Chitral Times

بلیک مارکیٹنگ کے نگینے – قادر خان یوسف زئی کے قلم سے

Posted on

مغربی فلسفۂ زندگی نے ’جنگ و محبت میں سب کچھ جائز‘ قرار دے رکھا ہے، اس میں مقصد پیشِ نظر جنگ جیتنا ہوتا ہے، ان ذرائع کے جائز و ناجائز ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا جو اس مقصد کے حصول میں استعمال کیے جاتے ہیں، اسی طرح بلیک مارکیٹنگ اور ذخیرہ اندوزی کا مہیب چلن ہمارے معاشرے کو دیمک کی طرح کھاتا جاتا رہا ہے۔ ہمارے معاشرے کا عام نقشہ یہ ہوتا جارہا ہے کہ جنگ و محبت میں سب جائز کو ہی مقصود بنالیا گیا ہے۔ اس نگاہ فریب سے آئین اور اخلاق کی مسلمہ دیواریں ایک ایک کرکے ٹوٹتی جارہی ہیں اور انسانی معاشرہ، ازمنہ مظلمہ کی طرف لوٹ رہا ہے۔ ہمارے معاشرے کی اب یہ حالت کہ ہر جگہ ’بلیک مارکیٹنگ‘ کا دور دورہ ہے۔ کیا تجارت، کیا زراعت،کیا صنعت و حرفت اور کیا سیاست، کیا لین دین اور کیا کاروبار، کیا کارخانے اور کیا دفاتر، کیا گھر اور کیا اس کے باہر، کیا ملت اور کیا اس کے لیڈر، گویا ہر طبقہ دوسرے کی جیب کاٹنے کی فکر میں سرگرداں دکھائی دے گا۔


بلیک مارکیٹنگ کا نتیجہ اب ہمارے سامنے یہ آرہا ہے کہ کسی ایک کو کسی دوسرے پر اعتماد نہیں، فون پر بات کرتے ہوئے ادھر اُدھر تاکنا، تو کسی کی کسی بھی بات کا یقین نہ کرنا، صنعت کار ہو یا کاشت کار، سفید پوش ہو کہ کمزور طبقہ، عمومی طور پر کسی نہ کسی طرح بلیک مارکیٹنگ کا شکار نظر آئے گا، اگر آپ چین کی نیند سوتے ہیں تو اس کو راوی کی جانب سے ’’سکون ہی سکون‘‘ لکھا جائے گا، لیکن بلیک مارکیٹنگ سے کون سا طبقہ یا فرد متاثر نہیں، اس کی تفصیل دینے کی چنداں ضرورت نہیں پڑتی، کیونکہ قریباً ہر فرد کسی نہ کسی حوالے سے بلیک مارکیٹ کا ڈسا ہوا ہے۔ بلیک مارکیٹ ہماری بساطِ زندگی کے ہر گوشے پر چھارہی ہے، محبت، عقیدت، اخلاص، مروت، اخوت، غرض کہ شرف انسانیت کی تمام سوتیں خشک ہوچکی ہیں اور ان کی جگہ خودغرضی اور فریب دہی، مطلب پرستی، بددیانتی، منافقت اور بے ایمانی کے کثیف اور پُرعفونت گندے نالے بہہ رہے ہیں، معاشرے کی حالت وہاں تک پہنچ چکی کہ اگر کچھ عرصہ اور یہی لیل و نہار رہے تو عجب نہیں کہ ہم اس عہدِ تاریکی میں جاپہنچیں، جہاں انسان علم و تہذیب اور آئین و ضوابط کے دور سے پہلے تھا اور ہماری زندگی، انسانی سطح سےنیچے گر کر حیوانیت کی درندگی کی سطح پر۔


کسی کو قشریرہ سے عفونت کا جو دھیان آیاتو آخر سونگھنے کو بول کا شیشہ منگایا ہےبلیک مارکیٹنگ کرنے والے کو ہی نہیں بلکہ آہنی گرفت رکھنے والوں کو بھی احساس نہیں، ایسا لگتا ہے کہ جیسے قانون کی حکمرانی بری طرح بانجھ ہوچکی ہو، ہر طبقہ فکر اور معاشرے کو بچانے کے لئے ان کے سرخیلوں کے خلاف ایسی مضبوط گرفت ہی نہیں کہ وہ اس ریلے کو دھکیل کر پیچھے ہٹنے پر مجبور کرسکیں۔ کبھی کبھار نہ جانے کیوں ایسا بھی لگتا ہے کہ جیسے قوم بھی سنجیدہ فکر سے عاری ہوتی جارہی ہو، ان کے سامنے سب کچھ ہورہا ہے، لیکن عدم یقین کی منزل پر چلنے والوں نے بولنے، سننے اور کہنے پر جیسے فالج گرایا ہو، ملت کے ارباب نظم و نسق نے بھی ایسے نامساعد حالات پیدا کردئیے ہیں کہ ملک بھر میں بلیک مارکیٹ کا راج چل رہا ہے۔ جب ان کا دل چاہتا ہے کسی بھی شے پر کالی لکیر کھینچ کرعوام سے دور کردیتے ہیں، حالیہ دنوں کھاد کی کمی اور غذائی بلیک مارکیٹنگ کا نظارہ دیکھا تو دل دہل گیا کہ سامانِ خورونوش کو اپنی لالچ کا ہما بنانے والوں نے، کتنی دوررس منصوبہ بندی کی ہوئی ہے کہ ان اقدامات سے انہیں کس قدر کالا دھن کتنا اور کیسے کیسے ملے گا۔


قوم کی خاموشی اور بلیک مارکیٹ والوں کو برداشت کرنے والوںکی ہمت پر بھی حیرانی ہوتی ہے کہ ایسی مجبوری کو اگر وہ اپنی عملی زندگی کے ہر شعبے میں بصورت برداشت لے آئیں تو کیا ہی اچھا ہو، عدم برداشت اور تشدد کی جانب قریباً ہر طبقے کی گامزن روش نے تو ان کے ضبط کےبندھن کبھی اس قدر مضبوط نہیں دیکھے، لیکن بلیک مارکیٹنگ پر ان کی برداشت اور سرتسلیم خم کرنے کے وتیرہ نے یہ کہنے پر مجبور کردیا کہ قوموں کی زندگی نفس شماری سے نہیں، نفس گدازی سے مانی جاتی ہے۔ قوموں کی بربادی و تباہی صرف یہی نہیں کہ ان کی نسل سے صفحۂ ارض پر کوئی متنفس باقی نہ رہے، بلکہ مقصود نظر یہ ہے کہ ان کا تصور حیات ہی نہ رہے۔ تصور ِ حیات اور آئین، زندگی کے تحفظ کے لئے ہوتے ہیں نہ کہ مقصود بالذات ۔ اگر یہ تصور حیات ہی باقی نہیں تو پھر اجسام کی حفاظت ایسی ہی ہے جیسے کسی بنام بے شمشیر کی حفاظت، اصل قیمت گوہر کی ہے نہ کہ صدف کی، حفاظت گلاب کی مقصود ہے نہ کہ بوتل کی۔ بلاتصورِ حیات، زندگی ایک جسد ِ روح ہے، جس کی اگر حفاظت بھی کی جائے تو سوائے اس کے کہ ہم غلام ہیں۔


درحقیقت محکومی اور آزادی میں فرق یہی ہوتا ہے کہ آزادی میں ہم ہر فیصلے خود کرسکتے ہیں جب کہ محکومی میں ہم اپنی آنے والی نسلوں کی تربیت و فیصلے اپنے تصورات کے مطابق نہیں کرتے۔ بلیک مارکیٹ والے اپنی اپنی دکان کھولے بیٹھے ہیں، جس کو جو جی چاہے وہ مانگتا نہیں بلکہ چھین لیتا ہے، اس سے زیادہ اور کیا کہا جائے کہ بلیک مارکیٹ کو روکنا حکومت کا کام ہے، اشیاء خورونوش سے لے کر ہر اَمر کی ذمے داری حکومت ہی کے سر عائد ہوتی ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ اس باب میں اولین فریضہ حکومت کا ہی ہے، لیکن اربابِ اختیار کی طرف سے کچھ انتظام نہیں ہوگا تو یہ کہنے سے آپ چھوٹ نہیں سکتے کہ بلیک مارکیٹنگ کے خاتمے کی ذمے داری حکومت پر ہی عائد ہوتی ہے، کیا قوم کے اربابِ ثروت پر اس کی کوئی ذمے داری عائد نہیں ہوتی؟ قوم میں ایسے درد مند لوگ کہاں غائب ہوگئے، جو وقت کی اہم ضرورت کا احساس کریں اور اس کو پورا کرنے کے لئے مُردہ ضمیروں اور مجبور عوام کے جسد میں احساس کی روح پھونکیں۔ یاد رکھیں کہ بلیک مارکیٹ والے اب صرف اپنے خزانے نہیں بھررہے، بلکہ نسل کو زندہ درگور و بے کفن دفن بھی نہیں کرنا چاہتے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57165

نوائے سُرود – استاد جی – شہزادی کوثر

نوائے سُرود – استاد جی – شہزادی کوثر

شمع زندگی کی روشن کوصحیح سمت دے کر زمانے کی چیرہ دستیوں سے مقابلہ کرنے کا ہنر اسے سکھانے ، نا پختہ ذہن کو مظاہر فطرت کے صحیح مفہوم سے باخبر کرنے ، ٹھیکری کو موتی میں بدلنے اور آدم زاد کو انسان بنانے والی عظیم ہستی کا نام استاد ہے۔ اس انمول ہستی کی عظمت کو تولنے کا کوئی پیمانہ نہیں ہے جو گونگے خیالات کو زبان بخشنے کی صلاحیت رکھتا ہے ،انگلی پکڑ کر ان راستوں سے شناسائی عطا کرتا ہے جس پر چل کر انسان ان دیکھی دنیاوں کو اپنے سامنے حقیقت کی قبا میں ملبوس دیکھتا ہے ، جو اپنی عصا کلیمی سے ہمارے تصورات کو ہانکتے ہوئے حرف ولفظ کے مرغزاروں میں اتارتا ہے جس سے ہماری گویائی شباب کی سرمستیوں میں لہکنے لگتی ہے ،اس ہستی کے بارےمیں لکھنے والا  اخلاص کی روشنائی سے  اپنی محبتوں کی کہانی رقم کرتا ہے۔جاوید حیات صاحب بھی انہی خوش نصیب شاگردوں میں سے ایک ہے جن کی اپنے استاد سے عقیدت کی کہانی ” استاد جی ” کے نام سے میرے سامنے موجود ہے یقینا محبت وعقیدت کی یہ کہانی کبھی ختم نہیں ہو گی لیکن مصنف نے ان صفحات پہ اپنی چاہت کے رنگ بکھیر کر شاگردی کا حق ادا کرنے کی عمدہ کوشش کی ہے۔ کتاب کے ہر پیراگراف سے عقیدت کی خوشبو محسوس ہو تی ہے ۔کسی طالب علم کی اپنے استاد سے جتنی محبت ہوتی ہے اس کتاب میں اس سے بڑھ کر ملا۔ مصنف جب کہتے ہیں ۔۔

” دل چاہتا ہے کہ زندگی ایک بار پھر پلٹ کر وہاں پہنچ جائے جہاں سے              

ہم نے اس کی ابتدا کی تھی ۔۔۔۔ کوئی پو چھے ۔۔۔۔۔ تمھارا نام کیا ہے؟ اور             

میں جواب ہوں ۔۔۔۔۔۔ سر میرا نا م محمد جا وید ہے۔۔۔۔”                       

تو لگتا ہے ان کی زندگی کی ابتدا عالم وجود میں آنے سے شروع نہیں ہوتی بلکی جب وہ استاد جی سے ملاقات کا شرف حاصل کرتے ہیں تو گویا وہ عدم کی آخری سیڑھی سے  وجود کے پہلے زینے پر قدم رکھتے ہیں ۔ان کی دھڑکنوں کو زبان تب ملتی ہے جب استاد جی کے شفقت بھرے چہرے پر ان کی نظر پڑتی ہے اور وہ ان کی قدآور  شخصیت کے سحر میں گرفتار ہو جاتے ہیں ۔ اس ملاقات کا لمحہ میرے تخیل میں حقیقت کی طرح انگڑائی لے کر کھڑا ہو گیا گویا کہ مصنف کی زندگی کے گلشن میں نمو پانے والے گلاب کی کلیوں پہ شباب کا نزول ہوا ہو اور وہ اپنی مہک سے ان کی زندگی کو معطر کر رہے ہوں ۔ اس جملے نے مجھے بہت متاثر کیا شاید شاگرد کے دل میں محبت سے بڑھ کرایسا کچھ ہے  جو عشق کی حدود  کو چھونے لگا ہے                          

قسم خدا کی محبت نہیں عقیدت ہے                                          

دیار دل میں بڑا احترام ہے تیرا                                               

یہ صرف استاد اور شاگرد کا رشتہ نہیں بلکہ استاد ،باپ، مربی ،محسن،دوست اور پتہ نہیں کتنے خوب صورت رشتے اس میں موجود ہیں جنھیں کوئی ایک خاص نام دینا میری استطاعت سے باہر ہے۔

سبھی رشتوں کی ساری خوشبویں اس میں بسی تھیں                     

وہ اک رشتہ کہ جس کا نا م تک کوئی نہیں تھا                            

لیکن اس رشتے پہ استاد سے بڑھ کر کوئی نام نہیں جچتا یہ وہ مقدس پیشہ ہے جس کی ابتدا خود خالق ارض وسما سے ہوئی اس کے بعد انبیاؑ اس سے عہدہ برآ ہوتے رہے اور تعلیم وتربیت کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا جو زندگی کے تمام پہلوؤں پر محیط ہے ۔اس کتاب نے استاد جی کی شخصیت کے ان حوالوں کو عمدگی سے پیش کیا ہے جن سے شاید ہر کوئی واقف نہیں تھا کس طرح طالب علموں  کو شفقت و محبت کے ساتھ پڑھانے کے ساتھ ان کی ہر طرح سے مدد کرنے کے لئے بھی ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ان طالب علموں کی بھی خوش قسمتی ہے کہ ڈاکٹر صاحب کی کلاس میں بیٹھنے کا شرف انہیں حاصل ہوا، ڈاکٹر بھی ایسے جو شاگردوں کو ذہنی بالیدگی بخشنے کے ساتھ ساتھ ان کی روحانی تشنگی دور کرنے کا بھی سامان فراہم کرتے ہیں معاشی اور معاشرتی طور پر حالات کا مقابلہ کرنے کا ہنر بھی سکھاتے ہیں۔

اپنی بے پناہ قابلیت ،ذہانت ،حاضر جوابی،انکساری اور انسان دوستی سے ہر دل میں گھر کرنا جانتے ہیں۔ایک کالم نگار اور ادیب کی حیثیت سے ان کا کام کسی سے پوشیدہ نہں ۔کھوار زبان وادب کے لئے شب وروز جدو جہد کے عمل سے گزرے ، انجمن ترقی کھوار کے زیر انتظام علاقئی طور پرکانفرنس ۔مجالس اور محافل سجانے کے ساتھ ملکی اور بین الاقوامی سطح پر کئی اہم کانفرنسوں میں شرکت کی اور دنیا کی توجہ اپنی مادری زبان کی طرف مبذول کی ۔نثر میں ان کی کئی کتابیں اور کتابچے شائع ہو چکے ہیں ،شاعری کے زریعے بھی کھوار کے سرمائے میں بے پناہ اضافہ کیا ۔ بحیثیت شاعر، قلم کار ،ادیب اور بہترین استاد کے ان سے پوری دنیا واقف ہے لیکن ان کی ذات میں چھپی ہوئی  خوبیاں جو انسان کو چمکتے ہوئے چاند کی مانند ضیا پاشی کرنا سکھاتی ہیں وہ اس کتاب کے زریعے آشکار ہوئی ہیں ۔تعلیم تربیت کے اس عمل میں طالب علموں  کے سامنے اگر استاد کی زندگی کا عملی نمونہ موجود ہو توطالب علم خیالات کو عمل میں ڈھالتے ہوئے اپنی منزل کی طرف روا ں ہوتے ہیں  ۔

استاد جی اپنے شاگردوں کے لئے ایک مثالی نمونہ ہے ، زبان وادب کا حوالہ ہو یا درس وتدریس کا ،انجمن سازی ہو یا مختلف تنظیموں کی تشکیل استاد جی ہر کام خندہ پیشانی اور جانفشانی سے کرتے ہیں اور کسی کام  کا کریڈٹ کبھی نہیں لیتے ،آپ کھوار زبان وادب کے لیے کام کرنے والوں کے ہراول دستے کے سالار کے طور پر نمایاں ہیں ۔ مصنف نے استاد جی کی خدمات اور خوبیوں کو بیان کرنے میں بخل سے کام نہیں لیا ۔کتاب پڑھتے ہوئے میرے دل میں طرح طرح کی خواہشات انگڑائیاں لینے لگیں کہ کاش مجھ میں بھی اتنی قابلیت کے ساتھ ساتھ وہ تمام خوبیاں پیدا ہو جائیں جو استاد جی کی شخصیت میں موجود ہیں لیکن دل کو سمجھانا پڑا کہ خبردار۔۔ ایسی خواہش کرنے کی ہماری اوقات نہیں۔۔۔ ان کی علمی ادبی اور پیشہ ورانہ خدمات کے پیش نظر ہم ان کے نقش قدم کو بھی نہیں پا سکتے۔۔ اس کے لئے ہم جیسوں کو کئی بار جنم لینا ہو گا۔۔۔ میں نے اس کتاب کو پڑھنے کے ساتھ ساتھ محسوس کیا ہے یہاں لفظ لکھے نہیں بولے گئے ہیں اور ہر لفظ اپنی خاموش آواز سے کا نوں میں شہد گھولتا ہے ۔مجھے یہ بھی لگا کہ مصنف استاد جی کے لئے جو جذبہ اپنے دل میں رکھتے ہیں وہ محبت کی سرحدوں سے نکل کر عقیدت کے سبزہ زاروں سے  ہوتا ہوا کسی اور دنیا میں پہنچ جاتا یے اسے صرف محسوس کیا جا سکتا ہے کیونکہ الفاظ اس کے اظہار کی قدرت نہیں رکھتے۔۔                                                  

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
57153

داد بیداد ۔ علم و دانش کی تلا ش ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

داد بیداد ۔ علم و دانش کی تلا ش ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

وزیر اعلیٰ کے معاون خصوصی برائے اطلا عات بیرسٹر محمد علی سیف نے پشاور یو نیورسٹی کے شعبہ ابلا غیات کے دورے میں اہم بات کہی ہے انہوں نے صو با ئی حکو مت کی اس خواہش کا اظہار کیاکہ سر کا ری پا لیسی اور عملی اقدامات میں توازن پیدا کرنے کے لئے علم و دانش کی تلا ش کر کے علم و فضل والے لو گوں کو حکومت کی پا لیسیوں سے آگاہ کیا جا ئے اور جا معات میں زیر تعلیم طلبا ء اور طا لبات کو مختلف سر گر میوں میں تر بیت کے موا قع فراہم کر کے افرادی قوت سے بہتر انداز میں کا م لیا جا ئے .

حکومت کی یہ خواہش جا معات کے اندر تدریس اور تحقیق سے وابستہ اعلیٰ تعلیم یا فتہ شہریوں کی مدد کے بغیر ممکن نہیں یہ پہلا موقع ہے کہ حکومت کے اعلیٰ عہدے پر فائز شخصیت نے اکیڈ یمیا یعنی علم و فضل اور دانش رکھنے والے شہریوں کو توجہ کے لا ئق گردا نا اور ان کی رائے لینے پر تو جہ دی شعبہ ابلا غیات یعنی جنرنلز م ڈیپارٹمنٹ کے چیر مین پرو فیسر ڈاکٹر فیض اللہ جا ن نے شعبے کی سر گرمیوں میں تحقیق و تدریس کے معیار سے معاون خصوصی کو آگاہ کیا بیرسٹر محمد علی سیف نے حکومت کی طرف سے یو نیورسٹی کے طلبہ کے لئے کاروبار کے مواقع اور سر کاری، نیم سرکاری اداروں میں تجربے کے مواقع دینے کی پا لیسی پر روشنی ڈالی اور طلبہ کو اس پا لیسی سے فائدہ اٹھا کر انٹر پرینیورشپ اور انٹرن شپ میں حصہ لینے کی دعوت دی .

پشاور یو نیورسٹی کے شعبہ ابلا غیات کے ساتھ ہمارا تعلق چار دہا ئیوں پر محیط ہے یا دش بخیر ڈاکٹرشاہ جہان سید جن دنوں چیئر مین تھے اس دور سے ہمارا رابطہ رہا ہے شعبہ ابلا غیات نے کمیو نیٹی ریڈیو کے ذریعے بڑی خد مت انجا م دی ہے مختلف اداروں کے تعاون سے شعبہ ابلا غیات میں ضلعی نا مہ نگاروں کے لئے ورکشاپ، سمینار اور آگا ہی و تر بیت کے دیگر پرو گرام بھی منعقد ہوتے آرہے ہیں وزیر اعلیٰ کے معا ون خصو صی نے یو نیورسٹی کے ایک اہم شعبے کا دورہ کر کے روایت سے ہٹ کر خیر سگا لی دکھا ئی ہے اس پر مو صوف کو بھر پور داد ملنی چا ہئیے ورنہ ہمارے ہاں وزراروایت سے ہٹ کر کوئی بات نہیں کرتے.

ایک زما نے میں مو لا نا کوثر نیا زی وفاق میں وزیر اطلا عات تھے اپنے ذا تی علم و فضل اورا پنی بے پنا ہ خطیبا نہ صلا حیتوں کے باوجود مو صوف نے حکومت اور حکمرا ن کی شان میں ایک تقریر تیار کی تھی جسے ہر شہر کی تقریب میں دہرا تے تھے ایک دن ایسا لطیفہ ہوا کہ مو لا نا نے صبح کے وقت راولپنڈی میں تقریر کی شام کو ایبٹ اباد میں تقریب سے خطاب کیا ایبٹ اباد کے نا مہ نگارنے جو خبر قو می اخبار کو بھیجی اس میں شہرکا نا م،تقریب، میز بان تنظیم کا نام لکھ کر خبر کا ابتدائیہ تحریر کیا اس کے بعد لکھا ”باقی وزیر صاحب کی پنڈی والی تقریر لگا دیجئیے“ اگلے روز اخبار میں خبر کا ابتدائیہ ہو بہو اسی طرح شائع ہوا ڈیسک انچارچ ”باقی وزیر صاحب“ والا جملہ حذف کرنا بھول گیا تھا صحا فت کو ریا ست کا چو تھا ستون کہا جا تا ہے اس لئے مقننہ، انتظا میہ اور عدلیہ کے برابر صحا فت کو اہمیت حا صل ہے معاون خصو صی برائے اطلا عات کی طرف سے جا معہ پشاور کے شعبہ ابلا غیا ت کا دورہ بارش کا پہلا قطرہ ہے خدا کرے باران رحمت کی طرح یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہے

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
57115

پاکستان بارڈر منجمنٹ سسٹم پائدار اور مستحکم امن کی مضبوط باڑ-قادر خان یوسف زئی


 کسی بھی ملک کا اپنی سرزمین کو در اندازی، دہشت گردی، انسانی اسمگلنگ اور منشیات کی روک تھام کے لئے باڑ، دیوار، خندقیں وغیرہ جیسے اقدامات  نئی بات نہیں۔دنیا کے 70سے زائد عالمی سرحدوں پر باڑ نصب ہیں۔ سرحدوں پر باڑ،دیوار،رکاوٹ، یا بارودی سرنگیں بچھانا کوئی نئی بات نہیں ہے۔پاکستان نے2017 سے  بارڈر منجمنٹ سسٹم کے تحت حفاظتی اقدامات کئے، اس ضمن میں پاک۔ افغان اور ایران سرحدوں کو خار دار تاریں اور سیکورٹی چیک پوسٹ بنانے کے منصوبہ بندی کا  95 فیصد اور ایران کے ساتھ 71 فیصد سے زائد کام مکمل ہوچکا ہے۔ سابق کابل انتظامیہ کی جانب سے سرحدوں کو محفوظ بنانے کے عمل کو روکنے کے لئے اشتعال انگیز کاروائیاں کی جاتی رہیں، جس کا موثر جواب بھی دیا جاتا  تاہم اگست2021 میں افغان طالبان کے افغانستان پر دوبارہ قابض ہونے کے بعد سرحدی علاقوں میں بعض ایسے واقعات رونما ہوئے جس میں سرحد پر تنصیب کی جانے والی  خار دار تاروں کو کئی جگہ سے ہٹانے والے افغان طالبان کے مقامی سطح پر سیکورٹی پر معمور اہلکاروں نے اپنے تئیں اقدامات کئے،

اس کا اعتراف افغان طالبان کے اقوام متحدہ میں نامزدہ کردہ مستقل مندوب سہیل شاہین نے اپنے بیان میں بھی کیا کہ یہ واقعات مقا می سطح پر ہوئے ہیں، جس کے حل کے لئے کوشش کی جا رہی ہے، پاکستان سیکورٹی فورسز نے افغان طالبان کی موجودہ صورت حال کو مد نظر رکھتے ہوئے کسی قسم کی کشیدگی کو بڑھانے کے بجائے، تحمل کا مظاہرہ کیا کیونکہ اس وقت افغان عوام جن حالات سے گذر رہے ہیں اس کا اثر افغان طالبان کی انتظامیہ پر حاوی ہے،لہذا ان حالات میں سرحدی کشیدگی بڑھنے سے افغانستان میں انسانی بحران کے خاتمے کے لئے کی جانے والی کوششوں کو،نقصان سے بچانے کے لئے سفارتی سطح پر برداشت اور برد باری کی پالیسی اپنائی۔  پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا ہے کہ پاکستان، افغانستان سرحد پر باڑ کو لگانے میں پاکستانی شہدا کا خون شامل ہے، یہ ناصرف مکمل ہو گی بلکہ قائم بھی رہے گی۔’اس (باڑ) کا مقصد لوگوں کو تقسیم کرنا نہیں، انھیں محفوظ بنانا ہے۔ یہ امن کی باڑ ہے، یہ مکمل ہو گی، اور انشااللہ قائم رہے گی۔‘


افغان طالبان کی عبوری انتظامیہ کو عالمی برداری کی جانب سے تسلیم نہیں کیا گیا، ان کی امارات کو افغانستان میں قبضہ قرار دیئے جانے کی وجہ سے پڑوس ممالک پر متنوع مسائل کے لئے دباؤ میں اضافہ ہوا ہے۔ بالخصوص مہاجرین کی آمد اور افغانستان میں خوراک کی قلت اور قحط کی تشویش ناک صورت حال ہے۔ افغان عوام کی بیشتر تعداد پڑوس ممالک، بالخصوص پاکستان میں آزادنہ نقل و حرکت کے لئے شمال مغربی سرحدوں پر پاک افغان بارڈر منجمنٹ حائل ہے، جس کے خاتمے کے لئے تاریخی حقائق کو توڑ موڑ کر پیش کرنے سے پاک۔ افغان کے سرحدی علاقوں میں رہنے والے باشندوں کو ریاست کے خلاف اشتعال پیدا کرنے کی سازش کی کوشش پہلے بھی کی جاتی رہی ہے اور کابل میں انتظامیہ کی تبدیلی کے باوجود شر پسند عناصر امن و امان کی صورت حال کو خراب کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستان  2017 سے بارڈر منجمنٹ سسٹم کے تحت بین الاقوامی تسلیم شدہ سرحد وں پر باڑ لگانے کی کوشش میں مصروف ہے۔ اس دوران سب سے بڑی مخالفت سابق کابل انتظامیہ کی جانب سے ہوئی  اور کئی مرتبہ سرحد پار سے پاکستانی فورسز پر حملے کئے گئے۔ حالانکہ موجودہ دور میں بارڈر منیجمنٹ کا تصور سرحدوں کی حفاظت کی انتہائی ضروری سمجھا جاتا ہے۔میجر جنرل بابر افتحار کا کہنا تھا کہ ان واقعات کو بار بار اُچھال کر غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ حالاں کہ پاکستان اور افغانستان میں طالبان کی حکومت کے درمیان تعلقات بہت اچھے ہیں۔ترجمان پاکستانی فوج نے واضح کیا کہ پاکستان، پاک، افغان سرحد کو ڈیورنڈ لائن نہیں مانتا، یہ عالمی سطح پر تسلیم شدہ بین الاقوامی سرحد ہے اور اپنی سرحد کے اندر پاکستان اپنی مرضی سے اقدامات کر سکتا ہے۔


 پاک۔ افغان سرحد قریباََ 2679 کلو میٹر پر محیط ہے۔ صوبہ خیبر پختونخوا میں پاک افغان بارڈر کی کل لمبائی 1229 کلومیٹر ہے۔ جس میں سے 792 کلومیٹر  بارڈر پر باڑ کاکام مکمل ہوچکا جبکہ باڑ کاکل کام 823 کلومیٹر ہے۔جبکہ صوبہ بلوچستان میں کل بارڈر 1450 کلومیٹر جس میں سے 1400 کلومیٹر پر باڑ لگانے کے منصوبے میں اب تک 1250 کلومیٹر باڑ لگانے کا کام مکمل  کرلیا گیا۔ اسی طرح پاک ایران کل1100 کلو میٹر بارڈر میں سے909 کلومیٹر پر باڑ لگانے کا منصوبے میں 580 کلومیٹر پر باڑ لگانے کا کام مکمل ہوگیا ہے۔  پاک افغان سرحد کی لمبائی دیر پائیں میں 39 کلو میٹر، باجوڑ میں 50، مہمند میں 69  خیبر میں 111، کرم میں 191، شمالی وزیرستان میں 183 اور جنوبی وزیر ستان کے ساتھ 94 کلو میٹر ہے۔ چترال کے ساتھ افغان سرحد کی لمبائی 493 کلومیٹر ہے لیکن اس میں سے 471 کلومیٹر سرحد انتہائی بلندی پر واقع اور گلیشیئروں پر مبنی علاقوں سے گزرتی ہے۔  آئی ایس پی آر کے مطابق پاک۔افغان سرحد پر پوسٹس کی تعداد 1250 جب کہ افغانستان میں صرف377 پوسٹس ہیں۔ پاکستان میں کچھ 12 ہزار فٹ کی بلندی پر پہاڑوں کی چوٹیوں پر تعمیر کیے گئے ہیں۔افغانستان کے لیے تجارتی مقصد کے لیے چھ باضابطہ سرحدی راستے فعال ہیں جن میں خیبرپختونخوا میں طورخم (خیبر)، انگور اڈہ (جنوبی وزیرستان)، غلام خان (شمالی وزیرستان) اور خرلاچی (کرم)۔ اسی طرح بلوچستان میں چمن (قلعہ عبداللہ) اور بادینی (قلعہ سیف اللہ) شامل ہے۔ صرف باجوڑ میں افغانستان کے ساتھ چھوٹے بڑے 26 راستے تھے جہاں سے سرحد پار آباد قبائل آزادانہ تجارت اور آمد و رفت کرتے تھے۔ صرف طورخم  بارڈرسے سالانہ12سو ٹرک آتے جاتے جب کہ افراد کی تعداد10 ہزار سے زائد ہے۔یہ صرف ایک سرحدسے نقل و حرکت کے اعداد و شمار ہیں، جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ235راستوں سے آنے والوں کی تعداد کتنی ہوتی ہوگی۔ جب کہ پاکستان کی پوسٹ کا ایک دوسرے سے فاصلہ سات سے آٹھ کلو میٹر پڑتا ہے ذرائع کے مطابق اس منصوبے پر 2019یک کے تخمینے کے مطابق 70ارب روپے کے اخراجات کئے جانے تھے جو اب تک پاکستان نے کسی بیرونی امداد کے بغیرکم وبیش 50 کروڑ ڈالر خرچ کرکے دونوں ممالک کی بہتری کے لئے کام کیا۔


 پاک۔ افغان سرحد کو ڈیورنڈ لائن کے نام پر بعض عناصر دونوں ممالک کے درمیان سرحدی کشیدگی کو ہوا دینے کی کوشش کرتے ہیں،  ڈیورنڈ لائن واحد سرحدی لکیر ہے جسے افغان بادشاہ کی مرضی سے طے کیا گیا اور یکے بعد دیگرے تین بادشاہوں نے 37 برس کے عرصے میں اس بابت پانچ معاہدوں کو تسلیم کیا۔ قیام پاکستان کی اطلاعات پر1946  میں کابل نے ڈیورنڈ لائن پر نئے معاہدے کے لئے برطانیہ کو خط لکھا جس پر برطانوی حکومت نے  صاف جواب دے دیااور پھر افغانستان خاموش ہوگیا۔  خیال رہے کہ ہندوستان کے وزیر امور خارجہ ما ٹیمر ڈیورنڈ ستمبر 1893ء میں کابل گئے اور تین مہینے رہنے کے بعد امیر عبدالرحمن سے نومبر 1893 میں دونوں حکومتوں کے مابین مستقل معاہدہ ہوا۔ تاریخی حقائق کے مطابق 1823میں کئی افغان علاقوں پر مہاراجہ رنجیت نے قبضہ کرلیا تھا۔ 1846میں یہ علاقے پنجاب کا حصہ تھے جو انگریزوں نے چھینے، افغان اور پنجابی سکھوں کے درمیان کئی جنگیں بھی ہوچکی تھی۔ افغان حملہ آوروں سے تنگ آنے کی وجہ سے افغان حکمران امیر عبدالرحمن کے ساتھ انگریزوں نے  1893 میں ڈیورنڈلائن کہلائے جانے والا معاہدہ کرلیا، جس کی تجدید متعدد بار کی جاچکی ہے۔ پاکستان میں شامل علاقے جو پہلے ہی برصغیر پاک و ہند کا حصہ تھے، اورقیام پاکستان کے بعداگلے54 برس تک بھی کسی افغان حکومت نے ڈیورنڈ لائن کا معاملہ نہیں اٹھایا۔

 2013 میں ہونے والے اجلاس، جس میں پاکستانی سابق صدر آصف زرداری، افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی اور برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون شامل تھے اور اس اجلاس میں پہلی مرتبہ افغانستان نے  پاک۔ افغان سرحد پر تعاون کیلئے اتفاق رائے کیا تھا، لیکن آج تک کوئی عملی اقدامات نہیں کئے۔ پاک۔ افغان سرحدکے تنازع پر مارچ 2017 کوبرطانیہ کی میزبانی میں پاک، افغان اور برطانیہ سہ فریقی اجلاس دوبارہ ہوا تھا۔ اجلاس کا مقصد پاکستان، افغانستان کے درمیان پیدا کشیدگی اورسیاسی تناؤ کم کرنے کی ایک کوشش تھی، لیکن افغانستان کی جانب سے پاکستان کو اطمینان بخش جواب نہ ملنے کے سبب اجلاس کا متفقہ مشترکہ اعلامیہ بھی جاری نہیں ہوسکا۔ اس معاملے کو امریکہ کی حاشیہ بردار کابل انتظامیہ نے دی جو بھارت کی ایما پر پاکستان مخالف سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے۔ ڈیورنڈ لائن معاملے کو اٹھانے کا واحد مقصد پڑوسی ممالک میں کشیدگی پیدا کرنا ہے جس سے اعتماد کی فضا متاثر ہو۔   موجودہ صورت حال میں پاکستان نے افغانستان کے ساتھ مغرب میں پاک۔ افغان سرحد کے لئے کڑے سکیورٹی کے انتظامات کر رکھے ہیں لیکن پاکستان کے ساتھ تعاون کرنے کے بجائے پاکستانی فورسز اور آبادیوں پر حملے کئے جاتے ہیں اور بارڈر منجمنٹ سسٹم میں جابجا رکاوٹیں کھڑی کیں جا رہی ہیں۔

گزشتہ دور میں دونوں ممالک کے سرحدی فورسز کے درمیان ٹانڈہ درہ کے علاقے میں پاکستان کی جانب سے باڑ لگانے کے باعث کشیدگی پیدا ہوگئی تھی اور جھڑپ میں افغان فورسز کی فائرنگ سے ایک درجن سے زائد پاکستانی شہری ہلاک اور چالیس کے قریب زخمی ہوئے تھے۔ پاکستانی فوج کو باڑ لگانے میں ’سب سے زیادہ جنوبی وزیرستان کے علاقے شوال علاقہ میں مزاحمت کا سامنا رہا اور سب سے زیادہ اس علاقہ میں باڑ لگاتے ہوئے جوانوں کی جانیں قربان ہوئیں۔‘ذرائع نے مزید بتایا شدت پسندوں نے ’شوال میں منگڑیتی کے سامنے تین چار کلومیٹر افغانستان کے اندر بھاری مشین گنیں لگا رکھی تھیں جن کو خاموش کرانے میں مہینوں لگے۔ یہی وجہ ہے کہ جنوبی وزیرستان میں ایک ہی رات میں 35 چوکیوں پہ حملہ کیا گیا اور دو دن جھڑپ جاری رہی۔ اس علاقے میں اتنی مزاحمت کا سامنا رہا کہ دو سال باڑ پہ کام رکا رہا یہی وجہ ہے کہ باڑ دسمبر 2019 میں مکمل نہیں ہو سکی۔‘ذرائع کے مطابق  بلوچستان کے ضلع ژوب، ضلع قلع سیف اللہ اور چمن کی سرحدی چوکیوں پہ بھی سنائپر اور بھاری گنوں سے حملوں میں کئی فوجی جان سے گئے ہیں۔ ۔ خاردار باڑ کے لگانے اور چوکیوں کی تعمیر سے دونوں ہمسایہ ملکوں کے درمیان عسکریت پسندوں کی آمدورفت مکمل طو ر پر ختم ہونے کے امکانات قریب تر ہیں۔


  فروری 2016 سے تاحال پاکستان نے شدت پسندی کی تازہ لہر کے بعد کی جانب سے عدم تعاون پر سرحد بندش کی منصوبہ بندی کی کیونکہ بلوچستان میں بھارتی اور افغان انٹیلی جنس ایجنسیوں کے نیٹ ورک پکڑے جا چکے تھے، اس لئے پاکستان سے فرار ہوکر انھوں نے بھی کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور دیگر کالعدم تنظیموں کی طرح افغانستان میں ٹھکانے بنا لے، جس کی وجہ سے پاکستانی سیکورٹی اداروں کو انھیں پکڑنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا، پھر اصل ٹارگٹ سی پیک کو بھی ان سازش کاروں سے بچانا تھا کیونکہ افغانستان میں عالمی قوتیں داعش کی موجودگی کو یقینی بنانے کیلئے سرگرم ہیں تاکہ اس بہانے افغانستان میں موجودگی کا جواز پیدا کرکے سی پیک منصوبے کو محدود کردیا جائے اور عالمی منڈیوں تک پاکستانی اور چینی مصنوعات کو روکا جا سکے۔ لشکر جھنگوی العالمی،جماعت الاحرار،کالعدم ٹی ٹی پی، سواتی گروپ، باجوڑی گروپ سمیت کئی کالعدم تنظیموں نے افغانستان کی سرزمین میں مستقل ٹھکانے موجود ہیں، موجودہ افغان طالبان کی عبوری انتظامیہ پاکستان مخالف کالعدم تنظیموں کے خلاف موثر کاروائی نہیں کرسکی اور اسے پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار دیتے ہیں، تاہم اس امر کی یقین دہانی بھی کراتے ہیں کہ افغان سرزمین، کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔ عملی طور پر وہ افغان طالبان اپنے دعوؤں پر عمل درآمد کرانے میں کامیاب نظر نہیں آرہے کیونکہ کابل پر قبضے کے بعد کالعدم تنظیموں نے پاکستان میں دہشت گردی کی کاروائیوں میں اضافہ کیا اور اس میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ بظاہر افغان طالبان کی ثالثی میں جنگ بندی کا اعلان بھی کیا گیا، لیکن اس کے اثرات پاکستان میں نمایاں نہیں تھے، 2020 کی نسبت2021 میں بالخصوص کابل پر قبضے کے بعد پاکستان میں پر تشدد واقعات میں اضافہ ہواہے۔ گو کہ دہشت گردی کے بڑے واقعات کم ہوئے لیکن پر تشدد واقعات میں اضافہ ماہ ستمبر سے شروع ہوا جو پچھلے سال کے مقابلے میں زیادہ رہا۔ دہشت گردوں کا واحد مقصد پاکستان میں سافٹ ٹارگٹس کو نشانہ بنانا ہے۔  پر تشدد واقعات میں اضافہ ظاہر کر رہا ہے کہ یہ صرف دہشت گردی نہیں بلکہ اس کے پیچھے بیرون عناصر بھی ملوث ہیں اور کوئی دن ایسا نہیں گذرتا جب کسی پاکستانی افسر وجوان کی شہادت کی خبر نہ آتی ہو۔


 پاک۔ افغان سرحد کیلئے افغانستان کو موقع دیتا آرہاکہ وہ اپنے طرز عمل میں تبدیلی پیدا کرکے پاک، افغان عوام دونوں ممالک کے لئے مشکلات پیدا کرنے سے گریز کرے۔ افغانستان کو پاکستان کیساتھ مل کر بارڈر منیجمنٹ پر کام کرنا چاہئے۔ افغانستان کی موجودہ صورتحال میں یہ عنصر نمایاں نظر آرہا ہے کہ پاکستان مخالفت لئے  افغان طالبان کے بیشتر اہلکار اپنی حدود سے تجاوز کرجاتے ہیں۔ خار دار تاروں بعض جگہوں کو ہٹانے کے عمل اور امدادی سامان کے ٹرکوں پر پاکستانی پرچم کی بے حرمتی جیسے واقعات اور ان پر عبوری انتظامیہ کا اپنے ہی اہلکاروں کے خلاف کاروائی کرنا، ظاہر کرتا ہے کہ بالائی سطح پر ایسے کوئی احکامات نہیں دیئے جارہے کہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی پھیلے۔ خیال رہے کہ افغان طالبان اور ایران کی سیکورٹی فورسز کے درمیان بھی ایک جھڑپ ہوچکی ہے، جسے دونوں ممالک نے غلط فہمی کا نتیجہ قرار دے کر رفع دفع کردیا۔ تاہم سرحدی اہلکاروں کی انفرادی اقدامات کی وجہ سے قیام امن کی کوششوں کو نقصان پہنچتا ہے۔ پاکستان، افغانستان میں قیام امن کا حامی ہے اور پاکستان یہ بھی چاہتا ہے کہ افغان عوام کو درپیش مسائل جلد ازجلد حل ہوں۔ پاکستان متعدد بار واضح طور اپنا موقف دے چکا کہ جب تک افغانستان میں امن قائم نہیں ہوگا خطے میں مستحکم و پائدار امن قائم نہیں ہوسکتا۔ افغانستان میں عبوری انتطامیہ کو تسلیم کرنا عالمی برداری کی جاب سے افغان طالبان کے ویئے سے جڑا ہوا ہے۔ ان کی جانب سے اب متعدد ایسے اقدامات سامنے آرہے ہیں جو ان کے پہلے دور اقتدار میں کئے جاتے رہے تھے، اس سے عالمی برداری میں تحفظات مزید بڑھ چکے ہیں اور اس سے افغان طالبان کا سافٹ امیج ظاہر کرنے کا عمل متاثر ہورہا ہے۔


افغانستان  کی سابق خفیہ ایجنسی پاکستان دشمن عناصر کو سہولت دینے اور پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کرتی رہی ہے۔ خصوصی ڈیتھ اسکوڈ پاک۔ افغان بارڈر منجمنٹ سیکورٹی سسٹم کو ناکام بنانے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ پاکستان کے سرحدی علاقوں میں نہتے اور عالم شہریوں سمیت پاکستانی سیکورٹی فورسز کی شہادتوں میں بھی ملوث رہا ہے۔ نام نہاد علیحدگی پسند قوم پرست جماعتوں کی تربیت اور دہشت گردی کروانے کے لئے این ڈی ایس کے نظریات اور اقدامات نے ہمیشہ پاک۔افغان تعلقات میں رخنہ ڈالا۔ اور پاکستان کی پر امن کوششوں کو سبوتاژ کیا۔ اس کے باوجود پاکستان نے دونوں حکومتوں کے درمیان تمام معاملات کو مذاکرات کی میز پر باہمی طور پر حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ ہاٹ لائن بھی قائم کی۔ فلیگ میٹنگ بھی ہوئی۔ پاک فوج کے سربراہ سمیت حساس اداروں کے سربراہوں نے بھی افغانستان کے دورے میں سابق کابل حکومت کو مکمل تعاون کا یقین دلایا اور ایک مربوط میکنزم قائم کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔  پاکستان، افغانستان میں پائدار امن کا خواہاں ہے اور افغانستان کے اسٹیک ہولڈر کو پر امن مذاکرات کی ضرورت پر زور دیتا ہے۔ پاکستان افغانستان کی جنگ سے شدید متاثر ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان بارڈر منجمنٹ سسٹم سے دہشت گردی کی کاروائیوں کے روک تھام میں زبردست مدد ملنے کا امکان ہے۔ لیکن اب بھی کئی افسران اور جنگجو ملیشیائیں  ایسی ہیں جو پاکستان کے افغانستان کے ساتھ تعلقات بہتر نہیں چاہتے۔ پاک۔ افغان بارڈر منجمنٹ سسٹم دونوں ممالک کے درمیان پائدار اور مستحکم امن کے لئے مضبوط باڑ ہے۔اسے متاثر کرنے سے دونوں ممالک ہی نہیں بلکہ خطے میں قیام امن کی تمام کوششوں کو نقصان پہنچے گا۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57113

علماء کو اپنے حالات خود بہتر کرنا ہوگا – خاطرات : امیرجان حقانی


یہ بہت کمزور دلیل ہے کہ اگر دینی مدارس کے مدرسین، قراء، مساجد کے آئمہ و خطباء، کاروبار، کوئی کام یا پارٹ ٹائم نوکری کریں گے تو دینی کاموں میں حرج ہوجائے گا. یہ بات ایک ڈھکوسلہ سے کم نہیں.میں بہت سارے مدرسین، قراء، خطباء اور آئمہ مساجد کو جانتا ہوں جو پارٹ ٹائم جاب کرتے ہیں، دکان لگایا ہوا ہے، پراپرٹی کا کام کرتے ہیں، کوئی کاروبار کرتے ہیں.کمپوزنگ کرتے ہیں، ڈیزائننگ کرتے ہیں، پروف ریڈنگ کرتے پیں. اخبار میں سب ایڈیٹری کرتے ہیں، تصنیف و تالیف کا کام کرتے ہیں، ترجمے کرتے ہیں ، آن لائن کام کرتے ہیں، شہد بیچتے ہیں، کتابوں کی جلدیں بناتے ہیں،کتب خانے کھولے ہوئے ہیں.مسواک اور ٹوپیاں فروخت کرتے ہیں. اس طرح بہت سارے کام کرتے ہیں اور اچھا خاصا کماتے ہیں اور ساتھ ہی درس و تدریس کا کام بھی کرتے ہیں اور مساجد و مکاتب کو بھی سنھبالا ہوا ہے اور خوشحال ہیں. زندگی انجوائی کررہے ہیں، کسی کے رحم وکرم پر نہیں ہیں. اپنی فیملی کو بھی اچھے انداز میں رکھا ہوا ہے.
میں خود گزشتہ 11 سال(2011) سے مسلسل یہی کررہا ہوں. میری کفالت میں 15 کے قریب افراد ہیں جن کے جملہ اخراجات میرے ذمے ہیں. سرکاری نوکری کیساتھ کوئی نہ کوئی اور کام بھی کرتا ہوں جس سے چار پیسے مل جائے اور ساتھ ہی درس وتدریس، خطابت اور مطالعہ، قلم کاری اور کئی ایک مدارس کے لیے جزوی خدمات انجام دیتا ہوں، یہ سب کام فی سبیل اللہ کرتا، بلکہ سچ کہوں تو اپنا پیسہ خرچ کرکے یہ دینی اور قلمی امور انجام دیتا.اور ان سے خوب عزت بھی پا رہا ہوں.اور دعوتیں بھی اڑا رہا ہوں.


جو لوگ مدارس، مساجد، مکاتب اور دینی اداروں سے منسلک ہیں وہ مہتممین، مسجد کمیٹی اور محلہ کمیٹی پر انحصار کرکے ہمیشہ کڑھتے رہنے سے بہتر ہے کوئی کام کریں. اپنے معاشی حالات خود بہتر کریں اور اگر مشکل پیش آرہی ہیں تو درس وتدریس کا کام جزوقتی کریں.10 ہزار سے چھوٹا سا کاروبار ہی شروع کریں.تھوڑا سا فہم ہو تو ایک روپیہ انویسٹ کیے بغیر لاکھوں کا کاروبار کیا جاسکتا ہے. میں خود ایک روپیہ لگائے بغیر سیزن میں لاکھوں کا ڈرائی فروٹس بیچتا اور بلاشبہ لاکھوں کماتا. بس تھوڑی سی ایمانداری اور بہتر سروسز دیتا. کسٹومر کو کسی صورت ناراض نہیں کرتا، مکمل توقیر سے ان کا کام کرتا اور ڈیمانڈ پوری کرتا. لوگوں کو بھی اسی چیز کی ضرورت ہوتی ہے. 


آج کے دور میں بیسویں ایسی ہنر/سکلز ہیں جن سے خوب کمایا جاسکتا لیکن اس کے لیے محنت و مشقت کی ضرورت ہوتی ہے، ایمانداری سے کام کرنا ہوتا ہے. مزید کچھ سیکھنا ہوتا ہے. کچھ وقت دینا ہوتا ہے. ہاتھ پہ ہاتھ دھرے نہیں بیٹھنا ہوتا ہے. اپنی مشکلات کا رونا رونے کی بجائے خود کو اس اہل بنایا جانا ہوتا ہے کہ کسی کے سامنے عاجزی کے ہاتھ نہ پھیلائیں، بہر حال دینے والا ہاتھ لینے والا ہاتھ سے بہتر ہوتا ہے. علماء کو دینے والا ہاتھ بننا چاہیے، اسی میں ان کی توقیر ہے. ورنا آج کا سماج جوکہتا ہے کہ مولوی لوگ دوسروں کا کھاتے ہیں اور ہر وقت چندہ، خیرات، صدقات و زکواۃ کی فکر میں رہتے ہیں، سچ ثابت ہوگا.علماء کو اپنے کردار سے یہ غلط ثابت کرنا ہوگا کہ کم از کم اپنے گھر کے اخراجات کے لیے کسی سے نہ مانگا جائے. اور بالخصوص نوجوان فضلاء کو اس کیفیت سے نکلنے کی ضرورت ہے. میرا ایک نوجوان  دوست ہے جو مدرسے میں بہترین مدرس ہے مگر پارٹ ٹائم  دیواروں پر خطاطی کرتا ہے، سائن بورڈ بناتا ہے اور خوب کماتا ہے. ایک دوست مسجد میں امام و خطیب ہیں اور مدرس بھی مگر موبائل رپیرنگ کرکے اچھا خاصا کماتا ہے. ایسے دوست بہت سارے ہیں اور ان دوستوں کی بھی کمی نہیں، جو پانچ دس ہزار کے مدرس، خطیب، امام اور قاری ہیں. پارٹ ٹائم کچھ کرنے کی بجائے، مہتممین، مسجد کمیٹی، محلہ کمیٹی اور مخیر حضرات کو کوستے رہتے ہیں مگر کوئی کام کرنے کے لیے تیار نہیں. جو انتہائی افسوسناک ہے.


ڈاکٹر طفیل ہاشمی صاحب لکھتے ہیں :
“حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ہر شخص کو خود کفیل بننے کا حکم دیا تھا,خاص کر مذہبی رہنماؤں کو دوسروں پر ” بوجھ ” بننے سے منع کیا ہے
چنانچہ فرمایا
یا معشر القراء ارفعوا رؤوسکم فقد وضح الطریق واستبقوا الخیرات ولا تکونوا عیالا علی المسلمینترجمہاے قراء ( علماء)کی جماعت : اپنے سروں کو اونچا رکھو,راستہ کھلا ہے ( مال کمانے میں) ایک دوسرے سے سبقت لے جاؤ,اور مسلمانوں پر بوجھ نہ بنو. تاریخ عمر رضی اللہ عنہ لإبن جوزی ص 191″.


یہ رونا رونا بالکل فضول ہے کہ کام نہیں ملتا، مارکیٹ میں اتنا کام ہے جس کی کوئی حد نہیں. آپ کام کریں، عزت سے چار پیسے کمائیں، رج کر کھائیں اور ڈٹ کر دینی خدمات انجام دیں اگرچہ جز وقتی ہی کیوں نہ ہو. تب مہتممین، مسجد و محلہ کمیٹی اور مخیر حضرات کے سامنے آپ کی توقیر بھی ہوگی اور آپ سچ بات ڈٹ کر کہنے کی جرآت بھی کریں گے اور کوئی آپ کو آنکھیں بھی نہ دکھا سکے.اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو. 

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
57111

کروڑ پتی ٹیکس نادہندگان ۔ محمد شریف شکیب

غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی اور ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کے لئے حکومت نے فنانس ترمیمی بل کے ذریعے عوام پر ٹیکسوں کا نیابھاری بھر کم بوجھ لادنے کی تیاری کرلی ہے۔ ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے نام پر عوام کو ٹیکسوں اور مہنگائی کی زنجیروں میں جکڑنے والے اراکین پارلیمنٹ خود کتنے ٹیکس دیتے ہیں اس حوالے سے فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے فہرست جاری کی ہے۔ ایف بی آر کی رپورٹ کے مطابق سال 2019میں پی ٹی آئی کے ایم این اے محمد نجیب ہارون سب سے زیادہ ٹیکس دینے والے رکن پارلیمنٹ بن گئے ہیں۔ انہوں نے 14 کروڑ 7 لاکھ 50ہزارروپے ٹیکس ادا کیا۔ اپنے ٹیکس گوشواروں میں محمد نجیب نے اپنی آمدن 1 ارب 87 کروڑ 66 لاکھ روپے ظاہر کی ہے۔

وزیراعظم عمران خان کی آمدنی 4 کروڑ 35 لاکھ روپے رہی اور انہوں نے 98 لاکھ 54 ہزار 959 روپے ٹیکس دیا۔ شہباز شریف کی آمدنی 5 کروڑ 63 لاکھ روپے تھی انہوں نے 82 لاکھ 42 ہزار روپے ٹیکس دیا۔ آصف علی زرداری کی آمدنی 28 کروڑ 26 لاکھ روپے تھی انہوں نے ٹیکس کی مد میں 22 لاکھ 18 ہزار روپے دیے۔بلاول بھٹو نے 3 کروڑ 81 لاکھ روپے کمائے اور5 لاکھ 35 ہزار روپے ٹیکس دیا۔ وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار کی آمدنی صرف 9 لاکھ 38 ہزار روپے تھی اور انہوں نے 2019 میں 2 ہزار روپے ٹیکس دیا۔وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ کی آمدنی 5 کروڑ 70 لاکھ روپے تھی10 لاکھ 99 ہزارروپے ٹیکس ادا کیا۔وزیراعلی خیبرپختو نخوا محمود خان کی آمدنی 25 لاکھ 80 ہزار روپے تھی اور انہوں نے 66 ہزار 258 روپے ٹیکس ادا کیا۔شاہانہ طرززندگی رکھنے والے بعض ارکان پارلیمنٹ نے کوئی ٹیکس نہیں دیا۔

ایسے 19ممبران قومی اسمبلی وسینیٹرزکی فہرست سامنے آگئی جن کا ٹیکس زیرو ہے جن میں پی ٹی آئی کے پانچ ، پیپلزپارٹی، مسلم لیگ (ن) اورمسلم لیگ(ق) کاایک ایک جبکہ جے یوآئی (ف) کے دو ممبران قومی اسمبلی شامل ہیں۔سینیٹرز میں پیپلزپارٹی کے تین، پی ٹی آئی کے دو، مسلم لیگ (ن)، اے این پی اوربلوچستان عوامی پارٹی کا ایک سینیٹر بھی شامل ہے۔ارب پتی ٹیکس نادہندگان میں منصور حیات، نیازاحمد جھکڑ، سیف الرحمان، سلیم الرحمان، سردار محمد،مولاناعبدالشکور،مولاناکمال الدین،شکیلہ خالد،فرخ خان،پیر عامر شاہ گیلانی، سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی، سینیٹر پلوشہ محمد زئی،قرۃالعین مری، سینیٹر فیصل سلیم، سینیٹر سیف اللہ ابڑو، سینیٹر ہدایت اللہ خان، پرنس احمد عمرزئی اورسینیٹر نسیمہ احسان شامل ہیں۔

ٹیکس نہ دینے والے اراکین پارلیمنٹ میں صنعت کار، کارخانے دار، جاگیر دار، خانقاہوں کے مالکان، برآمد کنندگان، بڑے ٹھیکیدار اور تاجر بھی شامل ہیں۔ اور ان کی ماہانہ آمدنی کروڑوں میں ہے۔ سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے جن اراکین سینٹ، قومی و صوبائی اسمبلی کے نام ٹیکس نادہندگان کی فہرست آئے ہیں۔سیاسی جماعتوں کی قیادت پر فرض ہے کہ انہیں پارٹی عہدوں سے ہٹانے کے ساتھ کسی بھی عوامی عہدے کے لئے انہیں نااہل قرار دیں۔ قوم کا بال بال بیرونی قرضوں میں جکڑا ہوا ہے۔ ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی اور امور حکومت چلانے کے لئے بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے ناقابل قبول شرائط پر قرضے لئے جارہے ہیں ان قرضوں کی ادائیگی کے لئے مہنگائی کے مارے عوام کا ٹیکسوں کی صورت میں خون نچوڑا جارہا ہے۔

اس معاشی ناانصافی نے عوام کو نظام حکومت اور جمہوریت سے متنفر کردیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پچاس فیصد رائے دہندگان بھی عام انتخابات میں ووٹ پول کرنے گھروں سے باہر نہیں نکلتے۔ان کا موقف یہ ہے کہ ان کے ووٹ سے کونسی تبدیلی آنی ہے۔ گذشتہ 75سالوں سے انہوں نے ہر سیاسی جماعت کو آزمایا کسی نے اس ملک کے عام آدمی کو استحصال سے نجات دلانے کی کوشش نہیں کی۔ عام آدمی کے اس موقف کو یکسر نظر انداز نہیں کیاجاسکتا۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57092

گیس ہیٹر یا کوئلہ لوگوں کی جان کیسے لیتی ہے۔ از: ذوالفقارعلی‎‎

سردیوں کے موسم میں آئے روز یہ خبر سننے کو ملتی رہتی ہے کہ دم گھٹنے یا گیس ہیٹر کی وجہ سے فلان کی موت واقع ہو گئ ۔ گزشتہ دن چترال اور آج مری مین سیاحوں کی سردی کی وجہ سے موت خبروں کی سرخیوں میں ہیں ۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ انسان کی موت سردی سے کب تک ہو سکتی ہے اور سردیوں میں گیس ہیٹر یا کوئلے سے موت کس طرح واقع ہوتی ہے ۔ انسانی بدن میں ٹمپریچر کو کنٹرول کرنے کا ایک جامع نظام موجود ہوتا ہے جو کہ انسانی بدن کے درجہ حرارت کو 37 ڈگری سنٹی گریڈ پہ قاہم رکھتا ہے ۔ گرمی کی صورت میں پسینہ ، خون کے شریانوں کا پھیلاؤ اور اندرونی میٹابولسم کو سست کرکے جسم اپ کے درجہ حرارت کو نیچے رکھتا ہے تو سردی کی صورت مین خون کے نالیوں کے سکڑاؤ میٹابولزم کی تیزی اور کپکپاہٹ ہمین گرم رکھتا ہے ۔

مری میں جس درجہ حرارت پہ سیاحوں کی موت ہوئی ہے اسکی وجہ سردی نہیں بلکہ کاربن مونو آکسائیڈ ہے ۔ جسم مین آمد و رفت کا زریعہ خون ہے ۔  خون خوراک کو اپنے اندر حل کرکے سر سے لیکر پاؤں تک سارے خلیوں مین پہنچاتا ہے ۔ اس خوراک کو توڑ کر اس سے حرارت اور توانائی مین تبدیل کرنے کے لیے  آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے جسے ہم سانس کے ذریعے ماحول سے لے لیتے ہیں ۔ اس آکسیجن کو بھی پھیپڑوں سے اٹھا کر ہر خلیے تک پہنچانا خون ہی کے ذمے ہے ۔

خون کے اندر ایک مخصوص پروٹین ہوتا ہے جسے ہیموگلوبین کہتے ہین آپ اس کو کنڈی کے ساتھ تشبیح دے سکتے ہین کیونکہ یہ خون میں ہیموگلوبین ہی ہوتی ہے جو پھیپڑوں سے آکسیجن کو اٹھا لیتی ہے ۔ ہیموگلوبین کی ایک خاص مقدار صحت مند رہنے کے لیے ضروری ہے اکثر ڈاکٹر خون میں اس کی مقدار چیک کرتے ہین اور اس کی مقدار کم ہو تو اکثر لوگ اسے خون کی کمی کہتے ہین دراصل وہ خون کی نہین اس مین موجود ہیموگلوبین کی کمی ہوتی ہے ۔ عام حالات مین  جلنے  والے ہر شے سے کاربن ڈائی آکسائڈ خارج ہوتی ہے ۔ مگر ایسے ماحول جہان آکسیجن کی کمی ہو تو وہان جلنے والی ہر چیز سے کاربن ڈائی آکسائڈ کی جگہ کاربن مونو آکسائیڈ خارج ہوگی ۔ خون مین موجود ہیموگلوبین جو آکسیجن کو خون مین شامل کرتا ہے وہ کاربن مونو آکسائیڈ کو 300 گنا زیادہ تیزی سے خون مین شامل کرتا ہے آکسیجن کے مقابلے میں ۔

اگر اپ نے کمرے کو بند کیا ہوا اور گیس کی ہیٹر بھی جل رہی ہو تو باہر سے بہت کم آکسیجن کمرے مین داخل ہو رہی ہے اور کمرے مین موجود آکسیجن وہان موجود لوگ اور جلنے والی آگ استعمال کر رہی ہوتی ہے ایسے حالت مین کمرے مین آکسیجن کی مقدار کم ہو جاتی ۔ کم آکسیجن کی وجہ سے کمرے مین جلنے والی آگ سے کاربن ڈائی آکسائڈ کی جگہ کاربن مونو آکسائیڈ خارج ہونا شروع ہوتی ہے ۔ خون مین موجود ہیموگلوبین کاربن مونو آکسائیڈ کو آکسیجن کے مقابلے مین 300 گنا زیادہ تیزی سے کھینچتا ہے جس کی بدولت خون مین موجود سارے ہیموگلوبین مالیکیولز پر کاربن مونو آکسائیڈ کا قبضہ ہوتا ہے جس سے آکسیجن کو جڑنے کی جگہ نہیں ملتی ۔

جب یہ زہریلی گیس ہمارے خون مین شامل ہوتا ہے تو اپ کو  سکون نیند اتی ہے جس کے بعد موت واقع ہوتی ہے ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اگر ایسے کمرے مین موجود ہوں   اور دروازے کے ساتھ ہی بیٹھے ہوں کمرہ بھی  بند نہ ہو تب اپ کو پتہ لگنے کے باوجود اپ دروازہ نہیں کھول پاہیں گے ۔ آپ ہوش میں تو ہونگے مگر پلکیں بھی جھپکنے کے قابل نہیں ہونگے ۔ مری کے سیاح اگر گاڑیوں کے شیشے کھولتے تو بہت ممکن تھا کہ  وہ موت سے بچتے کیونکے انسان کافی حد تک سردی برداشت کر سکتا ہے مگر کاربن مونو آکسائیڈ کو نہیں ۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57089

سانحہ مری ۔ ذمہ داری فکس کریں – آز: ظہیرالدین

سانحہ مری ۔ ذمہ داری فکس کریں – آز: ظہیرالدین

chitraltimes Mari incident 22 dies tourists pakistan


ارم نامی ڈھائی سالہ کلی شدید سردی کی تاب نہ لاکر ماں کی گود میں آنکھیں ہمیشہ کے لئے بند کرتی ہے، پانچ سالہ ہادیہ اپنے باپ کی گود میں چند منٹوں بعد ہی آخری سانس لیتی ہے تو ماں باپ پر عشی طاری ہوتی ہے اور 15سال  تک کی عمرکے باقی دو بہنوں اور دو بھائیوں پر گزرے ہوئے لمحات کا تصور کرکے روح کانپ اٹھتی ہے اور جسم پر لرزاہٹ طاری ہوتی ہے۔ یہ روح فرسا واقعہ جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب ملکہ کوہسارمری میں ایک چھوٹی سی موٹر کار کے اندر پیش آئی جو وہاں بلاک ہونے والی ایک ہزار موٹر گاڑیوں میں شامل تھی جبکہ برفباری کی وجہ سے درجہ حرارت نقطہ انجماد سے نیچے گرگئی تھی اور گاڑی کو اسٹارٹ رکھ کر ہیٹر مسلسل چلانے کی وجہ سے گاڑی میں ایندھن بھی ختم ہوگئی تھی۔ ملکہ کوہسار کی بے رحم سردی نے ماں باپ اور چھ بچوں پر مشتمل اسلام آباد کی ایک خاندان کا صفایا کردیا جبکہ راولپنڈی سے تعلق رکھنے والی پانچ افرا د پر مشتمل ایک اور خاندان بھی یخ بستہ ہواؤں کی نذر ہوگئی اور خیبر پختونخوا کے ضلع مردان سے تین دوست بھی مری میں اپنی سفر آخرت کا آغاز اپنی الٹوکار سے کردی جو وہاں snowfallدیکھنے گئے تھے۔ موت برحق اور اٹل حقیقت ہے لیکن ان کو جس حالت میں موت آئی، وہ افسوسناک او ر قومی ضمیر پر ایک بوجھ ہے کیونکہ ریاستی انتظامی اداروں کی غفلت،لاپروائی اور inefficiencyسے یہ پیش آیا۔ اس کے برابر افسوسناک بات یہ ہے کہ ماضی کی اس طرح دل خراش سانحات کی طرح یہ سانحہ بھی کچھ دنوں میں میڈیا میں ڈسکس ہونے کے بعد قومی میموری سے ہمیشہ کے لئے ڈیلیٹ ہوگی اور پسماندگان کے لئے زندگی بھر کا روگ بن جائے گی۔

chitraltimes Mari incident 22 dies tourists 6


مملکت خداداد پاکستان میں انسانی غفلت کے نتیجے میں حادثات و سانحات کی ذمہ داری کسی پر ‘فکس ‘کرنے کی روایت نہ ہونے اور فی زمانہ اخلاقی قوت سے عاری حکمرانوں کی وجہ سے سانحہ مری جیسے واقعات کا رونما ہونا کوئی انہونی بات نہیں ہے۔ شیخ رشید احمد سمیت چند وفاقی وزراء نے انتہائی آسانی سے اس بات کو اپنے ٹویٹ میں ٹال دیا  اور ذمہ داری سیاحوں پر ہی تھوپ دی جوکہ کثیر تعدادمیں اور گنجائش سے ذیادہ تعداد میں مری امڈ آئے تھے۔ وطن عزیز کی 75سالہ تاریخ کی کسی ایک صفحے پر بھی آپ کو یہ لکھا نہیں ملے گا کہ کسی سانحے میں متعلقہ محکمے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کسی وزیر نے استعفیٰ دیا ہو۔ یہاں تو حکومتی حلقے ایسے سانحات کی الٹی سیدھی تاویلیں پیش کرتے ہوئے حکومت کو بری الذمہ قرار دے ڈالتے ہیں جوکہ حادثے میں لقمہ اجل بننے والے بے گناہوں کے پسماندگان کی زخموں پر نمک پاشی سے کم نہیں ہوتی۔ خود ہماری پڑوسی ملک میں ریلوے حادثات میں غفلت قبول کرتے ہوئے لال بہادر شاستری سمیت وزراء کو استعفیٰ دیتے ہوئے ہم دیکھ چکے ہیں۔

chitraltimes Mari incident 22 dies tourists 4

وطن عزیز کی مخصوص سیاسی ماحول اورغیر تابناک روایات کو سامنے رکھتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان سے یہ توقع کرنا ہی عبث ہے کہ وہ اس المناک حادثے کی ذمہ داری سیاحوں پر ڈالنے کی بجائے ریاستی اداروں کو ذمہ دار گردانتے ہوئے چیف منسٹر بزدار سے استعفیٰ لے اور چیف سیکرٹری اور آئی جی پی سے لے کر اسسٹنٹ کمشنر مری تک افسران کو فی الفور معطل کرکے ان کے خلاف غفلت، لاپروائی اور inefficiencyکے چارجز لگواکر ان کے خلاف انکوائری کا دیتا۔ امریکہ سمیت کسی ترقی یافتہ   میں اگر اکیس افراد اس طرح المناک موت مرجاتے تو وہاں طوفان برپا ہوتا، حکومتیں گرجاتے اور چند گھنٹوں کے اندر بڑے بڑے شخصیات سلاخوں کے پیچھے نظر آتے (یہ بات الگ ہے کہ ان ممالک میں احساس ذمہ داری سے سرشار انتظامیہ ایسے واقعات کو رونما ہونے سے پہلے ہی روک دیتے ہیں)۔ ایک ریاست مدینہ وہ تھا جس میں خلیفہ وقت دریائے دجلہ کے کنارے خارش زدہ کتے کی بے وقت موت کی زمہ داری پیشگی طور پر اپنے اوپر فکس کرتا ہے اور ایک صوبائی گورنر کا بیٹا جب گھوڑ دوڑ کے دوران ایک شہری کو چابک مارتا ہے تو خلیفہ وقت اس کی زمہ داری گورنر پر فکس کرتا ہے اور شہری کے ہاتھ میں چابک دے کر کہتا ہے کہ پہلے اس گورنر کو مارو۔ ریاستی امور کی زمہ داری اپنے اوپر فکس کرنے کی روش نے ریاست کے ایک ایک کارندے کو ایسا ذمہ دار بنادیا کہ کسی بھی گوشے میں غلطی اور غفلت کی گنجائش نہیں رہی جو اس طرح کے افسوسناک سانحات پر منتج ہوں۔ اس ریاست مدینہ کے علمبردار سربراہ حکومت نے اپنی شہ رگ کے قریب واقع مری میں اس المناک سانحے پر بیان جاری کروانے اور غمزدہ خاندانوں کے ساتھ اظہار ہمدردی سے آگے کچھ نہ کرسکے کیونکہ وطن عزیز میں اس کی کوئی روایت موجود نہیں جس میں حکمرانوں نے سانحات کی زمہ داری قبول کی ہو یا ان پر زمہ داری فکس کی ہو جن کی غفلت سے یہ سب کچھ رونما ہوا۔

chitraltimes Mari incident 22 dies tourists 21


سانحہ مری کے زمہ داروں کا تعین نہایت آسان ہے جن سے ارتکاب غفلت سرزد ہوئی۔ میڈیا کے مطابق 99فیصد گاڑیاں راولپنڈی اسلام آباد کی جڑواں شہر سے گزر کر مری پہنچتے ہیں جن کی تعداد کو بارہ کہو کے ٹول پلازہ پر آسانی سے گنا جاسکتا تھا اور انتظامیہ میں “حس زمہ داری”ہوتی تو ویک انڈ میں مری میں برفباری کو پیش نظر رکھ کر سیاحوں کی تعداد پر نظر رکھا جاتا۔  مری ضلع راولپنڈی کی ایک تحصیل ہے جس کے انتظامیہ کو سوفیصد اندازہ ہونا چاہئے کہ مری میں بیک وقت کس تعداد میں اور کتنی گاڑیوں میں جاسکتے ہیں جس میں موٹر گاڑیوں کی ٹریفک بھی رواں دواں رہے۔ دوسری طرف کے پی کے گلیات کی باونڈری پر گاڑیوں پر نگاہ رکھا جاتا تو ویک انڈ پر سنو فال کا دلفریب منظر دیکھنے کے متمنی سردی سے ٹھٹہر ٹھٹہر اپنی قیمتی جانیں یوں فرشتہ اجل کے حوالے نہ کرتے۔ ایک ہزار سے بھی زیادہ گاڑیوں کا بلا روک ٹوک مری میں داخل ہونا اور مکمل پہیہ جام کی صورت حال کا پیدا ہونا اور ان  گاڑیوں میں پھنسے ہوئے بچوں اور خواتین کو ان کے حال پر چھوڑنا شدید بد انتظامی اور مجرمانہ غفلت ہی کا شاخسانہ ہے جو ناقابل معافی ہے اور یہ قومی المیہ سے کسی طور پر کم نہیں۔

chitraltimes Mari incident 22 dies tourists 7

وطن عزیز میں بدانتظامی کا ایک خاصہ یہ بھی ہے کہ جب تک کوئی حادثہ رونما نہ ہو اور حالات نارمل ہوں تو اعلیٰ حکام ڈیلی سیچویشن رپورٹ بھی پورا پڑھنے کی زحمت گوارہ نہیں کرتے اور یہ ‘شان افسرانہ’ ہماری تباہی کا اصل محرک ہے۔ اگر لاہور میں بیٹھا چیف سیکرٹری راولپنڈی میں کمشنر سے اور وہ چند قدم فاصلے پر ڈی سی سے مری کی صورت حال کا ایسے ہی پوچھ لیتا تو آج اکیس جانیں یوں مٹی کے نیچے نہ جاچکے ہوتے جن کا قصور نظارہ فطرت کے لئے نکلنا تھا۔ جب تک منتخب قیادت ایسے سانحات میں ایک بولڈ اور انقلابی قدم اٹھانے کی ہمت نہیں کرتی اور ان داروں کو سامنے لاکر سامان عبرت نہ بنائے جاتے، خاندان کے خاندان اپنی ناکردہ سزا پاکر معدومیت کی سمندر میں گرتے رہیں گے۔

chitraltimes Mari incident 22 dies tourists 5
chitraltimes Mari incident 22 dies tourists 1

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57069

مقروض کبھی سرنہیں اٹھا سکتا ۔ محمد شریف شکیب

وزیر خزانہ شوکت ترین نے انکشاف کیا ہے کہ وہ ٹیکنالوجی کی مدد سے ٹیکس نہ دینے والوں تک پہنچ چکے ہیں بس بٹن دبانے کی دیر ہے۔ ڈیٹا کی بنیاد پر لوگوں کو بتائیں گے کہ ان کی آمدن کتنی ہے، اب ہم سب کو سیلز اور انکم ٹیکس دونوں دینا پڑے گا، ملک کو اس وقت ٹیکس کی ضرورت ہے ادھارلیکرملک کب تک چلایا جائے گا۔ اب اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی کوشش کرنی ہوگی۔ بڑی بڑی گاڑیوں والے ٹیکس نہیں دیتے،ملک میں صرف بیس لاکھ لوگ ٹیکس دیتے ہیں جبکہ ٹیکس دینے کے قابل لوگوں کی تعداد دو کروڑ سے زیادہ ہے۔ ٹیکسوں کا نظام خودکارہونے سے محصولات بڑھیں گے، جب لوگوں کوسہولت ہوگی تو زیادہ ٹیکس بھی دیں گے،

شوکت ترین نے بتایا کہ جرمنی اور دیگر ترقی یافتہ ملکوں میں جو شخص ٹیکس ادا نہیں کرتا وہ ووٹ نہیں ڈال سکتا،وقت آگیا ہے کہ سب لوگ اپنا ٹیکس دینا شروع کردیں، وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ لوگ ایک وقت میں کھانے کا 30سے 40ہزار بل دیتے ہیں مگر ٹیکس نہیں دیتے۔یہ حقیقت ہے کہ جب تک لوگ ٹیکس ایمانداری سے ادا نہیں کریں گے ملک مقروض ہی رہے گا اور ہم مالیاتی اداروں کے آگے کشکول پھیلاتے رہیں گے اور جو لوگ ہمیں قرضہ دیتے ہیں وہ اپنی شرائط منواتے رہیں گے۔ ٹیکس نیٹ نہ بڑھنے کی بنیادی وجہ ٹیکسوں کے نظام میں نقائص ہیں۔ لوگوں کو یہ اعتماد دلانے کی ضرورت ہے کہ ان سے وصول کی جانے والی رقم کی پائی پائی قومی خزانے میں جمع ہوگی اور ٹیکسوں کی رقم ملک کی تعمیر و ترقی کے لئے خرچ کی جائے گی۔

اب بھی لوگ جتنا ٹیکس دیتے ہیں اس کا دو تہائی حصہ قومی خزانے کے بجائے چند لوگوں کی جیبوں میں چلا جاتا ہے۔حکومتوں نے نظام کو شفاف بنانے کے بجائے نام بدلنے پر اکتفا کیا۔ سینٹرل بورڈ آف ریونیو کا نام فیڈرل بورڈ آف ریونیو رکھنے سے ٹیکس نیٹ نہیں بڑھ سکتا۔ وطن عزیز میں جو شخص جتنا بااثر ہوگا وہ اتنا بڑا ٹیکس چور ہوگا۔ آج تک کسی حکومت کو زرعی ٹیکس نافذ کرنے کی جرات اس لئے نہیں ہوئی کیونکہ اسمبلیوں اور اعلیٰ سرکاری عہدوں پر براجماں تمام لوگ بڑے بڑے جاگیر دار، سرمایہ دار اور صنعت کار ہیں۔ وہ فصلوں اور باغات کی پیداوار سے سالانہ اربوں روپے کماتے ہیں مگر ان کی کمائی کا کوئی ریکارڈ سرکار کے پاس نہیں ہوتا۔

اسی طرح خدمات کے عوض جو لوگ سالانہ کروڑوں روپے کماتے ہیں ان کا بھی سرکار کے پاس کوئی ریکارڈ موجود نہیں۔ چند لوگوں کی مٹھی گرم کرکے لاکھوں کروڑوں کے ٹیکس بچائے جاتے ہیں۔ وزیرخزانہ کی طرف سے جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے ٹیکس نادہندگان تک پہنچنے کی بات اگر درست ہے تو یہ حوصلہ افزاء ہے۔ ایف بی آر کا تمام ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کرنے کے ساتھ جو سرکاری اہلکار ٹیکس چوری کے سہولت کار رہے ہیں ان پر بھی ہاتھ ڈالنے کی ضرورت ہے۔

یہ بھی قومی امانت میں سنگین خیانت ہے اور ان سے لوٹی گئی قومی دولت واپس لے کر قومی خزانے میں جمع کرکے ہی ٹیکس دہندگان کا اعتماد بحال کیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ ٹیکس نادہندگان اور ٹیکس چوری کرنے والوں کے خلاف سخت قوانین بھی بنانے کی ضرورت ہے جو شخص اس قومی جرم میں ملوث پایاگیا اسے تاحیات کسی بھی سرکاری ملازمت اور عوامی عہدے کے لئے نااہل قرار دیا جائے۔ اگر ایسا قانون بن گیا تو قومی ایوانوں میں بیٹھے آدھے سے زیادہ لوگ عوامی نمائندگی کے لئے نااہل ہوجائیں گے۔خود انحصاری کی منزل تک پہنچنے کے لئے سخت فیصلے کرنے ہوں گے۔ اور کچھ پیشہ ور چوروں کو سولی پر چڑھانا ہوگا۔ اگر ہم باوقار قوم بننا چاہتے ہیں تو اپنے وسائل پر انحصار اور اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے لئے عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ کیونکہ مقروض کبھی سراٹھاکر نہیں جی سکتا۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57059

تلخی ء دوران ۔ تحریر ۔صوفی محمد اسلم

کہتے ہیں کہ ماں  کے پاوں کے نیچے اولاد کی جنت ہوتی ہے۔ جنت ہو یا نہ ہو یہ الگ بحث ہے۔ اج کل لوگ خاص کرکے لیبر  نوجوان مذہبی دلائل سے زیادہ  ایسے دلائل چاہتے ہیں جو سائنسی مشاہدات و تجربات سے ثابت ہو سکے۔  ان میں میرے چند فیس بک فرینڈز اور گروپ ممبرز بھی شامل ہیں۔ اب انہیں اسلام،قرآن اورجنت کا حوالہ دے کر سمجھانے کی کوشش کرنا اس مقدسات کی توہین کے مترادف ہیں ۔


 سائینس وٹیکنالوجی انسان کو جو جدید دور بخشا ہے وہ ناقابل تسخیر بن چکا ہے۔ہم اسی جدید تریں دور سے گزر رہے ہیں ۔ انسان کو ہر قسم کے سہولیات و آسائش میسر ہیں ۔دنیا سمٹ کر ایک گلوبل ولج بن چکا۔ نظام مواصلات اتنی تیز ہے کہ لاکھوں کلومیٹر کے مسافت سیکنڈ میں طے کی جاتی ہے ۔ دنیا، سیارے اور ستاروں کے سارے معلومات انگلیوں کے پور میں سما گئے ۔ انسان برق رفتار سے سفر کرتا ہے ۔ کمپیوٹر،  لائبیری اور گلوبل میپ  ہر شخض اپنے ساتھ لیکر گھومتا ہے۔ کہوار زبان میں ایک مثل مشہور ہے کہ “دنیا ٹونجو غیری شیر” دنیا پیالی میں سما چکی ہے۔ ہر طرف دوڑ دھوپ ہورہی ہے۔ سب کچھ کی کوشش  میں انسان کچھ بھی کرنے کیلئے  تیار رہتا ہے ۔


 ایک طرف دنیا غروج کی طرف گامزن ہے تو دوسری طرف انسانی خصلت اور فطری اوصاف میں بھی آئے روز  تبدیلیاں ہورہی ہیں ۔ جتنا انسان مصنوعی خوبصورتی کی طرف جارہی ہے اتنا ہی قدرتی حسن سے دور ہوتا جارہا ہے۔ قدرتی مناظر اور فطری حسن کی فقدان بڑھتی جارہی ہیں ۔ رشتے ناطے،رحم کرم، جزبات و حساسات مدہم ہوتے جارہے ہیں ۔ نیکی اور گناہ میں فرق ختم ہوتی جارہی ہے۔ جائز ناجائز  میزان پر یکساں قامد کے ساتھ  کھڑے ہوتے ہیں۔ شرم وحیا مٹکر زینت میں منتقل ہو چکی ہیں۔ادب و احترام اور شرافت انسانی کمزوری تصور کیجاتی۔ ہر طرف افراتفری کی عالم ہے۔


ایک روز ایک معزز دوست سے ماں باپ کے اولاد پر  احسانات کے موضوع پر بات ہوئی تو صاحب موصوف نے کہا ترقی پسند اور کشادہ خیالات والے ایسے نہیں سوچتے ۔ ماں باپ انسان ہیں اور اولاد بھی انسان ہیں ۔ انسان ہونے کے ناطے انکے برابر کے حقوق ہیں کسی کو کسی  پر تقویت  نہیں دی جاسکتی  اور نہ ایک دوسرے پر کسی صورت  بوجھ بننا چاہیے۔ یہ قانون فطرت ہے کہ اولاد ماں باپ سے پیدا ہوتے ہیں ۔ اولاد کو دنیا میں لانے کے ماں باپ اسباب ہیں اور اس میں بھی انکے اپس کی محبت،حوس اور مجبوری شامل ہیں ۔ وہ اولاد پر کوئی احساس نہیں کرتے اور نہ کوئی حق  بنتا ہے کہ وہ اولاد پر اسلئے بوجھ بنے رہے کہ انہوں نے اولاد کو جنم دیے ہیں ۔والدین ایک ذریعہ ہیں  انسانوں  کے تسلسل برقرار رکھنے کا اور  وہ اپنے حصے کا کردار ادا کرتے ہیں،  بس اور کچھ نہیں۔ البتہ ان کا حق سرکار پر ہے کہ وہ ریاست کو  ٹیکس دیتے ہیں اور ملک کی ترقی میں انکے کردار ہیں ۔تکلیف اور بڑھاپے میں انکاخیال رکھنا سرکار کا کام ہے۔ اسلئے ترقی یافتہ ممالک میں سرکار انکے لئے اولڈ ایج ہوم بناتے ہیں اور وہاں انکے ہر ضروریات کا خیال رکھا جاتا ہے ۔ اسی طرح حسب روایت اولاد اپنے حصے کا کردار ادا کرتے ہیں، ملک کے ترقی کیلئے کام کرتے ہیں اور انکے پاس وقت نہیں ہے کہ وہ انہیں سنبھالنے میں صرف کرے ۔ یہ تھے میرے دوست کے الفاظ ۔


یہ سب باتیں سن کر ایک کہانی یاد اگیا۔ اس کہانی میں  جب لوگ ضعیف العمر ہو جاتے تھے انکے اولاد  انہیں پہاڑ سے گرا کر  مار دیتے تھے۔ ان لوگوں کا کہنا تھا کہ اب انکے یہاں  ضرورت نہیں اور وہ اپنے حصے کے وقت گزار چکے ہیں۔ جدید دور میں والدین کے بارے میں خیالات تقریبا وہی ہے البتہ جدید دور میں ہر کام تہذیب کے ساتھ کیا جاتا ہے کسی کو مارنے کیلئے گلے کاٹنے کی ضرورت ہی نہیں بلکہ انجیکشن دیا جاتا ہے اور خاموشی کے ساتھ گزر جاتے ہیں ۔ خود سے دور کرنے کیلئے مارنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی بلکہ اولڈ ایج ہوم بھیج دیا جاتا ہے تاکہ وہ وہاں کھوٹ کھوٹ کر اپنے اولاد کیلئے تڑپتے مرجائے۔ اولاد کی  ترقی پسند مزاج میں کوئی  تبدیل نہ ہو  اور نہ تیمارداری کرتے ہوئے وقت ضائع ہو۔ اسلئے انہیں ادارہ و ٹرسٹ کے رحم وکرم پر چھوڑتے ہیں اور جب وہ مرجائے تو تدفین کرکے  قبر مبارک کو سنگمرمر سے سجاکر منسلک تختی پر سنہری حروف میں نام اور کارنامے درج کرکے واپس ہوجاتے ہیں۔ 


بقول میرے عزیز دوست والدین تو صرف اپنے کردار ادا کررہے تھے۔ تو پھر اولاد کو تکلیف میں دیکھ کر انسو بہاکر رونے کی کیا ضرورت تھی۔ جو آنسو ہمارے آنکھوں میں  کھبی ایک دفعہ نہیں ٹپکتے وہ آنسو  ماں باپ کے آنکھوں میں کہاں سے آتے ہیں ۔ کھانا پکانا تو انکے ڈیوٹی میں شامل تھے تو نوالا بنا بنا کر کھلانے کے پیچھے کیا مجبوریاں تھیں ۔سفر سے واپسی اور  رحصت کرتے ہوئے آنکھیں چوم کر اشک بہانا کونسا انکے ذمہ داری اور ڈیوٹی میں شامل تھی۔  اولاد لوریاں سونے کی عادی کیوں بناتے ہیں ۔ سکول سے واپسی پر بار بار پوچھنے کے پیچھے کیا لوجک کہ کہ بیٹا  سکول میں بھوک تو نہیں لگتا ہے۔جب اولاد  سفر پر نکلتے ہو تو ماں باپ آنکھوں میں  انسو بہا کر دعائیں دینا کیوں ضروری سمجھتے  ہیں ۔ 


 دنیا میں جنم لینا اولاد کیوں معمولی سمجھتے ہیں۔ جنم لینا کوئ معمولی اعزاز کی بات نہیں بلکہ اولاد کیلئے اللہ تعالی اور پھر والدین کی طرف سے عزیم تخفہ  ہے۔ ہر کسی کو اشرالمخلوقات کے صف میں کھڑا ہونے کی شرف حاصل نہیں ہوتی ہے۔ جس کو  زندگی جیسی نعمت کی اہمیت کا اندازہ نہیں انکے زبان سے ایسے الفاظ گونجتی ہے۔ جو محبت کو والدین کی مجبوری سمجھتے ہیں شاید انہیں معلوم نہیں کہ محبت کے ایسے ہزاروں لاکھوں  نشانیاں دور جدید میں  گندے نالوں میں اور کہاں کہاں بہ کر مٹ جاتے ہیں۔  ان کی محبت ہی تو ہے جو آج ہم انسان کی صورت میں ہوا،مٹی اور سمندر پر راج کررہے ہیں۔ ایسے شاید احساس کی حس سے محروم ہیں تب وہ ماں کے آنکھوں سے چمکتے شفقت نہیں دیکھتے۔ اولاد کے خاطر تڑپتے دل کی آواز سنائ نہیں دیتی ہے۔ 


اسلام نے والدین کو بہت اونچا مقام دیا ہے۔ اولاد کی جنت والدین کے قدموں میں رکھا ہے۔ ضعیف العمری میں انکے سامنے اف تک نہ کہنے کا حکم دیا۔ یہ مقام اسلام احساسات کی روشنی میں مرتب کی ہے ۔یہ اسلام کی خوبصورتی ہے کہ ہر کسی کا مقام و حقوق واضح ہیں۔ جس طرح اولاد بچپن میں والدین پر بوجھ نہیں  ہوتے اسی طرح والدین بھی اولاد پر کوئی بوجھ نہیں ۔ انکے احترام اور خدمات سے اولاد کی نجات ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے سب کو اپنے والدین کی خدمت کرنے اور دعائیں سمیٹنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین ۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57052

ناروے کی ٹیلی نار 4G سے مٹہ سوات کے ٹیلی نار نسوار تک ۔ فکرو خیال ۔ فرہاد خان

ناروے کی ٹیلی نار 4G سے مٹہ سوات کے ٹیلی نار نسوار تک ۔ فکرو خیال ۔ فرہاد خان

پچھلے ہفتے کسی اخبار میں ٹیلی نار کمپنی کی بابت ایک خبر زیر گردش تھی جس کے مطابق ناروے سے تعلق رکھنے والی ٹیلی کمیونکیشن کمپنی ٹیلی نار اپنے بوریا بستر سمیٹ کر پاکستان سے واپسی کا سوچ رہا ہے ۔اس کے ایک ہفتے بعد چترال کے مختلف علاقون میں ٹیلی نار سروس معطل ہونے کی خبرین انے لگیں ۔چترال کے کچھ علاقون میں اس معاملے پر احتجاجی جلسے جلوس بھی ہوئے۔معاملے کو پرنٹ و سوشل میڈیا پر بھی اٌٹھایا گیا اور کمپنی سے اس معاملے پر عوام الناس کو باخبر کرنے اور سگنلز کی جلد بحالی کے مطالبات بھی ہوئے لیکن کمپنی نے تاحال اس بارے صارفین کو اگاہ نہیں کیا ۔

ہم میں سے اکثر یہ سمجھ بیٹھے کہ شاید ٹیلی نار سروس بند ہوگی مگر چند علاقوں میں یہ سروس سٹیلایٹ سے منسلک ہونے کی وجہ سے بلاتعطل دسیتاب ہیں۔ سگنلز کی معطلی بارے سنی سنائی باتوں کے مطابق کہیں جنریٹر خراب ہونے کی باتیں ہوئیں تو کہیں تیل کی عدم دستیابی کو وجہ بتایا گیا لیکن گزشتہ ایک ہفتے سے سگنلز معطل ہونے کی اصل وجہ سامنے نہ آسکا۔

باخبر زرائع یہ بھی کہتے ہیں کہ ملک میں ٹیلی نار کمپنی کی جڑین اتنی مظبوط ہیں کہ الیکٹرانک میڈیا میں آپ اس بارے شکایت درج بھی کرائیں تو اسے نشر کرنے سے روک دیا جاتا ہے یہی نہیں بلکہ ٹیلی نار کی ناقص سروس بارے چترال ٹائمز کے ایڈیٹر جناب سیف الرحمان عزیز صاحب نے آواز اُٹھائی تو ان کے خلاف متعلقہ کمپنی نے دارلالقضا سوات میں کیس کیا ہوا ہے اور یہ کیس اب تک عدالت میں زیر سماعت ہے۔

اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ چترال کے دورافتادہ علاقون میں ٹیلی کمیونکیشن متعارف کرانے میں ٹیلی نار نے اہم کردار ادا کیا ہے جس سے دوافتادہ علاقے کے لوگون کی کمیونکیشن کے مسائل کافی حد تک حل ہوگئے ہیں ۔یہی نہیں ٹیلی نار 2G 4G میں اپ گریڈ بھی ہوچکا ہے مگر فور جی متعارف ہونے کے بعد موبائل سگنلز پہلے سے کمزور ہونے کی بھی اطلاعات ہیں ۔

ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ کمپنی جدید وقت کی ضروریات کے پیش نظر اپنے اپ کو اپڈیت کرتا رہے اور اپنے مواصلاتی نظام کو بہتر سے بہتر کرتا رہے اور ہوسکے تو موجودہ سسٹم کو سٹیلائٹ سے منسلک کرے مگر حالیہ دنوں کی انتہائی خراب سروس اور سگنلز کی عدم دستیابی سے ظاہر ہے کہ کمپنی اپنے صارفین کو وقت کی جدید ضروریات کے مطابق سروس فراہم کرنے سے قاصر ہے اور اس کا ثبوت گذشتہ ایک ہفتے کی کارکرگی ہے ۔

کل کسی دوست کے واٹس اپ سٹیٹس پر ٹیلی نار نسوار کے نام سے اشتھار نظر سے گزرا .مٹہ سوات میں ٹیلی نار نسوار کے نام سے نسوار متعارف کرایا گیا ہے ٹیلی نار کو چاہئیے کہ یا تو ٹریڈ مارک کی خلاف ورزی پر اس نسوار والوں کے خلاف بھی عدالت جائے،اپنا سسٹم درست کرلے یا اگر اسی طرح کا سروس دینا ہے تو اس سے بہتر ہے کہ اپنا بوریا بستر سمیٹ لے اپنے ٹاورز اکھاڑ کر کباڑے کو بیچ دے اور ٹیلی کمیونکیشن کا کاروبار بند کرکے نسوار کا کاروبار ہی شروغ کرے۔

چونکہ نسوار کی قیمت میں سو گنا اضافہ ہوچکا ہے اور پاکستان میں نسوار کی صنعت کا مستقبل روشن ہے اس لئے کمپنی کو اس صنعت میں قدم رکھنے،نسوار کے مختلف پکیجز کے زریعے زیادہ سے زیادہ کسٹمرز بنانے اور اس صنعت میں اجارہ داری حاصل کرنے کا بہترین موقع ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہئیے تاکہ موبائل صارفین حکومت وقت سے درخواست کرکے یو فون یا کسی دوسرے موبائل نیٹ ورک کا انتظام کرین ۔ اور اس انتہائی ناقص سروس سے جان چھڑائیں ۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57012

دھڑکنوں کی زبان -”ہماری تھکن گواہ ہے”- محمد جاوید حیات


ہم اس قوم کا حصہ ہیں کہ نہیں۔ہم اس ملک کا باشندہ ہیں کہ نہیں۔یہ ہمارے لیے معمہ ہے اس لیے کہ ہماری زندگیاں کوئی قیمت نہیں رکھتیں۔ہم قحط فاقے سے مرتے ہیں۔خبر چلتی ہے ہاو ہو ہوتا ہے مگر ہم برابر مر رہے ہوتے ہیں ہم عدم سہولیات کی وجہ سے زندگی کے ہاتھوں مجبور ہوتے ہیں ہماری فریادیں ہوتی ہیں ہماری دھایاں ہوتی ہیں لیکن یہ سب صدا بہ صحرا ہوتی ہیں۔ہسپتال مانگتے ہیں ہمارے مریض ایڑیاں رگڑتے ہیں۔کوئی ٹس سے مس نہیں ہوتا راستے مانگتے ہیں لیکن وہی پگڈنڈیاں ہیں پینے کا پانی، روشنی کے لیے بجلی، چولہے جلانے کے لیے گیس پھر آگے روزگار پھر مزدوری۔۔۔

ہم کیا کیا نہیں مانگتے لیکن ہماری حالت وہی ابتر کو ابتر ہے۔ادھر پروپگنڈے ہیں۔۔ٹی وی پہ اپوزیشن لیڈر آتا ہے کہتا ہے حکومت کو چلتا کرنا چاہیے۔اتنا غبن ہوا اتنی چوریاں ہوئیں۔اتنی نا انصافیاں ہوئیں اتنی مہنگائیاں ہوئی لوگ فاقوں سے مر رہے ہیں۔دوسرا اسی لمحے صحافیوں سے محو گفتگو ہوتا ہے۔۔یہ حکومت فلان ہے فلان ہے ملک دیوالیہ ہے خزانہ خالی ہے خطرناک حالات ہیں۔صاحب اقتدار فوراً قوم کے سامنے آتا ہے۔یہ مثالی حکومت ملک کی تاریخ میں پہلی بار آئی ہے۔یہ جو بات کرتے ہیں یہ بچے ہیں خیر ان کی عمریں بڑی ہیں لیکن عقل کے لحاظ سے بچے ہیں۔ملک میں کوئی منی لانڈرنگ نہیں۔۔

عدالتوں میں انصاف ہے۔۔کرپشن کا خاتمہ ہوچکا ہے۔چوروں کو پکڑا گیا ہے۔ملک جمہوری ٹریک پر ہے۔ اب کون جھوٹا ہے کون سچا یہ فیصلہ بیس کروڑ بد قسمت عوام نہیں کر سکتے۔ ایسے لیڈر جن کو سچ کی توفیق نہیں ہوتی یہ کم بختوں کے ہی راہنما ہو تے ہیں۔جب ان کا چہرہ روشن نہیں تو قوم کا چہرہ کیا روشن ہو جب ان کی نیتوں میں فتور ہو تو قوم کیا خاک کامیابی اورترقی کی راہ پہ ہو گی۔اس اندھیر نگری میں ہماری تھکن گواہ ہے کہ ہم بے سکون ہیں۔ہماری جیبیں خالی ہیں۔ہماری امیدیں مٹ چکی ہیں۔مایوسیوں نے ہمارے ارد گرد گیرا تنگ کیے ہیں۔ورنہ تو ایک راج مزدور صبح ترو تازہ گھر سے مزدوری کے لیے نکلتا اور شام کو واپسی پر اس کا چہرہ کھلتا ہوا آتا کیونکہ اس نے کمائی کی ہے۔

ایک بندہ عدالت اس امید پہ جاتا کہ اس کو انصاف ملے گا وہ اس خوف میں مبتلا نہ ہوتا کہ پتہ نہیں اس کے ساتھ کیا ہو گا۔ایک ذمہ دار نوکر اپنے آفس اس مان کو لیے جاتا کہ وہ اس قوم کی سچی خدمت کرے گا اپنے فرایض کما حقہ ادا کرکے شام کو لوٹے گا۔ایک ماں اپنے بچوں کو اس آرزو میں سکول کے لیے تیار کرکے رخصت کرے گی کہ ان کے بچے تعلیم و تربیت کے لیے سکول جا رہے ہیں۔لیکن یہاں پہ الٹی گنگا بہتی ہے۔سب خوف زادہ ہیں سب مایوس ہیں۔ جس سے پوچھو مایوسی کی باتیں کرے گا مجبوریاں گنوایے گا۔مسائل کی لمبی فہرست بتا دے گا۔وہ سب سے مایوس دکھائی دے گا۔

اس کو کسی پارٹی کسی سسٹم کسی حکومت سے بھلائی کی کوئی امید نہ ہوگی۔وہ تھکا تھکا دیکھائی دے گا۔ہم ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں جہان عدالت متنازعہ، جچ بے اعتبار،استاد بے صلاحیت انتظامیہ مصلحت پسند اقربا پرور۔تو بے سکونی لازم ہوگی اور کیا ہوگی۔لوگ تھکے ماندھے اور پژمردہ و افسردہ دیکھائی دیں گے۔ ہم طاقت طاقت کا پہاڑہ پڑھتے رہتے ہیں۔۔جمہوریت کی طاقت۔۔۔ووٹ کی طاقت۔۔عوام کی طاقت۔۔لیکن یہ ساری طاقتیں ایک غیرت مند قوم کے لیے کارگر ہوتے ہیں۔ان کے حس ہوتی ہے قوت فیصلہ ہوتا ہے ذوق انتخاب اور تدبر و ادراک ہوتا ہے کہ انتخاب کیا بلا ہے ورنہ تو یہ سب بے کار کی باتیں۔۔۔۔افسانے۔۔۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57009

’کچھ‘ کیا جائے – قادر خان یوسف زئی کے قلم سے

جنگ عظیم کے ایک پہاڑی مورچے پر ایک سپاہی رائفل تانے افق پر نشانہ باندھ رہا تھا، اس کا خیال تھا کہ دشمن سامنے کی پہاڑیوں میں پناہ گزین ہے، وہ تاک میں تھا کہ جوں ہی اسے وہاں کوئی جنبش محسوس ہو وہ فوراً گولی چلادے، لیکن عین اُس وقت اچانک اس کی نگاہ اپنے پائوں کی جانب جھکی اور اس نے اپنے پائوں سے کوئی تین فٹ نیچے دشمن کے ایک سپاہی کو اپنی جانب رائفل تانے پایا، اس کے حواس خطا ہوگئے اور منہ سے بے اختیار نکلا کہ ’’آہ میں دشمن کو اپنے سے دور سمجھتا تھا اور وہ عین میری آغوش میں ہے۔‘‘ یہ ضرب المثل بھی بنی نوع انسان پر صادق آتی ہے کہ چراغ تلے اندھیرا۔ بے شک انسان مظاہر فطرت کو مسخر کرنے میں اپنے آبا و اجداد سے بہت آگے بڑھ گیا، لیکن جہاں تک اس کے اپنے رہنے سہنے اور دوسروں سے مل کر زندگی گزارنے یعنی اخلاقیات و سیاسیات کا تعلق ہے، وہ اب تک وہیں ہیں، جہاں ہزار برس پہلے یونان کے قدیم باشندے تھے۔

ملک کا سیاسی منظرنامہ جوں کا توں ہے۔ حکومت، حزب اختلاف ایک دوسرے سے ناراض توحزب اختلاف اور اقتدار کی جماعتوں میں نظریاتی اختلافات بھی نمایاں ہیں، تاہم انہیں کس امر نے جوڑے رکھا ہے، اس پر قیاس آرائیوں کا طوفان تھمنے میں نہیں آتا۔ ویڈیو، آڈیو، اکاؤنٹس، فنڈنگ اور سکروٹنی لیکس کا سونامی شدت اختیار کرتا جارہا ہے۔ سیاسی مفاہمت اور ڈائیلاگ کے لئے کوئی ایک کوشش بھی سنجیدہ نظر نہیں آتی، لگتا یہی ہے کہ اب اس قسم کی کوششوں کو دہرانے کا بھی کوئی فائدہ نہیں رہا، فریقین ایک دوسرے کی جانب انگلیاں اٹھاتے اور منہ میں زبان کو بے لگام بھی رکھے ہوئے ہیں، جس کی وجہ سے سیاسی جماعتوں کے درمیان ایک دوسرے کے خلاف بیانات کی بم باری جاری ہے، جس سے حالات میں بہتری آنے کے بجائے ان کے مزید خراب ہوجانے کا خدشہ ہے۔ سیاسی حالات اس قدر مخدوش نظر آنے لگے ہیں کہ بعض اوقات ایسا لگتا ہے کہ کسی تیسری قوت یا نظام کی راہ ہموار کی جارہی ہو۔ ملک کا مستقبل یرغمال بنا ہوا لگتا ہے، جسے جمہوریت پسند خطرے کی علامت قرار دے رہے ہیں۔


بادیٔ النظر لگتا ہے کہ حزب اقتدار و اختلاف میں قانون سازی اور آئین میں ترامیم کے لئے، سیاسی و جمہوری ماحول میں ایک دوسرے کے قریب آنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں بچی، کیونکہ حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کے خلاف سیاسی محاذوں پر ڈٹے ہوئے اور اپنی کوششوں میں مصروف ہیں۔ ملک کی مجموعی سیاسی صورت حال، درپیش اندرونی و بیرونی خطرات، پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی سازشیں، شمال مغربی سرحدوں پر امن و امان کی بے یقینی صورت حال، سندھ میں دیہی و شہری تفریق پیدا کرنے کے تحفظات، بالخصوص کراچی کے احساس محرومی کو دور کرنے کے لئے ٹھیک نیت کا ہونا ناگزیر ہے۔ پارلیمنٹ میں قانون سازی پر جس طرح حکومت عددی اکثریت کا مظاہرہ کرتی ہے، اس سے بادیٔ النظر نتیجہ نکلتا ہے کہ کم ازکم پارلیمنٹ کے ذریعے موجودہ حالات میں حکومت کی رخصتی فی الحال ممکن نہیں، پی ڈی ایم یا اپوزیشن کا جو بھی احتجاجی لائحہ عمل ہو، بظاہر اس کا فائدہ ماضی کی طرح پی ٹی آئی کو ہی پہنچے گا۔ (ق) لیگ، ایم کیو ایم (پ) کے معاملات ان سے ٹھیک چل رہے ہیں، تمام ریاستی اقدامات کو حکومتی اتحاد کی مکمل حمایت حاصل ہے اور جو بھی پالیسیوں کے اثرات عوام پر مرتب ہورہے ہیں، اس میں ان حکومتی اتحادی جماعتوں کا مکمل حصہ ہے۔ ہر ایشو کو لے کر ایسے تمام اقدامات، جن پر حزب اختلاف حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتی ہے، اس پر پی ٹی آئی کو اپنی حلیف جماعتوں کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ پارلیمنٹ میں حکومت کو مشکلات کا سامنا اس لئے نہیں ہوتا، کیونکہ انہیں حکومتی شراکت داروں کا مکمل اعتماد حاصل ہے، اس لئے ان حالات میں سیٹ اپ برقرار رہنے کی امید بھی باقی رہے گی اور مدت اقتدار کے آخری دور میں کسی بھی جماعت کا سیاسی شہید بننے کی خواہش سعی لاحاصل ہوگی۔


بہتر یہ بھی ہوتا کہ برسراقتدار جماعت پارلیمنٹ میں ایسے حالات ہی پیدا نہ ہونے دے کہ حزب اختلاف کو ان کی پالیسیوں پر تنقید کا موقع ملے، عمومی طور پر تو یہی دیکھنے میں آرہا ہے کہ جیسے یہ وتیرہ بن چکا کہ کسی کو کسی کی بات ہی نہیں سننی، لیکن جب پانی سر سے گزرنے لگتا ہے تو ایک دم سرگرمیاں شروع ہوجاتی ہیں۔ 2022 میں بھی اگر یہی صورت حال رہی تو راقم کے ذاتی خیال میں ایسے مناظر مناسب نہیں جو ہمیں 2018 سے2021 کے آخر تک دیکھنے کو ملے۔ ضروری ہے کہ فریقین اپنے رویوں میں پہلے مناسب تبدیلی لائیں، اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ عوام کے لئے ’کچھ‘ کیا جائے، موجودہ حکومت کو پانچ برسوں کا مینڈیٹ ملا ہے، ہم جانتے ہیں کہ مہنگائی، بے روزگاری، لاقانونیت، دہشت گردی اور انتظامی امور آئیڈیل نہیں، لیکن انہیں کوئی باہر سے آکر تو ٹھیک نہیں کرے گا، جو حالات پیدا ہوچکے، ان کو ٹھیک کرنا آسان نہیں رہا اور اب قطعی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ انہیں مہینوں یا اگلے چند برسوں میں بھی درست نہیں کیا جاسکتا، تو اس کی مکمل ذمہ داری کس پر ڈالی جائے، اس کا فیصلہ بھی عوام پر ہی چھوڑ دیں۔


پارلیمنٹ ایسا پلیٹ فارم ضرور ہے، جہاں سیاسی تدبر اور مفاہمت سے عوام کو خاصی طمانیت مل سکتی اور اس کے اقدامات سے مثبت اثرات بھی دوررس نتائج دے سکتے تھے، لیکن اس امر کو پورے وثوق کے ساتھ نافذالعمل کیوں نہیں کیا گیا، یہ وہ سوال ہے جس کا جواب ہر سیاسی جماعت کو عوام کے سامنے دینا ہوگا۔ دشمن ہماری اجتماعی غلطیوں کی طاق میں اور وہ ہمارے پائوں کے نیچے ہم پر نشانہ تانے بیٹھا ہے جب کہ ہماری بندوقوں کا رخ افق پر ہے۔ ہمیں من حیث القوم یہ سمجھنا ہوگا کہ ہمارا ہر مثبت قدم مملکت کو ترقی اور کامیابی پر گامزن کرسکتا اور منفی وتیرہ بربادی کا نوشتہ بھی بن سکتا ہے۔ عوام اپنے دیرینہ مسائل کا ذمے دار قریباً ہر سیاسی جماعت کو ہی سمجھتے ہیں، کسی کا حصہ کم تو کسی کا زیادہ ہوگا، لیکن ہیں سب برابر کی ذمے دار، اس پر کوئی دورائے نہیں۔ اب مستقبل کا نقشہ کیا ہوگا، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا، لیکن شاہین کی پرواز میں تھکاوٹ ہے، نشیمن پر بسیرا کرنے کے لئے پوری جان لڑانا ہوگی۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
56999

قومی وسائل کا بے دریغ استعمال ۔ محمد شریف شکیب

قومی وسائل کا بے دریغ استعمال ۔ محمد شریف شکیب

پارلیمنٹ کی ذیلی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں انکشاف ہوا ہے کہ سابقہ دور حکومت میں پی آئی اے کی جانب سے 30 خالی آسامیوں کا اشتہار دیاگیا تھا۔ ان اسامیوں پر250 مینجمنٹ ٹرینی افسران بھرتی کئے گئے،کمیٹی نے ایف آئی اے کی جانب سے انکوائری مکمل کرنے میں تاخیر پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے متعلقہ ایف آئی اے کے افسر کو طلب کرلیا،کمیٹی کے رکن کمیٹی نور عالم خان کا کہنا تھا کہ پی آئی اے کا یہ حال ہے تین تو جہاز رہ گئے ہیں۔ جو رہ گئے وہ بھی ناکارہ اور کھٹارہ ہیں جس بورڈنے خالی اسامیوں پر آٹھ گنا زائد بھرتیوں کا فیصلہ کیا اس کے خلاف بھی کاروائی ہونی چاہئے۔ایوی ایشن ڈویژن کے2011سے 2018تک کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا گیا، ایف آئی اے حکام نے کمیٹی کو بتایاکہ انکوائری آخری مرحلے میں ہے۔

کمیٹی کے چیئرمین نے کہا کہ تین سال سے آپ کیس لے کر آرام سے بیٹھے ہوئے ہیں۔ کسی کو اپنا کام وقت پر نمٹنانے کی پرواہ ہی نہیں۔کمیٹی نے کیس ایف آئی اے کے سپرد کر دیا۔ آڈٹ حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ پی آئی اے کی جانب سے خریدے گئے جہازوں کی اینوینٹری استعمال نہ کرنے کی وجہ سے چار ارب 81کروڑ کا نقصان ہوا،سیکرٹری ایوی ایشن ڈویژن نے بتایا کہ ایک ارب بیس کروڑ روپے مالیت کی انوینٹری ضائع کردی گئی۔قومی اداروں میں حکومتی مداخلت کی یہ ایک معمولی جھلک ہے۔ یہ صرف قومی فضائی کمپنی تک محدود نہیں، ملک کے ہر سرکاری ادارے کا یہی حال ہے۔

گذشتہ پچاس سالوں میں ہر حکومت نے پی آئی اے، پاکستان ریلوے، کسٹمز، ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن، پاک پی ڈبلیو ڈی، کنسٹریکشن اینڈ ورکس، صحت اور تعلیم سمیت تمام اداروں میں میرٹ کی دھجیاں اڑاتے ہوئے اپنے ووٹروں اور سپورٹروں کو بھرتی کیا۔اور اکثر سرکاری اداروں میں بھاری رشوت لے کر لوگوں کو سرکاری ملازمتیں دی گئیں۔نااہل اور نالائق لوگوں نے قومی اداروں کا بیڑہ غرق کردیا۔ان اداروں میں کرپشن اور رشوت ستانی در آئی۔ آج کسی بھی سرکاری محکمے میں رشوت دیئے بغیر لوگوں کا جائز کام بھی نہیں ہوتا۔ جب کوئی حکومت ملازمین کے بوجھ تلے دبے ہوئے اداروں میں چھانٹیاں کرنا چاہے تو یہ ملازمین لاٹھیاں اور ڈنڈے اٹھاکر سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ عدالتوں میں درخواستیں دائر کی جاتی ہیں جن سے عدلیہ پر بھی غیر ضروری مقدمات کا بوجھ پڑتا ہے اور انصاف کی فراہمی میں تاخیر ہوتی ہے۔

خیبر پختونخوا حکومت نے محکمہ تعلیم میں رشوت اور سفارش کی بنیاد پر بھرتی ہونے والے اساتذہ اور دوسرے ملازمین کو انٹری ٹیسٹ پاس کرنے کا پابند بنانے کا اعلان کیاتھا۔ مگر کسی مصلحت کے تحت اس فیصلے پر عمل درآمد روک دیا گیا۔ ادارے عوام کے فائدے اور انہیں بنیادی شہری سہولیات فراہم کرنے کے لئے بنائے جاتے ہیں جب یہی ادارے عوام کا استحصال کرنے لگیں اور قومی خزانے پر بوجھ بن جائیں تو ان کی تطہیر اور تشکیل نو ضروری ہوتی ہے۔

کرپشن سے پاک نظام کا قیام موجودہ حکومت کا انتخابی منشور تھا مگر ساڑھے تین سالوں میں اس منشور پر دس فیصد بھی عمل درآمد نہیں ہوسکا۔ جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ قومی اداروں کی رگوں میں کرپشن سرایت کرگئی ہے۔ کسی دل جلے نے کہا ہے کہ پاکستان میں سرکاری اداروں کے ملازمین کام نہ کرنے کی تنخواہ اور کام کرنے کی رشوت لیتے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ سرکاری اداروں میں خوف خدا رکھنے والے لوگ بھی ہیں مگر ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ جس ادارے میں رشوت کو حق سمجھ کر لیاجاتا ہو۔وہاں ایماندار، دیانت دار اور فرض شناس اہلکار کی کوئی قدر نہیں ہوتی اور اسے کھڈے لائن لگادیا جاتا ہے۔بدقسمتی سے ہم میں مرنے اور اللہ کے سامنے جوابدہی کا خوف نہیں رہا۔ جس دن یہ خوف دل میں پیدا ہوجائے، رشوت ستانی، کرپشن اور سفارش کا کلچر اپنی موت آپ مرجائے گا۔ اس سلسلے میں علما اور اساتذہ کرام اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔

Posted in تازہ ترین, مضامین
56971

بزمِ درویش ۔ سیاہ رات ۔ تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

دسمبر کا آخری عشرہ میں دن بھر لوگوں سے ملنے کے بعد گھر کی طرف روانہ تھا میں گھر جانے سے پہلے واک کے لیے قریبی پارک میں اُتر گیا تاکہ جسم میں بڑھتے ہوئے چربی کے ذخائر اور کو لیسٹرول کو کنٹرول میں رکھا جا سکے سورج نے جیسے ہی مغرب میں پناہ لی تو رات کی دیوی نے تیزی سے اپنی سیاہ گھنیری زلفوں کو شہر میں پھیلا کر سورج کی تھوڑی بہت روشنی کو بھی چاٹ لیا تھا دن کے اجالے پر رات کی سیاہی ہر گزرتے سیکنڈ کے ساتھ غالب آتی جارہی تھی میں جیسے ہی آرام دہ گرم گاڑی سے نیچے اُترا تو دسمبر کی یخ برفیلی ہواؤں نے میرا استقبال کیا برفیلی یخ ٹھنڈی ہواؤں سے پتہ چل رہا تھا کہ شمالی علاقہ جات برفستان بن چکا ہے ملکہ کوہسار مری اور شمالی علاقہ جات نے برف کی چادر اوڑھ لی تھی.

اسی لیے برفیلی سرد ہواؤں نے پاکستان کے باقی حصوں پر بھی شدید ٹھنڈکی چادر تان دی تھی میں پارک میں داخل ہوا تو اکا دکا لائٹیں جو کُہر میں ٹھٹھری نظر آرہی تھیں اُن کی روشنی بھی کُہر دھند کی وجہ سے دھندلی نظر آرہی تھی جب میں نے پارک میں قدم رکھا تو سیاہ رات نے چاروں طرف تاریکی اور سناٹا طاری کر دیا تھا میں نے جیکٹ کے بٹن بند کئے منہ پر ماسک سر پر گرم مفلر رکھا ہاتھ جیکٹ کی جیبوں میں ڈالے اور تیزی سے پیدل چلنے لگا یخ ٹھنڈی ہواؤں کی وجہ سے درجہ حرارت منفی کے قریب لگ رہا تھا میں نے جب تیز چلنا سٹارٹ کیا تو سردی زیادہ محسوس ہو نے لگی لیکن میں اِس امید پر کہ ایک چکر کے بعد جب جسم گرم ہو جائے گا تو سردی کا احساس بھی کم ہو جائے گا دسمبر کی اداسی رات کا سناٹا اور تاریکی چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی شدید ٹھنڈ کی وجہ سے مجھے کوہ مری میں گزارے دن یاد آنے لگے .

جب ہم مال روڈ سے رات کو چاروں طرف پڑی برف کے اندر دھنستے دھنستے گھروں کو جاتے یاد آگیا کس طرح ہم گھنٹوں تک برف میں سے گزر کر اپنے گھروں میں جا کر گرم ہیٹروں کے سامنے بیٹھ کر گرما گرم چائے وغیرہ پیتے۔ میں مری کی سردی کو یاد کرتے ہو ئے آگے بڑھ رہا تھا دس منٹ تیز قدموں کے بعد رگوں میں حرارت دوڑنے لگی اور سردی کا احساس بھی کم ہوتے لگا تو میں اردگرد کے ماحول اور لوگوں کا مشاہدہ بھی کرنے لگا رات کے وقت بہت کم لوگ موجود تھے بلکہ نہ ہو نے کے برابر تھے منفی درجہ حرارت شدید سردی کی وجہ سے لوگ اپنے آرام دہ گھروں میں گھس کر آرام کر رہے تھے سردیوں کی راتوں میں لوگ ویسے بھی جلدی آرام دہ گرم گداز بستروں میں گھس جاتے ہیں یا پھر ہیٹر لگا کر ڈرائی فروٹ کے ساتھ مختلف ٹی وی چینلوں کی نشریات سے لطف اندوز ہو تے ہیں یا پھر آج کل کی آفت مو بائل جس میں سوشل میڈیا نیٹ کی ہو شربا رونقیں کہ ہر بندہ صوفے یا بستر میں اپنی ہی دنیا جگا کر بیٹھا ہو تا ہے

کوئی مو بائل کے ساتھ مصروف تو کسی نے لیپ ٹاپ کھول رکھا ہو تا ہے اور جوبچ جائیں وہ اپنی مرضی کے چینلوں سے لطف اندوز ہو تے نظر آتے ہیں جو افورڈ کر سکتے ہیں وہ گاڑیاں لے کر شہرت کے لذت کدوں میں اپنی مرضی کے گرما گرم لذیذہ کھانوں سے لطف اندوز ہو تے ہیں سیر واک کے شو قین اب پارکوں کا رخ صبح یا دوپہر کو کرتے ہیں سیا ہ راتوں میں مُجھ جیسے دیوانے ہی آتے ہیں مجھے واک کرتے آدھا گھنٹہ ہو چکا تھا رات کے اندھیرے نے دن کے اجالے کو پوری طرح نگل لیا تھا اب میں واک کے دوران اطراف کا بھی مشاہدہ کر تا جارہا تھا اِس عمل کے دوران میں واکنگ ٹریک سے تھوڑا ہٹ کر ایک درخت کے نیچے کچھ حرکت محسوس کی شروع میں تو میں نے نظر انداز کیا کہ شاید کوئی عاشقوں کا جوڑا من موجی میں مصروف ہو گا لیکن انسانی جبلت کے تحت تجسس کھوج کے دریچے میرے اندر وا ہو چکے تھے اب میں جیسے ہی اُس درخت کے پاس سے گزراتو بغور دیکھنے کی کو شش کی درخت کے نیچے بہت اندھیرا تھا لیکن دو ر سٹریٹ لائٹ کی دھندلی روشنی میں مجھے محسوس ہوا جیسے کوئی ذی روح رضائی لئے درخت کے نیچے سو رہا ہے

کبھی کبھی وہ حرکت بھی کرتا اب میں تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر تھوڑا قریب ہوا تو قریب جانے سے پہلے اخلاقی طور پر آواز دی کوئی ہے تا کہ اگر کوئی عاشقوں کاجوڑا ہے تو جواب دے یا کوئی انسان بھی ہے تو آواز دے لیکن میرے بار بار پکارنے پر جب جواب نہیں آیا تو میں نے موبائل کی روشنی آن کی اور فرش نشین کے بہت قریب ہو کر دیکھنے لگا کر سو رہا ہے لیکن منظر حیران کن تھا کاغذوں اور ردی کے ٹکڑوں کا بہت بڑا ڈھیر تھا جس کے قریب ایک مفلوک الحال مجذوب شخص پھٹی ہوئی رضائی میں لیٹا تھا رضائی کیاچیتھڑے تھے رضائی جگہ جگہ سے پھٹی ہوئی تھی گردن کے نیچے تکیے کی بجائے پرانے کپڑوں کا گچھا سا تھا جس پر ایک زندہ انسان لیٹا تھا دھندلی روشنی میں دیکھا پچاس سال سے اوپر کا انسان بے ترتیب لمبے لمبے بالوں کے ساتھ بالوں کی حالت بتا رہی تھی بہت عرصہ پہلے اِن کو دھویا گیا ہے.

داڑھی کے بال لمبے خودرو جھاڑیوں کی طرح بے ترتیبی سے چہرے پر پھیلے تھے میں نے جب اچھی طرح دیکھ لیا کہ فرش پر موجود شخص ہوش و حواس میں نہیں کوئی مجذوب پاگل دیوانہ ہے جو موسموں کی قید سردی گرمی سے آزاد زندگی کے دن پورا کر رہا ہے میں نے اپنی طرف متوجہ کرنے کی کو شش کی لیکن وہ میری طرف متوجہ ہونے کی بجائے اپنے جسم کے مختلف حصوں پر خارش کرنے میں مصروف تھا خارش کرتے ہوئے جب وہ اپنے جسم کو حرکت دے رہا تھا تو نئی حقیقیت سامنے آئی کہ چھیتڑا نما پھٹی ہوئی رضائی میں کوئی اور جسم بھی تھا جو کسمسا کر اپنی موجودگی کا احساس دلا رہا تھا اب مجھے لگا شاید اِس کی بیوی یا کوئی اور انسان بھی ہے اور میں نے اِن کے آرام میں مخل ہوا ہوں لہذا میں اٹھ کر دوبارہ واکنگ ٹریک پر آگیا میراجذبہ ہمدردی پوری طرح بیدار ہو چکا تھا کہ کس طرح جب اِس کی مدد کروں اِس کو کھانا دوں گرم رضائی کا انتظام کروں یہ بیچارہ ٹھنڈی راتوں میں کیسے گزار ا کرتا ہوگا میں انہی سوچھوں میں گم تھا اور جب چکر پورا کر کے دوبارہ اُس طرف آرہا تھا تو دور پارک میں دو سائے داخل ہو ئے جو موبائل کی روشنی میں مجذوب کی طرف بڑھ رہے تھے,

سایوں کی قد و قامت سے لگ رہا تھا ایک بڑا اور ایک بچہ حرکت کر رہے ہیں میں بھی تجسس سے مجبور تیزی سے مجذوب کی طرف بڑھنے لگا میرے پاس جانے سے پہلے دونوں سائے مجذوب تک پہنچ چکے تھے جب میں وہاں پہنچا تو خوشگوار حیران کن منظر میرا منتظر تھا مجذوب اٹھ چکا تھا دھندلی روشنی میں ایک عورت ایک دس سالہ بچے کے ساتھ آئی تھی دونوں نے ہاتھ میں چائے کا تھرماس پکڑا ہوا تھا شاپر سے دو پیالے نکالے دونوں کو گرما گرم چائے سے بھر دیا گرما گرم ڈبل روٹی بند بھگو کر مجذوب کے منہ میں ڈالنے لگا دوسرا انسا ن دیکھ کر میں حیران رہ گیا ایک کتیا اور اُس کے دو بچے دوسرے پیالے سے چائے پی رہے تھے مجذوب کا ساتھی ایک کتیا تھی جو اپنے بچوں کے ساتھ رضائی میں گھسی تھی خدا کے نظام پر حیران کس طرح دیوانوں کا خیال رکھتا ہے میں پاس بیٹھ گیا عورت کو سلام لیا تو وہ بولی میرا بیٹا دن کو یہاں کرکٹ کھیلتا ہے اِس کی اِس دیوانے سے دوستی ہے اِس لیے صبح شام کھانا دینے یہاں آتا ہے میں نے بچے کی آنکھوں میں روشنی دیکھی وہ روشنی جس سے راتوں کا اندھیرا دور ہو تا ہے انسانیت کی پر شکوہ عمارت ایسے ہی انسانیت کے معماروں سے قائم و دائم ہے اور اللہ تعالی کس طرح اپنے بندوں کا خیال رکھتا ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
56969

مختصرسی جھلک ۔ امید نو۔ فریدہ سلطانہ فَری

نیے سال کا سورج اپنی پوری اب وتاب کے ساتھ طلوع ہوچکا ہےاورہم سب نئی امیدوں اورامنگوں کے ساتھ نئے سال کا اغاز کرکے زندگی کی جدوجہد میں پھر سے مصروف عمل ہوگئے ہیں۔ اب اسکا فیصلہ اگے وقت ہی کرئے گا کہ ہماری امید یں اورخواب پورے ہوں گیں یا ہم انہی امیدوں اورپرانے خوابوں کا بوجھ لیکر پھرسے اگلا سال شروع کریں گیں۔

اگرحقیقت کی انکھ سےدیکھا جائے توہمارے ارد گرد سبھی لوگ اپنے کاندھوں پرعرصے سے ٹوٹے ہوئے خوابوں اورمجبوریوں کا بوجھ  لیے پھر رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئی بیماری کا بوجھ۔۔۔۔۔۔۔ تو کوئی غربت کا، کوئی بے روزگاری و گھریلو تنازعات کا ،کسی کو رشتوں کے بچھڑنے  کا غم تو کسی کو رشتوں کے بدلنے کی فکر۔غرص لوگ مختلف مسائل و مشکلا ت و ٹوٹے ہوئے خّوابوں کے ساتھ ساتھ نئی امیدیں لیکرنئے سال میں داخل ہوچکے ہیں۔

سنا ہے کہ ہمارے معاشرے کا وہ  حساس طبقہ جسے عورت ،خاتون یا بچی،ان مختلف ناموں سےپکاراجاتا ہے اس نے بھی اپنے ٹوٹے ہوئےخوابوں کےساتھ ساتھ نئی امیدیں لیکرنَئے سال کا اغآز کیا ہے

 جب بات امیدوں اورخوابوں کی ہورہی ہے تو میں بھی انہی کے فہرست میں شامل ہوں کیونکہ میرے خواب و امیدیں بھی ان ہی سے منسلک ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور سب سے اہم میرے خواب جو ریزہ ریزہ ہیں ان کا بھی تعلق اسی عورت ذات سے ہے کیونکہ ہمارے معاشرے میں یہ حساس طبقہ جن جن معاشی ،معاشرتی ،سماجی مسائل و مشکلا ت کا شکار ہے وہ بیان کرنے کے قابل نہیں ,مگر ہمارے ہاں بعض خواتین بینادی سہولیات سے بھرپوراچھی زندگی بھی گزار رہی ہیں۔۔۔

یہاں میرا اشارہ وہ خواتین ہیں جو زندگی کے ساتھ صحیح  معنوں میں جنگ لڑ رہی ہیں اورایک نہ ختم ہونے والی جدوجہد میں مصروف ہیں مگرمیں نا امید بھی نہیں مجھے یقین ہے کہ ہم اس سا ل نو میں ان تمام مسائل پربہت نہ سہی کچھ حد تک توقابوسکیں گیں جس کی بیناد پرعورتوں کو سہولیات سے بھرپورزندگی میسرہوگی اوران کے بنیادی حقوق ان کو میسر ہوںگیں

 جیسے کہ،جا یئداد یا وراثت میں حق،مرضی کی شادی ،صحت کی سہولیات تک دسترس ،گھروں کے اندر یکساں اورمساوی سلوک ،اور گھروں سے باہرمعاشرتی تحفط اور اس کی یقین دھانی کے لئے قانون سازی خآص کر ملازمت کی جگہوں پر ، معیاری اور بینادی تعلیم تک سب کی رسائی ،معاشی خود مختاری ،جنسی استحصال سے تحفظ وغیرہ وغیرہ  یہ تمام ایسے حقوق ہیں جن کو اللہ نے توعورت کوعطا کی ہے مگرجب کام ہم انسانون کے ہاتھ ائی تو ہم لوگوں نے اپنے مفاد اوراسانی کی بیناد پرطرز زندگی ترتیب دی جس کے نتیجے میں معاشرے کا توازن بھی بگڑ گیا اور اس کے ساتھ  ساتھ ایک مسِئلے نے بہت سے اورمسئلوں کو دعوت دے ڈالی۔

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged ,
56966

حکومت گورنمنٹ ملازمین کو تنگ کرنا چھوڑ کر عوام کو ریلیف دینے کی کوشش کرے- تحریر: ناصرعلی شاہ


پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کا گورنمنٹ ملازمیں کیساتھ رویہ افسوسناک رہا ہے تین سالوں کے اندر ملازمین کسی نہ کسی وجہ سے ڈیوٹیاں چھوڑ کر سڑکوں پر نکلنے پر مجبور کئے جاتے رہے۔ حکومت ایسی چال چلتی ہے جس کی وجہ سے ملازمیں کو مجبوراً نکلنا پڑتا ہے اور حکومت اسی احتجاج کا فائدہ اٹھا کر سادہ لوح عوام کی ذہنوں میں ملازمین کے خلاف نفرت پیدا کرتی ہے ان کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ ملازمیں کو سب سہولیات مہیا کرنے کے باوجود بھی خوش نہیں اور احتجاج کررہے ہیں، مگر صورتحال ایسا نہیں ہے کسی کو احتجاج کا شوق نہیں ملازمین خود تنگ آچکے ہیں مگر مجبوراً نکلنا پڑتا ہے تاکہ کسی کا مستقبل بچایا جا سکے۔


صورتحال ملاحظہ فرمائیں۔


تحریک انصاف کی حکومت نے پشاور کی ہسپتالوں کو ایم ٹی آئی نام دیکر نیم پرائیوٹائز کر دی ہے ، یہی نہیں آہستہ آہستہ وہاں سرکاری ملازمین کا داخلہ بند کروا دی گئی اور دہاڑی سسٹم کے حساب سے ایم ٹی آئی ملازمیں بھرتی کئے جارہے ہیں ، اچھا یا برا وہ ان کا اختیار تھا کر دئیے مگر ساتھ گورنمنٹ ملازمیں کو تنگ کرکے بھگانے کا سلسلہ جاری رہا اور آج عہدوں کا غلط استعمال کرکے ایم ٹی آئی ہسپتالوں سے سول سرونٹ یا سرکاری ملازمین کو زور و زبردستی ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سروسز رپورٹ کرنے کا حکم صادر کیا جا چکا ہےجو سراسر ظلم اور نا انصافی کے سوا کچھ نہیں ۔


کچھ سوالات ۔۔
کیا یہ سرکاری ملازمین صوبہ خیبر پختونخوا کے شہری نہیں ؟
کیا صوبے میں نفرت و تصادم کو ہوا نہیں دی جارہی؟؟
کیا یہی سرکاری ملازمین پشاور کے ہسپتالوں میں بہتریں خدماتِ نہیں دے چکے ہیں؟؟
کئی ملازمین ادارے سے این او سی لیکر لاکھوں روپے خرچ کرکے ڈیوٹیوں کیساتھ ایجوکیشن حاصل کر رہے ہیں ان کی نقصان کا ازالہ کون کریگا؟؟


سرکاری ملازمت ختم کروانے کا بہانہ:
ایم ٹی آئی ایکٹ کو جواز پیش کرکے صوبے سے سرکاری ملازمتیں ختم کروائی جا رہی ہیں وہ تمام عوام جن کے بچے ابھی پڑھ رہے ہیں جان لیں ان کے لئے عزت مند نوکریاں نہیں ہیں۔


حکومت کے تمام کارندے جو اپنے مفاد کی خاطر یہ سب کچھ کر رہے ہیں جان لیں وہ جابرانہ طرز کی حکمرانی کر رہے انا پرستی بلکہ شیطاں کے راستے کو اپنائے ہوئے جو اللہ کو سخت نا پسند ہے حکمرانی کے نشے میں دھت کچھ دیکھائی نہیں دے رہا۔۔


سرکاری ملازمین جو ایم ٹی آئی ہسپتالوں میں بہترین انداز میں ڈیوٹیاں سر انجام دے رہے ہیں ان کو ری لیو کروانا جبر و زبردستی ہے اتنے سارے لوگوں کو ڈی جی ہیلتھ کہاں ایڈجسٹ کریگا پھر بھی اگر ریلیو کروانا ہے تو سرکاری ملازمین کی پوسٹوں کے ساتھ ری لیو کروایا جائے تاکہ اپنی پوسٹ کے ساتھ وہ کسی ہسپتال میں داخل ہوسکے۔ اب تک ایم ٹی آئی ہسپتالوں نے 400 سول سرونٹ پوسٹس ہڑپ کر چکے ہیں اور اب مزید کو ری لیو کرکے سارے پوسٹیں ختم کرنے کا پروگرام بنائے ہوئے ہیں۔


حکومت خیبر پختونخوا حکومت سے گزارش ہے کہ ملازمین کی ملازمتوں کے ساتھ کھلواڑ نہ کیا جائے اور انہیں ہسپتالوں میں تنگ کئے بغیر اپنے ڈیوٹیاں نبھانے دی جائے اگر ایسا نہ ہوا تو نقصان عوام کے ساتھ ساتھ آپ لوگوں کا بھی ہوگا۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
56941

کچھ باتیں ان کہی رہنے دیں ۔ میر سیما آ مان

کچھ باتیں ان کہی رہنے دیں ۔ میر سیما آ مان

پہلے زمانے میں ڈائری لکھنے کا رواج تھا تو اکثر حضرات اپنی روزمرہ کے معاملات یا احساسات ڈائریوں پر درج کرکے دل کا بوجھ ہلکا کیا کرتے تھے۔سکول کی لڑکیاں اپنی ڈائری شعر و شاعری یا اقوال ذریں سے سجاتے تھے۔۔یہ ڈائری اکثر سرہانے تلے پائی جاتی اور جو رازداری کے معاملات میں ذرا حساس ہوتے انکی ڈائریاں بھی الماری میں تالوں میں مقید ہوتے ۔ پھر رفتہ رفتہ دور بدل گیا انداز بدل گئے اب ان پرسنل ڈائریوں کی جگہ فیس بک ٹوئٹر انسٹا یا واٹس ایپ نے لے لیے ہیں ۔

اب دن بھر کے حالات ہو یا گلے شکوے ،احساسات ہوں یا طعنے بازیاں سب ایک اسٹیٹس اپڈیٹ کی صورت میں چند سیکنڈز کے اندر پوری دنیا میں پھیل جاتا ہے ۔۔لیکن وہ جو کہتے ہیں نہ کہ فلاں کی جگہ کوئی دوسرا نہیں لے سکتا بلکل صحیح بات ہے ۔پرانے زمانے کی چند اوراق کا وہ مجموعہ نہ صرف آپکی دل کا بوجھ ہلکا کرنے میں معاون تھا بلکہ آپکے احساسات اور عزت کا بھی امین ہوا کرتا تھا ۔۔

وہ ایک چھوٹی سی کتاب جس میں آپ اپنا اصل عکس چھپایا دیا کرتے تھے ۔آپکے گلے شکوے حتی کہ دوسروں کے لیے آپکی نفرت جیسی منفی جذبات دفن ہوا کرتے تھے ۔۔کیونکہ ہر ایک کی رسائی آپکے سرہانے تلے چھپے اس رازداں تک نہیں ہوتی تھی تو معاشرے میں خاندان میں دوسروں میں آپکا بھرم رہ جاتا تھا۔۔

کیا ہی افسوس کی بات ہے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس دور نے تو ہر شخص کو بلکل ہی ننگا کر ڈالا ہے۔ نہ کسی کی نفرت چھپ پاتی ہے نہ حسد نہ کینہ نہ کمینہ پن ۔۔۔کیا یہ ہے وہ ترقی یافتہ دور جسکا ہم خواب دیکھا کرتے تھے۔۔۔؟؟

حدیث نبوی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ہے کہ جو ہمارے بڑوں کی تعظیم نہ کرے اور جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں۔۔
سمجھ نہیں آتا کہ جس دور سے ہم گز رہے ہیں یہاں کوئی مسلمان باقی بچ بھی سکتا ہے ۔۔کیونکہ اسٹیٹس اپڈیٹ کی اس تیز ترین دور میں ہر کوئی اس قدر زبانی لن ترانیوں پر اترے ہوئے ہیں کہ نہ چھوٹوں کی کوئی تمیز باقی رہی ہے نہ بڑوں کی۔۔۔۔کہنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ کسی بھی معاملے میں بات کرنے کی کوئی تمیز ہوا کرتی ہے لیکن اگر آپ میں بات کرنے کی تمیز ہی نہیں ہے تو بونگیاں مارنے سے بہتر ہے بندہ چپ رہے کم از کم آپکی خاموشی آپکے اندر کی کینہ کی ہی پردہ بنے گی ۔لوگوں میں آپکا بھرم تو رہے گا۔۔

اس دور کے سب سے مضحکہ خیز لوگ وہ ہیں جو خود کو حق گو سمجھنے کی شدید ترین غلط فہمی کا شکار ہیں ۔ یہ دوسروں کے مطعلق سفاکیت کے حد تک الفاظ استعمال کرتے ہیں لیکن اپنے متعلق ایک لفظ برداشت کرنا تو دور کی بات سننے کا بھی ظرف نہیں رکھتے ۔۔ایک بڑا اچھا پوسٹ اکثر نظروں میں آتا ہے کہ موجودہ وقت کے بد زبان خود کو حق گو کہتے ہیں ۔ انہیں کوئی بتانے والا نہیں کہ رسول پاکؐ سے بڑھ کر کوئی حق گو نہیں اور رسول پاکؐ سے بڑھ کر شرین زبان کے کوئی نہیں ۔ محض دوسروں کے متعلق ذہر اگلنے والی زبانیں کیسے خود کو حق گوئی کے دھوکے میں رکھ سکتے ہیں ۔۔

میں نے ایک بار پہلے بھی لکھا تھا اب دوبارہ لکھ رہی ہوں کہ ہر چیز کا ایک کرائٹیر یا ہوتا ہے یہ جو آپکے ہاتھ میں ٹچ موبائیل موجود ہے اسکا بھی اسکے استعمال کا بھی ایک کرائٹیریا ہے اور سب سے بڑی بات یہ کہ یہ آ پ سمیت کروڑوں اور لوگوں کے پاس بھی موجود ہے بلکل اسی طرح بولنا بھی سب کو آتا ہے سنانا بھی۔۔

فرق صرف اتنا ہے کہ زبان کیطرح اس بے جان ٹیکنالوجی کو بھی ہر کوئی اپنے بڑوں کی تربیت اور اپنے ظرف کے مطابق استعمال میں لاتا ہے۔ کوشش کریں کہ باپ دادا کی تربیت کی لاج نہ سہی صرف اپنے اکیلے جان کی ہی کچھ لاج رکھ لیں کہ ان پبلک ڈائریز اور پبلک پوسٹ پر درج آپکے الفاظ صرف آ پکی اپنی شخصیت کی عکاسی کرتے ہیں۔ لہذا کچھ باتیں ان کہی رہنے دیں ۔۔کچھ باتیں ان سنی رہنے دیں۔۔ سب باتیں اگرچہ کہہ ڈالیں تو باقی کیا رہ جائے گا ۔۔۔

اکیسویں صدی کا ایک اور نیا سورج پھر سے طلوع ہو چکا ہے۔اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہمیں ایک بار پھر نیا سال دیکھنے کی مہلت نصیب ہوئی۔بڑی بڑی کو تاہیؤں کے باوجود اللہ نے ہمیں بڑی آسائشوں میں رکھا ہے بڑی آزمائشوں سے نکالا ہے۔ بڑی نعمتوں سے نوازا ہے ہم اللہ کا جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے۔۔اللہ مثبت سوچ کیساتھ زندگی گزارنا نصیب فرمائے ۔۔دوسروں کے لیے ہمیں آزار کا باعث بننے کے بجائے آسانیاں پیدا کرنے والا بنائے ۔ہمیں معاف کرنے والا بنائے۔۔امین۔

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
56928

مہنگائی کی کمرٹوٹنے کی نوید ۔ محمد شریف شکیب

وفاقی وزراء نے عوام کو نوید سنائی ہے کہ رواں سال کے دوران مہنگائی کی کمر ٹوٹے گی۔ مہنگائی کی لہر آتے ہی حکومت نے ہر گھر کو صحت کارڈ دیا،عوام کو احساس راشن کارڈ دینے جارہے ہیں جس پر انہیں ضروری اشیائے خوردونوش کی خریداری پر 30فیصد سبسڈی ملے گی امسال بھی گندم اور چاول کی ریکارڈ فصل متوقع ہے۔اسی اثناء میں بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں نے نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی میں ایک درخواست جمع کرائی ہے کہ بجلی کی قیمت میں گذشتہ سال جون سے ستمبر تک کی سہ ماہی کے فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز کی مد میں عوام کی جیبوں سے 17ارب 85کروڑ روپے نکلوانے کی منظوری دی جائے۔

نیشنل پاور ریگولیٹری اتھارٹی کا کہنا ہے کہ بجلی کی تقسیم کارکمپنیوں کی درخواست پر سماعت 12جنوری کو ہوگی جس کے بعد کوئی فیصلہ کیا جائے گا،کمپنیوں نے کیپسٹی چارجز کی مد میں 5 ارب 74 کروڑ روپے اور ڈسٹری بیوشن لاسز کی مد میں 9 ارب روپے وصول کرنے کی اجازت مانگی ہے۔دوسری جانب نیاسال شروع ہونے کے پہلے ہی دن حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں چار روپے فی لیٹر اضافے کا اعلان کیاتھا۔ تندور گرم دیکھ کر گیس کمپنیاں بھی عوام کا خون نچوڑنے میں اپنے حصے کا کردار ادا کرنے کے لئے گیس قیمتوں میں بھی اضافے کی درخواست دی سکتی ہیں۔فنانس بل کی منظوری کے بعد اس کے نفاذ سے مہنگائی کی نئی لہر آنے کا بھی خدشہ ہے اگرچہ وزارت خزانہ نے یقین دہانی کرائی ہے کہ منی بجٹ سے عام آدمی پر بوجھ نہیں پڑے گا۔

دوسری جانب ساڑھے تین سو ارب روپے کے نئے ٹیکسز لگانے اور سیلز ٹیکس کی شرح میں اضافے کی بات ہورہی ہے۔ سیلز ٹیکس میں اضافے سے ملک کی بائیس کروڑ آبادی میں سے اکیس کروڑ 80لاکھ افراد براہ راست متاثر ہوں گے۔ صرف بیس لاکھ متمول افراد ہی سیلز ٹیکس میں اضافے سے متاثر نہیں ہوں گے۔ جن میں بڑے بڑے سرمایہ دار، صنعت کار، جاگیر دار، کارخانے دار، سیاست دان اور قومی خزانے سے لاکھوں روپے کی تنخواہیں اور دیگر مراعات پانے والے شامل ہیں۔ جب مصنوعات کارخانے سے پیک ہوکر مارکیٹ میں پہنچتی ہیں تو صنعت کار سیلز ٹیکس دیتا ہے۔پھر ہول سیل ڈیلر پرچوں فروشوں کو مال بیچ کر اس پر سیلز ٹیکس دیتا ہے۔

پرچوں فروش گاہکوں کو مال فروخت کرکے سیلز ٹیکس دیتا ہے اور آخر میں گاہک قیمت کے ساتھ سیلز ٹیکس ادا کرکے مال خریدتا ہے۔ سیلز ٹیکس بارہ روپے سے بڑھا کر سترہ روپے کرنے کی تجویز ہے۔ جبکہ ایک ہی چیز پر چار مرتبہ ٹیکس لگاکر حکومت درحقیقت بیس روپے اضافی ٹیکس وصول کرتی ہے۔ صرف سیلز ٹیکس کے نفاذ سے سرکاری و پرائیویٹ اداروں کے ملازمین، دیہاڑی دار مزدور، کسان اور غریب لوگوں کو چاول، دالوں، مصالحہ جات، آٹا، چینی، گڑ، نمک، صابن، سرف، ٹوتھ پیسٹ، چکن، گوشت، گھی، کوکنگ آئل اور روزمرہ ضرورت کی دیگر اشیاء کی خریداری پر اضافی رقم خرچ کرنی ہوگی۔ پٹرولیم مصنوعات، گیس، بجلی، ایل پی جی اور ایل این جی کی قیمتوں میں ماہ بہ ماہ اضافہ ہورہا ہے۔جس کی وجہ سے روزمرہ ضرورت کی ہر چیز ہفتہ وار بنیادوں پر مہنگی ہوتی جارہی ہے۔

فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی شرائط پوری کرکے ایک ارب ڈالر قرضے کی قسط وصول کرنا حکومت کی مجبوری ہے۔ ایف اے ٹی ایف کی شرائط میں بجلی، گیس، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھانا، سیلز ٹیکس اور دیگر محصولات میں اضافہ بھی شامل ہیں۔ ابھی انٹرنیٹ اور موبائل ری چارج پر ٹیکسوں میں اضافے کے اثرات بھی ظاہر ہونا باقی ہیں۔ اس صورتحال کے پیش نظر رواں سال مہنگائی میں کمی کا کوئی امکان دور دور تک بھی نظر نہیں آرہا۔ حکومت کو جھوٹی تسلیاں دینے کے بجائے عوام کو صاف صاف بتادینا چاہئے کہ مہنگائی کی ایک اور کمر توڑ لہر کے لئے قوم تیار رہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
56926

کسانوں کے ساتھ کھاد مافیا کا ظلم – تحریر: محمد نفیس دانش

کسانوں کے ساتھ کھاد مافیا کا ظلم – تحریر: محمد نفیس دانش

کا ایک بڑا حصہ زراعت اور اس سے چلنے والی صنعتوں پر منحصر ہے۔ تقریبا پاکستان کی کل آبادی کا 70 فیصد سے زیادہ حصہ زراعت کے شعبے سے وابسطہ ہے زراعت کے شعبے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ملکی افرادی قوت کی اکثریت زراعت سے منسلک ہے اور پاکستان کی پہچان بھی زرعی ملک کے طور پر ہی ہوتی ہے۔ لیکن ملک میں کسان ماحولیاتی تبدیلیوں، “ناقص” حکومتی پالیسیوں اور مہنگائی کی وجہ سے مشکلات سے دوچار ہیں۔کوئی ایسا محکمہ نہیں ہے جو کسان کی فصلوں کی قیمت کا تعین کرے۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ فصل پر لگائی گئی رقم تک وصول نہیں ہوتی۔

کھاد، کیڑے مار اسپرے اور دواؤں کی قیمتیں بہت مہنگی ہیں اور ان کے معیار کے تعین کا کوئی نظام ہی نہیں ہے۔”کھاد پر کھاد مافیا کا کنٹرول ہے، بیج پر بیج مافیا قابض ہے، کیڑے مار دواؤں پر متعلقہ انڈسٹری کا کنٹرول ہے۔ وہ جب چاہیں، جتنا مرضی چاہیں، قیمتیں بڑھا دیتے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔”زراعت کی گرتی ہوئی صورت حال کے پیش نظر نوجوان نسل اس میں دلچسپی نہیں لے رہی اور وہ زیادہ تر شہروں کا رخ کر رہے۔

اگر حکومت نے اپنی زرعی پالیسی کسان دوست نہ کیں تو پاکستان جلد ہی معاشی تباہی کے دھانے پر کھڑا ہو گا۔ اس وجہ سے کاشتکاروں کے مسائل اور ان کے دکھ کے ازالہ کیلئے ہر ممکن کوشش کے ساتھ ساتھ کسانوں کے حقوق کا تحفظ کرنا بھی ہماری اولین ترجیح ہونی چاہئے کیونکہ ہمارے ملک کا زیادہ انحصار زراعت پر ہے ۔صوبہ پنجاب کے مختلف شہروں شیخوپورہ، سرگودھا، خوشاب اور بہاولنگر کے کسانوں کو کھاد  کی قلت کے باعث پریشانی کا سامنا ہے اور کھاد کی عدم دستیابی کے باعث گندم کی فصل کی بوائی متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ یوریا کھاد کی سرکاری قیمت 1770 ہے جبکہ مارکیٹ میں 3000 سے لے کر 3500سو روپے تک فی تھیلا بلیک میں فروخت کیا جا رہا ہے اسی طرح ڈی اے پی کھاد کی سرکاری قیمت 8100 روپے ہے لیکن مارکیٹ میں9500 روپے سے لے کر دس ہزار روپے تک فی تھیلا بلیک میں فروخت کیا جارہا ہے۔

وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی ہدایت پر کسانوں کو ریلیف دینے کیلئے ضلعی انتظامیہ نے یوریا کھاد کے گوداموں اور سیل پوائنٹس کی چیکنگ کا آغاز کردیا تھا۔اس سلسلے میں اسسٹنٹ کمشنر شیخوپورہ میاں جمیل نے ہمارے علاقہ غلہ منڈی جھبراں میں چھاپہ مارکر 15 ہزار بوری کھاد برآمد کر لی اور ذخیرہ اندوزوں کیخلاف مقدمہ بھی درج کیا اور پکڑی جانے والی کھاد ضلعی انتظامیہ نے کسانوں کو حکومت کے ریٹ پر فروخت کردی جس پر علاقوں کے کسانوں نے ڈپٹی کمشنر رانا شکیل اسلم اور اسسٹنٹ کمشنر میاں جمیل کا شکریہ بھی ادا کیا ۔ لیکن چند دنوں کے بعد دکانداروں نے پھر اسی ریٹ پر کاشتکاروں کو کھاد کا ریٹ لگانا شروع کر دیا ہے۔حکومت پنجاب کی جانب سے کھاد کی سپلائی و سٹاک کی مانیٹرنگ کیلئے آن لائن پورٹل بھی فعال کردیا گیا ہے جبکہ کسانوں کی آگاہی کیلئے بینرز اور اعلانات کے ذریعے بھرپور مہم کا بھی آغاز کردیا گیا ہے۔

کھاد مافیا کے خلاف فوری کاروائی کرکے ہماری تکلیفوں کو کم کیا جائے۔ اور دکانوں پر کھاد کی قیمتوں کو بینرز کی صورت میں نمایاں طور پر آویزاں کرایا جائے۔ یوریا کھاد وافر مقدار میں موجود ہے، ذخیرہ اندوزی کے ذریعے مصنوعی قلت پیدا کی جا رہی ہے، منافع خوروں کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے گا، کسی کو کسانوں کا استحصال کرنے کی اجازت نہ دی جائے بلکہ حکومت کسان کو ایسے وسائل کے حصول میں مدد دے ،جن کی بدولت ہمارے کسان ملک کی غذائی اجناس میں خود کفیل ہو سکیں۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
56922

داد بیداد ۔قیا م پا کستان سے پہلے۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

حا لیہ دنوں میں بھارت سے جو خبریں اخبارات میں آئی ہیں وہ قیا م پا کستان سے پہلے ہندوستانی معاشرے کی جھلک دکھا تی ہیں اُس معا شرے میں ہندو مسلما نوں سے نفرت کرتے تھے انگریز ہندو اور مسلما ن دونوں سے نفرت کر تا تھا انگریز نے جگہ جگہ علا قہ ممنو عہ کا بورڈ لگا یا تھا چھا ونیوں اور سر کاری رہا ئش گا ہوں کے علا وہ خصو صی تقریبات کی جگہوں پر بھی تختی اویزان کی جا تی تھی جس پر لکھا ہو تا تھا ”کتوں اور ہندوستا نیوں کا دا خلہ ممنوع ہے“ یہ تختی ہندوستان کی آبا دی سے انگریزوں کی نفرت کی نشا نی تھی ان کو ہندوستا ن کی دولت، کپا س، پٹ سن، چاول اور گندم کے ساتھ ساتھ ہیرے جوا ہرات سے محبت تھی مگر ہندوستان کے عوام سے عداوت اور دشمنی تھی بالکل اسی انداز اور اسلوب میں ہندو آبا دی یہاں کے مسلما نوں سے نفرت کر تی تھی مسلمانوں کو ملیچھہ کہا جا تا تھا ملیچھہ کا لفظ لغت میں پلید کا مترادف یا ہم معنی ہے.

مسلما ن کا بر تن یا لباس ہندو کے بر تن یا لباس سے ٹکرا تا تو ہندو اپنا لباس کا ٹ دیتا بر تن پھینک دیتا تھا 80سال سے زیا دہ عمر کے جو بزرگ زندہ ہیں انہوں نے آزادی سے پہلے کا زما نہ دیکھا ہے، سکو لوں میں، بازاروں میں دفتروں میں نفرت کے اس طرز عمل کا مشا ہدہ کیا ہے انگریز وں نے مسلما ن علما ء، نوابوں، چوہدریوں اور رئیسوں کے مخصوص لباس اچکن اور پکڑی کو چپڑا سیوں کی وردی بنا دیا تا کہ مسلما ن شرفا ان کے دفتر میں داخل ہوں تو نیچے درجے کے نو کروں کو اچکن اورپگڑی میں دیکھ کر اپنا مقام اور مر تبہ بھول جائیں بدقسمتی سے آزادی کے 75سال بعد بھی دربانوں اور نا ئب قاصدوں کی یہی وردی چل رہی ہے.

ہمارے حکمرانوں نے اس پر غور نہیں کیا آج اگر مہا راشٹرا، جھاڑ کھنڈ، ارونچل پر دیش یا اترا کھنڈ اور حیدر اباد کا ہندو مسلما ن کو مار مار کر ختم کرنے اور ملک سے نکا لنے کا اعلا ن کر تا ہے تو یہ نئی بات نہیں آج اگر بھارت کا ہندو مسلما ن لڑ کی سے شادی کر نے کے جر م میں دلہا اور دلہن کو زندہ جلا دیتا ہے تو اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں، ہندو آبا دی نے بھا رتیہ جنتا پارٹی کو اسی لئے ووٹ دیا ہے اس پارٹی کا منشور مسلما نوں سے نفرت پر مبنی ہے اور وقت گذر نے کے ساتھ اس میں اضا فہ ہو رہا ہے اب نو بت یہاں تک پہنچی ہے کہ ہندو آبا دی نے عیسائیوں اور سکھو ں کے خلا ف بھی اپنی نفر ت کا کھلم کھلا اظہار شروع کر دیا ہے.

بھارت کی عیسائی اور سکھ آبا دی بھی بھارتیہ جنتا پارٹی کی پا لیسی اور راشٹر یہ سیوک سنگ نا می دہشت گرد تنظیم کی چیرہ دستیوں کے خلا ف سراپا احتجا ج ہیں مسلما نوں نے اس سال 2جنوری کو آل انڈیا مسلم لیگ کے قیا م کا دن اس جذبے کے ساتھ منا یا کہ بر صغیر کے مسلمانوں کی یہ سیا سی جما عت نہ ہو تی تو ہندوستا ن کی آزادی کے بعد مسلما نوں کی زند گی اجیرن ہو تی اور مسلما ن آبا دی کو ہندو اکثریت کے ظلم و جبر کے سامنے بے بس حا لت میں چھوڑدیا جا تا آ ج پا کستان اور بنگلہ دیش کے 40کروڑ مسلما ن آزاد حکومت کے حکمران نہ ہو تے اور بھارت کے مجبور، مظلوم مسلما نوں کے لئے امید کی کوئی کرن با قی نہ ہو تی جب بھی بھارت سے مسلم دشمنی کا کوئی واقعہ اخبارات میں آتا ہے اخبار پڑھنے والے مسلما نوں کی تو جہ قیا م پا کستان سے پہلے ہندو ستان میں مسلما نوں کی زبو حا لی کی طرف مبذول ہو تی ہے آج ہم خدا کا شکر ادا کر تے ہیں کہ آزاد اور خود مختار ملک میں رہتے ہیں۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
56920

نسوار نامہ – تحریر: ظہیرالدین

            جب سےمشرقی وسطیٰ کے عرب ممالک نے گزشتہ دنوں نسوار کو منشیات کی فہرست میں شامل کردیا تو مجھے رہ رہ کر پختون بیلٹ کے اپنے بزرگوں اور بھائیوں پر ترس آتا ہے جو اس کے بغیر ماہی بے آب بن جاتے ہیں۔ یہ خبر ان پر بجلی بن کر گر گئی ہوگی مگر  قہر درویش،برجان درویش۔ یہ سب کچھ اچانک نہیں ہوا بلکہ حیرت انگیز حد تک اس کی کڑیاں ایک کٹر پشتون قوم پرست رہنما کے اس بیان کے ساتھ ملائی جاسکتی ہے جو انہوں نے اپنے شباب اقتدار کے دوران نسوار کے خلاف دی تھی۔ اگر حافظہ ذیادہ کمزور نہیں تو یاد آئے گا کہ عوامی نیشنل پارٹی کی صوبائی حکومت (2008ءتا2013ء) کے ترجمان اور وزیر اطلاعات میاں افتخار حسین نے اس( نسوار) نے خلاف کسی حدتک بھی جانے کا اعلان کیا تھا۔

نسوار سے اظہار نفرت کی ترنگ میں آکر انہوں نے تمباکو، چونا اور پانی کے اس امیزے (نسوار)کو پختون  کلچر کا دشمن اور انگریزنوآبادیاتی دور کا منحوس یادگار اور غلامی کی نشانی قرارد یا تھا۔ میاں صاحب کے لب و لہجے کو دیکھ کر ہم تو یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ اپریل 1930ءمیں انگریز سامراج نے قصہ خوانی میں نہتے پختونوں پر گولیاں برساکر اتنا نقصان نہیں پہنچا یا تھا جتنا یہ نسوار کلچر کو یہاں متعارف کرکے آنے والی پختون نسلوں کے ساتھ خون کی ہولی کھیلی ہے۔ ہمارے سابق آ قا (انگریز) کے بارے میں یہ تو معلوم ہے کہ وہ شراب کا نشہ کرتے تھے لیکن کسی جارج ویلیم، کسی چیمسفورڈ یا روس کیپل یا مائکل کے نسوار کا نشہ کرنے کے بارے میں بالکل معلوم نہیں تھا اسلئے یہ کس طرح انگریز دور کی نشانی ہے، کچھ سمجھ نہیں آئی تھی۔سوویت فوج کے سربراہ نے آخری سپاہی کے سالانگ ٹنل سے واپسی کے موقع پر کہا تھا کہ ہم تو آج جارہے ہیں لیکن ہمارے بوئے ہوئے گولہ بارود کم آزکم دس سال تک افغانوں سے لڑتے رہیں گے.

۔ 1947ء میں اگرچہ انگریز نے اپنا بورے بستر یہاں سے گول کر کے سات سمندر پار چلے گئے لیکن ان کا نسوار تو اب تک پختون سرزمین کو داغدار کرنے اور بقول میاں صاحب پختون کلچر کے حسن کو گہنا دینے میں ان کے دولت کے ضیاع میں مصروف ہے۔ مائنز ڈیٹکٹر  mines detector))  کے ذریعے تو سوویت یونین کے بچھائے گئے بموں کا صفایا چند ہی سالوں میں ممکن ہوا لیکن انگریز کی چھوڑی ہوئی نسوار کی پختون معاشرے میں نفوذ پذیری کا اندازہ تمباکو کی سالانہ تجارت کے حجم سے لگایا جاسکتا ہے جو کہ پاکستان تمباکو بورڈے6ارب روپے سے تجاوز کرجاتی ہے۔


             میاں صاحب کا خد ا بھلا کرے کہ ہمارے ذہنوں سے ایک غلط فہمی کو دور کردیا تھا ورنہ ہم اس غلط فہمی کے ساتھ عمر گزار دیتے کہ نسوار پختون کلچر کا جز و لاینفک ہے۔ ہم بچپن سے نسوار سے متعلق بے شمار کہانیاں اور حکایات سنتے آئے ہیں اور لوک کہانیوں میں بھی نسوار کا ذکر جابجا ملتا ہے اور نغوذ باللہ ہم تو یہاں تک سوچ رکھا تھا کہ نسوار کے بغیر پختون کلچر ایسا ہے  جیسے نمک کے بغیر چپلی کباب۔ پختو کا ایک مشہور مقولہ ہے کہ “چہ نسوار نہ لری تو یا ر نہ لری”۔ کتاب کو ایک خاموش اور بہترین دوست قرار دی گئی ہے مگر پختو کہاوت اور محاوروں میں نسوار کو ایک دانا اور رازدان دوست کا مقام دیا گیا ہے۔ ایک کہاوت میں تو بے وفا دوست پر ایک چٹکی بھر نسوار کو فوقیت دی گئی ہے۔ نسوار کی ابتداء کے بارے میں  تو تاریخ کے اوراق خاموش ہیں البتہ ا سکی بادشاہت کا دائرہ ڈیورنڈ لائن کے آرپار پختون بیلٹ سے بہت دور سنٹرل ایشیائی ممالک، ایران، انڈیا  تک ہے۔

پختون آبادی کے تقریباً     70فیصد نسوار سے مستفید بتایا جاتا ہے جبکہ اس میں عمر کی کوئی قید نہیں ہے کیونکہ دس سال سے لے کر سو سال کے جوان تک اس کے سحر میں گرفتار پائے جاتے ہیں گویا ایک دفعہ اس کا ذائقہ چکھنے والے عمر بھر اس کے اسیر ہوکر رہ گئے۔ برطانیہ کی ایک یونیورسٹی سے پڑھ کر واپس آنے والے پشاور یونیورسٹی کے ایک پروفیسر بتارہے تھے کہ پاکستان سے جاتے ہوئے تو وہ نسوار کی عدم دستیابی کے خوف کا شکار تھے لیکن اُ ن کے بقول ‘خد ا کے فضل سے’لندن شہر کے کسی نواحی قصبے میں نسوار فروش نکل آیا جس سے وہ ہفتہ بھر کا راشن لایا کرتے تھے۔

نسوار کسی بھی رنگ میں ہو(کالی یا ہری)جگر، پھیپھڑے اور منہ کے کینسر کا باعث بنتا ہے۔ میاں افتخار صاحب کی نسوار کی خلاف صلیبی جنگ کی کامیابی کے آثار خال خال نظر آتے ہیں کیونکہ مردان، صوابی، تخت بھائی، چارسدہ کے علاقوں میں تمباکو کی بمپر فصل کا نعم البدل کیا ہوسکتا ہے اور بنوں اور ڈی۔آئی۔ خان کی نسوار انڈسٹری کی جگہ اور کیا لے سکتی ہے، اس کے بارے میں کچھ نہیں بتا یا گیا۔ کراچی سمیت پنجاب کو ان دو شہرو ں سے نسوار کی سپلائی ہوتی ہے۔ اعصابی طور پر کمزور واقع ہونے کے ناطے مجھے یہ خوف دامن گیر ہے کہ شیوخ کے اس ظالمانہ فیصلے کے نتیجے میں آ ئند ہ چند ماہ کے اندر ہمارے ملک کو آنے والی قیمتی زرمبادلہ کے ذخائر میں خوفناک حد تک کمی ہوگی کیونکہ انہیں کماکر یہاں بھیجنے والے جان تو فدا کرسکتے ہیں لیکن نسوار سے دستبردار نہیں ہوسکتے۔ گزشتہ سال پشاور کی بی آر ٹی انتظامیہ کے نسوار دشمنی پر مبنی قدم کو فراموش نہیں کیا تھا کہ ایک اور افتاد ان پر آ پڑی۔ چار سال تک مشکل اور مصائب جھیلنے اور صبر شکن انتظار کے بعد انہیں اس وقت مایوسی ہوئی جب بی آرٹی میں اس پر پابندی عائد کی گئی اور شروع شروع میں تو تلاشی لے لے کر نسوار کی پڑیا ضبط کیا جاتا تھا۔ مشرقی وسطیٰ کے ممالک میں نسوار پر بات چل نکلی ہے، اب دیکھیں کہاں تک پہنچے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
56918

ہلاکو خان ، علقمی اور طوسی! – قادر خان یوسف زئی کے قلم سے

بغداد اور اس کے نتیجے میں عباسی حکومت کا خاتمہ، تاریخ کا بڑا المیہ ہے، یہ تباہی ہلاکو خان کے ہاتھوں سے ہوئی تھی، لیکن افسوس ناک پہلو یہ تھا کہ اسے خود حکومت کے وزیر علقمی نے دعوت دے کر بلایا تھا، یہ داستان بڑی سبق آموز اور عبرت انگیز ہے، علقمی نے خلیفہ سے کہا کہ سلطنت کا خزانہ بڑا زیر بار ہورہا ہے، اس لئے اخراجات میں کمی کرنے کی اشد ضرورت ہے، اس کی موثر ترین تدبیر یہ ہے کہ فوج میں کمی کردی جائے، سبکدوش سپاہیوں کے پاس کوئی ہُنر تو تھا نہیں جس سے وہ اپنی روزی کمالیتے، انہوں نے ملک میں لوٹ مار شروع کردی جس سے امنِ عامہ قتل ہوگیا، ایسے حالات پیدا کرکے علقمی نے ہلاکو کو دعوت بھیج دی کہ حالات بڑے نامساعد ہیں، جلد آجائیے، اس طرف علقمی تھا اور دوسرا ہلاکو خان کا مشیر بھی خیر سے ایک مسلمان ہی تھا اور مسلمان بھی بڑا ’نامور‘ نصر الدین طوسی۔


 علقمی او ر طوسی کی سازش سے ہلاکو خان نے بغداد پر حملہ کیا اور اس کی اینٹ سے اینٹ بجادی، مؤرخین کے اندازے کے مطابق اس قتل عام میں قریباً ایک کروڑ 6 لاکھ مسلمان، زن و مرد، بچے، بوڑھے قتل کردئیے گئے، لوٹ مار اور غارت گری اس وسیع پیمانے پر ہوئی کہ قیامت خیز حادثہ تاریخ میں ضرب المثل بن گیا، ہلاکو نے خلیفہ (معتصم باللہ) کو قتل کرنا چاہا، تو علقمی اور طوسی کی انتقام جوئی نے ایک اور ستم ظریفی کی۔ ہلاکو سے کہا کہ مسلمانوں کے نزدیک ان کے خلیفہ کا وجود بڑا مقدس ہوتا ہے، اس لئے اس کے خون کا قطرہ زمین پر نہیں گرنا چاہیے۔ چنانچہ ان کی تجویز کے مطابق، خلیفہ کو نمدے میں لپیٹ کر، لاتوں سے کچلوادیا گیا، لیکن تاریخ نے خود علقمی کا یہ عبرت انگیز انجام بھی اپنے صفحات میں محفوظ کردیا کہ ہلاکو نے اسے یہ کہہ کر دھتکار دیا کہ تُو نے جب اپنے آقا سے بے وفائی کی تو میرا کب وفادار رہے گا، اس لئے وہ کتے کی موت مرگیا۔ دکن کے غدار میر صادق اور بنگال کے میر جعفر کی سازشیں، جیسے ابھی کل کی بات ہے۔ ملک و ملت کے ساتھ غداری کرنے والے کا انجام کس قدر سنگین اور مہیب ہوتا ہے، اس کا اندازہ لگانا بڑا تکلیف دہ عمل ہے۔


مملکت خدادِاد پاکستان پر روز بڑھتے قرضوں کا بوجھ اور عوام پر ٹیکسوں کے انبار عباسی حکومت کی یاد دلاتے ہیں کہ اپنوں کے ہاتھوں ملک کا معاشی نظام تباہ و برباد ہوگیا، عالمی مالیاتی اداروں کی مثال ہلاکو کی طرح ہے، جس نے اپنی شرائط سے کروڑوں انسانوں کا معاشی استحصال کیا ہوا ہے۔ یہ بھی درست کہ کوئی قرضے، امداد غیر مشروط نہیں دیتا، اگر آپ کو ضرورت نہیں تو شرائط نہ مانیں، لیکن ملک کو مالی خودمختاری اور خود انحصاری کی طویل المدت پالیسیوں پر نہ لے جانے سے ذخیرہ اندوزوں اور لوٹ مار مافیا نے عوام کا کچھ ایسا معاشی قتل عام کیا کہ اس کے اثرات سے نہ جانے کتنی دہائیاں متاثر ہوں گی، مضمرات سے نہ جانے جان کب چھوٹ سکے گی۔ نئی نسل ملک کو کس سمت لے جائے گی، سمجھ سے بالاتر ہے۔ تعلیم اداروں سے ہُنرمند طلبہ کے بجائے ’بابو‘ صاحبان کی ایسی فوج تیار ہوتی رہی اور ہے کہ ان کے پاس نہ ملک کو آگے لے جانے کا کوئی فارمولا موجود اور نہ ہی اپنا مستقبل بنانے کے لئے کوئی آئیڈیا ہے۔ ہلاکو خان ٹائپ مالیاتی اداروں کے سامنے آج کے علقمی و طوسی قوم کو نمدے میں لپیٹ کر پیش کردیتے ہیں، اس کا بھی بڑا عبرت ناک پہلو یہی ہے کہ اس کے ذمے دار بھی کوئی بیرونِ دشمن نہیں بلکہ ملک و قوم سے خود کو خیرخواہ کہنے کے دعویدار نام نہاد لیڈر ہوتے ہیں۔


قوم و ملک سے غداری صرف یہی نہیں کہ دشمنوں کو اپنی سرزمین میں عسکری مداخلت کا موقع یا دعوت دی جائے، بلکہ غداری کی سب سے غیر مقبول قسم یہ بھی ہے کہ قوم کو معاشی زنجیروں میں جکڑ کر، ہاتھ پائوں باندھ کر ایسے مالیاتی اداروں کے آگے پھینک دیا جائے جو اپنے سود اور منافع کے لئے خون پسینے کا ایک ایک قطرہ نچوڑ لیں۔ جب معاشی صورت حال ابتر ہوتی ہے تو ملک میں بے امنی بھی پروان چڑھتی ہے، کسی انسان کی جان لینے کے لئے معمولی رقم پر بھی اکتفا کرلیا جاتا ہے۔ ملک میں جو سیاسی خلفشار اور معاشی تحفظات رونما ہیں، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس کی ذمے داری صرف موجودہ حکومت پر عائد کرنے سے سب کو بری الذمہ نہیں کیا جاسکتا، معاشی پالیسیوں کے تسلسل کو مستحکم حکومت کے ساتھ مسلسل چلانا سب کی مشترکہ ذمے داری ہے، لیکن ان حالات میں کہ کسی غریب، متوسط اور سفید پوش طبقے کی شہہ رگ پر معاشی خنجر رکھا ہوا ہے، معاشی بحران سے نکلنے کی کوئی سبیل نظر نہیں آرہی۔


قوم کو تسلی دینے کے بجائے اربابِ نظم و نسق کی طرف سے ایسے بیانات بھی منصۂ شہود پر آتے رہے کہ ملک میں بے یقینی کی صورت حال مزید گمبھیر ہوتی جارہی ہے۔ اس موقع کا فائدہ ایسے عناصر بھی اٹھارہے ہیں جنہیں ملک دشمن خارجی قوتوں سے فنڈنگ ملتی ہے، ضروری ہے کہ فروعی اَنا کو اب ایک طرف رکھ دیا جائے، ایسے ضروری اقدامات متفقہ لائحہ عمل سے کیے جائیں، تاکہ کسی نئے بحران سے بچا جاسکے۔ کیا عوام کسی ایسی تدبیر سے مطمئن ہیں کہ موجودہ معاشی حالات کو کنٹرول کیے جانے کے اقدامات کو موثر سمجھتے ہوں تو بدقسمتی سے ایسا نہیں۔ بحرانوں کی کئی اقسام پنپ رہی ہیں، تمام سٹیک ہولڈرز کو عزم اور حزم سے اس صورت حال کا مقابلہ کرکے ملک کو معاشی بھنور سے بچانا ہوگا، لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ اب ملک کو پوری طرح کنگھالا جائے اور ایسے عناصر کی جڑ کو بنیاد سے اکھیڑ کر رکھ دیا جائے جو قومی دولت پر سانپ کی طرح پھن پھیلائے بیٹھے اور مملکت کے اثاثوں کی رگ رگ سے خون چوس رہے ہیں۔ صرف ایک جماعت کے پاس معاشی بحران کا حل قطعاً نہیں، کم ازکم کوئی بھی سیاسی جماعت یہ دعویٰ نہ کرے کہ وہ دودھ میں دھلی ہوئی ہے، چند افراد قوم کو بگاڑ دیتے ہیں، جیسے ایک گندی مچھلی پورے تالاب کو گندا کردیتی ہے، کوئی باہر سے آکر ہماری غلطیوں کو درست نہیں کرسکتا، ہمیں اپنی غلطیوں کو خود ہی درست کرنا ہوگا، لیکن اس کے لئے اَنا اور غرور کو ایک جانب رکھنا ہوگا۔

Posted in تازہ ترین, مضامین
56874

سوئی گیس کا بحران اور قومی شعور تحریر : محمد نفیس دانش

یہ ایک حقیقت ہے کہ قدرتی گیس مختلف گہرائیوں اور جغرافیائی فارمیشنز کے ساتھ زیر زمین پائی جاتی ہے۔ یہ پاکستان میں سب سے زیادہ پائے جانے والے توانائی کے ذرائع میں سے ایک ہے. لیکن ہمارے وطن عزیز میں جیسے ہی سردی کی شدت میں اضافہ ہوتا ہے اس کے ساتھ ساتھ گیس کی قلت کا مسئلہ بھی شدت اختیار کر جاتا ہے،گھروں میں چولہے ٹھنڈے پڑچکے ہیں اور صنعتوں کو گیس کی بندش کی وجہ سے پیداوار معطل ہوچکی ہیں، جس کی وجہ سے کورونا سے متاثرہ معیشت ایک بار پھر ہچکیاں لے رہی ہے۔

پاکستان میں سردیوں میں قدرتی گیس کی طلب بڑھنے اور پیداوار محدود ہونے کے سبب گھریلو صارفین، صنعت اور سی این جی سمیت مختلف شعبوں کو گیس کی بندش کا سامنا ہے۔ سردیوں میں یومیہ گیس کی طلب آٹھ ارب کیوبک فٹ ہوتی ہے جبکہ سسٹم میں موجود گیس صرف چار ارب کیوبک فٹ ہے۔ایسے میں ملک کو تقریباً چار ارب یومیہ کیوبک فٹ گیس کی کمی کا سامنا ہے۔ ایسے میں گیس سپلائی کرنے والی دونوں کمپنیاں سوئی سدرن اور سوئی نادرن گیس سپلائی کمپنی گیس لوڈ مینجمنٹ پلان بناتی ہیں جس میں ترجیح گھریلو صارفین کو دی جاتی ہے۔قدرتی گیس کے کم ہوتے ذخائر اور بڑھتی ہوئی طلب کو مد نظر رکھتے ہوئے حکومت قطر سے ایل این جی یا مائع قدرتی گیس درآمد کر رہی ہے۔

لیکن، صورتحال بہتر نہیں ہوئی ہے۔ حکومتی وعدوں کے برعکس برآمدات میں اہم کردار ادا کرنے والی صنعتوں کو بھی گیس نہیں مل رہی ہے۔ملک میں گیس کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے جہاں مقامی طور پر گیس کی پیداوار ہوتی ہے تو اس کے ساتھ درآمدی گیس بھی سسٹم میں شامل کی جاتی ہے کیونکہ پاکستان میں گیس کی مقامی پیداوار ملکی ضرورت کو پورا کرنے سے قاصر ہے اور ملکی گیس کے ذخائر میں مسلسل کمی بھی دیکھنے میں آرہی ہے۔ جبکہ درآمدی گیس تنازع کا شکار رہی ہے اور بیرون ملک سے درآمد کی جانے والی گیس پر کرپشن اور بدانتظامی کے الزامات بھی تسلسل سے سُننے میں آتے ہیں۔پاکستان قطر سے مائع قدرتی گیس درآمد کر رہا جو بحری جہازوں کے ذریعے کراچی کی بندرگاہ پہنچتی ہے۔

مائع قدرتی گیس یا ایل این جی کو کراچی بندرگاہ پر نصب پلانٹس کے ذریعے دوبارہ مائع سے گیس میں تبدیل کیا جاتا ہے اور سسٹم میں شامل کیا جاتا ہے۔وزارت پٹرولیم کے بیان کے مطابق ایل پی جی کا ایک بحری جہاز کراچی میں لنگرانداز ہو گیا ہے جس کے بعد ملک میں گیس کی صورتحال میں بہتری کا امکان ہے۔ اور مجموعی طور پر سسٹم میں 250 ایم ایم سی ایف ڈی گیس شامل ہو جائے گی۔پاکستان میں محض 28 فیصد صارفین کو پائپ لائن کے ذریعے گیس فراہم کی جاتی ہے۔ ملک میں گیس کے دریافت کردہ ذخائر میں کمی اور نئے ذخائر نہ ملنے کے سبب گیس کا بحران ہر سال مزید شدید ہو رہا ہے۔

ملک میں قدرتی گیس کی کمی کی وجہ سے کئی سال سے گیس درآمد کی جارہی ہے لیکن اس کے باوجود پائپ لائنیں بچھانے اور ٹرمینلز بنانے کے حوالے سے صوبوں اور وفاق کے درمیان عدم اتفاق پایا جاتا ہے جس سے صرف اور صرف عوام کو پریشانی اٹھانی پڑتی ہے۔ ایٹمی صلاحیت کے حامل پاکستان میں گرمیوں میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے عوام مشکلات سے دوچار رہتی ہے اور  سردیوں میں گیس کے بحران سے عوام کو شدید مشکلات میں ڈال دیا جاتا ہے، دیہی علاقوں کے لوگ گیس کی لوڈشیڈنگ کے سبب لکڑیاں جلاکر گزر بسر کررہے ہیں جبکہ شہری گیس کے مہنگے سلنڈرز استعمال کرنے پر مجبور ہیں. جبکہ دوسری طرف غریبوں  کے چولہے ٹھنڈے، حکمرانوں کو بدعائیں، صبح سکول جانے کے وقت روٹی نہ ملنے پر بچے بھوک سے بلکنے لگتے ہیں.

حکومت عام آدمی کو ضروریات زندگی فراہم کرنے سے قاصر ہے اور  مہنگائی کو ساتویں آسمان تک پہنچادیا گیا۔ عوام مہنگی ایل پی جی گیس اور لکڑی خریدنے کی طاقت نہیں رکھتے، سمجھ میں نہیں آتا بچوں کا پیٹ کیسے بھریں۔ ہوٹل والوں نے روٹی کے ریٹ بھی بڑھا دیئے ہیں۔

انتظامیہ مہنگائی کو کنٹرول کرنے میں بے بس ہو چکی ہے۔ حالانکہ وزیر اعظم عمران خان صاحب نے اعلان کے ساتھ ساتھ دعویٰ بھی کیا تھا کہ کھانا پکانے کے اوقات میں صارفین کو سوئی گیس فراہم کیا جائے لیکن محکمہ سوئی ناردرن گیس طفل تسلیاں دے کر اس اعلان کو ہوا میں اڑا دیا۔وزیراعظم عمران خان صاحب سے میری مودبانہ گزارش ہے کہ  دوبارہ سوئی گیس بحران کا نوٹس لیکر معاملے کو حل کروائیں تاکہ عوام کو گیس بندش کی وجہ سے ہونیوالی اذیت سے چھٹکارہ ملے اور صنعتوں کا پہیہ بھی چل سکے۔دوسری طرف ہمیں بھی چاہیے کہ اپنا چولہا ہیٹر اور گیزر استعمال کے بعد بند کر دے تو یہی بچنے والی گیس کسی اور ضرورت مند کے کام آسکتی ہے اس سے نہ صرف ان کا اپنا بل کم ہو گا بلکہ یہ قومی فریضہ ہے کہ بجلی گیس کی بچت کی جائے خدارا اس پر توجہ دیں سوچیں اور گیس کی چوری اور ضیاع سے گریز کریں ۔ہمیں بحیثیت پوری قوم کو شعور اور احساس کی ضرورت ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
56872

چترالی زبان (کہوار) کی ترقی و ترویج میں انجمن ترقی کہوار کا کردار- تحریر:اشتیاق احمد

کسی بھی زبان کی ترقی و ترویج میں وہاں کے مقامی شعراء،ادباء اور اہل ذوق افراد کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔چترالی زبان کے جد آمجد اور باوائے آدم کہلائے جانے والے محمد شکور غریب اس زبان کے بانی تخلیق کاروں اور کہوار زبان کے محسن ہونے کا بھی اعزاز رکھتے ہیں،انھیں کہوار زبان کے حروف تہجی لکھنے اور ترتیب دینے کا منفرد اعزاز بھی حا صل ہے۔

انجمن ترقی کہوار کے نام سے قائم تنظیم اپنے قیام 1956 سے تنظیم کے بانی صدر، گورنر دروش اور بابائے کہوار کہلائے جانے والے شہزادہ حسام الملک کی سرپرستی میں قائم ہوئی اور اپنے قیام کے قلیل مدت بعد 1957 میں پبلک لائبریری چترال میں پہلا مشاعرہ منعقد کرنے کا اعزاز اپنے نام کر لیا۔بابائے کہوار شہزادہ حسام الملک کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ ان ہی کی کوششوں کے نتیجے میں 1965 میں ریڈیو پاکستان سے کہوار پروگرام شروع کیا گیا اور ان ہی کی کوششوں سے 1967 میں پشتو رسالہ جمہور اسلام میں کہوار زبان کےلئے الگ صفحے مختص کئے گئے۔شہزادہ حسام الملک سب سے زیادہ عرصہ اس تنظیم کا صدر رہے اور تنظیم کے قیام سےلے کر 1977 تک اس کے صدر رہے اور پھر ہوتے ہوتے چترال کے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد اس عہدے پر قائم رہے اور تنظیم کے صدور سب نے اپنے اپنے بساط سے زیادہ اس کو چترال کے طول عرض تک دائرہ کار پھیلا دئے اور تقریباّ چترال کے تمام علاقوں میں اس کےذیلی یونٹس قائم ہوئے جہاں پر اہل ذوق اورکہوار زبان سے محبت کرنے والے افراد اس کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں اور اس طرح یہ تنظیم دن دگنی رات چوگنی ترقی کرتی گئی ۔

غلام عمر،ڈاکٹر عنایت اللّٰہ فیضی،گل نواز خاکی،امیر خان میر،صالح نظام صالح،عبدالولی ایڈوکیٹ،محمد یوسف شہزاد،مولانا نقیب اللّٰہ اس تنظیم کے صدور رہے ہیں اور موجودہ صدارت کی گرانقدر ذمہ داری شہزادہ تنویر الملک کے کندھوں پر ڈال دی گئی ہے اور وہ اس ذمہ داری کو بحسن و خوبی انجام دے رہے ہیں۔جتنے بھی صدور رہے ہیں انھوں نے اس ذمہ داری کے فرائض کو اپنا فرض منصبی سمجھتےہوئے احسن انداز سے کہوار زبان کی ترقی میں اپنی صلاحیتیں بروئے کار۔لائیں۔انھوں نے مشاعرے،سیمینارز،مختلف شعرائے کرام کے شعری مجموعے اور تصانیف کو منظرعام پر لانے،چترال کی رسم ورواج کلچر اور ادب کے حوالے سے ایک دستاویزی فلم بنانے،انٹر نیشنل ہندوکش کلچرل کانفرنس کی میزبانی سمیت ملک کے مختلف یونیورسٹیز میں کہوار زبان کی نمائندگی کرتے ہوئے ورکشاپس میں شرکت کرنے اس کی ترقی میں مزید اضافہ کرنے کا سامان کیا۔

اس تنظیم کے ذیلی یونٹس چترال کے ہر گاؤں کی سطح پر قائم ہے اور چترال سے باہر اسلام آباد،پشاور،لاہور،راولپنڈی،اور کراچی میں بھی انجمن ترقی کہوارکے یونٹس قائم ہیں اور کہوار زبان سے محبت اور عقیدت رکھنے والے افراد اس کی ترقی و ترویج میں اپنا اپنا حصہ ڈال رہے ہیں اور مختلف اوقات میں ملک سے باہر رہنے والے چترالی افراد بھی اس کار خیر میں حصہ لے رہے ہیں تاکہ آنے والی نسلوں تک کہوار زبان صحیح حالت میں پہنچے اور اس میں مزید وسعت پیدا کی جا سکے۔موجودہ صدر شہزادہ تنویر الملک اس تنظیم کے انتہائی متحرک صدر تصور کئے جاتے ہیں  ان کے دور صدارت میں چترال بھر میں تنظیم کے کام میں وسعت دیکھنے کو ملی اور خاص کر چترال کے نوجوان شعرائے کرام اور ادباء کی بھر پور انداز میں حوصلہ افزائی کی جارہی ہے تاکہ مزید اس کام میں وسعت لائی جا سکے۔اس سلسلے میں یہاں کے مقامی افراد کو کہوار زبان کی خدمت کے صلے میں مختلف ایوارڈ اور اسناد سے بھی نوازا جا رہا ہے تاکہ ان کی حوصلہ افزائی کا حق ادا کیا جا سکے۔

حال میں بابائے کہوار کمال فن ایوارڈز بھی اس سلسلے کی کڑی تھی جس میں کہوار زبان کے لئے مختلف جگہوں میں گرانقدر خدمات سر انجام دینے کے صلے میں ان کو شیلڈز سے نواز دیا گیا اور پھر مشاعرے کا انتظام کرکے پرانے شعرائے کرام۔کے ساتھ ساتھ نئے نوجوان شعراء کو بھی اپنے اپنے کلام پیش کرنے کا بھر پور موقع دیا گیا۔ضرورت اس آمر کی ہے کہ بحیثیت چترالی ہم میں سے ہر ایک فرد کو اپنی اپنی بساط کے مطابق اپنی پیاری زبان کی ترویج و ترقی میں اپنا حصہ ڈال دینا چاہئے اور اپنے اردگرد موجود دیگر افراد جو کسی بھی لالچ سے مبرا ہو کر خالص کہوار کی خدمت میں مصروف عمل ہیں ان کی ہر طرح سے حوصلہ افزائی کرنی چاہئے تاکہ یہ کام انداز میں آگے بڑھے اور آنے والی نسلوں میں کے آذہان اور دل میں بات ڈال دی جا سکے کہ “ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ؛ کے مصداق ہم میں سے ہر ایک کے اندر کہوار زبان کی خدمت اور اس کی ترقی کے لئے کچھ کر گزرنے کا ارادہ دل میں جاگزیں ہو جائے۔۔۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
56870

خدارا غریبوں پہ رحم کیجئے ۔ تحریر: فیض العزیز فیض‎

پہلے  سال بعد بجٹ آتا تھا مگر اب تو حال یہ ہے کہ ہر آٹھویں دن، ہر چوتھے دن اعلان ہوتا ہے۔ پہلے بجلی مہنگی ہوتی ہے،  پھر پٹرول مہنگا ہو جاتا ہے۔ سبزی لینے جاؤ، گوشت لینے جاؤ، ہر چیز مہنگی ہے۔ پہلے شاید کسی کو معلوم ہوتا تھا. کہ آٹا کتنے روپے کلو ہے، اب اچھی طرح معلوم ہے. کہ آٹے دال کا کیا بھاؤ ہے۔ جو کہتے تھے کہ بہت خوشحالی آئے گی اب اتنی ہی پریشانی آ گئی ہے۔‘مہنگائی نے سب سے زیادہ دسترخوان کو متاثر کیا ہے۔پہلے  ہفتے میں  تین بار گوشت کھاتے تھے، اب وہ اتنا مہنگا ہو گیا ہے کہ ہفتے میں ایک بار کھاتے ہیں۔ جو چیز آدھا کلو پکاتے تھے، وہ اب پاؤ بھر پکاتے ہیں۔ عزیز و اقارب سے میل ملاقات اور رشتہ داروں کے گھر آنا جانا چھوڑ دیا کیونکہ پیٹرول اب لوگوں کے بس سے باہر ہے۔‘پاکستان میں عام خاندان اپنی آمدن کا  زیادہ حصہ کھانے پینے اور بجلی، گیس کے بلوں پر خرچ کرنے پر مجبور ہے۔

فرانس میں جب لوگوں کو روٹی ملنا مشکل ہوئی تو وہ جلوس لے کر شاہی محل پہنچے تو شہزادی نے ماں سے پوچھاکہ ان لوگوں نے جلوس کیوں نکالا ہے۔ملکہ نے جواب دیا کہ ان لوگوں کو کھانے کے لیے روٹی نہیں مل رہی ’’اگر روٹی نہیں ہے تو یہ لوگ کیک کیوں نہیں کھاتے‘‘شہزادی نے معصومیت سے پوچھا۔موجودہ صورت حال کا اگر جائزہ لیا جائے تو پاکستان کی صورت حال بھی ایسی ہی ہے کہ فائیو اسٹار ہوٹلوں سے ڈنر‘لنچ یا ہائی ٹی کرنے کے بعدباہر نکلنے والے بچے اپنی قیمتی گاڑیوں کے پاس کھڑے بھکاری بچوں کو دیکھ کر اپنی ماؤں سے پوچھتے ہوں گے کہ یہ بچے صاف ستھرے کپڑے پہن کر اندر کھانے کے لیے کیوں نہیں جاتے۔جب حکمران کے ارد گرد‘ترین‘انیل مسرت‘ ذولفی اور حلیم خان بیٹھے ہوں تو غربت کے خاتمے کے لیے انوکھے خیالات ہی سوجھتے ہیں. فارغ اور بھوکی عوام اکثر اس بحث میں اج کل ہر چوراہے پہ نظر آتے ہیں. کہ بھائی پیسہ کہاں جا رہا ہے۔۔؟قرضوں کی واپسی میں ۔۔ تو قرضوں میں کمی آئی یا اضافہ ہوا۔۔؟؟کیا تعلیم میں کوئی تبدیلی آئی؟کیا لا اینڈ آرڈر میں کوئی بہتری آئی. کیا صحت کے شعبے میں کوئی تبدیلی آئی کیا سرکلر ڈیبٹ میں کوئی کمی آئی.

کیا بے روزگاری میں کوئی کمی آئی. کیا کرپشن میں کوئی کمی آئی کیا پاکستان کے سفید ہاتھی سمجھے جانے والے کسی ایک بھی ادارے کو بہتر کرنے میں کامیابی حاصل ہوئی۔؟کیا لوگ آج اتنے ہی خوشحال ہیں جتنے تین سال پہلے تھے۔؟اگر نہیں آئی تو پھر کہیں نہ کہیں خرابی ضرور ہے اور میں اس قوم کو جانتا ہوں یہ بہت بے صبری ہیں. یہ لمحوں میں فیصلہ بدل دیتے ہیں. اس کی کچھ جھلک ہم بلدیاتی الیکشن میں پشاور میں دیکھ چکے ہیں. ۔جناب اگر احساس پروگرام چل رہا ہے تو بتائیں اس قوم کے کتنے لوگ لائن میں لگ کر روٹی کھائیں گے یا وظیفہ لینے کے لیئے لائن میں لگیں گے۔؟ہم دیکھتے آ رہے ہیں کہ جب حکمران ایوان اقتدار میں بیٹھتے ہیں تو وظیفہ خور مشیر اپنی نوکریاں پکی کرنے کے لیئے خوشامد میں زمین اور آسمان کے قلابے ملا دیتے ہیں۔لیکن زمین پر صورتحال مختلف ہوتی ہے۔پاکستانی سیاست میں اصل کھلاڑی اسٹیبلشمنٹ، بیوروکریسی اور سیاستدان ہی ہیں ۔ انہوں نے خوب اچھی طرح سمجھ لیا ہے کہ اس ملک کی بھولی عوام کو ‘رج’ کے بے وقوف بنانا ہے۔ ایک ہی خاندان میں سے کچھ لوگ طاقتور اداروں میں چلے جاتے ہیں تو کچھ قانون کے ‘پاسبان’ بن جاتے ہیں اور کچھ مختلف سیاسی جماعتوں کا حصہ بن جاتے ہیں کہ جب جس کی حکومت آئی، اس کا حصہ بن جایا جائے.جلال الدین اکبر سے ہمارے کسی بھی حکمران نے نہ سیکھا تو اندازِ حکمرانی نہ سیکھا مگر ایک بات اس سے ضرور سیکھی۔

اکبر نے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کی خاطر ‘مقامی اشرافیہ’ کے ساتھ رشتے داریاں قائم کرلیں جس کے باعث اس کی مقبولیت میں بھی اضافہ ہوا اور ملک میں انتظام و انصرام کے قیام میں بھی آسانی میسر ہوئی۔یہ نکتہ برِصغیر کی اشرافیہ نے بخوبی سمجھ لیا، اور امرا نے اپنی کیمبرج اور آکسفورڈ پلٹ اولادوں کو پاکستان کی افسر شاہی میں گھسایا۔ کوئی جج بنا تو کوئی جرنل اور کوئی ضلع کا بادشاہ ڈپٹی کمشنر بن گیا۔ انہوں نے آگے آپس میں رشتے داریاں بنالیں، کسی کی بیٹی بہو بنالی تو کسی کا بیٹا کسی کا داماد بن گیا۔ اب کسی ایک پر ہاتھ ڈالا جاتا ہے تو اس کی پشت پناہی کے لیے سب ایک ہوجاتے ہیں۔پی ٹی آئی کی حکومت نئی نئی آئی تھی تو ڈھیروں ٹاسک فورسز قائم کی گئی تھیں ان میں سے ایک بیوروکریسی اصلاحات پر بھی تھی جس کی صدارت کی بھاری ذمہ داری ڈاکٹر عشرت حسین کے ناتواں کاندھوں پر ڈالی گئی تھی۔

میں حیران ہوں کہ ان کے پاس نہ جانے کس پہنچے ہوئے سنیاسی کی گیدڑ سنگھی ہے کہ ہر بادشاہ کے دربان بن جاتے ہیں.انہوں نے تاریخی تبدیلیاں لانی تھیں، حکومت کے تقریباً 4 سال ہوگئے ہیں مگر اس ٹاسک فورس نے بھی دھیلے کا کام نہیں کیا۔ اک شہباز شریف ہیں جنہوں نے ایک ‘دھیلے’ کی کرپشن نہیں کی، دوسرے ڈاکٹر عشرت حسین ہیں جنہوں نے ایک دھیلے کا کام نہیں کیا۔ کرپشن سے متعلق شہباز شریف کے مؤقف کے بارے میں تو شدید شکوک وشبہات کا اظہار کیا جاتا ہے مگر عشرت حسین پر عمومی طور پر سب متفق ہیں کہ ان کی بس ‘آنیاں جانیاں’ ہی ہیں مگر کارکردگی صفر بٹا صفر ہے۔قرض پہ چلتی معیشت، دعاؤں پہ چلتے عوام، بیساکھیوں پہ چلتی حکومت اور چانس پہ چلتا ملک جناب وزیراعظم صاحب مزید مس ایڈونچرز سہارنے کی تاب نہیں رکھتے۔ خدارا ہوش کیجئے، خدارا رحم کیجئے۔

Posted in تازہ ترین, مضامین
56868

واپڈا کی غنڈہ ترنی بل سے الزام گردی تک-تحریر: شہزادہ مبشرالملک

۔۔۔ نامہ الفت۔۔
برادر عزیز۔۔۔۔ رحیم جان کا نامہ بر ایا ہے جو کچھ یوں ہے۔۔۔۔ سلام کے بعد عرض ہے اپ کی ثحریر بہت زور ا ور اور لذت سے بھرے ہوتے ہیں ۔۔۔لیکن کبھی کبھار اس میں بہت ثلخی اجاتی ہے اور ہم لوگ بھی یہ پڑھ کر بہت جذباتی ہوتے ہیں ۔لیکن چند دنوں بعد سب کچھ بھلا کر روز مرا کے کام میں لگ جاتے ہیں۔۔۔گز شتہ مہینے سے اپ کی تحریر۔۔۔ ہاءی سکول چترال۔۔ مولویوں کی حمایت میں مضمون پھر گاینی وارڈ کے مطالق تحریر زبردست تھے مگر واہ واہ کے علاوہ اگے بڑھ کے نہ اپ نے کجھ کیا کہ کسی اور نے اخر کیا بات ہے قوم کب بیدار ہوگی؟


دوسری بات یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ اپ کس پارٹی کو پسند کرتے ہیں کبھی فوج کے پیچھے پڑھتے ہیں۔ کبھی نواز لیگ کبھی پی پی کبھی پٹی ای ۔جے یو اءی اور جماعت اسلامی۔۔۔ اخر کون اپ کو پسند ہے اور کیوں۔؟ جواب اخبار ہی میں دیں تاکہ دوسرے دوستوں کےلیے بھی سمجھنا اسان ہو کہ اپ کا دل کس کے ساتھ ہے۔
فقط رحیم جان چیوڈوک چترال

میرے محترم رحیم بھاءی حضرت اقبال نے فرمایا تھا۔۔۔
میرا طریق امیری نہییں فقیری ہے
خودی نہ بیج غریبی میں نام پیدا کر۔۔۔
تو مجھ فقیر کا مشرب بھی کمزور لوگوں کے ساتھ ہے بجپن سے ہی ان ہی لوگوں کے ساتھ رہا ہوں اور چترال سمیت دنیا بھر میں انسانیت کے لیے توانا اواز اٹھانے والوں کی اواز میں کمزور ہی سہی اواز ملاتا رہا ہوں۔۔
جہاں تک پارٹی واپستگی کا تعلق ہے وہ دلی اور تربیتی طور پر جماعت اسلامی کے ساتھ رہا ہے۔میرے والد اور بڑے بھاءی کرنل افتخار بھی مولانا مودودی علیہ رحمہ کے متاثریں میں شامل رے اور میرا کالج لایف بھی ان۔۔۔ صف شکن۔۔۔ مجاہدوں کے ساتھ رہا جب لوٹ کے گھر انا پڑا تو بقو ل منیر نیازی۔۔۔
اب کون منتظر ہے ہمارے لیے وہاں
شام اگیی ہے لوٹ کے گھر جاءییں ہم تو کیا


کے مصداق چترال میں وہ پرخلوص تحریکی ماحول میسر نہ اسکا جو سوات کے حسیں سالوں کا سرمایہ تھا۔۔۔ میرے خاندان کے بڑے بڑے اکابر اور چیدہ لوگ جو جماعت کے بانیوں میں شمار ہوتے تھے وہ شہزادہ محی الدین کی ساست کی وجہ سے۔۔۔ ہمیشہ شک کی نگاہ سے دیکھے جاتے رہے تھے ان کی دہاءیوں پر محیط پر خلوص خدمات کو ہوا ہوتے دیکھ کر میں نے کنارہ کشی میں عافیت محسوس کی۔۔۔ قلم سے رشتہ کالج لایف میں ہی خاندانی بیماری کی طرح لاحق ہوچکا تھا اور اخبارات سے وابستگی بھی تھی اس لیے لکھاری کو کسی بھی وابستگی سے دور نہیں بہت دور ہونا چاہیے۔اور یہ بات بھی درست نہیں کہ پاکستان میں سب کچھ برا ہورہا ہے۔۔۔ تمام پارٹیوں میں اچھے لوگ اور اچھے کاموں کی طویل فہرست موجود ہے اور یہ بیانیہ بھی غلط ہے کہ کوءی بھی پارٹی ریاست پاکستان اور افواج پاکستان کی مخالف ہے۔۔۔البتہ یہ ضرور ہے کہ زاتی مفاد اور اخثیارات کی خواہش نے ملک کا بیڑہ غرق کیا ہوا ہے۔ ملک کی سلامتی اور نظام اسلام جو ملک کے وجود میں انے کا سبب ہے کے لیے میں علماء کی شرکت اور ان کو مناسب مقام دینے کا میں داعی ہوں اب افغانستان میں طالںان کے انے کے بعد علماء خاص کر ۔۔۔ جے یو اہی۔۔۔ کی قد کاٹ اور ریاست کی بہبود میں اضافہ ہونا وقت کا تقاضہ ہے۔ اس لیے اسے گلے لگانا اور بھی ضروری ہوگیا ہے اگر عمران خان یا فوجی حلقے اسے خان صاحب کے ساتھ شروع میں ہی جوڑ دیثے تو سیاسی ااستحکام اور اسلامی نظام کی نفاذ کے حوالے سے بہت سی منازل طے ہوچکے ہوتے۔ عمران کی حکومت سے اب بھی ہمارے توقعات وابسطہ ہیں اگرچہ مس مینچمنٹ اور اپس کی جوڑ توڑ اور مہنگاءی نے اور بقایہ وقت کی کمی ہے ہمیں بھی مایوسی میں مبتلا کر رکھا ہے۔۔۔پھر بھی یہ دور نواز اور زرد داری دور سے پہتر ہے پاکستان کی مستقبل کے لیے۔


جہاں تک عملی میدان کا تعلق ہے اس کے لیے ادارے۔۔این جی اوز۔۔۔ پرشر گروپ اور سیاسی رہنماء موجود ہوتے ہیں ایک غریب لکھاری کی اواز پہ کون عمل کرے گا جبکہ مسلمان اللہ تعالی اور اس کے رسول کے فرامین کو پس پشت ڈال کر ہی تو ۔۔۔ نااہلوں کے نرغے۔۔۔ میں پھسے ہیں۔۔۔ ہم لوگ قلمی جہاد جاری رکھیں گے جب مخلص قیادت سامنے اکے پکارے گی تو مجھ جیسے سارے قلم کار ۔۔۔قلم توڑ کر سر بھی کاٹانے سے دریغ نہیں کریں گے۔

غنڈہ ترنی ٹیکس۔۔
کل سے واپڈا بل کی برسات ہے سارے مساجد میں لوگوں کی بحث وتکرار ۔حکومت خصوصا عمران خان صاحب کے لیے ۔۔۔۔ بددعاوں کے بنڈل اور گالیوں کے گلدستوں نے مساجد کے نورانی ماحول کو الودہ کیے رکھا ہے۔۔۔۔ گزشتہ دو سالوں سے چترال واپڈا جو کے لوکل پاور ہاوس گولین سے چترال بھر کو اور اضافی بجلی دیر کو دے رہا ہے۔ مگر ۔۔۔ فیول۔۔۔ کی مد میں دو سالوں سے چترال کے باسیوں سے بھی فیول چرجیز وصول کر رہا ہے جو لاکھوں نہیں کڑوروں میں ہے۔میں چالیس پچاس غریبوں کے بل ایسے دیکھے جو تین تین سو سے زیادہ نہ تھے جبکہ ۔۔۔ غنڈہ ترین۔۔۔ فیول ٹیکس چار سو پچاس سے زیادہ تھے اور ہزار سے اوپر بل والوں پر ڈبل ٹرپل ڈالے گءے تھے۔اج معلومات لینے واپڈا افیس گیا تو اہلکاروں کے اسے ظلم و زیادتی اور ۔۔۔۔ غنڈہ ترنی ٹیکس قرار دیا جو چترال میں وصول کرنا سراسر ناانصافی ہے۔۔۔ ہمارے نمایدہگان جناب ایم این اے صاحب اور ایم پی صاحب کو چاہیے کہ پشاور میں اسلام اباد میں جلسہ جلوس کریں یا عدالتوں میں رٹ دایر کریں اور سوشل میڈیا والے بھی اس کار خیر میں ۔۔۔ تبدلی والے سرکار کی اس۔۔۔ غنڈہ ترنی ۔۔۔ تلغار ۔۔۔ کو بے نقاب کریں بلز کی تصاوید دیکھا کر ورنہ ہم پیچارے لوگ ۔۔۔۔ کوٹاکی کی دنیا میں گھس کر ۔۔۔۔ گالیوں کے گلدستے اور بددعاوں کے بنڈل ۔۔۔ بیجنے سے زیادہ کچھ کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
56847

فوری اور سستے انصاف کا حصول ۔ محمد شریف شکیب

فوری اور سستے انصاف کا حصول ہر شہری کا بنیادی قانونی اورآئینی حق ہے۔ انصاف کی فراہمی کے لئے ہی ادارے قائم کئے جاتے ہیں۔ ان اداروں کے اہلکاروں کو دوران ملازمت سرکاری خزانے سے پرکشش تنخواہ اور مراعات دی جاتی ہیں۔اور ریٹائرمنٹ کے بعد بھی وہ قومی خزانے سے تاحیات استفادہ کرتے ہیں۔ہمارے معاشرے میں انصاف کی فراہمی کا صرف عدلیہ کی ذمہ داری گردانا جاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عدلیہ کا بنیادی کام ظلم کو روکنا اور مظلوم کو انصاف فراہم کرنا ہے۔ مگر وقت گذرنے کے ساتھ عدلیہ پر اتنا بوجھ ڈالا گیا کہ اس کے لئے سستا انصاف فراہم کرنا اور ظلم و زیادتی کو روکنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا ہے۔

عدالتوں پر دیوانی اور فوجداری مقدمات سے زیادہ سیاسی مقدمات کا بوجھ لادا گیا ہے اور حکومت کی کوشش ہوتی ہے کہ عدالتیں سیاسی مقدمات پہلی فرصت میں نمٹائیں۔عدالتوں میں ججوں کی کمی ہر دور حکومت میں عدلیہ کا مسئلہ رہا ہے۔ جو عدالتوں پر مقدمات کا بوجھ بڑھتے رہنے کی بڑی وجہ ہے۔ اعلیٰ عدلیہ مقدمات جلد سے جلد نمٹانے اور عوام کو سستا اور فوری انصاف کی فراہمی کے لئے اقدامات بھی کر رہی ہے۔پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے 2016میں عوام کوسستے اور فوری انصاف کی فراہمی کے لئے خیبر پختونخوا کے اکثر اضلاع میں کیمپ کورٹ قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔

چیف جسٹس کے حکم پر ملک کے دور افتادہ ضلع چترال میں بھی عدالت عالیہ کا کیمپ کورٹ قائم کیاگیا۔ طے پایاتھا کہ ہرتین یا چھ ماہ بعد عدالت عالیہ کا ایک جج کیمپ کورٹ جاکر مقدمات نمٹائے گا۔مگر مرکزی عدالت اور سرکٹ بنچوں میں مقدمات کے انبار کی وجہ سے کیمپ کورٹس پر زیادہ توجہ نہیں دی جاسکی جس کی وجہ سے وہاں مقدمات کی تعداد بھی روز بروز بڑھتی گئی۔ اب چترال کیمپ کورٹ میں ساڑھے سات سو مقدمات زیرالتواء ہیں سائلین کا کہنا ہے کہ مقدمات کی سماعت کے لئے ایک جج مہینے دو مہینوں کے اندر کیمپ کورٹ میں چند دنوں کے لئے آتا ہے مگر ان کے لئے اتنے سارے مقدمات کی سماعت کرنا ممکن نہیں ہوتا۔جس کی وجہ سے کیمپ کورٹ میں مقدمات کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔

سائلیں چترال کے طول و عرض سے اپنے مقدمات کی سماعت کی امید لے کر ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر آتے ہیں مگر ان کی باری نہیں آتی۔ انہوں نے چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ سے استدعا کی کہ اگر ججوں کی مصروفیات کی وجہ سے کیمپ کورٹ میں سماعت ممکن نہیں تو یہ مقدمات دارالقضاء سوات یا پشاور ہائی کورٹ ریفر کئے جائیں کیونکہ چترال میں سماعت کی آس پر بیٹھے رہنے سے ان کے لئے پشاور اور سوات جانا زیادہ مشکل نہیں ہے۔

چترال کیمپ کورٹ میں دائر مقدمات میں سے نوے فیصد سے زیادہ دیوانی اور فوجداری نوعیت کے ہیں۔ اور یہ مقدمات کئی برسوں تک ذیلی عدالتوں میں بھی چلتے رہے ہیں اور سائلین کو انصاف کے لئے پہلے ہی کئی عشروں تک انتظار کرنا پڑا ہے۔ اعلیٰ عدلیہ نے انصاف کی فراہمی کا عمل تیز کرنے کے لئے مختلف طریقے اپنائے مگر سستے اور فوری انصاف کی فراہمی کا خواب ابھی تک شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا۔ جس کی بنیادی وجہ انصاف کی فراہمی کے نظام میں موجود خامیاں ہیں اور یہ کام عدالتی فیصلے سے نہیں بلکہ پارلیمنٹ میں قانون سازی کے ذریعے انجام پاسکتا ہے۔

ہمارا المیہ یہ ہے کہ حکمرانوں کو عوام کے مسائل، مشکلات اور پریشانیوں کا ادراک ہی نہیں ہوتا۔اور جو لوگ ان مشکلات سے گذرتے ہیں انہیں ایوان اقتدار تک پہنچنے کا راستہ نہیں ملتا۔ یہی وجہ ہے کہ آزادی کے 75سال گذرنے کے باوجود ہم اب تک انگریزوں کے بنائے ہوئے قوانین اور نظام کے ساتھ چمٹے ہوئے ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ ریاست مدینہ کا نظام متعارف کرنے کی دعویدار حکومت سب سے پہلے نظام انصاف میں اصلاحات لانے کے لئے عملی اقدامات کرے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
56839

سرکاری اطلاعات اور غذر ایکسپریس وے تحریر : شمس الحق نوازش غذری

سرکاری اطلاعات اور غذر ایکسپریس وے تحریر : شمس الحق نوازش غذری

غذر ایکسپریس وے کے حوالے سے تحصیل گوپس سے جو معلومات میڈیا کو فراہم کی گئی ہیں وہ مِن و عن اپنی اصلی شکل اور روپ میں حسب ذیل ہیں۔


۱۔ گلگت سے شندور کے آخری حدود تک (آخری حدود کا نام اورنشاندہی کا ذکر موجود نہیں) روڈ کی کل لمبائی 216 کلومیٹر ہے۔


۲۔ روڈ کی تعمیر کے لیے زمین کے حصول کا کام باقاعدہ طور پر شروع کیا گیا ہے اور اب تک موضع داہیمل مکمل کرلیا گیا ہے۔


۳۔ روڈ کی چوڑائی مختلف جگہوں میں مختلف ہے۔ آبادی سے باہر اور پہاڑی علاقوں میں روڑ کی کل چوڑائی 50 میٹر ہے جو کہ فٹ میں 164 فٹ بنتا ہے۔ کل چوڑائی میں 33فٹ موجودہ روڑ بھی شامل ہے۔


۴۔ جب کہ آبادی والے علاقوں میں رو ڈ کی کل چوڑائی 15 میٹر ہے جو کہ فٹ کے حساب سے 50 فٹ بنتا ہے۔ اس 50 فٹ میں بھی موجودہ 33 فٹ روڑ شامل ہوگا۔ یعنی کہ 17 فٹ اضافی زمین کا حصول ہوگا۔


۵۔ رو ڈ کے لیے جانے والی تمام زمینوں اور اس میں موجود اسٹریکچر کا بروقت معاوضہ دیا جائے گا۔


۶۔ زمین کا حصول این ایچ اے کے سروے کے مطابق ہورہا ہے۔


۷۔ عوام کی مزید آگہی (آگاہی) کے لیے گوپس میں ایک آگہی سیشن بھی رکھا جائے گا۔


معزز قارئین! غذر چترال روڑ کے گردونواح میں قدرتی مناظر حسن و جمال میں ایک سے بڑھ کر ایک ہیں۔ یہ گلگت بلتستان میں واحد رو ڈ ہے جس کے آخری سرے میں پہنچ کر سیاح کو واپس مڑنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ سیاح غذر سے شندور، شندور سے چترال اور چترال سے براستہ دیر پشاور پہنچ سکتا ہے۔ دُنیا کے حالات اِدھر سے اُدھر ہوجائیں غذر سے لیکر لواری ٹنل تک کے آس پاس غاروں میں چھپے درندوں کے جذبات میں بھی غیر ضروری جوش اور ہیجان پیدا نہیں ہوتا۔ دُنیا کی کوئی خاتون اس رو ڈ میں اکیلی سفر کرے تو اس کی عفت و عصمت کی ضمانت دی جاسکتی ہے۔

دُنیا کی بلند ترین پولوگراؤنڈ شندور غذر چترال ایکسپریس وے کے عین وسط میں واقع ہے۔ قدرتی حسن و جمال کے علاوہ یہاں کے باسی انتہائی صلح جُو اور نرم خُو مزاج کے حامل ہیں۔ یہاں کے مکینوں کی اِن صفاتِ حمیدہ کی بناء پر دُنیا کی دس ہزار سالہ تاریخ میں یہاں کا امن و امان بدنظروں کی چشمِ بد سے محفوظ رہا ہے۔ جی ہاں۔۔! وہی امن و امان۔۔۔جس کے لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آسمان کی طرف دیکھ کر اُس وقت دُعا کی تھی۔ جب آپ حضرت حاجرہ ؑ اور حضرت اسماعیل ؑ کو مکہ کی بے آب و گیاہ اور ویران زمین میں چھوڑ کر واپس جارہے تھے (آپ ؑ نے دُعا کی تھی) اے پروردگار تو اس جگہ کو امن و امان کا شہر بنادے اور اپنے فضل و کرم سے اس شہر میں بسنے والے اُن تمام لوگوں کو ہر قسم کی رزق عطا فرماوے۔ جو تجھ پر اور آخرت پر ایمان لے آئیں۔


آج سے ہزاروں سال پہلے حضرت ابراہیمؑ نے دُنیا میں خوشحالی، ترقی اور رزق کی فراوانی کا فارمولا طے کردیا تھا چنانچہ جب تک کسی ملک میں امن امان نہیں ہوتا اس وقت تک وہ ملک خوشحال اور ترقی یافتہ نہیں ہوسکتا۔ تم امریکہ سے لے کر جاپان اور ملائشیاء سے لے کر دبئی تک دُنیا کے تمام خوشحال ملکوں کا پروفائل نکال کر دیکھ لو تمہیں ان سب مین امن و امان مشترک ملے گا اور تم راوانڈا سے افغانستان اور برازیل سے پاکستان تک کے تمام غیر ترقی یافتہ ممالک کا مطالعہ کرو تمہیں یہ تمام ممالک لاء اینڈ آرڈر کے مسائل کا شکار ملیں گے ہم کتنے خوش نصیب ہیں۔

حضرت ابراہیم ؑ نے مکہ کے شہریوں کے لیے جو امن و امان مانگ تھا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے وراثتی جائیداد کی طرح اُسی امن و امان سے ہمیں نوازا ہے۔ دنیا میں ایسے خطے انتہائی قلیل تعداد میں موجود ہیں جہاں انتہا درجے کی قدرتی حُسن و گلوسوز بھی ہے اور بے مثل اَمن و امان بھی۔۔۔۔ یہ دو نعمتیں زمین کے کسی بھی خطے کو اس کے دیگر حصوں سے منفرد بھی بنادیتی ہیں اور ممتاز بھی۔ دُنیا میں کئی مقامات ایسے ہیں جہاں دلکش اور دل آویز مناظر موجود ہیں لیکن وہ امن و امان کی نعمت سے محروم ہیں اور کئی خطے اور علاقے ایسے ہیں جہاں چیونٹی کا قتل جرمِ عظیم ہے لیکن وہاں کا جغرافیہ حسن و دلکشی سے محروم ہے۔ زمین کا جو حصہ ان دو نعمتوں سے مالا مال ہو اُس حصے کی مٹی کو ہیروں کے ساتھ تولا جائے تو بھی اس مٹی کا حق ادا ہیں ہوگا۔ چہ جائے کہ اب اس قسم کی بقعہئ خاکی کو وہاں کے مکینوں کی سادہ لوحی سے غلط فائدہ اُٹھا کر غصب کرنے کی کوششوں اور سازشوں میں لگے رہیں جہاں پہنچ کر ہر سیاح کے زبان سے بے ساختہ یہ جملہ نکلتا ہے۔


اگر فردوس بر روئے زمین است
ہمیں است و ہمیں است و ہمیں است

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
56834

سال 2021 میں احوال عالم کا سیاسی منظر نامہ ۔ قادر خان یوسف زئی

سال 2021 میں احوال عالم کا سیاسی منظر نامہ ۔ قادر خان یوسف زئی

2021 کا سال کرونا وبا سے بچاؤ کے لئے ویکسین اور حفاظتی انتظامات کے حوالے سے عالمی اہمیت کا حامل رہا، بالخصوص ویکسین کی فراہمی میں عدم مساوات اور غیر منصفانہ تقسیم عالمی طبقاتی کشمکش کا سبب بنا۔  لاکھوں انسانوں کی اموات، صحت و ماحول پر اقوام عالم کی ترجیحات نے ایسی خامیوں کی نشان دہی کی، جس کے بارے میں تصور بھی نہیں کیا جاتا تھا،  ترقی یافتہ ممالک وسائل کی فروانی و جدیدیت کی وجہ سے غریب اور ترقی پذیر ممالک پر ہر شعبے میں آگے رہے، لیکن جب کرونا نے اپنا اثر دکھانا شروع کیا تو جدید ساز و سامان و وسائل سے مالا مال دولت مند ممالک انتہائی لاچار و بے بس نظر آئے، ان ممالک میں معیشت اور انسانی سرگرمیوں کی بحالی کا سلسلہ ہنوز چیلنج ہے۔ 2021 دسمبر کے اختتام تک کرونا کیسوں کی تعداد 289,713,814 ہوچکی تھی۔ جب کہ کرونا وائرس کے ہاتھوں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 5,457,330 رہی  جب کہ 254,161,309 مریض صحت یاب ہوئے۔

globe world map

امریکہ
سال2021میں سیاسی تناظر میں سب سے زیادہ ہلچل امریکی انتخابات سے ہوئی۔ ٹرمپ کی شکست کے بعد صدر جوبائیڈن کو جمہوری طور پر کمزورامریکہ ملا، امریکی جمہوریت کو کیپٹل ہل حملے سمیت جمہوری اقدار کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ ٹرمپ حامیوں کی ہنگامہ آرائی اور عدم برداشت کے رویوں کے ساتھ آخری دَم تک ٹرمپ کا شکست تسلیم نہ کئے جانا دنیا بھر میں جمہوریت پسند ممالک کے لئے باعث شرمندگی بنا۔ امریکا، کرونا وبا کی وجہ سے پوری دنیا میں سب سے زیادہ متاثرہ مملکت ہے جہاں تین لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہونے کے باوجود انتخابی عمل ہوا۔ خیال رہے کہ2020دسمبر کے اختتام تک ہلاک ہونے والوں کی تعداد اب 847,162 ہوچکی ہے۔ جوبائیڈن سے توقعات وابستہ کی جا رہی تھی کہ صدر ٹرمپ کی  بیشترپالیسیوں کو تبدیل کردیں گے۔ جو بائیڈن نے عالمی ماحولیاتی معاہدے میں دوبارہ شمولیت اختیار کرلی، افغانستان سے مکمل فوجی انخلا کرلیا، ایران کے ساتھ جوہری معاہدے پر عمل درآمد کے لئے مذاکرات کا عندیہ دیا،تاہم چین، روس اور شمالی کوریاکے ساتھ تعلقات ہنوز کشیدہ ہیں، امریکا نے چین کے بیلٹ اینڈ روڈ اینیشیٹیو (بی آر آئی) کا مقابلہ کرنے کیلئے جی سیون ممالک کے ساتھ مل کر ایک نیا انفرا اسٹرکچر منصوبہ B3W (بلڈ بیک بیٹر ورلڈ) شروع کرنے کا اعلان کیا۔ اکوس معاہدے سے ایشیا پیسفیک میں نیا  سیکورٹی اتحاد بنایا۔ آسڑیلیا کو ایٹمی آب دوزیں بنانے اور دینے پر سخت اختلافات ہوئے، فرانس نے احتجاجاََ اپنے سفیر امریکہ اور آسڑیلیا سے واپس بلالئے ۔

عراق میں جنگ کے خاتمے کا اعلان امریکی صدر جوبائیڈن نے27جولائی کو کیا،لیکن فوجی تربیت اور داعش کے خطرے کے نام پر فوجی انخلا نہیں کیا جاسکا،بھارت نے امریکی انتباہ کے باوجود روس سے ایس400 میزائل دفاعی نظام کرلیا  لیکن ترکی کی طرح بھارت پر کسی قسم کی پابندی عائد نہیں کی، پاکستان کے ساتھ تعلقات جو بائیڈن کے دور میں بدترین سرد مہری کا شکار ہوئے۔ افغانستان سے انخلا کے اہم مرحلے اور خطے میں اہم معاملات پر جوبائیڈن نے پاکستانی وزیراعظم سے کسی قسم کا رابطہ نہیں کیا تاہم اعلیٰ سفارتی اور فوجی حکام رابطے میں رہے، اس برس امریکہ نے پاکستان کے لئے باضابطہ سفیر بھی نامزد کیا۔ پاکستان، امریکی سرد مہری کے باوجود بہتر خارجہ و تجارتی تعلقات کا خواہاں رہا۔امریکی ایوان نمائندگان نے امریکہ کے قومی سلامتی ایکٹ 2022 کے متن سے افغان طالبان کے قبضے پر پاکستان کے کردار سے متعلق تمام منفی حوالہ جات خارج کردیے، مذکوہ حوالوں میں ملک کو سقوطِ کابل کا موردِ الزام ٹھہرایا گیا تھا۔  امریکی کانگریس کی ڈیمو کرٹیک رکن الہان عمر نے اہم بل پیش کیا جو ایوان نمائندگان میں منظور ہوا اور وائٹ ہاؤس نے بھی اس بل کی حمایت کردی۔  الہان عمر کے اس بل کا نام ‘بین الاقوامی اسلاموفوبیا کا مقابلہ’ ہے جس کا مقصد ہے کہ امریکی محکمہ خارجہ کے تحت ایک خصوصی نمائندے کا تعین کیا جائے جو دنیا بھر میں اسلاموفوبیا کے واقعات کو رپورٹ کر کے امریکی محکمہ خارجہ کے علم میں لائے۔ واضح رہے کہ ایک نمائندہ پہلے ہی امریکی محکمہ خارجہ میں موجود ہے جس کا کام عالمی سطح پر یہود مخالف واقعات کو رپورٹ کرنا ہے۔


افغانستان
امریکہ۔ افغانستان کی دو دہائی پر میحط جنگ 2021 میں 31 اگست کو باقاعدہ ختم ہوئی اور افغان طالبان نے آخری غیر ملکی فوجی میجر جنرل کرس ڈوناہوکے جانے کے بعد پورے ملک کا کنٹرول حاصل کرکے عبوری انتظامیہ کا اعلان کردیا۔ افغانستان میں سیاسی بحالی کے لئے افغان طالبان، غنی انتظامیہ و امریکا کی جانب سے پاکستان  کا کردار کلیدی رہا۔تاہم دوحہ معاہدے کے برخلاف افغان مالیاتی اثاثوں کو منجمد کردیاگیا، افغان طالبان حکومت کو عالمی برداری نے رسمی طورپر تسلیم نہیں کیا، جس کی وجہ سے افغانستان میں اس وقت انسانی بحران جنم لے چکا اور ڈھائی کروڑ افراد کو قحط اور اقوام متحدہ کے مطابق ایک ملین بچوں کو بھوک سے ہلاکت کا سامنا ہے۔ یورپ، امریکہ اور عرب ممالک نے غیر سرکاری طور پر امدادی تنظیموں کے ذریعے امدادی پروگراموں کا اعلان توکیا لیکن افغان عوام کو اعلان کی نہیں عملی اقدامات کی اشد ضرورت ہے، اگر سنجیدگی سے عمل درآمد نہیں کیا گیا تو بدترین انسانی المیہ معافی کا موقع بھی نہیں دے سکے گا۔ پاکستان نے سہولت کاری کا مثبت کردار ادا کیا، چین، ایران اور روس نے  افغانستان  کو درپیش مسائل یقین دہانیاں کرائیں ہیں، لیکن تاحال کسی بھی ملک نے افغان انتظامیہ کو تسلیم کرنے کا عندیہ نہیں دیا۔


ایران
عظیم مشرق وسطیٰ میں ایران ایک ایسی مملکت کے طور مختلف ممالک میں جاری جنگوں و خانہ جنگیوں میں الجھی  رہی۔سیاسی طور پر قدامت پسند پالیسیوں کے خلاف اٹھنے والی کئی عوامی تحاریک ایرانی ریاست کے خلاف کامیابی حاصل نہیں کرسکی۔ امریکا کی متواتر پابندیوں اور ایرانی مفادات سمیت جوہری معاہدے تنازع نے ایران کو مسلسل حالت جنگ میں رکھا ہوا ہے ایران نے جوہری تنصیبات کے معائنے کے لئے مشروط اجازت دے دی۔ امریکہ نے ایران کے ساتھ اوباما معاہدے کو بحال کرنے کے لئے شرائط رکھی جس سبب دونوں ممالک کے درمیان مثبت پیش رفت ممکن نہیں ہوپائی ہے۔ ایران میں منعقد ہونے والے صدارتی انتخابات میں جج ابراہیم رئیسی نے بھاری اکثریت سے فتح حاصلکی۔ خیال رہے کہ ابراہیم رئیسی پر امریکہ نے متعدد پابندیاں عائد کر رکھی ہیں اور ان پر ماضی میں سیاسی قیدیوں کی پھانسی دینے جیسے الزامات بھی عائد کیے جاتے ہیں۔ یورپ اور امریکہ کو بدستور تشویش ہے اور اسرائیل نے تو ایران پر حملے کے لئے اپنی فوج کو تیار رہنے کا حکم بھی دیا، تاہم اسرائیل اور ایران کے درمیا ن براہ راست جنگ کے امکانات ممکن نہیں۔  


اسرائیل
2021کا سال اسرائیل  کے لئے سیاسی طور پر سیاسی بحران کا شکار رہا۔اسرائیل کی پارلیمان نے نئی اتحادی حکومت کے قیام کی منظوری دی اور اس طرح بنیامن نتن یاہو کے 12 سالہ اقتدار کا اب خاتمہ ہو ا۔دائیں بازو کے قوم پرست نفتالی بینیٹ نئے وزیر اعظم کے عہدے کا حلف اٹھایا اور حکومت کی تبدیلی کی قیادت کی۔  اسرائیل نے متحدہ عرب امارات میں باقاعدہ سفارت خانے قائم کئے اور اسرائیلی وزیراعظم نے دورہ بھی کیا۔ سعودی عرب نے اسرائیل  کو کہا کہ اگر وہ 1967والی سرحدوں پر واپس چلا جائے تو سعودی سمیت 57 مسلم ممالک  اُسے تسلیم  کرسکتے ہیں، تاہم دو ریاستی حل پر اقوام متحدہ عمل درآمد نہیں کرایا جاسکاور غیر قانونی آبادیاں بنانے کے منصوبے کو بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔


بھارتمودی سرکار کا 2021 میں بھی ہندو توا کے نظریئے کے تحت انتہا پسند اقدامات نافذ کرتی رہی، مقبوضہ کشمیر، جموں اور لداخ کی تاریخی حیثیت کو مسخ کرنے کی کوشش کے بعد پاکستان، چین اور نیپال، بنگلہ دیش سمیت ایران کے ساتھ بھارت کے سفارتی تعلقات مزید خراب ہوئے،  بھارت کرونا وائرس کی وجہ سے رواں برس بھی 34,889,132 کیسوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہا۔ دسمبر کے اختتام تک 481,770 مجموعی طور پر ہلاک ہوئے۔ مودی سرکار کی جانب سے سیاسی ناپختگی کا مظاہرے جاری رہے جس کے باعث خطہ میں بھی جنگ کا ماحول برقرار رہا۔ چین کے ساتھ ساتھ پاکستان مخالف پروپیگنڈا نیٹ ورک، بھارتی عزائم کو بے نقاب کرتا نظر آیا۔ کرونا کی وبا میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف ریاستی جبر و انتہا پسندی سے بھارت کی حکومت کے خلاف عوامی نفرت میں اضافہ ہوا۔امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی نے بھارت کو سی پی سی فہرست میں ڈالنے کی تجویز دی تھی لیکن بائیڈن انتظامیہ نے مسلمانوں کے خلاف بڑھتے ہوئے تشدد کے باوجود،بھارت کو سی پی سی کی مذہبی آزادی کے لیے ’خاص تشویش والے ملک‘ کی فہرست سے باہر رکھنے کا فیصلہ کیا۔

روسی صدر نے بھارت کا اور مودی نے امریکہ کا دورہ کیا، چین کے خلاف تائیوان کے مسئلے پر بھارت کو عالمی قوتوں کی پشت پنائی تیسری عالمی جنگ کے خطرے کو بڑھانے کا موجب بن رہی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ سیاسی تعلقات میں شدت پیدا ہوئی اورکرپشن سمیت مختلف اسکینڈلز کے علاوہ مذہبی اقلیتوں کے خلاف معتصبانہ رویہ سمیت کئی متنازع عدالتوں فیصلوں نے بھارت کے سیکولر چہرے کو بے نقاب کیا، گذشتہ برس سے جاری کسانوں و مزدرو طبقہ کی جانب سے متنازع بل کے خلاف، کئی مہینوں سے جاری احتجاج کے بعد مودی سرکار نے گھٹنے ٹیک دیئے۔ بھارت میں شہریت کے متنازع ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف گذشتہ برس کی شروعات سے امسال بھی سیاسی انتشار عروج پر  رہا، 2020 سال کی آمد کے بعد 10 جنوری کو اس قانون کا ملک میں نفاذ کیا گیا تھا۔شہریت کا ترمیمی قانون غیر قانونی طور پر بھارت آنے والی چھ مذہبی اقلیتی برادریوں (ہندو، بدھ، جین، سکھ، پارسی اور مسیحی) کو شہریت دینے کی بات کرتا ہے۔ناقدین کا  مانناہے کہ اس میں مسلمانوں کا نہ شامل کیا جانا جانبداری کا مظہر ہے اور یہ کہ تین ممالک کو ہی شامل کیا جانا منطقی نہیں۔نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز، این پی آر،نیشنل پاپولیشن رجسٹر یا این پی آر جیسی پالیسیوں نے بھارت میں مذہبی منافرت و سیاسی جانب دارانہ پالیسیوں کو فروغ دیا۔


برطانیہ
2021 یکم جنوری کو یورپی یونین سے باضابطہ علیحدگی کا مرحلہ مکمل ہونے کے بعد برطانیہ کے لیے ایک نئے عہد کا آغاز ہو ا۔عالمی وقت کے مطابق رات 11 بجے برطانیہ نے یورپی یونین کے قوانین کی پاسداری کرنی بند کر دی اور ان کی جگہ سفر، تجارت، امیگریشن اور سیکیورٹی تعاون کے نئے ضوابط نافذ العمل ہوگئے۔ خیال رہے کہ برطانیہ کی عوام نے 2016 میں بریگزٹ ریفرینڈم میں یورپی یونین سے علیحدگی کے حق میں ووٹ دیا تھا اور 31 جنوری 2020 کو برطانیہ 27 رکنی سیاسی و اقتصادی بلاک سے علیحدہ ہوگیا تھا۔ یورپی یونین نے بریگزٹ ڈیل کی خلاف ورزی کا الزام لگاتے ہوئے برطانیہ کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا ہے۔ برسلز کے مطابق شمالی آئرلینڈ سے متعلق تجارتی انتظامات میں لندن کی طرف سے یک طرفہ تبدیلی بریگزٹ معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔ برطانیہ کرونا وبا کا بدترین شکار رہا۔ دسمبر کےاختتام  تک 13,100,458 کیس رپورٹ ہوچکے ہیں، جب کہ وائرس کی زد میں 148,778 افراد ہلاک ہوئے۔ عالمی ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کے لئے26کوپ اہم کانفرنس کا انعقاد گلاسیکو میں ہوا۔  برطانیہ نے کہا کہ وہ چاہتا ہے کہ کوپ 26 کا عالمی درجہ حرارت کو 1.5 سیلسیئس تک محدود رکھنے کا مقصد پورا ہو،گلاسگو میں دو ہفتوں میں ممالک اور لیڈران نے کئی اہم وعدے کیے، مثال کے طور پر 2030 تک گرین ہاؤس گیس میتھین کے اخراج میں 2030 تک 30 فیصد کمی لانے کا عہد۔ اس کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی کارکنان کے مظاہرے بھی جاری رہے جن میں ہزاروں لوگوں، خاص طور پر نوجوانوں نے شرکت کی، جو حکومتوں کے موسمیاتی بحران پر ہنگامی اقدامات لینے پر سستی سے نا خوش ہیں۔


ترکی
ترکی کے صدر طیب اردوگان کے عالمی منظر نامے میں بڑھتے کردار کی وجہ سے، امریکا  اور یورپ کے ساتھ تعلقات بدستور کشیدہ ر ہے، ترکی نے 2017 میں روس سے ایس 400 میزائل سسٹم خریدا تھا جس کے نتیجے میں پابندیاں بدستور عائد ہیں۔امریکہ روسی میزائل سسٹم نیٹو کے دفاعی نظام کو اپنے لئے خطرہ سمجھتا ہے۔ترکی پر شام کے ساتھ سفارتی تعلقات بہتر کرنے کا دباؤ بڑھ رہا ہے۔ حالیہ برسوں میں تیزی سے اپنے اسلحہ کی صنعت کو ترقی دینے کی کوششیں ترکی کی حکومت کے سیاسی ہتھیاروں میں ایک اہم ہتھیار بن چکا ہے۔  قطر اور ترکی نے اپنے مرکزی بنکوں کے درمیان کرنسی کے تبادلے کے معاہدے میں توسیع کی گئی۔ یورپی یونین کی پارلیمان ترکی کو انتباہ کرتے ہوئے کہا کہ ترکی اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی نہیں کرتا تو یونین میں شمولیت سے متعلق مذاکرات معطل کر دینے چاہیں۔ا ستنبول کی جیل میں قید عثمان کوالا کے معاملے پر دس مغربی ممالک کے ساتھ ترکی کے سفارتی تعلقات ایک نئے بحران کا شکار ہوئے۔  ترکی نے آرمینا اور آذر بائیجان کے درمیان کاراباخ کے تنازع پر آذربائیجان کی حمایت کی، لیکن اس سے روس کے ساتھ تعلقات پر فرق نہیں پڑا، اور دفاعی معاہدے کرکے روس کے ساتھ ایک ایسا بلاک بنا لیا،جس سے عالمی سیاسی منظر نامے پر طاقت کے توازن کے نمایاں فرق دیکھا جاسکتا ہے۔افغانستان امن عملے لئے استنبول کانفرنس کا اہتمام کیا تاہم اس کے بغیر ہی امریکہ نے افغانستان چھوڑ دیا تاہم ائیر پورٹ سیکورٹی کے لئے بات چیت ہوئی لیکن افغان طالبان نے فوجی دستوں کی موجودگی پر اعتراض کیا اور ترکی افغانستان میں نیٹو اتحادی ہونے کے باعث نکل گیا۔


پاکستان
پاکستان کو ایف اے ٹی ایف میں بدستور رکھا گیا۔ سیکورٹی خدشات لاحق رہے ، بلخصوص بھارت اور افغانستان کی جانب سے دراندازیوں  ہوئیں۔ تاہم تمام تر نا مساعد حالات کے باوجود پاکستان کے لئے2021 میں کئی چیلنجز کو کامیابی حل کیا گیا۔ سیکورٹی فورسز کا کردار انتہائی مثبت و حوصلہ مند رہا ہے کہ بیرون ملک و اندرونِ داخلہ دہشت گردوں و انتہا پسندوں کے سہولت کاروں کی ہر مذموم منصوبہ بندی کے خلاف سینہ سپر رہے ہیں، سیکورٹی فورسز پر رواں برس بھی مسلسل دہشت گردی کے واقعات ہوتے رہے ہیں، جانی و مالی نقصانات کے باوجود ریاست کی قربانیاں ملکی سلامتی و بقا کا ضامن بنی، پڑوسی ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات استوار کرنے کی کوششیں رواں برس بھی جاری رہیں، حکومت اور حزب اختلافات کے درمیان سیاسی محاذ آرائی صرف بیانات و جلسوں کی حد تک محدود رہیں۔  پاکستان کو افغانستان میں قیام امن کے لئے اپنی سفارتی و سیاسی کردار کی وجہ سے اہمیت حاصل ہوئی اور عالمی طاقتوں نے پاکستانی کوششوں کو سراہا، جب کہ ریاست کی جانب سے جنوبی ایشیا ئی پالیسی میں تبدیلی اور انتہا پسندی کے خلاف نمایاں اقدامات قابل تعریف قرار دیئے جاچکے ہیں۔ سعودی عرب، چین، امریکا اور ایران کے ساتھ تعلقات کے اثرات پر خارجہ پالیسی کے ساتھ ساتھ اندرون خانہ داخلی مسائل بڑے چیلنجز رہے۔ عالمی سیاسی منظر نامے میں پاکستان کو اپنی جغرافیائی حدود و اہمیت کو اجاگر کرنیکے لئے عالمی قوتوں کے دباؤ کا سامنا رہا۔ پاکستان نے افغانستان کے مسئلے کے لئے ایک مرتبہ پھر اہم کردار ادا کرتے ہوئے اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کا اجلاس، اسلام آباد میں منعقد کیا۔ روس، ترکی، ایران، چین سمیت وسط ایشیائی ممالک کے ساتھ موثر تعلقات کو آگے بڑھایا۔ دہشت گردی کے بڑے واقعات کو روکنے میں کامیابی ملی بالخصوص افغان طالبان کی حکومت آنے کے بعد غیر ملکیوں کے انخلا کے لئے جس سیاسی تدبر کا مظاہرہ ریاست نے کیا، اسے عالمی برداری کی جانب سے سراہا گیا۔


جرمنی
 جرمنی میں سیاست کا نیا دور شروع ہوا اور سوشل ڈیمو کریٹک پارٹی کے رہنما اولاف شوُلس کو نئے چانسلر کے طور پر منتخب کیا۔  انتخابات سے اینگلا مرکل کے بطور چانسلر آخری دور کا اختتام ہو گیا۔  اینگلا مرکل 16 برس بعد اقتدار سے ہٹنے پر جرمن سیاست میں نئے دور کا آغاز ہوا۔ یورپ کی سب سے مضبوط معیشت جرمنی میں بائیں بازو کی قیادت نے ملک کی باگ ڈور سنبھال لی۔ جرمنی تارکین وطن کے لئے ایک مثالی ملک کے طور پر جانا جاتا ہے تو دوسری جانب مسلم تارکین وطن اور پناہ گزینوں کے خلاف اسلام فوبیا بھی جرمنی کا مسئلہ بنا رہتا ہے۔ خیال رہے کہ  اقوام متحدہ کی مہاجر ایجنسی این ایچ سی آر نے دنیا بھر کے مہاجرین کے تحفظ میں بہتری لانے کے لئے کلیدی اقدامات کی تجویز پیش کی  تھی۔ یو این ایچ سی آر کا کہنا ہے کہ یورپی سیاست کے ایک اہم ملک کی حیثیت سے جرمنی کو اپنی کوششیں تیز کرنی چاہئیں۔یو این ایچ سی آر جرمنی سیاسی جماعتوں سے مطالبہ کررہا ہے کہ وہ جنیوا کنونشن سے اپنی وابستگی کو تیز کرے اور پوری دنیا میں مہاجرین کے تحفظ کو یقینی بنائے۔


چیندنیا کے معاشی منظر نامے میں ابھرنے والی قوت کو ہی سپر پاور سمجھا جاتا ہے۔چین اس وقت اپنے زمینی معاشی منصوبوں کی وجہ سے دنیا بھر میں ون بیلٹ ون روڈ کے منصوبے پر تیزی سے عمل پیرا ہے۔ چین  ایک نئے عالمی بلاک کی تشکیل کا موجب بنا جو امریکی مفادات کے شکار ہونے والے ممالک کی شکل میں وجود میں آچکا ہے۔ امریکا وچین کے درمیان معاشی تنازع و اختلافات نے شدت اختیار کی، چین اپنی افواج کے تکینکی شعبے، برآمدات، قومی سلامتی اور اقتصادی پالیسیوں پر چین نے ہر نوع اقسام کے دباؤ کا مقابلہ ایک عالمی قوت کے طور پر کیا، چین کی معاشی قوت کو کمزور کرنے کے لئے امریکا اور ان کے حلیف ممالک کی جانب سے سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کے لئے ہانگ کانگ و تائیوان، کوریا کو ہدف بنایا گیا، جس پر چین نے اپنے سخت ردعمل کا مظاہرہ کیا، چین نے ہانگ کانگ و تائیوان کے لئے اصلاحات کیں جسے امریکا نے مستردکیا نیز، کرونا وبا کے پھیلنے کا ذمے دار قرار دیتے ہوئے دباؤ بڑھا تو دوسری جانب بھارت اورچین کے درمیان سرحدی کشیدگی جاری رہی۔ پاکستان کے ساتھ سی پیک منصوبے کے علاوہ سفارتی تعلقات، اعتماد کی بلند ترین سطح پر استوار ہیں۔چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات مزید دیرینہ ہوتے گئے۔دونوں ممالک نے70برس دوستی کا زبردست جشن بھی بنایا۔ چین نے افغانستان میں نئی اسٹریجی پلان کے تحت افغان طالبان حکومت سے مثبت تعلقات استوار کئے ہیں جو آنے والے مہینوں میں خطے میں نئی تبدیلیوں کا باعث بنے گا۔


عراق
مسلسل کئی برسوں سے جنگ زدہ ممالک عراق، شام و یمن میں امن کی بحالی ممکن نہیں ہوسکی ہے، اور خانہ جنگی کے شکار ملک کسی سیاسی حل کے لئے موثر حکمت عملی کو اپنانے سے قاصر نظر آتا ہے، عراق سے امریکی افواج کی واپسی کا اعلان امریکی کی جانب سے کیا گیا تھا، تاہم اس پر عمل درآمد تاحال ممکن نہیں بنایا جاسکا، عراق نے امریکہ کو31 دسمبر کی ڈیڈ لائن دی تھی لیکن باقاعدہ ابھی تک امریکہ کا حتمی اعلان سامنے نہیں آیا۔،عراق میں سیاسی ڈھانچہ، غیر ملکی جنگجوؤں و افواج کی مداخلت کی وجہ سے کمزور ہے، سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے عراق میں مجوزہ انتخابات کی تاریخ ایک برس آگے بڑھا کر6 جون 2021  کیگئی تھی تاہم انتخابات میں شفافیت اور دھاندلی کے الزامات نے سیاسی عدم استحکام کو برقرار رکھا ہوا ہے۔ 10 اکتوبر کو ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں نشستوں سے محرومی کے بعد سرکاری اور فورسز اور سیاسی جماعتوں کے درمیان تصادم ہوئے۔ایران انتخابی نتائج کو تسلیم نہ کرنے والی جماعتوں کا حامی ہے اور ملک میں ایرانی طرز حکومت قائم کرنا چاہتا ہے جسے قوم پرست مقتدیٰ الصدر اور بہت سے عام عراقی  ایران نواز نظام کو مسترد کرتے ہیں۔2003 میں امریکی حملے کے نتیجے میں ختم ہونے والی سابق صدر صدام حسین کی حکومت ختم ہونے کے بعد سے عراق میں حکومتی سطح پر ایران نواز کی اکثریت رہی ہے۔ عراق میں سب سے بڑے مذہبی اور نسلی گروپ پارلیمنٹ میں اہم اتحادوں کی قیادت کر رہے ہیں۔


شام
 شام میں بشار الاسد صدارتی انتخابات میں ایک بار پھر کامیاب ہوئے، جسے حزب اختلاف نے تسلیم کرنے سے انکار کیا اور انتخابی عمل کو غیر شفاف اور متنازع قرار دیا۔ امریکا اور بڑی یورپی طاقتوں نے بھی صدارتی انتخابات کو منظم انداز میں دھاندلی زدہ قرار دیا۔فرانس، جرمنی، اٹلی، برطانیہ اور امریکا کے وزرائے خارجہ نے بھی کہا کہ شامی رجیم کی نگرانی میں ہونے والے صدارتی انتخابات آزاد یا منصفانہ نہیں ہوئے کیونکہ اسد رجیم نے الیکشن میں دھاندلی کی۔ انہوں نے شام کے صدر بشار الاسد کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ہم ان تمام شامی باشندوں، سول سوسائٹی کی تنظیموں اور دیگر افراد کی حمایت کرتے ہیں جنہوں نے انتخابی عمل کو غیر قانونی قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم عالمی برادری سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اسد حکومت کی جانب سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا نوٹس لیتے ہوئے شام میں اقوام متحدہ کی نگرانی اور اپوزیشن کی شمولیت کو یقینی بناتے ہوئے شام میں انتخابات کرائے جائیں۔خیال رہے کہ شام میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں اپوزیشن کو حصہ لینے کی اجازت نہیں دی گئی، اپوزیشن کی ایک چھوٹی سی جماعت کے رہ نما محمود احمد مرعی اور ایک سابق نائب وزیر عبداللہ سلیم عبداللہ بشارالاسد کے مقابلے میں الیکشن میں حصہ رہے۔  فرقہ وارانہ خانہ جنگیوں اور عالمی مفاداتی جنگ کی وجہ سے شامی عوام کے لئے امن کا خواب کب شرمندتعبیر ہوگا، شاید اس سے خود بشار الاسد اور ان کے اتحادی بھی نہیں جانتے۔


جمؤ 2021میں بھی فرانس سلام فوبیا کا شکار رہا۔پیرس کے شمال میں تقریباً 100 کلومیٹرکے فاصلے پر50 ہزار افراد پر مشتمل شہر بووئے میں مسجد کو ’ناقابل قبول‘ تبلیغ کی وجہ سے بندکرنے کا عمل کیاگیا۔ خیال رہے کہ وزارت داخلہ کے مطابق حالیہ مہینوں میں فرانس کی کل 2623 مساجد میں سے 99 مساجد اور مسلمانوں کے نماز ہالز کی تحقیقات کی گئیں کیونکہ ان پر’علیحدگی پسند‘ نظریہ پھیلانے کا شبہ تھا۔مجموعی طور پر 21 کو مختلف وجوہات کی بنا پر بند کر دیا گیا اور 6سے انتہا پسندی کے خلاف فرانسیسی قوانین کی بنیاد پر تحقیقات کی جا رہی تھیں فرانس نے چین میں منعقدسرمائی اولمپکس 2022  کے بائیکاٹ نہ کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ امریکہ، برطانیہ، کینیڈا اورآسٹریلیا نے فروری 2022 میں بیجنگ میں ہونے والے سرمائی اولمپکس 2022 کے سفارتی بائیکاٹ کا اعلان کیاہوا ہے۔


لبنان
 2021میں بھی غیر ملکی قرضوں و اقتصا دی بحران کی وجہ سے لبنان سیاسی بحران میں الجھا  رہا، سابق وزیر اعظم سعد الحریری کے مستعفی ہونے کے بعد بھی لبنان میں سیاسی حالات نارمل نہیں ہوسکے،  لبنان حکومت میں جاری مسلسل مالیاتی بحران ہے کہ یہ نقصان 68 ارب سے 69 ارب ڈالر کے درمیان ہو سکتا ہے۔ لبنان کے نائب وزیر اعظم سعدی الشامی نے اعداد و شمار کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ اعداد و شمار درست ہیں تاہم ان میں کچھ چیزیں اندازاً بیان ہوئی ہیں ان کے بدلنے سے معمولی کمی بیشی بھی ہو سکتی ہے۔لبنان کے موجودہ معاشی حالات کو 1975 سے 1990 تک جاری رہنے والی خانہ جنگی کے بعد بدترین مالی بحران طور پر دیکھا جا رہا ہے۔


یمن
2021میں بھی یمن میں حوثی ملیشیا کی جانب سے سعودی علاقوں پر میزائل حملوں کا سلسلہ جاری رہا۔ جنوبی عبوری کونسل (ایس ٹی سی) کی فورسز کے عدن پر قبضہ کے بعد سعودی عرب نے گذشتہ برس نومبر میں اقتدار میں شراکت کا ایک معاہدہ طے کروایا تھا۔اقوام متحدہ کو توقع تھی کہ یہ معاہدہ خانہ جنگی کو ختم کرنے کے لیے سیاسی تصفیہ کا راستہ صاف کردے گا لیکن جنوری 2020 میں حوثیوں اور اتحادی فوجوں کے مابین مختلف محاذوں پر دوبارہ لڑائی چھیڑ گئی، اپریل 2020 میں ایس ٹی سی نے عدن میں خودمختاری کا اعلان کر دیا اور اس طرح اس نے بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ حکومت کے ساتھ طے پانے والے امن معاہدے کو توڑتے ہوئے کہا کہ وہ بندرگاہ والے شہر اور جنوبی صوبوں پر حکومت کرے گی۔یمن میں، جہاں ایک طویل عرصے سے سیاسی عدم استحکام برقرار ہے، ایرانی حمایت یافتہ حوثی ستمبر 2014 سے دارالحکومت صنا اور کچھ علاقوں پر قابض ہیں۔سعودی عرب کی قیادت میں اتحادی افواج مارچ 2015 سے حوثیوں کے خلاف یمنی حکومت کی حمایت کر رہی ہے۔ یمن میں جنگ کا خاتمہ نہیں ہوسکا، گذشتہ دنوں یمنی صوبہ حدیدہ سے 6200 افراد نقل مکانی پر مجبور ہو ئے۔  

اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر برائے حقوق انسانی  کے مطابق، حکومت یمن اور اتحادی قوتیں حدیدہ کے اطراف  میں واقع  اپنی چیک پوسٹوں سے رخصت ہو گئی ہیں۔ بیان میں بتایا گیا ہے کہ بیت الفقیح اور التویاہتہ نامی قصبوں پر کنٹرول کے حامل  قوتیں  اب  حدیدہ  سے 90 کلومیٹر دور حوحہ نامی  علاقے میں تعینات ہو چکی ہیں۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ  خالی ہوئے علاقوں پر اب حوثی ملیشیا کا قبضہ ہے البتہ سرکاری قوتیں حوثیوں کے خلاف  مزاحمت جاری رکھے ہوئی ہیں۔ سعودی عرب نے یمن سے کئے جانے والے حملوں سے بچاؤ کے لئے امریکہ و دیگر ممالک سے دفاعی سامان کی خریداری کے بڑے معاہدے بھی کئے۔2021 کا سال عالمی بنیادوں پر طبقاتی کشمکمش اور مفاداتی ترجیحات کی زد میں رہا۔ خانہ جنگیوں سے متاثرہ ممالک،یا پھر عالمی قوتوں کے فروعی مفادات نے نئے بلاکبنے۔۔ کرونا کی شدت میں کمی و اضافے کے ساتھ دنیا کے تمام ممالک کو مہنگائی سمیت تنوع اقسام کے مسائل درپیش رہے، بالخصوص زیادہ تر ممالک میں سیاسی بحران و مشکلات کے بدترین دور سال نے غریب اور متوسط طبقے کو سب سے زیادہ متاثر کیا۔ معیشت کی بحالی اور بے روزگاروں کو ملازمتوں دوبارہ ملنے کے لئے 2022کا برس اہمیت کا حامل قرار دیا جاسکتا ہے، کیونکہ اگلا برس بحالی کا برس ہوگا، عالمی قوتوں نے اگر کسی نئے جنگی محاذکو نہیں کھولا تو 2022 کو انسانیت کی بحالی کا سال قرار دیا جاسکتا ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
56819

جمہوری نظام حکومت میں اقلیتوں کی محرومی ۔ غزالی فاروق

27 نومبر 2021 کو سندھ اسمبلی نے لوکل گورنمنٹ (ترمیمی ) بل 2021 پاس کیا جس میں لوکل باڈیز کے اکثریتی اختیارات واپس لے کر صوبائی حکومت کو دے دئیے گئے ہیں۔ یوں پیپلز پارٹی نے اندرون سندھ اپنی اکثریت کے بل بوتے پر کراچی کے ترقیاتی فنڈز ایک بار پھر اپنی مٹھی میں کر لئے۔  2008 سے جب سے جمہوری حکومتیں بحال ہوئی ہیں ، تب سے پیپلز پارٹی کراچی کے ترقیاتی فنڈز کو مسلسل اندرون سندھ منتقل کرتی جا رہی ہے کیونکہ کراچی کی 42 براہ راست صوبائی نشستوں کے مقابلے میں باقی سندھ کی 88براہ راست  نشستوں کی اکثریت ، بقیہ سندھ کو  باآسانی حکومت تک پہنچا دیتی ہے۔ یوں کراچی کی ترقی جمہوری نظام کے باعث رکی ہوئی ہے کیونکہ کراچی پورے  سندھ میں اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہتا ہے  اور اس وجہ سے صوبائی حکومت بنانے میں کلیدی حیثیت نہیں رکھتا۔ پس سندھ میں بننے والی   صوبائی جمہوری حکومت کو دو سے تین  کروڑ کی آبادی کے اس شہر کی کوئی  خاص پرواہ نہیں ہوتی ۔

 اگر قومی سطح  پر دیکھا جائے تو بعینہ  یہی حال  بلوچستان کا ہے، جس کے پاس 342 قومی اسمبلی کی نشستوں میں سے صرف 5 فیصد یعنی 17 سیٹیں ہیں، اور قومی حکومت کو تشکیل دینے میں اس کا کردار اکثر و بیشتر نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ لہٰذا جمہوری نظام میں  ایسا ہی سلوک پھر  اس کی ترقی کے ساتھ بھی کیا جاتا ہے، سوائے یہ کہ عوامی دباؤ میں بعض اوقات کچھ وعدے وعید کر لئے جاتے ہیں ، جیسے حقوق بلوچستان پیکج وغیرہ، اور ان پر بھی عمل درآمد کی نوبت بمشکل ہی آتی ہے ۔ 

اور اس قسم کی مثالیں ان گنت ہیں۔ کراچی پیکج بھی اسی طرح زبانی جمع خرچ تک محدود رہا۔ فاٹا کے ساتھ سات دہائیوں تک یہی کھیل کھیلا گیا اور آج بھی یہی صورتحال جاری ہے۔ جنوبی پنجاب کا حال بھی اس سے کچھ مختلف نہیں۔ پس واضح ہے کہ وہ علاقے جو حکومت کی تشکیل میں کلیدی حیثیت نہ رکھیں ، ان کی ترقی جمہوریت میں رکی رہے گی خواہ وہ بڑی آبادی کے علاقے ہی کیوں نہ ہوں!

لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ آمریت کو قبول کر لیا جائے۔ اور نہ ہی اس کا  یہ مطلب ہے کہ جمہوریت اور آمریت میں سے کم برے نظام کو  نا چاہتے ہوئےگلے لگا لیا جائے۔ بلکہ جمہوریت اور آمریت کے اس گھن چکر سے  ہٹ کر ایک نظام حکومت اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے بھی نازل کیا ہے جس کے تمام  خدو خال تفصیل کے ساتھ قرآن پاک  میں  اور رسول اللہ ﷺ کی سنت مبارکہ   میں بیان کر دیے گئے ہیں ۔ یہ نظام خلافت کے نام سے  ماضی میں نافذ العمل بھی رہا ہے جس کا آغاز خلافت راشدہ سے  اور اختتام خلافت عثمانیہ پر ہوا ۔  خلافت میں  اسلام کے تمام  نظاموں کو مکمل اور ہماگیر انداز سے نافذ کیا جاتا ہے۔  خلافت میں یہ جائز نہیں ہوتا  کہ شہری حقوق، وسائل کی تقسیم، ضروریات زندگی کو  بہم پہنچانے ، ترقیاتی کاموں کے انجام دینے  اور ان جیسے دیگر سیاسی امور میں  ریاست کے شہریوں کے درمیان  کوئی  تفریق کی جائے۔  پس اگر پاکستان میں  اسلام کا نظام حکومت یعنی خلافت  قائم ہو جائے  تو خلیفہ کیلئے لازم ہے کہ وہ باجوڑ، پشین، کراچی، روہڑی، مکران، لاہور، اسلام آباد یا گلگت کے درمیان کوئی تفریق نہ کرے۔  اگر پاکستان میں خلافت قائم ہوتی تو آج بنگلادیش پاکستان ہی کا ایک صوبہ ہوتا کیونکہ خلافت اسلام آباد، چٹاگانگ، سلہٹ یا کراچی کو ایک طرح سے ترقی دیتی، اور بنگلادیش میں وہ احساس محرومی جنم  ہی نہ لے پاتا جس سے ہماری دشمن ریاست نے فائدہ اٹھایا۔

اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ خلافت میں اسلامی حکومت کے سربراہ یعنی  خلیفہ کو ہر پانچ سال بعد امت سے ووٹ نہیں لینا ہوتا، بلکہ وہ شریعت کے نفاذ کی شرط پر تاحیات خلیفہ رہتا ہے ۔ اسلئے وہ اپنے اقتدار کیلئے حکومت سازی کی اکثریت رکھنے والوں سے بلیک میل نہیں ہوتا۔ بلکہ شریعت کے نفاذ میں کوتاہی  اس کیلئے سب سے بڑا رسک بن سکتی ہے جس کے نتیجے میں ممکنہ طور پر قاضی مظالم اس کو عہدے سے معزول کر سکتا ہے۔ اس وجہ سے خلیفہ    ہر علاقے کے لوگوں کے حقوق ، بغیر کسی اکثریت کے امتیاز کے ،پورے کرنے کے قابل ہوتا ہے ۔ خلافت کی تاریخ میں اس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔   جب مسلمانوں کا مرکز مدینہ قحط کا شکار تھا تو   ولایہ مصر سے اس کے لئے خوراک کے قافلے بھجوائے جا رہے تھے۔اسی طرح خلافت میں بغداد، دمشق، بصرہ، بخارا، سمرقند، حلب،  نیشاپور، بلخ،  دلی سب ترقی کا سفر طے کر رہے تھے۔

اکثریت کو نوازنے والا اور اقلیتوں کو نظر انداز کر دینے والا  یہ جمہوریت  کا  نظام مشرق و مغرب میں اپنی تباہی لا چکا ہے لیکن مغربی استعمار تیسری دنیا کی دولت کے بل بوتے پر اپنی مصنوعی ترقی کو جمہوریت اور سرمایہ داریت کا کارنامہ قرار دیتا ہے اور مسلم دنیا میں بعض ذہنوں کو اس سے مرعوب کرتا ہے۔  جمہوریت کا ہر روپ  پے در پے اپنی  عیوب  واضح کرتا جا رہا ہے، اور اس کے دفن کرنے کا وقت آ چکا ہے۔لہٰذا مسلمانوں کو  بلا تاخیر انسانوں  کے  بنائے ہوئے اس نظام کو چھوڑ کر اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے  نازل کردہ نظام کو اپنانا  ہو گا ، نہیں تو ناکامی  مسلمانوں کا مقدر رہے گی۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد پاک ہے:

﴿فَإِمَّا يَأۡتِيَنَّكُم مِّنِّي هُدٗى فَمَنِ ٱتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشۡقَىٰ وَمَنۡ أَعۡرَضَ عَن ذِكۡرِي فَإِنَّ لَهُۥ مَعِيشَةٗ ضَنكٗا وَنَحۡشُرُهُۥ يَوۡمَ ٱلۡقِيَٰمَةِ أَعۡمَىٰ قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرۡتَنِيٓ أَعۡمَىٰ وَقَدۡ كُنتُ بَصِيرٗا قَالَ كَذَٰلِكَ أَتَتۡكَ ءَايَٰتُنَا فَنَسِيتَهَاۖ وَكَذَٰلِكَ ٱلۡيَوۡمَ تُنسَىٰ﴾ ” پھر اگر میری طرف سے تمہارے پاس ہدایت آئے تو جو شخص میری ہدایت کی پیروی کرے گا وہ نہ گمراہ ہوگا اور نہ تکلیف میں پڑے گا اور جو میری نصیحت سے منہ پھیرے گا  اس کی زندگی تنگ ہوجائے گی اور قیامت کے دن  ہم اسے اندھا کرکے اٹھائیں گے، وہ کہے گا میرے پروردگار تو نے مجھے اندھا کرکے کیوں اٹھایا، میں تو دیکھتا بھالتا تھا۔ اللہ فرمائے گا کہ ایسا ہی ہونا چاہیئے، تیرے پاس میری آیتیں آئیں تو تو نے ان کو بھلا دیا۔ اسی طرح آج ہم تجھ کو بھلا دیں گے۔”(سورۃ طٰہ : 123-126)

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
56810

پاکستان سال 2021 : موثرسکیورٹی اقدامات کی وجہ سے دہشت گردی کے بڑے واقعات میں نمایاں کمی- قادر خان یوسف زئی

2021   کا سال کرونا وبا کے باوجود دنیا بھر میں انتہا پسندکاروائیوں کاہولناک سال ثابت ہوا تاہم پاکستان میں  سیکورٹی اداروں کی جانب سے دہشت گردی کے بڑے واقعات کو کنٹرول کیا گیا گو کہ  دہشت گردوں نے اپنی مذموم کاروائیوں میں سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں اور افسران کو بھی نقصان پہنچایا۔ اہم اور بڑے واقعات میں نئے برس کے تیسرے دن 3 ہی جنوری میں داعش(خراساں) نے مچھ میں دہشت گرد کاروائی کی،  مچھ کے علاقے گیشتری میں نامعلوم مسلح افراد نے کان کنوں کو حملے کا نشانہ بنایا تھا۔  پنڈل گڈ نامی لیز پر مسلح افراد نے کان کنوں کی آنکھوں پر پٹیاں باندھنے کے علاوہ ان کے ہاتھ بھی باندھے اور بعد میں ان پر فائر کھول دیا، جس سے 10افراداپنی جانوں سے گئے۔ دہشت گردی اور فرقہ وارنہ تشدد کے واقعے کے بعد سے ہزارہ برادری نے میتیں شاہراہ پر رکھ کر شدید احتجاج کیا، بعد ازاں مذاکرات کامیاب ہونے کے بعد میتوں کو کوئٹہ میں ہزارہ ٹاؤن کے ولی العصر امام بارگاہ کوئٹہ منتقل کر دیا گیا۔ انتہاپسند تنظیم داعش(خراساں) کی جانب سے واقعے کو فرقہ وارانہ خانہ جنگی کرانے کی ایک بار مذموم سازش کی گئی تھی۔ پڑوسی ملک افغانستان سے آنے والے ان انتہا پسندوں نے افغان سرزمین استعمال کرنے کی روایت کو قائم رکھا اور پاکستان میں اپنے مذموم مقاصد کے لئے فرقہ وارانہ تشدد کا ہتھیار استعمال کیا۔بلوچستان کے سیکریٹری داخلہ حافظ عبدالباسط نے بتایا تھاکہ دہشت گردی کا نشانہ بننے والے افراد کی شناخت ہوئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جن افراد کی شناخت ہوئی ہے ان کا تعلق افغانستان سے ہے۔


2021کے دوسرے مہینے فروری کی 22تاریخ کو المناک واقعہ ہوا،جس میں پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم ہونے والے قبائلی ضلع شمالی وزیرستان میں چار خواتین کو دہشت گردی کا نشانہ بنا کر قیمتی جانوں سے محروم کردیا گیا۔ چاروں خواتین ایک غیر سرکاری تنظیم کے ’وومن امپاورمینٹ‘ منصوبے کے لیے کام کر رہی تھیں اور دو روز بعد یہ کورس مکمل ہو جانا تھا پولیس کے مطابق پیر کی صبح ایک غیر سرکاری تنظیم سے وابستہ پانچ خواتین ایک گاڑی میں بنوں سے قبائلی علاقے میرعلی اپنے روزگار کے سلسلے میں جا رہی تھیں۔ ان خواتین میں ناہید بی بی، ارشاد بی بی، عائشہ بی بی، جویریہ بی بی اور مریم بی بی شامل تھیں۔ گاڑی کا ڈرائیور عبدالخالق ان خواتین کو میر علی لے جا رہا تھا۔پولیس رپورٹ کے مطابق مریم بی بی گاڑی سے اتر کر اپنے مرکز کے اندر داخل ہو گئی تھیں جبکہ باقی خواتین اور ڈرائیور گاڑی میں موجود تھے۔ اس دوران نا معلوم افراد نے گاڑی پر فائرنگ شروع کر دی جس سے ناہید بی بی، ارشاد بی بی، جویریہ بی بی اور عائشہ موقع پر ہلاک ہو گئیں جبکہ ڈرائیور اس حملے میں زخمی ہوا۔ خیال رہے کہ شمالی وزیرستان دہشت گردی اور انتہا پسندی سے سب سے زیادہ متاثرہ علاقہ ہے۔ جہاں سیکورٹی فورسز کو بھی نشانہ بنایا جاتا رہا،تاہم خواتین کو دہشت گردی کا نشانہ بنانے کا واقعہ اس لحاظ سے زیادہ اہمیت کا حامل رہا کیونکہ ان خواتین کا تعلق انتہائی غریب خاندانوں سے تھا جو غیر سرکاری تنظیم میں تربیت حاصل کرکے غربت کے خاتمے اور خواتین کے حقوق کے لئے اہم کردار ادا کرتیں۔


24مارچ 2021 کو دہشت گردوں نے ایک بار پھر سیکورٹی اہلکاروں کو نشانہ بنایا۔ بلوچستان کے شہر چمن میں لیویز جیل کے سامنے پولیس گاڑی پر دھماکے کے نتیجے میں بچے سمیت 3 افراد جاں بحق اور 13 زخمی ہوئے۔پولیس کے مطابق تاج روڈ پر لیویز جیل کے سامنے دھماکے میں پولیس ایس ایچ او کی گاڑی کو نشانہ بنایا گیا۔ دہشت گردوں نے دھماکا خیز مواد موٹر سائیکل میں نصب کیا تھا جبکہ دھماکے سے بچے سمیت 3 افراد جاں بحق اور 13 زخمی ہوئے۔ واضح رہے کہ گزشتہ سال اگست میں بھی چمن کے مال روڈ پر دھماکے کے نتیجے میں 5 افراد جاں بحق اور 14 زخمی ہو گئے تھے اور نامعلوم شرپسندوں نے سڑک کنارے کھڑی موٹر سائیکل میں دھماکا خیز مواد نصب کیا تھا جو زوردار دھماکے سے پھٹ گیا۔ دہشت گردی کے بڑے واقعات کو ریاست نے سخت حالات کے باوجود قابو پانے میں کامیابی حاصل کی لیکن اس کے نتیجے میں انہیں دہشت گردوں کی انفرادی کاروائیوں میں نشانہ بنایا جاتا رہا۔ جس میں یہ واقعہ بھی سیکورٹی اہلکار کے خلاف ٹارگٹڈ کاروائی تھی جس میں قیمتی جانوں کا نقصان ہوا۔


دنیا میں دہشت گردی کے حوالے سے ماضی کے مقابلے میں بڑے واقعات میں نمایاں کمی پاکستان میں واقع ہوئی ہے اور پاکستان میں گذشتہ کئی سالوں سے متواتر دہشت گردی کا شکار بن رہا تھا۔ ملک میں جاری آپریشنز کی وجہ سے بڑی کمی واقع ہوئی لیکن دہشت گرد اب بھی ایسی جگہوں پر حملے کرتے ہیں، جس کے بارے میں عمومی خیال نہیں ہوتا، ایسے سافٹ ٹارگٹ کہا جاتا ہے۔ اسی طرح پاک۔ چائنا دوستی کو نشانہ بنانے کے لئے بھی دہشت گرد کوئی موقع نہیں چھوڑتے۔  22اپریل 2021کو انتہا پسندوں نے سرینہ ہوٹل میں خود کش حملہ کیا۔ صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں سرینا ہوٹل کی پارکنگ میں ہونے والے زور دار دھماکے میں پانچ افراد ہلاک جبکہ گیارہ کے زخمی ہوئے تھے۔ بلوچستان کے وزیر داخلہ میر ضیااللہ لانگو نے کہا تھا کہ ابتدائی اطلاعات کے مطابق ’دھماکہ خیز مواد ایک گاڑی میں تھا۔دھماکے میں ہلاک ہونے والے پانچوں افراد کی شناخت ہو چکی ہے، جن میں سرینا ہوٹل کے فرنٹ آفس مینیجر اور پولیس کے ایک کانسٹیبل بھی شامل ہیں۔یہ دھماکہ ایک ایسے موقع پر ہوا تھا جب چین کے سفیر کوئٹہ میں موجود ہیں تاہم بلوچستان کے وزیر داخلہ نے بتایا تھا کہ جب دھماکہ ہوا اس وقت چین کے سفیر ہوٹل میں موجود نہیں تھے بلکہ کوئٹہ کلب میں تھے۔ واقعے کی ذمے داری کالعدم تنظیم نے قبول کی۔


امن دشمنوں بلوچستان میں اپنے مذموم مقاصد کے حصوؒ ل کے لئے ایسے مواقعوں کا بھی استعمال کرتے ہیں جس میں سیاسی طور پر افراتفری پھیلے۔ 21مئی2021کو ایک بار پھر اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لئے بلوچستان کو لہو لہان کر دیا گیا۔ چمن کے علاقے مرغی بازار میں جمعیت علمائاسلام نظریاتی کے مرکزی نائب امیر مولانا عبدالقادر لونی کی گاڑی کے قریب زور دار دھماکے سے پورا شہر لرز اٹھا۔دھماکہ اس وقت ہوا جب مولانا عبدالقادر لونی فلسطینی عوام سے اظہار یکجہتی کے لئے منعقدہ ریلی میں شرکت کر کے واپس جارہے تھے۔ افسوسناک واقع میں زخمی اور جاں بحق ہونے والے افراد کو فوری طور پر ڈسٹرکٹ اسپتال چمن منتقل کیا گیا، مولانا عبدالقادر لونی بھی زخمیوں میں شامل تھے۔ پولیس کی ابتدائی تحقیقات کے مطابق دھماکہ خیز مواد موٹر سائیکل میں نصب کیا گیا تھا، جسے مولانا عبدالقادر لونی کی گاڑی کے گزرنے پر دھماکے سے اُڑایا گیا۔


لاہور کے علاقے جوہر ٹاؤن میں 23جون 2021 کو ہونے والے دھماکے کے نتیجے میں ایک بچے سمیت تین افراد ہلاک جبکہ متعدد زخمی ہوئے۔پولیس ذرائع کے مطابق دھماکے میں زخمی ہونے والے پولیس اہلکار کالعدم تنظیم لشکر طیبہ کے سربراہ حافظ سعید کی رہائش گاہ کے قریب واقع چیک پوائنٹ پر تعینات تھے۔انسپکٹر جنرل (آئی جی) پنجاب انعامی غنی نے اس حوالے سے کہا تھا کہ: ’ظاہری طور پر ایسا لگتا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اس دھماکے کا ہدف تھے۔ زخمیوں میں پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔‘ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’اگر پولیس اہلکار ڈیوٹی پر موجود نہ ہوتے تو بڑا حادثہ ہو سکتا تھا۔‘


اگست 2021میں چار مہینے کے دوران دوسرا دھماکہ دوبارہ سرینہ ہوٹل میں پولیس اہلکاروں پر کیا گیا۔ واضح رہے کہ افغانستان میں تیزی سے تبدیل ہوتی صورت حال کی وجہ سے وی آئی پی موومنٹ بڑھ جانے سے دہشت گردی کے خطرات بھی بڑھ چکے ہیں، تاہم بڑے پیمانے پر سکیورٹی اقدامات کی وجہ سے سرکاری حکام کے بقول ماضی کے مقابلے میں پاکستان کے حالات میں بہتری آئی  اور سال2021میں دہشت گردی کے واقعات کے تعداد کم رہی۔2021میں زیادہ نقصانات کے حوالے سے کوئٹہ،چمن میں جو تین بڑے دھماکے ہوئے ان میں سے دو دھماکے اپریل سے لے کر اب تک اسی علاقے میں ہوئے۔10اگست کو رونما ہونے والے واقعے کی ذمے داری کالعدم عسکریت پسند تنظیم نے قبول کی۔ کالعدم تنظیم کا ہدف پولیس اہلکار تھے۔ ماہرین کے مطابق سرینا ہوٹل اور اس کے گردونواح میں پہلے جو واقعات ہوتے رہے ہیں ان کی ذمہ داری مذہبی شدت پسند تنظیمیں قبول کرتی رہی ہیں تاہم حالیہ واقعے کی ذمہ داری کسی نام نہاد قوم پرست تنظیم کی جانب سے ہونا تشویش ناک تصور کیا گیا۔


  پاکستان میں جو دہشت گردی کے لحاظ سے 2008 اور 2009 میں دنیا کا خطرناک ترین ملک تھا، اب دہشت گردی پر قریباََ قابو پا لیا گیا۔ امریکی محکمہ خارجہ کی دہشت گردی سے متعلق سالانہ رپورٹ میں پاکستان نے انسداد دہشت گردی کے سلسلے میں جو کوششیں کی ہیں انہیں سراہا گیا۔ خاص طور ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے جہاں پاکستان ابھی تک گرے لسٹ میں ہے۔تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان نے دہشت گردی کے لئے سرمایہ کاری روکنے اور اندرون ملک ان گروپوں کے خلاف جنہیں دہشت گرد کہا جاتا ہے،جو اقدامات کئے  وہ قابل تعریف ہیں اور خیال کیا جارہا ہے اس بار پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے میں مدد بھی مل سکے گی۔ان واقعات کے علاوہ سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں پر متعدد حملے ہوئے جس میں قیمتی جانوں کی قربانی دے کر ملک و قوم کی حفاظت کی گئی۔ 2021بہرحال پُر امن سال رہا۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
56801

داد بیداد ۔ شہروں پر آبا دی کا دباؤ ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

داد بیداد ۔ شہروں پر آبا دی کا دباؤ ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

سردی کا مو سم آتے ہی 3ہزار فٹ سے زیا دہ بلندی پر واقع پہا ڑی مقا مات کے لو گ بوریا بستر سمیٹ کر شہروں کا رخ کر تے ہیں اس طرح سردی کے مو سم میں شہروں پر آبا دی کا دباؤ عام مہینوں سے زیا دہ ہوتا ہے آبا دی کا یہ دباؤ سڑ کوں پر ٹریفک کی روانی کو بھی متاثر کر تا ہے ہسپتا لوں میں مریضوں کا جمگٹھا بھی معمول سے زیا دہ ہو تا ہے جو شہری سہو لیات ایک لا کھ کی آبا دی کے لئے ہو اکر تی تھیں ان پر ڈیڑھ لا کھ کی آبا دی کا بو جھ ڈالا جا تا ہے اس موسمی نقل مکا نی کا دوسرا پہلو زیا دہ اذیت نا ک اور تکلیف دہ ہے اس کو دیہا ت سے شہر وں کی طرف نقل م کا نی کا مستقل عنوان دیا جا تا ہے اور شہری منصو بہ بندی کے کا م سے تعلق رکھنے والے لو گ اس صورت حال کا جا ئزہ لیتے وقت دیہا ت سے شہروں کا رخ کر نے والوں کی نفسیات اور مخصوص ضروریات کو مد نظر رکھتے ہیں لیکن ان ضروریات کو پورا کرنا مشکل ہو تا ہے کیونکہ ہر سال دیہات سے شہروں کی طرف نقل مکا نی کر نے والوں کی تعداد بڑھتی جا تی ہے.

اس کی پیش بندی یا پیش گوئی کا کوئی سائنسی طریقہ کسی کے پا س نہیں پلا ننگ کمیشن کے سابق ڈپٹی چیئر مین ندیم الحق دبنگ شخصیت کے ما لک تھے ایک سمینا ر میں اس مو ضوع پر گفتگو کر تے ہوئے انہوں نے کہا کہ دیہات سے شہروں کی طرف نقل مکا نی کرنے والوں کوشہروں میں سہو لیا ت دینامسئلے کا حل نہیں مسئلے کا حل یہ ہے کہ پہا ڑی مقا مات اور دور دراز علا قوں میں واقع دیہا ت کو تر قی دے کر شہروں کے برابر لا یا جا ئے تا کہ لو گ اپنے گھر وں سے نقل مکا نی کر کے شہروں کا رخ نہ کریں اگر عا لمی تنا ظر میں اس مسئلے کا جا ئزہ لیا جا ئے تو عوامی جمہوریہ چین نے اس مسئلے کا حل ڈھونڈ ھ لیا ہے حل وہی ہے جو ندیم الحق نے تجویز دی تھی چینی قیا دت نے پہا ڑی علا قوں کو بھی اور میدا نی علا قوں کے دیہا ت کو بھی تر قی دے کر شہروں کے برابر لا یا ہوا ہے.

چین کے مغربی صو بہ سنکیا نگ میں تا شقر غن ایک پہا ڑی مقا م ہے جو کا شغر کے شما ل مغر ب میں افغا نستان، پا کستان اور تا جکستان کی سر حد پر واقع ہے سطح سمندر سے اس کی بلندی 9 ہزار فٹ سے اوپر ہے اس پہا ڑی گاوں کو چینی قیا دت نے ایک قصبے کا در جہ دیا ہے یہاں سڑک، ہسپتال، سکول، کا لج، یو نیورسٹی اور ٹیکنیکل ایجو کیشن کی تما م سہو لتیں میسر ہیں کسا نوں کو زراعت کے لئے بھاری اور ہلکی مشنیری فراہم کی گئی ہے اس قصبے میں گھریلو صنعتوں کے لئے سہو لیات کا جا ل بچھا یا گیا ہے ان کی پیداواراور مصنو عات کو کا شغر اور ارومچی تک پہنچا نے کا خا طر خواہ انتظام کیا گیا ہے.

کا شغر سے جو شاہراہ تاشقر غن جا تی ہے وہ بین الاقوامی شاہراہ ہے آگے تا جکستان اور کر غیز ستان کے راستے ازبکستان اور افغا نستان تک جا تی ہے تاشقر غن کا ہوائی اڈہ تاجروں اور سیا حوں کو سہو لت دیتا ہے یہاں سے کا شغر، ارومچی اور بیجنگ تک ریلوے لائن بچھا ئی گئی ہے مقا می آبادی کو زند گی کی تما م سہو لتیں ان کی دہلیز پر مہیا کی گئی ہیں اس لئے وہ کا شغر، ارومچی یا بیجنگ جا نے پر اپنے گھروں میں رہنے کو تر جیح دیتے ہیں شما لی، جنو بی اور مشرقی چین کے دیہا تی علا قوں کو بھی اس طرح کی شہری سہو لیات دی گئی ہیں اس لئے نہ روز گار کے لئے، نہ مو سم کی سختی سے بچنے کے لئے، نہ علا ج معا لجہ کے لئے اور نہ ہی تعلیم کے لئے دیہات کے با شندوں کو شہروں کی طرف نقل مکا نی کرنا پڑتا ہے جو حکو متیں دیہات سے شہروں کی طرف نقل مکا نی اور شہروں پر آبا دی کے دباؤ کو کم کرنا چا ہتی ہیں وہ دیہات کو شہری سہو لیات دینے کی منصو بہ بندی کر تی ہیں

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
56779

غذر چترال ایکسپرس وے اور معاشی خوشحالی – کریم علی غذری

غذر چترال ایکسپرس وے اور معاشی خوشحالی – کریم علی غذری

کسی بھی ملک کی تعمیر و ترقی اور خوشحالی میں انفراسٹرکچر کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔ بہتر روڈ ریلوے کا مربوط نظام، پیغام رسانی کی بہترین سہولیات نہ صرف اس علاقے کی انفرادیت میں خاطر خواہ اضافہ کرتے ہیں بلکہ دوسرے علاقوں کو بھی ایک دوسرے سے منسلک کرکے آمدنی، روزگار، بہتر زندگی گزارنے کا باعث ہوتے ہیں۔ جدید ترقی یافتہ ممالک میں زندگی گزارنے کو محض اس لیے ترجیح دی جاتی ہے کہ وہاں زندگی کے بنیادی سہولیات ان کی دہلیز پر میسر ہوتی ہیں۔

لیکن ہمارا ملک دنیا کے نقشے پر جب سے آزاد مملکت کی حیثیت سے نمودار ہوا ہے تب سے لے کر آج تک سات دہائیوں سے ہر چیز کو غیر منصفانہ طور پر تقسیم کا رواج عام رہا ہے۔ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کیونکہ ہمیں یہ ورثے میں ملا تھا۔ جب برطانوی سامراج نے اپنے تخت و تاج دو آزاد ریاستوں میں بانٹ دیا تب سے غیر منصفانہ ضرب و تقسیم کا رواج ہم میں پروان چڑھا۔

سات دہائیاں گزارنے کے بعد بھی ہم انھی الجھنوں کے دلدل میں دھنستے چلے جارہے ہیں۔ منفرد اور خاص جگہوں کو سرفہرست رکھنا اور ازل سے ترقی کو ترستے مقامات کو مذید محرومیوں میں دھکیلنا ہمارے حکمرانوں اور اداروں کا شیوہ بن گیا ہے۔
ہم نے محض دنیا کے نقشے پر جیوگرافیکلی آزادی حاصل کی لیکن ہمارا زہن اسی غلامی کے زنجیروں میں جگڑا ہوا ہے۔ کبھی سیاست کی آڑ میں تو کبھی مذہب کو تو کبھی سماجی تفرقات کی بنا پر نفرت کی چنگاری میں جلتے رہے۔

جب بھی مملکت کی بھلائی کی کوئی راہ ہموار ہوئی ہے کسی نہ کسی طور ہم نے اس میں تضاد اور اشتعال انگیزی کی ہوا کو جنم دیا ہے، اس وجہ سے سائنس، ٹیکنالوجی، ریسرچ؛ ان شعبوں میں دنیا سے پیچھے رہ گئے ہیں۔

ایک عداد و شمار کے مطابق چین میں 2020 میں ریسرچ پبلشڈ پیپرز کی تعداد ڈیڑھ لاکھ ہے۔ جب کہ ہم نے دس سال کے عرصے میں 17000 ریسرچ پیپر لکھے ہیں ان اندرونی اختلافات کی وجہ سے نہ صرف سائنس ہم ہر شعبہ زندگی میں تنزلی کی طرف جارہے ہیں۔
اگر معاشی بحران کو دیکھا جائے تو آئے دن ہمارے گرد گیرا تنگ ہوتا جارہا ہے۔

21 ویں صدی کے اس جدید دور میں ہم پاکستان کے جو دور دراز پہاڑوں میں زندگی بسر کرتے ہیں بہت ساری بنیادی سہولیات کے منتظر بیٹھے ہیں۔

اپنی ترقی کو ہمیشہ روڈ اور ایکسپریس وے میں ڈھونڈتے پھر رہے ہیں۔
یہ بات بجا ہے کہ کسی بھی علاقے میں میگا پروجیکٹ سے وہاں ترقی کے نئے شاہراہ کھل جاتے ہیں، لوگوں کی زندگی میں ایک مثبت سوچ کا رجحان پیدا ہوتا ہے۔ لیکن ترقی اور خوشحالی کے لیے اپنے افکار، سوچ، اور نظریے کو محض ایکسپرس وے سے جوڑنا قطعاً غلط ہے۔
قدرت کا ایک منفرد نظام ہے اگر آپ کو ترقی یافتہ اقوام کی صف میں شامل ہونا ہے تو اندرونی ماحول کو بیرونی ماحول سے ہم آہنگ کرنا ہوگا۔


اس میں سب سے پہلا امر اپنے ذہن کو اس انے والے رجحان کے لیے تیار کرنا ہے۔
میں نے بہت سارے لوگوں کو یہ گفت و شنید کرتے ہوئے سنا ہے کہ غذر ایکسپرس وے سے ہم ترقی کی بلندیوں کو چھوئیں گے، اس کی تکمیل کے بعد ہمارے وارے نیارے ہوجائیں گے وغیرہ۔

ایک لمحے کے لیے سوچ بچار کیجئے اس روڑ کے بننے سے پہلے کیا ہمارے ہاں اتنے قدرتی وسائل نہیں تھے جو ہماری کٹھن زندگی کو آسان اور کرب سے نجات دلاسکیں؟
مثلاً ہم نے اپنے علاقے کی خوبصورتی سے سیاحت کے میدان میں کتنا ریونیو پیدا کیا؟ کیا ہم نے اس سے پہلے اپنے علاقے کی قدرتی خوبصورتی سے استفادہ کیا؟ یا محض اسے کوڑوں اور کچروں کا ملبہ بنا کر چھوڑ دیا!

کسی بھی میدان میں اگے بڑھنے کے لئے سب سے پہلے خود کو اس قابل بنانا پڑتا جب ترقی و خوشحالی آپ کے دہلیز تک پہنچ جائے تو اس سے مثبت طور پر استفادہ کر سکے۔
اگر ہم بغیر سوچ بچار اس میدان میں اتریں گے تو یقناً ہمارے قدم ڈگمگا جائیں گے اور ہم اس میدان میں زیادہ دیر تک چل نہیں سکیں گے۔

دوسری اہم بات ہم نے وہ اوزار ہی دوسروں کے سپرد کر دیا ہے جو اس ترقی کے راہ میں ہمارے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔
ہم نے اپنے نایاب اثاثہ جات کو ان لوگوں کے سپرد کردیا ہے جو کل کو ہماری ہی زمین پر ہمیں ہی زمین بوس کردیں گے۔
ہم اگر چند دن کے آرام اور عیش و عشرت والے دنوں کی خاطر آنے والی نسلوں کی جڑیں کھوکھلی کردیں تو روزِ محشر ہم اس کے جواب دہ ہوں گے۔

بجائے اپنی ملکیت زمینیں دوسروں کو سونپنے کے اگر ہم اپنے بزنس پلانس، آمدنی کے زریعے پیدا کرے تو ہم سب ایک روشن مستقبل کا داغ بیل دال سکیں گے ۔ جو مستقبل میں مزید ترقی کی راہیں ہموار کرے گا۔

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
56772

داد بیداد ۔ سکول کے لیڈر۔ ڈاکٹرعنا یت اللہ فیضی

داد بیداد ۔ سکول کے لیڈر۔ ڈاکٹرعنا یت اللہ فیضی

خیبر پختونخوا کی حکومت نے معیار تعلیم کی بہتری کے لئے انقلا بی قدم اٹھا تے ہوئے سکو لوں کی انتظا میہ میں تین سطحی نئے عہدیداروں کے تقرر کا اعلا ن کیا ہے عہدیدار وں کا نا م لیڈر، سینئر لیڈر اور ڈپٹی ڈسٹرکٹ ایجو کیشن کوا لٹی افیسر رکھا گیا ہے نئے عہدیدار مو جو دہ افیسروں کے کام میں بہتری لا ئینگے .

پرو گرام کے مطا بق پہلے مر حلے میں 2500لیڈر، 190سینئر لیڈر اور 28ڈپٹی ڈسٹرکٹ ایجو کیشن افیسر مقرر کئے جا ئینگے منصو بے کی رو سے 3سکولوں کے لئے ایک لیڈر ہو گا اور اس کا آغا ز پرائمیری کی سطح سے ہو گا 6لیڈروں کی نگرا نی ایک سینئر لیڈر کرے گا گویا وہ 18سکو لوں کا ذمہ دار ہو گا اس طرح ڈپٹی ڈسٹرکٹ ایجو کیشن کوا لٹی افیسر مخصوص علا قے کے سینئر لیڈروں کے کا م کی نگرا نی کا ذمہ دار ہو گا 2014ء میں خیبر پختونخوا کی حکومت نے سکولوں کے لئے ما نیٹرنگ سسٹم متعارف کرا یا تھا اس میں چند خا میوں کے باوجود ما نیٹرنگ کے اچھے نتائج دیکھنے میں آئے خا میاں یہ تھیں کہ ما نیٹرنگ کے سافٹ وئیر میں ایک دن غیر حا ضری اور 30دن غیر حا ضر کو الگ الگ دکھا نے کا طریقہ (آپشن)نہیں ہے نیز ما نیٹرنگ سٹاف مہینے میں سکول کا صرف ایک بار معا ئنہ کر سکتا ہے دوسری بار معا ئینہ نہیں کر سکتا.

یہ بھی ایک مسئلہ ہے کہ ما نیٹرنگ سٹاف حا ضری اور غیر حا ضری کے سوا سکول کے کسی مسئلے کو رپورٹ نہیں کر سکتا ان خا میوں کے باوجود ما نیٹرنگ سسٹم کو سرا ہا گیا اس کے ذریعے سکولوں میں سٹاف کی حا ضری یقینی بنا ئی گئی ہیڈ ٹیچر یا ہیڈ ما سٹر اور پرنسپل کے اوپر ما نیٹرنگ الگ سطح کی انتظا می مشینری تھی جس کے کار کنوں کی ملا زمتوں کو اب مستقل حیثیت دیدی گئی ہے اس کے ساتھ سکول لیڈر کا سسٹم ایک نیا اور اچھو تا انتظا می تجربہ ہو گا.

سردست اس منصو بے کی کا غذی صورت سامنے آگئی ہے جس کی رو سے لیڈر اور سینئر لیڈر سکولوں میں نصا بی اور ہم نصا بی سر گر میوں میں بہتری لا نے کے لئے سکول کے سر براہ اور اساتذہ کی مدد کرینگے ڈپٹی ڈسٹرکٹ ایجو کیشن افیسر لیڈر اور سینئر لیڈر کے کا موں کی نگرا نی کرے گا اور کام کو مذید بہتر بنا نے کے لئے مفید مشورے دیگا یہی سسٹم لڑ کیوں کے سکولوں کے لئے ہو گا جس میں خواتین کو بھر تی کیا جا ئے گا جب سسٹم کا م شروع کرے گا اور لیڈر سے لیکر ڈپٹی ڈسٹرکٹ ایجو کیشن افیسر تک نیا سٹاف کا م پر آجا ئے گا تو پتہ لگیگا کہ سکول کے اندر دو بادشا ہوں کی باد شا ہت کس طرح چلتی ہے؟ نئے منصو بے کا پرانے منصو بوں کے ساتھ کس طرح کا تعلق قائم ہو تا ہے؟

سردست اس منصو بے کے عملی پہلووں پر اظہار خیا ل ممکن نہیں تا ہم دو اہم امور کی طرف صو بائی حکومت کی تو جہ مبذول کرانا ضروری ہے پہلی بات یہ ہے کہ 2016ء سے پہلے سروس میں آنے والے اساتذہ سب کے سب تر بیت یا فتہ ہیں اس طرح سکولوں کے ہیڈ ٹیچر بھی اعلیٰ تر بیت یا فتہ ہیں آج کوئی فریش گریجو یٹ ان کی رہنما ئی یا ان پر حکم چلا نے کے لئے آئے گا تو مسئلہ پیدا ہو گا لیڈر، سینئر لیڈر اور ڈپٹی ڈسٹرکٹ ایجو کیشن کوالٹی افیسر کے لئے کم از کم بی ایڈ یا ایم ایڈ ہو نا لا زمی قرار دیا جا ئے دوسری اہم بات یہ ہے ضلع کی سطح پر متوا زی سسٹم کی قبا حتوں سے بچنے کے لئے اس نظا م کو مو جو دہ ڈسٹرکٹ ایجو کیشن افیسر کی ما تحتی میں دیا جا ئے ایسا نہ ہوا تو ہر روز نئے مسا ئل جنم لینگے اور فائدے کی جگہ نقصان ہو گا۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
56754

پاکستان مانگا کیوں تھا؟- قادر خان یوسف زئی کے قلم سے

قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک یہ فیصلہ نہیں کیا جاسکا کہ پاکستان کیوں مانگا اور مملکت کی اساس کیا تھی۔ دو قومی نظریے کے تحت ہماری آزادی کا مفہوم پنہاں تھا یا سیکولر نظام۔ غرض یہ ایک ایسی بحث ہے جس کے ماننے اور تسلیم نہ کرنے والے وہی بتاتے ہیں جو انہوں نے سنایا انہیں پڑھایا گیا۔ ہم جشن آزادی بھی بڑے جوش و خروش سے مناتے اور قیام پاکستان کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں، تاہم نئی نسل ریاست کے اُن اسباب سے اُس وقت تک کماحقہ واقف نہیں ہوسکتی جب تک وہ ازخود مطالعہ پاکستان نہ کرے۔ سوشل میڈیا سے نوجوان نسل اشد متاثر اور اس میں پھیلنے والے تصور کو بہت جلد قبول بھی کرلیتی ہے، اس کے پاس اتنا وقت بھی نہیں ہوتا کہ وہ کسی معاملے یا پوسٹ کی حقیقت جاننے کے لئے کوشش کرے، ورنہ اسے اس سوال کا جواب بھی باآسانی مل جاتا کہ ’ہم نے پاکستان مانگا کیوں تھا۔‘


یہ سوال ہمارے ہاں بڑی اہمیت اس وجہ سے بھی اختیار کرجاتا ہے، کیونکہ حصول پاکستان کے بعد اکثر و بیشتر ان عناصر نے بھی پاکستان میں ڈیرے ڈال دئیے، جو تحریک پاکستان کے دوران اس کی مخالفت میں ایڑی چوٹی کا زور لگاتے رہے تھے، انہوں نے پاکستان کو اپنی جائے پناہ بنالیا اور جہاں اپنی کمین گاہوں میں بیٹھ کر ایسے پراپیگنڈے کی اشاعت شروع کردی، جو مایوسی اور ذہنی انتشار کا باعث ہو، اسی کا یہ نتیجہ ہے کہ حصول ِ پاکستان کے لئے مسلسل جدوجہد کے بعد آج کی نسل یہ بھی نہیں جانتی کہ ہم نے پاکستان مانگا کیوں تھا؟ اس مطالبے سے ہمارا مقصد کیا تھا؟ ذہنی انتشار کی یہ کیفیت یہاں تک پہنچ گئی کہ چہار اطراف سے عجیب و غریب آوازیں سنائی دینے لگیں،آزادی وطن کے مخالفین نے تحریک پاکستان کی کامیابی کو، ایک گہرے زخم کے طور پر قبول کیا اور اس کی کسک سے انہیں آج تک چین نصیب نہیں ہوا، اس لئے یہ افراد جو کچھ کہتے اور کرتے ہیں، وہ ان سے غیر متوقع نہیں تھا۔ پاکستان اور بھارت کے مابین سرحدوں کی تشکیل میں شامل بائونڈری کمیشن کے رکن سابق چیف جسٹس آف پاکستان محمد منیر کا ایک مقالہ Days to Rememberاخبارات میں دو اقساط میں شائع ہوا تھا، جس میں دلچسپ معلومات و انکشافات کے علاوہ ایک بات یہ بھی کہی گئی کہ ’’قیامِ پاکستان تک کسی ذہن میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ پاکستان ایک اسلامی مملکت کی صورت اختیار کرے گا۔‘‘ یہ وہ شروعات تھی، جس کے بعد سے آج تک غیر متعلقہ بحث کا خاتمہ ہی نہیں ہورہا۔

مملکت پاکستان کے بارے میں ایسی شہادت، جن سے بڑھ کسی دوسرے کی شہادت قابل اعتماد نہیں ہوسکتی، آئیے سب سے پہلے ہم تصور پاکستان کے خالق کو پیش کرتے ہیں۔
1930میں علامہ اقبالؒ نے آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس الٰہ آباد کے خطبۂ صدارت میں مسلمانوں کے لئے جداگانہ مملکت کا تصور پیش کیا۔ انہوں نے فرمایا کہ ’’میری آرزو یہ ہے کہ پنجاب، صوبہ سرحد، سندھ اور بلوچستان کو ملاکر واحد اسلامی ریاست قائم کی جائے۔‘‘ قائداعظم محمد علی جناحؒ نے پاکستان کی جدوجہد میں شروع سے آخر تک اس حقیقت کو دہرایا۔ 1945 میں فرنٹیئر مسلم سٹوڈنٹس کے نام انہوں نے اپنے پیغام میں فرمایا کہ ’’پاکستان سے مطلب یہی نہیں کہ ہم غیر ملکی حکومت سے آزادی چاہتے ہیں، اس سے حقیقی مراد مسلم آئیڈیالوجی ہے، جس کا تحفظ نہایت ضروری ہے، ہم نے صرف اپنی آزادی حاصل نہیں کرنی، ہم نے اس قابل بھی بننا ہے کہ ہم اس کی حفاظت بھی کرسکیں اور اسلامی تصورات اور اصولات کے مطابق زندگی بسر کرسکیں۔‘‘ آل انڈیا مسلم لیگ کے 1940کے تاریخی اجلاس لاہور میں جہاں پاکستان کی قرارداد منظور ہوئی تھی، تقریر کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ یاد رکھئے ہندو اور مسلمان، مذہب کے ہر معاملے میں جداگانہ فلسفہ رکھتے ہیں، دو ایسی قوموں کو ایک نظامِ سلطنت میں یک جا کردینا باہمی مناقشت کو بڑھائے گا اور بالآخر اس نظام کو پاش پاش کردے گا، جو اس ملک کی حکومت کے لئے وضع کیا گیا ہے۔


اب قیام پاکستان کے بعد اکتوبر 1947 میں پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کی حیثیت سے کراچی کے خالق دینا ہال میں حکومتی افسران سے خطاب کو پڑھ لیا جائے جس میں انہوں نے فرمایا تھا کہ ’ہمارا مقصد یہ تھا کہ ہمیں ایک ایسی مملکت مل جائے جس میں ہم آزاد انسانوں کی طرح رہ سکیں اور جس میں ہم اپنی روشنی اور ثقافت کے مطابق نشوونما پاسکیں اور جہاں اسلام کے عدلِ عمرانی کے اصول آزادانہ طور پر روبہ عمل لائے جاسکیں۔‘ یہاں تک کہ ہندو بھی جانتے تھے کہ پاکستان کیوں مانگا جارہا ہے۔ یکم نومبر1941کو لدھیانہ میں اکھنڈ بھارت کانفرنس میں مشہور کانگریسی رہنما مسٹر منشی نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ ہمیں کچھ معلوم بھی ہے کہ نہیں معلوم، تو مختصراً الفاظ میں سمجھئے کہ پاکستان مسلمانوں کا ایک خطۂ ارض ہوگا، جہاں اسلامی حکومت قائم ہوگی۔ (بحوالہ ٹریبیون، 2  نومبر 1941)۔


قائداعظمؒ نئی مملکت کے آئین کا خاکہ دے چکے تھے، فروری 1948 میں اہل امریکہ کے نام ایک براڈ کاسٹ پیغام میں انہوں نے فرمایا تھا کہ ’’پاکستان کی قانون ساز اسمبلی نے ابھی پاکستان کا آئین مرتب کرنا ہے، میں نہیں جانتا کہ اس آئین کی آخری شکل کیسی ہوگی، لیکن مجھے یقین ہے کہ وہ اسلام کے بنیادی اصولوں کا آئینہ بردار، جمہوری انداز کا آئین ہوگا، اسلام کے یہ اصول آج بھی اسی طرح عملی زندگی پر منطبق ہوسکتے ہیں جس طرح وہ 13سو سال پہلے ہوسکتے تھے، اسلام نے ہمیں وحدتِ انسانیت اور ہر ایک کے ساتھ عدل اور دیانت کی تعلیم دی ہے، آئین پاکستان کے مرتب کرنے کے سلسلے میں جو ذمے داریاں اور فرائض ہم پر عائد ہوتے ہیں، ان کا ہم پورا پورا احساس رکھتے ہیں۔ کچھ بھی ہو، یہ مسلم بات ہے کہ پاکستان میں کسی بھی صورت تھیو کریسی رائج نہیں ہوگی، جس میں حکومت (نام نہاد) مذہبی پیشوائوں کے ہاتھ میں دے دی جاتی ہے کہ وہ (بزعم خویش) ’’خدائی مشن‘‘ کو پورا کریں۔‘‘ قائداعظمؒ نے 11 اگست کو بھی جو کہا، وہ اسلام کے عین مطابق ہی تو تھا۔ دین اسلام تمام اقلیتوں کو ان کے شہری و مذہبی حقوق اور آزادی دیتا ہے۔ اس کا اظہار انہوں نے اپنی متعدد تقاریر میں برملا کیا، جس کے بعد ہمیں سمجھنے میں دشواری نہیں ہونی چاہیے کہ قیام پاکستان کا مقصد کیا تھا اور مانگا کیوں گیا۔

Posted in تازہ ترین, مضامین
56750

گلگت شندرو روڈ پروجیکٹ: خدشات و امیدیں – تحریر: جان نظاری گلگت

آپ نے وہ کہانی تو سنی ہو گی کہ ایک آدمی کے پاس ایک مرغی تھی، جو بڑی خاص تھی۔ یہ مرغی انڈے تو دیتی تھی مگر وہ سونے کے ہوتے تھے۔ وہ ہر روز سونے کا انڈا دیتی تھی۔ ایک دن مرغی کے مالک کو لالچ نے آن گھیرا۔ اس بدبخت نے سوچا کہ اس طرح امیر بننے میں بہت دیر لگے گی، کیوں نہ مرغی کو ذبح کر کے ایک بار ہی سارے انڈے نکال لے۔ اس طرح وہ ایک دن میں ہی دولت مند بن جائے گا۔ اس نے بڑے جوش و خروش سے مرغی کو ذبح کیا مگر اسے کچھ بھی حاصل نہ ہوا۔ اس نے اپنی مرغی بھی گنوائی اور انڈے بھی گئے۔ بالکل ویسا ہی گلگت شندور روڈ پروجیکٹ کی کہانی ہے، وہاں کے باسی بھی صرف اس پروجیکٹ کی معاوضے کے بل بوتے آمیر بننا چاہتے ہیں، مرغی پالنے کو تیار نہیں۔ اس پروجیکٹ کو جہاں کچھ افراد گیم چینجر کے خطاب سے نواز چکے ہیں، وہی پے کچھ افراد اس کی مخالفت میں اٹھ کھڑے ہیں۔

میں اسے گیم چینجر نہیں بلکہ سونے کا انڈا دینے والی مرغی سمجھتا ہوں۔ اس لئے ہمیں مرغی کے مالک کی غلطی سے سبق سیکھ کے اپنی مرغی کو ذبح کرکے انڈے نہیں نکالنا چاہئے، بلکہ دانائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے پپار محبت سے پال کے انڈے کھانا ہے نہ کہ مرغی۔ اس وقت گلگت سے لے کر برست تک علاقہ مکینوں میں یہ سب سے زیادہ زیر لب موضوع سمجھا جاتا ہے۔ ان میں وہ بھی شامل ہیں، جن کا خاطر خواہ زمینیں اس روڈ کی زد میں آرہیں ہیں، وہ بھی شامل ہیں جو اس روڈ کی وجہ سے کم و بیش بے گھر ہو رہیں ہیں، وہ خوش نصیب افراد بھی شامل ہیں جن کے زمینوں کی قیمتیں اس روڈ کی آمد سے راتوں رات آسمان کو چھونے لگیں ہیں اور وہ دور اندیش کاروباری طبقہ بھی شامل ہیں، جو اس پروجیکٹ کی خبر شائع ہونے کے اگلے دن سے علاقے میں مختلف کاروباری موقعوں کی کھوج میں دن رات ایک کر رہیں ہیں۔

قصہ مختصر یہ کہ اگر وہاں کے باسیوں کے پاس بیٹھ کے اس موضوع پے لب کشائی کی جائیں تو، ہر فرد اپنے انداز، اپنی ماضی کے تجربات و واقعات کو بنیاد بناکر اس موضوع پے لمبے چوڑے تبصرے کررہا ہوتا ہے۔ عام طور پے اس موضوع پے بات کرتے ہوئے تین مختلف اقسام کے لوگ آپ کو مل جائے گے۔ ایک وہ جو تخلیقی صلاحیتوں کے حامل ہوتے ہیں، جنھیں عام طور پر پیداواری اور مثبت سوچ رکھنے والے کہا جاتا ہے۔ وہ یقینا اس پروجیکٹ کو لے کے کافی پرامید اور خوش دیکھائی دیتے ہیں۔ کیوں کہ وہ اس پروجیکٹ کے مثبت پہلوؤں کو بخوبی جانتے ہیں۔ یقینا علاقے میں جب بھی بڑے پیمانے پے کوئی تبدیلی آجاتی ہے، تو وہ مثبت اور منفی دونوں پہلو ساتھ لے آتی ہے۔ لہذا یہ فطری عمل ہے کہ تعمیری سوچ رکھنے والے لوگ ہمیشہ اچھائی کی باتیں کرتے ہیں، اچھائی کو فروغ دیتے ہیں۔

لوگوں کو ہر وقت وہ تمام فوائد بتانے کی کوشش کرتے ہیں، جو کسی نہ کسی طریقے سے اس پراجیکٹ سے وابستہ ہیں۔ اور دوسرے وہ عناصر ہیں جو منفی ذہنیت رکھتے ہیں، جنہیں تخریب کار کہا جائے بھی تو شاید غلط نہ ہو۔ یہ لوگ عادت کے ہاتھوں مجبور مثبت پہلوؤں کو دیکھنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ انھیں ہمیشہ چیزوں میں بگاڑ نظر آتی ہیں۔ یہ ہر اچھے برے کام کو اپنے خلاف سازش سمجھتے ہیں۔ ان لوگوں کو عام زبان میں کنویں کا مینڈک بھی کہا جاتا ہے۔ ان لوگوں کی زندگی کا ایک ہی فارمولا ہے، وہ یہ کہ اچھا کام نہ خود کرنا ہے اور نہ کسی کو کرنے دینا ہے۔ یہ اکثر وہ لوگ ہوں گے، جو یا تو اس روڈ کی وجہ سے شدید متاثر ہو رہے ہیں، اس لئے وہ منفی پروپیگنڈہ پھیلا کے اس تقدیر بدلنے والی پروجیکٹ کو پیچھے دھکیلنے کی کوشش کر رہیں ہیں یا تو یہ وہ لوگ ہوں گے، جو خود تو اس مثالی منصوبے کی تکمیل کے باوجود بھی اپنے حالات بدلتے نہیں دیکھ پاتے، تو پھر دوسروں کی تقدیر بھی بدلتے نہیں دیکھنا چاہتے ہیں۔

ایسے حالات میں ان کے پاس تخریب کاری، منفی پروپیگنڈہ پھیلانے، ان لوگوں کی ذہنیت کو خراب کرنے کی, جو عملی طور پے اس منصوبے میں خلل ڈال سکتے ہیں اور کچھ نہیں بچتا۔ اس وقت جس مقام پہ ہم کھڑے ہیں، یہ وقت کی اشد ضرورت ہے کہ ہم ان عناصر کو پہچانے، اس سے پہلے کہ وہ اپنا کام کر جائے اور ایک دفعہ پھر ترقی یافتہ قوم بن کے ابھر آنے کا یہ سنہری موقع ہمارے گھروں کی دہلیز سے واپس چلی جائے۔ ان لوگوں کی عموما پہچان یہ ہے کہ، یہ ناکام اور زندگی سے ہارے ہوئے مخلوق ہوتے ہیں۔ ماہرین کا ایک رائے یہ بھی ہے کہ، یہ دنیا ویسا نہیں ہے جیسا ہمیں نظر آتی ہے، بلکہ یہ دنیا ویسا ہے جیسا ہم خود ہیں۔ ماہرین کی اس رائے کا ذکر یہاں اس لئے ضروری ہے، تاکہ ہم ان دونوں مخلوقات کے درمیان فرق سمجھ سکیں۔ ان دو عناصر کیساتھ ساتھ یہاں پے اس بات کا ذکر بھی نہایت ضروری ہے، چونکہ گلگت بلتستان کی جغرافیائی حدود کی اہمیت سے دنیا کا ہر وہ شخص جو جغرافیائی حکمت عملی کا سمجھ بوجھ رکھتا ہو انکار نہیں کر سکتا ہے۔

ایسے میں یہ افراد بین الاقوامی طاقتوں کا آلہ کار بن کے بھی اسطرح کی سازشیں رچا سکتے ہیں۔ کیوں کہ گلگت بلتستان کی جغرافیائی حدود میں ایسے منصوبے خاص کر امریکہ اور ہماری روایتی حریف انڈیا کو ایک آنکھ نہیں بھاتے۔ ہمیں یہ سب کچھ اچھی طرح سے دیکھنے اور جانچنے کے بعد ہی اپنے اعتراضات پہ غور کرنا چاہیے۔ اور تیسرا قسم یہاں سیاسی ٹولے کا پایا جاتا ہے، جو کہ اس گیم چینجر پروجیکٹ کی کامیابی کے راہ میں سب سے موثر رکاوٹ ثابت ہوسکتے ہیں۔ ان کے مقاصد ان کے ذات کی حد تک محدود ہیں، لیکن وہ نابالغ عوام کو اپنی خوشامدی باتوں اور سیاسی چال سے ورغلانے کی بھرپور انداز میں کوشش کر سکتے ہیں۔ اگر یہ روڈ کامیاب ہو گئی تو، اگلے الیکشن کے لئے نذیر ایڈوکیٹ کا پوزیشن اور زیادہ مضبوط ہوسکتی ہے، جو کہ ان کے سیاسی حریفوں کے لئے کسی بھی قیمت قابل قبول نہیں۔ 

ہمارے لوگوں کے دو ٹوک الفاظ میں یہ چیدہ چیدہ مطالبات ہیں، جن میں سر فہرست گورنمنٹ آف پاکستان اور نیشنل ہائی وے اتھارٹی سے مطالبہ ہے کہ، آبادی والے ایریا میں 50 فٹ سے زیادہ زمین نہیں لیا جائے، دوسرا مطالبہ روڈ کی زد میں آنی والی آبادی اور زمین کا تخمینہ مناسب ہو تاکہ وہ افراد جو روڈ کی وجہ سے مکمل بے گھر ہو رہے ہیں، اس معاوضے کی مدد سے کہیں اور جاکے آباد ہو سکیں اور تیسرا مطالبہ معاوضے کی رقم بر وقت متاثرین کو ادا کی جائے۔ یہ سارے مطالبات جائز اور قانون کے دائرے میں آتے ہیں۔ ان مطالبات کو منوانے کا حل احتجاج میں ہر گز نہیں۔ بہت ہی آسان طریقہ ہے، جو کہ 27 دسمبر کی دوپہر گوپس میں ایک عوامی میٹنگ منعقد ہوئی وہاں طے پاچکا ہے، اگر پھر بھی لوکل ایڈمنسٹریشن موثر انداز میں کام کرتے نہیں دکھائی دے رہی، تو چند منتخب نمائندے کمیٹی کی شکل میں اسلام آباد نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے مرکزی دفتر جا سکتے ہیں، جہاں پہ ان کے تمام سوالات کے جوابات بھی مل جائے گے اور جائز مطالبات سنی بھی جائیں گی۔

اب وہ زمانہ چلا گیا کہ، ہر چھوٹے سے چھوٹے مطالبے کے لئے سیاسی نمائندوں کی پناہ لی جائے۔ ایک سیاسی نمائندہ ووٹ لے کے خود جیت نہیں پاتا، تو وہ ہمیں ہمارا حقوق کہاں سے دلا سکتا ہے۔۔؟ یہاں پہ یہ بات بھی غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ اس روڈ کا فائدہ ہمیں معاوضے کی شکل میں نہیں ہونا ہے، یہ تو ابھی آغاز ہے۔ اس کا فائدہ روڈ بننے کے بعد ہمیں موصول ہونا شروع ہوگا۔ وہ متوقع فوائد یہاں پے گننے لگا تو شاید یہ کالم طوالت پکڑے گا. اس پہ بھی لکھے گے لیکن پھر کبھی۔ اب 216 کلومیٹر کے احاطے میں win win حالات پیدا کرنا نہ گورنمنٹ کے لئے ممکن ہے اور نہ ہی این ایچ اے کی بس کی بات ہے۔ یہ کوئی سٹریٹ روڈ نہیں ہے، جس کی کوئی متفقہ پیمائش نہیں ہوگی۔ یہ ایک ہائی وے روڈ ہے اور اس کی اپنی ایس او پیز ہوتیں ہیں اور سب کچھ اس ایس او پیز کے مطابق بننا ہے۔ لہٰذا علاقہ مکینوں کو قیاس آرائیوں سے گریز کرنا چاہئے اور جن جن کے جائز مطالبات ہیں، وہ بجائے روڈ پے آکے چلا چلا کے تقرر کرکے بتائیں، مناسب چینلز کے ذریعے متعلقہ اداروں تک پہنچائیں جو کہ گوپس والی عوامی میٹنگ میں متفقہ طور پر طے پایا ہے، ان نکات پے سختی سے عمل کیجائے تاکہ بروقت روڈ سے متعلقہ اعتراضات کا ازالہ ہو سکے اور یہ گیم چینجر پروجیکٹ بغیر کسی سازش کا شکار ہوئے اپنی تکمیل کی جانب گامزن ہو، جو کہ ہر اس فرد کی خواہش ہونی چاہیے جو اس علاقے کیساتھ مخلص ہے اور یہاں کے باسیوں کو پھلتے پھولتے دیکھنا چاہتا ہو۔ 

یہاں پے اس بات کا ذکر بھی غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے، جو متوقع روڈ کی موجودہ پیمائش لی گئی ہے، وہاں کہیں پے بھی نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے ہائی وے ایس او پیز نظر نہیں آتیں اور کچھ لوگوں کا یہ بھی ماننا ہے، نشان لگانے والے افراد کا سرویئر یا سول انجنیئر والا پیشہ سے کوئی دور دور کا تعلق ہی نہیں ہے۔ ایسے میں لوگوں کا غم و غصہ جائز ہے، جسے مقامی روڈ کمیٹی کے نمائندے لوکل ایڈمنسٹریشن یا نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے نوٹس میں لے آئیں، تاکہ اس مسئلے کو سنجیدگی سے دیکھا جا سکے۔ بالخصوص میں اگر یہاں پے یانگل سے آگے کی بات کروں تو، خاص یانگل، روشن، ہاکس، ہمرداس، گمیس، داہمل، سوسٹ، پنگل اور خاص پھنڈر کے درمیان سے 50 فٹ روڈ بننی چاہئے، جو کہ اگر ہم نیشنل ہائی وے اتھارٹی کی ہائے ویز پے کام کرنے کا ایس او پیز بھی پڑھے تو وہاں سے بھی ہمیں یہ دیکھنے کو ملتا ہے، کہ آبادی والے جگہوں پے 50 فٹ جبکہ غیر آبادی والے جگہوں پے 100 فٹ روڈ بننی چاہئے۔

قصہ مختصر یہ کہ اگر نیشنل ہائی وے اتھارٹی والے اپنے پروفیشنل انجینئرز اور سرویئر  کی مدد سے یہ پیمائش عین اپنی ہائی ویز ایس او پیز کیمطابق کرے تو نہ کوئی اعتراض کر سکتا ہے اور نہ اعتراض کرنے کا کوئی جواز بنتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ اس منصوبے کو سازشی عناصر کے شر سے بچائیں اور ہم سب کو ہم آواز ہوکے دل و جان سے اس سونے کا انڈا دینے والی مرغی کو بہترین اور صحت مند انداز میں پالنے کی توفیق اور ہمت عطا فرمائیں تاکہ ہم اور ہماری آنے والی نسلیں بھی مزے مزے سے اس کی انڈے کھا سکیں۔ آمین

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
56722

داد بیداد ۔ پشاور کی طعام گاہیں ۔ ڈاکٹرعنا یت اللہ فیضی

بات چیت میں طعام گاہ یا طعام خا نہ کے لئے ریسٹورنٹ کا لفظ مستعمل ہے غلط العام کے طور پر ہو ٹل بھی بو لا جا تا ہے یہاں پختہ چائے فروشوں اور قھوہ خا نوں سے ہٹ کر پشاور شہر کے چند ایسے طعام گاہوں کا ذکر کیا جا تا ہے جو وقت گذر نے کے ساتھ بھلا دیئے جائینگے کیونکہ ہر روز نیا سورج نئے پروگرام اور نئی دکا نیں لیکر طلوع ہوتا ہے مجھے اور میرے دوستوں کو نا ز سینما روڈ پر مسجد مہا بت خا ن کے صدر دروازے کے بائیں طرف واقع چھوٹی سی تنگ مگر خوب صورت طعام گاہ یا د آتی ہے اس کا نا م بخا ری پلا و تھا 1971ء میں افغا نی پلا ؤ یا کا بلی پلا ؤ پشاور میں متعارف نہیں ہوا تھا افغا ن یا کا بلی اشپز (Ashpaz) بھی نہیں ملتے تھے بخا ری پلاؤ اپنی نو عیت کا انو کھا پکوان تھا چھوٹی سی طعام گاہ میں چھوٹی چھوٹی کر سیاں ہوا کر تی تھیں صاف ستھری میزیں تھیں چھوٹے چھوٹے خوب صورت پلیٹ اور خوب صورت چمچے ہوتے تھے.

کھا نا چننے کا انداز بھی نیا اور اچھو تا ہو اکرتا تھا جن لو گوں نے بخا ری پلا ؤ کا مزہ ایک بار چکھا وہ اس کو کبھی نہیں بھول سکتے اس طرح کا ایک طعام خا نہ قصہ خوانی کے پیچھے تنگ گلی میں تاوانی پلا ؤ کے نا م سے ہوا کرتا تھا ایک سفید ریش بزرگ کھڑے کھڑے دیگ سے گرم گرم پلاؤ پلیٹوں میں ڈال کر تقسیم کر تے اور گا ہک یا کھڑے کھڑے تنا ول کر تے یا گلی کی نکڑپر رکھی صندلیوں پر بیٹھ کر کھا تے پلا ؤ بانٹنے والا بزرگ تاوانی پلاؤ بھی پلا ؤکی آواز لگا تا تو ان کی اواز گلی کے آخر تک سنا ئی دیتی گا ہک اس کی طرف کھینچے چلے آتے یہ اپنے طرز اور سٹا ئل کا سما رٹ سسٹم تھا جس میں نہ کمرہ نہ کر سی نہ میز نہ دیگر لوا زمات اس کے باو جو د گا ہکوں کی قطار لگی رہتی تھی فردوس سینما روڈ پر جلیل کبا بی کا نا م آج بھی مشہور ہے لیکن آج کے ائیر کنڈیشنڈ ہال میں وہ مزہ نہیں جو چند سال پہلے تھی.

جلیل کبا بی کے کباب کی خو شبو دور سے لو گوں کو اپنی طرف متوجہ کر تی تھی ان کا عام کباب بھی فر مائش پر تیار کئے گئے کباب سے زیا دہ لذیز ہوتا تھا سیخ کباب سے اس کو الگ پہچان دینے کے لئے چپلی کباب کہا جا تا ہے اور یہ کباب تخت بھا ئی یا بخشو پُل کے کبا ب کی طرح جلیل کبا بی کے ہاں خصوصی ذائقے کے ساتھ ملتا ہے 1971ء میں شعبہ بازار کو تکہ کڑا ہی کا مر کز سمجھا جا تا تھا چارسدہ، مر دان اور نو شہرہ سے شہریا ”خا ر“ آنے والے شعبہ کی کڑا ہی ضرور کھا تے تھے پھر نمک منڈی کی بھی شہرت ہو گئی اور نمک منڈی میں چرسی تکہ اس قدر مشہور ہوا کہ اسکی شاخیں کھل گئیں راولپنڈی، اسلا م اباد اور لا ہور سے آنے والے مہمان بھی میزبا نوں سے چر سی تکہ کڑا ہی کی فر ما ئش کرنے لگے 1970ء کی دہا ئی میں سینما روڈ پر ایک طعام گاہ بنی جو دیکھتے ہی دیکھتے دور دور تک مشہور ہوئی اس کا نا م سلا طین تھا .

یہاں قیام گا ہ بھی تھی طعام گاہ بھی اور یہ پہلی طعام گاہ تھی جو ائیر کنڈیشنڈ ہال کی سہو لت سے مزین تھی بڑے افیسر سیا ستدان اور اراکین پا ر لیمنٹ بھی یہاں دعوتوں کا اہتما م کر تے تھے اس کا مینیو یا طعامیہ متفرق تھا متوسط طبقے کے لئے سستا تھا اعلیٰ طبقے کے لئے مہنگا تھا شعبہ کی کڑا ہی سلا طین میں بھی ملتی تھی جو اس کی نما یاں خصو صیت تھی.

سینما روڈ سے متصل خیبر بازار میں پشاور کے مشترکہ مہمند طعام گا ہوں کے چین کی ایک طعام تھی جو مخصوص تہذیب اور رکھ رکھا ؤ کے لئے مشہور تھی اس کے ویٹر بہت مستعد اور مہذب ہوا کر تے تھے وہ گا ہکوں کے ساتھ ذا تی تعلق قائم کر تے تھے اور گا ہکوں کو پہچا نتے تھے پھر کیش کا ونٹر پر آتے وقت ویٹروں کی مخصوص آواز میں بل کی پکار بھی مزہ دیتی تھی ویٹر جس طرح گا ہک سے آر ڈر لیکر استاد کو مخصوص آواز میں پکار تے تھے اسی طرح کیش کا ونٹر پر پہنچتے وقت بل کی مخصوص آواز دیتے تھے وہ لطیفہ بھی اس طعام گاہ کا تھا کہ ”کھا یا پیا کچھ نہیں گلا س توڑا آٹھ آنے“ آج کا پشاور بہت تر قی کر گیا ہے مگر گزشتہ کل کا لطف آنے والے کل کے نصیب میں نہیں۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
56720

صدر پیوٹن کا بروقت انتباہ ۔ محمد شریف شکیب

روس کے صدر ولادی میر پیوٹن نے اپنی سالانہ پریس کانفرنس میں دوٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ پیغمبر اسلام حضرت محمدﷺ کی توہین آزادی اظہار رائے کے زمرے میں نہیں آتی بلکہ یہ مذہبی آزادی کی خلاف ورزی اور مسلمانوں کے جذبات کو دانستہ ٹھیس پہنچانے کے مترادف ہے۔روسی صدر نے فنکارانہ آزادی کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ہرطبقے کے لوگوں کی اپنی حدود ہیں اور ان کی آزادی کی خلاف ورزی کرنا بھی کسی طور درست نہیں ہے۔ ہمیں ایک دوسرے کی روایات، عقائد،اکابرین اور اسلاف کا احترام کرناچاہئے بدقسمتی سے بعض ممالک میں ان اقدارکو پس پشت ڈال دیاگیا ہے۔صدر پیوٹن کا کہناتھا کہ شان رسالت میں گستاخی انتہاپسندی کی راہیں کھول دیتی ہے۔وزیراعظم عمران خان نے روسی صدر کے پیغمبراسلام سے متعلق بیان کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ روسی صدر کا بیان میرے موقف کی تائید ہے کہ شان رسالت میں گستاخی آزادی اظہاررائے نہیں۔

مسلم امہ کو اسلاموفوبیا کے مقابلے کیلئے دین اسلام کا پیغام غیرمسلم دنیا تک پہنچانا چاہیے۔قبل ازیں انسانی حقوق سے متعلق یورپی یونین کی عدالت نے تین سال قبل آسڑیا کی ایک خاتون کے توہین آمیز کلمات سے متعلق ایک مقدمہ کے فیصلے میں قرار دیا تھا کہ پیغمبر اسلام کی توہین اظہار رائے کی آزادی کی جائز حدود سے متجاوز ہے۔ اس سے تعصب کو ہوا ملتی ہے۔ اور مذہبی امن خطرے میں پڑجاتا ہے۔ روسی صدر کا بیان ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب پوری دنیا میں اسلاموفوبیا پر بحث ہورہی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنے خطاب کے دوران اسلاموفوبیا کے خلاف موثر قانون سازی پر زوردیا تھا۔انہوں نے اپنے خطاب میں واضح کیا کہ مسلمان سرکاردوعالم کی ذات سے والہانہ عقیدت اور محبت رکھتے ہیں اور ان کی توہین کسی صورت برداشت نہیں کریں گے۔

اہل مغرب سمیت پوری دنیا کو یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرنی چاہئے۔مغرب کے نام نہادجمہوری ممالک میں مغلظات کو بھی اظہار رائے کی آزادی تصور کیاجاتا ہے۔ گذشتہ چند عشروں سے ڈنمارک، آسٹریا، سوئیڈن، فرانس اور دوسرے یورپی ممالک میں پیغمبر اسلام کے توہین آمیز خاکوں کی اشاعت سے عالم اسلام میں شدید غم و غصے کی لہردوڑ گئی ہے۔اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ کی محبت ہرمسلمان کے ایمان کا لازمی جزو ہے۔شان رسالت پر اپنی جان نچھاور کرنا ہر مسلمان اپنے لئے سعادت سمجھتا ہے۔اسی نکتے کی نشاندہی کرتے ہوئے روسی صدر نے خبردار کیا ہے کہ اقوام میں نفرت اور تعصب کے بیج بونے والے پوری انسانیت کے دشمن ہیں۔ اس سے عالمی امن کو شدید خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔اپنی رائے کا آزادانہ اظہار، کوئی بھی سیاسی نظریہ، مسلک اور عقیدہ اختیار کرنا ہر شخص کا بنیادی جمہوری حق ہے لیکن یہ آزادی حدودوقیود سے ماورا نہیں ہے۔

کسی کے اخلاقی و مذہبی جذبات کو مجروح کرنا، دوسروں کی دل آزاری،کسی کی انا کو ٹھیس پہنچانا،کسی کے خاندان،مسلک، نسل، قومیت، زبان اور عقیدے کو تضحیک کا نشانہ بنانا آزادی اظہار رائے کے منافی ہی نہیں بلکہ سنگین قانونی اور اخلاقی جرم ہے دنیا کا کوئی بھی مذہب دوسروں کی دل آزاری، توہین اور بے عزتی کی اجازت نہیں دیتا۔ کوئی بھی عمل اخلاقیات کے دائرے سے باہر نکل جائے تو خلاف قانون تصور کیاجاتا ہے۔ اور تمام مہذب معاشروں میں اس کی سزائیں مقرر ہیں۔ مغربی ممالک میں توہین رسالت اور توہین مذہب کے واقعات اگرچہ ریاستی سرپرستی میں نہیں ہورہے مگر ریاستیں ان کی روک تھام اور سد باب کے لئے بھی کوئی عملی اقدامات نہیں کر رہیں جس کی وجہ سے مختلف عقائد، مذاہب اور مسالک کے درمیان نفرتیں بڑھ رہی ہیں۔

دہشت گردی، انتہاپسندی اور شدت پسندی انہی نفرتوں کے شاخسانے ہیں اگر نفرتوں کے بیج بونے والوں کی موثر قانون سازی کے ذریعے حوصلہ شکنی نہیں کی گئی توعالمی امن خطرے میں پڑسکتا ہے۔ صدر پیوٹن کا بیان اس حوالے سے بروقت انتباہ ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
56718

سرکتی جاتی ہے پاؤں تلے سے ریگ حیات – از قلم : کلثوم رضا

جب سے سوشل میڈیا کا دور آیا ہے۔خانداں والوں اور رشتہ داروں کی اپنی جگہ ملکی اور غیر ملکی ہر عام و خاص کی تاریخ پیدائش معلوم ہو گئی ہے آئے روز کسی نا کسی کے سٹیٹس پہ لکھا ہوتا ہے “ہیپی برتھ ڈے”بلکہ ایک دو دن پہلے بھی “برتھ ڈے گرل یا برتھ ڈے بوائے کے ساتھ تصویر بھی شئیر کی جاتی ہے۔ اور اب دسمبر کے بالکل آخری ایام ہیں اور نیا سال شروع ہونے والا ہے۔۔


ایسے میں ہر قسم کے پوسٹس سامنے آتی ہیں۔۔کوئی معافی مانگ رہا ہوتا ہے،تو کوئی اگلے سال کے لیے بھی شرارت کے لیے تیار رہنے کو کہتا ہے،کوئی جانے والے سال سے شکوہ شکایت کرتا ہے تو کوئی اس کے پیچھے غمگین ہے۔کوئی نئے آنے والے سال کی پیشگی مبارکباد دیتا ہے ۔۔


بہر حال جب ہماری بھی عقل کچی تھی تو اپنی تاریخ پیدائش کو یاد کر کے خوش ہوتے تھے کہ ہم اتنے سال کے ہو گئے اس بات سے بالکل قطع نظر کہ “ایک اینٹ اور گر گئی دیوار حیات سے”


لیکن جب شعور آگیا تو سمجھ گئے کہ عمر بڑھنے کے بجائے گھٹ رہی ہے۔مجھے وہ بات کبھی نہیں بھولتی جب میرے ماموں نے اپنے تیس سال مکمل ہونے پر کہا کہ ” اب چڑھائی ختم اب ہم اترائی میں جانے لگے ہیں”جب اس بات پر غور کیا تو واقعی ایسا ہی ہے ۔۔تیس سال تک جاتے ہوئے لگتا ہے کہ ابھی بہت عمر پڑی ہے۔بہت سے کام کریں گے ابھی تو سفر شروع ہے مگر تیس سال کے بعد جب اترائی کی طرف جانے لگتے ہیں تو رفتار بھی تیز ہو جاتی ہے پتہ ہی نہیں چلتا کہ کب پینتیس،چالیس اور پینتالیس کے ہو گئے۔ہر وہ لمحہ جو مستقبل تھا حال میں بدل کر آن کی آن گزر کر ماضی بنتا جا رہا ہے۔ہاتھ میں بندھی گھڑی کی سوئی کی ٹک ٹک ہمیں خبردار کرتی رہتی ہے کہ تمھارا ایک ایک لمحہ گزر رہا ہے۔تمھاری عمر بڑھ نہیں رہی گھٹ رہی ہے۔تم چڑھائی سے اتر چکی ہو اور تیزی سے اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہو۔۔۔مگر ہم ہیں کہ اس بات کو یکسر نظر انداز کیے خود کو دھوکا دئیے جا رہے ہیں کہ ابھی نہیں ،ابھی بہت سے کام باقی ہیں جو کرنے ہیں ۔۔۔انھیں بھی اج کا کل پر کل کا پرسوں پر ٹالے ہوئے ہیں۔

اس بات سے لاپرواہ کہ وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا وہ تو گزرتا جا رہا ہے۔اور جس تیز رفتاری سے گزر رہا ہے اس کا اندازہ تھوڑی دیر کے لیے گھڑی میں سکینڈ کی سوئی کو حرکت کرتے ہوئے دیکھنے سے ہوتا ہے۔حالانکہ ایک سکینڈ بھی وقت کی بڑی مقدار ہے۔ اسی ایک سکینڈ میں روشنی اپنا سفر ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل طے کر لیتی ہے اور خدا کی خدائی میں بہت سی ایسی چیزیں بھی ہو سکتی ہیں جو روشنی سے بھی تیز رفتار ہوں اور انسان کے علم میں نہ آئے ہوں۔تاہم اگر وقت کے گزرنے کی رفتار وہی سمجھ لی جائے جو گھڑی میں سکینڈ کی سوئی چلنے سے نظر آتی ہے اور اس بات پر غور کیا جائے کہ ہم جو برا بھلا فعل کرتے ہیں اور جن کاموں میں مشغول رہتے ہیں سب کچھ اس محدود مدت عمر میں وقوع پذیر ہوتا ہے جو دنیا میں ہم کو کام کرنے کے لیے دی گئی ہے۔تو محسوس ہوتا ہے کہ ہمارا اصل سرمایہ تو یہی وقت ہے جو تیزی سے گزر رہا ہے۔اور ہم لا پرواہی سے ان کاموں میں مصروف ہیں جو ہمارے ذمے نہیں تھے۔ہم اپنے ذمے کا کام کرکے نفع حاصل کرنے کے بجائے بے معنی کاموں میں لگ کر خسارے کو گلے لگا رہے ہیں۔جبکہ اللہ تعالیٰ سورہ العصر میں دو ٹوک الفاظ میں فرماتے ہیں کہ


قسم ہے زمانے کی کہ انسان نقصان میں ہے مگر وہ لوگ نہیں جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے اور ایک دوسرے کو حق بات کی تاکید اور صبر کی تلقین کرتے رہے۔
آج ہم اپنی گریبان میں جھانک کر اگر دیکھ لیں تو صاف پتہ چل جائے گا کہ کتنے خسارے میں ہیں۔۔کیا ہم نے اس سورۃ کی غرض وغایت کو اچھی طرح سمجھ لیا ہے؟ کیا جس خسران سے رب کائنات نے ہمیں خبردار کیا ہے اس خسارے سے بچنے کی کوشش ہم کر رہے ہیں؟
ایمان کے ساتھ عمل صالح تو پھر بھی کر لیتے ہیں مگر کیا حق بات پر عمل خود بھی کرکے دوسروں کو اس کی تاکید کر رہے ہیں؟اور کیا حق گوئی پر مشکل وقت آنے پر صبر سے کام لیتے اور دوسروں کو اس کی تلقین کر رہیے ہیں؟اگر خدا ناخواستہ ہمارا جواب نہیں میں ہے تو یقیناً ہم خسارے میں ہیں اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم فرمائے اور ہمیں دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے اور خسران سے بچانے والی ان چاروں عوامل پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔


امام رازی رحمۃ اللہ علیہ نے کسی بزرگ کا قول نقل کیا ہے کہ میں نے سورۃ العصر کا مطلب ایک برف فروش سے سمجھا جو بازاروں میں آواز لگا رہا تھا کہ “رحم کرو اس شخص پر جس کا سرمایہ گھلا جا رہا ہے”اس کی یہ بات سن کر میں نے والعصر ان الانسان لفی خسرکا مطلب سمجھ گیا۔


عمر کی جو مدت انسان کو دی گئی ہے وہ برف کے گھلنے کی صورت گزر رہی ہے۔اس کو اگر ضائع کیا جائے تو یہی انسان کا خسارہ ہے۔
موت کا آنا یقینی ہے اور موت کا وقت غیر یقینی۔۔۔کسی کو نہیں معلوم کہ کونسی صبح آخری صبح ہے اور کونسی شام آخری شام۔۔انسان ہر صبح اس طرح گزارے کہ اگلی صبح شاید نہ آئے اور ہر شام اس طرح کہ اگلی شام شاید نہ آئے۔


اس لیے جو معاملات انسان کے ذمے ہیں جو اسے خسارے سے بچا سکتے ہیں یعنی (ایمان کے ساتھ عمل صالح اور حق بات یعنی اس کے پاس کوئی گواہی ہے تو اُسے صحیح استعمال کرے اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین کرے اور جو مشکل حالات یا کوئی غم اسے درپیش ہو تو خود بھی صبر کرے اور معاشرے کے دیگر افراد کو بھی اس کی تلقین کرے۔)


یا الٰہی !جو کام ہمارے ذمے ہیں انکو مقررہ وقت سے پہلے کرنے کی توفیق اور طاقت ہمیں عطا کر تاکہ جس وقت بگل بج جائے اور موت کا فرشتہ آکر ہم سے یہ کہے کہ “آخری سفر کا وقت آگیا تو ہمارے پاس ذاد راہ ہو آگے کی سفر کے لیے۔۔۔
وہ وقت کب آئے گا کسی کو نہیں معلوم نہ کل کا اعتبار ہے نہ پرسوں کا ،نہ صبح کا اعتبار ہے نہ شام کا۔۔بس جو گھڑی اس وقت ہاتھ میں ہے اس کا اعتبار ہے اور وہ ٹک ٹک ٹک ٹک ہر گزرتے لمحے سے خبردار کر رہی ہے۔

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
56702