Chitral Times

ہندوکُش کے دامن سے چرواہے کی صدا -سیاسی جما عتوں کی کارکردگی – عبدالباقی چترالی

سیاسی جماعتوں کی کارکردگی) ہندوکُش کے دامن سے چرواہے کی صدا)



2008 کے انتخابات میں اے این پی و دیگر جماعتوں کی خیبر پختونخوا میں مخلوط حکومت قائم ہوگئی اور رامیر حیدر خان ہوتی پختونخوا کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے۔ اپر چترال سے غلام محمد صوبائی اسمبلی کی سیٹ جیت گئے۔ اس کا سیاسی تعلق پرویز مشرف کی پارٹی (ق) لیگ سے تھا۔ 2008 کے انتخابات میں اے این پی کا کوئی امیدوار چترال سے کامیاب نہیں ہوا تھا۔ اس کے باوجود اے این پی چترالی عوام کے لیے رحمت ثابت ہوئی۔ چترال کی ترقی کے لیے بڑے بڑے منصوبے شروع کیے گئے۔ ان بڑے منصوبوں میں چند یہ ہیں: بائی پاس روڈ چترال، یونیورسٹی کیمپس چترال، آبنوشی کا بڑا منصوبہ جس میں گولین گول سے لیکر چمرکھن تک پائپ لائن بچھائے گئے، ڑاوی بجلی گھر کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔


بائی پاس روڈ چترال کی تعمیر کے لیے سابق وزیر اعلیٰ شیر پاؤ نے افتتاحی بورڈ لگایا تھا لیکن فنڈ نہ ہونے کی وجہ سے ناکام ہوئے۔ اس کے بعد ایم ایم اے کے دور اقتدار میں اکرم خان دورانی نے بھی اس سڑک کے لیے افتتاحی بورڈ لگائے لیکن ترقیاتی فنڈ نہ ہونے کی وجہ سے بائی پاس روڈ تعمیر نہیں کر سکے تھے۔ اے این پی کے دور حکومت میں چترال کی ترقی کے لیے بھر پور کوشش کی گئی۔ ان کی حکومت میں اپر چترال میں کئی پن بجلی گھروں کے سروے مکمل کیے گئے۔ ان میں سے دو بجلی گھروں کی فزیبیلٹی بھی تیار کی گئی۔


اے این پی کی چترال سے اپنے دونوں سیٹ ہارنے کے باوجوداپر چترال میں ریکارڈ ترقیاتی کام کیے۔ خاص کر موڑکھو میں ان کا ووٹ بینک برائے نام ہونے کے باوجود موڑکھو کی ترقی کے لیے قابل قدر کام کیے۔ موڑکھو میں کیے گئے ان کے بڑے منصوبوں میں زنانہ ہائی سکول وریجون کو ہائرسیکنڈری کا درجہ دینا، مردانہ ہائی سکول وریجون میں امتحانی ہال کی تعمیر، سہت میں زنانہ مڈل سکول کا قیام، ایک کلومیٹر بلیک ٹاپ روڈشامل ہیں۔ علاوہ ازیں آر ایچ سی ہسپتال موڑکھو کا افتتاح بھی حاجی غلام محمد صاحب نے کیا۔ ان کے علاوہ بھی کئی عوامی مسائل حل کیے گئے۔ موجودہ ایم پی اے کا تعلق موڑکھو سے ہے اور اپر چترال میں اکثریتی ووٹ بھی موڑکھو سے ہی ان کو ملے ہیں۔ ان سب کے باوجود وہ اپنے حلقے کے مسائل ان تین سالوں میں حل کرنے میں ابھی تک ناکام رہے ہیں۔ ان مسائل میں سرفہرست ٹی ایچ کیو ہسپتال بونی کو ڈی ایچ کیو کا درجہ دینا، مردانہ ہائی سکول وریجون کو ہائرسیکنڈری کا درجہ دینا اور موڑکھو کے آر ایچ سی ہسپتال کو ٹی ایچ کیو کا درجہ دینا شامل ہیں۔

وریجون ہیڈکوارٹر تک دو کلومیٹر بلیک ٹاپ روڈ تاحال تعمیر نہ ہوسکا۔ابھی تک ان عوامی مسائل کو حل کرنے کے لیے ایم پی اے نے کوئی ٹھوس اقدام نہیں کیے ہیں۔ موجودہ قومی اسمبلی کا ممبر جناب عبدالاکبر صاحب نے اپنے پچھلے دورِ حکومت میں اپر چترال کے عوام کو محض وعدوں اور نغروں سے بہلاتا رہا۔ اس وقت بھی ایم این اے صاحب کے فنڈ سے اپر چترال میں کوئی ترقیاتی کام نہیں ہورہے ہیں۔2018 کے انتخابات میں موڑکھو سے مولانا عبدالاکبر صاحب کو سب سے زیادہ ووٹ ملے تھے لیکن جب وہ انتخابات میں کامیاب ہوئے تو موڑکھو کے عوام کو جلد نظر انداز اور فراموش کردیا۔ ایم این اے صاحب گزشتہ انتخابی مہم کے دوران موڑکھو کے عوام کے ساتھ نہر اتہک کے مسئلے کو جلد حل کرنے کا وعدہ کیا تھا جو ابھی تک پورا نہیں ہوا اور آئندہ بھی ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اپر چترال میں خاندان کے مقام پر سابق ایم این اے افتخار الدین صاحب کی کوششوں کے نتیجے میں گرڈ سٹیشن کی منظوری ہو چکی تھی جوکہ موجودہ ایم این اے کی عدم توجہ کے باعث ابھی تک گرڈ سٹیشن کا قیام عمل میں نہیں آیا۔ گرڈ سٹیشن کے قیام میں تاخیر کی وجہ سے اپر چترال کے عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔

ایم این اے کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے اپر چترال کے عوام مایوس ہوچکے ہیں۔ اب ان کی پارٹی کے لوگ بھی ان سے ناخوش اور ناراض دکھائی دے رہے ہیں جوکہ آنے والے وقتوں میں مولانا صاحب کی سیاسی مستقبل کے لیے اچھی شگون نہیں ہے۔ ان کی مایوس کن کارکردگی پارٹی کو بھی لے ڈوبے گی۔ اس وقت خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومت کو آٹھ سال پورے ہوچکے ہیں۔ گزشتہ آٹھ سالوں سے پی ٹی آئی کی صوبائی قیادت چترالی عوام کے ساتھ سوتیلی ماں کا سلوک کررہی ہے اور اپنی پارٹی کا امیدوار منتخب نہ ہونے پر چترالی عوام سے سیاسی انتقام لیا جارہا ہے۔موجودہ صوبائی حکومت چترال لوئر اور اپر میں کوئی بڑے ترقیاتی منصوبے تعمیر نہیں کر سکے۔ خاص کر اپر چترال کو مسلسل نظر انداز کیا جارہا ہے۔ اس کا واضح ثبوت وزیر اعلیٰ کے دورے کا شیڈول طے ہونے کے باوجود اپر چترال کا دورہ منسوخ کرنا ہے۔

بار بار اپر چترال کو نظر انداز کرنے پر پی ٹی آئی کے عہدیداراں اور کارکنوں میں بھی مایوسی اور بددلی پھیلی ہوئی ہے۔ موجودہ صوبائی حکومت اپر چترال کو الگ ضلع کا درجہ دینے کے بعد اس نئے اور پسماندہ ضلعے کی تعمیر و ترقی کے لیے کوئی خصوصی فنڈ فراہم نہیں کی۔ ترقیاتی فنڈ مہیا نہ ہونے کی وجہ سے کاغذی ضلع بنا ہوا ہے۔ پی ٹی آئی کی ضلعی قیادت کو اپر چترال کی ترقی اور عوامی مسائل کو حل کرنے کی طرف بھر پور توجہ دینی چاہیے۔ اگر حالات جوں کے توں رہے تو آنے والے انتخابات میں پی ٹی آئی کے امیدوار کے لیے عوام کا سامنا کرنا مشکل ہوگا۔ اپر چترال میں ترقیاتی کام نہ ہونے کی وجہ سے بے روزگاری میں اضافہ ہورہا ہے۔ دوسری طرف مہنگائی میں بے تحاشہ اضافہ ہونے کی وجہ سے موجودہ حکومت کے خلاف عوام میں غم وغصہ بڑھ رہا ہے۔


پی ٹی آئی کی ضلعی قیادت کو اپر چترال کی تعمیر و ترقی اور عوامی مسائل کے حل کی طرف صوبائی حکومت کی توجہ مبذول کراکے اپنے علاقے کے مسائل حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
55459

صداقت، عدالت، شجاعت-تحریر: وجیہ الدین جنرل سیکرٹری جماعت اسلامی چترال لوئر

“بانگ دارا” کی آخری نظم “طلوع اسلام” رنگ رنگ کی خوبیوں اور گوناگوں محاسن کا مجموعہ ہے۔ معنی آفرینی اور شوکت الفاظ کا یہ حسین مرقع نو بندوں پر مشتمل ہے۔ خاص بات اس کی یہ ہے کہ اس میں یاس انگیزی اور نومیدی کے بجائے رجائیت کو پیش نظر رکھا گیا ہے اور مسلمانوں کو ان کا مقام و مرتبہ یاد دلا کر عمل کی ترغیب دی گئی ہے۔

پرے ہے چرخ نیلی فام سے منزل مسلماں کی
ستارے جس کی گرد راہ ہوں، وہ کارواں تو ہے
اور
کوئی اندازہ کرسکتا ہے اس کے زور بازو کا؟
نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں

مگر اس نظم کا اصل مدعا یعنی اس کا حاصل دو مختلف اشعار میں بیان کیا گیا ہے۔ دونوں اشعار کے رنگ مختلف، الفاظ مختلف اور بیان مختلف ہونے کے باوجود ایک ہی مفہوم اور ایک ہی مدعا پر مشتمل ہیں۔

سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا


دوسرا شعر ہے:
مٹایا قیصر و کسری کے استبداد کو جس نے
وہ کیا تھا؟ زور حیدر، فقر بوذر، صدق سلمانی
یہ دونوں اشعار نہیں، بلکہ دنیا میں حصول اقتدار کے اصول ہیں اور سچ یہ ہے کہ ان میں عروج حاصل کرنے کا ضابطہ اور طریقہ بیان ہوا ہے۔


پہلے شعر میں مسلمانوں کو صداقت عدالت اور شجاعت کے اختیار کرنے کا درس دیا گیا ہے اور پھر بتایا گیا ہے کہ مسلمانوں نے جس کے بل عروج پایا تھا اور دنیا کی غالب اقوام کو سرنگوں کرنے میں کامیاب ہوئے تھے وہ یہی تین اوصاف تھے۔
واضح ہو کہ امامت کے باب میں اللہ تعالی کی سنت یہ ہے کہ وہ زمین کا اقتدار ان لوگوں کے سپرد کرتا ہے جو اخلاقی اوصاف میں دنیا کی دوسری اقوام سے فائق تر ہوں۔


زیر بحث دونوں اشعار میں بھی اخلاقی اوصاف کی حصولی ہی کو امامت پر متمکن ہونے کا ذریعہ بتایا گیا ہے۔ غور کریں پہلے شعر میں “صداقت”، “عدالت” اور “شجاعت” جبکہ دوسرے میں “صدق”، “فقر” اور “زور” کے الفاظ آئے ہیں۔ ظاہر ہے “صداقت” اور “صدق”، “شجاعت” اور “زور” ایک ہی معنی کے الفاظ ہیں جن کے معنی و مفہوم کے ایک ہونے میں اختلاف کی گنجائش ہی نہیں۔


اب رہ جاتے ہیں “عدالت” اور “فقر” کے الفاظ! یہاں سرسری نگاہ سے دونوں الفاظ معنی کے اعتبار مختلف نظر آتے ہیں، مگر دقت نظر سے دیکھا جائے تو ان میں ایک خاص مناسبت ہے۔ غور کیا جائے تو عدل کا قیام خود غرضی اور ہوس کے مارے شخص (یا قوم) کے لیے ممکن ہی نہیں ہے۔ کوئی بندہ حریص جاہ اور عریض مال ہو اس کے ہاتھ سے عدل کا نظام بھلا کیوں کر قائم ہوسکتا ہے؟ نظام عدل کے اجرا کے لیے لازم ہے کہ مقتدر ہر قسم کے لالچ، ہر طرح کے حرص اور ہر نوع کے غرض سے پاک ہو کر فیصلہ کرنے بیٹھ جائے۔ اس اخلاقی صفت کے لیے اقبال “فقر” کی خوبصورت اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ گویا اقبال دونوں اشعار میں انہی تین اوصاف حمیدہ اور اخلاق فاضلہ کو دنیا کی امامت کی حصولی کا پیش خیمہ قرار دیتے ہوئے مسلمانوں کو ان کی حصولی کی ترغیب دیتے ہیں تاکہ وہ عظمت رفتہ کو پھر سے پاسکیں اور دنیا کی امامت سے خود کو سرفراز کر سکیں جو کہ اہل ایمان ہونے کی بنا پر انہی کو زیبا تو ہے مگر ان اوصاف سے متصف نہ ہونے کی وجہ سے قدرت نے انھیں اسے محروم کر دیا ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامین
55461

بریپ (چترال) کے سیب اور ان کی اقسام : تحریر: حاجی یار خان بریپ

بریپ (چترال) کے سیب اور ان کی اقسام : تحریر: حاجی یار خان بریپ

اللّٰہ پاک نے علاقہ یارخون (اپر چترال) کو  مختلف قدرتی نعمتوں اور خوبیوں سے نوازا ھے جس میں ایک گاؤں (بریپ) جو علاقہ یارخون کا گیٹ وے ھے دیگر قدرتی خوبیوں کے علاؤہ  ایک بڑی خوبی یہ ھے کہ بریپ کے سیب نہ صرف پاکستان میں شہرت رکھتے ہیں بلکہ ھم کہہ سکتے ھیں کہ یہ پوری دنیا کے اچھے سیبوں  میں شمار ھو تے ھیں  بریپ گاؤں کی مٹی،اب و ہوا اور پانی سیب کے درخت کے لئے انتہائی مناسب ہیں ماہ اگست میں سیب پکنا شروع ھو جاتے ہیں اور ماہ اکتوبر کے وسط تک درختوں پر پھل موجود رھتے ھیں اس دوران سیبوں کے خریدار یہاں آتے ھیں اور سیب مالکان سے ان کی وابستگی ھوتی ھے وہ باغ کے مالکان سے باغ کو چٹی خرید لیتے ہیں یا تو پیٹی کے حساب سے خرید لیتے ھیں گزشتہ سالوں کی نسبت اس سال کالا کولا/رائل گالا سیب جس میں 50 سے 55 کلو بھر جاتا ھے آخری سیزن میں 5500 روپے میں فروخت ھوئی جبکہ چوپوش(ازدوپ) 2000 روپے میں پٹی فروخت ھوئی، اس طرح سیبوں کے باغ رکھنے والے مالکان کو خاطر خواہ فائدہ ھوا  بریپ میں ذیل اقسام کے سیب پائے جاتے ھیں : 

chitraltimes brep upper chitral mastuj apple 2

1- چوپوش(ازدوپ)

 2- کالا کولا 

3- رائل گالا 

4-شیشہ گولڈن 

5- باسوٹی 

6-خوش وختی  

7- ریڈ ڈیلیشیس 

8-گولڈن گرین 

9- گولڈن یلو 

10-شوت اشریکی ریڈ 

11- شوت اشریکی گرین 

12- شوکوشی 

13- استا چیکان 

14- شیرین والوغ 

15-اشکیٹ پالوغ  وغیرہ 

( اگر اور کوئی نام مجھ   رہ گیا ھو تو بریپ والے میری رہنمائی کر سکتے ہیں) 

بریپ کے سیبوں کے درختوں اور پھلوں کو جو مسائل درپیش ھوتے ھیں ان کے حل کے لئے زرعی ماہرین ،محکمہ زراعت اور این،جی،اوز جو اس فیلڈ کے لئے کام کرتے ھیں سے التماس ہے کہ وہ ان مسائل کے حل کے لیے ورکشاپ وغیرہ کے ذریعے زمینداروں کی رھنمائی فرمائیں تاکہ زمیندار ذیادہ سے ذیادہ فائدہ اٹھا سکیں ، سیبوں کے درختوں اور پھلوں کے مسائل 

chitraltimes brep upper chitral mastuj apple 1

 1- بعض درختوں میں کیڑے لگتے ہیں

  2- درخت سالانہ پھل نہیں دیتے 

 3- پھول اور پھل کے وقت جال والے کیڑے لگتے ھیں اگر اس وقت ادویات کا اسپرے کرتے ہیں تو ماہرین کا خیال ہے کہ یہ پھل صحت کے لیے اچھا نہیں ھوتا 

4- پودوں کے نیچے کس وقت کھاد ڈالنا مناسب ھو گا اور کونسا کھاد بہتر رھے گا اور کس مقدار میں کونسا کھاد اچھا ھو گا 

   5-  درختوں کو پانی کتنے دنوں کے بعد دینا  بہتر ھو گا                              

6-شاخ تراشی کا صحیح طریقہ کار   

7-مارکیٹنگ سے متعلق رھنمائی  وغیرہ      

chitraltimes brep upper chitral mastuj apple 3
chitraltimes brep upper chitral mastuj apple 5

بریپ (چترال) کے سیب اور ان کی اقسام : تحریر: حاجی یار خان بریپ

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
55416

c حادثات اوران کا تدارک – پروفیسرعبدالشکورشاہ

چند ماہ قبل ایک ڈرائیور کے ساتھ سفر کرنے کا اتفاق ہوا۔ موصوف نے اپنی گاڑی کے میڑپر اپنے بچوں کی تصاویر چسپاں کر رکھی تھیں۔ ڈرائیور کی اپنے خاندان سے والہانہ محبت میرے لیے قدرے تعجب کا باعث بنی اور اوراس انوکھے انداز محبت کی وجہ پوچھے بنا نہ رہ سکا۔ موصوف مسکرائے اور بولے میں جیسے جیسے رفتار بڑھاتا ہوں تو مجھے میڑ پر گردش کرتی سوئی اپنے خاندان کی یاد دلاتی ہے اورمیں تیز رفتاری سے رک جاتا ہوں۔جلدروانگی اور متوسط رفتار محفوظ زندگی کی ضامن ہے۔ تیز رفتاری خدانخواستہ آپ کی آخری روانگی ثابت ہو سکتی ہے۔ ٹریفک حادثات کا شکار افراد کا عالمی دن منانے کا آغاز1993میں ہوااور2005سے اقوام متحدہ نے اسے باضابطہ طور پر منانے کا آغاز کیا۔یہ دن سالانہ نومبر کے تیسرے ہفتے میں دن دنیا کے بیشتر ممالک، مختلف تنظیموں اور طبقات کی جانب سے منایا جا تا ہے۔دنیا بھر میں سالانہ تقریبا1.3ملین افراد روڈ حادثات کے باعث زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں تقریبا ہر 24سیکنڈز میں دنیا کے کسی نہ کسی خطے میں ایک فرد روڈ حادثات کی وجہ سے لقہ اجل بن جاتا ہے۔ تناسب کے حساب سے روزانہ تقریبا3,700افراد روڈ حادثات میں ابدی سفر پر روانہ ہو جاتے ہیں جبکہ لگ بھگ20-50ملین جان لیوا زخموں کا شکار ہو تے ہیں جو اکثر اوقات عمر بھر کی معذوری کا سبب بن جاتے ہیں۔ ٹریفک حادثات کے سبب اخراجات کا حجم اکثر ممالک کی جی ڈی پی کا3%بنتا ہے جبکہ ٹریفک حادثات میں زخمی ہونے والے93%افراد کا تعلق غریب اور متوسط ممالک سے ہے جبکہ ان ممالک میں دنیا بھر کی کل ٹریفک کا حصص60%ہے۔

ٹریفک حادثات5سے29کی عمر کے افراد میں اموات کی ایک بڑی وجہ ہے جبکہ15سے44سال کی عمر کے افراد دنیا بھر میں ہونے والے50% ٹریفک حادثات کا موجب گردانے جاتے ہیں۔ دیگر ممالک میں سفر کے دوران صحت مند امریکی افرادکی موت کی ایک بڑی وجہ ٹریفک حادثات ہیں۔ عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق بھارت ٹریفک حادثات کی وجہ سے اموات میں پہلے نمبر پر ہے جبکہ بھارت میں دنیا بھر کے مقابلے میں صرف 1%گاڑیاں پائی جاتی ہیں اس کے برعکس عالمی سطح پر ٹریفک حادثات کے سبب وقوع پذیر ہونے والی اموات کا11%حصص بھارت کے حصے میں آتا ہے۔ بھارت میں سالانہ تقریبا450,000حادثات رونما ہو تے ہیں جن میں 150,000افراد لقہ اجل بن جاتے ہیں۔ ہر گھنٹے میں اوسطا53ٹریفک حادثات جبکہ ہر 4منٹ میں ایک موت واقع ہوتی ہے۔ ٹریفک حادثات کے سبب سب سے زیادہ شرح اموات افریقی ممالک میں پائی جاتی ہے۔ کم آمدن اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد امیر افراد کی نسبت زیادہ حادثات کا شکار ہو تے ہیں۔

نوجوان عورتوں کی نسبت نوجوان مردوں میں ٹریفک حادثات کی شرح کافی زیادہ ہے۔73%ٹریفک حادثات 25سال سے کم عمر نوجوان مردوں کی وجہ سے رونما ہو تے ہیں اور ان حادثات میں ان کی شرح اموات خواتین کے مقابلے میں 3%زیادہ ہے۔ ٹریفک حادثات کے سبب اموات کی بہتات کو صرف انسانی غلطی سے پاک ٹریفک کا نظام کے زریعے کم کیا جا سکتاہے۔ اگر ہم انتہائی خطرناک، جان لیوا اور مہلک زخموں کا سبب بننے والے حادثات کی روک تھام کو یقینی بنائیں تو موجودہ صورتحال کو کافی حد تک کم کیا جاسکتا ہے۔ اوسط حد رفتار میں 1% اضافے کی صورت میں حادثہ کا امکان 4%بڑھ جا تا ہے جبکہ یہی اضافہ اگر 3%تک ہو جائے تو انتہائی خطرناک حادثہ درپیش آسکتا ہے۔ 50سے60کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گاڑی چلانے پر پیدل چلنے والے افراد میں 4.5%بڑھ جاتا ہے جبکہ اسی رفتارپر گاڑی کی آگے والی نشستوں پر براجمان افراد میں یہ شرح 85%تک بڑھ جاتی ہے۔

نشے کی حالت یا نفسیاتی دباؤمیں گاڑی چلانے کی صورت میں شرح اموات اور مہلک زخموں کا امکان کئی گنابڑھ جا تا ہے۔ درست طریقے سے ہیلمٹ پہننے سے شدید جان لیوا زخموں میں 42% جبکہ شرح اموات میں 69%کمی لائی جا سکتی ہے۔ سیٹ بیلٹ باندھنے شرح اموات 45سے50%تک کم ہو جاتی ہے اور گاڑی کی پچھلی نشستوں پر بیٹھنے والوں میں شدید زخموں کا امکان25%تک گر جاتا ہے۔ کم عمر ڈرائیوروں پر پابندی پرعمل درآمد کی صورت میں حادثات کو 60%تک کم کیا جا سکتا ہے۔گاڑی چلاتے ہوئے موبائل کے استعمال سے حادثات کا امکان 4گنا بڑھ جا تا ہے۔ ہمیں اپنی سڑکوں کو اس انداز سے بنانا ہے تاکہ یہ ہر طرح کے استعمال کندگان کے لیے محفوظ ہوں۔ ہم اقوام متحدہ کے وضع کر دہ ٹریفک قوانین اور اصول و ضوابط پر سختی سے عمل کر کے قیمتی جانوں کا ضیائع روک سکتے ہیں۔ حادثے کے بعد بروقت ابتدائی طبعی امداد کسی مسیحا سے کم ہر گز نہیں ہے۔ ہمیں کوشش کر کے اس کی جلد اور بروقت فراہمی کو تیز تر کرنے کا تہیہ کر نا ہوگا۔ متذکرہ بالا عوامل کے مکمل خاتمے کے لیے دنیا بھر کے ممالک کو یکجا ہو کر ٹھوس اقدامات اٹھانے ہوں گے۔

اس سلسلے میں ترقی یافتہ ممالک ترقی پزیر اور غریب ممالک کی تکنیکی اور مالی مدد کے لیے آگے بڑھیں تا کہ انسانی جان کو محفوظ تر بنانے میں اہم کردار ادا کیا جاسکے۔ اقوام متحدہ کے2010کے عشرہ برائے عمل میں تقریبا110ممالک شامل ہیں جنہوں نے دنیا بھر میں لاکھوں افراد کو ٹریفک حادثات کے باعث لقمہ اجل بننے سے روکنے کا عہد کیا ہے تاہم مطلوبہ اہداف حاصل کرنے میں کامیابی نہیں ہوئی۔ ورلڈہیلٹھ آرگنائیزیشن کی 2018کی رپورٹ کے مطابق عالمی سطح پر ٹریفک حادثات سے بچاو کے لیے ممالک کی تعداد 175ہو چکی ہے۔2021-2030کے لائحہ عمل میں بھی ماضی کے لائحہ عمل والے اہداف ہی دہرائے گئے ہیں۔ اگر ہم اس لائحہ عمل میں تیزرفتاری کو کم کرنے کے اقدامات کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب ہو گئے توعالمی سطح پر حادثات میں 50%کمی واقع ہو جائے گی۔

یہ بات حیران کن ہے کے غریب ممالک میں دنیا بھر کی محض 1%ٹریفک موجود ہے جبکہ ٹریفک حادثات کے سبب شرح اموات 13%ہے۔اس کے برعکس ترقی یافتہ ممالک میں دنیابھر کی40%ٹریفک موجود ہے اور حادثات کی شرح 7%ہے۔ ریسکیو1122کے مطابق 1.6منٹ میں ایک حادثہ رونما ہوتا ہے اور ریسکیو1122پنجاب میں روزانہ تقریبا1000ٹریفک حادثات  سے نبرد آزما ہوتی ہے۔ سال 2004میں لگ بھگ 3ملین ٹریفک حادثات رونما ہوئے جن میں سے اکثریت موٹرسائیکل سواروں کی تھی۔اوسطا1000خاندان نفسیاتی پیچیدگیوں کا شکار ہوئے کیونکہ ان کے خاندان کا واحد کفیل یا تو جان کی بازی ہار گیا یا عمر بھر کے لیے معذور ہوگیا۔ دنیا بھر میں مہذب اقوام منظم ٹریفک سے پہچانی جاتی ہیں۔ سڑک پر حفاظت ایک کلچر ہے جسے ٹھوس اقدامات کے زریعے مضبوط بنایا جا سکتا ہے۔ ہمیں نہ صرف ڈرائیوئنگ لائنسس کے اجراء کے معیار کو بہتر بنانا ہے بلکہ ٹریفک حادثات سے متعلق عوامی آگاہی کے ساتھ ساتھ اسے اپنے نصاب کا حصہ بنانا ہے۔ جب تک ہم ٹریفک قوانین پر عمل درآمد کو یقینی نہیں بنائیں گے تب تک ٹریفک حادثات کے سبب قیمتی جانوں کے ضیائع کو روکا نہیں جا سکتا ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
55418

میری بات – ملک بچالیں یا چور – روہیل اکبر



ہم جانتے ہیں ابھی نندن نے ایف سولہ نہیں گرایا، وہ بھی جانتے ہیں ابھی نندن نے ایف سولہ نہیں گرایا انڈیا اور امریکہ بھی جانتا ہے کہ ابھی نندن نے ایف سولہ نہیں گرایا ابھی نندن بھی جانتا ہے کہ اس نے کوئی ایف سولہ نہیں گرایا وہ ایف سولہ جو نہیں گرایا گیا ابھی نندن کو اس کے لئے بھارت نے تیسرا بڑا ملٹری ایوارڈ “ویر چکر” دیدیا چکر کیا ہے؟مختصر الفاظ میں اس کو میڈیا وار اور پروپیگنڈہ کہتے ہیں پورا انڈین میڈیا اس کے پیچھے کھڑا ہے اب آتے ہیں ہم ن لیگ کی سیاست کی طرف ہم جانتے ہیں نواز شریف نااہل ہے وہ بھی جانتے ہیں نواز شریف نااہل ہے اور نواز شریف بھی جانتا ہے کہ وہ نااہل ہے وہ نواز شریف جس سے تین بار ملک نہیں چلایا جاسکا اس سے متعلق پھر بھی نعرہ ہے ایک واری فیر مختصر الفاظ میں اس کو میڈیا وار کہتے ہیں.

مختلف میڈیا مالکان اور نامور صحافی اس کے پیچھے کھڑے ہیں۔ “ویر چکر” اور “فیر چکر” ایک ہی کہانی کے دو کردار ہیں ابھی نندن سے ابھی لندن تک ایک ہی گول چکر ہے ایک وہ ہیں جو اپنی فوج کو تحفظ دیتے ہیں اور ایک یہ ہیں جو اپنی ہی فوج کے خلاف ہیں اور انہیں ہر کام کے پیچھے جنرل باجوہ کا ہاتھ نظر آتا ہے مجھے کیوں نکالا کی گردان کرتے کرتے آخر کار وہ جعلی رپورٹوں کے زریعے ملک چھوڑ گیا ہے .

ابھی پچھلے دنوں سپریم کورٹ بار کے سابق صدر علی احمد کرد بھی جرنیلوں اور ججوں پر چڑھائی کرتے نظر آئے جس پر چیف جسٹس صاحب علی احمد کرد کی باتوں کو غلط کہتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ عدالتیں کسی کے دباؤ میں نہیں عدالتیں مکمل آزاد ہیں عدالتیں مکمل انصاف فراہم کر رہی ہیں اور یہ واقعی حقیقت بھی ہے کیونکہ آپ پاکستان میں 22کروڑ عوام کو انصاف فراہم کرنے کے لیے سب سے اوپر عدل کی آخری کرسی پر ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں مجھے یقین آگیا ہے آپ بلکل سچ کہتے ہوں گے کیونکہ جس کو اللہ کے حساب لینے کا خوف ہوتا ہے وہ کسی سے نہیں ڈرتا .

لیکن کیا وجہ ہے کہ انصاف صرف اور صرف بااثر لوگوں کو ہی ملتا ہے اور وہی عدلیہ کو نشانے پر بھی رکھے ہوئے ہیں پاکستانی عدالتوں میں اس وقت 21 لاکھ 59 ہزار 655 کیسز بوسیدہ فائلوں میں دفن ہیں کیا سپریم کورٹ میں 52 ہزار سے زائد کیسز منصفوں کی راہیں تک رہے ہیں لاہور ہائی کورٹ میں 1 لاکھ 93 ہزار سے زائد کیسز کا انبار ہے مگر حمزہ شہباز،مریم نواز اور پھر نواز شریف کو فوری انصاف فراہم کردیا جاتا ہے سید رسول کو جب لاہور ہائی کورٹ نے قتل کیس میں بری کیا تو پتہ چلا کہ وہ تو 2 سال پہلے جیل میں انتقال کرگئے ہیں،جب مظہر حسین کو 19 سال بعد قتل کیس میں سپریم کورٹ نے بری کر دیا تو معزز عدالت کو بتایا گیا کہ وہ 2 سال پہلے جیل میں ہی وفات پا چکے ہیں رحیم یار خان کے دو سگے بھائیوں کو پھانسی چڑھائے جانے کے بعد عدالت عظمی نے بے گناہ قرار دے کر بری کر دیا تھا۔

اپیل کیلئے 400 روپے نہ ہونے کی وجہ سے چنیوٹ کی 15 سالہ غریب اور بے گناہ رانی بی بی نے 19 سال جیل میں کاٹ دیے اور ایک اشتہاری مجرم کی بیٹی کو اتوار کے دن بھی عدالت لگا کر ضمانت پر رہا کر دیا گیا لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کیلئے 17 انچ ٹی وی خریدنے کیلئے لاکھوں روپے خرچ کرکے اخبارات میں اشتہار دیا جاتا ہے انصاف کی فراہمی میں پاکستان کا نمبر 128 ہے سپریم کورٹ بار کا سابق صدر ہمیں بتا رہا ہے کہ ہماری عدالتیں 128 نمبر پر ہیں اپنی عدالتوں کو بدنام کرکے پھر تالیوں سے داد بھی سمیٹ رہا ہے؟ قوم سے خیر شکوہ کیا اک ہجوم ہے بے.

شعوروں اور غلاموں کا ایک ریوڑ ہے یہ غلام ابن غلام ہیں انہیں اپنے جیسے غریبوں کے لئے انصاف نہیں چاہئے انہیں انصاف ان ڈاکوؤں کیلئے چاہئے جنہوں نے تین دہائیاں اس ملک کو لوٹ کر لندن میں جائیدادیں بنائی ایک بات یاد رکھیں ملک کی ترقی اور خوشحالی کیلئے صرف باشعور حکمران ہی نہیں باشعور قوم کی بھی ضرورت ہوتی ہے پاکستانی ارباب اختیار سے مودبانہ گزارش ہے ملک بچا لیں یا پھر چور۔آخر میں این ڈی ایف سی کے متاثرین میں سے ایک شخص امتیاز علی کھبڑو کا خط شامل کرتے ہیں جو انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان کے نام لکھا ہے شائد انکی بھی کہیں سنی جائے۔

1- جناب اعلی سال 2001 میں حکومت پاکستان کے سب سے بڑے قومی مالیاتی ادارے NDFC جس سے آپ بخوبی واقف ہیں اس ادارے کو صرف اس لیے بند کیا گیا کہ پاکستان کے تمام سیاستدانوں نے اس ادارے سے قرضے لیکر پاکستان کے 88ارب کھا لیے تھے جنہیں ہضم کرنے کے لیے ان سیاستدانوں نے NDFC کو بند کرواکر NDFC کے ملازمین کا معاشی اور اخلاقی قتل کیا جس پر ہم نے سال 2010 میں سپریم کورٹ میں قانونی پٹیشن نمبرCP#131/2010 داخل کی تھی جس میں آج تک انصاف نہیں ملا۔ NDFC کے ملازمین کی ہاؤسنگ سوسائٹی کی زمین مین منگھوپیر روڈ کراچی میں ہے اس زمین پر سال 2011 میں قبضہ مافیا کے علیم دین ولد ضیاالدین نے اپنے ساتھی غنڈوں کے ساتھ ملکر قبضہ کیا تھا ہم نے عدالت عالیہ سندھ کراچی سے رجوع کیا عدالت نے CP#1032/2019 بتاریخ 09-08-2019 اور 06-02-2020 کو سیکریٹری لینڈیوٹیلایزیشن، DC ویسٹ کراچی، مختیارکار منگھوپیر اور SHO تھانہ منگھوپیر کو احکامات جاری کیے کہ NDFC کی زمین پر سے قبضہ ختم کرواکر عدالت کو رپورٹ کریں مگر آج تک ان احکامت پر عمل نہیں کیا جاگیا.

آپ نے کراچی میں قبضہ مافیا اور سندھ حکومت کو بار بار احکامات جاری کیے ہیں کہ سرکاری و غیر سرکاری زمینوں پر قبضہ مافیا کا قبضہ ختم کرایا جائے مگر سندھ حکومت کے افسران نے عدالتوں کے احکامات کو کبھی بھی کوئی اہمیت نہیں دی مگر آپ کی کوششوں سے کراچی میں عدالتوں کے احکامات کی عزت بڑھی ہے کیونکہ آپ خود بھی کراچی شہر سے تعلق رکھتے ہیں آپ کی خدمت میں عرض ہے مہربانی فرماکر پاکستان کے ادارے NDFC کے مظلوم ملازمین کی ہاؤسنگ سوسائٹی کی زمین پر قبضہ ختم کروانے کے لیے عدالت عالیہ سندھ کے احکامات پر DC ویسٹ کراچی سے عمل کروادیں ہم آپکے تاعمر احسان مند رہیں گے۔عرضدار امتیاز علی کھہڑو اور پاکستان بھر سے NDFC کے تمام متاثر ملازمین آکر میں قبضہ گروپوں کے حوالہ سے بھی بتاتا چلوں کہ جس طرح پنجاب میں وزیر اعلی سردار عثمان بزاد نے اربوں روپے کی جگہ قبضہ گروپوں سے واگذار کروائی یے اسی طرح سندھ حکومت بھی کام کرکے غریب عوام کی خدمت کرسکتی ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامین
55400

الیکشن ریفارم اور پس منظر ۔ تحریر: کمال کامل

الیکشن ریفارم اور سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینا خان صاحب کا ایک عظیم کارنامہ ہے۔جو لوگ 1970 کے الیکشن کے علاوہ تمام الیکشنز کو دھندلی زدہ قرار دینا اور ہر ایلکشنز کے بعد ایک دوسرے کو مختلف القابات سے نوازنا ایک معمول بنا چکے ہیں۔اس سے جمہوری روایات اور ادارے کمزور ہو جاتے ہیں۔جو بھی ہار تا ہے اسکو پتہ ہونے کے باوجود الیکشن کو دھندلی زدہ کہہ کر دوبارہ امیدیں باندھتا ہے۔ان روایات کو ختم ہونا چاہیے۔دور جدیدمیں ٹیکنالوجی سے کوئی انکار نہیں کر سکتا ہے۔ہمارے جیب میں موبائل سے لیکر کھانے پینے،سفر کرنے اور پہنے کے اشیاء ٹیکنالوجی کی مرہون منٹ ہے۔جس طرح ٹیکنالوجی نے زندگی کے ہر شعبے میں انقلاب برپا کر رکھی ہے۔

اگر ایک دن میں پورے پاکستان میں الیکٹرانک مشین کے ذریعے الیکشن منعقد کرنے کا سوال ہو۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔کہ یہ ایک مشکل کام ہوگا، کہ ایک ہی دن پورے پاکستان میں الیکشن منعقد ہوسکے ۔لیکن اگر مرحلہ وار بھی ہوجائے تو اس میں کوئی قباحت نہیں ۔رہی بات اپوزیشن کی تو اپوزیشن کا کام ہی گورنمنٹ کو ٹف ٹائم دینا ہوتا ہے،بہت کم ایسے کام ہوتے ہیں کہ دونوں متفق ہوں۔اس میں کچھ سیاستدان ڈرے ہوئے ہیں،کہیں الیکٹرانک ووٹنگ مشین ان کا کام ہی تمام نہ کردے۔اندرونی سندھ سے لے کر جنوبی پنجاب سے ہوتے ہوئے بلوچستان اور کے پی کے کچھ علاقوں میں ووٹنگ شفاف ہوتے ہیں یہ صرف بات کی حد تک درست ہے۔یہ واقع میں ان لوگوں کیلئے ہضم کرنا مشکل ہوگا۔باقی کچھ ہمارے دوستوں نے رٹ لگا رکھی ہے۔کہ اسکو ہیگ کیا جاسکتا ہے۔جب تک کوئی چیز انٹرنیٹ سے ربط میں نہ ہو تو اسکو ہیک کرنا کوئی آسان کام نہیں۔یہ پاکستانی آئی ٹی سپیشلسٹ کا اپنا بنایا ہوا مشین ہے۔جسکا انٹرنیٹ سے کوئی کام ہی نہیں ہے۔اور ساتھ ساتھ تھرڈ پارٹی ویریفائڈ مشین ہے

دنیا کے جن ممالک میں ووٹنگ کیلئے ٹیکنالوجی استعمال ہوتی ہے۔ان میں اسٹونیا 2005 سے،نمیبیا میں 2014سے، انڈیا میں 1998 سے، فلپائن میں 2010سے، برازیل میں 2000 سے، منگولیا 2010 سے، امریکا 1960 سے، کرغزستان میں ،عراق 2018 سے باقاعدگی سے الیکشن میں استعمال ہوتے ہیں۔جن ممالک میں جزوی طور پر استعمال ہوتے ہیں ،ان میں کینیڈا، بیلجیئم، فرانس، روس ،ایران اور ارجنٹینا شامل ہیں ۔اب جن ممالک میں ازمائش میں ہیں ان میں انڈونیشیا، بنگلہ دیش، بلغاریہ اور ناروے شامل ہیں ۔اب جن ممالک میں ان مشین کو استعمال کرنا چھوڑ دیا ہیں ان میں ائیر لینڈ ،پیراگوئے، نیدرلینڈز، جرمنی شامل ہیں۔جن ممالک نے استعمال کرنا چھوڑ دیا ہیں ان میں کہیں بھی دھندلی یا ہیک کا کی ڈر سے ختم کئے، کہیں بھی ثابت نہیں ہوئے۔جرمنی میں کورٹ نے اس سسٹم کو معطل کئے رکھا ہے۔باقی اگر دیکھے جائے تو دنیا کے ترقی پذیر ممالک الیکٹرانک ووٹنگ کی طرف آرہے ہیں ۔آخرکار یہ ایک حقیقت ہے کہ ہم ٹیکنالوجی سے انکار نہیں کرسکتے ہیں۔اس میں خامیاں ہوسکتے ہیں۔لیکن وہ آپس میں مل کر ہی دور کیا جاسکتا ہے۔ارتقا کے عمل سے ہی ہر چیز میں پختگی ممکن ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ خان صاحب نے سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دے کر ان سے کیا ہوا وعدہ پورا کیا۔جوکہ ایک نیک شگون کام ہے۔اس چیز سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ہے ،کہ سمندر پار پاکستانیوں کا اس ملک کی ترقی اور خوشحالی میں خاطرخواہ حصہ شامل ہیں۔سمندر پار پاکستانی دن رات محنت کرکے خاطیر رقم ڈالر کی صورت میں بھیجتے ہیں۔جو ملک کی اکانومی کو بحال رکھنے میں اہم کردار ادا رہے ہیں۔پچھلے مالی سال میں سمندر پار پاکستانیوں نے خاطیر 2۔24 بلیں ڈالر بھیجے جو ملک کی بیلنس آف پیمنٹ برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔پاکستان جیسے ملک جسکی ایکسپورٹ مشکل سے 4۔28 بلیں ڈالرز ہوں،اور امپورٹ 50 بلین ڈالرز ہوں،تو خدانخواستہ اگر ہمارے سمندر پاکستانی یہ خاطیر رقم نہ بھیجتے ۔تو آپ خود اندازہ لگالیں ہمارے اکانومی کا کیا حال ہونا تھا۔بتانے کا مطلب خان صاحب نے سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دے کر کوئی احسان نہیں کیا بلکہ ان کا ہمارے اوپر احسان کا بوجھ تھوڑا ہلکا ہوگا۔
تیسری بات گلبھوش کا معاملہ ہے۔جو کہ اس وقت انڈیا کی طرف سے انٹر نیشنل کورٹ آف جسٹس میں لے جایاگیا تھا۔ انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس نے دونوں فریقین انڈیا اور پاکستانی وکلاء کے پینل کو سننے کے بعد ریمارکس میں پاکستان کے موقف کو تسلیم کیا تھا اور ساتھ ساتھ پاکستان کوکچھ ریکامینڈیشن دئے تھے کہ وہ گلبھوشن کو سفارتی رسائی دے دیں۔انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس اقوام متحدہ کا ایک ذیلی ادارہ ہے۔ایک ذمہ دار ممبر کی ممبر کی حیثیت سے ہم ان کے ریکامینڈیشن ماننے کے پابند ہیں۔ورنہ انڈیا ہمارے خلاف اسکو ایک آلہ کے طور پر استعمال کر سکتی ہے۔سفارتی رسائی کا مطلب کھبی بھی یہ نہیں کہ انکو رہا کیا جائگا۔سفارتی رسائی کا مطلب ان کے ملک کے سفارت کا ان سے ملاقات کر سکیں گے۔باقی وہ ایک سزا یافتہ ملزم ہے۔

عجلت ہی صحیح ملک میں ریفارم کی طرف پہلا قدم اٹھایاگیا ہے۔ مستقل قریب میں مختلف ڈیپارٹمنٹس میں ریفارمز سے فائدہ صرف عوام کو ہی ہوگا۔جس طرح الیکشن کے مشکل ترین مراحل کو ایک آنگوٹھے کی کلیک کے ذرائع آسان بنایا گیا ہے۔اسی طرح مستقبل میں عدالتی نظام ،صحت کے نظام ،تعلیم کے نظام،پولیس کے نظام اور دوسرے اداروں میں جدید دنیا کے ضروریات کے مطابق ریفارمز کے ذریعے عوام کے لئے مزید آسانیاں پیدا ہونگے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
55367

سراپا درد ہوں حسرت بھری ہے داستاں میری – قادر خان یوسف زئی

ہر نیا دن پاکستانی عوام کے لئے تازہ امتحان کا پیغام لے کر آتا ہے، ایسی آزمائش جو اسے موت و حیات کی ہولناک کشمکش میں گرفتار کردیتی ہے، وہ مصیبت جہاں دوائیں بے اثر ہوجاتی ہیں، زبان خاموش، لب بند، آنسوئوں سے لبریز آنکھیں چاروں طرف سے بے یقینی و بے اطمینانی پر آسمان کی طرف اٹھ جاتی ہیں۔ قوموں کے عروج و زوال کی داستانیں ہوں یا ہلاکت و بربادی کے عبرت انگیز قصے، یا خفیہ سرگوشیاں، جن کے منکشف ہونے سے ہم سب بخوبی واقف ہیں، قیام پاکستان سے لے کر حال تک غلامی کی مختلف اقسام کی پریشان حالی کے دردناک کوائف سے ہم آگاہ ہیں، عوام نے ان سب کو سنا، دیکھا نہیں لیکن، کچھ دیکھا بھی تو انہوں نے وہ سب کچھ بھلادیا جو سنا تھا کہ بالآخر:
شنیدہ کے بود مانند دیدہ


تاریخ سے متعلق سنا تھا کہ ہم نے ایک گرجتا، بپھرتا، امڈتا، سونامی آتا دیکھا کہ سیلاب آیا اور قوم کی قوم کو بہا لے گیا، شب تاریک کو سوتے میں ہیبت انگیز طوفان بادوباراں نے چاروں طرف سے گھیرا اور جب صبح کاذب میں اٹھ کر دیکھا کہ آبادیاں یوں ویرانے بن چکی تھیں کہ آندھی آئی اور ایک ثانیہ میں فنا کرکے چل دی، قصہ ختم ہوا، مصیبت کٹ گئی، قوم مٹ گئی، اس کی جگہ دوسری قوم نے لے لی، لیکن ایک عذاب یہ ہے کہ عوام ذلت و رسوائی، بے کسی و بے بسی، غلامی و محکومی، افلاس و بے چارگی، انتشار کی لعنت میں گرفتاری سے اب تک آزاد نہ ہوسکے اور اپنے تڑپنے کا تماشا اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں، نہ زندگی نصیب ہوتی ہے نہ موت آتی ہے، یہ امتحاں تمام امتحانات سے سخت اور یہ آزمائش تمام آزمائشوں سے زیادہ جانکاہ ہے۔
یہ سسک سسک کے مرنا غم ہجر میں بلا ہے
کوئی ظلم مجھ پہ ہوتا، مگر ایک بار ہوتا


چند خاندانوں نے اپنی تمام رسوائیوں کے ساتھ دولت کے انبار جمع کر رکھے ہیں تو کچھ طاقتور اقربا کے بتاں سے کچھ ایسے محسور ہوئے کہ جیسے وہ بڑی بڑی قوموں کو بھی اپنا دستِ نگر رکھ سکتے ہوں۔ عوام کی آشفتہ حالی کا اس پر بھی یہ عالم ہے کہ ایں سوراندہ و آن سو درماندہ۔ تمام عمر تبدیلی کے پیمانوں اور سیاسی نعروں کی صحرا نوردیوں میں کٹ گئی اور آج بھی اس وسیع و عریض زمین پر اپنے مسائل کا حل اور سر چھپانے کی چھت نہ مل سکی، بایں ہمہ بھوک اور افلاس کا عذاب تو نہ تھا، جس عذاب کا ذکر ہورہا ہے وہاں تو دنیا بھر کی رسوائیوں اور تباہیوں کے ساتھ محتاجی اور مفلسی کی لعنت بھی مسلط ہے، اس لئے ہم فقیدالمثال عبرت کا نشاں اور ہمارے مصائب بے نظیر ہیں۔ اور حقیقت بھی یہ ہے کہ جو جتنی بلندی سے گرے، اُتنا ہی زیادہ چُور چُور ہو، شکستگی و ریختگی بقدر اوج و رفعت ہوتی ہے۔


افراتفری کا یہ عالم کہ دولت لوٹی، عزت بٹی، شیرازہ بکھرا، اجتماعیت گئی اور بدحالی یہ کہ ہمیشہ کی طرح انصاف کی دیوی اندھی کے ساتھ گونگی اور بہری بھی بنی رہی۔ انصاف کی ایسی درگت کے تمام اعمال رائیگاں اور ہر کوشش بیکار جارہی ہے،ان گنت تجربات درد کی طرح اٹھے، ہزاروں کوششیں صد بہار آغوش ابھریں اور برگِ خزاں دیدہ کی طرح مرجھا کر مٹ گئیں، ایوانوںکے مناظر دیکھتے دیکھتے ہر قدم منزل سے دُور لے جاتا گیا، ہر جنبش ساحل سے پردہ ہٹاتی گئی، قانون کو کٹھ پتلی بنادیا گیا، غلام کی غلامی کی زنجیریں اور زیادہ مضبوط ہوتی گئیں، مخالف کی قوت ان کی مانوس حرکت کے سبب بربادی کے لئے ہجوم کرکے بڑھتی رہی اور خود انہی کے ہاتھوں انہیں تباہ کراتی رہی، توبہ توبہ، غضب اور ایسا اندوہ غضب، گرفت اور ایسی سخت گرفت۔
ٹپک اے شمع آنسو بن کے پروانے کی آنکھوں سے
سراپا درد ہوں حسرت بھری ہے داستاں میری


ہم جمہوریت کے نام پر کس کس طرح کٹے اور کس کس انداز سے مٹے، یہ حدیث الم دراز اور فسانہ غم طویل ہے، اسی بکھرے ہوئے قافلے اور لٹے ہوئے کارواں کی آخری یادگار مشترکہ شوریٰ کا ایوان بنا، جن سے کبھی کچھ کچھ امیدیں وابستہ ہورہی تھیں، بالآخر وہ بھی باقی نہ رہی۔
صبح تک وہ بھی نہ چھوڑی تُو نے اے بادِ صبا
یادگارِ رونقِ محفل پروانے کی خاک


سیاست کے سُرخیلوں کو یہی مشورہ ہے کہ کچھ دنوں کے لئے اعتکاف کریں، جس میں اپنے ضمیر کا تزکیہ نفس کرسکیں، وہاں اپنی جماعت کے صحیح مقاصد کی وضاحت سے ان غلط فہمیوں کو دور کریں جو ان کی طرف سے پاکستانی عوام میں پیدا ہوگئی ہیں، میں نہیں سمجھتا کہ اگر ہم سنجیدہ ہوجائیں تو کوئی عظیم الشان خطرہ درپیش ہوگا، گو عوام کو اب یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اتنا بھی دریافت کرسکیں کہ وہ کون سے قابل اعتماد ذرائع تھے، جن سے اربابِ اختیار کو معلوم ہوگیا، کچھ کیا جانا ضروری ہے کہ جو کچھ کیا گیا وہ وقت کا نازک ترین سوال بن جائے گا، ہر ممکن تدبیر کی جارہی ہے کہ کسی قسم کی مزاحمت نہ ہونے پائے، لیکن یہ سب قطعاً انفرادی نہیں بلکہ یہ سب کچھ مدت سے ہورہا ہے، اس کے لئے منظم طریقِ عمل اختیار کیا جاتا ہے۔
میری بگڑی ہوئی تقدیر کو روتی ہے گویائی
میں حرف زیرِ لب شرمندۂ گوشِ سماعت ہوں

Posted in تازہ ترین, مضامین
55360

داد بیداد ۔ آدھا گلا س مسئلہ ہے ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

استاد کی عمر 76بر س ہے شاگرد 32بر س کا ہے استاد نے کار ل مارکس کو 1968ء میں پڑھا تھا شاگرد نے 2010میں کار ل مارکس کو پڑھا، چی گویرا کو اپنا آئیڈیل بنا یا پھر لینن اور ما زو ے تنگ سے لیکر فیدل کا سترو تک ہر سامراج دشمن کو اپنا آئیڈیل قرار دیا ایک بڑے ادارے میں اہم عہدے پر فائز ہے استاد کے ساتھ اکثر بحث و تکر ار کی نوبت آتی ہے جب پا کستا نی سو سائٹی، ملکی سیا ست اور معیشت کا ذکر آتا ہے تو شاگرد کا پارہ چڑھ جا تا ہے استاد کہتا ہے زندگی اعتدال کا نا م ہے، اعتدال سے جو ہٹ گیا زندگی کی لذت سے محروم ہوا، شاگرد کہتا ہے یہ بھی کوئی زندگی ہے ایک شخص کار خا نے کا ما لک ہے.

دوسرا شخص اسی کار خا نے میں مزدوری کر تا ہے مہینے کے آخر میں ما لک 2ارب روپے کما تا ہے مزدور کو 20ہزار روپے ملتے ہیں یہ بھی کوئی زندگی ہے ایک شخص افسر ہے اُس کو گاڑی ملی ہے ڈرائیور ملا ہے، سجا سجا یا گھر ملا ہے دوسرا شخص دربان ہے وہ سائیکل پر دفتر آتا ہے یہ بھلا کونسی زندیگ ہے؟ استاد کہتا ہے کتا بی دنیا سے با ہر آجا وگے تو تمہا را واسطہ عملی دنیا سے پڑے گا عملی دنیا میں سر ما یہ دار اور افیسر کی بھی ضرورت ہے، جج اور جرنیل کی بھی ضرورت ہے، مزدور، ڈرائیور اور در بان کی بھی ضرورت ہے سب کو مزدور بنا و گے تو انتظام اور اہتما م کون کرے گا؟ سب کو سر ما یہ دار بنا و گے تو راج، مزدوراور مستری کہاں سے لاؤ گے؟ شاگرد نہیں مانتا وہ کہتا ہے شہر کی بڑی عما رتیں چند لو گوں کی ملکیت کیوں ہیں؟ ملک کی زمینوں پر چند خا ندانوں کا قبضہ کیوں ہے؟

استاد کہتا ہے یہ فطرت کا اصول ہے لینن اور سٹا لن نے اس اصول کی نفی کی تو لوگ قحط سے دوچار ہوئے گور با چوف کو 70سال بعد فطرت کے اصولوں کی طرف رجوع کر کے ملک کو بچا نا پڑا ماؤ اور فید ل کا سترو نے فطرت کے اصو لوں سے انحراف نہیں کیا ان کا نظام بدلتے حا لات کے ساتھ خود بخود بدلتا رہا یہ فطرت کا اصول ہے کہ اعتدال دیر پا ہو تا ہے افراط و تفریط کی عمر مختصر ہو تی ہے شاگرد نے عالمی ادب کا مطا لعہ ایک مخصوص عینک کے ساتھ کیا ہے اس لئے وہ ”ففتھ جنریشن وار“ جیسے جدید نظریات کا قائل نہیں وہ اس بات کا بھی قائل نہیں کہ دشمن نے ملک کو نقصان پہنچا نے اور قومی وحدت کو کمزور کرنے کے لئے مختلف گروہوں کے در میان نفرت کی دیوار یں حا ئل کر رکھی ہے شاگر د کی نظر میں آدھا گلا سی خا لی ہی ہو تا ہے.

وہ نہیں ما نتا کہ دشمن نے نفرت کی دیوار حا ئل کر کے کا لج اور یو نیور سٹی والوں کو مسجد اور مدرسہ والوں سے دور کر دیا، قانون دانوں اور ججوں میں نفرت کی دیوار حا ئل کر دی، سیا ست دانوں کو صحا فیوں سے بد ظن کر دیا مفتی والوں کو خا کی والوں سے دور کر دیا کوچہ وبازار میں ڈاکٹر وں، انجینروں، اعلیٰ انتظا می افیسروں، سرما یہ داروں اور جا گیر داروں کے خلا نفرت آمیز گفتگو کی داغ بیل ڈال دی ”مسٹر“ کو مو لا نا کے مقا بلے پر کمر بستہ کیا اور مولانا کو ”مسٹر“ کے خلاف صف اراء کر دیا استاد کو پس منظر کی یہ کاروائیاں نظر آتی ہیں مگر شاگرد کو نظر نہیں آتیں وہ آئیڈیل کی تلا ش میں سب کچھ داؤ پر لگانے کو تیا ر ہے کیونکہ اُس نے انقلا بی لٹریچر پڑھا ہے مذاق تھوڑی ہے استاد اور شاگرد کے درمیاں خیالات کی یہ کشمکش آج کل گھر گھر کی کہا نی ہے لیڈروں کے بیا نات اور سیا سی افراتفری سے اس کشمکش میں روز بروز اضا فہ ہو رہا ہے اس کشمکش کا بنیا دی مسئلہ آدھا گلا س ہے آدھا گلا س خا لی کی جگہ پر نظر آئے تو کشمکش ختم ہو گی۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
55307

دسمبر سے پہلے ہی بجلی کی غیراعلانیہ لوڈشیڈنگ افسوسناک ہے۔ پرویز لال تحریک حقوق اپر چترال

آج سے سات سال پہلے ریشن میں واقع بجلی گھر سیلاب میں بہہ جانے سے اپر چترال تین سالوں تک مکمل طور پر تاریکی میں ڈوبا رہا۔ اخر کار 2017 کو گولین گول بجلی گھر سے بجلی کی ترسیل شروع ہوئی تو یہاں کے عوام نے سکھ کا سانس لیا اور اللہ کا شکر ادا کیا کہ اب ہمارے علاقے میں بجلی کی قلت ہمیشہ کے لئے ختم ہوجائے گی مگر ان کی امیدوں پر اسوقت پانی پھیر گیا جب اسی سال ہی سردیوں میں بدترین لوڈ شیڈنگ کا سلسلہ پھر سے شروع کیا گیا۔ تحریک حقوق عوام نے کئی احتجاجی مظاہرے کئے تو واپڈا حکام نے موقف اپنایا کہ سردیوں میں بجلی کی پیداوار 108 میگاواٹ سے کم ہوکر 8 میگاواٹ رہ جاتی ہے جو کہ چترال کی ضروریات سے کم ہے اسلئے لوڈشیڈنگ کرنی پڑتی ہے۔ اس پر تحریک حقوق عوام نے اربوں روپے کے پراجیکٹ کی ناقص ڈیزائننگ کرنے والے انجینئرز اور ذمہ داروں کے خلاف انکوائری کرکے انکو سخت سزائیں دینے کا بارہا مطالبہ کیا مگر تاحال ان جعلی انجینئرز کے خلاف کوئی انکوائری نہیں ہوئی۔ پچھلے سال سردیوں میں اپر چترال میں لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ 20 گھنٹے تک بڑھائی گئی  


ریشن بجلی گھر کی دوبارہ مرمت کرکے پچھلے مہینے بجلی کی ترسیل شروع ہوگئی تھی۔ بتایا گیا کہ مذکورہ بجلی گھر کی پیدوار پوری اپر چترال کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے ناکافی ہے اسلئے بیار (ریشن سے کارگن تک علاقوں) کو ریشن بجلی گھر سے بجلی فراہم کی جائیگی۔ اس طرح بیار کی ٹرانسمشن لائن ریشن کے مقام پر علحیدہ کردی گئ اور ریشن سے کارگن تک علاقوں کو گولین گول بجلی گھر سے منقطع کرکے ریشن بجلی گھر پر منتقل کر دیا۔ اسی طرح تحصیل تورکہو اور مڑکہو کو گولین گول بجلی گھر سے ہی بجلی کی ترسیل جاری ہے۔۔                        


  ریشن بجلی گھر سے بجلی کی ترسیل ایک مہینے تک بلا تعطل کے جاری رہی مگر کچھ دنوں سے پچھلے سالوں کی طرح غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کا سلسلہ پھر سے شروع ہو چکا ہے۔ اج پاور ہاؤس حکام سے رابطہ کرنے پر معلوم ہوا کہ مذکورہ بجلی گھر کی پیدوار ریشن سے کارگن تک کے علاقوں کیلئے نا کافی ہے اور لوڈ شیڈنگ کرنا پڑ رہا ہے۔ ابھی تو نومبر کا مہینہ بھی ختم نہیں ہوا ہے دسمبر، جنوری اور فروری کے مہینے میں کتنی لوڈ شیڈنگ ہوگی یہ آپ سب جانتے ہیں۔بس اب بہت ہوگیا! ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں کہ فلاں بجلی گھر کی پیدوار زیادہ ہے اور فلاں کی کم


۔ ہمیں بجلی چائیے بلا تعطل کے۔ اب ہم مزید ظلم برداشت کرنے کیلئے بلکل تیار نہیں ہیں۔ میں پیڈوحکام، واپڈا حکام، حکومت اور انتظامیہ سے بھرپور مطالبہ کرتا ہوں کہ لوڈ شیڈنگ کو بند کرکے بجلی کی بلا تعطل  ترسیل کو یقینی بنائیں بصورت دیگر ہم عوام کو لیکر سڑکوں پر نکلنے کیلئے ہمہ وقت تیار ہیں۔ ہم اپنے جائز حقوق کی حصول کیلئے آخری حد تک جانے سے دریغ نہیں کریں گے۔                      

پرویز لال انفارمیشن سیکریٹری تحریک حقوق اپر چترال

Posted in تازہ ترین, خطوط, مضامینTagged
55288

چترال یونیورسٹی کے مرکزی کیمپس کی تعمیر-(تحریر: ڈاکٹر ظہیر الدین بہرام)

چترال میں یونیورسٹی کا قیام اور اس  کے لیے باقاعدہ کیمپس کی تعمیر علاقے کے لوگوں کا دیرینہ خواب ہے۔ یونیورسٹی کے قیام کا اعلان اور ایک پروجیکٹ کے طور اس کے سرگرمیوں کا آغاز چند سال قبل کیا گیا  تھا۔ اب باقاعدہ طور پر یونیورسٹی کا چارٹر صوبائی اسمبلی سے پاس ہو  چکا ہے اور صوبائی گورنر بحیثیت چانسلر اس کے قیام کی منظوری دے چکے ہیں نیز پروجیکٹ ڈائریکٹر کی جگہ وائس چانسلر کی تقرری بھی عمل میں لائی گئی ہے تاہم یونیورسٹی کے لیے باقاعدہ کیمپس  بنانے کا منصوبہ ابھی تک عملی جامہ پہنانے کا منتظر ہے۔ اس حوالے سے کوششیں جاری ہیں اور منصوبے پر کام ہو رہا ہے مگر عام لوگوں کے نزدیک اس کی رفتار تسلی بخش نہیں۔ جب سے چترال یونیورسٹی کے مرکزی  کیمپس کی تعمیر  کی باتیں ہو رہی ہیں اس وقت سے اس کے بارے میں بعض نادان دوستوں کی طرف سے یک طرفہ  مہم چلائی جا رہی ہے اور اپنے موقف کو درست ثابت کرنے کے لیے  یونیورسٹی کی تعمیر اور اس سے متعلق دیگر  امور کے  حوالے سے حقائق کو مسخ کرنے سے بھی  دریغ نہیں کیا جاتا  ہےجسے اس یونیورسٹی کے خلاف سازش کرنے کے علاوہ کوئی نام نہیں دیا جا سکتا۔ یونیورسٹی کی تعمیر ایک سنجیدہ اجتماعی کام ہے اس لیے اس حوالے سے غیر جانبدارانہ تجزیہ کرنے اور  غیر متنازعہ موقف سامنے لانے  کے ساتھ ساتھ اس کے تمام پہلؤوں کا گہرائی سے جائزہ لینے اور کسی موقف کے بارے میں حتمی رائے قائم کیے بغیر دیانتدارانہ رائے دینے کی ضرورت ہے۔ اس مختصر تحریر میں اس مسئلے کے تمام پہلؤوں کا کما حقہ جائزہ لینا ممکن نہیں تاہم قارئین کی معلومات کو درست کرنے کی غرض سے کچھ اہم امور کی نشاندہی کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

پس منظر:

چترال کا خطہ صوبائی اور مرکزی دار الحکومت اور بڑے شہروں سے دور ہندوکش کے دشوار گزار  پہاڑی سلسلے میں موجود ایک الگ تھلگ اور دور افتادہ علاقہ ہے جو  قیام پاکستان سے قبل اس خطے کی ایک بڑی ریاست تھی۔  قیام پاکستان کے بعد یہ دو اضلاع  یعنی ضلع چترال اور ضلع مستوج پر مشتمل الحاق شدہ ریاست کے طور پر پاکستان کا حصہ رہی،  جسے  1969ء میں پاٹا ریگولیشن کے تحت صوبائی انتظام کے تحت قبائلی علاقے (Provincially Administrated Tribal Area)  کے طور پر اس وقت کے شمال مغربی سرحدی صوبے کا  ایک ضلع بنایا گیا۔ حالیہ حکومت کے دور میں اسے ایک بار پھر  دو اضلاع یعنی زیرین اور بالائی چترال میں تقسیم کیا گیا  ہے۔

تعلیم کے اعتبار سے چترال بڑا زرخیز خطہ مانا جاتا ہے اور یہاں کی شرح تعلیم صوبے کے کئی شہری اور ترقی یافتہ علاقوں کی نسبت بہت اچھی ہے نیز یہاں کے باسی صوبائی، ملکی اور عالمی سطح پر تعلیم سمیت  کئی شعبوں میں نمایاں مقام کے حامل ہیں۔  تاہم دور افتادہ ہونے کی وجہ سے یہاں پر اعلی تعلیم کے حوالے سے بہت مسائل رہے ہیں جس کے پیش نظر یہاں یونیورسٹی کے قیام کا مطالبہ ایک عرصے سے کیا جا رہا تھا۔ انہی مطالبات کے نتیجے میں ابتدائی طور پر یہاں عبد الولی خان یونیورسٹی مردان اور بے نظیر بھٹو یونیورسٹی شرینگل کے علاقائی کیمپس قائم کیے گئے۔  چند سال قبل چترال یونیورسٹی کے پروجیکٹ اور پھر  باقاعدہ یونیورسٹی کے قیام  کے فیصلے کے بعد مذکورہ بالا  دونوں یونیورسٹیوں کے علاقائی مراکز کو ان کے طلبہ اور املاک کے ساتھ اس میں ضم کیا گیا۔ اس وقت سین لشٹ میں واقع عبد الولی خان یونیورسٹی مردان کے علاقائی مرکز کو (جو بنیادی طور پر فنی تعلیم  کے ایک ادارےکی عمارت میں قائم تھا) چترال یونیورسٹی کا موقت (Temporary)  کیمپس بنایا گیا۔ چترال یونیورسٹی کی مستقل عمارت اور مرکزی کیمپس کی تعمیر  کے لیے منصوبے بنتے رہے اور کوششیں جاری رہیں۔

چترال یونیورسٹی اور ضلعی انتظامیہ کے ذمہ داران کے نزدیک موجودہ موقت کیمپس سے متصل سین لشٹ کا مقام مرکزی  کیمپس کی تعمیر  کے لیے  اولین ترجیح رہی ہے جو اپنے محل وقوع کے اعتبار سے بہت مناسب سمجھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ سید آباد (اسپاغلشٹ) کے مقام پر شرینگل یونیورسٹی کے علاقائی کیمپس کے لیے اُس وقت کی خریدی ہوئی زمین (جو فی الوقت چترال یونیورسٹی کی ملکیت ہے)  پر کیمپس بنانے کی تجویز بھی زیر غور رہا ہے لیکن ابھی تک اس حوالے سے کوئی حتمی فیصلہ سامنے نہیں آیا ۔ تاہم اس دوران کچھ لوگوں کی طرف سے سید آباد میں کیمپس بنانے کے لیے مہم شروع کی گئی اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ یہاں کیمپس بنانے کا فیصلہ کیا گیا تھا جسے اس وقت کے پروجیکٹ ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر بادشاہ منیر بخاری صاحب نے ذاتی مفادات کے تحت تبدیل کرکے سین لشٹ میں ہی کیمپس بنانے کا منصوبہ بنایا تھا۔ یاد رہے کہ چترال یونیورسٹی اور خصوصا سین لشٹ کیمپس کے خلاف مہم چلانے والے احباب نہ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں کام کرنے کا تجربہ رکھتے ہیں اور نہ ہی تعمیراتی کاموں اور معاشرتی علوم کے ماہرین میں شمار ہوتے ہیں۔   بعض لوگوں کی طرف سے چترال یونیورسٹی کا مین کیمپس بالائی چترال میں واقع قاقلشٹ کے مقام پر تعمیر کرنے کی تجویز بھی سامنے آئی ہے۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ رائے رکھنا یا مطالبہ کرنا اپنی جگہ لیکن نہ تو   کیمپس  قاقلشٹ میں بنانے کے لیے بالائی چترال والوں کی طرف سے کوئی مہم چلائی گئی ، نہ ہی سین لشٹ کے موقت کیمپس کو مستقل کیمپس بنانے کے لیے چترال ٹاؤن اور اس کے مضافات خصوصا سین لشٹ کے قریبی علاقوں کے مکینوں کی طرف سے کوئی پھرتی دکھانے کی کوشش کی گئی ہے اور نہ ہی ان دونوں موقف والوں کی طرف سے یونیورسٹی اور ضلعی انتظامیہ کے فیصلوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی گئی ہے۔  

اب جبکہ یونیورسٹی کا باقاعدہ قیام عمل میں لایا گیا ہے  اور اس کے لیے وائس چانسلر کی تعیناتی بھی ہو  چکی ہے تو مین کیمپس کی تعمیر کی ضرورت شدت سے محسوس کی جا رہی ہے اور اس کا مطالبہ بھی روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔  چند دن قبل یونیوورسٹی کا مین کیمپس سین لشٹ میں بنانے کے مبینہ سرکاری اعلان کے بعد سید آباد میں کیمپس قائم کرنے کے خواہشمند  عناصر نے ایک مرتبہ پھر واویلا شروع کیا ہے اور مختلف قسم کی بے سر و پا دلیلیں پیش کرکے اس حوالے سے رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ذیلی سطور میں کیمپس کی تعمیر کے بارے میں  تمام تجاویز اور امکانات کا غیر جانبدارانہ کا جائزہ پیش کیا جائے گا۔

سید آباد میں کیمپس بنانے کی تجویز:

چترال شہر سے جنوب کی طرف تیس پینتیس کلومیٹر کی مسافت پر واقع نسبتا غیر آباد گاؤں سید آباد (سابقہ اسپاغلشٹ)  میں بے نظیر بھٹو یونیورسٹی شرینگل کے علاقائی کیمپس کے لیے تقریبا  ایک سو ساٹھ کنال زمین خریدی گئی تھی جو چترال یونیورسٹی کے قیام کے بعد اس کی ملکیت بن چکی ہے۔سید آباد  کے قریبی گاؤں ایون اور جنوبی تحصیل دروش کے بعض افراد کی طرف سے چترال یونیورسٹی کا مین کیمپس یہاں بنانے کے لیے سوشل اور پرنٹ میڈیا میں مہم کافی عرصے سے چلائی جا رہی ہے۔ اس تجویز اور مطالبے کے حق اور مخالفت میں پیش  کیے جانے والی نکات حسبِ ذیل ہیں:

سید آباد کیمپس کے حق میں پیش کیے جانے والی نکات:

  1. چترال دیر  کے مرکزی شاہراہ پر واقع ہونے کی وجہ سے یہاں پہنچنے میں آسانی ہوگی۔
  2. اس مقام پر کافی  مقدار میں زمین موجود ہے جو نسبتا غیر آباد ہونے کی وجہ سے  بغیر کسی  رکاوٹ کے یونیورسٹی کی تعمیر اور توسیع کے لیے استعمال کی جا سکتی ہے یوں یہ مستقبل میں ایک مکمل تعلیمی شہر بن سکتا ہے۔
  3. یہ یونیورسٹی چونکہ زیرین چترال کے لیے بنائی گئی ہے لہذا زیرین چترال کے دو بڑے شہروں یعنی چترال اور دروش کے تقریبا وسط میں واقع ہونے کی وجہ سے تمام علاقوں کے لوگ اس سے یکسان مستفید ہو سکتے ہیں۔

سید آباد کیمپس کی مخالفت میں پیش کیے جانے والی نکات:

  1. چترال کے شہری آبادی اور گنجان آباد علاقوں سے بہت دور واقع ہونے کی وجہ سے یونیورسٹی سے وابستہ لوگوں (طلبہ، اساتذہ اور ملازمین) کو سید آباد  پہنچنے میں بڑی دقت ہوگی۔ یونیورسٹی ابتدائی مراحل میں ہونے کی وجہ سے لوگوں کے نقل و حمل (ٹرانسپورٹ) کا خاطر خواہ انتظام نہیں کر سکتی اس لیے لوگ لا محالہ پبلک ٹرانسپورٹ اور ٹیکسی گاڑیوں کے ڈرائیوروں کے رحم و کرم پر ہوں گے جن کا استحصالی ذہن اور غیر متعاون رویہ سب کو معلوم ہے۔
  2. بنیادی ضروریات اور شہری سہولیات کے فقدان کی وجہ سے یونیورسٹی والوں کو بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
  3. قریب میں کوئی بازار یا مارکیٹ نہ ہونے کی وجہ سے بنیادی ضروریات کے سامان اور لازمی  اشیائے صرف کے لیے چترال یا دروش شہر جانا پڑے گا۔
  4. قریبی علاقوں میں رہائشی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے یہاں ہوسٹل اور رہائشی کالونیوں کی تعمیر تک (جس میں کئی سال لگ سکتے ہیں) طلبہ، اساتذہ اور ملازمین کی اکثریت کو چترال شہر  اور دیگر علاقوں سے روزانہ آنے اور جانے کا بندوبست کرنا پڑے پر خطیر رقم اور قیمتی وقت صرف ہونا یقینی امر ہے۔
  5. پہاڑ عین نیچے واقع ہونے کی وجہ سے زیادہ بارشوں اور زلزلوں کے دوران یہاں پہاڑ سے پتھر اور مٹی کے تودے گرنے کے خدشات موجود ہیں۔ اس جگہ پہاڑ سے گرے ہوئے بڑے بڑے پتھروں کی موجودگی بلکہ بہتات ان خدشات کو تقویت دیتا ہے۔
  6. محفوظ اور ہموار زمین کی قلت کی وجہ سے سید آباد یونیورسٹی کے مرکزی کیمپس کے لیے مناسب نہیں۔

قاقلشٹ میں کیمپس بنانے کی تجویز:

کچھ  لوگوں خصوصا بالائی چترال ضلعے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا خیال ہے کہ چترا ل یونیورسٹی دونوں اضلاع کی واحد یونیورسٹی ہونے کی وجہ سے اس کی تعمیر میں بالائی چترال کو بھی مدِ نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس لیے بالائی چترال میں موجود بڑے مقدار کا غیر آباد علاقہ قاقلشٹ یونیورسٹی کے کیمپس کے لیے بہت موزون ہے۔

قاقلشٹ کیمپس کے حق میں پیش کیے جانے والی نکات:

  1. قاقلشٹ کے غیر آباد علاقے میں وافر مقدار میں زمین موجود ہے جو یونیورسٹی اور اس سے متعلق دیگر ضروریات کو لمبے عرصے تک پورا کرنےکی صلاحیت رکھتی ہے۔ مستقبل میں ایک مکمل تعلیمی شہر بنانے خواب یہی مقام پورا  کر سکتا ہے۔
  2. بالائی چترال کے تمام علاقوں کے ساتھ ساتھ زیرین چترال کے لوگ بھی اس سے استفادہ کر سکتے ہیں۔
  3. ورشگوم (گلگت کا ضلع غذر جو لمبے عرصے تک ریاست چترال کا حصہ رہا ہے اور وہاں کے باشندے بھی کھوار زبان بولتے ہیں) کے لوگ بھی چترال یونیورسٹی کے قاقلشٹ کیمپس  سے استفادہ کر سکتے ہیں۔

قاقلشٹ کیمپس کی مخالفت  میں پیش کیے جانے والی نکات:

  1. قاقلشٹ چترال شہر (جو عرصہ دراز سے پورے چترال کا مرکز رہا ہے) اور اکثریتی آبادی والے زیرین چترال کے علاقوں  سے بہت دور اور رسائی کے اعتبار سے مشکل علاقہ ہے۔ وہاں چترال کی (فی الوقت) واحد یونیورسٹی کا  کیمپس بنانا زیرین چترال کی بڑی آبادی کے ساتھ زیادتی کے مترادف ہے۔
  2. قاقلشٹ بالائی چترال کے تمام علاقوں کے لیے موزوں ہو سکتا ہے لیکن پورے چترال اور خصوصا زیرین چترال کے لوگوں کے لیے قطعا  موزوں نہیں۔
  3. بالائی چترال سے تعلق رکھنے والے لوگ بڑی تعداد میں زیرین چترال خصوصا چترال شہر اور اس کے مضافات میں آباد ہیں اور قدیم الایام سے آج تک بالائی چترال والوں کو یہاں آنے جانے کے حوالے کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔
  4. شہری سہولیات اور بنیادی ضرورت کی اشیاء سے محروم اس علاقے میں یونیورسٹی کا کیمپس بنانا لوگوں کو بلا وجہ مشکل میں ڈالنے کے مترادف ہوگا۔
  5. یونیورسٹی کی عمارت بشمول طلبہ کے لیے ہاسٹل اور اساتذہ و ملازمین کے لیے رہائشی کالونیوں کی تعمیر تک (جس میں کئی سال لگ سکتے ہیں)  لوگوں کو اپنے گھروں اور شہری سہولیات والے مقامات بونی اور چترال شہر سے آنے جانے کے علاوہ کوئی صورت نہیں۔ اس پہ مستزاد علاقے میں ٹرانسپورٹ کی دگرگوں صورتحال کے پیش نظر قاقلشٹ کے غیر آباد اور دور افتادہ  علاقے میں یونیورسٹی کا کیمپس بنانا لوگوں کے لیے ایک ڈراؤنے خواب سے کم نہیں ہوگا۔

سین لشٹ میں کیمپس بنانے کی تجویز:

چترال کے دونوں اضلاع کی غالب اکثریت سین لشٹ میں چترال یونیورسٹی کا مین کیمپس بنانے کے حق میں ہے۔ چونکہ یونیورسٹی اور ضلعی انتظامیہ بھی اسی موقف کی طرف مائل ہے اس لیے سین لشٹ میں کیمپس بنانے کے لیے مہم چلانے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی ہے جس سے بظاہر یوں لگتا ہے کہ یہاں کیمپس بنانے کے منصوبے کوعوامی حمایت حاصل نہیں۔ لیکن مطالبہ کرنے اور مہم چلانے کی نوبت اس وقت آتی ہے جب کسی کام کے حوالے سے خدشات یا  نا امیدی ہو ، جب کسی مطالبے اور مہم کے بغیر ہی لوگوں کی خواہشات اور ضروریات کے مطابق کام ہو رہا ہو تو مطالبہ اور مہم تحصیل حاصل کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہوگا۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ سین لشٹ کیمپس کے حامیوں کے نزدیک اس  کی مخالفت میں  جو دلائل دیے جاتے ہیں وہ اس قابل نہیں کہ ان کا جواب دیا جائے اور نہ ہی سین لشٹ کیمپس کے حق میں مہم چلانے کی کوئی ضرورت ہے کیونکہ  اس کا فیصلہ متعلقہ ادارے کر چکے ہیں۔ بہرحال اس کے حق اور مخالفت میں پیش کیے جانے والے نکات حسبِ ذیل ہیں:

سین لشٹ کیمپس کے حق میں پیش کیے جانے والی نکات:

  1. یونیورسٹی کا مرکزی کیمپس اکثریتی آبادی اور شہری سہولیات کی دستیابی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے بنانا چاہیے۔ سین لشٹ کا مقام اس مقصد کے لیے بہترین ہے کیونکہ یہ نہ صرف چترال کی مرکزی مقام یعنی چترال شہر سے قریب ترین مقام ہے جہاں یونیورسٹی تعمیر کی جا سکتی ہے بلکہ زیرین چترال کی اکثریتی آبادی  کے ساتھ ساتھ بالائی چترال کے لوگوں کے لیے بھی یہ جگہ  سید آباد کی نسبت زیادہ موزون مقام ہے۔
  2. تمام شہری سہولیات  کی دستیابی کے ساتھ ساتھ چترال شہر سے چند کلومیٹر کی مسافت پر واقع ہونے کی وجہ سے سین لشٹ کیمپس آنے جانے اور رہائش کے حوالے سے دیگر تمام علاقوں کی نسبت  نہایت موزوں ہے۔ خصوصا لینیک سنگور پل کی تعمیر کے بعد نہ صرف چترال شہر  سے یونیورسٹی پہنچنے کے لیے دو  مستقل راستے دستیاب ہو گئے ہیں بلکہ کوہ یونین کونسل اور بالائی چترال والوں کو براہ راست یونیورسٹی پہنچنے کا آسان راستہ مل گیا ہے۔
  3. سین لشٹ قدرتی آفات کے حوالے چترال کے محفوظ ترین علاقوں میں سے ایک ہے جہاں نہ زمین کو دریا کی کٹاؤ کا خطرہ ہے، نہ قریبی پہاڑ سے پتھر گرنے کا کوئی امکان ہے اور نہ ہی سیلابی ریلے کے زد میں آنے کا کوئی خطرہ ہے کیونکہ اس کے قریب کوئی بڑا  اور سیلاب آور نالہ نہیں ہے۔
  4. یونیورسٹی کی انتظامیہ اور ضلعی و صوبائی حکومت کے ذمہ داران بھی سین لشٹ کو ہی چترال یونیورسٹی کے مرکزی کیمپس کے لیے موزون مقام سمجھتے ہیں اور کئی سرکاری فورمز میں اسی تجویز کو مناسب قرار دیا گیا ہے۔
  5. سین لشٹ میں گورنمنٹ ہائی سکول، آغا خان ہائر سیکنڈری سکول، آغا خان یونیورسٹی کے مجوزہ کیمپس (جس کے لیے زمین کی خریداری اور  بنیادی منصوبہ بندی کا کام عمل میں آ چکا ہے اور عنقریب اس کی تعمیر کا کام شروع ہونے والا ہے) اور دیگر تعلیمی اداروں کی موجودگی کی وجہ سے مستقبل قریب میں یہ مقام چترال شہر کے مضافاتی علاقے  میں ایک مکمل تعلیمی شہر کی صورت میں سامنے آئے گا جس سے خاص و عام کو آسانی سے استفادے کا موقع ملے گا۔
  6. مجوزہ چترال تاجکستان شاہراہ پر واقع ہونے کی وجہ سے مستقبل میں چترال یونیورسٹی وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ روابط میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔

سین لشٹ کیمپس کے مخالفت میں پیش کیے جانے والی نکات:

  1. سین لشٹ کیمپس کے خلاف سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ اس سے زرعی زمینات متاثر ہوں گی۔
  2. دوسرا اہم  اعتراض یہ ہے کہ جب یونیورسٹی کے پاس سید آباد میں ایک سو ساٹھ کنال زمین موجود ہے تو اسے استعمال میں لائے بغیر  نئے سرے سے زمین خریدنے پر خطیر رقم خرچ کرنے کی کیا ضرارت ہے؟
  3. اس کے علاوہ بے بنیاد خدشات، غیر معقول اعتراضات، غلط بیانیوں، تعصبات کو ابھارنے، حقائق سے چشم پوشی کرنے کی لمبی فہرست ہے جنہیں سین لشٹ کیمپس کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کی گئی حتی کہ مسئلے کو  سیاسی و مذہبی رنگ دینے اور اقلیتوں کا کارڈ استعمال کرنے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا ہے۔ یہ خدشات اور اعتراضات ایسے نہیں کہ انہیں کوئی وقعت دی جائے لیکن چونکہ بعض عناصر بڑی ڈھٹائی کے ساتھ ان کو استعمال کرتے ہیں اور لوگ انجانے میں ان سے متاثر ہوتے ہیں   اس لیے ان کا تذکرہ کرنا اور ان کی حقیقت کو واضح کرنا بہت ضروری ہے:
    1. یونیورسٹی سے مستفید ہونے والی آبادی  کو بنیاد بنا کر سین لشٹ کے مقابلے میں سید آباد کو زیادہ موزون قرار دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس سلسلے میں بھی مکر و فریب سے کام لے کر صرف زیرین چترال کی آبادی کے بارے میں اعداد و شمار کا ڈھونگ رچانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حالانکہ سب کو معلوم ہے سید آباد سے صرف چترال کے جنوبی حصے (ایون اور دروش تحصیل)  کی آبادی کا فائدہ پہنچے گا جبکہ سین لشٹ سے چترال شہر اور اس  مضافات کے گنجان آباد علاقوں کے علاوہ ، کوہ، گرم چشمہ،  کریم آباد، ارکاری اور گولین کی وادیوں کے مکین مستفید ہوں گے۔ یوں زیرین چترال کے دو تحصیلوں یعنی لٹکوہ اور چترال کی آبادی کے لیے سین لشٹ  سید آباد کے مقابلے میں  بہت بہتر ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی ذہن شنین کرنے کی ضرورت ہے کہ فی الحال یہ چترال کے دونوں اضلاع کی واحد یونیورسٹی ہے اور ضلع چترال بالا کے لوگوں کے لیے سید آباد کی نسبت سین لشٹ زیادہ  مناسب ہے۔
    1. یہ اعتراض بھی کیا جاتا ہے کہ سین لشٹ کی زمین غیر محفوظ ہے کیونکہ اسے ساتھ بہنے والے دریائے لٹکوہ  سے کٹاؤ کا خطرہ ہے اور اوپر سے سیلاب کا امکان بھی موجود ہے۔ یہ انتہائی لغو اور احمقانہ اعتراض ہے کیونکہ جیسا کہ اوپر بتایا گیا کہ سین لشٹ کی زمین اور خصوصا یونیورسٹی کے لیے مجوزہ قطعہ ارضی  چترال کے محفوظ ترین مقامات میں سے ہے۔ دریائے لٹکوہ کی وجہ سے گزشتہ کئی صدیوں سے کٹاؤ کا کوئی معمولی واقعہ بھی رونما نہیں ہوا ہے اور نہ ہی اس کا کوئی امکان موجود ہے کیونکہ اس کے  آس پاس کوئی بڑا نالہ نہیں جس میں سیلابی ریلا آنے  سے  دریا کے بہاؤ میں غیر معمولی اضافے  یا تودا گرنے سےپانی کے بہاؤ میں  رکاوٹ کا  کوئی خدشہ ہو اور نہ ہی پہاڑ کی طرف سے سیلاب آنے کا کوئی خطرہ ہے۔
    1. یہ باور کرانے کی کوشش بھی کی جاتی ہے کہ سین لشٹ چترا ل شہر سے شمال کی طرف ہونے کی وجہ سے رسائی کے اعتبار سے مناسب نہیں جبکہ اس کی نسبت  سید آباد مین چترال  پشاور روڈ پر  واقع  ہونے کی وجہ سے قابل رسائی ہے۔ یہاں بھی حقائق کو درست انداز میں پیش کرنے کے بجائے جانبداری سے کام لیا جاتا ہے۔ سید آباد یقینا چترال پشاور شاہراہ پر واقع ہے لیکن یہ چترال شہر اور گنجان آباد علاقوں سے بہت دور ہے۔ چترال شہر سے سید آباد کی مسافت سین لشٹ کے مقابلے میں چار گنا زیادہ ہے۔ سین لشٹ چترال شہر سے متصل علاقے میں مین گرم چشمہ روڈ (اور مجوزہ چترال تاجکستان شاہرہ)  پر  واقع کی وجہ سے رسائی کے اعتبار سے سید آباد سے زیادہ  مناسب اور آسان ہے۔
    1. یہ بات بھی بڑے زور و شور   سےکی جاتی کہ یونیورسٹی کو شہری آبادی سے باہر بنانا چاہیے۔ اصولی طور پر اس بات سے اختلاف نہیں کیونکہ ترقی یافتہ ممالک اور میدانی علاقوں اس کی مثالیں بھی موجود ہیں لیکن چترال کے خصوصی تناظر میں اس نکتے کو بنیاد بنا کر سید آباد یا قاقلشٹ میں یونیورسٹی بنانے کی تجویز  قطعا درست نہیں کیونکہ پہاڑی علاقے کے پرپیچ راستوں اور ٹرانسپورٹ کی ابتر صورتحال کے پیش نظر شہری آبادی سے تیس پینتیس کلو میٹر دور بے آب و گیاہ اور شہری سہولیات سے محروم مقام پر  یونیورسٹی بنانا  نہایت غیر دانشمندانہ عمل ہوگا۔ سین لشٹ چترال شہر  سے باہر ضرور ہے لیکن سید آباد اور قاقلشٹ جتنا دور نہیں بلکہ شہری آبادی سے  چند کلومیٹر اور چند منٹ کی مسافت پر ہونے کی وجہ سے ہر اعتبار سے  تمام علاقوں کی نسبت مثالی جگہ ہے۔
    1. یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سین لشٹ میں یونیورسٹی کی توسیع کے لیے جگہ کم ہے جبکہ اس کی نسبت سید آباد میں وافر مقدار میں زمین موجود ہے۔ یہ دعویٰ بھی حقائق کے منافی ہے۔ سین لشٹ کے مجوزی مقام میں زمین کی کوئی کمی نہیں بلکہ یہاں ایک بجائے دو یونیورسٹیاں بنائی جا سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ بوقت ضرورت سین لشٹ کے جنوبی بالائی حصے اور اس سے متصل دلومچ گاؤں میں موجود وافر مقدار میں  نسبتا غیر آباد زمینوں سے بھی استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ اس کے مقابلے میں سید آباد میں شرینگل یونیورسٹی کے علاقائی کیمپس  کے لیے خریدی گئی زمین مکمل یونیورسٹی کے لیے ناکافی ہونے  کے علاوہ آس پاس  مناسب مقدار میں زمین نہ ہونے کی وجہ سے پہاڑ کے دامن میں واقع ڈھلوان (پراش) یا پھر کچے کی زمین  (شوتار)  سے استفادے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں اور یہ دونوں غیر محفوظ  بلکہ خطرناک جگہے ہیں۔
    1. سین لشٹ میں یونیورسٹی تعمیر کرنے کے لیے زرعی زمینوں کے ضیاع کی بات یقینا قابل توجہ ہے لیکن اس میں بھی مبالغہ آرائی  سے کام لیا جاتا ہے۔ اس خطے  میں درخت بالکل نہیں جن کی کٹائی سے ماحول کی خرابی یا  فضائی آلودگی کا کوئی خدشہ ہو  (سید آباد کیمپس کے حامیوں نے سین لشٹ کیمپس کے خلاف ماحولیاتی تبدیلی اور اس حوالے سے وزیر اعظم کی ترجیحات کو بھی کیش کرنے کی کوشش کی ہے)۔ درحقیقت یہ مختلف افراد میں تقسیم چھوٹے چھوٹے کھیتوں پر مشتمل قطعہ ارضی ہے جن میں  معمول کی کاشتکاری ہوتی ہے جو ان زمینوں کے مالکان کی غذائی ضروریات کو پوری کرنے کے لیے بھی کافی نہیں چہ جائیکہ اس سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی جائے کہ ان زمینوں پر یونیورسٹی بنانے سے چترال کی غذائی ضروریات پر اثر پڑے گا۔  چند مرلوں اور کنالوں پر مشتمل زمینوں پر محدود پیمانے کی کاشتکاری میں فائدے کی نسبت خرچہ اور محنت و مشقت زیادہ ہوتی ہے اس لیے اس قسم کی کاشتکاری کا رجحان پورے چترال میں روز بروز ختم ہوتا جا رہا ہے۔ اب اس ناقابلِ ذکر کاشتکاری کو ایک بڑا مسئلہ بنا کر یونیورسٹی جیسے اہم ادارے کی تعمیر کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنا کہاں کی دانشمندی ہے؟

خلاصہ کلام:

کسی بھی قومی منصوبے کے بارے  آگاہی حاصل کرنا اور متعلقہ اداروں کو مفید مشورے دینا تمام شہریوں کا حق بھی ہے اور ان کی ذمہ داری بھی لیکن ذاتی یا علاقائی مفادات کے پیش نظر ایک اہم قومی منصوبوں کو متنازعہ بنانا، متعلقہ اداروں کو سازشوں کا مرکز قرار دینا اور ان کے ذمہ داران پر بے بنیاد الزامات لگانا اور حقائق کو مسخ کرکے لوگوں کو گمراہ کرنا کہاں کا انصاف ہے؟ یہ کسی کا  حق نہیں  اور نہ کسی کو اس کی اجازت دینی چاہیے۔  

یونیورسٹی کا مرکزی کیمپس جہاں بھی بنے اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ اوپر بیان کردہ حقائق کی روشنی میں اہلِ چترال کی غالب اکثریت سین لشٹ کو اس مقصد کے لیے موزون ترین سمجھتی ہے لیکن اس کے باوجود حتمی فیصلے کا حق یونیورسٹی کے ذمہ داران اور متعلقہ سرکاری اداروں کی صوابدید پر چھوڑنا چاہیے، وہ منصوبے کے مختلف پہلؤوں کو مدِ نظر رکھ کر جو بھی فیصلہ کریں وہ سب کے لیے قابل قبول ہونا چاہیے،  چاہے وہ فیصلہ  کسی کی  رائے اور خواہش سے مطابقت نہ رکھتا ہو۔

چترال میں صرف ایک یونیورسٹی نہیں کئی اور یونیورسٹیاں، میڈیکل کالجز اور انجینئرنگ کالجز  بننی چاہئیں۔ ہمارے نادان دوست اگر موجودہ چترال یونیورسٹی کے خلاف محاذ آرائی کرنے کے بجائے سید آباد، قاقلشٹ یا کسی اور مقام پر علیحدہ یونیورسٹیاں یا میڈیکل کالج یا انجینئرنگ کالج  بنانے کے لیے کوششیں کریں گے تو اس سے نہ صرف علاقے کو فائدہ پہنچے گا بلکہ ان دوستوں کی طرف سے اخلاص اور علم دوستی کا اظہار بھی ہوگا۔تمام اہل چترال سے دردمندانہ درخواست ہے کہ اللہ کے واسطے چترال یونیورسٹی کے عظیم منصوبے کو کالا باغ ڈیم نہ بنائیں۔  علاقائی ، نسلی، مذہبی تعصبات اور ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر اس عظیم منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں حکومت اور متعلقہ اداروں کے ساتھ تعاون کریں۔

اللہ تعالی ہمیں صحیح موقف اختیار کرنے اور اختلافات سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

Posted in تازہ ترین, مضامین
55278

ڈریپ کا نیا ضابطہ اخلاق – محمد شریف شکیب

ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی پاکستان نے فارماسیوٹیکل اور ہربل کمپنیوں اور ڈاکٹروں کے لئے اخلاق جاری کردیا ہے جس کے تحت دوا ساز کمپنیوں کو پابند بنایاگیا ہے کہ وہ مریضوں کے لئے ادویات تجویز کرنے کے بدلے ڈاکٹروں کو نقد رقوم،انعامات کی صورت میں گاڑی، بنگلے اور دیگر قیمتی تحائف نہیں دے سکتیں۔فارماسیوٹیکل کمپنیوں اور ڈاکٹروں کے رابطہ کار پر مبنی ضابطہ اخلاق وفاقی کابینہ کی منظوری سے جاری کیا گیا ہے۔دوا ساز ادارے ڈاکٹروں کے اہل خانہ اور دیگر افراد کے سفری اخراجات برداشت نہیں کریں گے۔ ڈاکٹروں کواپنے محکمے کی طرف سے این او سی لائے بغیر غیر ملکی سفر کے اخراجات نہیں دئیے جائیں گے۔تعلیمی اور سائنٹیفک کانفرنسوں کے لیے رقوم کی فراہمی بھی روک دی گئی۔ تمام طبی تعلیمی کانفرنسیں ملک کے اندر منعقد کی جائیں گی اور طبی کانفرنسوں کے دوران تفریحی پروگرام، مہنگے کھانے اور تحائف دینے پر بھی پابندی ہوگی۔

ضابطہ اخلاق کے تحت دوا ساز اداروں کو ڈاکٹروں کے ذاتی تفریحی اور سفری اخراجات اور ان کے خاندانوں کے لئے تفریحی سرگرمیوں کے انعقاد پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے۔ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کی جانب سے ضابطہ اخلاق پر عمل درآمد کی نگرانی کے لئے کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔بعد از خرابی بیسیار ہی سہی، ڈریپ کا نیا ضابطہ اخلاق عوام کی جان و مال کے تحفظ کے لئے ناگزیر تھا۔ پاکستان کے ہر شہر کی گلی کوچوں میں ادویات تیار کرنے والے ادارے قائم کئے گئے ہیں جو اپنی مصنوعات کی فروخت کے لئے ڈاکٹروں کو پرکشش مراعات دیتے ہیں۔یہ دوائیاں ڈاکٹروں کے کلینک سے متصل مخصوص میڈیکل سٹورز پر ہی دستیاب ہوتی ہیں۔

یہ ادارے نیشنل اور ملٹی نیشنل مشہور کمپنیوں کا لیبل لگاکر جعلی ادویات تیار کرتے ہیں اور انہیں اصلی ادویات کی قیمت پر مریضوں کو فراہم کیاجاتا ہے۔ غیر معیاری خام مال استعمال کرکے آٹھ دس روپے کی دوائی تیار کرکے چار پانچ سو روپے میں فروخت کی جاتی ہے۔ جس میں ڈاکٹر، میڈیکل سٹور کے مالک اور کمپنی کے نمائندوں کا حصہ ہوتا ہے۔ ڈاکٹر حضرات ہر مریض کو دس بارہ مختلف اقسام کی دوائی تجویز کرتے ہیں جان بچانے کے لئے غریب لوگ قرضہ لے کر بھی وہ دوائیاں خریدنے پر مجبور ہوتے ہیں ان غیر معیاری اور جعلی ادویات کے استعمال سے مرض ٹھیک ہونے کے بجائے مزید شدت اختیار کرتا ہے۔اور ڈاکٹروں کو جاں بہ لب مریض کا آپریشن کرکے مزید ہزاروں روپے کمانے کا موقع مل جاتا ہے۔

طبی کانفرنسوں میں شرکت کے لئے سالانہ سینکڑوں ڈاکٹر بیرون ملک سرکاری خرچے پر جاتے تھے۔ جن پر کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔ اور فائدہ کچھ بھی نہیں ہوتا۔ ڈریپ کی طرف سے اندرون ملک طبی کانفرنسوں کے انعقاد کے احکامات سے جہاں میڈیکل کے شعبے میں تحقیق کو فروغ ملے گا وہیں میڈیکل کے طالب علموں کو بھی فائدہ ہوگا۔ڈریپ کو صرف ضابطہ اخلاق جاری کرنے پر ہی اکتفا نہیں کرنا چاہئے۔بلکہ اس پر سو فیصد عمل درآمد کو بھی یقینی بناناہوگا تاکہ اپنے ذاتی مالی مفادات کے لئے انسانی جانوں سے کھیلنے والوں کو قانون کے کٹہرے میں لایاجاسکے اور طب کے مقدس اور معتبر شعبے پر لوگوں کا اعتماد بحال ہوسکے۔

جان بچانے والی ادویات کی قیمتوں کو بھی عام آدمی کی قوت خرید تک لانے کے لئے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے۔خود سرکار کے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ گذشتہ دو سالوں کے دوران 200اقسام کی ادویات کی قیمتوں میں 300فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔ جن میں گلی کوچوں میں تیار ہونے والی ادویات بھی شامل ہیں۔ ادویات کی قیمتوں میں ہوشرباء اضافہ دکھی انسانیت کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے۔ عوام کی جان و مال اور عزت و آبروکا تحفظ حکومت کی سب سے اولین ذمہ داری ہے اور دکھی انسانیت کے زخموں پر مرہم رکھنا بھی اس ذمہ داری میں شامل ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
55249

سب باقی ہیں تُو باقی نہیں.؛ – تحریر : قادر خان یوسف زئی

تقسیم ہند سے ایک طرف ہندوئوں کو آزادی ملی تو دوسری جانب مسلمانوں نے ایک قطعۂ ارض حاصل کرلیا، ہندوئوں کے نزدیک تصور آزادی محض یہ تھا کہ بدیشی راج باقی نہ رہے اور کاروبار حکومت دیسیوں، ملکیوں (ہندوئوں) کے ہاتھ آجائے، یہ اس کی منزل مقصود تھی، اب جب وہ یہاں تک پہنچ گئے تو وہ مطمئن ہیں کہ وہ آزادی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے، لیکن مسلمانوں کی حالت مختلف تھی، یہ ایسی آزادی کو منزل نہیں متصور کرتے، ان کے نزدیک آزادی نشانِ منزل ہے، لیکن اب وہ کشمکش میں مبتلا ہیں کہ:ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفرکعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگےآج ہماری یہی کیفیت ہے کہ ہم بادیٔ النظر سیاسی آزادی سے تو ہمکنار ہوچکے، لیکن فکر سے محروم اور تہی ہیں۔ آزادی، غیر کی غلامی (سیاسی استیلا) کی عدم موجودگی کی سلبی کیفیت کا نام نہیں، آزادی مثبت شے ہے،

یہ لاالٰہ کی وادی میں صرف حاصل نہیں ہوتی بلکہ گلستان الا اللہ کی دائمی بہار ہے، آزادی ظلمت نہیں کہ عدم نور کا نام ہو بلکہ یہ نور کی مثبت موجودگی ہے کہ جس سے زندگی کا ہر گوشہ صد خاو بداماں ہوجاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ آزادی خارج سے مسلط نہیں کی جاسکتی لیکن اس کا فوارہ اعماق قلوب سے پھوٹتا ہے۔ یہ اُس وقت تک مثبت کیفیت نہیں بنتی جب تک ’’مابا تفہیم‘‘ کے تغیر و تبدل کی آئینہ دار نہ ہو۔ یہ حقیقت ہے کہ ہمارے آبا و اجداد نے جس خطۂ زمین کے لئے قربانیاں دیں اس کا ہم صرف اندازہ کرسکتے ہیں، محسوس نہیں کرسکتے، بہرحال دنیا نے ہر قوم کی عظمت کو آزادی کے پیمانوں سے ماپا اور اسی کے معیاروں سے جانچا ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آزادی بالآخر کیا شے ہے، جو انسان کے لئے اس درجہ مرغوب و مقصود بن چکی کہ اگر آزادی وہی ہے جس کا غلغلہ ہم سات دہائیوں سے سن رہے ہیں تو ہمیں حیرت ہے کہ انسان کو کیا ہوگیا کہ اس نے اس کی خاطر زمین اور انسان کو ایک کر رکھا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ سوائے اس ظاہری شوروغوغا اور سطحی دھوم دھام کے ہماری حیاتِ اجتماعیہ میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں ہوئی۔ ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ ہم وہیں ہیں، جہا ں تاریخ آزادی کے وقت تھے، بلکہ ایک لحاظ سے اس سے بھی کچھ پیچھے۔


ہم بظاہر آزاد ہیں، قانونی اور بادیٔ النظر آئینی معنوں میں پوری طرح آزاد، لیکن کیا واقعتاََ ہم جس آزادی کو آزادی سمجھتے ہیں اس کے نتائج سے ہم دوچار ہیں؟ کیا یہی وہ آزادی ہے جس کے نغمے فطرتِ انسانی کے ساز سے ہمیشہ ابھرتے، ابلتے رہتے ہیں؟ کیا ہم خود اس قسم کی آزادی کا مطالبے کیا کرتے تھے؟ اگر آزادی اسی کیفیت (بلکہ عدم کیفیت) کا نام ہے تو ہمیں اعتراف کرلینا چاہیے کہ تاریخ کی رصدگاہوں کے تمام نقوش باطل ہیں یا ہم نے کہیں’’دھوکا‘‘ کھایا ہے۔ کہنے کو ہم آزاد ہیں، ہر معنی میں آزاد، لیکن اب نہ جانے آزادی کا احساس کیوں نہیں ہوتا کہ آزادی کے جب بھی تجارب ہوئے تو ہم نے کون سی تبدیلی پیدا کی کہ جس کے باعث اس آزاد نما زندگی کو سابقہ غلامی کی زندگی پر ترجیح دیں، تو ظاہر ہوا کہ اس بظاہر آزادی میں کسی ایسی شے کی کمی ہے جس سے آزادی اور غلامی میں چنداں امتیاز نظر نہیں آتا۔ آئیے دیکھیں کہ ’’سب باقی ہیں تُو باقی نہیں ہے‘‘ کے مصداق کون ’’تُو‘‘ہم میں نہیں، آئیے دیکھیں کہ اس ہیلمٹ کی داستان میں وہ کون شہزادہ گم ہے، جس سے یہ داستان اس درجہ بے کیف ہوکر رہ گئی ہے۔


تاریخ کے ادوار میں آپ کو خدا کے منکرین مل جائیں گے، لیکن کسی دور میں ایسا کوئی گروہ نہیں ملے گا جس نے آزادی کی عظمت سے انکار کیا ہو، انسانی تاریخ کیا ہے؟ اپنی اپنی آزادی کے تحفظ کی جدوجہد کی مسلسل داستان، مختلف ادوار میں نمار ید و فراعنہ زماں اور اکاسر و قیاصر دہر، ہمیشہ اس کوشش میں رہے کہ کمزور انسانوں کے سینے سے آزادی کی تمنا کو مٹادیا جائے، لیکن کمزور و ناتواں انسانوں نے اپنا سب کچھ لٹنا اور مٹنا گوارا کرلیا مگر آزادی کی حسین آرزوؤں کو اپنے دل کے کاشانوں سے کبھی مٹنے نہیں دیا، اس نے قرباں گاہ پر اپنی عزیز ترین متاع حیات کی بھینٹ چڑھادی، لیکن اس کی آن پر کبھی حرف نہیں آنے دیا، تاریخ کے ریگ ِساحل پر ان گنت موجیں آئیں اور مختلف نقوش کو بہاکر ساتھ لے گئیں، لیکن کوئی نقش ایسا تھا جو اس کی مسلسل تگ و تاز کے باوجود کبھی مٹ نہ سکا، عوام کا تقاضا اور ان کی کیفیت جداگانہ رہی۔


عوام غیر مطمئن ہیں کیونکہ ان کی جس خلش کو برسوں ابھارا گیا، اب انہیں محسوس ہونے لگاہے کہ اس کے ثمرات سے وہ مستفید نہیں ہورہے بلکہ لگتا ہے کہ صرف وہی طبقات و افراد مطمئن ہیں جن کے قلب میں کوئی خلش نہیں، کیونکہ ان کے پیش نظر ذاتی مناصب و شخصی منافع تھے وہ ان کے حصول میں مصروف ہیں، جہاں تک اربابِ اختیار کا جو تصور سیاست ہے، موجودہ بے یقینی حالات بھی ان کے لئے اطمینان بخش ہیں، وہ تو خود تو مطمئن ہیں لیکن جو مطمئن نہیں انہیں وہ شبہ کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور یہ سمجھتے کہ شاید یہ دیوانے باغی اور مخالف ہیں، عوام کی تسکین کا اب بھی کوئی سامان نہیں، حتیٰ کہ روٹی کا مسئلہ جو غریب کے سامنے سب سے پہلے آتا ہے، اس کا بھی کوئی اطمینان بخش حل نہیں۔ جو اہل دانش اس ضمن جو حل پیش کرتے ہیں تو انہیں شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔


تھیوکریسی کا مقصد رجعت پسندانہ اور خود غرضانہ ہیں، ارباب ِاختیار کی روش منافقانہ ہے، عوام کے تحت الشعور کا کوئی علاج نہیں، وہ غیر مطمئن ہیں، جنوں زدہ طبقے میں بغاوت کے آثار ہویدا ہیں، ایسے میں کیا ہوگا؟، اس عدم اطمینان اور منافقت کی طبقاتی گرداب سے قوم بچ سکتی ہے تو کسی صاحبِ فکر اور قانون کے درست سمت اختیار کرنے کے صدقے سے۔ کیونکہ مستقبل اس کے ہاتھ میں ہوگا جس کا سینہ کشمکش کی آماج گاہ بھی بن سکے۔

بیدار ہوں دل جس کی فغانِ سَحری سے
اس قوم میں مُدّت سے وہ درویش ہے نایاب

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
55247

دھڑکنوں کی زبان -”مجھے ایک پیاری سی کہانی سناؤ“ -محمد جاوید حیات

میں کوشش کرتا ہوں کہ نیند آجائے کروٹیں بدلتے رہتا ہوں مجھے کسی صورت نیند نہیں آتی۔میرے ہمدم مجھے دوا دارو دے دو۔کوئی علاج میری بے بسی کا کرو۔میرے حال پہ رحم فرماو یا مجھے کہانی سناؤ۔۔لومڑ لومڑی کی کہانی، چڑیا چڑیے کی کہانی، گیدڑ کی چالاکی، شیر جنگل کا بادشاہ، دم کٹی بکری کی کہانی، بلبل کا بچہ، بھڑیا اور لامبے کی کہانی۔۔۔میرے ہمدم میں مر جاؤں گا مجھے کچھ سناؤ۔۔مجھے بتاو کہ یہ دنیا ابھی ابھی بنی تھی چشمے اور دریا کے پانی صاف تھے جنگل بیابان گرد الود نہیں ہوتے تھے۔ہوائیں چلتیں تو جگر کو ٹھنڈک بخشتیں طوفان نہیں اٹھتے تھے پہاڑیں شان بے نیازی سے کھڑے تھے ان کو کوئی کاٹتا نہیں تھا ان کے جگر چیر کر سوراخ (ٹنل) نہیں بنایا جاتا۔جنگل کے درخت سرشار تھے ان کو کسی سے خطرہ نہ تھا دریاؤں کا رخ زبردستی موڑا نہیں جاتا۔فضائیں بے کران تھیں کائنات کے راز کسی پہ کھلے نہیں تھے۔شیر کسی پنجرے میں بند نہیں ہوتا۔مور کسی چڑیا گھر کی زینت نہیں بنتی۔ہاتھی کی نکیل پکڑ کے اس کو گمایا نہیں جاتا۔زمین اپنے پیدا کرنے والے کی تھی اس پر کسی کا دعوی نہ ہوتا۔رنگ نسل کو اہمیت نہیں دیا جاتا۔مخلوقات کے گروپ تھے


~ کبوتر با کبوتر باز بہ باز
کند ہم جنس با ہم جنس پرواز
کسی جنس کو دوسرے جنس کی آرزو نہ ہوتی۔


مجھے کچھ ہو گیا ہے میرا سکون غارت ہوگیا ہے مجھے کہانی سناؤ۔مجھے بتاؤ کہ رشتے ناطے ہوتے تھے محبت وفا ہوتی تھی احترام اکرام ہوتے تھے حق انصاف ہوتا تھا قناعت شکر ہوتی تھی۔زندگی سیدھی سادھی اورآسان تھی۔ہر ایک کا اپنا مقام تھا جو اس کے ساتھ سجتا تھا۔بیٹا بیٹی،ماں باپ،بہن بھاء، میاں بیوی الگ الگ ڈگریاں تھیں۔قوموں میں غیرت اور سنجیدگی ہوتی تھی۔فرائض کا لحاظ ہوتا۔ڈیوٹی امانت سمجھی جاتی۔۔مجھے وہ پیاری سی کہانی سناؤ۔۔کہ حکمران عوام کے خادم ہوا کرتے تھے لیڈر قوم کی آنکھ کا تارا ہوا کرتا۔وہ قوم کی دولت کو امانت سمجھتا۔عدالتوں میں انصاف ہوتا لوگ مطمین ہوتے۔ان کی جان و مال کا تحفظ ہوتا۔وہ اپنے حکمران کو نہ خود برا کہتے نہ برا کہنے کو برداشت کرتے۔ ان کی زندگی آرام سے گزرتی تھی۔مجھے وہ گزرا ہوا پاکیزہ وقت کے تقاضے سناؤ جب عورت پورے لباس میں ہوتی تھی اس کی نسوانیت اس کی پہچان تھی۔اس کو مرد بننے کی آرزو نہیں تھی اس کی حیاء بے مثال تھی۔مجھے سناؤ کہ ایک وقت تھا کہ حق کا بول بالا تھا پورا سچ تھا ادھا سچ کہیں نہیں تھا

منافقت دھوکہ دہی وغیرہ برایاں نہیں ہوا کرتی تھیں۔ مجھے بتاؤ میں پریشان ہوتا ہوں کہ آخر اس دنیا کو کیا ہوگیا ہے یہ انسان یہ سب مخلوقات میں سے اشرف مخلوق اس دنیا کو بے چین کیوں کر رکھی ہے جنگل کے درندے،فضاء کے پرندے، سبزہ زاروں کے چرندے اس مخلوق کے شر سے محفوظ نہیں۔وہ ترقی کے نام پہ کیا کچھ نہیں کر رہی۔ایک طرف سامان آسائش بنا رہی ہے دوسری طرف تباہی کے سامان بن رہے ہیں۔ ایک طرف زندگی رنگینیوں میں کھو کے رہ گئے ہے دوسری طرف غریب نوالے کو ترس رہے ہیں۔ایک قوم دوسری قوم کو مٹانے کی تگ و دو میں ہے۔

جس کے پاس لاٹھی ہو بھینس بھی اسی کی ہو۔۔یہ سارے سمندر،یہ دریا،یہ پہاڑ یہ سب معدانیات اس کے ہوں۔فلان کے پاس گرم پانی کیوں ہے فلان کے ہاں معتدل موسم کیوں ہے فلان کے پہاڑوں میں معدانیات کیوں ہیں فلان نے اٹم بم کیوں بنایا۔۔یہ سب جھنجٹ توتکار مجھے پرشان کر رہی ہیں ہمدم۔۔مجھے سویٹ سی کہانی سناؤ کہ یہ دنیا ایسی نہ تھی۔۔۔۔یہ بہت خوبصورت ہوا کرتی تھی۔۔جب پروانہ چراغ کا طواف کرتا۔جب بلبل گل کی تعریف کرتی۔جب بھونرے پھول کی پنگھڑیوں پہ جان دیتے۔جب چاندنی ہر انگن میں اترتی۔نسیم سحر ہر کوچے میں خوشبو بانٹتی۔سمندر کی مچھلیاں بے خوف تھیں۔جب بہار آتی تو پھوار گرتا۔جب بادل گرجتے تو بچے لحافوں میں چھپ جاتے۔جب بیٹی کا رشتہ آتا تو وہ رورو کر بے حال ہوتی۔ جب بیٹے سے رشتے کی بات ہوتی تو وہ شرم سے پانی پانی ہوتا۔حرم مرمر کے سلوں سے بنا نہیں تھا۔کوئی اٹم بم، میزایل نہیں تھا غیرت تلوار کے ساتھ ٹکی ہوئی تھی۔بادشاہ عدالت کے کٹہرے میں خود جاکے مجرم کی طرح کھڑا ہوتا۔یقین محکم،عمل پیہم خالی الفاظ نہیں عمل تھے۔یہ کہانی مجھے سناؤ تاکہ مجھے چند لمحوں کے لیے نیند آجائے۔۔چلو شروع کرو۔۔۔۔ کہ بیٹا! دنیا ابھی نئی نئی بنی تھی۔۔

Posted in تازہ ترین, مضامین
55245

ہندوکُش کے دامن سے چرواہے کی صدا – تماشائی اپوزیشن -عبدالباقی چترالی

ہندوکُش کے دامن سے چرواہے کی صدا – تماشائی اپوزیشن -عبدالباقی چترالی

کسی بھی جمہوری ملک میں حکمران اور اپوزیشن لازم و ملزوم ہوتے ہیں۔ دونوں کا مقصد ملک اور قوم کی خوشحالی اور بہبود ہوتا ہے۔ جب حکمران جماعت ملکر اور قوم کی ترقی کی خاطر پالیسی اور منصوبے بناتے ہیں تو اپوزیشن جماعتیں ان پالیسیوں اور منصوبوں پر نظر رکھتی ہیں۔ ان میں کوئی کمی خامی ہو تو وہ پارلیمنٹ کے اجلاس میں ان پر بحث کرکے ان کمیوں اور خامیوں کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کے متعلق متبادل رائے دیتے ہیں۔ حکمران پارٹی کوئی اہم قومی پالیسی یا بڑے منصوبے شروع کرتے وقت اپوزیشن جماعتوں کو اعتماد میں لیتی ہے اور ان سے صلاح مشورہ کرتا ہے۔ بدقسمتی سے موجودہ حکمران جماعت اپوزیشن جماعتوں سے مشورہ کرنا تو دُور کی بات ہے اپوزیشن لیڈر سے ہاتھ ملانا اور سلام دعا کرنا بھی اپنی توہین سمجھتی ہے۔وہ اپوزیشن جماعتوں کے نمائندوں کو چور، ڈاکواور لٹیرے جیسے القاب سے نوازتی ہے۔

قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوتے ہی قانون سازی ہونے کی بجائے ہنگامے اور شور وغُل شروع ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے حکمران اور اپوزیشن دونوں جماعتوں میں بعض ایسے ممبران موجود ہیں جو پارلیمنٹ کو مچھلی منڈی بنانے میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ ملک کا پارلیمنٹ گالیوں کی ڈکشنری بن چکی ہے جہاں سے عوام کو وافر مقدار میں نئی نئی گالیاں سننے کو ملتی ہیں۔ ملک کا حکمران عوام کو مدینہ کا درس دیتے ہیں مگر اگلے ہی روز پارلیمنٹ کو گالیوں سے سجا دیتے ہیں۔ ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں گزشتہ تین سالوں سے کرپشن کے کیسز بھگت رہے ہیں۔ اپوزیشن جماعتیں اپنا آئینی رول ادا کرنے کی بجائے وہ خود کو حکومت وقت کے انتقام سے بچانے اور اپنی ناجائز دولت اور پارٹیوں کو بچانے کی فکر میں لگے ہوئے ہیں۔ ان کو عوام کی مشکلات اور مسائل کا احساس ہی نہیں۔ موجودہ حکمرانوں کی نااہلی اور ناتجربہ کاری کی وجہ سے ملک میں مہنگائی کا طوفان آیا ہوا ہے۔ یہ ملکی تاریخ کی بدترین مہنگائی ہے اور یہ موجودہ حکمرانوں کی ناقص معاشی پالیسیوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔


مشکل کی اس گھڑی میں اپوزیشن جماعتیں عوام کا ساتھ دینے کی بجائے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ کبھی کھبار چھوٹے موٹے جلسے جلوس کرکے عوام کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی ناکام کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ اس بدتریں مہنگائی کے خلاف کوئی بڑی تحریک چلانے کے لیے آمادہ نظر نہیں آرہے۔ اپوزیشن جماعتوں کو عوام کی مشکلات اور ملک سے کوئی دلچسپی نہیں۔ ان کو اپنے سیاسی مفادات عزیز ہیں۔ اگر اپوزیشن جماعتیں حقیقت میں عوام کی نمائندگی کرتیں توموجودہ نااہل حکمرانوں کا تین سال تک اقتدار میں رہنا ناممکن تھا۔موجودہ حکومت اپوزیشن کی نااہلی کا فائدہ اٹھا کرغریب عوام پر مہنگائی کا بم برسا رہی ہے کیونکہ حکمرانوں کا راستہ روکنے والا کوئی نہیں ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت لندن میں بیٹھ کر ملکی حالات کا تماشہ دیکھ رہی ہے اور ملک کے غریب عوام کی بے بسی پر خوش ہورہی ہے۔ وہ پاکستانی عوام سے اس لیے ناراض اور ناخوش دیکھائی دے رہا ہے کیونکہ جب ان کو اقتدار سے ہٹایا گیا تو ان کا خیال تھا کہ پاکستانی عوام بھی ایسے ہی ان کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرے گی جس طرح چند سال قبل ترکی میں اردگان حکومت کو ختم کرنے کے لیے فوجی کاروائی کی گئی تو ترکی کے عوام نے اردگان کی حکومت کو بچانے کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا۔


اردگان ترکی کے عوام کے لیے سایہ کی طرح ہیں اور انکے دکھ درد کا ساتھی ہیں۔ اس لیے ترک عوام نے حکومت بچانے کے لیے اپنی جانوں کی قربانی دی۔ ہمارے ملک کے سابق وزیر آعظم نواز شریف صاحب بھی پاکستانی عوام سے ایسی ہی قربانی چاہتے تھے کہ پاکستانی عوام بھی ترک عوام کی طرح ان کے اقتدار کو بچانے کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کریں۔ ہمارے سابق وزیر آعظم صاحب کو یہ بات سوچ لینی چاہیے تھی کہ تین بار ملک کا وزیر آعظم رہنے کے باوجود غریب عوام کی بہتری کے لیے کیا خدمات انجام دیا۔ نواز شریف صاحب کو پاکستانی عوام کا شکرگزار ہونا چاہیے کہ پاکستانی عوام نے تین بار آپ کو ملک کا سربراہ بنادیا۔


پیپلز پارٹی کی قیادت اپنے کرپشن اور لوٹی ہوئی ناجائز دولت کو بچانے کی خاطر کسی بھی در پہ ہمہ وقت سجدہ کرنے کو تیار رہتی ہے۔ ان کو نہ ملک سے کوئی دلچسپی ہے اور نہ ہی عوامی مسائل کا احساس ہے۔ ان کو اپنی مفادات کی فکر ہے۔ اگر وہ ملک اور قوم سے مخلص ہوتا تو پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے تحریک چلا کر ملک اور قوم کو موجودہ نالائق حکمرانوں سے نجات دلاتا۔ ملک کے عوام حکمرانوں اور اپوزیشن جماعتوں کی کارکردگی جان چکے ہیں اور اپنے اوپر ہونے والے ظلم و زیادتی سے نجات حاصل کرنے کے لیے اس ملک کے غریب عوام کو خود ہی کوئی بڑا فیصلہ کرنا چاہیے۔ 73 سالوں سے ملک میں کبھی فوجی اور کبھی سول حکومتوں کے تحت چلتے ہوئے امیر امیرتر ہوگیا اور غریب غریب تر ہوگیا۔ اب حکومت بدلنے کی بجائے نظام کو بدلنے کا وقت آگیا ہے۔ حکومت بدلنے سے غریب عوام کی حالت نہیں بدلتی ہے۔ اس سے پہلے بھی کئی بار حکمومتیں تبدیل ہوچکی ہیں مگر عوام کی حالت بد سے بدتر ہوتی گئی۔ اس نظام کی تبدیلی کے بغیر ملک اور قوم کی حالت بہتر نہیں ہوسکتی۔ اس نظام کے تحت غریبوں کے لیے الگ قانوں ہے اور امیروں کے لیے الگ قانون موجود ہے۔ جس ملک کا قانون کمزوروں کو سزا دے اور طاقتور وں کو چھوڑدے وہ ملک اور قومیں تباہی و بربادی سے دوچار ہو جاتے ہیں اور ایسے قانون کو جنگل کا قانون کہا جاتا ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
55233

بزمِ درویش ۔ داغ۔ تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

پانچ سال کے طویل انتظار کے بعد آج جب سلطان پٹھان میرے سامنے آیا تو میں خوشی سے اچھل ہی پڑا۔چند آنے والوں کے درمیان جب میری نظر سلطان پر پڑی تو میں خوشگوار حیرت کے ساتھ اُس کی طرف بڑھتا چلا گیا قریب جاکر دیکھا تو یقین ہوا کہ یہ سلطان ہی ہے پہلے سے تھوڑا مو ٹا ہو گیا تھا گردشِ ایام نے اُس کی صحت پر مثبت اثرات ڈالے تھے میں گرم جوشی سے بغل گیر ہو گیا تو وہ بو لا سر میں پانچ سال بعد پاکستان آیا ہوں پہلے آتا تو ضرور آتا ایک تو آپ سے ملنے کو بہت دل تھا دوسرا مجھے پتہ تھا آپ کو بھی انتظار ہو گا آپ جاننا چاہتے ہو نگے کہ میں اپنی بات اور وعدے پر قائم ہوں یا میرا وہ جذبہ وقتی تھا جو وقت کی تند و تیز لہروں میں بہہ گیا ہے سر آپ کو خوشی ہو گی کہ میں اپنے وعدے پر پہلے سے زیادہ قائم ہوں بلکہ آپ کا شکریہ ادا کرنے آیا ہوں کہ آپ نے مجھے میری زندگی کی سب سے بڑی خوشی دی ہے میں ایک کامیاب بھر پور خوشگوار زندگی گزاررہا ہوں اِس میں خدا کی خاص مہربانی اور آپ کی کوشش کا بھی بھر پور حصہ ہے سلطان بہت خوش تھا

خوشی طمانیت اُس کے انگ انگ سے پھوٹ رہی تھی میرے لیے گفٹ بھی لے کر آیا تھا بولا سر یہ آپ کے لیے لایا ہوں آپ لوگوں سے مل لیں پھر آپ کو سارے حالات بتاتا ہوں یہ کہہ کر سامنے جا کر بینچ پر بیٹھ گیا اور میں ملاقاتیوں کی طرف بڑھ گیا اب میں لوگوں سے مل رہا تھا لیکن میری نظر مسلسل سلطان کا طواف کر رہی تھیں ایک سوال جو کانٹے کی طرح میرے دل و دماغ میں چبھ رہا تھا آج اُس کا جواب مل گیا تھا مجھے پانچ سال پہلے کا سلطان یاد آگیا جو چند ماہ سے میرے پاس آرہا تھا سلطان دنیا میں اکیلا تھا لا وارث تھا بچپن میں نے کسی نے پیدا کر کے کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دیا کسی نے اٹھا کر یتیم خانے میں جمع کر وا دیا بچپن سے جوانی کے مراحل طے کر تے ہوئے تعلیم بھی حاصل کرگیا بچپن میں ہی کسی نے یتیم خانے سے لے لیا اوراپنی اولاد کی طرح تعلیم و تربیت پر توجہ دی جوان ہوا تو یکے بعد دیگرے والدین اِس بے رحم دنیا میں چھوڑ کر اگلے جہاں کو سدھار گئے وراثت میں گھر ملا جس کا ایک پورشن کرائے پر دے کر زندگی کے دن گزارنے لگا تعلیم مکمل کی تو گھر بسانے کا خیال آیا تو والدین کے رشتہ داروں سے رجوع کیا جو سلطان کی حقیقت جانتے تھے سب نے رشتہ دینے سے انکار کر دیا بلکہ ظالم رشتہ داروں نے تو مکان میں اپنے حصے کا مطالبہ کر دیا وہ تو بھلا ہو والدین کا جو اپنی زندگی میں ہی مکان سلطان کے نام کر گئے تھے

ورنہ رشتہ داروں نے سلطان کو گھر سے نکال کر قبضہ کر کے اِس سے آخری سہارا بھی چھین لینا تھا رشتہ داروں کے سلوک سے سلطان بہت دل برداشتہ ہوا اُن سے میل ملاپ بند کر دیا اب اِس تلاش میں تھا کہ شادی کر کے اپنا گھر بسالے لیکن جہاں بھی رشتے کے لیے جاتا جب لوگوں کو حقیقت کا پتہ چلتا تو لوگ انکار کر دیتے جب انکار اور دھتکار کا سلسلہ درازہوا تو شادی کے لیے بابوں بزرگوں کے پاس جانا شروع کر دیا اِس بھاگ دوڑ میں کسی نے میرا ذکر کیا تو میرے پاس آگیا شروع میں تواصل بات نہیں بتائی لیکن چند ملاقاتوں کے بعد مُجھ پر اعتبار کرتے ہوئے ایک دن اپنی زندگی کے تلخ سچ کا میرے سامنے اقرار کیا بچو ں کی طرح بلکتے ہوا کہا سر آپ کے شفیق روئیے نے مُجھے یہ حوصلہ دیا کہ آپ کو سچ بتا ؤں ورنہ حوصلہ نہیں پڑتا کسی کے سامنے اپنا پیٹ ننگا کروں یہ بھی میں اِس لیے بتا رہا ہوں جو آپ بار بار کہتے ہیں کہ تم خوبصورت جوان پڑھے لکھے ہو پھر بھی لوگ تم کو رشتہ کیوں نہیں دیتے تو سر جب میرے آگے پیچھے کوئی نہیں والدین کا پتہ نہیں تو آپ ہی بتائیں کون مجھے اپنی فرزندی میں لے گا سر میں لاوارث تنہا ہوں آپ کی دعاؤں سے ہی یہ ممکن ہے ورنہ میں تو بھاگ بھاگ کر تھک گیا .

سلطان کا غم جان کر میں بھی دکھی ہو گیا اب میری محبت اِس سے بڑھ گئی اور میرا مشن تھا کہ کسی طرح سلطان کی شادی ہو جائے انہی دنوں میرے پاس ایک بیوہ عورت اپنی جوان بیٹی کے ساتھ آتی تھی کہ اِس کی شادی نہیں ہو تی میں اُس کو ذکر اذکار روحانی علاج کر تا رہا چھ ماہ سے زیادہ عرصہ ہو گیا میں حیران تھا کہ پڑھی لکھی جوان خوبصورت لڑکی ہے پھر رشتہ کیوں نہیں ہو رہا اِس جوان لڑکی کا رشتہ ہو نا بھی میرے لیے الجھن بن کر رہ گیا تھا کیونکہ اِس لڑکی میں تمام خوبیاں موجود تھیں جو کسی بھی مرد کا خواب ہو سکتا ہے لیکن صورت سیرت کے باوجود رشتہ نہیں ہو رہا تھا میں نے دو تین بار اچھے لڑکوں کا حوالہ دیا اور کہا آپ اپنا ایڈریس بتائیں یا اپنا موبائل نمبر تک لوگ آپ سے رابطہ کر سکیں تو لڑکی کی ماں ٹال مٹول کر جاتی بس ہر بار یہی کہتی پروفیسر صاحب آپ دعا کریں ایک دو رشتوں کی بات چل رہی ہے لیکن میں جب اُس کے گھر کا پتہ پو چھتا تو انکار کر دیتی یہ بات مجھے الجھن میں ڈال دیتی کہ کیوں ایسا کر رہی ہے

جب کافی مہینے گزر گئے تو ایک دن میں نے اچھی طرح تفصیل سے بات کی کہ آپ کو کوئی مسئلہ ہے آپ مجھے اپنا پتہ کیوں نہیں بتاتیں یا لوگوں کو اپنے محلے میں کیوں نہیں بلا تیں تو پہلے تو ماں نے ماضی کی طرح ٹال مٹول سے کام لیا لیکن پھر لڑکی بول پڑی اماں آپ پروفیسر صاحب کو سچ بتائیں گی یا میں بتا دوں یہ سن کر ماں رونے لگی اور چلی گئی اگلی بار آئی تو بیٹی نے چپکے سے مجھے ایک خط پکڑا دیا ان کے جانے کے بعد میں نے پڑھا تو حقیقت سامنے آگئی سر یہ میری ماں نہیں خالہ ہیں میرے والدین بچپن میں ہی فوت ہو گئے تھے پھر میری خالہ نے مجھے پالا ہے میں جوان ہوئی تو محلے کے بد معاش لڑکے نے مجھے اغوا کر کے ایک مہینہ اپنے پاس رکھا میری عزت سے کھیلا آخر کار بڑی کوششوں سے پولیس کی مدد سے میں واپس آئی بد معاش جیل چلا گیا میں محلے میں مشہور ہو گئی کہ میں داغی لڑکی ہوں میرے ماتھے پر داغ لگ چکا تھا

میں نیم پاگل تھی اب سارے محلے اور رشتہ دارجانتے ہیں کہ مجھے اغوا کیا گیا تھا اِس لیے اب کوئی میرا رشتہ نہیں لیتا کہ یہ کنواری لڑکی نہیں ہے میرے بارے میں بہت بکواس کی جاتی ہے میں محلے میں بد نام ہوں اِس وجہ سے خالہ کسی کو گھر نہیں بلاتیں خط غم ظلم و ستم سے بھرا ہوا تھا اب کوئی اِس سے رشتہ کر نے کو تیار نہ تھا میں نے یہ ساری باے سلطان کو بتائی تو حیران کن طور پر سلطان فوری مان گیا خالہ بھی مان گیا دونوں کی شادی ہو گئی لیکن ظالم معاشرہ اب بھی بکواس کر تا تھا سلطان بہت خوش تھا لوگوں کی باتوں سے تنگ آکر مکان بیچ کر میرے پاس آیا سر میں پاکستان چھوڑ کر مڈل ایسٹ جا رہا ہوں میں نے جاتے ہوے اِس سے وعدہ لیا تھا کبھی بیوی کو طعنہ نہیں مارنا اور خوش رہنا مجھے اِس سوال کا انتظار تھا آج سلطان سامنے آیا تو بو لا سر میں بہت خوش ہوں تین بچے ہیں مجھے میری بیوی کے بدلے میں ستر حوریں بھی ملیں تو نہ لوں میری زندگی جنت میری بیوی ہے سلطان واپس جانے لگا تو اُس کا ماتھا چوما کر بولا تم نے ایک معصوم کا داغ دھو یا جو تمہارے ماتھے پر کردار کا روشن چاند بن کر چمک رہا ہے آپ جیسے لوگوں سے ہی یہ بانجھ معاشرہ قائم ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامین
55216

نوائے سُرود – تجویز- شہزادی کوثر

گزشتہ ہفتے گورنمنٹ گرلز ہائرسکنڈری سکول شیاقوٹیک میں ایلمنٹری اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ کے زیر انتظام ایک پروگرام منعقد ہوا تھا جس میں ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر ( زنانہ) ایس ڈی اوز،اے ڈی اوز کے علاوہ چترال لوئر کے تقریبا پندرہ سکولوں کی طالبات اور اساتذہ نے شرکت کی ۔ پروگرام میں حسن قرات،نعت،اردو اور انگلش تقاریر، مضمون نویسی، پوسٹرمیکنگ،قومی ترانہ ، کوئزاور ملی نغموں کے مقابلے ہوئے جن میں طالبات نے بھر پور شرکت کر کے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ اس قسم کے مقابلوں کے ذریعے طالبات کی صلاحیتوں کو اجاگر کیا جا سکتا ہے۔

سکولوں میں تعلیم کے ساتھ ساتھ ایسی تقریبات منعقد کرانا محکمہ تعلیم کا اچھا اقدام ہے۔ ہر سال نومبر کے مہینے میں ایسے مقابلوں کا انعقاد کیا جاتا ہے جن میں شمولیت سے طالبات میں نہ صرف مقابلہ کرنے کا حوصلہ پیدا ہوتا ہے بلکہ اپنی مخفی استعداد کو آشکار کرنے کا بھی بھر پور موقع ملتا ہے۔ یہ ان میں خود اعتمادی پیدا کرنے کا  اچھا ذریعہ ہے ۔اس سے  ہم نصابی سرگرمیوں کی طرف طالب علموں کا رجحان بڑھ جاتا ہے اور وہ اپنے وقت کے صحیح اور مثبت استعمال کی طرف راغب ہو جاتے ہیں جو ان کی تربیت کا سب سے اہم حصہ ہے، لیکن چترال کے تناظر میں ان تقریبات کا جو وقت متعین کیا جاتا ہے وہ درست نہیں ۔نومبر کا مہینہ ملک کے دوسرے علاقوں کی نسبت چترال میں سردیوں کا موسم ہے دن چھوٹے ہو تے ہیں اس لئے یہ مہینہ اس قسم کی تقریبات کے لئے موزوں نہیں ہے۔

دور دراز کے علاقوں سے آنے والی طالبات مختلف مقابلوں میں شرکت کے لئے بڑی تعداد میں چترال ٹاون کا رخ کرتی ہیں ،اور وقت پر تقریب میں پہنچنے کے لئے اس سرد موسم میں صبح سویرے ہی اپنے گھروں سے نکلتی ہیں ۔ پروگرام میں بہت سارے سکولوں کی شمولیت کی وجہ سے میزبان سکول میں ڈسپلن کو برقرار رکھتے ہوئے تقریب کو اختتام تک پہنچانا بھی بہت بڑا چیلنج بن جاتا ہے ۔اس کے ساتھ تمام مقابلوں کو اتنے مختصر وقت میں خوش اسلوبی سے تکمیل تک پہنچانا بھی آسان کام نہیں ، یہاں سے فارغ ہو کر بچیاں گرم چشمہ ،بمبوریت دروش پہنچتے پہنچتے رات ہو جاتی ہے ۔

سردی کے موسم میں رات کو سفر کرنا ویسے بھی بہت بڑا خطرہ ہے ،اور اگر بات بچیوں کی ہو تو اور بھی مشکل ہے  کہ والدین پل پل خود کو سولی پر چڑھتا ہوا محسوس کرتے ہیں۔ ایلمنٹری اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ کی مجاز اتھارٹی کو کم از کم اتنا سوچنا چاہیے کہ چترال کا مقابلہ صوبے کے دوسرے شہروں سے نہیں کیا جاسکتا ۔ یہاں کا موسم ،حالات اور ذرائع آمدورفت میدانی علاقوں جیسے نہیں ہو سکتے ، وہاں آمدو رفت کا کوئی مسلہ نہیں ہوتا لیکن دور دراز علاقوں اور پُر پیچ پہاڑی رستوں پہ سفر کرنا دن کی روشنی میں بھی دشوار ہے تو یہ بچیاں اس سخت موسم میں ایسے سفر کی متحمل کیسے ہو سکتی ہیں اگر ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ کی مجاز اتھارٹی اس بات کو سنجیدگی سے لے تو اس سے سب کو فائدہ ہو سکتا ہے ۔

مقابلے کے لئے سال کے دوسرے مہینے جون ، اگست،اور ستمبر بہت سازگار ہیں کیونکہ دن لمبے اور موسم بھی قابل برداشت ہوتا ہے جس سے تمام سکولوں کی طالبات اسانی سے مقابلوں میں شریک ہو کر وقت پر واپس گھروں کو جا سکتی ہیں ۔اگر ڈپارٹمنٹ کے لئے ایسا کرنا ممکن نہیں تو پھر تمام مقابلے ایک ہی دن رکھنے کے بجائے کچھ مقابلے ایک دن کچھ دوسرے دن رکھے جائیں تاکہ ہر کام سہولت اور خوش اسلوبی سے تکمیل تک پہنچے ۔                                                       

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامین
55201

دھڑکنوں کی زبان – محبت کا سمندر۔محمد جاوید حیات


ماں کسی بھی انسان کے لیے ایک سمندر ہے محبت کا ایک دریا۔۔ پیار کا ساگر۔ماں کی ممتا ایک انمول تحفہ ایک انعام اللہ کی طرف سے۔۔خوش قسمت اولاد ماں کے سائے سے تا دیر محروم نہیں ہوتی جب ہوتی ہے تو محروم ازلی ہے خواہ اس کی کتنی زیادہ عمر کیوں نہ ہو کھوار ادب میں مشہور ہے کہ بچپن میں ماں سے محرومی قدرے بہتر ہے بڑی عمر سے۔۔بڑی عمر میں بچہ بہت بے سہارا لگتا ہے اورغضب کا اکیلا پن محسوس کرتا ہے۔۔بشیر حسین آزاد لالہ ایک لحاظ سے بہت خوش قسمت ہیں کہ ان کی والدین تا دیر ان کے ساتھ رہے انہوں نے ٹوٹ کر ان کی خدمت کی تابعدار اولاد ہونے کا حق ادا کیا۔ان کے والد محترم ان کی دکان میں آکر بیٹھتے اور ان کے کاروبار کی نگرانی کرتے ہم نے بشیر لالہ کو ان کے سامنے جھکتے دیکھا۔

قران نے کہا کہ اپنی رحمت کے پر ان کے سامنے بچھاوں بشیر لالہ اس آیت کی عملی تفسیر تھے۔۔اب کہ ان کی والدہ ماجدہ کا انتقال ہوا تو ایسے تابعدار اولاد کے لیے یہ بڑا سانحہ ہے یہ درد وہ لوگ محسوس کریں گے جو اپنے والدین سے محروم ہیں۔بشیر لالہ ایک ہمہ جہت شخصیت رکھتے ہیں۔معروف صحافی ہیں،سماجی کارکن ہیں اچھے کاروباری ہیں لوگوں کی خاموش مددگار ہیں۔ان کی سب سرگرمیوں کی منزل ان کے والدین تھے وہ اچھے والدین کی شناخت تھے اب بھی ان کی راہوں پہ چلیں گے لیکن اب بشیر لالہ کسی کا انتظار کریں گے۔۔ بیتابی سے اس کا انتظار کرنے والی کوئی نہ ہوگی۔بشیر لالہ اب ایک مدھم چاند ہے جس کی چاندنی ادھی ہے۔بشیر لالہ اب ایک اداس صبح ہیں جس میں شادمانی کم ہے۔بشیر لالہ ایک افسردہ شام ہے جس پر رات خاموشی سے اُترتی ہے۔بشیر لالہ اب خشک ہوتے چشمہ ہے جس پر سایہ کرنے والا گھنا درخت نہیں۔بشیر لالہ اب ایک گونگے بلبل ہیں جنہیں اپنی آواز سے نفرت سی ہو۔دنیا کی خوبصورتیاں رنگینیاں اور لذتیں جس ہستی سے وابستہ تھیں وہ اب نہیں۔۔اب بشیر لالہ عمر کے سانچے میں وقت بھرے گا۔اپنی اولاد کے لیے زندہ رہے گا۔پھول اب بھی کھلیں گے۔تتلیاں اب بھی آئیں گی۔خزان بہار اپنی باری پہ آئیں گی لوگ ان ایام کے اُلٹ پھیر کو زندگی کا نام دیں گے لیکن ایک خلش ایک کمی جو لالہ کو تڑپائے گی وہ ماں جی کی یاد ہوگی۔اب لالہ محبت کے سمندر میں غوطہ نہیں لگا سکتا۔یہ زندگی قید بے مصرف لگے گی۔۔۔ اللہ لالہ کو متبادل خوشیاں عطا کرے….

Posted in تازہ ترین, مضامین
55163

پس و پیش ۔ آج کا دن ۔ اے.ایم.خان


گزشتہ دو دن سے  فاطمہ اپنے ماں کو نہیں دیکھی ہے۔ اُس کو یہ نہیں معلوم کہ کیا ماجرا ہے۔ اور وہ یہ سمجھ بھی نہیں سکتی اگر اُس کو بتایا بھی جائے۔ اُس کو یہ معلوم تھی کہ گھر کے ایک کمرے میں اُس کی ماں ہے جہاں سے اُس کی درد بھری آواز  کبھی کبھار آجاتی ہے لیکن وہ اُسے دیکھ نہیں سکتی تھی۔

 فاطمہ کی یہ تیسری سال  چل رہی ہے اس لئے اب تک وہ اپنے ماں کے بہت قریب اور اُس کے ساتھ زندگی گزار چُکی ہے۔ یہ پہلا موقع تھی کہ وہ دو دن سے ماں سے دور تھی۔  

گھر میں سارے بچے حیران تھے کہ یہ پہلی دفعہ اُنہیں اُس چھوٹے کمرے میں جانے کی اجازت نہیں دی جارہی ، اور پوچھتے ہیں تو بھی اُن کو کہا جاتا ہے کہ فاطمہ کی ماں بیمار ہے۔

فاطمہ سے بڑے تین  اور بہن  ہیں ۔ گھر میں دوسرے بچوں کو بھی معلوم ہے کہ گھر میں بیماری ہے لیکن فاطمہ کی تین سالہ زندگی میں یہ پہلا واقعہ تھی کہ وہ دو دن سے اپنے ماں کو نہیں دیکھی تھی ۔ بس کبھی وہ زیادہ روتی تو اُسے باہر لے جایا جاتا تو ساتھ والے کمرے میں کبھی ماں کی درد بھری آواز آجاتی تھی  تو ایسا لگتا تھا کہ فاطمہ بھی پریشان ، خوف زدہ اور تجسس میں ہے کہ کچھ تو ہے  شاید اسی لئے  وہاں جانے کی ضد بھی نہیں کررہی تھی۔

دو دن سے فاطمہ اپنے باپ کے پاس ہے اور اُسے اپنی بات بتانے کی کوشش کرتی ہے کہ اُس کی ماں کو لایا جائے۔ ہر چند منٹ بعد  ماں کے پاس جانے کیلئے کہتی ہے۔ والد اُسے دلاسہ دے کر کہتا ہے کہ آپ کی ماں آجائے گی، اور کبھی کہتا ہے ٹھیک ہے میں آپ کو لے جاتا ہوں، اور اسے باہر لے کر ماں کے پاس لے جانے کے بغیر واپس گھر لے آتا ہے۔

یہاں نومبر کے مہینے میں اکثر برفباری ہوتی ہے۔گزشتہ رات  بارش ہوئی تھی لیکن برف نہ پڑی مگر ٹھند مزید زیادہ ہوچُکی ہے۔

 گزشتہ دو دن سے گھر میں کھانے کا بھی کوئی خاص بندوبست بھی نہیں۔  شام کے وقت چاول بنایا گیا تو بچے وہ کھائے جوکہ اُن کا پسندیدہ خوراک ہے ۔ رات دیر تک جب اُن کو بھوک لگی تو  اُنہیں خشک میوہ جات دیا گیا  تو اُنہیں کھاکر وہ سوگئے۔

 صبح سارے بچے سویرے اُٹھ گئے۔ شام کا چاول گرم کرکے اُس کے ساتھ چند انڈے تیل میں پکاکر اُن کو دیا گیا تو وہ  شوق سے کھاکر گھر ہی میں کھیل میں مشغول رہے۔  چند گھنٹے بعد پھر کھانے کی فرمائش آئی تو اُنہیں مکئ کے دانے پکا کرکے  الگ الگ برتن میں ڈال دئیے تو وہ خوشی سے کھائے  اور پھر کھیل رہے ہیں۔

فاطمہ کی پوری توجہ اگر چند منٹ کیلئے کہیں جاتی بھی ہے تو فوراً اُسے ماں کی یاد آجاتی ہے،  اور ماں کے پاس لے جانے کیلئے رونا شروع کر دیتی ہے۔

فاطمہ سے بڑے تین اور بچیاں ہیں، اور اس خاندان میں ابھی تک بیٹا نہیں ہوا ہے۔ اُن میں ایک بچی جس کی شادی ہوئی ہے، جب  اُس کی عمر  پندرہ سال تھی۔ گزشہ چند دن سے وہ بھی اپنے والد کے گھر میں ہیں لیکن گزشتہ دو دن سے یہ اپنے والدہ کے ساتھ اُس چھوٹے کمرے میں ہیں۔ دوپہر کا وقت ہوا تھا  کہ اتنے میں یہ بیٹی دوڑ  کر گھر کے دروازے پہ آکر  اپنے والد کی طرف متوجہ ہوکر  بولی۔۔ مبارک ہو ۔ والد خوشی سے امین کہہ دی ۔جیسے ہی والد نے امین کہنے کے بعد مزید پوچھنے والا تھا کہ بیٹا یا بیٹی ہوئی ہے اتنے میں وہ واپس چلی گئِ۔

فاطمہ والد کے چہرے میں خوشی کی عکس دیکھ لی اور جب دوسرے بچے بھی خوشی کا اظہار کئے تو اُس کو ایسا لگا کہ خوشی کا معاملہ ہے اور اُس کی ماں شاید اب آجائے گی۔  والد کو  اتنا معلوم ہوا تھا کہ  بچہ ہوا ہے لیکن یہ نہیں معلوم کہ  بیٹا ہوا ہے یا بیٹی۔  دل ہی دل میں یہ بات تھی کہ بیٹا ہوتا تو اچھا ہوتا۔

جب بیٹی واپس ماں کے پاس چلی گئی تو اُس نے مشکل سے پوچھی۔ اپنے والد کو بتا دی ۔  جواب  دیا ، ہاں بتائی۔ ماں نے سر ہلا دی۔ چند لمحے بعد اُس نے دوبارہ درد بھری آواز میں پوچھی ، آپ کا والد خوش ہوا؟  بیٹی نے جواب دی، ہاں، وہ خوش ہوگئی۔

گھر میں یہ بات عام تھی اور اُسے بھی احساس تھی کہ اُس کا شوہر بھی چاہتا ہے کہ بیٹا ہو ۔ اب تو گھر والے اور اُس کا شوہر سب خوش ہونگے ، یہ سوچ کر وہ سکھ کی سانس لی، اور آنکھیں بند کی تاکہ کچھ  آرام کرسکیں۔

گھر میں بچوں کا شور زیادہ ہونے لگا  اور  والد  تذبذب میں  تھا کیونکہ اُس کو یہ نہیں معلوم کہ اُس کا بیٹا ہوا ہے یا بیٹی۔ دس منٹ بعد بیٹی واپس گھر آئی تو والد نے پوچھا کہ آپ کے ماں کی طبیعت کیسی ہے ؟ بیٹی نے جواب دیا اب کچھ بہتر ہے۔ والد نے دوبارہ پوچھا ، وہ ٹھیک ہے؟ بیٹی نے جواب دی وہ کون؟ والد نے کہا  کہ آپ نے صرف مبارک باد دے کر چلا گئی، یہ نہیں بتایا کہ بیٹا ہوا ہے یا بیٹی۔

 بیٹی کو بھی اس بات کا احساس ہو چُکی تھی کہ اُس کا والد پہلے بیٹے کا نام لیتا ہے اور بیٹے کا کتنا آرزومند ہے۔ بیٹی نے مسکرا کر کہا ، والد جڑواں بچے ہیں۔ ایک بیٹا اور  ایک بیٹی،  اور دونوں صحت مند ہیں۔ جیسے ہی بیٹی نے یہ بات کہہ دی ، والد کے آنکھوں میں آنسو آگئے ۔ فاطمہ اُس کے گود میں تھی وہ پریشان ہوگئی تو اُس نے جلدی سے آنسو پوچھ کر فاطمہ کی طرف مخاطب ہوکر کہا کہ آپ کے بھائی اور بہن کی پیدائش ہوئی ہے۔

 خیر فاطمہ کو  یہ سمجھ نہیں آئی لیکن اُس کے لئے ایک خوشی اور تسلی کا اظہار تھی  کہ شاید اب اُس کی ماں آجائے گی۔

اسی اثنا میں والد نے بیٹی سے کہا کہ اگر آپ مصروف نہیں ہیں تو فاطمہ کو چند منٹ سنبھال لیں میں گاوں والوں کو خوشخبری دے کر آجاتا ہوں۔  بیٹی نے کہا کیسے وہ تو زیادہ وقت لگے گا ۔ والد نے کہا ، بس چند منٹ میں آجاتا ہوں۔  ٹھیک ہے جلدی آجائیں، بیٹی نے جواب دی۔

والد نے فاطمہ بڑے بیٹی کو تھما دی اور باہر ساتھ والے کمرے میں چلا گیا۔  صندوق کھولا اور وہاں سے صرف چار کرتوس تھے وہ  نکالے اور اُوپر لٹکے بندوق کو اُتار کر اپنے گھر کے چھت پر چلا گیا اور بے دھڑک یکے بعد دیگرے  چار دفعہ فائر کردی۔ پاس پڑا چھڑی اُٹھایا جس کے ایک سرے پر کپڑے کا ایک ٹکڑا ایک سوراخ سے لگی تھی اُس سے بندوق کے بیرل کے اندر سے وہ ضرور سے گزار کر نکال دی۔ اور بندوق دوبارہ سمیٹھ کر واپس گھر کی طرف آیا۔

فائر سے گاوں میں بھی یہ خبر پھیل گئی اور معلوم ہوا تھا  کہ اُس کا بیٹا ہوا ہے اور یہ فائر بیٹا  کا اعلان ہے۔

 جیسے ہی وہ واپس گھر میں داخل ہوئی تو اُس کی ایک بیٹی سکول سے واپس پہنچ چکُی تھی اور ساتھ والے کمرے میں اپنا بیگ رکھ کر جوتے آتا رہی تھی۔ جیسے ہی والد کے ہاتھ میں بندوق دیکھی تو وہ حیران اور پریشان  ہوگئی کیونکہ اُس کو معلوم تھی کہ اُس کی والدہ دو دن سے بیمار ہے۔ اُس نے فوراً  پریشانی میں اپنے والد سے پوچھا، کیا ہوا آپ بندوق لے کر آرہے ہیں۔ اُس نے مسکرا کر اپنے بیٹی کی طرف متوجہ ہوکر بولا، آپ کو نہیں معلوم ؟ بیٹی کو تسلی تو ہوگئی کہ معاملہ خوشی کا ہے ، اُس نے جواب دیا ، نہیں۔ آپ کو بھی مبارک ہو ، آپ کا ایک بھائی و بہن کی پیدائش ہوئی ہے۔ بیٹی خوشی سے پھولا نہیں سمائی، اور اپنے والد کے ساتھ لپٹ گئی۔ چند سیکنڈ بعد بیٹی نے کہا ، آپ کو بھی مبارک ہو۔ والد نے امین کہہ دی۔

پھر ، بیٹی نے والد سے پوچھا ،کیا آپ کو معلوم ہے  کہ آج کون سا دن ہے ؟ والد نے کہا آج تو میرے دو بچوں کی پیدائش کا دن ہے۔ بیٹی نے کہا اور کیا دن ہے؟ والد نے جواب دی سکول سے تو آپ آرہی ہیں  تعلیم یافتہ آپ ہیں مجھے بھی بتائیں آج اور کیا دن ہے، اس کی کیا تاریخی اہمیت ہے؟ بیٹی  گہری سانس لی اور جواب دی کہ آج بچوں کا عالمی دن ہے۔ والد نے بے ساختہ کہہ دی واہ ،واہ۔ بیٹی نے مزید بتا دی کے ہر سال 20 نومبر کو  دُنیا میں بچوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے اور اس دفعہ ہمارے سکول میں بھی  یہ عالمی دن منائی گئی۔۔۔

اپنے والد کی طرف دیکھتے ہوئےبیٹی نے کہہ دی کہ آج آپ منع  نہیں کریں گے نا۔ والد نے جواب دی، بالکل نہیں  تو۔۔۔

آج ہم گھر میں بھی آج کی مناسبت سے بچوں کا عالمی دن مناتے ہیں،  والد نے کہا، ٹھیک ہے  ، اور یہ  آج آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ کسطرح آج کا دن مناتے ہیں  باقی انتظامات  جو آپ بتا دیتے ہیں وہ میں کر دیتا ہوں۔

 دوسری بیٹی وہاں پہنچ کر یہ بات سُن رہی تھی، اتنے میں اُس نے بھی بات بڑھا دی  اور کہا کہ آج آپ لوگوں کا یعنی بچوں کا  پسندیدہ کھانا شام کو میں پکاتا ہوں۔ ویسے تو گھر میں ہر دن بچوں کا ہوتا ہے آج کا دن ہم بچوں کے نام کر دیتے ہیں۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
55150

بچے؛ جنت کے پھول- (20نومبر،بچوں کے عالمی دن کے موقع پر خصوصی تحریر)-از:ڈاکٹر ساجد خاکوانی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

بچے؛جنت کے پھول

(20نومبر،بچوں کے عالمی دن کے موقع پر خصوصی تحریر)

Universal Children’s Day

از:ڈاکٹر ساجد خاکوانی

                بچے جنت کا پھول ہوتے ہیں،انسانیت کا مستقبل بچوں سے وابسطہ ہے،انسانوں کاوہ طبقہ جو فطرت سے قریب تر ہے وہ بچے ہی ہیں اور بچے ہی ہیں جنہیں دیکھنا بڑوں کی آنکھوں کی ٹھنڈک کاباعث بنتاہے۔بچے،قبیلہ بنی نوع انسان کا وہ پہلو ہیں جو بہت نازک اور بہت کمزور ہونے کے ساتھ ساتھ بہت مضبوط اور بہت طاقتوربھی ہے۔بچے کی پیدائش کے ساتھ ہی گھرمیں خوشیوں کاایک سماں سا بندھ جاتاہے،جہاں پہلے کوئی بچہ نہ ہواس گھرمیں بچے کی آمد گویازندگی کی آمدکاپیش خیمہ ثابت ہوتی ہے اور جہاں پہلے بھی بچے موجود ہوں وہاں کے غنچہ بہارمیں ایک اورتروتازہ پھول کااضافہ ہوجاتاہے۔میاں اور بیوی جن کی زندگی جب ایک خاص مدت کے بعد یکسانیت کاشکارہونے لگتی ہے تو خالق کائنات اپنی بے پناہ محبت و بے کنار رحمت کے باعث ان کے درمیان ایک اور ذی روح کااضافہ کردیتاہے جو ان کی حیات نواور ان کی باہمی محبتوں اورچاہتوں کی تاسیس جدیدکاباعث بن جاتاہے۔کاروان حیات آگے بڑھتاہے توایک نسل کے بالیدگی کے بعدجب اس سے اگلی نسل کی آمد کاسلسلہ شروع ہوتاہے تو دادا دادی اور نانانانی اپنے ہی لگائے ہوئے پودوں میں پھل پھول لگتے دیکھ کر پھولے نہیں سماتے ہیں اور اب جب کہ عملی زندگی کی تندوتیزلہروں نے انہیں کنارے کی طرف دھکیلناشروع کردیاہے تو اس آنے والی نسل نوکی مرکزیت انہیں زندگی کاسہارااورنوبہاردلچسپیاں مستعاردینے لگتی ہے اور اوران کے پسماندہ و جہاں رسیدہ چہرے اپنی پوتوں اور نواسوں کو گودوں میں اٹھاکرچمکنے اور دمکنے لگتے ہیں اور انہیں عمررفتہ کی شادمانیاں ایک بار پھر یاددلانے لگتے ہیں۔

                بچے فطرت پر پیدا ہوتے ہیں اور فطرت انسانی کے بہترین امین ثابت ہوتے ہیں،اس لیے کہ محسن انسانیت ﷺ نے فرمایاکہ ہر بچہ دین فطرت پرپیداہوتاہے۔حق پیدائش،بچے کے حقوق میں سے سب سے اولین حق ہے۔خود اس دنیامیں وارد ہوجانا اور اپنے بعد آنے والی نسل کاراستہ روک لینا صریحاِِ خلاف انسانیت ہے اور ظلم ہے۔اس آسمان نے وہ نام نہاد ”مفکرین“بھی دیکھے جن کے فلسفوں نے بچے کو اس کے اس بنیادی،اولین اور فطری حق،حق پیدائش،تک سے بھی محروم کیا۔ہرذی روح کاحق ہے کہ اس کواس دنیامیں آنے کاپوراپوراموقع دیا جائے۔قرآن مجیدنے کیاخوب کہاکہ”وَ لَا تَقْتُلُوْ ٓا اَوْلَادَکُمْ خَشْیَۃَ اِمْلِاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُہُمْ وَ اِیَّاکُمْ اِنَّ قَتْلَہُمْ کَانَ خِطْاً کَبِیْرًا(۷۱:۱۳)“ترجمہ:”اورمفلسی کے اندیشے سے اپنی اولادکوقتل نہ کرو،انہیں اورخودتمہیں بھی رزق ہم دیتے ہیں،انہیں قتل کرنابہت بڑاگناہ ہے۔اللہ تعالی کی شان ہے کہ بچے کے آنے پر اس کے لیے جملہ انتظامات پہلے سے موجود ہوتے ہیں،قدرت نے بچے کے لیے ہوا،دھوپ،اناج اور اس کے ماں باپ اور بہت سارے محبت کرنے والے رشتہ دار پہلے سے بنارکھے ہوتے ہیں۔اس دنیامیں آتے ہی بچے کوہاتھوں ہاتھ لینے والے اوراس سے محبت کرنے والے اسے سینے سے لگالیتے ہیں۔بچے کے ابتدائی ایام کے لیے قدرت نے اس کی ماں کے سینے میں دودھ کے چشمے رواں کر دیے ہیں،اس کے باپ کے رزق میں بچے کاحصہ بھی اترناشروع ہوجاتاہے اور گھر،خاندان،قبیلہ اور قوم میں اضافہ ایک نقد انعام ہے جو قدرت کاملہ کی طرف سے تحفہ کے طور پر بہم پہنچادیاجاتاہے۔ہرہربچے کی پیدائش سے آسمان کی طرف سے گویاعالم انسانیت کو یہ اعلان سننے کوملتاہے کہ ابھی قدرت انسانوں سے مایوس نہیں ہوئی۔پس ہر مولود قبیلہ بنی نوع انسان کے لیے سامان خوش بختی کی نویدہے۔اس دنیامیں جنم لینے والا کھانے کے لیے ایک منہ اور محنت کرنے کے لیے دوہاتھ لے کرآتاہے جب کہ اس کے ذہن میں موجود فکرانسانی کی صلاحیت اتناطاقتورعنصر ہے کہ اس کے اندر ہی خلافت الہیہ کاملکہ پایاجاتاہے۔اس ذہن کے باعث ایک انسان ہزاروں نہیں لاکھوں انسانوں کی کفالت کاباعث بن سکتاہے بلکہ بن جاتاہے۔تاریخی حقائق اس بات پر شاہد ہیں کہ جب اس کرہ ارض پر آبادی کم تھی تو وسائل رزق بھی کم تھے،فی ایکڑ پیداوار بہت کم ہوتی تھی اور زراعت کے نت نئے طریقے دریافت نہیں ہوئے تھے اور اب جب کہ قدرت کی طرف بچوں کی آمدکاسلسلہ شبانہ روز جاری و ساری ہے تو آسمان اور زمین سے بھی رزق کے وسیلے امڈتے چلے آرہے ہیں اور زیرزمین خزانوں کا تو کوئی حساب ہی نہیں ہے۔یہ برکتیں ہی برکتیں ہیں جو بچوں کی آمد سے اس زمین پر برستی چلی جارہی ہیں۔

                پیدائش کے بعد شریعت محمدیہ ﷺکے مطابق بچے کے دائیں کان میں آذان دی جاتی جاتی ہے اور بائیں کان میں اقامت کہی جاتی ہے۔یہ بچے کے اولین سماعتی اثرات ہیں، سائنس آج یہ بات ثابت کررہی ہے کہ نومولود کے کان میں پڑنے والی ابتدائی آوازیں اس کے تحت الشعور میں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوجاتی ہیں۔آذان اور اقامت سے بچے کے ذہن میں اس کے ایمان کااولین تعارف داخل ہوجاتاہے۔اس کے بعد بچے کو گھٹی دی جاتی ہے۔دورنبوت میں جو بچے پیدائش کے بعد آپﷺ کے پاس لائے جاتے تو محسن انسانیت ﷺاپنی مبارک انگشت شہادت سے بچے کے تالو میں شہد لگادیتے جسے بچہ چاٹتارہتاتھا۔خاندان کے بڑے نیک بزرگ مردیاعورت سے بچے کو گھٹی دلاناگویا نیک اور دین دار ہاتھوں سے بچے کاافتتاح کرانا ہے جو یقیناََ بچے کے لیے خوش بختی کاپیش خیمہ ثابت ہوگا۔ننھے منے معصوم بچے کاحق ہے کہ اس کا بہترین نام تجویزکیاجائے۔ماں باپ کی طرف سے حق وجود کے بعدبچے کے لیے سب سے پہلا تحفہ اس کاخوبصورت نام ہے۔حسن تسویم کا حسن شخصیت پر براہ راست اثر انداز ہوناامرواقع ہے اور نام ہی انسان کا سب سے پہلاتعارف ہے خواہ وہ انسان خود موجود ہو یانہ ہو۔نام کی حقیقت ”نسبت“سے وابسطہ ہے،پس بہترین نام وہی ہیں جن میں بہترین نسبت پائی جاتی ہو۔محسن انسانیت ﷺنے ”عبداللہ“نام کو پسند فرمایاہے کیونکہ اس میں سب سے اعلی نسبت پائی جاتی ہے کہ ”اللہ تعالی کابندہ“۔لا معنی اور بے مقصدنام رکھنے سے احترازکرنا چاہیے،اسی طرح ایسے نام جن سے بد شگونی پیداہوان سے بھی منع کیاگیاہے مثلاََ”ایمان“یا”حیا“یا”برہ(نیکی)“نام رکھنا صحیح نہیں کیونکہ اگران ناموں کے افراد گھر میں نہ ہوں تو جواب دیاجائے گا کہ ایمان نہیں ہے یا حیا نہیں ہے وغیرہ۔لڑکوں کے لیے بہترین نام انبیاء علیھم السلام کے نام ہیں،اس کے بعد صحابہ کرام کے اور پھر بعد میں آنے والے نیک بزرگوں کے نام۔لڑکیوں کے لیے بھی بہترین اسماء وہی ہیں جو انبیاء علیھم السلام کے اہل خانہ کے ہاں ملتے ہیں  امہات المومنین یاصحابیات اور بزرگ خواتین کے اسمائے مبارک۔

                اولاد ملنا بہت بڑی نعمت ہے۔اس نعمت کے شکرانے کے لیے عقیقہ کی سنت تازہ کی جاتی ہے۔بیٹے کی پیدائش پر دو بکریاں اور بیٹی کی پیدائش پر ایک بکری ذبح کی جاتی ہے۔اگر والدین کے لیے دوبکریاں ذبح کرنا مشکل ہو تو بیٹے کی پیدائش پر بھی ایک بکری کر دینا کافی ہے۔عقیقے کے لیے ذبیحہ کرنا ہی ضروری ہے،ذبیحے کی رقم کسی اور نیک کام میں خرچ کر دینے سے عقیقہ ساقط نہیں ہو گا۔ کیونکہ عبادت وہی ہے جو نبیﷺکے طریقے کے مطابق کی جائے۔نبی علیہ السلام کے طریقے سے ہٹ کر کسی طرح کابھلاکام نیکی کے زمرے میں نہیں آتا۔انسان کے کاندھے پر بیٹھے فرشتے کسی بھی اچھے کام کو اسی وقت نیکی میں شمار کرتے ہیں اور اس کااجر بھی تب ہی لکھتے ہیں جب وہ عین سنت رسول اللہ ﷺکے مطابق ہی کیاجائے۔عقیقے کاگوشت حسب قربانی تین حصوں میں تقسیم کیاجاتاہے،ایک حصہ اپنے لیے،ایک حصہ رشتہ داروں کے لیے اور ایک حصہ غریبوں کے لیے۔ایک ہفتے کی عمر ہوجانے پرنومولود کے سر کے بال مونڈھ لیے جاتے ہیں۔ سرکے بالوں کے برابروزن چاندی کا صدقہ کیاجانا بھی شریعۃ اسلامیہ کی شاندارروایات میں سے ایک ہے۔اور وسعت کے مطابق بہترین،نان نفقہ،کپڑالتہ،علاج معالجہ، طعام و قیام اور تعلیم و تربیت وسیروتفریح بچوں کے کچھ مزیدحقوق ہیں۔

                محسن انسانیت ﷺ بچوں سے بے حد پیارکرتے تھے،خاص طور پر یتیم بچے ان کی توجہ کا مرکزہواکرتے تھے۔حضرت زید،جوغلام بن کرآئے تھے آپ ﷺ نے انہیں اتنی محبت دی کہ انہوں نے اپنے سگے ماں باپ کے پاس جانے سے انکارکردیا۔آپ کے بڑے بیٹے کانام قاسم تھااسی نسبت سے آپ ﷺ کو ”ابوقاسم“کہاجاتاتھا۔جب حضرت قاسم فوت ہوئے توآپ ﷺ اشک بارہوگئے۔ایک بارآپ ﷺ بازارمیں سے گزررہے تھے توایک آدمی نے زورسے پکارا”یااباقاسم“،توآپﷺنے مڑ کردیکھاتواس آدمی نے کہاکہ نہیں میں اس کوبلارہاتھا،وہاں کسی اور کی کنیت بھی ابوقاسم تھی۔آپ ﷺ کو یہ بات ناگوارگزری اور آپﷺ نے فرمایا کہ میرے نام پر نام تورکھولیکن میری کنیت پر اپنی کنیت نہ رکھو۔چاروں بیٹیوں سے اورخاص طور پرخاتون جنت بی بی فاطمۃ الزہراسے آپ ﷺ کو از حد محبت تھی،ان کے دونوں فرزند حسنین کریمین شفیقین آپ ﷺ کے کندھوں پر سواری کیاکرتے تھے اور جب کبھی حالت سجدہ میں یہ نواسے آپ ﷺ کی کمر مبارک پر سوار ہوجاتے توآپﷺاس وقت سر اٹھاتے تھے جب کہ وہ دونوں خود اترتے۔قرآن مجید نے حکم دیاہے کہ”یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَ اَہْلِیْکُمْ نَارًا وَ قُوْدُہَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَۃُ عَلَیْہَا مَلٰٓءِکَۃٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا یَعْصُوْنَ اللّٰہَ مَآ اَمَرَہُمْ وَ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ(۶۶:۶)“ترجمہ: ”اے ایمان والو اپنے آپ کواوراپنے گھروالوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کاایندھن آدمی اورپتھرہیں،اس پر تندخواورسخت گیرفرشتے مقررہیں،اللہ تعالی ان فرشتوں کوجوحکم دے وہ نافرمانی نہیں کرتے،اوروہی کچھ کرتے ہیں جوانہیں حکم دیاجاتاہے“۔چنانچہ بچوں کا یہ بھی حق ہے کہ دوزخ کی جس آگ سے ایک مومن خود بچنے کااہتمام کرتاہے وہاں اپنے بچوں کو بھی اس آگ سے دور رکھنے کابالالتزام انتظام کرے اور اپنے مرنے کے بعد بچوں کی فکر کے ساتھ ساتھ بچوں کے مرنے کے بعد ان کی فکر بھی دامن گیر رہنی چاہیے۔آپﷺجب فجرکی نمازکے لیے اپنے گھرسے باہر تشریف لاتے تو حضرت علی کے حجرے کادروازہ بجاکر انہیں فجرکی نمازکے لیے بیدارکرتے اورفرماتے اے اہل بیت نماز کے لیے چلو۔آپ ﷺ نے فرمایاکہ جب بچہ سات سال کاہوجائے تواسے نمازکے لیے کہواور جب دس برس کے ہوجائیں توان کے بسترالگ کردواورنماز کے لیے ان پر سختی کرو۔

            اپنے بچوں سے جانور بھی پیارکرتاہے،جنگلی درندہ بھی اپنی نسل کی بڑھوتری چاہتاہے اورعلوم معارف سے ناآشناانسانی آبادیوں سے دورزمین کی تہوں سے نیچے اور پانی کے اندھیروں میں چھپی ہوئی مخلوقات بھی اپنی نسلوں کے لیے کیسی کیسی قربانیاں دیتی ہے یہاں تک کہ بعض حشرات الارض تو ایک خول میں انڈے دے کر مرجاتے ہیں تب ان انڈوں سے نکلنے والے بچے اسی جسد مادرکوکھاکراپنے دورہ حیات کا آغاز کرتے ہیں۔لیکن حیرانی ہے اس سیکولر مغربی تہذیب پر جس نے اپنی نسل کے بچوں کو ہی اپنے اوپر بوجھ سمجھ لیا،اتنا ظالم اور اس قدر کرب ناک تجربہ تو اس سے پہلے بھی شاید کسی انسانی تہذیب نے نہیں کیاتھاکہ خود انسان پر اس کی اپنی نسل بوجھ بن کر رہ گئی ہو۔اس سیکولرمغربی تہذیب نے انسانیت کو اس درس معکوس سے آشناکیاکہ بچے انسانی وسائل پر بوجھ ہیں اور انہیں اس دنیامیں آنے سے روک دیاجائے۔ہوس نفس کی ماری اس سیکولرتہذیب نے اپنی ہی نسل کولذت نفسانی کی بھینٹ چڑھایا۔انقلاب فرانس سے شروع ہونے والا یہ اخلاقی تنزلی کاسفرآج تک جاری ہے اوراب تو یہ صورت حال ہے کہ یورپ کے بعض علاقے بچوں کے وجود سے بالکل خالی نظر آتے ہیں،اور ہردوچارسال یا پانچ سالوں کے بعد اکادکااسکول بند ہوجانے کی اطلاعات آتی ہیں کہ اتنے بچے ہی نہیں ہیں کہ سکول کوجاری رکھا جاسکے۔سیکنڈے نیویاکے بعض علاقوں میں بچوں کی پیدائش کی شرح اس قدر کم ترین ہے کہ کل آبادی میں چودہ فیصدسالانہ تک کی کمی دیکھنے میں آ رہی ہے اور شہر کے شہر خالی ہونے لگے ہیں جبکہ دوسری طرف اوسط عمر میں مسلسل اضافے کے باعث یہ غیرفطری طرزمعاشرت کے ثمرات بد ہیں کہ ایک طرف بچوں کی پیدائش کی شرح ہوشرباحد تک کم ہے تو دوسری طرف دن بدن سبکدوش ہونے والے افراد کی ایک لمبی قطاراور طویل فہرست ہے اور وہ ممالک مجبور ہیں کہ درمیان کے خلاکو پر کرنے کے لیے ایشیائی ممالک سے اپنی شہریت کے دروازے کھولیں۔ان یورپی ممالک سے جب کبھی کوئی سیاح ایشیائی ممالک کا سفر کرتے ہیں تو پھول جیسے بچوں سے بھری ہوئی گلدستے جیسی گلیوں کو دیکھ کر وہ پکاراٹھتے ہیں کہ یہ کتنی امیراقوام ہیں۔

             سیکولرمغربی تہذیب کی حامل اقوام کس منہ سے بچوں کاعالمی دن مناتی ہیں جب کہ بچوں کی سب سے بڑی استحصالی قوتیں وہ خود ہیں کہ انہوں نے اپنی گود میں لذت نفسانی سے سرشارسیکولرازم کی پرورش کرکے بچوں کو ان کی مامتاتک سے محروم کیاہے۔سیکولرمعاشروں میں بچوں کی ایک بہت بڑی تعدادنہ صرف یہ کہ باپ کی شفقت سے محروم ہوتی ہے بلکہ حقیقت میں تو اس تعدادکو اپنے باپ کا کوئی اتہ پتہ ہی معلوم نہیں ہوتاگویا ان معاشروں میں موجود بچوں میں حلالی اور غیرحلالی کافرق ہی نہ رہا۔بڑے تو پھر بھی اپنے حقوق کی خاطر مظاہرے کرتے ہیں لیکن مامتاسے محروم ڈے کئر سنٹرزمیں نرسوں کے ہاتھوں نیندکی دوائی ملادودھ پی کر ساراسارادن سوتے رہنے والے بچے تواس قابل نہیں ہوتے کہ وہ اپنی ماؤں کے حصول کے لیے سیکولرمغربی جمہوری حقوق کے تحت کوئی مظاہرہ کرسکیں۔اس سیکولرمغربی تہذیب نے بچوں کے ساتھ سب سے بڑی زیادتی اور ظلم یہ کیاہے کہ عورت کو بھی مزدوروں اورپیشہ وروں کی صف میں کھڑاکرکے خاندانی نظام کو اجاڑ پھینکاہے۔اس خاندانی نظام کی بقامیں ہی بچوں کاتحفظ پوشیدہ تھااور اب انسانیت کے دعوے داراور انسانی حقوق کے ٹھیکیداریورپ اور امریکہ کے کارپردازگان ایشیائی و اسلامی ممالک کے بچوں کو بھی اسی استحصال کا شکار کرنا چاہتے ہیں جس کی تفصیلات آئے دن اخبارات کی زینت ہیں۔اگروہ واقعی انسانیت کے خیرخواہ ہیں تو بچوں کے عالمی دن کا تقاضا ہے کہ اپنے ملکوں میں خاندانی نظام کو ازسرنو تازہ کریں جس کاواحد اور بالکل ایک ہی راستہ ہے کہ عورت کو اس کی فطری ذمہ داریاں سونپی جائیں کیونکہ نسوانیت اور مامتا لازم و ملزوم ہیں۔

            انسانی عقل کتنی ہی ترقی کرجائے وہ وحی کی تعلیمات سے آگے نہیں نکل سکتی،وحی کی تعلیمات میں ہی بچوں سمیت کل انسانیت کی فلاح پوشیدہ ہے۔نکاح وہ ادارہ ہے جس کے ثمرات صحیح النسب بچوں کی صورت میں انسانیت کو میسر آتے ہیں اور انسانی نسل آگے کو بڑھتی ہے۔ نکاح جیسے مقدس ادارے کاتحفظ خاندانی نظام سے ممکن ہے جبکہ بدکاری اور زناجیسے قبیح اعمال براہ راست نکاح جیسے محترم ادارے کو مجروح کرتے ہیں۔خاندانی نظام کی مضبوطی اور زناو بدکاری کی روک تھام کے لیے قرآن مجید نے جہاں بہت سے عائلی قوانین جاری کیے ہیں وہاں غص بصر،استیزان،حجاب اورعورت کو معاشی ذمہ داریوں سے مبراقراردے کردراصل انسان کی آنے والی نسل یعنی بچوں کے روشن مستقبل کی ضمانت دی ہے۔سال بھر میں ایک دفعہ بچوں کاعالمی دن منالینے سے بچوں کے حقوق ادانہیں ہو سکیں گے۔بچوں کے حقوق اداکرنے کے لیے ضروری ہے کہ فطرت نے ان حقوق کی ادائگی کوجس ماں کے فرائض میں شامل کیاہے اسے دنیاکی تمام ذمہ داریوں سے فراغت عطاکی جائے تاکہ وہ ”بچوں کے حقوق“کوبحسن وخوبی اداکرسکے۔جب ماں واقعی ماں تھی اور اسوۃ رسول ﷺ کی پیروکار تھی تو اس کی گود سے حسنین کریمین جیسے بچے عالم انسانیت کو میسر آئے،اللہ کرے کہ ہماری آنے والی نسلوں کوبھی ایسی مائیں مرحمت ہوں کہ وہ بچے اپنے حقوق کے لیے کسی عالمی دن کے محتاج نہ رہیں،آمین۔

[email protected]

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
55141

عرب لیگ:تاریخ کے آئینے میں – (Arab league)ڈاکٹر ساجد خاکوانی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

عرب لیگ: تاریخ کے آئینے میں

(Arab league)

ڈاکٹر ساجد خاکوانی

                سرزمین عرب براعظم ایشیاکے جنوب میں ایک جزیرہ نما،یعنی جس کے تین اطراف میں سمندر اور ایک طرف خشکی ہے واقع ہے۔عرب کی آب و ہوا انتہائی خشک ہے،بارشیں بہت کم ہوتی ہیں اور وہ بھی صرف ساحلی علاقوں میں۔کوئی بڑا قابل ذکر دریانہیں ہے،اگر بارشیں ہوں تو کچھ ندی نالے بہہ نکلتے ہیں وگرنہ لق ودق صحراہی صحراہے۔اس علاقے کو سیاسی اصطلاح میں ”مشرق وسطی“بھی کہتے ہیں۔یہاں گرمیوں میں سخت گرم ہوا چلتی ہے جس کے باعث گرمی کی شدت دو چند ہوجاتی ہے۔سرزمین عرب کے مغرب میں بحیرہ قلزم،مشرق میں خلیج فارس اور بحیرہ عمان،جنوب میں بحیرہ ہند اور شمال میں ملک شام واقع ہیں۔یمن،حجاز،تہامہ،نجداور عروض عرب کے تاریخی پانچ حصے ہیں،ان میں یمن نسبتاََ سرسبزوشاداب ہے اور مکہ و مدینہ جیسے علاقے حجاز میں واقع ہیں۔اونٹ،گھوڑے،شہد،کھجوراور اورتلوارعرب کی روایتی پہچانیں ہیں اور مہمان نوازی یہاں کا قدیم دستور ہے۔لفظ”عرب“کا مطلب بولنے والا ہے،اس قوم کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ عربی زبان بہت وسیع اور بہت بڑی ہے،ایک چیز کے سو سو الفاظ ہیں مثلاََ اونٹ کے ہزار سے زیادہ نام ہیں،نر اونٹ کااورنام ہے،مادہ کا اور نام ہے،جنگ میں لڑنے والے اونٹ کا اور نام ہے،مال بردار اونٹ کا اور نام ہے،گابھن اونٹنی کا اور نام ہے،جس اونٹنی کے پوتے پیداہونے لگیں اس کا اور نام ہے اور جس کے نواسے پیدا ہونے لگیں اسکا اور نام ہے،جو اونٹ قربانی کے لیے ہو اسکا اور نام ہے  اور جو اونٹنی دس بچے پیدا کر چکی ہے اسکا اور نام ہے وغیرہ۔اسی طرح گھوڑوں کے سینکڑوں نام ہیں تلوروں کے بے شمار نام ہیں وغیرہ۔اس وسعت لسانی کی وجہ سے عرب اپنے آپ کو عرب کہتے تھے یعنی بولنے والے اور دنیا کی دیگر زبانوں میں چونکہ اتنے الفاظ نہیں ہوتے اور انکاحجم کم کم ہوتا ہے اس لیے عرب لوگ دوسری اقوام کو عجم کہتے ہیں جس مطلب ”گونگا“ ہے یعنی بولنے کی صلاحیت سے محروم۔

                سلطنت عثمانہ کے زمانے میں سب عرب اقوام اور عرب علاقے ایک ہی جھنڈے کے نیچے جمع تھے،سامراج نے سب کو تنہا تنہا کر دیااوردور غلامی کے بعد امت مسلمہ کے علاقوں کو چھوٹی چھوٹی اکائیوں میں بانٹ کر اتحادویگانگت سے محروم کردیا۔اس کے باوجود بھی کچھ درد دل رکھنے والوں نے عرب ممالک کو ایک جھنڈے کے نیچے جمع کرنے کی کوشش کی اور باہمی متفقہ مفادات کی خاطر سب ممالک کو ایک نام سے جمع کیااور عرب ممالک کی ایک تنظیم”عر ب لیگ“ کے نام سے بنائی۔ ”الجمعیۃ دولۃ العربیہ“یا”الجمعیہ العربیہ“  یہ مشرق وسطی کے عرب ممالک کی علاقائی تنظیم ہے۔اسے”لیگ آف عرب اسٹیٹس“ بھی کہتے ہیں (League of Arab Satates)22مارچ 1945میں مصر کے دارالحکومت قاہرہ کے اندر اس تنظیم کی تاسیس کی گئی۔عرب کے ابتدائی اراکین میں مصر،شام،لبنان،عراق،اردن،سعودی عرب اور یمن شامل تھے۔اس کے بعد 1953میں لیبیا،1956میں سوڈان،1958میں تیونس اور مراکش،1961میں کویت،1962میں الجیریا،1971میں بحرین،قطر،عمان اور متحدہ عرب امارات،1973میں موریطانیہ،1974میں صومالیہ،1976میں فلسطینی تنظیم آزادی اور ایک دو مزید چھوٹے چھوٹے عرب جزائر بھی اس تنظیم کے رکن بنے۔اس تنظیم کی فیصلہ سازی میں ہر ملک کاایک ووٹ ہے اور کسی بھی نتیجے تک پہنچنے کے لیے صرف رکن ممالک ہی کی رائے شامل کی جاتی ہے۔

                1945میں عرب لیگ کے قیام کامقصد رکن ممالک کے درمیان سیاسی،ثقافتی اور معاشی ہم آہنگی کافروغ تھا۔اس کے علاوہ مشترکہ معاشرتی اقدار کی ترویج اور باہمی علاقائی تنازعات کا حل یا رکن ممالک میں سے کسی کے غیررکن ممالک سے تنازعات کے حل بھی پیش نظر تھے۔لیکن بہت جلد13اپریل 1950کو ہی رکن ممالک باہمی دفاع پر بھی متفق ہو گئے اورطے پایا مضبوط معاشی ربط و تعلق اور دفاعی معاملات میں ایک دوسرے کے ساتھ بھرپور تعاون کیاجائے گا۔اس کے باوجودبھی ابتدا میں عرب لیگ بس معاشی و معاشرتی اور ثقافتی تعلقات پر ہی قانع رہی۔1959میں پہلی عرب پٹرولیم کانگریس منعقد ہوئی،1964میں عرب لیگ ایجوکیشنل،کلچرل اینڈ سائنٹفک آرگنائزیشن (ALECSO)کا وجود عمل میں لایا گیا۔1964میں اردن کے بے حد اسرار پر فلسطینی تنظیم آزادی کوفلسطینیوں کی نمائندہ تنظیم تسلیم کیاگیا۔1972سے1979کے دوران تیسرے سیکرٹری جنرل محمدریاض کے دور میں عرب لیگ کی سیاسی سرگرمیاں بہت زیادہ ہو گئیں اور ان سرگرمیوں کا زیادہ تر محور اسرائیل کو فلسطینیوں کے ساتھ ظلم و زیادتی سے روکناتھا۔26مارچ1979کو جب مصر نے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے پردستخط کیے تو عرب لیگ کے ممبران نے مصر کی رکنیت معطل کر دی اور ہیڈ کوارٹر مصر سے تیونس میں منتقل کردیاگیا۔1989میں مصر کی رکنیت دوبارہ بحال کی گئی اور1990میں عرب لیگ کا صدر دفتر دوبارہ قاہرہ میں منتقل کردیاگیا۔

                1990کے کی دہائی میں جب عراق نے کویت پر چڑھائی کر دی تو سعودی حکومت نے فوراََ ہی امریکی فوج کودفاع وطن کے لیے اپنی سرزمین پر بلالیا۔یہ مذہبی طور پر بھی ایک بہت بڑا گناہ تھا۔حجاز مقدس پوری امت کے لیے مقدس سرزمین ہے،اسی سرزمین پر حرمین شریفین جیسے مقامات ہیں جہاں کی زیارات کے لیے لاکھوں نہیں کروڑوں مسلمان ہر سال جاتے ہیں۔ نبی اکرم ﷺ نے اور انکے خلفائے راشدین نے اس سرزمین کویہودو نصاری سے پاک کیاتھااور انہیں یہاں سے بزور قوت نکال دیاتھا،کم و بیش ڈیڑھ ہزارسال کے دوران باوجود بھرپور کوشش کے یہودو نصاری یہاں داخل نہیں ہو سکے لیکن سعودی حکمرانوں نے تھالی میں رکھ کر یہ مقدس سرزمین ان غیرمسلم افواج کے سپرد کردی۔کتنی حیرانی کی بات ہے کہ قرآن مجید نے جنہیں ہمارا دشمن قرار دیا دیا ہے انہیں دشمنوں کو مسلمانوں کے حکمران اپنے دفاع کے لیے دعوت دیتے ہیں۔گویا یہ تاریخ کے عجوبے ہیں دوستوں سے بچنے کے لیے دشمنوں کی مدد لی جارہی ہے۔یہ ردعمل اگر چہ پوری امت کاتھا لیکن عرب لیگ کے اندر بھی سعودی عرب کو اپنے اس اقدام پربہت زیادہ دباؤ کا سامنا کرنا پڑااور بہت سے عرب ملکوں نے یہودونصاری کی افواج کو اس مقدس سرزمین پر داخل ہونے دینے پر شدیداحتجاج کیا۔

                1964میں عرب مشترکہ منڈی کی تجویز پیش ہونے کے بعد اس پر عملدرآمد کا فیصلہ کیاگیا اور مصرعراق،اردن،لیبیا،موریطانیہ،شام اور یمن نے اس منڈی میں اولین شمولیت کے ارادے ظاہر کیے۔1976میں ایک اور معاشی معاہدہ عرب مانیٹری فنڈ کے نام سے قائم ہوا جس کو جملہ تفصیلات کے بعد1977میں نافذ کر دیاگیا۔یہ ایک مالی نوعیت کے ادارے کا معاہدہ تھا جس کا صدر دفتر متحدہ عرب امارات کے شہر ابو ظہبی میں قائم کیاگیا۔اس ادارے کے ذمہ یہ کام تھا کہ وہ عرب ممالک کے درمیان کرنسیوں کے لین دین اور عرب ممالک کے دیگر دنیاؤں کے درمیان کرنسیوں،سٹاک مارکیٹ اور زرمبادلہ کے جملہ معاملات کو طے کرے گا اور عرب لیگ کے رکن ممالک کو ادائگیوں کاتوازن برقرار رکھنے کے لیے راہنمائی اور تکنیکی مشاورت فراہم کرے گا اور ضرورت پڑنے پر مختصر مدت کے قرضے بھی فراہم کرے گا۔نومبر1973میں عرب لیگ کی سربراہی کانفرنس میں عرب بنک کے قیام کافیصلہ کیاگیا،اس بنک کے قیام کا مقصد عرب لیگ کے تحت جملہ منصوبوں کے لیے رقومات فراہم کرنا تھا۔اسکا صدر دفتر سوڈان کے دارالحکومت خرطوم میں ہے اور اس بنک کی زیادہ تر توجہ ان افریقی ممالک پر ہے جو عرب لیگ کے رکن ہیں۔ان ممالک میں جاری منصوبوں پر یہ بنک اپنی رقومات فراہم کرتا ہے جو مدد کی صورت میں اور قرض کی صورت میں بھی بعض اوقات ہوتی ہیں۔اسی طرح ایک عرب لیگ فنڈ بھی قائم کیاگیا جس کا صدر دفتر کویت میں ہے اور اسکا مقصد بھی تعلیم اور ترقیات سمیت جملہ منصوبوں کے لیے رقم فراہم کرنا ہے تاہم اس فنڈ میں نجی ادارے بھی اپنا حصہ ڈالتے رہتے ہیں۔

                عرب لیگ نے عربوں کے کتنے مسائل حل کروائے؟؟اس سوال کاجواب کوئی ڈھکاچھپانہیں ہے،ہزاروں فلسطینی ہر سال اسرائیلی بموں کانشانہ بن جاتے ہیں،دنیاکی سب سے زیادہ دولت عرب علاقوں میں ہونے کے باوجود عرب اپنا دفاع کرنے کے قابل ہی نہیں اور یہودونصاری کی افواج امت مسلمہ کی مقدس سرزمین کو اپنے ناپاک جوتوں سے روند کر ان عربوں کی حفاظت کرتے ہیں،افریقی عرب علاقے بدترین غربت کاشکار ہیں اور کل عرب اقوام سائنس و ٹیکنالوجی سے حد درجہ محروم اور کل یورپی و امریکی درآمدی مصنوعات پر انحصار کرتی ہے،بے پناہ انسانی و مالی و قدرتی وسائل کے باوجود کارخانہ سازی نام کو نہیں ہے۔اپنی تہذیب و ثقافت پر نازاں وفخورعرب اقوام مغربی طرز تمدن کی بدترین غلامی کا نقشہ پیش کر رہے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ عربوں کو عرب اقوام اور عرب سرزمین کاامین نہیں ہونا چاہیے بلکہ آخری نبی ﷺ اور آخری کتاب کے تناظر میں عربوں کو کل امت کا خیرخواہ ہونا چاہیے اور جب تک امت کے درمیان سے عرب و عجم کا فرق ختم نہیں ہوجاتاعربوں سمیت امت کی ایک ایک اکائی کودشمن شکارکر کے کھاتا جائے گا۔آخری خطبے میں آپﷺ نے یہ بھی فرمایاتھاکہ کسی عربی کوعجمی پراورکسی عجمی کو کسی عربی پرکوئی فضیلت نہیں سوائے تقوی کے۔ہم امید کرتے ہیں کہ عرب اقوام اپنے ماضی کاکردار ایک بار پھر دہرائیں گی اور کل امت کی سرپرستی کرتے ہوئے افتراق و انتشارکی بجائے اتفاق و اتحادکے ساتھ خلافت علی منہاج نبوت کی طرف اپنی قیادت و سیادت میں ایک نئے سفر کا آغاز کریں گے۔

[email protected]

arab league
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
55118

چیں بہ جبیں نہیں ہونا چاہیے! – قادر خان یوسف زئی کے قلم سے

جب کوئی شخص جذبات سے مغلوب ہوجائے تو وہ کوئی معقول بات سننے کے لئے تیار نہیں ہوتا کہ پیش آمدہ مسئلے پر عقل و بصیرت کی رُو سے غور کرے اور دلائل و براہین کے مطابق کسی فیصلے پر پہنچے، جو حالت افراد کی ہوتی ہے وہی عوام کی بھی ہوتی ہے، جب اقوام بھی جذبات کے سیلاب میں بہہ جائیں تو وہ عقل و دانش اور فہم و تدبر کی رو سے معاملات کے فیصلے نہیں کرتیں۔ قیام پاکستان کی مخالفت میں اظہار رائے کرتے ہوئے انتہاپسند ہندو خصوصاً جلدبازی اور نافہمی کا ارتکاب کرتے ہیں، انہیں وطن عزیز سے عناد اس وجہ سے ہے کہ یہ ’’مردِ مومن‘‘ کی فکر کا نتیجہ ہے، چنانچہ وہ پاکستان کے قیام کے اغراض و مقاصد پر غور وفکر کیے بغیر محض قومی تعصب اور سیاسی تنگ نظری کی بنا پر مخالفت کرتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ قیامِ پاکستان کی مخالفت میں بعض ایسے مسلمانوں کے گروہ بھی شامل تھے، جن میں اکثریت متحدہ قومیت پر جان دینے والے نام نہاد لیڈروں کی تھی۔

پاکستان کا تصور ان کے لئے خطرناک اور دل آزار تصور تھا اور اس بات سے خائف رہتے کہ ان کے غیر مسلم پیشوا برہم ہوکر ان کی سرپرستی سے دست کش نہ ہوجائیں، یہ امر محتاج بیان نہیں کہ انتہاپسند ہندو ہر اس چیز سے بے زار اور سوگوار ہوگا، جس میں پاکستان کی سلامتی ہو۔ خواہ اُسے مسلمانوں سے پاکستان یا بھارت میں کوئی نقصان نہ پہنچے، مگر وہ حسد سے اس قدر مجبور ہے کہ جب تک وہ مسلمان کو برباد اور رسوا نہ دیکھ لے، اس کی فطرت کو تسکین نہیں ہوتی۔ یہ طرز عمل انتہاپسند ہندوئوں بالخصوص آر ایس ایس میں بہ درجہ اتم پایا جاتا ہے، چنانچہ پاکستان کے نام پر جب مقبوضہ کشمیر میں بھی آواز اٹھتی ہے تو بقول سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی کہ ’’جموں کشمیر کو فوجی چھاؤنی میں تبدیل کرنے کے بعد بھی اضافی دستے کشمیر لائے جارہے ہیں،

اب کشمیریوں کے پاس سانس لینے کی جو تھوڑی سی جگہ باقی بچی ہے، اسے بھی سکیورٹی کے بہانے ختم کیا جارہا ہے۔‘‘ مودی سرکار کے حواریوں کے لئے نماز کے اجتماعات سوہان روح بنے ہوئے ہیں، جہاں نماز جمعہ کے اجتماعات ہوتے ہیں، انہیں روکنے کے لئے ’گوبر‘ ڈال دیا جاتا ہے، مساجد کو شہید اور اذان دینے پر پابندی لگائی جاتی ہے تو دوسری جانب نعوذ باللہ قرآن کریم سے آیات حذف کرنے کی ناپاک کوشش بھی کی گئی۔ مودی سرکار اور انتہا پسند تنظیم آر ایس ایس کے نزدیک پاکستان کا ذکر دراصل ’’پیغام جنگ‘‘ ہے، جن کا یہ تصور ہے وہ غلطی میں مبتلا ہیں، انتہاپسند ہندوئوں کے نزدیک تو ہمارا ہر قول و فعل ’پیغام جنگ‘ لگتا ہے، وہ اُس وقت تک میٹھی نیند نہیں سوسکتا جب تک ہم بالکل نیست و نابود نہ ہوجائیں،

مگر ہمارے عزائم ہرگز غاصبانہ نہیں، ہمیں عام ہندوئوں یا بھارت میں رہنے والے مسلمانوں سے کبھی بھی تعرض نہیں کہ وہ بھارت میں کیا کرتے ہیں، لیکن بحیثیت مسلم جب دنیا کے کسی بھی گوشے میں مسلمانوں کو وجۂ نفرت بناکر جبر اور ظلم کیا جائے گا تو پاکستانی ہی نہیں بلکہ مسلم اکثریتی ممالک کا ایک عام مسلمان بھی درد سے تلملا اٹھے گا۔ پاکستان دنیا کی ہر ریاست کا احترام اور اس کے مینڈیٹ کو تسلیم کرتا ہے، خطے میں قیام امن کے لئے مثبت کوشش کسی بھی ملک سے جڑی ہو، اس کی اخلاقی حمایت کرتے ہیں، قیام پاکستان کی بنیاد دو قومی نظریے سے تعبیر ہے، مقبوضہ کشمیر پر جبراً بزور طاقت قبضہ قابلِ قبول نہیں، بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کے مذہبی شعائر کے خلاف ہتک و نفرت انگیز کارروائیاں انسانی و مذہبی حقوق کی کھلی خلاف ورزیاں ہیں۔ پاکستان ایک آزاد مملکت کی حیثیت سے برابری کی سطح اور خودمختاری کی پری سے ہمکنار ہونا چاہتا ہے تو مودی سرکار سمیت کسی بھی ملک کو چیں بہ جبیں نہ ہونا چاہیے، بلکہ ہم مشربی کے تقاضے سے ہمارے ارادوں کو مرحبا کہتے ہوئے کامیابی کا ’آشیرواد‘ دینی چاہیے۔ پاکستان بن چکا،

اب یہ حقیقت ہے اس کو بدلا نہیں جاسکتا، مملکت کی جداگانہ ہستی پر کسی کو بھی اب ملال نہیں ہونا چاہیے، تاریخ ثابت کرچکی کہ پاکستان کا قیام ناگزیر ہوچکا تھا، انتہا پسند ہندوؤں نے مسلمانانِ ہند پر روزِ روشن کی طرح ثابت کردیا تھا کہ وہ ناصرف غاصب اور خائن بلکہ بدترین قسم کے دشمن اور ستم گر بھی ہیں، مودی سرکار کے حواری کس منہ سے توقع رکھتے ہیں کہ ہم بے زبان جانور کی طرح جورو تعدّی سہتے رہیں اور اپنی زیست و حیات کا سرمایہ بی جے پی، آر ایس ایس کے ہاتھوں میں دے کر اس کے رحم و کرم کی راہ گداگروں کی طرح تکتے پھریں، یہ اَمر طبیعت پر اور بھی ناگوار گزرتا ہے، جب یہ خیال آتا ہے کہ یہ رویہ ان لوگوں نے اختیار کیا جو ہزارہا سال سے غلامی کی روزی کھاکھا کر عالی حوصلگی، بلند ہمتی، رواداری، بردباری، سیرچشمی اور جہان بانی کے محاسن سے قطعاً عاری اور مفلس ہوچکے تھے اور ہیں،

ایسے انتہاپسند ہندوئوں اور غاصب مودی سرکار سے کسی دلداری کی توقع رکھنا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔ برصغیر ہند میں ہمارے بزرگوں نے قریباً ایک ہزار سال اسلام کا جھنڈا لہرایا اور وہ ہندوئوں کی کثرت اور برافروختگی سے مبہوت نہیں ہوئے تھے، تو آج ہم کس طرح اپنی زیست و حیات کی بقا اور مذہب و ملت کے احیا کے لئے انتہاپسند ہندوئوں کی خوشنودی اور منظوری حاصل کرنے کی خاطر مقبوضہ کشمیر کے حق خودارادیت سے دست بردار ہوجائیں، ہمارے نزدیک جموں و کشمیر کے حق خودارادیت کو ناممکن العمل کہنا عزم و ہمت کی کوتاہی کی دلیل ہے، جو قوم زندہ دل رکھتی ہے وہ موت سے کھیلنا اپنی آبرو کا نشان سمجھتی ہے اور اس کے لئے کسی چیز کے حصول کا خیال بفضل ایزدی ’ناممکن‘ نہیں۔ مقبوضہ کشمیر، بھارت سے کلیتاً ہر لحاظ اور ہر اعتبار سے علیحدگی کا مدعی ہے اور کشمیری ’’بھارتی قومیت‘‘ کا عنصر بننے سے صریحاً انکار کرتے ہیں۔ تاریخی، جغرافیائی، نسل اور ثقافتی لحاظ سے کشمیر بھارت کا حصہ کبھی قرار نہیں دیا جاسکتا، تو کیا وجہ ہے اُسے حق زیست سے محروم کیا جائے اور خوامخواہ اسے غلام آباد بھارت کی قسمت سے وابستہ کیا جائے۔ سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
55109

ناقص اشیاء خوردو نوش ، وبال جان -تحریر : ثمر خان ثمر گلگت

موت کا ایک دن معین ہے ، وقت مقررہ پر ہر ذی روح کو یہ پیالہ چکھنا ہی ہے۔ اسے انکار اور فرار کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں امراض قلب اور امراض معدہ میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ ملک بھر میں یہ مسئلہ زور پکڑ رہا ہے ۔ گلگت بلتستان کی اگر بات کی جائے تو ضلع دیامیر زیادہ متاثر دکھائی دیتا ہے۔ یہ بیماری کئی افراد کو آناًفاناً نگل چکی ہے۔ جس تیزی سے بیماری نمو پا رہی ہے اس نے لوگوں کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ وجوہات کا کھوج لگانا اور سدباب کے طریقے ڈھونڈ نکالنا حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے۔ وہ کون سے عوامل ، کون سی وجوہات ہیں جو اس مہلک مرض کا سبب بن رہی ہیں؟ اس سلسلے میں سر جوڑ کر بیٹھنے اور بیٹھ کر سوچنے کی اشد ضرورت ہے۔ جو کام عوام کی دسترس میں ہے وہ عوام سرانجام دے اور جو حکومتی اختیار میں ہے وہ حکومت سرانجام دے۔


جہاں تک میں سمجھ پایا ہوں  ناقص اشیاء خورد نوش بنیادی سبب ہے۔ امراض قلب سے متعلق عام طور پر مشہور ہے کہ فقدان کسرت اور تن آسانی اس کی بنیادی وجہ ہے ، ہو سکتا ہے یہ بات اپنی جگہ درست ہو مگر جب اپنے علاقے میں لوگوں کو اس مرض کا شکار ہو کر راہی ملک عدم ہوتے دیکھتا ہوں تو مجھے اس کی وجہ کوئی اور لگتی ہے۔ ان علاقوں میں لوگ جفاکش اور محنت کش ہیں۔ کسرت ان کی زندگی کا اٹوٹ انگ ہے ، تن آسانی سے اکثر لوگ انجان ہیں۔ کھیتی باڑی ، محنت مزدوری اکثر لوگوں کا ذریعہ معاش ہے یا کم از کم روزانہ چہل قدمی کا پابند تو ہر شخص ہے ہی ۔ چست ، پھرتیلے اور کسرتی بدن والے لوگوں کا یوں اس بیماری میں مبتلا ہو کر زندگی کی بازی ہار دینا لمحہ فکریہ ہے۔ 


بوڑھی بوسیدہ مرغیاں ، سن رسیدہ بھینسیں ،ناقص بناسپتی گھی ، ناقص مکھن ، دو نمبر مشروبات ، ناقص مصالحہ جات ، ناقص چائے کی پتی، گلی سڑی سبزیاں اور پھل ، غیر معیاری پاپڑ اور بسکٹ وغیرہ اس بیماری کے ذمہ دار ہیں۔ جب تک ان بیکار اور ناقص اشیاء کا وجود نہ تھا اور لوگ ان سے انجان تھے ، زندگی سکون سے کٹ رہی تھی۔ جب دیسی مرغی کی جگہ مشینی مرغی نے ، پالتو جانوروں کی جگہ پنجاب کی سن رسیدہ بھینسوں نے ، دیسی گھی کی جگہ بناسپتی گھی نے ، اصلی کی جگہ نقلی مصالحہ جات نے ، دیسی سبزیوں کی جگہ بازار کی سڑی سبزیوں نے اور دیسی لسی کی جگہ دو نمبر مشروبات نے لے لی تب انسانی زندگیوں میں طرح طرح کی بیماریاں در آئیں۔ معدہ ، ہیضہ اور دل کی بیماریاں عام ہو گئیں ۔لوگ دھڑا دھڑ ان بیماریوں میں مبتلا ہونے لگے۔ مجھے یاد ہے جب تک ان چیزوں کا رواج عام نہیں ہوا تھا لوگوں کی صحت قابل رشک تھی۔ یہ نت نئی اور بھانت بھانت کی بیماریاں تب نہ تھیں۔ لوگوں کا زیادہ تر انحصار دیسی کھانوں پر تھا۔ خود اگاتے تھے،  خود ہی کھاتے تھے۔ ہر شے میں سادگی تھی۔ “چھنی شاہ” (ساگ) سادہ پانی میں پکاتے، دیسی گھی ڈالتے،  مکئی کی روٹی کے ساتھ کھا لیتے تھے۔ اوپر سے دیسی لسی لطف دوبالا کردیتی۔ رفتہ رفتہ بناسپتی گھی آیا،  مصالحے آئے اور پھر بیماریوں کے در کھلتے گئے۔ مشروبات نامی زہر تو درکنار ، لوگ چائے سے نابلد تھے۔ دودھ اور لسی مرغوب مشروبات میں شمار ہوتے تھے۔


غور فرمائیے، ایک بچہ صبح تا شام کیسی کیسی مضر صحت اشیاء اپنے ننھے منے اور نوزائیدہ معدے میں اُتارتا ہے؟  ہر گلی کوچے میں کھوکھا کھول کر لوگ بچوں کا شکار کرنے بیٹھے ہوئے ہیں۔ یہ ایسی بوسیدہ اور ناقص چیزیں بیچتے ہیں کہ الحفیظ ۔ بچے تو بچے خود بڑوں کے معدے میں آگ لگا دیں۔ خدا جانے یہ چیزیں کس کس مرحلے سے گزر کر،  کس کس ناقص مواد سے وجود پاتی ہیں؟ کاروباری حضرات کو اپنے کاروبار سے مطلب ہے،  کسی کی صحت سے کیا لینا دینا؟  صحت جائے بھاڑ میں،  بس ان کے کاروبار کا پہیہ متواتر حرکت میں رہے۔ یہ ذمہ داری والدین،  باشعور افراد اور سرکار پر عائد ہوتی ہے کہ ناقص اشیاء سے معصوم بچوں اور عوام کو چھٹکارا دلائیں ۔ 


ایک ہی حل ہے کہ ہم ان چیزوں سے قطع تعلق کرلیں ، ان ناقص اور مضر صحت اشیاء کو اپنے گلی محلوں میں گھسنے نہ دیں ، خالص غذاؤں کا چلن عام کریں ، دو نمبری مشروبات کو ٹھوکر ماریں اور لسی کو فروغ دیں۔ وادی تھور کے ایک دورافتادہ گرمائی چراگاہ میں ہمارے میزبان نے دوران لنچ جب بوتل پیش کی تو یقین کیجیے مجھے شدید حیرت ہوئی اور میں سوچتا رہ گیا کہ کیسے یہ زہریلا مشروب یہاں تک پہنچ گیا؟ میں نے لسی کی مانگ کی تو میزبان نے ٹال مٹول سے کام لیا ، اس کی طبیعت  نے گوارا نہ کیا کہ مہمانوں کی تواضع لسی سے کی جائے ۔ لسی تو ثانوی شے ہے یہ مہمانوں کو کیونکر پیش کی جا سکتی ہے؟ یعنی شان میزبانی کے خلاف سمجھا۔ حالانکہ ان مقامات پر بکریوں کے دودھ سے جو خالص لسی نکالی جاتی ہے اس کا ایک گلاس دنیا کی تمام مشروبات کی ماں ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ لاشعوری طور پر ہم روزانہ چپکے چپکے بوتل نامی زہر اپنے معدے میں اتار رہے ہیں۔ ہمیں لوگوں میں آگاہی مہم چلانے کی ضرورت ہے۔


حکام بالا سے  پرزور مطالبہ ہے کہ دکاندارروں ، مرغی فروشوں اور قصابوں کو سختی سے ہدایت کرے اور پابند بنائے تاکہ وہ عوام کو معیاری اور خالص اشیاء خورد و نوش مہیا کریں۔ ہر چیز کا نعم البدل موجود ہے۔ جب نعم البدل موجود ہے پھر چند پیسوں کی خاطر لوگوں میں موت بانٹنے کا سودا کیوں کرتے ہیں یہ لوگ؟ بدقسمتی سے ہمارے یہاں انتظامیہ کو دکانوں میں چند پاپڑ نظر  آتے ہیں جب جب برق گرتی ہے تو پاپڑوں پر۔ باقی کون بوسیدہ مرغی بیچ رہا ہے؟ کون غیرمعیاری مصالحوں سے لوگوں کے معدے بگاڑ رہا ہے اور کون دو نمبر مشروبات پلا پلا کر لوگوں کے معدوں میں زہر انڈیل رہا ہے؟ پرواہ ہی نہیں ۔ پڑھا لکھا طبقہ اور سوشل تنظیموں سے درخواست ہے کہ وہ زبردست قسم کی شعوری مہم چلائیں ، مصنوعی چیزوں کی حوصلہ شکنی اور خالص دیسی اشیاء کی حوصلہ افزائی کریں۔ یہ آپ لوگوں کا فرض ہے ، آپ کی ذمہ داری ہے۔ اللہﷻ نے آپ کو شعور دیا ہے اس کا بہتر استعمال کریں اور لوگوں کو تباہی کے دہانے سے نکال باہر کریں۔ اللہﷻ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
55026

فولادی اعصاب کی مالک خاتون نفس بی بی – تحریر: نورالھدیٰ یفتالیٰ

جس نے ایک انسان کی جان بچائی گویا اس نے پوری انسانیت کی جان بچائی؛(آلقران)

ہاتھ میں چھڑی، کاندھے پر لٹکتی ہوئی دوایئوںسیبھری ہوئی بیگ، ۶ فٹ برف میں کھڑی ہوئی یہ خاتوں کوئی اور نہیں آغا خان ہیلتھ سروس پاکستان چترال کیصحت کا ایک ورکر ہے۔موسم کی سختی اس کی ہمت کے سامنے بے بس ہے، گلشیر اور برف کی سینہ چھیڑ کر ہوا کی یہ بیٹی سطح سمندر سے 13600 فٹ بلند ی پر واقع وادی بروغل کے باسیوں کا مسیحا ہے۔

سطح سمندر سے 13600 فٹ بلند گلیشر کے دامن میں آباد اس مقام کا نام وادی بروغل ہے۔جو چترال سے 250 کلومیٹر دور افغان صوبے بدخشاں کے ضلع واخان کے بارڈر پر واقع ہے۔ وادی بروغل خیبرپختونخوا کے ضلع چترال کے ایک دور افتادہ پہاڑی علاقے میں واقع ہے۔جو ۱۶۰۰ آبادی کے ۲۲۰گھرانوں پر مشتمل ہیں۔ وادی بروغل کے شمال مشرقی حصے میں گلگت بلتستان کا علاقہ آباد ہے۔

وادی بروغل تنی خوبصورت ہے کہ اسے زمین پر جنت کہا جاتا ہے، بروغل کے رہائشیوں کے لیے زندگی اتنی آسان نہیں ہے۔ جتنی ہم جیسے انسان تصور کرتے ہیں۔یہ علاقہ سردیوں کے مہینوں میں بہت سخت موسم کا تجربہ کرتا ہے، یہاں ہر سال پانچ سے چھ فٹ برف پڑتی ہے۔ اس کے نتیجے میں وادی صوبے کے باقی حصوں سے بالکل الگ تھلگ ہو جاتی ہے۔اور تمام مواصلاتی رابطہ منقطع ہو جاتا ہے۔سال بھر زندگی گزرانے کے لئے تمام اشیائے خوردانی جمع کرنا پڑتی ہے۔اس وادی میں صحت کے حوالے سیکوئی خاطر خواہ انتظامات نہ ہونے کے برابر ہے۔ وادی بروغل کے لوگ انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں وادی میں نہ تو کوئی مواصلاتی نظام فعال ہے نہ روزگار کے مواقع موجود ہیں‘زیادہ تر لوگ مال مویشی پالتے ہیں مگر موسم سرما میں شدید برف باری کی وجہ سے کئی مہینے یہ لوگ گھروں میں محصور ہوکر رہ جاتے ہیں اور اس دوران ان کے مال ماوشیوں کے لئے چارہ بھی مشکل سے دستیاب ہوتاہے۔

آغا خان ہیلتھ سروس گزشتہ کئی دیایئوں سے ضلع چترال اور گلگت بلتستان کے پسماندہ علاقوں میں صحت کے شعبے میں اپنی بہتریں خدمات انجام دے رہی ہے۔ اے کے ایچ ایس پی سماجی صحت عامؔہ کے پرگراموں کو ترتیب دیتا ہے تاکہ معاشرے میں عدم تحفظ کے شکار طبقے تک رسائی حاصل ہو خاص طورپر حاملہ خواتین کی دیکھ بھال اور وقت کے ساتھ سنگین نوعیت کے کیسز کو ریفر کرنا،تاکہ ماں اور بچے کی صحت کو بروقت کوئی خطرہ لاحق نہ ہو۔ اور چھوٹے بچے جنہیں تکنیکی طبی سہولیات فراہم کی جاسکیں۔مثلاًحفاظتی ٹیکے، حاملہ عورتوں کی دیکھ بھال، جراثیم سے پاک تولید، دست کے علاج کے لیے اورل ری ہائڈریشن تھراپی کی فراہمی اس نیک عمل کا حصہ ہے۔

آغا خان ہیلتھ سروس، پاکستان نے ا یک ہیلتھ سنٹر قائم کیا ہے جو وادی یارخون کے گاؤںشوست میں ہے۔جو وادی بروغل سے 55 کلومیٹر دور ہے۔ وادی بروغل کے باسیوں کے لئے آغا خان ہیلتھ سنٹر شوشت تک رسائی ممکن نہیں ہے کیونکہ اس وادی میں گاڑیاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اگرچہ عام دنوں میں اس وادی تک پہنچنا مشکل ہوتا ہے، لیکن خاص طور پر سردیوں کے موسم میں اس وادی تک رسائی تقریباً ناممکن ہے۔

chitraltimes nafas bibi chitral 3

سال ۲۰۲۰ اور سال ۲۰۲۱کے موسم سرما میں AKHSP لیڈی ہیلتھ وزیٹر میں سے ایک محترمہ نفس بی بی نے بہت سنگین نوعیت کے خواتین کے کیسز (ڈلیوری، ریٹین نال) میں شرکت کے لیے کئئ بار وادی بروغل کا دورہ کیا ہے۔ اس نے پیدل سفر کیا اور شدید برف باری میں مسلسل دو دن گھوڑے پر سوار ہو کر اس مقام تک پہنچی جہاں اللہ تعالیٰ ایک امید کی روشنی بنا کربے سہاروں کا سہارہ بنا کر نفس بی بی کو ا س علاقے کے لئے میسحا کے طور پر ذمہ داری سونپ دی ہے۔نفس بی بی اس وادی کے خواتین کے لیے کسی مسیحٓا سے کم نہیں ہے، کیونکہ جہاں زندگی اتنی بے درد ہو وہا ں کوئی اسہارہ بن کر اترے وہ کسی معجزے سے کم نہیں ہے۔زندگی کے بینادی سہولیات سے محروم اس وادی میں آغا خان ہیلتھ سروس گرران قدر خدمات انجام دے رہی ہے۔

نفس بی بی گزشتہ کئی سالوں سے آغا خان ہیلتھ سروس پاکستان کے ساتھ وابسط ہے۔اس نے اس پسماندہ علاقے میں ہوا کی بیٹی کو زندگی کے ابتدائی ایام میں کامیاب پیدایش اور پیشہ ورانہ طور پر ان کی بہتر صحت کو برقرار رکھنے کا ذمہ سنبھالا ہےْ۔ اس نے ماؤں کی جانیں اور ان کے بچوں کی جانیں بچائیں۔گاوں شوست سیمت وادی بروغل کے دورافتادہ علاقوں میں زچگی کے کیسز اور نملود بچوں کو انجگشن لگانا،اور ساتھ پیدایش سے ۵ سال تک کے بچوں کو تسلسل کے ساتھ چیک اپ کرنا تاکہ بچوں میں غذائی کمزوری کی نشادہی اور ساتھ ۱۳ مہلک بیمارویوں سے بچاو کے حفاظتی ٹیکے لگانا،۶ سال ۱۶ سالکے بچوں کو سکول ہیلتھ پروگرام کے تحت تشخص کرنا تاکہ بچوں میں سنے بولنے چلنے کی صلاحیت کی پیمایش کی جا سکے تاکہ وقت پر کسی بھی قسم کی کمزوری کی نشاندہی ہو سکے اور وقت پر علاج کیا جاسکے۔صحت کے طیکردہ یہ سب اصولوں کو عبادت کی طرح سمجھا۔نفس بی بی نے کھبی بھی موسم کی سختی اور حالات کی مجبوری کو اپنے فرض کے سامنے مجبور کیا، ہر وقت سخت موسم میں کھبی پیدل کھبی گھوڑے پر سوار ہو کر دکھی انسانیت کی خدمت کو تر جیح دی،۔

کہتے ہیں کہ اس دنیا میں اگر سماج اسے آپ کو عزت چاہییتو سب سے پہلے لازمی ہے کہ آپ اہم بنیے اگر آپ اہم بنا چاہتی ہے تو مسائل حل کریں۔

وادی بروغل کے گاوں چیلیمارہ باد سے یک خاتون نے، نفس بی بی کے بارے یوں کہتی ہے۔

عورت کی زندگی میں سب سے مشکل ترین مرحلہ ایک بچے کو جنم دینا ہے۔ان مراحل سے گزرنا کسی اذیت سے کم نہیں، میں اپنے زندگی کے آخری سانس لے رہی تھی،مجھے یوں لگا کہ شاید اب میں بچ نہیں پاونگی، کیونکہ اس علاقے میں صحت کے حوالے سے نہ کوئی داعی موجود ہے نہ داویئاں میسر ہیں، اور نہ دوسرے علاقوں کی صحت کے مراکز تک پہنچنے کا زریعہ ہے۔اس اثنا میں اللہ تعالیٰ نے اپنا رحم،وکرم کی نظر ہم پہ ڈالی، کسی مسیحا کو گھوڑے پہ سوار میری زندگی بچانے کے واسطے بھجی،نفس بی بی جتنی خوش اخلاق ہے اتنی انسانی ہمددری اور شفقت سے مالا مال بھی ہے۔

وادی بروغل کے گاوں پچ اوچھ سے تعلق رکھنے والی ایک اور ماں نفس بی بی کے بارے یوں کہتی ہے۔

نہیں جانتی تھی کہ زچگی میں میرا جسم اتنا زیادہ بھی کاٹ سکتا ہے۔میں کئی مہینوں سے اس کرب سے گزر رہی تھی، مجھے ڈر تھا کہیں اگر مجھے کچھ ہو بھی گیا تو میرے ان بچوں کا کیا گا،جو ابھی بھی میری طرف دیکھتی ہیں،ایک طرف غربت نے ذہنی طور پر کمزور کیا تھا دوسری طرف ایک بچے کو جنم دینا، وہ بھی اس سخت سردی کے موسم میں۔دن رات اس خوف نے آنکھوں سے میری ننید بھی لے چکی تھی،وہ دن بھی آیا جب نفس بی بی اس موقع پر میری ساتھ تھی،میری بیٹے کی جنم ہوئی۔میری آنکھوں میں خوشی کے آنسو ٹپک رہی تھی،کیونکہ اس سے پہلے میں اس تلخ تجروبے سے گزر چکی تھی، مگر اس بار یہ مکمل طور پر مختلف تھا، میں پرشان نہیں تھی، اور ذہنی طور مطمیں تھی۔کیونکہ میرے سرہانے پر انفس بی بی موجود تھی۔

نفس بی بی صحت کے شعبے میں اپنی اس سفر میں ایک دالخراش کہانی یوں بتاتی ہیں۔

جنوری ۲۰۲۰کی کہانی ہے۔ میں حسب معمول اپنی ڈیوٹی پر معمور تھی، سردیوں کا موسم تھا ، وادی بروغل کے گاوں لاشکر گھاس سے ایک خاتوں کو گھوڑے پر سوار ی کرکے ہیلتھ سنٹر لائی گئی جو ۱۰دن تک مسلسل زچگی کے حوالے سے بیمار تھی،۷ دن تک وہ بچے کو جنم نہیں دے سکی، اٹھویں دن اسے گھوڑے پر سوار کرکے دو دن کی مسافت طے کرکے شوشت سنٹر لائی گئی،میں نے ہر ممکن کوشش کی کہ بچہ تندرست جنم لے لیکن اللہ تعالیٰ کو کچھ اور ہی منظور تھا، و ہ خاتون ۱۰دن جس اذیت سے گزری تھی اور ساتھ جس تکلیف سے وہ سخت موسم میں دو دن سفر کر ے یہاں پنہچی وہ لمحہ میری زندگی کا سب سے دالخراش لمحہ تھی،میں اب بھی وہ دن وہ لمحہ نہیں بھولا سکی
کاش کہ
اس علاقے میں اس وقت کوئی ایل ایچ یا داعی موجود ہوتی اس خاتون کو یہ لمحہ دیکھنا نہ پڑتی۔

chitraltimes nafas bibi chitral 2
Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامین
55021

”اکبرالہ آبادیؒ‘‘۔16)نومبر،تاریخ پیدائش کے موقع پر خصوصی تحریر)۔ڈاکٹر ساجد خاکوانی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

”اکبرالہ آبادیؒ“

16)نومبر،تاریخ پیدائش کے موقع پر خصوصی تحریر(

ڈاکٹر ساجد خاکوانی(قلم کاروان،اسلام آباد(

             تاریخ انسانی میں کم و بیش بتیس اقوام یاتہذیبوں کاذکرملتاہے جو غلامی کی اندھیری غارمیں دھکیلی گئیں اور پھرہمیشہ کے لیے کرہ ارض کے سینے سے انتقال کرکے تاریخ کے صحیفوں میں دفن ہو گئیں۔امت مسلمہ پر بھی تقریباََتین سوسالوں تک غلامی کے مہیب سائے لہراتے رہے اوراس دوران بدترین حالات بھی دیکھنے میں آئے،خاص طورپر امت کا فکری اغوااورایک ذہنی غلام طبقے کی پیدائش اورآج تک اس کاوجود امت کے لیے کسی المیے اورسانحے سے کم نہیں ہے۔اس مفلوج و معذور غلامانہ ذہن کی متفوقانہ موجودگی میں کسی تخلیقی کارکردگی وفقاہی کارگزاری سے محرومی امت مسلمہ کی وہ آزمائش ہے جس کے نتیجے میں ذہنی و نظریاتی پسماندگی اورعلمی و تعلیمی وتحقیقی زوال کے تسلسل میں ہنوز اضافہ ہی ہورہاہے۔اس مذکورہ تصویرکے تاریک رخ کے دوسری جانب روشن و تابناک پہلو یہ بھی ہے کہ دورغلامی میں بھی امت کی کوکھ سرسبزوشاداب رہی اوراعلی درجے کی قائدانہ صلاحیتوں کے حامل لوگ اس امت میں جنم لیتے رہے۔اس گرانقدرطبقے میں نابغہ روزگار نفوس قدسیہ نے امت کے سواد اعظم کا قبلہ درست رکھنے کا کوہ گراں جیسا فریضہ بڑی کامیابی سے سرانجام دیا۔گزشتہ صدی کے نصف تک امت پر سے غلامی کی زنجیروں میں آنے والے رخنے اسی طبقے کی جدوجہد کا ثمرہ تھے۔جناب اکبرالہ آبادی انہیں لوگوں میں سے ہیں جو دورغلامی میں پیداہونے کے باوجود غلامی سے مبرا و بلندترتھے اور ایام آزادی کا سہرا بجاطورپر ان کے سرپر سجنے کامستحق وسزاوارہے۔

            جناب اکبرالہ آبادی(1846-1921) کااصل نام ”سیداکبرحسین رضوی“تھااوربحیثیت شاعر آپ ”اکبر“ہی تخلص کرتے تھے۔16نومبر1846ء آپ کایوم پیدائش ہے اور یہ یوپی کے ضلع الہ آباد جیسے مشہور علاقے کاایک چھوٹاسا ”بار“نامی قصبہ ہے۔ابتدائی تعلیم حسب رواج گھرمیں ہی اپنے والد محترم جناب سید تفضل حسین رضوی (نائب تحصیلدار)سے حاصل کی البتہ کچھ عرصہ کے لیے مولوی محمدفاوق کے سامنے بھی زانوئے تلمذتہ کیا۔مشن سکول الہ آباد نامی سرکاری تعلیمی ادارے سے تکمیل تعلیم کے بعد محکمہ تعمیرات میں ملازمت اختیارکی۔کچھ مدت ایسٹ انڈیا ریلوے میں بھی ملازم رہے لیکن 1869ء میں اپنی خداداد صلاحیتوں کو بروئے کارلاتے ہوئے ”مختاری“نای مقابلے کے مروجہ امتحان میں کامیابی کے بعدنائب تحصیلداربھرتی ہوگئے۔ بہترین کی کارکردگی کی بنیادپرایک ہی سال بعد1870میں آپ کو ہائی کورٹ میں مسل خوانی کے اعلی ترمقام پر ترقی مل گئی۔عام آدمی ہوتے توکامیابیوں کی یہی سیڑھیاں شادیانے بجانے کے لیے کافی تھیں،کیونکہ اس زمانے میں کسی مسلمان نوجوان کاایسے مراتب تک پہنچ جانا کسی جوئے شیرسے کم نہ تھا۔لیکن جناب اکبرالہ آبادی نے اسی پر اکتفانہ کیااور 1872ء میں وکالت کے امتحان میں کامیابی کے بعد 1880ء تک وکالت کرتے رہے یہاں تک کہ آپ کو اسی سال منصف بناکرمیزان قضا تفویض کردیاگیا،اس وقت کی اصطلاحات کے مطابق یہ ”عدالت خفیفہ“یعنی چھوٹی عدالت جسے آج کل غالباََ سول کورٹ کہتے ہیں، کہاجاتاتھا۔1898میں سرکارکی جانب سے ”خان بہادر“اورمخزن لاہور کی طرف سے ”لسان العصر“کے خطابات سے نوازاگیااور1903ء میں خرابی صحت کی بناپر قبل از وقت ملازمت کو خیرآبادکہ دیا۔1857ء کی جنگ آزادی،پہلی عالمی جنگ عظیم اورموہن داس مہاتماگاندھی کی امن تحریک کے ابتدائی ایام جیسے تین اہم ترین عالمی و مقامی تاریخی واقعات براہ راست آپ کے مشاہدے میں آئے تھے۔آپ نے دوشادیاں کیں، آپ کے فرزندسیدعشرت حسین رضوی کوبھی ایک زمانہ جانتاہے۔

            اکبرالہ آباد کی وجہ شہرت ان کی ظرافت آمیز اور طنزیہ بامقصد شاعری ہے۔اردو دانی آپ کو وراثت اورماحول سے براہ راست ملی تھی کیونکہ اردوکی جنم بھونی میں ہی آپ نے پرورش پائی تھی۔آپ کاعہد دورعروج اور دورغلامی کے عین درمیان میں واقع ہواتھا کہ قدرت نے آپ کو ایک کی باقیات اوردوسرے کی شروعات کابلاواسطہ مشاہدہ کرایاتھا۔دورعروج کا تربیت یافتہ معاشرہ آپ نے بنظرغائردیکھا،یہ وہ معاشرہ تھا جس نے اپنے سابق حکمران مغلیہ خاندان سے وراثت میں اعلی علمی و ادبی ذوق،شعائرآزادی اور ملی شعور پایاتھا۔انگریز نے مغلیہ دور کے اس خام مال کو اپنے استعمال میں لا کر بہترین نظام چلاکر دکھایا۔اسے اپنے خلف رو حکمرانوں سے دیانت دار عملہ،انسانی حقوق کاپاسداراور لسانی تعصب سے پاک ماحول،شاندارمذہبی رواداری سے آراستہ ملک، اپنے فن میں ماہر افرادکاراورحفظ مراتب میں اپنے سے بڑوں کے فرمانبردار،اطاعت شعاراور تابع فرمان ملازمین میسر آئے۔جناب اکبرالہ آبادی نے یہ سب اپنی آنکھوں سے بنظرعمیق دیکھاکیا۔بدیسی حکمران نے بڑی چابکدستی سے ہندوستانی معاشرے کے ان خصائص عالیہ کوبتدریج بدترین لعائین غلامی میں بدل دیا۔گورے سامراج نے انگریزی ذریعہ تعلیم،سیکولر جمہوری سیاسی نظام،غدارپرورجاگیردارانہ ذہنیت اورلڑاو اور حکومت کروکے فارمولوں کی بنیادپردورعروج کی اعلی روایات کو غلامی کے قبیح وملعون رویوں میں بدل دیااور اپنے پیچھے ایک بگڑاہوا،متعصب،اخلاقی گراوٹ کی انتہاپر پہنچاہوا،فکری طورپر بانجھ،مذہبی انتہاپسندی سے بھراہوا،قتل و غارت گری، بدامنی اورصدی کی سب سے بڑی ہجرت اور مہاجرین پر شب خون کے ذریعے لوٹ مار،انسانیت سے عاری اور خواتین کی آبروریزی اور محرمات کی بے حرمتی کرنے والا اورمعاشی آکاس بیل کاحامل نظام زندگی چھوڑ گیااورفساد کے ایسے بیج بو گیا کہ نسلیں آج تک اس آتش انگریزکاایندھن بن رہی ہیں۔جناب اکبر الہ آبادی نے بدترین حالات کی یہ نہج اپنی فراست سے اسی وقت محسوس کر لی تھی اور انہوں نے اپنے شاعرانہ کلام میں کھل کر اس کااظہارکیاہے۔

            جناب اکبرالہ آبادی کا کمال فن تھاکہ انہوں نے اتنی تکلیف دہ حقائق کوبڑے دلچسپ اور ہلکے پھلکے انداز سے پیش کیا۔وہ سرکاری ملازم تھے اورانہیں یہ خوف بھی لاحق ہو سکتاتھاکہ براہ راست تنقیدوتنقیص کے باعث ان کا ولایتی آقا انہیں ذریعہ روزگار سے محروم کر سکتاہے بلکہ اس پر مستزاد یہ کہ انہیں پس دیوار زنداں بھی دھکیلاجاسکتاتھا،اور 1857ء کی جنگ آزادی میں وہ یہ سب سفاک مظالم دیکھ بھی چکے تھے۔لیکن ان کی فہم و فراست ہی نہیں ان کی جرات وشجاعت کو بھی سلام ہے کہ انہوں نے اپنی ملی و قومی ذمہ داریاں بدرجہ اتم نبھائیں اور افرادقوم تک اپنی فکرودانست کو بڑے مزاحیہ انداز سے منتقل کیا۔حقیقت یہ ہے ان کے ان مزاحیہ اور ہلکے پھلکے ا سلوب پر صدہزارسنجیدہ اسالیب قربان کیے جاسکتے ہیں۔ان کے عہد میں لسانی ادب بے پناہ تکلفات کاشکارہو چکاتھااورآسان و سہل مدعاوجذبات و احساسات ومناظرکو مشکل تراکیب واستعارارت میں ڈھالنا معراج فن گردانا جاتاتھا،

آپ کے عہد کے بعد تک بھی اکثر شعرانے اس تکلف برداراندازسخن کی تسکین کے لیے اردو سے نکل کرفارسی زبان کا سہارا بھی لیا۔لیکن جناب اکبرالہ آبادی کا مقصد شعرو سخن چونکہ بیداری وآزادی ملت تھی اس لیے ان کے کلام میں تکلفات نام کو بھی نہیں ملتے اور اتنی سادہ،اتنی آسان فہم اور اتنی دلآویزاشعارہیں کہ بچوں سے بڑوں تک سب کاشوق مطالعہ اور لذت سماع ختم ہی نہ ہو۔اگرچہ آج ایک صدی بیتنے کو ہے لیکن سچ ہے کہ ان کاکلام آج کے حالات پر بھی صادق آتاہے کیونکہ اسلام نے صرف فرد کی حدتک غلام بنانے کی اجازت دی تھی لیکن اس سیکولرازم نے قوموں کو غلام بنایااور اسلام نے غلاموں کو بھی اتنی فکری آزادی دی کہ یہ صرف امت مسلمہ کا طرہ امتیاز ہے کہ آزادانہ اسلامی سیاسی نظام کے باعث غلاموں کے خاندان بھی مسنداقتدارپر براجمان رہے۔ لیکن تف ہے اس دورغلامی پرکہ اس کمپنی کی حکومت نے ذہنی غلامی کی بدعت کو جنم دیا اور نام نہاداعلی تعلیم یافتہ ومراعات یافتہ طبقات اعلی درجے کے بدترین وفادار غلا م ثابت ہوئے اوراس تہذیبی،تعلیمی،ثقافتی،دفاعی،سیاسی ومعاشرتی غلامی میں مبتلاء اورحتی کہ بیت الخلاء اور کمرہ استراحت وغرفہ طعام تک میں مغربی تہذیب کی کھینچی ہوئی غلامانہ لکیرکے بدترین فقیر اور عقل کے اندھے غلام بھی اپنے آپ کو آزادخیال،جدت پسند،ترقی پسنداورروشن خیال تصورکرتے ہیں جن کے جسمانی لباس اور زبانی لہجے آج بھی غلامانہ طریق گندگی و غلاظت سے آلودہ ہیں اوران کی بدبودارسڑاندسے پورا معاشرہ غلامی کے اذیت ناک و انتہائی تکلیف دہ مرض میں مبتلاہورہاہے۔

            اکبرالہ آبادی کو صرف شاعری،ادب اور اسلوب نگارش کی عینک سے دیکھنے والے ان کے ساتھ شایدانصاف نہ کرپائیں۔اکبرالہ آبادی ایک شخصیت نہیں ایک کردارکانام ہے اور یہ مصلح کردار ہردورمیں نوجوانان ملت اسلامیہ کے ہمرکاب رہاہے،انہیں دوست اوردشمن میں تمیزسکھاتارہاہے،انہیں اپنے اور غیر میں فرق سمجھاتارہاہے اورانہیں دشمن کے خوبصورت نعروں اوروعدوں میں چھپے ہوئے شکاری کے جال میں حقیقت احوال بتاتارہاہے۔تحریک آزادی پاکستان کے تناور اورناقابل تسخیرقلعے کی بنیادوں میں اکبرالہ آبادی کی فکر کا مضبوط مصالحہ لگاہے اور وطن عزیزکے تناوردرخت کی جڑوں میں آبیاری کافریضہ مغربی تہذیب کے خلاف شعوراجاگرکرنے والے اکبرالہ آبادی جیسے کرداروں نے کیاہے۔یہ کردارآج بھی زندہ ہیں اور آئندہ بھی زندہ رہیں گے اورانہیں کی کاوش و سعی جمیلہ سے غلامی کی باقیات السیات سے بہت جلد ملت اسلامیہ پاک ہونے کو ہے اور حقیقی آزادی کاسورج بس پس دیوار فرداطلوع ہونے کو ہے اور وہ وقت اب آن پہنچاہے کہ ملت اسلامیہ سمیت کل انسانیت فاران کی چوٹیوں سے بلند ہونے والے مینارہ نور کے نیچے پرامن پناہ حاصل کر پائے گی،ان شااللہ تعالی۔

[email protected]

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
55002

کچھ ہونے والا ہے ؟ – قادر خان یوسف زئی کے قلم سے

  پاکستان کی فضا میں آئے دن نت نئے سیاسی نعرے اور صدائیں گونجتی رہتی ہیں، مختلف سیاسی و مذہبی پلیٹ فارموں سے نئے نئے مطالبات منظرعام پر آتے رہتے ہیں، یہ سب نعرے عوام کی نمائندگی کے دعوے کے ساتھ سامنے لائے جاتے ہیں، لیکن اس کا غیر جانبدارانہ تجزیہ کرتے ہوئے، ان کے پسِ منظر پر نگاہ ڈالیں تو ان میں سے اکثر و بیشتر صداؤں کا اصل مقصد سیاسی مفاد پرستیوں اور حصول اقتدار کی کشمکش سے زیادہ نہیں ہوتا، کہیں سیاسی مستقبل کے تحفظ کے نام پر، کہیں جداگانہ قومی تشخص کے نقاب میں، کہیں نام نہاد نسلی حق خودارادیت کی خاطر، آپ دیکھیں گے کہ جس سیاسی طالع آزما کو اپنی ہوس اقتدار کے لئے کوئی نعرہ زیادہ کارآمد اور سازگار نظر آتا ہے، وہ اُسے لے کر میدان میں رنگ برنگ جھنڈے لہراتا دکھائی دیتا ہے، اسے اس کا قطعاً احساس نہیں ہوتا کہ منفی طرزِ عمل سے ملک کے مستقبل پر کیا اثر ہوگا، اس سے قوم کی وحدت و اتحاد کے تقاضے کس طرح زیر و زبر ہو کر رہ جائیں گے، اس سے حیاتِ ملّی میں کس قدر انتشار رونما ہوگا، کوئی قطعاً نہیں سوچتا کہ یہ مفروعی مفاد کے لئے نعرے بازی اور ہنگامہ آرائیاں اس مملکت کو (خدا نہ کرے) کس انجام سے دوچار کریں گی، جس کے حصول و قیام کے لئے اس قدر عظیم جنگ لڑی گئی، دفاع و تحفظ کے لئے سیکڑوں ماؤں کے نور نظر قربان ہوئے اور ہزاروں انسانوں کو بیش بہا قربانیاں دینی پڑیں


پاکستان جس صورت حال کا سامنا کررہا ہے، ان حالات کا کامیابی سے مقابلہ کرنے کے لئے ہماری قومی صفوں میں جس قدر وحدت و اتحاد کی ضرورت ہے، اسی کی روشنی میں اندازہ لگالیجیے کہ فروعی مفادات کا رجحان ہمیں کس تباہی سے دوچار کرسکتا ہے اور یہ ذہنیت قومی منافرت کے کس جہنم کو دعوت دے رہی ہے، سیاسی عدم بصیرت کا رجحان اس سے قبل بھی قومی زندگی میں فتنہ و شر کی چنگاریاں بکھیرتا رہا، مشرقی پاکستان (بنگلادیش) میں صوبائیت اور اختیارات کے نام پر چلائی جانے والی تحریک نے ایسی نازک صورت اختیار کرلی کہ اور تو اور خود ہمیں بھی مجبوراً یہ کہنا پڑا کہ ملک کی سالمیت کے نام پر وہ کچھ ہوگیا جس کا تصور بھی نہیں کیا گیا تھا، آج تک سقوط ڈھاکا کے محرکات کے پس پردہ حقائق کماحقہ (بظاہر) سامنے نہیں آسکے، قوم کے اذہان منتشر رہے کہ ملکی نظام و انصرام کو مضبوط رکھنے کے لئے کیسا طرز حکومت اختیار کیا جائے اور ذہنی تربیت کی ایسی کیا موثر صورت پیدا کی جائے کہ قیامِ پاکستان کے لئے دیکھا جانے والا خواب مزید نہ بکھر سکے


عصبیت، لسانیت، نسل پرستی، فرقہ واریت، مسلکی منافرت کی دبی ہوئی چنگاریوں کو کسی نہ کسی عنصر کی جانب سے وقتاً فوقتاً بھڑکانے کے مواقع، کسی نہ کسی طالع آزما کو مل جاتے ہیں، یعنی جب جی چاہے اس خاکستر کو ہوا دے اور چنگاریوں کو بھڑکا کر ملک کی سالمیت کو خطرے میں ڈال دے۔ پارلیمان کا کردار بادیئ النظر ثانوی سا ہوگیا ہے، اُدھر سیاسی پنڈت کچھ کہنے لگے ہیں کہ تبدیلی کے سفر کے تمام موڑ ختم ہونے والے ہیں اور گھبراہٹ سے بچنے کے لئے سامنے صرف دو راستے ہی بچیں گے، جس میں ایک راستہ ملک کو مزید تباہی کی طرف لے جاسکتا تو دوسرا راستہ سلامتی کا ہے، لیکن اس کے لئے اتحاد و اتفاق کی اُس ملّی وحدت کی ضرورت ہوگی جو قوم کی تقدیر کا فیصلہ کرسکے، لیکن موجودہ حالات میں سمجھا جاسکتا ہے کہ تمام صورت حال کا سیاسی اور ہنگامی حل موجود ہے، لیکن مستقل اور قطعی حل نہیں۔ اس کا مستقل حل وحدتِ مقصد کے ذریعے پیدا ہوسکتا ہے اور ذاتی طور پر میں بھی سیاسی پنڈتوں سے اتفاق کرتا ہوں کہ جو بار بار سیاسی طوفان اٹھتے رہے اور مفاد پرستیوں نے ہنگاموں کو قدم قدم پر جنم دیا، اس نے قوم کی وحدتِ مقصد کی نعمت بے نصیب ہونے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔


قیام پاکستان کے لئے منظم اور طاقت ور دشمن کے مقابل حقِ خود ارادیت کے حصول کی جو جنگ قائداعظمؒ کی سالاری میں لڑی گئی، اس معرکہ آرائی کے فاتحانہ انجام کا باعث وحدتِ مقصد کے سوا کچھ نہ تھا، رنگون سے لے کر پشاور تک ہماری ملّت کے کروڑوں افراد کے سامنے ایک مقصد اور ایک منزل تھی، اس جنگ میں کوئی بھی بنگالی، پنجابی، سندھی، بلوچ اور پختون کی حیثیت سے شریک نہیں تھا، سب ملّت واحدہ کے افراد کی حیثیت سے ایک بنیان مرصوص کی سی وحدت میں ڈھل گئے تھے، انہوں نے یہ ملک ایک قوم کی حیثیت سے اور ایک قوم کے نام پر حاصل کیا اور اُس وقت یہ کسی تصور میں نہیں آسکتا تھا کہ اس مملکت میں لسانی اکائیوں کے نام پر کوئی بھی عصبیت کو قومی تشخص کی حیثیت سے ابھارے گا۔


آج بھی مملکت ِ پاکستان کی سالمیت اور بقا و استحکام کا جذبہ محرکہ وحدتِ مقصد کے سوا اور کوئی نہیں بن سکتا، جب ہم نے اپنی جداگانہ مملکت کے قیام کی وجہِ جواز کے طور پر خود کو ایک قوم کی حیثیت سے دنیا کے سامنے پیش کیا تھا تو اس ایک قوم کے دعوے کی بنائے اشتراک وطن، صوبے، رنگ یا نسل کا کوئی تصور نہیں تھا بلکہ یہ بنائے اشتراک اسلام اور صرف اسلام تھا، یہ دعویٰ تھا کہ چونکہ ہم سب مسلمان ہیں، اس لیے ہم ایک قوم ہیں۔ بدقسمتی سے وحدتِ مقصد سے محرومی اور بے نصیبی کا نتیجہ ہے کہ آج اس مملکت کے بے حس گروہ کا کوئی فرد نہ ملک کے مفاد کو اپنا مفاد سمجھتا ہے اور نہ اس کے نقصان کو اپنا نقصان، جب یہ سوال پیدا ہوکہ فلاں اقدام سے ملک کو نقصان پہنچے گا تو بے شعور و بے حس گروہ اس کا کوئی گہرا اثر قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے، جب ایک مملکت میں صورت یہ پیدا ہوچکی ہو کہ چند خاندانوں کو معاشی اجارہ داری ہو اور باقی کروڑوں ان کی جلبِ زر کے ہاتھوں ضروریات زندگی تک سے محروم ہوتے جارہے ہوں تو وہ کیونکر ایک قوم کے نجات دہندہ قرار پاسکتے ہیں۔ جب تک افرادِ ملّت میں سچی وحدت اور اتحاد قائم نہیں ہوگا، اُس وقت تک چند بااثر خاندانوں کے فتنہ شر کو ختم کرنا ممکن نہیں ہوگا۔


ہیں آج کیوں ذلیل کہ کل تک نہ تھی پسند
گستاخی فرشتہ ہماری جناب میں

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
54979

 عالمی یوم برداشت – (16نومبرعالمی یوم برداشت کے موقع پر خصوصی تحریر)-ڈاکٹرساجد خاکوانی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 عالمی یوم برداشت

(International Day for Tolerance)

(16نومبرعالمی یوم برداشت کے موقع پر خصوصی تحریر)

ڈاکٹرساجد خاکوانی(اسلام آباد،پاکستان)

                 ”برداشت“یعنی ”حلم“اللہ تعالی کی ایک عالی شان صفت ہے جس کا کہ اللہ تعالی نے قرآن مجیدمیں متعدد مقامات پر ذکر کیاہے۔ایک مقام پر اللہ تعالی نے اپنے غفور ہونے کے ساتھ اپنی برداشت کا یوں ذکر کیاکہ  اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ(۳:۵۵۱)ترجمہ:بے شک اللہ تعالی بخشنے والا اور برداشت کرنے والاہے،ایک اور مقام پر اللہ تعالی نے اپنی صفت علم کے ساتھ اپنی برداشت کاذکر کیا وَ اللّٰہُ عَلِیْمٌ حَلِیْمٌ(۴:۲۱) ترجمہ:اور اللہ تعالی بہت زیادہ علم والا اور برداشت والاہے۔ایک اور آیت میں اللہ نے اپنی بے نیازی کے ساتھ اپنی برداشت کا ذکر کیا وَ اللّٰہُ غَنِیٌّ حَلِیْمٌ (۲:۳۶۲) ترجمہ:اور اللہ تعالی بے نیاز اور صاحب برداشت ہے۔قرآن مجید نے اللہ تعالی کی صفت قدردانی کے ساتھ بھی برداشت الہی کاذکرکیاہے ْ وَ اللّٰہُ شَکُوْرٌ حَلِیْمٌ(۴۶:۷۱)ترجمہ:اور اللہ تعالی بہت قدردان اور برداشت سے کام لینے والا ہے۔ان آیات کی تفسیر میں وادر ہوئی متعدد روایات میں بھی اللہ تعالی کی صفت برداشت کاکثرت سے ذکر ہے۔حقیقت یہی ہے عالم انسانیت کی بداعمالیوں اور طاغوتی طاقتوں کے ظلم و تعدی کے باوجود اس کرہ ارض پررزق کی کثرت،رحمت کی بارشوں کا نزول اور امن عافیت کی فراوانی کی وجہ محض،خالق کائنات کی صفت برداشت ہی ہوسکتی ہے۔وہ اپنی مخلوق سے بے حد پیارکرتاہے اور یہی وجہ ہے کہ انسانوں کے گناہ جب اتنے بڑھ جاتے ہیں کہ زمین بھی چینخ اٹھتی ہے کہ اے بارالہ مجھے اجازت دے کہ میں پھٹ جاؤں اور اس باغی اور سرکش کو اپنے اندر سمو لوں تو بھی اللہ تعالی کی برداشت آڑے آجاتی ہے اورحلم خداوندی کے باعث رسی مزید ڈھیلی کردی جاتی ہے تاکہ موت سے پہلے پہلے توبہ کے دروازے میں داخل ہونے کے امکانات باقی رہیں۔

                قرآن مجید میں صفت حلم یعنی برداشت کی صلاحیت کاذکر متعدد انبیاء علیھم السلام کے ساتھ بھی کیاہے۔ وَ مَا کَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرَاہِیْمَ لِاَبِیْہِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَۃٍ وَّعَدَہآ اِیَّاہُ فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہ‘ٓ اَنَّہ‘ عَدُوٌّ لِّلّٰہِ تَبَرَّاَ مِنْہُ اِنَّ اِبْرَاہِیْمَ لَاَوَّاہٌ حَلِیْمٌ(۹:۴۱۱)ترجمہ:”حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے والدبزرگوار کے لیے جو دعائے مغفرت کی تھی وہ تو اس وعدے کی وجہ سے تھی جواس نے اپنے والد بزرگوارسے کیاتھا،مگر جب ان پر یہ بات کھل گئی کہ اس کاباپ خداکادشمن ہے تووہ اس سے بیزار ہوگئے،حق یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام بڑے خداترس اور صاحب برداشت آدمی تھے“۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یہی صفت برداشت کاایک اور مقام پر بھی قرآن نے ذکر کیا اِنَّ اِبْرَاہِیْمَ لَحَلِیْمٌ اَوَّاہٌ مُّنِیْبٌ(۱۱:۵۷) ترجمہ:بے شک حضرت ابراہیم علیہ السلام بڑے نرم دل،ا للہ تعالی طرف رجوع کرنے والے اور صاحب برداشت انسان تھے“۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب اللہ تعالی نے ایک بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی خوش خبری دی تو ساتھ کہا کہ وہ صاحب برداشت بیٹاہوگا  وَ قَالَ اِنِّی ذَاہِبٌ اِلٰی َربِّیْ سَیَہْدِیْنِ(۷۳:۹۹) رَبِّ ہَبْ لِیْ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ(۷۳:۰۰۱) فَبَشَّرْنٰہُ بِغُلٰمٍ حَلِیْمٍ(۷۳:۱۰۱) ترجمہ:حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا کہ میں اپنے رب کی طرف جاتاہوں،وہی میری راہنمائی کرے گا،اے پروردگارمجھے ایک بیٹاعطاکر جو صالحین میں سے ہو(اس دعاکے جواب میں)ہم نے اس کو ایک صاحب برداشت لڑکے کی خوش خبری دی“۔حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم بھی انہیں برداشت والا کہاکرتی تھی  قَالُوْا یٰشُعَیْبُ اَصَلٰوتُکَ تَاْمُرُکَ اَنْ نَّتْرُکَ مَا یَعْبُدُ اٰبٰآؤُنَآ اَوْ اَنْ نَّفْعَلْ فِیْٓ اَمْوَالِنَا مَا نَشٰٓؤُا اِنَّکَ لَاَ نْتَ الْحَلِیْمُ الرَّشِیْدُ(۱۱:۷۸)ترجمہ:ان کی قوم نے کہااے شعیب علیہ السلام کیاتیری نماز تجھے یہ سکھاتی ہے کہ ہم ان سارے معبودوں کو چھوڑ دیں جن کی پرستش ہمارے باپ داداکرتے تھے،یایہ کہ ہم کو اپنے مال میں سے اپنی مرضی کے مطابق خرچ کرنے کا اختیار نہ ہو،بس تو ہی ایک نیک اور صاحب برداشت آدمی بچ گیاہے۔“

                اورجملہ انبیاء علیھم السلام کی طرح خاتم النبیین ﷺکی تو کل حیاۃ طیبہ برداشت سے ہی عبارت ہے۔یتیمی سے شروع ہونے والی برداشت کی زندگی،بس برداشت کی کٹھن سے کٹھن تروادیوں سے ہی ہو کر گزرتی رہی،کہیں رشتہ داروں کو برداشت کیاتو کہیں اہل قبیلہ کو،کہیں ابولہب جیسے پڑوسی کو برداشت کیاتوکہیں ابوجہل جیسے بدتمیزترین سردارکو برداشت کیااورطائف کی وادیوں میں تو برداشت کے سارے پیمانے ہی تنگ پڑگئے اور برداشت بذات خود اپنے ظرف کی وسعت لینے خدمت اقدس ﷺمیں حاضر ہوگئی۔محسن انسانیتﷺ کے مقدس ساتھیوں نے برداشت کو جس طرح اپنی ایمان افروز زندگیوں میں زندہ جاوید رکھااس سے سیرۃ و تاریخ کی کتب بھری پڑی ہیں،مکی زندگی میں کتنی ہی بار نوجوان اصحاب رسول خدمت اقدس ﷺمیں حاضر ہوئے کہ انہیں استعمارسے ٹکراکرلڑنے مرنے کی اجازر مرحمت فرمائی جائے،لیکن ہربار برداشت کے دروس سے آگاہی کے ساتھ لوٹادیے گئے۔حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ سے پوچھاجائے کہ امیہ بن خلف کو کیسے برداشت کیاجاتاہے اورآل یاسر سے کوئی تو دریافت کرے کہ ابوجہل کو برداشت کرنے کاکیامطلب ہوتاہے۔مدینہ طیبہ کی اسلامی ریاست میں رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کوجس طرح برداشت کیاگیااس کی مثال شاید کل تاریخ انسانی میں نہ ملے،اس سے بڑھ کر اور کیاہوسکتاہے کہ دیگرصحابہ کرام کے ساتھ ساتھ اس غدارملت کا سگابیٹابھی ایک بار تو اپنے باپ کے قتل اجازت لینے پہنچ گیالیکن یہاں پھر ”حلم نبویﷺ“یعنی محسن انسانیت ﷺکی قوت برداشت نے اپنا کام دکھایااورمزیدمہلت مل گئی۔

                برداشت،علم نفسیات کا ایک اہم موضوع ہے۔ماہرین نفسیات کے مطابق اس دنیامیں وارد ہونے والا ہر فرد بالکل جدارویوں اور جداجداجذبات و احساسات و خیالات کا مالک ہوتاہے،اپنے جیسا ایک انسان سمجھتے ہوئے اسے اسکاجائزمقام دینا ”برداشت“کہلاتاہے۔اس تعریف کی تشریح میں یہ بات کھل کرکہی جاتی ہے کہ دوسرے کے مذہب،اسکی تہذیب اور اسکی شخصی وجمہوری آزادی کومانتے ہوئے اس کے ساتھ عزت و احترام سے پیش آنا ”برداشت“ کے ذیلی موضوعات ہیں۔دیگرماہرین نفسیات نے ”برداشت“کی ایک اورتعریف بھی کی ہے،ان کے مطابق”دوسرے انسان کے اعمال،عقائد،اس کی جسمانی ظواہر،اسی قومیت اور تہذیب و تمدن کو تسلیم کرلینا برداشت کہلاتی ہے“۔برداشت کی بہت سی اقسام ہیں،ماہرین تعلیم برداشت کو تعلیم کا اہم موضوع سمجھتے ہیں،ماہرین طب برداشت کو میدان طب و علاج کا بہت بڑا تقاضاسمجھتے ہیں،

اہل مذہب کے نزدیک برداشت ہی تمام آسمانی تعلیمات کا خلاصہ ہے جسے آفاقی صحیفوں میں ”صبر“سے موسوم کیاگیاہے اورماہرین بشریات کے نزدیک برداشت انسانی جذبات کے پیمائش کا بہترین اور قدرتی وفطری پیمانہ ہے۔ابتدامیں ”برداشت“کو سمجھنے کے لیے جانوروں پر تجربات کیے جاتے تھے اور پہلے انفرادی طور پر اور پھر جانوروں کے مختلف گروہ بناکران کی برداشت کے امتحانات لیے جاتے تھے۔بعد میں اسی نوعیت کے تجربات تعلیمی اداروں کے طلبہ و طالبات پر کیے جانے لگے اور پھر بالغ انسانوں پر بھی اس نوعیت کے تجربات کیے گئے لیکن غیر محسوس طور پر۔ان تجربات کے نتیجوں میں ”برداشت“کے مختلف پیمانے میسرآئے اور جذباتی اعتبار سے انسانوں کی تقسیم کی گئی۔نتیجے کے طور ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ ماحول کے اثرات کے طورپر انسانوں میں برداشت کامادہ پروان چڑھتاہے،وطنیت کا تعصب رکھنے والا اپنے وطن کے بارے کم تر برداشت کامالک ہوگالیکن اپنے حسب و نسب  پرتنقیدوتنقیص برداشت کرلے گاجبکہ قومیت کے فخرمیں بھرے ہوئے شخص کی برداشت کا پیمانہ اس سے کلیۃ متضادہوگاوغیرہ۔

                برداشت کے مقابلے میں متضادکے طور عدم برداشت کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔اس کامطلب،ظاہر ہے،برداشت کے الٹ ہے کہ برداشت نہ کرنا یا برداشت نہ کرسکنا۔انسانی رویوں میں بعض اوقات جب مدمقابل کے رویے سے مفاہمت ممکن نہ رہے تو عدم برداشت جنم لیتی ہے۔مدمقابل انسان یا غیرانسان کچھ بھی ہوسکتاہے۔ماہرین نفسیات کے نزدیک اور یہ عدم برداشت ارادی طورپربھی ہو سکتی ہے اور غیرارادی طور پر بھی ہوتی ہے۔مثلاََانسان ایک حد تک موسم کو برداشت کرتاہے لیکن جب حد گزرجائے تو موسم کی عدم برداشت انسان کوبیماری سے موت تک لے جاسکتی ہے۔پانی میں ڈوبتاہواانسان اپنے جسمانی قوی کے برداشت کی حد تک اپنی بقاکی جنگ لڑتاہے۔اسی طرح بھوک،پیاس،ننگ اور دیگر معاشرتی محرومیاں بھی انسان کی برداشت سے باہر ہو کر جب عدم برداشت کاروپ دھارلیتی ہیں تو چوری، ڈکیتی،قتل و غارت گری اور بعض اوقات بڑے بڑے سانحات وانقلابات جنم لیتے ہیں۔

انفرادی عدم برداشت جمع ہوتے ہوتے اجتماعی عدم برداشت بن جاتی ہے اور ایک فردکو جذبہ انتقام پر مجبور کرنے کے بعد یہ عدم برداشت طبقاتی جنگ کی شکل میں انسانی تاریخ میں جنم لیتی رہی ہے۔عدم برداشت کے نتیجے میں جہاں دوافرادگتھم گتھاہوتے ہیں وہاں دوقوموں کے درمیان بھی میدان کارزارگرم ہوجاتاہے۔جب کہ نظریات کے درمیان تناؤتو روزازل سے تاابد جاری رہے گا۔برداشت اورعدم برداشت کے درمیان کوئی حدفاصل کھینچنا مطلقاََناممکن ہے۔ہردوطرح کے معاملات کے درمیان حدفاصل کے پیمانے بدل جاتے ہیں۔کہیں محبت ناقابل برداشت ہو جاتی ہے تو کہیں نفرت کاانجام عدم برداشت کی صورت میں نکلتاہے،کہیں آسودگی اور راحت اورصحت و شفایابی برداشت نہیں ہوتی تو کہیں عسرت،پریشانی اورمرض کی شدت برداشت کے سارے بندھن توڑ دیتے ہیں اور کہیں یہ آسمان شادی مرگ کامشاہدہ کرتاہے تو کہیں برستی اکھیاں کاسیلاب زمانے بھر کے بند توڑ کردنیائے انسانیت کوعدم برداشت کے دشت میں لے بھٹکاتاہے۔

                عالم انسانیت کو برداشت کا بہت بڑادرس مذہب سے ملاہے۔انبیاء علیھم السلام اورآسمانی کتب نے عقیدہ آخرت کے پس منظر میں جو نظام عمل پیش کیاہے اس میں برداشت کاسبق بہت اہم ہے۔عقیدہ آخرت کا خلاصہ یہ ہے کہ نیکی اوربدی کابدلہ صرف اللہ تعالی ہی دے گا۔پس یہی برداشت کا سب بڑادرس ہے کہ آخری عدالت تک تمام معاملات کواللہ تعالی کے سپرد کر کے خود برداشت کاخوگربنے رہنا۔انبیاء علیھم السلام نے اپنے سگے رشتہ داروں کے رویوں کوبھی فی سبیل اللہ برداشت کیایا معاف ہی کردیا۔مذہب کی تعلیمات کے مطابق جب بدلہ،اجروثواب،صلہ اورجزاوسزاسب کچھ اللہ تعالی کے دست قدرت میں ہے تو اسی ذات باری تعالی پر بھروسہ کرتے ہوئے برداشت کی عادت ڈالنااہل عزیمت کاہمیشہ سے شیوہ رہاہے۔

اہل مذہب نے انسانی برداشت کی وہ مثالیں قائم کی ہیں یہ آسمان بھی اس ششدرہے۔خاص طورپر صوفیائے کرام کے دروازے کل انسانیت کے لیے بلاتفریق رنگ و نسل و مذہب صباح و مساء کھلے رہتے تھے۔تاہم برداشت کی ایک حد تو مذہب بھی مقررکرتاہے۔انفرادی و اجتماعی معاملات میں جب برداشت کی حد گزر جائے تو جہاد اور قتال جیسے اسباق بھی مذہب سے ہی انسانیت کو مرحمت ہوئے ہیں۔یہ اس لیے کہ دنیامیں ہزاروں زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں سے ایک زبان پیارکی زبان ہے،جب تک پیارکی زبان اثرکرتی رہے تو یہ برداشت کی زبان ہے۔انسانوں میں سے کچھ انسان ایسے بھی ہوتے ہیں جو پیارکی زبان نہیں سمجھتے۔ان سے جب پیار اورمحبت کی زبان میں بات کی جائے تووہ اس کو کمزوری پر محمول کرتے ہیں اور سرپر جوتوں کی بارش کر دیتے ہیں۔یہاں مذہب کی برداشت بھی ختم شدہوجاتی ہے اورآسمانی صحیفہ ایسے طاغوت سے طاقت کی زبان سے گفتگوکرنے کا حکم صادرکرتاہے۔لیکن طاقت کی زبان صرف فسادکے خاتمے تک ہے،ذاتی عناد،وسعت سلطنت یاحرص و ہوس وغیرہ کے لیے طاقت کااستعمال دین اسلام کے ہاں مطلقاََناقابل برداشت ہے۔

                اپنی قومیت کے لیے،نسلی اورلسانی مخاصمات کے لیے یاعلاقائی وفرقہ ورانہ اختلاقات کے نام پریاپھر معاشی مفادات کے تحفظ کی خاطر انسانیت کے نام نہادعنوان سے عدم برداشت کے میدان گرم کرنااور انسانی کشتوں کے پشتے لگانا سیکولرازم کی خون آشام روایات ہیں۔اس وقت سیکولرازم کے ہاتھوں انسانیت بدترین عدم برداشت کا شکار ہے۔صنعتی انقلاب کے بعد سے سیکولرازم نے پاؤں کی ٹھوکروں سے مذہب کو ریاستی واجتماعی ومعاشرتی اداروں سے دیس نکالادیااور جیسے جیسے مذہب سے انسانی بستیاں خالی ہوتی گئیں توگویا برداشت کامادہ بھی انسانوں کے ہاں سے رخصت ہوتاچلاگیااور انقلابات کے عنوان سے لاکھوں انسانوں کی قتل وغارت گری کے بعد سیکولرازم نے انسانیت کو دوایسے عالمی جھگڑوں میں جھونک ڈالاجس کاخونین مشاہدہ اس سے پہلے کے مورخ نے کبھی نہیں کیاتھا۔

صد افسوس کہ عالمی جنگوں میں آبشاروں کی طرح بہنے والا انسانی خون بھی سیکولرازم کی پیاس نہ بجھاسکااورپردہ اسکرین پر ابھرنے والے عکسی کھیلوں کے نام پر ”ماردھاڑ سسپنس اور ایکشن سے بھرپور“کہانیاں اوربرداشت سے کلیۃ عاری بدکردار”ہیرو“بناکرسیکولرممالک سے دوسری اور تیسری دنیاؤں میں برآمدکیے گئے۔ننگ نسوانیت و ننگ انسانیت سیکولرازم کا عدم برداشت کا شرمناک کھیل آج فلمی دنیاسے نکل کر نام نہاد مہذب ترین ممالک کے ایوان ہائے اقتدارمیں نظر آرہا ہے جہاں حرص و حوس کے سیکولرپجاری سرمایادارانہ سودی معیشیت کے تحفظ کے لیے ذرائع ابلاغ پر کذب و نفاق کے سہارے فصلوں اور نسلوں کی قتل و غارت گری کے عالمی منصوبے بناتے ہیں اورسمجھتے ہیں کہ دنیاکی آنکھوں میں قیام امن وحقوق انسانی نام پر دھول جھونک کر اپنی عدم برداشت کو برداشت کے جھوٹے پہناوے پہنا سکیں گے۔

حالات کی بدلتی کروٹ کابغورمشاہدہ کرنے کے بعد سیکولرذہن نے بڑی چابکدستی سے اپنی عدم برداشت کاکیاچٹھا سب کچھ مذہب کے کھاتے میں ڈالنے کی بہت بھونڈی سی کوشش کی ہے۔ابلاغیات کے بے پناہ استعمال کے باوجود دنیاکا معتدل اوراکثریتی ذہن اب مذہب جیسے مقدس ورثے کے خلاف اس جھوٹ کوقبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔تقدیس مذہب پر کوئی سمجھوتہ ہوا اور نہ ہی ہو گاکہ مذہب کی ادارے سے انسانیت کو ہمیشہ ٹھنڈی ہواکے جھونکے ہی میسرآئے ہیں۔اقوام متحدہ جیسے دیگرعالمی اداروں کوبھی اپنے سیاسی و عسکری عدم برداشت کا آلہ کار بناکرمذہب کے خلاف استعمال کرنے کاوطیرہ بھی اب دنیاکے سامنے اپنے حقائق سمیت آشکارہوچکاہے۔حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ صدی کے اختتام سے قبل ہی امت مسلمہ کے مایہ ناز سپوتوں کے قلم سے سیکولرمغربی تہذیب علمی میدان میں پسپائی سے دوچار ہوچکی تھی اور اب دنیابھرمیں وحشت و درندگی کا خون آشام کھیل کھیلنے والی سیکولرافواج اپنے نظریے کو ہمیشہ کی نیند سلانے کے لیے بڑی تندہی سے سرگرم عمل ہیں اور کرہ ارض کے کل باسیوں کا مستقبل بلآخر آفاقی نوشتوں سے ہی وابسطہ ہے،انشاء اللہ تعالی۔

[email protected]

Posted in تازہ ترین, مضامین
54973

نادرا آفس اپر چترال میں عوام کی بے بسی اورحکمرانوں کی بے حسی ۔ ذاکر زخمی بونی اپر چترال

نادرا آفس اپر چترال میں عوام کی بے بسی ۔ ذاکر زخمی بونی اپر چترال

اپر چترال ضلع کم و بیش اٹھ ہزار مربع کلو مٹر پر پھیلا ہوا علاقہ ہے جو کھونگیر دیرو بوہت سے بروغل،ریچ تورکھو،شاگروم تریچ اور شاڈوک لوٹ اویر تک احاطہ کرتی ہے ڈھائی لاکھ سے زیادہ آبادی پر محیط ہے۔اس وسیع اور دور افتادہ علاقے میں جہاں بہت سارے مسائل ہیں لیکن ایک مسلہ جو سالوں سے عوام کو درپیش ہے اور حل ہونے کا نام نہیں لیتا وہ نادرا میں کارڈ بنوانے یا رجسٹریشن کرانے کا ہے۔عوام نادرا اپر چترال کے باہر روڈ پر جس طرح ذلیل وخوار ہوتے ہیں وہ اللہ بہتر جانتا ہے۔لگتا یوں ہے کہ اس مسلہ کا حل پاکستان میں کسی کے پاس نہیں اور یوں ذلیل و خوار ہونا عوام کامقدر ہے۔

پورے اپر چترال میں یہ واحد نادرا آفس ہیڈ کوارٹر بونی میں واقع ہے۔اس کے علاوہ تورکھو،موڑکھو مستوج یا یارخون میں اس کا کوئی شاخ نہیں۔حکومتِ وقت بضد ہے کہ لوگ اسی طرح خوار ہوتے رہے اور مہنگائی کے اس بدترین دور میں مزید بدحالی سے دوچار ہو۔سکون کا کوئی لمحہ ان کو میسر نہ ہو۔ اور ہمیں بدعائیں ملتے رہے۔اس واحد نادرا آفس میں نمازِ فجر کے بعد قطار لگنے شروع ہو جاتے ہیں اور جب دفتر کھلتی ہے تو پہلے ائیے پہلے پائیے کے بنیاد پر لوگ سینکڑوں سے تجاوز کرتے ہیں۔قریب گاوں والے تو نمبر لینے میں کامیاب ہوتے ہیں باقی دور کے مسافر بروغل،یارخون،ریچ،تریچ یا لوٹ اویر والوں کی شامت اس وقت اتی ہے جب وہ گاڑی دو طرفہ بک کرکے جان کے مارے دفتر پہنچتے ہیں تو ایک جلوس کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اب سرِ راہ رسوائی ان کا مقدر بنتا ہے۔

تنگ ترین روڈ کے دونوں اطراف جلسہ گاہ کا منظر پیش کرتا ہو ا دیکھائی دیتا ہے۔اگر اس وقت بلدیاتی الیکشن کا اعلان ہوتا ہے تو امیدواروں کو دوسرے جگہوں پر جانے کی بھی ضرورت نہیں پڑتے اور باری باری وہاں خطاب کرکے اپنے منشور ان تک پہنچاکر اپنا وقت اور پیسہ بچاتے لیکن شومئی قسمت امیدواروں کی کہ الیکشن ملتوی ہوا۔دفتر کے اندر محدود عملہ صبح سے شام تک اپنی فرائضِ منصبی نبھانے میں مصروف رہتے ہیں اس میں شاید چائے اور نماز کا وقفہ بھی ان کو میسر نہیں۔ساتھ مفت میں لعن طعن سن کر ذہنی اذیت میں جب شام کو گھر لوٹتے ہیں تو رات نہ ڈھلنے کی دعا کرتے ہیں مگر رات کو ہر صورت دن میں بدلنا ہے اور صبح دوبارہ دفتر کا رخ کرنا ہے۔اسٹاف کے ساتھ بھی کوئی جادوئی عمل نہیں کہ لمحوں میں سب کو فارع کرکے سکون کی لمحات پا سکے۔

chitraltimes nadra office booni upper chitral3

اسٹاف کے حتہ المقدور کوششوں کے باوجود روزانہ اسی80 سے100سو بندے اگلے صبح کے انتظار میں ناکام و نامراد کسی رشتہ دار کے ہاں ٹھیرتے یا ہوٹل کا رخ کرتے ہیں۔گاڑی والوں کو دو طرفہ کرایہ ادا کرنے کے باوجود واپس گھر پہنچ کر ارام کرنا ان کو نصیب نہیں ہوتا۔ اس طرح مہنگائی کے اس عظیم دور میں دو طرفہ کرایہ اور ہوٹل کا کرایہ ساتھ پیٹ کی آگ کو بھجانے میں کتنا خرچہ اتا ہے اس کا اندازہ سب کو ہے۔

اس میں عجیب صورت اس طرح بھی ہے کہ جب کوئی رجسٹریشن کے لیے دفتر اتاہے تو کہا جاتا ہے کہ سربراہ کو لیکر حاضری دے۔ توجب پچاس یاساٹھ سال کا عمررسیدہ سربراہ سپورٹنگ اسٹیک لیے دفتر میں داخل ہوتا ہے تو اسے کہا جاتا ہے کہ زبان کی خانے میں اپ کا مادری زبان کھوار یا چترالی کے بجائے بلتی یا کچھ اور لکھا گیا ہے لہذا اسے درست کرنے لیے آپ کو سو روپے ادا کرنے پڑینگے اور اس کے بعد اپ کے بچوں کی رجسٹریشن ہوگی۔پہلے یہ پچاس،ساٹھ سال میں بندہ تین بار یا زیادہ شناختی کارڈ بنایا ہوتا ہے اس میں مادری زبان کے خانہ میں وہ ضرور کھوار یا چترالی لکھا ہوگا استفسار پر بتایا جاتا ہے مینول سے کمپیوٹیرائز ہوتے وقت غلطی ہوئی۔اب اس غلطی کا زمہ دار کون ہے کونسی نادیدہ قوت پُشت در پُشت کے اس چترالی باشیندے کو چترال سے نکال کر بلتیستان میں پھینک دیا ہے۔کسی کو کچھ معلوم نہیں لیکن جو سزا چترال کے غریب عوام بھگت رہی ہے اس ناکردہ غلطی پر اس کا اندازہ خود کریں جو اوپر بیاں ہو چکے ہیں اپنے بچوں کو پاکستانی ثابت کرنے کے لیے کیا کیا پاپیڑ بیلنا پڑتا ہے۔اس کے لیے گرمی،سردی،گردو غباراور طویل انتظار کی مصیبتیں سب کچھ برداشت کرنے کے بعد تب جاکے پاکستانی بننے کا مقام پایا جاتا ہے۔

chitraltimes nadra office booni upper chitral2

ان تمام کے باوجود جو صبح سے شام تک روڈ پہ اس انتظار میں رہتا ہے کہ اِدھر اُدھر ہوجاوں تو باری کوئی اور لے سکتا ہے تو پھیر سے اکے آخری نمبر پہ جگہ پانا ہے تو اپنے جگہے سے ہل بھی نہیں سکتا ہے۔تو اندازہ لگانا آسان ہے کہ وہ کتنی صعوبتیں برداشت کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ انسان ہے خاص کر خواتین بچے،بیمار اور ضعیف العمر لوگ وہ کیسے برداشت کر سکتے ہیں۔ ان کے بھی مجبوریات ہوتے ہیں انہیں بھی واش روم جانے کی ضرورت پڑتی ہے۔لیکن خدا کے کسی بندے نے آج تک احساس تک نہ کی ان کی ان مجبوریوں کو ایم این اے کے علم میں بھی ہے،ایم پی اے بھی خوب جانتا ہے۔ ڈی سی کے ہر کھلی کچہری میں یہ دہریا جاتا ہے کہیں پریس فورم ہو وہاں آواز بلند کی جاتی ہے۔ایجنسی والے روز روز یہ تما شا دیکھتے ہیں۔ پر اس مسلے پر کسی نہ یا تو توجہ نہ دی یا اسے مسلہ ہی نہیں سمجھا۔

حلانکہ روزانہ کی بنیاد پر لوگوں کی وقت پیسے ضائع ہو جاتے ہیں ذہنی کوفت ان کے علاوہ ہے۔ڈی سی اپر چترال نادرہ آفس دورہ کرکے مسلہ حل کرانے کی یقین دہانی کرچکے ہیں لیکن مسلہ اتنا آسانی سے حل ہونا دیکھائی نہیں دیتا۔ اس لیے چیرمین نادرا سے عاجزانہ درخواست ہے اس مسلے کو سنجیدہ لیا جاکر حکومتِ وقت کی اس دعوے کو سچ ثابت کریں کہ،،انصاف کی حصول دہلیز پر،،اس کے لیے موڑکھو،تورکھو اور مستوج میں دفترات قائم کی جائے تب تک ان علاقوں میں موبائل ٹیم کے ذریعے سہولیات پہنچانے کا فوری انتظام ہو۔تاکہ عوام سکون کا سانس لے سکھیں۔اس وقت موسم بھی برف باری کا شروع ہو چکا ہے مزید اپر چترال کے غریب عوام کو مصیبت میں نہ ڈالا جائے۔

chitraltimes nadra office booni upper chitral dc visit
سکولوں

نادرا

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
54943

داد بیداد ۔ تقریری مقا بلہ۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

ملک کے نا مور اور مشہور تعلیمی اداروں میں مبا حثے اور تقریری مقا بلے کے لئے طلبااور طا لبات کو پر وگرام سے5منٹ پہلے مو ضوع دیا جا تا ہے 5منٹ کے اندر اپنا ذہن بنا کر نا م لکھوا نا پڑ تا ہے پھر روسٹرم سے نا م پکا ر نے پر ہر ایک کو فی البد یہہ اظہار خیال کر نا پڑتا ہے اس میں طا لب علم اور طا لبہ کی ذہنی استعداد، قابلیت اور بولنے کی صلا حیت سامنے آتی ہے لا ہور، مری، اسلا م اباد اور نو شہر ہ کے معیا ری پرائیویٹ سکولوں میں اس پر عمل ہوتا ہے اور یہ سب کے علم میں ہے لیکن سر کاری سکولوں اور کا لجوں میں اس پر عمل نہیں ہوتا سر کاری سکولوں اور کا لجوں میں مبا حثہ یا تقریر ی مقا بلہ ہو تو اساتذہ کی لکھی ہوئی تقریریں طلبہ کو رٹہ کے ذریعے یا د کروائی جا تی ہیں.

اصل مقا بلہ طلبہ کے درمیان نہیں ہو تا بلکہ اساتذہ کے درمیان ہو تا ہے بارہ ربیع الاول کو ایک بڑے نشر یاتی ادارے میں تقریری مقا بلہ کے منصف حضرات پر اُس وقت کڑی ازما ئش آئی جب ایک سکول سے ساتویں جما عت کی طا لبہ روسٹرم پر آئی اس کو جو تقریر لکھ کر دی گئی تھی وہ شستہ ادبی زبان میں تھی مگر مسئلہ یہ تھا کہ اس میں محفل میلا د کے ساتھ ساتھ 12ربیع الاول کی اہمیت کو بھی چیلنج کیا گیا تھا لکھنے والے نے تاریخ طبری، تاریخ مسعودی، تفسیر ابن کثیر اور صحیح بخا ری کے حوالے جا بجا لکھے ہوئے تھے یہ تقریر کسی بھی طرح ساتویں جما عت کے طا لبہ کی تقریر نہیں لگتی تھی تا ہم طا لبہ نے اس کو خوب یا د کیا تھا آ نکھوں اور ہاتھوں کے اشاروں سے بھی خوب کام لیتی تھی سامعین اور حا ضرین سے باربار داد وصول کر تی تھی.

کسی بھی منصف یا جج کے لئے اس کو نظر انداز کرنا مشکل تھا مو ضوع سے ہٹ کر بولنے پر اس کو نظر انداز کرنا پڑا ساتھ نوٹ بھی لکھنا پڑا کہ لکھنے والے نے مو ضوع کو نظر انداز کیا ا س لئے طا لبہ کے نمبر کم آئے ہمارے دوست پرو فیسر شمس النظر فاطمی نے ایک بار ارباب بست و کشاد کی مو جود گی میں تجویز دی کہ سر کاری سکولوں میں تقریری مقا بلے لا ہور اور مری کے تعلیمی اداروں کی طرح فی البدیہہ کر ائے جائیں اگر یہ ممکن نہ ہو تو اسا تذہ کی لکھی ہوئی تقریروں کا مقا بلہ بند کیا جائے اس کا کوئی فائدہ نہیں.

ایک بڑے پر و گرام کے مو قع پر ان کو بحیثیت منصف یا جج اظہار خیا ل کی دعوت دی گئی تو انہوں نے لگی لپٹی رکھے بغیر کہا کہ اس مقا بلے کی 8تقریروں میں سے 4میر ی لکھی ہوئی تھیں اور 4عبید الرحمن کے قلم کے شہکار تھیں 3ججوں میں سے دو جج وہ لو گ تھے جن کی لکھی ہوئی تقریر وں کا مقا بلہ تھا حا ضرین سے داد سمیٹتے ہوئے انہوں نے کہا میں نے دو تقریر یں مو ضوع کے حق میں اور دو تقریریں ایوان کی رائے کے خلا ف لکھ کر دیئے تھے میرے دوست عبید الرحمن کا طریقہ واردات بھی اس سے مختلف نہ تھا اگر صو بائی اور ضلعی سطح کے حکام کسی جگہ مل بیٹھیں مشا ورت اور میٹنگ کریں پھر فیصلہ کریں کہ لا ہور اور مری کے مشہور تعلیمی اداروں کی طرح سرکاری سکولوں میں بھی تقریری مقا بلہ یا مبا حثہ کے لئے مو ضوع پرو گر ام سے 5منٹ پہلے دیا جا ئے گا طلبا اور طا لبات فی البدیہہ تقریروں کے ذریعے فن کا مظا ہر ہ کرینگی تو اس فیصلہ سے تعلیمی نظام میں ہم نصا بی سر گر میوں کو نئی زند گی اور نئی جہت ملے گی طلباء اور طا لبات کی صلا حیتیوں کو جا نچنے کا مو قع ملے گا تقریری مقا بلہ صحیح معنوں میں تقریری مقا بلہ ہو گا اس پر جھوٹ اور فریب کا ملمع نہیں ہو گا۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
54929

ماحولیاتی تبدیلیاں اور دنیا کا مستقبل – پروفیسرعبدالشکورشاہ

ہمارا مقصدکم از کم اسی حالت میں سیارہ ارتقا ء کو آنے والی نسلوں تک منتقل کرنا ہے جیسا کہ ہمیں ملا ہے۔ اگر ہم نے بر وقت موسمی تبدیلیوں پر کان نہ دھرے تو ہمارا شماراچھی کتابوں میں شامل نہیں ہوں گا۔ماحولیاتی آلودگی کے بیانک اثرات سے آب و ہوا میں ہونے والی تبدیلیوں سے پوری دنیا بدلے گی، خاص طور پر دنیا کے 2.6 ارب غریب لوگوں کے ساتھ یہ دیگر جانداروں کو بھی ختم کردے گی۔ پچھلے 40 سالوں کے دوران، جانوروں اور پودوں میں 50 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ آئی سی یو سی این کی رپورٹ کے مطابق، 20 سے 30 فیصد پودوں اور جانوروں کو خطرہ ہے اور موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے جلد ناپید ہوجانے کا امکان ہے۔سمندر جوگرمی کو جذب کرنے کا بہترین ذریعہ ہیں، وہ بھی شدیدموسمی تبدیلیوں کا شکار ہو چکے ہیں۔ 1969 کے بعد سے، اوسط درجہ حرارت 0.4 ° ڈگری سے 700 میٹر سمندروں میں گرم تر ہوتا جارہا ہے۔

ناسا کے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ 1993 سے 2016 تک برف کی اوسط پگھلنے کی شرح 280 بلین ٹن سالانہ ریکارڈ کی گئی ہے، جبکہ اسی عرصے کے دوران انٹارکٹیکا میں 127 ارب ٹن سالانہ برف پگھلنا ریکارڈ کی گئی ہے۔پچھلی دہائی کے دوران انٹارکٹیکا میں برف پگھلنے کا تناسب 3 فیصد ریکارڈ کیا گیا ہے۔ پگھلتے گلیشیرز، ابلتے سمندر، سمندری زندگی، جنگلی حیات کی معدومیت، بڑھتی گرمی اور موسمیاتی تبدیلیوں کا نقارہ بجا رہے ہیں۔ اپنے سیارے کو اس حال میں پہنچانے کے ذمہ دار ہم ہی ہیں۔ گرین ہاؤس گیسوں کی وجہ سے درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ جولیٹ جارجیا، ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے پاس کوئلے کا سب سے بڑا پلانٹ ہے جو روزانہ 34000 کنڈلی کھاتا ہے اور سالانہ 25 ملین ٹن CO2کا اضافہ کر رہا ہے۔ زرعی اراضی کے حصول کے لئے ایمیزون کے جنگلات میں جنگلات کی کٹائی شروع کردی گئی ہے۔

سائنس دان 1824 ء اور بعد میں 1895 ء میں موسمی تبدیلیوں سے ہونے والی تباہی کے بارے میں انتباہ کر رہے ہیں۔ گرین ہاؤس گیسوں کے اتار چڑھا وکی تاریخ اب مسلسل بڑھتی جارہی ہے۔ عالمی درجہ حرارت میں پچھلے 150 سالوں میں تشویشناک حدتک اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ آتش فشاں پھٹنا، شمسی ہواؤں اور دیگر عوامل جن کی وجہ سے آب و ہوا میں ردوبدل انسانی حصص سے کم حصہ ڈال رہے ہیں۔ آتش فشاں پھٹنے سے ماحولیاتی تبدیلیوں پر صرف دو فیصد اثر پڑتا ہے۔ صنعتی انقلاب کے بعد CO2 میں تین فیصد اضافہ ہوا ہے۔ وہ تبدیلیاں جو صدیوں بعد رونما ہوتی تھیں اب دہائیوں میں رونما ہو رہی ہیں۔ کرہ ارض کا اوسط درجہ حرارت برف کے دور سے 9 ° سے بھی زیادہ بڑھ چکاہے۔ تیزی سے پگھلتی برف کی وجہ سے سمندروں میں 1 سے 2.3 فٹ کا تخمینہ اضافہ ہوگا اور 4 فیصد اضافے سے سونامی کا سبب بن سکتا ہے۔

شدید موسمی حالات مزید تباہ کن سیلاب، خشک سالی، زمین کا بنجر ہوجانے اور بہت سی بیماریاں پیدا کرنے کاموجب بن رہے ہیں۔ زرعی پیداواری صلاحیت میں کمی اور پانی کی قلت کے خطرات ایک گدھ کی طرح ہمارے سروں پر منڈلا رہے ہیں۔ماحول میں CO2میں اضافے کے سلسلے میں سال 2020 انسانی تاریخ کا بدترین سال رہا۔ ناسا کے اعدادوشمار کے مطابق، 2019 میں دنیا کا درجہ حرارت 1.8 ° تھا جو 2020 کے دوران توقع سے زیادہ بڑھ گیا ہے۔ 1880 سے 2019 تک کی انسانی تاریخ کے پانچ گرم ترین سال 2015 سے 2020 تک ہیں۔”اگر ہم اس سنگین مسئلے کو نظر انداز کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو، ہم مستقبل قریب میں زراعت میں کمی اور آبادی میں اضافے کے ساتھ ساتھ پانی کی قلت، معاشی انحطاط، دفاعی اور صحت کے مسائل کا بھی سامنا کریں گے۔ ہمارے پاس ٹروجن ہارس کو اپنے قلعے میں لے جانے سے پہلے غور کرنے کا وقت ہے۔ ہمیں آب و ہوا کی تبدیلی کے خلاف جنگ جیتنے کے لئے ایکیلیس کی ایڑی پر ضرب لگانا ہو گی۔”موسمیاتی تبدیلیوں میں گرین ہاوس گیسوں میں 

11 فیصد اضافہ کرکے دیگر ذمہ داران عوامل کے ذریعہ شامل کُل 6 فیصد کے مقابلے میں انسان انتہائی ذمہ دار ہیں۔ یہ بھی ستم ظریفی ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کو کنٹرول کرنے کے لئے مختص فنڈز میں سے صرف 3% قدرتی حل پر استعمال ہوتے ہیں۔ عفریت سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے ہمیں قدرتی حل میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کرنا ہوگی۔ ہمیں پودے لگانا اور دوبارہ لگانا ہوں گے۔ شجرکاری کے ذریعہ ہم نہ صرف آب و ہوا کی عفریت کو اپنی ماند میں دھکیل سکتے ہیں بلکہ ہم تیل اور گیس کی صنعت سے زیادہ ملازمتیں بھی پیدا کرسکتے ہیں۔ اگر درجہ حرارت اپنے موجودہ تناسب کے ساتھ بڑھتا رہا تو، 2030 سے?2052میں درجہ حرارت میں 1.5 فیصد اضافے کا خدشہ ہے۔ پچھلی صدی کے دوران، آٹھ جزیروں کو سمندروں نے نگل لیا تھا۔

لندن کی زوالوجی سوسائٹی کے مطابق، جنگلی حیات میں گذشتہ 40 سالوں کے دوران 40 فیصد کمی واقع ہوئی ہے اور 1970 سے 2014 تک مچھلی، پرندوں، رینگنے والے جانوروں اور کچھ دوسری نسلوں میں 60 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ اس سلسلے میں CO2سب سے بڑا خطرہ ہے، CO2 کی مقدار جس کا اندازہ لگایا جاتا ہے کہ وہ 1750 کے بعد سے موجود ہے، پچھلے 40 سالوں کے دوران ہوا میں شامل کیا گیا ہے۔ہم ان کی پیداوار سے زیادہ قدرتی وسائل بھی استعمال کر رہے ہیں۔ انسانی تاریخ کی سب سے مہلک اور خطرناک موسمی صورتحال گذشتہ دو دہائیوں میں تین فیصد زیادہ واقع ہوئی ہے۔

موسلا دھار بارش نے چار فیصد، ہیٹ اسٹروک میں 43 فیصد، قحط سالی 17، سیلاب میں 16 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔ 2018 میں، 120000 مربع کلومیٹر اشنکٹبندیی جنگلات کاٹ دیئے گئے جس کے نتیجے میں دنیا کی آب و ہوا میں 11 فیصد زیادہ CO2پیدا ہوا۔ ہم آنے والے 20 سالوں میں 1 عرب ٹن پلاسٹک شامل کرنے جا رہے ہیں جو صورتحال کو مزید گھمبیربنا دے گا۔ برطانیہ نے موسمیاتی تبدیلیوں سے بچنے کے لیے 2050 تک موٹر کاروں کو بجلی بنانے کا ہدف بنایا ہے۔آب و ہوا کی تبدیلی کے بارے میں ہماری مشکوک پالیسی ہے جیسا کہ مسئلہ کشمیر پر ہمارے پاس ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کی تلوار ہمارے سروں پر لٹک رہی ہے اور ہم ابھی تک تسلی بخش سطح پر نہیں پہنچ سکے ہیں۔ ہمیں اپنی آب و ہوا کی پالیسی کا جائزہ لینا ہوگا اور اسے موجودہ حالات کے مطابق ڈھالنا ہوگا۔

ہم بدی کے خاتمے کے لئے اقدامات کرنے کے پابند ہیں۔ ہمیں شعور بیدار اور پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اس کے بارے میں اپنے قومی نصاب میں ابواب تحریر شامل کرنا ہوں گے۔ ہم پودے لگانے کی مہمات کے ساتھ ساتھ قدرتی وسائل کی حفاظت کرکے بھی اسے سنبھال سکتے ہیں۔ شدید بارشیں  موسمی تبدیلیوں کی طرفایک اشارہ ہے۔ ہمیں فورا اس مسئلے پر کان دھرنے کی ضرورت ہے۔ ہندوکش، قراقرم اور ہمالیہ پہاڑوں پر برف پگھلنے سے شدید سیلاب آسکتا ہے جس سے ہماری زراعت متاثر ہوگی۔ اس سے آبادی میں مزید ردوبدل ہوسکتا ہے۔ اگرچہ پلاننگ کمیشن نے آب و ہوا کی تبدیلی سے نمٹنے کے لئے قیمتی تجاویز دی ہیں، لیکن پھر بھی ہمیں ان فائل کی تجاویز کو عملی شکل میں لانے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم اس سنگین مسئلے کو نظر انداز کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو، ہم مستقبل قریب میں زراعت میں کمی اور آبادی میں اضافے کے ساتھ ساتھ پانی کی قلت، معاشی انحطاط، دفاعی اور صحت کے مسائل کا بھی سامنا کریں گے۔ ہمارے پاس ٹروجن ہارس کو اپنے قلعے میں لے جانے سے پہلے غور کرنے کا وقت ہے۔ ہمیں آب و ہوا کی تبدیلی کے خلاف جنگ جیتنے کے لئے اکیلیز کی ایڑی پر ضرب لگانا ہو گی۔ چاہئے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
54887

سوشل میڈیا کا مثبت استعمال – تحریر:اشتیاق احمد

گلوبلائزیشن کے اس دور جدید میں لاکھوں میل دور رہنے والے افراد کے ساتھ روابط ،میل جول رکھنا اتنا سہل ہو گیا ہے کہ سیکنڈز میں ہم اپنی انگلیوں کے نیچے موجود سمارٹ فون کی فنکشنز سے ایسے انداز میں مستفید ہوتے ہیں اور قربت کا ایسا گمان ہونے لگتا ہے جیسے وہ ہمارے آس پاس ہی موجود ہوں اور اپنے خاندان والوں کے پاس رھ کے بھی ہم ان سے دور ہو جاتے ہیں۔


نئے دور کے چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کیلئے ان کی ایجادات سے استفادہ کئے بغیر آگے بڑھنا دیوانے کے خواب کے علاوہ کچھ نہیں۔
آج ہر شخص کے پاس سمارٹ فون ہے اور کچھ بنیادی فنکشنز سیکھنے کے نتیجے میں معلومات کا ایک خزانہ ہمیں مل۔جاتا ہے جس کا مثبت استعمال کرکے ہم اس کے تمام فوائد سے بھرپور استفادہ حاصل کر سکتے ہیں اور اپنی زندگی میں نئی تبدیلیوں کو بھی سامان کر سکتے ہیں،اس فون میں ایک بار کلک کرنے سے ہم کہاں سے کہاں پہنچ جاتے ہیں جو ہمیں ایک نئی دنیا میں لے جاتا ہے جہاں ایجادات اور واقعات کا خزانہ ہمارا انتظار کر رہا ہوتا ہے اور کچھ لمحے کیلئے ہم زندگی کی تلخیوں سے انسان کوسوں دور چلا جاتا ہے اور اس کے فائدے سے بچے بوڑھے جوان مرد وخواتین سب ہی استفادہ حاصل کر رہے ہیں اس کے مثبت استعمال سے لوگ اینکر پرسن اور رپورٹر تک بن بیٹھے ہیں۔


میڈیا انڈسٹری میں Mojo اور سینٹرن جرنلزم نے انقلاب برپا کر دیا ہے جو کہ آنے والے دنوں میں روایتی میڈیا کا سمت کا تعین کرے گا۔
پاکستانی نوجوانوں کو قدرت نے تمام صلاحیتوں سے لیس کیا ہے اور ان صلاحیتوں کو مثبت چیزوں پہ صرف کرکے،ان سہولیات سے استفادہ حاصل کرکے ہم جدید دور میں بہت ترقی کر سکیں گے لیکن افسوس ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ہمارے نوجوانوں کے اندر سوشل میڈیا کے استعمال کو نیگیٹو انداز میں پیش کرکے غلط استعمال کرنے کی باقاعدہ ترغیب دی جاتی ہے لیکن ہم سوشل میڈیا انسٹاگرام،فیس بک،وٹس آپ،ٹوئیٹر،ایم ایم ایس، اور ایس ایم ایس کا مثبت استعمال کرکے معلومات کے نہ۔ختم ہونے والے خزانے کی تہہ تک پہنچ جاتے ہیں اور ان کے استعمال سے ہم اپنی زندگی میں آمن،تعلیم اور شعور کے پرچار کو فروغ دے سکتے ہیں،ہم اپنی زندگی،معاشرے اور قوم میں ایک مثبت تبدیلی،سوچ اور تحریک پیدا کر سکتے ہیں،مختلف چیزوں کے حوالے سے آپنے آراء کا اظہار کر سکتے ہیں اور سوشل میڈیا انسان کی سوچ خیالات اور رجحانات کی بھی عکاسی کرتی ہے کہ ہم کس سوچ فکر اور نظریے کے مالک ہیں۔


ان مندجہ بالا سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے ہم لمحہ بہ لمحہ تازہ ترین بحث و تکرار،فیک بک لائیو،آن لائن ٹی وی،ریڈیو،ویڈیوز،ملکی اور عالمی میڈیا ،دین و دنیا،علم و ہنر،فنون لطیفہ اور کھیل کود کی مفید معلومات سے ایک عدد کلک کرنے سے مستفید ہو سکتے ہیں۔موجودہ دور کی افرا تفری،بے حسی،مایوسی،ٹینشن کی بیماری کی طرح ہمارے ذہنوں میں سرایت کر گئی ہے،انسان وقت حالات،مہنگائی اور بے روزگاری کی وجہ سے پریشان حال ہے ہماری ذمہ داری صرف یہ ہے کہ ہم ان لوگوں کو روشنی،امید اور تسلی کا وسیلہ بنیں،لوگوں میں سوشل میڈیا کے موثر،با مقصد اور مثبت استعمال کے فوائد اجاگر کریں جس سے خاطر خواہ آمدنی بھی نہایت آسان ہے اور نوجوانوں میں تجسس کو پالش کرکے ان کو مناسب ٹریننگ دے کر اپنی شوق کو معاشرے میں بہتری لانے کے لئے استعمال کرنے پر صلاحیتیں بروئے کار لانے کی ضرورت کا پرچار کرنا چاہئے ،اپنے تجربات،کہانیاں،خیالات دوسروں سے شیئر کرنے چاہئیں۔
ضرورت اس آمر کی ہے کہ سوشل میڈیا کے مثبت استعمال سے لوگوں کی آمدنی میں بہتری کے ذرائع لانے کے اقدامات ہونے چاہئیں،اس کے غیر ضروری استعمال نے گھروں کے گھر اور خاندانوں کے خاندان اجاڑ کے رکھ دئے ہیں اور ان کی زندگیاں اجیرن بنا دی ہیں ایسی صورتحال میں آمن کے سفیروں،اچھائی کے پیامبروں اور دوسروں کے دکھ درد،بھلائی کا پرچار کرنے والوں اور درد دل سے لبریز خدا ترس لوگوں کو اس حوالے سے سنجیدگی سے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اور دور جدید کے نئے تقاضوں سے خاطر خواہ انداز میں استفادے کا حصول ممکن ہو۔

Posted in تازہ ترین, مضامین
54889

مہنگائی غربت بے بسی اور بے حسی کی کہانی

شاہ عالم علیمی یہ میں اور چچا خدا بخش اتفاق سے ایک ساتھ مقامی یوٹیلٹی اسٹور میں داخل ہورہے ہیں۔ چچا خدا بخش میرے ہمسائے ہیں اور اسلام آباد کے نواحی علاقے میں یہ یوٹیلٹی اسٹور اگرچہ ہمارے گھر سے کافی دور ہے لیکن بیس روپے بچانے کے چکر میں، میں اور چچا خدا بخش اور بیسیوں دوسرے لوگ اس سرکاری اسٹور سے ہی سودا سلف لیتے رہے ہیں۔ دو سال پہلے تک ہمارے گھر کے ساتھ بھی ایسا ہی ایک اسٹور ہوا کرتا تھا لیکن پھر تبدیلی ائی اور وہ اسٹور ختم کردیا گیا۔ صرف وہ نہیں بلکہ ملک بھر میں سینکڑوں ایسے ہی یوٹیلیٹی اسٹورز ختم کردیے گئے۔

یہ اسٹور سابق امر جنرل پرویز مشرف کے برامد شدہ وزیراعظم شوکت عزیز کے دماغی اختراع تھے اور ان چند اچھے کاموں میں سے تھے جو امروں اور ان کے ٹکنوکریٹ مددگاروں نے کیا۔ خیر دیکھیئے اج یہ اسٹور بھی خالی خالی نظر ارہا ہے۔ دو مہینے پہلے تک اس اسٹور میں چیزیں دستیاب ہوتی تھیں اج الماریاں خالی پڑی ہیں۔ چچا خدا بخش کو ایک تھیلا اٹا ایک کلو گھی ایک دو کلو چاول چاہیے۔ تینوں اشیا غائب ہیں۔ مجھے جو چار پانچ چیزیں چاہیے ان میں سے صرف ایک دستیاب ہے۔ چچا بخش کے چہرے پر پریشانی تو دروازے سے داخل ہوتے ہوئے ہی میں نے محسوس کیا تھا جب انھوں نے فکرمند انکھیں اٹھائے میرے سلام کا جواب دیتے ہوئے ‘کی حال اے پتر تاڑا’ کہا تھا اور پھر میرے پوچھنے پر ‘شکر، شکر’ کا تکرار کرکے خاموش ہوئے تھے۔

مقامی محاورے میں شکر عام مستعمل ہے جس کا مطلب ضروری نہیں کہ بندہ بالکل خوش باش اور خوشحال ہے بس کسی بھی حال میں شکر کرتے رہنا چاہیے۔ یہی صابرین کا طرز کلام ہوتا ہے۔ مگر چچا خدابخش کو شکر یعنی چینی بھی چاہیے جس کے بیغیر چچا صبح ناشتے میں ایک ادھ پراٹھہ کے ساتھ چائے نہیں پی سکتا مگر چینی دستیاب نہیں ہے۔”ابھی ابھی ختم ہوگئی جناب”۔ یہ اسٹور کے سنئیر مینجر مجھے بتارہا ہے۔ چچا خدا بخش پریشانی کی وجہ سے خاموش ہے۔ کیونکہ صبح صبح میں نے خود اپنے ہمسائے شہزاد صاب کی دوکان سے چینی خریدی تھی ایک کلو 160 روپے تھا۔ شہزاد صاب نے کہا، شاہ صاب 170 کی ہوگئی ہے آپ کو 160 کا دے رہا ہوں۔ میں نے کوئی بات نہیں کی۔ کیونکہ اج کل ہر صبح اٹھتے ہی اپ کسی اور چیز کی توقع کریں یا نہ کریں لیکن تبدیلی کی توقع ضرور رکھ سکتے ہیں۔ یعنی تبدیلی ہر صبح شام دوپہر ہر وقت اتی رہتی ہے،  اس دن رات کو پٹرول پر اٹھ روپے فی لیٹر کے ساتھ ائی تھی۔ 
بہرحال یوٹیلٹی اسٹور کے سنئیر منیجر سے میں پوچھ رہا ہوں،  “لیکن جناب گھی چاول دالیں اٹا کچھ بھی نہیں ہے اپ کے پاس”؟      “اٹا تو دو مہینے سے نہیں ارہا میں تو مسلسل ریکوسٹ request  بھیج رہا ہوں لیکن نہیں ارہا ہے”۔ یہ صاحب مسکراتے ہوئے مجھے بتارہا ہے۔ ماحول مایوس کن ہے اور اس میں چچا خدا بخش کے فکرمند چہرے نے مزید اضافہ کیا ہوا ہے۔ مجھے اپنی فکر نہیں ہے کیونکہ میں ایک اکیلے ویلے ادمی ہوں۔ چچا خدا بخش کی تین بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں ایک عدد بیگم بھی ہے۔ دو بچے بالترتیب ساڑھے سات اور نو سال کے ہیں اور بچیاں بھی کچھ بڑی نہیں دس گیارہ بارہ سال کی ہوں گی۔

چچا ابھی ساٹھ سال کی عمر میں داخل ہوچکے ہیں۔ چند سال پہلے تک ایک پرائیوٹ کمپنی میں کام کرتے تھے پھر ‘ضعیف العمری’ کی وجہ سے کمزور پڑ گئے اور کمپنی نے کام سے نکال دیا اور اب چچا ایک ریڑھی پر کچھ پھل فروٹ بیج کر گزارا کررہے ہیں۔ اسٹور سے میں نے ایک دو چیزیں خرید کر کاونٹر پر بل دینے ایا تو رسید میں ایک فقرے کا اضافہ تھا یعنی “سبسڈی-29 روہے”۔ مجھے انتیس روپے کی سبسڈی ملی ہے۔ مگر غور کرنے سے مضحکہ خیز معاملہ، معاف کیجئے گا، تبدیلی نظر اتی ہے۔ یعنی جس چیز کی قیمت ایک سو ستر روپے تھی اس کی قیمت پہلے دو سو اسی روپے کردی گئی ہے۔ اور پھر اس دو سو اسی روپے میں سے مجھے  سبسڈی ملی ہے۔ دس روپے بقایا نقدی کے بجائے ٹافیاں پکڑائی جا رہی ہے۔

دل کرتا ہے ناناپٹیکر کی طرح پوچھوں’ کیا ہے یہ!  لیکن خیر یہ ہم خودی کو بلند کرکے  اس اسٹور سے نکل ائے۔ اسٹور کے منیجر نے مزید بتایا تھا کہ اٹا آ بھی جائے تو ہمارا کوٹہ ایک سو چالیس تھیلا ہے اور وہ اس پورے شہر کے لئے ناکافی ہے۔ فقط ایک سو چالیس تھیلا!  مجھے معلوم ہے چند مہینے پہلے رمضان کے مہینے سبسڈائیزڈ subsidized  چینی اٹا لینے کے لئے خواتین و حضرات یہاں ہی باہر ایک ادھ کلو میٹر لمبی لائن لگاکر کھڑے رہتے تھے۔ میں نے ان کی ایک عدد تصویر کھینچی تھی اور دل ہی دل میں کہا تھا اس قوم کی قسمت میں زلت و رسوائی ہی کیوں لکھی ہے؟  خیر اج کل ایک طرف مہنگائی اور بےروزگاری کی چیخ و پکار ہے تو دوسری طرف بتایا جارہا ہے کہ دنیا میں جو مہنگائی ہے اس کے مقابلے میں پاکستان میں تو ہے ہی نہیں۔

بہرحال ان کی بات بھی صیح ہوسکتی ہے اور ان کی بھی۔ کیونکہ اج تک اس ملک میں کوئی ایسا پیدا ہی نہیں ہوا جس کی بات غلط ہوئی ہو۔ دوسری طرف زمانہ ایسا ہے کہ یہاں سارے دلیل بیکار اور ساری منطق فضول ہے۔ آپ کہہ دیں کہ امریکہ میں مہنگائی ہے تو روزگار بھی تو ہے۔ برطانیہ میں مہنگائی ہے تو سہولیات بھی تو ہے سعودیہ میں مہنگائی ہے تو لوگوں کو ریاست مدد بھی فراہم کررہی ہے۔ ایران میں مہنگائی ہے تو سوشیل سکیورٹی بھی تو ہے۔ بنگلادیش میں مہنگائی ہے تو کم از کم امدنی بھی تو ہے۔۔۔۔

سب بیکار ہے سب فضول ہے۔ یہ کہنا بھی فضول ہے کہ چینی Chinese مزدور کے پانچ دن کی تنخواہ اور پاکستانی مزدور کے مہینے یا ایک سوئزرلینڈ کے ایک شہری کے ایک گھنٹہ کی تنخواہ اور پاکستانی مزدور کے ایک مہینہ کی تنخواہ برابر ہے۔ یہ سب بھی دیوانے کی بھڑ ہے یا طوطی کی اواز نقار خانے میں۔ بھلا شاہ جہاں یا جلال الدین اکبر اور ان کے چیلوں کا عوام الناس کے مسائل سے کیا دلچسپی؟  زیادہ سے زیادہ ہمدردی ہو تو حاکم وقت مہنگائی کو ٹالنے کے لئے صدقہ خیرات دے سکتا ہے بس!  دیکھ لیں ڈالر 178 پر ہے مہنگائی بے روزگاری اور غربت ہمالیہ کی چوٹی سے اوپر گئی لیکن دوسری طرف فارما کمپنیوں شوگر مافیا اور ایگریکلچر مافیا اور رئیل اسٹیٹ کے ٹائیکونز اور دوسرے مافیاز کے وارے نیارے ہورہے ہیں۔ اور سب پر مستزاد حاکم وقت کی بے حسی (بے بسی؟) معنی خیز ہے!  

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
54855

حبشی آئینے میں کریہہ صورت! – قادرخان یوسف زئی

آپ آج کے پاکستان کے حالات پر غور کیجئے اور دیکھئے، کیا ہمارے معاشرے میں بعض عناصر ایسی روش پر تو گامزن نہیں جہاں نام نہاد طبقہ ئ اعلیٰ کی سیرتوں میں ایلیٹ کا رنگ رنگا ہوا ہو، اوپر کے طبقے کی اس روش زندگی کا نتیجہ کیا ہوتا ہے، اس کا فیصلہ اپنے دل سے کیجئے اور ضمیر کی عدالت لگا کر اسباب کو سامنے لائیں کہ کیا عوام کے دلوں میں ان کا احترام باقی ہے کہ بالکل اٹھ گیا ہے۔دنیا میں کوئی ایسی قوم زندہ نہیں رہ سکتی جس کے دلوں میں خواص کی تعظیم باقی نہ رہ جائے، آپ قانون کے ظواہر سے، قوت کے زور پر منوا سکتے ہیں لیکن وہ شے جو قوم کو جان تک دینے کو آمادہ کرتی ہے،صرف احترام اور عقیدت ہوتی ہے۔ آج  اکثریت کے دلوں سے نام نہاد لیڈروں کا احترام کس حد تک اٹھ چکا ؟  اس کا اندازہ ہر وہ شخص کرسکتا ہے جسے نیچے سے عوام میں گھل مل کر رہنے کا اتفاق ہو، عوام سے مراد صرف قوم کا سب سے نچلا طبقہ ہی نہیں بلکہ وہ متوسط طبقہ بھی جو قوم کا دست و بازو کہلاتا ہے، اس طبقے میں نہ صرف یہ کہ نام نہاد ’لیڈروں‘ کا احترام ہی باقی نہیں رہا بلکہ ان کی تمسخر انگیز منافقانہ روشِ زندگی کی وجہ سے ان کے خلاف نفرت کے جذبات بھی پیدا ہو رہے ہیں  اور خود ان کے الفاظ کو ہی وہ مضحکہ خیز تصور کرنے لگ گئے ہیں، نتیجہ اس کا یہ ہے کہ بعض نامی ’لیڈروں ُ کی وجہ سے قوم کی نگاہوں میں قول وفعل کی قیمتی اقدار بھی قابل ِ نفرت تصورات قرار پاچکی ہیں۔


 جو کچھ اوپر لکھا  یہ ہمارے موجودہ حالات کا صحیح آئینہ ہے جس کا جی چاہے اس میں اپنی صورت دیکھ لے۔ ہم جانتے بھی ہیں کہ جو کچھ وطن ِ عزیز میں غلط ہورہا ہے اس کا نتیجہ تباہی کے سوا کچھ نہیں ہوا کرتا، اس لئے ہم اس کا احساس کرنے کے باوجود کہ حبشی آئینے میں اپنی کریہہ صورت دیکھ کر آئینے کو پتھر دے مارا کرتے ہیں، نہایت ضروری ہے کہ اس آئینے کو قوم کے سامنے رکھ دیا جائے،  بدقسمتی سے ہماری قوم کی زندگی کے تمام نمایاں گوشوں پر آج نام نہاد انقلابیوں کی پوری طرح سے منافقت مسلط ہوچکی ہے۔ نام نہاد لیڈروں کے ساتھ ساتھ ان کے حواریوں کی اخلاقی قوت بھی بالکل بگڑتی جارہی ہے، اگر اسے بروقت سنبھالا نہ گیا تو پھر اس کے سنبھلنے کی کوئی صورت نہیں رہے گی، اس میں کوئی کلام نہیں کہ اس زمانے میں ملک کے دفاع پر جس قدر روپیہ خرچ کیا جائے، کم ہے لیکن یہ حقیقت ہے جس پر تاریخ اور خود ہمارا زمانہ شاہد ہے کہ جس قوم کا مورال قائم نہ رہے، اس میں دفاع کے اسباب و ذرائع کبھی کامیاب نہیں ہوا کرتے۔اس صورت حال کے باوجود سب کچھ مایوس کن نہیں،  یہ اندازہ ہی نہیں بلکہ یقین ہے کہ قوم میں ایسے مخلص افراد کی کمی نہیں جو اس صور ت حالات کو اسی طرح سے محسوس کررہے ہیں جس طرح لکھا گیا۔


قوم میں مخلص و باشعور افراد نہایت خلوص اور دیانت سے مضطرب اور بے قرار بھی ہیں، وہ دل سے چاہتے ہیں کہ اس روش میں کسی طرح اصلاح ہوجائے، اس لئے کہ پاکستان نہ صرف ان کی جان، مال، عصمت آبرو کی حفاظت گاہ ہے بلکہ ان کے زدیک یہ ان کی حسین آرزوؤں کی تعبیر اور ان تصورات کی تجربہ گاہ بننے کا امکان اپنے اندررکھتاہے جو ان کی زندگی کا آسرا ہیں، اس لئے وہ اس کے تحفظ اور بقا کے لئے ہم سے بھی زیادہ بے تاب اور بے قرار ہیں لیکن ان کی یہ بے تابیاں اِس وقت تک نتیجہ خیز نہیں ہورہیں، اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں لوٹ مار کی وجہ سے عزت اور گراں قدری کے معیار بدل گئے ہیں، اس وقت اثر اور عزت کا معیار صرف اضافی نسبتیں رہ گئی ہیں اور چونکہ یہ اضافی نسبتیں لوگوں کو بہت سستے داموں ملی ہیں، اس لئے جن کی طرف یہ نسبتیں منسوب ہیں، وہ کسی ذاتی قیمت کے حامل نہیں ہیں، آج حالت یہ ہوچکی کہ کوئی غریب یا ایسا شخص جو بلند منصب پر فائز نہیں، کیسی ہی بلند پایہ بات کیوں نہ کہے، کوئی شخص اس درخو اعتنا سمجھنے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس کوئی دولت مند یا صاحب منصب کتنی ہی گھٹیا بات کیو ں نہ کہے، چاروں طرف سے مرحبا اور سبحان اللہ کے غلغلے بلند ہونے شروع ہوجاتے ہیں، نتیجہ یہ کہ آدمیت، وجہ تکریم آدمی ہونے کے بجائے اضافی نسبتیں باعث تعظیم بن رہی ہیں، اس لئے بلند پایہ بات کرنے والے غریب یا غیر منصب دار افراد یہ کہہ کر الگ ہو بیٹھے ہیں کہ جب اس ریس میں ہماری اس آواز کی قیمت ہی کچھ نہیں تو ایسی آواز نکالنے سے حاصل ہی کیا ہے۔


یہ ان کی بنیادی غلطی ہے، اگر حق کی آواز کہنے والا بھی اضافی آسروں کا محتاج ہوجائے تو حق کا نام لینے والا باقی نہ رہے، پھر دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ اس قسم کی تڑپ اور خلش رکھنے والے افراد ملک کے مختلف گوشوں میں بکھرے پڑے اورایک دوسرے سے بے خبر ہیں، اس لئے ہر شخص اپنے آپ کو تنہا محسوس کرتا ہے، اگر وہ ایک دوسرے سے قریب ہوجائیں تو یہی قرب ایک دوسرے کی تقویت کا باعث ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ اس قسم کے سوچنے والے دماغ اور قوم کے مستقبل کے تحٖفظ کا درد رکھنے والے دل بالآخر کب تک حالات کو صورت آئینہ دیکھتے جائیں گے؟، کیا ان کے یک جا ہوکر متفقہ فکر سے کوئی عملی حل کے تلاش کرنے کی کوئی صورت پیدا نہیں ہوسکتی؟، انہیں معلوم ہونا چاہے کہ جب بربادیوں کا سیلاب آیا کرتا ہے تو وہ صرف انہی کے گھروں تک ہی محدود نہیں رہا کرتا جو ا ن تباہوں کا باعث ہوتے ہیں۔سیلاب کی رو میں ہر ایک خس و خاشاک کی طرح بہہ جایا کرتا ہے، میری ذاتی رائے میں اس قسم کے منتشر افراد میں سے ہر شخص اپنی اپنی جگہ اس احساس کو دل میں لئے بیٹھا ہے لیکن خود پہل کرنے کے بجائے اس انتظار میں ہے کہ کوئی اور شخص باہر نکلے، لیکن سوال یہ ہے کہ اس انتظار کی بالآخر کوئی حد بھی ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ یہی کچھ سوچتے رہیں اور بربادیوں کے سیلاب سر پر ہی آجائیں۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
54813

مہنگائی کی اصل وجہ اور اس کا حل – غزالی فاروق

مہنگائی کی طوفانی لہر جو پچھلے چند  سالوں سے شدت کے ساتھ  پاکستان کو  اپنی لپیٹ میں لئےہوئے ہے، اب برداشت کی تمام حدود  پار کر  رہی ہے۔تیل، چینی، آٹا، دالیں، سبزیاں، انڈے، گوشت، بجلی و گیس کے بل ، سکول فیس آبادی کے بڑے طبقے کی برداشت سے باہر ہو چکے ہیں۔ جب ہم اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ موجودہ معاشی نظام کام کیسے کرتا ہے  تو ہمیں مہنگائی اور اس  سرمایہ دارانہ نظام کے درمیان ایک گہرا اور لازمی  رشتہ  دیکھنے کو ملتا ہے۔

ماضی میں ڈالر، پاؤنڈ اور فرانک کی طرح روپیہ بھی کسی قیمتی دھات کی بنیاد پر جاری ہوا کرتا  تھا۔ ڈالر کی صورت میں وہ قیمتی دھات سونا ہوتی تھی جبکہ روپے کی صورت میں وہ چاندی ہوا کرتی تھی۔ کرنسی کا یہ نظام مالیاتی نظام  نہ صرف اس خطے میں اندرونی طور پر بلکہ بین الاقوامی تجارت میں بھی استحکام فراہم کرنے کا باعث ہوتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کے زیر سایہ برصغیر پاک و ہند عالمی معیشت کے لیے ایک انجن کا کردار ادا کیا کرتا تھا۔

لیکن سرمایہ دارانہ نظام کے تحت جاری ہونے والے سودی قرضوں اور سٹاک مارکیٹ نے کرنسی کی اس قدر طلب پیدا کی جس کو  سونے اور چاندی کی رسد(Supply) پورا نہیں کرسکتی تھی۔اس کے علاوہ جنگ عظیم اول اور دوئم بھی کرنسی کی طلب میں بے پناہ اضافے  کا سبب بنیں۔ لہٰذا ریاستوں نے قیمتی دھات کی بنیاد پر جاری ہونے والی کرنسی کے نظام کو چھوڑ دیا اور زیادہ سے زیادہ نوٹ چھاپنے شروع کردیے جن کے پیچھے سونے اور چاندی کے ذخائر موجود نہیں تھے اور اس طرح ہر چھاپے جانے والا نوٹ پچھلے نوٹ سے قدر و قیمت میں کم ہوتا ہے  جس وجہ سے اشیاء کی قیمتیں پہلے کے مقابلے میں زیادہ ہو جاتی ہیں۔یوں اشیاء کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ اس  سرمایہ  دارانہ نظام کاطرہ ٔامتیاز ہے،  لہٰذا اس نظام میں   ہر ملک افراط زرکے پیمانے کا حساب رکھتا  ہے کہ وہ کس قدر تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ مصنوعی کاغذی کرنسی کے نتیجہ میں پیدا ہونے  والا افراطِ زر ،  مہنگائی  پیدا کرنے والی چار بنیادی وجوہات میں سے ایک بہت بڑی وجہ ہے۔

 مہنگائی کی دوسری وجہ حکومت کی جانب سے  ڈیمانڈ سپلائی کے میکینزم کی نگہداشت میں نا اہلی اور کرپٹ حکومتی عہدیداروں کا اس عمل کی نگہداشت میں بڑے بڑے سرمایہ داروں کو سپورٹ کرنا ہے، جس سے  مارکیٹ میں اشیائے ضرورت کی کمی کی وجہ سے ان کی قیمتوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے جمہوری حکمران عالمی طاقتوں اور مقامی سرمایہ داروں کے فرنٹ مین بن کر سپلائی چین کو  ہائی جیک کرنے کی کوششوں میں کوئی مداخلت نہیں کرتے  بلکہ الٹا ان کی بلیک میلنگ میں آ کر ان کے سامنے سر جھکاتے ہیں۔ یہ سرمایہ دار ذخیرہ اندوزی کر کے اور کارٹیل بنا کر سپلائی کی قلت پیدا کرتے ہیں تاکہ اشیاء کی قیمت بڑھا کر دن دوگنا، رات چوگنا منافع کما سکیں۔ دوسری جانب حکومت آئی ایم ایف کو ڈالر کی قسطیں پوری کرنے کے چکر میں ضروری اشیاء درآمد ہی نہیں کرتی یا تاخیر سے درآمد کرتی ہے خواہ و تیل، LNG ہو یا گندم، چینی اور دیگر اجناس، تاکہ ڈالر کو بچا کر کرنٹ اکاؤنٹ کا خسارہ کم کیا جا سکے اور بین الاقوامی سود خوروں کی قسطیں پوری کی جا سکیں خواہ عوام کے پاس دو وقت کے کھانے کی روٹی ہی کیوں  نہ ختم  ہو جائے۔ یوں سپلائی کی قلت  قیمتوں کے بڑھنے  پر منتج ہوتی  ہے اور مہنگائی کا سبب بنتی ہے ۔

مہنگائی میں اضافے کی تیسری بڑی وجہ توانائی (انرجی) کی قیمت میں ہوشربا اضافہ ہے جس سے کاروباری اور تجارتی سرگرمیوں کی لاگت میں اضافہ ہوتا ہے۔ بجلی بنانے کے کارخانوں کی نجکاری سے  انرجی   انفراسٹرکچر    عوامی اور ملکی کنٹرول سے نکل کر چند  ملٹی نیشنل سرمایہ داروں کے  قابو میں آ جاتا ہے جو   توانائی کی فراہمی اور اس کی قیمتوں پر بڑی حد تک  اثر انداز ہوتے ہیں۔

اور مہنگائی میں اضافے کی چوتھی بڑی اور بنیادی وجہ سرمایہ دارانہ معیشت  میں ٹیکس کا نظام ہے جو بل واسطہ(ڈائریکٹ) اور بلا واسطہ(ان ڈائریکٹ)  ٹیکسوں پر مشتمل ہے۔  ان میں سے اکثرٹیکس خصوصی طور پر  بلا واسطہ   ٹیکس،  تمام اشیاء اور خدمات پر بالعموم لاگو کیے جاتے ہیں  جس وجہ سے اشیاء اور خدمات کی قیمتیں  اپنی اصل قیمتوں سے   بہت زیادہ  بڑھ جاتی ہیں۔ اس کی ایک مثال پٹرولیم مصنوعات کی اصل قیمتوں  پر لاگو کیا جانے والا جنرل سیلز ٹیکس اور پٹرولیم لیوی ہیں۔

اگر ہم اس سرمایہ دارانہ نظام کے متبادل کی  بات کریں تو اسلام کا معاشی نظام  اپنی  تمام تر خصوصیات کے ساتھ بالکل ایک منفرد نظام کے طور پر سامنے آتا ہے۔  اسلام نے ریاست پر یہ لازم کیا ہے کہ وہ قیمتی دھات کی بنیاد پر کرنسی نوٹوں کو جاری کرے اور اس طرح اسلام نے افراط زر کی بنیادی وجہ ہی کا خاتمہ کردیاہے۔ اسلام نے سونے اور چاندی کو ریاست کی کرنسی کی بنیاد ٹھہرایا ہے، اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے  صرف  سونے اور چاندی کو ہی کرنسی کی بنیاد بنانے کی اجازت دی ہے اور مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ وہ سونے  کے دیناراور چاندی کے درہم ڈھالیں جن کا وزن بالترتیب  4.25گرام اور 2.975گرام ہو۔ یہی وجہ تھی کہ ریاست خلافت ایک ہزار سال سے بھی زائد عرصے تک قیمتوں  میں  استحکام قائم رکھنے  میں کامیاب رہی۔سونا اور چاندی  ،کرنسی کو ایک حقیقی قدر فراہم کرتے ہیں جس کے نتیجے میں کرنسی کی قدر  اور اشیاء کی قیمتوں میں استحکام رہتا ہے۔ لہٰذا ایک اسلامی ریاست کرنسی کو سونے اور چاندی کی مضبوط بنیاد فراہم کرتی ہے ، اور منظم نظام کے ذریعے سونے اور چاندی کے ذخائر جمع کرتی ہے، سونے اور چاندی کے ذخائر کو مستحکم رکھنے کے لیے جہاں ممکن ہو،  بارٹر ( یعنی جنس کے بدلے جنس کی) تجارت بھی اختیار کرتی ہے اور بین الاقوامی تجارت  سونے اور چاندی میں کرنے پر اصرار کرتی ہے جس کے نتیجے میں آئی ایم ایف کی کڑی نگرانی میں قائم ڈالر کی موجودہ جابرانہ بالادستی کا خاتمہ  ہوتا ہے۔لہٰذا  ایک اسلامی ریاست میں کرنسی کے سونے اور چاندی پر مبنی ہونے کے باعث،  افراط زر  کا مسٔلہ جڑ سے ختم ہو جاتا ہے کیونکہ اب حکومت مالیاتی(Fiscal)خسارہ پورا کرنے کیلئے نوٹ نہیں چھاپ سکتی نہ ہی شرح سود کی کمی و بیشی سے معاشرے میں کرنسی کی مقدار کو کم یا زیادہ کیا جا سکتا ہے۔

جہاں تک مہنگائی کی دوسری بڑی وجہ کا تعلق ہے تو اسلامی نظام  میں  اسلامی ریاست کا سربراہ یعنی خلیفہ  مسئول ہوتا  ہے اور وہ اپنی رعایا کی فلاح و بہبود اور ان کی ضروریات پوری کرنے کا ذمہ دار ہوتا ہے جس کے بارے میں آخرت میں اس کا سخت محاسبہ ہو گا۔ پس خلیفہ ذخیرہ اندوزوں کے خلاف سخت ایکشن لے کر تعزیری سزائیں نافذ کرتا ہے۔ مناپلی اور کارٹیل بنانے کی حوصلہ شکنی کرتا ہے اور ریاستی وسائل اور عقوبات کے نظام سے اس کا قلع قمع کرتا ہے، اور ملکی تاجروں کیلئے درآمدات پر تمام ٹیکسزکا خاتمہ کرتا ہے تاکہ مارکیٹ سپلائی پر چند سرمایہ داروں کی اجارہ داری قائم نہ ہو سکے۔ اور یہ سب خلیفہ کی صوبدید نہیں بلکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے احکامات  پر مبنی ہوتا ہے، جس کا نفاذ خلیفہ پر لازم ہے۔   رسول اللہ ﷺ نے فرمایا؛ مَنْ احْتَكَرَ عَلَى الْمُسْلِمِينَ طَعَامًا ضَرَبَهُ اللَّهُ بِالْجُذَامِ وَالْإِفْلَاسِ “جو کوئی اشیائے خوراک ذخیرہ کر کے مسلمانوں کو اس سے محروم کرے گا تو اللہ اسے جذام (leprosy)اور افلاس کا شکار کر دے گا”(احمد  اور  ابن ماجہ بروایت عمرؓ، حدیث صحیح )۔

 پھر جہاں تک تیسری بنیادی وجہ کا تعلق ہے تو اسلام توانائی کے وسائل کی نجی ملکیت کی ممانعت کرتا ہے اور انہیں عوامی ملکیت قرار دیتا ہے جن کی نگہبانی ریاست کرتی ہے اور ان سے حاصل ہونے والے فوائد کو براہ راست عوام تک پہنچاتی ہے۔  ایک اسلامی ریاست میں خلیفہ کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ تیل اور گیس کے ذخائر یا بجلی بنانے کے کارخانوں کی نج کاری کر سکے، یوں اسلام انرجی کی قیمتوں کو متوازن اور عوام کی پہنچ میں رکھتا ہے۔

   اور جہاں تک چوتھی بڑی وجہ کا تعلق ہے  تو اسلام میں جنرل سیلز ٹیکس اور اس قسم  کے دیگر بلا واسطہ ٹیکس عائد کرنا، جوغریبوں اور  امیروں  پر بلا امتیاز لاگو ہوتے ہوں، حرام اور  بہت بڑا گناہ ہے۔رسول اللہ ﷺ کا  فرمان ہے : لا یدخل الجنۃ صاحب المکس “جو ٹیکس  لے وہ جنت میں  داخل نہ ہو گا” (احمد، ابو داؤد ، حاکم)۔ یوں اسلام میں اشیاء اور خدمات کی قیمتیں اپنی اصل پر  قائم رہتی ہیں۔

لہٰذا معلوم ہوا کہ مہنگائی موجودہ نظام کا ایک لازمی جزو ہونے کی حیثیت سے اس کے  خمیر میں یوں  گندھی ہوئی ہے  اور اس کے انگ انگ میں یوں  پھیلی ہوئی ہے کہ  اس کو اس نظام سے الگ کرنا  کسی طرح بھی ممکن  نہیں ۔  یقیناً یہ  ایک ایسی  اسلامی ریاست  کے قیام کا وقت ہے جو  اسلام کے نفاذ  کے ذریعےہماری معاشی خوشحالی کو یقینی بنائے  جیسا کہ اس نے صدیوں تک اسے یقینی بنایا تھا۔موجودہ حکومت  بھی اپنے سے  پچھلی  جمہوری اور آمرانہ حکومتوں  کی مانند ناکام ہو چکی ہے کیونکہ اسلام کے علاوہ کوئی بھی نظام مسلم دنیا میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔   اگر مسلمانوں کو دنیا میں ترقی کی راہ پر گامزن ہونا ہے تو انہیں چاہیئے کہ وہ سب سے پہلے ایک ایسی اسلامی ریاست کا قیام عمل میں لائیں جو اسلام کو  اس کے معاشی نظام سمیت  ہماگیر  طور پر نافذ کرے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
54811

عقیدت کے پھول – تحریر:اقبال حیات اف برغذی

سب کو فنا ہونا ہے سوائے رب کائنات کی ذات بابرکات کے ۔یہی وہ حقیقت ہے جس کے چترال کے عظیم فرزند ممتاز دینی شخصیت حضرت قاری شبیر احمد نقشبندی بھی آئینہ دار ہوئے۔ ستر سالوں کے لگ بھگ زندگی کی بہاریں دیکھنے کے بعد خزان رسیدہ پھول کی مانند مٹی سے پیوست ہوگئے۔ قاری مرحوم کی سرزمین چترال کو اعمال صالحہ کی تجلیات سے منور کرنے والے چاند کے غروب ہونے سے تعبیر کیا جائے تو بیجا نہ ہوگا۔ دوست احباب،خویش،واقارب الغرض چترال کا ہر فردوبشر صدمے سے دوچار ہے آپ کی وفات کو چترال کے لئے ایک عظیم المیہ قرار دیا جارہا ہے۔اور دینی امور کی مناسب سے جو خلا پیدا ہوا ہے اسے پورا ہونا محال ہے۔

شاہی  جامع مسجد  میں داخل ہوتے ہی اپنی قیام گاہ کے باہر دروازے سے متصل تختے پر جلوہ افروز قاری صاحب کے نورانی چہرے پر نظر پڑتے ہی خدایا دآتاتھا۔ اور شاہی مسجد پر وقار نظرآتا تھا۔ مسجد میں داخل ہونے والے ہر نمازی کے سلام کا جواب خندہ پیشانی کے ساتھ خوبصورت انداز میں دیتا تھا۔ ان سے ہاتھ ملانے سے دل کو سرورحاصل ہوتا تھا۔اور اپنی قیام گاہ سے امامت کےلئے مسجد کی طرف چلنے کا انداز جہاں لطف وسرور کا حامل ہوتا تھا۔ وہاں نماز کے دوران قرآنی آیات کی تلاوت کرتے ہوئے ان کی آواز کی حلاوت اور لذت سے جی نہیں بھرتا تھا۔ ایک بہت بڑے مذہبی ادارے سے وابستگی کے باوجود قاری مرحوم کی طبیعت میں بذلہ سنجی کی صفت بھی پائی جاتی تھی۔ باتوں باتوں میں لطیف پیرائے میں ایسے چسکے لگاتے کہ مغموم انسان کے دل کی کیفیت بھی بدل جاتی اور مسکرانے پر مجبور ہوتا۔ان کا نورانی چہرہ ہر وقت گلاب کے پھول کی مانند کھلا رہتا تھا۔ اداسی اور مغمومیت کے آثار دیکھنے کو نہ ملتے۔

ان کے قریبی حلقوں کی طرف سے بتایا جاتا ہے کہ قاری صاحب کچھ عرصہ پہلے صحت مندی کی حالت میں مسجد کے اپنے رفقاء میں سے چند ایک کو اپنی رہائش گاہ میں بلاکر موت کی حقانیت کا تذکرہ کرتے ہوئے اپنی وفات کے بعد ورثاء میں تقسیم کرنے کے لئے اپنے ترکہ کی نشان دہی کی تھی۔ جو یقیناً ان کی رفعت شان کا آئینہ دار ہے ” کیون نہ ہو” کہ اللہ رب العزت جب اپنے بندے سے محبت کرتے ہیں تو فرشتوں کو بھی ان سے محبت کرنے کا حکم دیتے ہیں اور یہ سلسلہ زمین پر بسنے والے انسانوں تک پہنچتا ہے جیسے ارشاد نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم کے مصداق اشکبار آنکھوں کے ساتھ آہ بھرتے ہوئے آپ کی نماز جنازہ میں شرکت کرنے والے انسانوں کا جم غفیر آپ کے کردار کی عظمت اور نیک سیرتی کا غماز اور منہ بولتا ثبوت تھا بحرحال موت ایک ایسا راستہ ہے جس سے ہم سب کو گزرنا ہے البتہ                                      بارے  دنیا  میں  رہو  غمزہ  یا  شاد  رہو

                                         ایسا کچھ کرکے چلو یاں کے بہت  یاد  رہو

کے بموجب ایسی موت کے لئے دعا کرنا چاہیے جو بندگان خدا کی محبت کی خوشبو سے معطر ہو۔اللہ رب العزت قاری شبیر صاحب   مرحوم کو اپنی جوار رحمت سے نوازے اور ان کے پسماندگان کو اس ناقابل تلافی نقصان کو برداشت کرنے کا حوصلہ عطافرمائے۔آمین

Posted in تازہ ترین, مضامین
54809

کوپ 26 : عالمی ماحولیاتی تبدیلی کا چیلنج – قادرخان یوسف زئی کے قلم سے

  عالمی ماحولیاتی تبدیلی کا چیلنج  !
دنیا کے 191 ملکوں میں سے صرف آٹھ ممالک ہی پیرس ماحولیاتی معاہدے کے اہداف کو حاصل کرنے میں کوشاں
 قادرخان یوسف زئی کے قلم سے

 اقوام متحدہ کے زیر اہتمام اسکاٹ لینڈ کے شہر گلاسکو میں کوپ 26  ماحولیاتی کانفرنس، برطانیہ کی زیر صدارت 12 نومبر تک جاری ہے۔ گلاسکو سمٹ میں 120 سے زائد ممالک کے سربراہان مملکت، متعدد تنظیمیں اور ماحولیاتی ماہرین حصہ لے رہے ہیں۔پاکستان کی نمائندگی وفاقی وزیر موسمیاتی تبدیلی ملک امین اسلم نے کی۔ کانفرنس میں خصوصی طور پاکستان پویلین بنایا گیا تھا۔ جرمن چانسلر،متحدہ عرب امارت کے وزیر ماحولیاتی تبدیلی نے پویلین دیکھا جبکہ عالمی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک،اسلامی ترقیاتی بینک کے صدور سمیت ڈی جی ریلیف انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی نے پاکستانی پویلین کا دورہ کیا۔ڈی جی ریلیف انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی نے پاکستان کے ذمہ دارانہ نیوکلیئر ملک ہونے کا اعتراف کرتے ہوئے دورہ اورمدد کی بھی پیشکش کی۔ جب کہ کئی عالمی رہنما ؤں سے سائیڈ لائن ملاقات بھی ہوئی جس میں صدر بائیڈن اور چانسلر مرکل بھی شامل ہیں۔  سمٹ کو منتظمین کی جانب سے گوبل وارمنگ سے انسانیت کو بچانے کے حوالے سے انتہائی اہم قرار دیا جارہا ہے۔  خیال رہے کہ چینی صدر شی جن پنگ، روسی صدر ولادیمیر پوتن اور ترک صدر رجب طیب اردوان اس سمٹ میں شریک نہیں ہیں تاہم چین کے صدر کا تحریری پیغام پڑھ کر سنایا گیا۔چین کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان وینگ وینبن  کے مطابق  کانفرنس کے منتظمین کی جانب سے ویڈیو لنک فراہم نہیں کیا گیا تھا اور چینی صدر نے کرونا وبا کی صورت حال کے باعث شرکت نہیں، جب کہ ترک صدر سیکورٹی کی صورت حال پر عدم اطمینان کی وجہ سے شریک نہیں ہوئے۔امریکی جو بائیڈن نے روس اور چین کی عدم شرکت پر کہا کہ 120ممالک کی سربراہ کانفرنس میں شرکت نہ کرنا بڑی غلطی ہے۔


عالمی موسمیاتی تبدیلوں پر عملی اقدامات نہ اٹھانے پر تنقید
 سمٹ کے دوران ماحولیات سے وابستہ بعض تنظیموں نے احتجاج و مظاہرے بھی کئے کہ عالمی قوتوں کو اب زبانی کلام سے آگے بڑھتے ہوئے عملیت کی جانب قدم اٹھانا چاہے، بالخصوص امیر ممالک جن کی معیشت کا دارومدار ایسی صنعتوں پر ہے، جس کے باعث ماحول کا درجہ حرارت اضافے کا باعث بن رہا ہے۔ جرمنی کی چانسلر انگیلا میر کل کا کہنا تھا کہ ہم نے  2015 (پیرس معاہدے) میں رہنما خطوط کے طورپر کئی اہم فیصلے کیے تھے۔ ہمیں یہ بات زائد از ایک بار سننے کو ملی ہے کہ ہم ابھی تک وہاں نہیں پہنچے ہیں جہاں ہمیں ہونا چاہئے تھا۔”میرکل کا مزید کہنا تھا،”ہمیں پیرس معاہدے کو نافذ کرنا ہوگا اور ہم اسے نافذ کرسکتے ہیں۔ عالمی برادری کو ہم سے یہ امید ہے کہ ہم اس کانفرنس کے اختتام پر اپنے آپ کو اس سے زیادہ بہتر شکل میں پیش کریں گے جیسا کہ ہم نے خود کو آغاز میں پا یا تھا۔” 2015 کے پیرس معاہدے کے بعد بڑے پیمانے پر سمٹ کا انعقاد عملی اقدامات کے لئے سنجیدگی کا متقاضی ہے۔امریکہ پیرس عالمی ماحولیاتی معاہدے سے الگ  ہوگیا تھا تاہم نئے امریکی صدر جو بائیڈن اپنے سابق صدر ٹرمپ کا فیصلہ واپس لیتے ہوئے امریکہ کو پیرس معاہدہ کا دوبارہ حصہ بنا لیا۔ جنوری کو عہدہ سنبھالنے کے چند گھنٹوں کے اندر، صدر بائیڈن نے پیرس معاہدے میں دوبارہ شمولیت اختیار کی۔ اس کے فوراً بعد انہوں نے سب سے زیادہ گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج کرنے والے 17 سمیت، 40 عالمی رہنماؤں کا موسمیاتی سربراہی اجلاس بلایا اور 2030 تک اخراجوں میں 50-52 فیصد کمی کا اعلان کیا، جس کا مقصد 2050 تک نیٹ زیرو تک پہنچنے کی راہ پر ڈالنا  قرار دیا گیا۔ امریکہ کا کردار ماحولیات کے حوالے سے اہمیت کا حامل ہے کیونکہ معیشت کو مضبوط بنانے کے نتیجے میں انہیں علاقائی عدم استحکام کا بھی سامنا درپیش ہے۔ بیشتر امریکی ریاستوں میں آب و ہوا کی تبدیلی، خشک سالی، سیلاب، طوفانوں اور جنگلی حیات کو آگ سے نقصانات کا سامنا ہورہا ہے۔ امریکہ اس امر کا اقرار کرتا ہے کہ آب و ہوا کے بحران سے اکیلا نہیں نمٹا جاسکتا۔  عالمی حدت کو1.5ڈگری سنٹی گریڈ تک محدود رکھنے کے لئے اقوام عالم کو سنگین چینلجز کا سامنا ہے۔


گلاسکو کانفرنس کا مرکزی نکتہ
گلاسکو کانفرنس میں 2050 تک درجہ حرارت کی کمی اور زیرو پوائنٹ تک لانا اہم ایجنڈا کا حصہ بن چکا ہے جب کہ چین 2060 تک زیرو پوائنٹ پر لانے کا خواہش مند ہے۔عالمی ماحولیاتی سر براہی اجلاس میں درجہ حرارت کی کمی کے لئے اقدامات کے عہد بھی کئے جارہے ہیں، اسی ضمن میں 100سے زائد ممالک نے2030تک جنگلات کی تباہی کو روکنے کے عہد کا اعلان بھی کیا ہے، جواس منصوبے پر عمل درآمد کے لئے خطیر رقم کے فنڈ جمع کرنے پر اتفاق رائے ہوا ہے۔، خیال رہے کہ جنگلات کو تباہی سے روکنے کے منصوبے میں شامل 100 سے زائد ممالک میں شامل جرمنی اور یوپی یونین  دنیا کے 85  فیصد رقبے کی نمائندگی کرتے ہیں, یہ 34ملین مربع کلومیٹر کا رقبہ بنتا ہے۔امریکی صدر نے 2050 تک ملک کو کاربن فری بنانے کا وعدہ بھی کیا ہے، اس کے لئے ماحول دوست منصوبوں میں ہوا، شمسی توانائی، الیکڑوک گاریوں اور ماس ٹرانزٹ منصوبوں کی حوصلہ افزائی کا بھی عندیہ دیا ہے۔


عالمی ماحولیاتی کے بحران سے انسانی صحت حق خطرات
عالمی طبی جریدے ‘لانسیٹ‘ کی جانب سے جاری کردہ سالانہ رپورٹوں میں صحت کے 44 مسائل کو ماحولیاتی تبدیلیوں کا ذمے قرار دیا گیا ہے، گرمی کی شدت کی باعث اموات، معتدی وبائی امراض اور نقل مکانی کے باعث غذائی قلت کو شامل کیا گیا ہے۔ ’لانسیٹ کاؤنٹ ڈاون‘ پروجیکٹ کی ریسرچ ڈائریکٹر اور بائیو کیمسٹ مرینا رومانیلو نے دنیا کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہر بیماری سنگین ہو تی جارہی  ہے۔رپورٹ کی شریک مصنفہ اور یونیورسٹی آف واشنگٹن میں انوائرمنٹل ہیلتھ کی پروفیسر کرسٹی ایبی ماننا ہے کہ ان کے اسباب کی وجہ دنیا میں درجہ حرارت کا بتدریج بڑھنا ہے۔،”۔انسٹیٹیوٹ آف اکنامکس اینڈ پیس کی جانب سے ‘ایکولوجیکل تھریٹ رپورٹ’ میں دنیا کے 178ممالک  کے ماحولیاتی نظام کے حوالے سے جائزہ لیا گیا ہے تاکہ ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے کن کن ممالک کو کس قسم کے مضر اثرات کا سامنا ہوسکتا ہے۔خوراک  اور  پانی سے متعلق خطرات، آبادی میں اضافہ، درجہ حرارت میں تبدیلیاں، اور قدرتی آفات سے متعلق ڈیٹا کا مقامی اقتصادی صورتحال، حکومت، کاروباری ماحول اور انسانی حقوق کے ڈیٹا کے ساتھ موازنہ کر کے یہ رپورٹ مرتب کی گئی ہے۔ رپورٹ میں ان خدشات کا اظہار کیا گیا ہے کہ نقصانات کے ازالے کے لئے حکمت عملی وضع نہ کرنے سے تین خطے ایسے ہیں جہاں تنوع تنازعات جنم لے سکتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر انسانی ہجرت کے خدشات کا بھی اظہار کیا گیا ہے کہ ماحول سے پہنچنے والے نقصان کو قابو کرنے کی ضرورت ہے۔  انسٹیٹیوٹ آف اکنامکس اینڈ پیس کے یورپ اور مشرق وسطیٰ کے ڈائریکٹر سیرج اسٹروبانٹس  کے مطابق کہ اس رپورٹ میں ایسے 30 ممالک کی نشاندہی کی گئی ہے”جہاں کے ماحولیاتی نظاموں کو شدید خطرات لاحق ہیں اور وہاں مالی بدعنوانیاں، کمزور ادارے، کاروبار کرنے کا ناموافق ماحول اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم جیسے مسائل عام ہیں۔ان ممالک میں سب سے زیادہ خطرات سے دوچار ممالک میں ایران، موزمبیق، ماڈاگاسکر، پاکستان اور کینیا  ہیں۔ اس وقت تو یہ ممالک بظاہر مستحکم ہیں لیکن ان ممالک کے ماحولیتی نظاموں کو خطرہ ہے۔ یہاں امن و امان کی صورتحال بھی کمزور ہے جس کے باعث انہیں مستقبل میں شدید بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔”  


عالمی ماحولیاتی کے بحران سے دنیا کو پانی کی کمی کا سامنا
 ماحولیاتی تبدیلیوں میں سب سے سنگین مسئلے، پانی کی شدید قلت نے خطرناک صورت حال پیدا کردی ہے ، گلئیشیر کے پگھلنے کے عمل کے بعد موسمیاتی تبدیلیوں نے سب کچھ بدلنا شروع کیا ہوا ہے۔ دنیا کی ایک چوتھائی آبادی کو کم از کم پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے۔  پانی کے بحران کو ورلڈ اکنامک فورم کے عالمی خطرات کے لحاظ سے ’امپیکٹ لسٹ‘ میں  2012 کے بعد سے پہلے پانچ بڑے معاملات کی فہرست میں شامل کیا ہے۔  2017 کی شدید خشک سالی نے دوسری جنگ عظیم کے بعد کے دور کا بدترین انسانی بحران پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا، اس دوران افریقہ اور مشرق وسطیٰ کے دو کروڑ افراد خوراک کی کمی اور تنازعات کے باعث گھر چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔امریکی ریاست کیلیفورنیا کے شہر اوکلینڈ میں قائم پیسیفک انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ پیٹر گلیک نے گذشتہ تین دہائیوں میں پانی کی قلت، تنازع اور ہجرت کے درمیان تعلق کا مطالعہ کیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ پانی پر تنازعات بڑھ رہے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ ’بہت ہی کم استثنیٰ کے ساتھ، کوئی بھی پیاس سے نہیں مرتا، لیکن زیادہ تر لوگ آلودہ پانی یا پانی تک رسائی کے تنازعات میں مر رہے ہیں۔اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری انتونیو گوتریس نے خبردار کیا ہے کہ آگ لگا کر، کھدائیاں کر کے، سرنگیں بنا کر، زمین کو نقصان پہنچا کر انسان اپنی قبریں خود کھود رہے ہیں۔گلاسگو موسمیاتی کانفرنس سے خطاب میں انتونیو گوتریس نے ایہی مطالبہ کیا کہ کرہ ارض اور انسانیت کو بچانے کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے۔


ماحولیاتی بحران کو مالیاتی بحران کا سامنا
عالمی ماحولیاتی بحران کو حل کرنے کے لئے دراصل مالیاتی فنڈز کا مہیا نہ ہونا اہم سبب بنا ہوا ہے۔سمٹ میں زیادہ توجہ سے اس امر کی جانب مبذول کرائی گئی کہ امیر ممالک اور ایسے ادارے جنہوں نے اپنی ترقی کے لئے ماحولیاتی کو شدید نقصان پہنچایا ہے وہ اب فنڈز کی فراہمی کو ممکن بنائیں تاکہ ایسے ترقی پزیر ممالک جہاں اشیا ء صرف کی تیاری کے لئے کم معاوضے پر ایسی مصنوعات تیار کی جاتی ہیں جو امیر ممالک میں استعمال ہوتی ہیں لیکن اس کے مضر ذرات کی وجہ سے لاکھوں انسانوں کی زندگیوں کو نقصان کو کم کیا جاسکے۔ بتایا جارہا ہے کہ دنیا میں 191 ملکوں میں سے صرف آٹھ ممالک ہی پیرس ماحولیاتی معاہدے کے اہداف کو حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس کے تحت دنیا کے تمام ملکوں کے لیے عالمی درجہ حرارت میں اضافے کو دو ڈگری سیلسیئس سے نیچے رکھنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے اور  کوشش کی جا رہی ہیکہ گرین ہاوس گیسوں کے اخراج کو کم کرکے اسے 1.5 ڈگری سیلسیئس سے زیادہ نہ بڑھنے دیا جائے۔


عالمی ماحولیاتی بحران میں ترقی یافتہ ممالک اصل ذمے دار
دنیا کے ترقی یافتہ صنعتی ملکوں اور خاص طور سے امریکہ، یورپی یونین کے بڑے ممالک اور ابھرتی ہوئی معیشتوں کو کاربن ڈائی آکسائڈ گیس کے اخراج اور زمین کی حدت میں اضافہ کا اصل ذمہ دار ٹھہرایا جارہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حالیہ برسوں کے دوران موسمیاتی تبدیلیوں کے بارے میں ہونے والے چند اجلاسوں میں، ماحولیاتی ضابطوں کی پابندی اور گرین ہاوس گیسوں کے اخراج میں کمی کے مطالبات بھی زیادہ تر، اس صورتحال کے اہم ذمہ دار ملکوں سے کیے جاتے رہے ہیں، لیکن اب تک ان مطالبات کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا ہے اور اس بارے میں اب تک کوئی ٹھوس اور موثر قدم بھی نہیں اٹھایا گیا۔ خیال رہے کہ امریکی فوج تیل کی سب سے زیادہ کھپت کرنے والا ادارہ ہے۔ امریکی فوج کے زیراستعمال گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں بھی فضا کو آلودہ کرنے کا سبب بنتا ہے۔ دنیا میں استعمال ہونے والے تیل کی پوری کھپت کا 25 فیصد جنگی جہازوں میں استعمال ہو جاتا ہے۔آئی ایم ایف کی رپورٹ کے مطابق امریکا، ڈنمارک اور نیوزی لینڈ جیسے زیادہ آمدنی والے ممالک ترقی پذیر ممالک کے مقابلہ میں دوگنا کوڑا پیدا کرتے ہیں۔امیر ممالک کے باشندے ناصرف زیادہ مصنوعات استعمال کرتے ہیں اور ان کی ویسٹ دیگر کوڑے کرکٹ کے مقابلہ میں پیپر اور پلاسٹک کا فضلہ زیادہ ہوتا ہے۔رپورٹ کے مطابق امیر ممالک میں اوسط فی کس ویسٹ کی شرح زیادہ ہے تاہم ترقی پذیر ممالک دنیا بھر میں پیدا ہونیوالے کل کچرے کا آدھے سے زیادہ حصہ پیدا کرتے ہیں۔عالمی مالیاتی فنڈ نے بین الاقوامی برادری پر زور دیا ہے کہ کچرے کی شرح میں کمی کے لئے جامع حکمت عملی کے تحت مربوط اقدامات کرے تاکہ کرہ ارض سمیت آبی ذخائر اور ماحولیات کی آلودگی جیسے مسائل سے تحفظ فراہم کیا جاسکے۔


درجہ حرارت میں کمی لانے کے لئے فنڈز مہیا کرنے کے وعدے
امریکی صدر کی جانب سے آب و ہوا کی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے 555 ارب ڈالرز کا بل جمعرات کو کانگریس میں پیش کیا ہے۔ منظور ہونے کے بعد یہ امریکی تاریخ کا سب سے بڑا پیکچ ہوگا، جب کہ  صدر بائیڈن کے مجوزہ پیکج میں 100 ارب ڈالرز جنگلات میں لگنے والی آگ، سمندری طوفانوں اور خشک سالی سے نمٹنے پر خرچ کیے جا نے کا عندیہ دیا گیا ہے۔  مریکہ ترقی پذیر ممالک کو آب و ہوا کی تبدیلی کے خطرات سے بچانے کے لیے ایک منصوبہ لانے کا ارادہ رکھتا ہے جس کے ذریعے 2024 تک امریکہ سالانہ تین ارب ڈالر کی امداد دے گا۔ یہ امداد ماضی کی امداد سے دو گنا ہو گی اور امریکی حکام پراُمید ہیں کہ اس امداد میں اضافے سے ترقی پذیر ممالک کے سالانہ 100 ارب ڈالرز کے ہدف تک پہنچا جا سکے گا۔بینک آف امریکہ کے سی ای او برائن موئنہان نے کہا کہ ان کا بینک موسمیاتی فنانسنگ میں سالانہ 100 بلین ڈالر جمع کرے گا۔ 114 رہنماؤں نے جنگلات کو بچانے کے لئے ایک نئے منصوبے کی توثیق کی جس کی حمایت میں 12 بلین عوامی اور 7.2 بلین پرائیویٹ فنڈنگ ہے۔ 30 سے زائد مالیاتی اداروں کے CEOs نے جنگلات کی کٹائی سے منسلک سرگرمیوں میں سرمایہ کاری کو ختم کرنے کا عہد کیا۔بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن’ دنیا بھر کے چھوٹے کاشت کاروں کو فصلوں کی پیداوار بڑھانے میں مدد کے منصوبے کے لیے 31 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کا عطیہ فراہم کرے گی، بل گیٹس کا کہنا ہے کہ 31 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کے عطیے کے علاوہ اگر ایک ارب ڈالر اضافی میسر آجائیں تو اس کاوش کو مزید بہتر انداز سے پورا کرنے میں مدد ملے گی۔
توقع کی جا رہی ہے کہ  12 نومبر تک عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں فنڈنگ کے مسائل پر سیر حاصل پیش رفت ممکن ہوسکتی ہے، تاہم یہ ابھی تک وعدے وعید تک ہی مبنی ہیں، جب تک دنیا کے ترقی یافتہ صنعتی ملکوں میں ایسے منصوبوں کو کم اور ختم نہ کیا جاتا جن کی وجہ سے دنیا کا درجہ حرارت بڑھتا جارہا ہے، اس وقت تک توقع نہیں کی جاسکتی کہ دنیا کی بڑی آبادی کو عظیم تباہی سے بچایا جاسکے۔ عالمی ماحولیاتی بحران کو کم کرنے کے لئے دنیا کے ترقی یافتہ صنعتی ملکوں کو ترقی پذیر ممالک میں زیادہ کام کرنے کی ضرورت پیش آئے گی کیونکہ ان کے لئے ترقی پذیر اور غریب ممالک ایسی اشیا ء کے بنانے میں مصروف ہیں جو صرف ان ممالک کو ہی نہیں بلکہ ترقی یافتہ ممالک کو بھی مستقبل میں ماحولیاتی مسائل سے دوچار کررہا ہے۔ جہاں جنگوں نے کرہ ارض کی آب و ہوا کو تبدیل کیا وہاں جدید سہولیات کے حصول نے خود انسانوں کے لئے خوف ناک مسائل پیدا کردیئے ہیں جسے عملی طور پر اقدامات سے ہی نمٹا جاسکتا ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
54748

چترال یونیورسٹی میں مخلوط پروگرام چندمتفرق خیالات -قلم کی آواز: عبدالحی چترالی

آج کل سوشل میڈیا پر چترال یونیورسٹی میں منعقدہ کلچر فیسٹیول کے نام پر حیا ء باختہ مخلوط موسیقی پروگرام پر ہر طرف سے نقد وجرح کا سلسلہ جاری ہے جو کہ ظاہر ہے کہ ہر مسلمان کی حمیت ملی اور غیرت ایمانی کا تقاضہ ہے۔ہمیں حیرت ہے کہ عوام کی طرف سے اس قسم کا رد عمل دیکھ کر دیسی لبرل اور لونڈے کے دانشوروں کی ہنڈیا میں ابال آنا کیوں شروع ہو جاتاہے۔ان کی بھانت بھانت کی بولیوں سے ان کے جہل کے اظہار کے سوا ہوتا ہی کیا ہے۔ یہ”عقل و خرد کے پیکر“ کہتے ہیں کہ مذکورہ پروگرام امن باہم کو ترویج دینے کیا گیا۔۔۔۔کوئی چلایا کہ میوزیکل پروگرام سے رواداری کو فروغ ملے گا۔۔۔۔ کوئی سو کنوں والے انداز میں ہاتھ لہرا لہرا کر کہنے لگاکہ یونیورسٹی ایک خودمختار ادارہ ہے تمہیں اس پر تنقید کرنے کا مزا قانونی چارہ جوئی سے چکھایا جائے گا،ایک نے سارے حدود پار کرکے اس کو شرعی جواز فراہم کرنے کی ناکام کوشش بھی کی۔ غرض جتنے منہ اتنی باتیں۔


اس پروگرام پر تنقید کرنے والوں کے نام لیتے ہوئے تلملاہٹ ایسی کہ جیسے ناقدین نے ان کی دم پر پاوں رکھ دیا ہو۔ حالانکہ ناقدین کی طرف سے تنقید بھی درست ہے اور یونیورسٹی انتظامیہ سے وضاحت طلب کرنا بھی بجا طو ر پر سہی ہے کہ امن اور رواداری کے نام پر اس طرح کا مخلوط ڈانس پروگرام رب کریم کا ناپسندیدہ ہے، پیغمبر امن ﷺ کا ناپسندیدہ ہے جو چیز اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو ناپسندیدہ ہو وہ کسی مسلمان شخص،گروہ یا اسلامی ریاست کے تعلیمی ادارے کے لئے فائدہ مند کیسے ہو سکتی ہے؟


ہمارے نزدیک چترال یونیورسٹی کی محفل موسیقی میں دو باتیں قابل گرفت ہیں:
ایک یہ کہ انتظامیہ نے اس محفل کا انتظام کیا جس کی مثال دیگر جامعات میں نہیں ملتی۔
دوسری بات یہ کہ خطے کی مذہبی روایات کو بالائے طاق رکھ کر اس محفل میں طلبہ کے ساتھ طالبات کو بھی شریک کیاگیا ہے۔ مردوزن کی مشترکہ محفلیں سینماہاوس اور میوزک کنسرٹس میں شاید قابل برداشت ہو ں لیکن ایک تعلیمی ادارے میں اس قسم کے مخلوط پروگرام اور وہ بھی ناچ گانے کی محفل تو کسی صورت قابل قبول نہیں۔
ایک مؤقر تعلیمی ادارے میں اس طرح کا بے ہودہ پروگرام منعقد کروانا از خود ادارے کی ساکھ کو مجروح کرنے کے ساتھ ساتھ عوام کو اپنے بچوں اور بچیوں کے مستقبل کے حوالے سے فکر مند کرنا بھی ہے۔
ہماری نظر میں یہ بھی ایک خوش آئندہ امر ہے کہ بروقت یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے وضاحت کرنے کے ساتھ ساتھ آئندہ احتیاط برتنے کا عہد کیا گیا ہے۔
موسیقی کا پروگرام بھی ایک ناجائز تفریح ہے جہاں شریعت نے تفریح کے احکام بتائے ہیں اور تفریح کی حدود کو بیان کیاہے وہاں تین باتیں بنیادی طورپر یاد دلائی ہیں: ایک یہ کہ جب بھی تفریح کی جائے وہ اس نوعیت کی ہو کہ اس مقاصد حیات فراموش نہ ہوں۔ دوسری بات شریعت نے تفریح کے حوالے سے یہ بتائی ہے کہ تفریح ایسی ہو جس سے حیا کے تقاضے مجروح نہ ہوں۔ تیسری بات یہ کہ تفریحی پروگرام ایسے ہو کہ جس میں تبذیر اور اسراف سے اجتنا ب کیا جائے۔مذکورہ بالا تین اصولوں کوسامنے رکھ کر دیکھا جائے تو یہ مخلوط پروگرام ان تینوں امور سے خالی اور عاری تھا لہذا ہم امید کرتے ہیں کہ آئندہ یونیورسٹی انتظامیہ اس طرح کے حیاباختہ محافل سے اجتناب کرنے کے ساتھ ساتھ اعلیٰ انسانی اقدار کو فروغ دینے میں گوشان رہے گا۔۔


اسلام نے استاد کو بے حد عزت واحترام عطا کیا۔اللہ رب العزت نے قرآن میں نبی اکرام ﷺ کی شان بحیثیت معلم بیان کی ہے۔ خود رسالت ماب ﷺ نے انما بعث معلما(مجھے معلم بناکر بھیجا گیا ہے) فرماکر اساتذہ کو رہتی دنیا تک عزت و توقیر کے اعلی منصب پر فائز کردیا ہے۔ اسلام میں استاد کا مقام ومرتبہ بہت ہی اعلی وارفع ہے۔ استاد کو معلم ومربی ہونے کی وجہ سے اسلام نے روحانی باپ کا درجہ عطا کیا ہے۔آپ ﷺ نے فرمایا انما انا لکم بمنزلہ الوالداعلمکم(میں تمہارے لئے بمنزلہ والد ہوں،تمہیں تعلیم دیتا ہوں)۔امیر المومنین حضرت عمرؓ سے پوچھا گیا کہ اتنی بڑی اسلامی مملکت کے خلفیہ ہونے کے باوجود آپؓ کے دل میں کوئی حسرت باقی ہے۔آپ ؓ نے فرمایا کاش میں ایک معلم ہوتا۔ استاد کی ذات بنی نوع انسان کے لئے بیشک عظیم اور محسن ہے۔باب العلم خلیفہ چہار م حضرت علی ؓ کا قول استاد کی عظمت کو یوں بیان کرتے ہیں۔ جس نے مجھے ایک حرف بھی بتایا میں اس کا غلا م ہوں۔ وہ چاہے تو مجھے بیجے،آزاد کرے یا غلام بنائے رکھے۔شاعر مشرق مفکر اسلام علامہ اقبال معلم کی عظمت کی غمازی کرتا ہے:”استاد دراصل قوم کے محافظ ہیں۔کیونکہ آئندہ نسلوں کو سنوارنا اور ان کو ملک کی خدمت کے قابل بنانا انہیں کے سپرد ہے۔سب محنتوں سے اعلی درجے کی محنت اور کارگزاریوں میں سب سے زیادہ بیش قیمت کارگزاری ملک کے معلموں کی کارگزار ی ہے۔معلم کا فرض سب فرائض سے زیادہ مشکل اور اہم ہے کیونکہ تمام قسم کی اخلاقی،تمدنی اور مذہبی نیکیوں کی کلید اس کے ہاتھ میں ہے۔اور ہر قسم کی کی ترقی کا سرچشمہ اس کی محنت ہے“۔

استاد طلبا ء کو نہ صرف مختلف علوم وفنون کا علم دیتا ہے بلکہ اپنی ذاتی کردار کے ذریعے ان کی تربیت کاکام بھی انجام دیتا ہے۔استاد ہر پل اپنی رفتار،گفتار،کردار غرض ہر بات میں معلم ہوتا ہے، طلباء صرف نصاب ہی نہیں پڑھتے ہیں بلکہ وہ استاد کی ذات وشخصیت کا بھی مطالعہ کرتے ہیں۔


لہذا کارپیغمبری سے وابستہ ہونے کی وجہ سے اور قوم وملت کے ذمہ دار منصب پر فائز ہونے کی بناء پر سوسائٹی کا ہر فرد استاد کو عزت و احترام کی نگا ہ سے دیکھتا ہے۔ اوراس سے ایسے کردار کا تقاضہ کرتا ہے جس سے سوسائٹی کے تعلیم یافتہ اور شائستہ افراد کی امیدوں کو ٹھیس نہ پہنچے۔یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ استاد کا احترام اس وقت طلبہ کے دلوں میں زیادہ ہوگا جب استاد اس منصب کے تقاضوں پر پورا اترے گا۔طلباء کی اخلاقی تربیت اور اعلی انسانی اقدار کی طرف ان کی رہنمائی کرے گا۔آخر میں عوام الناس سے گزارش ہے کہ اساتذہ کرام معماران قوم ہیں۔ ان کا ادب و احترام ہمارا اخلاقی و دینی فریضہ ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامین
54744

چترال انفارمیشن اینڈ ہیلپنگ گروپ – شمس الرحمن تاجک

دو مہینے پہلے جدید دور کے ایک قدیم ”فقیر“ سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ حالانکہ ہمیں فقیر لوگ بالکل نہیں پسند۔مگر جس معاشرے کا ہم حصہ ہیں اس میں مستند بات بازاروں میں گھومنے والے اور کوڑا کرکٹ کے ڈھیر کے پاس انہی کا حصہ دکھائی دینے والے مجذوب افراد کو سب سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ اصل میں وہ پہنچے ہوئے لوگ ہیں۔اس لئے ان سے ڈرنا چاہئے اور میں واقعتا ایسے لوگوں سے ڈرتا ہوں۔ انسانی ہمدردی کے بجائے ایسے لوگوں سے رشتہ صرف خوف کی وجہ سے رکھنے کا عادی ہوں مبادا وہ کوئی بددعا نہ دیں اور ہماری پوری زندگی برباد نہ ہوجائے۔مگر ہم جس فقیر سے ملنے گئے تھے وہ کسی ڈر اور خوف کے بجائے مقابلے اور برابری کی بنیاد پر گئے تھے۔ چیلنج تھا کہ آپ ہوں گے بہت ہی قدیم صحافی۔ ہم نے بھی بال دھوپ میں سفید نہیں کئے۔
 ملاقات کا سبب پوچھا ان کا کہنا تھا کہ وہ”فقراء“کا ایک باقاعدہ گینگ تشکیل دے چکے ہیں۔ گینگ میں شمولیت کی دعوت دینی تھی اس لئے بلائے گئے تھے ہم۔ جب ہم نے کوئی خاص دلچسپی نہیں لی تو ہمیں گینگ کے فقراء کی تفصیلات فراہم کی گئیں۔

chitral helping group

قدیم فقیر کی طرح گینگ اپنے اپنے شعبے میں یدطولی رکھنے والے افراد پر مشتمل تھا ہمیں یقین نہیں آیا کہ چترال میں ایسا بھی کوئی گروپ، فورم اور فلاحی ادارہ ہوسکتا ہے جس میں زندگی کے تمام شعبوں، ہر مکتبہ فکر اور تمام سیاسی نظریوں کے لوگ صرف فلاح انسانیت کے لئے شامل ہوچکے ہیں۔ جو لینے کے بجائے دینے کے تصور اور جذبے دونوں سے مالامال ہیں۔گروپ کے تمام مخیر حضرات اور ممبران اس ایک نکتے پر اتفاق کرچکے ہیں کہ انسانیت کی خدمت کرتے ہوئے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کے بجائے ایک دوسرے کی مدد کریں گے۔کسی بھی نیک کام میں حصہ داری کو کسی پر احسان کے بجائے اپنی خوش قسمتی سمجھیں گے۔ اپنی بساط سے باہر ہو کر اگر کسی کی مدد کرنی ہو تو غریب اور مستحق کے لئے کسی بھی مخیر شخص کے سامنے جھولی پھیلانے سے گریز نہیں کریں گے۔  نیک کام کے لئے ایک پلیٹ فارم مہیا کیا گیا ہے۔ پلیٹ فارم صرف ایک بنیادی اصول”فلاح انسانیت سب سے پہلے“ کی بنیاد پر چلایا جارہا ہے۔ اس نیک گینگ کو چترال انفارمیشن اینڈ ہیلپ گروپ کا نام دیا گیا ہے۔جو کہ اب تک ہزاروں مستحقین کی ان کی ضروریات کے حساب سے مدد کرچکا ہے اور سلسلہ جاری ہے۔


 اس گروپ کے ممبران دنیا بھر میں خاص طور پر پاکستان کے تمام شہروں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ یہ ناردرن ایریا اوچترال کے ان لوگوں کی مدد کرتے ہیں جو واقعی میں مجبور و بے بس ہیں۔ مدد کرنے کا ان کا طریقہ کار بھی رائج الوقت تمام طریقوں سے بہترین ہم نے پایا ہے۔ گروپ کے واٹس ایپ گروپ میں کسی بھی ممبر کی جانب سے ایک مسیج کا آنا ہوتا ہے کہ چترال کے کسی گاؤں میں یا ملک کے کسی بھی شہر میں ایک مستحق شخص موجود ہے۔ مستحق شخص کے بارے میں تفصیلات فراہم کئے جاتے ہیں۔ اس گاؤں یا شہر کے قریب ترین موجود گروپ کے ممبران کو ذمہ داریاں دی جاتی ہیں کہ ہم ان کی کیا اور کتنی مدد کرسکتے ہیں۔تفصیلات بھی گھنٹوں میں حاصل کی جاتی ہیں عام طور پرکیس گروپ تک لانے والا ممبر تمام تفصیلات پہلے حاصل کرچکا ہوتا ہے۔ کام کاآغاز ہوتا ہے۔ مخیر حضرات چونکہ اس کا گروپ پہلے سے ہی حصہ ہیں اس لئے اکثر و بیشتر کوئی ڈونر ڈھونڈھنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ اگر ضرورت پڑے تو دنوں کاکام گھنٹوں میں کرنے کا فن گروپ کے سرکردہ شخصیات اچھی طرح سے جانتے ہیں۔ گروپ میں تمام تر لوگ رضاکارنہ طور پر شامل ہیں،کام بھی رضاکارانہ طور پر ہی کرتے ہیں۔

chitraltimes chitral information and helping group dhq visit2


سب سے اچھی بات یہی ہے کہ اس گروپ کے ممبران جس کسی کی مدد کرتے ہیں ان میں سے اکثر کو پتہ نہیں ہوتا کہ ان کی مدد کر کون رہا ہے۔ سالوں سے کئی خاندانوں کو راشن فراہم کرنے والے گروپ کے مخیر حضرات یہ تک بتانے کو تیار نہیں کہ ہم نے کچھ کیا ہے جوکہ بنیادی اسلامی تعلیمات کے عین مطابق اور واقعی میں فلاح کا کام ہے۔ ورنہ اس زمانے میں سو روپے کی امداد دیتے ہوئے ہزاروں تصویریں روز سوشل میڈیا پر گردش کررہی ہوتی ہیں۔ چترال انفارمیشن اینڈ ہیلپ گروپ کے ممبران نے کم از کم لوگوں کی عزت نفس سے کھیلنے کے بجائے امداد کا ایک بہترین طریقہ شروع کیا ہے۔یہ سلسلہ رکنا نہیں چاہئے بلکہ جس کسی سے ہوسکے اور جتنا ہوسکے چترال انفارمیشن اینڈ ہیلپ گروپ کے ہاتھ مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔


گروپ کی دوسری اچھی بات جس پر کوئی بھی یقین کرنے کو تیار نہیں ہوگا۔ مساوات و برابری کا رویہ ہے۔ چترال کے تقریبا تمام بڑے نام چاہے وہ سیاسی ہوں، مذہبی ہوں،صحافی ہوں یا پھر انتظامی افسران۔ کسی کے لئے کوئی الگ اسٹیٹس موجود نہیں۔ واقعی میں سب برابر ہیں۔ جو قوانین وضح کئے گئے ہیں اس کے حساب سے گروپ میں ذاتی تشہیر یا نظریے کی تشہیر کی اجازت نہیں دی جاتی۔ نہ ہی آپ گروپ یا گروپ سے باہر کسی بھی شخصیت یا ادارے کی دل آزاری یا تضحیک کا رویہ اپنا سکتے ہیں۔ گرجتے برستے لوگ اس فورم کی بدولت آپس میں نرمی اور دوستی کا رشتہ اپنا چکے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم چترال انفارمیشن اینڈ ہیلپ گروپ کے کام کرنیکے انداز اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا رویہ پورے معاشرے کو سکھاسکیں تاکہ چترال واقعی میں امن کا، دوستی کا اور تہذیب یافتہ ہونے کااعزاز حاصل کرسکے۔

chitral information and helping group meeting
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
54720

آزادکشمیر کے آفت زدہ متاثرین کی حالت زار -پروفیسر عبدالشکورشاہ

مالک کے آگے اور گھوڑے کے پیچھے سے گزرنے میں انسان بہت کم فائدے میں رہتا ہے۔ مالک کام  اور گھوڑا لات لگائے بغیر نہیں رہتا۔ہمارے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔ ہم جیت کر بھی ہار گئے ہیں۔ ہم نہ تو جیتنے والے کے پاس جاسکتے اور نہ ہی ہارنے والے کے پاس۔ جیتنے والا کہتا میری حکومت نہیں میں کیا کروں؟ہارنے والا کہتا میں جیتا ہی نہیں میں کیا کروں؟ دراصل دونوں جیتے ہوئے ہیں ہاری صرف عوام ہے۔ نیچے والا حلقہ شاہ جی بیچ کر اوپر سے جیت گئے اور اوپر والا حلقہ میاں جی بیچ کر نیچے سے جیت گئے۔ سیاسی احترام بھی نرالا ہے جہاں بزرگوں کی تکریم کے بجائے بزرگوں کو ہرانے کے لیے شیر اور تیر اکھٹے ہو جاتے ہیں۔دونوں سے کوئی امید بھی نہیں لگائی جا سکتی کیوں کے دونوں انسانوں کوجان سے مارنے کے لیے مشہور ہیں۔شاہ جی نے ایسی سیاست متعارف کروائی ہے جس کی نظیر نہیں ملتی۔

ہر قوم و قبیلے سے رشتہ داری اور خاندانی وابستگی کی ڈرامہ بازی، ہر فرد کا نمبر محفوظ کرنے کی شعبدہ بازی،ہر جعلی سکیم میں حصہ، ہر بھرتی پر جیب گرم، ہر دوسرے فردسے کاروباری شراکت داری،ہر سڑک میں جعل سازی، ہر پل میں بے ضابطگی، اقربا پروری، رشوت خوانی، جعلی سازی اور میرٹ کا استحصال قابل ذکر ہیں۔جڑی بوٹی کی سمگلنگ، جنگلات کا قتل عام،ٹھیکہ سسٹم کی بھر مار اورواچروں کی یلغار بھی لاثانی رہی۔جہاں سابقہ سپیکر نے ووٹ لینے کا ریکارڈ قائم کیا وہاں پر تاریخی مینڈیٹ کے باوجود ایک حلقے سے راہ فرار اختیار کرنے کا ریکارڈ بھی انہی کے سر سجتا ہے۔ اپنے دور میں محکموں کوآپس میں لڑوایا، تعلیم یافتہ نوجوانوں کو ٹرخایا، ووٹروں کوبلایا اور اسمبلی گیٹ پر پٹوایا،سیاسی حریفوں کو تھانوں میں بلوایا، اپنے بنیادی حقوق کے لیے احتجاج کرنے والوں پر لاٹھی چارج کروایا اورآفات سماوی کا پیسہ جی بھر کرکھایا۔ عوام بھارتی گولہ باری سے مرتی رہی اور ایک بنکر تک نہ بنوایا۔ سارا پیسہ کہاں گیا؟اس کا جواب کون دے گا؟نیلم میں آفات سماوی کا پیسہ کون کھا گیا؟

احساس پروگرام کی رقم سرکاری ملازمین ہڑپ کر گئے اس کی نہ تو ریکوری ہوئی نہ کچھ خبر، فائرنگ سے شہید اور زخمی ہونے والوں کا معاوضہ کس نے ہڑپ کیا؟ لیسوا، بکوالی، سالخلہ اور دیگر آفت زدہ علاقوں کی امداد کدھرگئی؟ اس کا جواب تو یقینا مقتدرہ ہی دے سکتے ہیں۔ اپنے بچے عوام کے ٹیکسوں سے بنے محلات میں رکھے ہوئے اور ووٹروں کے بچے اس یخ بستہ سردی میں چھت کے بغیر رہ رہے،اس کا ذمہ دار کون ہے؟ شاہ جی اور میاں جی نے نہ صرف پوری منصوبہ بندی سے پی ٹی آئی کو ہرایا بلکہ اپنا پنج سالہ بھی بھر پور انداز سے لگایا ہے۔ دونوں عوام کو یہ کہتے کہتے پانچھ سال پیسے بنائیں گے کہ وہ حکومت میں نہیں ہیں حالانکہ ایم ایل اے فنڈ سے بہت سارے کام کروائے جا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ دونوں متذکرین کون سے غریب غرباء میں سے ہیں اگر انہیں واقعی نیلم کی فکر ہوتو اپنے ذاتی اکاونٹ سے کسی بھی وزیر سے زیادہ کام کروا سکتے ہیں۔

محترم میاں صاحب تو موروثی سیاست کی بدترین مثال ہیں اور شاہ جی کی پارٹی بھی موروثیت کے گرد گھومتی ہے۔ جب پارٹی ہی موروثیت پر چلے پھر کسی تبدیلی کی امید عبس ہے۔ اب تو لفظ تبدیلی سن کر بھی ڈر لگتا ہے کیونکہ تبدیلی کے نام پر جتنی تباہی مہنگائی خان لا چکا ہے اس کے بعد شاید لوگ اپنے بچوں کا نام عمران خا ن رکھتے ہوئے بھی ڈرجائیں۔ لیسوا، بکوالی، سالخلہ اور دیگر آفت زدہ علاقوں کے متاثرین کے سردی سے ٹھٹھرتے، بھوکے سے بلکتے، پاس سے تڑپتے بچے، خالی پیٹ سونے والی مائیں، بازار سے خالی ہاتھ واپس آتاسفید داڑھی والا ضعیف، کمزور، لاغر اور جھکی ہوئی کمر والا غمزدہ، بے بس، بے سہارا اور ناامید باپ بچوں کے ساتھ آنکھیں نہیں ملاپاتا۔ پھٹا ہو ٹینٹ جسے ٹھنڈی ہوا کے جھونکے دن میں کئی بار اکھاڑ دیتے ہیں، وہ گھرانے جو بھوک، پیاس اور سردی کی وجہ سے سو نہیں پاتے۔ عوام کے ٹیکسوں کے محلات میں سونے والے ایم ایل ایز کیا جانیں ان غریب، بے بس، بے سہارا، بے گھر اور بے سروسامان افراد کورات کو بھو ک نہیں سونے دیتی اگر آنکھ لگ ہی جائے تو یخ بستہ سرد ہوا کی سائیں سائیں کی آواز انہیں جاگنے پر مجبور کر دیتی ہے۔بارش کا ہر قطرہ انہیں طوفاں دکھائی دیتا، برف کا ہر گال انہیں گلیشئر کا پہاڑ دکھائی دیتا، بجلی کی گرج ان کے وسان خطا کر دیتی کیونکہ یہ بے سروسامان، کھلے آسمان کے نیچے پھٹے ہوئے خیمے لگائے افراد کی ستم ظریفی اور بدحالی کی داستان بارش، برف اور بجلی کی کڑک سے جڑی ہوئی ہے۔

ہم صدر، وزیر اعظم، سپیکر اور وزراء پر غریبوں کے ٹیکسوں سے اربوں خرچ کر تے مگر غریب، محتاج بے گھر اور بے سہارا افرادجن کے ووٹوں اور ٹیکسوں سے ان وزیروں مشیروں کے خاندان عیش و عشرت کی زندگی گزارتے ان کے لیے دو وقت کی روٹی اور سر چھپانے کو چھت بھی مہیا کرنے کی توفیق نہیں ہوتی۔ اگر ہم صدر، وزیر اعظم اور سپیکر کے اخراجات کا تیسرا حصہ بھی مختص کرتے تو یہ سب خاندان اس وقت دوبارہ آباد ہو چکے ہوتے۔ آفات سماوی سے بڑھ کر بڑی آفت یہ سیاسی لوگ ہیں جن کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ یہ اللہ کی طرف سے انسانوں کی شکل میں ہم پر عذاب اور سزاء کے طور پر نازل کیے گئے ہیں۔حاجی، مفتی، میاں اور شاہ جی اپنے بچوں کوبکوالی، لیسوا، سالخلا اور دیگر متاثرہ علاقوں کے متاثرین خاندانوں کے ساتھ رکھیں تو ان کو پتہ چلے غریب کس حال میں رہتا ہے۔ یہ ووٹ کے لیے ہمارے بچوں کو گود میں اٹھا لیتے، ان کے ساتھ سیلفیاں بناتے، ان کو پیار کرتے حتی کے غریب کے بچے کی بہتی ناک بھی مسکرا کر صاف کرتے مگر جیتنے کے بعد یہ بچے ان کی راہ دیکھتے دیکھتے تھک جاتے۔

محلات میں رہنے والے کبھی غریب یا اس کے مسائل کو نہیں سمجھ سکتے۔ سابقہ اور موجودہ ایم ایل ایز اپنے خاندان کو ان متاثرین کے خیموں میں منتقل کرتے شرماتے اور ہچکچاتے ہیں تو ووٹ مانگتے شرم کیوں نہیں آتی؟ ستم ظریفی دیکھیں سابقہ اور موجودہ ایم ایل ایز اگر چاہیں تو ان تمام متاثرین کو اپنے بنگلوں میں رہائش فراہم کر سکتے ہیں۔ ان کے محلات ان کے پیٹوں اور حرص کی طرح بہت وسیع ہیں جو بھرنے کا نام نہیں لیتے۔ اس میں کیا قباحت ہے کل متاثرہ خاندانوں کو سابقہ اور موجودہ ایم ایل ایز اور ٹکٹ ہولڈر رہائش فراہم کریں مگر ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور۔ تسبیح پکڑ کر الیکشن مہم چلانے والوں کویہ خیمہ زن نظر نہیں آتے؟ جیتنے پر سجدے میں گرنے کا ناٹک کرنے والواں کو بھوک افلاس سے بلکتے اور سردی سے ٹھٹھرتے بچے نظر نہیں آتے؟جیتنے کے لیے مزاروں پر چادریں چڑھانے، آتش بازی کرنے، محفل رقص و سرور سجانے، مٹھائیاں تقسیم کرنے والوں کو ان متاثرین کی ننگے سر مائیں بیٹیاں اور بھوکے ننگے بچے نظر نہیں آتے؟ یہ بے حس، بے مروت،بے شرم اور بے ضمیر لوگوں کو کب احساس ندامت ہو گا؟ اللہ نے ان متاثرین سے ز مین بھی چھین لی ورنہ ان مصائب کا سامنا کرنے کے بجائے یہ شائد زمین میں ہی گھڑ جاتے۔

موجودہ دونوں ایم ایل ایز کواگر اب بھی نیلم کے ان بے بس متاثرین کا احساس نہیں ہوتا تو پھر کبھی نہیں ہو گا۔ نیلم میں فاتحہ خوانی کی سیاست کافی مقبول ہے۔ شائد شاہ جی اور میاں جی ان متاثرین کو اس لیے نہ معاوضہ دلوا رہے نہ ان کے لیے مناسب رہائش اور جگہ کا انتظام کر رہے کیونکہ اگر یہ زندہ رہ گئے تو الیکشن سے پہلے کسی کی فاتحہ خوانی کے بہانے الیکشن کمپین کیسے چلائیں گے؟حاجی، میاں، مفتی اور شاہ جی یہ بات آپ بخوبی جانتے ہیں اقتدار کے دن بہت جلد گزر جاتے۔ اس عوام نے آپ کو عزت دی، رفعتیں دیں، اعتماد کیا، ووٹ دیا اور اسمبلیوں تک اس لیے نہیں پہنچایا ہے کہ غریب، مفلس، نادار اور بے سہارا افراد اس یخ بستہ سردی میں بھوکے پیٹ، ننگے بدن آپ کی راہ تکتے تکتے اپنی بینائی اورگوئیائی سے بھی محروم ہوجائیں۔متاثرین کی آہ اور بدعا سے بچیں،تاریخ گواہ ہے شہنشاہ، شہزادے اور شہزادیاں روکھی روٹی کھاتے اور فٹ پاتھوں پر سوتے دیکھے گئے ہیں۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
54699

داد بیداد ۔ خوراک کی کمی کا خد شہ ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

دو خبریں ایک ساتھ آئی ہیں پہلی خبر یہ ہے کہ عالمی ادارہ خوراک (WFP)نے افغا نستا ن میں خوراک کی کمی سے پیدا ہو نے والے قحط کی پیشگوئی کی ہے دوسری خبر یہ ہے کہ ٹریڈنگ کار پوریشن آف پا کستان نے صو بہ خیبر پختونخوا کو گندم کی فرا ہمی سے معذرت کر تے ہوئے 11ارب 94کروڑ روپے کے سابقہ بقا یا جا ت کی فوری ادائیگی کا مطا لبہ کیا ہے گویا ڈیورنڈ لائن کے ”دونوں طرف آگ ہے برابر لگی ہوئی“ اور یہ کوئی دوسری آگ نہیں پیٹ کے جہنم کی آگ ہے اقوام متحدہ نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں اس خد شے کا اظہار کیا ہے کہ اگلے سال کی دوسری ششما ہی تک افغا نستا ن کی 55فیصد آبادی یعنی 2کروڑ 30لا کھ افراد کو شدید قحط کی صورت حال کا سامنا ہو گا.

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غذائی اجنا س کی قلت کے ساتھ ساتھ غر بت اور بے روز گاری کی شرح میں بھی مسلسل اضا فہ ہو رہا ہے گزشتہ ڈھا ئی مہینوں کی غیر یقینی صورت حال کے پیش نظر افغا نستان میں 30لا کھ ہنر مند مزدور اور کاریگر بے روز گار ی سے دو چار ہوئے ہیں یہ آنے والے سال کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے عالمی نشر یا تی ادارہ بی بی سی نے اپنے حا لیہ پروگرام میں عالمی ادارہ خوراک (WFP) کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ڈیوڈ بیسلے (David Beasley) کا بیان نشر کیا ہے بیان میں عالمی ادارہ خوراک کے سر براہ نے امریکہ، یو رپ اور دیگر خوشحال یا متمول اقوام سے انسا نیت کے نا م پر درد مندانہ اپیل کی ہے کہ افغا نستان میں قحط کا شکار ہونے والے بچوں اور بچیوں کو اپنے بچوں اور بچیوں کی نظر سے دیکھو اور دل کھول کر اس مد میں امداد فراہم کرو تا کہ 60کروڑ 80لا کھ ڈالر کی مطلو بہ رقم مہیا ہو سکے.

نیوز ڈیسک کی رپورٹ یہ ہے کہ افغا نستا ن4کروڑ کی ابادی کا زرخیز ملک ہے اس ملک کی زمین 1978تک سونا اگلتی تھی گندم، جوار، چاول، جو اور دالوں کی زبردست فصلیں ہوتی تھیں یہ ملک انگور، انار، بادام، تر بوز، کشمش وغیرہ کے لئے مشہور تھا 43سالوں کی خا نہ جنگی اور 20سالوں کی براہ راست امریکی حکمرا نی کے بعد ملک کی 55فیصد آبادی قحط سے کیوں دو چار ہوئی؟ اس کے تین بڑے اسباب تھے پہلا سبب یہ تھا کہ افغا نستان کے دیہی اور شہری علا قوں سے ایک کروڑ کے لگ بھگ ابادی وطن چھوڑ کر نقل مکا نی پر مجبور ہوئی ان میں سے 50لا کھ افغا نی اب بھی وطن سے با ہر ہیں اس نقل مکا نی نے زراعت اور با غبا نی کو متا ثر کیا دوسرا سبب یہ تھا کہ 2001میں چار مہینوں تک بی-

52طیا روں کی کارپٹ بمباری میں ہر مو آب(Moab) اور ڈیزی کٹر (Dezycutter) بم نے 20فٹ کی گہرائی اور دوہزار مر بع فٹ کے احا طے تک زمین کو فصل اور سبزے کے لئے نا کا رہ بنا دیا رہی سہی کسر بارودی سرنگوں نے پوری کی تیسرا سبب یہ تھا کہ انا ج اور با غا ت کی جگہ پوست کی کا شت کو فروغ حا صل ہوا چنا نچہ افغا نستان اپنی خوراک کی ضروریات کے لئے بیرونی امداد کا محتاج ہوا دوخبروں کی روشنی میں ڈیورنڈ لائن کے دونوں طرف قحط کے شدید خدشات ہیں، اگر ہماری صو بائی حکومت نے اپنے ذمے کم و بیش 12ارب روپے کے واجبات ادا کئے تو ہم قحط سے بچ سکتے ہیں تا ہم افغانستان میں خوراک کی کمی کا خد شہ بر قرار رہے گا۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
54697

چترال کی تاریخ میں پہلی بار دلشاد پری کی بہ حیثیت خاتون SHO تقرری-تحریر: سردار علی سردارؔ

خداوندتعالیٰ نے اس کائنات کے نظام کو بہتر طور پر چلانے کے لئے مرد اور عورت دونوں کے اندر طاقت اور صلاحیت کے انمول خزانے ودیعت کر رکھا ہے جن کو استعمال میں  لاتے  ہوئے دونوں  اس کائنات کی خوبصورتی میں  اپنا حصہ ڈالتے رہےہیں۔ یہ خوبی اور صلاحیت اگر عورت کے اندر موجود ہو تو وہ شرارِ زندگی بن کر تہذیب وتمدن کے حسن کو دوبالا کرتی ہے  کیونکہ  عورت کا وجود  صرف تصویرِ کائنات میں رنگ بھرنےکے لئے نہیں بلکہ تسخیرِ کائنات کے عمل میں برابر  شریک رہنے  اور مردوں کے دوش بدوش ہمسفر  کی صلاحیت موجود رہی ہے۔یہی مثال دخترِچترال  محترمہ دلشاد پری کےلئے دی جاسکتی ہےکیونکہ انہوں نے قدرت کی دی ہوئی صلاحیتوں کو اپناتے ہوئے مردوں کے شانہ بشانہ کے-پی-کے کے محکمہ پولیس میں اپنی کرئیر کا آغاز کیا  اور کئی مراحل سے گزر کر آج لوٹکوہ کے شغور تھانے میں بحیثیت خاتون SHO تعینات ہوچکی ہیں۔آپ کی یہ تقرری نہ صرف چترال کے عوام بلکہ چترال کی پوری خواتین کے لئے باعث فخر ،قابلِ صد تحسین  اور اہم پیغام ہے کہ اگر عورت اپنی خوابیدہ صلاحیتوں کو بروئی کار لائیں تو وہ بھی ناممکن کو ممکن بنانے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔

دلشاد  پری5 نومبر 1989 ء کو  اپر چترال کے خوبصورت اور ہردلعزیز گاؤں بونی گولوغوٹیک  کے ایک معزز قبیلہ سادات خاندان میں آنکھ کھولی جن کے آباواجداد کو علاقے میں کئی عشروں سے  مذہبی خدمات انجام دینے کی وجہ سے  ہمیشہ عزت اور احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ آپ کے والد گرامی سید عزیز ولی شاہ   ہیں  جس نے گزشتہ کئی عشروں سے محکمہ پولیس میں ایک وفادار اور مخلص حوالدار کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں  بہ حسنِ خوبی انجام دے کر سبکدوش ہوئے اور کئی سال خوشی اور مسکراہٹ کے  حسین لمحات اپنے بچوں کے ساتھ بانٹ کر اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔آپ  کی اولاد میں ایک بیٹا  اور تین بیٹیاں ہیں۔دلشاد پری موصوف کی دوسری بیٹی ہیں جو بہت ہی لائق، ہونہار  اور سخت محنتی ہیں۔ والد نے دورانِ ملازمت اور ریٹارمنٹ کے بعد بھی  اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت میں کوئی کسر باقی نہیں رکھا ۔ اولاد کی خوشی کے لئے شب وروز محنت کرتا رہا  اور سب کے ساتھ یکسان  سلوک اور ان کو اُن کا  حق دلانے میں اپنا  مثبت کردار ادا کیا ۔جس کی وجہ سے آپ کی ساری اولاد مختلف شعبوں سے منسلک ہوکر عزت کی زندگی گزار رہے ہیں۔

chitraltimes dilshad pari first sho chitral shoghore 3

البتہ دلشاد پری بہت ہی ذہین اور ہوشیار بیٹی تھی جنہوں نے اپنی بنیادی تعلیم کا آغاز آغاخان گرلز ہائی سکول بونی دوکاندہ سے کیا  جہاں مارچ 2005ء کو  مٹرک کا امتحان اچھے نمبروں کے ساتھ پاس کرکے اپنی سکنڈری تعلیم کے لئے پامیر پبلک سکول بونی کا انتخاب کیا جہاں سے 2007ء کو ایف ایس  سی کا امتحان پاس کرکے  گورنمنٹ گرلز کالج سیدو شریف سوات میں پڑھائی شروع کی اور 2009 ء کو BSC  کا امتحان پاس کرکے کامیابی سے ہمکنار ہونے کے بعد ایم ایس سی کے لئے جہانزیب کالج سوات میں داخلہ لے لیا ۔ اس کالج میں آپ کی پڑھائی جاری تھی کہ 2010 ء کو  KPK  کے محکمہ پولیس میں لیڈی کنسٹبل کی حیثیت سے اپنی  ملازمت کا آغاز کیا اور ساتھ ساتھ اپنی پڑھائی بھی جاری رکھی  اور ایک سال تک مزید  محنت اور لگن سے اپنا  مطالعہ جاری رکھ کر 2012 کو  اپنی MSC یعنی Organic Chemistry   ( نامیاتی کیمیا) میں سند  حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی۔دلشاد پری جیسا کہ بتایا گیا  ذہین ہونے کے ساتھ ساتھ سخت مخنتی اور اپنے کام سے کام رکھنے والی خاتون ہیں ۔ وہ یونیورسٹی کی تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد بھی آرام  سے بیٹھنے کے لئے تیار نہیں تھی بلکہ وہ اپنے قیمتی لمحات کو اپنی  صلاحیت اور ہنر میں اضافہ کرنے کے لئے استعمال کرتی رہی ۔یہی وجہ تھی کہ آپ وکالت کی تعلیم کے ساتھ ساتھ Bed  کی ڈگری بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی۔ اسطرح  آپ صحافت اور DIT میں  بھی ڈپلومہ حاصل کرچکی ہیں ۔

آپ کو شروع ہی سے قانون کے خدوخال اور اس کے بنیادی اصولوں کو سمجھنے کے لئے شوق اور دلچسپی رہی تھی۔  آپ کوئی پیشہ ور وکیل بننا نہیں چاہتی تھی بلکہ پولیس کے محکمے سے وابستہ ہوکر قانون سے خوب واقفیت  حاصل  کرکے قانون کے مطابق معاشرتی مسائل کو حل کرنے کا ارادہ  رکھتی تھی۔اس مقصد کے حصول کے لئے آپ نے  اپنے ڈیپارٹمنٹ سے NOC لیکر مسلم لاء کالج سوات میں ایڈمیشن لیا  اور  تین سال میں LLB  کی سند حاصل کی۔وکالت کی تعلیم کے لئے آپ کے ڈیپارٹمنٹ کے اعلیٰ افسران کی پشت پناہی بھی آپ کو حاصل رہی جن کی ہمہ وقت مدد اور تعاون سے آپ نے اپنی تعلیم مکمل کی ۔دلشاد پری کا کہنا ہے کہ اگر  افسرانِ اعلیٰ کی اعلیٰ ظرفی  اور مدد شامل حال نہ ہوتی تو وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوتی۔اسطرح مسلم لاء کالج  سوات میں دوران تعلیم  میرے بہت سے اساتذہ کرام نے  عقلی، ذہنی اور اخلاقی تربیت میں میری بھرپور معاونت کی اور جن کی کاوشوں سے ہی میری خوابیدہ صلاحیتوں میں نکھار پیدا ہوئیں۔ان اساتذہ  میں کالج کے پرنسپل احمد شاہ  اور شہزادہ رحمٰن قبلِ زکر ہیں اور میں اپنی پوری زندگی اُن معزز اساتذہ کرام کا شکر گزار رہونگی۔

وکالت کی تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد عملی زندگی میں چترال کے نامور قانون دان اور معزز شخصیت محترم صاحب نادر لال کی صحبت اور اُس کی ماہرانہ تجربوں سے بھی فیض حاصل کیا اور اُن کے زرۤین اصولوں کو اپنی عملی زندگی میں اپنانے کی کوشش کی۔یہی وجہ ہے کہ اُن کے دیئے ہوئے اصول آج بھی اس کی زندگی کے لئے مشغلِ راہ ہیں۔

dilshad pari chitral

آپ کے ذہن میں پختہ ارادہ  اور  ایک مضبوط وژن تھا  اس مقصد کو اپنا منشور بناکر پولیس کی ملازمت کا انتخاب کیا  اور معاشرے کے مظلوم لوگوں خصوصاََ خواتین کے مسائل اور ان کی محرومیوں کے سد باب کے لئے اپنی خدمات پیش کی۔آپ کی سوچ کی بلند فکری اس بات سے بھی عیاں ہے کہ آپ نے اچھا خاصا تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود بھی کسی اعلیٰ عہدے کے انتظار میں اپنا  وقت ضائع نہیں کیا بلکہ محکمہ پولیس میں ایک لیڈی کنسٹبل کی حیثیت سے اپنی ملازمت شروع کی اس دوران مختلف شعبہ جات میں کام کرنے کا تجربہ ہوا  جس سے آپ کو مشکل  اور دقیق مسائل  جیسے چیلنجیز  سامنے آئے جن میں FRO  محرر اور وومن رپورٹنگ  انچارچ وغیرہ شامل تھی۔ ان ایۤام میں خواتین کو ان کا جائز حق دلانے کے لئے کوشان رہی جن میں گھریلو جھگڑا،تشدد اور جائیداد وغیرہ کے مسائل نمٹاتی رہی۔ ان اہم ذمہ داریوں میں ہر بار کامیابی آپ کے قدم چومتی رہی اور لوگ آپ کی کامیابی کی تعریفیں  کرنے لگےاور خصوصاََ مظلوم خواتین آپ کو دعائیں دینے لگیں اور یہ دعائیں آخر کار رنگ لائیں جن کی وجہ سے آپ نے تین بار کیڈٹ کا اعزاز حاصل  کیا ۔آپ کے بہت سے احباب اور رشتہ داروں نے آپ سے کہا کہ  اچھی تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود بھی پولیس میں لیڈی کنسٹبل کی حیثیت سے کیوں کام کرتی ہیں؟ آپ ان تمام منفی اور تلخ باتوں سے دل برداشتہ نہیں ہوئی بلکہ استقامت اور صبرو تحمل سے علامہ محمد اقبال کے اس  پُرحکمت شعر کے مصداق  اپنے کام سے کام رکھی۔

تند باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب

یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اوڑانے کے لئے

dilshad pari asi chitral 2

دلشاد پری پر خدا مہربان تھا کہ 2017 ء میں آپ نے اپنے محکمے میں کمیشن حاصل  کرکے ASI  بھرتی ہوئی  اور پھر آپ کی ترقی کی راہیں کھلتی رہیں۔ آپ نے مزید دلچسپی اور لگن کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں نبھاتی رہی اور کبھی بھی کسی کو شکایت کرنے کا موقع نہیں دیا ۔ آپ کی محنت اور اچھی کارکردگی کو دیکھ کر افسرانِ اعلیٰ بھی  آپ کے بارے میں اچھے تاثرات قلمبند کئے اور اپ کو  حراجِ تحسین پیش کئے۔ان خصوصیات کی وجہ سے ڈیپارٹمنٹ کے تمام سٹاف آپ کی صلاحیت اور حسنِ سلوک سے متاثر ہوئے اور آپ کو ہمیشہ عزۤت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔  جب سونیہ شمروز  خان پہلی بار  ڈی پی او لوئیر چترال مقرر ہوئی تو آپ کے حسنِ اخلاق ، حسنِ کارکردگی  کو قریب سے دیکھی تو بہت زیادہ معترف ہوئی جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ سونیہ شمروز  خان نے آپ پر اعتماد کرتی ہوئی چترال میں پہلی بار  خاتون  SHO  کی حیثیت سے آپ کی تقرری کا نوٹیفکشن جاری کیا جس کی وجہ سے آپ 20 ستمبر 2021 ء سے لوٹکوہ کے شغور تھانے میں اپنی ذمہ داری کا آغاز کیا۔

یہ اہم ذمہ داری ایک خاتون کے لئے کوئی آسان نہیں تھی مگر دلشاد پری میں یہ خصوصیات  پہلے سے بہ حدِ قوت موجود تھیں کہ وہ اپنی مردانہ وار صلاحیتوں کو بروئے کا ر لاتی ہوئی ان مشکل گھڑیوں کو آسانی میں بدل کر اہم کردار ادا کی ۔ تبھی تو چترال کی ڈی پی او نے آپ پر بھروسہ اور اعتماد کرتی ہوئی یہ اہم ذمہ داری آپ کو سونپ دی تھی۔آپ نے شغور تھانے میں جب سے SHO تعینات ہوچکی ہیں  اپنی بہترین صلاحیت کے مطابق اپنی ذمہ داریاں نبھا رہی ہیں۔ اپنے ماتحت سٹاف کے ساتھ بھی آپ کا رویہ بہت ہی مشفقانہ ہے۔آپ نے اپنے آپ کو کبھی بھی  ایک افسر تصور نہیں کیا بلکہ ایک عام سپاہی کی حیثیت سے  اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ مل کر اپنی ذمہ داریاں انجام دینے میں خوشی محسوس کرتی ہیں۔ آپ کی ان اعلیٰ خوبیوں اور صفات کی وجہ سے آپ کے تمام سٹاف آپ کے حسنِ عمل اور کردار سے مطمئن ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ  آپ کے ساتھ کام کرتے ہوئے   دلی خوشی محسوس کرتے ہیں۔

ہماری دعا ہے کہ پروردگار عالم اپنی مہربانی اور رحم و کرم کے طفیل دلشاد پری پر اور بھی  اپنی رحمتیں اور مہربانیاں نچھاور کرے تاکہ معاشرے کے مظلوم طبقے کو ان کی جائز حقوق ملے اور معاشرے کے لوگ امن و سکون اور آشتی کے سایئے میں  زندگی گزار کر معاشرے کے پرامن شہری ہونے کے ناطے اپنا مثبت کردار ادا کرنے کے قابل ہوسکے۔

dilshad pari asi chitral 17
dilshad pari asi chitral 18
dilshad pari asi chitral 19
Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged ,
54684