Chitral Times

دہشت گردی اور  اگر مگر چونکہ چنانچہ – قادر خان یوسف زئی کے قلم سے

Posted on

دہشت گردی اور  اگر مگر چونکہ چنانچہ – قادر خان یوسف زئی کے قلم سے

دہشت گردوں کی کارروائیوں کو بھلائے جانا ممکن نہیں، کوئی مذہب یا معاشرہ ایسی درندگی کی اجازت نہیں دیتا ۔معصوم ، بے گناہ اور نہتے انسانوں کو نام نہاد خود ساختہ نظریات کے تحت نشانہ بنانا کبھی بھی پسندیدہ عمل قرار نہیں پاتا اور ایسا بیان تو قطعی رسمی و بے روح ہوتاہے کہ’’ متاثرہ خاندانوں کے دکھ میں برابر کی شریک ہیں‘‘، راقم ذاتی طور پر اسے لفظوں کاخوب صورت استعمال کئے جانا تو سمجھتاہے لیکن کسی ایسے خاندان کے غم میں کوئی کیا شریک ہوگا کہ شہید کے دفن ہونے کے بعد صرف اسی کے اہل خانہ زندگی بھر اس کی کمی محسوس کرتے اور ہر تہوار یا غم و خوشی کے دنوں میں اسے یاد کرکے اپنے غم کو کبھی بھولنے نہیں دیتے۔ دیکھتے چلے آرہے ہیں کہ جب ملک میں دہشت گردوں کی انتہا پسندی کا ایسا عروج تھا کہ کوئی مسجد ، عبادت گاہ،عوامی مقامات ، سرکاری املاک محفوظ نہیں تھی، تو قوم کی طرف سے واحد مطالبہ کیا جاتا تھا کہ دہشت گردوں کو اپنے منطقی انجام تک پہنچایا جائے ، کہا جاتا کہ آہنی ہاتھوں سے نپٹا جائے گا، تو قوم مطالبہ کرتی کہ سرعام پھانسی پر چڑھایا جائے۔کہاجاتا کہ سرزمین پاکستان سے آخری دہشت گرد کے خاتمے تک چین سے نہیں بیٹھا جائے گا ۔

سانحات ، دہشت گردی اور انتہا پسندی کے واقعات پاکستانی قوم کے دُکھ اور الم کا باعث بنتے ہیں، چاہے دہشت گردوں کا یہ سمجھنا کہ اس نے کچھ ایسا کردیا کہ جیسا یہ کوئی کارنامہ ہے ، یعنی اس کے مذموم عمل کو ستائش ملے تو یقیناً وہ احمقوں کی جنت میں رہتاہے،اس کایہ کوئی بڑا کارنامہ نہیں قرار دیا جاسکتالیکن درحقیقت اس کا یہ عمل اسے دنیا کے سامنے منکشف کردیتا ہے کہ اس کے قول و عمل کا کسی بھی مذہب اور انسانیت سے کوئی واسطہ نہیں۔ سیاسی جماعتوں اور تمام حکومتی اکائیوں کو کسی بھی قیمت پر شہید کے خون کی حرمت کا سودا ،کسی بھی حالت میں کرنے سے گریز کی راہ اختیار کرنی چاہیے۔ بالخصوص سیاسی جماعتوں کو ایسے خاندانوں کو قصہ پارینہ بنانے کی روش کو ختم کرنا ہوگا اور انہیں مسلسل ایسے خاندانوں سے اظہار یکجہتی اور متاثرہ افراد سے رابطے بحال رکھنے چاہئیں تاکہ انہیں اس امر کا احساس ہو کہ ملک و قوم کے لیے قربانی دینے والے خاندانوں کو بھلایا نہیں گیا۔ دہشت گرد اور ان کے سرپرستوں نے ملک عزیز کو جو ناقابل تلافی نقصان پہنچا یا ہے، اسے کسی صورت بھلایا نہیں جاسکتا ۔ ایسے گروہوں کو اپنے منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے کسی مصلحت یا مفاہمت کی پالیسی کو اپنانے سے جس قدر گریز کی راہ اختیار کی جا سکتی ہے، کی جائے اور ملک دشمن گروہوں کا خاتمہ ریاستی اداروں کی پہلی اور آخری ترجیح ہو۔

ہم دیکھتے آرہے ہیں کہ ملک میں یہ کلچر عام سا ہے کہ ایسے عناصر کی بعض جماعتوں اور تنظیموں کی جانب سے کھلے عام حمایت بھی کی جاتی ہے جن کے ڈانڈے دہشت گردی سے ملتے ہیں۔ یہاں اس امر کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ دہشت گردوں کی ریڑھ کی ہڈی دراصل ان کے سہولت کار ہوتے ہیں۔ دہشت گردی کی ہر قسم کی وارداتوں میں سہولت کاروں کا کردار اہم رہا ہے اور ہر واقعے میں سہولت کاروں نے ہی دہشت گردوں کو سافٹ ٹارگٹ کو نشانہ بنانے کے لیے معلومات اور سامان دہشت گردی پہنچانے کا کام سر انجام دیا، ہمیں ان کی جڑ کو ختم کرنے کے لیے سخت فیصلوں پرملک و قوم کو اعتماد میں لینا چاہیے کیونکہ انتہا پسندی کے واقعے میں سہولت کاری کا عنصر موجود ہوتا ہے۔ دوسری جانب ملک کی سیاسی جماعتوں میں سٹڈی سرکل نہ ہونے اور کارکنان کو دہشت گردی اور انتہا پسندی کے حوالے سے ایجوکیٹ کرنے کا کوئی ایسا عمل دیکھنے میں نہیں آیا کہ کارکنان نظریاتی سطح پر انتہا پسندی کا مقابلہ کرسکیں اور منفی ذہن سازی کا تدارک کرکے اپنا مثبت کردار ادا کریں۔ نہیں کی گئی، بس رسمی بیان داغ دیا، بلکہ اکثر تو ان کے جنازوں میں بھی اس خوف سے نہیں جاتے کہ کہیں انہیں نشانہ نہ بنا دیا جائے، ایسے واقعات ہوئے بھی ہیں۔

سیاسی جماعتیں شخصیات کے حصار میں ہیں اور اوپر سے نیچے تک کی سطح پر صرف اپنے سیاسی رہنمائوں کی تعریف و توصیف کرنا، ان کے کسی بھی غلط اقدام کا دفاع اور وکالت کئے جانے کو ہی سیاسی عمل سمجھا جاتا ہے۔  بدقسمتی سے اسی عمل نے پریشر گروپ کو طاقت اور اس کوتاہی نے انہیں ہمدردیاں حاصل کرنے میں کمک دی۔ نظریاتی ابہام کی وجہ سے عوام میں تضاد اور غیر یقینی کی صورت حال پیدا ہوتی ہے جس کا فائدہ ایسے دہشت گرد گروپ ہی اٹھاتے آرہے ہیں، سیاسی جماعتوں کی اسی کمزوری کے باعث وہ پریشر گروپ طاقت ور ہوئے جن کی ہمدردیاں دہشت گرد گروپوں کے ساتھ ہیں ، بعض گروہ نظریاتی ابہام کی وجہ سے ایسی باتیں کرتے چلے آرہے ہیں۔

آئے روز کے واقعات ثابت کررہے ہیں کہ دہشت گرووں کے عزائم مخفی نہیں ، وہ اپنے مقاصد کے لیے ہر قسم کا حربہ استعمال کرنے سے نہیں چوکتے۔ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ماضی کے تجربات کو دیکھتے ہوئے، خطرات کا ادراک کرنے کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ دہشت گردوں اورجرائم پیشہ عناصر کے خلاف آپریشن کسی بھی صورت نہیں رکنا چاہیے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دہشت گردی کے حوالے سے ملک کی تمام سیاسی جماعتیں یکساں موقف اختیار کریں اور اس میں کسی قسم کی اگر مگر یا چونکہ چنانچہ کی گردان شامل نہ ہو ۔
دہشت گرد اور پاکستان اکھٹے نہیں چل سکتے ۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ہر وہ اقدام کیا جانا چاہیے جس کی ضرورت ہے۔ دہشت گردوں کے سہولت کاروں، انہیں مالی اور نظریاتی مدد فراہم کرنے والوں کے خلاف بھی آئین اور قانون کے مطابق کارروائی ہونی چاہیے۔ پاکستان کو ترقی کی درست سمت حاصل کرنے کے لیے ملک سے دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کا خاتمہ انتہائی ضروری ہے۔اس میں کوئی دو رائے نہیں ہونی چاہیے کہ دہشت گرد، جن کا کوئی مذہب اور اخلاقیات نہیں، وہ کبھی فلاح کا راستہ نہیں اپنانا چاہتے ، بلکہ اپنے مذموم مقاصد کے لیے مہلت اور ناجائز مطالبات کو پورا کرنا چاہتے ہیں ، جس طرح ماضی میں ریاست کے خلاف طاقت کا استعمال ہوا ، جس کے نتیجے میں حکومت کی رٹ قائم کرنے کے لیے ریاست کو سخت اقدامات اٹھانے پڑے اور ان کا براہ راست اثر عوام پر ہی پڑا اور انہیں نامساعد حالات کا سامنا ہوا، جس سے آج تک وہ باہر نہیں نکل سکے۔ بااختیار اداروں کو ماضی کے تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ کن کردار اداکرنا چاہیے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
63057

پاکستان سال 2021 : موثرسکیورٹی اقدامات کی وجہ سے دہشت گردی کے بڑے واقعات میں نمایاں کمی- قادر خان یوسف زئی

2021   کا سال کرونا وبا کے باوجود دنیا بھر میں انتہا پسندکاروائیوں کاہولناک سال ثابت ہوا تاہم پاکستان میں  سیکورٹی اداروں کی جانب سے دہشت گردی کے بڑے واقعات کو کنٹرول کیا گیا گو کہ  دہشت گردوں نے اپنی مذموم کاروائیوں میں سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں اور افسران کو بھی نقصان پہنچایا۔ اہم اور بڑے واقعات میں نئے برس کے تیسرے دن 3 ہی جنوری میں داعش(خراساں) نے مچھ میں دہشت گرد کاروائی کی،  مچھ کے علاقے گیشتری میں نامعلوم مسلح افراد نے کان کنوں کو حملے کا نشانہ بنایا تھا۔  پنڈل گڈ نامی لیز پر مسلح افراد نے کان کنوں کی آنکھوں پر پٹیاں باندھنے کے علاوہ ان کے ہاتھ بھی باندھے اور بعد میں ان پر فائر کھول دیا، جس سے 10افراداپنی جانوں سے گئے۔ دہشت گردی اور فرقہ وارنہ تشدد کے واقعے کے بعد سے ہزارہ برادری نے میتیں شاہراہ پر رکھ کر شدید احتجاج کیا، بعد ازاں مذاکرات کامیاب ہونے کے بعد میتوں کو کوئٹہ میں ہزارہ ٹاؤن کے ولی العصر امام بارگاہ کوئٹہ منتقل کر دیا گیا۔ انتہاپسند تنظیم داعش(خراساں) کی جانب سے واقعے کو فرقہ وارانہ خانہ جنگی کرانے کی ایک بار مذموم سازش کی گئی تھی۔ پڑوسی ملک افغانستان سے آنے والے ان انتہا پسندوں نے افغان سرزمین استعمال کرنے کی روایت کو قائم رکھا اور پاکستان میں اپنے مذموم مقاصد کے لئے فرقہ وارانہ تشدد کا ہتھیار استعمال کیا۔بلوچستان کے سیکریٹری داخلہ حافظ عبدالباسط نے بتایا تھاکہ دہشت گردی کا نشانہ بننے والے افراد کی شناخت ہوئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جن افراد کی شناخت ہوئی ہے ان کا تعلق افغانستان سے ہے۔


2021کے دوسرے مہینے فروری کی 22تاریخ کو المناک واقعہ ہوا،جس میں پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم ہونے والے قبائلی ضلع شمالی وزیرستان میں چار خواتین کو دہشت گردی کا نشانہ بنا کر قیمتی جانوں سے محروم کردیا گیا۔ چاروں خواتین ایک غیر سرکاری تنظیم کے ’وومن امپاورمینٹ‘ منصوبے کے لیے کام کر رہی تھیں اور دو روز بعد یہ کورس مکمل ہو جانا تھا پولیس کے مطابق پیر کی صبح ایک غیر سرکاری تنظیم سے وابستہ پانچ خواتین ایک گاڑی میں بنوں سے قبائلی علاقے میرعلی اپنے روزگار کے سلسلے میں جا رہی تھیں۔ ان خواتین میں ناہید بی بی، ارشاد بی بی، عائشہ بی بی، جویریہ بی بی اور مریم بی بی شامل تھیں۔ گاڑی کا ڈرائیور عبدالخالق ان خواتین کو میر علی لے جا رہا تھا۔پولیس رپورٹ کے مطابق مریم بی بی گاڑی سے اتر کر اپنے مرکز کے اندر داخل ہو گئی تھیں جبکہ باقی خواتین اور ڈرائیور گاڑی میں موجود تھے۔ اس دوران نا معلوم افراد نے گاڑی پر فائرنگ شروع کر دی جس سے ناہید بی بی، ارشاد بی بی، جویریہ بی بی اور عائشہ موقع پر ہلاک ہو گئیں جبکہ ڈرائیور اس حملے میں زخمی ہوا۔ خیال رہے کہ شمالی وزیرستان دہشت گردی اور انتہا پسندی سے سب سے زیادہ متاثرہ علاقہ ہے۔ جہاں سیکورٹی فورسز کو بھی نشانہ بنایا جاتا رہا،تاہم خواتین کو دہشت گردی کا نشانہ بنانے کا واقعہ اس لحاظ سے زیادہ اہمیت کا حامل رہا کیونکہ ان خواتین کا تعلق انتہائی غریب خاندانوں سے تھا جو غیر سرکاری تنظیم میں تربیت حاصل کرکے غربت کے خاتمے اور خواتین کے حقوق کے لئے اہم کردار ادا کرتیں۔


24مارچ 2021 کو دہشت گردوں نے ایک بار پھر سیکورٹی اہلکاروں کو نشانہ بنایا۔ بلوچستان کے شہر چمن میں لیویز جیل کے سامنے پولیس گاڑی پر دھماکے کے نتیجے میں بچے سمیت 3 افراد جاں بحق اور 13 زخمی ہوئے۔پولیس کے مطابق تاج روڈ پر لیویز جیل کے سامنے دھماکے میں پولیس ایس ایچ او کی گاڑی کو نشانہ بنایا گیا۔ دہشت گردوں نے دھماکا خیز مواد موٹر سائیکل میں نصب کیا تھا جبکہ دھماکے سے بچے سمیت 3 افراد جاں بحق اور 13 زخمی ہوئے۔ واضح رہے کہ گزشتہ سال اگست میں بھی چمن کے مال روڈ پر دھماکے کے نتیجے میں 5 افراد جاں بحق اور 14 زخمی ہو گئے تھے اور نامعلوم شرپسندوں نے سڑک کنارے کھڑی موٹر سائیکل میں دھماکا خیز مواد نصب کیا تھا جو زوردار دھماکے سے پھٹ گیا۔ دہشت گردی کے بڑے واقعات کو ریاست نے سخت حالات کے باوجود قابو پانے میں کامیابی حاصل کی لیکن اس کے نتیجے میں انہیں دہشت گردوں کی انفرادی کاروائیوں میں نشانہ بنایا جاتا رہا۔ جس میں یہ واقعہ بھی سیکورٹی اہلکار کے خلاف ٹارگٹڈ کاروائی تھی جس میں قیمتی جانوں کا نقصان ہوا۔


دنیا میں دہشت گردی کے حوالے سے ماضی کے مقابلے میں بڑے واقعات میں نمایاں کمی پاکستان میں واقع ہوئی ہے اور پاکستان میں گذشتہ کئی سالوں سے متواتر دہشت گردی کا شکار بن رہا تھا۔ ملک میں جاری آپریشنز کی وجہ سے بڑی کمی واقع ہوئی لیکن دہشت گرد اب بھی ایسی جگہوں پر حملے کرتے ہیں، جس کے بارے میں عمومی خیال نہیں ہوتا، ایسے سافٹ ٹارگٹ کہا جاتا ہے۔ اسی طرح پاک۔ چائنا دوستی کو نشانہ بنانے کے لئے بھی دہشت گرد کوئی موقع نہیں چھوڑتے۔  22اپریل 2021کو انتہا پسندوں نے سرینہ ہوٹل میں خود کش حملہ کیا۔ صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں سرینا ہوٹل کی پارکنگ میں ہونے والے زور دار دھماکے میں پانچ افراد ہلاک جبکہ گیارہ کے زخمی ہوئے تھے۔ بلوچستان کے وزیر داخلہ میر ضیااللہ لانگو نے کہا تھا کہ ابتدائی اطلاعات کے مطابق ’دھماکہ خیز مواد ایک گاڑی میں تھا۔دھماکے میں ہلاک ہونے والے پانچوں افراد کی شناخت ہو چکی ہے، جن میں سرینا ہوٹل کے فرنٹ آفس مینیجر اور پولیس کے ایک کانسٹیبل بھی شامل ہیں۔یہ دھماکہ ایک ایسے موقع پر ہوا تھا جب چین کے سفیر کوئٹہ میں موجود ہیں تاہم بلوچستان کے وزیر داخلہ نے بتایا تھا کہ جب دھماکہ ہوا اس وقت چین کے سفیر ہوٹل میں موجود نہیں تھے بلکہ کوئٹہ کلب میں تھے۔ واقعے کی ذمے داری کالعدم تنظیم نے قبول کی۔


امن دشمنوں بلوچستان میں اپنے مذموم مقاصد کے حصوؒ ل کے لئے ایسے مواقعوں کا بھی استعمال کرتے ہیں جس میں سیاسی طور پر افراتفری پھیلے۔ 21مئی2021کو ایک بار پھر اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لئے بلوچستان کو لہو لہان کر دیا گیا۔ چمن کے علاقے مرغی بازار میں جمعیت علمائاسلام نظریاتی کے مرکزی نائب امیر مولانا عبدالقادر لونی کی گاڑی کے قریب زور دار دھماکے سے پورا شہر لرز اٹھا۔دھماکہ اس وقت ہوا جب مولانا عبدالقادر لونی فلسطینی عوام سے اظہار یکجہتی کے لئے منعقدہ ریلی میں شرکت کر کے واپس جارہے تھے۔ افسوسناک واقع میں زخمی اور جاں بحق ہونے والے افراد کو فوری طور پر ڈسٹرکٹ اسپتال چمن منتقل کیا گیا، مولانا عبدالقادر لونی بھی زخمیوں میں شامل تھے۔ پولیس کی ابتدائی تحقیقات کے مطابق دھماکہ خیز مواد موٹر سائیکل میں نصب کیا گیا تھا، جسے مولانا عبدالقادر لونی کی گاڑی کے گزرنے پر دھماکے سے اُڑایا گیا۔


لاہور کے علاقے جوہر ٹاؤن میں 23جون 2021 کو ہونے والے دھماکے کے نتیجے میں ایک بچے سمیت تین افراد ہلاک جبکہ متعدد زخمی ہوئے۔پولیس ذرائع کے مطابق دھماکے میں زخمی ہونے والے پولیس اہلکار کالعدم تنظیم لشکر طیبہ کے سربراہ حافظ سعید کی رہائش گاہ کے قریب واقع چیک پوائنٹ پر تعینات تھے۔انسپکٹر جنرل (آئی جی) پنجاب انعامی غنی نے اس حوالے سے کہا تھا کہ: ’ظاہری طور پر ایسا لگتا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اس دھماکے کا ہدف تھے۔ زخمیوں میں پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔‘ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’اگر پولیس اہلکار ڈیوٹی پر موجود نہ ہوتے تو بڑا حادثہ ہو سکتا تھا۔‘


اگست 2021میں چار مہینے کے دوران دوسرا دھماکہ دوبارہ سرینہ ہوٹل میں پولیس اہلکاروں پر کیا گیا۔ واضح رہے کہ افغانستان میں تیزی سے تبدیل ہوتی صورت حال کی وجہ سے وی آئی پی موومنٹ بڑھ جانے سے دہشت گردی کے خطرات بھی بڑھ چکے ہیں، تاہم بڑے پیمانے پر سکیورٹی اقدامات کی وجہ سے سرکاری حکام کے بقول ماضی کے مقابلے میں پاکستان کے حالات میں بہتری آئی  اور سال2021میں دہشت گردی کے واقعات کے تعداد کم رہی۔2021میں زیادہ نقصانات کے حوالے سے کوئٹہ،چمن میں جو تین بڑے دھماکے ہوئے ان میں سے دو دھماکے اپریل سے لے کر اب تک اسی علاقے میں ہوئے۔10اگست کو رونما ہونے والے واقعے کی ذمے داری کالعدم عسکریت پسند تنظیم نے قبول کی۔ کالعدم تنظیم کا ہدف پولیس اہلکار تھے۔ ماہرین کے مطابق سرینا ہوٹل اور اس کے گردونواح میں پہلے جو واقعات ہوتے رہے ہیں ان کی ذمہ داری مذہبی شدت پسند تنظیمیں قبول کرتی رہی ہیں تاہم حالیہ واقعے کی ذمہ داری کسی نام نہاد قوم پرست تنظیم کی جانب سے ہونا تشویش ناک تصور کیا گیا۔


  پاکستان میں جو دہشت گردی کے لحاظ سے 2008 اور 2009 میں دنیا کا خطرناک ترین ملک تھا، اب دہشت گردی پر قریباََ قابو پا لیا گیا۔ امریکی محکمہ خارجہ کی دہشت گردی سے متعلق سالانہ رپورٹ میں پاکستان نے انسداد دہشت گردی کے سلسلے میں جو کوششیں کی ہیں انہیں سراہا گیا۔ خاص طور ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے جہاں پاکستان ابھی تک گرے لسٹ میں ہے۔تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان نے دہشت گردی کے لئے سرمایہ کاری روکنے اور اندرون ملک ان گروپوں کے خلاف جنہیں دہشت گرد کہا جاتا ہے،جو اقدامات کئے  وہ قابل تعریف ہیں اور خیال کیا جارہا ہے اس بار پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے میں مدد بھی مل سکے گی۔ان واقعات کے علاوہ سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں پر متعدد حملے ہوئے جس میں قیمتی جانوں کی قربانی دے کر ملک و قوم کی حفاظت کی گئی۔ 2021بہرحال پُر امن سال رہا۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
56801