیوں تحقیقی مقالوں میں کام کیا اور اپنا لوہا منوایا ہے۔ اپنی بے پناہ قابلیت اور محنت کی بدولت حال ہی میں دو کامیابیاں حاصل کی ہیں۔


1۔ چائنا کی حکومت کی طرف سے موصوف کو بین الاقوامی قانون میں چار سال کیلئے مفت تعلیم حاصل کرنے کا موقع دیا گیا ہے۔
2۔ حال ہی میں موصوف کو (Puntland State University) PSU افریقہ کیشعبہ قانون نے اسسٹنٹ پروفیسر کی حیثیت سے تعینات کیا ہے۔ چترال کی تاریخ میں (جہاں تک مجھے معلوم ہے) شاید موصوف چترال کے وہ پہلے سپوت ہیں جو بیرون ملک کسی بڑی سرکاری یونیورسٹی میں اتنے بڑے عہدے پر فائز ہوئے ہوں۔ اللہ تعالی موصوف کیلئے مزید ترقی کی راہیں ہموار کرے۔
عجیب بات یہ ہے کہ اللہ نے موصوف کے وقت میں اتنی برکت دے رکھی ہے کہ بیک وقت پڑہتے پڑھاتے بھی ہیں کھیلتے کھلاتے بھی ہیں، تحقیق اور ریسرچ بھی کررہے ہوتے ہیں، کاروبار بھی کر رہے ہوتے ہیں، چمبر بھی چلا رہے ہوتے ہیں اور محفلوں میں مسکراہٹیں بھی بٹور رہے ہوتے ہیں۔


ایک اور عجیب بات جس سے میں بیحد متاثر ہوں، وہ یہ ہے کہ موصوف اپنی طالب علمی کے زمانے سے لیکر تادم تحریر هذا جن اساتذہ کرام کے لیکچرز سنے، یا خود بحیثیت استاذ لیکچرز دئے، وہ سب Written form میں موصوف کے پاس محفوظ ہیں جو موصوف کی علم دوستی اور تعلیم و تعلم کیساتھ بے پناہ عشق و محبت کی روشن دلیل ہے۔


اللہ سے دعا ہے کہ اللہ موصوف کو ہر قسم کے آفات و بلییات اور حاسدوں کے شر سے محفوظ رکھے اور چترال کے نام کو مزید روشن کرنے کی توفیق عطا کرے۔ آمین یا رب العالمین


محمد علی الرحمن قاضی چترالی
پی ایچ ڈی ریسرچ سکالر
یونیورسٹی آف پشاور

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
56041

شہزادہ کریم الحسینی کی یومِ ولادت – تحریر: سردار علی سردارؔ

شہزادہ کریم الحسینی 13 دسمبر 1936 ء کو اتوار کے دن سوئیٹزرلینڈ کے مشہور شہر جینوا میں پیدا ہوئے۔ جس کی ولادت پر دنیا بھر کے اسماعیلیوں نے کئی دنوں تک خوشیاں منائیں اور آپ کے دادا جان حضرت امام سلطان محمد شاہ آغاخان سویم کو مبارک بادی کے پیغامات بھیجے۔ آپ کے والدِ بزرگوار کا نام پرنس علی سلمان خان اور والدہ ماجدہ کا نام پرنسیس تاج الدولہ ہیں۔آپ کی دادی لیڈی علی شاہ  نے  آپ کا نام کریم رکھا۔

آپ کے دادا جان کو اپنے زمانے میں قدیم اور جدید علوم پرمکمل دسترس حاصل تھی۔ آپ کی خواہش تھی کہ آپ کا پوتا بھی آپ کے نقشِ قدم پر چل کر قدیم و جدید علوم میں مہارت حاصل کرے۔اس مقصد کو مدِ نظر رکھتے ہوئےآپ کو آپ کے چھوٹے بھائی پرنس امین کے ساتھ نیروبی (افریقہ)روانہ کردیا گیاجہاں آپ کی والدہ ماجدہ پرنسیس تاج الدولہ بھی آپ کے ہمراہ تھیں۔ افریقہ میں  چار سال تک آپ کی  ابتدائی مذہبی علوم کی تعلیم و تربیت کی گئی پھر نیروبی سے آپ کو دوبارہ  سوئیٹزرلینڈ لایا گیا ۔ سوئٹزرلینڈ میں برصغیر کے جید علماء کی زیرِ نگرانی میں آپ کی تربیت ہوئی۔ ان علماء میں علی گڑھ کے مشہور استاد مصطفیٰ کمال کا نام سرِ فہرست ہے جنہوں نے فارسی،عربی اور اسلامی تاریخ سے آپ کو روشناس کرایا۔

بچپن سے آپ کو تعلیم کا بہت شوق تھا اس شوق کو پورا کرنے کے لئےآپ اور آپ کے چھوٹے بھائی پرنس امین کو سوئیٹزرلینڈ کے لی روزی اسکول میں داخل کیا گیا جہاں صرف شاہی خاندان کے بچے تعلیم حاصل کرتے تھے۔آپ اپنی تعلیم کے ساتھ ساتھ مختلف کھیل اور مشاغل میں بھی حصۤہ لیتے تھے۔ ان مشاغل میں   Skating  اور گھوڑ سواری میں خاص دلچسپی رکھتے تھے۔

1953ء میں آپ کو اعلیٰ تعلیم کے لئے ہارورڈیونیورسٹی میں داخل کیا گیا جہاں آپ اسلامک اسٹیڈیز میں بہت دلچسپی لی۔ آپ نے اس یونیورسٹی میں تاریخِ اسلام ،تصوف، عربی اور فارسی زبانوں میں تعلیم حاصل کیا اور اول درجے کے طالب علم رہے۔

princ karim aga khan

آپ یونیورسٹی کی تعلیم کے دوران بہت  ہی سادہ زندگی بسر کرتے تھے اور آپ کے پاس گاڑی بھی نہیں تھی۔ آپ خود پیدل چل کر یونیورسٹی آتے تھے جبکہ آپ کے دیگر ساتھی جو عالمی شہرت یافتہ سیاست دانوں کے بچے تھے جو ہر وقت عیاشی اور عیش و عشرت سے زندگی بسر کرتے تھے مگر ان کے مقابلے میں آپ کی زندگی بہت ہی سادہ تھی اور اکثر بس پر یونیورسٹی آتے تھے اور اپنی پوری توجہ پڑھائی  میں صرف  کرتے تھے ۔ 1957ء میں آپ کو مسندِ امامت کی ذمہ داریاں بھی دی گئیں۔  آپ امامت  کی اس اہم ذمہ داری کو نبھانے کے ساتھ ساتھ اپنی تعلیم کو بھی جاری رکھا  اور 1959ء کو بی اے انرز کی ڈگری تاریخ میں حاصل کی۔

آپ کے دادا جان حضرت امام سلطان محمد شاہ  آغاخان سویم کی خواہش تھی کہ اُن کا پوتا ان کے نقشِ قدم پر چل کر عالم اسلام کے سامنے زندگی کا ایک جدید نقطہ نظر لائےاور جماعت کو دورِ جدید کے تقاضوں سے ہم اہنگ کرے۔ جیسا کہ آپ نے اپنی وصیت میں لکھا تھا  ” حالیہ سالوں میں دنیا میں بدلتے ہوئےدنیاوی حالات کے پیش نظر بڑی بڑی تبدیلیوں کی وجہ سے جن میں ایٹمی سائینس کی دریافتیں بھی شامل ہیں ہمارا یقین ہے کہ یہ شیعہ مسلم اسماعیلی جماعت کے بہترین مفاد میں ہوگا کہ ہمارا جانشین ایک نوجوان آدمی ہو جس نے حالیہ سالوں کے دوران اور جدید دور میں پرورش پائی ہو اور ہوش سنبھالاہو اور جو اپنے منصوبے میں بحیثیت امام زندگی کا ایک جدید نقطہ نظر لائے”۔   تاریخِ آئمہ اسماعیلیہ حصۃ چہارم  ص 164

شہزادہ کریم نے اپنے دادا جان کی اس وصیت کے مطابق دنیا میں سائنسی تبدیلیوں، بدلتے حالات اور مادی اثرات کے سبب جدید اور روایتی طرزِ زندگی میں جو تصادم پیدا ہوچکے تھےکے حل کے لئے جو نمونہء عمل دنیا کے سامنے رکھا  وہ یقیناََ  ایک ہمہ گیر نظریہ زندگی ہے اور جدید تقاضوں کے عین مطابق ہے۔

hh aga khan

جب آپ تحتِ امات پر جلوہ افروز ہوئے تو سب سے پہلے آپ دنیا کے مختلف ملکوں کا دورہ فرمایااور کئی ملکوں کے  سربراہوں  سے ملاقاتیں کیں اور اُن کو اپنے وژن سے اگاہ کیا ۔آپ نے معاشرے سے غربت کو ختم کرنے اور اقتصادی حالت کو بہتر بنانے کے لئے 1967 ء کو آغاخان فاؤنڈیشن کی بنیاد رکھی ۔ اس ادارے کا مقصد معاشرے سے غربت کو دور کرکے معاشی،صحتی اور اقتصادی منصوبے کو بلارنگ و نسل ، ذ ات پات پایہ تکمیل کو پہنچانا ہے۔اے کے ارایس پی اس ادارے کا ایک اہم حصۤہ ہے جو شمالی علاقہ جات اور چترال میں دہی سطح پر مختلف شعبہ ہائے زندگی میں مختلف قسم کے منصوبے چلا رہی ہے۔گویا غربت کو ختم کرنے کے لئے اے کے ار ایس پی نے گلگت اور چترال کے دور افتادہ علاقوں میں اپنی بے مثال خدمات پیش کیں ۔ زلزلہ اور سیلاب سے تباہ شدہ لوگوں کے لئے فوکسAKAH)) کی طرف سے شیلٹر اور بنیادی ضروریات کی چیزیں مہیا کرنے کا سہرا بھی AKDN  کے سر ہے ۔ یہ  AKDN کی محنت اور کاوش کا نتیجہ ہے  کہ چترال کے دور افتادہ بلائی علاقوں میں جہاں موسم سرما میں برف سے ڈھکے ہوئے پہاڑوں کی یخ بستہ ہوائیں اور سخت سردی لوگوں کو گھروں کے اندر مقید رہنے پر مجبور کرتی ہیں لیکن لوگ ایسے ناگفتہ بہ اور جان لیوا سردی میں بھی موسم گرما کی طرح جگہ جگہ بنائے گئےگرین ہاوسیز   میں فریش اور پکے ہوئے مختلف قسم کے پھل  اور سبزیان جیسے خربوزہ، شلغم، گاجر، ٹماٹر پالک وغیرہ  انہیں میسر ہیں جنہیں دیکھ کر خیالی جنت کا منظر حقیقت میں نظر آتی ہے۔

عقیل عباس جعفری  14 دسمبر 2020 ء کو کراچی میں انٹرنیٹ میں شائع ہونے والے اپنے  ایک  مضمون بعنوانِ”  آغاخان:  سرسلطان محمد شاہ سے شہزادہ کریم  تک ، اسماعیلی برادری کے خاندانِ اول کی دلچسپ تاریخ” میں رقمطراز ہیں کہ ” پرنس کریم آغاخان دنیا بھر کے لوگوں کے مالی، علمی اور صحت کے امور میں مدد کرنے کے لئے ہر وقت کمر بستہ رہتے ہیں۔ انہوں نے منصب امامت سنبھالنے کے بعد آغاخان ڈیویلپمنٹ نیٹ ورک کے نام سے  ایک ادارہ قائم کیا اور رفاہی کاموں کے ایک طویل سلسلے کا آغاز کیا جو دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں”۔

aga khan chitral visit

آپ کے اہم کارناموں میں سب سے اہم کام  کراچی میں آغاخان یونیورسٹی ہے جس کے وجود میں آنے سے اسماعیلی تشخص میں اضافہ ہوا ۔ دنیا کو یہ معلوم ہوا کہ ہزہائی نس پرنس کریم آغاخان نے اپنے آباواجداد کے نقشِ قدم پر چل کر آغاخان یونیورسٹی کی بنیاد رکھی ہے تاکہ انسانیت کو جہالت کے اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لایا جاسکے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اسلامی دنیا کی قدیم ترین یونیورسٹی جامع الازہر جو  آج بھی علم کی  روشنی کا منارہ ہے ۔ اس یونیورسٹی سے مذہبی بنیاد کو استحکام بخشا گیا اور انسانیت کو جہالت سے علم کی روشنی کی طرف لایا گیا اور یہ آئمہ اہلیبیت کا وطیرہ رہا ہے  کہ وہ بغیر کسی سیاست اور بغیر کسی  مادی منفعت کے یہ کام انجام دے رہے ہیں۔آپ کے دادا جان سر سلطان محمد شاہ آغاخان سویم نے برصغیر ہندو پاک میں علیگڑھ یونورسٹی بنانے کے لئے شب وروز ایک کرکے چندہ جمع کرنے کے لئے مہم شروع کی جس میں مولانا شوکت علی آپ کے سیکریٹری بنےجبکہ کئی دیگر نامور  شخصیات جیسے ڈاکٹر ضیالدین، سرمحمد اقبال اور مولانا شبلی نعمانی وغیرہ  آپ کے ساتھ ممبر کی حیثیت سے کام کرنے لگے۔ سرسلطان محمد شاہ آغاخان سویم نے اپنی اس وفد کو لیکر آلہ آباد  گئے اور ایک جام غفیر کے سامنے تقریر کی جس میں علیگڑھ یونیورسٹی کی اہمیت بیان کی تو بھوپال  کی رانی نے اس وقت ایک لاکھ روپے کے خطیر رقم کے عطیہ کا اعلان کیا ۔ امام نے  رانی صاحبہ کا شکریہ ان الفاظ میں ادا کیا  ” دلِ  بندہ را  زندہ کردی، دلِ اسلام را  زندہ کردی، دلِ قوم را  زندہ کردی، خدائے تعالیٰ بطفیل ِ رسول اجرش بدھد”

ترجمہ: آپ  نےمیرا دل زندہ کردیا ، آپ نے اسلام کا دل زندہ کردیا ، آپ نے اس قوم کے دل کو زندہ کردیا ۔ اللہ تعالیٰ اپنے رسول ﷺکے طفیل اس کا  اجر آپ کو دے۔      تاریخِ  آئمہ اسماعیلیہ حصۤہ چہارم ص 69

آپ کی کوششوں سے  جب علیگڑھ یونیورسٹی بنی تو برصغیر میں  علم کا ایسا چراغ روشن ہوا جو رہتی دنیا تک آنے والے انسانوں کے لئے روشنی کا پیغام دیتا رہا اور آج تک اس کے دوررس ثمرات اُمتِ مسلمہ کو مل رہی ہیں۔

prince karim aga kahn met with president of Pakistan3
PRESIDENT MAMNOON HUSSAIN AND H.H. PRINCE KARIM AGA KHAN DURING THE GUARD OF HONOUR CEREMONY AT THE AIWAN-E-SADR, ISLAMABAD ON DECEMBER 8, 2017.

ہز ہائی نس شہزادہ کریم کی ان بے شمار  خدمات کو اگر حقیقت کی نگاہ سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ ترقی کا ایک جامع تصور رکھتے ہیں۔ مختصر یہ کہ زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جہاں آپ کی خدمات شامل نہ ہو ۔گویا آپ نے امامت کا عہدہ سنبھالتے ہی اپنے مریدوں کو جو ہدایت کی تھی وہ حرف بہ حرف صحیح ثابت  ہوئی ۔ آپ نے فرمایا تھا ۔ ” ہمارے دادا جان  نے اپنی زندگی امامت اور اسلام کے لئے وقف کردی تھی۔ یہ دونوں اُن کے لئے آولین اور سب سے بلاتر تھے۔ ان کے آخیری مہینے میں جو ہم نے ان کے ساتھ گزارا  اور دوسرے کئی اوقات میں ہمیں کام کرنے کا شرف حاصل ہوا ، ان کی رہنمائی اور حکمت ہمارے لئے کافی مددگار ثابت ہوگی۔ ہم تمہاری دنیوی اور روحانی ترقی کے لئے ہرممکن کام کریں گے جیسے کہ تم ہمارے پیارے دادا جان کے دل اور خیالات میں تھے اسی طرح ہمارے دل اور خیالات میں ہوں گے”۔    تاریخِ آئمہ اسماعیلیہ جلد چہارم ص 165

ہز ہائی نس شہزادہ کریم نے اپنے اس ارشاد کے مطابق اپنی جماعت ، امتِ مسلمہ اور عالمِ انسانیت کی خدمت اور فلاح و بہبود کے لئے شب وروز محنت کررہے ہیں جس کی وجہ سے آپ آج  دنیا  میں وہ مقام حاصل کیا جس کی کوئی مثال  نہیں ملتی۔آپ کی ذ ات میں احترامِ انسانیت ، محبت،  ہم دردی ،فیاضی رحم دلی وغیرہ اخلاقی  خوبیاں بیک وقت جمع ہیں۔آپ کی دور اندیشی  اور مضبوط وژن نے یہ ثابت کیا کہ پوری دنیا میں انسانیت کی خدمت کے لئے آپ کے پاس 21 ویں صدی میں اعلیٰ اور معیاری ادارے موجود ہیں جہاں اعلیٰ تعلیم یافتہ ، ہنرمند اور تجربہ کار لیڈرشیپ ہمہ تن گوش ہوکر مصروفِ عمل ہیں اور یہ تمام لوگ آپ کی اعلیٰ قیادت کی روشنی میں انسانوں سے محبت اور ان کی زندگیوں کو آسودہ  بنانے میں اہم کردار ادا کررہے ہیں  ۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ کسی مخصوص قطعہ زمین پر تسلط نہ رکھنے کے باوجود ایسے حکمران ہیں جو اپنے پیروکاروں کے دلوں  پر حکومت  کررہے ہیں۔”گویا ہزہائینس پرنس کریم  آغاخان کی زندگی ایک کھلی ہوئی کتاب کی مانند ہے۔ اس کتاب کا ایک ایک صفحہ روشن اور ہر صفحے کا ایک ایک لفظ خدمت و بامقصد زندگی گزارنے کا پیغام دیتا ہوا محسوس ہوتا ہے”

                                            سید اصف جاہ جعفری ۔ دنیائے اسلام کا خاموش شہزادہ  ص 145

HH Aga Khan Chitral Booni visit pics 16
Posted in تازہ ترین, مضامین
56023

پس و پیش-دُھند کی بُو- اے.ایم.خان


دسمبر کا مہینہ تھا  روزانہ کی طرح  کام سے فارغ ہوکر ہوٹل کے کونے اُس چھوٹے کمرے میں بیٹھ کر چائے پی رہے تھے کہ دُھند اور اندھیرا  سا چھانے لگا۔  دن کے وقت اسطرح تاریکی تو ہو نہیں جاتا، آخر وجہ کیا ہے،  یہ کہہ کر سعد  چائے کی پیالی  میز پر رکھی۔  خادم اُس سے پہلے اپنے حصے کا چائے پی چُکا تھا اور یہ  دیکھ کر حیرت میں طاری ہو چُکا تھا۔ سعد نے جب اُسے آواز دی تو خادم کو پتا ہی نہیں چلا گوکہ دونوں ساتھ بیٹھے چائے پی رہے تھے۔ دوسری مرتبہ اُسے ہلاکر باہر جانے کی بات کی،  دونوں اُٹھ گئے اور باہر چلے گئے، تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ  ایسی دُھند اور اندھیرا چھا رہی ہے۔

پاس والے پارک کے ساتھ ایک بڑا بلڈنگ جس کے اُوپر چمنی میں اکثر دھواں نکلتا تھا چھُٹی کے علاوہ روزانہ کا معمول تھا  لیکن آج جو دُھند چھا رہی تھی وہ غیر معمولی  اس لئے تھی کہ اس دُھند سے دن کے وقت اندھیرا ہوا تھا، اور لوگوں میں کھانسی اور سانس لینے میں دشواری پیدا ہو رہی تھی۔

ہوٹل کے سامنے راستے پر کھڑے دونوں نےیہ دیکھا  کہ دوڑ کر ایک شخص روڈ پار کرکے اُن کی طرف آرہا تھا۔ اُنہیں صاف دیکھائی نہیں دے رہا تھا۔ جب قریب پہنچا تو یہ ہوٹل کا بیرہ تھا جو روازانہ اُن کو چائے لاتا تھا۔  سعد اُس کی طرف مخاطب ہوکر پوچھا۔ کہاں سے اور کیوں دوڑ کر آرہے ہیں؟ خیر تو ہے۔

بیرہ  جواب دینے کی کوشش کی لیکن بات نہ کرسکا کیونکہ اُس کا سانس پُھول رہا تھا۔ ساتھ والے میز پر سے پانی کا گلاس اُٹھایا اور ایک گُھونٹ پی کر چند سیکنڈ بعد اُس نےجواب دی، خیر ہے جہاں سے میں آرہا ہوں اس سے آگے معلوم نہیں۔

لوگوں کا رش ادھر اُدھر پھیل چُکا تھا اور وہ اُس پارک کے پیچھے بلڈنگ کی طرف جارہے تھے۔ ہر کوئی کھانس رہا تھا اور سینے پر ہاتھ رکھے جارہا تھا۔

سعد، حیرت بھری نظروں سے خادم کی طرف دیکھ کر کہا ، یار یہ کیا ہو رہا ہے مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آرہا۔ ایسی صورتحال اور کیفیت میری زندگی میں ایک بار بٹوارہ کے دوراں تھا وہ بھی ایسی ایک کیفیت تھی۔ حالانکہ اُس وقت میں ایک بچہ تھا لیکن افراتفری، دھواں، فسادات، کشت و خون وہ بھی مذہب کی بنیاد پر، اور نفرت انگیز نعرے ہوتے تھے ، آج ابھی تک یہ حالات نہیں لیکن مجھے نہیں معلوم ایسی کیفیت کیوں لگ رہی ہے۔

  آج کے دُھند میں ایک چیز نمایاں ہے وہ یہ کہ میں اسے نہ خوشبو کہہ سکتا ہوں اور نہ بدبو  جو میں نے اسے اپنے زندگی میں کبھی محسوس  نہیں کی ہے۔ اور یہ شاید “دُھند کی بُو” ہے۔

میری زندگی میں یہ دوسرا واقعہ ہے۔ ہر وہ حرکات بٹوارہ کے دوران ہو چُکے تھے  ، مجھے وہ حالات آج کی طرح یاد ہیں، آج وہی کیفیت ہے۔ وہی افراتفری، دُھند، دھواں اور نفرت انگیز نغرے ایک طرف سب سمجھ آجاتی ہیں، لیکن یہ کالی دُھند اب رفتہ رفتہ بڑھ رہی ہے۔

سعد یہ بات سُن کر کہا کہ  آج سے تقریباً چالیس سال پہلے جب  یہاں فیکٹری بننا شروع ہوئے کسی کو یہ معلوم نہیں تھا کہ اُس سے اتنی دُھند بڑھے گی اور یہ صورتحال پیدا ہوجائےگی۔ یہ کہتے ہوئے اُس کے آنکھوں پر آنسو بھر آئے تو اُس نے ہاتھ پھیرا لی کر پُونچھ لی۔

خادم نےکہا، یار کام سے ابھی باہر آگئے ہیں اتنی تھکاوٹ اور آپ نے بٹوارہ یاد دلاکر پرُانی زخم ہری کر دی۔ چھوڑو یہ سب چلو چلتے ہیں۔ یہ کہہ کر جب اُس کی طرف دیکھا تو اُس کے آنکھوں کے اُوپر نیچے اور اردگرد کالے رنگ لگے تھے۔  کیا کیا آپ نے؟ سعد نے کہا ، کچھ نہیں ۔ یہ لو میرا رومال اپنے آنکھوں کو صاف کرلو۔ وہ کیا چیز ہے جس پر آپ نے ہاتھ رکھی تھی اور آنکھوں کی یہ حالت کر دی؟

سعد ، اپنے دونوں ہاتھ خادم کی طرف کرتے ہوئے کہا، ہم چائے پی لی اور یہاں آگئے ہیں۔  وبائ کے دن ہیں  لوگوں کی طرح ہم بھی ہاتھ ملانے سے کتراتے ہیں اور ہاتھ زیادہ دھوتے ہیں لیکن یہ کیا ہوا ہے، میں بھی حیران ہوں۔ یہ کہتے ہوئے اُس نے آنکھ  صاف کرنے کے بعد رومال دوبارہ سعد کو دے دی، اور کہا،  چلو چلتے ہیں۔ دیکھتے ہیں یہ کیا ہوا ہے سارے لوگ اُسطرف جارہے ہیں، پھر وہاں سے بس اسٹینڈ میں جاکر کمرہ  واپس ہو جائیں گے۔

دونوں یہ کہہ کر روانہ ہوئے اور ساتھ لوگ بھی ہجوم کی طرح جارہے تھے۔ دُھند سے اندھیرا زیادہ ہو رہا تھا۔ لوگوں کی طرح سعد کو بھی کھانسی آئی تو خادم کی طرف دیکھا اور کہا کہ یہ کھانسی کی کیفیت مجھے بھی آگئی۔روڈ پر گاڑیوں کا رش بھی زیادہ بڑھ چُکا تھا۔

سعد اور خادم چند منٹ چلنے کے بعد اُن کو نغرے کا گونج آہستہ آہستہ سُنائی دینے لگا ۔ لوگوں کی طرح وہ بھی چلنے کا رفتار تیز کر دی۔ لوگوں کی طرح اُنہیں بھی سانس لینے میں دشواری محسوس ہورہی تھی اور  ہاتھ سینے پر رکھتے اور ہٹاتے چلنے لگے۔

 سامنے سے چند لوگ گزر گئے یہ کہتے ہوئے کہ جلدی کرو ہمارا ساتھ دو ۔ سامنے چلنے والا شخص پاس والے ایک شخص کو مخاطب کرکے کہا  کہ آپ کسطرح لوگ ہیں کہ ایک نغرہ تو لگا سکتے ہیں۔ لگاو نغرہ اور آگے چلو۔

جیسے ہی سعد اور خادم  ہجوم کے ساتھ ملے غیر ارادی طور پر  جب ایک بار وہ نغرہ لگا دی ۔۔۔ کی ایک ہی سزا، پھر وہ بند نہ کرسکے۔ دونوں زور اور جذبات سے نغرے لگاتے گئے اور بڑے ہجوم کے ساتھ مل گئے۔

اس ہجوم کے تقریباً مرکز سے دُھند اُٹھ رہی تھی اور لوگ اس کے اردگرد کھڑے ہوکر نغرہ لگا رہے تھے۔سعد اور خادم آگے چلے گئے لیکن کچھ نظر نہیں آیا۔ لوگ جذبات سے سینے پر ہاتھ رکھ کر کپکپا دینے والی آواز میں نغرہ لگا رہے تھے۔ اور سامنے لوگ یکے بعد دیگرے بیہوش ہوکر گرر ہے تھے۔ یہ سلسلہ جاری رہا اور  چند منٹ بعد دوسرے لوگوں کی طرح سعد اور خادم بھی اس ‘دُھند کی بُو’ کو برداشت نہ کرسکے اور بیہوش ہوگئے۔ ایک وقت گزرا اُن کو کچھ پتا نہیں چلا۔

کافی وقت گزرنے کے بعد سعد جوکہ خادم سے پہلے بیہوش ہو چُکا تھا اُسے ہوش آگئی، تو دیکھا سامنے وہ مجمع کہیں جا چُکا تھا اور چند لوگ وہاں موجود ہیں۔ چند اب بھی بیہوش ہیں، اُن میں سے چند کو ہوش آچُکا ہے۔ چند لوگ کھڑے ہوکر اپنے آپ کو دیکھ رہے ہیں ، اور چند ابھی اُٹھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ یہ ایک عجیب کیفیت تھی جو سعد اپنے اردگرد دیکھ رہا تھا ۔ اتنے میں اُسے اپنی حالت اور بدن یاد آئی تو چُھو کر ٹٹول لی، اور کھڑا ہونے کا فیصلہ کیا۔

وہاں موجود سارے لوگ اس دُھند کی گرد سے کالے ہوگئے تھے ۔سورج تو پہلے غروب ہوچُکی تھی اسی لئے مزید اندھیرا لگ رہا تھا۔ یہ ایک عجیب مخلوق نظر آرہے تھے۔ ہر دوسرا شخص اپنے پاس ہوش یا بے ہوش شخص سے خوف محسوس کررہا تھا۔ سعد اپنے دوست خادم، جو اب تک ہوش میں نہیں تھا،  کو دیکھ کر خوف زدہ ہوگیا اور اُس سے کچھ دور  کھسک کر بیٹھ گیا۔

سعد کے سامنے اور ادھر اُدھر لوگ نظر آرہے تھے ،دماغ میں وہ کیفیت ، اور ‘دُھند کی بُو’  آہستہ آہستہ کم ہو رہی تھی۔  اُوپر جاکر یہ دُھند چاند کی روشنی کو بھی مدہم کر چُکی تھی۔ سعد نے اپنے دوست خادم کا چہرہ دوبارہ دیکھا تو وہ کالے اور زرد رنگ کی امیزش سی بنی ایک خوفناک شکل کی عکس تھی۔ سعد نے اپنے سائیڈ پوکٹ سے رومال نکالی اور اپنے چہرے کو صاف کرکے دیکھ لیا تو رومال زنگ آلود کپڑے کی طرح ہوگیا۔

اتنے میں خادم کو ہوش آئی۔ جلدی سے اُٹھ بیٹھا اور پریشان ادھر اُدھر دیکھنے لگا۔ تذبذب کے الم میں ایک نغرہ لگا دی اور پھر خاموش ہوگیا۔ سینے پر ہاتھ رکھ دی۔ ایک ہاتھ سے اپنے بدن کو ٹٹول لی اور ایک ہاتھ زمین پر تھی۔ ہاتھ چہرے سے گزار کر آنکھوں کو صاف کر دی اور فوراً اُٹھ گیا۔ اتنے میں اُس نے سعد کو دیکھا تو پہلے ڈر گیا، اور پھر کہا، آپ بھی یہاں ہیں۔ سعد نے جواب دی ، ہاں ۔ خادم نے تعجب سے سوال کیا ، یہاں وہ ہجوم اور وہ دُھند کی بُو ۔ سعد آسمان کی طرف دیکھ کر کہا ، دُھند تو فی الحال اُوپر اُٹھ چُکا ہے اگر ہوا آجائے تو واپس ہمیں سمیٹ سکتی ہے۔

اتنے میں ہلکی ہوا چلی تو سامنے ایک چنگاری چمک کر اُوپر اُٹھی تو دونوں حیرت بھری آنکھوں سے دیکھنے ساتھ وہاں چلے گئے اُس خیال سے کہ شاید وہ بوُ ،جسے وہ نہ خوشبو اور نہ بدبُو کہہ سکتے تھے، ادھر جل کر خاکستر ہوگیا ہے۔ جب قدم آگے جاکر وہاں اُنہوں نے دیکھا تو اس میں نہ دُھند تھا نہ دھواں ، اور نہ چنگاری، وہاں کوئی چیز تھی جل کر راک ہو چُکی تھی۔

اتنے میں ہوا کی دوسری لہر چلی وہ راکھ کو بھی لے اُڑی۔ سامنے ایک ضعیف العمر شخص سعد اور خادم کی حیرت زدہ زندگی کو دیکھ کر اُنکی طرف متوجہ ہوکر کہا۔ کچھ سمجھ آیا ۔ جب دونوں نے حیرانگی سے سرہلائے تو اُس نے جواب دی “یہ عجیب کیفیت اور دُھند کی بُو جو آن سیال کُوٹ تھی” اور یہ کہہ کر وہ چلا گیا۔  

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
56025

خزانہ خالی کیسے ہے؟ – پروفیسرعبدالشکورشاہ

صبح آنکھ کھلتے ہی جب گھڑی یا موبائل پر وقت دیکھنے کے لیے نظر ڈالیں تو یاد کرنا ہم نے یہ ٹیکس ادا کر کے خریدے ہیں پھر خزانہ خالی کیسے ہے؟صبح صبح ایسے باغیانہ خیالات حکومت کو پسند نہیں اور سوئی ہوئی قوم کو تو بلکل بھی گوارہ نہیں۔ ساری قوم سو رہی ہے کیونکہ یہ قوم مہنگائی سے مر جائے گی مگر گھبرائے گی نہیں۔ بستر سے نیچے چپل پہننے کے لیے پاوں رکھا تو یا دآیا یہ ٹیکس ادا کر کے خریدی ہے۔برش کرنے کے لیے برش اورٹوتھ پیسٹ اٹھایا تو یا د آیا یہ بھی ٹیکس دے کر خریدے ہیں تو خزانہ خالی کیسے ہے؟ منہ دھونے کیلے صابن تولیہ پکڑا تو یاد آیا ارے! یہ بھی تو ہم نے ٹیکس ادا کر کے ہی خریدے ہیں، بالٹی اور مگ کی طرف بڑھا تو ٹیکس یاد آیا، باتھ روم کی ٹیب کھولی تو ٹیکس یاد آیا،گیزر کا بٹن آن کیا تو ٹیکس یاد آیا ہر چیز ٹیکس دے کر خریدتے ہیں تو خزانہ خالی کیسے ہے؟واپس کمرے میں پلٹ کر کپڑے پہننے لگا تو یاد آیا یہ بھی ٹیکس دیکر خریدے ہیں، جوتے، پالش، برش، ٹشو، آئل، کنگی، پرفیوم وغیرہ جوکہ عام استعمال کی اشیاء ہیں ہم سب ٹیکس ادا کر کے ہی خریدتے ہیں،

خزانہ تو خالی ہے تو یہ ٹیکس جاتے کہاں ہیں؟ آپ سائیکل پر جائیں، موٹر سائیکل پر، کار پر یا لوکل گاڑی میں سفر کریں آپ روزانہ ٹیکس ادا کر کے سفر کر تے ہیں۔ہوٹل سے ناشتہ کریں یا گھر پر ہر چیز ٹیکس ادا کر کے استعما ل کر تے ہیں تو خزانہ خالی کیسے ہے؟بچوں کو ٹیکس دے کر پڑھاتے، ٹیکس دے کر سکول، کالج یا یونیورسٹی جاتے،ہوٹل سے کھانا کھائیں تو پیسے ہوٹل والا کماتا، کاروبار وہ چمکاتا اور ٹیکس ہم ادا کر تے ہیں۔ ہسپتال جائیں تو ٹیکس ادا کر کے علاج کرواتے، دوائی خریدیں تو ٹیکس ادا کر کے خریدتے حتی کے ماچس کی تیلی بھی استعمال کرتے ہیں تو پہلے ٹیکس ادا کر تے ہیں تو خزانہ خالی کیسے ہے؟بازار سے کچھ بھی خریدیں تو ٹیکس دے کر گھر لاتے، سیر تفریح پر جائیں تو ٹیکس دیتے،پارک میں جائیں تو ٹیکس دیتے، گاڑی کھڑی کریں تو ٹیکس دیتے، سڑک پر سفر کریں ٹول ٹیکس دیتے مگر یہ بات سمجھ نہیں آتی یہ ٹیکس کا پیسہ جاتا کدھر ہے؟

ایک بال پن لیں، کاغذ لیں یا ربڑ، ہر چیز ہم ٹیکس ادا کر کے خریدتے ہیں۔ بجلی کا بلب جلاتے تو ٹیکس دے کر، استری کرتے تو ٹیکس دے کر،فون کرتے تو ٹیکس دیتے، میسج کرتے تو ٹیکس دے کر، چولہا جلائیں تو ٹیکس دیکر مگر ہمارے ٹیکسوں کے یہ پیسے کہاں جاتے ہیں؟ پھر بھی خزانہ خالی ہے!!ہم گاڑی ٹھیک کرواتے تو ٹیکس دیتے، بال بنواتے تو ٹیکس دیتے، پیدا ہوتے تو ٹیکس دیتے،جیتے تو ٹیکس دیتے، مرتے تو ٹیکس دیتے۔ زندگی کا کوئی ایک بھی کام یا شعبہ ایسا نہیں ہے جہاں ہم ٹیکس نہیں دیتے مگر پھر بھی خزانہ خالی ہے۔ ہم ٹیکس دے دے کر ہلکان ہو گئے اور حکومت کہتی ہم ٹیکس نہیں دیتے۔ معاملہ اتنا پیچیدہ نہیں ہے جتنا عوام کو بتایا جاتا ہے۔ دراصل عوام ٹیکس تو ہر لمحہ ہر گھڑی ہو روز ادا کرتی ہے مگر ٹیکس کے پیسے عوامی فلاح و بہبود کے بجائے بیوروکریسی، ملازمین اور سیاستدانوں کی مراعات اورعیاشیوں پر خرچ کردیے جاتے ہیں۔

ہمارے ٹیکسوں پر پلنے والے ملازمین ہمیں آنکھیں دکھاتے ہیں، ہمارے ووٹوں اور ٹیکسوں پراسمبلیوں میں پہنچنے والے سیاستدان عوامی خدمت کے بجائے عوام کو اپنا غلام سمجھتے ہیں،عوامی نمائندوں کے لیے عوامی ٹیکسوں سے مہنگی گاڑیاں اور عوام کے لیے کھٹارہ لوکل بسیں، ہمارے ٹیکسوں سے ان کے بل، تعلیم، صحت، سیروتفریح، قیام و طعام، رہائش، آسائش اور فرمائش وغیرہ سب پوری کی جاتی۔ ہمارے ٹیکسوں سے ان کے بنگلے بنتے، ہمارے ٹیکسوں سے ان کے خاندان بیرون ملک کی سیریں کرتے، ہمارے ٹیکسوں سے یہ اپنی الیکشن مہم چلاتے، ہمارے ٹیکسوں سے اپنے بینر ز بنواتے، ہمارے ٹیکسوں سے اپنے سٹیکرز بنواتے، ہمارے ٹیکسوں سے اپنی اشتہار بازی کرتے، ہمارے ٹیکسوں سے خود نیسلے کا پانی پیتے اور ہمیں گٹر ملاپانی پلاتے، ہمارے ٹیکسوں سے یہ اپنے کتوں کو گوشت کھلاتے اور غریب آدمی کو روکھی روٹی سے بھی محروم کر رکھتے۔ ٹیکس دیتے دیتے غریب کے تن سے کپڑا اتر گیا، آنکھوں میں ہلکے پڑھ گئے، کمر جھک گی، گھٹنے جواب دے گئے، ہڈیوں کا ڈھانچہ بن گیا، گردے بیچ دیے، بچے پھینک دیے، گھر بیچ دیے، جسم بیچ دیا، خون بیچ دیا غریب لٹ گیا مٹ گیا مگر ان کی حوس ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی۔ ہمارے ٹیکسوں سے یہ تمام مراعات لیتے، ہمارے ٹیکسوں سے یہ اپنی تنخواہوں میں من مانا اضافہ کرتے۔

غیر ہنر مند کی تنخواہ چند ہزار مقرر کرنے والے سیاستدان عوام کو یہ بتانا پسند کریں گے ان کے پاس کونسا ہنر ہے اور یہ اتنی بھاری تنخواہیں او ر مراعات کس ہنر کی لیتے ہیں؟اعلی فوجی و سول افسران آدھی زندگی عوامی ٹیکسوں سے تنخواہیں اور ریٹائر منٹ کے بعدبھاری پنشن لیتے مگر عوام کی خدمت کے بجائے بعد از ریٹائرمنٹ سول عہدوں پر قابض ہو کر سولین کی حق تلفی کرتے۔ سرکاری ملازم جو عوام کے ٹیکسوں سے اپنا اور اپنے خاندان کا پیٹ پالتے،عوام کی خدمت کے بجائے عوام پر ظلم کے پہاڑ توڑتے، بزرگوں کو فائلوں میں دفن کر دیتے، نوجوانوں کو دفتروں کے چکر لگوا لگوا کر بورڑھا کر دیتے، خواتین کو گھنٹوں انتظار کرواتے۔ ہر حکومت مہنگائی کی وجہ دوسری حکومت کو قرار دیتے ہوئے عوام پر ایک جانب مہنگائی کے پہاڑ گراتی ہے جبکہ دوسری جانب ٹیکس پر ٹیکس لگاتی ہے مگر عوام کے لیے کوئی سہولت فراہم کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔

مانا مہنگائی بہت ہے تو وزیروں پر ٹیکس بڑھا دیں، مشیروں پر ٹیکس بڑھا دیں، بیوروکریسی کی مراعات ختم کردیں، افسران کے ٹی اے ڈی اے ختم کردیں، ان کے الاونسسسز بند کر دیں یا کارکردگی کے ساتھ مشروط کر دیں،عوامی ٹیکسوں پر ضیافتیں ختم کر دیں، عوامی ٹیکسوں سے خریدی گئی سرکاری گاڑیوں کا ذاتی استعمال بند کر دیں، عوامی محافظوں کو اپنے باڈی گارڈ لگانا بند کر دیں،بجلی کے مفت یونٹ ختم کر دیں، مفت علاج، سفر، مواصلات نقل و حمل بند کر دیں، اعلی افسران کی تنخواہیں کم کر دیں، ایم این ایز اور ایم پی ایز جو عوامی نمائندگی کا راگ الاپتے نہیں تھکتے وہ تنخواہ لینا بند کر دیں وہ کون سے غرباء و مساکین میں سے ہیں۔ عوامی ٹیکسوں سے سرکاری اشتہار بازی بند کر دیں تو مہنگائی خود بخود کم ہو جائے گی۔یہ وزراء، مشیران اور افسران غریب عوام کے خون پہ پلنے والے پسوں ہیں ادھر سے چھلانگ لگائی تو ادھر سے پی لیا ادھر سے چھلانگ لگائی تو ادھر سے پی لیا۔

ان کے لیے نہ تو کوئی قانون ہے اور نہ ضابطہ، نہ اصول، نہ شرم و حیا، نہ خوف خدا ہے اور نہ ہی ضمیر کی جنبش۔ یہ انسانی جسم میں پتھر دل اور انسانی کھوپڑی میں حوس اور لالچ لیے پھرتے ہیں۔ ہم ہر چیز خریدنے سے پہلے اس لیے ٹیکس دیتے ہیں کہ ہمارے خون پسینے کی کمائی پہ امیر، وزیر مشیر، جاگیرداری، وڈیرے، بیوروکریٹ، افسر شاہی اور سیاستدانوں کی آل اولاد عیاشیاں کریں؟خزانہ خالی کی منطق دینے والے سیاستدان اگر ملک کے خیر خواہ ہیں تو اپنا پیسہ بیرون ملک سے لاکر پاکستان کے خزانے میں جمع کیوں نہیں کرواتے؟ ہم تو ہر دم، ہر پل، ہر گھڑی،ہر روز، ہر دن، ہر ہفتے، ہر مہینے اور ہر سال ٹیکس دیتے ہیں اور یہ نسل در نسل ہمارے ٹیکسوں پر پلتے ہیں اور عوام کو الو بناتے ہیں۔

اگر پھر بھی خزانہ خالی ہے تو ہمیں بتایا جائے ہمارے ٹیکسوں کا پیسہ جاتا کہاں ہے؟حکومت عوامی ٹیکسوں سے تمام محکمہ جات اور سیاستدانوں کو تو باقاعدہ سے نوازتی ہے مگر جو عوام ہر چیز ٹیکس دے کر استعمال کر تی ہے اس کی فکر ہی نہیں ہے۔عوام رو رہی ہے، حکومت سو رہی ہے۔یہ بات ذہن نشین کر لیں امیر ہو یا غریب، وزیر ہو یا مشیر، صغیر ہو یا کبیر، فقیر ہو یا بادشاہ سب کی قبر دوگز کی ہو گی، سب کا کفن سفید ہو گا، سب کے اوپر منوں مٹی ڈالی جائے گی، سب خالی ہاتھ جائیں گے۔ اپنی قبر میں مرنے سے پہلے آگ نہ جلائیں، بچھو نہ پالیں، سانپوں کے بل نہ بنائیں، بلکہ اس عوام پرترس کھائیں تاکہ سکون سے آخری سانسیں لینی نصیب ہوں۔ جو خلق خدا سے بھلا نہیں کر تااس کے ساتھ ’تھا‘ لگ جاتا ہے اور نشان عبرت بن جاتا ہے۔  

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
56007

جمہوری انخطاط پر مہر تصدیق۔انتخابات میں عام لوگوں کی عدم دلچسپی۔محمد شریف شکیب

قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 133 لاہور کے ضمنی اانتخابات میں مسلم لیگ ن کی امیدوار شائستہ پرویز ملک نے کامیابی حاصل کرلی۔ انہوں نے پیپلز پارٹی کے امیدوار اسلم گل کو 14498ووٹوں کی اکثریت سے شکست دیدی۔ ضمنی انتخابات میں کامیابی کو مسلم لیگ نے اپنی مقبولیت پر مہر تصدیق قرار دیا تو دوسری طرف پیپلز پارٹی بھی شکست کے باوجود جشن منارہی ہے کہ پچھلے الیکشن میں انہیں پانچ ہزار ووٹ ملے تھے اب ان کے ووٹرز کی تعداد 30ہزار سے تجاوز کر گئی ہے جو پنجاب میں پی پی پی کی مقبولیت کا ثبوت ہے۔مسلم لیگ کے رہنما پرویز ملک کے انتقال سے خالی ہونے والی نشست پر ہونے والے ضمنی انتخاب میں تحریک انصاف اپنے نامزد امیدوارجمشید اقبال چیمہ کے کاغذات نامزدگی مسترد ہونے پر پہلے ہی مقابلے کی دوڑ سے باہر ہو چکی تھی۔

اس حلقے میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 4 لاکھ 40 ہزار 85 ہے جن میں 2 لاکھ 33 ہزار 558 مرد اور 2 لاکھ 6 ہزار 927 خواتین ووٹرز شامل ہیں۔اس حلقے کے ضمنی انتخابات میں ٹرن آؤٹ 18.89فیصد رہا۔ جبکہ 2018کے عام انتخابات میں یہاں ٹرن آؤٹ 51.89فیصد رہا تھا۔ انتخابات میں کامیاب ہونے والی شائستہ پرویز ملک کو ان کے شوہر کی وفات کے باعث ہمدردی کے ووٹ بھی ملے ہیں۔ چار لاکھ چالیس ہزار ووٹوں میں سے جیتنے والے امیدوار کے حق میں 46ہزار 811ووٹ آئے جو مجموعی ووٹوں کا ایک چوتھائی سے بھی کم ہے۔ پرویز ملک مرحوم نے اس حلقے سے 89ہزار 699ووٹ حاصل کئے تھے۔

ان کی اہلیہ ہمدردی کے ووٹ ملنے کے باوجود ان سے آدھے ووٹ بھی نہیں لے سکی۔ یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ عام انتخابات کے مقابلے میں تمام جمہوری ملکوں میں ضمنی انتخابات کے موقع پر کم ووٹ پڑتے ہیں۔تاہم ہمارے ہاں ووٹ پول کرنے کی شرح مسلسل گر رہی ہے۔ عام انتخابات میں بھی مجموعی طور پر 42فیصد ووٹ پول ہوئے اور پول شدہ ووٹوں میں سے 22فیصد حکمران جماعت کو ملے گویا 78فیصد لوگوں پر 22فیصد حکمرانی کررہے ہیں۔ جن ملکوں میں جمہوریت مستحکم ہے وہاں پچاس فیصد سے کم ٹرن آؤٹ کی صورت میں دوبارہ پولنگ کرائی جاتی ہے۔ انتخابات میں عام لوگوں کی عدم دلچسپی ہمارے سیاست دانوں اور پارلیمانی جمہوری نظام کے داعیوں لئے لمحہ فکریہ ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ جمہوری نظام دنیا میں مروج نظام ہائے حکومت میں سب سے بہترین نظام ہے مگر اس نظام کی خوبیاں سوئزرلینڈ، برطانیہ، فرانس، امریکہ اور دیگر مستحکم جمہوری ملکوں میں دیکھنے کو ملتی ہیں ہمارے ہاں کا جمہوری نظام ان کا چربہ ہے۔ اور چونکہ موجودہ جمہوری نظام سے عوام کو ریلیف نہیں مل رہا اس وجہ سے لوگ اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ عام لوگوں کا خیال ہے کہ ان کے ووٹ سے کوئی تبدیلی آنے والی نہیں۔

تمام انتخابات پہلے سے طے شدہ ہوتے ہیں اس لئے ان کا ووٹ دینا اور نہ دینا برابر ہے۔ ووٹرز کا یہ بھی کہنا ہے کہ جن سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت نہیں ہے وہ ملک میں کیا جمہوریت لائیں گی۔یہاں سیاست کو خدمت کا ذریعہ نہیں بلکہ کاروبار سمجھا جاتا ہے۔ پانچ دس کروڑ انتخابات میں لگاکر آٹھ دس ارب روپے کمائے جاتے ہیں۔تقریباً90فیصد سیاسی جماعتوں کی قیادت موروثی ہے۔ باپ کے بعد ماں، پھر بیٹا یا بیٹی، اس کے بعد پوتا، نواسا اور پڑپوتا پارٹی قیادت سنبھالتے ہیں تمام سیاسی جماعتیں چند خاندانوں کے گرد گھومتی ہیں۔جمہوری اور انتخابی عمل میں عوام کی عدم دلچسپی ملکی سیاست اور جمہوریت کے لئے انتہائی خطرناک ہے۔ اگر ملک کی سیاسی جماعتیں جمہوریت اور سیاست پر لوگوں کا اعتماد بحال کرنا چاہتی ہیں تو انہیں مل بیٹھ کر کوئی میثاق جمہوریت مرتب کرنا ہوگا۔

Posted in تازہ ترین, مضامین
56005

داد بیداد ۔ قاری شبیراحمد نقشبندی۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

قاری شبیراحمد نقشبندی کا شما ر خیبر پختونخوا کے نا مور علما ء و مشائخ میں ہوتا ہے آپ پیر ذولفقار احمد نقشبندی کے خلیفہ مجا ز اور قاسم بنو ی نقشبندی کے پیر بھا ئی تھے ان کا تعلق چترال میں اخونزاد گان کے خا ندان سے تھا اس خاندان میں ما ضی قریب کے علماء میں مو لا نا محمد یو سف فاضل دیو بند اور مو لا نا محمد علی نما یاں بز ر گوں میں شا مل رہے ہیں آپ کے والد گرا می حا فظ علیم احمد عرف عام میں اخو ند کہلا تے تھے، شا ہی قلعہ کی اندرونی مسجد کے اما م تھے بعد میں آپ کو قلعہ سے متصل شا ہی مسجد کی اما مت پر فائز کیا گیا، والد گرا می کی زند گی میں ہی قا ری شبیر احمد نقشبندی اس منصب پر فائز ہوئے ساتھ ساتھ شا ہی جا مع مسجد کے ساتھ ملحق دار لعلوم اسلا میہ میں قرات اور حفظ پڑھا تے تھے اور مجلس ذکر بھی منعقد کر تے تھے جس میں دور دور سے آپ کے مرید شریک ہوا کر تے تھے۔

انتقال


قاری شبیر احمد نقشبندی نے ابتدائی تعلیم گھر پر حا صل کی سٹیٹ ہا ئی سکول چترال میں آٹھ سال زیر تعلیم رہے اس کے بعد لا ہور چھا ونی کے مدرسہ تجویدالقرآن میں استاذ القراء قاری احمد الدین کے سامنے زانو ئے تلمذ تہہ کیا حفظ و قراء ت کی تکمیل کی اور روحا نی فیوض و بر کات کے لئے مو لا نا فضل علی نقشبندی ؒکے خلیفہ مجا ز حضرت مو لا نا محمد مستجا ب نقشبندی ؒکے دست حق پر ست پر بیعت کی آپ مو لا نا عبد الغفور مدنی ؒ کے پیر بھا ئی تھے اور بلا د اسلا میہ میں شہر ت رکھتے تھے مولا نا محمد مستجا ب ؒ کی وفات کے بعد پیر ذولفقار احمد نقشبندی کے سلسلہ ارادت میں منسلک ہوئے اور خر قہ خلا فت سے نواز ے گئے قاری شبیر صاحب کو ان کی مخصوص عادات کی وجہ سے ہر طبقہ خیال میں مقبو لیت حا صل تھی آپ ہنس مکھ اور ہشاش بشاش مزاج رکھتے تھے لو گوں کے غم میں شریک ہوتے تھے خو شی میں سب کو دعا دیتے تھے.

ادیبوں، شاعروں اور صحا فیوں سے ملتے تو ہلکی پھلکی گفتگو میں ادبی چٹکلے اور لطیفے بھی سنا تے آپ کے معمو لا ت میں صوم داودی اہم معمول تھا رمضا ن المبارک میں اکثر اعتکاف کے لئے بیت اللہ شریف کا انتخا ب کر تے پچھلے دو سالوں میں کورونا کی وجہ سے عمرہ کی سعادت حا صل نہ ہوئی تو شاہی جا مع مسجد میں مہینہ بھر کا اعتکا ف کیا آپ کم گو تھے مگر پُر گو تھے مجلس ذکر کے آغاز پر مختصر خطاب میں دنیا کی بے ثبا تی کا ذکر کر کے فکر آخرت کی دعوت دیتے، اخلا ص اور عمل دونوں کو لا زم و ملزوم گردانتے اور معمو لات کی پا بندی پر زور دیتے تھے آپ کی وفات سے زُہد، تقویٰ، ذکر و اذکار، تزکیہ قلب اور روحا نی علوم و فیوضات کا ایک بات بند ہوا اس طرح جو خلا پیدا ہوا وہ دیر تک پُر نہیں ہو سکے گا.

آپ کی وفات کی جا نکا ہ خبر سن کر دور دور سے آپ کے مرید اور متوسلین نے چترال کا رخ کیا پو لو گراونڈ کا وسیع و عریض احا طہ شرکا ء سے بھر گیا اس میدان میں 30ہزار کا مجمع سما سکتا ہے اور چھوٹے سے قصبے میں یہ بہت بڑا مجمع ہوا کر تا ہے آپ کی وصیت کے مطا بق آپ کے بھتیجے مولا نا حا فظ اشرف علی نے نما ز جنا زہ پڑھا ئی دوسرے بھتیجے حا فظ قاری احمد علی کو شا ہی مسجد کی اما مت تفویض کی گئی پسماندگان میں دو بھائی سراج احمد،فرید احمد۔ ایک بیوہ اور تین بیٹیاں سوگوار چھوڑ گئے۔ ہر گز نمیرد آنکہ دلش زندہ شد بعشق
ثبت است جریدہ عالم دوامِ ما

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
55987

ایک شفیق باپ کی جدائی – تحریر:سیدنذیرحسین شاہ نذیر

ہوا ہے تجھ سے بچھڑنے کے بعد یہ معلوم
کہ تو نہیں تھا ترے ساتھ ایک دنیا تھی


ایک شفیق باپ سایہ دارشجرکی مانندہے جس کاکوئی نعم البدل نہیں ہوتی ۔والدصاحب کے اس دنیائی فانی سے رخصت ہوکرایک سال گزرگئی مگراُن کی کمی زندگی کے ہرموڑپرمحسوس ہوتی ہے اس کے ساتھ گزرے ہوئے لمحات کبھی بھی فراموش نہیں کیاجاسکتاہے ۔آج میں جن لوگوں کی محفل میں بیٹھتاہوں اس میں میرے والدمحروم کی محنت اوردعائیں شامل ہیں اوراُن کی دعاوں کامرہون منت ہے ۔ ان کی یادین میرے اورمیرے گھرکے دیگرافرادکے ساتھ ہیں ایسامحسوس ہوتاہے کہ ہم نے اُن کی انگلی تھامی ہوئی ہے۔


لفظ جدائی سے ہی تزپ جاتاہوں کیونکہ جدائی کااحساس دلانے والے وہ دن جب مجھ بدنصیب کے سرپہ آسمان ٹوٹ پڑا،پاون تلے زمین نکل گئی ،خوشیان روٹھ گئی،میرے مستیوں پرتریچ میرجیساپہاڑٹوٹ پڑا، خوشیوں ،مسرتوں اورمحبتوں کے چمکتے روشن چراغ بجھ گئے موت کے فرشتے نے سرسے سایہ چھین لیاتھا۔میرے والدمحترم سیدمعظم شاہ آج سے ایک سال قبل 10دسمبر2020کوبروزجمعرات بوقت بعدنمازظہرمجھے تنہاچھوڑکراپنے مالک حقیقی سے جاملے ۔ والدکی جدائی کی تلخ تجربات نے مجھے دنیامیں مشکلوں سے لڑکرجینے کاہنرسکھارہاہے لیکن اُن کی کمی اورجدائی ہمیشہ تڑپاتی ہے۔اگرچہ والدمحترم کواس دنیاسے گئے ایک سال ہوگئے ہیں ،مگرایسالگتاہے کہ یہ کل کی بات ہے مگراُن محبت بھری خوش کلامی اُن کی موجودگی کااحساس دلاتی ہے ۔جب بھی میں ہمبت ہارجاتاہوں۔تو اُن کی نصیحت مجھے نیاحوصلہ دیتی ہے وہ ہمیشہ حالات کی مقابلہ کرنےکا احساس دلاتے تھے ۔


باپ کارشتہ اولادسے دنیاوی تقاضوں سے پاک ہوتاہے وہ اپنی محنت اورخلوص سے اولادکی شخصیت کی تعمیرکرتے ہوئے معاشرے میں بڑے مقام دینے کی خواہش کرتے ہیں۔والددنیاکی وہ عظیم ہستی ہے جودن رات محنت اورہرمشکل کامقابلہ کرتے ہوئے اپنے بچوں کی بہترین پرورش اوراُن کی راحت کےلئے ہروقت محنت مزدوری میں مصروف عمل رہ کرزندگی گزارتاہے ۔اورہرباپ کایہی ایک خواب ہوتاہے کہ اُ س کے بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے معاشرے میں باعزت زندگی بسرکرسکیں۔باپ اللہ تعالی کی ایک عظیم ترین نعمت ہے خوش نصیب اورخوش قسمت وہ لوگ ہیں جنہیں یہ عظیم نعمت میسرہے۔جن کے والدمحترم حیات ہے وہ ہرغم اورستم سے آزادہوتے ہیں اُن کوزمانے کی نہ فکراورنہ ڈرہوتی ہے ،باپ ایک حوصلہ ہوتاہے ۔جوہردرد،دکھ سہہ کراولادکوخوشی دیتاہے۔جب باپ کاسایہ سرسے اٹھتاہے تب اولاد کومحسوس ہوتاہے کہ اس کے سرپرکتنابھاری بوجھ ہے ۔باپ کی جدائی واقعی ایک متحان ہوتی ہے ایک طرف وہ نہ بھولنے والی غم دوسری جانب معاشرے کی کی جھوٹی تسلیان سمجھ میں نہیں آرہاتھاکہ زندگی کوکس طرح بسرکیاجائے ۔ والدکی اچانک جدائی سے ہرطرح اندھیرا ہی اندھیرابرپاہوگیاتھا۔


اللہ تعالیٰ کی وفضل کرم سے اپنے علاقے میں عزت آج بھی میرے والدمحترم کی وجہ سے ہے وہ اپنے پیچھے محبتوں کاایک نہ ختم ہونے والاسلسلہ چھوڑگئے ۔اُن کے دوست اورچاہنے والے آج بھی اچھے برے وقت میں ہمارے ساتھ ہوتے ہیں ہمارے سرپرشفقت بھراہاتھ رکھتے ہیں اوریہ وہ محبت کادرخت ہے جس کابیج میرے والدمحترم نے بویاتھااورآج ہم اس درخت کے سائے میں بیٹھے ہیں۔آج بھی والد محترم کے قریبی ہم نشین دوستوں ،عزیزوں اوراُ ن سے خاص محبت رکھنے والے رشتہ داروں سے ملتاہوں توآنکھوں سے آنسوبہہ جاتے ہیں۔ دل کی بات زبان پرلاکربول نہیں سکتاہوں اُن کی جدائی کاغم پھرسے تازہ ہوجاتے ہیں ۔اولادکے لئے اگرچہ باپ کبھی کھبارسخت لہجہ استعمال کرتاہے مگراس کے اس لہجہ میں بھی پیاربھری محبت کی ایک بڑی داستان چھپی ہوتی ہے ۔


باپ زندگی کاوہ قیمتی سرمایہ جس کوکھوجانے کے بعدکبھی بھی نہیں ملتاہے۔جن بہن بھائیوں اوردوستوں سے عاجزانہ التجاء ہے کہ جن کے باپ حیات ہیں اُن کی صحیح معنوں میں خدمت کریں اورجن جن کی والد اس فانی دنیاسے کوچ کرگئے ہیں اللہ تعالیٰ اُ ن کوجنت الفردوس میں اعلیٰ مقام نصیب فرما۔یااللہ میرے والدمحترم کواپنے نیک بندوں میں شمارکرکے جنت الفردوس جگہ عطاء فرمائے (آمین ثم آمین یارب العالمین)


مجھ کو چھاؤں میں رکھا اور خود جلتا رہا دھوپ میں
میں نے دیکھا ہے اک فرشتہ باپ کے روپ میں

Posted in تازہ ترین, مضامین
55941

ہمارے استاد جی-بشیر حسین آزاد


مقبول شاعر،کالم نگار اور مثالی استاد جاوید حیات کی کتاب ”ہمارے استاد جی“ ایک اچھوتے موضوع پر سوانحی کتاب ہے لیکن روایتی سوانح کی طرح نہیں بلکہ سوانح میں افسانوی رنگ اورواقعات میں تجسس کا ختم نہ ہونے والا سلسلہ ہے جو قاری کو کتاب شروع کرنے کے بعد ایک ہی نشست میں ختم کرنے تک چین لینے نہیں دیتا۔


مصنف کہتا ہے کہ میں نے ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی سے علم وادب کا درس ہی نہیں زندگی کا ڈھنگ بھی سیکھا ہے اس لئے ”ہمارے استاد جی“ سے ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی مراد ہے۔ واحد متکلم کی جگہ جمع متکلم کا صیغہ لاکر مصنف نے اپنی جماعت کے ساتھ ڈگری کالج چترال کے تمام تعلیمی سالوں کے ہرجماعت کے طالب علموں کو اپنے ساتھ شریک کیا ہے اور آب بیتی کو جگ بیتی کا جامہ پہنایا ہے۔کتاب221صفحات پر پھیلی ہوئی ہے تصاویر سے مزین ہے۔چترال پرنٹنگ پریس نے پیپر بیک میں دیدہ زیب صورت کے ساتھ شائع کیا ہے۔قیمت400/=روپے رکھی گئی ہے اور کتاب فیض کتاب گھر نیوبازار چترال میں دستیاب ہے۔


اپنے دیباچے میں ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی نے بجاطورپرلکھا ہے کہ چترال میں بڑے نامور اساتذہ کرام گذرے ہیں اور موجود بھی ہیں لیکن کسی کے حصے میں جاوید حیات جیسا مخلص،محبتی اور اہل قلم شاگرد نہیں آیا ایسا نامور شاگرد خوش نصیب استاد کے حصے میں آتا ہے۔جاوید حیات نے کتاب کا مقدمہ نامور ادیب،مصنف اور شاعر پروفیسر اسرار الدین سے لکھوایا ہے،۔دیباچے لکھوانے کے لئے ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی کے شاگردوں میں سے لفٹننٹ کرنل(ر)افتخار الملک،صلاح الدین صالح،عدنان زین العابدین اوور شمس الحق قمر کا انتخاب کیا ہے۔

دیباچے پڑھتے ہوئے قاری کے سامنے ڈگری کالج چترال میں اردو کا کلاس روم سکرین کی طرح واضح ہوکر آجاتا ہے۔کتا ب کے 13ابواب ہیں ہرباب کا اچھوتا عنوان ہے ہرعنوان استاد جی کی زندگی کے کسی نہ کسی گوشے کا احاطہ کرتاہے مثلاً ابتدائی زندگی،ملازمت،کالم نگاری،نثر نگاری،اسلوب تدریس،ادبی خدمات،سماجی خدمات،بیرون ملک دورے اور شاعری پر سیر حاصل بحث ہے مگریہ بحث قاری کواکتاہٹ سے دوچار نہیں کرتا بلکہ پڑھتے ہوئے آگے بڑھنے پر مجبور کرتا ہے۔

کتاب پڑھنے کے بعد استاد جی کی شخصیت کا جو تاثر قاری کے ذہن میں اُبھرتا ہے وہ ایک مثالی مدرس،ایک مقبول شاعر،مشہور کالم نگار کے ساتھ ملک بھر کے ادیبوں اور دانشوروں کے قد کاٹھ کا دانشور نظر آتا ہے۔کتاب میں جو تصاویر دی گئی ہیں وہ بھی ملک کے نامور ادیبوں کے ساتھ ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی کی تصاویر ہیں ایک ہونہار شاگرد کی طرف سے اپنے استاد کو خراج عقیدت پیش کرنے کا یہ اسلوب آگے جاکر بہت سے شاگردوں کے لئے مشعل راہ بنے گا اور اس کی تقلید کی جائیگی کتاب اساتذہ،طلبہ اور عام قاری کے لئے یکساں مفید ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
55938

معاشی استحکام کا عوامی مفہوم ۔ محمد شریف شکیب

حکومت نے یقین دہانی کرائی ہے کہ قرضے کی فراہمی کے لئے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کیشرائط قبول کرنے سے مہنگائی میں کمی ہوگی۔ مشیر خزانہ شوکت ترین کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے سے متعلق حکومت کے مخالفین دانستہ طور پر غلط فہمیاں پھیلارہے ہیں۔آئی ایم ایف ٹیکسز لگانے پر اصرار کر رہا تھا مگر ہم نے صاف انکار کر دیا۔ روپے کی قدر بہتر ہونے سے سٹہ بازوں کو بہت مار پڑے گی۔ایسے اقدامات کر رہے ہیں کہ روپے کی قدر بہتر ہو، آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کے بعد ٹیکسز میں اضافہ نہیں ہوگا بلکہ ٹیکس چھوٹ ختم کریں گے۔ جو پہلے سے ٹیکس دے رہے ہیں ان پر مزید ٹیکس عائد نہیں ہوگا،حکومت کھاد پر سبسڈی دے رہی ہیں یوریا کی بوری کسان کو 2200 میں مل رہی ہے، ہم کسانوں کوبراہ راست سبسڈی دینے جا رہے ہیں۔

مشیر خزانہ کا موقف ہے کہ ہمارے ہاں غربت کا نہیں بلکہ افراط زر کا مسئلہ ہے، لوئر مڈل کلاس پس رہا ہے، ریسٹورنٹس میں جائیں کھانا کھانے کیلئے لوگوں کی قطاریں لگی ہوتی ہیں، گاڑیاں،موبائل فون اور موٹر سائیکل دھڑا دھڑ فروخت ہو رہی ہیں، غریب، لوئر مڈل کلاس اور تنخواہ دار طبقے کو ریلیف دینے کیلئے احساس راشن پروگرام لا رہے ہیں۔تیل کی قیمتوں میں اضافے پر امریکہ، چین اور دیگر ملکوں نے ایکشن لیاہے جس کی وجہ سے تیل پیدا کرنے والے ملکوں نے قیمتوں میں کمی کا عندیہ دیا ہے۔ تیل سستا ہونے کا فائدہ عوام تک پہنچائیں گے۔دوسال قبل کورونا کی لہر آنے کے بعد سے اب تک اشیائے ضروریہ کی قیمتوں تقریباً سو فیصد اضافہ ہوا ہے۔ بیس کلو آٹے کا تھیلہ آٹھ سو سے بڑھ کر 14سو روپے کاہوگیا۔ گھی اور کوکنگ آئل کی قیمت 180روپے سے بڑھ کر 370روپے کلو تک پہنچ گئی۔چینی 55روپے سے 170روپے کلو تک پہنچ گئی تھی.

اب درآمدی چینی مارکیٹ میں آنے سے قیمتیں گر کر سو روپے کلو تک آگئی ہیں،چاول، دالوں، مصالحہ جات کے نرخوں میں بھی دوگنا اضافہ ہوا ہے۔مہنگائی میں اس ہوشربا اضافے کا بنیادی سبب گیس، تیل اور بجلی کے نرخوں میں اضافہ ہے۔ پیداواری لاگت بڑھنے سے مصنوعات کی قیمتیں بھی بڑھ گئی ہیں اور مارکیٹ کنٹرول کا کوئی موثر نظام نہ ہونے کی وجہ سے ضرورت کی چیزین من مانی قیمتوں پر فروخت ہورہی ہیں۔ تاجر حضرات نے قیمتیں بڑھنے کے ساتھ اپنے منافع کی شرح میں اضافہ کردیا ہے۔سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا تنخواہ دار طبقے خصوصاًنجی اداروں میں کام کرنے والے ملازمین کو ہے۔ان کی تنخواہوں میں مہنگائی کے تناسب سے اضافہ ہونا تو درکنار، اکثر اداروں نے کاروبار میں مندی کا بہانہ بناکر لوگوں کو فارع کردیا ہے۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق گذشتہ تین سالوں میں ساٹھ سے ستر لاکھ افراد روزگار سے محروم ہوچکے ہیں۔حکومت کا دعویٰ ہے کہ ملک میں غربت کی شرح کم ہوئی ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مڈل کلاس کے لوگ لوئر مڈل کلاس میں جاچکے ہیں جبکہ لوئرمڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے غربت کی لکیر سے نیچے کی سطح پر زندگی گذارنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ ہوٹلوں میں کھاناکھانے والوں، موبائل، موٹر سائیکل اور کاریں خریدنے والوں اور سیاحتی مقامات پر جانے والوں کی تعداد یا سٹاک مارکیٹ کے کاروبار میں تیزی کو ہرگز معاشی استحکام سے تعبیر نہیں کیاجاسکتا۔ مہنگائی اور بے روزگاری سے جرائم کی شرح اور خود کشی کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے جس سے امن و امان کا مسئلہ پیدا ہوسکتا ہے۔

عوام کو اس دلیل سے مطمئن نہیں کیاجاسکتا کہ پاکستان میں تیل کی قیمت امریکہ، برطانیہ، فرانس، جاپان، بھارت اور بنگلہ دیش سے سستی ہے۔ حکمرانوں کو قیمتوں کا موازنہ کرتے ہوئے یہ بھی پیش نظر رکھنا چاہئے کہ ان ممالک کی کرنسی اور ہماری کرنسی کی قدر میں کتنا فرق ہے۔ سعودی عرب سے امداد اور آئی ایم ایف سے قرضہ ملنے کے بعد زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ اور تیل کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ عوام تک پہنچانے کے لئے حکومت کو ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے ہوں گے۔

Posted in تازہ ترین, مضامین
55905

داد بیداد ۔ پرانی سیا ست گری خوار ہے۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

علا مہ اقبا ل کے کلا م میں ہر مکتب فکر کو اس کے ذوق کا مواد مل جا تا ہے جس طرح ترقی پسند کلا م اقبال سے حوالے دے دے کر اپنی بات منوا نا چاہتے ہیں اس طرح رجعت پسندوں کو بھی کلا م اقبال سے ان کے مطلب کا مواد ہاتھ آجا تا ہے جمہوریت پسند بھی کلا م اقبال کا سہا را لیتے ہیں آمریت پر عقیدہ رکھنے والے بھی کلا م اقبال سے استفادہ کر تے ہیں پا کستان کی مو جو دہ سیا سی صورت حال پر علا مہ اقبال نے کم و بیش 90سال پہلے جو تبصرہ کیا وہ آج کا تجزیہ نگا ر بھی نہیں کر سکتا اور خو بی یہ ہے کہ صرف دو مصرعوں میں معا نی کا سمندر نظر آتا ہے علا مہ اقبال نے کہا تھا ؎


پرانی سیا ست گری خوار ہے
زمین میر وسلطان سے بیزار ہے


2021ء میں پا کستان کے عوام و خواص سیا سی جما عتوں، سیا سی لیڈروں، سیا سی سر گر میوں جلسوں، جلو سوں، ریلیوں اور ہنگا موں سے اکتا ہٹ کا شکار ہو چکے ہیں اس اکتا ہٹ اور بیزا ری کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ شاعر مشرق کا شعر ہمارے زما نے کے لئے ہے اور کلا سیکی ادب پارہ ایسا ہی ہو تا ہے علا مہ اقبا ل نے قدیم باد شا ہوں کی تاریخ کا گہرا مطا لعہ کیا تھا اقبال کا تصور تاریخ ڈاکٹر راشد حمید کی تحقیق کا مو ضوع رہا ہے اور اس مو ضوع پر ان کی کتا ب حوالے کی کتاب بن چکی ہے باد شاہ کا دربار مخصوص اطوار واداب کے لئے شہرت رکھتا تھا مثلاً باد شاہ کے دربار میں ملک اور قوم کا ذکر نہیں ہوتا تھا باد شاہ، ملکہ معظمہ، ان کے ولی عہد سمیت دیگر شہزادوں کا ذکر ہو تا تھا .

دربار میں حا ضری دینے والوں میں سے جو درباری باد شاہ کی زیا دہ تعریف کرتا اس کو بڑا عہدہ ملتا تھا اور بڑے عہدے کے لا لچ میں چا لاک درباری باد شاہ کوعقل کل ثا بت کرنے پر زور خطا بت صرف کرتے تھے باد شاہ کو دن رات یہ باور کرایا جا تا تھا کہ اس دنیا میں آپ جیسی شخصیت کوئی نہیں تما م خو بیاں آپ کی ذات میں ہیں شاہی دربار کی دوسری خصو صیت یہ تھی کہ دربار یوں کا ایک اہم کا م تاج و تخت کے دعویداروں کا قلع قمع کرنا تھا، درباری باد شاہ کے کا ن بھر نے کے لئے تاج و تخت کے دعویداروں کے خلا ف قصے کہا نیاں تراش کر لا تے تھے بعض دعویدار وں کو عمر بھر کے لئے زندان میں ڈالتے تھے.

بعض کو جلا وطن کر تے تھے اور بعض کو قتل کر وادیتے تھے تا کہ باد شا ہ سلا مت کے تاج و تخت پر کوئی دعویٰ داری نہ کر سکے یہ پرا نی سیا ست گری تھی باد شاہ ہوں کے درباروں میں یہی سیا ست چلتی تھی علا مہ اقبال نے اس طرز سیا ست کو ”خوار“ کا نا م دیا میرو سلطان باد شاہ ہت کے دو استعارے ہیں مو جودہ دور کو جمہوری دور کہا جا تا ہے شا ید ہو گا، امریکہ، بر طا نیہ، فرانس، جر منی وغیرہ میں جمہوری دور ہو گا تیسری دنیا کے مما لک میں جمہوری دور ہم نے بہت کم دیکھا ہے بلکہ جمہوری لباس میں باد شا ہت دیکھی ہے ہر سیا سی جما عت کا سر براہ باد شاہ ہو تا ہے وہ اپنا دربار لگا تا ہے.

اُس کے دربار میں مکھن پا لش کا دور چلتا ہے مکھن پا لش میں جو بازی لے جا ئے وہ مقرب ہوتا ہے ہر جما عت کا لیڈر تاج و تخت کے دعویداروں کی سر کو بی کر تا ہے اور درباری اس غم میں غلطاں ہو تے ہیں کہ لیڈر کے بد خوا ہوں اور دشمنوں سے کب اور کہاں دو دو ہاتھ کریں یہاں بھی باد شاہ کے دربار کی طرح ملک اور قوم کا ذکر نہیں ہو تا اس لئے 1956ء میں باد شاہ اور دربار یوں کے جو بیا نات تھے وہ 2021میں بھی نہیں بدلے اس لئے عوام اور خواص بیزاری کا اظہار کر رہے ہیں گویا ”پرانی سیا ست گری خوار ہے“

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
55880

”ہجوم” نہیں ”قانون” مولانا خلیق الزمان کا کارنامہ – نوید مسعود ہاشمی

”ہجوم” نہیں ”قانون” مولانا خلیق الزمان کا کارنامہ – نوید مسعود ہاشمی

سیالکوٹ کی فیکٹری میں سری لنکن شہری کی… ورکرز کے ہاتھوں جان بچانے کی کوشش کرنے والے …عدنان ملک کو وزیراعظم نے تمغہ شجاعت دینے کا اعلان کیا، جبکہ پنجاب حکومت اسے ”انسانی حقوق” کا ایورڈ دے گی…۔میرے نزدیک حکومت کا یہ ایک اچھا عمل ہے، ہمیں ان لوگوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے…. کہ جو ”ہجوم” کے تشدد سے انسانوں کو بچانے کی کوشش میں اپنی جان بھی دائو پہ لگا دیتے ہیں، عدنان ملک نے تو سری لنکن شہری کو بچانے… کی کوشش کی …مگر وہ بپھرے ہوئے ”ہجوم” کے ہاتھوں پریانتھا کو بچا نہ سکا (بہرحال ان کی کوشش بھی لائق تحسین ہے) لیکن اس کے باوجود وزیراعظم نے تمغہ شجاعت اور پنجاب حکومت نے اسے انسانی حقوق کا ایوارڈ دینے کا اعلان کیا… جبکہ الیکٹرانک میڈیا ہو یا پرنٹ میڈیا…. سب نے اسے قومی ہیرو کے طور پر متعارف کروایا… جس پر میرے سمیت کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہے، سوال یہ ہے کہ اگر مسلم لیگ (ن) یا پیپلزپارٹی کی حکومت میں یہ واقعہ اسی طرح پیش آتا تو پھر عدنان ملک جیسوں کو کون پوچھتا؟


مثال پیش خدمت ہے، یہ سال 2017ء کی بات ہے… چترال کی شاہی مسجد میں ہزاروں چترالی مسلمان… جمعہ کی ادائیگی کے لئے جمع ہیں۔… خطیب مسجد مولانا خلیق الزمان خطبہ جمعہ دے رہے ہیں… کہ اسی دوران ایک شخص کھڑا ہو کر باآواز بلند اپنی ”نبوت” کا اعلان کرتا ہے… (نعوذ باللہ) اس کا یہ اعلان سن کر ہزاروں مسلمانوں پر چند سیکنڈ کے لئے سکتہ طاری ہو جاتا ہے… اور پھر سینکڑوں لوگ انتہائی اشتعال کے عالم میں جھوٹی نبوت کے دعویدار بدبخت کو مارنے کے لئے… اس کی طرف بڑھتے ہیں، شاہی مسجد کے خطیب مولانا خلیق الزمان مشتعل لوگوں کو سمجھاتے ہیں… کہ وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں مت لیں، اس ملعون کو کوئی ”ہجوم” مت مارے… بلکہ ہم اسے قانون کے حوالے کرکے عدالت کے ذریعے قرار واقعی سزا دلوائیں گے، جھوٹی نبوت کے دعویدار اس ازلی بدبخت کو مولانا خلیق الزمان سخت جدوجہد کے بعد۔۔۔ زندہ سلامت پولیس کے حوالے کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔۔۔۔ عین جمعہ کے دوران مسجد میں ہزاروں لوگوں کے سامنے اپنی نبوت کا۔۔۔ اعلان کرنے والے ملعون کو پولیس کے حوالے کرنا مولانا خلیق الزمان کو اتنا مہنگا پڑا ۔۔۔کہ مشتعل لوگوں نے نہ صرف یہ کہ ان کی قیمتی گاڑی کو جلا ڈالا۔۔۔۔بلکہ چترال شہر میں ہنگامے پھوٹ پڑے، جلائو گھیرائو شروع ہوگیا، ایک ”گستاخ” کو قانون کے حوالے کرنے کے جرم میں مولانا خلیق الزمان کی زندگی دائو پر لگ گئی۔ ”مولانا” کو کئی روز تک ایک کمرے میں روپوش رہنا پڑا، مولانا خلیق الزمان کے پیچھے سالہا سال سے نمازیں پڑھنے والے، ان کے پیچھے جمعہ اور عیدین کی نمازیں پڑھنے والے، ان کے علم، فہم و فراست اور دین سے محبت کے عینی شاہدین بھی۔۔۔ اس بات پہ سیخ پا ہوئے کہ آخر ”مولانا” نے ایک گستاخ ملعون کی زندگی ”ہجوم” کے ہاتھوں بچا کر اسے قانون کے حوالے کیونکر کیا؟

chitraltimes shahi khateeb chitral vehicle caught fire


لیکن مولانا خلیق الزمان نے اپنی زندگی کو خطرات سے دوچار کرکے بھی۔۔۔ عوام کو سمجھایا۔۔۔ کہ کسی بھی مجرم کو سزا دینا، کسی گروہ، ہجوم یا عوام کا کام نہیں، ہاں عدالت اور قانون اسے سزا ضرور دے سکتا ہے، بالآخر ”مولانا” کی مدعیت میں اس گستاخ ملعون کے خلاف ایف آئی آر درج ہوئی، مولانا نے تن تنہا ملعون کے خلاف مقدمہ لڑا اور گستاخ کو انسداد دہشت گردی کی عدالت سے عمر قید کی سزا دلوائی۔۔


مسلم لیگ (ن) کے احسن اقبال کہ جنہیں… مولانا فضل الرحمن کے سیالکوٹ کے واقعہ کے حوالے سے دئیے جانے والے بیان کی اصلاح کی تو فکر ہے، سے میرا سوال یہ ہے کہ سال 2017ء میں…. چترال کی شاہی مسجد میں ملعون گستاخ کو ”ہجوم” سے بچا کر ”قانون” کے حوالے کرنے کے…. جرم میں جب مولانا خلیق الزمان کی زندگی خطرات سے دوچار ہوئی، تب وہ اور ان کی حکومت کہاں تھی؟ فواد چوہدری اگر حکومت میں نہیں تھے، مگر زندہ تو تھے…. انہوں نے چترال کی شاہی مسجد کے خطیب کے اس کارنامے کے حق میں…. اگر کہیں بیان دیا ہو تو سامنے لایا جائے؟


ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان، یورپی یونین سمیت بین الاقوامی انسانی حقوق کے وہ ادارے کہ… قانون توہین رسالت جن کے نشانے پر رہتا ہے، وہ سب کدھر تھے؟ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اپنے آپ کو مشکلات کی… آگ میں ڈال کر قانون کی عملداری کی اعلیٰ مثال قائم کرنے والے…. مولانا خلیق الزمان کو… تمغہ شجاعت یا انسانی حقوق ایوارڈ دینے کا اعلان کیوں نہ کیا؟ اگر ن لیگی وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، اپنے ہی وطن کے دورے پر آنے والی ملالہ یوسف زئی ….. کے شاہانہ پروٹوکول اور استقبال کے لئے قومی خزانہ لٹا سکتے ہیں…. تو پھر چترال کی شاہی مسجد کے خطیب کے بے مثال کارنامے کی ….حوصلہ افزائی کرنے میں کیا رکاوٹیں حائل تھیں؟ ملکی قیادت میں صرف تنہا مولانا فضل الرحمن تھے کہ جنہوں نے خود…. چترال فون کرکے مولانا خلیق الزمان کی نہ صرف حوصلہ افزائی کی…. بلکہ انہیں ہر ممکن تعاون کا یقین بھی دلایا تھا,


لیکن مسلم لیگ (ن) کی پوری وفاقی حکومت، خیبرپختونخواہ میں پی ٹی آئی کی حکومت، فواد چوہدری اینڈ کمپنی، یورپی یونین، ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان سمیت، انسانی حقوق کے تمام بین الاقوامی اداروں پر اس اہم موقع پر سکوت مرگ طاری رہا۔…

تقریباً بائیس، پچیس سال قبل اس خاکسار کو چترال کی شاہی مسجد میں جمعہ کے اجتماع سے خطاب کا موقع ملا، تو تب مولانا خلیق الزمان سے طویل ملاقات ہوئی، لیکن اس کے بعد تادم تحریر ہماری دوسری ملاقات نہیں ہوئی، مگر سیالکوٹ کے پرتشدد واقعہ کے بعد جو شرپسند عناصر اس کی ذمہ داری قانون توہین رسالت، یا مذہب پسندوں پر ڈالنے کی کوششیں کر رہے ہیں، میں نے ضروری سمجھا کہ ان کے اس بھونڈے پروپیگنڈے کا جواب دلیل سے دیا جائے، مولانا خلیق الزمان آج بھی حیات ہیں۔… ”الحمدللہ، ہے کوئی اینکر، اینکرنی، کالم نگار، تجزیہ نگار یا حکومتی وزیر کہ…. جو ہمت کرکے انہیں چترال سے بلوائے… اور ہجوم کے ہاتھوں گستاخ کو بچا کر قانون کے حوالے کرنے کے کارنامے پر ان کی… حوصلہ افزائی کرکے… دنیا کو بتائے کہ کراچی سے لے کر چترال تک کے علماء اور مذہب پسند، محبت رسولۖ میں فدا ہونا عین عبادت سمجھتے ہیں…. اور ہر گستاخ کو قانون کے ذریعے سخت سے سخت سزا دلوانے کے متمنی ہیں، اگر کسی کو یقین نہ آئے تو وہ چترال کی شاہی مسجد کے خطیب کو دیکھ لے؟

اگر تحریک انصاف میں ”ن لیگی” مائیڈ سیٹ نہ ہو تو عدنان ملک کے…. بعد ایک تمغہ شجاعت مولانا خلیق الزمان کے نام بھی ہونا چاہیے، فواد چوہدری سے تو کوئی امید نہیں ہے، حافظ طاہر محمود اشرفی وزیراعظم کی توجہ اس طرف مبذول کروائیں، تو ممکن ہے کہ ایک اور تمغہ شجاعت اس کے صحیح حقدار تک پہنچ جائے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
55841

داد بیداد ۔ عینک کی چوری ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

Posted on

خبر آئی ہے کہ پنجا ب کے ضلع وہا ڑی میں ڈپٹی کمشنر کے دفترکا احا طہ قائد اعظم کے مجسمے کی وجہ سے مشہور ہے گزشتہ روز ایک ستم ظریف چور نے سیڑھی لگا کر قائد اعظم کے مجسمے پر بنی ہوئی عینک کو اتارا اور چرا کر لے گیا پو لیس چور کی گرفتاری کے لئے جگہ جگہ چھا پے مار رہی ہے اس اثنا میں ڈپٹی کمشنر نے کما ل پھر تی دکھا تے ہوئے مجسمہ ساز کو بلا یا اور نئی عینک بنوا کر مجسمے کو لگوائی تا کہ مجسمہ اپنی اصلی صورت میں جلوہ گر ہو خبر نگار نے خبر پر کوئی تبصرہ نہیں کیا نہ ہی خبر سے متعلق کوئی اضا فی یا ضمنی معلو مات دی، خبر نہا یت افسوسنا ک ہے.

اس کے بعض پہلو اتنے افسوسنا ک ہیں کہ ملزم کے لئے سزائے مو ت کا مطا لبہ کرنا پڑے گا تاہم خبر میں تفنن طبع کا ایک پہلو بھی پو شیدہ ہے چور نے چوری کے لئے ڈپٹی کمشنر کے دفتری احا طے کا انتخا ب کیو ں کیا اور اس احا طے میں قائد اعظم کے مجسمے کو کس بنیا د پر چُن لیا پھر مجسمے کی عینک چور کی نظر میں قا بل تو جہ اور لا ئق سرقہ کس لئے ٹھہری؟ ایسے بے شمار سوالات ہیں بادی النظر میں عینک کا چور گلی محلے کا اوباش یا معمو لی اچکا، چور نہیں لگتا بلکہ وہ ایک طبقہ خیال کا نما ئندہ اور ایک گہرے فلسفے کا پر چارک لگتا ہے اُس نے عینک نہیں چرائی پا کستانی قوم کوا یک اہم پیغام دیا ہے.

نا معلوم چور نے سو چا ہو گا کہ قائد اعظم کی تصویر والے نوٹ ہر روز دفتروں میں رشوت اور کمیشن کے لئے ادھر سے اُدھر کئے جا تے ہیں اپنی تصویر کی بے حر متی دیکھ کر قائد اعظم کی روح ہر روز ”تڑپ“رہی ہو گی چور نے سوچا ہو گا کہ کم از کم وہاڑی کے ڈی سی آفس میں بابائے قوم کو روزانہ کی اس اذیت سے نجا ت دلا نے کا آسا ن اور تیز بہدف نسخہ یہ ہے کہ اس کی عینک چرائی جا ئے عینک نہ ہو گی تو اپنی تصویر کی بے حر متی کو نہیں دیکھ پائے گا اور با بائے قوم کی روح اذیت کی اس ناروا کیفیت سے بچ جائیگی عینک کی چوری کا فلسفیا نہ پہلو بھی ہے اس کا تعلق دو قو می نظریے سے ہے نا معلوم چور کسی ایسے طبقے کا نما ئندہ ہو گا جو دو قومی نظریے کی مو جودہ تشریح اور تو ضیح سے خو ش نہیں یہ طبقہ قائد اعظم کو با با ئے قوم نہیں مانتا اس لئے چور نے سوچا ہو گا کہ دو قو می نظریہ اس کی عینک کا کما ل ہے جو ایک آنکھ کی عینک تھی اور مجسمے میں بھی وہی عینک لگا ئی گئی تھی.

نا معلو م چور کا خیال ہو گا کہ اس عینک کو مجسمے سے الگ کرنے کی صورت میں دو قو می نظریہ بھی دُھند لا جا ئے گا مگر یہ چور کا خیال خا م ہے اگر وہ پورا مجسمہ چرا لے جا تا تب بھی دو قو می نظریے پر اس چوری کا کوئی اثر نہ پڑ تا متحدہ ہندوستا ن میں دو قو می نظریہ ایک حقیقت کا اظہار تھا مو جو دہ دور کا بھارت اس حقیقت کی گوا ہی دے رہا ہے جہاں ہندو اکثریت نے مسلما ن اقلیت کا جینا دو بھر کر دیا ہے اور ہر روز اس بات کا ثبوت دے رہے ہیں کہ مسلمان اور ہندو ملکر ایک ملک میں نہیں رہ سکتے وہا ڑی کی خبر میں جس نا معلو م چور کا ذکر ہے وہ ما ہر قا نو ن اور فن مقدمہ با زی میں طا ق نظر آتا ہے نا معلو م چور کو معل.

وم ہے کہ ہما رے قانون کے اندر ضا بطہ فو جداری میں چور کی جو سزا لکھی ہے اس میں مجسمے کی عینک چرانے کا کوئی ذکر نہیں ملزم کو اگر پکڑ کر عدالت کے سامنے پیش کیا گیا تو وکیل صفا ئی کہے گا کہ یہ قا بل دست اندا زی پو لیس نہیں قانون میں مجسمے کا کوئی ذکر نہیں، مجسمے کی عینک کا کوئی حوا لہ نہیں قا نون کی نظر میں مجسمے پر سیڑھی لگا نا اور عینک چرا نا جر م نہیں وکیل صفا ئی کے دلا ئل کے بعد عدالت ملزم کو ”با عزت بری کریگی“

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
55813

ماحولیاتی آلودگی کے تباہ کن اثرات ۔ محمد شریف شکیب

ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان میں فضائی آلودگی سے شہریوں کی عمر لگ بھگ سوا چار سال گھٹ رہی ہے۔فضائی آلودگی کو ماپنے کے لیے کسی مانیٹر نگ آلے کی ضرورت نہیں، جہاں فضا میں گھٹن محسوس ہونے لگے، آسمان نیلے کے بجائے سرمئی نظر آنے لگے، حدنگاہ کم ہوجائے، عمارتیں دھندلی نظر آنے لگیں اور سانسوں کے ذریعے جسم میں داخل ہوتے آلودہ ذرات طبیعت بوجھل کرنے لگیں تو سمجھ جائیں کہ آپ انتہائی آلودہ فضاؤں میں سانس لے رہے ہیں، یہ فضائیں آپ سے صحت مند زندگی گزارنے کا حق چھین رہی ہیں۔ ایسی فضاؤں میں 24 گھنٹے گزارنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے 10کے قریب سگریٹ پی لئے ہیں۔

ائیرکوالٹی انڈیکس لائف کے مطابق فضائی آلودگی سے لاہورکے شہریوں کی عمر 5 سال، کراچی ساڑھے تین سال اور پشاور میں رہنے والوں کی عمر ڈھائی سال کم ہورہی ہے۔ فضائی آلودگی کے حوالے سے پاکستان دنیا چوتھا آلودہ ترین ملک بن گیا ہے، ملک میں گذشتہ بیس سالوں کے دوران آلودگی میں سالانہ 20 فیصد اضافہ ہورہا ہے۔ جنوبی پنجاب اور شمالی سندھ آلودگی میں سر فہرست ہیں۔فضائی آلودگی کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں فصلوں کے بھوسے اور کوڑا کرکٹ جلانا، بھٹہ خشت اور کارخانوں کی چمنیوں سے اٹھنے والا زہر آلود دھواں، گردوغبار، کھٹارہ بسوں، ویگنوں، ٹیکسیوں، رکشوں سے نکلنے والا دھواں اور صوتی آلودگی بھی شامل ہے۔فائربریگیڈ، ایمبولنس اور وی آئی پیز کی سیکورٹی ڈیوٹی کے دوران ہوٹرز کا استعمال، پریشر ہارن، لاوڈ سپیکرز کا بے جا استعمال اوراونچی آواز میں میوزک بجانا صوتی آلودگی میں شامل ہیں۔

آلودگی پھیلانے میں 99فیصد انسانوں کا اپنا ہاتھ ہوتا ہے۔ ہم نے قدرتی ماحول کو اپنے مادی مفادات کے لئے نقصان پہنچانے کی ٹھان لی ہے جس کے ذریعے ہم دوسروں کے ساتھ خود اپنی زندگیوں کو بھی داؤ پر لگا رہے ہیں۔پشاور، اسلام آباد، لاہور، کراچی اور دیگر شہروں میں نئی نئی ہاوسنگ سکیمیں، ٹاؤن شپس اور کالونی بن رہی ہیں۔زرخیز زمین، باغات اور کھیت کھیلیان اب کنکریٹ کے جنگلوں میں تبدیل ہورہے ہیں۔ بڑھتی ہوئی آبادی کے لئے پینے کے صاف پانی کی فراہمی، نکاسی آب کا مناسب بندوبست کرنا، کوڑا کرکٹ کو محفوظ طریقے سے ٹھکانے لگانا، پارکس کا قیام حکومت کے لئے ممکن نہیں اس وجہ سے آلودگی میں روزبروز اضافہ ہورہا ہے۔ جنگلات کی بے دریغ کٹائی بھی فضائی آلودگی کا سب سے بڑا سبب ہے۔

ٹمبرمافیا کے آگے سرکاری مشینری ناکام ہوچکی ہے۔ گلیات، کاغان، ناران، شانگلہ، بونیر، سوات، دیر اور چترال کے جنگلات مناسب حفاظت نہ ہونے سے چٹیل پہاڑوں میں تبدیل ہورہے ہیں۔ حکومت نے خیبر پختونخوا میں بلین ٹری اور وفاق کی سطح پر ٹین بلین ٹری کا منصوبہ شروع کیا ہے جس کی عالمی سطح پر کافی پذیرائی ہوئی ہے۔ لگائے گئے پودوں کی پوری نگہداشت اور حفاظت کی گئی تو آئندہ پندرہ بیس سالوں میں وہ تناور درخت بن سکتے ہیں۔ تب تک جنگلوں میں درختوں کی کٹائی پر مکمل پابندی لگانے اور شجرکاری مہم میں عوام کو شامل کرنے کی ضرورت ہے۔

اگر حکومت شہریوں کو مفت پھلدار اور سایہ دار پودے فراہم کرے اور اچھی شجرکاری پر ان کی حوصلہ افزائی کرے تو شجرکاری مہمات کو زیادہ نتیجہ خیز بنایاجاسکتا ہے۔ فضائی آلودگی کے بارے میں شہریوں میں آگاہی مہم چلانا بھی ضروری ہے اس دوران لوگوں کو بتایاجائے کہ وہ قدرتی ماحول کو آلودگی سے بچانے میں اپنا کردار کیسے ادا کرسکتے ہیں۔ اس سلسلے میں بڑے ہوٹلوں میں سمینار، مذاکرے اور مباحثے کرانے کے بجائے گھر گھر جاکر آگاہی پھیلانے کی ضرورت ہے۔ لوگوں کو یہ باور کرانا ہوگا کہ آلودگی سے ان کی اپنی، ان کے بچوں اور آنے والی نسلوں کی زندگی خطرے پڑسکتی ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامین
55785

داد بیداد ۔ فیصلہ ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

نور مقدم قتل کا مقدمہ عدالت میں لا یا گیا ہے فیصلہ مشکل ہے کیونکہ مقدمے کا ایک فریق امریکی شہری ہے اس کو سزا دینے کا اختیار کسی کو حا صل نہیں مو صوف کو پا گل ثا بت کر نے پر زور دیا جا رہا ہے پر یا نتھا کمار قتل کا مقدمہ ابھی تک عدالت میں نہیں آیا اگر عدالت میں آگیا تو فیصلہ کرنا مشکل ہو گا 5دنوں کے اندر مقدمے کو اتنا الجھا یا گیا ہے کہ سر پیر کا پتہ نہیں چلتا پو لیس نے آنسو گیس استعمال نہیں کی، ہوائی فائر نگ نہیں کی، ہجوم کی مزا خمت میں کوئی پو لیس والا زخمی یا فو ت نہیں ہوا فیصلہ سے پہلے فیصلے کی راہ میں رکا وٹ ڈالنے کے لئے تین کہا نیاں لا ئی گئی ہیں پہلی کہا نی یہ ہے کہ پو لیس نے فیکٹری کو آگ لگانے نہیں دیا، دوسری کہا نی یہ ہے کہ مشتعل ہجوم کے ہا تھوں میں پیٹرول کی بو تلیں تھیں، تیسری کہا نی یہ ہے کہ ملک عدنان کو ہیرو بنا یا گیا اس نے اپنی جا ن پر کھیل کر انسا نیت کی مثال قائم کی کیا اُس نے سر ی لنکا کے شہری کی جا ن بچائی؟نہیں یار یہ ممکن نہیں تھا کیا اُس نے لا ش کو جلا نے سے بچا یا؟

نہیں یار یہ بھی ممکن نہیں تھا پھر بہادر، دلیر اور تمغہ شجا عت کے حقدار شہری نے اپنی جا ن پر کھیل کر کیا کار نا مہ انجا م دیا؟ اس کا جواب کسی کے پا س نہیں کہا نی کو الجھا نے اور فیصلہ کی راہ میں روڑے اٹکا نے کے لئے ایسی بے سروپا کہا نیاں تراشی جا رہی ہیں 5دنوں میں کسی نے یہ مطا لبہ نہیں کیا کہ سری لنکن شہری کے قتل کا مقدمہ فو جی عدالت میں چلا یا جائے مقدمے کا فیصلہ فو جی عدالت کے بغیر نہیں ہو سکتا کسی نے یہ مطا لبہ نہیں کیا کہ واقعے کے پیچھے پڑوسی ملک کے خفیہ کر دار کو تلا ش کر کے غیر ملکی ایجنٹوں کو بے نقاب کیا جا ئے دراصل ایسا ہونا چاہئیے اور بڑا مطا لبہ یہ بھی ہے کہ ہجوم میں سے پکڑے گئے 131ملزموں کے ساتھ موقع پر مو جود پو لیس کو بھی شامل تفتیش کیا جا ئے .

فیکٹری کے ما لک کو بھی گرفتار کیا جا ئے لیکن اب تک ایسے مطا لبات سامنے نہیں آئے جو فیصلہ کرنے میں مدد گار ثا بت ہو سکتے ہوں ہجوم کے ہاتھوں سری لنکا کے شہری کا قتل کسی بھی بڑے سانحے کے برابر سانحہ تھا اس کو سنجیدہ لینا چاہئیے تھا اب بھی اس کو سنجیدہ لینے کا وقت ہے اگر یہ مقدمہ عدالتوں میں 45سالوں تک چلتا رہا تو نہ صرف سری لنکا کی حکومت اور سارک مما لک کے سامنے ہماری ساکھ خراب ہو گی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی ہم کسی کو منہ دکھا نے کے قابل نہیں رہینگے مجھے وہ دن نہیں بھولتا جب ایران کے ایک شہر میں خود کش دھما کہ ہوا چند شہری مارے گئے،

اگلے روز تین مجرموں کو عین دھما کے کی جگہ پر لا کر پھا نسی دی گئی ان کی لا شیں 7دنوں تک لٹکتی رہیں پھر ایران میں ایسا واقعہ نہیں ہوا ریا ست اگرا نصاف کرنا چا ہے، عدالتیں اگر مقدمے کا فیصلہ کرنا چا ہیں تو 24گھنٹے کی مہلت کا فی ہے 24گھنٹوں میں فیصلہ بھی ہو سکتا ہے انصاف بھی ہو سکتا ہے اور انصاف ہوتا ہوا نظر بھی آسکتا ہے مو جو دہ حالات میں صرف فو جی عدالت ہی انصاف کے تقا ضوں کو پورا کر سکتی ہے مجھے عدالتوں میں زیر التوا ء 21لا کھ مقدمات میں سے ایک مقدمہ یاد آرہا ہے

جس کا فیصلہ 1976سے التوا ء کا شکار تھا خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ عالمی حدت، گلو بل وار منگ آگئی، پا نی کے بہت سارے چشمے خشک ہوئے جس چشمے کا مقدمہ 1976ء سے 2020تک زیر سما عت تھا وہ چشمہ بھی خشک ہوا مقدمہ خو د بخود ختم ہوا ”نہ رہے با نس نہ بجے بانسری“ تفصیل اس اجما ل کی یہ ہے کہ چشمے کے پا نی پر جھگڑا ہوا مقدمہ نائب تحصیلدار کی عدالت میں آیا چلتے چلتے سپریم کورٹ تک گیا تین بار ریمانڈ ہوکر واپس نا ئب تحصیلدار کے پاس آیا چوتھی بار سپریم کورٹ سے ریمانڈ ہو کر پھر آنے والا تھا کہ چشمہ خُشک ہو گیا 44سال لگے تھے.

فریقین نے اس مقدمے پر ایک کروڑ 10لا کھ روپیہ لگا یا تھا عدالت سے فیصلہ آنے کی تو قع نہیں تھی قدرت نے فیصلہ سنا دیا نو رمقدم اور پریا نتھا کمار قتل کے دونوں مقدمات ہماری ریا ست کے لئے ازما ئش کا در جہ رکھتے ہیں ایک مقدمے میں غیر ملکی شہری نے پا کستانی لڑ کی کو بیدر دی سے قتل کیا سفارت خا نہ قاتل کو چھڑا نا چا ہتا ہے دوسرے مقدمے میں پا کستانی ہجوم نے سری لنکا کے شہری کو قتل کیا ایک گھنٹہ بعد اُس کی لا ش کو آگ لگا دی سری لنکا کے سفارت کار قاتلوں کو سزا دلوانا چاہتے ہیں فیصلہ صرف فو جی عدالت میں ہو سکتا ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
55780

نوائے سُرود-تقلیدی رجحان اور ہمارا معاشرہ۔ شہزادی کوثر

آج کل بہت سی چیزیں ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی تیزی سے اپنائی جا رہی ہیں جن میں کسی دوسرے کا انداز،طرز زندگی ،فیشن نشست وبرخاست  وغیرہ شامل ہیں ۔اچھی عادات ،قابل تقلید اعمال انسانیت کی بھلائی کے کاموں کو اپنانا قابل تعریف ہے،لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ غیر ضروری کاموں میں ایک دوسرے کی نقل کرنے کا رجحان بہت بڑھ گیا ہے یہ سوچے سمجھے بغیر کہ  ان باتوں کا اثر ہمارے ماحول اور معاشرے پر کیا پڑے گا ۔۔ کیا ہمارے معاشرتی اور اخلاقی اقدار اس کی اجازت دیتے ہیں ؟ کیا ہماری  روایات ان باتوں کی متحمل ہو سکتی ہیں ؟ ہمارا مذہب ان کے بارے میں کیا کہتا ہے؟ یہ سوالات ہمیں خود سے اس وقت کرنے کی ضرورت ہے جب ہم اندھوں کی طرح دوسروں کے پیچھے چلنے کے خواہشمند ہوں

ہر ملک ،قوم معاشرہ اور علاقہ اپنی انفرادیت رکھتا ہے ہمارے رسوم ورواج، شادی بیاہ ،تہوار ،خوشی اور غم مل کر انہیں منفرد بناتے ہیں ۔ صدیوں سے ان کے مطابق زندگی گزارتے ہوئے کئی نسلیں گزری ہیں اور آج ہم اس تہذیب و ثقافت کے امین بن گئے ہیں تو اپنی زندگی اس ثقافت کے سانچے میں ڈھال کر ہی ہم اپنی شناخت برقرار رکھ پائیںگے لیکن گزرتے وقت کے ساتھ بہت سے نئے طور طریقے اپنائے جا رہے ہیں جو نہ صرف ہمارے علاقے کے لئے پریشان کُن ہیں بلکہ ہماری ثقافت کے ساتھ بھی ان کا کوئی جوڑ نہیں ۔

شادی بیاہ میں بہت سی نئی اور واہیات رسمیں جو پچھلے چند سالوں سے اپنائی جا رہی ہیں ،اسلام میں نکاح سب سے ضروری اور اہم رسم ہے لیکن مسلمانوں نے دوسروں کی تقلید میں منگنی، مہندی ،مایوں اورڈھولکی اور برائدل شاور جیسی فضول رسموں کو اپناتے ہوئے نہ صرف اسلامی رسموں کو گہنا دیا ہے بلکہ دوسرے سفید پوش طبقے کی پریشانیوں میں بھی اضافہ کر دیا ہے جو سوائے معاشی پریشانی اور والدین کو ذہنی کوفت میں مبتلا کرنے کے اور کچھ نہیں۔ ایسی چیزوں کے ذریعے والدین پر غیر ضروری بوجھ پڑتا ہے اور دوسری طرف غریب اور تنگ دست ماں باپ کی بچیاں احساس محرومی میں مبتلا ہو جاتی ہیں ، معاشرتی تفریق اور اونچ نیچ کا تصور انہی چیزوں سے اجاگر ہورہا ہے۔ہمارے دین نے ہر عمل کے پیچھے کوئی نہ کوئی بھلائی رکھی ہے ۔

نکاح کے ذریعے نوع  انسانی کو گناہوں کی طرف جانے سے روکا گیا ہے تا کہ معاشرے کی بنیاد ہی سنت رسولﷺ پر عمل پیرا ہو کر اعلیٰ اخلاق و کردار کے حامل افراد سے رکھی جائے اس میں دکھاوا کرنے اور دوسروں کو ان کی تنگدستی کا احساس دلانے کی اوچھی حرکت شریف انسان کو زیب نہیں دیتا ۔نسل انسانی کی پیدائش اور پرورش عورت کے لئے شرف کی بات ہے ،ازل سے اب تک عورت اس مرحلے سے گزرتی رہی ہے اس کے بارے میں دوسروں کو تب ہی معلوم ہوتا تھا جب گھر میں بچے کی آواز اپنی آمد کا اعلان کرتی تھی ،لیکن اب جذبہ امومت کا بھی سستی مصنوعات کے اشتہار کی طرح پروپگنڈہ کیا جا تا ہے جس کا آغاز گود بھرائی جیسی واہیات رسم سے کیا جاتا ہے اور اس تقریب کی تصویریں بنا کر پوری دنیا کو آگاہ کرنا بھی ضروری سمجھا جاتا ہے۔

ماں کا کیا رتبہ اور مقام ہوتا ہے اس کی حیثیت بھی دکھاوے سے بڑھ کر کچھ نہیں رہی ۔ اب تو موت کو بھی مذاق بنانے کی ریت  چل نکلی ہے۔موت کی خبر سب سے پہلے سوشل میڈیا پر نشر کرنے اور میت کی تصویر اپلوڈ کرنے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش ہوتی ہے۔ گویا نیوز چینل ایک دوسرے سے بازی جیتنے کی دوڑ میں شریک ہیں ۔ میت کی عزت اور احترام کرنا مسلمان اور انسان ہونے کی حیثیت سے ہم پر لازم ہے مگر اب تو یہ حال ہے کہ ایک طرف کسی نے اپنی آخری سانسیں لیں تو دوسری طرف اس کی تصویریں انٹرنیٹ کی زینت بن گئیں ،اور اس میں عورت و مرد کی بھی تخصیص نہیں رکھی جارہی۔ اور ہر کوئی اپنے سٹیٹس پر اس کی تصویر لگاتا ہے چاہے مرحوم/ مرحومہ سے اس کی کوئی رشتہ داری تھی یا نہیں ۔ ایسا کرتے ہوئےکیا ہم  مرحوم / مرحومہ کو خراج تحسین پیش کر رہے  ہیں یا اس کی توہین کررہے ہیں۔ اس وقت انہیں دعاوں کی ضرورت ہوتی ہے نہ کہ ان کی تصویر کو پوری دنیا کے سامنے اشکار کر نے کی۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم اپنی بیوقوفی کی وجہ سے کسی کی روح کو اذیت دینے کی وجہ  بن جائیں  ۔                                                  

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامین
55783

ہم میں کریکٹر نہیں رہا؟ – قادر خان یوسف زئی کے قلم سے

آج درد مند افراد قوم کی حالت پر غور کرتے ہیں اور وہ سب کچھ سن لینے کے بعد، ایک لمبی ٹھنڈی آہ بھر کر، بصد حسرت و یاس، یہ کہہ کر بات ختم کردیتے ہیں کہ صاحب! قوم کی جو جو خرابیاں گنائی گئی ہیں، وہ سب اس میں موجود ہیں، وہ جس تباہی کے گڑھے کی طرف کشاں کشاں اور رواں دواں چلی جارہی ہے، اس کا بھی ہمیں احساس ہے، اس زوال اور انحطاط کا جو انجام ہوا کرتا ہے وہ بھی ہماری چشم ِ تصور کے سامنے ہے، لیکن ان خرابیو ں کے اسباب و علل پر جوں جوں غور کرتے ہیں، ایک ہی نتیجے پر پہنچتے ہیں اور وہ یہ کہ ہم میں کریکٹر نہیں رہا، جس نتیجے پر جو یہ افراد پہنچتے ہیں، وہ 52 تولے 4 رتی درست ہے، اس کے صحیح ہونے میں کسی کو ذرا بھی شبہ نہیں ہوسکتا، قومیں ڈوبتی اُس وقت ہیں جب ان میں کریکٹر نہیں رہتا، یہ سب بجا اور درست، لیکن سوال یہ ہے کہ کریکٹر کہتے کیسے ہیں؟ وہ کیا چیز ہے، جس کا قوم میں فقدان ہے، کریکٹر کا لفظ ایک اصطلاح ہے اور یہ ظاہر ہے کہ جب تک کسی اصطلاح کا مفہوم واضح نہ ہو، بات سمجھ میں آہی نہیں سکتی۔

آج ہمارے یہاں جس قدر ذہنی خلفشار اور عملی تشتت و انتشار پیدا ہورہا ہے، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ قوم کو یکے بعد دیگرے، نہایت خوش نما، نگاہ فریب، سحر انگیز اصطلاحات دی جارہی ہیں، جن کا اصل مفہوم کبھی سامنے نہیں لایا جاتا، یہ مہم اصطلاحات رفتہ رفتہ سلوگن کی شکل اختیار کرچکی اور پھر بلند بانگ نعرے بن کر فضا میں ارتعاش پیدا کیے چلی جاتی ہیں۔ عوام ان اصطلاحات سے مسحور ہوکر آنکھیں بند کیے، ان کے پیچھے لگ جاتے ہیں اور نہ یہ کسی سے پوچھتے ہیں، نہ انہیں کوئی بتاتا ہے کہ ان الفاظ کے حقیقی معنی کیا ہیں اور ان اصطلاحات کا مفہوم کیا، جن کی خاطر انہیں اس قدر قربانیاں دینے کے لئے آمادہ اور مشتعل کیا جاتا ہے۔ ہم مختلف قسم کے نعرے اور دیگر سلوگن، برسوں سے سنتے چلے آرہے ہیں اور ان نعروں سے مسحور ہوکر نامعلوم، عوام کس قدر قربانیاں بھی دے چکے، دے بھی رہے ہیں اور نادیدہ ہاتھوں میں بدقسمتی سے استعمال بھی ہورہے ہیں۔

عوام بے چارے بس سن کر ان کے پیچھے چل دیتے ہیں، لیکن انہیں کسی نے اتنا بتانے کی زحمت بھی گوارا نہ کی کہ ان اصطلاحات کا عملی مفہوم کیا ہے، بھر بحالی جمہوریت، استحکام جمہوریت کی اصطلاح کا ایسا غوغا بلند ہوتا ہے اور اس زور شور سے کہ اس نے صور اسرافیل کو بھی مات کردیا، یہ اصطلاح بھی مبہم ہی رکھی گئی، آج کل فضا میں مذہب اور سیاست کے نام سے جو نت نئی اصطلاحات گونج رہی ہیں، اس میں ہر مدعی کا دعویٰ یہ ہے کہ اصلی اور سکہ بند مال صرف اسی کے ہاں مل سکتا ہے، دوسروں کے پاس جعل سازی، من گھڑت، خودساختہ، نقالی، فریب اور دغا بازی ہے، لیکن کیفیت پھر وہی ہے کہ ان اصطلاحات کا مفہوم پھر بھی واضح نہیں۔ اب ظاہر ہے کہ جس قوم کا معمولِ زندگی یہ ہوچکا ہو کہ اس میں اصطلاحات عام کی جائیں، لیکن اس کی عملی شکل دور دور تک نہ ہو، وہاں اگر یہ کہا جائے کہ ہماری تمام خرابیوں کا بنیادی سبب یہ ہے کہ قوم میں کریکٹر نہیں رہا، لیکن اس کی وضاحت نہ کی جائے تو اس کا گلہ کس سے کیا جائے اور تقاضا کس سے؟

تقاضا کرنے پر بھی زیادہ سے زیادہ یہ کہا جائے گا کہ یہاں ہر شخص جھوٹ بولتا، دوسرے کو دھوکا دیتا ہے، رشوت کے بغیر کوئی کام ہو ہی نہیں سکتا، ہر شخص جائز اور ناجائز ہر طریق سے زیادہ سے زیادہ دولت سمیٹنے کی کوشش کرتا ہے، اس کا سبب اس کے سوا کیا ہے کہ قوم میں کریکٹر نہیں رہا، لیکن سوال پھر وہی ہے کہ کریکٹر کہتے کسے ہیں کہ جب تک اس اصطلاح کا مفہوم واضح نہیں ہوگا۔ جب مردان حق آگاہ کی یاد منانے کے لئے ہم ہر حد سے گزر جاتے ہیں، جس کی عظمتِ شان اور رفعت مقام کے صحیح نقوش کو ہم اپنا نصب العین تک نہیں بناپاتے، سلامتی اور امن کے لفظوں کو پڑھتے تو ہیں لیکن دلوں میں اس کی کوئی گنجائش نہیں، ایسے مسخ کرداروں کو اچھائی کا پیرہن کس طرح دیں کہ اس سے مکمل ناآشنائی ہے۔ ڈر اور لالچ دو ایسے کام ہوتے ہیں، جن سے آپ کسی سے، اس کی خلافِ منشا کام کراسکتے ہیں۔

ہر ذی حیات، ہر قیمت پر اپنی جان کی حفاظت کرتا ہے، اس کے لئے اسے جس قدر اسباب و ذرائع کی ضرورت ہوتی ہے وہ اُسے حاصل کرتا اور محفوظ رکھتا ہے۔ چیونٹی کی ننھی سی جان ہوتی ہے ، اس کے راستے میں ایک ذرا سا تنکا رکھ دیجیے اور دیکھئے کہ وہ اس سے محفوظ رہنے کے لئے کس قدر تڑپتی اور تلملاتی ہے اور وہ جو کہتے ہیں کہ بلی کے پائوں جلنے لگے تھے تو اس نے اپنے بچے کو پائوں تلے لے لیا تھا، تو وہ بھی اسی جذبۂ تحفظِ خویش کی نمود تھی۔ چیل کے سائے سے مرغی کے چوزے کس طرح بھاگ کر اس کے پروں تلے دبک کر بیٹھ جاتے ہیں اور بلی کی میائوں سے چوہیاں کس طرح بلوں میں گھس جاتی ہیں، لہٰذا اگر کوئی شخص یا گروہ اپنی خودساختہ اصطلاح کے بدلے درندوں کی درندگی کو برداشت کرتا رہے تو اسے اس کا کریکٹر نہیں کہا جائے گا، اگر کریکٹر کا یہی معیار ہو تو پھر جانوروں سے بڑھ کربلند کردار کا حامل کون ہوسکتا ہے؟، آج ہم سماجی، اخلاقی، سیاسی وغیرہ کے سفرِ حیات کے اُس دوراہے پر ہیں، جو بال سے باریک اور تلوار سے تیز پُل صراط کی طرح ہے کہ جس پر سے اگر ذرا سا بھی پائوں پھسلے تو ساری قوم تباہیوں اور بربادیوںکے جہنم میں جاگرے۔

Posted in تازہ ترین, مضامین
55778

بزمِ درویش ۔ جال ۔ تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

میرے سامنے کینسر کا لا علاج مریض تھا جس کی حالت موت سے بھی بدتر ہو گئی تھی بلکہ زندگی ایک سزا بن گئی تھی جو بیماری کی گرفت شدت اور لا علاج ہونے کی وجہ سے عبرت کا اشتہار بن گیا تھا میں ماضی حال کے درمیان گھڑیال کے پنڈولم کی طرح جھول رہا تھا کبھی ماضی کا خوبصورت صحت مند دولت مند جوان جو گفتگو کا مسٹر تھا اپنی ذہانت اور میٹھی گفتگو سے مد مقابل کو اپنا مستقل قیدی بنا لیتا تھا جس کی گفتگو کا شہر ہ،حلقہ یاراں میں مشہور تھا لیکن گردش ایام اور وقت کی آندھی اُس سے طاقت جوانی حسن دولت اور فرعونی مزاج چھین کر لے گئی تھی انسان طاقت اقتدار جوانی دولت کے نشے میں زندہ انسانوں کو کیڑے مکوڑوں کی طرح پاؤں تلے روندتا چلا جاتا ہے لیکن پھر وقت کی چکی اُس کو پیس کر خاک میں بدل دیتی ہے.

انسان کے پاس جب بے پناہ دولت آجاتی ہے اوپر سے قدرت نے جوانی اور خوبصورتی کی بہار بھی عطا کر دی ہو تو پھر رگوں میں دوڑتے گرم جو شیلے خون کی وجہ سے سمجھتا ہے کہ کامیابی طاقت دولت جوانی کا یہ سورج ہمیشہ اِس پر اِسی طرح چمکتا دمکتا رہے گا وہ ہمیشہ عروج کا موسم ہی دیکھے گا زوال بڑھاپا غربت ناکامی بیماری سے کبھی واسطہ نہیں پڑے گا وہ خدا سے یہ ساری نعمتیں ہمیشہ کے لیے مانگ کر لایا ہے اِس کا واسطہ کبھی بھی زوال سے نہیں پڑنا اِس پر ہمیشہ موسم بہار کے رنگوں کی برسات اِسی طرح جوبن پر رہنی ہے اُس وقت انسان یہ بھول جاتا ہے کہ جو دن نکلتا ہے اُس کا سورج ایک دن غروب بھی ہو تا ہے رگوں میں دوڑتا خون ٹھنڈا بھی پڑتا ہے جس جسم پر جوانی میں انسان فخر کرتا ہے جب بڑھاپے کی امر بیل رگوں کو چاٹنا شروع کر تی ہے جسم بیماریوں کی آما جگاہ بنتی ہے تو پتہ ہی نہیں چلتا دھوپ سے چھاؤں کے بعد اندھیرا چھا جاتا ہے. پھر پچھتاوے ندامت کے علاوہ کچھ نہیں بچتا.

میرے سامنے پڑا کینسر کا مریض بھی عروج سے زوال‘جوانی سے بڑھاپے اور قدرت کی گرفت میں داخل ہو کر نشان عبرت بن چکا تھا میرے اور اِس کے درمیان سالوں پہلے جو واقعہ رونماہوا تھا جس کی وجہ سے میرا اِس سے رابطہ ٹوٹ گیا تھا وہ اِس طرح تھا کہ جب یہ سالوں پہلے کسی جوان خوبصورت لڑکی کو لے کر میرے پاس آیا تھا تو میں نے اِس کی چالاکی عیاری عیش پرستی کو بھانپتے ہوئے ساتھ آئی لڑکی سے موقع پاکر کہا تھا دیکھو بیٹی تم کسی نیک خاندان سے لگتی ہو اِس وقت اِس کی باتوں اور محبت میں اندھی اور غرق ہو میری نصیحت ہے کہ اپنی آنکھیں کھولو اپنی جوانی اور وقت برباد نہ کرو اِس سے جلدی شادی کر لو اگر یہ انکار کرے تو اِس سے جان چھڑا کر اپنے والدین کی مرضی سے اچھی جگہ شادی کر لو میری بات سن کر لڑکی بے

یقینی سے بولی سر آپ کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ یہ میرے ساتھ بے وفائی کریں گے یہ تو مجھ سے بہت زیادہ محبت بلکہ عشق کر تے ہیں یہ تو میرے بنا سانس بھی نہیں لیتے لڑکی مکمل طور پر اِس کے عشق میں گرفتار تھی لیکن پھر بھی میرے بہت سمجھانے پر اتنا تیار ہوئی کہ میں غیر جانبدار ہو کر اِس کا مشاہدہ اور شادی پر اصرار کروں گی پھر جب یہ واپس چلے گئے تو چند ماہ بعد ہی اُس لڑکی کا مجھے فون آیا سر آپ ٹھیک کہہ رہے تھے میں اندھی محبت سے نکل کر حقیقت کی دنیا میں آکر دیکھ رہی ہوں تو مجھے بہت ساری باتیں اور عیاشی کی داستانیں مل رہی ہیں پھر چند دن بعد لڑکی کا فون آیا سر میں نے اِس کے ذاتی ملازم کو لالچ اور قسم دے کر پوچھا تو اُس نے بتایا کہ یہ تو سالوں سے مختلف لڑکیوں کو اپنے دام محبت میں گرفتار کر تا ہے پھر چند ماہ ان سے کھیل کر چھوڑ کر نئی لڑکی کو اپنے جال میں پھنسا لیتا ہے طریقہ واردات بہت خوفناک ہے مختلف دفتروں میں جا کر مختلف خوبصورت لڑکیوں کو دیکھتا ہے یا پھر اخبار میں نوکری کا اشتہار دیتا ہے اچھی تنخواہ کا لالچ دے کر اُس کو اپنی سیکرٹری لگاتا ہے

پھر اُس پر دولت کی برسات کر تا ہے اُس کو اپنی محبت اور شادی کے جال میں پھنساتا ہے اگر کوئی لڑکی اِس طرح قابو نہ آئے تو اُس کو بہت بڑی رقم ادھار دے کر پھر واپسی کا تقاضہ کرتا ہے کسی پر چوری کا الزام لگا کر اُس کو تھانے گرفتاری کا خوف دلا کر اپنے جال میں پھنسا لیتا ہے یہ بہت بڑا شکاری ہے جو اپنی باتوں دولت تعلقات چالاکی سے مختلف لڑکیوں کو اپنے جال میں پھنسا کر اپنی جنسی ہوس پوری کر تا ہے اپنے ٹارگٹ یعنی لڑکی کو اپنے جال میں پھنسا نے کے لیے یہ کچھ بھی کر سکتا ہے جان سے مار دینے کی دھمکی یا میں تمہارے عشق میں نہ ملی تو خو دکشی کر لوں گا یہ کچھ بھی کر سکتا ہے لڑکی بیچاری جیسے جیسے اِس کی کھوج کرتی گئی اِس کا شیطانی چہرہ اور داستانیں سامنے آتی گئیں

اب جب لڑکی اِس کا گھناؤنا چہرہ دیکھ گئی تو اُس نے اِس سے شادی کا اصرار کیا پہلے تو ٹال مٹول کرتا رہا جب لڑکی نے زیادہ اصرار کیا تو لڑائی جھگڑا کر کے چھوڑ دیا اُس وقت لڑکی نے مجھے فون کیا کہ سر میری عزت سے کھیل کر اب یہ مجھے اپنی زندگی سے نکال رہا ہے تو میں نے اُس کو فون کیا کہ یار تم تو اِس سے شادی کر نا چاہتے تھے اب اُس کو چھوڑ کیوں رہے ہو تو اِس نے مجھے کہا سر آپ نیک انسان ہیں میں آپ کی قدر کر تا ہوں آپ میرے معاملے میں دخل اندازی نہ کریں یہ میرا ذاتی مسئلہ ہے اِس طرح میں لڑکیوں سے شادی کر نا شروع کردوں تو آدھے شہر کی لڑکیاں میری بیویاں ہو نگیں سر آپ ہمارے معاملے سے دور رہیں یہ میری اِس سے سالوں پہلے آخری بات چیت تھی اُس کے بعد آج یہ سالوں بعد میرے سامنے آیا تھوڑی دیر بعد یہ چلا گیا تو میں نے اِس کاخط کھول کر پڑھا جس میں لکھا تھا سر آخری بار آپ نے مجھے بہت سمجھایا تھا کہ میں تو بہ کر لوں لڑکیوں کی زندگیاں برباد نہ کروں تو میں نے کہا تھا یہ لڑکی میرے اوپر الزام لگاتی ہے میں تو صاف ستھرے کردار کا مالک ہوں سر میں طاقت جوانی دولت میں غرق تھا میں جال بنا کر لڑکیوں کو پھانستا تھا اب قدرت نے جال بنا کر مجھے پھنسا لیا اب میں نشان عبرت ہوں سر میں اقرار کرتا ہوں میں گناہ گار تھا لڑکیوں کی زندگیاں برباد کیں سر میں آپ سے اور خدا سے معافی کا طلب گار ہوں مجھے معاف کر دیجئیے گا دعا کریں مجھے جلدی موت آجائے میری اِس اذیت سے جان چھوٹ جائے اُس نے تو معافی مانگ لی لیکن میں حیران تھا کہ جوانی طاقت دولت میں جو لوگ جال بنا کر لوگوں کو پھانستے ہیں وقت گزرنے کے بعد قدرت کے جال میں پھنس کر نشان عبرت بن جاتے ہیں۔

Posted in تازہ ترین, مضامین
55764

چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر ایکٹ ۔ محمد شریف شکیب

خیبر پختونخوا کابینہ نے چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر ترمیمی ایکٹ 2020کی منظوری دیدی ہے۔نئے قانون کا نفاذ صوبائی اسمبلی کی منظوری سے مشروط ہوگا۔ ایکٹ کے تحت بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے ملزموں کے لئے سخت سزائیں تجویز کی گئی ہیں جن میں پھانسی اور تاحیات عمر قیدکی سزا شامل ہے۔سزامیں کسی قسم کی معافی یا رعایت نہیں دی جائے گی۔ کا بینہ کمیٹی نے پھانسی کی سزا کی و یڈیو بنانے اور اسے عام کرنے کی تجویز سے اتفاق نہیں کیا۔ پھانسی یا عمر قید کی سزا کے ساتھ جرمانہ بھی عائد کیاگیاہے جو 20لاکھ ر وپے سے کم نہ ہوگا اور اسے 50لاکھ روپے تک بڑھایا جاسکتا ہے۔کابینہ نے فیصلہ کیا کہ چائلڈ پورنو گرافی میں ملوث افراد کو 14سال قید با مشقت اور پچاس لاکھ تک جرمانہ کی سزا ہوگی۔

بچوں کی سمگلنگ کے دھندے میں ملوث افراد کو زیادہ سے زیادہ 25سال اور کم سے کم 14سال قید با مشقت اور 50لاکھ روپے تک جرمانے کی سزا تجویز کی گئی ہے۔ پولیس تحقیقات کے لیئے آڈیو، ویڈیو آلات بشمول ڈی این اے بطور ثبوت عدالت میں پیش کرنے کی مجاز ہوگی۔ان جرائم میں ملوث افراد کے ناموں کا رجسٹر میں باقاعدہ اندراج کیا جائیگا۔ اور ان پر پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرنے پر پابندی ہوگی۔یہ نام چائلڈ پروٹیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کئے جائیں گے۔ اور ان کا ڈیٹا نادرا سے بھی شیئر کیا جائے گا۔ اور عوام کی ان تک رسائی یقینی بنائی جائیگی۔ جن افراد کا رجسٹر میں اندراج ہوجائے اسے کسی پبلک یا پرائیویٹ ملازمت دینے کی صورت میں ادارے کے مالک یا سربراہ کو 5سال قید یا ایک کروڑ روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں ہوسکتی ہیں۔

صوبائی کابینہ نے نیوپشاورسٹی میں پشاورپریس کلب کے ممبران کو 10 مرلہ پلاٹس کی فراہمی اور انفارمیشن کمپلیکس کے لئے اراضی مختص کرنے کی بھی منظوری دیدی۔کا بینہ نے خیبر پختونخوا پریس، نیوز پیپرز، نیوز ایجنسیز اینڈبک رجسٹریشن ترمیمی ایکٹ 2021کی منظوری دے دی ہے۔ جس کے تحت اخبار کی ڈیکلیریشن صرف خونی رشتے کو ٹرانسفر کرنے کی شرط ختم کردی گئی ہے۔ صوبائی کا بینہ نے صوبے کی سات سرکاری یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر کی تعیناتی کے لیے اکیڈمک سرچ کمیٹی کے لیے ناموں کی منظوری دے دی ہے جو چانسلر کی باقاعدہ منظوری کے لیے بھیجے جا ئیں گے۔

خیبر پختونخوا ملک کا پہلا صوبہ ہے جس نے بچوں کے ساتھ زیادتی کے تدارک کے لئے سخت قوانین مرتب کئے ہیں۔گذشتہ چند سالوں کے دوران ملک کے مختلف شہروں میں کمسن بچوں اور بچیوں کو جنسی ہوس کا نشانہ بنانے کے بعد گرفتاری کے خوف سے قتل کرنے کے واقعات میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ ایک اسلامی معاشرے میں اس قسم کے جرائم انتہائی شرمناک ہیں۔ خونخوار درندے، جنگلی یا پالتو جانور بھی اپنی جنس کے بچوں کو اپنی ہوس کی آگ بجھانے کے لئے استعمال نہیں کرتے۔اشرف المخلوقات اور پھر مسلمان ہونے کے باوجود معصوم بچوں کے ساتھ زیادتی اور ان کا قتل انسانیت کے ماتھے پر بدنما داغ ہے ایسے عناصر کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹے بغیر ان سنگین ترین جرائم پر قابو پانا مشکل ہے۔

صوبائی کابینہ نے اس قانون کی منظوری دے کر بلاشبہ ایک مستحسن قدم اٹھایا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس قانون پر اس کی روح کے مطابق عمل بھی کیاجائے۔ ہمارے ہاں معاشرتی جرائم، کرپشن، رشوت ستانی،ایذا رسانی، کسی کی جان و مال اور عزت و آبرو کو داؤ پر لگانے کے خلاف قوانین توموجود ہیں لیکن ان پر عمل درآمد کے فقدان کی وجہ سے انصاف کے نظام پر سے لوگوں کا اعتماد اٹھتا جارہا ہے۔ اور قرار واقعی سزا نہ ملنے کی وجہ سے جرائم پیشہ لوگ کھلے عام دندناتے پھیر رہے ہیں۔ حکومتی رٹ قائم کرنے، قانون کی بالادستی اور لوگوں کو فوری اور سستے انصاف کی فراہمی کے لئے حکومت کو اپنے وضع کردہ قوانین کے نفاذ کے لئے بھی عملی اقدامات کرنے ہوں گے

Posted in تازہ ترین, مضامین
55757

اسلام میں اقلیتوں کے حقوق اور سانحہ سیالکوٹ۔ تحریر:اشتیاق احمد

حصہ دوم: اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کے حقوق
اسلام ایک ایسا دین ہے جو کسی بھی مذہب کو بری نگاہ سے نہیں دیکھتا، بلکہ تمام آسمانی مذاہب کی تصدیق کرتا اور ان کے پیروکاروں کو مکمل آزادی دیتا ہے کہ وہ اپنے مذہب پر قائم رہیں یہودیت اور عیسائیت کی طرح وہ اپنا دروازہ طالب ہدایت کے لیے بند نہیں کرتا بلکہ ہر وقت کھلا رکھتا ہے۔


مگر کسی بھی غیر مسلم کو جو مسلم حکومت کے زیر نگیں زندگی گزار رہا ہو، مجبور نہیں کرسکتا کہ وہ اسلام قبول کرلے قرآن کریم میں واضح حکم ہے:دین کے معاملے میں کوئی جبر نہیں۔
سورۃ النحل میں ارشاد باری تعالیٰ ہے’’اپنے رب کے راستے کی طرف اچھی باتوں کے ذریعے بلائو اور بہت پسندیدہ طریقےسے بحث کرو‘‘۔
اسی کے ساتھ اس کی بھی تلقین ہے :مسلمانو! جو لوگ اللہ کے سوا دوسرے معبودوں کی عبادت کرتے ہیں ،انہیں برا نہ کہو، یہ لوگ نادانی سے خدا کو برا کہنے لگیں گے۔ (سورۃ الانعام)نیزفرمایا گیا:’’جس نے اس کے رسولﷺ کی ہدایت کے مطابق سیدھی راہ اختیار کی، وہ تو اپنے ہی لیے اختیار کرتا ہے اور جو بھٹکا ،وہ بھٹک کر اپنا ہی راستہ کھوٹا کرتا ہے‘‘۔سورۂ بنی اسرائیل میں ارشاد رب العزت ہے:جو شخص سیدھی راہ پر چلتا ہے وہ اپنے نفع کے لیے راہ پر چلتا ہے اور جو شخص بے راہی اختیار کرتاہے سو وہ بھی اپنے نقصان کے لیے بے راہ ہوتا ہے‘‘۔ ان آیتوں سے واضح ہوا کہ اسلام کی تعلیم یہی ہے کہ روگردانی کرنے والوں سے کوئی تعرض نہ کیا جائے، ان پر کوئی زور، جبر اور زبردستی نہ کی جائے۔


اس میں کچھ تردد شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ مسلمانوں نے اس حکم خداوندی کی پاس داری کی ہے، بلکہ ان احکام کے مطیع و فرماں بردار بن کر رہے اور ان کا پورا پورا حق ادا کیا۔ نبی کریم ﷺ اور خلفائے راشدینؓ نے مختلف اقوام سے جو معاہدے کیے اور ان کے ساتھ جو صلح نامے کئے ،ان میں اسلام کی وسعت نظری کا اندازہ اور دریادلی کا ثبوت ملتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ غیر اقوام کے لوگوں نے بھی اس چیز کو تسلیم کیا ہے کہ اسلام کس طرح غیر مذاہب کے لوگوں کا ادب واحترام کرتا ہے، انہیں کس طرح سے مذہبی آزادی، معاشرتی و تجارتی آزادی کی چھوٹ دیتا ہے۔


اہل نجران کی درخواست پر نبی اکرم ﷺنے جو انہیں صلح نامہ لکھ کر دیا تھا، اس کے الفاظ یہ تھے۔’’نجران کے عیسائیوں اور ان کے ہمسایوں کے لئے پناہ اللہ کی اور محمد ﷺ کا عہد ہے ،ان کی جان، مذہب ، زمین، اموال، حاضر وغائب، قاصدوںاور ان کے مذہبی نشانات، سب کے لئے جس حالت پر وہ اب تک ہیں ،اسی پر بحال رہیں گے۔ ان کے حقوق میں سے کوئی حق اور نشانات میں سے کوئی نشان نہ بدلا جائے گا۔ (فتوح البلدان)


حضرت عمرفاروقؓ نے اہل بیت المقدس کو جو صلح نامہ لکھ کر دیا تھا اس کے الفاظ اس طرح ہیں:’’انہیں امان دی، ان کی جان ومال اور ان کے کنیسوں اور صلیبوں اور ان کے تندرستوں اور بیماروں کے لئے یہ امان ایلیا کی ساری ملت کے لیے ہے۔عہد کیاجاتا ہے کہ ان کے کنیسوں کو مسلمانوں کا مسکن نہ بنایا جائے گا اور نہ ہی انہیں منہدم کیا جائے گا۔ نہ ان کے احاطوں اور ان کی عمارتوں میں کوئی کمی کی جائے گی۔ نہ ان کی صلیبوں اور ان کے اموال میں سے کسی چیز کو نقصان پہنچایا جائے گا ان پر دین کے معاملے میں کوئی جبر نہ کیا جائے گا اور نہ ان میں سے کسی کو ضرر پہنچایاجائے گا‘‘۔ (تاریخ طبری)


عصر حاضر میں جہاں سستی و کاہلی لوگوں کی فطرت ثانیہ بن کر ان کو اپنے مقصد زندگی سے دور کیے جا رہی ہے، وہاں ان کو ظاہر پرستی اور ظاہر بینی کی ایسی لت لگی ہوئی ہے کہ ہر چیز کو اسی ظاہر کی عینک سے دیکھنے پر تلے ہوئے ہیں۔ جس سے بے شمار غلطیوں اور بے راہ رویوں کی راہیں پھوٹتی ہیں۔ اسی سبب عظیم نے لوگوں کے لئے کسی بھی مذہب کو سمجھنے کےلئے وہ راہیں فراہم کیں کہ لوگ کسی بھی مذہب کو سمجھنے کے لئے ان اصولوں اور بنیادوں کی طرف عود کرنے کے بجائے اس مذہب کے پیرووں کی طرف دیکھتے ہیں اور اسی کو مذہب سمجھنے لگتے ہیں، چاہے وہ پیرو کار اپنے مذہب سے کتنے ہی کورے اور جاہل کیوں نہ ہوں،اور ان کے مذہب کے درمیان بعد المشرقین ہی کیوں نہ ہو۔


بطور مثال آج کی دنیا میں عیسائیت کو سمجھنے کےلئے برائے نام عیسائیوں کی طرف دیکھنا قدرے مضحکہ خیز ہوگا، اس لئے کہ عیسائیت کی عمارت اس وقت زمین بوس ہوگئی تھی جس وقت اسے عملی دنیا سے بے دخل کر کے چند رسوم و رواج کی چار دیواری میں محصور کیا گیا تھا ،اور جس وقت وہ مادیت کے سامنے ہتھیار ڈال چکی تھی۔
کچھ یہی رویہ دوسرے مذاہب کے ساتھ ان کے نادان پیروکاروں نے برت رکھا ہے اور بدقسمتی سے اسی گھیرے میں اسلام {چند مستثنیات کے علاوہ }بھی آگیا۔اور اس بہتی گنگا میں اسلام کے ناداں پیروکوں نےبھی ہاتھ دھونے لگے۔حالانکہ وہ اسلام جس کے شارع نے فرمایا تھا


مَن قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا{المائدۃ 32}
ترجمہ:جس نے کسی جان کو بغیر کسی شخص کے یا زمین کے اندر فساد پھیلاتے ہوئے قتل کیا تو گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کردیا اور جس نے کسی ایک جان کو (قتل سے بچا کر) زندہ رکھا اس نے گویا تمام انسانوں کو زندہ رکھا۔
اوررہبر صادق صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جس نے کسی ذمی(غیر مسلم) کو ناحق قتل کیا وہ جنت کی خوشبو بھی نہ پا سکے گا{صحیح بخاری: 3166}


اب دنیا بھی چند خود کو مسلمان کہلانےوالوں کو اسلام سمجھنے لگی ہے۔ حالانکہ دین اسلام میں کوئی غلط بات اس دلیل سے صحیح نہیں ہو سکتی ہے کہ بڑے بڑے لوگ اس کے مرتکب ہوئے ہیں چہ جائے عوام کےیہ ایسی واضح بات ہے جس سے یگانے ہی نہیں بلکہ بیگانے بھی خوب واقف ہیں۔


بے شمار واقعات جو اسلام کے نام پر دنیا کے سامنے رونما ہوئے ہیں جن سے ناجائز فائدہ اٹھا کر موقع پرستوں اور ابن الوقتوں نے اسلام کی ایسی تصویر کشی کی ہے ، کہ رحمت والا دین دنیا کے سامنے زحمت نظر آنے لگا ہے ،اور محبت کا درس دینے والا دین نفرت کی آماجگاہ دکھائی دینے لگا ہے۔


حالانکہ جدید تحقیق کے متوالے دوسروں کا بخیہ ادھیڑنے میں تیز دست اور اپنے بارے میں بھولے اور نرم گیر بننے والےحضرات مستشرقین {جن کی تحقیق کی فلک بوس عمارت چند ایک بوسیدہ ہڈیوں پر کھڑی ہے} وہ بھی جان بوجھ کر زمینی حقائق اور اصول و قواعد سے اغماض برت کر اسلام کو بدنام کرنے کے لئے ایسی بودی چیزوں پر اپنی تحقیق کی داغ بیل ڈال دیتے ہیں جو خود ان کے ہاں کسی چیز کے ثبوت کے لئے ناکافی ہیں۔ ان کی مثال اس گندی مکھی جیسی ہے جو ہر وقت گندگی کی تلاش میں ہوتی ہے۔ یہ حضرات بھی اسلام کو قرآن وحدیث سے سمجھنے کے بجائے ان نادان پیرووں کو دیکھتے ہیں جن کا دین سے برائے نام نسبت رہ گئی ہے۔


مجھے احساس ہے کہ اسلام کے حوالے سے سے دل ناتواں اعتراضات کے مزید بوجھ سہارنے سے کمزور تو ضرور ہے مگر قلم کو جنبش نہ دینا شاید اس کو مزید بے بس اور عاجز کردے۔ اس لئے مجبور ہوکر کچھ حسرتیں سپرد قرطاس کر رہا ہوں۔
میری ذاتی رائے ہے کہ اس سانحے کے اسباب اور وجوہات دو طرح کے ہوسکتے ہیں ۔
یا اس سانحے کی آگ بھڑکی نہیں بلکہ بھڑ کائی گئی،اور جو لوگ شریک ہوئے ،وہ آئے نہیں بلکہ لائے گئے، اور درحقیقت فتنہ اٹھا نہیں اٹھایا گیا ہے اس کے پیچھے ان گندی مکھیوں {اسلام دشمن عناصر }کی قوت شامہ ہے جو کوسو ں دور خوشبو سے اعراض کرتی ہوئی بدبو پر ڈھیرا ڈال دیتی ہے۔اس طرح کی مثالیں دور نبوی سے دور حاضر تک بھری پڑی ہیں۔


اس طرح یہ سانحہ سیالکوٹ بھی آئے روز ز دشمنان اسلام کے قلم کی زینت بنتا رہے گا، وہ اس کو ہوا دیتے رہیں گے اور اسلام کے نام پر کیچڑ اچھالنے میں کو کسر باقی نہیں چھوڑیں گے۔مگر اسلام ان شاء اللہ ہمیش تابندہ رہے گا۔
افسوس سانحے میں اسلام کے نام پر اسلام کی دھجیاں اڑائی گئی، محمد الرسول اللہ کے نام پر ہدایت رسول کو پس پشت ڈال دیا گیا اور ایمانی جذبے کے نام سے شیطانی جذبے سے ایک معاہد ذمی کو ظلم کی آنکھ میں جھونک دیا گیا۔اس طرح کی حرکت کسی مسلمان سے بہت بعید ہے۔ اس لئے کہ رحمت دو جہاں نے فرمایا تھا کہ: فتنہ سو رہا ہے۔اس کے جگانے والے پر اللہ کی لعنت تو کون مسلمان ہوگا جو اللہ کی لعنت کو جان بوجھ کرلےلے۔


یا احمقوں کی جنت کے امید وار جاہل عوام نے جان بوجھ کر یہ کام کیا ہے۔میں پھر بھی ان جاہلوں کو قابل ملامت نہیں سمجھتا جو اس غریب آدمی کے قتل میں شریک ہوئے، اس لئے کہ ان کی تربیت ہی ایسی کی گئی کہ وہ یہ کام کرتے ہوئے اس کو دین کی خدمت سمجھ رہے تھے۔ وہ سارے ان پڑھ،جاہل اور دین سے کورے ہیں۔ میں درحقیقت قابل ملامت ان رہنماووں اور لیڈرز کوسمجھتا ہوں جو دین کو سمجھے بغیر خدمت کے جذبے سے سرشار ہوکر کمر کس کے میدان دین میں چھلانگ لگاتے ہیں۔ جن کے ہاتھوں دین کی رہنمائی کا زمام دینا بندر کے ہاتھوں کلہاڑی دینے کے مترادف ہے کہ کسی بھی وقت اپنا یا دوسرے کا نقصان کرسکتا ہے۔
ان جیسوں کی تصویر کشی کرتے ہوئے اقبال نے بہت خوب کہا تھا۔


شکایت ہے مجھے یارب خداوندان مکتب سے
سبق شاہین بچوں کو کو دے رہے ہیں خاکبازی کا
حالیہ سانحہ سیالکوٹ بھی ان غلط کھینچی ہوئی تصاویر میں سے ایک ہے جس کا داغ اسلام کے دامن پہ نہیں بلکہ مسلمانوں کے دامن پر ہے۔ جمال الدین افغانی نے کسی کے پوچنے پر بتایا تھا کہ مجھے دنیا میں مسلمان تو بہت نظر آئے مگر اسلام بہت کم ،اور دنیائے کفر میں اسلام تو بہت نظر آیا مگر مسلمان نہیں ۔


کیا خبر کتنے ہزاروں مائل اسلام لوگ اس وجہ سے اسلام سے بدظن ہوگئے ہوں گے، کتنے اسلام کی سرحد تک پہنچے ہوئے متلاشیاں حق مایوسی سے یہ کہتے ہوئے پسپا ہو گئے ہوں گے کہ جس دین میں انسانیت کے ساتھ یہ سلوک ہے اسی دن میرا کیا بنے گا۔

Posted in تازہ ترین, مضامین
55755

معاشی اور معاشرتی ترقی اورانسانی رویے – ڈاکٹر ساجد خاکوانی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

معاشی اور معاشرتی ترقی اورانسانی رویے

International Volunteer Day for Economic and Social Development

(5دسمبر،اقوام متحدہ کا ”عالمی یوم رضاکاران برائے معاشی و معاشرتی  ترقی“کے موقع پر خصوصی تحریر(

ڈاکٹر ساجد خاکوانی(اسلام آباد،پاکستان(

            انسان جنم لیتے ہی سب سے پہلے اپنے معاشی مسئلے کا چینخ چینخ کراظہار کرتا ہے۔وہ یہ نہیں کہتا کہ میں ننگاہوں مجھے کپڑے پہناؤیامیں کسی مذہب میں داخل ہوتا ہوں مجھے کلمہ پڑھاؤیانہ ہی وہ اپنے دوست،دشمن،خالق،مالک اور رازق کے بارے میں استفسار کرتاہے اور نہ ہی وہ اپنی نسل رنگ اور زبان وغیرہ کے بارے میں آگاہی چاہتا ہے بلکہ اسکا سب سے پہلا،سب سے زورآوراور سب سے بنیادی تقاضااسکاپیٹ ہوتا جس کے بھر جانے پر وہ اپنے گردونواح سے بے خبر نیندکی آغوش میں اس طرح پہنچ جاتا ہے کہ پھر معاشی مسئلہ ہی اسے اس نیند سے بیدار کرتا ہے۔جب کہ معاشرہ وہ ابتدائی آماجگاہ ہے جہاں انسان کا جنم واقع ہوتا ہے۔انسان نہ ہی انڈے سے نکل کر پانی میں تیرنا شروع کر دیتا ہے اور نہ ہی کسی فارم میں اسکی پیدائش وپرورش کے مراحل طے ہوتے ہیں۔ماں کا پیٹ ایک معاشرتی اختلاط کے باعث حکم ربی سے بارآور ہوتا ہے،ماں کی مامتاوہ سب سے پہلا تحفہ ہے جومعاشرے کی طرف سے انسان کو پیداہونے سے قبل ہی میسر آجاتا ہے۔پیدائش کے ساتھ ہی معاشرے کا عطا کردہ خاندان اس انسان زادے کو اپنی محبت،الفت،پیار اور چاہت کی گھنیری چھاؤں میں لے لیتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ جانور،پرندے یا مچھلی کا بچہ تو شاید کسی معاشرتی پشتیبانی کے بغیر پل بڑھ سکے لیکن آدم زاد کو ایسی صورت حال میں کوئی خدائی معجزہ ہی حشرات الارض سے بچا سکتاہے۔

            گویامعاش اور معاشرہ انسان کی وہ ضرورتیں ہیں جنہیں ذات باری تعالی نے کمال رحمت سے نومولودکی آمد سے قبل ہی پورا کر دیاہے۔انسانیت ان دونوں عناصر کے بغیر نہ صرف نامکمل ہے بلکہ انسان کا وجودہی انہی دونوں کا مرہون منت ہے۔بچپن،لڑکپن،آغازشباب،شباب،ادھیڑپن اور پھر بڑھاپے کی تمام منزلوں میں انسان پہلے سے زیادہ اور مزید زیادہ تر ان دونوں عناصر کا محتاج ہوتا چلا جاتا ہے۔اسے معاشی اور معاشی ترقی کے لیے اپنا انسانی کردارادا کرنا ہے جس کو قدرت الہیہ نے بڑی خوبصورتی سے ماں کی مامتا اور باپ کی شفقت کے استعاروں میں ڈھانپ دیا ہے۔یہ دونوں کردار ماں اور باپ دراصل سب سے اولین معاشی و معاشرتی رضاکار ہیں ”وَ وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بَوَالِدَیْہِ حَمَلَتْہ‘ اُمُّہ‘ وَہْنًا عَلٰی وَہْنٍ وَّفِصٰلُہ‘ فِیْ عَامَیْنِ اَنِ اشْکُرْ لِیْ وَلِوَالِدَیْکَ اِلَیَّ الْمَصِیْرُ(۱۳:۴۱)“ترجممہ:”اورحقیقت یہ ہے کہ ہم نے انسان کواپنے والدین کاحق پہچاننے کی خود تاکید کی ہے،اس کی ماں نے تکلیف پرتکلیف اٹھاکراسے اپنے پیٹ میں رکھااوردوسال اس کادودھ چھوٹنے میں لگے (اسی لیے ہم نے نصیحت کی کہ)میراشکرکرواوراپنے والدین کا شکربجالاؤ،میری طرف ہی تم کوپلٹناہے“۔اللہ تعالی کاکیا عجیب اورشاندارنظام ہے کہ ناخن سے رسولی تک انسان کے جسم کے ساتھ لگی تکلیف دہ چیز جب کاٹ کر الگ کی جاتی ہے تو انسان اسے بڑی نفرت اور حقارت سے دیکھتا ہے اور اسے دور پھینک دیتا ہے لیکن نو ماہ تک دردپر درد دینے والا نومولود جب اس دنیا میں وارد ہوتا ہے تو ماں اسے سینے لگا کر اپنے شیریں چشموں سے سیراب کرتی ہے۔اگرچہ جانور کے ہاں بھی مامتا کا یہی کردارہے لیکن جانوروں کے ہاں اکثر نسلوں میں باپ کا کوئی کردار نہیں ہوتابلکہ بعض اوقات تو ماں اپنے بچوں کو نرجانور سے چھپاتی پھرتی رہتی ہے۔اسکے مقابلے میں انسان کے ہاں باپ کاکردارنسل کی پرورش پرمحیط ہے،جس کا بہت بڑا حصہ معاش سے تعلق رکھتا ہے یعنی باپ اپنے قبیلے کی معاشی کفالت کا ذمہ دار ہوتا ہے”اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَی النِّسَآءِ بَمَا فَضَّلَ اللّٰہَ بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ وَّ بِمَآ أَنْفَقُوْا مِنْ أَمْوَالِہِمْ(۴:۴۳)“ترجمہ:”مردحضرات عورتوں پر نگران ہیں،اس بناپر کہ اللہ تعالی نے ان میں سے ایک کودوسرے پرفضیلت دی ہے اوراس بناپر کہ مرداپنے مال خرچ کیے ہیں“۔

            معاشی ترقی اور معاشرتی ترقی کوجدا نہیں کیا جاسکتا،جو معاشرہ معاشرتی ترقی سے ہم آہنگ ہوگا وہیں معاشی ترقی بھی وقوع پزیر ہوگی اور جہاں معاشی ترقی ہو گی وہیں معاشرتی ارتقا بھی جنم لے سکے گا۔انفرادی سطح پر یہ ایسے ہی ہے جیسے پیٹ بھرے گا تو انسان کام کر سکے گا اور اگر انسان کام کرے گا تو پیٹ بھر سکے گا۔معاش کو معاشرے سے اور معاشرے کو معاش سے اسی طرح علیحدہ نہیں کیا جا سکتا جیسے انسان کو اسکے پیٹ سے علیحدہ نہیں کیا سکتا۔اگرمعاشرتی اقدار ڈھیلی پڑجائیں گی تومعاش بری طرح متاثرہوگی اور اسی طرح معاشی اقداراگرزوال پزیر ہوئیں تو معاشرے کی بنیادیں کھوکھلی ہوتی چلی جائیں گی۔معاشرتی اور معاشی حقائق کو جاننے کے لیے انسان نے ہر سطح پر بہت کوششیں کی ہیں۔بہت نچلے طبقے میں دووقت کی روٹی اورعزت کی چھت کے حصول کوتما م مسائل کا حل سمجھا جاتا ہے،یوں درجہ بدرجہ ہر سطح پر لوگوں کی فکر ایک بہاؤ کے ساتھ پروان چڑھتی ہے۔انسانی اعلی دماغوں نے ان مسائل کو حل کرنے کے لیے مختلف نظام ہائے فکروعمل بھی پیش کیے۔سیکولریورپی دانشوروں میں سے کسی نے انسان کو معاشی جانور کہا ہے اور کسی نے معاشرتی جانور اور کسی نے تو جنسی جانور تک بھی کہا ہے اورڈارون کے کیا کہنے جس نے انسان کو جانوروں کی نسل ہی قرار دے دیا۔یہ کیسے ”دانشور“ہیں جن کی فکرحیوانیت سے آگے بڑھ ہی نہیں پاتی جب کہ ان کے مقابلے میں انبیاء علیھم السلام نے انسان کو اشرف المخلوقات کامقام عطاکیا۔

            سوشلزم،کیمونزم،فاشزم،کیپٹل ازم،لبرل ازم،سیکولرازم،ہیپی ازم،ایتھیسٹس،اورملوکیت وجمہوریت وراہبانیت و برہمنیت وغیرہ یہ سب انسانی فکرودانش کے وہ ناکام تجربات ہیں جن کی آزمائش کی بھٹی میں انسان نے اپنی نسلوں کو جھونک دیا ہے،یہاں تک کہ آج پھر انسانیت چھٹی صدی عیسوی کے تباہ کن مقام تک آن پہنچی ہے،جس پر قرآن مجید نے یوں تبصرہ کیا تھا کہ”وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا وَ اذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْ کُنْتُمْ أَعْدَآءً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖ اِخْوَانًا وَ کُنْتُمْ عَلَی شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَکُمْ مِّنْہَا کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمْ تَہْتَدُوْنَ(۳:۳۰۱)“ترجمہ:”اورسب مل کراللہ تعالی کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لواورتفرقہ میں نہ پڑو،اللہ تعالی کے اس احسان کویاد رکھوجواس نے تم پر کیا،تم ایک دوسرے کے دشمن تھے اس نے تمہارے دل جوڑ دیے اوراس کے فضل و کرم سے تم بھائی بھائی بن گئے تم آگ سے بھرے ہوئے ایک  گڑھے کے کنارے کھڑے تھے کہ اللہ تعالی نے تمہیں اس سے بچالیا،اس طرح اللہ تعالی اپنی نشانیاں تمہارے سامنے روشن کرتاہے شایدکہ ان علامتوں سے تمہیں اپنی فلاح کاسیدھاراستہ نظرآجائے“۔مانی ازم سے عصری مغربی تہذیب تک تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ انسان جب آسمانی ہدایت سے الگ کر کے اپنی فکر و فلسفے کوبننے لگتا ہے توہمیشہ ٹھوکریں ہی کھاتا ہے۔جبکہ عقل و دانش کی الجھی ہوئی،گنجلک اورتہہ در تہہ ڈوریوں کوجب آسمان سے جوڑ کر وحی کی تعلیمات میں انکا حل تلاش کیا جائے تو گویاڈورکاایک ایسا سرا ہاتھ لگ جاتا ہے کہ جس سے سارے کے سارے مسائل حل ہوتے چلے جاتے ہیں۔سودی نظم معیشیت آج اپنے انجام کو پہنچا چاہتاہے،معیارزندگی میں بڑھوتری کی دوڑکے اثرات بدآج عالمی سطح پر آسانی سے دیکھے جا سکتے ہیں،قرض کی مے پراستوار بلندوبالابنکنگ کا نظام ریت کی دیوار ثابت ہوچکا ہے،اشتہاربازی پر مبنی معاشرتی اقتدارکی حقیقت سراب کے سوا کچھ ثابت نہیں ہوئی اور عورت کواسکے اصلی،حقیقی اور فطری مقام سے گرا کر جس معاشرت کا بیج بویا گیاتھا،خاندانی نظام کی تباہی کی فصل اسکے منطقی نتیجے کے طورپر آج کاٹی جارہی ہے۔

            معاشی و معاشرتی ترقی کا انسانی خواب صرف انبیاء علیھم السلام کے طریقے پر ہی پوراہوسکتاہے۔وہ اپناپیغام پیش کرنے کے بعد سب سے پہلے یہی کہتے تھے”وَ یٰقَوْمِ لَآ اَسْءَلُکُمْ عَلَیْہِ مَالًا اِنْ اَجْرِیَ اِلاَّ عَلَی اللّٰہِ (۱۱:۹۲)“ترجمہ:”اوراے برادران قوم،میں اس کام پر تم سے کوئی مال نہیں مانگتا،میرااجرتواللہ تعالی کے ذمہ ہے“۔یہ معیارنبوت ہے کہ رضاکارانہ طور پر انسانیت کی خدمت کی جائے۔نکاح وہ معاشرتی اقدار میں سے ایک اہم ترقدرہے جس کا تحفظ اور جس کا تسلسل ہی انسانی نسلوں کی بقاکاضامن ہے۔سوال یہ ہے کہ ساری عمر اکٹھی بسر کرنے کی نیت اور ایک خاندان کی پرورش کے ارادے سے ملنے والے مردوعورت کے ہاں ہونے والابچہ اور ہوس نفس اورحیوانی جبلت کی تسکین کی خاطرایک دوسرے کو جھنجھوڑنے اور بھنبھوڑنے کے بعد ہمیشہ کے لیے علیحدہ ہوجانے والے مردوعورت کاہونے والا بچہ کیا انسانی نفسیات میں یکساں ہوں گے؟ہرگزنہیں،انسانی ساختہ تہذیبیں جو بھی کہیں، انبیاء کی تعلیمات نے ان کے درمیان حلالی اور غیرحلالی کا فرق کیا ہے اور یہ حقیقی و آفاقی فرق ہے۔زکوۃ،صدقات،عشر،خمس اورفطرانہ و قربانی پر بنیاد کرنے والی معیشیت کبھی بھی سود،ناجائزمنافع خوری،ذخیرہ اندوزی،اشتہاربازی اور نسوانیت کی محتاج معیشیت کے برابر نہیں ہوسکتی۔پہلی قسم کی معیشیت انسان کی اعلی اقدار کی حامل اور انکے رواج کی ضامن ہے جبکہ دوسری قسم کی معیشیت شائلاکی سوچ کی آئینہ داراور انسانی مجبوریوں کو اور ضرورتوں کو بڑھا چڑھاکرانکا استحصال کرنے والی ہے۔قرآن مجید نے واضع طور پر سود کو اللہ اور اسکے رسول ﷺ کے خلاف اعلان جنگ قرار دیاہے کہ یہ دراصل انسانی تباہی کابھیانک،اندوہناک اورہولناک آغازہے۔”یٰأَ یُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ ذَرُوْا مَا بَقِیَ مِن

الرِّبٰوا اِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِیْنَ(۲:۸۷۲) فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ وَ اِنْ تُبْتُمْ فَلَکُمْ رُءُ ْوسُ اَمْوَالِکُمْ لَا تَظْلِمُوْنَ وَلاَ تُظْلَمُوْنَ(۲:۹۷۲)“ترجمہ:”اے لوگوجوایمان لائے ہواللہ تعالی سے ڈرواورجوکچھ تمہاراسودلوگوں پر باقہ رہ گیاہے اسے چھوڑدو،اگرواقعی تم ایمان لائے ہو،لیکن اگرتم نے ایسا نہ کیاتوآگاہ ہوجاؤکہ اللہ تعالی اوراس کے رسولﷺکی طرف سے تمہارے خلاف اعلان جنگ ہے،اب بی توبہ کرلو(اورسودچھوڑدو)تواپنااصل سرمایالینے کے تم حق دارہو،نہ ہی تم ظلم کرو اورنہ ہی تم پرظلم کیاجائے“۔

            انبیاء علیھم السلام اگراس دنیامیں تشریف نہ لاتے توجنگل کا بادشاہ اور درندگی و سفاکی کی علامت شیر،چیتااور بھیڑیا نہ ہوتے بلکہ انسان ہی ہوتا۔اس لیے کہ اکیسویں صدی کی دہلیزپرچکاچوندروشنیوں اور تہذیب و تمدن کے جگمگاتے گہواروں میں پلنے والی اقوام جو انبیاء علیھم السلام کی عطاکردہ معرفت وشعورزندگی سے بے گانہ ولاتعلق ہیں، کشمیر،چیچنیا،بوسینیا،عراق اور افغانستان سمیت پوری دنیامیں ان کے خونی کردار سے جنگل کے ان گوشت نوچنے والے شکاریوں کو بھی شرم آئے،اپنے آپ کو جانوروں کی نسل کہنے والوں نے پوری کوشش کی کہ انسان کے معاشی و معاشرتی نظام کو بھی ہوس نفس سے آلودہ کرکے تو جنگل کے برابر کر دیاجائے۔یہ انبیاء علیھم السلام کاترتیب دیاہوامعاشی و معاشرتی نظام ہے جس میں انسانیت کی نسلیں بڑھتی اور پھلتی پھولتی ہیں،انسانی رشتے تقدس کی مضبوط ترین تسبیح میں ایک ایک دانے کی طرح پروئے چلے جاتے ہیں اور اعلی اخلاقی اقدارسے مزین انسانیت کے عنوان سے لکھاجانے والا معیشیت کا سبق اپنی ایک ایک سطر پر انسان کو اسکے فرائض و حقوق یاد دلاتا چلا جاتاہے۔انبیاء علیھم السلام کی تعلیمات اور خاص طور پرمحسن انسانیت ﷺ کی تعلیمات دراصل اللہ تعالی کی عطا کردہ ہدایت کا نچوڑ ہیں،اورانسانی عقل کسی صورت بھی وحی الہی کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔سورہ قدرکے مضمون کی ایک جہت یہ بھی ہے کہ سارے انسان ایک ہزارراتوں تک بھی اپنی عقل کے گھوڑے دوڑاتے تو ایسا شاندار نظام وضع نہ کرپاتے جتناکہ شاندارنظام اس ایک رات(شب قدر)کی برکت سے عالم انسانیت کو میسرآیا۔حقیقت یہ ہے کہ اگر کل انسانیت کی معاشی و

معاشرتی ترقی درکارہے توبانیان انسانیت علیھم السلام کی تعلیمات ہی اسکاواحد حل ہیں۔اسکے علاوہ کسی بھی طرح کے قسم ہائے قسم کے نظام جو انسانی منڈیوں میں موجود رہے ہیں اور موجود ہیں اور قیامت تک خود روبوٹیوں کی ماننداگتے رہیں گے،کسی خاص طبقے،نسل،گروہ،قوم یا افراد کے لیے توجزوی طور پر فائدہ مند ہو سکتے ہیں انسانیت کے کل اجتماع کی خاطران کے پاس کوئی پیش نامہ ہمیشہ ناپید ہی رہے گایہاں تک کہ خالق کائنات کی آخری عدالت ان استحصالی طبقوں کو انکے اصل انجام تک پہنچا دے گی۔

[email protected]

Posted in تازہ ترین, مضامین
55729

اپنے ہی گراتے ہیں نشیمن پہ بجلیاں ۔ محمد شریف شکیب

سیالکوٹ میں چمڑے کی مصنوعات بنانے والی فیکٹری میں توہین مذہب کا الزام لگاکر سری لنکا سے تعلق رکھنے والے منیجر کو سینکڑوں افراد نے تشدد کے ذریعے قتل کردیا۔ اس کی لاش سڑکوں پر گھسیٹتے رہے اور بعد ازاں لاش کو آگ لگادی گئی۔ ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق فیکٹری میں رنگ روغن کا کام جاری تھا، سری لنکن منیجر نے فیکٹری کے اندردیوارپر لگے کچھ پوسٹرز اتارے تو منیجر اور ملازمین میں معمولی تنازعہ ہوابعد ازازں منیجر نے غلط فہمی کا اعتراف کرتے ہوئے معذرت بھی کی۔فیکٹری کے کچھ ملازمین نے بعد میں دیگر افراد کو اشتعال دلایا۔ جس پر فیکٹری کے ملازمین جمع ہوگئے اورمنیجر کو مارنا شروع کردیا،تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق فیکٹری کے اندر قتل کرنے کے بعد اس کی لاش باہر لائی گئی۔پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق تشدد سے اس کی تمام ہڈیاں ٹوٹ چکی تھیں اور جسم کا بیشتر حصہ جل چکا تھا۔

پولیس کے مطابق فیکٹری کے اندر قواعد و ضوابط پر سختی سے عمل درآمد کرانے کی وجہ سے اکثر ملازمین غیر ملکی منیجر کو ناپسند کرتے تھے۔ اور پوسٹر اتارنے پر توہین مذہب کا الزام لگاکر اسے راستے سے ہٹادیاگیا۔اس واقعے سے پوری دنیا میں پاکستان اور مسلمانوں پر لعن طعن ہوئی ہے۔ چند افراد نے ذاتی مقاصد نے ملک اور قوم کو پوری دنیا میں بدنام کردیا۔ سری لنکن انجینئر غیر ملکی مہمان تھا۔ وہ ہماری زبان، رسومات اور عقائد سے واقف نہیں تھا۔ اردو سے نابلد ہونے کی وجہ سے وہ پوسٹر میں لکھے گئے الفاظ سمجھ نہیں سکتا تھا۔ جب اسے سمجھایاگیا تو انہوں نے معافی بھی مانگ لی۔ اس کے بعد قانون اپنے ہاتھ میں لے کر اسے سزائے موت دینے کا کوئی اخلاقی، قانونی اور شرعی جواز نہیں تھا۔ ملک کے تمام مکاتب فکر کے جید علمائے کرام نے واقعے کی مذمت کی ہے۔

شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی نے کہا کہ توہین رسالت انتہائی سنگین جرم ہے لیکن ملزم سے اس کے ارتکاب کے ثبوت بھی اتنے ہی مضبوط ہونے ضروری ہیں،کسی پر یہ سنگین الزام لگا کر خود ہی اسے وحشیانہ اور حرام طریقے سے سزا دینے کاکوئی جواز نہیں۔ اس واقعہ میں مسلمانوں کی بھونڈی تصویر دکھاکر ملک وملت کو بدنام کیا گیا ممتاز عالم دین مولانا طاہر اشرفی، مولانا طارق جمیل، مفتی منیب الرحمان، مولانا عبدالخبیر آزاد،مولانا فضل الرحمان اور دیگر علمائے کرام نے بھی واقعے کو افسوسناک اور ملک و قوم کے لئے نقصان دہ قرار دیا ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات کا کہنا ہے کہ سیالکوٹ واقعہ بے حسی اور بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہے، ہم نے معاشرے میں ٹائم بم لگا دیئے ہیں، ان بموں کوبروقت ناکارہ نہ کیا تو وہ پھٹ جائیں گے اور بڑی تباہی ہوگی۔

سری لنکا ہمارا بہترین دوست ملک ہے اس نے ہمیشہ مشکل وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا۔ اپنے شہری کے بہیمانہ قتل پر اپنے ردعمل میں سری لنکاکے وزیراعظم مہندا راجا پکسی کا کہنا تھا کہ یقین ہے عمران خان سری لنکن شہری کے قاتلوں کوسزا دیں گے،سری لنکا کے عوام توقع رکھتے ہیں کہ واقعے میں ملوث افراد کو سزا دے کر متاثرہ خاندان کو انصاف فراہم کیاجائے گا۔ پولیس کے مطابق واقعے کا مقدمہ900فیکٹری ملا زمین کے خلاف میں درج کیا گیا ہے۔اور متعدد مرکزی ملزمان سمیت تقریباً ڈیڑھ سو افراد گرفتار کئے گئے ہیں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ واقعے سے پاکستان کی ساکھ کو جو نقصان پہنچا ہے اس کا مداوا کیسے ہوگا۔

حکومت کو تحقیقات میں اس پہلو پر بھی غور کرنا ہوگا کہ یہ واقعہ کسی دشمن کی سازش تو نہیں؟مسلمانوں کو تنگ نظر، رجعت پسند، دہشت گرد، متعصب اور انتہا پسند قرار دینے کے لئے بھارت اور اس کے حواری مسلسل سازشوں میں مصروف ہیں اور بدقسمتی سے اپنے ہی لوگ دشمنوں کا آلہ کار بن کر اپنے ملک اور قوم کو نقصان پہنچا رہے ہیں ایسے عناصر کو قوم کے سامنے بے نقاب کرنے کے ساتھ انہیں نشان عبرت بنانے کی ضرورت ہے تاکہ آئندہ کوئی اپنے ذاتی مفادات کے لئے ملک و قوم اور دین اسلام کی بدنامی کا ذریعہ بننے کی جرات نہ کرسکے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
55732

 تھائی لینڈ – (5دسمبر:قومی دن کے موقع پر خصوصی تحریر)- ڈاکٹر ساجد خاکوانی – اسلام آباد

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 تھائی لینڈ

(Thailand)

(5دسمبر:قومی دن کے موقع پر خصوصی تحریر)

ڈاکٹر ساجد خاکوانی(اسلام آباد،پاکستان(

            تھائی لینڈ جنوب مشرقی ایشیا کا ملک ہے،اسکے مغرب اور شمال مغرب میں برما کی ریاست ہے،شمال مشرق اور مشرق میں ”لائس“اور کمبوڈیاکے ممالک ہیں اورجنوب میں سمندری خلیج ہے جسے ”خلیج تھائی لینڈ‘کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔خلیج تھائی لینڈ کے ساتھ ہی جنوبی چین کے سمندر اور پھرجزیرہ نما ملائشیا بھی واقع ہیں۔تھائی لینڈ کا کل رقبہ دولاکھ مربع میل سے کچھ کم ہے اور یہ سارا ملک اپنی خلیج کے گرد ایک مدار کی صورت میں واقع ہے۔جغرافیائی طورپرتھائی لینڈ دوہزار میل طویل ساحلی پٹی کا مالک ملک ہے جس کے ایک طرف بحیرہ اندمان ہے اور دوسری طرف خلیج تھائی لینڈ کے ساحل ہیں۔”بنکاک“اس ملک کا دارالحکومت ہے،نہروں کے جال نے جہاں اس شہر کاقدرتی حسن دوبالا کیاہے وہاں تیرتے ہوئے بازاروں نے یہاں کی کاروباری زندگی میں بھی اہم کرداراداکیے ہیں۔

            تھائی لینڈ کا علاقہ اس لحاظ سے تاریخی اہمیت کا حامل ہے کہ یہاں کے لوگوں نے پہلی دفعہ کانسی کے اوزاروہتھیار استعمال کیے۔اس سے پہلے انسانوں کے ہاں پتھرکے ہتھیار استعمال ہوتے تھے،پتھرسے کانسی اور پھر کانسی کے بعد ہتھیاروں نے لوہے کالبادہ اوڑھا۔تھائی لینڈ کی تہذیب میں بہت پہلے سے پالتوجانوروں کا رواج رہاہے،یہاں کے لوگوں نے قبل از تاریخ مچھلیاں پکڑنے اور درختوں کی چھال اور ریشہ دار درختوں سے کپڑا بننے اور چاول کی فصل اگانے کا انتظام کیا۔تھائی لینڈ کے ابتدائی باسیوں نے یہاں ابتدائی طرز کی ریاستیں بھی بنائیں اور دوردورکے فاصلے پر انسانی نفوس کی بستیاں آباد کیں،خاص طور پر چھٹی سے نویں صدی عیسوی کے دوران میں یہاں کے تہذیب و تمدن نے بہت ترقی کی۔تھائی لینڈ ایشیاکاواحد ملک ہے جس نے غیرملکی غلامی کبھی قبول نہیں کی اور یہاں پر فاتحین تو داخل ہوئے لیکن ”آقا“کبھی داخل نہ ہو سکے۔1782سے 1932تک یہاں طویل ترین بادشاہت کا دور رہا،تب کے بعد سے سول و فوجی حکمران یہاں کی کرسی اقتدار پر براجمان رہے۔اس دوران ایک مختصر وقت تک اس ملک کا نام ”سیام“بھی رہا لیکن  اسے قبول عام نہ ہونے باعث پھر سے اسے تھائی لینڈ ہی کہا جانے لگا۔تھائی لینڈاپنی تاریخ کے ابتدائی ایام سے آج دن تک کوئی بہت بڑی آبادی کا علاقہ نہیں رہا،ایک سیاح نے ہندوستانی بادشاہ کو تھائی لینڈ کے علاقے کے بارے میں بتایاکہ وہ انسانوں کی بجائے جنگلات اور مچھروں کا بادشاہ ہے۔

            تھائی لینڈ میں آبادی کا بتیس فیصد شہروں میں مقیم ہے اور ان میں سے بھی دس فیصد صرف بنکاک شہر کی رونق ہے جس کے باعث ملک یہ سب سے بڑا شہر شہری آبادیوں کے گوناں گوں مسائل میں گھراہے۔دوسری جنگ عظیم کے بعد سے بہترمعاشی مواقع کاحصول دیہاتی آبادی کے بہت بڑے حصے کو شہروں کی طرف کھینچ لایاتھااوربہت سے لوگ تو مستقل طور پر یاعارضی طور ملک چھوڑ کر سمندرپارکی دوسری دنیاؤں میں آباد ہو گئے تھے۔تھائی لینڈ کی چالیس فیصد آبادی ”تھائی“زبان بولتی ہے اور یہی یہاں کی سرکاری زبان بھی ہے۔یہ زبان تھائی حروف ابجد میں لکھی جاتی ہے اور اس زبان کے ادب کا معلوم تاریخ میں تیرہویں صدی مسیحی سے باقائدہ آغاز ہوتا ہے لیکن اس کے ڈانڈے اس سے قدیم تر ہیں۔تھائی لینڈ میں پڑھے لکھے لوگوں میں انگریزی کا رواج بھی ہے لیکن بہت کم،انگریزی سے زیادہ چینی زبان یہاں پر مروج ہے جبکہ انگریزی،چینی اور جاپانی زبانیں عام طور پر کاروباری طبقوں میں خط و کتابت کے ذریعے کے طور پر بکثرت استعمال کی جاتی ہیں۔

            تھائی لینڈکے لوگوں کی اکثریت بدھ مذہب کی پیروکارہے،بدھ مت کے اثرات جو سری لنکاکے راستے یہاں تک پہنچے،تھائی لینڈ کی اکثریت نے انہیں کوقبول کیا ہے،قیاس ہے کہ بدھ مت کے اس مکتب فکرکو  تیرہویں صدی مسیحی میں یہاں قبول عام حاصل ہوا۔اس مکتب فکرکے فلسفوں میں مقامی تمام مذاہب کی نمائندگی شامل ہے یہاں تک کہ ہندومت اور عیسائیت کے کچھ تصورات بھی اس کا حصہ ہیں۔ جبکہ ایک قلیل تعداددیگرمقامی مذاہب

کے ماننے والوں کی بھی ہے جن مین سب سے بڑی اقلیت چینی آبادی اور انکے مذہب کے ماننے والوں کی ہے۔چین سے آئے ہوئے لوگ یہاں کم و بیش چودہ فیصد کی شرح سے آباد ہیں اور انکی تہذیب کے خاطر خواہ اثرات یہاں پر پائے جاتے ہیں۔مسلمانوں کی شرح سات فیصد کے لگ بھگ ہے اور وہ مملکت کے جنوبی صوبوں میں اکثریت سمیت ملک بھر میں تقریباََ ہر جگہ آباد ہیں۔تھائی لینڈ کی چھیانوے فیصد آبادی خواندہ ہے،حکومت کی طرف سے عوام الناس کے بچوں کے لیے اگرچہ مفت تعلیم کا انتظام ہے لیکن پھر بھی نجی تعلیمی ادارے بھی بکثرت موجود ہیں اوربعض بین الاقوامی اداروں نے بھی یہاں پر اپنے تعلیمی منصوبے شروع کررکھے ہیں۔

            تھائی لینڈ کی معیشیت میں زراعت کی حیثیت ریڑھ کی ہڈی کی سی ہے۔1980کے بعد سے صنعتی ترقی نے زراعت کو بھی اپنے ہم رکاب لے کر ملکی پیداوارکو چارچاند لگادیے۔تاہم ایک امرقابل ذکر ہے کہ زراعت کی ترقی کی نسبت صنعتی ترقی نے قومی پیداوارکے اضافے میں برترکرداراداکیاہے۔سب سے اہم اورنقدآور فصل تو چاول ہی ہے لیکن اس کے علاوہ گنا،مکئی،ربر،سویابین،کھوپرااور دیگر مختلف انواع کے پھل بھی یہاں کی پیداواری فصلیں ہیں۔صنعتی ترقی سے پہلے چاول کی فصل یہاں سے دوسرے ملکوں کو فروخت کی جاتی تھی اور یہ ملکی زرمبادلہ کے حصول کا سب سے بڑا ذریعہ تھا۔اب بھی اگرچہ چاول بہت بڑی مقدار میں برآمد کیاجاتاہے لیکن بہت سی دیگر زرعی مصنوعات بھی بیرونی آمدنی کا ذریعہ بن چکی ہیں۔یہاں کے جنگلوں میں بہت سے قیمتی جانور بھی ملتے ہیں،ہاتھی ایک زمانے سے یہاں کی سرزمین پر باربرداری کے لیے استعمال ہوتا ہے اورجنگلوں میں بھی پایاجاتاہے،گینڈا،چیتا،جنگلی بیل،دریائی گھوڑااور لمبے لمبے ہاتھوں والے بندر بھی یہاں کے جنگلات کی خوبصورت آبادیاں ہیں۔پچاس سے زائد نسلوں کے سانپ اور گہرے پانیوں میں مگرمچھ بھی ملتے ہیں۔

            تھائی لینڈ کا بادشاہ یہاں کا آئینی حکمران ہے اور افواج کا نگران اعلی بھی۔اس کے باوجود بادشاہ اپنے اختیارار کم ہی استعمال کرتا ہے اوراسکی حیثیت مشاورتی یا اخلاقی دباؤ کی سی ہوتی ہے۔وزیراعظم یہاں کا جمہوری حکمران ہے،انتخابات جیتنے والی سیاسی جماعت ایوان نمائندگان میں سے اپنے کسی رکن کو اس منصب کے لیے نامزد کرتی ہے اور بادشاہ اس کا تقرری کی دستاویزجاری کر کے اس جمہوری فیصلے کی گویا توثیق کر دیتاہے۔وزیراعظم کے اختیارات میں وزراکی کابینہ کی صدارت کرنا شامل ہے جس کی تعداد پنتیس سے زائد نہیں ہوتی۔2007ء کے دستور کے مطابق وزیراعظم چارچارسالوں کی زیادہ سے زیادہ دو مدتوں تک ہی منتخب ہو سکتاہے۔قانون سازی کے لیے جمہوری پارلیمانی ملکوں کی طرح دو ایوان ہیں،ایوان نمائندگان اور ایوان بالا۔ایوان بالاکے منتخب ارکان چھ سال کی مدت پوری کرتے ہیں جبکہ نامزدارکان صرف تین سالوں کے لیے ہی اپنے فرائض سرانجام دے پاتے ہیں۔ملک کے سب صوبوں کاایک ایک نمائندہ بھی سینٹ میں بیٹھتا ہے جبکہ کچھ بڑے صوبوں کے دو دو نمائبدے بھی سینٹ میں نشست حاصل کرتے ہیں۔

            ایک اندازے کے مطابق تھائی لینڈ میں آبادی کاکم و بیش8% مسلمان ہیں اوردن بدن ان میں اضافہ دیکھنے میں آرہاہے،مسلمانوں کی زیادہ اکثریت جنوبی تین صوبوں میں پائی جاتی ہے۔یہاں کے مسلمانوں کی اکثریت ”ملائی“نسل سے تعلق رکھتی ہے اور یہی زبان ہی بولتی ہے۔اس کی وجہ ملائشیاکاپڑوس ہونے کے ساتھ ساتھ ملائیشیاکے حکمران خاندانوں کااس علاقے پر اقتداربھی ہے۔تھائی لینڈ میں مسلمانوں کی ایک مخصوص تعداد چینی مسلمانوں کی بھی اضافت ہے خاص طورپرجوعلاقے چین سے قریب ہیں وہاں یہ اثرات بہت زیادہ ہیں۔تھائی لینڈ میں اس وقت تقریباََ ساڑھے تین ہزار مساجد ہیں۔”نیشنل کونسل فارمسلمز“کے پانچ نامزدارکان حکومت کی وزارت تعلیم اور وزارت داخلہ کومسلمانوں کے جملہ معاملات سے آگاہ رکھتے ہیں۔بادشاہ وقت اس کونسل کے سربراہ کابذات خود تقررکرتاہے۔اسی طرح اس کونسل کی صوبائی شاخیں صوبائی حکومتوں میں مسلمانوں کی نمائندگی کرتی ہیں،حکومت وقت مسلمانوں کے تعلیمی اداروں،بڑی مساجد کی تعمیراور حج پرجانے والوں کے اخراجات میں بھی تعاون کرتی ہے۔وہاں کی حکومت نے مسلمان بچوں کے لیے سینکڑوں تعلیمی ادارے،دکانیں اورایک بنک بھی بنارکھاہے۔تھائی لینڈکے مسلمانوں کو اپنی حکومت سے کچھ شکایات بھی رہتی ہیں،مذکورہ تینوں صوبوں کے مسلمانوں میں ایک عرصے سے احساس محرومی پنپ رہاہے جواب کسی حد تک علیحدگی پسندی کی صورت میں ایک تحریک کی شکل میں بھی ابھررہاہے۔سرکاری فوج نے کچھ عرصہ پہلے کچھ مسلمانوں کاقتل عام بھی کیاتھاجس کے نتیجے میں عالمی سامراج اب اس کوشش میں ہے کہ یہاں بھی ابھرنے والی اسلامی بیداری کی تحریک کونام نہاد”دہشت گردی“قرار دیاجائے۔”جماعۃ الالامیہ“یہاں کے مسلمانوں کاایک مشترکہ اور اتفاقی پلیٹ فارم ہے جومسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرتاہے۔

[email protected]

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
55724

چترال بونی مستوج شندور روڈ بونی سے گزاراجائے ۔ تحریر: ناصر علی شاہ

چترال بونی، شندور روڈ میں کام کا آغاز ہوچکا ہے سڑکیں کشادہ کرکے عوام کو سہولت پہنچانے کی منصوبہ بندی قابل تعریف ہے سڑکیں کشادہ ہونے سے پسماندہ اور نوزائیدہ ضلع میں خوشحالی آئیگی لوگوں کا وقت بچ جائیگا اور آرام دہ و محفوظ سفر میسر ہوگا۔


مگر بونی، شندور روٹ میں ناقص منصوبہ بندی نظر آرہی ہے کیونکہ ایک طرف کروڑوں روپے سہولت مہیا کرنے کی غرض سے خرچ ہورہے ہیں تو دوسری طرف اربوں روپوں نقصان کیساتھ لوگوں کو دربدر کرنے کی تیاریاں ہورہی ہیں جو یک طرفہ سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔


کیسے زرا ملاحظہ کیجئے۔
بونی اپر چترال کا ہیڈ کوارٹر ہے اپر چترال کا دارومدار بونی پر ہے تجارت ہو یا دفاتر، شفانہ خانہ و جیل خانہ اور عدالت سب بونی میں ہیں۔ بونی سے شندور یا مستوج کے لئے دو راستے ہیں ایک آوی اور دوسرا بیار کی طرف یعنی بازار سے واپس پل کی طرف آنا پھر الٹے ہاتھ مڑ کر بیار یا شوتار کی طرف نکلنا۔


بونی پل سے شوتار کی طرف نکلتے ہوئے تھوڑا آگے کٹاؤ(erosion) ہے جو مٹی و کیچڑ کی صورت میں بہتا رہتا جس کا خاتمہ ناممکن ہے کروڑں روپے کا ضیاع ہوچکا ہے تھوڑا آگے جاکر راستے تنگ، خطرناک اور اونچا پہاڑ ہے جو بونی کے عین سامنے ہے یہ راستہ شندور و یارخون کی طرف نکلتا ہے جبکہ اسی پہاڑ کے اوپر بھی راستہ تورکہو جوکہ آبادی کے لحاظ بڑا ایریا ہے کو جاتا ہے۔
اب جو پہاڑ کے نیچے کا راستہ کشادہ کرنے کی تیاریاں ہورہی ہے جن کے نقصانات کا ذکر کرتے ہیں۔


1؛ پل سے آگے جاکر کی کیچڑ جو کبھی رکے گا نہیں مستقبل میں بھی اذیت بنے گا اور پیسے ضائع ہوتے رہنگے


2: تورکہو راستے کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے اگر ایسا ہوا تو تورکہو کا راستہ بند، پھر خزانے پھر بوجھ پڑیگا۔

  1. پہاڑ کو بلاسٹنگ کرنے سے سارا ملبہ امکانات ایسے کہ سارا پہاڑ بونی اور پہاڑ کے بیچ میں بہنے والے دریا پر گر جائینگے جس کی وجہ سے دریا بند ہوکر عطا آباد جھیل کا شکل اختیار کریگا جس کے بعد بونی کا زیادہ حصہ بمعہ دفاتر بہہ جانے کا خطرہ ہے جس کا ازالہ کھربوں روپے استعمال کرنے سے بھی ممکن نہیں۔

اب آتے ہیں متبادل راستے کی طرف جو انتہائی آسان اور کم خرچے پر ممکن ہے۔
بونی ہیڈ کوارٹر سے یارخون و شندور کے لئے بونی بازار سے آوی کی طرف سڑک نکلتا ہے اور راستہ بھی قابل سفر ہیں اب اگر بونی بازار سے واپس پل پر جانے کے بجائے کروئے جنالی بونی سے لیکر جاتے ہیں اور آوی شوتار میں پل بناتے ہیں تو اس کے بیش بہا فوائد ہیں۔


1: خزانے پر بوجھ کم پڑیگا


2: بونی محفوظ رہے گا


بونی مزید ترقی کریگا اور عوام خوشحال ہونگے


3: بہ نسبت نیچے سڑک کے سفر محفوظ اور سفر کا دورانیہ مزید کم ہوگا۔

ان تمام صورتحال کو دیکھتے ہوئے بونی کے عوام کا حکومت کیساتھ چیرمین این ایچ اے سے بھی مطالبہ ہے ہیڈ کوارٹر اپر چترال بونی کو بچانے کیساتھ ساتھ خزانے کا بوجھ بھی کم کرکے عوام کی فلاح و بہبود کا سوچتے ہوئے روٹ تبدیل کیا جائے۔ یک طرفہ سوچ اور جلد بازی و اناپرستی یا زبردستی فیصلے تھوپنے سے نقصان کا ازالہ ناممکن ہوگا امید ہے اس معاملے پر عوام کی بہتری و آسانی کو دیکھتے ہوئے عوامی مفاد میں فیصلہ کرینگے

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
55711

جنگل کا قانون-(ہندو کش کے دامن سے چرواہے کی صدا)-عبدالباقی چترالی

جنگل کا قانون-(ہندو کش کے دامن سے چرواہے کی صدا)-عبدالباقی چترالی

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک جنگل میں شیر، بھیڑیا اور لومڑی رہتے تھے۔ ایک دن وہ اکھٹے شکار کے لیے چلے گئے۔ تھوڑی دیر میں تینوں نے مل کر تین جانوروں کا شکار کیے۔ ان میں ایک زیبرا، دوسرا ہرن اور تیسرا خرگوش تھا۔شکار کرنے کے بعد شیر نے بھیڑیے سے کہا کہ ان جانوروں کو آپس میں تقسیم کریں۔ بھیڑیے نے کچھ دیر سوچ بچار کرنے کے بعد شیر سے کہا کہ جسامت کے لحاظ سے زیبرا بڑا جانور ہے لہٰذا اس پر آپ کا حق بنتا ہے۔ ہرن پر میں گزارا کر لوں گا اور خرگوش مکار لومڑی کے لیے کافی ہے۔ شیر نے بھیڑیے کے میرٹ پر کیا ہوا فیصلہ سن کر غصے میں آگیااور پنجہ مار کر بھیڑیے کی ایک آنکھ نکال دی۔

اس کے بعد لومڑی سے کہا، تمہیں اب ان جانوروں کو منصفانہ طریقے سے تقسیم کرنا ہے۔ اگر درست طریقے سے تقسیم نہیں کیا تو بھیڑیے کے انجام کو یاد رکھنا۔ مکار لومڑی بادشاہ کے مزاج سے خوب واقف تھے۔ وہ جانتا تھا کہ اگر وہ بھی بھیڑیے کی طرح شکار کردہ جانوروں کو میرٹ کی بنیاد پر تقسیم کرے گا تو اس کا انجام بھیڑیے سے بھی بد تر ہوگا۔ لہٰذا اس نے حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے کہا کہ بادشاہ سلامت! زیبرا آپ کے دوپہر کے ظہرانے کے لیے ہے۔ ہرن شام کے عشائیے کے لیے ہے اور خرگوش کو صبح ناشتے میں تناول فرمائیے۔


لومڑی کا یہ فیصلہ سن کر شیر نے کہا، مجھے تم سے یہی منصفانہ فیصلے کی توقع تھی۔ تم نے ان جانوروں کو درست تقسیم کرکے انصاف کا بول بالا کردیا ہے۔ آئندہ کے لیے جنگل کے دوسرے جانور بھی تمہارے اس منصفانہ تقسیم کو ہمیشہ یاد رکھیں گے۔جنگل کی تاریخ میں تمہارا نام سنہرے حروف میں لکھا جائے گا۔


اس کے بعد لومڑی جلدی اس جگہے سے دور چلا گیا اور اللہ کا شکر ادا کیا کہ اگر شیر تقسیم کا فیصلہ پہلے مجھ پر چھوڑتے تو میں اس وقت بھیڑیے کی طرح اپنی ایک آنکھ سے محروم ہوچکا ہوتا۔ اللہ کا شکر ہے کہ اب جان تو میری بچ گئی باقی رہی کھانے کی بات تو آج اگر گوشت نہیں ملا تو کیا ہوا کل کو کسی طرح مل ہی جائے گا۔


بھیڑیے کے درست تقسیم کا فیصلہ جنگل کے بادشاہ کی خواہشات اور پسند کے مطابق نہیں ہوا تو بیچارے کو اپنی ایک آنکھ سے محروم ہونا پڑا۔ موجودہ جنگل کا بادشاہ بھی اپنے کارندوں سے لومڑی کی طرح فیصلے کرانا چاہتا ہے۔ جنگل کے دوسرے جانوروں کو بھیڑیے کے دردناک انجام سے ڈرارہا ہے۔ جنگل کے تمام جانوروں کو اپنی طاقت کے ذریعے تابع اور ماتحت رکھنا چاہتے ہیں تاکہ آئندہ کسی کو حکم عدولی کی جرأت نہ ہوسکے۔

جنگل کے بادشاہ کو کسی کا فیصلہ پسند نہ آئے تو پنجے مارکر آنکھیں نکال لیتا ہے۔ طاقت کے سامنے تمام چھوٹے بڑے جانور اپنی جان بچانے کی خاطر لومڑی کی طرح فیصلے کرتے ہیں تو ان کی جان تو بچ جاتی ہے مگر اس فیصلے کے اثرات جنگل کے دوسرے جانوروں کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ جنگل کے بادشاہ کے ظلم و ستم سے تمام جانور بہت پریشان ہیں اور اس سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ بادشاہ کے غلط فیصلوں کی وجہ سے ان کے بعض قریبی مشیر بھی ناراض دیکھائی دے رہے ہیں۔ بادشاہ سے نجات حاصل کرنے کے لیے بادشاہ کے کچھ کارندے جنگل کے طاقتور جانوروں سے رابطے کررہے ہیں۔ صلح مشورے کرہے ہیں۔
خدا جانے انجامِ گلستان کیا ہوگا؟

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
55705

جنونیت کا کوئی مذہب نہیں ۔ ولی اللہ چترالی

جنون ایک کیفیت ہے اس کا کسی بھی مذہب یا اس کی تعلیمات سے کوئی لینا دینا یہ کیفیت آر ایس ایس کے غنڈوں میں پائی جاسکتی ہے اور کسی شدت پسند مسلمان کے دماغ میں بھی کنڈلی مار سکتی ہے۔ خناسیت کے علاوہ اسے کوئی نام نہیں دیا جا سکتا۔

لوگوں کا خیال ہے کہ مسلم جنونی صرف غیر مسلموں کو ہی موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں ایسا نہیں ہے ان کے ہاتھوں سے گلیمرکی چکاچوند دنیا چھوڑ کر مبلغ اسلام بننے والے جنید جمشید شہید بھی محفوظ نہیں رہے سر عام یہ لوگ اس شریف انسان کو پکڑ کرائیرپورٹ پر اپنی نفرت کا نشانہ بنانے سے نہیں شرمائے۔

شاہی مسجد چترال کے سبزہ زار میں جل کر راکھ ہوئی اس گاڑی کی تصویر آپ نے دیکھ ہی لی ہوگی یہ کسی غیر مسلم کی نہیں بلکہ مسلمانوں کے لئے پیشوا اور انبیاء کے وارث کہلانے والے ایک عالم دین کی تھی جن کی ساری زندگی ہی مسجد اور مدرسے کی ماحول میں گزری سینکڑوں علماء کے استاذ ہیں ان کی یہ گاڑی بھی صرف اس وجہ سے نذر آتش کر دی گئی تھی کہ ایک مبینہ گستاخ کو انہوں نے ہجومی شدت کے ہاتھوں قتل ہونے سے بچاتے ہوئے حوالہ قانون کرکے ایک مہذب انسان اور ذمے دار مسلمان مذہبی رہنما ہونے کا ثبوت دیا تھا۔ شدت جنون میں پاگل ہوئے ہجوم مومنین کا کھوکھلے جذبات کی آگ میں تپا ہوا خیال تھا کہ اسے ہمارے حوالہ کیوں نہیں کیا یا خود اسے کیوں نہیں مارا بلکہ یہاں معاملہ گاڑی جلانے سے بھی بہت آگے کا تھا لوگ اس راتانہیں ڈھونڈتے پھر رہے تھے تاکہ گستاخ کو بچانے کے جرم میں اس ذمے دار عالم دین کا ہی کام تمام کردیا جائے۔ وہ تو بھلا ہوکچھ دوستوں اور اعزہ و اقارب کا جنہوں نے بروقت معاملے کی سنگینی کا ادراک کرکے بڑی تباہی کے غار میں معاملات کو پہنچنے سیدور رکھا۔ یہ واقعہ چند سال قبل شاھی مسجد چترال میں پیش آیا تھا۔ جہاں مبینہ طور پر ایک ایبنارمل شخص نے جمعے کے مجمع میںاٹھ کر کچھ اول فول بک دیا تھا۔ ہجوم اسے مارنے اٹھا تو شاہی خطیب حضرت مولانا خلیق الزمان کاکا خیل مدظلہ نے جرات اورذمے داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے جان ہتھیلی پہ رکھ کر ہجوم کے ہاتھوں اس شخص کا قیمہ بننے سے بچایا تھا۔

چونکہ میں اس موقع پر اگلے دن حضرت خطیب صاحب کے پاس پہنچ چکا تھا اور مذہبی جنونیت کس طرح زہر قاتل ہے اس کا بلکل قریب سے مشاہدہ کرچکا ہوں اس لئے ان چیزوں کی نفسیات کو کچھ کچھ جانتا ہوں۔ اس واقعے کے بعد ملک بھر کے علماء اورسب سے بڑی مذہبی جماعت کے قائد حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب اور دفاع ناموس رسالت کے سب سے بڑے پلیٹفارم عالمی مجلس تحفظ ختم کے اکابرین سب نے حضرت خطیب صاحب کو سرِاہا بلکہ ایک ٹی وی شو کے دوران تو مولانا فضلالرحمن صاحب نے اسے دینی طبقوں کی برداشت اور قانون کی علمداری پر یقین کا ایک نمونہ قرار دیا ساتھ مشال خان واقعے کا ذکرکرتے ہوئے فرمایا کہ دیکھو اپنے یونیورسٹیوں کا کردار اور ہمارے ایک مولوی کا کارنامہ۔۔

ان سب کے باوجود خود ساختہ عشاق کا ایک ہجوم تھا جو مبینہ ملعون سے بھی پہلے خطیب صاحب کی گردن ناپنے کے لئے بیتابتھا۔

ایسے جلے بھنے اور عمل سے عاری عشاق میں نظریاتی مخالفین، ذاتی رنجشیں پالنے والے کینہ پرور اور ایسے افراد کی کثیر تعداد تھی جنکو خطیب صاحب کی شکل پسند نہ تھی۔

لہذا وہ لوگ جو ایسے مواقع پر فورا بلوں سے باہر نکل آتے اور آسمان سر پہ اٹھاتے ہیں کہ علماء کدھر ہیں مذہبی جماعتیں وضاحتیں کیوں نہیں جاری کرتیں، ان سے گزارش ہے کہ چترال کے واقعے میں تو مذہبی جماعتیں بھی ساتھ تھیں معاملہ بھی ایک عالم دین کاتھا لیکن پھر بھی مبینہ گستاخ کو ہجوم کے ظلم سے بچانے پر مولوی صاحب کی گاڑی جلا دی گئی خود کی جان محفوظ کرنے کے لالی پڑ گئے تھے۔

یہ کیفیت ہے جنون کی۔ حقیقت یہ ہے کہ جنونیت کا کوئی مذہب نہیں۔ خدا ایسے جاہلوں اور جنونیوں سے اسلام کو محفوظ رکھے۔اور ریاست کو بھی توفیق دے کہ اپنے مفادات بلکہ مہم جوئیوں کیلئے مذہب کے نام پر مذہبی جنون کو وقتی کھیل کے طور پر استعمال کرنے کے جرم سے توبہ کرے ورنہ ہم جس جنونیت کے آتش فشاں پر کھڑے ہیں اس کا لاوا پھٹ گیا تو ریاست حکومت مذہباور سماج کچھ نہیں بچے گا۔ چلتے پھرتے انسانوں کی شکل میں ہر طرف خونی درندے آدم بو آدم کرتے پھریں گے۔۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
55702

دینی مدارس اور ہم – تحریر : اقبال حیات اف برغذی

چترال کے ممتاز عالم دین اور جامع مسجد ریحانکوٹ کے خطیب حضرت مولانا ولی محمد صاحب اپنے جمعے کی تقریر کے دوران خیرات وصدقات سے متعلق معاشرے کی مجموعی کیفیت پر اظہار خیال کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک صاحب دارلعلوم کے بچوں پر خرچ کرنے کے  لئے 8ہزار روپے صدقہ دینے کے ایک سال بعد آڈٹ کے لئے تشریف لائے مذکورہ رقم کے مصرف کے بارے میں تفصیل کا تقاضاکئے

اس واقعے کی مناسبت سے اگر دیانتدار انہ طور پر جائزہ لیا  جائے تو معاشرے کے اندر عمومی طور پر دینی مدارس کے بارے میں وہ جذبہ دیکھنے کو نہیں ملتا۔ جو دوسرے تعلیمی اداروں کے بارے میں پایا جاتا ہے۔ عام طور پر مدارس کے لئے چندہ اکھٹا کرنے کے دوران جیب کی طرف اٹھنے والے ہاتھوں میں خلوص کا فقدان نظر آتا ہے۔ اور جھولی  میں کچھ ڈالنے کے انداز میں بھی دینی جذبے کا رنگ نظر نہیں آتا۔ دنیا وی علوم کے حصول کے لئے سر گرم عمل اولادپر اٹھنے والے اخراجات کا حساب نہیں لیا جاتا اور وسعت قلبی کا مظاہر ہ کیا جاتا ہے۔ لیکن احیائے دین کے لئے مصرف میں آنے والے چند سکے بھی لوح دل پر ثبت کئے جاتے ہیں۔

پورہ معاشرہ اس احساس سے محروم ہے۔ کہ یہی دینی ادارے میں کہ جہاں سے علماء کی صورت میں ہدایت کا مشغل روشن ہوتے ہیں  جو سفر حیات میں صراط مستقیم پر گامزن کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔

چونکہ دینی ادارے حکومتی سرپرستی سے محروم رہتے ہیں ۔اس لئے یہ عمومی طورپر توجہ کے مستحق ہوتے ہیں ۔اور ان دینی اداروں کی آبیاری کےلئے مصرف میں انے والا سرمایہ اخروی دنیا کی ہریالی بننے کے بارے میں دو رائے نہیں ہوسکتی ۔دنیا ئے اسلام کے قابل فخر سپوت سلطان محمود غزنوی خواب میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی سعادت کے امکان، شاہی خاندان میں ولادت کی بنیاد پر خود کو اپنے والد نقد اولاد ہونے کی صداقت اور اللہ رب العزت کو سب سے زیادہ پسندیدہ عمل کی نوعیت سے متعلق فکرمند رہتے تھے۔ ایک رات اپنی آرام گاہ سے باہر چہل قدمی کرنے کے دوران عمارت کی کھڑکی کے قریب ایک لڑکے کو کتاب ہاتھ میں لئے کھڑا دیکھتے ہیں۔ دریافت کرنے پر وہ لڑکا خود کو دینی مدرسے کا طالب علم بتاتے ہوئے پڑھنے کے لئے اپنے گھر میں چراغ نہ ہونے کی وجہ سے شاہی محلے کے چراغ سے استعفادہ کرنے کی بات کرتے ہیں۔ سلطان محمود غزنوی لڑکے کو اندر بلا کر چراغ ان کے حوالے کرتے ہوئے اسے اپنے گھر میں پڑھائی کے لئے استعمال کرنے اور تیل ختم ہونے پر تقاضا کرنے کی ہدایت کرتے ہیں۔

اسی رات خواب میں سرکار دو عالم صلی اللہ وعلیہ وسلم کی زیارت ہوتی ہے۔ اور آپ  ان سے فرماتے ہیں کہ آئے سبکتگیں کے فرزند میرے وارث کے ساتھ تعاو ن کرنے پر اللہ رب العزت آپ کو دونوں جہانوں میں سرخروئی سے نوازے” حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زبان سے نکلنے والے ان الفاظ میں جہاں انہیں اپنی ذات سے متعلق خیال کا جواب ملتا ہے۔وہاں اللہ رب العزت کے پسندیدہ عمل کی نشانی وہی بھی ہوتی ہے۔

 مگر بدقسمتی سے ہم دنیاوی طور پر اپنا قد بڑھانے میں منہمک رہتے ہیں۔ اور آخرت کی سرخروئی اور مقام کے حصول کےلئے کاوش نہیں کرتے اور انجام کار

                                        سب کچھ یہیں رہے گا کچھ بھی  نہ  پاس ہوگا

                                        دو  گز   کفن   کا   ٹکڑا   تیر ا   لباس     ہوگا

کے مصداق ساری جمع پونچی یہاں چھوڑکر خالی ہاتھ جانا پڑے گا۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
55663

داد بیداد ۔ چہ دلا وراست ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

داد بیداد ۔ چہ دلا وراست ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

فارسی میں ایک مصر عہ ”چہ دلاوراست دزدے کہ بکف چراغ دارد“ کیسا بہادر چور ہے جو ہا تھ میں چراغ لیکے آیا ہے یہ مصر عہ امارت اسلا می افغا نستان کے وسائل پر ڈاکہ ما ر نے والے مما لک اور عا لمی اداروں پر صادق آتا ہے تازہ ترین خبروں کے مطا بق مغر بی مما لک اور ان کے زیر سایہ عالمی اداروں نے امارت اسلا می افغا نستان کے 7ارب ڈالر ادا کرنے سے انکار کیا ہے جبکہ عالمی امداد کے ڈیڑھ ارب ڈالر میں سے صرف 50کروڑ ڈالر اس شرط پر ادا کرنے کا عندیہ دیا ہے کہ یہ رقم امارت اسلا می کے حکام کو نہیں ملے گی غیر ملکی این جی اوز کو ملے گی اور اس کو افغا ن عوام کے ساتھ ہمدردی کا نا م دیا جا ئے گا افغا ن عوام کے نا م پر جو فنڈ آئے گا وہ افغا ن عوام کو نہیں ملے گا .

یا د رہے گزشتہ ما ہ اقوام متحدہ کے سکر ٹری جنرل اور عالمی ادارہ خوراک کے سر براہ نے خبر دار کیا تھا کہ افغا نستان میں انسا نی المیہ جنم لینے کا خطرہ ہے گویا عالمی سطح پر اس بات کا احساس کیا گیا ہے کہ افغا ن عوام ایک بڑے بحران سے گزر نے والے ہیں یہ ما لیات کا بحران بھی ہو گا غذائی قلت کا بحران بھی ہو سکتا ہے اس احساس کے باو جو د عا لمی اداروں کا رویہ دیکھئیے افغا نستا ن کا اپنا 7ارب ڈالر کا فنڈ منجمد کیا ہوا ہے اس کو ہا تھ لگا نا منع ہے امداد اور خیرات کے نا م پر حاتم طائی کی قبر پر لات مار کر جو ڈیڑھ ارب ڈالر بر آمد کئے گئے ہیں وہ بھی نہیں دے رہے اس رقم کا ایک تہا ئی حصہ ملے گا مگر افغا ن حکومت کو نہیں ملے گا بلکہ یورپ اور امریکہ کے این جی اوز کو ملے گا جو افغا ن عوام کی مدد کرنے میں پُل کا کر دار ادا کرینگے.

ان اداروں اور تنظیموں کا جو طریقہ کار یا سچ پو چھیئے تو طریقہ واردات ہے وہ بیحد جا ذب نظر اور دلچسپ ہے عالمی ادارے اس بہا نے سے اپنی امداد ایک ہا تھ سے دیکر دوسرے ہاتھ سے واپس لینا چاہتے ہیں اور یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں اس کا ایک آز مو دہ فارمو لہ ہے جس کے تحت یہ امداد واپس ان کی جیبوں میں جا تی ہے بڑے خوبصورت نعرے ایجا د کئے گئے ہیں خوب صورت فقرے تراشے گئے ہیں اور دلکش اصطلاحا ت کے ساتھ نت نئی تر کیبات وضع کی گئی ہیں سٹیک ہو لڈر، بیس لائن، نیڈ اسسمنٹ، انسیشن، ایم اینڈآر ٹولز وغیرہ پر زور دیا جا ئے گا، کنسلٹنٹ بھر تی کئے جا ئینگے جو یورپ اور امریکہ سے آئینگے، دفتری مشینری خرید ی جا ئیگی،

گاڑیاں منگو ا ئی جا ئینگی، بڑے ہوٹلوں کے ساتھ مختلف سر گر میوں کے لئے معا ہدے ہو نگے اس طرح امدادی فنڈ کا 50فیصد کا م شروع ہونے سے پہلے خر چ ہو جا ئے گا یعنی واپس انہی کی جیب میں جا ئے گا اس کے بعد کا م شروع ہو گیا تو امدادی فنڈ کا 35فیصد با ہر سے آنے والوں کی تنخوا ہوں کے ساتھ دفتری اخراجات پر صرف ہو گا 10فیصد مڈ ٹرم مشن اور آڈٹ پر لگا یا جا ئے گا جو بچے گا وہ 5فیصد کے برابر ہو گا اور یہ افغا ن عوام کو ملے گا .

اس کو ثا بت کر نے اور دکھا نے کے لئے بل بورڈ ز، سائن بورڈ اور اشتہا رات لگا ئے جائینگے یہ گونگے کا راشن فراڈیے کے ہاتھ میں دینے کے مترا دف ہے باد شاہ نے گونگے کا راشن مقرر کیا اور ایک مکار سپا ہی کے ذمے لگا یا کہ راشن وقت پر گونگے کو کھلا ؤ، سپا ہی سارا راشن خود کھا تا تھا گونگے کے ہونٹوں پر سا لن کا مصا لحہ لگا تا تھا لو گوں کو دکھا تا تھا گونگے نے راشن کھا یا ہے دیکھو ہونٹوں پر سا لن کا مصا لحہ لگا ہوا ہے چنا نچہ افغا نیوں کے ہاں پہلے سے فارسی کا مصرعہ مشہور ہے ”چہ دلا وراست دزدے کہ بکف چراغ دارد“

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
55642

سگریٹ نوشی میں مبتلا ہمارے بچے ۔ تحریر۔ اقبال بجاڑ گلگت

iqbal bijal gilgit

آج صبح کچھ سودا لینے محلے کی دکان میں گیا وہاں پہلے سے موجود سکول کی وردی میں دس کے قریب لڑکے جن کی عمریں نو سے بارہ سال کے قریب ہونگی موجود تھے یہ سکول کا بریک ٹائم تھا مجھے یہ دیکھ کے حیرت ہوئی وہ سبھی ہاتھ میں سگریٹ سلگائی ہوئے تھے اور بلا خوف سگریٹ نوشی کر رہے تھے ان کو دیکھ کے سوائے افسوس کے کوئی چارہ نہ تھا اقبال کے شاہینوں کو کچھ کہنے کی جرائت ان کے والدین کو نہیں تو میں کہا ان کی محفل کو کچھ کہ کے خراب کرنے کی جسارت کر سکتا تھا ہاں اس سکول کے پرنسپل کو یہ ضرور کہونگا کہ اقبال کے ان شاہینوں کو بریک کے ٹائم سکول سے باہر جانے نہ دے یہ ان کا قوم کے اوپر بڑا احسان ہوگا


یہ ایک خطرناک صورت حال ہے ہمارے تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے کم عمر لڑکے سگریٹ نوشی کے لعت میں مبتلا ہیں سکول ٹائم پارک اور لب دریا خاص کار ہاسپٹل کے آس پاس بہت سارے لڑکے سکول یونیفارم میں سگریٹ پیتے نظر آئنگے ہمارے تعلیمی اداروں کو اپنا نظام درست کرنا ہوگا صبح سکول آنے والا بچہ کیسے بریک ٹائم سگریٹ نوشی کے اڈوں پہ پہنچتا ہے اس کو ہم ان ادروں کی مجرمانہ غفلت ہی کہ سکتے ہیں آٹھ گھنٹے تو والدین اپنے بچوں کو سکول کے حوالے کر تے ہیں تاکہ علم حاصل کرے لکین سکول انتظامیہ کو یہ پتہ نہیں ہوتا جو طالب عالم صبح سکول آیا ہے وہ بریک ٹائم کے بعد سکول سے نکلتا ہے اور اوراہ گردی کے بعد چھٹی میں اپنا بیگ اٹھانے آتا ہے۔

والدین کو بھی چاہیے کہ صرف اپنے بچوں کو سکول میں داخل کرنا اپنا فرض نہ سمجھے ان کا یہ بھی زمداری بنتی ہے کہ وہ مہینے میں کم ازکم دو بار اپنے بچے کے سکول میں جایا کرے کہ اس کا شاہین کی کیا کارکردگی ہے۔ گلگت بلتستان کے تقریباً بڑے تعلیمی اداروں میں پڑھنے والوں بچوں میں سگریٹ نوشی کا رجحان تشویش ناک حد تک ہے۔ان تعلیمی اداروں کو چاہئے مہینے میں ایک ایسا تربیتی پروگرام کروائے جہاں بچوں کو بتایا جائے کہ سگریٹ نوشی ان کی صحت کے لئے کتنی مضر ہے اور ساتھ اس لعت سے بچنے کے طریقے بھی بتائے ملکی سطح پر تو اس لعت میں مبتلا لوگوں کی تعداد میں تو اضافہ ہوتا جارہا ہے لکین گلگت بلتستان جہاں بڑی عمر والے بھی چھپ کے سگریٹ پیتے تھے۔

آج کھلے عام کم عمر بچے بھی سگریٹ نوشی کرتے ہیں اور شیشہ جیسا نشہ بھی نوجوان نسل میں عام ہوتا جارہا ہے خاص کار گلگت شہر میں شیشہ جیسے نشے کے تو باقاعدہ اڈے ہیں جہاں نوجوان نسل نشہ کرنے کے لیے جاتے ہیں سول سوسائٹی اور حکومت کو چاہیے ان اڈوں کو بند کروائے اور جس سکول کے بچے سکول ٹائم تمباکو نوشی کرتے ہوئے پکڑے جائے اس ادارے کے اوپر بھاری جرمانہ کیا جائے والدین کو چاہیے وہ اپنے کم عمر بچوں کو شام کے بعد گھر سے باہر جانے نہ دے رات کو گھر سے باہر رہنا بھی سگریٹ نوشی کا سبب بنتا ہے۔

ہمارا ملک پاکستان دنیا بھر میں تمباکو نوشی میں دنیا بھر میں سرِ فہرست ہیں اعداد وشمارکے مطابق پا کستان کا شمار دنیا کے ان پندرہ ممالک میں ہوتا ہے، جہاں تمباکو کی پیداوار اور استعمال سب سے زیادہ ہے۔ ایک غیر سرکاری تنظیم ’’نیٹ ورک فار کنزیومر پروٹیکشن‘‘ کی ایک رپورٹ مطابق ملک بھر میں پانچ لاکھ سے زاید دکانیں اور پان کے کھوکھوں پر سگریٹ با آسانی دست یاب ہے اور تشویش ناک بات یہ ہے کہ ملک میں روزانہ تقریباً 1200 بچے سگریٹ نوشی کا آغاز کر رہے ہیں۔یعنی تمباکو نوشی کی جانب قدم بڑھانے والے ہر پانچ میں سے دو کی عمر دس سال ہے۔

ہمارے نوجوان نسل تمباکو کی صنعت کے بنیادی ہدف ہیں ایک غیر سرکاری تنظیم گلوبل یوتھ ٹوبیکو سروے کے مطابق اس وقت13.3 فی صد لڑکے اور 6.6 فی صد لڑکیاں (جن کی عمریں 13 سے 15سال ہیں) تمباکو استعمال کرتی ہیں۔ملک میں تقریباً 160,000 افرادہر سال تمباکو نوشی سے متعلق بیماریوں کی وجہ سے مرجاتے ہیں اور دوسرے لوگوں کی سگریٹ نوشی کی وجہ سے تقریباً 40,000 افراد ہلاک ہوتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ اپنے نوجوانوں کو مثبت اور تعمیری کاموں میں مصروف رکھنے کے لیے بہت سے نئے صحت مندانہ منصوبے شروع کرے تاکہ یہ نوجوان اپنی صلاحیتوں کو مثبت طور پر کام میں لائیں جس سے نہ صرف اُن کی صحت کا معیار بہتر ہوگا بلکہ یہ ملکی ترقی کا باعث بھی ہوگا۔ہمیں اپنے لوگوں کو مسلسل یہ باور کراتے رہنا چاہیے کہ اپنی زندگی تباہ ہونے سے بچائیں۔ ایک سروے کے مطابق ہمارے ملک میں تمباکو نوشی کرنے والوں کی عمر کے حساب سے شرح یہ ہے جو اس سے شاید زیادہ ہو۔


19.1فی صد بالغان(عمر +15) کسی نہ کسی شکل میں تمباکو استعمال کرتے ہیں)31.8فی صد مرد، 5.8فی صدعورتیں)۔12.4 فی صد بالغان تمباکو نوشی کرتے ہیں۔7.7 ٪ فی صد بغیر دھویں کے تمباکو استعمال کرتے ہیں۔◦ 3 ٪فی صدواٹرپائپ استعمال کرتے ہیں (حُقّہ یا شیشہ)۔ نوجوانوں میں (عمر 13–۔15)10 ٪فی صدتمباکو کی مصنوعات استعمال کرتیہیں (13.3٪فی صد لڑکے۔ 6.6٪فی صدلڑکیاں)7.2 فی صدتمباکونوشی کرتے ہیں اور5.3٪فی صد بغیر دھویں کے تمباکو استعمال کرتے ہیں۔

نوجوانوں میں جس نے کبھی سگریٹ پی لیا ہو،اُن میں سے40٪فی صدکے قریب نے 10سال سے کم عمر میں پہلا سگریٹ پینے کی کوشش کی ہوتی ہے۔


عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں 4 کروڑ 40 لاکھ ایسے بچے ہیں جو 13 سے 15سال کی عمر میں ہونے کے باوجود تمباکو نوشی کرتے ہیں اور بچّوں کی ایک بڑی تعداد الیکٹرانک سگریٹ کا استعمال بھی کررہی ہے۔ ہمیں اپنے بچوں کو اس لعت سے بچانا ہے میری گلگت بلتستان حکومت سے گزارش ہے وہ گلگت بلتستان میں ایسے سخت قوانین بنائے جس سے تمباکو نوشی کرنے والوں کی حوصلہ شکنی ہوسکے ورنہ ہمارے بچے سگریٹ کے دھوئیں کی نظر ہونگے


۔

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
55629

بی بی سی کا پاکستان کے خلاف ایک اور پروپیگنڈا -تحریر : راجہ منیب

ادریس خٹک کو صوابی سے نومبر سنہ 2019 میں حراست میں لیا گیا  اورادریس خٹک کے وکیل طارق افغان ایڈووکیٹ کے مطابق ان کے موکل کو پاکستان آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا ۔اور پی ٹی ایم کےمشرانوں  نے اس بات کا پروپیگنڈہ شروع کر دیا  کہ ادریس خٹک اغوا ہو گئے ہیں اور لاپتہ ہیں۔ پی ٹی ایم ایسی جھوٹی تنظیم جو اپنے مفاد کے لیے اداروں پر کسی بھی وقت الزام لگا دیتی ہے۔ جبکہ غیر ملکی ایجنسیوں کے لیے جاسوسی کرنے کے جرم میں جن تین فوجی افسران اور ایک سولین کا کورٹ مارشل کیا گیا۔ سزا پانے والوں میں لیفٹننٹ کرنل فیض رسول  کو 14 سال  کی سزا کے بعد اڈیالہ  جیل اور ادریس خٹک نامی سولین کو 14 سال کی سزا کے بعد جہلم جیل میں ہیں ۔انکے علاوہ  لیفٹننٹ کرنل اکمل کو 10 سال  اور میجر سیف اللہ بابر کو 12 سال کی سزا سنائی گئی۔ان غداروں کو سزائیں سنانے کے بعد مختلف جیلوں میں بھیجا گیا ہے۔

ادریس خٹک  پاکستان کی خفیہ معلومات  برطانوی خفیہ ایجنسی ایم آئی سکس کے ایک ایجنٹ مائیکل سیمپل کے کو معلومات دیتا تھا۔ ملزم ادریس خٹک نے 29 جولائی سنہ 2009 کو برطانیہ کی خفیہ ایجنسی کے نمائندے مائیکل سیمپل کو سوات میں پاکستانی فوج کے جاری آپریشن کے بارے میں معلومات دیں۔ادریس خٹک کے حق میں پی ٹی ایم (وزیرستانی سرخے) سمیت تمام خونی لبرلز  کافی عرصہ سے سوشل میڈیا مہم چلاتے رہے ہیں۔ وہ اس کی گرفتاری کو اغواء اور زیر حراست رکھنے کو ‘مسنگ پرسن’ کا نام دے کر عوام کو گمراہ کرتے رہے ہیں۔ کچھ سیاست دان، صحافی ٹولہ اور خاص طور سے پی ٹی ایم ادریس خٹک نامی شخص کو لے کر بھر پور پراپیگنڈہ اور جھوٹی کہانیاں پھیلا رہے ہیں جنکی حقیقت ملاحظہ فرمائیں۔ادریس خٹک کے تین جرائم ثابت ہوئے ہیں۔  جنکا مختصر ذکر یہ ہے کہ پہلا جرم ۔اس نے غیر ملکی ایجنسیوں کو پاکستان میں ڈرون حملے کرنے کے لیے انفارمیشن دی۔ 

 بھاری رقوم کے عوض اس نے وزیرستان سمیت کئی علاقوں میں ڈرون حملوں کے ذریعے معصوم قبائیلیوں کو مروایا ۔اسکی حمایت وہی لوگ کر رہے ہیں جو پشتون قبائیلیوں کی لاشوں پر سیاست کرتے آ رہے ہیں۔اور بظاہر وہ خودکو قبائیلیوں کے حقوق کا چیمپئن کہتے ہیں۔  دوسرا جرم  ۔ اس نے غیر ملکی ایجنسی کی ایما پر ‘مسنگ پرسنز’ کی فیک مہم چلائی۔ جس میں قومی سلامتی کے اداروں اور ریاست کے خلاف لوگوں کو اکسایا۔ بغیر کسی ثبوت کے الزامات لگائے۔تیسرا جرم ۔ ملک دشمن ایجنسیوں کے لیے قبائیلی اضلاع سے پڑھے لکھے نواجوانوں کی بھرتیاں کیں۔ ان نوجوانوں کو پاکستان کے خلاف کام کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ اس کے عوض بھی اس نے بڑی رقم وصول کی۔

یہ محض آرمی عدالتوں سے سنائی گئی سزائیں نہیں ہیں اورنہ یہ محض ایجنسیوں کی رپورٹس ہیں۔ یہ موصوف پیشاور ہائی کورٹ بھی گئے تھے جہاں ان دنوں خونی لبرلز کے چہیتے چیف جسٹس وقار سیٹھ براجمان تھے۔ ادریس خٹک کے خلاف ثبوت اتنے ٹھوس اور واضح تھے کہ پشاور ہائی کورٹ نے بھی ہاتھ کھڑے کر دئیے اور فیصلہ سنایا کہ بےشک ادریس خٹک کو ‘آفیشل سیکرٹ ایکٹ’ کے تحت پکڑا گیا ہے اور ان ثبوتوں کی روشنی میں بہتر یہی ہے کہ آرمی ہی اس پر مقدمہ چلائے۔اس سے دو باتیں ثابت ہوتی ہیں۔ پاک فوج لیفٹنٹ جنرل جاوید اقبال سے لے کر میجر تک غداری یا جرم ثابت ہونے پر سب کو سزائیں دیتی ہے اور سولین یا فوجی میں کوئی فرق نہیں کرتی۔ پھر چاہے وہ برگیڈئیر رضوان ہو چاہے وہ ادریس خٹک ہو۔

اسکے علاوہ اس سےیہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان کی ایجنسیاں ہر قسم کے خطرات سے آگاہ اور چوکناہیں اور ایسے غداروں کو نہ صرف پکڑا جاتا ہے بلکہ انجام تک بھی پہنچایا جاتا ہے۔فوج کے پاس احتساب کا سخت عمل ہے۔کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں ہے۔ادریس خٹک نے ریاست پاکستان کے ساتھ غداری کی ہے۔اس غدار  نے حساس معلومات ملک دشمنوں کو دیں جس کی وجہ سے قبائلی علاقوں میں فوج و ریاست کے خلاف منفی پروپیگنڈا کرنے میں دشمن کو آسانی ہوئی ہےجہاں تک ادریس خٹک کی بات ہے تو میری رائے میں اس کو بہت کم سزا سنائی گئی ہے۔ جس سفاک انسان کے ہاتھوں سےسینکڑوں  بےگناہ قبائیلیوں کا خون ٹپک رہا ہو اس کو کم از کم موت کی سزا دینی چاہئے۔اور براہ کرم چند لوگوں کی طرف سے پھیلائے جانے والی کہانیوں پر کان نا دھریں کیونکہ انکا کام ہی آپ لوگوں میں انتشار پھیلانا ہے۔ بی بی سی کے اس مضمون کے پیچھے کیا مقصد ہے اوراس بدتر، کسی مقصد اور منطق سے عاری، یہ غیر ذمہ دارانہ، نامکمل اور ناقص تحریر کردہ اردو مضمون پاکستان کی قومی سلامتی کے اہم مفادات کے لیے خطرناک نتائج کا باعث بن سکتا ہے۔ 

   بدقسمتی سے، یہ پہلا موقع نہیں ہے جب بی بی سی نے اس قسم کے پروپیگنڈے کا ساتھ نہ دیا ہو۔ اس سے پہلے بھی  بی بی سی کی مسلح افواج کے بارے میں تنازعہ پیدا کرنے کی پہلے کئی واضح کوششیں موجود  ہیں۔پاکستانی میڈیا کا منظر نامہ شہزاد ملک جیسے “کرائے کے صحافیوں” سے بھرا ہوا ہے جو دوسروں کے کہنے پر حملے کرنے کے لیے سب سے آگے ہیں۔ ان جیسے مصنفین اپنے اسپانسرز کے لیے سپاہ سالار یا پاکستان کی مسلح افواج کو ٹیگ کرتے ہیں،  بدلے میں اسپانسرز، ان کی کہانیوں کو آگے بڑھانے اور اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے ان پر بھاری احسان کرتے ہیں۔ ایسے مصنفین کا طریقہ کار وسیع تر سامعین تک پہنچنے کے لیے کہانیوں کو ایک لذیذ موڑ دے کر ان کو ختم کرنا ہے۔ اگر بی بی سی کی جانب سے ایسے صحافیوں کو ان کی بے ہودہ باتوں پر قلم اٹھانے کے لیے جگہ دی جاتی رہی تو یہ نہ صرف صحافتی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہوگی بلکہ برطانیہ اور پاکستان کے درمیان موجود نیک نیتی کو بھی ختم کردے گی۔  ایک واضح حقیقت ہے کہ پاکستان نے کبھی بھی برطانیہ کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کی۔ بی بی سی کے یہ مضامین پاکستان اور اس کی مسلح افواج کو بدنام کرنے کے واضح مقصد کے ساتھ شائع کیے جا رہے ہیں۔ یہ ایک خطرناک رجحان جسے پاکستان ہلکے سے نہ لے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
55625

عالمی دن برائے افراد باہم معذوری۔تحریر محمد عبدلباری

ہر سال 3 دسمبر کو افراد باہم معذوری کا عالمی دن منایا جاتا ہے اس دن کی مناسبت سے  تقریباً تمام ممالک میں مختلف قسم کے تقریبات منعقد کیے جاتے ہیں۔  معذور افراد کی فلاح و بہبود،  ان کی تعلیم و تربیت اور انہیں معاشرے کے دیگر افراد کے برابر حقوق فراہم کرنے کے لئے مختلف قسم کی ریلیاں، سیمینارز اور محفلیں بھی منعقد کی جاتی ہیں۔ انہی تقریبات کی بدولت  عام عوام اور حکام بالا تک معذور افراد کے مسائل اور ان کے حقوق کے فقدان کے بارے میں معلومات پہنچ جاتے ہیں اور معذور افراد کے مسائل اور ان کے حل کے متعلق آگاہی  بھی حاصل ہوتی ہے۔ 

افراد باہم معذوری کے کل تیرہ (13) اقسام ہیں مگر بنیادی طور پر انہیں یکجا کر کے چار اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ 

  • قوت سماعت اور قوت گویائی سے محروم افراد
  • قوت بصارت سے محروم افراد
  • جسمانی معذوری
  • ذہنی پسماندگی 

دنیا کی تاریخ میں معذور افراد کے مسائل اور ان کے حل اور معذور افراد کی دیکھ بھال کی طرف پہلی مرتبہ توجہ اس وقت دیا گیا تھا  جب پہلی جنگ عظیم کے دوران  پھیلنے والے  تباہی کی وجہ سے بہت سے افراد معذوری میں مبتلا ہوئے تھے۔ 

1930 میں امریکہ میں نابینا افراد کے لیے قانون سازی کی گئی۔ یوں معذور افراد کی فلاح و بہبود اور ان کے لئے قانون سازی کا عمل شروع کیا گیا۔  مختلف ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے معذوری اور ان کے اندر چھپی ہوئی صلاحیتوں کے بارے میں آگاہی کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اسی سلسلے میں 1931 میں فرانس کے اندر نابینا افراد کے مسائل کی جانب توجہ دلانے کے لئے ایک عظیم الشان تقریب منعقد کیا گیا تھا۔

1976 میں تمام معذور افراد کے مسائل کے متعلق غور و خوص کے لیے اقوام متحدہ میں بھی ایک اہم اجلاس منعقد کیا گیا تھا پھر 1981 کے سال کو پوری دنیا میں معذوروں کے ساتھ اظہار ہمدردی و یکجہتی والا سال کے طور پر منایا گیا پھر1983 سے 1992 کے درمیان یو این او کے پلیٹ فارم سے معذور افراد کے تمام تر مسائل  کا انتہائی گہرائی سے جائزہ لیا گیا 1992 میں یہ حتمی فیصلہ کیا گیا تھا کہ اس کے بعد 3 دسمبر کو ہر سال پوری دنیا میں معذور افراد کےعالمی دن کی حیثیت سے منایا جائے گا اس اعلان کے ساتھ ساتھ یو این او کی جنرل اسمبلی نے اس دن کو منانے کے اغراض و مقاصد بھی بیان کیا۔ 

  • دنیا کے تمام ممالک 3دسمبر کو عالمی یوم معذوری کے مناسبت سے منانے کے لئے پابند ہوں گے۔
  • اس دن عام افراد کو افراد باہم معذوری کے متعلق آگاہی دی جائے گی تاکہ وہ خصوصی افراد کی اہمیت کو سمجھ سکیں۔
  • اس دن کو منانے کا مقصد معذور افراد کے مسائل کو اجاگر کرنا ہے۔
  • معذور افراد کے بنیادی حقوق کا خیال رکھنا۔ 
  • عام آدمی اور معذور افراد کے درمیان سماجی،  معاشرتی اور اخلاقی تعلقات کو بحال رکھنا۔ 
  • معذور افراد کو روزگار فراہم کرنا اور انکی مالی معاونت کرنا۔ 
  • زندگی کے تمام تر معاملات میں ان کی حوصلہ افزائی کرنا۔
  • افراد باہم معذوری کے ساتھ پیش آنے والے معاشرتی ناانصافیوں کو دور کرنا۔ 
  • معذور افراد کی زندگی کو بہتر سے بہتر بنانے کے لئے ہر ممکن کوشش کرنا۔ 
  • انہیں ایسا ماحول فراہم کیا جائے کہ وہ احساس کمتری کا شکار نہ ہوجائیں۔ 

ایک اعداد و شمار کے مطابق دنیا کی کل آبادی  کا 15٪ آبادی افراد باہم معذوری پر مشتمل ہے۔ WHO کے ایک سروے کے مطابق ترقی پذیر ممالک کی  تقریبا 10٪ آبادی افراد باہم معذوری پر مشتمل ہے۔ اور دنیا کے 45 ممالک میں خصوصی افراد کے لئے قوانین بنائے گئے ہیں۔ 

80٪افراد باہم معذوری ترقی پذیر ممالک میں رہتے ہیں ۔ ایک اور المیہ یہی ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں افراد باہم معذوری کی 90٪ آبادی تعلیم سے محروم ہے اگر ہم پوری دنیا کی شرح خواندگی کی بات کریں تو افراد باہم معذوری کی شرح خواندگی  3٪ فیصد ہے۔ اگر ہم وطن عزیز کی بات کریں تو صوبہ  پنجاب میں افراد باہم معذوری کی شرح خواندگی 5٪  ہے، سندھ میں 3.5٪ کے پی کے میں 2.50٪ بلوچستان میں 2٪ وفاق میں 2٪ آذاد کشمیر میں 4٪ اور گلگت بلتستان میں 3٪ ہے۔  

اگر ہم بے روزگاری کی بات کریں تو ایک اعداد و شمار کے مطابق تقریبا 80٪  افراد باہم معذوری بے روزگار ہیں ۔ اکثر لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ یہ افراد باہم معذوری  اپنی معذوری کی وجہ ہے کہ وہ بے روزگار ہیں۔ 

ڈبلیو ایچ او کے مطابق بعض ممالک میں اکثر معذوری زخموں اور تشدد کے نتیجے میں ہوتی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ جنسی اور جسمانی تشدد کا شکار معذور افراد ہوتے ہیں۔ 

یوں یہ بات واضح ہوئی کہ معذور افراد کے حقوق کوہر لحاظ سے  پامال کیا جا رہا ہے۔ جبکہ معذور افراد کے حقوق کے لئے قوانین بھی بنے ہوئے ہیں۔  قوانین بنے ہوئے ایک زمانہ بھی گزر گیا مگر پھر بھی ان کی زندگی میں کوئی بہتری نہیں آئی۔ اس لئیے  ہم حکام بالا سے گزارش کر رہے ہیں  کہ اس حوالے سے کوئی خاص اور مثبت قدم اٹھایا جائے۔ اور انصاف کے تقاضوں کو پورا کیا جاۓ۔

Posted in تازہ ترین, مضامین
55617

معذور لیکن کارگرافراد۔(3دسمبر خصوصی افراد کے عالمی دن کے موقع پرخصوصی تحریر)-ڈاکٹر ساجد خاکوانی

 بسم اللہ الرحمن الرحیم

معذور لیکن کارگرافراد

International Day of Disabled Persons

3(دسمبر خصوصی افراد کے عالمی دن کے موقع پرخصوصی تحریر)

ڈاکٹر ساجد خاکوانی(اسلام آباد،پاکستان(

            اللہ تعالی نے کوئی چیز بھی بے مقصد پیدا نہیں کی۔اس کائنات میں ایک ذرے سے لے کر،پودے پتے،جھاڑ جھنکار اور ریت کے ذروں سے لے کر پہاڑ،چٹانیں،غاریں  اور دریا اور سمندر تک بے شمار مخلوقات ہیں اور کتنی ہی مخلوقات ہیں جو ان دریاؤں اور سمندروں کے اندر اپنی زندگی کے دن پورے کر رہی ہیں،اور کتنی ہی مخلوقات ہیں جوپہاڑوں کے درمیان وادیوں میں اور زمین کی گہرائیوں میں اور پتھروں کے اندر اور درختوں کی جڑوں سے چمٹے ہوئے اس دنیا میں موجود ہیں اور نہ جانے کہاں کہاں اور کیسے کیسے اور کس کس طرح کی مخلوقات جو ہنوزانسانی مشاہدے میں نہیں آسکیں اللہ تعالی کی خلاقی کا پتہ دیتی ہیں۔لیکن یہ سب قطعاََ بھی بے مقصد نہیں،اتفاقََانہیں اور نہ ہی الل ٹپ ہیں بلکہ اللہ تعالی نے یہ سب ایک نظام کے تحت،ایک منصوبے کے مطابق اور ایک منزل کے تعین کے ساتھ اوربامقصد تخلیق فرمایا ہے۔قرآن مجید نے اس حقیقت کو یوں واضع کیاہے کہ ”الَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ قِیَامًا وَّ قُعُوْدًا وَّ عَلٰی جُنُوْبِہِمْ وَ یَتَفَکَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہٰذَا بَاطِلًا سُبْحٰنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ(۳:۱۹۱)“ترجمہ:”جواٹھتے بیٹھتے اورلیٹے ہرحال میں اللہ تعالی کو یادکرتے ہیں اورزمین وآسمان کی ساخت میں غوروفکرکرتے ہیں (وہ بے اختیاربول اٹھتے ہیں)پروردگار!یہ سب کچھ تونے فضول اوربے مقصد نہیں بنایا،توپاک ہے اس سے کہ کوئی عبث کام کرے،پس اے رب ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچالے“۔اسی طرح کی اور آیت میں یوواردہوا کہ”وَ مَا خَلَقْنَا السَّمَآءَ وَ الْاَرْضَ وَ مَا بَیْنَہُمَا لٰعِبِیْنَ(۱۲:۶۱)“ترجمہ:”اورہم نے اس آسمان اورزمین کو اورجوکچھ بھی ان میں ہے کچھ کھیل کے طورپر(بے مقصد)نہیں بنایاہے“۔ان ساری مخلوقات میں سب سے افضل مخلوق حضرت انسان ہے جسے اللہ تعالی نے خود اشرف المخلوقات کہا ہے،اور اپنے دست قدرت سے تخلیق کیا ہے اور اپنی مقرب ترین مخلوق ”ملائکہ“سے اس انسان کو سجدہ کروایا ہے اور اس سجدے سے انکار کرنے والے کو راندہ درگاہ کیا ہے اور قرآن مجید میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے ”وَ لَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْٓ اٰدَمَ وَ حَمَلْنٰہُمْ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ وَ رَزَقْنٰہُمْ مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَ فَضَّلْنٰہُمْ عَلٰی کَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلًا(۷۱:۰۷)“ترجمہ:”یہ توہماری عنایت ہے کہ ہم نے بنی آدم کوعزت اوربزرگی دی اورانہیں خشکی و تری میں سواریاں عطاکیں اوران کوپاکیزہ چیزوں سے رزق دیااوراپنی بہت سی مخلوقات پر نمایاں فضیلت بخشی“۔گویا اب جو بھی حضرت آدم علیہ السلام کے قبیلے میں اورانکی نسل میں پیدا ہو گا وہ اللہ تعالی کے ہاں سے پیدائشی طور پر عزت والا بن کر آئے گا۔یہ انسان کے لیے بہت بڑا اعزازہے کہ اسے خالق کائنات نے اپنے ہاں سے عزت والا بنا کر بھیجا ہے۔

            اسی انسان کے ہاں ایسے بچے بھی جنم لیتے ہیں جو بعض اوقات جسمانی یا ذہنی طور پر معذورہوتے ہیں،لیکن حضرت آدم کی نسل سے ہونے کے باعث وہ اللہ تعالی کے ہاں سے حق عزت ساتھ لے کر آئے ہیں اور انسانی معاشرے میں معزز و محترم ہیں کہ اس معاشرے کے خالق نے انہیں یہ حق عطاکیا ہے اور کوئی قانون،کوئی تہذیب،کوئی معاشرت،یا رویہ ان سے ان کا یہ حق چھین نہیں سکتا۔عربی زبان میں ”نفس“اسکو بھی کہتے ہیں جو سانس لے، چنانچہ قانون اسلام کے ماہرین،فقہائے کرام انسان کو اس وقت سے ”نفس“سمجھتے ہیں جب سے وہ ماں کے پیٹ میں سانس لینا شروع کر دیتاہے اور قرآن نے ”نفس“کے قتل کوناجائز قرار دیا ہے۔گویا اگر ماں کے پیٹ میں ہی بچے کی معذوری کی اطلاع ہو جائے تو بھی اسکا قتل ناجائز ہے معذوربچے قدرت نے بے مقصد پیدا نہیں کیے ہیں،انکی پیدائش کا کیا مقصد ہے؟یہ انسانی دماغ کا امتحان ہے کہ وہ ان بچوں کا بغور مشاہدہ کرے اور ان میں وہ جوہر قابل تلاش کرے جو قدرت نے ان میں چھپا رکھا ہے۔قدرت کبھی کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کرتی کیونکہ اللہ تعالی کاارشادہے کہ”مَا یُبَدَّلُ الْقَوْلَ لَدَیَّ وَ مَآ اَنَا بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِ(۰۵:۹۲)“ترجمہ:”میرے ہاں بات پلٹی نہیں جاتی اور میں اپنے بندوں پر ظلم توڑنے والا نہیں ہوں“۔قدرت اگر کسی کوایک چیز سے محروم کرتی ہے تو اسکا بہترین نعم البدل بھی عطا کرتی ہے،چنانچہ عام مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ معذورافراد بعض اوقات بہت بلا کے حافظے کے مالک ہوتے ہیں،خاص طور پرنابینا افراد میں سے بعض کا حافظہ اس قدر قوی ہوتا ہے کہ دس سال بعد بھی صرف ہاتھ ملانے سے پہچان لیتے ہیں کہ یہ کون صاحب ہیں کب ملے تھے وغیرہ۔اسی طرح ہاتھوں سے معذور افراد بعض اوقات پاؤں سے اسطرح کے کام کر لیتے ہیں اچھابھلاآدمی بھی ایسا نہ کر سکے۔

            اس سب کے باوجود معذور افراد کو:

            1۔حتی الامکان اعتماد نفسی دینا چاہیے اور ان میں سے اس احساس کو کم سے کم کرنا چاہیے کہ وہ معذور ہیں۔

            2۔ان سے اس طرح کا رویہ رکھنا چاہیے کہ جیسے وہ صحیح الاعضا والحواس ہیں۔

            3۔ان کے کسی بھی کام میں معاونت سے احتراز کرنا چاہیے تاکہ ان میں کسی قسم کا احساس کمتری پیدا نہ ہو،سوائے مجبوری کے۔

            4۔ان کی معاشرتی تربیت معاشرتی ومذہبی اقدار کے بالکل عین مطابق ہو تاکہ ان میں ذہنی بالیدگی وقوع پزیر ہو سکے اور مسلسل ارتقا پزیر رہے۔

            5۔معذور افراد کی اپنی مخصوص نفسیات ہوتی ہے،انکے قریبی رشتہ داروں کو اس نفسیات سے آگاہ رہنا چاہیے اور اس کے مطابق ان سے برتاؤ کرنا چاہیے۔

            6۔معذور افراد جس بات سے خوش ہوتے ہوں،جس کھانے کو پسند کرتے ہوں،جس ماحول میں آسودگی محسوس کرتے ہوں  اورجن افراد سے مطمئن رہتے ہوں،غیرمحسوس طور پر انہیں ان کے مزاج کے موافق ماحول فراہم کیاجاناچاہیے۔

            7۔ناپسندیدگی اور چڑ جانے کارویہ اور بہت جلد غصہ اور بعض اوقات قابو سے باہر ہوجانا مخصوص افراد کی نفسیات ایک کمزور پہلو ہوتا ہے،اکثر لوگ مزے لینے کے لیے معذور افرادکو تنگ کرتے ہیں جس سے یہ افراداپنے ان منفی رویوں میں مضبوط تر ہوتے چلے جاتے ہیں اور بالآخریہ  رویے اان معذورافراد کی پہچان بن جاتے ہیں۔اس طرح مخصوص افراد کو گویا انکی محرومیوں میں اندر تک مزیددھکیل دیا جاتا ہے،جس سے اصلاح احوال کی منزل کی بجائے بگاڑکا گڑھاقریب آلگتاہے۔

            8۔علم نفسیات نے معذورافراد کو بہتر بنانے کے لیے کئی طریقے دریافت کیے ہیں،یہ طریقے سالہا سال کی طویل مشق کے بعد اور کئی کئی مخصوص افراد پر تجربوں کے بعد دریافت کیے گئے ہیں،ان طریقوں کا استعمال بہتری کی طرف ایک مثبت قدم ہو سکتا ہے۔

            9۔فن طب میں بہت ساری دوائیاں بھی ان مقاصد کے لیے تیار کر رکھی ہیں،جو معذورافراد کو عام حالات میں یا کسی خاص حالات میں دینے سے انکوافاقہ ہوتا ہے۔

            10۔بعض مخصوص افرادبس گوشت کا ایک لوتھ ہی ہوتے ہیں جو بہت بڑے ہو جانے کے باوجود بھی اپنی ضروریات تک سے آگاہ نہیں ہوپاتے،یہ اگرچہ معاشرے پر ایک مستقل بوجھ ہیں اور والدین کے لیے بہت بڑی آزمائش ہوتے ہیں لیکن نہ جانے جس گھر میں یہ موجود ہوتے ہیں وہاں سے کون کون سی آفتیں محض انہی کی وجہ سے ٹل جاتی ہیں اور نہ جانے کن کن ان جانے اسباب سے محض انہی کی خاطرگھر والوں کے لیے رزق کے دروازے کھل جاتے ہیں۔اللہ تعالی کے ہاں مایوسی کو کفر سے ملایا گیا ہے پس کبھی اور کسی بھی حال میں مایوس نہیں ہونا چاہیے،اور پھر کیا سب معاملات اسی دنیا میں ختم ہوجانے ہیں؟؟نہ معلوم ایک معذور بچے کی پرورش کے عوض اللہ تعالی کے ہاں کتنا ہی ڈھیرسارااجر لکھاجائے۔

            یہ کام اگرچہ محنت طلب اور طویل دورانیے پر مبنی ہے،اور یقیناََ کامیابی کے امکانات بھی بعض اوقات بہت روشن نہیں ہوتے لیکن اس کے علاوہ اسکا حل ہی کیا ہے؟وہ بچہ جیسا کیسا بھی ہے بہرحال انسان کا بچہ ہے،ایک جانور بھی اپنے بچے کا کس قدر خیال کرتا ہے۔والدین کو چاہیے کہ اس طرح کے بچوں کو چھوٹی عمر میں ہی ایسے اسباق پڑھائیں جو زبانی یاد رکھے جانے کے قابل ہوں،انہیں ایسا کام سکھلا دیں کہ وہ کم از کم معاشی طور پر کسی کے کے محتاج نہ ہوں اورسب سے بڑی بات یہ کہ انکے ذہن میں مسلمان ہونے کا تصور ضرور ڈالیں۔حکومت کو چاہیے کہ ایسے مخصوص افراد کے مشاہیر مقرر کرے جو انکی نگہداشت کرنے والوں کو ادا کیے جائیں تاکہ سرپرست افراد کی حوصلہ افزائی ہوسکے۔حکومت ایسے ادارے بھی بنائے جہاں ان بچوں کو کچھ دیر کے لیے یا زیادہ دیر کے لیے رکھاجاسکے تاکہ انکے ذمہ داران اپنی دیگر ذمہ داریاں بحسن و خوبی ادا کر سکیں اور جن بچوں میں سمجھنے اور آگے بڑھنے کی صلاحیت ہے حکومت ان کے لیے تعلیمی ادارے بھی قائم کرے تاکہ انہیں معاشرے کا کارآمد فرد بنایا جا سکے۔اور سرکاری سرپرستی میں تحقیق کےدروازے کھولے جائیں جس کے نتیجے میں معذور بچوں کی پیدائش کو کم سے کم کیاجاسکے اور عوام میں ان تحقیقی نتائج کی اشاعت کا اہتمام بھی کیا جائے۔

            اللہ تعالی نے جس طرح سلامت الاعضا والحواس انسانوں کو اپنی کتاب میں احکامات کے ذریعے براہ راست مخاطب کیاہے اسی اسلوب میں معذورافرادکو بھی قرآن مجیدنے براہ راست مخاطب کیاہے۔حضرت سعید بن مسیب ؒفرماتے ہیں کہ مدنی زندگی میں مسلمان جب بھی جہادکے لیے جاتے تواپنے گھروں کی چابیاں معذورافرادکو دے جاتے تاکہ وہ جب چاہیں دروازے کھول کر جوچاہیں کھا پی لیاکریں۔لیکن معذورافرادکو ہچکچاہٹ تھی یاشاید وہ اسے مناسب نہ سمجھتے ہوں،تب اللہ تعالی نے یہ آیات نازل کیں:” لَیْسَ عَلَی الْاَعْمٰی حَرَجٌ وَّ لَا عَلَی الْاَعْرَجِ حَرَجٌ وَّ لَا عَلَی الْمَرِیْضِ حَرَجٌ وَّ لَا عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ اَنْ تَاْکُلُوْا مِنْ بُیُوْتِکُمْ(۴۲:۱۶)“ترجمہ:”کوئی حرج نہیں اگرکوئی نابینایالنگڑایامریض تمہارے (یاکسی کے) گھرسے کھالے“۔سیرت النبی ﷺمیں معذورافراد کے لیے خصوصی رعایات کا تفصیلی ذکرملتاہے۔ایک غریب اور نابیناصحابی حضرت ابن ام مکتوم ؓ تھے،یہ آپﷺ کو بہت محبوب تھے۔پہلے یہ اصحاب صفہ کے درمیان رہتے تھے پھرانہیں ”دارالغذا“میں ٹہرادیاگیا۔جب حضرت بلال نہیں ہوتے تھے تویہ مسجدنبوی میں آذان دیاکرتے تھے خاص طورپر رمضان کے مہینے میں جب حضرت بلال سحری شروع کرنے کی پہلی آذان دے کرلوگوں کو بیدارکرنے کے لیے گلیوں کاچکرلگاتے تھے تب فجر کی آذان یہی نابیناصحابی ہی دیاکرتے تھے اورلوگ ان کی آذان سن کر کھانا پینا بندکردیتے تھے۔کئی مواقع پر جب آپﷺ مدینہ سے باہر تشریف لے جاتے تویہی نابیناصحابی مصلی نبوی پر کھڑے ہوکر مسلمانوں کی نمازمیں امامت کرتے تھے کیونکہ آپﷺ نے انہیں کام پر مامور کررکھاتھا۔ایک بارآپﷺمسلمانوں کے مجمعے سے مخاطب تھے کہ ایک نیم پاگل بوڑھی عورت نے باہرسے آپﷺ کو آواز دی،لوگوں نے عرض بھی کیاکہ یہ ذہنی معذوربڑھیاہے لیکن آپ ﷺکمال شفقت و مہربانی سے اس کے ساتھ چل دیے،وہ آپﷺ کو گلیوں میں گھماتی رہی اورآپ ﷺ گھومتے رہے،وہ کہتی یہاں بیٹھ جائیں آپ وہیں تشریف رکھتے،وہ اپنی لمبی لمبی کہانیاں آپﷺ کو سناتی رہی اورآپ پورے انہماک اوردلجمعی سے سنتے رہے۔حضرت عیسی علیہ لسلام کے معجزات تو معذورافرادسے ہی متعلق ہیں،نابیناکوبیناکردینا،کوڑھ کے مریض کو شفایاب کردیناوغیرہ۔حضرت عمرنے معذوراوربزرگ افرادکے لیے وظائف کااعلان کررکھاتھااور جو معذوریابزرگ غیرمسلم ہوتے انہیں جزیہ بھی معاف کردیاجاتاتھا۔

            ایک بات خاص طور پر قابل ذکر ہے جس کی طرف حکومت،مخیرحضرات اور غیرسرکاری تنظیموں کی توجہ کی اشدضرورت ہے کہ وطن عزیزمیں بعض مقامات پر پورے کے پورے قبائل ہیں جو کئی نسلوں سے کسی خاص معذوری کا شکار چلے آ رہے ہیں لیکن غربت اور جہالت کے باعث وہ اسکے اسباب اوربچنے کے طریقوں سے ناواقف ہیں۔ان کا کھوج لگانا،ان پر طبی تحقیق کرنا،مستندنتائج حاصل کرنا اور پھر ان میں جو حکومت اور معاشرے کے کرنے کے کام ہیں وہ انکے ذمے لگانا اور جو متاثرہ خاندانوں کے کرنے کے کام ہیں اس سے انکو آگاہ کرنا ایک قابل قدر انسانی خدمت ہوگی اورآنے والی نسلوں کی حفاظت کی ضامن ہو گی۔والدین اور معاشرہ ایسے افراد کی پرورش اور نگہداشت کے ذمہ دار ہیں اور جہاں کہیں ضرورت پڑے وہاں ریاست بھی اپنے فرائض سرانجام دے گی لیکن ریاست اس معاملے صرف مالی و تکنیکی معاونت ہی فراہم کرسکتی ہے جبکہ اول و آخر ان افراد کی نگہداشت معاشرے اور والدین کو ہی سرانجام دینی ہے۔

            سیکولرازم اورلبرل ازم نے گزشتہ کم و بیش تین سوسالوں سے قبیلہ بنی نوع آدم کی گردنوں پر اپنے خونین پنجے گاڑھ رکھے ہیں اور اس تمام عرصے میں بے پناہ جنگیں،انقلابات،ریاستی کھنچاؤ اور غربت و جہالت نے جس طرح ننگاناچ ناچا ہے اس سے معذورافرادکی ایک نئی قسم نے جنم لیاہے جو کہ ”نام نہاداعلی تعلیم یافتہ ذہنی مفلوج“طبقہ ہے۔اب یہ طبقہ پوری دنیامیں پایاجاتاہے جنہیں اپناوطن،اپنی زبان،اپنی تہذیب و ثقافت اورمذہب کی بجائے دورکے ڈھول سہانے لگتے ہیں۔خاص طورپر دوسری جنگ عظیم کے بعد سردجنگ کے زمانے نے اس معذوری میں مزیداضافہ کردیاہے۔یاسیت زدہ اس ذہنی معذورطبقہ کوان کے مغربی آقاؤں نے روشن خیال،ترقی پسند، جدت پسند اورآزادخیال جیسے نام دیے ہیں۔ لیکن ان کی فکر،ان کی سوچ،ان کی ذہنی بالیدگی اور ان کی خیال آرائیاں سب کچھ مغربی سیکولرتہذیب کے سامنے ہتھیارڈال کراب محتاج محض ہوکر معذورومفلوج ہو چکے ہیں۔انہیں اپنی قوم میں دنیاجہان کی برائیاں،خامیاں،کمزوریاں اورناہمواریاں نظرآتی ہیں اور چڑھتے سورج کے ان پجاریوں کو مغرب میں دودھ اورشہد کی نہریں بہتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔یہ ذہنی معذورطبقہ اب غلامی کی آخری باقایات کے طورپر موجودہے۔جیسے جیسے تعلیمات وحی قلوب انسانی میں جگہ پیداکر کے شعورومعرفت کی منزلیں سرکرتی چلی جارہی ہیں ویسے ہی یہ طبقہ اپنی موت آپ مرتاچلاجارہاہے اور بہت جلد ان ذہنی معذوروں سے نجات کے بعد آزادی کے دن قریب آ لگے ہیں،ان شااللہ تعالی۔

[email protected]

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
55584

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان کا دورہ بٹگرام، متعدد ترقیاتی منصوبوں کا افتتاح

وزیراعلیٰ کا ہزارہ ڈویژن کو دو ڈویژنز میں تقسیم کرکے اباسین کے نام سے نئے ڈویژن کے قیام کا اعلان
ہزارہ اور ملاکنڈ ڈویژنز کے بعض اضلاع پر مشتمل زون 6 کے قیام کا بھی اعلان
گزشتہ روز پشاور اور خیبرپختونخوا کے عوام نے پیپلز پارٹی کو آئینہ دکھا دیا، محمود خان
پیپلز پارٹی پورے پاکستان سے تین ہزار لوگ بھی اکھٹے نہیں کر سکی، وزیراعلیٰ
مجھ پر اور میرے لیڈر پر تنقید کرنے والے اپنے صوبے کے عوام کو پینے کا پانی نہیں دے سکتے، وزیراعلیٰ
بلاول آصف زرداری کا بیٹا ہے وہ بھٹو کا جان نشین کھبی نہیں بن سکتا، محمود خان
احساس پروگرام کے تحت عنقریب فوڈ کارڈ کا اجراءکیا جا رہا ہے، محمود خان


پشاور (چترال ٹائمز رپورٹ ) وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان نے جمعرات کے روز ضلع بٹگرام کا ایک روزہ دورہ کیا جہاں ا ±نہوں نے مجموعی طور پر 21 کروڑ روپے سے زائد مالیت کے پانچ مختلف ترقیاتی منصوبوں کاافتتاح کیااور عوامی اجتماع سے خطاب بھی کیا۔ ان منصوبوں میں میدان تا کرواڑ سڑک، بٹگرام پائی مال روڈ، کاکرشنگ آر سی سی پل، 300 کے وی کاکرشنگ اور250 کے وی بٹہ موری منی ہائیڈرو پاور پراجیکٹس شامل ہیں۔ان بجلی گھروں سے علاقے کے ساڑھے چھ سو سے زائد گھرانوں کو سستی بجلی کی سہولت میسر آئے گی۔ اس کے علاوہ مساجد ، ہیلتھ کیئر یونٹس، ٹوارسٹس فسلیٹیز اور دکانوں کو بھی سستی بجلی فراہم کی جائے گی۔ وزیراعلیٰ نے بٹگرام میں بڑے عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ہزارہ ڈویڑن کو دو حصوں میں تقسیم کرکے اباسین کے نام سے نئے ڈویژن کے قیام اور ہزارہ اور ملاکنڈ کے بعض اضلاع پر مشتمل زون 6 کے قیام کا اعلان بھی کیا۔ وزیراعلیٰ نے کہاکہ بلدیاتی انتخابات کے بعد تحصیل الائی کو باقاعدہ ضلع کا درجہ دینے کا اعلامیہ بھی جاری کیا جائے گا۔

ا نہوںنے کہاکہ شعبہ صحت اور تعلیم کا فروغ موجودہ صوبائی حکومت کے ترجیحی شعبوں میں سرفہرست ہیں اور اس مقصد کیلئے ٹھوس اقدامات ا ±ٹھائے جارہے ہیں۔ صوبے کے 35 ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتالوں کی تجدید کاری اور اپ گریڈیشن کے منصوبے پر کام جاری ہے۔اس کے علاوہ تمام ڈی ایچ کیو ہسپتالوں میں طبی عملے اور آلات کی کمی کو پورا کیا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ سرکاری سکولوں کو چھ ارب روپے مالیت کا فرنیچر فراہم کیا جارہا ہے اور سکولوں میں اساتذہ کی کمی کو پورا کرنے کیلئے نئے اساتذہ بھرتی کئے جارہے ہیں۔ وزیراعلیٰ نے کہاکہ موجودہ دور حکومت میں سرکاری سکولوں کا معیار بلند کرکے پرائیوٹ سکولوں کے برابرلایا جارہا ہے تاکہ امیر اور غریب کا بچہ یکساں تعلیم حاصل کرسکے۔ ا ±نہوںنے کہاکہ ملک میں یکساںنصاب تعلیم رائج کرنا وزیراعظم عمران خان کا ایک غیر معمولی کارنامہ ہے جس سے ملک میں امیر اور غریب کا فرق ختم ہو جائے گا۔

وزیراعلیٰ نے کہاکہ صوبے کے ذہین اور مستحق طلبہ کو تعلیمی اخراجات کی مد میں مالی معاونت فراہم کرنے کے لئے ایجوکیشن کارڈ جیسا منفرد منصوبہ شروع کیا جا رہا ہے جس سے متوسط گھرانوں کے بچے بھی ملک کے معیاری اعلیٰ تعلیمی اداروں میں مفت تعلیم حاصل کر سکیں گے۔ ا نہوںنے مزید کہاکہ موجودہ حکومت اس مہنگائی پر قابو پانے اور عوام کو ریلیف دینے کیلئے بھر پور اقدامات کر رہی ہے۔ احساس پروگرام کے تحت فوڈ کارڈ کا جلد اجراءکیا جائے گاجس سے ملک کا غریب اور متوسط طبقہ بھر پور مستفید ہو گا۔ صوبے کی تاریخ میں پہلی بار آئمہ مساجد کو اعزازیہ دیا جارہا ہے اور خطیبوں کی تنخواہوںمیںاضافہ کیا جارہاہے۔محمود خان نے کہاکہ صوبے کے تمام اضلاع میں ترقیاتی کام زور و شور سے ہو رہے ہیں۔ اس وقت ضلع بٹگرام میں سات ارب روپے کے مختلف ترقیاتی منصوبوں پر کام جاری ہے جبکہ آئندہ دو سالوں میں ضلع میں مزید ترقیاتی منصوبے بھی شروع کئے جائیں گے۔

محمود خان نے کہاکہ موجودہ مہنگائی کی سب سے بڑی وجہ سابق نالائق حکمرانوں کی غلط معاشی پالیسیاں تھیں جن کا خمیازہ ملک کے غریب عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ موجودہ حکومت نے 21 ارب ڈالر گزشتہ حکمرانوں کے لئے ہوئے قرضوں پر سود کی مد میں ادا کئے۔گزشتہ ادوار میں کسی نے مذہب کے نام ، کسی نے قومیت کے نام اور کسی نے روٹی ، کپڑا اور مکان کے نام پر عوام کو صرف دھوکہ ہی دیا ہے لیکن اب قوم اور صوبے کے غیور عوام نے ان لوگوں کو یکسر مسترد کر دیا ہے اور یہ کبھی بھی اقتدار میں نہیں آسکتے۔

ا نہوںنے کہاکہ عمران خان پر تنقید کرنے والے پہلے اپنے گریبان میں جھانکیں کہ ا نہوںنے پاکستان کو کس نہج پر پہنچایا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے گزشتہ روز پشاور میں ایک جلسہ کیا جس میں وہ پورے پاکستان سے تین ہزار بندے بھی اکھٹے نہ کر سکا۔ انہوںنے کہاکہ وہ پشاور اور خیبر پختونخو اکے عوام کے مشکور ہیں جنہوں نے پیپلز پارٹی کو آئینہ دکھایا۔ا نہوںنے مزید کہاکہ اندرونی سندھ کے لوگوں کو پینے کا پانی تک دستیاب نہیں اوروزیراعلیٰ سندھ پشاور میں جلسہ کر رہے ہیں۔ عمران خان وہ واحد لیڈر ہیں جنہوںنے عوام خصوصا ً نوجوانوں کو اپنا حق لینے اور باعزت طریقے سے زندگی گزارنے کا شعور دیا ہے۔ عمران خان کو سلیکٹڈ کہنے والے خود سیلکٹڈ ہیں جنہیں یہ بھی نہیں پتہ کہ آلو کلو کے حساب سے بکتے ہیں یا درجن کے حساب سے۔

وزیراعلیٰ نے کہاکہ خیبرپختونخوا کے عوام نے 2013 اور2018 کے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف پر بھر پور اعتماد کیا اور آئندہ انتخابات میں بھی وہ پی ٹی آئی کے ساتھ ہیں۔ انہوںنے مزید کہاکہ خیبرپختونخوا کے عوام وزیراعظم عمران خان سے مطمئن ہیں اور انشاءاﷲاگلی بار بھی وہ وزیراعظم ہوں گے۔ وزیراعلیٰ نے کہاکہ وہ یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ 2018 ءکے انتخابات کی طرح صوبے کے عوام بلدیاتی انتخابات میں بھی عمران خان پر بھر پور اعتماد کا اظہار کریں گے۔ سابق حکمران ملک کو بیرونی قرضوں میں ڈبو کر اب مہنگائی کا رونا روتے ہیں۔صوبائی کابینہ اراکین شوکت یوسفزئی، تاج محمد ترند ، سابق صوبائی وزیر محمد یوسف خان ترند اور دیگر نے بھی جلسے سے خطاب کیا۔


Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
55588

معاشرتی ترقی: معاشی ترقی کا لازمی جز- محمد اشفاق خان 

اکیسویں صدی کے پہلے عشرے کے اواخر میں ملائیشیا کے سابق صدر اور مشہور انقلابی لیڈر جناب مہاتیر محمد پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے تھے۔ راقم ان دنوں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد سے معاشیات میں ماسٹرز کر رہا تھا۔

جناب مہاتیر محمد نے بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کا بھی دورہ کیا۔ یونیورسٹی آڈیٹوریم میں ان کے اعزاز میں منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کے دوران ان سے ایک سوال کیا گیا کہ کسی وقت میں ملیشیا بھی ایک ترقی پذیر ملک ہوا کرتا تھا لیکن جناب مہاتیر محمد  کی قیادت میں  ان کی سیاسی اور معاشی ٹیم   کی کوششوں کے نتیجے میں ملائیشیا براعظم ایشیا کی مضبوط ترین معیشت بنا اور ایشین ٹائیگر کہلایا، پاکستان کے اس وقت کے حالات کے تناظر  میں ان سے سوال کیا گیا کے پاکستان کو ترقی کی راہ پر تیزی سے گامزن کرنے کے لئے وہ کیا اقدامات ضروری سمجھتے ہیں۔ ان کا جواب انتہائی مختصر لیکن بے حد معنی خیز تھا ۔ انہوں نے جواب دیا”  کہ ترقی کی راہ پر گامزن ہونے کے لئے سب سے پہلے بحیثیت قوم یہ ارادہ  کرنا ہوتا ہے کہ ہمیں ترقی کرنی ہے” . بظاہر ایک مختصر اور سادہ سا نظر آنے والا یہ جواب اپنے اندر بے پناہ معنی لیے ہوئے ہے۔ اس مختصر لیکن جامع جواب میں معاشرتی ترقی کو معاشی ترقی کی بنیاد گردانا گیا ہے۔

ہم نہ صرف معاشی اعتبار سے پسماندہ قوم ہیں بلکہ معاشرتی لحاظ سے بھی ہم ترقی یافتہ ممالک سے بہت پیچھے ہیں۔ شادی بیاہ کی تقریبات ہوں، مذہبی رسومات اور فرائض کی ادائیگی ہو یا سیاسی اجتماعات ہوں، ہم بحیثیت قوم وقت کی پابندی جیسے اہم اصول کی خلاف ورزی کرنے کے عادی بن چکے ہیں۔ وقت اور وعدے کی پابندی تو ایک طرف، اپنے قیمتی وقت کو ضائع کرنے میں  بھی ہم کسی سے پیچھے نہیں۔  آپ اپنے اردگرد نظر دوڑائیں، ایک طرف آپ کو نوجوان پب-جی کھیلتے نظر آئیں گے  تو دوسری طرف بڑے، بزرگ سبھی فیس بک اور ٹک-ٹاک  پر بے تحاشا وقت صرف کرتے نظر آئیں گے ۔ نجی زندگی ہو، پیشہ ورانہ معاملات ہوں یا کاروباری لین دین ، بے دھڑک جھوٹ بولنا اور دھوکہ دہی ہمارا معمول بن چکا ہے۔ ہم ایک دوسرے پر اپنا اعتماد اور اعتبار کھو بیٹھے ہیں۔ اخلاقی پستی میں تو ہم اس درجہ پر ہیں کہ اگر ہم اپنا  بٹوا یا موبائل کہیں پر رکھ کر بھول آئیں تو انکا واپس ملنا محال ہوتا ہے۔  مساجد اور دیگر مختلف عوامی مقامات پر نصب  پانی کے وقف کولرز / ٹینکیوں  کے ساتھ پینے کے لئے برتن  رکھتے ہوئے بھی انھیں زنجیر یا رسی سے باندھنا پڑتا ہے تاکہ کوئی اٹھا کر نہ لے جائے۔ آپ اپنی  سائیکل، موٹر سائیکل  یا موٹرکار کو لاک کئے بغیر  ذرا چند منٹ کے لئے کہیں جا کر تو دیکھئے، واپسی پر ان کا نام و نشان تک نہیں ملے گا۔ ملاوٹ ، ذخیرہ اندوزی ، رشوت، جھوٹے وعدے، اختیارات کا ناجائز استعمال،  جعلی ادویات ، جائیدادکے تنازعےاور بہنوں کے حصے کی جائیداد ہڑپ کرنے جیسے مسائل کی تو میں بات ہی نہیں  کرونگا۔

اگرچہ ہمارے دین میں صفائی کو نصف ایمان کا درجہ دیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود بھی آپ کو ہر جگہ گندگی اور غلاظت کے ڈھیر نظر آئیں گے۔

یہ روش ترقی کی خواہش رکھنے والی قوم کی روش  نہیں۔ یہ سوچ ترقی کی راہ پر چلنے والی قوم کی سوچ  نہیں۔ ہمیں اپنے آپ کو بدلنا  ہوگا۔ گفتار کے غازی سے کردار کا غازی بننا  ہوگا۔ ہمیں بحثیت قوم یہ تہیا کرنا ہوگا کہ ہمیں آگے جانا ہے، ہمیں ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑے ہونا  ہے۔ اور اس مقصد کے لئے ہمیں سب سے پہلے اپنی اصلاح کرنی ہوگی،  اپنے آپ کو بدلنا ہوگا ، اپنی سوچ کو ٹھیک کرنا ہوگا، تمام اخلاقی اور معاشرتی بیماریوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہو گا ۔

تو آئیے! آج سے ہی ابتدا کرتے ہیں، اپنے آپ سے ہی ابتدا کرتے  ہیں۔ آج سے ہی اپنے نصب العین کا تعین کرتے ہیں ۔ آج سے جھوٹ ، فریب ، دھوکا دہی ، رشوت خوری ، ملاوٹ ، ذخیرہ اندوزی ، چوری ، کاہلی، وعدے کی خلاف ورزی ، اختیارات کے ناجائز استعمال اور ان جیسی تمام دیگر برائیوں سے توبہ کرتے ہیں۔

محمد اشفاق خان 

پی ایچ ڈی اسکالر                                                                 

جارج اگست یونیورسٹی گوٹینگن، جرمنی

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
55566

چترال میں اسلام کی آمد: تحریر: علی اکبر قاضی

اس سے پہلے کہ چترال میں اسلام کی آمد کے حوالے سے بات کریں اس نکتے کو سمجھنا بہت ضروری ہے کہ آج جس طرح ہم چترال سے مراد ایک مخصوص جیوگرافی جانتے ہیں ماضی میں نہ یہ جیوگرافی ہمیں ملتی ہے اور نہ ہی کسی ایک مخصوص خطے کا مخصوص نام بلکہ مختلف ناموں کی وجہ سے مورخیں کو کسی مخصوص جگہ کی شناخت کرنے میں مسائل کا سامنا ہے اس وجہ سے اکثر قیاس آرائیاں پائی جاتی ہیں۔ مثلا بلور، کوہستان، دردستان،، قشقار، چھترار وغیرہ ناموں کے ساتھ تاریخ میں مختلف باتیں، قصے اور کہانیاں موجود ہیں۔ یہ بات بھی حقیقت ہے کہ چترال کا ذیادہ تر حصہ بدخشان ِ کبیر کا حصہ رہا ہے جو تاجکستان، ایران اور افغان بدخشان پر پھیلا ہوا ایک خطہ تھا۔ ریسرچ کے دوران مشہور ایرانی صوفی شاہ نعمت اللہ کی کتاب سے واسطہ پڑاجو پندرویں صدی میں لکھی گئی ہے لفظ چترال اور گلگت ایک شعر کے اندر موجود ہیں جس سے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ دونوں نام عرصہ دراز سے موجود ہیں البتہ وقت کے ساتھ ساتھ ان علاقوں کی جیوگرافی بدلتی رہی ہیں۔ جہاں تک چترال میں اسلام کے آمد کی بات ہے اس کے حوالے سے میں نے چترال کے اکثر مصنفیں کو حقیقت کے برعکس کچھ غیر منطقی افسانوی کہانیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے دیکھا ہے بلکہ کچھ کو اُ ن کہانیوں کو حقیقت کا جامہ پہنانے کی کوشش کرتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔

مثلا ایک کہانی بیان کیجاتی ہے کہ خاتم النبیں رسولﷺ کے چچا آمیر حمزہ اسلام پھیلاتے ہوئے تورکُو ہ آئے اور ایک مشہور حکمران اور پہلوان بہمن کوہستانی کو شکست دیکر آٹھویں صدی کے دوراں چترال میں دین اسلام پھیلایا، در حقیقت یہ کہانی ایک افسانوی کردار داستانِ امیر حمزہ سے اُٹھا کر چترال کے ساتھ جوڑنے کی ناکام کوشش کی گئی ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے آمیر حمزہ کا انتقال رسولﷺ کے دور میں ہی جنگ اُحد میں ہوا ہے اور یاد رہے کہ مستند تاریخ کے مطابق آمیر حمزہ نے کسی اسلامی فوج کی سربراہی کرکے اسلام پھیلانے کے حوالے سے کبھی کسی مہم کا حصہ بھی نہیں رہے۔ اس کہانی کو جیٹمار (۸۸۹۱) منشی عزیز الدین (۸۶۹۱) وزیر علی (۴۸۹۱) نے بھی اپنے تحاریر کا حصہ بناکر اپنے تحفظات کا اظہار کرچکے ہیں۔ جبکہ پروفیسر رحمت کریم بیگ اسی کہانی کو دسویں صدی میں دیکھاتے ہیں اور یہ تھوڑا ساحقیقت کے قریب بھی لگتا ہے کیونکہ یہ تو نہیں کہا جا سکتا ہے کہ بہمن کوہستانی موجود ہی نہیں تھا البتہ اُس کی کہانی کو اُٹھا کر داستان امیر حمزہ سے جوڑ کر مزید پیچیدگیاں کرنا مناسب عمل نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اسی نام سے کوئی اور سپاسالار موجود ہو مگر تاریخ اس حوالے سے خاموش ہے۔ محمد عرفان صاحب اپنے حالیہ شائع شدہ کتاب (چترال میں اسلام) کے اندر بھی اس کہانی کو نہ صرف اپنے تحقیق کا حصہ بنایا ہے بلکہ اس کو قریب از حقیقت بنانے کی کوشش بھی کی ہے۔ آپ لکھتے ہیں


کہ ۷۵۶ /۶۴۶ء حضرت عثمان رض کے خلافت کے دوران مسلمان فاتحین آگے بڑھے، داغستان اور مغربی ترکستان میں داخل ہوئے اُس وقت مسلمانوں کے ایک فوجی دستے کا علاقہ تورکھو میں داخل ہوکر لوگوں کو اسلام سے متعارف کرانے کا عندیہ ملتا ہے۔:
عرفان صاحب نے اس کے لئے کوئی تاریخی مواد فراہم نہیں کیے ہیں کہ کیا عندیہ ملتا ہے بلکہ دوبارہ امیرحمزہ کی کہانی سے مدد لینے کی کوشش کی ہے اور لکھتے ہیں کہ آمیر حمزہ کی لڑائی مژگول میں بہمن کوہستانی سے ہوئی او آمیر حمزہ نے بہمن کوہستانی کو مارڈالا اور اس علاقے میں اسلام پھیلایا۔اس موضوع پر محمد عرفان صاحب نے بہت ہی بہتریں کوششیں کی ہیں کہ دور خلافت اور عباسی خلافت کے دوران وسط ایشیا، جنوبی ایشیا کے تواریخ سے کوئی مواد مل جائے جن سے اس بات کی دلیل مل جائے کہ چترال میں اسلام دور خلافت یا اس کے اس پاس ہی پھیلی ہے لیکن کوئی بھی مواد اس حوالے سے واضح نہیں ہیں۔ البتہ پروفیسر حسن دانی کے ہاں کابل کے شاہ کی حکومت (۵۱۔۴۱۸) عباسی خلیفہ ماموں رشید کے دور میں گرائی گئی تھی۔اُن کے مخطوطات میں سے ایک کے اندر بلور کا نام استعمال ہوا ہے لیکن اُس کی بھی کوئی تاریخی شواہد نہیں ملتے کہ کس حکمران کو شکست دیا گیا تھا اور اسلام پھیلایا گیا۔ بہر حال یہ بات ماننا پڑے گا کہ آٹھویں، نویں صدی یا اس کے ارد گرد چترال میں کم از کم دین اسلام کے پھیلنے کے حوالے سے مواد ڈھونڈنا میری نظر میں ایک غیر منطقی کوشش کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔


اکثر مورخیں و مصنفیں کے مطابق دسویں صدی کے دوران اپر چترال اور لوئر چترال دونوں الگ الگ حکمرانوں کے زیر حکومت رہی ہیں۔رحمت کریم بیگ اور دوسرے سکالرز کے ہاں اپر چترال میں اسلام ایک غیر مسلم حکمران سومالک کی شکست سے شروع ہوتی ہے جبکہ لوئرچترال میں کلاشہ حکمرانی کے دور میں ہی اسلام کی ابتدا ہوئی ہے۔ میرزہ محمد غفران، حشمت اللہ خان اور کئی اور نامور لکھاریوں کے ہاں ایک اسماعیلی کمانڈر تاج مغل نے براستہ بروغل اپر چترال میں وارد ہوئے اور سومالک کو شکست دے کر دینِ اسلام کی ترویج کی اور ورشیگوم سے ہوتے ہوئے گلگت میں ایک غیر مسلم حکمران ترا خان کو شکست دے کر مشرف بہ اسلام کیا۔ گلگت میں آج بھی اُن کے نام سے منسوب مغل مینار موجود ہے۔ حشمت اللہ خان کے ہاں تاج مغل نے نہ صرف سومالک اور ترا خان کو شکست دے کر مسلمان بنایا بلکہ لوئر چترال میں رئیسہ حکومت کی بنیاد بھی رکھی۔ حشمت اللہ خان کے ہاں رئیسہ کا پہلا حکمران شاہ نادر رئیس عقیدتاََ اسماعیلی مسلمان تھا۔ یہاں پر یہ بتانا ضروری ہے کہ جنرل اسماعیلی تاریخ کے اندر نہ ہی اس اسماعیلی کمانڈر کے بارے میں کوئی معلومات ہیں اور نہ اُن کے اس مہم جوئی کے حوالے سے کوئی اشارے۔ یہ عین ممکن ہے کہ بدخشان کے میر اور پیر خاندانوں سے کوئی ایک فرد ہو جس نے اردگرد کے علاقوں میں حکمرانوں کو شکست دے کر اسلام پھیلانے کی کوشش کی ہو۔ اس کی تاریخ ِ آمد ۰۲۳۱

ء بتائی جاتی ہے۔
اسلام کے آمد کے رو سے لوئر چترال کو بھی دو حصوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ آرندو سے چترال ٹاون تک اسلام کی آمد کے حوالے سے اہل سنت ولجماعت کے ایک مشہور عالم اخوند سالک کا نام لیا جاتا ہے جس نے تیرویں صدی کے دوران بریکوٹ سے وارد ہوئے اور دین اسلام کی ترویج کی۔ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی صاحب کے تحقیق کے حساب سے اخوند سالک دیر اور کوہستان میں بھی دین اسلام کی ترویج کی اور اُن کی آمد تقریبا سولہویں صدی کے بعد کی ہے مذکورہ عالم کے بعد اور بھی کی جید علما کے آمد کے حوالے سے مواد ملتی ہیں لیکن اس مختصر مقالے کا مقصد صرف پہلی مرتبہ دین اسلام کی ترویج کرنے والے شخصیات کے بارے میں معلومات فراہم کرنا ہے۔


لوئر چترال کا بالائی حصہ لٹکوہ ایریا ہے جس کا تاریخی نام انجگان ہے۔ میرے مطالعے کے حساب سے انجگان تاریخی اعتبار سے گیارویں صدی سے پہلے موجودہ چترال کا حصہ ہی نہیں رہا ہے بلکہ یہ بدخشان ِ کبیر کا ایک مخصوص حصہ ہوا کرتا تھا جس کے واضح اثرات آج بھی موجود ہیں۔ یہاں کے تمام رسم و رواج، طرز زندگی، نسلی مماثلت، مذہبی، جغرائیائی اور ثقافتی تعلق بدخشان اور وسط ایشیا کے ساتھ مشترک ہے۔یہانتک کہ اس علاقے کا نام بھی انجگان ہے جو کہ اُسی راستے میں موجود بدخشان کے علاقوں منجان اور یمگان سے مماثلت رکھتا ہے۔ چترال اور گلگت بلتستان کے تمام مورخیں بلخصوص میرزہ محمد غفران، ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی، پروفیسراسرارالدین، ڈاکٹر عزیزاللہ نجیب، فدا علی ایثار، ڈاکٹر نیک عالم راشد وغیرہ اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ انجگان چترال اور گلگت میں وہ پہلا علاقہ ہے جس میں اسلام براستہ دوراہ(شاہ سلیم) گیارویں صدی کے دوران بدست سید نا ناصر خسرو اوراُن کے شاگردوں کے ذریعے سے پھیلی ہے۔ البتہ کچھ مصنفین اپنے تحفظات کا اظہار کچھ اِن معنوں میں بھی کرتے ہیں کہ شاید ناصر خسرو خود تشریف نہیں لائے بلکہ اُن کے شاگردوں میں سے کوئی آئے ہیں اور اس دلیل پر اکتفا کرتے ہیں کہ اُنہوں نے اپنے سفرنامے میں اس کا اظہار نہیں کیا ہے۔یہاں پر اس بنیادی نکتے کو سمجھنا ضروری ہے کہ ناصر خسرو حج سے واپسی کے دوران مصر میں جب فاطمی امام مستنصرباللہ سے ملاقات کی اور اسماعیلی مسلک قبول کی اُن کو حجتِ خراسان کے ٹائٹل سے نوازا گیا اور اُس نے خراسان و بدخشان میں اسماعیلی دعوت پھیلائی اب بدخشان کبیر یاکوہستان یا خراسان اُن کے دعوت کا حلقہ تھا اور اُن تمام علاقوں کا بنفس نفیس دورہ کئے اور دعوت پھیلائی اور انجگان بھی منجان اور یمگان سے ملحقہ ایک علاقہ ہے چہ جا کہ ناصر خسرو اپنے مغرب کے سفرنامے میں وہ انجگان کے دورے کو شامل کرے جو اُس کے اسماعیلی مسلک قبول کرنے سے پہلے کا ایک دورہ تھا۔ قارئیں کا ناصر خسرو کے زندگی کے بارے میں اس بات کو بھی جاننا ضروری ہے آپ کی پیدائش1004ء کی ہے اور تاریخِ وفات 1088ء جبکہ1054۱ ء سے لیکر 1088ء تک یعنی34کی زندگی، کام اور سرگرمیوں کے بارے میں تاریخ خاموش ہے میرا قوی خیال ہے کہ یہی وہ دورانیہ ہے جب ناصر خسرو بدخشان اور اسکے مضافات میں اسماعیلی دعوت پھیلارہے تھے۔


دوسری بات اگر ناصر خسرو کے بدخشان کے اندر دعوت کے حوالے سے ثبوت اُنہی کے مذہبی عقیدے، فلسفیانہ افکار کے کتابوں، سفرنامے اور دیوان اشعار میں ڈھونڈنے لگے آپ ناصر خسرو کو بدخشان کے کسی بھی علاقے میں نہیں دیکھ سکیں گے کیونکہ کوئی بھی اپنے حلقہ دعوت کے اندر کام کرتے ہوئے اور تبلیغ کرتے ہوئے سفرنامہ نہیں لکھتا۔ اور اگر روزنامچہ لکھا بھی ہو تو ہمیں معلوم ہے کہ آپ کی بہت ساری کتابیں آج موجود بھی نہیں ہیں جن کے صرف نام ہم تک پہنچے ہیں ہوسکتا ہے اُن کے اندر بدخشان کے اندر کی سرگرمیوں کا ذکر موجود ہو۔ واللہ اعلم۔ اس کے علاوہ علاقہ انجگان میں موجود ایک مظبوط مذہبی روایت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جہاں ناصر خسرو سے منسوب تہوار کے ساتھ ساتھ ناصر خسرو کی چلہ کشی اور زیارت (آستانہ) آج بھی موجود ہے جہاں علاقے کے لوگ ایک مذہبی عقیدت کے ساتھ دورہ کرتے ہیں اور سالانہ عرس ایک تہوا ر کی صورت میں مناتے ہیں جس سے پھتک کے نام سے جانتے ہیں۔
موجودہ بدخشان کے اندر پائے جانے والے مذہبی و ثقافتی روایات اور تاریخی مواد او ر انجگان میں پائے جانے والے روایات تقریبا ایک جیسے ہیں۔افغان مصنف پروفیسر ابراہیم بامیانی (2000) نے ناصر خسرو اور اُن کے شاگردوں کے حوالے سے بدخشان میں موجود روایات کو کتابی شکل دی ہے جو کہ انجگان میں پائے جانے والے روایات کے ساتھ ملتی ہیں مثلا ناصر خسرو کا اپنے شاگردوں کے ساتھ دورہ انجگان(شاہ سلیم) دونوں طرف یکساں پایا جاتا ہے۔


اس حوالے سے ایک مستند مواد ناصر خسرو کی بدخشانِ کبیر میں کئے گئے سرگرمیوں پر لکھی گئی قدیم کتاب بحر لاخبار (سیاحت نامہ ناصر) ہے جو کہ رحمان قلوو نے لکھی ہے۔اس کتاب میں ناصر خسرو کے چترال کے دورے کے بارے میں واضح الفاظ موجود ہیں۔ بحرالاخبار (سیاحت نامہ ناصر) کے مطابق ناصر خسرو نے بدخشان کبیر(جو ماضی میں کوہستان کے نام سے جانا جاتا رہا ہے) کے مختلف علاقوں کے ساتھ ساتھ چھترار(چترال)کا بھی دورہ کیا ہے۔ اسماعیلی تاریخ کے اہم محقق مشہور مغربی سکالر ایوانوف Iwanove اور وسط ایشیا کے اسماعیلی تاریخ پر ریسرچ کرنے والا دورِ حاضر کے قابل سکالر ڈینیل بے بن Danial Baben بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ ناصر خسرو کا چترال (انجگان)تک آمد ایک حقیقت ہے البتہ اس بات کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں کہ ناصر خسرو سریقول، یارقند اور تبت تک سفر کئے تھے جو بعض مصنفیں بتانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس حوالے سے تاجک سکالر غلاما دو شفتولو اپنی پی ایچ ڈی تھیسیس (The Hegiography of Nasir Khusraw and The Ismailis of Badakhshan) میں لکھتے ہیں۔

He (Danial Baben) points out that, in addition to an account of Nasir Khusraw’s life and mission to Badakhshan, this text (Sayahat Namaey Nasir) offers of his travel to neibhouring region such as Tibbet, which seem to be mis-reading as the Siyahat namah Nasir offers no such account, although it certainly narrates stories about the travels to other regions of Badakhshan (Kuhistan) including Chitral (Chitrar), the regions of Upper Oxus valley and those on the right side of the Punj river mentioned by Ivanow.

بہر حال ناصر خسرو کی خراسان میں اسماعیلی مذہب پر ریسرچ کرنے والے تمام سکالرز کے ہاں ناصر خسرو تاجک بدخشان، شکاشم، خواہاں،زیباک، واخان، یمگان، منجان اور انجگان (لٹکوہ چترال) وغیرہ کا نہ صرف دورہ کیا ہے بلکہ وہاں اپنے نائبین کا انتخاب بھی کیا تھا۔ جہانتک اُن کے شاگردوں کے بارے میں موجود لٹریچر کی بات ہے دو نام ذیادہ مشہور ہیں۔سید ملک جہان شاہ (عرف عمر یمگی) اور سید سہراب ولی۔جنہوں نے ناصر خسرو کے ساتھ اِسماعیلی مذہب کو پھیلانے میں کلیدی کردار ادا کئے۔ بحرالاخبار (سیاحت نامہ ناصر)، تذکرہ ناصر خسرو، ایوانوف، ڈینیل بیبن، غلامادوشفتولو، ڈاکٹر عزیزاللہ نجیب، ڈاکٹر نیک عالم راشد، فدا علی ایثار سمیت بے شمار مصنفیں کے کتابوں اور مقالوں میں ناصر خسرو کے ان دو شاگردوں کے بارے میں نہ صرف معلومات ملتی ہیں بلکہ ان کے درمیاں حلقہ دعوت کی تقسیم کی وضاحتیں بھی ملتی ہیں۔


ان دونوں بزرگوں کے بارے میں چترال کے ایک قابل تاریخ دان ہدایت الرحمان نے بھی کافی فارسی مواد ہمارے ساتھ شئیر کئے ہیں جو اِن دونوں کے شجرہ نصب اور تبلیغی کاموں کے حوالے سے وضاحتیں موجود ہیں۔ بحرالاخبار سیاحتِ ناصر اور تذکرہ ناصر خسرو کے مطابق سید عمر یمگی کو ماذون اکبر یعنی ناصر خسرو کےChief Disciple تھے جو دعوت کی ساری ذمہ داریاں سنبھالتے تھے۔ اور سیاحت نامہٗ ناصر کے ورق نمبر ۶۹ میں یہ درج ہے اور غلامادو شفتلو نے بھی اپنے ریسرچ کے اندر مذکورہ کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے ضاحت کی ہے کہ بحر الاخبار سیاحتِ ناصر کے مطابق سنگ لیچ، زیباک، اشکاشم، واخان، شغنان، روشن اور درواز سید سہراب کے حلقہ دعوت میں جبکہ شاہ سلیم، چھترار، خاش، یمگان(اسپنج) اور ملحقہ علاقے عمر یمگی کے دائرہ دعوت میں شامل تھے۔


Nasir Khusraw then divides the places (takavah) under the dawa between Syed Suhrab and Malik Jahan Shah (Umar Yumgi). Place such as Sangtigh (probably Sanglich), Zibak, Ishkasum, Vakhan, Shughnan, Rushan and Darvaz are placed under Syed Suhrab’s control. Other places including Shah Salim, Chitrar, Khash (In Yumhan Valley), Ispanj and other areas are assigned to Malik Jahan Shah.

ان کے علاوہ ایک خاتوں ریسرچر فوزیہ جنجوعہ کی ایک بہت جامع ریسرچ مقالہ میری نظر سے گزری جو کہ ید غا زبان پر کی ہے۔ اپنی مقالے کے اندر بڑی وضاحت سے سید ملک جہاں شاہ (عمر یمگی)کے انجگان میں آنے اور اسماعیلی مذہب کے پھیلانے کے حوالے سے کافی مواد جمع کی ہے۔ ا ُن کے ہاں یدغہ در اصل یمگان منجان اور ملحقہ علاقوں میں بولی جانے والی زبان ہے اور یہ سید عمر یمگی کے اولاد کی وجہ سے اس علاقے میں موجود ہے۔ وضاحت کرتے ہوئے لکھتی ہیں۔

……they (Darvesh) are the preachers and patrons of the Ismaili Sects….Nasir Khusraw came to this region with his Disciple Syed Malik Jahan Shah and spents some years here in preaching the Ismaili Faith….


سیاحت نامہ ناصر اور دوسرے مصنفیں کی باتوں کی توثیق اس حقیقت سے بھی ہوتی ہے کہ آج انجگان گرم چشمہ میں موجود زیارت ناصر خسرو کے گرد و نواح میں موجود تقریبا چار گاوں پر مشتمل آبادی جو کہ درویش کے نام سے منسوب ہیں عمر یمگی کے اولاد ہیں۔اُن کے باقول درویشی کا لقب ناصر خسرو نے اُن کے بابا یعنی عمر یمگی کو دیے تھے۔ یہ آ ج بھی بحیثیت خلیفہ و قاضی اس علاقے میں قدیم مذہبی و ثقافتی روایات و رسومات کی نمائندگی کرتے ہیں جو ناصر خسرو سے منسوب ہیں قارئیں کی دلچسپی کے لئے عرض کرتا چلوں کہ اسی خاندان کا ایک بزرگ سید مطائب شاہ مرحوم جو کہ چیرمین خلیفہ کے نام سے مشہور رہے چترال کی اہم مذہبی، سماجی و سیاسی شخصیت کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔المختصر: اِن تمام مذکورہ بالا تاریخی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کرنا عین منطقی ہے کہ لٹکوہ انجگان ایریا میں دینِ اسلام گیارویں صدی کے وسط تک پھیل چکا تھا ایک ادنی محقق کی حیثیت سے میرا خیال ہے کہ ناصر خسرو اپنے شاگرد عمر یمگی کے ہمراہ بنفس نفیس انجگان تشریف لائے اور اسماعیلی؎
عقیدے کی ترویج کی اور مذکورہ موضوع پر لکھنے والے تقریبا تمام مصنفیں اور محققین لٹکوہ انجگان میں ناصر خسرو اور اُن کے شاگردوں کی آمد کو اس خطے میں اسلام پھیلانے کی پہلی کامیاب کوشش مانتے ہیں۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
55571

صفیرہ بی بی، جیسا نام ویسا کام – تحریر: نورالھدٰیٰ یفتالیٰ

کہتے ہیں کہ مرد کوتعلیم دینا ایک فرد کوتعلیم دینا ہے ،جبکہ عورت کو تعلیم دیناپورے خاندان کو تعلیم دینے کے مترادف ہے

اولاد کی تربیت میں کوتا ہی کرنا انسان کی آخرت میں پکڑ کا سبب ہے ،اسی طرح اگر اولاد کی اچھی تربیت کی ،اس کو نیک بنایا تو یہ مرنے کے بعد انسان کے لیے صدقہ جاریہ ہے،حدیث مبارکہ میں ہے:جب انسان مرجاتا ہے تو اس کے اعمال کا ثواب ختم ہوجاتا ہے مگر تین چیزیں ایسی ہیں جن کا ثواب مرنے کے بعد بھی ملتا رہتا ہے ایک صدقہ جاریہ،دوسرے وہ علم جس سے لوگوں کو نفع پہنچتا رہے،تیسرا ن کے اولاد جو مرنے کے بعد اس کے لیے دعا کر تے رہے۔صدقہ جاریہ یہ ہے کہ انسان اپنے کمائی سے اس دولت کو مزید وسعت دینے کے لئے ایک ایسا تعمیری کام کریں جو دنیا میں خلق خدا کو اس سےفایدہ پہنچے ۔


ہمارے معاشرے میں بہت ایسی زندہ مثالیں موجود ہیں، جو اس معاشرے کی بہتری کے واسطے انسانیت کی خدمت کو اولیں ترجیح دیتے ہیں،اور اس کارخیر میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں،وہ صدقہ جاریہ کے اس تسلسل کو خود اپنی طرف سے ادا کرتے ہیں۔یہ ایک کائناتی حقیقت ہے،یہ افراد اس معاشرے میں نگینے کی حیثیت رکھتے ہیں۔جو اپنے اولاد کی طرح معاشرے کے دوسرے مستحق بچوں کے بارے میں مثبت سوچ رکھتے ہیں۔یہ لوگ قومی، مذہبی، تعلیمی شعور کے اعلیٰ درجے پر فایز ہوتے ہیں۔
چھترار سرزمین ویسے بھی امن پسند ، مہذب لوگوں کامسکن ہے،یہاں کا ہر باسی اپنے مٹی سے بے پناہ محبت کرتے ہیں،دیار غیر میں گزشتہ کئی سالوں سے آباد چھترار کےخوبصورت گاوں آوی بونی سے تعلق رکھنے والی خاتون صفیرہ بی بی گزشتہ کئی سالوں سے چھترار کے پسماندہ علاقوں میں چترال کے بچوں کی شاندار مستقبل کے لئےان کی مالی معاونت کر رہی ہے۔کیونکہ ان کے بقول چترال کا شاندار مستقبل آنے والے نسلوں کی ترقی کا ضامن ہے۔ صفیرہ بی بی ایک چھوٹے سے گاوں آوی سے چار گھنٹے کا طویل مسافت طے کر کے اپنی سہلیوں سیمت حصول علم کی تشنگی کو مٹانے بونی گاوں آتی تھی، یہ وہ دور تھا جب مملکت خداداد میں معیاری تعلیم کو گوناگوں مشکلات کا سامنا تھا۔


یہ سب ان کی والد محترم کی دوراندیشی اور حوصلہ افزائی کا اثر تھا، والد صاحب خود بھی ایک معلم ہیں ۔اس مقدس پیشے سے وابستہ ہیں،صفیرہ بی بی اپنے گاوں کی پہلی خاتون ہے جو کالج تک کا تعلیمی سفر شاندار انداز میں کی، بیٹی کے لیے اس کا باپ دنیا کا سب سے ایئڈیل انسان ہوتا ہے ،زندگی کے ابتدائی ایام میں والد کی قدموں کے نشان پر قدم رکھتے ہوئے شعبہ درس تدریس سے منسلک ہوئی ۔ جامعہ کراچی سے وومن جینڈر اسٹیڈیس میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی اس کے بعد پاکستان سے باہر امریکہ میں یونیورسٹی آف کیلفورنیا سے جینڈر اور گلوبلایزیش میں گریجویش کی،سفیرہ بی بی آغا خان رورل سپورٹ پروگرام اور آغا خان ایجوکیشن سروس پاکستان میں بھی اپنی بہتریں خدمات انجام دے چکی ہے۔


صفیر ہ بی بی کا کہنا ہے ۔ہمارے ملک میں اور خاص کر چھترار میں تعلیم کی راہ میں دو روکاوٹین ہیں فکری انحطاط اور غربت،اگر ہمارے معاشرے کے وہ افراد جو مالی طور پر مستحکم ہیں، وہ اگر تھوڑی سی بھی بڑے پن کا مظاہر ہ کرینگے تو چھترار میں ایک بچہ ، بچی تعلیم جیسے نعمت سے محروم نہیں رہے گا۔اس کے لئے فراغ دلی نیک نیتی کی سوچ درکار ہے۔


صفیرہ کا کہنا ہے!
مجھے اس بات کا تا حیات دکھ رہے گی میرے وہ ساتھی جو انتہائی قابل تھے، لیکن علاقے کی پسماندگی اورمالی کمزوری ان کےتعلیم کی راہ میں رکاوٹ بنی ،اور مزید تعلیم حاصل نہیں کرسکے، ان کی خواب ادھورے رہ گئے، یہ احساس اب بھی دل کے ایک کونے میں محسوس کرتی ہوں۔اس وقت میں نے دل میں ارادہ کر لیا تھا، کہ میں ان بچوں کی مالی معاونت کرونگی،تاکہ ان کے ادھورے خواب حقیقت میں بدلیں۔جو مالی کمزوری کے سبب تعلیم حاصل نہیں کر سکتے، شروع میں درس ود تدریس کے دروران اپنی معمولی سی تنخواہ سے میں ان بچوں کی مالی معاونت شروع کی ،مجھے یہ عمل بہت اچھا لگا، مجھے سکوں اور دلی مسرت کا احساس ہوئی، کہتے ہیں ہر نیک عمل میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کا ساتھ دیتا ہے، قدرت نے مجھے بھی یہ موقع فراہم کیا،میرے خواب اس وقت پورے ہوئے جب ۲۰۰۸ میں امریکہ منتقل ہوئی، اور اپنے خوابوں کی تعمیر کو عملی جامہ پہنانے کا شاندارموقع میسر ہوئی۔
صفیرہ بی بی اس وقت ایک تعلیمی ادارہ ماس کے نام سےتشکیل دی ہے،اس ادارے کا مقصد پائیدار اور کامیاب تعلیم کا حصول ہے، صفیرہ بی بی اس ادارے کا صدر ہے،یہ ادارہ پائیدار تعلیم کے واسطے چھترار میں ان بچوں کی مالی معاونت کررہا ہے ، جو مالی طورپر کمزور ہیں،اس وقت لاسپور سے لے کر بروغل تک ۲۵ طالب علموں کے سر پر ماس نے شفقت کا ہاتھ رکھا ہے۔ادارہ ماس چھترار میں قابل اور مستحق بچوں کی تعلیم کے فروع کے لئے کوشان ہیں۔اور مستقبل قریب میں بھی تعلیم کو فروع دینے کا یہ تسلسل مزید پھلے پھولے گا۔


ماس اپنی نوعیت کا ایک بہتریں ادارہ ہے، اس کی بیناد امریکہ جیسے ملک میں تشکیل پائی،جو ایک بین الااوقومی درجے کا تعلیمی ادارہ ہے۔امریکہ میں مقیم ٹیکنالوجی کے ماہریں ، ماہر تعلیم جو اس پروگرام کو تشکیل دینے میں سفیر ہ بی بی کا ساتھ دیئے دہیں، شاباشی کے مستحق ہیں، ان کی دن رات محنت اور مخلص لگن یقین قابل ستائش ہے۔
چھترار میں اس ادارے کیساتھ شعبہ تعلیم کے ماہر، بنک پروفشلز، اور پی ایچ ڈی اسکالر،سوشل ورکر، بھی رضاکارانہ طور پر کام کر رہے ہیں۔

شاباش دختر چھترار
ہماری چترال، ہمار ی پہچان

chitraltimes safira bibi chitrali mass education

Meaningful Act Towards Sustainable Success
M.A.S.S

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
55548

پس و پیش – کھیل اور تماشائی – اے.ایم.خان


تان ایک سیارے کا نام ہے۔ یہاں کے لوگوں کی ایک شوق کھیل ہے  اور اس کھیل کے لئے تماشائی بننا ہوتا ہے۔ یہاں کے لوگ ہمیشہ اس کوشش میں ہوتے ہیں کہ اُن کی آبادی زیادہ سے زیادہ ہو تاکہ  وہ اس کھیل میں تماشائی بن جائیں اور پاس والے سیارے میں لوگوں کے ساتھ آبادی کے حساب سے مقابلہ کر سکیں۔اس سیارے میں  چند سال سے ایک کھیل بہت مشہور ہےاسے وہ بُزکشی کہتے ہیں۔

 بُزکشی کا جو کھیل افعانستان، ترکی اور وسطی ایشیاءکے علاوہ دوسرے ممالک میں کھیلا جاتا ہے تان سیارے کے باسیوں کا یہ کھیل قدرے مختلف ہے۔  درحقیقت یہ طاقت کی جنگ ہے جسمیں صرف طاقتور لوگ کھیلتے ہیں، اور اس کھیل میں حصہ لیتے ہیں ۔اس کھیل میں کھلاڑی ہر ٹیم میں بہت زیادہ ہوتے ہیں اور وقت کے ساتھ تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ اس کھیل میں اپنے کھلاڑیوں کو دوسرے ٹیم میں جانے سے روکنےکیلئے ٹیم کیپٹنز  مل کر ایک دستور تیار کر لئے تاکہ اپنے کھلاڑیوں کو دوسرے ٹیم میں شامل ہونے سے روکا جا سکے لیکن اس میں کامیاب نہ ہوسکے کیونکہ اس کھیل کےدستور کے ایک شق کے مطابق بُزکشی کا کھیل شروع ہونے سے پہلے لوگ اپنے کھلاڑی اور گھوڑے تبدیل کرسکتے ہیں۔

اس کھیل میں کھلاڑی اگر ہزاروں میں  ہیں تو  اُس حساب سے تماشائی بے حساب ہوتے ہیں ۔ اس میں ایک شرط یہ ہے کہ یہ  تماشائی کے بغیر کھیلا نہیں جاتا۔ یہ کھیل اکثر پانچ سال بعد،  کبھی دو سال بعد ،  اور ایک عشرہ گزرنے کے بعد بھی یہ کھیل ہو چُکی ہے۔ اس کھیل میں کوئی خاص وقت مقرر نہیں جوکہ ستان کے سیارے کے نظام کا ایک دستور ہے۔

کھیل میں کھلاڑی ہونے کیلئے ہر کسی کے پاس اپنا گھوڑا ہونا لازمی ہوتا ہے بس یہ ایک شرط ہے وہ کھلاڑی ہوجاتا ہے۔ اور جسکے پاس کھلاڑی ہوتے ہیں وہ  اُس ٹیم کاکپتان ہوتا ہے، اور وہ اپنے کھلاڑیوں کے ساتھ اس مقابلے میں حصہ لیتا ہے۔ گھوڑوں کے خرید و فروخت  کے وقت لوگ اپنے مرضی کے گھوڑے لیتے اور دیتے ہیں اور اس عمل کا تماشائیوں پر بہت زیادہ اثر ہوتا ہے۔  

 دراصل یہ کھیل راونڈ میں ہو جاتا ہے ۔ پہلے راونڈ میں سارے کھلاڑی مل کر حصہ لیتے ہیں۔ اس میں میچیز مختلف گراونڈز میں ہوتے ہیں ۔ جو ٹیم یا ٹیمین پہلے راونڈ میں کامیاب قرار دئیے جاتے ہیں تو اُن کے جو کپتان ہوتے ہیں اُن کا آپس میں بُزکشی کا دوسرا راونڈ ہوتا ہے۔ اس راونڈ میں جو ٹیم کپتان جیت جاتا ہے اُسے گھوڑے کی باگ انعام کے طور پر دیا جاتا ہے۔ اب شرط یہ ہوتا ہے کہ یہ کپتان سرپٹ دوڑنے والے گھوڑے کو سنبھالتے ہوئے ایک جنگل کے گرد پانچ چکر  کامیابی کے ساتھ پورا کر ے تو وہ فاتح قراد دی جاتی ہے۔ یہ عمل بہت مشکل ہوتا ہے کیونکہ اس جنگل کے گرد چکر لگاتے وقت بہت سے خطرات، مسائل ، پریشانی اور فیصلے لینا پڑتے ہیں اگر وہ اسے کامیابی سے کر لیتا ہے اور یہ پانچ چکر پورا کردیتا ہے تو یہ اُس کی جیت قرار دی جاتی ہے۔ اس کامیابی کے بعد بُزکشی کا ایک ریکارڈ رجسڑ ہوتا ہے جس میں اسکا نام درج ہوتا ہے۔  اس جیت کے بعد اب یہ اُس کا اختیار، مرضی اور ذمہ داری ہوتی ہے کہ بُزکشی کا مقابلہ وہ کروائے۔ اس کھیل کو کب، کسطرح، کہان اور کیسے کروائے اب یہ اُس کی مرضی ہوتی ہے۔

بُزکشی کے اس کھیل میں جج یا امپائر کی اہمیت زیادہ اس لئے ہوتی ہے کیونکہ ،کہا جاتا ہے، کہ اس کھیل میں  اُس کا کردار اور حمایت جیت  کی علامت قرار دی جاتی ہے، کیونکہ دوسرے کھیلوں کی طرح  اس کھیل میں بھی امپائر کا فیصلہ اٹل ہوتا ہے۔

اب تان سیارے میں بُزکشی کی تیاری ہو رہی ہے۔ کپتان اور کھلاڑی میدان میں ہیں، اب دیکھنا یہ ہے کہ کھیل کسطرح ہوتا ہے۔ یہ تو طے ہے کہ تماشائیوں کے بغیر یہ کھیل نہیں ہوتی اس لئے کپتان اور کھلاڑی اُنہیں کھیل میں شامل کرنے کی جدوجہد میں لگے ہوئے ہیں۔  اور یہ بھی طے ہے کہ کھیل کے بعد تماشائی تماشائی ہوکر رہ جائیں گے ۔ 

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
55546

معتبر اداروں کی بے توقیری ۔محمد شریف شکیب

لوئر دیر میں میڈیکل کی طالبہ کے ساتھ جنسی زیادتی اور رشوت لینے کے الزام میں گرفتار سینئر سول جج کو جیل بھیج دیا گیا۔انصاف کی کرسی پر بیٹھے شخص کا اخلاقی اور قانونی جرم میں ملوث ہونا نہ صرف افسوس ناک بلکہ قابل مذمت ہے۔ زیادتی کا نشانہ بننے والی خاتون کا دعویٰ ہے کہ سینئر سول جج نے اس کی بہن کو نوکری دلانے کے لئے رشوت کے طور پر پندرہ لاکھ روپے مانگے تھے۔چونکہ وہ بی ڈی ایس کی طالبہ ہے اس کے پاس نقد رقم نہیں تھی اس لئے انہوں نے اپنے زیورات جج کے سپرد کردیئے جن کی مالیت پندرہ لاکھ روپے بنتی تھی۔ کچھ دن بعد جج نے بتایا کہ وہ اس کی بہن کونوکری نہیں دلاسکا۔زیورات لوئر دیر میں ان کی رہائش گاہ میں پڑے ہیں۔وہاں سے آکر لے جائیں۔جج پر بھروسہ کرتے ہوئے وہ پشاور سے اس کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ کر لوئر دیر چلی گئی۔ جہاں اپنی سرکاری رہائش گاہ پر جج نے اس کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ انکار پر اس نے زبردستی اسے اپنی ہوس کا نشانہ بنادیا اور زیورات واپس کرنے سے بھی صاف انکار کردیا۔

دیر پولیس کے مطابق ایف آئی آر درج کرانے والی خاتون نے اپنا نام دعا اورتعلق چترال سے بتایا اس کا کہنا تھا کہ وہ پشاور میں بی ڈی ایس کی طالبہ ہے۔ خاتون کے بیان پر بہت سے سوالات اٹھتے ہیں۔ اس کا تعلق سندھ کے علاقہ خیرپور سے بتایاجاتا ہے۔چترال سے اس کا سرے سے تعلق ہی نہیں ہے۔اپنی اصل شناخت چھپانا بھی جرم کے زمرے میں آتا ہے۔دانستہ طور پر اپنا تعلق چترال سے بتاکر انہوں نے پوری چترالی قوم کی عزت و ناموس کو بھی داغدار کردیا ہے۔جس پر ہتک عزت کا دعویٰ بھی بنتا ہے۔

سوچنے کی بات ہے کہ وہ پندرہ لاکھ روپے رشوت دے کر اپنی بہن کو سرکاری نوکری دلوانا اور اہل لوگوں کا حق مارنا چاہتی تھی۔ پشاور میں مقیم خیرپور کی خاتون کا دیر کے سول جج سے تعلق کیسے بن گیا؟ وہ اپنے زیورات واپس لینے کے لئے جج کے ساتھ پشاور سے اکیلی دیرکیوں چلی گئی؟ان تمام سوالات کا جواب دیر پولیس نے خاتون سے پوچھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔اور میڈیا کو ایف آئی آر کی کاپی جاری کردی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پورے ملک میں عدلیہ کو بدنام کرنے کی ایک منظم مہم شروع کردی گئی ہے۔ کبھی سابق چیف جسٹس آف پاکستان پر بددیانتی، رشوت لینے اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزامات لگائے جارہے ہیں اور کبھی گلگت بلتستان کے سابق چیف جج کو اپنے سیاسی مقاصد کے لئے آلہ کار بنایاجاتا ہے اب تو ججوں پر جنسی زیادتی، رشوت لے کر غیر قانونی طور پر نوکریاں دینے، دھوکہ دہی اور جعل سازی کے الزامات بھی لگنے لگے ہیں۔عدلیہ کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنا ہمارے ہاں روایت بن گئی ہے۔ کبھی قانون مصلحت کے تحت آئین سے ماورا فیصلے کروائے جاتے ہیں کبھی دھونس، دھمکی اور دباؤ کے ذریعے من پسند فیصلے حاصل کئے جاتے ہیں۔

جسٹس منیر اور جسٹس قیوم جیسے لوگ عدلیہ میں بھی ہوتے ہیں لیکن انہیں ٹارگٹ بناکر پوری عدلیہ کو مورد الزام نہیں ٹھہرایاجاسکتا۔ عدالتیں ہی لوگوں کے لئے حصول انصاف کا واحد ذریعہ اور امید کی کرن ہیں۔وہی آئین اور قانون کی تشریح کرتی ہیں ظالم کا ہاتھ روکتی ہیں اور مظلوم کو انصاف فراہم کرتی ہیں۔ ان کی عزت و وقار کو ٹھیس پہنچایاگیا تو دیگر اداروں کی طرح عوام کا ان پر سے بھی اعتماد اٹھ جائے گا اور لوگ انصاف کے حصول کے لئے قانون اپنے ہاتھ میں لینے کو ترجیح دیں گے۔ جس سے معاشرے میں انارکی اور بدامنی پھیل سکتی ہے۔عدالت عالیہ سول جج دیر پائیں کے کیس کا ازخود نوٹس لے کر معاملے کی جوڈیشل انکوائری کرائے تو اصل حقائق سامنے آسکتے ہیں اور حقائق معلوم کرنا عدلیہ اور طب کے پیشے کا تقدس برقرار رکھنے کے لئے بھی ناگزیر ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
55531