Chitral Times

دینی مدارس کو قومی دھارے میں شامل کرکے قومی بجٹ میں حصہ دیا جائے۔ منتظم اعلیٰ جمعیت طلبہ عربیہ

چترال (نمائندہ چترال ٹائمز) جمعیت طلبہ عربیہ خیبر پختونخوا کے منتظم اعلیٰ اعزاز علی شاہ نے حکومت سے پرزور مطالبہ کیا ہے کہ دینی مدارس کوقومی دھارے میں شامل کرنے اور انہیں کالجوں اور یونیورسٹیوں کے مساوی سلوک کرتے ہوئے ان کے جاری کردہ اسناد کو یونیورسٹی ڈگر ی کے برابر تسلیم کرنے اور اور دینی مدارس کو قومی بجٹ میں خاطر خواہ حصہ دے دیا جائے تاکہ معاشرے میں مکمل ہم آہنگی قائم ہوسکے۔

پیر کے دن چترال پریس کلب میں تنظیم کے دیگر رہنماؤں صوبائی جنرل سیکرٹری عطاء اللہ یوسفزئی، صوبائی ناظم بزم قرآن عطاء اللہ شاہین، منتظم ضلع اظہار اللہ اورضلعی سیکرٹری نظام خان کی معیت میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ دینی مدارس اور اس میں زیر تعلیم طلباء کو ہر حکومت نے نظر انداز کیا ہے اور وقت آگیا ہے کہ ان کے حقوق کے لئے آواز بلند کیا جائے اور یہی وجہ ہے کہ جمعیت طلبہ عربیہ نے قومی سطح پر بیداری مہم شروع کردی ہے۔ انہوں نے کہاکہ اس مہم کے دوران دینی مدارس کے طلباء میں اتحادواتفاق کے جذبے کو پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ حکومت وقت کو اس بات پر مجبور کیا جائے گا کہ وہ دینی مدارس کو اس کے حیثیت کے مطابق اہمیت دی جائے۔

ا نہوں نے کہاکہ حکومت نے دینی مدارس میں امتحانات کے لئے قائم پہلے سے پانچ امتحانی بورڈوں کی تعداد میں اضافے کی کوشش کررہی ہے جوکہ ناقابل فہم بات ہے جس کا مقصد دینی مدارس کا مزید بٹوارہ ہے۔ انہوں نے کہاکہ دینی مدارس کے امتحانی بورڈوں کی تعدادمیں اضافے کی بجائے موجودہ بورڈوں کے جاری کردہ اسناد کو قانونی حیثیت دی جائے اور ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ذریعے ان کو متساوی حیثیت دلوائی جائے۔ انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیاکہ اب تک دینی مدارس کے لئے ایک پیسہ بھی قومی بجٹ میں مختص نہیں کیا جاتا جوکہ دینی مدارس کے ساتھ سوتیلی ماں کا سلوک ہے اور اس وجہ سے معاشرتی ناہمواریاں جنم لے رہی ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ اب تک کسی حکومت نے بھی دینی مدارس کے لئے سلیبس بنانے اور انہیں قومی قومی دھارے میں شامل کرنے میں سنجیدگی اور خلوص نیت کا مظاہر ہ نہیں کیا۔

chitraltimes Jamiat tulba arbia kp press confrence chitral
Posted in تازہ ترین, جنرل خبریںTagged
55759

دینی مدارس اور ہم – تحریر : اقبال حیات اف برغذی

چترال کے ممتاز عالم دین اور جامع مسجد ریحانکوٹ کے خطیب حضرت مولانا ولی محمد صاحب اپنے جمعے کی تقریر کے دوران خیرات وصدقات سے متعلق معاشرے کی مجموعی کیفیت پر اظہار خیال کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک صاحب دارلعلوم کے بچوں پر خرچ کرنے کے  لئے 8ہزار روپے صدقہ دینے کے ایک سال بعد آڈٹ کے لئے تشریف لائے مذکورہ رقم کے مصرف کے بارے میں تفصیل کا تقاضاکئے

اس واقعے کی مناسبت سے اگر دیانتدار انہ طور پر جائزہ لیا  جائے تو معاشرے کے اندر عمومی طور پر دینی مدارس کے بارے میں وہ جذبہ دیکھنے کو نہیں ملتا۔ جو دوسرے تعلیمی اداروں کے بارے میں پایا جاتا ہے۔ عام طور پر مدارس کے لئے چندہ اکھٹا کرنے کے دوران جیب کی طرف اٹھنے والے ہاتھوں میں خلوص کا فقدان نظر آتا ہے۔ اور جھولی  میں کچھ ڈالنے کے انداز میں بھی دینی جذبے کا رنگ نظر نہیں آتا۔ دنیا وی علوم کے حصول کے لئے سر گرم عمل اولادپر اٹھنے والے اخراجات کا حساب نہیں لیا جاتا اور وسعت قلبی کا مظاہر ہ کیا جاتا ہے۔ لیکن احیائے دین کے لئے مصرف میں آنے والے چند سکے بھی لوح دل پر ثبت کئے جاتے ہیں۔

پورہ معاشرہ اس احساس سے محروم ہے۔ کہ یہی دینی ادارے میں کہ جہاں سے علماء کی صورت میں ہدایت کا مشغل روشن ہوتے ہیں  جو سفر حیات میں صراط مستقیم پر گامزن کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔

چونکہ دینی ادارے حکومتی سرپرستی سے محروم رہتے ہیں ۔اس لئے یہ عمومی طورپر توجہ کے مستحق ہوتے ہیں ۔اور ان دینی اداروں کی آبیاری کےلئے مصرف میں انے والا سرمایہ اخروی دنیا کی ہریالی بننے کے بارے میں دو رائے نہیں ہوسکتی ۔دنیا ئے اسلام کے قابل فخر سپوت سلطان محمود غزنوی خواب میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی سعادت کے امکان، شاہی خاندان میں ولادت کی بنیاد پر خود کو اپنے والد نقد اولاد ہونے کی صداقت اور اللہ رب العزت کو سب سے زیادہ پسندیدہ عمل کی نوعیت سے متعلق فکرمند رہتے تھے۔ ایک رات اپنی آرام گاہ سے باہر چہل قدمی کرنے کے دوران عمارت کی کھڑکی کے قریب ایک لڑکے کو کتاب ہاتھ میں لئے کھڑا دیکھتے ہیں۔ دریافت کرنے پر وہ لڑکا خود کو دینی مدرسے کا طالب علم بتاتے ہوئے پڑھنے کے لئے اپنے گھر میں چراغ نہ ہونے کی وجہ سے شاہی محلے کے چراغ سے استعفادہ کرنے کی بات کرتے ہیں۔ سلطان محمود غزنوی لڑکے کو اندر بلا کر چراغ ان کے حوالے کرتے ہوئے اسے اپنے گھر میں پڑھائی کے لئے استعمال کرنے اور تیل ختم ہونے پر تقاضا کرنے کی ہدایت کرتے ہیں۔

اسی رات خواب میں سرکار دو عالم صلی اللہ وعلیہ وسلم کی زیارت ہوتی ہے۔ اور آپ  ان سے فرماتے ہیں کہ آئے سبکتگیں کے فرزند میرے وارث کے ساتھ تعاو ن کرنے پر اللہ رب العزت آپ کو دونوں جہانوں میں سرخروئی سے نوازے” حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زبان سے نکلنے والے ان الفاظ میں جہاں انہیں اپنی ذات سے متعلق خیال کا جواب ملتا ہے۔وہاں اللہ رب العزت کے پسندیدہ عمل کی نشانی وہی بھی ہوتی ہے۔

 مگر بدقسمتی سے ہم دنیاوی طور پر اپنا قد بڑھانے میں منہمک رہتے ہیں۔ اور آخرت کی سرخروئی اور مقام کے حصول کےلئے کاوش نہیں کرتے اور انجام کار

                                        سب کچھ یہیں رہے گا کچھ بھی  نہ  پاس ہوگا

                                        دو  گز   کفن   کا   ٹکڑا   تیر ا   لباس     ہوگا

کے مصداق ساری جمع پونچی یہاں چھوڑکر خالی ہاتھ جانا پڑے گا۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
55663