Chitral Times

لاوارث ۔ گل عدن چترال

لاوارث ۔ گل عدن چترال

 ہماری ڈکشنری میں لفظ “لاوارث” کے معنی یتیم یعنی بے سہارا کے ہیں.مگر نجانے یہ وقت کی خوبصورتی ہے یا بدصورتی کہ یہ مٹھی سے پھسلتے ریت کی مانند گزرتا ہوا وقت میری زاتی ڈکشنری اور ہماری نصابی ڈکشنری کے مابین اختلافات بڑھائے جا رہا ہے.نجانے کیوں مجھے والدین سے محرومی میں اولاد کی بدبختی نظر نیہں آرہی لیکن وہ لوگ مجھے انتہائی بدبخت اور قابل رحم محسوس ہورہے ہیں جن کے اردگرد بظاہر سرپرستوں کا ہجوم ہےمگر وہ حقیقی راہنمائی سے نابلد  یعنی محروم لاوارثوں سے بدتر زندگی گزار رہے ہیں..

والدین کا وجود ہر فرد کے لئے تپتی دھوپ میں ٹھنڈی چھاوں کی مانند ہے.اور بحثیت ایک سرپرست کے ہر باپ ہا ماں اپنی اولاد کو روٹی کپڑا اور مکان کے علاوہ بہترین تربیت دینے کی بھی بھرپور کوشش کرتا ہے.لیکن اس سب کے باوجود اگر کوئی گمراہ کن راستے کا انتخاب کرلے تو آپ کے والدین اساتذہ یا دیگر سرپرت آپکو ہاتھ سے پکڑ کر زبردستی گمراہی سے ‘برائی سے یا ظلم سے روک نہیں سکتے .یہ روکنے والا سر پرست تو ہمارے اندر ہوتا ہے .ہمارے اندر کی وہ آواز جو ظلم ڈھانے سے پہلے ہمیں روکتا ہے اور ظلم کرنے کے بعد ہماری سرزنش کرتا ہے.چاہے یہ ظلم ہم اپنے نفس پر کریں یا دوسروں پر.ہمارے اندر کی یہ آواز دراصل “ضمیر” کہلاتی ہے.

سو میں اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ انسان کا اصل سرپرست اسکا روحانی سرپرست ہوتا ہے یعنی” اسکا ضمیر”  . سو میری نظر میں اگر آپکا ضمیر زندہ ہے لیکن باپ مر جائے تو بھی یقین مانیں اس اندھیر نگری میں آپ بے یار و مدد گار اور تنہا  ہوتے ہوئے بھی “لاوارث” نیہں ہیں.لیکن اگر بد قسمتی سے آپکا ضمیر مردہ ہے تو مان لیجئے ماں باپ بہن بھائی دوست احباب اور رشتوں کے ہجوم میں گھر کر بھی آپ مکمل طور پر لاوارث ہیں.اسلئے خدارا اپنی ضمیر کو آواز دیں اسے جگائیں اسے زندہ رکھیں اور خود کو “لاوارث” یعنی” قابل رحم” ہونے سے بچائیں.


Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
57643

داد بیدا د ۔ بلدیاتی ووٹ کا دوسرامرحلہ ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

داد بیدا د ۔ بلدیاتی ووٹ کا دوسرامرحلہ ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

صو با ئی الیکشن کمشنر نے خیبر پختونخوا کے 18اضلا ع کے لئے بلدیا تی ووٹ کا شیڈول جا ری کیا ہے کا غذات کی وصولی، کا غذات نا مز د گی، کا غذات کی جا نچ پڑ تال 4فروری سے 23فروری ہو گی 23فروری سے 25ما رچ تک انتخا بی مہم کے لئے وقت دیا گیا ہے پو لنگ 27مار چ کو ہو گی دوسرے مر حلے کے حتمی سر کاری نتا ئج آنے کے بعد نئے بلدیا تی نما ئیندوں کی حلف برداری ہو گی اور 2019ء میں تحلیل ہونے کے بعد 2022میں بلدیا تی ادارے دوبارہ فعال ہو جا ئینگے اس اثنا میں حکومت دفتری قواعد و ضوابط میں تر امیم کے ذریعے نئے بلدیا تی نظا م میں حا ئل قا نو نی رکا وٹوں کو دور کرنے پر کا م کرے گی.

خیبر پختونخوا کا نیا بلد یاتی نظا م ایک مثا لی نظا م ہے بلدیا تی انتخا بات 5سال بعد دوبارہ کر ائے گئے تو پنجا ب، سندھ اور بلو چستان بھی ہمارے صو بے کے نظام کو اپنے ہاں متعارف کر ائینگے صو بائی حکومت اس وقت رولز آف بزنس اور دفتری قواعد و ضوا بط میں جن ترامیم پر کا م کر رہی ہے ان کا تعلق ڈسٹرکٹ گور نمنٹ، ضلع کو نسل اور یو نین کونسلوں کو ختم کرنے کے بعد تینوں دفاتر کے اختیارات، مرا عات اور ان کی ذمہ داریوں کو تحصیل، ٹاون، نیبر ہُڈ کونسل اور ویلیج کونسل کو منتقل کرنے کے احکا مات سے ہے حکومت چا ہتی ہے کہ پر ا ونشیل فنا نس کمیشن ایوارڈ ڈسٹرکٹ کونسل اور ڈسٹرکٹ گو رنمنٹ کی جگہ تحصیل اور ٹا ون کونسلوں کو دی جا ئے پر نسپل اکا ونٹنگ افیسر اسسٹنٹ کمشنر کو لگا یا جا ئے.

یہ ایک انقلا بی قدم ہے اس کے لئے قا نون سازی کی ضرورت ہے اور حکومت کے پا س قانون سا زی کے لئے صو با ئی اسمبلی میں مطلوبہ اکثریت بھی ہے فیلڈ میں کا م کرنے والے حکام اور سیا سی سطح پر عوامی خد مات کے لئے سر توڑ کو ششیں کرنے والے کار کن اس بات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ صو بائی حکومت کو نیے بلدیا تی نظام میں گیا رہ ضلعی دفاتر کو تحصیل کی سطح پر لا نے کی ضرورت ہو گی ڈسٹرکٹ کو نسل اور ڈسٹرکٹ گور نمنٹ گیا رہ محکموں کے ساتھ رابطہ کاری سے عوامی مسا ئل حل کرتی تھی اب تحصیل یا ٹا ون کونسل کا سر براہ عوامی مسائل کے حل کے لئے کس کے ساتھ را بطہ رکھے گا میٹنگ میں کس کو بلا ئے گا لا ئن ڈیپارٹمنٹ کی غیر مو جو د گی میں عوامی خد مت کے لئے کس طرح کی را بطہ کاری ہو گی؟

صو بائی حکومت اس حوالے سے رولز آف بزنس میں ترامیم کر کے نئے نظام کو قا بل عمل صورت میں سامنے لائیگی اسی طرح کا مسئلہ یو نین کونسل کے حوالے سے بھی درپیش ہے اب تک پیدا ئش، اموات، نکا ح، طلا ق وغیرہ معا ملا ت میں سول رجسٹریشن کا اختیا ر یو نین کونسل کے پا س تھا جو 15سے 20ہزار تک کی آبا دی کا دفتر تھا پہا ڑی علا قوں میں یو نین کونسل کے ایک سرے سے دوسرے، سرے تک 25کلو میٹر کا فا صلہ ہو تا ہے نئے بلدیا تی نظا م میں حکومت چاہتی ہے کہ سول رجسٹریشن کے اختیارات ویلج کو نسل اور نیبر ہُڈ کونسل کو دے دیئے جائیں جو 3ہزار سے لیکر 5ہزار تک کی آبادی پر مشتمل ہو تی ہے اس کی علا قائی حدود 10کلو میٹر کے اندر ہو تے ہیں سول رجسٹریشن کے قانون میں تر میم کر کے اس کا اختیار نیبر ہُڈ اور ویلیج کونسلوں کو دیدیا جا ئے گا اُمید ہے اپریل 2022میں نئے بلدیا تی ادارے فعال ہونے سے پہلے رولز آف بزنس میں ترا میم کے ذریعے اختیارات کی تقسیم کا عمل بھی مکمل ہو جا ئیگا.

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57641

پس وپیش ۔ دیرینہ کارکن ۔ اے.ایم.خان

وہ دن مجھے یاد نہیں جب میں اس پارٹی کے ساتھ منسلک ہوا اور اب تک اس کا ایک ادنیٰ کارکن ہوں، کیونکہ پارٹی سے میرا ربط گھر سے ہی شروع ہوئی جب والد صاحب گاوں اور باہر سےکوئی  آجاتا تو سیاسی بات ہوتے تھے وہاں سے میری سیاسی تعلیم  اور پارٹی سے تعلق شروع ہوئی ۔ میرا پارٹی اور سیاست سے لگاو کا آغاز بھی اسوقت ہوا ۔ اس پارٹی سے منسلک ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ میں بس اسے ووٹ دیتا ہوں بلکہ میں نے اُس کے لئے لوگوں سے بات کی ہے، الیکشن کے وقت  پارٹی کے راہنما کے ساتھ عوامی مہم میں جا چُکا ہوں۔ پارٹی کے اجلاس جب بھی، جہاں  اور جس معاملے میں ہوئے وہاں شرکت کی ہے۔ گزشتہ الیکشن کےدوراں جو وقت میں نے جلسہ جلوس اور سوشل میڈیا میں لوگوں کے ساتھ الفاظ کی جنگ کی ہے جس کا اندازہ آپ کر بھی نہیں سکتے۔

یہ تو مجھے نہیں معلوم کہ آپ اپنے جماعت کے لئے کتنا کام کرچُکے ہیں ، کر رہے ہیں، اور کسطرح کام کر چُکے ہیں۔ لیکن یہ معلوم ہے کہ آپ پارٹی کا دیرینہ کارکن ہیں، اور پارٹی کے لئے آپ کے خدمات ہیں۔اور  آپ جس جانور کے نام اور علامت سے منسلک ہیں یہ آپ کا ذاتی معاملہ ہے۔

میں صرف آپ سے یہ پوچھ رہا تھا کہ چند دن پہلے آپ چند دیرینہ کارکن،  جب میں دوکان سے واپس ہورہا تھا، تو آپ لوگ آپس میں غٹ پٹ ہو رہےتھے اور زور زور سے بات کر رہے تھے ۔ آخر بات کیا تھی۔

یار،شاید  آپ بھی کسی نہ کسی پارٹی ، لیڈر اور سیاسی سوچ کو پسند کرتے ہیں ۔آپ کو معلوم ہے ہماری حالت اس سے بھی سوا ہے۔ ہم تو کارکن ہیں۔ پارٹی کے اندر ہمارے ذاتی اختلافات اور مطالبات تو ہوتے ہیں لیکن جماعت کے وسیع تر مفاد میں ہم یہ پس پشت ڈالتے ہیں اور پارٹی میں اتفاق اور اتحاد کے لئے یہ ہماری قربانی ہے اور کوشش ہے۔ اُس روز بھی ہم اپنے ذاتی مطالبات اور پارٹی میں اختلافات جو سامنے آ چُکے تھے اس پر بات کررہے تھے۔

دراصل ہم پارٹی کے دفتر سے بحث و تکرار کے بعد  باہر وہاں روڈ پر آئے تھے کیونکہ دفتر میں اُس بات پر ہمارے آپس میں جب اختلافات شدید ہوگئے۔  اور ہم باہر وہاں اس موضوع پر آپس میں بات کررہے تھے جسمیں آپ کو غٹ پٹ نظر آگیا۔ آپ کو معلوم ہے اب الیکشن قریب نہیں بلکہ سر پر ہیں، اور پارٹی لیول پر الیکشن کی تیاری زور و شور پر ہیں۔ اور یہ بھی زیر بحث ہے کہ کون کون پارٹی ٹکٹ میں الیکشن لڑیں گے اور خاص کر یہ بات سنجیدہ حد تک پہنچ چُکی ہے کہ کسے ٹکٹ دیا جائے۔

اچھا، میں اندازہ کر سکتا ہے  یہ تو تہ کی بات ہے جس پر اب تو بات ہونے کا وقت ہے۔ مجھے تو اتنا معلوم ہے جو میں بھی یہ سیاسی گرما گرمی میڈیا کی حد تک دیکھ رہا ہوں ۔

 ایک خبر سامنے سے گزری جسمیں ایک جماعت کے راہنما الیکشن کمیشن کے سامنے الیکشن کو موخر کرنے کا مطالبہ بھی کر چُکا ہے۔

آپ کے خیال میں الیکشن مو خر ہونا چاہیے۔ 

بالکل نہیں ، یہ سیاسی جماعت  درحقیقت  الیکشن سے پہلے ہی خوف محسوس کی ہے؟

اچھا ، یہ حسب اختلاف کا ، اور آپ جیسے سیاسی کارکن کا سیاسی اختلاف کی بات ہوسکتی ہے۔ میرے خیال میں  ساحل کی وہ بات مناسب تھی  جب اُس نے لکھا کہ” اگر سارے سیاسی جماعت کے راہنما مل کر یہ مطالبہ کرتے” تو یہ ایک قوی مطالبہ ہوسکتا تھا۔

سلطان صاحب نے آج اس سے پہلے موسم سرما کے دوران ماہ نومبر، دسمبر، فروری، مارچ اور اکتوبر کے مہینے میں جو الیکشن ہوچُکے ہیں اُن کی پوری  تاریخ لکھ دی ہے اس سوچ سے یہ کوئی انہونی بات نہیں کہ ستائس مارچ کو اگر لوکل گورنمنٹ کےالیکشن ہو جائیں۔

خیر بات لمبی ہوگئی آپ یہ بتائیں کہ اب آپ لوگوں کا اصل مطالبہ کیا ہے۔

میرے دوست،  آپ کو معلوم بھی ہے اور میں نے آپ کو بتایا بھی کہ مجھے معلوم نہیں کہ میں کس عمر سے اس پارٹی کے ساتھ منسلک ہوں اور اب ایک بندہ الیکشن کے قریب ہوتے ہی حالات کو دیکھ کر ہمارے پارٹی میں شمولیت اختیار کی ہے۔ یہ صرف میری پارٹی میں نہیں بلکہ دوسرے جماعتوں میں بھی ہوتا ہے۔  صوبے اور ملکی سطح پر لوگ پارٹی کے عہدہ دار اسے سراہتے ہیں ۔ضلعی سطح پر لیڈرشپ اس پر خوش ہے اور نہیں بھی، اور ہم دیرینہ کارکن بھی پارٹی میں نئے آنے والوں کو پسند نہیں کرتے صرف اس لئے کہ اگر الیکشن کے وقت لوگ پارٹی میں آکر الیکشن لڑتے رہیں تو ہم کب الیکشن لڑیں گے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم کارکن کارکن ہی رہ جاتے ہیں ، وقت کے ساتھ بااثر لوگ پارٹی میں آجاتے ہیں اور الیکشن ، چاہے قومی یا لوکل گورنمنٹ کے ہیں، اس میں پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑتے ہیں اور جب چاہیں آتے اور واپس چلے جاتے ہیں۔

اچھا، مجھے اندازہ تھا کہ ایسی بات ہوسکتی تھی لیکن آپ نے اس کی توثیق کر دی۔ لیکن یہ تو اچھی بات نہیں کہ لوگ آپ کے پارٹی میں شامل ہو رہے ہیں جس کے اپنے ووٹ بھی ہوسکتے ہیں اور الیکشن کے دوران پارٹی پر بوجھ ہونے کے بجائے پارٹی کا بوجھ بھی ہلکا کرسکتے ہیں۔

مجھے آپ کی بات سمجھ آگئ جس چیز کی طرف آپ اشارہ کر رہے ہیں جو ایک کارکن میرے پاس نہیں ہے۔

تو پھر یہاں ایک بات طے کرنا پڑے گا کہ جس کے پاس وہ ہے اُسے ٹکٹ دیا جائے وہ لوگ جب بھی آئیں اور جہاں سے بھی آئیں ،لیکن کارکن کی بات کو ختم کرنا ہوگا۔

آپ قدیم زمانے کی بات اور سوچ میں ہیں جو آپ کے والد بحیثیت ایک پارٹی کارکن کرتا تھا جو آپ اپنے بچپن میں سُنتے آرہے تھے۔آپ کو معلوم ہے موجودہ سیاست کی ڈکشنری میں   کارکن کا اصطلاح جو ہے اس کی تشریح تبدیل  ہوگئی ہے۔آج کا  “کارکن  وہ فرد  ہے جو پارٹی کے ساتھ نہ صرف منسلک رہے گا بلکہ الیکشن کے دوران خصوصاً پارٹی کے لئے دن رات ایک کرکے کام کریگا لیکن وقت آنے پر اگر وہ آجائیں جس کے پاس وہ ہو تو اُن کو الیکشن لڑنے کا موقع نہیں بھی دیا جاسکتا ہے کیونکہ کارکن پارٹی کا رکن ہونے پر فخر کرتا ہے اور یہ کارکن ہونے کے لئے بنیادی شرط ہے”۔

اچھا ،تو بات یہ ہے۔

جی ہاں۔

تو، اس تشریح کے مطابق بحیثیت کارکن ہم  پارٹی کا اصل اثاثہ ہیں  اور ہمیں  ہر وقت اور حالت میں پارٹی کے ساتھ کھڑا ہونا چا ہیے۔ ہمیں کارکن ہونے پر فخر کرنا اور ہونا  چاہیے، اور ساتھ جماعتی  رُکنیت بھی رہے۔

اب تو الیکشن سر پر ہیں اس بار میں بحیثیت ایک دیرینہ کارکن اپنے پارٹی سے الیکشن لڑنا چاہتا تھا اب کیا کروں۔ آپ مجھے مشورہ دے دیں اس حالت میں میں کیا کرسکتا ہوں۔

عملی سیاست میں غیر سیاسی ہونے کی وجہ سے میں آپ کو کیا مشورہ دے سکتا ہوں لیکن سیاسیات پڑھا ہے اسلئیے میرا ایک مشورہ ہے جو آپ کرسکیں۔

جلدی بتائیں وہ کیا ہے۔

جلدی بتانے سے وہ جلدی  ہو نہیں سکتا ۔ اسمیں وقت لگے گا۔

اچھا، پھر بھی بتائیں بحیثیت پارٹی کا ایک دیرینہ کارکن میں اپنے پارٹی سے الیکشن لڑنا چاہتا ہوں اور  الیکشن سر پر ہیں اب مجھے کیا کرنا ہوگا۔

مشورہ یہ ہے جسطرح آپ کو بتایا اسمیں وقت لگ سکتا ہے، وہ یہ کہ  آپ کوشش کرکے پہلے کارکن کی جو تشریح آچُکی ہے اس کو تبدیل کر دیں،  تو آپ الیکشن لڑنے کا اہل ،  اور اپنا حق منوا سکتے ہیں۔  

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57639

میں بھی کبھو کسو کا سرِ پر غرور تھا ۔ تحریر: شکیل انجم ڈِرو

میں بھی کبھو کسو کا سرِ پر غرور تھا ۔ تحریر: شکیل انجم ڈِرو

یہ قبر میں میری پہلی رات تھی۔ ایک پرسکون نیند سے اس وقت بیدار ہوا جب برابر والے قبر سے کراہنے کی آواز آئی۔ مرنے والا کوئی بیوروکریٹ تھا۔ بار بار انگلی سے کچھ دبانا چاہ رہا تھا لیکن اُس کا جسم اُس کے اختیار میں نہیں تھا۔ اس کم مائگی کی توجیہہ پوچھنے پر پہلے تو حقارت سے میری طرف دیکھا (جس طرح عام طور پر دنیا میں اپنے دفتر میں آنے والے سائیلین کو دیکھتے ہیں) پھر بادلِ نخواستہ گویا ہوے اور کہنے لگے ” پتا نہیں کمبخت چپڑاسی کہاں مر گیا ہے، کہیں نظر ہی نہیں آرہا ہے، گھنٹی بجانے کی کوشش کررہا ہوں لیکن یہاں نہ کویٔ گھنٹی ہے نہ ہی کویٔ چپڑاسی کہنے لگا، عجیب طاقت کے نشے سے چور تھا اُس دنیا میں۔ ایک حکم پر بیک وقت کئی ملازم ہاتھ باندھ کر سامنے کھڑے ہوتے تھے اوراحکامات صادر کرنے کےلیے میرے اشارے اور کنائے کافی ہوتے تھے ، کسی سائل کی التجا کی شنوائی خلاف شان امر تھا، “صاحب میٹنگ میں ہے” کا بے معنی اور بھونڈا جملہ ،پرسنل سیکرٹری کو ازبر تھا ۔ صاحب کے گمان میں مرنے کی بیماری صرف غریبوں کو ہی لاحق ہوتی تھی جب میں چہل قدمی کرتے ہوۓ کچھ آگے نکلا تو دیکھا کہ ایک سیاستدان پریشان حال کھڑا ہے۔ شاید چند دن قبل ہی یہاں تشریف لائے تھے اس لیٔے اپنے واسکٹ کو ڈھونڈ رہا تھا۔ میرے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ پتہ نہیں یہ کیسا ویرانہ ہے، نہ کوئی زندہ باد کا نعرہ سنائی دے رہا ہے اور نہ ہی کوئی ہار پہنانے آیا ہے۔ اُدھر کیا مزے تھے۔ہمیشہ لوگوں کا ایک جمِ غفیر ہوتا تھا۔ بِچارے لوگ جھوٹی تسلیوں سے خوش ہو کر دعائیں دے کر جاتے تھے اور پھر الیکشن جیتنے کے بعد اقتدار کا ایسا نشہ چھا جاتا کہ روڈ پر چلنے والے ووٹرز چیونٹیوں سے بھی حقیر ںظر آتے۔


میں اِن لوگوں کی حالتِ زار دیکھ کر پریشانی کے عالم میں آگے بڑھا تو دیکھا کہ ایک جج صاحب اپنا احتجاج ریکارڈ کروانے چا رہے تھے۔ کہہ رہے تھے کہ کیسے وہ اپنی عدالت میں جاہ و حشمت سے براجماں ہوا کرتے تھے ۔ مجال تھی کسی کی کہ کوئی اُس کے سامنے زور سے بات کرنے کی جرات کرے۔ جس کو چاہتے گنہگار ٹھراتے اور جِسے چاہتے عزت دار۔ اُن کے قلم کی ایک جنبش سے کوئی عمر بھر کا قیدی بنتا تو کوئی آزاد پنچھی۔ صاحب چیخ چیخ کرفرشتوں سے کہہ رہے تھے کہ وہ ایک جج ہیں انہیں کیسے کٹہرے میں کھڑا کیا جا سکتا ہے، لیکن افسوس، اِس دفع اُس کی کوئی شنوائی نہی ہو رہی تھی۔ اب کے بار عدالت اُس کی نہیں “مںصفِ عالیٰ” کی تھی اور دو فرشتے اپنے اپنے دلائل تمام ثبوتوں کے ساتھ دے رہے تھے اوریہ تمام ثبوت (صاحب کے اعمال) فلم کی شکل میں دیکھاۓ جا رہے تھے۔ یہاں نہ ثبوتوں کو مرضی سے تبدیل کیے جانے کا کوئی سلسلہ تھا اور نہ ہی مرضی کے جھوٹے گواہ پیش کیے جا سکتے تھے۔ عجیب عالم تھا، بس صرف انصاف کی بات ہورہی تھی۔


گھبرا کےمیں نے جیب سے موبائیل نکالنے کی کوشش کی تاکہ کسی دوست احباب کو فون کر سکوں، پھرخیال آیا کہ میں تو مر چکا ہوں اوراِس دنیا میں کہاں جیب اور کہاں موبائل؟ بس سات گز کا کفن ہے، جِس میں لپیٹا گیا ہوں۔ کچھ فاصلے پر دیکھا تو ایک ڈاکٹر صاحب غالباً حال ہی میں کسی سرکاری ہسپتال میں جعلی دوا کھانے سے مرگئے تھے اور ہاتھ جوڑ کر فریاد کر رہے تھے کہ اُنہیں کہیں سےاصلی انجکشن لاکر دیا جاۓ تو شاید کچھ افاقہ ہو۔ کہہ رہے تھے کہ کاش ہسپتال کی ساری دوائیاں اپنے کلینک پر منتقل نہ کرتا اور مریضوں کو بے جا دوائیاں لکھ کر نہ دیتا تو جعلی دوائی اُس کے موت کا سبب نہ بنتیں ۔


کچھ اور قدم آگے بڑھانے پر دیکھا کہ ایک پٹواری صاحب ہاتھ میں جریِپ (پٹواریوں کا فیتہ) لے کر کچھ تولنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پوچھنےپرمعلوم ہوا کہ بندہ عجیب سی مشکل میں ہے، قبر کی سات فٹ کی جگہ کم پڑ رہی ہے اس لئے آس پاس سے کچھ اِضافی جگہ اپنے نام انتقال کرنا چاہتا ہے ، لیکن مجال ہے کوئی سنے۔ یہاں تو اُس کی اپنی قبر کا انتقال ہی مشکل تھا ۔ کہنے لگے، اُس دنیا میں تومیری بادشاہت تھی، کسی غریب، بیوہ، کمزور اور مفلس کی زمین کسی دوسرے کے نام کرنا میرے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ کام نہ کرنے کی تنخواہ لیتا تھا اور کام کرنے کی رشوت۔ کاش وہاں ناجائز قبضے نہ کرواتا تو آج قبر کی زمین کشادہ ملتی۔ اسی مٹر گشت میں ایک کوتوالی (تھانیدار) سے ملاقات ہوئی۔ مجّرم کو بےقصور اور مجبور سے زبردستی اقرارِ جرم کروانا معمول کی بات تھی ۔ اسی زعم میں پہلے تو دھمکی دے رہا تھا کہ اس کے ساتھ نہ چیھڑا جائے کیونکہ اُس کے مراسم بڑے بڑوں سے ہیں ، ۔ لیکن جب بات بنتے ںظر نہ آئی تو چلّاتے ہوئے کہنے لگا کہ خدا کے لئے مجھے چھوڑ دو میں بے گناہ ہوں، لیکن عالمِ انصاف میں کس کی سفارش کام آتی ہے۔ یہی کچھ فاصلے پر ایک ٹیچر ملا جو اِن سب کے مقابلے میں کچھ پرسکون تھا۔ علم کی شمّع جواُس نے دنیا میں پھیلائی تھی اب چراغاں بن کے اُس کو روشنی دے رہی تھی، البتہ کچھ مضطرب وہ بھی تھا۔ کہہ رہا تھا، کاش میں وقت پر کلاس میں حاضر ہوتا اور بچوں کو ٹیوشن پر بلانے کے بجائے سکول میں ہی دل سے پڑھاتا تو یہ جو تھوڑا بہت اندھیرا ہے وہ بھی روشن ہوجاتا۔


قبر میں میری اگلی ملاقات ایک نوجوان امیر کاروباری شخص سے ہوئی، جسے یہ یقین ہی نہ تھا کہ وہ مر گیا ہے۔ کہہ رہا تھا، ابھی تو میں نے دولت اکٹّھا کرنا شروع کیا تھا۔ میں کیسے مر سکتا ہوں۔ شائد فرشتوں سے کوئی بھول ہوئی ہو گی۔ لیکن،اللّہ کے برگزیدہ فرشتے کہاں غلطی کرتے ہیں۔ یہ تو انسانی صفّت ہے۔ جب اُس امیر نوجوان کو عدالتِ عظمیٰ میں لے جا یا جانے لگا تو، روتے ہوئے اپنی ماں کو آواز دینے لگا۔ لیکن کہاں سے وہ اپنی ماں کی آواز سنتا، اُسے تو وہ “اولڈ ہومز” چھوڑ چکا تھا، کیوں کہ وہ بوڑھی ہو چکی تھی، آئے روز بیمار پڑ جاتی تھی اور ماں کوڈاکٹر کے پاس لے جانے کے لئے وقت نہیں ملتا تھا ،چھٹی کرنے سے کاروبار کا نقصان ہوتا۔ خود کو کوس رہا تھا کہ کاش کچھ پل ماں باپ کے ساتھ بیتائے ہوتے، تو آج اُن کی دعائیں شاید بخشش کے کام آتیں ، لیکن اب پچھتانے کے لئے بہت دیر ہو چکی تھی۔


بہت سارے کرداروں کواِس حال میں دیکھ کر میرا بدن لرزنے لگا، کپکپکی طاری ہونے لگی اور ایک بے اختیار چیخ منہ سے نکلی۔ چیخ کی آواز سن کرامّی دوڑتے ہوئے کمرے میں آئی اور وہی ممتا کی شفقت سے بھرپور ہاتھ سر پر پھیرتے ہوئےآواز دینے لگی۔ امّی کی جادوئی آواز جب میرے کانوں میں پڑی تو لگا کہ مجھے پر لگے ہیں اور میں ہواؤں میں اڑنے لگا ہوں۔ والدہ کے وجود کو قریب پا کر عجب سا اطمینان چہرے پراتر آیا، آنکھ کھلی اور سامنے امّاں کو دیکھ کر پرسکون مُسکراہٹ ہونٹوں پر آئی اور اللّہ کا شکر ادا کیا۔ پھر بیتے ہوئے لمحوں پر غور کیا تو اندازہ ہوا کہ ہم انسان جب تک زندہ ہیں، ہمیں لگتا ہے کہ مرنا کسی اور کےلیے ہے اور ہم ہمیشہ زندہ رہنے کے لیے آئے ہیں۔ ہم بزبان شاعر بھول جاتے ہیں کہ “خاکِ میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں”دعا ہے کہ خداوندِ عالمین، ہم سب کوروزِ محشر کو ذہن میے رکتھے ہوئے اپنی زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین)


کل پاؤں ایک کاسئہ سر پر جو آگیا
یکسروہ اِستِخوان شکستوں سے چور تھا
کہنے لگا کہ دیکھ کے چل راہِ بے خبر
میں بھی کبھو کسو کا سرِ پر غرور تھا
(میر تقی میر)

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57622

نئی تحقیق کے ہوشرباء انکشافات ۔ محمد شریف شکیب

نئی تحقیق کے ہوشرباء انکشافات ۔ محمد شریف شکیب

نئی تحقیق سے یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ تنہا زندگی گزارنا مردوں کی صحت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ ڈنمارک کی کوپن ہیگن یونیورسٹی کی اس تحقیق میں 4835 افراد کے خون کے نمونوں کے ذریعے جسم میں ورم کی مجموعی سطح کی جانچ پڑتال کی گئی۔ خون کے ٹیسٹوں میں ایسے پروٹین کو دیکھا جاتا ہے جو جسم میں ورم کی سطح کا عندیہ دیتے ہیں۔ تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ شادی شدہ مردوں کے مقابلے میں تنہا یا شریک حیات سے الگ ہونے والے مردوں میں ورم کی سطح نمایاں ہوتی ہے، مگر خواتین میں ایسا اثر دیکھنے میں نہیں آیا۔تحقیقی رپورٹ میں بتایاگیا ہے کہ ورم کی زیادتی امراض قلب کا باعث بننے والا اہم عنصر ہے۔

حیرت انگیز طور پر تنہا زندگی گزارنے یا شادی ٹوٹنے والی خواتین کو جسمانی طور پر نقصان پہنچنے کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ ماہرین کا کہنا تھا کہ جب ورم کے خطرات کا علم ہوگا تب ہی لوگ صحت مند طرز زندگی اختیار کرسکتے ہیں۔ قبل ازیں برطانیہ کے آسٹن میڈیکل اسکول کی تحقیق میں بتایا گیا تھاکہ شریک حیات کا ساتھ ہائی بلڈ پریشر، ہائی کولیسٹرول اور ذیابیطس ٹائپ ٹو سے موت کا خطرہ کم کردیتا ہے۔جس کی بنیادی وجہ شوہر یا بیوی کی جانب سے اپنے شریک حیات کی نگہداشت ہے جو ان جان لیوا امراض کا اثر کم کردیتا ہے۔ شریک حیات ہی اپنے ساتھی کی ادویات،غذا اور مناسب جسمانی سرگرمیوں کا خیال رکھتی ہے تحقیق سے ثابت ہوا کہ شادی شدہ افراد میں ہائی کولیسٹرول کے عارضے سے موت کا خطرہ 16فیصد کم ہوجاتا ہے۔ بلڈپریشر سے موت کا خطرہ 14 فیصد اور ذیابیطس کا خطرہ 10 فیصد تک کم ہوجاتا ہے۔

معاشیات کا ایک مسلمہ اصول یہ ہے کہ ”اگر دیگر عوامل جوں کے توں رہیں تو“ معاشیات کا فارمولہ کارگر ہوتا ہے۔ازدواجی زندگی میں بھی یہی اصول کارفرما ہوتا ہے۔اگر میاں بیوی کے درمیان خارجی اور داخلی امور پر مکمل ہم آہنگی ہو۔تب ہی جان لیوا امراض سے موت کا خطرہ کم ہوسکتا ہے۔ دیگر عوامل جوں کے توں نہ رہنے کی صورت میں موت کے خطرات پہلے سے بھی بڑھنے کا اندیشہ ہوتا ہے اور کچھ لوگ اسی اندیشے کی بیماری میں مبتلا ہوکر عمر بھر تنہا رہتے ہیں۔ثابت ہوگیا کہ شادی کرنا مذہبی فرض اور سماجی ضرورت ہی نہیں۔بہت سی اخلاقی، معاشرتی، معاشی اور خاندانی خرابیوں سے نجات اور مہلک امراض سے بچاؤکا ذریعہ بھی ہے۔کہاجاتا ہے کہ بی بی حوا کو اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کی پسلیوں سے پیدا کیا۔ انسان کی پسلیاں چونکہ ساخت کے لحاظ سے ٹیڑھی ہوتی ہیں اس لئے عورت بھی پیدائشی طور پر ٹیڑھی فطرت کی ہوتی ہے۔

دانش مند مرد اس کے ٹیڑھے پن سے ہی فائدہ اٹھاتے ہیں اسے اپنی پسند کے سانچے میں ڈھالنے کے لئے بزور طاقت سیدھی کرنے کی کوشش کی گئی تو اس کے ٹوٹ جانے کے ننانوے فیصد خطرات ہیں۔ازدواجی زندگی کے حامیوں نے اپنے موقف کے حق میں کئی مقولے وضع کئے ہیں کہاجاتا ہے کہ میاں بیوی ایک گاڑی کے دو پہیے ہیں ناقدین کا کہنا ہے کہ گاڑی کے تو چار پہیے ہوتے ہیں گویا مرد کو یہ حق حاصل ہے کہ ضرورت پڑنے پر مزید دو پہیوں کا بندوبست کرسکتا ہے۔ ان کا یہ بھی موقف ہے کہ دین اسلام نے بھی مردوں کو بہ یک وقت چار شادیوں کی اجازت دی ہے۔ ضروری نہیں کہ اضافی بیویاں انسانی جسم میں ورم کی شدت کم کرنے میں ہی معاون ثابت ہوں گی۔ اکثر مواقع پر دیکھا گیا ہے کہ زیادہ بیویوں کے شوہر جلد انہیں داغ مفارقت دے جاتے ہیں۔سائنسی تحقیق سے سرمنہ انحراف تو نہیں کیاجاسکتا لیکن بندے کو اپنے مزاج، معروضی حالات، معاشی حالت اور سائیڈ ایفکیٹ کے خطرات کو پیش نظر رکھ کر دوسری، تیسری، یا چوتھی شادی کا فیصلہ کرنا چاہئے۔ ایک بلا کے ساتھ بند ہ لڑجھگڑ کر بھی گذارہ کرسکتا ہے مگر بہت سی بلاؤں کا مقابلہ کرنا آسان نہیں ہوتا۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57612

سوات، دیر، چترال موٹر وے ۔ تحریر: ظہیر الدین منیجر

کسی بھی ملک یاعلاقے کی ترقی کے لیے کشادہ اور صاف سڑکیں ہی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ جہاں بھی ذرائع مواصلات محفوظ اور قابل اعتماد ہونگے اُسی ملک یا علاقے کو معاشی استحکام حاصل ہوگا۔ زون ۳ کے عوام صدیوں سے سفری مشکلات سے دوچار تھے۔ عوام فرنگی دور کے دشوار گزار پہاڑی پہاڑی راستوں پر سفر کرنے پر مجبور تھے۔ یہ سڑک سفر کے لیے انتہائی خطرناک تھا۔دشوار گزار اور تنگ موڑیں خطرات سے خالی نہیں تھے۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے سوات، دیر، چترال کے عوام کے اس سفری مشکلات کا احساس کرتے ہوئے سوات، دیر،چترال موٹر وے پر کام کا آغاز کیا۔

سوات، دیر، چترال موٹر وے کی تعمیر پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کا احسن اقدام اور علاقوں کی پائیدار ترقی کی اصل بنیاد ہے۔ اس موٹروے کی تعمیر سے سوات، دیر اور چترال کے عوام کو سفری سہولتیں، روزگار کے مواقع اور ترقی کی راہیں میسر آسکتی ہیں۔ دیر اور چترال کے عوام تحریک انصاف کی حکومت سے توقع رکھتے ہیں کہ چکدرہ ٹو چترال موٹروے پر جلد از جلد کام شروع کرائینگے۔ چکدرہ ٹو چترال موٹروے ملک کی ترقی کے سنگ میل ثابت ہوگی۔

چترال، دیر کے عوام وفاقی وزیر مواصلات جناب مراد سعید صاحب سے بھی چکدرہ ٹو چترال موٹروے پر کام جلد از جلد شروع کرانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ سوات، دیر، چترال کے عوام سابق وزیر اعلیٰ صاحب کے پی کے جناب پرویز خٹک صاحب کے بھی بہت مشکور ہیں کہ انھوں نے اپنے دور اقتدار میں سوات، دیر، چترال موٹروے پر کام کا آغاز کیا۔چکدرہ تک موٹروے کا کام مکمل کیا گیا۔ اب بھی چترال، دیر کے عوام وزیر دفاع صاحب سے توقع رکھتے ہیں کہ محترم ڈیفنس منسٹر صاحب دیر، چترال موٹروے پر کام شروع کرانے کے لیے بھرپور کردار ادا کریں گے۔

چترال،دیر کے عوام وزیر اعلیٰ صاحب کے پی کے جناب محمود خان صاحب سے بھی پرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ چکدرہ ٹو چترال موٹروے پر جلد از جلد کام کا آغاز کیا جائے چترال، دیر کے عوام کو سفری مشکلات سے نجات مل سکے۔ چترال، دیر کے عوام وزیر آعظم پاکستان جناب عمران خان صاحب توجہ بھی چکدرہ ٹو چترال موٹروے کی جانب مبذول کرانا چاہتے ہیں کہ محترم وزیر آعظم صاحب چکدرہ ٹو چترال موٹروے پر کام جلد از جلد شروع کرانے کے لیے متعلقہ اداروں کو ہدایات جاری کرائیں۔ اور دیر چترال کا دیرینہ مسلہ حل کیا جائے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57610

چترال میں اسپیشل افراد کی حالت زار – محکم الدین ایونی

چترال میں اسپیشل افراد کی حالت زار – محکم الدین ایونی

چترال سپیشل افراد کیلئے سب سےمشکل جگہ ہے۔ جہاں لوگ تعاون کیلئے تیار ہیں اور نہ سرکاری ادارے سپشل افراد کے مسائل پر توجہہ دیتےہیں ۔ یوں چترال کے کم و بیش دس ہزار سپیشل افراد لوگوں اور حکومت کی بے حسی کا شکار ہیں۔ یہ خیالات ہیں چترال کے سپیشل فرد ثناء اللہ کےجو چترال کے ہزاروں اسپشل افراد کے مسائل کا درد لئے عزم و ہمت کے پہاڑ کی طرح میدان عمل میں ہیں ۔ اور ان کو یقین ہے۔کہ وہ سپشل افراد کے مسائل کم کرنے میں ضرور کامیاب ہوں گے ۔ ثناء اللہ نے 2014 میں اسپشل افراد کو یکجا کرنے اور اس پلیٹ فارم سے مسائل حکومت تک پہنچانے کیلئے چترال سپیشل پیپل آرگنائزیشن کی بنیاد رکھی ۔ اور خود بطور صدر خدمات سر انجام دے رہے ہیں ۔ ان کے مطابق چترال میں 3800 سپشل افراد ان کے ادارے کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں ۔ جبکہ اپر اور لوئر چترال میں سپشل افراد کی مجموعی تعداد دس ہزار سے کہیں زیادہ ہے ۔ لیکن معذوری ، دشوار گزار راستوں کی وجہ سے روابط میں مشکلات سپشل افراد کی بڑی آبادی کو یکجا کرنے کی راہ میں رکاوٹ ہیں ۔


ثناء اللہ نے گذشتہ روز میڈیا سے ایک ملاقات میں اپنی آہ و زاری بیان کرتے ہوئے حکومتی بے حسی پر شدید تنقید اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ۔کہ کسی بھی ادارے میں اسپشل افراد کی مجبوریوں کو پیش نظر نہیں رکھا جاتا ۔ سکول ہو کہ ہسپتال یا دیگر ادارے ان تک سپشل افراد کی رسائی انتہائی مشکل ہے ۔ یوں سپیشل افراد تعلیم کے حصول اور صحت کی سہولتوں سے محروم رہتے ہیں ۔ ہونا تو یہ چاہیے ۔ کہ سکولوں ، ہسپتالوں کی تعمیر کے وقت ہی سپیشل افراد کی آسان رسائی کو پیش نظر رکھا جائے ۔ ہر ادارے میں اسپیشل افراد کیلئے واش رومز کی سہولت موجود ہو ۔ یا پہلے سے موجود عمارتوں میں کچھ ترمیم کرکے اسپیشل افراد کے وہیل چیئر کے ذریعے پہنچنے کو ممکن بنایا جائے۔ لیکن یہاں تو اسپشل افراد کو انسان ہی نہیں سمجھا جاتا ۔ ان کے لئے سہولت پیدا کرنا تو بہت دور کی بات ہے ۔ انہوں نے کہا۔کہ اسپشل افراد کے مسائل حل کرنے کیلئے وہ لوگ بھی قدم نہیں اٹھاتے ۔ جن کے اپنے گھروں میں بہن ، بیٹا ، بیٹی اور بھائی کی صورت میں اسپشل افراد موجود ہیں ۔ کی موجودگی کو ظاہر کرنا عیب اور اپنے ساتھ توہین سمجھتے ہیں ۔ حالانکہ یہ ایسے صاحب حیثیت سیاسی و سماجی اور سرکاری شخصیات ہوتے ہیں ۔ کہ وہ اگر آگے بڑھیں ۔ تو وہ ان مجبور لوگوں کیلئےبہت کچھ کر سکتے ہیں۔

ثناءاللہ کے مطابق ملک کے دوسرے شہروں میں اسپشل افراد کو کچھ نہ کچھ سہولتیں دی جاتی ہیں ۔ لیکن چترال مکمل طور پر نظر انداز کیا جاتا رہا ہے ۔ یہاں ابھی تک سرکاری یا غیر سرکاری طور پر وہیل چئیر تقسیم نہیں کئے گئےہیں ۔ آگہی یا تفریحی پروگرام منعقد نہیں کئے جاتے ۔ جس کی وجہ سے چترال کے اسپشل افراد انتہائی احساس کمتری کا شکار ہیں ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ محکمہ زکواہ اور الخدمت فاونڈیشن کی طرف سے بھی کسی قسم کی امداد نہیں دی گئی ہے ۔ جو کہ چترال میں رفاہی کام کے بڑے ادارےہیں ۔ اسی طرح سوشل ویلفئیر بھی برائے نام ادارہ ہے ۔ جس سے اسپشل افرادکو کوئی امداد اور سہولت حاصل نہیں ۔

ثناء اللہ کا کہنا ہے ۔کہ چترال کے وہ اسپشل افراد جو دونوں ہاتھوں ، بازووں سے محروم ہیں ۔ انتہائی مایوسی اور محرومی کا شکار ہیں ۔ کیونکہ ان کے فنگر پرنٹ نہ ہونے کے باعث نادرا ان کے نام شناختی کارڈ جاری نہیں کر رہا ۔ جس سے وہ ایک طرف سے ذہنی دباو و مایوسی کا شکار ہیں اور دوسری طرف جو مخیر ادارے ان کی مدد کرنا چاہتے ہیں ۔ تو شناختی کارڈ نہ ہونے کے باعث وہ امداد سے محروم رہتے ہیں ۔ اس لئے بطور صدر چترال اسپشل پیپل آرگنائزیشن ثناء اللہ کا مطالبہ ہے ۔ کہ حکومت ایسے اسپشل افراد کے پاوں کی انگلیوں کو فنگر پرنٹ کے طور پر قبول کرکے انہیں شناختی کارڈ جاری کرے ۔ ایسے افراد شناختی کارڈ نہ ہونے کے باعث مردم شماری اور ووٹ سے بھی محروم رہتے ہیں ۔ جو کہ ناانصافی اور ریاستی جبر کے مترادف ہے ۔


انہوں نے اس بات پر بھی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ۔ کہ حکومت نے ملازمتوں میں اسپشل افراد کیلئے دو فیصد کوٹہ تو مختص کیاہے ۔ لیکن کسی بھی محکمےمیں اس پر عمل نہیں ہو رہا ۔ ڈی ایچ کیو ہسپتال چترال میں 84 پوسٹ میں سےایک پر بھی اسپیشل فرد بھرتی نہیں ہے۔ جو کہ ظلم کی انتہا ہے ۔ لوگ پیسے دے کر اور رشتے و تعلق سے پوسٹ لے لیتے ہیں ۔ اسپیشل افراد کا کوئی پرسان حال نہیں ہے ۔


ثناء اللہ کے مطابق اسپشل افراد کیلئے ڈس ایبل سرٹیفیکیٹ کا حصول بھی ایک بڑا مسئلہ ہے ۔ اور اسپشل افراد کو اس سرٹفیکیٹ کیلئے ایک دو اٹینڈنٹ کے ساتھ دور اور دشوار گزار راستوں پر بھاری کرایہ ادا کرکے یا گاڑی بکنگ کرکے چترال شہر آنا پڑتا ہے ۔ اور ہوٹلوں میں رہنا پڑتا ہے ۔ جو کہ ایسے افراد اور فیملی کیلئے ناقابل برداشت ہے ۔ اس لئے ان کا مطالبہ ہے ۔ کہ مختلف مقامات میں دس پندرہ اسپیشل افراد ڈس ایبل سرٹفیکیٹ کیلئے درخواست گزارہوں ۔ تو ان کو دور دراز سے چترال شہر بلانے کی بجائے ڈاکٹر اور متعلقہ اسٹاف اسی مقام پر ان کا معائنہ کرکے سرٹفیکیٹس جاری کریں ۔ تو یہ اسپشل افراد بھاری سفری اخراجات سے بچ سکتے ہیں ۔

ثناء اللہ کے مطابق پوری دنیا میں اسپشل افراد کے کام کو ترجیحی بنیادوں پر نمٹانےکا موقع فراہم کیا جاتاہے۔ اس کے مقابلے ہمارے ملک خصوصا چترال میں کسی بھی دفتر میں اسپشل افراد کا کام جلد انجام دینے کی زحمت گوارا نہیں کی جاتی ۔ نادرا اور دیگر دفاتر میں کوئی پرسان حال نہیں ۔ اسپشل افراد کے ساتھ کئی مسائل ہوتے ہیں ۔ وہ طویل انتظار نہیں کر سکتے ۔ واش رومز کی ضرورت زیادہ ہوتی ہے ۔ لیکن مجال ہے ۔ کہ کوئی ان پر توجہ دے ۔ اس لئے حکومت سےپر زور مطالبہ ہے ۔ کہ جس ادارے میں اسپشل افراد کو کسی کام کیلئے جانا پڑے ۔ تو ادارہ ان پر اولین توجہ دے ۔ اور ان کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی کوشش کرے ۔
ثناء اللہ کا حکومت سے یہ بھی مطالبہ ہے ۔ کہ کہ حکومت اسپشل افراد کو ڈرائیونگ لائسنس ایشو نہیں کرتی ۔ جبکہ بعض اسپشل پرسن ڈرائیونگ کرکے اپنی ضرورت خود پوری کرنے کے قابل ہیں ۔ اس لئے ایسے افراد کو ڈرائیونگ لائسنس ایشو نہ کرنا بھی حکومت کی طرف سے انتہائی زیادتی ہے ۔ انہوں نے اس بات پر انتہائی افسوس کا اظہار کیا۔کہ حکومت کی طرف سے اب تک اسپشل افرادکیلئے کئی اعلانات کئے گئےہیں ۔ لیکن تاحال کسی بھی اعلان پر عمل درآمد نہیں ہوا ہے ۔ جس کا ہم انتظار کر رہے ہیں ۔ اب تک صرف طفل تسلیاں ہی دی جارہی ہیں ۔ انہوں نےحکومت سے اسپیشل افراد کے مسائل حل کرنے کا مطالبہ کیا۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57607

جیالوں کی خوشی – تحریر:شہزادہ مبشرالملک

                                         

   معزرت۔۔

 فقیرکو اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ ہمارے بڑے اہل علم ۔۔۔ امریکہ بہادر۔۔۔ کے مقابلے میں اتنے حساس بھی ہوسکتے ہیں۔ گزشتہ تحریر میں ۔۔۔ خاغلی ہنری کسنجر۔۔ جو کہ اس وقت امریکہ کے وزیر خارجہ تھے میں نے غلطی سے صدر امریکہ بنادیا۔۔۔ اور ۔۔۔ لہروں۔۔۔ کی حوالگی کے بعد اس کی تلافی ممکن تھی۔   اچانک ایک فرنڈ لی۔۔۔ فایر۔۔۔ برادر محترم سرور صحراءی بھاءی نے داغ دی اس کے چند ہی مینٹ بعد ہمارے استاد صحافت انسٹیٹوٹ اف جرنلیزم اسلام اباد کے روح روان پرویز صاحب نے کپیٹل سے میزایل داغ دی اور امریکن کی ناراضگی سے ڈرایا۔۔۔  کام میرے ہاتھ سے نکل چکا تھا پھر بھی میں نے فیس بک میں جلدی سے۔۔۔ کسنجر۔۔۔ کو صدارت سے نکال کر دوباہ۔۔۔ وزیر خارجہ۔۔۔  بنا ہی دیا تھا کہ قریبی مورچے سے۔۔۔ ڈاکٹر فیضی صاحب ۔۔۔ ٹرسیر گولیاں۔۔۔ رہنمائی کے لیے فایر کیے ۔۔ میں ۔۔۔ جزوی نقصانات ۔۔۔ کا تخمیہ لگا ہی رہا تھا کہ میونخ۔۔۔ جرمنی سے سوات کے ہمارے دوست پروفیسر افتاب نے۔۔۔ ڈرون حملہ کیا ۔۔۔ میں نے موبایل کے دریچے بند کرکے سونے میں ہی عافیت محسوس کی ۔۔۔ مجھے اس بعد کا انداز نہیں تھا کہ اتنے بڑے لوگ بھی ہمارے ۔۔۔ اصلاح کے لیے ٹاءم نکال لیتے ہیں۔ میں دل کی گہرایوں سے ان سب مہربانوں کا ممنوں ہوں۔کہ اللہ ان سب کو سلامت رکھے اور ان کے علم سے استفادہ کرنے کا سلیقہ ہمیں نصیب کرے   ۔                

چنگاریان ۔    

   اہل علم ۔۔۔ کے غم سے ہی نہیں نکل پایا تھا کہ ۔۔۔ جیالوں۔۔۔ نے  فون ، مسیچ۔ چیو بازاز سے عدالت اور ورکشاب تک ۔۔۔ جشتان۔۔۔ کی طرح ۔۔۔ چنگاریان۔۔۔ لیے ہمارے منتظر نظر ایے کہ کیوں۔۔۔ اس الیکشن ذدہ موسم میں ۔۔۔ قاید عوام ۔۔۔ کی بے حرمتی کے مرتکب ہوے کم ازکم ۔۔۔ شہزادہ پرویز۔۔۔ کے گلے میں موجود ۔۔۔ پھول۔۔۔ خشک ہونے کا انتطار کرتے۔

ملکہ برطانیہ                                                                                     

تو جیالوں کی خوشی کی خاطر۔۔۔ کیتب کی زنبیل۔۔۔ سے یہ دوسرا کا نامہ پیش خدمت ہے کہ جناب نواز شریف کے دور زرین میں۔۔۔ ملکہ برطانیہ۔۔۔ پاکستان تشریف لاءیں تو ان کے اعزاز میں میاں صاحبان نے لاہور کے شاہی قلعے میں ڈنر کا اہتمام کیا اکبری قلعے کو ۔۔۔ بقہ نور بنانے اور پاکستان بھر کے لذیز کھانون، کھابون، کبابوں، سری پاءیون۔ بریانی پلووں، کالے بٹروں، ہرنوں، مچھلی جھینگون، لسیی پنیرون۔ حلووں کے بے شمار اقسام کیونکہ اس محفل میں ۔۔۔ حلووں۔۔۔ کے لیے۔۔۔ پلکیں۔۔۔ بچھانے اور۔۔۔ پیٹ۔۔۔ پھلانے والے بھی بلاءے موجود تھے۔۔۔                                                                  

پنجاب کے روایتی ڈھول رقص اور باجے مدھور ساز بجا رہے تھے۔۔۔ تسلیمات بجائے جارہے تھے ۔۔۔ کھانے کے میز سجاءے جاچکے تھے ۔۔۔۔ کھانے کے۔۔۔ چمچوں ۔۔۔۔ کےساتھ ساتھ ۔۔۔ انسانی چمچے۔۔۔۔ بھی۔۔۔ مکھن لگانے میں سردھڑ کی بازی لگانے میں مصروف تھے کہ ۔۔۔ بسم اللہ ۔۔۔ کا  اشارہ ملا ابھی ۔۔۔ چھوٹے میاں صاحب روایتی ادب واحترام کے ساتھ ۔۔۔ سر جھکا کے ۔۔۔ ملکہ ۔۔۔ سے مخاطب ہونے ہی والے تھے کہ ملکہ کے سیکٹری نے خادم اعلی کے قریب اکے کہا ۔۔۔۔ ملکہ کے لیے تیار کھانہ برطانیہ سے ساتھ لایا گیا ہے اور وہ پاکستانی کھانہ کھانے کی طاقت بھی نہیں رکھتیں لہزا انہیں زحمت نہ دی جاءے یہ کہتے ہوءے اس نے بیگ سے دو ۔۔۔ ٹیفن۔۔۔ نکالے اس میں ملکہ برطانیہ کے ۔۔۔ پرہیزانہ۔۔۔ چند ہی لقمے موجود تھے ۔۔۔۔ میاں صاحب نے دیگر بیسیوں پاکستانی۔۔۔۔ پہلوانوں۔۔۔۔ کو ۔۔۔ یلغار ۔۔۔ کے احکامات دیے ہی تھے کہ ۔۔۔ ملکہ۔۔۔ نے۔۔۔ ٹیفن ۔۔۔ واپس تھما دیے۔۔۔۔ تمام ۔۔۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف۔۔۔ پہلوان ہاتھ ملتے رہے کیونکہ ۔۔۔ ملکہ۔۔۔ ٹیشو پیپر سے ہاتھ منہ صاف کر رہیں تھیں اور مہمان خصوصی کے بعد ۔۔۔ ہاتھوں صفاءی ۔۔۔ دیکھانا ۔۔۔۔ نونیون۔۔۔ کے لیے ممکن نہیں رہا تھا۔                                                                                                                                                               

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57585

برق ِ خاطف ! – قادر خان یوسف زئی کے قلم سے

برق ِ خاطف ! – قادر خان یوسف زئی کے قلم سے

ذرا سوچئے کہ انتہا پسند ہندو آج اس قدر اوچھا کیوں ہو رہا ہے، جو کچھ یہ بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ کررہا، جو روش اس نے اختیار کررکھی اور جن عزائم کی بعض جھلکیاں ان کے اکابرین کے جوز ِ غیظ و غضب میں ان کی کف دہانی کے ساتھ دنیا کے سامنے آئی، اس کا اصل سبب کیا ہے، غور سے دیکھیں تو ان تمام بے انصافیوں اور دست درازیوں کی علت یہ نظر آئے گی کہ انتہا پسند ہنددوؤں نے یہ خیال کرلیا کہ مسلمان کمزور ہوچکا۔ بس یہ ایک زعم ِ باطل ہے جس میں ہندوؤں (انتہا پسند)کے اس تمام اوچھے پن کا راز پوشیدہ ہے۔ کم ظرف انسان کو جب یہ یقین ہو کہ اس کا فریق مقابل کمزور ہے تو وہ انتہائی سفاک اور قصاب کا روپ اختیار کرلیتا ہے۔ یہ ایک محکم اصول ہے، یہی اصول آج انتہا پسند ہندوؤں کی بے جا تلاطم خیزیوں کی تہ میں کارفرما ہے۔ ایک مثل تھی کہ  ’ مُسلے نوں ٹرخائے، ٹرخ جائے تو ٹرخ جائے نہیں تو آپ ٹرخ جائیے۔“ بمعنی کہ مسلمانوں کو گیدڑ  بھپکی دیجیے، اگر وہ اس کے رعب میں آجائے تو خوب ورنہ خود دب جائیے۔آج  شدت پسندہندو اپنی قوت  نشہ کے زعم باطن میں اسی قسم کی بھپکیاں دے رہا ہے، اگر مسلمانوں نے یہ سمجھ لیا کہ وہ واقعی کمزور ہوچکے  تو آر ایس ایس کی بھپکیاں فی الواقع کارگر ہوجائیں گی اور اگر اس کا اِ س پر ایمان ہے کہ:
باطل سے دبنے والے اے آسمان نہیں ہم


تو یقین کیجئے ہندو  توا کے پرچارک اس ضیغم نیسانی کی ایک دھاڑ کو بھی برداشت نہیں کرسکیں گے۔ اس میں شبہ نہیں کہ آج مصاف ِ حیات میں سپاہ اور اسلحہ بڑی چیز ہے، لیکن یاد رکھیے، قوموں کی قوت کا راز ان کی سپاہ اور اسلحہ کی فراوانی میں نہیں ہوتا، یہ راز ان کے عزم و ثبات اور ایمان و یقین میں پہناں ہوتا ہے۔ یقین کی قوت دنیا کی ہر قوت پر غالب ہوتی ہے، یہی وہ قوت ہے جس کی بنا ء پر تاریخ کی آنکھوں نے ناقابل یقین تماشے بھی دیکھے کہ اللہ کی نصرت، عزم و ثبات کا ساتھ دیتی ہے۔ یقین کی قوتیں مادی قوتوں کی کمی کو بھی پورا کردیتی ہیں۔مسلمان کسی پر زیادتی نہیں کرسکتا، وہ خوامخواہ جنگ کی آگ کو مشتعل نہیں کرتا، وہ دنیا میں امن و سلامتی چاہتا ہے لیکن وہ کسی اور کو بھی اجازت نہیں دے سکتا کہ وہ امن کو خراب کرے اور اللہ کی مخلوق کو ستائے۔


مودی سرکار انتخابات سے قبل ایک بار پھر متشدد ماحول بنانے میں جت گئی ہے جس میں بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کا جینا محال کردیا ہے۔ نریندر مودی سمجھ بیٹھا کہ مسلمان کمزور ہوچکا ، یہ انتہا پسندوں کا دماغی خلل ہے جس کا علاج یہ ہے کہ اس کے دل سے یہ زعم باطل نکال دیا جائے کہ مسلمان کمزور ہے اور یہ اسی صورت میں ہوسکتا ہے کہ مسلمان اس کا عزم کرلے کہ جو آنکھ ان کی طرف بری نیت سے دیکھے گی وہ آنکھ نکال لی جائے گی، خواہ وہ کسی سر میں کیوں نہ ہو۔ اگر مودی سرکار نے کسی سمت سے بھی اپنے قدم بڑھائے تو اس کا جواب وہی ہونا چاہیے جوابدالی کی تلوار نے پانی پت کے میدان میں مرہٹوں کو دیا تھا۔ یاد رکھئے اگر انتہا پسندوں کو ایک شکست مل گئی تو پھر وہ خود بھی امن سے رہے گا اور دنیا کا امن بھی بحال ہوجائے گا  اور اس کے بعد بھارت کے 20 کروڑ  کے لگ بھگ مسلمان بھی عزت و آبرو کی زندگی بسر کرسکیں گے۔ واضح رہے کہ اس کے لئے فوج اور اسلحہ پر ہی بھروسہ کئے نہ بیٹھے رہیے، جب تک پوری کی پوری قوم عزم و ثبات سے مقابلہ نہ کرے فوج اور اسلحہ کچھ بھی نہیں کرسکتا، مسلمانوں کی قوت کا راز  عزم و ثبات میں ہے۔


یہ درست کہ ہمارے اکابرین ہماری توقعات پر پورے نہیں اتر رہے جو ہم نے اُن سے وابستہ کی تھیں، یہ بھی ٹھیک ہے کہ ہماری حکومت کو عالمی دباؤ کا شدید سامنا ہے، لیکن یہ چیزیں قطعاََ اس کا جواز نہیں ہوسکتا کہ آپ پاکستان کے استحکام کی طرف سے بے نیاز ہوجائیں، پاکستان تمام ملت اسلامیہ کی مشترکہ امانت ہے، ہمارے اکابر و اعیان اس امانت کے واحد مالک نہیں کہ اس کے ضائع ہونے میں صرف انہی کا نقصان ہوگا ہمارا کچھ نہ بگڑے گا، یہ تو وہ آگ ہوگی جس کے شعلوں سے نہ خواص بچ سکیں گے نہ عوام۔ موجودہ فنون جنگ میں دشمن کا سب سے بڑا حربہ یہ ہوتا ہے کہ وہ فریق ِ مقابل میں خوف و ہراس پھیلا دیتا ہے کہ ان میں انتشار و اختلال پیدا ہوجائے۔ امن کے زمانے میں اس قسم کی وحشت انگیزی اور دہشت افشانی سے مقصود یہ ہوتا ہے کہ قوم مخالف کے عزم و ثبات کا جائزہ لیا جائے۔ اگر ہم ففتھ جنریشن وار فیئر کا شکار ہو کر اپنی ہی ریاست کے خلاف ہوجائیں تو یہ امر خواہ مخواہ دشمن کو حملہ کی دعوت دینا جیسا ہوگا۔


 اللہ تعالی نے پاکستان کے ذرائع پیدائش اتنے وسیع دیئے ہیں کہ ہمیں کسی کے در پر ہاتھ پھیلانے کی کبھی ضرورت نہ پڑے۔ نا مساعد حالات سے نکلنے کے لئے بس مخلص رہنما چاہے۔ انتہا پسند ہندوؤں کی طرف سے پاکستان کی سا  لمیت کو ختم کرنے کے لئے وقتاََ فوقتاََ ایسے اقدامات عمل میں آتے رہے ہیں جس سے اس نتیجہ پر پہنچا جاسکتا ہے کہ شدت پسند ہندو کی ذہنیت ایک نو دولتیے رئیس زادے یا بگڑے ہوئے شخص کی سی ہے جس کی تخریبی کاروائیوں سے محفوظ رہنے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ اسے شتر ِ بے مہار کی طرح بد لگام نہ ہونے دیا جائے بلکہ اس کے راستے میں رکاؤٹ ڈالی جائے۔اپنے گھر کی حفاظت فریضہ انسانیت ہے لیکن پاکستان تو ہمارے لئے گھر سے بھی زیادہ گراں بہا متاع ہے۔ اس سلسلے میں ملک کے ارباب ِ حل و عقد سے بھی گزارش کریں گے کہ وہ ملک کے دفاع کے لئے جس حسن تدبر کا ثبوت دے رہے ہیں اس کے ساتھ وہ بتدریج اقدامات بھی کرتے جائیں، جن سے اہل ملک کا یہ خیال یقین میں بدلتا جائے کہ ہمارا ہر قدم اس منزل کی طرف اٹھ رہا ہے جو حصول پاکستان کے لئے ہمارا منتہائے مقصود تھا، پھر دیکھئے کہ یہی پیکر ان آب و گل، مخالفت کے ہر خس و خاشاک پر کس طرح برق ِ خاطف(آنکھوں کو خیرہ کردینے والی بجلی) بن کر گرتے ہیں۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57583

قومی اداروں میں اصلاحات ۔ محمد شریف شکیب

قومی اداروں میں اصلاحات ۔ محمد شریف شکیب

قومی پرچم بردار فضائی کمپنی پی آئی اے میں اصلاحاتی عمل کے مثبت نتائج ظاہر ہونے لگے۔ گزشتہ تین برسوں کے دوران اصلاحاتی عمل سے فی طیارہ ملازمین کی تعداد 550 سے کم کرکے 260 کردی گئی۔ اس واضح کمی کے بعد پی آئی اے کی افرادی قوت بین الاقوامی تناسب کے برابر آگئی ہے۔ دنیا کی بہترین ائر لائنز افرادی قوت کی شرح کوفی طیارہ 200 سے 250 کے درمیان رکھتی ہیں۔رواں سال فضائی بیڑے میں مزید طیاروں کی شمولیت سے یہ شرح 220 تک آنے کی توقع ہے۔ ملازمین کی تعداد میں کمی رضاکارانہ علیحدگی سکیم، جعلی ڈگری اور نظم و ضبط کی خلاف ورزی کرنے والے ملازمین کی برطرفی سے ممکن ہوئی۔

پی آئی اے کے1900 ملازمین نے رضاکارانہ علیحدگی سکیم سے استفادہ کیا‘837 ملازمین کو جعلی ڈگریوں پر بھرتی کی بنیاد پر برطرف کیا گیا جبکہ 1100 ملازمین کو نظم و ضبط کی خلاف ورزیوں اورکرپشن کی وجہ سے فارغ کیا گیا۔ چیف ایگزیکٹو آفیسرکے مطابق ملازمین کی تعداد کم کرنے سے سالانہ8 ارب روپے کی بچت بھی ہوگی اور قومی ائرلائنز کے خسارے میں واضح کمی کی توقع ہے۔ پی آئی اے کا شمار1980کے عشرے تک دنیا کی بہترین فضائی کمپنیوں میں ہوتا تھا۔ قطر ائرویزسمیت دنیا کی مختلف ائرلائنوں نے پی آئی اے سے تربیت اور تجربہ حاصل کیا تھا۔پاکستان ریلویز، کسٹمز، ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن، واپڈا، سوئی گیس،پاکستان سٹیل مل کی طرح پی آئی اے میں بھی ہر آنے والی حکومت نے تھوک کے حساب سے بھرتیاں کرائیں جس کی وجہ سے ان اداروں کے سالانہ منافع سے تین گنا زیادہ رقم ملازمین کی تنخواہوں پر خرچ ہونے لگی۔

پی آئی اے ملازمین کو اہل خانہ سمیت پورے ملک اور سال میں ایک دفعہ بیرون ملک مفت سفر کی سہولت دی گئی ہے۔ اسی طرح واپڈا کے تمام ملازمین اور ان کے رشتہ داروں کو گریڈ کے حساب سے ایک ہزار سے پانچ ہزار یونٹ تک مفت بجلی استعمال کرنے کی اجازت ہے۔ ان شاہانہ فیصلوں کی وجہ سے اداروں پر ہی نہیں بلکہ قومی خزانے اور عوام پر بھی اضافی بوجھ پڑتا رہا۔ جنوبی ایشیا کا سب سے بڑاسٹیل مل ملازمین کے بوجھ تلے دب کر ختم ہوگیا۔ پی آئی اے،ریلوے اور دیگر اداروں کو ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی کے لئے حکومت ہر سال اربوں روپے کے بیل آؤٹ پیکج دیتی ہے۔

اور ستم ظریفی یہ ہے کہ خسارے میں چلنے والے ان اداروں کو خریدنے کے لئے بھی کوئی تیار نہیں۔ پی آئی اے میں اصلاحاتی عمل کے آئندہ ایک دو سالوں میں مثبت نتائج سامنے آئیں گے اور یہ قومی ادارہ پھر سے منافع کمانے کے قابل ہوگا۔ دیگر اداروں میں بھی اصلاحاتی عمل پر سختی سے عمل درآمد کی ضرورت ہے۔کیونکہ چند ہزار افراد کو پالنے کے لئے قومی اداروں کو قربان نہیں کیاجاسکتا۔اداروں میں اصلاحات کا عمل انتہائی مشکل اور صبر آزما ہے۔

ملازمین سیاہ جھنڈے اٹھاکر سڑکوں پر نکل آتے ہیں اور سیاسی مفادات کے لئے انہیں قومی اداروں میں کھپانے والی سیاسی جماعتیں بھی ان کی حمایت میں خم ٹھونک کر میدان میں آتی ہیں۔کیونکہ انہیں قومی اداروں سے زیادہ اپنے سیاسی مفادات عزیز ہوتے ہیں۔آج تک کسی حکومت نے اداروں میں اصلاحات کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ اسی مصلحت کوشی کی وجہ سے ہمارے ادارے قوم پر بوجھ بن چکے ہیں۔دنیا کے کسی بھی ترقی یافتہ ملک میں کسی ادارے کے تنخواہ دار ملازمین کو اتنی شاہانہ مراعات حاصل نہیں جتنی ہمارے ہاں چند سرکاری اداروں کے ملازمین کو حاصل ہیں۔ پرکشش تنخواہ، سرکاری گاڑیاں،اوپر کی اضافی آمدنی رکھنے والے ملازمین اپنے پٹرول، بجلی اور گیس کا بل اور فضائی کرایہ خود ادا کرسکتے ہیں۔ایک قرض دار اور غریب ملک میں سرکار کے ملازمین کو اتنی شاہانہ مراعات دینے کا کوئی قانونی، آئینی اور اخلاقی جواز نہیں ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57554

بزمِ درویش۔ کوچہ فنا ۔ تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

میں حیرت سے اپنے سامنے بیٹھے ارب پتی جو ڑے کو دیکھ رہا تھا میاں بیوی نے سوال ہی ایسا کیا تھا میں پچھلے دو عشروں میں ہزاروں لوگوں سے مل چکا ہوں لیکن ایسا سوال آج تک کسی نے بھی نہیں کیا تھا جو اِس دولت مند جو ڑے نے کیا تھا اِس میں کو ئی شک نہیں کہ میرے ملنے والوں میں اکثریت خو فزدہ لوگوں کی ہو تی ہے مادیت پرستی میں غرق حضرت انسان نے مختلف قسم کے خوف پال رکھے ہیں خدا سے دوری نے انسان کو مختلف دنیا وی جھوٹے خداں کے سامنے ما تھے ٹیکنے پر مجبور کر دیا ہے توکل اور یقین انسان کو جھوٹے خو فوں اور جھوٹے خداں سے آزاد کر دیتا ہے لیکن چونکہ ما دیت پرستی انسان کی ہڈیوں تک سرائیت کر چکی ہے اِس لیے انسان توکل اوریقین کی نعمت سے محروم ہو چکا ہے لیکن یہ جو ڑا مختلف قسم کے خوف میں مبتلا تھا.

اِن کے پاس خدا کی ہر نعمت موجود تھی روپے پیسے کی اتنی زیادہ ریل پیل کہ دولت کے بل بو تے پریہ دنیا کی مہنگی سے مہنگی چیز آسانی سے خریدنے کی پوزیشن میں تھے ارب پتی ہو نے پر خدا کا شکر کر نے کی بجا ئے عجیب خو ف میں مبتلا ہو گئے تھے میرے پاس جب یہ آئے تو میں اِن کو بھی معمول کا کیس سمجھا لیکن جب انہوں نے یہ سوا ل کیاکہ ہما رے پاس بے پنا ہ دولت ہے اتنی زیا دہ دولت کے ہما ری سات نسلیں بیٹھ کر بھی کھا ئیں تو ختم نہیں ہو گی بے پنا ہ دولت کی وجہ سے ہما رے پاس دنیا کی ہر نعمت مو جود ہے ہم دنیا کے ہر ملک میں آسانی سے جا کر شاپنگ کر سکتے ہیں عام انسان جس پر تعیش زندگی کا صرف خواب دیکھ سکتا ہے وہ سب کچھ اِن کے قدموں میں ڈھیر ہو چکا تھا سوا ل انہوں نے یہ کیاکہ پروفیسر صاحب ہمیں کوئی پرابلم نہیں ہے ہما ری زندگی میں کوئی کمی نہیں ہے ہمیں اب خدا سے کچھ بھی نہیں چاہیے ہمیں ایسی دعا بتا ئیں کہ ہم اب اِس بے پنا ہ دولت سے لطف اندوز ہو سکیں ہم اِس دولت کو اب خرچ کر سکیں ہمیں نظر نہ لگ جا ئے ہم بیما ر نہ ہو جا ئیں ہم کسی مشکل یا حادثے کا شکا ر نہ ہو جا ئیں ہم اب زیا دہ دیر تک زندہ رہنا چاہتے ہیں

ہم بڑے سے بڑے مہنگے سے مہنگے ڈاکٹر سے علا ج کروا سکتے ہیں ہم اب مر نا نہیں چاہتے ہم اگر جلدی مر گئے تو لو گ ہما ری دولت کھا جا ئیں گے میں حیران پریشان بے بس ارب پتی جو ڑے کو دیکھ رہا تھا جو ارب پتی ہو نے کے با وجود خو د عدم تحفظ کا شکا ر ہو چکے تھے مجھے ان پر ترس آرہا تھا آخر میں نے انہیں کہا زیا دہ سے زیا دہ غریب لوگوں پر خرچ کریں تا کہ اللہ تعالی کو آپ پر ترس آئے پھر چند دعائیں بتا کر انہیں رخصت کر دیا لیکن میں حیرت سے سوچ رہا تھا کہ انسان اِس گلشن حیات میں اپنی زندگی کو خوبصورت با معنی اور پر تعیش بنا نے کے لیے بچپن سے بڑھا پے تک شب و روز مصروف رہتا ہے پہلی عمر میں جو سیکھتا ہے وہ دولت اکٹھی کر نے پر لگاتا ہے دولت جمع کر نے کی بھا گ دوڑ میں وہ بلکل یہ بھولا ہو تا ہے کہ وہ روزانہ اپنے دوستوں رشتہ داروں کے جنا زے پڑھتا ہے اپنے ہا تھوں ان کو قبروں میں اتارتا ہے انسان کے سامنے اس کے احباب آخری ہچکی لے کر جان خدا کے سپرد کر دیتے ہیں دن رات موت جنا زے قبریں دیکھنے کے با وجود اس کے دل و دما غ میں حرکت نہیں ہوتی کہ کل مجھے بھی مٹی کے نیچے دبا دیا جا ئے گا

سوم چہلم کرانے کے بعد رفتہ رفتہ سب بھول جا ئیں گے انسان ساری عمر موت سے نظریں چراتا رہتا ہے لیکن آخر وہ گھڑی بھی آجا تی ہے جب اِس کا بھی کو چہ فنا کی طرف سفر ہو گا۔ سب ٹھاٹھ پڑا رہ جا ئے گا جب لاد چلے گا بنجا راعام لوگوں کی طرح بڑے لوگوں کو بھی مو ت کے غار میں اترنا ہی پڑتا ہے زندہ انسان دوران زندگی کتنے منصوبے بناتا ہے کچھ تکمیل کو پہنچتے ہیں کچھ آرزوئیں تشنہ اور حسرتیں نا تمام رہ جا تی ہیں جب کو ئی شخص مرض الموت میں مبتلا ہو تا ہے دنیا سے رخصت ہو نے کا وقت قریب آتا ہے تو اس کے دل و دما غ میں کشمکش بر پا ہوتی ہے یہ مر نے والے کوہی پتہ ہو تی ہے جو اِس میں مبتلا ہو تا ہے بلا شبہ رضا ئے الہی کے رنگ میں رنگے لوگوں کی آخری کیفیت بھی شان دارہو تی ہیں وہ مر تے نہیں بلکہ نئی زندگی پا رہے ہو تے ہیں اِس لیے اِن کے لیے لفظ مرنا نہیں بلکہ انتقال یا وصال استعمال ہو تا ہے

یعنی یہ عظیم لو گ اِس دنیا فانی سے دوسری دنیا میں منتقل ہو رہے ہو تے ہیں اپنے خالق کے ساتھ وصال کی منزل سے ہمکنار ہو رہے ہو تے ہیں مر نے والا کیسا سوچتا ہے یہ تو کسی کو نہیں پتہ تا ہم کچھ کلمات جملے اورنصیحتیں خوا ہشیں ویران ہو تی آنکھوں اور خاموش ہو نٹوں سے چھلک پر تی ہیں جن کی ایک جھلک آپ کی نظر ہے۔ حضرت علی نے آخری وقت اپنے صاحبزادوں حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین کو بلا کر فرمایا میں تم دونوں کو تقوی کی ایسی وصیت کر تا ہوں یتیم پر رحم کھانا بے کس کی مدد کر نا آخرت کے لیے عمل کرنا ظالم کے دشمن بننا اور مظلوم کی حما یت کر نا۔حضرت عمر فاروق کے آخری فقرے یہ تھے میں اپنے جانشین کو وصیت کر تا ہوں کہ وہ غیر مسلم رعایا کے لیے اللہ اور اسکے رسول ﷺ کی ذمہ داری کو یا درکھے ان سے جو وعدے کئے گئے ہیں ہمیشہ پو رے کئے جا ئیں دشمنوں سے ان کی حفاظت کی جائے ان پر کبھی سختی نہ کی جا ئے۔ شاہ بغداد حضرت عبدالقادر جیلا نی نے نو ے برس کی عمر میں آخری لمحات میں فرمایا آخری وقت کمزوری کے سبب آوازنہیں سنا ئی دے رہی تھی آپ کے بیٹے نے دیکھا کہ زیر لب کچھ بو لنے کی کو شش کر رہے ہیں

کان لگا کر سنا تو توحید تو حید فرما رہے تھے اورنگ زیب عالمگیر نے آخری لمحات میں اپنے بیٹے کو وصیت کی۔ اپنی مخلوق کا حقیقی حا فظ اور نا صر اللہ تعالی ہے لیکن نظر بظاہر اے میرے فرزندتو خلق خدا کی خو نریزی کا سبب مت بننا۔ مہا تما بدھ نے آخری وقت اپنے چاہنے والوں کو یہ نصیحت کی۔ یہ با ت کبھی نہ بھو لنا کہ زوال تما م چیزوں میں مو روثی ہے۔ سکندر اعظم کی جب آخری گھڑیا ں آئیں تو وزیروں نے پو چھا آپ یہ سب کچھ کس کے لیے چھو ڑے جا رہے ہیں تو زندگی بھر تلوا ر کی زبان استعمال کر نے والے فاتح نے جواب دیا تم میں سے سب سے زیا دہ طاقت رکھنے والے کے لیے۔جولئیس سنیرر نے بڑی شان و شوکت سے حکمرانی کی اورمسند اقتدار کے نشے میں دوستوں دشمنوں کی تمیز بھی نہ رہی آخری دن وہ اسمبلی حا ل میں اجلاس ملتوی کرنے کا اعلان کر نے والا تھا کہ ٹیلٹس نامی شخص آیا اور اپنے بھا ئی کی جلا وطنی کی درخواست پیش کی کہ یہ حکم واپس لیا جا ئے سنیر ر نے متکبرانہ انداز سے کہا یہ مو قع ایسی درخواستوں کا نہیں سائل بار بار اصرار کر نے لگا تو بعض قانونی ماہرین نے بھی اس کی ہاں میں ہاں ملا ئی کچھ نے مخا لفت میں آواز بلند کی شور مچ گیا.

سب اٹھ کھڑے ہو ئے سیزر پر حملہ کر دیا گیا ایک شخص کیشش نے چہرے پر خنجر پیوست کر دیا سنیرر نے پیچھے دیکھاتو بروٹس خنجر گھو نپ رہا تھا تو فوری طور پر سیزر کے منہ سے نکلا اوہ بروٹس تم بھی یہ آخری فقرہ تھا انگریزی ادب میں you too Brutus جب بھی بو لا جا تا ہے تو سنرر کے ساتھ ہو نے والا حادثہ نظروں میں گھو م جا تا ہے یہ ایک تاریخی جملہ اپنا خا ص پس منظر رکھتا ہے غداری میں عالمگیر شہرت پیدا کر نے والے اسی بروٹس نے اپنے ہی ہا تھوں اپنی ہی زندگی یہ کہہ کر لے لی۔اے نامراد بہا دری تیری حقیقت ناموری اور شہرت کے سوا کچھ بھی نہیں پھر بھی تجھے ایک حقیقی چیز سمجھ کر تیری پر ستش کر تا رہا لیکن اب معلوم ہوا ہے کہ تو صرف تقدیرکی ایک لو نڈی تھی۔ مشہور انگریزی شاعر اورسیا ستدان فلپ سڈنی نے آخری لمحات میں کیا خو ب جملہ کیا۔ حقیقی خو شی حاصل کر نے کے لیے روئے زمین کی ساری دولت سلطنت بھی دینا پڑے تو یہ سودا مہنگا نہیں اِس کو چہ فنا میں ایک سے بڑھ کر ایک انسان فنا ہو تا چلا گیا اور پھر نسل ِ انسانی کے سب سے بڑے انسان سردار الانبیا سرور دو جہاں محبوب خدا ﷺ نے آخری لمحات میں آسمان کی طرف انگشتِ شہا دت کا رخ کیا اور فرمایا۔ میں اپنے رفیق اعلی کی طرف جا رہا ہوں۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57552

دوران تعطیلات بچوں کی نگرانی – (اکبر حسین)

دوران تعطیلات بچوں کی نگرانی – (اکبر حسین)

 بچوں کی تعلیم و تربیت   اور ترقی کے کلیدی وسائل کے طور پر والدین بچے کی سماجی، جذباتی اور جسمانی نشوونما کو تشکیل دینے میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔  اگر یہ کردار موثر طریقے سے ادا کیا جائے تو اس کا بچوں کی تعلیمی بلکہ عملی زندگی پر بھی انتہائی دوررس اثر مرتب ہوتا ہے۔

      جدید تعلیمی نظریات کی رو سے  طالب علم کی کامیابی میں معاونت کا آغاز خاندان، اسکول اور کمیونٹی کے درمیان ایک مشترکہ معاہدے سے ہوتا ہے  جس کے تحت  وہ مل کر کام کرنے کے پابند ہوتے  ہیں ۔ ایسی شراکت داری   باقاعدہ ایک منصوبہ بندی کے ذریعے  قائم کی جاتی ہے  جس میں مقاصد کے حصول کے لیےپرعزم اقدامات شامل ہوتی ہیں۔  

ہمارے ہاں تعلیم کا نظام روایتی ڈگر پر ہی رواں دواں ہے۔ گو کہ مختلف ادوار میں اصلاحات کی چھوٹی موٹی کوششیں کی گئی ہیں لیکن ابھی   بھی عصری تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے بہت کچھ کرنا باقی ہے۔

 سکولوں میں نصابی سرگرمیوں کو نتیجہ خیز بنانے اور بچوں کے لیے ساز گار ماحول فراہم کرنے کے لیے والدین اساتذہ کونسل (پی۔ٹی۔سی)کی تشکیل ایک خوش آئند تجربہ تھا  لیکن  اس کو بھی ہم رسمی اور کاغذی کارروائی تک محدود رکھ پائے ہیں۔  والدین کی طرف سے بچوں کی تعلیمی ترقی میں مثبت کردار ہی تعلیمی اہداف کو حاصل کرنے   میں ممد و معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ظاہر ہے کہ تالی ایک ہاتھ سےتو  نہیں بج سکتی  لہذا سکول اور خاندان کا باہمی تعاون ہی بچوں کی تعلیمی استعداد کار بڑھانے میں مدد فراہم کرتا ہے۔

موسمی حالات کے پیش نظر ہونے والی طویل تعطیلات رسمی درس و تدریس کی تال کو توڑ دیتی ہیں۔  بچوں کی موٹیویشن لیول بھی گھٹ جاتی ہے  ۔ جب طلباء تعطیلات گزارنے کے بعد اسکول واپس آتے ہیں تو مواد کے جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ بچوں نے دوران تعطیلات کتنی نظم و ضبط کا مظاہرہ کر چکے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ، طویل  تعطیلات خصوصی تعلیمی ضروریات والے بچوں کی تعلیم پر زیادہ منفی اثر ڈال سکتی ہیں۔ امریکہ کی ایک تعلیمی جریدے میں  شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق   گرمیوں کی تعطیلات میں گریڈ 1 سے 6 تک کے طلباء کی 52%  نے  تعلیمی سال کے مجموعی منافع کا اوسطاً 39% کھو دیا۔

ہمارے ہاں ان دنوں موسم سرما کی ناگزیر چھٹیاں  ہو چکی ہیں  جس میں بچوں کو پڑھائی کے ساتھ مصروف رکھنے کے لیے کچھ اقدامات  والدین   کر سکتے ہیں۔

 ٹریک پر رکھنے اور ان کے سیکھنے کے تسلسل کو برقرار رکھنےکے لیے بچوں  کی مانیٹرنگ انتہائی ضروری ہے۔  سکول سے ملنے والی ہوم ورک کا باقاعدہ اہتمام بچوں کو پڑھائی کی ترغیب دیتاہے ۔

بچوں کی  نگرانی کا  خود والدین یا خاندان کا کوئی ایک فرد زمہ داری لے سکتا ہے۔ اس کے علاؤہ دوران تعطیلات کوچنگ سینٹر میں بچوں کو بھیجنا بھی ان کی تعلیمی  سرگرمیوں کی تسلسل کے لیے سود مند ہے۔

تعطیلات کی وجہ سے بچوں   کی معمولات بھی کافی بدل جاتی ہیں لہذا   صحت مند کھانے اور سونے کی عادات سمیت  کھیل  و تفریح وغیرہ  کا  بھی خاص خیال رکھنا ضروری ہے۔ بہتر یہی ہے کہ سکول کی طرز پر ایک اوقات کار مرتب کیا جائے  جس کے تحت بچے گھر پر بھی نصابی اور ہم نصابی سرگرمیوں میں مصروف رہ سکیں۔   

اس بات میں کچھ شک نہیں کہ ہر کوئی اپنے وسائل کے مطابق اپنے بچوں کی پرورش اور تعلیم کا انتظام بہتر سے بہتر انداز میں کرنے کی سعی کرتا ہے ۔ والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ جتنا ممکن ہو سکے بچوں کی تعلیم و تربیت میں کوئی کسر باقی نہ رہ  جائے۔ 

لہٰذا والدین کا بچوں کی تعلیمی کارکردگی بڑھانے کے لیے اساتذہ اور سکول کے ساتھ خصوصاً دوران تعطیلات تعاون اور اشتراک انتہائی ضروری ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57550

کچھ نہ کرنا بھی بڑا فن ہے ۔ محمد شریف شکیب

کچھ نہ کرنا بھی بڑا فن ہے ۔ محمد شریف شکیب

ہمارے ہاں کوئی نوجوان مرد اور خاتون خواہ ایم اے، ایم ایس سی، ایم فل، پی ایچ ڈی، ایل ایل بی، ایل ایل ایم، ایم بی اے، بی بی اے سمیت کوئی بھی اعلیٰ ڈگری کیوں نہ حاصل کرے۔جب تک وہ کوئی نوکری نہیں لے گا اسے تعلیم یافتہ قرار نہیں دیاجاتا۔ہمارے گاؤں کے ایک بزرگ کی یہ بات زبان زد عام ہے کہ جب تک کوئی شخص ڈگری پاس ہونے کے باوجود کرسی نہیں لیتا۔ اس کی تعلیم کسی کام کی نہیں۔ حالانکہ تعلیم کا مقصد صرف نوکری حاصل کرنا تو نہیں ہوتا۔ اس بات کی جون ایلیا نے بہتر انداز میں یوں تشریح کی ہے کہ ”نوکری کررہے ہو مدت سے۔۔تم کوئی کام کیوں نہیں کرتے“۔گویا نوکری کرنا کام کے زمرے میں نہیں آتا۔کام سے مراد جون ایلیا کے نیزدیک کوئی تخلیقی کام ہے۔ مگر ہر شخص میں تخلیقی صلاحیت کہاں ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں سرکاری نوکری کا بہت کریز ہے۔

ہر تعلیم یافتہ شخص کی ہرممکن کوشش اور خواہش ہوتی ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح کسی سرکاری محکمے میں ایک بار گھس جائے اس کے بعد پوری زندگی موجیں ہی موجیں ہیں۔اور مرنے کے بعد بھی اس کے نکمے پن کا پسماندگان کو پنشن کی صورت میں فائدہ ہی فائدہ ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے وہ بھاری معاوضہ بھی ادا کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ سرکاری ملازم بننے کے لئے ایک ہی بار ادائیگی کرنی پڑتی ہے جس کے لئے گائے، بیل اور گدھا بیچنا بھی وہ خسارے کا سودا نہیں سمجھتے۔ سرکاری اداروں کے بارے میں یہ بات کسی دل جلے نے مشہور کردی ہے کہ وہاں کام نہ کرنے کی تنخواہ ملتی ہے۔ ہم ذاتی طور پر اس عمومی موقف سے متفق نہیں۔ ہم نے سرکاری اداروں میں کئی لوگوں کو کام کرتے دیکھا ہے۔ اگرچہ وہ Looking bussy, doing nothing کے فارمولے پر عمل پیرا ہوتے ہیں لیکن اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ وہ ہاتھ پیر اور زبان چلاتے نظر آتے ہیں۔سچی بات یہ ہے کہ دنیا میں کچھ نہ کرنا بھی ایک فن ہے۔اور بعض لوگ اس فن میں یدطولیٰ رکھتے ہیں۔

جاپان میں ایک شخص ایسا بھی ہے جو ’کچھ نہ کرنے‘ کا باقاعدہ طور پر معاوضہ لیتا ہے اور یہی اس کی آمدنی کا واحد ذریعہ بھی ہے۔ٹوکیو میں رہنے والے 38 سالہ شوجی ماریموتو بچپن ہی سے بہت کاہل اورکام چورتھا۔اپنی اسی ناکارگی کی عادت کی وجہ سے وہ اکثر بے روزگار رہتاتھا۔ 2018 ء میں شوجی نے اپنے نکمے پن ہی کو ذریعہ معاش بنانے کا فیصلہ کیا اور جاپانی سوشل میڈیا پر ’کچھ نہ کرنے والا آدمی کرائے پر دستیاب ہے‘ کے عنوان سے اپنی خدمات پیش کیں۔ حیرت انگیز طور پر ان کی ’خدمات‘ حاصل کرنے کے لئے درجنوں افراد نے ان سے رابطہ کیا اور ’کچھ نہ کرنے‘ پر مناسب معاوضے کی پیشکش بھی کی۔ آج وہی نکما آدمی نہ صرف بیحد مصروف بلکہ کچھ بھی نہ کرنے کے عوض ہزاروں ڈالرکمارہا ہے۔

ان کے مستقل گاہکوں میں موسیقار،شاعر اور خواتین شامل ہیں کوئی اپنی تخلیق کی ہوئی دھنیں اسے سنا کر معاوضہ دیتا ہے کوئی اپنی تازہ غزل سنا کر اور داد سمیٹ کو اسے نوازتا ہے۔ شوجی نے تصدیق کی ہے کہ بہت سی خواتین اپنے شوہر، ساس، سسر، نند، بھاوج اور دیگر رشتہ داروں کے بارے میں گلے شکوے سنانے یا کسی ریسٹورنٹ جاکر ساتھ چائے، کافی پینے اور کھانا کھانے کے عوض اسے ڈھیروں انعامات دیتی ہیں۔شوجی کا کہنا ہے کہ یہ سروس تو میں نے یونہی شروع کی تھی لیکن مجھے احساس ہوا کہ بعض لوگ اپنی زندگی میں اس قدر تنہائی کا شکار ہوتے ہیں کہ وہ کچھ دیر کو اپنی تنہائی دور کرنے کیلیے خوشی خوشی معاوضہ دینے کو تیار ہوجاتے ہیں، شوجی نے بتایا کہ میرے بیشتر مستقل گاہک مجھے کسی پرسکون جگہ لے جاتے ہیں ہم گھنٹوں خاموشی سے بیٹھے رہتے ہیں مجھے صرف ان کے پاس بیٹھنا ہوتا ہے اور کبھی کبھار ان کے دل کی باتیں بھی سننی پڑتی ہیں۔ جس کا وہ معقول معاوضہ ادا کرتے ہیں۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ کچھ نہ کرنا بھی ایک بڑا فن ہے اور مستقبل میں اس فن کی مانگ میں اضافہ ہوسکتا ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57531

تعلیم اور تربیت کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ بی بی آمنہ نگار اپر چترال

تعلیم اور تربیت کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ بی بی آمنہ نگار اپر چترال

عام طور پر تعلیم وتربیت کا لفظ  باہم مترادف سمجھاجاتاہے۔ لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ تعلیم اور تربیت دو الگ  الگ معانی رکھنے والے الفاظ ہیں   لیکن  ایک دوسرے کے ساتھ لازم وملزوم ضرور   ہیں کیونکہ تعلیم، تربیت کے بغیرمکمل  نہیں ہوسکتی ۔ لہذا تربیت کو تعلیم سے  الگ نہیں کیا جا سکتا۔

تربیت کا لفظ عربی زبان سے آیا ہے جس کے معنی بچے کی  پرورش کرنا، پالنا اورمہذب بنانا ہے ۔ تربیت درحقیقت انسان سازی کا فن ہے۔اس فن  کی  بدولت   انسان کے اخلاق وعادات، مہارتیں،اعمال وکردار، اس کی سوچ   اور   اس کےمجموعی رویے اسے  دنیا کی دیگر مخلوقات سے ممتاز کردیتے ہیں۔انسان کی اصل شناخت اس کے کرداری واخلاقی وجود سے ہی ہوتی ہے۔ مشہور ماہر تعلیم عارفہ سیدہ زہرہ  کے مطابق “ہم نے احساس کی سطح ، شعور کی سطح اور فکر کی سطح پر اتنی ترقی نہیں کی جتنی ہم نے ٹیکنالوجی میں کی ہیں اور تعلیم بہت ہے لیکن تعلیم کو علم بننے کے لیے جن دو چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے  ان کی کمی ہے  پہلی چیز ماحول ہے جو آپ کےشعور اور احساس کی تربیت کرتاہے اور دوسری چیز آپ کا اپنا شعور اور احساس ہے جو تعلیم کو اپنے اندر اتار کے علم بنانے میں مدد دیتا ہے “۔  لہذا اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ  انسان کو اس کی اصل شناخت کے لیے  اس کی تعلیم کو علم بنانے  اور  تربیت  کی بہتری کے لیے کوشیش کرنا  ایک لازمی امر ہے اور اس حوالے سے  والدین اور اساتذہ  کو اپنی زمہ داریوں کا احساس  کرنا بہت ضروری ہے۔   

تربیت کے حوالے سے والدین کی زمہ داری بچے کے پیدائش سے پہلے سے شروع ہوتی ہے یعنی کہ  دورانِ حمل ماں  کاذہنی سکون،  متوازن خوراک ،مناسب ماحول  اور ماں کی  تمام  سرگرمیاں بچے کی جسمانی اور ذہنی   نشوونما پر مثبت  اثر  ات مرتب کرتی ہیں  جو  بچے  کی نشوونما اور شخصیت پر   اثر انداز ہوتے ہیں  ۔ پیدائش کے بعد      گھر کے ماحول کو لیں تو بچے کی پہلی درس گاہ ماں کی گود  ہے یعنی کہ سیکھنے کا عمل یہی سے شروع ہو تاہے۔ وہ اپنے ماں باپ اور گھر والوں کی باتوں، حرکات و سکنات ،  ان کے کام اور کردار سے ہی سب کچھ سیکھتے ہیں۔ لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ ہم والدین کی حیثیت سے یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ہمارے بچے ہمارے نقش قدم پر چلتے ہیں اور جہاں بھی جاتے ہیں  ہماری عکاسی کرتے ہیں ۔ان کی تربیت میں کمی کو سمجھنے کے لیے والدین کی حیثیت سے ہمیں اپنے آپ کو جانچنا ہو گا۔ مثال کے طور پر  ہمیں  یہ دیکھنا  ہو گا کہ گھر کے اندر ہمارا  رویہ کیسا ہے؟ کس حد تک اپنے بچوں کو سنتے ہیں؟ کتنی دفعہ دوسروں کی معاملات پر تبصرہ کرتے ہیں؟   دوسروں کی برائیاں کس طرح گنواتے ہیں ؟  ہماری سوچ کتنی مثبت ہے اور کتنی منفی ہے؟  یہ سب کچھ کرتے ہوئے ہم کتنی دفعہ  سوچتے ہیں کہ ان کا ہمارے بچوں پر کیا اثر ہو گا؟   یہ سب سوچنے کے بعد   ہی ہم یہ سمجھ سکتے ہی کہ ہم اپنے بچوں کے لیے نمونہ ہیں ہم جو بھی کریں گے  اس کا ہمارے بچوں پر  واضح  اثر ہو گا۔   لیکن ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہم بحثیت والدین بچوں کی تعلیم اور  تربیت کے زمہ دار اساتذہ کو ٹھیراتے ہیں ۔ اور  بچوں کو سکول بھیج کر اپنے آپ کو ان کی تربیت سے  دستبردار کر دیتے  ہیں جو کہ  مناسب عمل نہیں ہے کیونکہ جب تک  والدین اور اساتذہ ساتھ ساتھ نہیں ہو ں گے  بچوں کی صحیح تربیت ممکن نہیں ہو گی۔

اسکول اور اساتذہ  کا کردار ہمارے تعلیمی نظام  کے  مر ہونِ  منت ہیں ۔  دونوں کی بہتری کے لیے  حتی الامکان کوشیش  کی جارہی ہے۔ نصاب کو بہتر بنانے اوراساتذہ کی پیشہ ورانہ تربیت پر کام  جاری ہے۔ سکول کے عمارت کو  بہتر بنا کر  بنیادی سہولتیں دی جارہی ہیں ۔  ان سب کے باوجود  بھی  بچوں کی  تعلیم و تربیت میں  توازن نہیں  ہے۔ ان کی اس حساب سے تربیت نہیں  ہوتی جس  کا دور حاضر تقاضا کرتی ہے۔ مثال کے طور پر  بچوں کے اندر عزت  دینے کی کمی، نظم و ضبط  کا فقدان، قوتِ برداشت کا کم یا نہ ہونا، محنت سے جی چرانا ، ہر کام کے لیے مختصر راستہ  ڈھونڈنا، دوسروں کو قبول نہ کرنا  یہ سب چیزیں روز بروز بڑھتی جا رہی ہیں جس کا کوئی حل نظر نہیں آرہا ہے۔

والدین  کے بعد بچوں کی شخصیت پر اثر انداز ہونے والے ان کے اساتذہ ہوتے ہیں۔   یہ اساتذہ ہی ہیں جو   قوموں کے معمار  ہوتے ہیں جس طرح ایک معمار کہیں سے مٹی لے آتا ہے اس کو چھانتا ہے پھٹکا ہے اور پھر گوندھ کر جو شکل دینا چاہے اس میں ڈھال دیتا ہے بلکل اسی طرح ایک استاد بھی اپنے طلبہ کو جو چاہے اس صورت میں ڈھال سکتا ہے۔ اچھے اساتذہ   نہ صرف بچے کو نصابی کتب کی تعلیم دیتے ہیں بلکہ وہ   بچوں میں زندگی کی بنیادی مہارتیں بھی  پیدا کرتے ہیں ۔ وہ اس کی روحانی، نفسیاتی، اخلاقی، معاشرتی بلکہ ہمہ پہلو تربیت کرنےکے  ذمہ دار  ہیں ۔یہ اساتذہ ہی ہیں جن کی پیروی میں وہ صبروتحمل،  عزت کرنا، دوسروں کا خیال رکھنا اور اپنی زمہ داریوں کو سمجھنا سیکھتے ہیں۔ اگر اساتذہ خود وقت کے پابند ہیں تو یقینا بچے بھی ہوں گے۔ ان کی سوچ اگر  مثبت ہے تو بچے بھی مثبت سوچ کے حامل ہوں گے۔ غرض اساتذہ کی   شخصیت بچے کی پوری شخصیت کو بدل ڈالتی ہے۔ یہ سب تب ممکن ہے جب اساتذہ کے اپنے  کردار اس چیز کا آئینہ دار ہو جس میں یہ تمام خوبیاں پائی جائیں ۔ کردار کے بغیر علم   فضول ہے اور عمل کی خوبیاں پیدا نہ ہوں تو علم کا درخت بے ثمر اور بے فیض ہے۔ لہذا تعلیم کو علم  میں تبدیل کرنے کے لیے  اساتذہ کو طلبہ کے لیے قابلِ تقلید نمونہ ہونا چاہئے۔  تبھی جا کے وہ طلبہ کی زندگی میں تبدیلی لا سکتے ہیں۔  

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
57525

داد بیداد ۔ مردم شماری رپورٹ ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

داد بیداد ۔ مردم شماری رپورٹ ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

مشترکہ مفا دات کی کونسل کے حا لیہ اجلا س میں حکومت نے آنے والے عام انتخا بات سے پہلے مر دم شما ری کرنے کا عندیہ دیا ہے عنقریب مردم شما ری کی تاریخوں کا اعلا ن ہو گا مر دم شما ری کی رپورٹ کیسی ہو گی 1951سے اب تک مر دم شما ری کی جتنی رپورٹیں آئی ہیں ان میں سے کسی بھی رپورٹ کو اقوام متحدہ کے ادارے یو نیسکو (UNESCO) نے تسلیم نہیں کیا، کسی بھی مر دم شما ری رپورٹ کو کسی بین الاقوامی یو نیور سٹی نے حوالے کی دستا ویز کا در جہ نہیں دیا کیونکہ ہماری مر دم شما ری رپور ٹوں میں پا کستان کی زبا نوں، نسلی قو میتوں یا قبیلوں اور اقلیتی مذا ہب کا ذکر نہیں ہے.

جب کسی ثقا فتی اکا ئی کو عا لمی ورثہ قرار دینے کی تجویز اقوام متحدہ میں جا تی ہے تو جنرل اسمبلی کی ثقا فتی و معا شی کمیٹی (ECOSOC) اور ثقا فتی تحفظ کی تنظیم یو نیسکو (UNESCO) مر دم شما ری رپور ٹ کا حوالہ ما نگتے ہیں حوالہ نہ ملنے کی صورت میں تجویز کو مستر د کر دیا جا تا ہے کسی بھی بین الاقوامی یو نیورسٹی کا محقق جب پا کستان کی معاشرتی زند گی اور سما جی حا لا ت پر تحقیق کر تا ہے تو سب سے پہلے مر دم شما ری رپوٹ منگوا تا ہے اور یہ دیکھ کر ما یوس ہو جا تا ہے کہ اس رپورٹ میں پا کستان کی نسلی اقلیتوں کا ذکر نہیں، اقلیتی زبا نوں کا ذکر نہیں، اقلیتی مذا ہب کا ذکر نہیں اقلیتی مذہب کا لا ش کا نا م نہیں گذشتہ مردم شما ری سے پہلے 2017ء میں کا لا ش اقلیت کی طرف سے پشاور ہا ئی کورٹ میں رٹ داخل کی گئی کہ ہماری مذہب کا نا م مر دم شما ری رپورٹ میں شامل کیا جا ئے اس طرح خیبر پختونخوا کی نسلی اقلیت کھو آبا دی کی طرف سے اس نو عیت کی رٹ دائر کی گئی۔

حکومت پا کستان کے مر دم شما ری ڈویژن کے حکام نے عدالت میں اقرار کیا کہ غلطی ہو رہی ہے اگلی مر دم شما ری میں غلطی نہیں ہو گی عدالت نے اس بنا ء پر ان کی معذرت قبول کر کے اگلی مر دم شما ری میں حکم کی تعمیل کا فیصلہ سنا یا 2017کی مر دم شما ری کے لئے جو قا نون بنا تھا اس میں ایک اور نقص تھا جسکی وجہ سے کر اچی سے چترال تک پورے ملک میں احتجا ج ہو ا نقص یہ تھا کہ کنبے میں کوئی فرد اگر پا ک فو ج میں ہے، پو لیس میں ہے ڈیو ٹی پرہے تو وہ شما ر نہیں ہو گا، کنبے کا کوئی فرد اگر تعلیم حا صل کرنے کے مر حلے میں ہے کا لج یا یو نیورسٹی کی سطح پر پڑھنے میں مصروف ہے تو اس کو بھی شمار نہیں کیا جا ئے گا

اگر کنبے کا کوئی فرد ڈاکٹر یا نرس ہے، ٹیچر یا پرو فیسر ہے گھر سے با ہر ڈیو ٹی پر ہے اس کو کنبے میں شمار نہیں کیا جا ئے گا اس قانون کے تحت ہر کنبے، ہر گاوں، ہر قصبے اور ہر شہر کی ایک تہا ئی آبا دی مر دم شما ری سے خا رج ہو گئی قومی اسمبلی اور صو با ئی اسمبلی کی نشستوں میں کمی کی گئی ویلج کونسلوں کی تعداد کم ہوئی لو گوں کی نما ئندگی بھی متاثر ہو ئی مر دم شما ری میں کنبے کے تما م افراد کو شما رکرنا، ان کے مذہب اور ان کی زبا ن کو ریکارڈ پر لا نا اور ان کی نسلی شناخت کو دستا ویز کا حصہ بنا نا انسا نی حقوق میں شا مل ہیں یہ بنیا دی حقوق کا معا ملہ ہے اس پر عدا لتیں از خود نوٹس کے تحت بھی کار وائی کر سکتی ہیں 2022کی مر دم شما ری رپورٹ آنے سے پہلے سابقہ رپورٹوں کے نقا ئص کو دور کر نے پر تو جہ دینا بہت ضروری ہے ور نہ آ نے والی رپورٹ بھی قابل قبول نہیں ہو گی۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57523

خوشنودی – تحریر۔ شہزادہ مبشرالملک

خوشنودی – تحریر۔ شہزادہ مبشرالملک

خوشامد۔۔۔ خوشنودی۔۔۔

مکھن ماری ۔۔۔ دور جدید کے ادب کے مطابق ۔۔۔ چمچہ گری۔۔۔ ہماری ثقافت کا بہت ہی پرانا اور کاریگر ۔۔۔ فرموال رہا ہے ۔۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اجکل کے دور میں یہ گر ۔۔۔ نسخہ کیمیا۔۔۔ کے طور پر اپنایا جاتا ہے۔ اور ہم لوگ۔۔۔ بچے۔۔۔ کی پیدایش سے لے کر بوڑھاپے تک مختلف حیثیت سے اس کی ۔۔۔خوشامد۔۔ میں لگے رہتے ہیں۔۔۔۔ سکول


کے استاد سے لیکر یونیورسٹی کے پروفیسر تک سرکاری جپڑاسی سے لیکر سکیریری تک۔۔ ویلج کونسل کے معمولی ممبر سے لے کر صدر وزیر اعظم تک خوشامدیوں کا ایک جم غفیر ہے جو ۔۔۔ مکھن ماری۔۔۔ چمچہ گری۔۔۔ میں سر گردان نظر اتے ہیں ۔۔۔ ہیاں تک کہ یہ فعل خبیس۔۔۔۔ ہمارے مدرسوں مساجد کے علماء اور ایمہء کرام تک میں
سرایت کر چکا ہے ۔۔ کام نکالنا ہو تو۔۔۔۔ رشوت۔۔ کو ۔۔۔ تحفہ۔۔۔ نذرانہ۔۔۔ ہدیہ۔۔۔ کے نام سے بدل کر کام نکالنے کے راستے بناءے جاتے ہیں ۔کسی بندہ مجبور کے پاس یہ۔۔۔ کارامد ھتیار۔۔۔ دستیاب نہ ہوں تو وہ اپنے ۔۔۔ عمرو عیاری۔۔۔ زنبیل سے۔۔۔۔ خوشامد۔۔۔ مسکہ ماری۔۔۔ جمجہ گری۔۔۔ کے لوازمات باہر نکال دیتا ہے۔۔مسکہ ماری کا پہال شکار


اور انگوٹھے کی نشان نے زرے کو پہاڑ بنادیے ہیں اور اس کھیل نے قومی وقار عزت اور تشخص کو سخت نقصان پہچایا ہے ۔۔۔ دوسروں کی خوشامد میں ہم کب سے ۔۔۔۔ غرقاب۔۔۔ ہیں اس کا اندازہ ایک سیاسی کتب کے مطالعہ کے دوران ہوا کہ ۔۔۔ بھٹو مرحوم جیسے زور اور شخص بھی یہ کارنامہ انجام دے سکتا ہے تو اج کے ۔۔۔۔بالشتیے ہمارے گراٹ گرنٹ پا ۔۔۔ حضرت شیطان۔۔۔ کے ہاتھ ہوکے اس زمین پر جلوہ افروز ہوے تھے ۔تب سے ان کی اوالد میں سے بہت ہی کم لوگ اس۔۔ قبیع فعل ۔۔۔ سے خود کو بجا پاءے ہیں ورنہ یہ اسیی بیماری ہے جو۔۔۔ سر چھڑ۔۔۔ کے بولتا ہے۔۔ سوشل میڈیا اور فیس بک کی دنیا نے تو اس فن کو ۔۔۔۔ چار چاند۔۔۔ ہی لگا دییے ہیں ۔۔۔ ۔۔۔
سیاست دان اور مالزم کیا کیا گل کھال سکتے ہیں۔


نے ۔۔۔۔ امریکن وزیر کے شایانشان استقبال اور ڈنر منیو بنانے میں ایک دوسرے سے بڑھ جڑھ کے مشورے دینے لگے ۔۔ وایٹ ہاوس کے سابق باورچیوں سے وزیر کے پسندیدہ خوراک کی لسٹ منگواییں گءیں ۔۔ کسنجر کے پسندیدہ رسٹورانٹ سے وزیر اعظم پاکستان کی حیثیت سے ایک سرکاری دورے پر ۔۔۔۔ مرحوم ذالفیقار علی بھٹو ۔۔۔ امریکہ میں تھے کہ پاکستانی سفارت خانے کی ایک تقریب میں امریکن وزیر خارجہ۔۔۔۔ ہنری کسنجر۔۔۔۔ کو دعوت دی جو اس نے قبول کی۔۔۔ بھٹو صاحب بہت خوش ہوے اور ڈنر کی تقریب سجانے کے احکامات صادد کیے۔۔۔۔ سفارتی اور کابینہ کے اراکین


معلومات اکھٹے کی گییں ۔۔۔۔ سفارت خانوں اور دیگر تقریبات میں کسنجر نے کیا۔۔۔۔ تناول۔۔۔ فرمایا تھا انہیں شاٹ لسٹ کیا گیا ان کے دوستوں سے معلومات لی گییں کہ دوروں کے دوراں اس نے کس ۔۔۔۔ڈش۔۔۔۔ پر واو۔۔۔ وٹ اے ٹست کہا تھا۔۔۔عرب ۔یورپ۔۔۔ افریقہ برصغیر کے کونسے ایسے خوراک ہیں جنہیں ۔۔۔۔ چک۔۔۔۔ کر ۔۔۔ ہنری کسنجر۔ ۔۔۔ واو
کہہ سکتے ہیں غرض سیکڑوں ۔۔۔۔ طعام۔۔۔۔ کا ایک طویل ترین لسٹ مرتب ہوا ۔ گھنٹوں کی مغز خوری کے بعد ۔۔۔۔ منتخب خوراک۔۔۔۔ شاٹ لسٹ کیے گیے۔بھٹو صاحب نے قمیض کے بٹن کھول لیے پشانی سے ٹپکنے والے پسینے صاف کیے اور ساتھیوں کو اس عظیم کارنامے پر ۔۔۔۔ فاتحانہ۔۔۔انداز سے دیکھا اور شاباشی دی۔۔۔۔ ناگہان ایک ۔۔۔۔


مکھن مار۔۔ ۔ نے مسکہ لگایا ۔۔۔۔پی ایم صاحب۔ ۔۔۔
کیوں نہ ۔۔۔۔ کہیں سے ۔۔۔۔ تازہ کالے بٹیر۔۔۔ منگوالیے جاءیں جو ۔۔۔۔۔۔جنتیوں۔۔۔۔ بنی اسرایلیوں ۔۔۔ کی خوراک اور تمام خوراک کی جان ہے۔۔۔۔۔ بھٹو ۔۔۔۔ نے جھومتے ہوے اٹھے اور چیخ کر کہا۔۔۔۔ دیٹ از دے سیجشن۔۔۔۔ اب برف پیگھل سکتا ہے امریکہ اور پاکستان کے بھیج۔۔ اب اگیا اونٹ پہاڑ کے نیچے ۔مشورہ دینے والے کو ۔۔۔ ۔22 گریٹ۔۔۔۔ کی
گالیان سنا دیں کہ کم بخت نے یہ زرین مشورہ اتنی دیر سے کیوں دیا۔۔۔۔ گالی کھانے والے نے سینے پر ہاتھ رکھ کر۔۔۔۔ تسلیمات۔۔۔ بجا الءے کہ بھٹو صاحب نے مجھے۔۔۔۔ گالی کے گلدستے ۔۔۔۔ سے شرف یاب کیا۔۔۔۔ اب دن ہی کتنے رہ گیے تھے۔تمام سفارتی عملہ بھٹو سمیت ۔۔۔۔ کالے بٹیر۔۔۔ کی تالش میں امریکہ بھر میں ناکام پھرے۔ رات دوبارہ۔۔۔۔


زیرک دماغوں۔۔ نےسر جھوڑ لیے کہ کیسے اور کہاں سے کالے بٹیر مل سکتے ہیں۔
ایک سیانے مشیر نے مشورہ دیا۔۔۔۔۔ سر وقت بہت کم رہ گیا ہے بہتر ہے کہ اپ اپنی جہاز پاکستان روانہ کریں کہ کراچی سے جتنا چاہے السکتا ہے ۔۔۔۔ بھٹو صاحب نے ایک ۔۔۔ سونامی ٹایپ۔۔۔۔ گالی کے ساتھ ۔۔۔۔ مشیر کا زوردار بھوسہ لیا اور ۔۔۔۔ سی ون تھرٹی۔۔۔۔ طیارے کو کراچی پہچنے کے احکامات صادر کیے۔۔۔۔ دوسرے دن۔۔۔۔۔ دوہزار۔۔۔۔


اسی شام امریکن صدر کے اعزاز میں ڈنر ہونا تھا۔۔۔سب کے چہرے لٹکے ہوے تھے اچانک ۔۔۔۔ باورچی کی امد کا اعالن ہوا بہت سے جام ٹکرایے گءے اور حالت بے خودی میں۔۔۔۔۔ سجدہ شکر ۔۔۔ بھی بجاالیے گییے۔۔۔ سفارتی عملہ وزرا سمیت باورچی کی مدد میں مگن رہے۔۔۔۔ امریکن صدر کی اسانی کے لیے۔۔۔۔ کالے بٹیر۔۔۔۔ کا شجرہ ۔جنت کالے بٹیر۔۔۔ لیے طیارہ امریکہ لینڈ کیا تو خوشی کے شادیانے سفارت خانے میں بجاییے گیے۔۔۔ لیکن سفارت خانے کے باورچی نے ۔۔۔۔ کالے بٹیر ۔۔۔ بروسٹ کرنے سے یہ کہہ کر معذرت کی کہ اس کا کوءی تجربہ نہیں ہے۔۔۔۔۔ دوسری بار ۔۔۔۔۔ عوامی لہو۔۔۔۔ کے اایندھن سے لیس ہوکر طیارہ کراچی پہچا اور شاہی باورچی کو لے کر امریکہ اترا تو
سے وادی سینا کی صحرا نوردی تک کے قیصے اس میں موجود وٹامنز ۔لحمیات وغیرہ کے۔۔ بریف نوٹ۔۔۔ تیار ہوے۔۔۔
احر وہ مبارک گھڑی اپہنجھی کہ پاکستان ہاوس میں ۔۔۔۔ہنری کسنجر۔۔۔۔ قدم رنجہ فرمایا۔ اور بھٹو کو مخاطب کر کے کہنے لگے” مسٹر پرایم منسٹر میں بہت مصروف ہوں اپ لوگوں کو صرف پندرہ منٹ وقت دے سکتا ہوں۔۔۔ سب نے کھانے کے میز پر نگاہیں گاڑ دیں اور منتحب ۔۔۔۔ مینو۔۔۔۔ صدر کے اگے پیش کیے۔۔۔۔جو اس نے پڑھے بغیر ہی


گالس کے نیچے رکھ دی۔۔۔۔۔ کالے جنتی بٹیروں کے ٹرے ان کے سامنے الءی گءی تو۔۔۔۔ نو تھینگس۔۔۔۔ کہا اور ۔۔۔۔ سالد۔۔۔ کے دو ٹکڑے اٹھاءے اور۔۔۔۔ بھٹو۔۔۔۔ کا حا ل احوال پوچھا ہی تھا کہ ان کے سیکڑہری نے ادں سے دریافت کیا سر ہمارے لیے کیا حکم ہے۔۔۔ کسنجر ۔۔ نے گھڑی گماءی اور بھٹوسے کہا۔


تھینگ یو مسٹر پرایم منسٹر ۔ ۔۔۔ وی ویل میٹ سون۔۔۔۔ یہ کہتے ہوے اٹھے اور ہاتھ ہالتے ہوے رحصت ہوے۔
یہ تھی ۔۔۔۔ خوشامد اورجوشودی کی جمہوری کہانی ۔جو سب کے سب


۔۔۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57507

تحصیل موڑکھو چترال کے مسائل ۔ تحریر: ظہیر الدین منیجر

تحصیل موڑکھو چترال کے مسائل ۔ تحریر: ظہیر الدین منیجر

رب کائنات نے چترال کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے۔ ان نعمتوں میں دریاؤں کی فراوانی،بلند و بالا پہاڑوں کی وسعت، جنگلات، معدنیات، دلکش سیاحتی مقامات، پُر سکون اور پُرامن ماحول اور دیگر نعمتیں شامل ہیں۔یہ سب کچھ موجود ہونے کے باوجود بھی چترال KP کا پشماندہ ترین ضلع ہے۔پسماندگی کے باوجود بھی چترال کے لوگ خوش باش، اپنے وطن سے محبت کرنے والے، پُرامن اور مہذب قوم ہیں۔اہل چترال کی عظمت کے اعتراف میں سابق صدر پاکستان جناب سید پرویز مشرف صاحب کی زبان سے نکلے ہوئے یہ الفاظ تاریخ میں سنہرے حروف میں لکھے جانے کے قابل ہیں۔ انھوں نے فرمایا تھا کہ دور جدید کے اس منتشر سماج میں پاکستان کے انتہائی شمال میں واقع چترال میں پھلنے پھولنے والی تہذیب ہی امید کی وہ آخری کرن ہے جو اگر کھل کر سامنے آئے تو پوری دنیا کو امن اور سلامتی کا گہوارہ بنا سکتی ہے۔

کائنات کی آغوش میں یہی ایک خطہ ہے جس کی فضاؤں میں امن اور محبت خوشبو بن کر لہراتی ہے۔ تحصیل موڑکھواپر چترال کا سب سے زیادہ آبادی والا تحصیل ہے۔ جعرافیائی، تاریخی، سیاسی اور سیاحتی لحاظ سے تحصیل موڑکھو کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ موڑکھو تحصیل کا آخری حصہ وادی تیریچ جو کئی چھوٹے بڑے دیہات پر مشتمل کثیر آبادی ہے۔ مذکورہ دیہات کوہ ہندوکُش کے پہاری سلسلے اور تریچ میر کی بلند ترین چوٹی سے جاملتے ہیں۔ وادی تیریچ سے آگے پہاڑوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے اور انسانی آبادی ختم ہوجاتی ہے۔ لہٰذا تحصیل موڑکھو جعرافیائی اہمیت کا حامل علاقہ ہے۔
تاریخی لحاظ سے تحصیل موڑکھو قدیم ریاستی حکمرانوں کا مسکن ہے۔ ان کے پرانے قلعے اور دیواریں اب بھی شان ماضی کی یاد تازہ کرتی ہیں۔ شاہی خاندان کے کچھ افراد اب بھی ان قلعوں میں رہائش پذیر ہیں۔


سیاسی لحاظ سے بھی تحصیل موڑکھو کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔برصغیر میں جب تحریک پاکستان کا آغاز ہوا تو چترال میں سب سے پہلے پاکستان زندہ باد کے نعرے لگانے والے بھی تحصیل موڑکھو کے غیور عوام تھے۔


سیاحتی لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو دنیا کے مشہور پہاڑ کوہ ہندوکش اور بلند ترین چوٹی تیریچ میربھی تحصیل موڑکھو میں واقع ہیں جوکہ ہمیشہ اندرونی اور بیرونی سیاحوں کا مرکز ہے۔ کوہ ہندوکُش کے پہاڑی سلسلے سے نکلنے والا کروڑوں کیوسک پانی جوکہ ایک بڑے دریا کی صورت میں تحصیل موڑکھو کے درمیان سے گزرتا ہے۔ اس طرح ایک بہت بڑا دریا موجود ہونے کے باوجود تحصیل موڑکھو کی 60% آبادی آبپاشی کے پانی کی شدید قلت کا شکار ہے۔ دریائے موڑکھو کو وادی تیریچ کے گاؤں زوندرانگرام سے بذریعہ ٹنل موڑکھو کی طرف لایا جائے تو پورے چترال میں زرعی انقلاب آسکتا ہے اور تحصیل موڑکھو کی کثیر آبادی بشمول قاقلشٹ کے وسیع و عریض لاکھوں جریب بنجر زمین آباد ہوسکتی ہیں۔ ہزاروں میگاواٹ بجلی کی پیداوار متوقع بلکہ یقینی ہے۔ اگر ٹنل کو کشادہ تعمیر کیا جائے تو وادی تیریچ کی کثیر آبادی کے لیے سڑک بھی تعمیر ہوسکتی ہے اور وادی تیریچ کے عوام 80 کلومیٹر دشوارگزار سڑک پر سفر کرنے کی بجائے صرف 5 کلومیٹر سفر کرکے تحصیل ہیڈکوارٹر پہنچ سکتے ہیں اور 75 کلومیٹر کا فاصلہ کم ہوجاتا ہے۔ اس طرح غریب عوام کو سفری سہولیات میسر آسکتی ہیں اور مشکلات سے نجات مل سکتی ہے۔


حال ہی میں ایک محترم وفاقی وزیر صاحب پیراگلائیڈنگ کے سلسلے میں تحصیل موڑکھو تشریف لائے تھے۔ انھوں نے پیراشوٹ میں اپنے پرواز کے دوران تحصیل موڑکھو کے پانی کی قلت کے شکار علاقوں، قاقلشٹ کے وسیع و عریض بنجر زمینات اور ٹنل کی جگہ کا اپنی مبارک آنکھوں سے مشاہدہ کیا ہے۔وفاقی وزیر صاحب کے پاس پاکستان کے آبی ذخائر کا قلمدان بھی ہے۔ وفاقی وزیر صاحب وطن عزیز کے عظیم ہیرو سابق صدر پاکستان جناب ایو ب خان صاحب کے چسم و چراغ ہیں۔ ہمارے اُس عظیم قائد نے قوم کے لیے بڑے بڑے ڈیمز تعمیر کیے اور ملک کو اسلام آباد جیسا خوبصورت اور انمول دارالخلافہ بنا کر دیا۔تحصیل موڑکھو کے عوام وفاقی وزیر براے آبی ذخائر جناب عمر ایوب صاحب سے بھی یہی توقع رکھتے ہیں کہ محترم وزیر صاحب اپنے خاندانی روایات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس عظیم منصوبے کی طرف توجہ دینگے اور تحصیل موڑکھو کے اس دیرینہ مسلے کو حل کرینگے۔ اور ہماری آواز وزیر آعظم پاکستان جناب عمران خان صاحب تک بھی پہنچائیں گے۔


کسی بھی ملک یا علاقے کی ترقی کے لیے کشادہ اور پختہ سڑکیں ناگزیر ہیں۔ تحصیل موڑکھو تا حال پختہ اور ٹرک ایبل سڑکوں کی سہولت سے محروم ہے۔وادی تیریچ تک جانے والی ٹوٹی پھوٹی، کچی اور تنگ سڑک جو کہ 1974 میں (تقریباً 48 سال پہلے) بنی ہوئی ہے، ٹریفک کے لیے سخت خطرناک ہے۔ اس سڑک پر سفر کرنا ہر وقت خطرات سے خالی نہیں ہے۔ خاص کر برف باری یا سردیوں کے موسم میں اس راستے پر سفر کرنا انتہائی مشکل ہوجاتا ہے۔برف زیادہ پڑنے پر گاڑی تو کیا پیدل سفر کرنا بھی دشوار ہوجاتا ہے اور غریب عوام کو اپنی ضروریات کے حصول کے لیے اپنے علاقوں سے باہر جانا یا اپنے مریضوں کو ہسپتال پہنچانا ناممکن ہوجاتا ہے۔ ان حالات کا اندازہ ارباب اختیار خود لگا سکتے ہیں۔ تحصیل موڑکھو میں سڑکوں کی تعمیر وقت کا اہم تقاضا ہے۔متعلقہ اداروں اور عوامی نمائندوں کو عوام کی محرومیوں کا احساس کرنا اُن کا قومی فریضہ ہے۔


اعلیٰ تعلیم کا حصول ملک کے شہریوں کا بنیادی حق ہے۔ اعلی تعلیم سے ہی معاشرے میں اتحاد اور عمدہ اخلاق پیدا کئے جا سکتے ہیں۔اعلیٰ تعلیم مسائل کے حل کی کنجی اور معاشرے اور مملکت کی تعمیر میں معاون زریعہ ہے۔ اعلیٰ تعلیم سے ہی ایک معاشرہ اپنی بقا کو قائم رکھنے کے قابل ہوسکتا ہے اور اعلیٰ تعلیم زندگی کو خوشگوار بنانے کا ذریعہ ہے۔ تحصیل موڑکھو کے ایک لاکھ سے زائد آبادی تاحال اعلی تعلیم کی سہولت سے محروم ہے۔ تحصیل موڑکھو میں تاحال لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے کوئی ڈگری کالجز نہیں ہیں اور نہ ہی یونیورسٹی کیمپس موجود ہے۔ یہاں کے طالب علموں کو اعلی تعلیم کے حصول کے لیے لوئرچترال یا پشاور جانا پڑتا ہے۔ اکثر غریب اور قابل طالب علموں کے لیے اعلیٰ تعلیم کا حصول محض ایک خواب بن کر رہ جاتی ہے۔ ڈگری کالجز اور یونیورسٹی کیمپس کا قیام ایک لاکھ آبادی کا بنیادی حق ہے اور اس کی فراہمی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اسمبلیوں میں اس اہم مسلے کے حل کے لیے آواز اٹھانا عوامی نمائندوں کی ذمہ داری بلکہ ان کی فرائض منصبی میں شامل ہے۔تحصیل موڑکھو میں ڈگری کالجز اور یونیورسٹی کیمپس کا قیام وقت کی اہم ضرورت ہے۔


صحت کا مسلہ بھی تحصیل موڑکھو کا ایک سنگین مسلہ ہے۔ تحصیل ہیڈکوارٹر میں RHC تو موجود ہے لیکن اس کے اندر سہولیات کا فقدان ہے اور نہ کوئی لیڈی ڈاکٹر موجود ہے۔ اکثر مریض 90 کلومیٹر طویل سفر کرکے DHQ چترال جاتے ہیں یا پھر پشاور کے ہسپتالوں تک جانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔موجودہ RHC کو THQ کا درجہ دینا، میل اور فیمیل ڈاکٹرز کی تعیناتی، ٹسٹوں کا انتظام اور ادویات کی فراہمی ایک لاکھ آبادی کا بنیادی حق ہے۔ متعلقہ اداروں کا اس سلسلے میں کردار ادا کرنا وقت کا تقاضا ہے۔
موجودہ قومی حکومت نوجوانوں کو منفی سرگرمیوں سے محفوظ رکھنے کے لیے کھیلوں کے انعقاد، پلے گراؤنڈز او ر اسٹیڈیم تعمیر کرنے پر زور دیتی ہے۔ تحصیل موڑکھو کے ہیڈکوارٹر کے نوجوان بھی تاحال پلے گراؤنڈ اور اسٹیڈیم کی سہولت سے محروم ہیں۔ یہ انتہائی دکھ اور مایوسی کی بات ہے کہ تحصیل موڑکھو کے نوجوان پرائیویٹ مقام پر معاوضہ ادا کرکے کھیل کود کرنے پر مجبور ہیں۔تحصیل موڑکھو کے ہیڈ کوارٹر میں ایک اسٹیڈیم کی تعمیر عوام کا بنیادی حق ہے۔اس مسلے کو حل کرنا متعلقہ اداروں اور عوامی نمائندوں کی ذمہ داری ہے۔


نادرا آفس کا قیام بھی تحصیل موڑکھو کے عوام کا ایک دیرینہ اور سنگین مسلہ ہے۔ قومی شناختی کارڈ اور فارم(ب) کے حصول کے لیے تحصیل موڑکھو کے لوگوں کو بونی اور لوئر چترال جانا پڑتا ہے۔ اکثر موقعوں پر غریب لوگوں کو گاڑی بکنگ کرکے دفتر جانا پڑتا ہے اور کئی کئی گھنٹوں تک دفتروں کے سامنے شناختی کارڈ اور فارم(ب) کے حصول کے لیے انتظار کرنا پڑتا ہے جس سے غریب لوگوں کا مالی اور وقت کا نقصان ہوجاتا ہے۔ تحصیل موڑکھو کی ایک لاکھ آبادی میں شناختی کارڈ دفتر کا قیام قانونی تقاضا ہے۔ متعلقہ اداروں، عوامی نمائندوں اور ارباب اختیار کو ان عوامی مسائل پر بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

chitraltimes mulkhow upper chitral

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57503

نئی مردم شماری کا فیصلہ ۔ محمد شریف شکیب

نئی مردم شماری کا فیصلہ ۔ محمد شریف شکیب

مشترکہ مفادات کونسل نے ملک میں عام انتخابات سے قبل نئی مردم شماری کرانے کی منظوری دے دی۔قیام پاکستان کے بعد ملک میں یہ ساتویں مردم شماری ہوگی۔مشترکہ مفادات کونسل نے مردم شماری کی نگرانی کے لئے مانیٹرنگ کمیٹی کے قیام کی بھی منظوری دی۔ڈپٹی چیئرمین منصوبہ بندی کی سربراہی میں کمیٹی چاروں صوبوں کے چیف سیکرٹریز، چیئرمین نادراور دیگر افسروں پر مشتمل ہوگی۔ایڈوائزری کمیٹی کی سفارشات کے مطابق ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے ذریعے مردم شماری کا فیصلہ کیا گیا ہے اور مردم شماری سے قبل ملک بھر میں خانہ شماری کرائی جائے گی۔ملک میں مردم شماری کا ادارہ قیام پاکستان کے تین سال بعد 1950میں قائم ہوا تھا۔ ہر دس سال بعدمردم شماری کرانا آئینی تقاضا ہے۔

پہلی مردم شماری 1951، دوسری 1961، تیسری 1972اور چوتھی1981میں ہوئی۔ پانچویں مردم شماری1991میں ہونی تھی مگرسات سال تک التواء کاشکار رہنے کے بعد 1998میں کرائی گئی۔ اس کے بعد 19سال طویل کے وقفے کے بعد2017میں چھٹی مردم شماری کرائی گئی۔گذشتہ مردم شماری پر سندھ سمیت مختلف صوبوں کی طرف سے اعتراضات بھی اٹھائے گئے۔مردم شماری میں ملک کی مجموعی آبادی 21کروڑ32لاکھ22ہزار917ظاہر کی گئی ہے۔

خیبر پختونخوا کی آبادی تین کروڑ پانچ لاکھ آٹھ ہزار 920، ضم اضلاع کی 49لاکھ 93ہزار، پنجاب کی سات کروڑ36لاکھ،21ہزار، سندھ تین کروڑ چار لاکھ 39ہزار، بلوچستان 65لاکھ65ہزار،آزاد کشمیر 29لاکھ 72ہزار اور گلگت بلتستان کی آبادی 8لاکھ 84ہزار ظاہر کی گئی ہے۔ ان اعدادوشمار کو اصل تعداد سے بہت کم خیال کیاجاتا ہے۔ مثال کے طور پر صوبے میں ضم ہونے والے قبائلی علاقوں کی آبادی کو ایک کروڑ، آزاد کشمیر کی آبادی کو پچاس لاکھ اور گلگت بلتستان کی آبادی کو بیس لاکھ سے زیادہ بتایاجاتا ہے۔ رقبے کے لحاظ سے ملک کے دوسرے بڑے ضلع چترال کی آبادی کو ساڑھے چارلاکھ ظاہر کیاگیا ہے۔

ساڑھے چودہ ہزار مربع کلو میٹر پر پھیلی ہوئی وادی چترال کی آبادی سات لاکھ سے زیادہ ہے۔آبادی کے فرق کی وجہ سے چترال کی صوبائی اسمبلی کی ایک نشست ختم کرکے صرف ایک نشست رکھی گئی۔اپر اور لوئر چترال کے دو اضلاع میں انتظامی لحاظ سے تقسیم کے بعد دونوں اضلاع کو صوبائی اسمبلی کی ایک ایک نشست دینا لازمی ہے۔قومی اور صوبائی اسمبلی کے کسی امیدوار کے لئے ارندو سے لے کر بروغل، لاسپور، ریچ، شاہ سلیم تک کے وسیع و عریض علاقے کو کور کرنا انتہائی مشکل ہے۔ضلع کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پہنچنے میں تین دن لگتے ہیں۔ قومی یا صوبائی اسمبلی کے ایک ممبر کو ترقیاتی فنڈ کی مد میں جتنے پیسے ملتے ہیں انہیں پورے ضلع کے ہر گاؤں پر تقسیم کیاجائے تو ہرگاؤں کو چند ہزار روپے ملتے ہیں۔ ملک کی ترقی کے لئے منصوبہ بندی اس کی آبادی کی بنیاد پر ہوتی ہے۔

مردم شماری کے نتائج کی بنیاد پر ہی فیصلے کئے جاسکتے ہیں کہ کسی علاقے میں کتنے سکول، کالج، ڈسپنسری، بی ایچ یوز، آر ایچ سیز اور دیگر طبی مراکز درکار ہیں۔مردم شماری کی بنیاد پر ہی شرح خواندگی، فی کس آمدنی، مردوں، عورتوں اور بچوں کی تعداد، معذور افراد، عمر رسیدہ لوگوں اورمعاشی ترقی کا درست اندازہ لگایاجاسکتا ہے۔مردم شماری کی بنیاد پر ہی قومی و صوبائی اسمبلی، ضلع، تحصیل، ویلج اور نیبرہڈ کونسلوں کی حلقہ بندیاں ہوتی ہیں۔گذشتہ مردم شماری میں شہری علاقوں میں روزگاراور تعلیم کے سلسلے میں عارضی طور پر منتقل ہونے والی دیہی آبادی کو شمار نہیں کیاگیا۔ ان میں سے اکثریت کو شہری آبادی میں بھی شمار نہیں کیاگیا۔ جس کی وجہ سے بہت سے علاقوں کی حق تلفی ہوئی ہے۔ آئندہ مردم شماری میں گذشتہ غلطیوں اور کوتاہیوں کو درست کرنا ہوگا۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57492

ادھورے ہیں خواب ادھوری ہے پیاس – تحریر : محمد نفیس دانش

کچھ لوگ خوف میں منزل یا رہنما بدل لیتے ہیں اور کچھ لوگ لالچ میں آکر , لیکن مبارکباد کے مستحق ہیں وہ لوگ جو نہ حالات کے جبر کے سامنے جھکے اور نہ ہی کوئی دنیاوی لالچ ان کے پیروں کی زنجیر بنی , ایسے لوگوں کو ہی نظریاتی کہا جاتا ہے اور ایسے لوگوں پر ہی تاریخ فخر کرتی ہے , ورنہ میں میں اور بس میں والے تو ہر کشتی پر سوار ہوتے ہیں اور ہمہ وقت واہ واہ کروا کر آخرکار تنظیم پر بوجھ بن جاتے ہیں , پاسبان بزمِ قلم کا یہ سال 2021 بھی کچھ ایسا ہی رہا ہے، جس میں دخول اور خروج کی گردانیں دہرائی جاتی رہیں . سال کے آغاز میں مرکزی کابینہ نے حلف برداری کی تقریب میں شاہین کی سوچ اور شیخ چلی کے خواب سجا کر کارکنان پاسبان بزمِ قلم کے سامنے رکھیں. جب کچھ حسین خوابوں پر عملدرآمد ہونے لگا تو بد نظری کی ہوا کا جھونکا ایسا لگا جس نے سب خوابوں کو تہس نہس کر کے رکھ دیا اور سب بڑے سے بڑے خواب دھڑے کے دھڑے رہ گئے لیکن شاعر کے یہ الفاظ دلی سکون کے لیے مرہم پٹی بن جاتے ہیں:

خواب ادھورے سہی
خواب سہارے تو ہیں
خواب تو حرف ہیں
خواب تو نُور ہیں

خواب سُقراط ہیں
خواب منصور ہیں

دو سال کے تجربات کے بعد خلاصہ ہم نے یہ نکالا ہے کہ اس بے اصولی کی دنیا میں اب ہمیں اصول پسند بن کر رہنا پڑے گا اور اب غلطی کی بالکل گنجائش نہیں ہے، جب بھی کوئی غلطی کرتا ہے تو سب سے پہلے اس غلطی کرنے والے کو اس کے بڑوں کی طرف سے جو سزا ملتی ہے وہ پہلی سزا ہوتی ہے اس کی آزادی کا چھیننا یعنی اس کی آزادی چھین لی جاتی ہے , مثال کے طور پر اگر ایک طالب علم غلطی کرتا ہے تو اس کی چھٹی بند کر دی جاتی ہے , گھر میں بچہ ادھر ادھر دوستوں میں بیٹھنا شروع کرتا ہے تو اس کے گھر سے نکلنے پر پابندی لگ جاتی ہے , کوئی موبائل کا غلط استعمال کرے تو اس کے بڑے اس کی موبائل کی آزادی ختم کر دیتے ہیں , بڑا جرم کرے تو پولیس جیل میں بند کر دیتی ہے , جیل میں بند عام قیدیوں کو بھی پہلے ہسپتال میں علاج کی سہولت مل جاتی تھی , قیدیوں نے ہسپتالوں سے بھاگنا شروع کر دیا تو عام قیدیوں کی ہسپتال جانے کی آزادی ختم ہوگئی ,اس طرح کی اور بہت ساری مثالیں مزید بھی ہیں اس لئے غلطیوں سے اجتناب کرنا چاہیئے ,باقی ہماری تنظیم کے سب ساتھی پوری کوشش کریں کہ ان لوگوں سے سوشل میڈیا پر بے نتیجہ بحث مباحثہ کرنے کے بجائے اردو ادب کے فروغ پر توجہ دیں. خوب یاد رکھیں کے کسی بھی چیز کی تعمیر کے لئے انرجی یعنی قوت جمع کرنی پڑتی ہے , لیکن تخریب کے لئے چند لوگ ہی کافی ہوتے ہیں , جماعت سے نکالے ہوئے لوگ تخریب کے راستے پر ہیں , عملی میدان میں ان کی کارکردگی زیرو ہے جبکہ سوشل میڈیا پر وہ دن رات فتنہ پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں , معذرت کے ساتھ تعمیری اور تنظیمی کاموں کے لئے ان کے پاس وقت نہیں جبکہ اپنی شہرت کا ڈھنڈورا پیٹنے کے لیے ہمہ وقت وہ بے چین رہتے ہیں. دوسری طرف ہم تعمیر کے راستے پر ہیں ہمیں اپنی اس پاسبان تنظیم کو بلندیوں پر لے جانا ہے اس لئے ہمیں بہت بڑی قوت جمع کرنی ہے , کارکن بنانے ہیں، ہر صوبے میں یونٹ بنانی ہیں , کوئی بلاوجہ بھی ناراض ہو جائے تو اپنا حق چھوڑ کر اسے منانا ہے , ہمیں بہت کام کرنا ہے کیونکہ وہ اپنی ذات کے لئے کام کرنے والے لوگ ہیں اور ہم اپنی تنظیم کے لیے کام کرنے والے لوگ ہیں , ہم تعمیر کے راستے پر ہیں ہم نے بہت سارے تلخ تجربوں سے یہ سیکھ لیا ہے کہ اب غلطی کی گنجائش نہیں.

بقول چیرمین مدثر کلیم سبحانی :

جس طرح خواب مرے ہو گئے ریزہ ریزہ
اس طرح سے نہ کبھی ٹوٹ کے بکھرے کوئی
یہی ہے زندگی کچھ خواب چند امیدیں
انہیں کھلونوں سے تم بھی بہل سکو تو چلو

اس وقت کچھ لوگ اردو ادب کو فروغ دینے والی تنظیم پاسبان بزمِ قلم سے بھی لوگوں کو مایوس کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جماعت سے نکالے ہوئے یہ افراد پرامن کارکنان کو اشتعال دلوا رہے ہیں؛ تاکہ کارکنان اشتعال میں آکر کوئی سخت قدم اٹھائیں اور اس نئے سال کام کی رفتار رک جائے , امید نہیںں یقین ہے کہ سرفروش اور جانثار کارکن کسی منفی جھوٹے اور بے بنیاد پروپیگنڈے میں نہیں آئیں گے کیونکہ اب غلطیوں کی گنجائش نہیں ہے , میری تمام تنظیمی دوستوں سے درخواست ہے کہ پوری کوشش کریں کہ ان لوگوں سے سوشل میڈیا پر بے نتیجہ بحث و مباحثہ کرنے کے بجائے تنظیمی کام پر توجہ دیں , انہیں عملی میدان میں کارکنان مسترد کرچکے , وہ بڑی بے شرمی سے تنظیمی کارکنان سے بار بار رابطہ کرتے ہیں لیکن ہم ایک خاص نظریہ سے کام کر رہے ہیں اور ہمارے کارکن انہیں دھتکار دیتے ہیں , مگر ان بے شرموں کو شرم نہیں آتی , خیر ہمیں تنظیمی کام کرنا ہے اور تنظیمی کام میں اس وقت سب سے اہم اور ضروری کام سالانہ ممبر شپ مہم 2022 ہے یکم جنوری سے 10 فروری تک اس کی ہر ممبر اور عہدیدار خوب مہم چلائیں سوشل میڈیا پر دعوتی ویڈیوز بنا کر بھیجیں , اپنے اپنے واٹس ایپ اسٹیٹس اور فیس بک کے ذریعے اس کی تشہیر کریں اور اپنے اپنے علاقوں نوجوانوں کو اس کے اغراض و مقاصد کا تعارف کروا کر ان کو ترغیب دیں الغرض عملی طور پر تنظیم کے ہاتھ مضبوط کریں , خوب یاد رکھیں کے کسی بھی چیز کی تعمیر کے لئے انرجی یعنی قوت جمع کرنی پڑتی ہے , لیکن تخریب کے لئے چند لوگ ہی کافی ہوتے ہیں , جماعت سے نکالے ہوئے لوگ تخریب کے راستے پر ہیں اور ہم الحمد للہ تعمیر کے راستے پر ہیں کیونکہ پاسبان بزمِ قلم نام ہے کچھ کرنے کا اور آگے بڑھنے کا پھر دیر کس بات کی ابھی پاسبان بزمِ قلم کی ممبر شپ مہم کا حصہ بن کر اپنے ادھورے خوابوں کی تکمیل کریں..!

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57490

سٹریٹ کرائم دہشت گردی کی بھیانک شکل- قادر خان یوسف زئی کے قلم سے

کراچی میں لاقانونیت اور سٹریٹ کرائم کے واقعات پریشان کن حد تک بڑھ چکے۔ مافیائی گروپوں کی کارستانیاں ماضی کی طرح عروج پر تو نہیں لیکن اس کا امکان رد نہیں یا جاسکتا کہ کرمنل عناصر معاشرے کا ناسور بنے ہوئے ہیں، سٹریٹ کرائم کا جن جیسے بے قابو ہوگیا ہو، جس دیدہ دلیری سے ملکی سالمیت، ریاستی رٹ اور حکومتی سیٹ اپ کو چیلنج اور کمزور کرنے کی ہولناک واردتوں میں ملوث ہیں اس سے اہل کراچی کے لئے وجہ تشویش اور لمحہ فکریہ بنا ہوا ہے، آخرسٹریٹ کرائم میں معصوم جانوں کی ہلاکتوں کا سلسلہ کب تھمے گا۔ کئیبے گناہ شہری  سٹریٹ کرائم کی وارداتوں میں جہاں قیمتی سامان سے محروم ہوئے تو مزاحمت پرجان بھی گنوا بیٹھے۔ ایسا قریباََ آئے روز ہی ہو رہا ہے ایسے جرم بے گناہی پر ہلاکتوں کے خلاف عوام کس سے فریاد کریں۔ جس شہر کا امن مثالی ہوا کرتا تھا اسے کس کی نظر کھا گئی،

یہ کس قسم کا معاشرہ ہے جس میں قانون شکن عناصر کو نکیل ڈالنے والا کوئی نہیں۔
ماضی میں سیاسی کارکنوں، بے شمار سماجی رہنماؤں، علما ء اکرام، ڈاکٹر اور اساتذہ کے خون سے شہر قائد  خون میں نہاتا رہا اور اب نہتے بے قصور معصوم جانیں اسٹریٹ کرمنلز کا شکار ہیں،  بے امنی کا دور سیکورٹی اداروں کے آپریشن کی وجہ سے وقتی طور پر تھم تو گیا لیکن اس کا دوسرا بھیانک چہرہ اسٹریٹ کریمنل کی صورت میں عود آیا۔کراچی کے مکینوں اور پاکستان کے کونے کونے سے یہاں آکر رچ بس جانے والوں کی دلی اور ذہنی کیفیت نا گفتہ بہ ہے۔ وہ حقیقت میں ذہنی اور نفسیاتی مریض بن چکے۔کچھ عرصہ قبل بھتہ خوروں کی طاقت، رعونت، بربریت اور قتل و غارت کے جنون کے سامنے قانون نافذ کرنے والے حتمی کاروائی نہ کرنے تک مصلحت اور مفاہمت کی سیاست کی وجہ سے بے بس نظر آتے تھے اور قانون کی حکمرانی کو مذاق اور شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کے بنیادی مسائل گھمبیر شکل  اختیار کرچکی تھی، نوشتہ دیوار تھا کہ اگر دہشت کے اس مہیب خطرے اور شہریوں کی جان و مال کی حفاظت نہ کی گئی اور ان کا اعتماد بحال نہ کیا گیا تو اس کے مضر اثرات مستقبل میں اثر انداز ہوسکتے ہیں۔ بدقسمتی سے کراچی میں سرمایہ کاری کی مکدر فضا، امن ہونے کے باوجود بحال نہیں ہوسکی، تاجر جو شہر سے خوف زدہ ہوکر گئے تھے، دوبارہ واپس آنے کے لئے تیار نہیں کہ انہوں نے بڑا بھیانک وقت دیکھا ہے، وہ دوبارہ لاقانونیت کے سمندر میں غرق ہونا نہیں چاہتے۔ شہری پریشان کہ قاتل دندناتے ہوئے شہریوں پر حملہ آور ہوتے ہیں ان کی جمع پونچی لوٹ لی جاتی ہے، تھوڑی سی مزاحمت پر قیمتی جان سے ہاتھ دھونے پڑتے ہیں اور جرائم پیشہ عناصر بھرے بازاروں، مصروف ترین تجارتی و رہائشی علاقوں میں واردات کے بعد با آسانی راہ فرار اختیار کرلیتے ہیں اور ذرائع ابلاغ میں سی سی ٹی وی فوٹیج گردش میں رہتی ہے اور دنیا ورطہ حیرت میں کہ کس طرح اطمینان سے سر عام واردات ہوجاتی ہے اور قانون کا کوئی خوف نہیں۔


اہل وطن ان واقعات پر سخت رنجیدہ ہیں، ہر مجرم کو سزا عدالت سے ملنی چاہے، ایسا انصاف جس سے مدعی بھی مطمئن ہو کہ اُسے انصاف ملا، اگر سزا یافتہ با اثر طبقہ سلاخوں کے پیچھے بھی عیش و عشرت کی زندگی بسر کرے تو اس سے معاشرہ میں انارکی پھیلے گی۔پاکستانی معاشرہ میں بڑھتی لاقانونیت میں بے گناہوں کے قتل کے بڑھتے واقعات پر پولیس اور رینجرز کو ملوث عناصر کی گرفتاری اور اسٹریٹ کرائمز کا سلسلہ روکنے کے لئے اپنا آہنی ہاتھ استعمال کرنا ہوگا ورنہ پھر دیر ہوجائے گی۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے کراچی میں حکومت کی رٹ قائم کریں، عجیب غفلت مجرمانہ ہے، نجانے یہ شہر اور صوبہ کس کے رحم و کرم پر ہے، ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کی حالت زار اس اعتبار سے چشم کشا ہے کہ جرائم پیشہ عناصر نے جیسے ہر علاقے کو بادی ئ النظر یرغمال بنایا ہوا ہو۔کسی مہذب شہر کے کسی بھی حصہ میں جرائم پیشہ اس قدر طاقت ور ہوجائیں کہ وہاں قانون کی رٹ قائم نہ ہوسکے اور کوئی شہری آزادی کے ساتھ اکیلا یا اپنے رشتے دار اور دوستوں کے ساتھ کسی بھی مصروف یا غیر معروف شاہراہ پر دن کی روشنی یا رات کی تاریکی میں بے خوف جا نہیں سکتا، ہر لمحہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کسی کونے کدرے سے اچانک سامنے کوئی آئے گا اور اسلحے کے زور پر جو کچھ ہے اُسے چھین لے گا یہاں تک کہ جان بھی۔


اہل کراچی نے ایسا وقت بھی دیکھ چکے کہ جرائم پیشہ عناصر اتنے طاقت ور تھے کہ سیکورٹی اداروں کی 200ا فراد کی نفری بھی مخدوش علاقوں میں داخل نہیں ہوسکتی تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جرائم پیشہ عناصر کے خلاف قانون نافذ کرنے اداروں کی ماضی میں خدمات بھی قابل قدر رہی ہیں، مگر کراچی میں پولیس اور رینجرز کے کریک ڈاؤن سے حاصل شدہ نتائج خاصے مایوس کن رہے اور دیکھتے دیکھتے ایک بار پھر بیشتر علاقے جرائم کا گڑھ بنتے جارہے ہیں، جرائم کی سرکوبی کے لئے جدید خطوط پر موثر حکمت عملی اپناتے ہوئے شہر کراچی کے مکینوں کو اپنے گھروں کے دروازوں پر محفوظ ہونے کی تدبیر کرنی چاہے، ورنہ سماجی انحطاط، سیاسی کشیدگی، لسانی عصبیت کے وتیرے اور اسٹریٹ کرائم کے ظلم و بربریت کے نتیجے میں قانون پر رہا سہا اعتماد بھی ختم ہوسکتا ہے۔
سٹریٹ کرائم بھی دہشت گردی کی ایک بھیانک شکل ہے، یہ حقیقت ذہن نشین کرنی چاہے کہ جرم کوئی بھی ہو اگر مضر اثرات معاشرے کے ہر طبقے پر پڑتے ہوں اور ہر ذی حس متاثر ہوتا ہو تو تحمل، تدبر، مثالی جذبہ سرفروشی، پیشہ وارنہ استعداد و مہارت اور عوام کی جان و مال کے تحفظ اور ریاستی سلامتی سے کمٹمنٹ ضروری ہے، وقت کم ہے جب کہ مجرمانہ کاروائیوں کی سرکشی عروج پر ہے۔ سیاسی جماعتیں تو حکومت بچانے اور گرانے تک ہی جیسے محدود ہوگئی ہیں، اس تشویش ناک دورانئے میں ملکی معاشی شہ رگ کو اسٹریٹ کرائم سے ناقابل تلافی نقصان ہورہا ہے۔ اس کا سدباب قانونی کی حکمرانی قائم کرکے ہی کیا جاسکتا ہے۔ یہ سب کچھ جمہوری عمل کی راہ میں بھی سب سے بڑی رکاؤٹ ثابت ہوئی ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ جہاں جرائم پیشہ ہوں وہاں ان پر قہر بن کر فورسز نازل ہوں تب ہی جرائم کا خاتمہ اور عوام کے جان و مال کا تحفظ ممکن ہوسکے گا۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57488

دھڑکنوں کی زبان -“ایک مثالی استاد پنشن پہ جارہا ہے” -محمد جاوید حیات

اساتذہ معاشرے کا وہ طبقہ ہے جو انگلیوں کے اشارے پہ ہوتا ہے ایک لحاظ سے محسن، ایک لحاظ سے معصوم، ایک لحاظ سےذمہ دار طبقہ ہے۔اس کا کام یا اس کو عظیم بناتا ہے یا ملزم و مجرم ۔کیونکہ اس کے ہاتھ میں قوم کی منزل ہوتی ہے انسانیت کا تاج محل ہوتا ہے فرد کی تربیت اور انسان کا معیار ہوتا ہے استاد کے پاس دنیا نہیں ہوتی۔ عہدہ نہیں ہوتا پروٹوکول نہیں ہوتا ۔ایک روشنی ہوتی ہے جو اس کی آنکھوں سے شاگردوں کی آنکھوں پہ پڑتی ہے ایک کرن جو اس کے دل سے نکل کر شاگرد کے اندر کی دنیا کو منور کر دیتی ہے ۔ناصر استاد ان اساتذہ میں شمار ہوتے ہیں جو واقعی قوم کا محسن ہے ۔ناصر احمد یکم فروری 1962ء کو تورکھو کے مشہور گاوٴں شاگرام میں پیدا ہوئے ۔

آپ کے ابو حبیب صوبیدار اپنے زمانے کی نامی گرامی شخصیت تھے بہت متمول خاندان تھا گھر میں پولو کے لیے گھوڑا ۔شکار کے لیے کتا ۔باز اور نوکر چاکر ۔۔۔گھرانا بھرا پورا تھا ۔مہمان آتے محفلیں سجتیں ۔گاوں کے ضرورت مند آکر اپنی ضروریات پوری کرتے ۔ناصر احمد ناز ونعم میں پلے۔ سکول گاوٴں سے پڑھا ۔ہائی سکول شاگرام سے میٹرک کیا ۔پھر مذید تعلیم حاصل کرنے پشاور سدھارے ۔پڑھائی مکمل ہوئی تو استاد بنے ۔روایتی نہیں ہمہ جہت استاد ۔۔کھیل کا میدان ہو ۔تربیت کی بھٹی ہو۔ بچوں کی مدد امداد کا موقع ہو۔۔۔ ناصر استاد آگے آگے رہے ۔بچوں کا یہ کاروان ان کے پیچھے پیچھے رہا ۔

ناصر استاد نے چترال کے اچھے خاصے اداروں میں کام کیا جن میں چترال کے مشہورو معروف تعلیمی ادارہ گورنمنٹ سنٹینیل ماڈل ہائی سکول سرفہرست ہے جہان آپ نے کئی سال گزارے اور شاگردوں کا ایسا گھیپ چھوڑا جو آپ کی زندگی کا سرمایہ ہیں ۔ناصر استاد خود ہمہ جہت ہیں ۔پولو سے لے کر ان ڈور گیم کریم تک امتیازی حیثیت سے کھیلتے ہیں اور اپنی ثانی نہیں رکھتے ۔ ناصر استاد نے بڑےپسماندہ دور میں علم کا چراغ جلایا ہے اور قوم کے محسن ٹھرے ہیں ۔ملازمت کے آخری دور اپنے مادر علمی ہایر سیکنڈری شاگرام میں گزارے اور یکم فروری 2022ء کو پنشن پہ جائے گا ۔ناصر استاد سماجی کارکن رہے ہیں ۔

عوام کے دکھ درد میں اور سماجی کاموں میں آگے آگے رہے ہیں ۔ان کو شاگردوں سے والہانہ محبت ہے اس لیے شاگرد اس کے ارد گرد پروانوں کی طرح منڈلاتے ہیں ۔ ناصر یار باش ہیں ۔بڑا دسترخواں رکھتے ہیں مہمان نواز ہیں ۔خوش خوراک اور خوش لباس ہیں ۔ بزلہ سنج اور سوشل ہیں ۔طبیعت میں خاکساری اور ملنساری ہے ۔دریا دل ہیں ۔ اس جیسا استاد پھر اس قوم کو شاید ملے ۔وہ سکول نہیں آئینگے لیکن استاد نہ برا ہوتا ہے نہ پنشن پہ جاتا ہے وہ قوم کے لیے مینارہ نور ہوتا ہے ۔۔۔

مجھے اساتذہ سے محبت ہے اس لیے کہ ان کی خدمات قابل تحسین ہوتی ہیں ان کو بھلایا نہیں جا سکتا ۔۔شاید پھتر کا معاشرہ ہو کہ وہاں پر استاد کا مقام نہ ہو ۔۔ناصر جیسے استاد اپنے الگ مان رکھتے ہیں اور ایڈنٹیٹی بھی ۔۔محکمہ تعلیم ایک نابعہ روزگار سےمحروم ہو رہا ۔۔ اللہ ان کو عمر نوح عطا کرے

nasir ahmad teacher
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
57485

وادی شوغور چترال ۔ مہجور زیست ۔ تحریر: دلشاد پری چترال

شوغور کا خوبصورت گاؤں ضلع چترال لوئر میں واقع ہے۔ یہ اپنے الگ تھلگ جائے وقوع اور قدرتی حسن کی وجہ سے ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔یہ اونچے پہاڑوں اور دریاؤں سے گھیرا ایک ایسا علاقہ ہے جس کو قدرت نے اپنے لازوال نعمتوں ا ور قدرتی وسائل سے مالامال کر دیا ہے۔ایک طرف یہ جنت نظیر وادی قدرتی سبزیوں، پھلوں اور پھولوں سے بھرا پڑا ہے تو دوسری طرف اونچے پہاڑ اور نیلے دریا اس کو اپنی لپیٹ میں لے رکھے ہیں۔جب کوئی انسان بے حد اداس ہو اور ذہنی سکون حاصل کرنا چاہے تو وہ ان دریاؤں کے کنارے بیٹھ کر ان بیکراں بلند بالا پہاڑوں اور قدرتی مناظر سے محو گفتگوہو کر ہر غم سے ازاد ہو سکتے ہیں۔

chitraltimes shoghore chitral lower 1

گاؤں کا منظر عجیب دلفریب ہے ۔ریت ہو پتھریلا چٹان یا پہاڑ اس کے ذرے ذرے سے بنی نوع انسان مستفید ہو سکتا ہے۔دور دراز سے لوگ اسی علاقے میں روزگار کی تلاش میں آتے ہیں اور معدنیات سے مالامال ان پہاڑوں پہ بسیرا کرکے اپنی روٹی کمانے کا ذریعہ ڈھونڈتے ہیں۔اس کے پہاڑوں پہ جنگلی جانور اور پرندے جن کویہ اطمینان ہے کہ یہاں کے لوگ ان کی حفاظت کرنا جانتے ہیں اسلئے بلاخطر اور بلاخوف اچھل کود کرتے اور ٹہلتے رہتے ہیں۔

chitraltimes shoghore chitral lower 4

علاقے کے لوگوں کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ آ س پاس جو بھی غریب ہو اس کے گھر کا چولھا جلانے میں سب پیش پیش رہتے ہیں،اگر کوئی یتیم بچہ زیر تعلیم ہو تو اس کے تعلیمی اخراجات سب ملکر پوری کرتے ہیں اور فخر کی بات یہ ہے کہ آج کے اس نمائش کے دور میں بھی لینے والے کو پتہ ہی نہی چلتا کہ میرے یہ تمام اخراجات پورا کر کون رہاہے اور دینے والا بھی اپنا نام صیغۂ راز

میں رکھتا ہے۔اگر کسی بات پہ ان کا اختلاف پیدا ہو آپس میں کوئی مسئلہ پیدا ہو تو گاؤں کے لوگ تھانہ انے کی بجائے گھر کے اندر ہی اس کو مل بیٹھ کر حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

chitraltimes shoghore chitral lower 6

اگرچہ اس علاقے کے لوگوں کو چیلنچ بھی بہت ہیں۔راستے کی دشواری،تنگی اور ویرانی بھی اس علاقے کے لوگوں کی ہمت اور جذبے کی راہ میں رکاوٹ نہی ڈال سکے یہی وجہ ہے کی یہاں کے لوگ تعلیمی میدان میں بھی بہت اگے نکل چکے ہیں۔ اس علاقے نے ملک کو بہت اہم شخصیات عنایت کئے ہیں۔ اس علاقے کی بیٹیاں بھی کسی سے کم نہیں۔نامور کھلاڑی کرشمہ علی ہو یا ڈاکٹرلاریب صادیقہ۔۔۔جو کہ غریبوں کی مدد کرنے میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کر رہے ہیں۔اساقال بیگال کے نام سے کون واقف نہیں پولو کے اس نامور شخصیت کا تعلق بھی اسی علاقے سے تھا۔

chitraltimes shoghore chitral lower 2


اہم مذہبی پیر شاہ کوئی والی شاہ کی زیارت بھی حسن آباد شغور میں واقع ہے۔اس علاقے کے لوگ انٹرنیشنل بزنس میں بھی اپنی محنت کے بل بوتے پر نام کما چکے ہیں انور آمان جیسی شخصیت کو کون نہیں جانتا اس کا تعلق بھی بشگرام کریم اباد سے ہے جوکہ شغور کا ایک چھوٹا علاقہ ہے۔۔


سب سے ذیادہ سبزیاں اور پھل اس علاقے سے پاکستان کے دوسرے حصوں کو بیجا جاتا ہے۔ شاہ شاء کا گرم پانی جو ٹاؤن چترال کو مہیا کی گئی ہے وہ بھی شغور کے ایک علاقہ شاشاء کے مقام میں موجود گرم چشمہ کے پانی سے مہیا کی گئی ہے۔ چترالیوں کے چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ بکھرنے والی مزاحیہ شخصیت گل اکبر کا تعلق بھی اسی علاقے پرسان شغور سے ہے۔


سیاحوں کی توجہ کا مرکز اس علاقے کی سڑکوں کی مرمت اور تعمیر پر توجہ دیا جائے توجہ دیا جائے تو وہ دن دور نہی جب یہ علاقہ پاکستان کا پیرس بن جائے۔

chitraltimes shoghore chitral lower 3
chitraltimes shoghore chitral lower 7
chitraltimes shoghore chitral lower 5
Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
57462

طرز زندگی – تحریر شمع باسط

ہم لوگوں نے زندگی کے رہن سہن کو اس قدر مشکل بنا لیا ہے اور بناوٹ کو ضرورت سے کہیں زیادہ اہم کر لیا ہے کہ بس  بات بات پر زہنی مسائل کا شکارہو جاتے ہیں  ڈپریشن میں چلے جاتے ہیں ہماری کوشش ہوتی کہ بس اب  کوئی سکون آور گولیاں ہوں ہم کھا لیں تا کہ سب جھنجٹوں سے جان چھڑا سکیں اور بے شمار لوگ ان دواوں کا ستعمال کرتے ہیں آپ یقین کیجئے کہ ان دواوں کا ستعمال دن بہ دن بڑھ رہاہے  اور  ہماراموڈ مزاج تو  چشم زدن یوں  خراب ہوتا ہے جیسے موڈ ہم نے چائینہ کالگوایا ہو برداشت بالکل ناپیدہوگئی  ہے ہمارا یہ رویہ ہمیں دیکھنا پڑے گا کہ کیوں ہے  کیوں ہم کسی بڑے کی پند سننے کو تیار نہیں ہیں اور کسی کی کامیابی وکامرانی سے بھی لوگ حسد کا شکارہو جاتے کیا اللہ کی تقسیم پہ بھی  ہمارا اعتقاد نہیں رہا ہمیں بڑے دل سے اس بات کو قبول کرنا چاہیے کہ رب کی دین ہے وہ جسے چاہے نوازے مگر لوگ بلا وجہ حسد کی آگ میں جلنے لگتے.

دوسرے کی قابلیت اور طاقت سے  پریشانی میں آجاتے ہیں اور جن لوگوں کے پاس اللہ کا دیا سب کچھ وافرہے انکو بھی چاہیے کہ کسی حساب کتاب سے معاشرے میں چلیں بے جا اسراف سے اور دولت کے دکھاوے سے دوسروں کا جینا مشکل اور حرام نہ کر دیں.جیسا کہ اب پاکستان میں ڈینگی سیزن کے بعد شادیوں کا سیزن ہے تو یہ قوم جو مہنگائی کا رونا روے جا رہی ہے اس قوم کی تقریب شادی  میں جب آپ شریک ہوں تو آپکو با طریق احسن احساس ہو جاے گا کہ اس قوم کو آلو خریدتے ہوے تو مہنگائی بہت ذیادہ لگنے لگتی ہے جبکہ لاکھوں روپے کے بے جا اسراف سے جب شادیوں کی تقریبات پہ اندھا پیسہ خرچ کرتے ہیں تب مہنگائی نہیں ھوتی جب غربا کی بیٹیوں کو کھلے منہ آپ لوگ یہ احساس دلواتے ہیں کہ امیر کیا ھوتا اور غریب کیا.. مڈل کلاس طبقہ بیچارہ تو امرا کے چونچلوں میں پھس گیا ھے اس احساس کمتری نے لوگوں کو ذہنی مریض بنا دیا ھے.

آج کل شریف خاندان کی شادی چرچا میں ھے جسکو دکھا دکھا کر سوشل میڈیا پر ہر انسان کو احساس کمتری کا شکار کیا جا رھا ھے ویسے تو سبکو اس بات کا پتہ ہی ہے کہ چوری کا کپڑا ھو تو گز بھی ڈانگ کا ھوتا…شریف خzاندان کی شادیاں تو ایسے ہی سرانجام پانی سمجھ تو گئے ھونگے..مگر ہمیں تو اس بات کا ووٹ کاسٹ کرتے ھوے قوی امکان تھا کہ اب قانون برابر ھوگا اور ہر طرف یکساں رائج بھی مگر سنا ھے کہ بتیس ڈشیز پکی ہیں.لیٹ نائٹ فنگشن جاری رھے اور کسی نے نہیں پوچھا پکڑا. اب ہم بس یہ دعا کرتے ہیں کہ اب تو چوتھا سال شروع  خان صاحب کی حکومت کو اب تک اللہ کرے کہ انکو یقین آجائے کہ وہ حکومت میں ہیں اور وزیر اعظم بھی. تاکہ کوئی ایک آدھ وعدہ تو پورا کریں جو وزیر اعظم بننے سے قبل کیے تھے.اور خدارا جہیز پہ پابندی لگائی جائے  یہ کینسر اس غریب اور متوسط طبقے کو پاگل کر دے گا  جہیز غریب کی بیٹی کی خوشی کھا گیا ھے متوسط طبقوں سے بیٹی بیاہنے کہ خوف سے مسکراہٹیں چھن گئی ہیں.

جو لڑکی کم جہیز لے کے جاتی ھے اسکا گھر نہیں بستا سسرال والے اسکی جان تک لینے سے گریز نہیں کرتے جہیز جیسی شے پر حکومت کی طرف سے سخت پابندی ھونی چاھییاور خلاف ورزی پر بھاری جرمانے.تاکہ لوگوں کو اس بات کا احساس دلوایا جا سکے کہ لڑکیاں  خود بھی قیمتی ھوتی ھیں صرف قیمتی چیزیں سامان اور سونا چاندی  ساتھ لانے پر ہی انہیں عزت نہ دیں بطور انسان اور گھر کے فرد کی حثیت سے بھی انکی قدر کرنا سیکھیں ایک بیٹی کی اہمیت کا اندازہ صرف اسکے والدین ہی کو ہوتا ہے کہ وہ کتنی قابل ھے  سسرال میں تو بس وہ شائد کام والی کی حثیت سے ہی جاتی ھے اس رویے کو بدلنا ھے اپنی بہو کو بھی ویسی ہی اہمیت دیں جیسی بیٹی کو ھے اور پتہ نہیں ایسا کیوں ھے کہ ہمارے معاشرے میں جس گھر میں لڑکی جہیز نہیں لاتی بعض اوقات ان کو کوئی مسئلہ نہیں ھوتا بلکہ محلے دار اور معاشرے والے منہ جوڑجوڑ کہانیاں گھڑنے لگتے ہیں اور اس طرح بھی گھرٹوٹنے لگتے ہیں اور والدین بیاہنے کہ بعد پھر بیٹی کو بسانے میں لگ جاتے ہیں اور کیا ہی بہتر ھو کہ ہم دوسروں کو دیکھنے کی بجائے  انکی خامیوں پر نظر رکھنے کی بجائے اپنی اصلاح پہ توجہ دیں.اور جو لوگ شادیوں پر بے جا اسراف کرتے ہیں انکو دیکھ کر پریشان یا غمگین ھونے کی بجائے جو آپ کے پاس ھے اسکے مطابق خوش رہنا سیکھیں.

آپ یقین کیجیے ھو سکتا ہے کہ جو آپ کے پاس ھے ان کے پاس نہ ھو. کیونکہ دنیا دکھوں کا گھر ھے کسی کے ظاہری آرام وآسائش سے اس بات کا اندازہ مت لگائیں کہ وہ پر سکون بھی ھیاور خوش بھی ویسے بھی پنجابی کی کہاوت ھے کہ (تسیں کسے اگے بک رووگے تے اگلا بندہ چھج رووے گا)..آپ اپنا احاطہ کریں آپکو کیا چیز خوشی دیتی ھے اسکے مطابق اپنے مزاج کو آرام دہ رکھیں.بیشک لوگ دکھاوا کرنے کو بہت اہمیت دیتے ہیں.جب تعلیم اور تربیت کی کمی ھوگی اور کوئی ہنر کوئی خوبی نہیں ھوگی اور صرف جیب میں پیسہ ھی پیسہ ھوگا تو پھر انسان اسی کا دکھاوا کرے گا مطلب کہ جس کے پاس جو چیز ھوگی وہ اسکا ہی دکھاوا کرے گا لہذا اپنی خوشیوں کو دل سے خوش ھو کہ منائیں ناکہ دوسروں کے رحم و کرم پہ چھوڑ دیں.دور کیا جانا ھے آج کل کسی شادی میں دیکھ لیں..  شادی کی تقریب بھی دلہا دلہن کے لیے بناوٹ کے سوا کچھ نہیں رھی سب لوگ دلہا دلہن کو اسوقت سلامی دینا پسند کرتے ہیں جب کیمرہ مین مووی بنا رھا ھو.. 

شادی کی تقریب میں دلہا دلہن کو مووی میکر اور کیمرہ مین کے رحم وکرم پہ چھوڑ دیا جاتا ھے وہ کہتا ھے کہ اب سانس لیں تصویر بنانی ھے دلہا اور دلہن سانس لیتے ہیں پھر وہ حکم دیتا فلم بنانی سانس روک لیں..اوہ یار حد ھوگئی کیا ھے یہ سب…کیا ہمارا کلچر یہ ھے ان سب فضولیات سے نکلیں جو آپکا اپنا دل چاھتا وہ کریں.آپ یقین مانیں کہ جو خواتین عام حالات میں گھر گھر جا کر لوگوں کی بہو بیٹیوں کو اسلام کے درس دیتی ہیں پردے کی اہمیت اور نہ محرموں سے مکمل طور پر حجاب کے بارے آگاہی دیتی ہیں اور سمجھانے والے کو کسی نہ کسی طرح یہ باور کرواتی ہیں کہ وہ تقریبا کافر  ہی ہیں وہ خود کیمرے کے آگے آگے رہتی ہیں دوہرے معیار سے خدارا باہر نکلیں اور اپنے اور دوسروں کے لیے مخلص رہیں ان بناوٹی اور دیکھا دیکھی کی چمک دمک میں مت پڑیں اپنی زندگی کو سادہ بنائیں تاکہ آپکی وجہ سے کوئی دوسرا احساس کمتری میں مبتلا نہ ھوجائیآپ کے اس احسن اقدام سے نہ صرف آپ کے لیے آسانیاں پیدا ھونگی بلکہ دوسروں کے لیے بھی آپ مشعل راہ کا کام کریں گے اور بناوٹ جیسے مرض سے ہمیں جس قدر ھو سکے بچنا چاھیئیتاکہ ہم اپنی اصل کو پہچان سکیں حقیقی خوشی باعث سکون قلب ھوتی ہے جھوٹی بیکار اور دکھاوے کی مسرت سواے پریشانی کے کچھ نہیں دیتی ہیں لہذا خود کو پہچانیں اور بطور انسان اپنے حصے کی حقیقی دلی اور دماغی خوشیاں سمیٹیں 

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
57457

بزمِ درویش ۔ پچیس سال بعد ۔ تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

پچیس سال پہلے کا امیر زادہ تیز طرار خوبصورت منچلہ عاشق جسم میں مختلف بیماریوں کی سرنگوں کے ساتھ بڑھاپے کی چادر اوڑھے میرے سامنے بیٹھا تھا میری اُس سے آخری ملاقات پچیس سال پہلے مری میں ہوئی تھی جب یہ طاقت جوانی دولت چالاکی کے ساتھ اپنی محبوبہ کے ساتھ عیاشی کرنے مری آیا تھا میں پچیس سال کے خوفناک فرق کو حیران نظروں سے دیکھ رہا تھا وقت کا غبار اِس کو خوفناک طریقے سے چاٹ گیا قافلہ شب و روز نے اِس کو ٹوٹے پھوٹے کھنڈر میں بد ل کر رکھ دیا تھا میں خود اب زندگی کے اُس دور میں ہوں کہ بیس پچیس سال پہلے کے کردار اب زوال کے بعد جب میرے سامنے آتے ہیں تو گردش ِ ایام کی ہلاکت آفرینی کو دیکھ کر عبرت کے احساسات رگوں میں دوڑنے لگتے ہیں جوانی طاقت دولت اقتدار اور شیطانی ذہانت کے بل بوتے پر جنسی حیوانوں درندوں کو جب میں زوال اور بڑھاپے کی گرد میں لپٹا دیکھتا ہوں تو ایک ہی حقیقت سامنے آتی ہے کہ زوال صرف خدا کو نہیں ورنہ کرہ ارضی پر نمودار ہونے والی ہر چیز کو زوال اور فنا کا زھر پینا پڑتا ہے.

میری جوانی کے ایام میں جن لوگوں کو میں فرعون بنا انسانوں کو کیڑے مکوڑوں کی طرح روندتا دیکھتا تھا جو اِس زعم میں گرفتار تھے کہ یہ شہنشا ہٹ جوانی رنگ و روپ ہمیشہ اِن کے پاس رہے گا لیکن سالوں بعد جب ایسے کردار سامنے آتے ہیں اور ان کی جگہ نئے کردار اچھلتے کودتے پھدکتے نظر آتے ہیں تو حیرت سے سوچھتا ہوں کہ آج کے فرعونی درندے شیطان انسان یہ بھولے ہوئے کہ چند عشرے پہلے یہاں آپ جیسے ہی چالاک عیار انسان اپنی عیاشیوں میں غرق تھے لیکن وقت کی دیمک نے انہیں پتہ بھی نہیں چلنے دیا کب وہ جوانی سے بڑھاپے کے ریگستان میں اُتر گئے جب اِن کو شکست خورندہ زوال میں غرق انسان دیکھتا ہے تو خدا کی قدرت اور لاٹھی بے آواز کی حقیقت سامنے آتی ہے کہ وقت کتنی خاموشی سے دولت اقتدار جوانی سر خی چھین کی بد شکل بوڑھا بنا دیتا ہے پھر جب ایسے لوگوں کے جسموں میں مختلف بیماریاں سرنگیں بنا کر بڑھاپے کے عمل کو اور تیز کر تی ہیں تو اِن کو ہوش آتا ہے کہ اب وقت اُن کا نہیں رہا بلکہ اِن کی جگہ اور لوگ آگئے ہیں ایسا ہی کردار میرے سامنے بیٹھا تھا پچیس سال بعد جب میرے سامنے آیا تو میں بلکل بھی پہچان نہ پایا بلکہ یہ بھی دوسرے ملاقاتیوں میں کھڑا انتظار کر رہا تھا سر پر گرم ٹوپی ہاتھوں میں گرم دستانے گلے میں گرم مفلر گرم چادر لپیٹے یہ لڑکھڑا تا ہوا میری طرف بڑھا میں چہرے جسمانی حرکات اور چال سے ہی پہچان گیا تھا کی کسی شدید بیماری میں مبتلا ہے کیونکہ چہرے اور آنکھوں پر زندگی کی بجائے زردی کے تاثرات واضح تھے

چال بھی ایسی جیسے خود کو گھسیٹ رہا ہو۔ اُس کی کمزور چال اُس کی بیماری اور خستہ حالی کا نظارہ پیش کر رہی تھی کسی پراسرار بیماری کی وجہ سے زندگی سے مکمل مایوس ہو چکا تھا میرے قریب آکر بولا جناب میں گردوں کا مریض ہوں بلکہ میرے گردے خراب ہو کر کام چھوڑ چکے ہیں میں نے آپ سے ملنے کے بعد ہسپتال ڈائیلسیز کرانے جانا ہے اگر وقت پر گردوں کو واش نہ کیا گیا تو زہر میرے جسم میں پھیل کر مجھے قبر میں دھکیل دے گا اِس لیے پلیز مُجھ سے پہلے مل لیں میں حالت زار دیکھ کر فوری متوجہ ہوا آئیں آپ پریشان نہ ہوں میں آپ کی بات پہلے سنتا ہوں پھر میں اُس کو لے کر بینچ پر بیٹھ گیا اور درد بھرے میٹھے لہجے میں بولا جناب بتائیں میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں تو وہ بولا جناب میں بلڈ پریشر اور شوگر کا پرانا مریض ہوں اِن دونوں بیماریوں نے میرے گردوں کو کھا لیا ہے اب تو جگر بھی فیل ہو تا جا رہا ہے گردوں نے کام کرنا بند کر دیا ہے جگر کی چربی بھی خطرناک حدوں کو چھو رہی ہے اِن بیماریوں کی وجہ سے میں اب صرف ابلی سبزیاں ہی مشکل سے کھاتا ہوں

نمک مصالحے گھی والی چیزیں میرے جسم میں زہر بن جاتی ہیں چکنائی کو زائل کرنے کا میرا اندرونی نظام فیل ہو چکا ہے اِس لیے میں دن بدن کمزوری کی غار میں گرتا جا رہا ہوں آپ کوئی دم دوا کر یں کہ میرے اندرونی نظام کام کرنا شروع کر دیں میرے جسم میں زہر بننا بند ہو جائے خوراک ہضم ہو کر جز بدن بننا شروع ہو جائے تاکہ زندگی کی دوڑ کو تھوڑا طویل کیا جاسکے لیکن دنیا جہاں کے علاج کروانے کے بعد بھی میرا جسم مٹھی میں ریت کی طرح گرتا ہی جارہا ہے اب کام کاج بھی بیماریوں کی وجہ سے چند سالوں سے بند پڑا ہے جو جمع پونجی تھی وہ بھی ختم ہو گئی ہے آخری گھر بچا تھا زندگی کی گاڑی کو چلانے کے لیے اُس کو بیچ کر کرائے کے گھر میں شفٹ ہو گیا ہوں اگر میں صحت مند نہ ہوا تو علاج پر یہ سرمایہ بھی ختم ہو جائے گا پھر میں کسی لنگرخانے یتیم خانے یا فٹ پاتھ پر آخری سانسیں دے دوں گا سر میری صحت کے لیے خاص دعا کریں اُس کی باتیں اور حالت دیکھ کر میں بھی دکھی ہو گیا میں نے اُسے حوصلہ دیا پڑھنے کو کچھ بتا یاتو وہ تھوڑی دیر بعد جب جانے لگا تو بولا پروفیسر صاحب آپ نے شاید مجھے پہچانا نہیں تو میں بولا جناب آپ کی آواز سے مجھے شک گزرا کہ ہم پہلے مل چکے ہیں لیکن معذرت چاہتا ہوں

آپ کو نہیں پہچان سکا تو میرے گلے لگ گیا بار بار معافی مانگی اور درخواست کی کہ اللہ سے میرے لیے معافی مانگیں پھر روتے ہو ئے بولا سر میں تیمور سلطان پچیس سال پہلے آپ کے پاس مری رہنے آیاتھا تیمور سلطان کے نام کے ساتھ ہی میری یادداشت کی دھند چھٹتی چلی گئی اور پچیس سال پہلے کا جوان عاشق یاد آگیا جو میرے کسی دوست کے کہنے پر اپنی نئی نویلی دلہن کے ساتھ مری آیا تھا رات کو جب دونوں میاں بیوی کی لڑائی ہوئی تو میں نے مداخلت کی تو اِس کی بیوی روتے ہوئے بولی سر یہ ہمارا بچہ ضائع کرا نا چاہتے ہیں آپ اِن کو سمجھائیں۔ میں تیمور کو لے کر اپنے کمرے میں آگیا تو یہ بولا جناب مجھے آپ سے کوئی ایسا تعویز چاہیے کہ جس عورت کے گلے میں ڈال دوں وہ حاملہ نہ ہوسر میں عیاش آدمی ہوں کس کس کے بچے اپنے کھاتے میں ڈالوں ابھی میرا عیاشی کا موڈ ہے چند سال بعد بچوں کے بارے میں سوچوں گا مجھے اِس کی یہ بات بہت بری لگی سمجھایا لیکن اِس نے میری کوئی بات نہ مانی پھر دودن بعد یہ چلا گیا چند دن بعد اِس کی بیوی کا مجھے فون آیا سر تیمور نے میرا بچہ ضائع کر ا کے مجھے طلاق دے دی ہے سر یہ بہت عیاش چالاک ہے مختلف لڑکیوں کو اپنے جال میں پھنسا کر عیاشی کر تا ہے جو اِس کی بات نہ مانے اُس کے ساتھ شادی کر کے چند ماہ بعد اُس کو چھوڑ دیتا ہے یہ بچوں کے خلاف ہے سر اِس نے بہت ساری لڑکیوں کی زندگی خراب کی ہے سر اِس نے مجھے بر باد کر دیا آج پچیس سال بعد میری اِس سے ملاقات ہوئی تو میں نے پوچھا تیمور تم نے اصل شادی کی کوئی بچہ ہوا تو زارو قطار روتے ہوئے بولا میں نے چار شادیاں کیں لیکن جب میں نے چاہاپھر ایک بھی بچہ نہ ہوا قدرت نے مجھے سزا دی میں بچوں کو ضائع کراتا رہا پھر قدرت نے مُجھے یہ نعمت نہ دی پھر تیمور چلا گیا اور میں قدرت کے انتقام کے بارے میں سوچھنے لگا کہ کس طرح انسان کو نشان عبرت بنا دیتی ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57455

عصری دنیا میں مسئلہ کشمیر کی حیات نو-پروفیسر عبدالشکور شاہ

دہائیوں پر محیط مسئلہ کشمیر علاقائی امن، باہمی تجارت، ہم آہنگی، جمہوریت کی پائیداری، استحکام اور خوشحالی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔جنوبی ایشیاء میں امن کے بغیر عالمی امن قائم کرنا دنیا کو بند گلی میں دھکیلنے کے مترادف ہے۔اکیسویں صدی نے شعبہ ہائے زندگی کے ہر میدان میں روائیتی طریقوں کو پس پشت ڈال کر انہیں جدید خطوط پر استوار کیا۔ لہذایہ وقت کی عین ضرورت ہے کہ ہم مسئلہ کشمیر کو بھی عصری تقاضوں کے مطابق ڈھالتے ہوئے تحریک آزادی کشمیر کی حیات نو کا فریضہ سر انجام دیں۔ محکوم و مظلوم کشمیریوں کی آواز کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق عالمی سطح پر اٹھانے کے لیے ہمیں روائیتی طریقوں کے بجائے غیرروائیتی طریقوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے حصے کا کام سر انجام دینا ہو گا۔ اگر ہم نے اپنی سات دہائیوں سے زیادہ عرصے پر محیط روائیتی روش نہ بدلی تو ہم تحریک آزادی کشمیر کو شدید نقصان پہنچانے کے مرتکب ہو ں گے۔

دنیاوی بدلاو کے ساتھ ساتھ نظریات و تفکرات بھی تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں۔اب وقت آن پہنچا ہے کہ ہم مسئلہ کشمیر کے لیے عملی اور ٹھوس اقدامات کرتے ہوئے کشمیریوں کے حق خودارادیت کی آواز کو عالمی دنیا تک موثر انداز میں پہنچائیں۔یہ وقت کا اہم ترین تقاضہ ہے کہ ہم ماضی کی کوتاہیوں سے سبق سیکھتے ہوئے مسئلہ کشمیر کو عصری تقاضوں کے مطابق جدید سمت کی طرف موڑیں۔ ہمیں اس بات کا ادراک ہونے کے ساتھ ساتھ تسلیم کرنا پڑے گا کہ کشمیر پر موجود زیادہ تر مواد بھارتی ورژن پر مشتمل ہے۔ ہمیں جذباتیت  بھنور سے نکل کربھارتی پروپگنڈہ کا ہر رسمی اور غیر رسمی پلیٹ فارم پرمنہ توڑ جواب دینا ہو گا۔ بھارت مسئلہ کشمیر کو خراب کرنے کے لیے متعدد ویب سائیٹس اور پورٹلز چلا رہا ہے جہاں سے غیر محسوس انداز میں نسل نو کے اذہان کو خراب کرنے کی مذموم کوشش میں برسرپیکار ہے۔

ہمیں یہ تلخ سچائی تسلیم کرنا ہو گی کہ ہم اس ضمن میں بھارت سے کہیں پیچھے ہیں۔ ہم نے کشمیر کے حوالے سے بھارت کے لیے کھلا میدان چھوڑ دیا ہے۔ کشمیر لبریشن سیل جس کا قیام 1987میں عمل میں لایا گیا اور یہ ملک بھر میں مختلف مراکز کی موجودگی کے باوجود سیاست زدہ ہے۔ اسے مسئلہ کشمیر اجاگر کرنے کے بجائے سیاسی بھرتیوں اور سیاسی رشوت ستانی کے ساتھ ساتھ مل کر عوامی ٹیکسوں کے پیسے سے نوازشات کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔کشمیر لبریشن سیل کے تمام مراکز سیاسی نوازشات، اقربہ پروری، من پسند افراد کو نوازنے اور افسران کی چاپلوسی اور خوشامدکے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ ان مراکز کے قیام سے لیکر اب تک کسی نے اس ادارے کا آڈٹ کرنے کا حکم صادر نہیں کیا۔ یوں شتر بے مہار یہ ادارہ سال میں 22رسمی پروگرامات کے علاوہ عوامی ٹیکسوں کا پیسہ ہڑپ کرنے کا موجب بن چکا ہے۔

پروگرامات کے نام پر پیٹ پوجا اور چند اخباری تراشوں کے علاوہ اس کا کام صفر ہے۔ اگر ہم واقعی تحریک آزادی کشمیر سے مخلص ہیں تو ہمیں کشمیر کے نام پر بننے والے تمام ادارہ جات کو فی الفور غیر سیاسی بنانا ہو گا اور انہیں من پسند اور انفرادی مفادات کے بجائے کشمیری مفادات کے لیے چلانا ہو گا۔ یہ وقت کا عین تقاضہ ہے کہ ہم کشمیر پر بھارتی پروپگنڈہ کا جواب دینے کے لیے خالصتا میرٹ کی بنیاد پر موثر یونٹس قائم کریں نہ کہ اپنے رشتہ داروں اور سیاسی ورکرز کو کشمیریوں کے ٹیکسوں پر نوازیں۔ نئی نسل تاریخ کشمیر اور مسئلہ کشمیر سے مکمل طور پر لا علم ہے۔ کیوں نہ ہو جب کسی قوم کو اس کی تاریخ سے تاریک رکھا جائے گا تو پھر گونگے بہرے کشمیری ہی جنم لیں گے۔ کشمیر کے بہترین مفاد میں تاریخ کشمیر کو نصاب کا لازمی حصہ بنایا جائے اور کشمیر ی زبانوں کی ترویج کے لیے انہیں بطور مضمون شامل کیا جائے۔ ہم ایک نیم معذورشعبہ کشمیریات قائم کر کے اپنے ضمیر کو مطمئن نہیں کر سکتے جہاں آٹے میں نمک کے برابر طلبہ کشمیری جذبے کے بجائے نوکری کے جذبے کے تحت داخلہ لیتے ہیں۔ دنیا تیزی کے ساتھ تحقیق کی طرف منتقل ہو رہی ہے جبکہ اس حوالے سے کشمیر پر ہمارا کام ایک سوالیہ نشان ہے۔

کشمیر پر دستیات آن لائن مواد یا تو بھارتی مصنفن کا ہے یا انہوں نے انگریز مصنفین کو معاوضہ دے کر لکھوایا ہوا ہے۔ یوں ہم نے پبلیکیشن کا میدان بھی بھارت کے لیے کھلا چھوڑ اہوا ہے۔ حکومت اور کشمیر کے نام پر بننے والے اداراوں کو چاہیے کہ وہ کشمیر پر تحقیق کرنے والے محقیقین اور مصنفین کے لیے مراعات اور معاوضہ جات کا اعلان کرے۔ یونیورسٹی کی سطح پر کشمیر پر تحقیقی مقالہ جات لکھنے والوں کو اضافی نمبرات دینے کا اعلان کرے۔ جو محقیقین اور مصنفین کشمیر پر لکھ چکے ہیں ان کی تصنیفات اور مقالہ جات کو جمع کر کے انہیں بین لااقومی جرائد میں شائع کروانے کے لیے سرکاری سطح پر اقدامات کیے جائیں۔ نظریاتی اختلاف سے بلاتر ہو کر کشمیر پر کام کرنے والے ہر فرد کو فوقیت اور اولیت دی جائے۔ یونیورسٹی کی سطح پر مسئلہ کشمیر سے متعلق ایک مضمون شامل کیا جائے۔ قومی اور بین الاقوامی سطح پر کشمیر سے متعلق سرکاری سرپرستی میں مختلف مقابلہ جات کے، سیمینار اور پروگرامات کا تسلسل سے اہتمام کیا جائے۔

مسئلہ کشمیر صرف کشمیریوں کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ ساری امت مسلمہ کا مسئلہ ہے اور مسئلہ کشمیر حل ہونے تک ایشیاء میں امن ممکن نہیں ہے۔ اس لیے امن اور انصاف کا ساتھ دینے والے ہر فرد کو کشمیریوں کی آواز میں آواز ملانا ہو گی۔ پرنٹ اور الیکٹرنک میڈیا تسلسل اور باقاعدگی کے ساتھ ایک صفحہ یا ایک پروگرام مسئلہ کشمیر کے لیے مختص کرے اور روائیتی دنوں کے علاوہ بھی مسئلہ کشمیر کی اہمیت و افادیت کو اجاگر کرنے میں کلیدی کردار ادا کرے۔ حکومت آزادکشمیر و پاکستان کشمیر کی صورتحال پر کم از کم سہہ ماہی رپورٹ شائع کرے جس میں بھارتی مظالم کو دنیا کے سامنے لایا جائے۔ سرکاری سطح پر شہید، زخمی، معذور، اغواء، جنسی درندگی کے ان گنت واقعات، غیر قانونی نظر بندی، اور گم شدہ افراد کی کہانیوں کو حقائق، اعدادوشمار اور مکمل کوائف کے ساتھ شائع کرنے کا اہتمام کیا جائے تاکہ کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے بھارتی مظالم کاپردہ فاش کیا جائے۔ بھارتی مقبوضہ کشمیر اور پاکستانی زیر انتظام کشمیر کاکم از کم سالانہ تقابلی جائزہ شائع کیا جائے تا کہ اقوام عالم کو کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کا علم ہو۔ کشمیریوں کو عالمی سطح پر نمائندگی دی جائے، کشمیری سفارت کار تعینات کیے جائیں، تمام کھیلوں کی کشمیری ٹیم بنائی جائیں تاکہ وہ مسئلہ کشمیر کو ہر سطح پر ہر میدان میں اجاگر کریں۔ حکومت پاکستان کشمیری ائیر لائن کا آغاز کرے چاہیے وہ وفاقی کنٹرول میں ہی کیوں نہ ہو اس سے مسئلہ کشمیر کو تقویت ملے گی۔ ششماہی بنیادی پر کشمیر سے متعلق تصاویری کہانیاں شائع کی جائیں اور تمام بڑے سرکاری اداروں میں کشمیر گیلری قائم کی جائے تاکہ غیر ملکی مندوبین مسئلہ کشمیر کی نوعیت سے آگاہ ہوں۔

کشمیر کے تاریخی واقعات اور شخصیات پر ٹکٹ جاری کیے جائیں۔ سب سے اہم نقطہ کشمیری قوم کونظریاتی تصادم سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کی جائے۔ اس کا واحد حل مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے یر اتفاق میں مضمر ہے۔ الحاق پاکستان یا خودمختاریت دونوں ثانوی حیثیت رکھتے ہیں کیونکہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں میں ان کا کہیں بھی تذکرہ نہیں ہے۔کشمیریوں کو الحاقیت یا مختاریت کے نظریاتی تصادم سے بچانے کے لیے مسلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اجاگر کیا جائے۔ ہم نے سب سے پہلے متحد ہو کر آزادی کشمیر کے لیے جدوجہد کرنی ہے جب کشمیر آزاد ہو جائے گا تو یہ کشمیریوں کا حق ہے وہ فیصلہ کریں گے وہ الحاق چاہتے یا خودمختاری۔ ہمیں مسئلہ کشمیر پر سنجیدگی دکھانا ہو گی اور مسلم امہ کو ایک پیج پر لاتے ہوئے مسلم ممالک کی حمایت حاصل کرنا ہو گی۔ اگر ہم افغانستان پر او آئی سی کا اجلاس کروا سکتے ہیں تو مسئلہ کشمیر پر کیوں نہیں کرواتے؟ 

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57437

داد بیداد ۔ بھر تیوں کا عمل ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

داد بیداد ۔ بھر تیوں کا عمل ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

50سپا ہیوں کی بھر تی کا اشتہار آیا تھا 6ہزار نو جوا نوں نے نا م لکھوا یا، میٹرک کی تعلیم شرط تھی نا م لکھوا نے والوں میں اکثریت ایف ایس سی، بی ایس سی اور ایم ایس سی والوں کی تھی بھر تی کرنے والوں نے فزیکل فٹنس اور دیگر کوائف کا ٹیسٹ لے کر 50سپا ہی بھر تی کئے 5450کو نا کامی کا منہ دیکھنا پڑا، سکولوں میں ایک ضلع کے اندر 750اساتذہ کی پو سٹوں کا اشتہار آیا 30ہزار درخواستیں مو صول ہوئیں پی ایم ایس کیڈر میں 200آسا میوں کا اشتہار آیا 18000اُمید واروں نے فارم جمع کئے امتحا ن لینے والے سر پکڑ کر بیٹھ گئے کہ امتحا ن کس طرح لیا جائے؟

بے روزگار ی کی وجہ سے ریکروٹمنٹ یا بھر کا عمل بہت مشکل ہو گیا ہے بھر تی کرنے والوں کے لئے بھی مشکل ہے بھر تی ہونے والوں کے لئے بھی مشکل ہے اس مشکل کا کوئی منا سب حل نکا لنے کے لئے سر کاری شعبے میں فو ج کا بہترین انتظام مو جو د ہے سول حکومت کے دفاتر میں پبلک سر وس کمیشن کا ادارہ مو جود ہے ایٹا (ETEA) ایجو کیشنل ٹیسٹنگ اینڈ ایو یلو یش ایجنسی کا ادارہ بھی ہے نجی شعبے میں در جن سے زیا دہ ٹیسٹنگ سروسز کا م کر تی ہیں اس کے باو جود تسلی بخش نتیجہ نہیں آتا کبھی ٹیسٹ منسوخ کردیا جا تا ہے کبھی نتیجہ کا لعدم قرار دیا جا تا ہے اگر ٹیسٹ منسوخ نہ ہو نتیجہ کا لعدم نہ ہو تب بھی اشتہار سے لیکر بھر کے عمل تک دو سال لگ جا تے ہیں جس کی وجہ سے اشتہار دینے والا ادارہ بھی متا ثر ہو تا ہے،

ٹیسٹ دینے والے نو جوا ں اور انکے والدین بھی ذہنی اذیت سے دو چار ہو جا تے ہیں تا زہ خبر یہ ہے اساتذہ کی 30ہزار آسا میوں کے ٹیسٹ منسوخ ہو نے کے بعد پراونشل منیجمنٹ سروس (PMS) کے سکریننگ ٹیسٹ کا نتیجہ بھی منسوخ کیا گیا ہے اور صو بائی حکومت نے پبلک سروس کمیشن کے متعلقہ حکام کو سزا دینے کا حکم جا ری کر کے انکوائیری کا حکم دیا ہے انکوائیری اور سزا کا عمل اپنی جگہ درست ہو گا حکومت اور عوام کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ آئیندہ بھر تیاں کس طرح ہو نگی؟ تا کہ وقت کا ضیا ع نہ ہو، جو ہر قا بل کا انتخا ب ہو اور محکموں کا روز مرہ کام بھی متا ثر نہ ہو شفاف اور منصفا نہ بھر تی کے تین اہداف ہو ا کر تے ہیں محکمے کا کام متاثر نہ ہو، سب سے قابل امیدوار کا انتخا ب ہو، اور بھر تی کے عمل میں کم سے کم وقت لگا یا جا ئے فو جی بھرتی میں تینوں اہداف احسن طریقے سے حا صل کئے جا تے ہیں سول حکومت بھی چند سال پہلے تک ایک ہدف حا صل کر تی تھی بہترین امیدوار کا انتخا ب ہو تا تھا لیکن وقت زیا دہ لگتا تھا اور محکموں کا کا م متاثر ہوتا تھا .

بے روز گار ی میں اضا فے کی وجہ سے گذشتہ 10سالوں سے بھرتی کا پورا عمل متا ثر ہوا ہے اس کا حل یہ ہے کہ حکومت بھر تی کرنے والے سر کاری اداروں کی تنظیم نو کر کے بھر تی کے سارے عمل کو وقت کے تقا ضوں سے ہم آہنگ کر ے اس حوالے سے پا ک فو ج بھی حکومت کی مدد کر سکتی ہے فو ج کے تجربے سے استفا دہ کیا جا سکتا ہے دو تجا ویز قا بل عمل ہیں پہلی تجویز یہ ہے کہ حسب سابق سکیل 11سے سکیل 18تک بھر تی کا عمل پبلک سروس کمیشن کے پا س رہے سکیل 5سے سیکل 10تک بھر کا عمل ایٹا (ETEA) کو دیدیا جا ئے اس کے نتیجے میں کا م کا دباؤ کم کر نے کے لئے دونوں اداروں کی تنظیم نو کی جا ئے پبلک سروس کمیشن کے ممبروں کی تعداد دوگنی کر دی جا ئے ممبر کی آسا می پر 60سال سے اوپر ریٹا ئر ڈ بزر گوں کو دوبارہ بھر تی کر نے کے بجا ئے حا ضر سروس افیسروں کو لگا یا جا ئے ایک ممبر کے پینل کو دفتری اوقات کار کے دوران کم از کم 25امید واروں کے انٹر ویو کا پا بند بنا یا جا ئے اس طرح ایٹا (ETEA) میں منظور شدہ آسا میوں کی تعداد میں تگنا اضا فہ کیا جا ئے تا کہ ٹیسٹ کا عمل کسی تا خیر کے بغیر مکمل ہو، نتیجے میں تعطل نہ ہونجی شعبے کی ٹیسٹنگ سروسز کو یکسر بلیک لسٹ کیا جا ئے ان تجا ویز پر عملدرآمد سے چھ مہینے کے اندر بھر تیوں کا عمل شفاف ہو گا کسی کو بھی مسئلہ نہیں ہو گا۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57415

سوات اور چترال کی سیاحت کے درمیان بنیادی فرق ۔تحریر:اشتیاق چترالی

کسی بھی علاقے کی سیر وسیاحت وسیاحت وہاں کی۔مقامی آبادی اور رہائشیوں کیلئے خاطر خواہ آمدنی اور خوشحالی کا باعث ہوتی ہے ،اس سے ملک کا ایک سافٹ امیج بھی باقی ماندہ دنیا کے سامنے آجاتا ہے اور وہاں کے پر آمن ہونے اور خوبصورتی کو آشکار کرنے میں بھی مددگارثابت ہوتی ہے۔


پچھلے دنوں ایک لیڈر شپ کیمپ میں شرکت کرنے کیلئے سوات کی پرفضا سیاحتی مقام کالام جانے کا موقع ملا اور اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہاں اور چترال میں سیروسیاحت کے شعبے میں بنیادی فرق کو منظر عام پر لانے کی ادنیٰ سی کوشش کی ہے تاکہ ہمارے پیارے علاقے چترال میں بھی لوگ مزید جوق درجوق آئیں اور یہاں کے چھپے ہوئے اور پوشیدہ علاقوں میں بھی جہاں ابھی تک رسائی ممکن نہیں ہو سکی ہے کو ممکن بنا کر کثیر تعداد میں سیاحوں کی توجہ اس جانب مبذول کرایا جاسکے جس سے مزید اس شعبے کو ترقی ملے۔


رات گیارہ بجے سوات کے علاقے مینگورہ پہنچے اور وہاں ہوٹل کی تلاش میں چند فاصلے پر ہی ہوٹل نظر آئے کھانے کے فراغت کے بعد حب ہوٹل کی طرف بڑھے تو رات کے تقریباّ بارہ بجے سے بھی اوپر کا ٹائم تھا لیکن ہوٹل اسٹاف مستعد اپنی سیٹ پہ۔براجمان تھے اور مجھ جیسے اور پردیسیوں کے مسائل کم کرنے کے ارادے سے اپنی فرض منصبی ادا کرنے میں مصروف اور منتظر تھے۔ایک ہوٹل میں جانے کے بعد ایک آدمی سے مختصر علیک سلیک کے بعد کمرے کے ریٹس وغیرہ معلوم کئے تو مجھ جیسے مڈل مین کے دائرہ کار کے اندر پا کر موقع کو غنیمت جان کر جلدی جلدی کمرے کا نمبر معلوم۔کرکے چابی لی اور کمرے میں جاکے بیڈ پہ جاکے ہی دن کی تھکاوٹ دور کرنے کیلئے کمر لو سیدھا کرنے کی دیر تھی اور دیکھتے ہی دیکھتے نیند کی آغوش میں چلے گئے۔


علی الصبح آنکھ کھلی تو ہوٹل اسٹاف کو اسی طرح مستعد اور چوکنا پایا ناشتے کے بعد ہوٹل کا بل ادا کرکے اڈے کی راہ لی اور گاڑیوں کا پتہ لگا کے کالام کی طرف محو سفر ہوئے،چونکہ برفباری اپنے جوبن پہ تھی اور پورے راستے میں برفباری ہوتی رہی بلکہ چترال سے بھی زیادہ برفباری دیکھنے کو ملی اور وہ بھی اتنی شدید کہ دیکھتے ہی دیکھتے ساری زمیں نے جیسے سفید چادر پہن لی ہو،کافی جگہ۔پہسے رہے لیکن وہاں کے لوگ داد کے مستحق ہیں جنھوں نے اپنے گھروں کے دروازے تک سیاحوں کیلئے کھول دئے اور ان کی اتنی خاطر تواضع کی کی لوگ اپنی تکلیف اور تھکن کو جیسے بھول گئے اور اپنا گھر جیسا ان کو معلوم ہونے لگا۔جگہ جگہ ٹک شاپس،چھوٹے چھوٹے ہوٹلز بنے ہوئے تھے جہاں سے با آسانی گرم گرم پکوڑے،چائے اور دیگر ضروریات زندگی کے دیگر سامان با آسانی میسر تھے۔راستے کی بندش کی وجہ سے کافی پھسے رہے لیکن لوگوں کا تعاون دیدنی تھا چاہے ڈرائیور ہو یا اور لوگ سارے ہی ایک دوسرے سے مثالی تعاون پر آمادہ نظر آئے۔سیاحوں کی سہولت کیلئے مختلف جگہ فسٹ آیڈ کی سہولت بھی موجود ہےپھر سیاحوں کیلئے گاڑیوں کا انتظام مناسب ریٹس اور مناسب کرایے پہ دستیاب ہوتے ہیں اور یہ بھی قابل تعریف ہے کہ ان کے ریٹس بھی مناسب تھے،ہر فرد کو ہر علاقے کے بارے میں مکمل معلومات میسر ہوتی ہیں جو وہ بلا جھجک آگے لوگوں میں شیئر کرتے ہیں اور با آسانی بتائے گئے وقت کے اندر اندر مطلوبہ جگہ تک رسائی ممکن ہوجاتی ہے۔کالام چونکہ سوات سے کافی فاصلے پر واقع ہے لیکن سڑکوں کی پختگی،ہوٹلز کی بھرمار،اور سہولیات کا باآسانی میسر ہوجانا،ٹورسٹس کو مکمل تعاون اور مناسب گائیڈ لائن ،اسپاٹس کی مکمل معلومات اور رسائی ہی وہ بنیادی چیزیں ہیں جو سیاحوں کو اپنی طعف کھینچ لاتی ہیں۔


چترال میں چونکہ سڑکوں کی ابتر صورتحال سے مقامی لوگ تو پریشان ہیں ہی سیقح بھی اس صورتحال سے خوش نہیں ہیں اور یہ اس علاقے کی طرف ان کے آنے والے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ تصور کیا جاتا ہے۔


چترال میں ایسے علاقے بھی ہیں جہاں تک راستے کی ناپیدگی کی وجہ سے رسائی ممکن نہیں ہو سکی ہے ورنہ وہاں تک با آسانی رسائی سے سیاح مری، سوات اور باقی علاقوں کے بجائے چترال آنے کو ترجیح دیں گے اور پھر یہیں کی سیاحت کو میں اسٹریم میڈیا میں ہائی لائٹ کرکے مزید لوگوں کی توجہ حاصل کی کاجاسکتی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کی توجہ اس جابب مبذول کرایا جاسکے پھر سیاحوں کی سہولیات کیلئے یہاں پہ موجود ہوٹلز کو چوبیس گھنٹے اپنی سروسز مہیا کرنے چاہئے چاہے وہ قیام کے حوالے سے ہوں یا طعام کے اور رات تین بجے یہاں ہہ آنے والے سیاح کو بھی اپنی مرضی کا کھانا اور رہائش کی لئے مناسب انتظام میسر آئے اور کھانے پینے کے حوالے سے بھی مختلف ورائٹی کے کھانے میسر آجائیں،پھر مختلف ٹورسٹس سپاٹس میں ٹک شاپس،فسٹ آیڈ کی سہولت چاہے یونٹ ہو یا کیمپ،ٹورسٹس اسپاٹس میں رہائش کے لئے مناسب انتظامات اور گائیڈ لائن اگر اس طرح کے انتظامات ہم چترال میں ہر ملکی و غیر ملکی سیاح کو مہیا کردیں تو وہ دن دور نہیں جب باقی علاقوں کی طرح چترال بھی سیاحت کے شعبے میں بھی ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کروڑوں سیاحوں کی آمجگاہ بن جائے۔


چترال چونکہ اپنی منفرد ثقافت،سیاحت کے اعتبار سے منفرد حیثیت،تہذیب و تمدن،قدرتی حسن،روایتی مہمان نوازی،وادی کیلاش کی ہزاروں سال پہ محیط ثقافت،فری سٹائل پولو،پر آمن اور محبت سے سرشار لوگ،لہلہاتے کھیت،بلندوبالا پہاڑ،اپنی علاقائی مصنوعات،کیبل کار،نیشنل پارک،گرم چشمے،وادی بروغل اور وہاں کا فیسٹول،زائنی ٹاپ پیراگلائیڈنگ کے مقابلے،جشن قاقلشٹ،علاقہ کہوت کے مقام شاغلشٹ کا حسین و جمیل اور قدرتی حسن سے مالامال جنت نظیر علاقہ اور اس طرح کے ان گنت علاقت اور فیسٹولز کو مزید میڈیا کے اندر کوریج دلوا کے لوگوں کی توجہ دلوائی جاسکتی ہے اور اس طرح کے مزید مناسب انتظامات سے سے ہم اپنے علاقے کی رنگینیوں میں چار چاند لگا سکتے ہیں تاکہ یہاں کے لوگ بھی سیاحت کو بطور انڈسٹری اپناسکیں اور علاقہ اور اس کے باسی ہر حوالے سے خوشحال زندگی گزارسکیں۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57413

وزیراعلیٰ محمود خان کا دورہ سوات، عوامی فلاح و بہبود کے متعدد منصوبوں کا افتتاح – تحریر : زار ولی ذاہد

اشاعت خصوصی


وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان نے اضلاع کے دوروں کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے جمعہ کے روز اپنے آبائی ضلع سوات کا ایک روزہ دورہ کیا جہاں انہوں نے عوامی فلاح و بہود کے متعدد ترقیاتی منصوبوں کا افتتاح کیا جن میں سیدو میڈیکل کالج میں ہاسٹل، لیکچر تھیٹرز،لیبارٹریز، آڈیٹوریم، سیدو کالج آف ڈینٹسٹری میں ہاسپٹل بلاک، کالج بلاک اور باو ¿نڈری وال کی تعمیر کے علاہ سیدو ٹیچنگ ہسپتال میں کیتھرائزیشن لیب اور ریجنل بلڈ سنٹر کا قیام شامل ہیں۔ سیدو میڈیکل کالج میں ہاسٹل، لیکچر تھیٹرز، لیبارٹریز اور آڈیٹوریم سمیت دیگر تعمیرات کے اس منصوبے پر مجموعی طور پر 1.1 ارب روپے لاگت آئے گی۔ منصوبے کے پہلے مرحلے کے تحت ایناٹومی، پیتھالوجی، فزیالوجی، بائیوکیمسٹری، کمیونٹی میڈیسن اور فارماکالوجی پر مشتمل اکیڈمک بلاک اور مین ایڈمنسٹریشن آفس، سٹوڈنٹس آفیئرز سیکشن، اسٹیبلشمنٹ سیکشن اور اکاونٹ سیکشن پر مشتمل ایڈمنسٹریشن بلاک کی تعمیر مکمل کی گئی ہے جس کا وزیراعلیٰ نے باضابطہ افتتاح کیا۔

chitraltimes cm kpk mahmood khan swat visit 1

منصوبے کے دوسرے مرحلے کے تحت بوائز ہاسٹل، ڈاکٹرز ہاسٹل، پیرامیڈیکس ہاسٹل، آڈیٹوریم، نرسنگ ہاسٹل اور کیفے ٹیریا کی تعمیر کی جائے گی۔ نو قائم شدہ سیدو کالج آف ڈینٹسٹری میں ہاسپٹل بلاک، کالج بلاک، اندرونی سڑکوں کی تعمیر اور باو ¿نڈری وال کی تعمیر کے منصوبے پر 71 کروڑ روپے لاگت آئے گی۔ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کی خصوصی کوششوں سے سیدو میڈیکل کالج کے لئے 1.3 ارب روپے مالیت کے جدید طبی آلات کی خریداری کا عمل مکمل کیا گیا ہے۔ میڈیکل کالج میں اس وقت بارہ مختلف شعبوں میں ایف سی پی ایس اور ایم سی پی ایس ٹریننگ کی سہولت موجود ہے۔ میڈیکل کالج میں افتتاح کئے جانے والے دو لیکچر تھیٹرز، لیبارٹریز اور آڈیٹوریم سے کالج کی نشستیں 100سے بڑھ کر 150 ہو جائےں گی۔ اور میڈیکل کالج کی نئی عمارت میں جلد کلاسوں کا اجرا ءکیا جائے گا۔


سیدو میڈیکل کالج میں اس وقت طلبہ کی تعلیم و تدریس کے لئے 97 فیصد سرٹیفائیڈ اساتذہ دستیاب ہیں ۔ سوات میں جدید سہولیا ت سے آراستہ ڈینٹل کالج اور ہاسپٹل کا قیام بلاشبہ ایک تاریخی اقدام ہے جس کا کریڈٹ موجودہ صوبائی حکومت اور وزیراعلیٰ محمود خان کو جاتا ہے ۔ اس کالج کا قیام علاقے کے عوام کی دیرینہ خواہش اور وقت کی ایک اہم ضرورت تھی جسے موجودہ صوبائی حکومت نے پورا کردیا۔ اس کالج کے قیام سے نہ صرف سوات بلکہ پورے ملاکنڈ ڈویژن کے طلبہ مستفید ہونگے۔ڈینٹل کالج میں اسی سال اکیڈیمک سیشن کا آغاز کیا جائے گا اور پہلے سیشن میں 50 طلبہ کو داخلہ دیا جائے گا۔

chitraltimes cm kpk mahmood khan swat visit 3


وزیراعلیٰ نے سیدو گروپ آف ٹیچنگ ہسپتال میں کیتھ لیب کا بھی افتتاح کیا جس پر 17کروڑ روپے لاگت آئی ہے۔ سیدو گروپ آف ٹیچنگ ہسپتال ملاکنڈ ڈویژن کا واحد تدریسی ہسپتال ہے جو ملاکنڈ ڈویژن کی تقریباًایک کروڑ آبادی کو علاج معالجے کی معیاری سہولیات فراہم کر رہا ہے ۔ ہسپتال میں دل کے مریضوں کو علاج معالجے کی بروقت اور معیاری سہولیات کی فراہمی کے لئے کیتھ لیب کی ضرورت ایک عرصے سے محسوس کی جارہی تھی جسے موجودہ حکومت نے پورا کر دیا ۔ سیدو گروپ آف ہسپتال میں کیتھ لیب نے سال 2021 کے آخر میں کام شروع کیا تھا اور اب تک یہاں پرا مراض قلب کے351 مریضوں کا مفت علاج کیا جاچکا ہے۔ روزانہ کی بنیادوں پر اس لیب میں چھ مریضوں کی انجیوگرافی، انجیو پلاسٹی اور سٹنٹ کئے جاتے ہیں۔ اس لیب میں انجیوگرافی کے 179، انجیو پلاسٹی کے 139 اور پیس میکر کے چار کیسز کامیابی سے کئے جا چکے ہیں، اور علاج معالجے کی ساری سہولیات صوبائی حکومت کے غریب پرور پروگرام صحت کارڈ اسکیم کے تحت مفت فراہم کی جارہی ہیں۔


اسی طرح وزیراعلیٰ نے سوات میں نو قائم شدہ ریجنل بلڈ ٹرانسفیوژن سنٹر کا بھی باقاعدہ افتتاح کیا۔ ڈویژنل ہیڈ کوارٹر میں اس سنٹر نے سال 2020 سے کام کا آغاز کیا تھا تب سے اب تک اس سنٹر کی کارکردگی انتہائی شاندار رہی ہے۔ اب تک اس سنٹر نے مختلف ہسپتالوں اور تھیلیسمیا فاو ¿نڈیشن کو ساڑھے اڑتالیس ہزار خون کے تھیلے مفت فراہم کئے ہیں۔ ریجنل بلڈ سنٹر نے اب تک سیدو گروپ آف ہسپتالوں کو37,392، وجیہہ تھیلیسمیا فاو نڈیشن کو 3363 ، میاں گل جہانزیب کڈنی ہسپتال کو 669 ڈی ایچ کیو ہسپتال تیمر گرہ کو 303، ڈی ایچ کیو ہسپتال اپر دیر کو 479 ، ٹی ایچ کیو ہسپتال چکدرہ کو 301، ڈی ایچ کیو ہسپتال شانگلہ کو 510، ڈی ایچ کیو ہسپتال بونیر کو 404، الفجر تھیلیسمیا فاو نڈیشن کو 513، مردان میڈیکل کمپلیکس اور نوشہرہ میڈیکل کمپلیکس کو 1,444، ٹی ایچ کیو ہسپتال درگئی کو 542 اور حیات میڈیکل کمپلیکس کو 444 خون کے تھیلے فراہم کئے ہیں۔

chitraltimes cm kpk mahmood khan swat visit 2

اس موقع پر سیدو میڈیکل کالج میں منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ نے کہا کہ صحت کا شعبہ شروع دن ہی سے پاکستان تحریک انصاف حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل رہا ہے اور حکومت اس شعبے کو جدید عصری تقاضوں کے مطابق مستحکم اور عوامی توقعات کے مطابق بنانے کے لئے نتیجہ خیز اقدامات اٹھا رہی ہے۔ صحت کارڈ پلس اسکیم کو اپنی حکومت کا ایک غریب پرور اور فلیگ شپ منصوبہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسکیم کے تحت صوبے کی سو فیصد آبادی کو ملک بھر کے منتخب نجی و سرکاری ہسپتالوں میں علاج معالجے کی مفت سہولیات فراہم کی جارہی ہےں ۔ صوبائی حکومت نے اس اسکیم کو مزید جامع بنانے کے لئے گردوں کے مفت علاج معالجے کو بھی اس میں شامل کردیا ہے۔ جبکہ جگر کی پیوند کاری اور کینسر کے مہنگے علاج کو بھی اس میں شامل کرنے پر کام جاری ہے۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ اس اسکیم کی افادیت کو سامنے رکھتے ہوئے مفت اوپی ڈی سروسز کو بھی پروگرام میں شامل کیا جائے گا۔


محمود خان نے کہا کہ گزشتہ تین سالوں کے دوران صوبے کے میڈیکل کالجوں کی نشستوں کو 1300سے بڑھا کر 1750 کردیا گیا ہے جو صوبے کے میڈیکل کے شعبے میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کے لئے موجودہ صوبائی حکومت کا ایک اہم کارنامہ ہے۔ سوات میں صحت کے شعبے کی ترقی کے لئے اپنی حکومت کے اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے محمود خان کا کہنا تھا کہ 300 بستروں پر مشتمل پیڈز ہسپتال کا قیام ، سیدو گروپ آف ہاسپٹل میں کارڈیالوجی اور گائنی یونٹس کا قیام، ٹراما ، ایکسیڈنٹ اینڈ ایمر جنسی سنٹر کا قیام، سکول آف نرسنگ کا قیام، متعدد تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتالوں ، دیہی مراکز صحت اور بنیادی مراکز کی صحت کی اپگریڈیشن سمیت دیگر منصوبے موجودہ صوبائی حکومت کے اہم اقدامات ہیں جن کی تکمیل سے علاقے کے لوگوں کو علاج معالجے کی معیاری سہولیات مقامی سطح پر میسر ہونگی۔ اس موقع پر وزیراعلیٰ نے سیدو میڈیکل کالج کے انتظامی ، تدریسی، اور طبی امور کو ڈیجیٹائز کرنے اور کالج میں بجلی کی فراہمی کے لئے کالج کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کا اعلان بھی کیا۔


اپنے ایک روزہ دورے کے دوران وزیراعلیٰ نے سوات پریس کلب کا بھی دورہ کیا جہاں انہوں نے سوات پریس کلب اور سوات یونین آف جرنلسٹس کی نومنتخب کابینہ سے حلف بھی لیا۔ وزیراعلیٰ نے اس موقع پر سوات کے صحافیوں کو درپیش مسائل کے حل کے لئے موقع پر موجودہ متعلقہ حکام کو ضروری اقدمات کی ہدایت کی۔

میڈیکل کالجوں
chitraltimes cm kpk mahmood khan swat visit 4


Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57362

قاضی حمیداللہ خان ؒ کا فیض گلگت بلتستان میں -خاطرات: امیرجان حقانی

قاضی حمیداللہ خان ؒ کا فیض گلگت بلتستان میں -خاطرات: امیرجان حقانی


راقم الحروف کی درس نظامی سے فراغت 2010 کی ہے۔ جب درس نظامی کا آغاز ہو ا تھا تو گلگت بلتستان بالخصوص ضلع دیامر و کوہستان کے دورہ حدیث کے طلبہ اور نئے  فضلاء سے ایک نام بڑی کثرت سے سننے کو ملتا  تھا۔اس نام کے ساتھ ہی علم و حکمت اورفن و فلسفہ کی چند کتابوں کے نام بھی سننے کو ملتے تھے۔ یہ کتب بہر حال درس نظامی کے اٹھ سالہ نصاب  کا حصہ نہیں تھیں۔وہ نام نامی شیخ الحدیث مولانا قاضی حمید اللہ خانؒ کا تھا۔ عموما یہ طلبہ  ”قاضی صاحب، قاضی صاحب” سے اپنے استاد محترم کو یاد کیا کرتے تھے۔ اور جن بڑی خارجی کتب(یعنی درس نظامی کے نصاب سے الگ کتب) کا تذکرہ کرتے ان میں اقیلدس، مطول،صدرا، قاضی، حمداللہ،خلاصہ شرح خیالی قابل ذکر ہیں۔جن طلبہ نے قاضی صاحب مرحوم سے یہ کتابیں پڑھی تھی وہ بڑے فخریہ انداز میں بتایا کرتے تھے۔بعض دفعہ تو ان طلبہ میں ان خارجی کتب کی تحصیل پر کچھ علمی تفاخر بھی آجاتا ۔سچ کہوں تو مجھے بھی فنون کی کچھ کتب قاضی صاحب ؒ سے پڑھنے کا شوق چڑھا  تھامگر پھر شہادۃ العالمیہ سے فراغت کے بعد فوری طورپر پروفیشنل زندگی کا آغاز ہوا، جس کی وجہ سے حضرت قاضی صاحب نوراللہ مرقدہ اور دیگر کباراہل علم سے شرف تلمذ حاصل نہ ہوسکا جس کا قلق ہمیشہ رہے گا۔

 قاضی حمیداللہ خان ؒ  صوبہ  خیبر پختون خواہ کے مشہور گاؤں چاسدہ  میں پیدا ہوئے۔ابتدائی  ابتدائی تعلیم چارسدہ میں حاصل کی۔درس نظامی کی اکثر کتب اٹھ سال میں جامعہ دارالعلو م حقانیہ اکوڑہ خٹک میں کبار اہل علم و فن سے پڑھنے کی سعادت حاصل کی۔دو سال معقولی علوم کی تحصیل کے لیے سوات گئے اور علوم عقلیہ میں مہارت حاصل کی۔ دورہ حدیث شریف کی تکمیل جامعہ اشرفیہ لاہور سے  کی  جہاں انہیں شیخ الحدیث والتفسیر حضرت مولانا ادریس کاندھلوی ؒ اور مولانا رسول خان جیسے کبار اہل علم سے استفادہ کا موقع  ملا۔ 1966 میں، مدرسہ اشرف العلوم گوجرانوالہ  میں  درس و تدریس کا آغاز کیا  اور زندگی کی تمام بہاریں گوجرانوالہ میں علوم نبوت کی تدریس میں گزاری۔ مدرسہ انوارالعلوم گوجرانوالہ کے مہتمم بھی رہے ۔ 2002 میں بھاری اکثریت سے قومی اسمبلی کا ممبر بنے۔مخلوط میراتھن  ریس کے حوالے سے پوری دنیا کی میڈیا کا توجہ کا مرکز بنے۔ قاضی مرحوم نے آمر  مشرف کے دور میں اپنی کمال فراست سے  میرا تھن ریس کی مخالفت کی اور آخری حد تک گئے اور لہولہان ہوئے۔امیرالمومنین ملا عمر مجاہدؒ نے بھی قاضی مرحوم سے شرف تلمذ حاصل کیا تھا۔ قاضی صاحبؒ سے پاکستان بھر کے طالبان علوم نبوت  علمی استفادہ کیا تھا۔آپ کے تلامذہ ملک کے چبہ چبہ میں علوم نبوت کی تدریس و ترویج کرنے میں منہمک ہیں۔

 پاکستان کی طرح گلگت بلتستان میں بھی قاضی حمیداللہ خان نوراللہ مرقدہ کا فیض برابر  جاری رہا۔بلاشبہ گلگت بلتستان و کوہستان کے سینکڑوں علماء نے قاضی حمیداللہ خان ؒ سے علوم و فنون کی مدول کتب پڑھی ہیں۔اور پھر انہیں حضرات نے گلگت بلتستان میں درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔اور بڑے بڑے مدارس و جامعات کا قیام عمل میں لایا ہے۔2009ء  کے گلگت بلتستان کےصوبائی  الیکشن میں قاضی صاحب مرحوم گلگت تشریف لائیے اور جمیعت علماء اسلام گلگت بلتستان کے صوبائی اسمبلی کے لیے نامزد امیداروں  کی بھرپور کمپیئن بھی کی۔ داریل تانگیر، چلاس اور گلگت کے دورے کیے اور بڑے عوامی اجتماعات سے خطاب کیا ۔گلگت بلتستان کے علماء کرام اور مختلف سیاسی لیڈروں نے حضرت قاضی صاحب سے ملاقاتیں بھی کی۔بہت سارے لوگ قاضی صاحب ؒ کے بیانات اور علمی و سیاسی خیالات سے مستفید بھی ہوئے اور ان کی دلیرانہ  اور بے خوفی پر عش عش بھی کرنے لگے۔

گلگت بلتستان  میں حضرت قاضی ؒ کے سینکڑوں تلامذہ موجود ہیں۔ ان میں چند ایک کا مختصر تعارف اور دینی خدمات کے ساتھ قاضی حمیداللہ خانؒ  پر ان کے تاثرات قلمبند کرتے ہیں۔گلگت بلتستان کے سب سے معروف عالم دین ، اہل سنت والجماعت گلگت بلتستان و کوہستان کے امیر، مرکزی جامع مسجد گلگت کے خطیب، سب سے قدیم اور بڑی دینی درسگاہ جامعہ نصرۃ الاسلام گلگت کے رئیس ،فاضل دیوبند حضرت مولانا قاضی عبدالرزاق ؒ کے فرزند ارجمند  اور میرے بزرگ و شفیق دوست  حضرت مولانا قاضی نثاراحمد صاحب حفظہ اللہ نے بھی قاضی حمیداللہ خان ؒ سے کافی عرصہ تعلیم حاصل کیا ہے۔قاضی نثاراحمد صاحب اپنے استاد محترم کے حوالے سے انتہائی نیک جذبات رکھتے ہیں۔وہ قاضی صاحب مرحوم پر اپنے مستقل تاثرات قلم بند کررہے ہیں تاہم میرے استفسار پرانہوں نے اپنے تاثرات نوٹ کرواتے ہوئے کہا   ” حضرت استاد محترم  انتہائی شفیق تھے۔ مجھ ناچیز سے انتہائی محبت سے پیش آتے تھے۔

میں نے قاضی حمیداللہ خان ؒ سے درجہ سادسہ کی کتب کے علاوہ منطق و فلسفہ میں اقیلدس، مطول،صدرا، قاضی، حمداللہ،خلاصہ شرح خیالی اور توضیح تلویح پڑھی ہیں۔ استاد  محترم کی درس اور خطابت میں بہت گرفت تھی۔مشکل اسباق کو انتہائی سہل انداز میں پیش کرتے تھے۔ طلبہ کے ساتھ اولاد و الا معاملہ فرماتے تھے۔ حوصلہ دیتے تھے۔ طلبہ میں تحریکی شعور بیدار کرتے  اور انہیں دینی خدمات پر ابھارتے تھے۔طلبہ کو چھٹیوں میں بھی پڑھاتے تھے۔ میں نے خود حضرت  ؒ   سےکچھ کتابیں سالانہ  تعطیلات میں بھی پڑھا ہے۔تعطیلات میں دن بارہ بجے تک تفسیر میں بیٹھتا تھا، شام کے وقت حضرت سے فنون کی کتابیں پڑھتا ر ہا ہوں۔وہ پڑھانے کے بڑے دلدادہ تھے۔تدریس میں انہیں سکون ملتا تھا اس لیے دن بھر پڑھاتے مگر چہرے پر تھکن محسوس نہیں ہوتی۔عوام اور علماء سب کے لیےان کے دروس یکساں مفید ہوتے تھے۔

مولانا مفتی شیرزمان صاحب مہتمم جامعہ دارالعلوم غذر گاہکوچ بھی حضرت قاضی صاحبؒ کے  جید تلامذہ میں ایک ہیں۔مفتی شیرزمان صاحب کا تعلق ضلع غذر سے ہے۔مفتی صاحب نے 1995 میں جامعہ دارالعلوم سے فراغت  حاصل کی اور 1996  میں دارالافتاء والارشاد  ناظم آباد سے مفتی رشیداحمد صاحب نوراللہ مرقدہ سے تخصص الفقہ مکمل کیا۔1998میں ضلع غذر میں جامعہ دارالعلوم غذر کا سنگ بنیاد رکھاجہاں ابھی بنین و بنات کا بڑی تعداد زیر تدریس ہے۔ سات سو کے قریب رہائشی طلبہ و طالبات علوم نبوت سے مستفید ہورہے ہیں۔مفتی شیرزمان نے 1992 میں قاضی حمیداللہ خانؒ سے منطق میں قاضی حمداللہ، خیالی، صدرا اور بلاغت و معانی میں مختصرالمعانی، مطول، تلخیص پڑھی ہیں۔

مفتی شیرزمان صاحب نے قاضی حمیداللہ خانؒ کے متعلق فرمایا: ”سبق کا مضمون بہت اچھے انداز میں پیش کرتے۔ دریا کو کوزے میں بند کرتے۔ان کو کتابیں از بر تھی۔عام فہم انداز میں پڑھاتے۔والد کی طرح شفیق تھے اور اخلاقی تربیت بھی کرتے تھے۔جب استاد محترم کی والدہ کا انتقال ہوا تو گھر میرے حوالہ کیا تھا۔ صفائی ستھرائی کی ذمہ داری بھی دی تھی۔گھر بہت سادہ تھا گویا کہ دیہاتی لوگوں کی  طرح ان کا رہن سہن تھا۔استاد محترم کو سلام عرض کرنے وقتا فوقتا  گوجرانوالہ حاضر ہوتا رہا ہوں۔ بیماری کے دوران خصوصی عیادت کے لیے گیا تھا۔میرے ساتھ کوہستان کے معروف عالم دین  مولانا دلدار صوبائی ممبراسمبلی کے پی کے، مولانا بشیر پنکھڑ(مدرس)، مولانا ابراہیم پٹن(مدرس) اور مولانا عبدالقدوس پٹن (مدرس) میرے ہم درس تھے۔اس کے علاوہ ضلع دیامر کے کئی علماء نے قاضی حمیداللہ خان سے شرف تلمذ حاصل کیا ہے”۔

 ڈاکٹر محمد نصیر جامعہ دارالعلوم کراچی کے 2001 فاضل ہیں۔ کراچی یونیورسٹی سے اصول دین میں ایم اے اور 2019 میں کراچی یونیوسٹی سے پی ایچ ڈی مکمل کیا اور کراچی میں 14 سال مسلسل مدرسہ نعمانیہ میں تدریس کی۔ گوہرآباد سے ان کا تعلق ہے۔گومل یونیورسٹی شعبہ اسلامک اسٹڈیز کے پروفیسر ہیں۔انہوں نے 1995 میں قاضی صاحب سے پڑھا ہے۔ڈاکٹر صاحب اور مولانا جانباز گوہرآباد درکل والے نے خصوصیت کے ساتھ قدوری کا کتاب البیوع  قاضی ؒ سے پڑھنے کی سعادت حاصل کی ہے۔ڈاکٹر محمد نصیر نے حضرت قاضی صاحب ؒ کے متعلق بات کرتے ہوئے کہا:”مولانا جانباز اور مجھے1995 میں مظاہرالعلوم میں ، درجہ ثالثہ کی کافیہ اور شرح تہذیب پڑھنے کا شرف حاصل ہوا۔میں نے حضرت سے قدوری کی کتاب البیوع الگ سے پڑھنے کی درخواست کی تو استاد فرمایانے فرمایا” آؤ چلاسی ملا، آپ دونوں کو کتاب البیوع  شروع کرواتا ہوں کرکے پڑھایا، حضرت انتہائی شفیق ، ہمدرد اور علم دوست تھے، حضرت چاہتے تھے کہ چھوٹا یا بڑا طالب علم جو ان کے پا س پڑھنے کے لیے آتا وہ پڑھانے میں کبھی بھی تامل نہیں کرتے بلکہ ہر ایک کو پڑھاتے۔”

مولانا عبدالبر کا تعلق چلاس بٹوکوٹ سے ہے۔ دارالعلوم چلاس نزد ڈگر کالج چلاس کے مہتمم ہیں۔مدرسے کا دوسرا کیمپس گیٹی داس میں ہے۔2007ء ک انہوں نے دارالعلوم چلاس کا سنگ بنیاد رکھا۔ عبدالبرصاحب نے مولاناقاضی حمیداللہ جان سے  2003 سے 2006 تک تعلیم حاصل کی ہے۔ 2006 میں قاضی صاحب سے بخاری شریف پڑھ کر درس نظامی سے فراغت حاصل کی ہے۔مولانا عبدالبرصاحب تدریس کے بہت شوقین ہیں۔ منطق کی کتب و رسائل، ہدایہ اولین وآخرین، کافیہ  و ہدایت النحو اور دیگر فنون کی تدریس کرتے ہیں۔مولانا عبدالبر صاحب نے قاضی حمیداللہ خان ؒ کے متعلق کہا:

” میں نے بہت سارے علماء و شیوخ سے تعلیم حاصل کی ہے مگر سچی بات یہ ہے کہ قاضی حمیداللہ خانؒ سے بہتر اور اچھا مدرس پوری زندگی میں کسی کو نہیں پایا۔ وہ صحیح معنوں میں اکابرین دیوبند  اور سلف صالحین کا جانشین تھا،اکابر کی سوانحی علوم میں تدریس کے  حوالے سے جو اوصاف پڑھے ہیں وہ تمام کے تمام قاضی ؒ کی تدریس میں پائے جاتے تھے۔میرے پاس الفاظ نہیں کہ میں حضرت قاضی صاحبؒ کے تدریسی اور علمی اوصاف بیان کروں۔میں نے قاضی ؒ سے ہدایہ اولین و آخرین، بخاری شریف، قاضی حمداللہ، مسلم الثبوت، خیالی پڑھنے کا شرف حاصل ہوا۔”

قاضی صاحب کے گلگت بلتستان میں سارے تلامذہ  ہیں۔ مولانا امان اللہ ہڈرو دیامر، مولانا محبت شاہ گیس گوہرآباد وغیرہ کی ایک لمبی فہرست ہے.

برادرم شیبر میواتی صاحب کا ممنون و مشکور ہوں کہ انہوں نے ایک صاحب علم انسان پر لکھنے کا داعیہ پیدا کیا۔ مسلسل مجھے یاد دلاتے رہے۔تب گلگت بلتستان میں حضرت والا کے فیضان پر چند حرف جوڑنے کا موقع ملا، جو قاضی صاحب ؒ  کی شخصیت پر پبلش ہونے والے خصوصی نمبر میں شائع ہونگے۔عمومی طور پر ریاست و حکومت کی طرح اہل علم و فن اور ذرائع ابلاغ کے احباب بھی گلگت بلتستان کو نظرانداز کرتے ہیں لیکن میواتی صاحب جیسے  دل والے لوگ گلگت بلتستان کو بھی اپنی علمی و قلمی کاوشوں میں شامل کرتے ہیں۔اس پر اللہ رب العزت انہیں جزائے خیر دے۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ قاضی حمیداللہ خانؒ کے درجات بلند فرمائے، ان کے فیوض و برکات سے دنیا بھر کی طرح گلگت بلتستان کو بھی  منور کرے اور میواتی بھائی کی علمی وقلمی کاوش کو قبول فرمائے اور چند حرف جوڑنے پر ہمیں بھی اجر دے۔اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57360

دادبیداد ۔ سما جی خد مت ۔ ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی

دادبیداد ۔ سما جی خد مت ۔ ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی

بر ف باری کے مو سم میں چار پہا ڑی اضلا ع سے خبریں آئی ہیں کہ سکولوں اور کا لجوں کے طلباء نے رضا کارانہ طور پر راستے صاف کر کے ٹریفک کو جاری رکھنے میں مدد دی، گلیات اور کو ہستا ن سے چترال تک خیبر پختونخوا کے پہا ڑی اضلا ع سے آنے والی خبریں باعث مسرت بھی ہیں باعث حیرت بھی، ان خبروں پر خوشی اس لئے ہو تی ہے کہ انسا نیت کا جذبہ طلباء میں زندہ ہے حیرت اس بات پر ہو تی ہے کہ محکمہ تعلیم کی طرف سے رضا کارانہ خد مات اور سما جی کا موں کی بھر پور حو صلہ شکنی کے باو جو د طلباء میں یہ جذبہ کیسے پیدا ہوا؟ اور کس طرح پروان چڑھا مقطع میں سخن گسترانہ بات ویسے نہیں آئی ہمارے جن بزرگوں نے 1990سے پہلے کے تعلیمی اداروں کا ما حول دیکھا ہے.

ان کو معلوم ہے کہ 1990سے پہلے تعلیمی اداروں میں بوائے سکا وٹس، گرل گائیڈز اور سوشل ور ک کے ذریعے طلباء اور طا لبات کو سما جی خد مات کی تعلیم اور تر غیب دی جا تی تھی کا لجوں میں ٹیو ٹو ریل گروپس کے ذریعے طلباء اور طا لبات کی مخفی صلا حیتوں کو اجا گر کیا جاتا تھا نیشنل کیڈٹ کور کے ذریعے طلباء اور طا لبات کو لا زمی فو جی تر بیت سے آراستہ کرنے کا مر بوط پرو گرام تھا 30سال پہلے یہ تما م سلسلے ختم کر دیئے گئے آج کا طا لب علم ان نا موں سے واقفیت نہیں رکھتا 30سال بعد کسی سکول اور کا لج کے طا لب علموں نے اگر اپنی طرف سے اپنا شوق اور جذبہ لیکر یا گھر کی تر بیت سے فائدہ اٹھا کر سما جی خد مت انجا م دی ہے تو یہ پورے صو بے کے تعلیمی اداروں کے ساتھ ساتھ تعلیمی نظم و نسق کو تباہ کر نے والے حکام کے لئے بھی ایک سبق اور ایک مثال ہے 1960ء کی دہا ئی میں جب ہماری عمر کے لو گ سکو لوں اور کا لجوں میں تھے تو ہمیں سما جی خد مت کی با قاعدہ تعلیم دی جا تی تھی.

بوائے سکا وٹس اور گرل گا ئیڈ ز کے کیمپوں میں بنیا دی طبی امداد قد رتی آفات میں گھرے ہوئے لو گوں کو محفوظ مقا مات پر پہنچا نے اور سڑ کوں سے رکا وٹیں ہٹا کر ٹریفک کو جا ری رکھنے میں مدد دینے کی تر بیت دی جا تی تھی ہم لو گ چادر اور با نس کی مدد سے خود سڑیچر بنا تے تھے، ہم لو گ بیلچہ اور کدال لیکر سڑ کوں اور نہروں کی صفا ئی کر تے تھے یہ ہمارے تعلیمی کیلنڈر کا حصہ تھا فزیکل ایجو کیشن کا استاد فو ج کا ریٹا ئرڈ جے سی او ہو تا تھا وہ ان کا موں کی تر بیت دیتا تھا کا لج کی سطح پر ٹیو ٹو رئیل کے ذریعے طلبا ء اور طا لبات کے رجحا نات اور ان کی مخفی صلا حیتوں کا جا ئزہ لیکر ان صلا حیتوں کو نکھا ر نے پر تو جہ دی جا تی تھی

ٹا ئم ٹیبل میں ٹیو ٹو رئیل کا با قاعدہ پیریڈ ہوتا تھا کا لجوں میں نیشنل کیڈٹ کور کے ذریعے ہر طا لب علم کو دفاعی تر بیت دی جا تی تھی جس میں چا ندماری، سرٹیفیکیٹ اور پاسنگ آوٹ بھی شا مل تھی اس کے 20نمبرتھے کا لجوں میں لا زمی سما جی خد مت کا دورانیہ مقرر تھا یہ ایک ہفتے سے 10دن تک ہو تا تھا اس میں ڈگری کلا سوں کے طا لب علم لا زمی سو شل ورک میں وقت لگا کر سر ٹیفیکیٹ حا صل کر تے تھے اس سر ٹیفیکیٹ کے بغیر امتحا ن کے لئے فارم داخل کرنے کی اجا زت نہیں تھی اس وجہ سے سو شل ورک کی سختی سے پا بندی کی جا تی تھی مر دان اور نو شہرہ کا لج کے طلبہ سوشل ورک کے لئے دیر، سوات اور چترال تک جاتے تھے، عطیہ خون کے کیمپ لگا تے تھے دیگر سما جی خد مات میں حصہ لیتے تھے آج کے دور میں 30سال پرانے سسٹم کو واپس لا نے کی اشد ضرورت ہے اگر سیا سی رہنما اس طرف تو جہ نہ دے سکیں تو پا ک فو ج اور عدلیہ کو ”سو مو ٹو“ لیکر حکومت سے یہ کا م لینا چا ہئیے

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57358

سیکرٹری جنرل کا بروقت انتباہ ۔ محمد شریف شکیب

سیکرٹری جنرل کا بروقت انتباہ ۔ محمد شریف شکیب

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے افغانستان کو موت کا دہانہ قرار دیتے ہوئے عالمی برادری کو خبردار کیا ہے کہ فوری امداد فراہم نہ کی گئی تو 90لاکھ افغانیوں کے بھوک کے ہاتھوں مرنے کا اندیشہ ہے۔ انتونیو گروتریس کا کہنا تھا کہ منجمد درجہ حرارت اور منجمد اثاثے افغانستان کے لئے مہلک امتزاج بن چکے ہیں۔ ایسے تمام اصول و ضوابط اور معاشی نظام جو پیسوں کو جان بچانے کے لیے استعمال ہونے سے روکتے ہیں انہیں ہنگامی صورت حال میں معطل کر دینا چاہیے۔طالبان کی طرف سے افغانستان کا سیاسی اقتدار اپنے ہاتھ میں لینے کے بعد بین الاقوامی امداد رکنے کے ساتھ ہی امریکہ نے افغانستان نے اپنے اربوں ڈالر کے اثاثے بھی منجمد کر دئیے ہیں ان میں سے سات ارب ڈالر امریکی بینکوں اور دو ارب ڈالر دوسرے مالیاتی اداروں کے پاس ہیں۔

امریکی حکومت کا موقف ہے کہ نائن الیون کے متاثرہ خاندانوں نے امریکی بینکوں میں موجود افغانستان کے اثاثوں پر دعویداری کی ہے یہ معاملہ طے ہونے تک افغانستان کے اثاثے وا گذار نہیں کئے جاسکتے۔ امریکہ نے طالبان کے ساتھ قطر میں طے پانے والے امن معاہدے کے تحت اپنی فوجیں کابل سے نکالی تھیں۔ امریکہ کو بخوبی معلوم تھا کہ فوجی انخلاء کے بعد اس کی کٹھ پتلی حکومت چند دن بھی اپنے پاؤں پر کھڑی نہیں رہ سکتی۔ اور طالبان ملک کا سیاسی اقتدار اپنے ہاتھ میں لیں گے۔ طالبان نے امریکی اور نیٹو افواج کو افغانستان سے نکلنے کا محفوظ راستہ دیا۔ جونہی افغانستان سے وابستہ امریکہ کے مفادات ختم ہوگئے۔انہوں نے 1979والی اپنی غلطی دہراتے ہوئے بین الاقوامی امداد بند کرادی اور افغانوں کے اپنے اثاثے بھی منجمد کردیئے۔

اگرچہ طالبان نے غیر ملکی امداد کے بغیر ہی اپنا بجٹ بنالیا ہے لیکن بیرونی امداد کے بغیر یہ لینڈ لاکڈ ملک ایک سال بھی اپنے وسائل پر زندہ نہیں رہ سکتا۔مختلف سرکاری اداروں کے ملازمین گذشتہ پانچ مہینوں سے تنخواہوں سے محروم ہیں۔ اگرچہ افغان وزارت خزانہ نے اعلان کیا ہے کہ رواں ماہ کے آخر سے ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی شروع ہوگی۔ جن خواتین کو کام کی جگہ پر آنے سے روکا گیا ہے ان کی تنخواہیں بھی نہیں روکی جائیں گی۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خالی خزانے کے ساتھ تنخواہوں کی ادائیگی کیسے ممکن ہوگی۔خانہ جنگی سے تباہ حال ملک کا سب سے قریبی ہمسایہ ہونے کے ناطے پاکستان نے بارہا عالمی برادری کو افغانستان میں ممکنہ انسانی المیے سے خبردار کیا ہے۔

اقوام متحدہ اور اس کے ذیلی اداروں نے بھی صورتحال بتدریج خراب سے خراب تر ہونے کی تصدیق کی ہے عالمی ادارے نے افغانستان میں قحط کا خطرہ روکنے، امداد اور بحالی کے منصوبے کے تحت عالمی برادری سے پانچ ارب ڈالر فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ پاکستان نے اسلام آباد میں او آئی سی کا وزارتی اجلاس بلاکر اسلامی ملکوں سے فوری امداد فراہم کرنے کی اپیل کی ہے۔ اب تک سعودی عرب، عرب امارات اور پاکستان کے سوا کسی اسلامی ملک نے افغان عوام کی مدد کے لئے ہاتھ نہیں بڑھایا۔ پاکستان کو یہ تشویش ہے کہ اگر صورتحال بہتر نہ ہوئی تو لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین ایک بار پھر پاکستان کا رخ کریں گے جبکہ یہاں تیس لاکھ سے زیادہ رجسٹرڈ اور غیر رجسٹرڈ مہاجرین پہلے سے رہائش پذیر ہیں مہاجرین کی نئی لہر سے پاکستان کی معیشت پر بھی گہرے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

ایران کو بھی یہی تحفظات ہیں۔عالمی برادری کی طرف سے امداد کی بحالی کے لئے طالبان سے انسانی حقوق کے احترام، خواتین کو تعلیم و روزگار کی آزادی دینے، سیاسی مخالفین کو انتقام کا نشانہ نہ بنانے اور تمام بڑی سیاسی گروپوں کو شامل کرکے قومی حکومت قائم کرنے کے مطالبے کئے جارہے ہیں۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے بڑے پتے کی بات کی ہے کہ قوانین اور قواعد و ضوابط انسانوں کی بھلائی کے لئے وضع کئے جاتے ہیں جب یہ قواعد و ضوابط انسانی بقاء کے لئے خطرہ بن جائیں تو ان کی تعمیل غیر ضروری ہوجاتی ہے۔ اس لئے اقوام عالم کو اپنے مطالبات کی پوٹلی ایک طرف رکھ کر افغان خواتین، بچوں اور نوجوانوں کو بھوک سے ہلاکت سے بچانے کے لئے اقدامات کرنے ہوں گے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57355

رودادِ بامِ دنیا – چاپلوسی، ہٹ دھرمی اور غذرایکسپر یس وے – تحریر: شمس الحق نوازش غذری

غذر ایکسپریس وے کی زد میں آنے والی اراضیات کو کوڑی کے دام ہتھیانے میں سرکار کی معاونت اور عوام کی ملامت کے واسطے حکومت کے حصہ داروں کا آلہ کار بننے میں جو لوگ پیش پیش ہیں۔ اُن میں اکثریت اُن کی ہے جو نسبت اور تعلق کی بنیاد پر اپنی آراء کا تعین کرتے ہیں۔ زمینی حقائق واضح انداز میں نظروں کے سامنے موجود ہونے کے باؤجود بھی لگاؤ اور میلان کے محور کے طواف کو عبادت کا درجہ دیتے ہیں۔ اُن کی قوتِ مشاہدہ قابلِ اعتبار ہے اور نہ ہی قوتِ فیصلہ اُن کی مرضی کے تابع۔۔۔۔ایسے لوگ اوروں کی خوشامد کے جنوں میں اپنے سایے سے بھی ضد کرنے لگ جاتے ہیں اور اپنے اندر کے انسان سے بھی دست و گریباں رہتے ہیں۔ حالتِ نشہ میں کسی کے سوال سے واسطہ پڑے تو صحیح جواب ممکن ہے ورنہ اُن کا کردار اور گفتار طمع و حرص کے منبع سے چپکی رہتی ہے۔ حقائق کو مرضی کی عینک سے دیکھ کر اوروں کے مزاج کے مطابق تاویل اور تعبیر تلاش کرنا اس قسم کے لوگوں کی زندگی کا اصل منشاء اور مقصود رہا ہے۔ جن لوگوں کو ضمیر کی ملامت کا احساس نہیں یا جن کی خاکی بدن میں ضمیر کا وجود ہی نہیں۔ ایسے لوگ غیروں کی جائز اور ناجائز خواہشات کی تسکین کے لیے قوموں کی اجتماعی مفادات کو داؤ پر لگانے سے کتراتے ہی نہیں۔ غیروں کی عظمت کے گن گانے کے عوض خوشنودی کے طلب گاروں میں اپنوں کے دکھ درد کو محسوس کرنے کا مادہ کب کا دم توڑ چکا ہوتا ہے۔


ضمیر سے محروم انسانوں کو اجتماعی مفادات اور اجتماعیت کی آہ بکا سے کوئی سروکار ہی نہیں ہوتا۔ یہ اوروں کی خواہشات کے تکمیل کے واسطے اپنوں کو حالات کا رُخ حقیقت کے بالکل برعکس پیش کرنے کا تجربہ رکھتے ہیں۔ یہ کہیں بھیڑو کے روپ میں بھڑیا کا کردار ادا کرتے ہیں تو کہیں بھیڑیاکے روپ میں بھیڑوکی نقالی میں جگ ہنسائی کا سبب بن جاتے ہیں۔ اُن کی اصل کمین گاہ کہیں اور ہوتی ہے لیکن پیشے سے متعلق فنون کے مظاہرے کے لیے چھتری کہیں اور تلاش کرتے ہیں۔ ظاہر و باطن میں اس ڈھنگ کے متضاد کردار کے چاپلوس خایہ برداروں کے لیے اردو لغت میں لفظ ”منافق“ سے بھی کوئی بڑا لفظ ہونا چاہئے تھا۔
ایسے لوگوں کے کارتوت کی وجہ سے انسانی مسائل زہر آلود بن جاتے ہیں۔ یہی مسائل جب سنسنی خیزی کی جانب رُخ کرتے ہیں تو مسائل کا شکار انسانوں کے جذبے سے کھیلنے والے یہ فتنہ و شر کے پروردہ منظر عام سے ایسے غائب ہوجاتے ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔۔۔۔ انسانوں کے انتہائی بنیادی اور حقیقی مسائل سے روگردانی انسانوں کو انقلاب کی راہ پر دالتا ہے ہر ایکشن کا ری ایکشن فطری بھی ہے اور قانون ِ سائنسی بھی۔۔۔ کسی کو غم میں مبتلا کرنے کے ساتھ غم سے نڈھال انسان کے سامنے ڈرم بجایا جائے تو ردِ عمل ملائم اور لطیف ہوگا یا سنگین اور غضب ناک۔۔۔


انسانوں کی وراثتی جائیداد پر ڈاکہ بھی ہو۔۔۔ اور دفاع کی صورت میں سبق سیکھانے کی دھمکی بھی۔۔۔ماضی میں انسانیت کے ساتھ اس قسم کی ناروا سلوک نے انسانی جذبوں کو بھڑکتی ہوئی آتش کے شعلوں کی طرح بھڑکاتا رہا ہے۔ تاریخ میں چنگاریوں کے ساتھ طفلانہ طرز میں کھیلنے والے ہی گھر بار کو راکھ کا ڈھیر بنانے کا سبب خود بنتے رہے ہیں۔ اکثر اوقات یہ ہوا۔ مسائل اتنے پیچیدہ نہیں، جتنا مسائل سے دوچار انسانوں کے ساتھ چوہے کی جان کندنی (کنی) کے دوران بلی کی طرح تماشابین کا کردار ادا کیا گیا۔ مشکلات و مصائب کے بوجھ تلے دبے انسان متعلقہ اداروں کی طرف سے چشم پوشی اور روگردانی کو بے رُخی ہی نہیں اپنے خلاف بغض اور عداوت بھی سمجھتے ہیں۔ متعلقہ ذمہ دار اداروں کی ڈرامائی تجاہل عارفانہ ہی مسائل کو گھمبیر بنا دیتی ہے۔ جہاں متعلقہ اداروں کو عمومی طور پر ذمہ دارانہ کردار ادا کرنے کی عادت نہیں ہوتی وہاں کے انسان مسائل سے قبل کی افادیت کو اہمیت دینے کا مطالبہ کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ اس کے بعد اُن کے ممکنہ حل کے لیے ریاست اور ریاستی اداروں سے مادرانہ شفقت کی اُمید رکھتے ہیں۔


یہاں کے بعض انتظامی ادارے اور انتظامی اداروں کے اہل کار امن و امان کے شیدائیوں کو امن کا کریڈٹ دینے کے بجائے پرامن ماحول کے قیام کو بودا تصور کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ حالانکہ امن امان کو قائم و دائم رکھنا اس دور میں سب سے بڑا چیلنج ہے۔ مہذب اور شائستہ مزاج کے لوگ ہی امن و امان کے بقاء کی ضمانت ہیں۔ لیکن گنوار اور جاہل سوسائٹی کے نزدیگ نرم خوئی اور صلح جوئی بزدلی اور کمزوری کی علامت ہیں۔ ایسی ذہنیت کے لوگوں کو شاعر مشرق نے اپنے ان اشعار کے ذریعے سمجھانے کی کوشش کی ہیں۔
ہو حلقہئ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزِم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن


اس خطے میں امن و امان کی بقاء کو دوام بخشنے والے ازل سے فولادی کردار کے فن سے آراستہ و پیراستہ رہے ہیں۔ لیکن فولادی کردار کا ظہور ایسے انسانوں سے اُس وقت سرزد ہوتا ہے جب رزم گاہ میں معرکہ حق و باطل کے درمیان سجے۔


اگر متوقع غذر ایکسپریس وے کے ساتھ ساتھ قدم قدم میں سبز ہلالی پرچم یہاں کے باسیوں کی دلیری اور جوانمردی کے ثبوتِ استحقاق کے لیے کافی نہیں تو کیا حلقہئ یاراں میں دُشمنی مول لینا اور خونریزی برپا کردینا شجاعت و بہادری کی نشانی ہے۔
غیر مذہب انسانوں کے سماج میں صُلح کُل اور بے تعصب انسانوں کو کمزوری کی نگاہ سے دیکھا جانا کوئی معیوب عمل نہیں۔ کیونکہ غیر مہذب نامی براعظم میں لوگ ہی وہی رہتے ہیں جن کا طرزِ عمل جاہلانہ اور وہشیانہ ہوتا ہے۔ سوال یہ نہیں۔۔۔۔کہ اُس قسم کی سماج میں اس قسم کی سوچ پنپتے کیوں ہیں؟ بلکہ ستم ظریفی یہ ہے۔۔۔۔۔۔اگر ریاست کے بعض انتظامی ادارے بھی اپنے قول و فعل سے حلقہئ یاراں میں بریشم مزاج کے حاملین کو کم ہمت اور ڈرپوک تصور کرنے لگے۔ اگر شریفوں کی شرافت کو ذمہ دار اداروں میں بھی کمزوری کہنے کا مزاج پڑوان چڑھے اور اِن وجوہات کی بناء پر بجائے حقوق دینے کے ملکیتی اور پشتنی جائیدادیں من چاہے خواہش کے مطابق نیلام کرنے کی ٹھان لے۔ تو اس وقت متعلقہ انتظامی اہلکاروں کے در میں وفود کی صورت میں قطاروں میں کھڑے ہوکر ملتجی بننے کی ضرورت ہے۔ یا میدانِ عمل میں جارحانہ انداز میں جارح بننے کی۔۔۔۔؟

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
57335

بڑھتی ہوئی انتظامی خرابیاں ۔ قادر خان یوسف زئی کے قلم سے

بڑھتی ہوئی انتظامی خرابیاں ۔ قادر خان یوسف زئی کے قلم سے


ملک کی انتظامی مشینری کی بڑھتی خرابیاں باعثِ ہیجان و اضطراب بنتی جارہی ہیں اور ہر شخص کے لبوں پر یہ سوال ابھر رہا ہے کہ حکومت ان خرابیوں کی اصلاح پر توجہ کیوں نہیں دے رہی؟ اس میں شبہ نہیں کہ نظم و نسق میں خرابیوں کی وجوہ متعدد ہیں، لیکن ان میں ایک وجہ ایسی بھی جو بالکل بیّن ہے اور وہ یہ کہ ہمارے اربابِ اختیار کو اس کا علم اور احساس ہی نہیں ہوتا کہ عوام کن مشکلات سے دوچار ہیں اور ان کی زندگی کس طرح اجیرن ہورہی ہے، زندگی کے کسی گوشے کو بھی لیجیے، اس کے متعلق ایسا لگتا ہے کہ انہیں کبھی معلوم ہی نہیں ہونے پاتا کہ عوام کو کن دشواریوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ درحقیقت اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے اپنے کام بغیر کسی قسم کی دقت اور دشواری کے سرانجام پاجاتے ہیں، عوام کی حالت سے باخبر رہنے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ کہ ان حضرات کا عوام کے ساتھ ربط رہے۔ وہ خود کو عوام میں ایک، اور عوام انہیں اپنے میں ایک سمجھیں، لیکن اس قسم کا ربط تو ایک طرف، ان میں اور عوام میں اس قدر بے گانگی ہوتی ہے کہ عوام کی کوئی بات ان کے گوش مبارک تک پہنچ ہی نہیں سکتی۔


یاد رکھنا چاہیے کہ جن لوگوں کے ہاتھوں میں عوام کی تقدیریں دی جائیں، جب تک وہ سمیع و بصیر اور خبیر و علیم نہ ہوں، وہ اپنی ذمے داریوں سے کبھی عہدہ برآ نہیں ہوسکتے، وہ ہر شکایت کے جواب میں اتنا کہہ دینا کافی سمجھتے ہیں کہ لوگ نظم و نسق کی خرابیاں بیان کرنے میں خوامخواہ کا مبالغہ کرتے ہیں۔ ایک اور سوال عموماً بارہا دہرایا جاتا ہے کہ پاکستان کے سب سے اہم اور بنیادی مسائل کیا ہیں؟ ظاہر ہے کہ اس سوال کا جواب ہر صاحب فکر اپنے اپنے نقطۂ نگاہ سے دے گا، لیکن عوامی مسائل پر پارلیمان کا کیا کردار ہے، اس پر اب کسی نہ کسی نتیجے پر پہنچ جانا چاہیے کہ کیا پارلیمان حقیقی معنوں میں مملکت کو، جو حالتِ بھنور میں گھری کشتی کی مثل بن چکی، مسائل سے نکالنے کے لئے کوئی قدم کسی سمت بڑھانے میں معاون بن رہے ہیں یا نہیں۔ یہ سوال جتنا آسان ہے، اس کا جواب اُتنا ہی مشکل اور ناممکن ہوتا جارہا ہے۔ پارلیمان کا کردار آئین میں واضح ہے، لیکن اس پر عمل درآمد کتنا ہورہا ہے، اس کے مظاہر شرمندگی سے سر جھکانے کے لئے کافی ہیں، لیکن اس کی درستی کی ذمے داری بھی خود اراکین پارلیمان پر ہی عائد ہوتی ہے کہ کسی بدانتظامی کا حل انہیں خود ہی نکالنا ہوگا۔ پارلیمان سے باہر سیاسی حل نکالنے کا غیر سیاسی تجربہ ماضی میں کبھی خوش گوار ثابت نہیں ہوا۔


عوام کے مسائل کا حل درحقیقت پارلیمان اور اداروں کے ہاتھ میں ہے اور پارلیمان کا سب سے اہم اور بنیادی مسئلہ ایک ہی اور وہ ہے قانون سازی۔ انتظامی خرابیوں کو اگر دُور کیا جاسکتا ہے تو وہ پارلیمان میں قانون سازی کے ذریعے، لیکن حالات اس نہج پر پہنچ چکے کہ بدانتظامی سے ہر طبقہ تنگ آکر کہنے لگ جاتا ہے کہ اس مسئلے کا حل اس کے سوا کچھ اور نہیں کہ چہرے نہیں نظام بدلو، لیکن کون سا نظام، کس کو پسند ہے، یہاں اس قدر اختلافات ہیں کہ اس پر طویل بحث کرنا وقت کا ضیاع ہے، ہر چند کہ جمہوریت اور آمریت کے نام پر رائج تمام نظام آزمائے جاچکے۔ حالات سے دل برداشتہ ہوکر اس نتیجے پر پہنچنا بھی ایک لحاظ سے حق بجانب ہے، لیکن ہماری اس روش کے نتائج کیا نکل سکتے ہیں؟ قانون کی عمل داری نہ ہونے اور انتظامی بدنظمی و خرابیوں سے پورے معاشرے پر مضر اثرات مرتب ہوں گے اور کسی ایسی قدر مشترک پر اتفاق ہونا بھی ناممکن ہوجائے گا، جو مسائل کا حل نکالنے کے لئے سودمند ہوسکتی ہو۔


انتظامی خرابیاں، قریباً ہر ادارے میں کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں اور یہ راقم کا ذاتی تجربہ ہے کہ ایسے ادارے، جن کا کام کسی ادارے کی بدانتظامی کو درست کرنا ہوتا ہے، وہاں بھی انتظامی خرابی کی نئی اشکال ہوتی ہے۔ صاف و شفاف نظم و نسق کا تصور شاید کتابوں میں ہی اچھا لگتا ہے، اس لئے ہر سُو جب عملی طور پر واسطہ پڑتا ہے تو گوناگوں مسائل سے سابقہ پڑتا ہے۔ عدم برداشت کے اس ماحول میں آپ اپنا اظہاریہ بھی کھل کر اس لئے نہیں لکھ سکتے، کیونکہ جن حالات سے واسطہ پڑتا ہے، اس کے مضر اثرات سے بھی بچنا اہم ہوتا ہے۔ انتظامی کارکردگی کے لئے سب سے احسن طریقہ قانون کا نفاذ اس کی درست تشریح کے ساتھ ضروری ہے۔ قاعدے قانون اور ضابطے بنائے ہی اس لئے جاتے ہیں، تاکہ حق کے مطابق کیے جانا ہی کسی کامیابی کی عملی دلیل بن سکے۔ قانون پر عمل درآمد ہونے میں احتساب کا خوف ہی کسی انتظامی خرابی کو دور کرنے میں معاون ہوسکتا ہے۔ خرابی کسی بھی نہج پر ہو، احتساب کا نفاذ اور عمل کا معیاری میزان ہی معاشرتی بگاڑ کو کم کرسکتا ہے۔


حکومت کسی بھی جماعت کی ہو، لیکن اس کی رِٹ کا پہلا زینہ انتظامی معاملات پر ٹھوس گرفت ہونے سے بنتا ہے۔ انتظامی رویے میں مصلحت اور کوتاہ اندیشی سے نقصانات کا اشاریہ بڑھ جاتا اور عوام میں بداعتمادی و مایوسی پھیلنا شروع ہوجاتی ہے، جس کے نتائج ہر حال میں کسی بھی صورت سودمند نہیں ہوتے۔ عوام کو قیام پاکستان کے بعد ہی سے ہر دور میں بدانتظامی کا سامنا کسی نہ کسی صورت رہا، شاید یہی وجہ ہے کہ احتساب کا عمل بھی کمزور اور ناتواں رہا، جس کے نتیجے میں قانون کا خوف اور رٹ متاثر ہوئی، ہر نئے دور میں انتظامی خرابیوں کی نئی قسم متعارف ہوئی اور حالت یہ ہوچکی کہ کسی ایک مرض کا علاج مکمل ہوتا نہیں کہ دوسرے جگہ زخم بگڑنے لگ جاتا ہے۔ محکمے یا ادارے انسانوں سے بنے ہیں، اس لئے غلطیوں اور کوتاہی سے مبّرا نہیں ہوسکتے۔ یہ کسی خودکار نظام کے تحت نہیں چلتے، اس لئے اس میں کسی بھی بے انتظامی کا ہونا خارج ازامکان نہیں، تاہم غلطی کو سمجھ اور مان کر بنیادیں درست کرلینا سب سے اہم نکتہ بن جاتا ہے، کیونکہ معاشرے کی دیوار انہی بنیادوں پر رکھی جانی ہے، اگر اس میں کجی ہوئی تو پوری عمارت کا سیدھا ہونے کا تصور، خود فریبی اور قوم کو دھوکا دینے کے مترادف کہلائے گا۔ 

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57333

داد بیداد ۔ نجی شعبے کا اشتراک ۔ ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی

داد بیداد ۔ نجی شعبے کا اشتراک ۔ ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی

خیبر پختونخوا کی حکومت نے غیر فعال ہسپتا لوں کو پوری طرح فعال بنا کر عوام کوا ن کی دہلیز پر سہو لیات دینے کے لئے نجی شعبے کے اشتراک سے ایک تدریجی عمل شروع کرنے کا پہلا معا ہدہ کیا ہے پہلے مر حلے میں 10ہسپتا لوں کو نجی شعبے کے حوالے کر کے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت چلا یا جا ئے گا اس معا ہدے کی تقریب میں وزیر اعلیٰ محمود خا ن بھی مو جو د تھے .

منصو بے کی تفصیلات بتاتے ہوئے صو با ئی وزیر برائے صحت اور خزا نہ تیمور سلیم جھگڑا نے اخباری نما ئیندوں کو بتا یا کہ ہمارے پا س ہسپتا لوں کا بہترین بنیا دی ڈھا نچہ مو جو د ہے لیکن وسائل کی کمی کی وجہ سے اس انفرا سٹرکچر سے پوری طرح فائدہ نہیں اٹھا یا جا رہا کئی ضلعی ہسپتا لوں کو سی ٹی سکین یا ایم آر آئی کی ضرورت ہے کئی ہسپتا ل ایسے ہیں جہاں ایکسرے اور لیبارٹری کی جدید مشینری در کار ہے کئی ہسپتا لوں میں لیڈی ڈاکٹر اور ڈینٹل کلینک کی سہو لت نہیں کئی ہسپتا ل ایسے ہیں جہا ں دس بیما ریوں میں سے آٹھ بیما ریوں کے سپشلسٹ کی آسا میاں خا لی پڑی ہیں .

حکومت کی اتنی استعداد نہیں کہ اس طرح کی خا میوں پر قا بو پا سکے اس لئے حکومت نے عوامی مفاد میں نجی شعبے کے اشتراک سے ایسے تما م ہسپتا لوں کو پری طرح فعال بنا نے کا پرو گرام وضع کیا ہے اس کے دو بڑے فائدے ہونگے، حکومت کے فراہم کئے ہوئے بنیا دی ڈھا نچے سے کا م لیا جا ئے گا بنیادی ڈھا نچہ کا ضیا ع نہیں ہو گا دوسرا فائدہ یہ ہو گا کہ عوام کو ضلع کے اندر علا ج معا لجہ کی بہترین سہو لتیں ملینگی اور جدید ترین مشینری دستیاب ہو گی، وزیر صحت نے وضا حت کی کہ ما ضی میں نجی شعبے کے اشتراک سے چلنے والے ہسپتا لوں میں لو گ مخصوص فیسوں کی شکا یت کر تے تھے.

اب صو با ئی حکومت نے صحت انصاف کا رڈ کے ذریعے عوام کو مفت سہو لت فراہم کی ہے اس بنا ء پر نجی شعبے کی طرف سے جو فیس مقرر ہو گی اس کا بو جھ غریب عوام پر نہیں پڑے گا حکومت بیمہ کمپنی کو ادا کریگی بیمہ کمپنی ہسپتا ل کے بل جمع کرے گی اگر غور سے دیکھا جا ئے تو صحت کے شعبے میں نجی شعبے کا اشتراک مو جو د ہ زما نے کا انقلا بی اقدام ہے ما ضی میں چھوٹے پیما نے پر اس کا تجربہ کیا جا چکا ہے صحت انصاف کارڈ کی سہو لت سے پہلے عوام پر فیسوں کا بوجھ پڑتا تھا اب یہ بوجھ بیمہ کمپنی برداشت کریگی عوام پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑے گا یہ حقیقت ہے کہ 1972اور 1988کے درمیان سولہ سالوں میں خیبر پختونخوا کے تما م اضلاع کو ہسپتا لوں کی تعمیر کے لئے وسائل فراہم کئے گئے جن کی مدد سے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوار ٹر ہسپتا ل، تحصیل ہیڈ کوار ٹر ہسپتا ل، رورل ہیلتھ سنٹر اور بیسک ہیلتھ یو نٹ قائم کئے گئے.

ایک ایک ضلع میں ایسی 38عما رتیں قائم ہوئیں 1988ء کے بعد سیا سی انتشار کا زما نہ آیا یہ عمارتیں استعمال میں نہ آسکیں 2001ء میں ڈیو لوشن پلا ن کی وجہ سے صحت کی فراہمی کا پورا نظام متاثر ہوا اس کے بعد پھر سیا سی افراتفری کا دور آیا چنا نچہ ہسپتا لوں کی جو عمارتیں قائم ہوئی تھیں ان عمارتوں میں علا ج معا لجہ کی سہو لتیں فراہم کرنے پر تو جہ نہیں دی گئی کئی دفعہ اخبارات میں رپورٹیں آئیں کہ کسی جگہ حا دثہ ہوا دو کلو میٹر فاصلے پر بیسک ہیلتھ یو نٹ کی خا لی عمارت تھی، 15کلو میٹر کے فاصلے پر رورل ہیلتھ سنٹر کی خا لی عمارت تھی زخمیوں کو 30کلو میٹر مزید سفر کر کے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال لا یا گیا تو ان میں سے کئی جا نیں ضا ئع ہو چکی تھیں اس ہسپتال میں سی ٹی سکین نہ ہونے کی وجہ سے زخمیوں کو پشاور ریفر کیا گیا توراستے میں ان کی موت واقع ہو گئی نجی شعبے کے اشتراک سے ہسپتال چلا ئے گئے تو ایسے واقعات نہیں ہو نگے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57318

مری حادثہ اور ہماری زمہ داریاں – کریم علی غذری

مری حادثہ اور ہماری زمہ داریاں – کریم علی غذری

گزشتہ ہفتے سیاحوں کی  جنت نظیر وادی ملکہ کوہسار مری میں قدرتی حسن و منظر سے لطف اندوز ہونے والوں کے ساتھ اندوہناک حادثہ پیش ایا۔  اس پر جتنا بھی رنج و غم کا اظہار کیا جائے کم ہوگا۔ ہمدردی کے جتنے اوراق کو پلٹا جائے تو اس المناک حادثے کو بیان کرنے کے الفاظ نہیں ملیں گے۔ موت برحق ہے لوٹنا اسی خالق کائنات کی طرف  اسی کے حکم سے ہے۔ لیکن جب اللہ نے انسان کو اشراف المخلوقات کے عظیم لقب سے نوازا ہے تو اس کے پیچھے چند عوامل بھی ہیں جن کی وجہ سے وہ اشراف المخلوقات کے عظیم منصف پر فائز ہے۔ عقل وہ اوزار ہے جو تمام جانداروں میں انسان کو ممتاز بناتا ہے اور عقل ہی کے مثبت استعمال سے انسان مختلف خطرات اور نقصانات سے محفوظ ہوتا چلا آرہا ہے۔ 


عظیم دھماکے یعنی دی بیگ بینگ سے شروع ہونی والی کائنات میں 13.6 ارب سال اور زمین کے 4.6 ارب سال میں ارتقاء سے عقل نے زندگی کے ہر شعبے میں چونکا دینی والی کامیابیاں سمیٹی ہے۔ عقل اور علم کے وسیع نظریے کو سامنے رکھ کر سائنس و ٹیکنالوجی، طب، فلکیات کے شعبے نے ہر طرح فتوحات سمیٹی ہے۔ ایٹم کے اندر پروٹان کے چارجز سے لیکر گلکسی اور بلیک ہول تک رسائی عقل اور علم کی روشن دلیلیں ہیں۔ لیکن اگر ہم ان نایاب قدرتی نعمتوں سے استفادہ حاصل نیہں کرسکتے ہیں تو خود کو کس طرح اشراف المخوقات کے ترازو میں تول سکتے ہیں۔ جب بھی پاکستان میں کوئی المناک حادثہ رونما ہوتا ہے سارا الزام حکومت، اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کندھوں پہ ڈال دیا جاتا ہے۔ پھر تنقید برائے اصلاح کے بجائے تنقید برائے تنقید کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔  کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ بحیثیت شہری ہم پر بھی کچھ فرائض عائد ہوتے ہیں۔  پاکستان کی ائین کا نفاذ ہم پر ہوتا ہے اور ہم کو اس کے مطابق چلنا ہوتا ہے۔

31 دسمبر کی شب اور پھر 5 جنوری کو محکمہِ موسمیات نے مری میں طوفان کی پیشن گوئی کی تھی اور اس دوران میں این ڈی ایم اے نے پی ڈی ایم اے کو الرٹ جاری کیا تھا کہ موسم میں ہونی والا بدلاو کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔ اور ایسا ہی ہوا جس کی وجہ سے ایک المناک واقعہ نے جنم لیا، 22 چراغ ہمیشہ کے لیے بجھ گئے۔ ایڈونچر کے شوقین تو ہم سب ہیں لیکن زندگی کو خطرے میں ڈال کر بیغیر کسی تیاری کے ایڈونچر کرنا کسی طرح بھی عقل سلیم کی دلیل نہیں انسانی زندگی بہت قیمتی شے ہے جس کی قدر ہونی چاہیں۔ اگر کچھ یہ سب لوگ زمہ داری کا مظاہرہ کرکے مجاز اداروں کی باتوں پر عمل کرتے تو یقیناً اس حادثے سے بچا جاسکتا تھا۔  مری میں اس وقت 4000 کے قریب گاڑیوں کے پارکنگ کی گنجائش ہے مگر 3 دن کے دوران 95 ہزار سے زائد گاڑیاں مری کے حدود میں داخل ہوچکی تھیں۔

باوجود اس کے مری میں ہوٹل، ریسٹورنٹ، موٹیلز بھر چکے ہیں سیاح جوق در جوق مری کے راستوں پر رواں دواں تھے۔ کیا ہماری خود کی اتنی ذہنی صلاحیت نہیں ہے کہ سب کچھ عیاں ہونے کے باوجود موت کے کنویں کی طرف لپکے؟ خود کو اور اپنوں کو یوں اذیت ناک موت سے ہمکنار کروائیں؟ قدرتی حسن و منظر سے تو اس وقت لطف ہوسکتے ہیں جب زندگی باقی رہے گی۔ ایڈونچرز کے نام پر خود کو خطرے میں ڈالنا کہاں ذی شعور انسان کی علامت ہے۔ دوسری بات وہاں کی مقامی باشندوں پر تنقید کے تیر چلائے جاتے ہیں اور لوگ ان پر فوقیت حاصل کرنے یا اپنے علاقے کو ان پر ترجیح دینے میں  لگے ہوئے ہیں، سیاحوں کی زبانی سنیے تو مقامی افراد نے بڑھ چڑھ کر سیاحوں کی ہر ممکن مدد کرنے کی کوشش کی  مگر ان لوگوں نے گاڑی میں رات گزرنے کو ترجیح دی۔ بہرحال اگر احتیاط کے دامن کو مضبوطی سے پکڑا جائے تو آنے والے وقت میں اس طرح کے دردناک حادثات سے بچا جاسکتا ہے۔

chitraltimes Mari incident 22 dies tourists 21
Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
57315

جہنم کا راستہ ۔ محمد شریف شکیب

وسطی ایشیاء کی اسلامی ریاست ترکمانستان نے جہنم کا دروازہ بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔اس خبر سے عمومی طور پر یہ تاثر لیاجاتا ہے کہ جہنم کا راستہ سابق سوویت یونین سے آزادی حاصل کرنے والی ریاست ترکمانستان سے ہوکر گذرتا ہوگا۔ کچھ لوگوں کی رائے یہ ہے کہ ترقی پذیر ممالک کے حکمرانوں نے اپنے منفی کرتوتوں سے دنیا کو ہی لوگوں کے لئے جہنم بنادیا ہے۔ کسی دوسرے جہنم کی ضرورت نہیں رہی۔ اس لئے اس کا راستہ بند کرنے کا فیصلہ کیاگیاہوگا۔

عام لوگوں کی سمجھ میں نہ آنے والے تخیلات شاعر لوگوں کے ذہنوں میں آتے ہیں مگر سیاست دان اس لطیف حس سے عام طور پر بے بہرہ ہوتے ہیں۔ مرزا غالب نے کہا تھا کہ ”جاتے ہوئے کہتے ہو، قیامت کو ملیں گے۔ کیاخوب، قیامت کا ہے گویاکوئی دن اور“شاعر نے یہاں محبوب سے جدائی کو اپنے لئے قیامت برپا ہونے سے تعبیر کیا ہے۔اپنے قارئین کو تجسس کے عذاب سے چھٹکارہ دلانے کے لئے جہنم کے راستے کی حقیقی کہانی بتاتے چلیں۔1971میں تیل اور گیس کے ذخائر کی تلاش میں ترکمانستان کے صحرائی علاقے قراگم میں ماہرین نے ایک کنواں کھودا تھا۔ کنوئیں سے دھکتے آگے کے شعلے نکلنے لگے۔ اسے بجھانا اس وقت ممکن نہیں تھا۔ اس وجہ سے ماہرین اسے کھلا چھوڑ کر نو دو گیارہ ہوگئے۔یہ چھوٹا سا گڑھابڑھتے بڑھتے 70میٹر چوڑا اور20 میٹرگہرا ہوگیا اور گذشتہ پچاس سالوں سے اس گڑھے سے آگ کے شعلے نکل رہے ہیں اور یہ شعلے کافی فاصلے سے نہ صرف دکھائی دیتے ہیں بلکہ ان کی تپش بھی دور سے ہی محسوس کی جاسکتی ہے۔ اس گڑھے کو لوگوں نے جہنم کے راستے کا نام دیا۔

گذشتہ دو عشروں سے صحرائے قراگم میں موجود یہ دھکتی آگ کا گڑھا سیاحوں کے لئے ایک پرکشش مقام کی حیثیت رکھتا ہے۔ حال ہی میں ترکمانستان کے صدر قربان علی محمدوف نے حکم جاری کیاہے کہ 50 برس سے جہنم کے دروازے نامی گڑھے میں دہکتی آگ کو بجھانے کا کوئی راستہ نکالاجائے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم اپنے ملک میں موجود گیس جیسے قدرتی ذخائر کو خود نقصان پہنچا رہے ہیں قدرتی گیس کے اس وسیع ذخیرے سے ہم منافع کما سکتے ہیں۔ اس منافع سے ہم لوگوں کی زندگیاں بہتر بنا سکتے ہیں۔ صدر کا کہنا ہے کہ انسانوں کے ہاتھوں بننے والے اس گڑھے کی وجہ سے ماحول اور اردگرد رہنے والے لوگوں کی صحت پر بھی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ اس لیے ماہرین اس بارے میں کوئی راستہ نکالیں اور آگ کو بجھانے کی کوشش کریں۔وسطی ایشیاء کا یہ خطہ تیل اور گیس کے ذخائر سے مالامال ہے مگر گرم پانی تک پہنچنے کا راستہ نہ ملنے کی وجہ سے یہ قیمتی وسائل ضائع ہورہے ہیں۔ ہمارے ہاں گیس لوڈ شیڈنگ کے ستائے لوگ قدرتی گیس کے اسراف پر کڑھ رہے ہوں گے۔

یہ بات سچ ہے کہ ایک اندھا شخص بینائی کی نعمت کی قدر بہترجان سکتا ہے۔اندھا کیاجانے بسنت کی بہار والی کہاوت محض طنز ہے۔ہم نے دیکھتی آنکھوں والوں کو بھی بصارت کی نعمت سے محروم دیکھا ہے۔علامہ اقبال نے شاید انہی لوگوں کے بارے میں کہا تھا کہ ”دل بینا بھی کرخدا سے طلب۔ آنکھ کا نور دل کا نور نہیں“ جو لوگ بصارت کی نعمت سے استفادہ کر رہے ہیں وہ اس کی قدر و قیمت سے نسبتاً کم آگاہ ہیں۔اسی موضوع سے میل کھانے والی ایک اور مشہور کہاوت ہے کہ ”گھر کی مرغی دال برابر ہے“یعنی جو چیز دستیاب ہے اس کی قدر نہیں کی جاتی۔جو چیز پاس نہیں، اس کی کمی شدت سے محسوس ہوتی ہے۔ہمارے ہاں بھی بہت سی نعمتیں ایسی ہیں جن کی قدروقیمت کا ہمیں صحیح اندازہ نہیں ہے۔ ہمارے پاس چار موسم ہیں، کھلاسمندر ہے، فلک بوس، برف پوش چوٹیاں ہیں، لق و دق صحرا ہیں،ذرخیز زمینیں ہیں۔انواع و اقسام کی جنگلی حیات،گھنے اور سرسبز و شاداب جنگل ہیں۔بیکار چیز سمجھ کر ہم بے دردی سے ان کا صفایاکررہے ہیں۔خدا کرے کہ قربان علی محمدوف کی طرح ہمارے حکمرانوں کو بھی اپنے قدرتی وسائل کی حفاظت اور انہیں قومی ترقی کے لئے بروئے کار لانے کی توفیق نصیب ہو۔آمین

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57283

میلہ ماگھی، سکھ مذہب کامذہبی تہوار – ڈاکٹر ساجد خاکوانی (اسلام آباد،پاکستان)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

میلہ ماگھی،سکھ مذہب کامذہبی تہوار – ڈاکٹر ساجد خاکوانی (اسلام آباد،پاکستان)

( 13جنوری، سکھوں کی عید کے موقع پر خصوصی تحریر)

                ”ماگھی“کالفظ بکری تقویم تاریخ کے دوسرے مہینے ”ماگھ“سے لیاگیاہے۔یہ تہوار ماگھ کی پہلی تاریخ کو پورے ہندوستان میں منایاجاتاہے۔سکھوں کے ہاں اس کو ”میلہ ماگھی“کے نام سے یاد کیاجاتاہے۔جب کہ ہندوستان کے دوسرے علاقوں جیسے نیپال اور بنگلہ دیش میں اس تہوارکانام ”مکرسنکرانتی“ہے۔تامل ناڈومیں اس دن کو”پونگل“کہ کرمنایاجاتاہے اورکیرالہ،کرناٹک اورآندھراپردیش میں اسے طویل نام کی بجائے ”سنکرانتی“کامختصرنام ہی دیاجاتاہے۔اس تہوارکی تاریخ میں ہندوستان کی ستارہ شناسی،علم نجوم اور حساب گردانی کابغورمشاہدہ کیاجاسکتاہے۔یہ تہوار شمسی تقویم کے پہلے مہینے جنوری کے وسط میں کہیں واقع ہوتاہے۔عصری تحقیقات کی مطابق جنوری کی انہیں تواریخ میں سورج کی سالانہ گردش خط قوس سے گزرکرخط جدی میں داخل ہوجاتی ہے۔ہندی میں جدی کو”مکر“ کہتے ہیں اسی لیے اس تہوار کے ساتھ ”مکر“کاسابقہ لگایاجاتاہے۔یہ دن اس لحاظ سے بھی اہمیت کاحامل ہے سورج کاخط تبدیل ہونے سے دن کی روشنی کے دورانیے میں اضافہ شروع ہوجاتاہے اور عرف عام میں کہاجاتاہے کہ دن بڑے ہوناشروع ہوگئے ہیں۔رات کے مختصراوردن کے طویل ہونے کی مسرت لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹ کاباعث بن جاتی ہے اور اس سے موسم سرماکی شدت کی روبہ زوال ہوجاتی ہے چنانچہ یہ امور عام عوام کے کام دھندا،فصلوں اور سفرمیں آسوددگی اورراحت کاباعث بنتے ہیں اسی لیے ان کے آغازپر یہ مذہبی تہوار منایاجاتاہے جو ایام سالانہ میں حسین تبدیلی کاآغاز ہوتے ہیں۔جن خلائی حقائق تک آج کی سائنس نے اب رسائی حاصل کی ہے ہندوستان کے ہزاروں سال قبل کے ماہرین ریاضی و حساب و الجبرااور ماہرین علم نجوم و ماہرین ارضیات و افلاکیات ان سے کماحقہ واقف تھے۔اس سے اندازہ ہوتاہے ہندوستان میں وحی کانزول جاری تھا کیونکہ قرآن مجیدنے بتایاہے کہ ”ولکل قوم ھاد(سورۃ رعد)“ کہ ہم نے ہرقوم کی طرف نبی بھیجے ہیں۔

                اسی سے ملتاجلتاایک اورتہوارجسے ”لوہڑی“کہاجاتاہے، یہ بھی مشرقی پنجاب،ہریانہ،دہلی کے نواح،جموں،کشمیر اور راجھستان میں ہرسال منایاجاتاہے۔چونکہ ”لوہڑی“اور ”ماگھی“ایک دن منائے جاتے ہیں اس لیے غالب گمان یہی ہے کہ یہ ایک ہی تہوارہے جودومختلف ناموں سے موسوم ہے۔اس”لوہڑی“تہوار کی وجہ جواز بھی بڑے دنوں کی آمدہے جس کے باعث دن کازیادہ حصہ کارآمدہوجاتاہے اورتاجر،کسان،سوداگر اور بیوپاری حضرات کو اپنی آمدن میں اضافہ کی امیدنظرآنے لگتی ہے اورخواتین کوبھی گھرگرہستی کے لیے وقت کی اضافت میسرآجاتی ہے۔”لوہڑی“کے تہوار پر ایک گیت بھی گایاجاتاہے جو ایک مسلمان”دلابھٹی“سے موسوم ہے۔صدیوں بعد ”دلا“ شایداصل میں ”عبداللہ“ہوگا جو پنجابی ثقافت میں نام کے اسم تصغیرکے طورپر اب ’دلا“سے مشہورہوگیا۔یہ ایک لوک کہاوت ہے کہ وقت کاحکمران ایک خوبصورت لڑکی کواغواکرناچاہتاتھالیکن اس ”دلابھٹی“نے اس لڑکی کی مرضی کے مطابق اس کے چاہنے والے ایک لڑکے سے اس کی شادی کردی۔یہ شادی جنگل میں چھپ کر کی گئی جس میں لڑکا،لڑکی اور ”دلابھٹی“ہی شامل تھے اورچوتھاکوئی فرد نہ تھا۔لڑکالڑکی چونکہ ہندوتھے اور ”دلابھٹی“کوہندووانہ شادی کے منترنہیں آتے تھے اس لیے اس نے آگ کے گرد سات پھیرے لگاکر ایک پنجابی گیت گادیاجس میں وقت کی ستم ظریفی کو حاصل کلام بنایاگیاتھا۔چنانچہ آج تک وہ لوگ گیت ”لوہڑی“کے اس تہوار میں رقص و سرود اورمحفل موسیقی میں آگ کے گرد بیٹھ کربڑی کثرت سے گایاجاتاہے۔

                قدیم زمانوں میں ہمالیہ کے دامن کے جان لیوا برفانی  یخ بستہ ماحول میں بسنے والے لوگ سردیوں کے وسط میں یہ تہوارمناتے تھے جب ربیع کی فصل اترچکتی تھی۔اس زمانے میں ہفتوں کے بعد گھرکے صحن میں آگ کاالاؤ تیارکیاجاتاتھا،اس کے گرد ساراخاندان اکٹھاہوتااورجاڑے کے سخت ترین ایام کے خاتمے اور بڑے دنوں کی آمدکااستقبال کیاجاتااور ناچ،گانااورکھانے کی محفلیں منعقد کی جاتی تھیں۔یہی روایت ہمالیہ سے بہنے والے دریاؤں کے ساتھ ساتھ بہتی ہوئی ہندوستان کے دیگرعلاقوں میں بھی پہنچی اور اس نے باقائدہ مذہبی تہوارکی شکل اختیارکرلی۔پنجاب میں جب سکھوں کاراج تھاتو ”لوہڑی“کے دن راجہ کی طرف سے کپڑے اور قیمتی تحائف عوام میں درجہ بدرجہ تقسیم کیے جاتے تھے اور آنے والی رات کو آگ کابہت بڑاالاؤ روشن کیاجاتااور اس کے گرد راجہ اپنادربارلگاتااور ساری رات اس تہوار کو منانے کاجشن جاری رہتا۔اس کے بعد آج تک یہ تہوار منایاجاتاہے۔اس دن بچے ”دلابھٹی“کانام لے کر گیت گاتے ہیں۔صبح سویرے بچے بچیوں کی ٹولیاں میٹھی کھیرکھاکر اور شوخ رنگ کے کپڑے پہن کرگھروں سے نکل کر گلیوں میں اکٹھی ہوتی ہیں،ایک بچہ اونچی آوازمیں گیت گاتاہے،گیت کامصرع ختم ہونے پر سب بچھے مل کر”ہوئے“کالفظ بولتے ہیں اور گیت کاایک بندختم ہونے پر پہلامصرع سب بچے مل کرگاتے ہیں اوریہ سلسلہ چلتارہتاہے۔یہاں تک بچوں کی یہ ٹولیاں کسی وڈیرے کے گھرجمع ہوکر خواتین کوبھی اپنے ساتھ ملالیتی ہیں اور بعددوپہرتک یہ سلسلہ چلتاہے جس میں بڑوں کے ساتھ شامل ہونے میں آلات موسیقی اور مقالی رقص کی”بھنگڑا“اور”لڈی“مشق بھی شامل ہوجاتے ہیں۔”بھنگڑا“مردوں کا رقص ہوتاہے جوبہت بڑے پیٹ والے ڈھول کی تھاپ پر ناچاجاتاہے اور ”لڈی“کارواج عورتوں میں پایاجاتاہے جوتالیوں اور چٹکیوں کے ساتھ کرتی ہیں اور یہ دونوں رقص دائرے کی شکل میں اجتماعی طورپر گھومتے ہوئے کیے جاتے ہیں۔اس رسم کے اختتام پر میزبان اہل خانہ سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ مشروبات اور میٹھائی سے شرکاء کی تواضع کریں گے چنانچہ بڑے پیمانے پر اس کااہتمام کیاگیاہوتاہے جس کی تیاری میں کئی دن سے کئی لوگ مصروف عمل ہوتے ہیں۔دوپہرکاکھانااپنے اپنے گھرکھائیں یاایک ہی جگہ کھائیں اس کے مشمولات لازمی طورپر سرسوں کاساگ اور مکئی کی روٹی ہی ہوتی ہے۔جموں اورکشمیرمیں ”چھجاناچ“اور ”ہیرن ناچ“ کے نام کارقص بھی کیاجاتاہے۔یہاں مورکے پروں سے ایک خاص قسم کا دائرہ نما ”چھجا“تیارکیاجاتاہے جسے عام فہم زبان میں ٹوکراسمجھ لیناچاہیے جو دیہاتوں میں خواتین سروں پر اٹھائے ہوتی ہیں۔اس ”چھجا“کو باری باری ہاتھوں میں پکڑکر ایک خاص سرمیں بجنے والے سازینے پر رقص کیاجاتاہے جو”ہیرناچ“کہلاتاہے اوریہ صرف لڑکیاں ہی کرتی ہیں۔یہ ”چھجا“محلے کے سب گھروں میں جاتاہے اورخوشیاں لٹاتاہے۔

                آنے والی رات میں جلائی جانے والی آگ کاانتظار ہفتوں پہلے سے کیاجارہاہوتاہے۔نوجوان لڑکے لڑکیاں محلے اوربرادری کے ہر گھرمیں جاتے ہیں اور اس رات کاسامان اکٹھاکرتے ہیں۔ہر گھروالے ان کاانتظارکرتے ہیں،اگرکسی میں نہ جاسکیں تواس گھروالے ناراضگی کااظہارکرتے ہیں۔ہرگھراپنی بساط کے مطابق اس رات کے لیے اپناحصہ ڈالتاہے۔اگرکوئی گھرانہ اس رات میں براہ راست استعمال ہونے والی اشیاء نہ دے سکے تواہل خانہ ایسی چیزیں ضروردے دیتے ہیں جن کا زرتبادلہ کام آسکے۔اگرسامان پورانہ ہو تو محلے کے لڑکے ایک لڑکے کے منہ پر راکھ لگاکراوراس کی کمرمیں رساباندھکراس کے پیچھے چلتے ہیں اور لوہڑی گیت گاکر اونچے اونچے سے ان چیزوں کوگاتے ہیں جن کی ضرورت ابھی باقی ہوتی ہے،محلے کے گھروں والے لڑکوں کی اس حرکت پرمحظوظ ہوتے ہیں اورمزیدسامان ضرورت کی تکمیل بھی کردیتے ہیں۔رات کی آگ پر ساراگاؤں جمع ہے،مردوخواتین،لڑکے لڑکیاں اوربچے بچیاں ہر کوئی اپنے چہرے پر خوشیاں سجائے اور زرق برق لباسوں کوزیب تن کیے اس تہوارمیں شریک ہیں۔قسم قسم کے کھانے پکے ہوئے بھی ہیں اور پک بھی رہے ہیں اور بیچے خریدے بھی جارہے ہیں اور مفت بھی تقسیم ہورہے ہیں۔مکئی دانوں کے بھوننے کی بھینی بھینی خوشبو ساری میلے میں پھیلی ہوئے ہے،دال کے لڈواور کٹی اور مصالحہ لگی گاجریں اورمولیاں اورشلجم بھی ہیں اور سب سے زیادہ پسندیدہ،لذیزاور خوشبودارپکوان وہ چاول ہیں جن کی رغبت ہرکسی کواپنی طرف کشش کیے ہوئے ہے۔ہرگھرکی خواتین خواہش رکھتی ہیں ان کاپکاہوا کھاناسب لوگ ذائقہ کریں اورپھرتعریف بھی کریں۔رات گئے تک یہ تقریب جاری رہتی ہے۔

                براہواس سیکولربدیسی راج کاجس نے یہاں کے مقامی لوگوں کے چہروں سے مسکراہٹ چھین کربستیوں کوبے رونق کردیا۔انگریزسے پہلے سب مذاہب کے لوگ اکٹھے اورہنسی خوشی رہتے تھے،انگریزکے بعدسے ایک ہی مذہب اورایک ہی برادری اور ایک ہی علاقہ،رنگ و نسل وزبان کے لوگ ایک دوسرے کے جانی دشمن بن گئے اورخون کی ندیاں بہنے لگیں۔سیکولرازم نے ہندوستان سمیت پوری دنیاکو پیٹ کی خواہش اورپیٹ سے نیچے کی خواہش کاغلام بناکرمعیارزندگی کی بڑھوتری کے ایک غیراعلانیہ مقابلے کی آگ کاایندھن بنارکھاہے وجہ صرف یورپی مصنوعات کو مجبوری بناکردنیاسے دولت سمیٹنااوربنی نوع انسان کو سودکی بیڑیاں ڈال کرانہیں اپناتہذیبی،تعلیمی،معاشی اوردفاعی غلام بناناہے۔اب شرق و غرب سے ٹھنڈی ہواؤں کی آمدآمدہے بس اب یہ مداری تماشادکھاکر گیاچاہتاہے اورشکست خوردہ سرمایادارانہ نظام مرض الموت میں گرفتارمیں آخری سانسیں لے رہاہے۔دنیاکوبہت جلد انبیاء علیھم السلام کے پیغام کی طرف پلٹناہے،صرف اسی ذریعے سے خوشیاں ملیں گی،باقی سب ذرائع شرمندگی و ندامت اور نقصان وخسارہ پر منتج ہونے والے ہیں سوائے ان کے جوایمان لائے،نیک عمل کیے،حق بات کی تلقین کی اور صبرکی تاکید کرتے رہے۔        

[email protected]

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57280

آغا خان سکول کہوت کا قیام اور اس کا علمی سفر -تحریر : سردار علی سردارؔ

آغا خان سکول کہوت کا قیام اور اس کا علمی سفر -تحریر : سردار علی سردارؔ

کہوت وادی تورکہو کےشمال مشرق میں سطح سمندر سے تقریبا 9930 فٹ کی بلندی پر واقع ہے اور تورکہو کے  خوبصورت اور دلنشین علاقوں میں شمار ہوتا ہے۔  کسی علاقے کی خوبصورتی نہ صرف یہاں کی ثقافت، تہذیب و تمدن اور معزز لوگوں کی موجودگی کی وجہ سے نمایاں ہوتی ہے بلکہ تعلیم،تعلیم یافتہ افراد اور تعلیمی ادارے بھی کسی علاقے کی ثقافتی حسن میں شمار ہوتے ہیں ۔لہذا تعلیم کو فروع دینے میں سرکاری اور پرائوٹ اداروں  کے ساتھ ساتھ  آغا خان ایجوکشن سروسز بھی  اپنی روشن روایات اور زرۤین اصولوں کے مطابق علاقے میں علم کا دیا جلانے میں پیش پیش ہے۔ آغاخان ہائی اسکول کہوت آج جس مقام پر قوم کے نونہالوں کے علم کی آبیاری میں اپنا حصۤہ ڈال رہا ہےوہ جدید دور کے تقاضوں اور گلوبل دنیا کے چیلنجیز کے عین مطابق ہے ۔

آغاخان سکول کہوت کا علمی سفر کب شروع ہوا  اور آج اس کی پوزشن کیا ہے ؟کے بارے میں ایک تحقیقی جائزہ پیش کیا جاتا ہے ۔

یہ 1982 ء کا زمانہ تھا  جب سردار ولی صاحب ( موجودہ بونی دوکاندہ) گورنمنٹ مڈل اسکول کہوت کے انچارچ ٹیچر تھے۔موصوف  ایک با اصول، دیانت دار اور اپنے کام سے مخلص شخصیت کا مالک  ہے ۔ اور  وہ اپنی بہترین صلاحیتوں کے مطابق مزکورہ اسکول میں اپنی ذمہ داریاں انجام دینے میں پیش پیش تھے۔آپ کی انہیں خوبیوں اور انتظامی معاملات میں تجربہ ہونے کی وجہ سے آغاخان ایجوکشن سروسز کی طرف سے چیرمین شپ کا اضافی عہدہ  بھی آپ کو دیا گیا تھا جس کی بنا پر  آپ اپنے فارغ اوقات میں  اس اعزازی ذمہ داری کو بھی بہ حسن و خوبی انجام دیتے تھے۔

chitraltimes aga khan school khot torkhow chitral upper 2

اُس زمانے میں تعلیم عام نہیں تھی اورخصوصی طور پر  چترال کے دور افتادہ علاقوں کی بچیوں کے لئے تعلیم تک رسائی ممکن نہیں تھی ۔آغاخان ایجوکشن سروسز نے ایسے علاقوں کی بچیوں اور بعد میں محدود تعداد میں بچوں  کی تعلیم کے لئے پرائمری اسکول کھولنے میں کوشان تھی۔ اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے استاد سردار ولی صاحب  نے     اے کے ای ایس کے اعلیٰ عہدہ داروں سے  بات چیت کی اور کہوت میں  آغاخان اسکول کی بنیاد رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔جب اسکول کی منظوری دی گئی تو یہ اسکول پہلی دفعہ  لشٹ دور کے مقام پر  محترم دل تھینی کے گھر میں  شروع ہوا جس کو موصوف نے اے کے ای ایس کے لئے عطیہ کیا تھا  ۔یہ اسکول تاریخ کے کئی  دشوار گزار اور کٹھن راستوں سے گزر کر آج ہائی اسکول کی پوزیشن پر  قائم ہے اور  چترال کے بہترین اسکولوں میں شمار ہوتا ہے اور یہاں سے فارغ التحصیل ہونے والے طلبہء طالبات مختلف عہدوں میں اعلیٰ مقام حاصل کرتے ہوئے باعزت   زندگی گزار رہے ہیں۔  

آغاخان پرائمری اسکول کہوت میں اُس وقت کم وبیش 30  طلبہ و طالبات  داخلہ لے چکے تھے جن کی درس وتدریس کے لئے میر اعظم خان کو کھوژ سے لایا گیا تھا  جسے کہوت میں  اسکول کے پہلے ٹیچر ہونے کا شرف بھی  حاصل ہے۔ اور وہ  اس نوخیز اسکول کی آبیاری کے لیے دن رات ایک کرکے بچوں کو پڑھایا اور ان کی علمی اور اخلاقی تربیت کی۔اگلے سال میر اعظم خان کو یارخون ٹرانسفر کرکے کہوت ہی سے علی نواز   کو اس کی جگہ نیا ٹیچر مقرر کیا گیا ۔ اور وہ  بھی محنت اور جانفشانی سے بچوں کی تعلیم وتربیت  میں اپنی بہترین صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر پڑھانے لگے۔

chitraltimes aga khan school khot torkhow chitral upper 4

 1984ء میں یہ اسکول  دل تھینی کے گھر سے نغورانٹیک یعنی ریاستی بلڈنگ میں منتقل کیا گیا جہاں شیر وزیر شاہ  کہوت قوزیاندور  ہی سے جبکہ داود نظر کو یارخون سےاس میں اضافی استاد مقرر کیا گیا۔لیکن بہت جلد داود نظر کو ٹریننگ کے لئے بھیج دیا گیا اور اس کی جگہ مس نواز کو میرٹ  کی بنیاد پر نیا ٹیچر مقرر کیا گیا ۔ نغورانٹیک کا یہ اسکول دو سال تک جاری رہا پھر بچوں کی تعداد زیادہ ہونے  اور مذید جگہ نہ ہونے کی وجہ سے کسی معقول ماحول  کی ضرورت محسوس ہوئی۔اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے میر حکیم بیگ کی مدد لی گئی اور وہ گیسو  زیارت کے قریب لشٹ دور میں پانچ کمروں پر مشتمل ایک نئی  عمارت  اسکول کے نام پر تعمیر کی اور اسے اے کے ای ایس کو کرایئے پر دےدیا ۔ 1986ء میں یہ اسکول نوغورانٹیک سے نئی عمارت میں منتقل ہوا  اور نئے ٹیچرز کی تقرریاں بھی عمل میں آئیں جن میں مرحوم میرزا    ولی صاحب، شیر وزیر، میرافضل المعروف پہلوان، نادر غلام، رحمت خان اور رحمت ولی صاحبان قابل زکر ہیں۔ان تمام قابل اورمحنتی اساتذہ کی اشتراک اور تعاون سے اسکول کا نظام اور تعلیم و تدریس کا عمل درست طریقے سے آگے بڑھا اور بچوں میں سیکھنے اور محنت کرنے کا جزبہ  دن  بدن پروان چڑھتا رہا اور یہ سلسلہ سات سال تک قائم رہا۔ اچانک کہوت جیسے علاقہ کے پرامن اور پرسکون ماحول کو کسی کی نظر بد لگ گئی ! اور کہوت میں سیاسی ، نسلی اور قبائلی اختلافات پیدا ہونے لگے ۔ موقع شناسوں نے بہت جلد اس کا رخ مذہبی اختلافات کی طرف موڑ دیا اور مذہب کو بے رحمی سے اس کا اندھن بنا دیا! جس سے آہستہ آہستہ کہوت کے مہذب اور ایک دوسرے کی عزت اور احترام کرنے والے لوگوں میں مذہبی اختلافات و چپقلش کی بو آنے لگی اور میرحکیم بیگ کو آغاخان اسکول کہوت کو بند کرنے کے لئے دھمکیاں مل  گئیں جس کے نتیجے میں میر حکیم بیگ نے مجبوراََ  لوگوں کے اس مناقشانہ رویئے کو دیکھ کر مزکورہ اسکول کو تالا لگاکر بند کردیا جس کی وجہ سے اسکول کے یہ معصوم بچے کھلے آسمان تلے بیٹھ کر سبق پڑھنے پر مجبور ہوئے اور کئی بچے گھروں میں بیٹھ گئے۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ معاشرے کے سارے لوگ  ایک دوسرے کے مخالف تھے  اور وہ  اس قسم کی شرپسندی کو ہوا دے رہے تھے ۔اچھے برے لوگ  ہر معاشرے میں ہوتے ہیں ۔اچھے لوگوں کی وجہ سے ہی معاشرہ امن کا گہوارہ ہوتا ہے ۔تاہم معاشرے کے مہذب اور عزت دار لوگوں نے اس واقعےکی بھرپور  مزمت کی ۔اللہ کا کرم یہ ہوا کہ کہوت ہی کے سنجیدہ و فہمیدہ ، پرامن اور علم دوست افراد  کی کوششوں کے نتیجے میں حالات بہتری کی جانب آنے لگیں اور معاشرے میں  امن دوبارہ  بحال ہوا۔

اور اسکول کو دوبارہ آزاد کرنے اور چلانے کے لیےڈپٹی کمشنر چترال کی طرف سے کچھ خیمے  ڈونیشن دئے گئے  جنہیں مراد دوست  خان لال کی زمین میں نصب کر کے کلاسز  ان خیموں میں دوبارہ شروع کی گئیں ۔خان لال(  خدا  اس کی روح کو دائمی سکون نصیب کرے)  معاشرے میں ایک معزز اور اہم شخصیت کی حیثیت سے پہچانے جاتے تھے نے  اسکول کو دوبارہ دوسری جگہ  تعمیر کرنے کے لئے اپنی زمین  وقف کی جس پر لوگوں نے نِئے جزبے اور شوق کے ساتھ  دن رات ایک کرکے صرف دو مہینوں کے اندر سات کمروں پر مشتمل  نئی عمارت  تعمیر کی۔1992ء کو  خیموں میں جاری رہنے والی کلاسس اس نئی عمارت میں منتقل ہوئیں۔ بچوں  اور والدین میں خوشی کی نئی لہر دوڑ گئی اور وہ شوق اور والہانہ جزبے کے ساتھ اسکول آنے لگے۔ 1993 ء میں اسکول کو مڈل میں ترقی دی گئی اور نئے ٹیچرز مقرر کئے گئے جن میں سردار ولی (چرون والا) اور رحمت نواز کہوت لوگار  وغیرہ شامل ہیں۔ 1994ء میں لوگوں نے باہمی مشاورت اور اتفاق سے اسکول میں  (Community bases School) CBS کے نام سے نویں اور دسویں جماعت کے لئے  مقامی اساتذہ کی مدد اور تعاون سے کوچنگ کلاسس  بھی شروع  کیں یہ اساتذہ ادارے کی طرف سے نہیں بلکہ کمیونٹی کی طرف سے مقرر کئے گئے تھے جنہیں AKES کی طرف سے  وقتاََ فوقتاَ َ پروفیشنل ٹریننگ دے کر درس و تدریس کے اہل بنایا گیا تھا ۔ ان اساتذہ میں شیر عزیز بیگ، میر گلاب،رشیدہ اور پھوک کائے  قابلِ زکر ہیں جنہوں نے اپنی بہترین صلاحیتوں کے مطابق بچوں کو پڑھایا اور اُن کو تعلیم دینے میں کوئی کسر باقی  نہیں چھوڑی۔ انہوں نے بچوں میں قابیلیت اور ہنر پیدا کرنے کے لئے بے حد کوشش کی جس کے نتیجے میں اکثر بچے بورڈ کے سالانہ امتحان میں اچھے نمبروں سے پاس ہوکر گورنمنت کالج میں ایڈمشن لیکر اپنی تعلیم جاری رکھنے کے قابل ہوئے۔

اے کے ای ایس  سکول کہوت کا علمی  یہ سفر آگے بڑھتا رہا  ۔ والدین ، اسکول کے انتظامیہ اور درس و تدریس سے مطمئن ہوکر ہر سال اپنے بچوں کو یہاں داخل کراتے رہے لیکن زمانے کے تیز رفتار حالات  اور جدید تقاضوں کے مطابق  اسکول کی کچی  عمارت اس قابل نہیں تھی کہ ان کی ضروریات کو پورا کرسکے اس لئے انہوں نے اسکول کے لیے پکی عمارت تعمیر کرنے کے لئے اے کے ای ایس کے اعلیٰ حکام سے گفت و شنید کے بعد  خان لال سے  مذید زمین کا تقاضا کیا جس کو موصوف نے خوشی ،  فیاضی اور دریا دلی سے  قبول کیا  اور انہیں اسکول کو اپنی زمین پر از سرِ نو  جدید طریقے سے  تعمیر کرنے کی  اجازت دے دی۔اے کے ای ایس نے اپنے منشور اور پالیسی کے تحت  سکول کو جدید طرز تعمیر کے مطابق از سرِ نو تعمیر کیا ۔ اور  2005ء کو اسکول کے تمام بچوں کو پورانی عمارت سے نئی تعمیر شدہ بلڈنگ میں منتقل کیا گیا  جہاں انہیں ایک نیا خوبصورت علمی ماحول میسر  آیا  اسکول کے اساتذہ اور بچوں میں خوشی کی انتہا نہ رہی  اور وہ پہلے سے  بھی زیادہ  شوق اور لگن سے  محنت کرنے لگے۔دسمبر 2011 ء کو  اسکول کے سینئر ٹیچرز کی اعزازی ریٹارڈمنٹ کا عمل بھی  شروع ہوا جس میں مس نواز ، علی نواز،  مرحوم میرزا ولی، شیر وزیر  اور میر افضل بھی شامل تھے۔ اور یہ اپنے زمانے کے بہت ہی محنتی،اپنے پیشے سے مخلص اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے مالک اساتذہ میں شمار ہوتے تھے جن کی شب وروز کی محنت بچوں میں تعلیم کے لئے دلچسپی اور اپنے خوابیدہ صلاحیتوں کو نکھارنے کا زریعہ بنیں۔

chitraltimes aga khan school khot torkhow chitral upper 3

2016 ء کو  اے کے ای ایس سکول کہوت  کو ہائی اسکول میں ترقی دی گئی  اور اس کے لئےجدید دور کے تقاضوں کے مطابق  بہتر ، قابل اور پیشہ ور اساتذہ کو  ٹیسٹینگ  اور میرٹ کی بنیاد پر مقرر کیا گیا ۔انہوں نے جدید طریقہائے تدریس کے  مطابق  بچوں کو پڑھانے کی کوشش کی جس سے اسکول کی تعلیمی معیار روز بروز بہتر ہوتی گئی اور بچوں کی خوابیدہ صلاحیتیں نکہرگئیں۔علاقے کے تمام لوگ اسکول  کی تعلیم سےمطمئین ہوئے اور اپنے بچوں کو اسکول میں  داخل کرنے کے لئے تگ و دو کرتے رہے۔اے کے ایس اسکول کہوت کی تاریخ  میں ایسا زمانہ بھی تھا کہ لوگ اپنے بچوں کو یہاں داخل کرانے کے لئے راضی  نہیں تھے لیکن آج زمانہ بدل چکا ہے لوگ اے کے ای ایس کی تعلیمی معیار سے زیادہ مطمئین  ہیں اور یہاں کی درس و تدریس کو بہت زیادہ اہمیت دیتے  ہیں۔اس وقت اے کے ای ایس اسکول کہوت میں  18  اساتذہ مختلف مضامین کو پڑھانے کے لئے اسکول میں ہمہ وقت حاضر ہیں جن میں زیادہ تر  تعداد خواتین کی ہے۔ بشیرالدین  اس وقت اس اسکول کے ہیڈ ٹیچر کی حیثیت سے  اپنی بہترین صلاحیت کے مطابق اپنی ذمہ داریاں  انجام دے رہا ہے ۔ موصوف  آغاخان یونیورسٹی سے گریجویٹ ہیں  اور وہ    جدید دور میں اچھا تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک با اخلاق ، دیانت دار، اپنے پیشے سے مخلص اور ایک اچھے انسان بھی ہیں اور وہ معاشرے میں ہر وقت عزت کی نگاہ سے  دیکھے جاتے ہیں۔

اس اسکول کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ یہاں ECD   (قبلِ مدرسہ تعلیم) تعلیم بھی دی جاتی ہے جنہیں ابتدائی تعلیم دینے کے لئے  ایک تربیت یافتہ  استانی شازیہ بی بی  مقرر ہیں جس کی تین سال کی  ابتدائی تعلیم و تربیت بچوں کو آگے بڑھنے اور مذید تعلیم کے لئے شوق اور دلچسپی کی راہیں ہموار کرنے میں مدد ملتی ہے اور وہ کھیل کھیل میں تعلیم کے بنیادی اصول اور قواعد سے آشنا ہوکر پرائمری ون میں داخل ہونے کے قابل ہوتے ہیں۔ ECDمیں بچوں کی آموزش کو فعال بنانے کے لئے  AKES  کی طرف سے  دو تربیت یافتہ  کورڈینٹرز عنبرین غزالہ اور امرینہ بی بی   بھی مقرر ہیں ۔ وہ ہفتے میں دو دفعہ  ECD  کلاس کو  دیکھتی ہیں اور خود بھی کلاس لیکر بچوں کی درس و تدریس میں  اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

مجھے امید ہے کہ وہ دن دور نہیں کہ یہ سکول بھی  اس قسم کے قابل اساتذہ  کی زیرِ نگرانی میں  ایک دن ہائی سیکنڈری اسکول میں ترقی کرے گا اور وادی کہوت کے طلبہ و طالبات کو اپنے ہی گھر میں بہترین، جدید اور  اعلی بین الاقوامی معیار کی تعلیم میسر ہوگی اور وہ اسی تعلیم کی ہی وجہ سے معاشرے میں ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ  اور باوقار شخصیت بن کر اپنی ، اپنے خاندان اور ملک و قوم کی خدمت کرنے کو اپنا  فرضِ منصبی سمجھیں گے جس سے  آنے والا معاشرہ خوشحال ہوگا اور ترقی کرے گا۔ ان شاء اللہ

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57274

عوام ضلع اپر چترال، ڈی سی صاحب اور تبدیلی سرکار -عبدالحی چترالی

عوام ضلع اپر چترال، ڈی سی صاحب اور تبدیلی سرکار -عبدالحی چترالی

ہائے! سچ میں کچھ لوگ ماں کی دعاوں کی طرح خالص اور مخلص ہوتے ہیں۔ فرائض کی ادائیگی، بیداری اور احساس ذمہ داری میں ان کا کوئی ثانی نہیں ہوتا۔ شاید یہ ہماری کم قسمتی ہے کہ پاکستان جیسے اسلامی ملک میں ایسے لوگوں کی تعداد کچھ زیادہ نہیں، مگر مجھے اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ ایسے ہی لوگوں کی وجہ سے

پاکستان پر اللہ کی رحمتیں نازل ہورہی ہیں۔ شر اور خیر کی روزِ ازل سے ہی آپس میں جنگ جاری ہے اور یہ جنگ تا ابد جاری و ساری رہے گی، ایک طرف طاغوتی اور شیطانی قوتیں اور دوسری طرف فرشتہ صفت، نیک عمل اور جذبہ ہمدردی و ایثار سے بھرپور لوگ، شاید! کارخانہ قدرت کا حسن بھی اسی فلسفلے کے گرد گھومتا ہے۔


جناب ڈی سی اپر چترال محمدعلی صاحب بھی اس قافلہ انسانیت کے راہ رو ہیں،آپ ایک غریب پرور اور ملنسار انسان ہیں۔ اے کاش! میرے وطن کا ہر ایک آفیسر محمد علی کی طرح نیک سیرت، پاک طینت، فرض شناس، ایماندار، خوش اخلاق ہوجائے تو یہ وطن اقوام عالم کے لئے ایک مثال بن جائے۔

chitraltimes dc upper chitral muhammad ali 1


وہ ملاقاتیوں کے ساتھ انتہائی خوش اخلاقی اور خوش اسلوبی کے ساتھ پیش آتے تھے اور ہمیشہ ڈی سی ہاوس غریب اور امیر سب کے لئے یکسان کھلا رکھتے تھے اور انتہائی قلیل مدت میں سائلین اور عوام کے دل جیت لئے تھے جس سے انتظامیہ کا مورال بھی بلند ہوا۔
انتہائی کم عرصے میں موصوف نے ضلع اپر چترال کے اکثرو بیشتر علاقوں میں تمام لائن ڈیپارٹمنٹ کے افسران کو لے کر کھلی کچہری کا انعقاد کیا اور ان کھلی کچہریوں کے ذریعے عوام کی سرکاری افسران تک رسا ئی کو آسان بنایا جس سے بروقت عوامی شکایات و مسائل کو ان کے گھر کی دہلیز پر حل کیا۔


ان کے عوام دوستی اور عوامی مسائل سے دلچسپی کے نتیجے میں استارو اور کوشٹ پل کی بروقت تکمیل سے لوگوں کو ریلیف ملا۔ اس عوام دوست ڈی سی صاحب نے ضلع میں سیاحت کو فروغ دینے کے لئے زانی پاس کے مقام پر بارہ ہزار آٹھ سو فٹ کی بلندی پر ملکی سطح کے ایک تین روزہ پیرا گلائڈنگ مقابلوں کا انعقاد کروایا۔ اس مقابلے میں ملک بھر سے ستر سے زائد پیرا گلائیڈرز نے شرکت کی جس سے علاقے کو بھی فائدہ ہوا۔ اسی طرح بونی میں نیشنل فری اسٹائل پولو چیمپین شپ کے انعقاد سے علاقے میں کھیلوں کو فروغ دینے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔اس پر مستزاد یہ کہ آپ ہی کی کوششوں سے ضلع اپر چترال میں کورونا ویکسنیشن کے مطلوبہ ہدف کے حصول میں صوبہ بھر میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔


اس صورت حال میں جب کہ ڈی سی اپر چترال سے عوام خوش ہیں اور لوگ اسے عوام دوست کرپشن سے پاک اور مسیحا اپر چترال سمجھتے ہیں ان کا ٹرانسفر کر دینا یقینا ایک غلط فیصلہ ہے جس پر انتظامیہ کو از سر نو غور کرنا چاہیئے۔ جو لوگ کئی دن پہلے ہی ان کے ٹرانسفر کی مبارک باد دے رہے تھے ان کے مقاصد کو تو سب جانتے ہیں کہ موصوف کرپشن سے پاک ہونے کی وجہ سے تبدیلی سرکار کے چیلوں کی راہ میں رکاوٹ تھے۔ وزیر زادہ صاحب اپنے ہی پارٹی کارکنوں کے انکشافات کے نتیجے میں اب کرپشن زادہ ہوچکے ہیں مزید یہ کہ عوام کو اس بے وقت


ٹرانسفر کے پیچھے تبدیلی سرکار کا ہاتھ نظر آرہا ہے۔ لھذا وہ اور ان کے دیگر ساتھی اس اقدام سے عوام کی عدالت میں مزید مشکوک ہوں گے۔ لھذا وزیر زادہ صاحب اور پارٹی کے دیگر عہدہ داروں کو چاہیئے کہ وہ اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے اس ٹرانسفر کو رُ کو ا کر عوامی حلقوں میں پذیرائی حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اس نوزائیدہ ضلعے کے باسیوں کے ساتھ سردیوں کے اس موسم میں رحم و کرم کا معاملہ کرے ورنہ بلدیاتی الیکشن کے دوران مخالفین اس اقدام کو پی ٹی آئی کے کھاتے میں ڈال کر رائے عامہ کو اُن کے خلا ف کرنے میں کامیاب ہوجا ئیں گے۔


میں اپنے قارئین کے لئے ایک سوال چھوڑ کر اپنی اس مختصر تحریر کو سمیٹ رہا ہوں کہ ڈی سی صاحب کے ایسے بے وقت تبادلے سے نقصان کس کاہوا؟ ڈی سی محمد علی کا؟ عوام کا؟ یا ریاست کا؟ یہ جواب آ پ اپنے آپ کو خود یجئے۔

chitraltimes dc upper chitral muhammad ali 5
Posted in تازہ ترین, مضامین
57243

جنرل وارڈ کے ایک مریض کی گزارشات – محکم الدین ایونی

چترال کا ڈی ایچ کیو ہسپتال مادر ہسپتال کا درجہ رکھتی ہے ۔ اپر اور لوئر چترال کی 447800آبادی کا زیادہ تر انحصار اس ہسپتال پر ہے ۔ جس کی وجہ سے یہاں پر خدمات انجام دینے والے ڈاکٹروں پر سب سے بڑا بوجھ ہے ۔ کیونکہ سپشلسٹ سمیت دیگر ڈاکٹروں کی دو درجن سے زیادہ آسامیان اب بھی خالی ہیں ۔ ایسے میں جوسپشلسٹس و ڈاکٹرز چترال بھر کا بوجھ برداشت کر کے خدمات سر انجام دے رہے ہیں ۔ یقینا لائق تحسین و آفرین ہیں ۔ ہو سکتاہے ۔ بہت سارے قارئین میرے اس بات سے اتفاق نہ کریں ۔ لیکن مجھے سات روز تک ہسپتال میں اپنے داخلے کے دوران نہایت باریک بینی سےجائزہ لینے کا موقع ملا ۔ اس دوران حکومت اور ہسپتال انتظامیہ کی طرف سے کئی اچھے اقدامات کا مشاہدہ اور ناقص کارکردگی سے واسطہ پڑا ۔ جنہیں میں کسی کی بے جاخوشنودی حاصل کرنے یا بلا وجہ کمزوریاں تھوپنے کی غرض سے ضبط تحریر میں نہیں لا رہا ۔ بلکہ میرا بنیادی مقصد اصلاح احوال ہے ۔

ڈی ایچ کیو ہسپتال چترال میں میرے داخلے کی کہانی 4جنوری سے شروع ہوتی ہے ۔ جب مجھے شدید سانس کی تکلیف بخار اور کمزوری کی شکایت پیدا ہوئی ۔ بدقسمتی سے اس روز فائر ووڈ الاونس کے سلسلے میں ہسپتال کے لوئر سٹاف احتجاج پر تھے ۔ اور او پی ڈی بند تھا ۔تاہم صحت کارڈ کا آفس کھلا تھا ۔ ڈاکٹر نے ایمرجنسی میں چٹ لینے کی رہنمائی کی ۔ اور مختلف ٹسٹ کے ریزلٹ دیکھنے کے بعد فوری داخلہ کا مشورہ دیا ۔ جس کے بعد صحت کارڈ کا مرحلہ طے ہوا ۔ اور جب ادویات متعلقہ سٹور سے لے کر وارڈ میں داخلے کیلئے پہنچا ۔ تو کوئی بیڈ خالی نہیں تھا ۔ داخلہ رجسٹر کو اپڈیٹ کرنے والے ایک اسٹاف نے میرے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے مجھے یہ ادویات لے کر گھر جاکر استعمال کرنے کی ہدایت کی ۔ یہ بات میرے بھی دل کو لگی ۔ کہ جب ہسپتال میں بیڈ خالی نہیں ہے ۔ تو گھر میں علاج کے علاوہ میرے پاس اور کوئی اپشن نہیں ہے ۔ اس لئے مجھے گھر ہی جانا چاہئیے ۔ دل میں اس فیصلے کے بعد مجھے صحت کارڈ اہلکار کے پاس دوبارہ اس غرض سے جانا پڑا۔ تاکہ دو دنوں کیلئے مجھے مزید ادویات مل جائیں ۔ ۔ صحت کارڈ ڈیل کرنے والے نوجوان نے مجھے سمجھاتےہوئے کہا۔ کہ ایک تو ہم صرف داخل مریض کیلئے ڈاکٹر کے لکھے ہوئے ایک دن کی دوائی کے نسخے پر مہر لگاتےہیں ۔ دوسرا صحت کارڈ کے حامل مریض کو ہسپتال کے بیڈ پر موجود ہوئے بغیر علاج کی سہولت نہیں دی جاتی ۔ اس لئےآپ کاہسپتال میں ہونا انتہائی ضروری ہے ۔ ہو سکتاہے ۔ آپ کو مزید چیک کرنے اور ادویات کی ضرورت ہو ۔پھر انہوں نے انکشاف کیا ۔ کہ ہسپتال میں صحت کارڈ پر داخل مریضوں کی فزیکل بیڈ چیکنگ نہیں ہو رہی ۔ جس کی وجہ سے بعض صحت یاب شدہ مریض مختلف طریقوں سے ڈاکٹروں سے رعایت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اور ضرورت مند مریض بیڈ سے محروم رہتے ہیں ۔

میرے بیڈ کا مسئلہ میرے ایک محترم ڈاکٹر کے تعاون سے حل ہوا ۔ اور میں ڈاکٹروں کے بھر پور توجہ کی بدولت سات دن ان کےزیر علاج رہنے کے بعد 10 جنوری کو ہسپتال سے فارغ ہوا ۔ ہسپتال میں میں نےچند چیزوں کا مشاہدہ کیا ۔ جن کا میں اس تحریر میں بطور خاص ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں ۔ اور یہ امید رکھتا ہوں ۔ کہ ایم ایس ڈی ایچ کیو ہسپتال چترال شہزادہ حیدر الملک ایک دیانتدار اور فرض شناس آفیسر ہیں ۔ جن کا ڈی ایچ کیو ہسپتال کی سیٹ سنبھالے تقریبا چند ہی دن ہوئے ہیں ۔ میری گزارشات پر ضرور توجہہ دیں گے ۔ اور انہیں حل کرنے کی کوشش کریں گے ۔ تاکہ حکومت مریضوں کو جو سہولت دینا چاہتی ہے ۔ اس کےخاطر خواہ نتائج برآمد ہوں ۔

ہسپتال میں ایک رات میرے کان میں شدید درد اٹھی ۔ مجھ سے رہا نہیں جا سکا ۔ میں اٹھا ۔ نرسز اور پیرامیڈیکس کاونٹر کے اندر جھانکا تو دو بینچوں پر دو افراد سو رہے تھے ۔ میں نے ایک کا اور دوسرے کا چادر کھسکایا اور پوچھا کہ تم سٹاف ہو ۔ دونوں نےکہا ہم اپنے مریضوں کے ساتھ ہیں ۔ میں اس حالت میں کہ میرےکان کے اوپر چھرا گھونپا جا رہا تھا ۔ مسیحا کی تلاش میں وارڈ سے باہر نکلا ۔ اور ڈیوٹی روم پہنچا ۔ تو وہاں پر ایک نوجوان خواب خرگوش میں مصروف تھا ۔ میں نے اسے جگانے کی کوشش کی ۔ اور بمشکل اس میں کامیاب ہوا ۔ میرا خیال تھا۔ کہ یہ میرا مسئلہ حل کر جائے گا۔ لیکن اس نے موبائل اٹھاکر ایک دوسرے بندے کو کال کی۔ وہ آیا تو وہ بھی میرے کام کانہیں تھا ۔ یہ تیسرے شخص کےپیچھے چلا گیا ۔ تو مجھے وہ مشہور ضرب المثل یاد آیا ۔ تریاق از عراق آوردہ شود مرگزیدہ مردہ شود ۔ تقریبا بیس منٹ کے انتظار کے بعد اصل بندہ سامنے آیا ۔ تو چہرہ کافی اترا ہوا تھا ۔ میں نے اپنی روداد سنائی ۔ تو انہوں نے انجکشن لکھ دی ۔ میں نے پیسے دیے اور وہ نوجوان میڈیکل سٹور سے لے آیا ۔ یوں مجھے انجکشن لگنے میں پونے گھنٹے سے زیادہ کا وقت لگا ۔

اس طویل تجربے کے بعد میری ایم ایس صاحب سے گذارش ہے ۔ کہ وہ رات کے وقت وارڈ کے اندر نرسز کاونٹر کو الرٹ رکھنے کی ہداہت فرمائیں ۔ پیرامیڈیکس اور نرسز کی تعداد کی تو کوئی حد نہیں۔لیکن ایمرجنسی میں وارڈ کے اندر کسی پیرامیڈکس کی تلاش جوئے شیرلانے کے مترادف ہے ۔ ان ا سٹاف کا یونیفارم میں ہونا بھی از بس ضروری ہے ۔ تاکہ اسٹاف اور عام لوگوں میں فرق واضح ہو ۔

ہسپتال کے واش رومزکی حالت انتہائی طور پر مخدوش ہیں ۔ کوئی ٹونٹی پورے واش روم میں موجودنہیں ۔ بالٹی لوٹا کی سہولت موجودہے۔ اور نہ استعمال کیلئے پانی دستیاب ہے ۔ چوبیس گھنٹے میں صرف ایک مرتبہ صفائی کی جاتی ہے ۔ ذہہن پر بڑا بوجھ برداشت کرتے ہوئے مریض یہ واش رومز استعمال کرنے پر مجبورہیں۔ اس کیلئے مکمل انتظام کیا جانا چاہئیے ۔جنرل وارڈ کے علاوہ فیمل وارڈ وغیرہ تمام واش رومز کی حالت ایک جیسی ہے ۔ یہ ایسی چیزیں ہیں۔ جنہیں بار بار ٹھیک کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کیلئے مریضوں کو مورد الزام ٹھہرا کر خود کو بری الذمہ قرار دینا کسی صورت درست نہیں۔ ہسپتال میں میرے داخلے کے موقع پر آپ اپنی پہلی وزٹ پر وارڈ میں تو آئے تھے ۔ لیکن اسٹاف نے آپ کو ایسا الجھایا ۔ کہ پھر واش رومز وغیرہ کی چیکنک کا آپ کو موقع ہی نہیں دیا گیا ۔

ہسپتال میں معذور مریضوں کیلئے واش رومز کا کوئی سسٹم موجود نہیں ہے ۔ تاکہ ٹانگوں سے معذور یا سانس کی تکلیف میں مبتلا مریضوں کو واش روم تک سہولت سے پہنچایا جا سکے ۔ جنرل وارڈ میں وہیل چیئر پر مریض کو واش رومز کے احاطے تک تو آسانی سے پہنچایا جاتا ہے ۔ لیکن وہاں سے واش روم میں داخل ہونے کےلئے چھ سیڑھیاں چڑھنے پڑتے ہیں ۔ اس وقت بھاری بھر کم جسامت والے اور سانس کی تکلیف سے دوچار مریضوں اور ان کے اٹنڈنٹ پر جو گزرتی ہے ۔ وہ الگ داستان ہے ۔ اسی لئے بعض مریض اس عذاب سے بچنے کیلئے کھانا پینا تک چھوڑدیتےہیں ۔ ان معذور افراد کیلئے جدید سہولیات کے حامل واش روم کی تعمیر انتہائی ضروری ہے ۔ تاکہ وہیل چیئر پر ہی مریض واش روم میں داخل ہو سکے ۔ اسے کسی بڑے سہارے کی ضرورت نہ پڑے ۔اس قسم کے واش رومز کی تعمیر کیلئے حکومت کے علاوہ مختلف این جی اوز سے بھی مدد حاصل کی جا سکتی ہے ۔

ڈی ایچ کیو ہسپتال کےجنرل وارڈ کی دیواریں انتہائی طور پر خراب ہو چکی ہیں ۔ انہیں دیکھ کر صدیوں پرانی عمارت کی باقیات لگ رہی ہیں ۔ اس لئے ان دیواروں کو پینٹ کرکے یا جدید پلاسٹک شیٹ دیواروں پر لگا کر انہیں خوشنما بنایا جا سکتا ہے ۔ اور دیواروں کو سیم سے بھی بچایا جا سکتا ہے ۔ تاکہ ہسپتال کی شان برقرار رہے ۔

حکومت نے صحت کارڈ کےنام پر مریضوں کو صحت کی سہولتیں مفت فراہم کرنے کیلئے محتحسن نظام متعارف کیا ہے ۔ اور روزانہ کی بنیاد پر 2300 روپے فی مریض پر خرچ کی جاتی ہے۔ لیکن جن مریضوں کی ادویات کی قیمت 2300 سے زیادہ ہوتی ہے ۔ ان سے اضافی قیمت اسی وقت متعلقہ میڈیکل سٹورکیش وصول کرتی ہے۔ جبکہ دوسرے دن اگر ڈاکٹر کے لکھے ادویات کی قیمت سرکار کے متعین کردہ حساب سے کم ہوتی ہے ۔ تو اس دن کی کمی کو گذشتہ روز کی زیادتی سے ایڈجسٹ نہیں کیا جاتا۔ اس سے ایک طرف سرکارکافنڈ خرچ ہوتا ہے ۔ اور دو سری طرف غریب مریض بھی اپنی جیب سے خرچ کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں ۔ اگر یہ ممکن ہو کہ روزانہ کے فکس سرکاری ادویاتی اخراجات کو مریض کے داخل دنوں کے حساب کے مطابق جمع کئے جائیں ۔ اس کے بعد اگر مریض پر اضافی رقم چڑھے ۔ تو وہ آدا کرے گا ۔ اس سلسلے میں مقامی سطح پر اگر ایڈجسمنٹ کی کوئی صورت ہو سکتی ہے ۔ تو صحت کارڈ کے فوائد سے مریض مکمل طور پر استفادہ حاصل کرسکیں گے ۔

chitraltimes dhq hospital chitral 3
chitraltimes dhq hospital chitral 4
chitraltimes dhq hospital chitral 5
جنرل وارڈ
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57228