ترقیاتی اورفلاحی اقدامات کو تیز ترکرنے کیلئے وفاقی اورصوبائی حکومتوں کی مشترکہ کمیٹی تشکیل
پشاور(چترال ٹائمزرپورٹ ) خیبرپختونخوا میں ضم شدہ قبائلی اضلاع میں ترقیاتی اور فلاحی اقدامات کو تیز ترکرنے کیلئے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی مشترکہ کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔وفاقی سیکرٹری برائے منصوبہ بندی ، وفاقی سیکرٹری برائے خزانہ اور صوبائی سیکرٹری خزانہ پر مشتمل مشترکہ کمیٹی ضم شدہ اضلاع کیلئے پلاننگ اور فنڈنگ کے عمل کو مزید بہتر بنانے اور ترقیاتی و فلاحی سرگرمیوں کو تیز تر کرنے کیلئے دو ہفتوں کے اندر جامع حکمت عملی وضع کریگی۔ مشترکہ کمیٹی کی ضرورت اور تشکیل کا فیصلہ اسلام آباد میں ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس کے دوران کیا گیا۔گورنر خیبرپختونخوا شاہ فرمان ، وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان، وفاقی وزراء اسد عمر ، مخدوم خسرو بختیار ، وزیراعظم کے مشیر شہزادارباب، خیبرپختونخوا کے وزیرخزانہ تیمور سلیم جھگڑا ، وزارت خزانہ اور پلاننگ کے اعلیٰ آفسران اور دیگر حکام نے اجلاس میں شرکت کی۔ وفاقی اور صوبائی دونوں حکومتوں نے ماضی میں نظر انداز کئے گئے قبائلی اضلاع کیلئے نا صرف بے مثال ترقیاتی پلان اور فلاحی پرگرام تیار کیا ہے بلکہ وسائل بھی خرچ کر رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نئے اضلاع کے عوام کے وسیع تر مفاد میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی مشترکہ کاوشوں کو تیزتر کرنے کیلئے مشترکہ کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔ کمیٹی ترقیاتی و فلاحی پروگرام کے تحت منصوبوں پر تیز رفتار اور معیاری عمل درآمد یقینی بنانے کیلئے وفاقی اور صوبائی دونوں حکومتوں کو اپنی رپورٹ پیش کریگی۔ اجلاس کے شرکاء نے نئے اضلاع کے عوام کی قربانیوں کو سراہا اور ان علاقوں کو ملک کے ترقیاقی یافتہ علاقوں کے برابر لانے کیلئے مرکزی اور صوبائی دونوں سطح پر پی ٹی آئی کی حکومت کے عزم کا اعادہ کیا۔اجلاس میں تین ماہ کے مختصر عرصہ میں نئے اضلاع کا انتظامی انضمام مکمل کرنے پر خیبرپختونخوا حکومت کی بھی تعریف کی گئی، جس نے آئینی ترمیم کے بعد ضم شدہ اضلاع اور ملک کے دیگر حصوں خصوصاً صوبے کے مابین پائے جانے والے خلا کو پر کیا اور ان علاقوں کو ترقی اور فلاح کے قومی دھارے میں لانے کیلئے بلا تاخیر اقدامات کئے ۔اجلاس میں منصوبوں کیلئے وسائل پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا تاکہ وسائل کی کمی منصوبوں پر عمل درآمد میں رکاوٹ نہ بنیں۔اجلاس میں انکشاف کیا گیا کہ صوبائی حکومت متعلقہ حکام کو اہم نوعیت کے مختلف فلاحی اور ترقیاتی منصوبوں کی تیاری کی ذمہ داری پہلے سے سونپ چکی ہے جن میں سے زیادہ تر تیار ہیں یا تکمیل اور منظوری کے حتمی مراحل میں ہیں۔
……………………………
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان کی وزیراعظم پاکستان عمران خان سے اسلام آباد میں ملاقات
پشاور(چترال ٹائمزرپورٹ ) وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان نے وزیراعظم پاکستان عمران خان سے اسلام آباد میں ملاقات کی اور انہیں سابقہ فاٹا میں ترقیاتی اصلاحات اور فلاحی سرگرمیوں سمیت پشاور اور دیگر چھوٹے بڑے شہروں میں صوبائی حکومت کی طرف سے جاری مختلف بڑے پراجیکٹس پر بریفنگ دی۔ وزیراعلیٰ نے وزیراعظم کو صوبے اور مرکز کے مختلف ڈویژنز اور اداروں کیساتھ ہونے والے اجلاسوں اور کوآرڈینیشن سے بھی آگاہ کیا۔ وزیراعظم نے ضم شدہ اضلاع کی ترقی ، خوشحالی ، آبادکاری اور انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ کے لئے ایک مکمل پلاننگ اور وسائل کے استعمال کی ہدایت کی اور کہا کہ ترقیاتی اور فلاحی سرگرمیوں کا محور غریب عوام ہونا چاہیئے۔حکومت نے وسائل کی فراہمی کا آغاز کردیا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہمیں عوامی فلاح کیطرف بتدریج لیکن تیز رفتاری کیساتھ آگے بڑھنا ہے۔ ہمارے وسائل انسانی ترقی پرخرچ ہونے چاہئیں، پھر ہمارے لوگ خود اپنی ترقی اپنی مرضی سے پلان کرسکیں گے۔ وزیراعظم نے سابقہ قبائلی علاقے کو قومی ترقی کے دھارے میں لانے والے اقدامات ، منصوبہ بندی اور سکیموں کے اجراء کو سراہا۔
وزیراعلیٰ نے وزیراعظم کو فنانس ڈویژن اور مواصلات کے مابین ہونے والے اجلاس سے بھی آگاہ کیا۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ انضمام کے لئے ہم تیاری کے بعد بتدریج آگے بڑھ رہے ہیں۔ ہماری کوششوں کا مقصد دہشت گردی اور شدت پسندی اور اس کے بعد ہونے والے آپریشن کے نتیجے میں بے گھر لوگوں کی بحالی ، آباد کاری اورلوگوں کو معاوضہ دینا اور قبائلی اضلاع میں اقتصادی سرگرمیوں کا احیاء ہے ۔ ہم دن رات قبائلی اضلاع کے لوگوں کے لئے کام کررہے ہیں۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ انکے قبائلی اضلاع کے دورے کے اچھے نتائج سامنے آرہے ہیں، وہاں کے لئے ترقیاتی سکیموں کے اعلانات پر عملدرآمد کے لئے وہ خود ہدایات دے چکے ہیں، اور تمام ترقیاتی اور فلاحی سرگرمیوں کو وہ خود مانیٹر کر رہے ہیں۔
حمد باری تعالی…………زاہد علی نزاری
ابتدابسم اللہ الرحمن الرحیم
اوست ارفع و اعلی و ذات قدیم
تہ صفتن اوچہ ذاتو نکی کیہ حد
تہ کوری شیر محدود نہ ازل، نہ ابد
ایہ ہےزوم، اف ہے سین، یو زمین، ایہ اسمان
رینیان چھوی تا انوس، یا رحیم یا رحمان
فروسک پونو نشان دوین پاک تہ کلام
ہیرہ شیر بچھارای لو حکمتو مدام
ہورو تنزیلو، تاویلو دوین نشان
سورو اسلامو تاج، ہادئ دو جہان
یہ دنیو، تے دنیو غیژی ساتک دی تو
اسپہ عیبان پوشاک دی، کھوشتیئیاک دی تو
اولیا و رسل تہ راہو سم بلت
ہر زمانا ویریغ تہ احسان ،تہ رحمت
تو ای غیژی خدای، تہ سم جست نکی کا
تہ نشان، تہ عرفان، عقل کل رہنما
تو صفا تاری پاک و منزہ اسوس
اسپہ ایمانو کورے بنیان مرصوص
تہ تھناوی چوکیرو انسان کامیاب
تو حکمتو بوژاک، تو اعلم با لصواب
تو واحد، تو احد، تو ازل، تو ابد
دوین یہ لوو قل ھو اللہ احد
تہ ہداہت پیدیر یہ جہانہ مدام
یعنی آل محمد علیہ السلام
تہ ووشکیار ہادی اسپہ مدتو بچین
گیاو اسونی وا اسپہ نجاتو بچین
ان اللہ اصطفی تہ احسانو ثبوت
ہمی لولو و مرجان و در و یاقوت
نزاریو سورا بای تہ رحمو نیظیر
کوی بیر گیتی اسور تہ دربارہ اخیر
زاہد علی نزاری
شوتخار تورکھو
زمیندار…………زاہد علی نزاری شوتخار
زمیندار
فخر قشقار زمیندار
سہی کورمغار زمیندار
کمو گنی کوسن قناعت
کیچہ بختوار زمیندار
گوغ چواٹنتین دی بوی پیدیر
فائدہ تہ فصلار زمیندار
سر زمین چھترارا
مثال میتار زمیندار
ہوستہ گنی اوچہ یوزونو
وہ چھے دی تیار زمیندار
ریشوان کراڑیان سورا
کوسن گلفتار زمیندار
ہے ریشو دی تہ لوارکیا وت
نہ ییری، نہ پھار زمیندار
اللہو رحمتہ تتین ہیت
کیچہ مزاخار زمیندار
دعا کوین ہار ای مخلوق
اللہ تہ ستار زمیندار
کوروم دی خدایو نامن
کوروس دی ازبار زمیندار
تخم ریزی می کنی درارض
ہرقسمو بیار زمیندار
کی بشیران بوسان تو خوشان
بوی چھیتور ہمار زمیندار
کوروس تن نیروازو سورا
چھیترو برابار زمیندار
کیاوت نا امید نوبوس تو
امید تہ سم یار زمیندار
می گزاری در ہمہ حالت
شکر صد ہزار زمیندار
پت غیشوم کھوارا ریر
تتین کوروم غار زمیندار
بتھنو مدیریو سم
تو بو وفادار زمیندار
نزاری دعا تان کورے
خوشان تان بہرچار زمیندار
غزل……………اسلام الحق اسیر
پیچھی دنیو تہ لوا بیک کیہ غلط
غیچہ اشرو نیزی کیڑیک کیہ غلط
غم بے سیار بیکو ملگیری مسوم
ہوشو تونجے تہ اچہ گیک کیہ غلط
دونیا ہوسیتاے لاجواب جوشی مہ
با آدب پروشٹہ تہ روپھیک کیہ غلط
حسنو کشش تہ مہ ژینگے الویان
توری تہ بزمہ مہ نیشیک کیہ غلط
بشار حوال کورارو ہاے تہ ساری
پوشی تہ حسنو ہوتم پھیک کیہ غلط
وہ دی انسان وا آوا حق مہ دی شیر
کیڑی سجدہ بھی تہ مشکیک کیہ غلط
بحث ہر بزمہ مہ خلواتو بارہ
تہ یادہ تن سورو روخچیک کیہ غلط
تہ پوشی بوم بے فہم ہوش مہ خطا
تہ پوشی قست بےدوا بیک کیہ غلط
اسیر ای مہ رے سارعام ہوسیکو
شیرین ژانو تہ نمہ دیک کیہ غلط
غزل…………مریم سہانی
شام ہوتے ہی مجھے روذ رولانے آئے
یاد اس کی مجھے یوں ستانے آئے
عشق سے رکھتے ہیں جو مرہم کی امید
درد بھلا درد کو کیسے مٹانے آئے
عقل کہتی ہے تاماشا تھا تیرا ساتھ میرا
دل تو پاجل ہے اسے کیسے منانا آئے
ہجر تیری تو میری سانس میں چھبتی ہے
بہرم محبت کا ہے مجال بتانا آئے
غزل…………..شاہ عالم علیمی
غرور کسی کا نہیں رہتا بادشاہت کسی کی نہیں رہتی
عشق کسی کا نہیں رہتا صورت کسی کی نہیں رہتی
خاک نشینوں کا انجام ہے خاک اور بس
نام کسی کا نہیں رہتا ذات کسی کی نہیں رہتی
جب انسان انسان ہوتا ہے وجود ہی اپنا گراں ہوتا ہے
مال کسی کا نہیں رہتا جاں کسی کی نہیں رہتی
ایک ہی بات پر متفق ہیں وعظ اور رند
حسینوں کا وفا نہیں رہتا اور پھر میخانے میں شراب نہیں رہتی
وہ ناز کے گھوڑے پر سوار جب اتراتا اتا ہے
سینے میں دل نہیں رہتا جسم میں جاں نہیں رہتی
کوئل کی کٌو بھی تیری ہے بلبل کی آہ بھی تیری ہے
تجھ بن چمن میں پھول نہیں رہتا پھول میں خوشبو نہیں رہتی
دو ساعت کی مسافت میں کیا مال و متاع
دن کسی کا نہیں رہتا رات کسی کی نہیں رہتی
غزل………..شاعر۔……… رحیم علی اشرو
حکمت سے خالی نہیں کارِ ثواب ہے
کیوں نہ پڑھوں اللہ کی کتاب ہے
تم پہ ثواب کرنے والے ہسیں گے
گناہ کرنا بھی دنیا میں ثواب ہے
خدا سے حُب رکھتا تو گوہر بن جاتا
بت سے محبت کی اب دماغ خراب ہے
میں جانتا ہوں زندگی کا پتہ
یہ موت ایک کھلی سراب ہے
اس محفل میں بس تیری کمی ہے
وگرنہ ہر کسی ہاتھ میں شراب ہے
اب خود سے مکر کے اشرو بھی
تعبیر سے شکوہ کرتا ہوا خواب ہے
کمال یہ ہے ……امتیازعلی فہیم
خزاں کی رت میں گلاب لہجہ
بنا کے رکھنا کمال یہ ہے…,
ہوا کی زد پہ دِیا جلانا…,
جَلا کے رکھنا کمال یہ ہے…,
ذرا سی لغزش پہ توڑ دیتے ہیں
سب تعلق زمانے والے…,
سو ایسے ویسوں سے بھی…,
تعلق بنا کے رکھنا کمال یہ ہے…,
کسی کو دینا یہ مشورہ کہ…,
وہ دُکھ بچھڑنے کا بھول جائے…,
اور ایسے لمحے میں اپنے آنسو…,
چھپا کے رکھنا کمال یہ ہے…,
خیال اپنا…..مزاج اپنا…,
پسند اپنی……..کمال کیا ہے!؟…,
جو یار چاہے وہ حال اپنا…,
بنا کے رکھنا کمال یہ ہے…,
کسی کی رہ سے خدا کی خاطر…,
اٹھا کے کانٹے ہٹا کے پتھر…,
پھر اس کے آگے نگاہ اپنی…,
جھکا کے رکھنا، کمال یہ ہے…,
وہ جس کو دیکھے تو دکھ کا…,
لشکر بھی لڑکھڑائے ،شکست کھائے…,
لبوں پہ اپنے وہ مسکراہٹ…,
سجا کے رکھنا کمال یہ ہے…,
ہزار طاقت ہو سو دلیلیں ہوں…,
پھر بھی لہجے میں عاجزی سے…,
ادب کی لذت دعا کی خوشبو…,
بسا کے رکھنا کمال یہ ہے…,!!
سانس کی گونچ___! شاہ عالم علیمی
چاندنی رات میں
دریا کے کنارے
جمی ہوئی برف کے اوپر کھڑا
وہ آسماں کی طرف سر اٹھا کر
ایک اہ بھر کر کچھ کہہ رہا تھا
کیا کہہ رہا تھا خود اسے کچھ سمجھ نہ ایا
ایک آہ
جو کائنات میں گونچ رہا تھا
یہ سٹرنگ تھیوری میں مدد گار ثابت ہوگا؛
ایک سائنسدان نے سوچا
نہیں یہ افلاطون کے خیال جیسا اپنا وجود رکھتا ہے؛ ایک فلاسفی نے اعلان کیا
وہ ایک آہ تھا اور کچھ نہیں
کائنات میں گونچ رہا تھا
شاید اس کے دل کی بات ہو
یا کوئی شکایت ہو
یا کوئی آرزو ہو کوئی فریاد ہو
دل کا کیا ہے کچھ بھی کہتا ہے؛
وہ مسکراتے ہوئے واپس مڑا
اب ٹھنڈی رات کو چاندنی میں
وہ برف کو تکتے ہوئے جارہا تھا
خیالوں سے خالی دل مگر خیالوں میں گم
پہاڑی کے پاس سے گزرتے ہوئے
طائر شب کی صدا نے جیسے اس کو نیند سے جگا دیا
تیز تیز قدم چلنے لگا
ہاتھ اوور کوٹ کے جیبوں میں دبائے
سوچنے لگا چلو کوئی تو جاگ رہا ہے
میں اکیلا نہیں ہوں
کوئی تو جاگ رہا ہے
سرد راتوں میں
جمی برف میں
چاندنی کے سائے میں
میں اکیلا تو نہیں!
Mir Subhano yad…………. Prof Israrud Din
Mir Subhan and myself were altogether in school, college and university. We remained friends afterwards till his death. Really I miss him too much now when he has left us. A few couplets in Khowar are are reproduced here from an elegy which I have written in his memory.
Mir Subhano yad
Ma hm jamaat paranu yar Mir Subhan shokhsiru,
tan tan waria bisi ya wa ka kos wesiru.
Khodai maarifat korar i ajeeba insan se oshoi,
qalandarana tabiato sum dunyo kia no joshiru.
Hish kio ghm no oshoi shakhsiawur kyagh d kori,
mastia shakhsiawur rawur ya dunya honziru.
Bo rahim meherban Khodai to rahmo kinar niki,
Umro niata boghawa tn mulaqato asan krdu.
Horo sr achi israr horo the bo had koyan,
college universityo hate shamo sahar sokhsiru.
From Prof Israr ud Din.
مرثیہ بنام مولانگاہ نگاہؔ صاحب مرحوم…….فدا محمد
نگاہ ؔ دی بغائی ہیہ جہانو پیسھی وا
خدایار کو نیان توغو مس موخو پوشی وا
مہ انجمنو گمبوری ٹھوخ بُلویتانی
مستانہ کھیو بوم ہتے ووریو شونکھی وا
محبوب و ظہور ہمیت دی تہ جگرو نس
تیرینی عمرو تہ ای لمحو نو روخسی وا
کلام نویشی ہتو غو نسہ بیکو دی
نشان تہ تین دوئی ہسے ہردیار صحیح وا
خالق لا یزال جنتہ ژاغہ تہ تین دار
ہر دیار دعا فداؔ کو ری ہوئی راہی وا
فدا محمد فداؔ ڈنگریکاندہ چترال
استاد محترم مولا نگاہ کی یاد میں کھوار زبان میں مرثیہ……تحریر: رحمت اللہ رحمت ؔ اجنو
کلیوں کو میں سینے کا لہو دے کے چلا ہوں
صدیوں مجھے گلشن کی فضا یاد رکھے گی
علمی دنیا کا ایک درخشندہ آفتاب اور روشن مینار اُستاذالاساتذہ محترم مولانگاہ نگاہ صاحب کی موت نہ صرف انسانیت کے لئے تعزیت کا باعث ہے بلکہ اس کی جدائی پر کتاب بھی اپنی یتیمی کا آنسو بہا رہی ہے اور قلم بھی اداس ہے اگر چہ علمی دنیا کا یہ درخشندہ آفتاب آنکھوں
سے اوجھل ہوئے لیکن اس کی سجائی ہوئی کہکشاں سے دنیا منور رہے گی۔
آتے ہی رہے گی تیرے انفاس کی خوشبو
گلشن تیری یادوں کا مہکتا ہی رہے گا
استاد محترم کی یاد میں کھوار زبان میں مرثیہ پیش خدمت ہے
کتاب دی ماتم کورویان، قلم اشک بار ہنون
بوغدو نون جنتو وولٹی ، علموسمندار ہنون
تہ روخچیک محال ساریران، اشرو مہ اوانا ریم
مہ محسن تو کوری بغاؤ ، دربوخت بے قرار ہنون
کورا تہ اخلاقو ذکر ، کورا استادیو تہ
تاریخہ سند بہچیتائے تہ شیلی کردار ہنون
مثلہ ای چراغو غونا، روشتی مہ پاشیتاؤ تو
مہ دنیو بق روشت کوری ، باغاؤ مہ غمخوار ہنون
کیہ فہم و گمانہ اوشوئی، مہ کیڑے تو بیسان رے
تاتے مبارک لہ استاذ،جنتو سفار ہنون
شاگردان سف لیئی کیڑینیان،کمال استادیو تہ
بے ڈھبہ تو کیچہ بغاؤ ، اے علمو شاہکار ہنون
تان شییلی شعران نویشی، سفو تو ہوساؤ اوشو
تہ باچین ماتم کورویان، مہ زبان کہوار ہنون
اے رحمتؔ ہزار تو کیڑے، نگاہو واکور ا لیس
تپھاوے علمو بازاری ، بیتی پالاوار ہنون
غزل___!………. شاہ عالم علیمی..
بڑے دنوں کے بعد فلک یوں گویا ہوا
تجھے دیکھ نہیں سکتا عدو بھی روتا ہوا
چار پل کے جو لمحے ہیں سو گزارے خوشی خوشی
دل کو تسلی دیتے ہوئے دل کو بہلاتا ہوا
قصے اس کے حسن کے بن بن کے دیوان ہوئے
زندگی بہہ گئی اس کے قصے جوڑتاہوا
منزل پہ پہنچتے پہنچتے قدم یوں مڈ گئے
دل پہ ستم ڈھاتا ہوا دل کو رلاتا ہوا
ہم سے کیا خاک فرشتے پوچھینگے احوال و حال
ہر قدم پہ جنگ لڑی ہے زندگی گزارتا ہوا
وادی میں خوشبو پھیلی اج اس کے بدن کی
قافلہ نازبر کا گزرا شاید خوشبوئیں لٹاتا ہوا
باغ ارم میں دل ہے، اس کے خیال کا کرم ہے
دل کے اسماں پہ نکلا وہ چاندہ چمکتا ہوا
دل کو خوش فہمی ہے یہ اس کی مہربانی ہے
اج اس کے در پہ تھا ایک جھلک کی صدا لگاتا ہوا
کافر تھا دل جو جامِ عشق پیا
پھر زندگی گزر گئی غم کا بوجھ اٹھاتا ہوا
کب تیری بات اس کے محفل میں ہوئی ہوگی
جو ایک چراغ بجھاتا ہے دوجا جلاتا ہوا
اس کے ستم سے خوشی ہوتی ہے ستم گر کو
اہ کی صدا لگاتا ہے فلک کو دیکھاتا ہوا
جگر میں چسپاں ہیں یوں ہزار تیر نیم کش
دل کراہ اٹھتا ہے درد کو چھپاتا ہوا
عشق کا جو نشہ ہے وہ دل ہی جانتا ہے
اتا نہیں کبھی وہ، مگر دکھتا ہے اتا ہوا
بےپرواہ کو کیا خبر کیا گزری ہے ہم پر
اس کی راہ میں مر گیا دل ناز سے پالا ہوا
عقل و دانش نہ سمجھے عشق کے فلسفے کو
جو لفظ لکھا گیا اسماں سے اترا ہوا
غزل………. شاہ عالم علیمی
مرجائے ہوئے پتوں کو اٹھا کر دیکھتا ہوں
میں اج کل خود کو ستا کر دیکھتا ہوں
تو نہیں ہے مگر میں تیری باتیں
خود ہی خود کو سنا کر دیکھتا ہوں
ایک ایک ٹکڑا قلب ناسور کا
میں اپس میں ملا کر دیکھتا ہوں
کرتاہوں میں فرشتوں سے یہ بحث
میں تمھیں خدا کی عدالت میں لاکر دیکھتا ہوں
کچھ لوگوں سے رشتہ تھا دنیا میں
میں اجکل انھیں یاد دلا کر دیکھتاہوں
تم ہی اپنے دشمن تھے عبث
میں دل کو دل سے لڑاکر دیکھتا ہوں
جہاں سے چلا تھا میں کبھی
وہی پر واپس اکر دیکھتا ہوں
صحرا میں قدم___!…………..شاہ عالم علیمی
کسی عمر رسیدہ شخص کی طرح وہ
درخت سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا
چلتے چلتے وہ تھک چکا تھا
اسے سخت پیاس لگی تھی، لیکن
اسے پیاس میں ہی مزہ سا آرہا تھا
جب اس کی آنکھ کھلی تو خود کو
پسینے سے شرابور پایا
اس نے چلنا شروع کردیا
ابھی اسے صحرا کا بڑا حصہ عبور کرنا تھا
چلتے چلتے اس کی نظر ایک باز پر پڑی
جو خود اس کی طرح پیاس سے نڈھال تھا
چند قدم چلنے کے بعد اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا
باز اسے گھور گھور کر تک رہا تھا
اس کے قدم بھاری ہونے لگے
اس کے وجود میں لرزا طاری ہونے لگا
وہ جلدی جلدی چلنا چاہتا تھا لیکن
اس کے قدم بھاری سے بھاری ہوتے جارہے تھے
اسے سخت پیاس لگی تھی
باز کی موجودگی اور وہشت میں
وہ پیاس بھول گیا
اسے انجان خوف نے ان گھیرا تھا
کبھی مصر کے قدما بچوں کی قربان کرتے تھے
کبھی یونان کے قدیم بادشاہت میں حسین دوشیزئیں قربان کیے جاتے تھے
ان سب کو کس نے بچایا
جو بھوک افلاس سے مرے
جو موزی امراض سے مرے
ان سب کو کس نے بچایا
یہاں مشتری بادشا جب بوڑھا ہوتا ہےتو
خود اس کا بیٹا ہوو اسے ہاتھ سے پکڑ کر باہر پھینک دیتا ہے
کیا اسے کسی نے بچایا؛ ایسا اس نے سوچا اور تیز تیز چلنے لگا
او وہ خود خدا بھی تھا
پھر بھی نہ بچ پایا؛ اس نے مزید سوچا مزید تیز قدم بڑھایا
باز اسے گھور رہا تھا اور وہ قدم بڑھا رہا تھا
ایسا ہی ہوتا ہے قدرت کا نظام بدلتا ہے اور نہ ہی بدل سکتا ہے
وہ اب دور بہت دور نکل چکا تھا
تاہم باز کی تیز نظروں سے اوجھل نہیں تھا
مرحبا صد مرحبا……….ذاہد علی نزاری
ای جمال نو بہار، مرحبا صد مرحبا
مرحبا ای عشق یار، مرحبا صد مرحبا
ای متاع انتظار، مرحبا صد مرحبا
تیری آمد کی خوشی، میرے دل کی تازگی
جس سےہےدل پرخمار، مرحبا صد مرحبا
تیرے ہی دیدار سے دل کو وہ فرحت ملی
قلب مضطر کے قرار، مرحبا صد مرحبا
تشنہ لب عاشق تیرا کرتا ہے تجھ کوسلام
تجھ سےہے سب مستعار، مرحبا صد مرحبا
ماہ و اختر کی ضیا، نور ہے خرشید کا
میں ہوں حیرت کا شکار، مرحبا صد مرحبا
دیکھ کر تیری جبین، ڈوب کر اس نور میں
ای نسیم مشکبار، مرحبا صد مرحبا
تو ہی گل اندام ہے، تجھ سے ہی ہے میرا نام
حسن سیرت، طبع یار، مرحبا صد مرحبا
ہے غم ہجران بھی، وصل کی امید بھی
قابل صد افتخار، مرحبا صد مرحبا
تو ہی ہے مفتاح عشق، منزل شہراہ عشق
تو ہی ہے لیکن حصار، مرحبا صد مرحبا
ہے نزاری بیقرار، تیغ چشمت کا شکار
غزل……….اشروملنگ
ایک انمول چیز ہم نے کھوئی ہے
خدا کی قسم دل بہت روئی ہے
دل میں داغ داغ سا رہتا ہے
چہرے کو بار ہا دھوئی ہے
خواب سے جاگ گئے ہم اپنے
قسمت ہماری ابھی سوئی ہے
وہ جو خوشی سے جھوم اٹھے
اشکوں سے ہم غزل پروئی ہے
خود خاک میں تلاش کیا کرو
تیرا دانہ خدا کہیں بوئی ہے
اشرو خود سے بیگانہ ہوا تب
جب سے حسن کو چھوئی ہے
چند قطرے ہی کافی تھے پشیمانی میں………..زبیر
چند قطرے ہی کافی تھے پشیمانی میں
تو تو سیلاب اٹھا لایا ہے نادانی میں
ہر اک دریا کو معلوم ہے انجام ہے کیا
سرکشی کتنی بھلا کیوں نہ ہو روانی میں
زنا حلال ہوا ہے بھری عدالت میں
جبر حرام کہاں تھا قانون دانی میں
لویہ عدل بھی ہم جنسیت پہ قربان ہوا
عقل کا فتور ہے اعضائے جسمانی میں
بخل برتاؤ کا لہجے میں اتر آتا ہے
تنگدلی چھپتی نہیں ہے خوش بیانی میں
ہر اک کردار ہدایت کار کو پہچانتا ہے
موڑ کیسے ہی بھلا کیوں نہ ہو کہانی میں
چمن میں رنگ و بو کا امتزاج فطری ہے
قطع برید بھی لازم ہے باغ بانی میں
رب تو رزاق و رازق ہے، دلدار بھی ہے
شکوہ سنج تو ہی ہو بیٹھا ہے تن آسانی میں
زندگی کے لئے مر مر کے جیے جاتا ہے
کچھ بتا تو سہی کیا ہے اس دیوانی میں
Naat-e-Rasool-e-Karim
Poet: Late Mirza Muhammad Ghufran
Translator: Zahid Ali Nizari
1. Thou art the King of seven Realms; thou art the Moon of seven elevated Heavens.
2. The most Exalted of all Prophets (A.S); the Light of the Eyes of all Saints.
3. If his Holy Entity were not manifest; the entire temporal world would remain hidden in the veil of nothingness.
4. Though physically the prophet (SAWW) is made from mud, spiritually he is the Moon of the highest Heaven of Spirituality. His abode (living place) is on the Chair (Kursi) and Throne (Arsh).
5. The faces of all kings and rulers of worldly and spiritual kingdoms are bright only owing to the mark of being slave to you.
6. The Prophet (SAWW) grants glory and honor to the people of the earth; he brightens the eyes of the heavenly creatures (angels, spirits of the virtuous people)
نعت رسول مقبولؐ………….زاہد علی نزاری؛ شوتخار تورکھو
رب ہر دوجہاں کا ہے ہم پہ کرم
ورنہ تعریف کی ہے کہاں ہم میں دم
نام احمدؐمیرےلب پہ ہےصبح و شام
انؐ پہ لاکھوں کروڑوں درودو سلام
فخر روح ایمان ہے رسول خدا
نور رب جہان ہے رسول خدا
سرور ہر زمان ہے برائے دوام
انؐ پہ لاکھوں کروڑوں درودوسلام
انؐ کے خلق عظیم کا ہے حق گواہ
ہم کو انؐ سے ملا معنی لاالہ
نام لیوا جنؐ کےدردو کون نیک نام
انؐ پہ لاکھوں کروڑوں درودوسلام
جنؐ کی برکت سے آب شفا مل گیا
جنؐ کےدم سےہی ہم کو خدا مل گیا
مغز فرقان ہے جنؐکا پیارا کلام
انؐ پہ لاکھوں کروڑوں درودوسلام
ہم ہیںعاصی مگروہؐ شفیع،غم نہیں
ناامید از کرم، ہم نہیں، ہم نہیں
جوؐ کلید امید ہے دل کی مدام
انؐ پہ لاکھوں کروڑوں درودوسلام
بر نزاری کرم کن، اے ابر کرم!
توی شاہانام وغلامت منم
من بخواہم بخوانم سلامت مدام
انؐ پہ لاکھوں کروڑوں درودوسلام
نظم: …. شمع اور پروانہ…..شاعر: علامہ اقبال…..ترجمہ:زاہد علی نزاری شوتخار
اے دیواہ! پروانہ خوش تہ کو دریران؟
ژنو دیتی تہ بچین بریک کو گنیران؟
تو لکنلیکی بکو ہسے بے قرار
عشقوسلوکان چیچھورانا ہیس تہ سار؟
حسنو روشتیو نسین کہ غیردوران
غیچھو چراغار اژیرو نایورن
عافیت بویانا ہوتے ہے ژنکھدانا؟
عشقوانگارہ کہ بومشہید ریرانا؟
دنیو می غمان دورہ تہ نور کہ نو ہوی
ارمانن دشتہ اوچہردیو کان دی نوبوی
غیردی تہ پروشٹہ چھورک نمیژ پروانو
پلوی اوچے بروی اپک زوالو دیوانو
ہای جوشہ عاشق ازلوحسنوپوشی
موسیٰ کیچہ ہوی جلوہ طوروپوشی!
نورو پوشیکوپروانہ تاماہگار
قلیپ تہ پھوک مگم ارمان زوراوار!