Chitral Times

ایم پی اےبی بی فوزیہ پر الزام بے بنیاد اور من گھڑت ہے….. ترجمان پی پی پی

Posted on

چترال(نمائندہ چترال ٹائمز)پاکستان پیپلز پارٹی ضلع چترال کے ترجمان سیکرٹری اطلاعات قاضی فیصل نے ایک اخباری بیان میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان اور وزیراعلیٰ پرویز خٹک پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ چترالی قوم اپنی ایمانداری اور وفاداری کی وجہ سے پورے پاکستان بلکہ پوری دنیا میں مانے جاتے ہیں، جو الزام ایم پی اے فوزیہ بی بی لگائی گئی ہے وہ بے بنیاد اور منگھڑت ہیں۔اُنہوں نے کہا کہ فوزیہ بی بی کے قرآن پاک پر ہاتھ رکھکر قسم کھانے کے بعد اس میں کوئی گنجائش نہیں رہی کہ اُس پر شک کرسکیں۔اُنہوں نے کہا کہ ہم ایم پی اے فوزیہ بی بی کے ساتھ ہر فورم پرکھڑے ہیں اور اس گہری سازش کی بھرپور مذمت کرتے ہیں اور فوزیہ بی بی کو یقین دلاتے ہیں کہ پاکستان پیپلز پارٹی چترال اپنی بہن کے عزت کے لیے ہر حد تک جائینگے۔اُنہوں نے کہا کہ چترالی قوم کی دل آزاری پر عمران خان اور پرویز خٹک کا مذمت کرتے ہیں اور فوزیہ بی بی کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ پی پی پی میں شمولیت اختیار کریں،چترالی خواتین،ماؤں اوربہنوں کی عزت اور ابرؤ کی پاسبان رہی ہے اور رہے گی۔

Posted in تازہ ترین, چترال خبریںTagged , , , , , , , , ,
9025

ادیب اور جشن قاق لشٹ……………شمس الرحمن تاجک

ہماری ایک مقامی ادیب سے دوستی ہے کچھ دن پہلے ان کے ہاں جانے کا اتفاق ہوا۔ ان کے چھ سال کے بیٹے سے پوچھا۔ بیٹا ادیب کیسے ہوتے ہیں۔ فوراً جواب آیا کہ ’’جن کے جوتوں کے تلوے پھٹے ہوئے ہوں وہ ادیب ہوتے ہیں‘‘۔ جواب حیرت انگیز تھاگومگو کی کیفیت میں دوسرا سوال کرنے سے پہلے ہی بچے نے تفصیل بھی بتادی کہ ’’ میرے ابو ادیب ہیں ان کے جتنے دوست آتے ہیں سب کے جوتوں کے تلوے پھٹے ہوتے ہیں۔ آج آپ آئے ہیں آپ کے جوتوں کے تلوے بھی پھٹے ہوئے ہیں، یقیناًآپ بھی ادیب ہوں گے‘‘۔ ہم نے عرض کیا کہ بیٹا اللہ نہ کرے یہ بیماری ہمیں بھی لگ جائے۔ بس جوتوں پر کبھی غور نہیں کیا۔یہ بچگانہ تجزیہ ہمارے لئے بالکل نیا تھا ہم ’’چاک گریبان ‘‘ ادیبوں سے آگاہ تھے۔ ’’پھٹے تلوے‘‘ والے ادیب ہمارے لئے بھی نئے ہی تھے۔ بچے کے اس تجزیے سے ہم اتنے زیادہ متاثر ہوئے کہ واپسی پر سیدھے بازار گئے، ادھار پر نئے جوتے لئے تاکہ کوئی ہمیں ادیب نہ سمجھے۔کیونکہ ہم ایک ایسے معاشرے کا حصہ ہیں جہاں عام افراد اور عوام کے حقوق کے لئے بات کرنے والا ادیب اور دانشور طبقہ ’’بھونکتا‘‘ ہے جبکہ ذاتی مفادات کے حصول کے لئے جھوٹ بولنے والا شخص ’’فرماتا‘‘ ہے۔ہم کم از کم ہوش و حواس میں رہتے ہوئے بھونکنے والوں میں شامل ہونے کے لئے تیار نہیں ہیں۔

غالباًاس معاشرتی رویے کا اثر تھا کہ امسال ہونے والے ’’جشن قاق لشٹ‘‘ کے موقع پر ادیبوں کو اس خالصتاً عام لوگوں کی محفل سے دور رکھا گیاتاکہ ان کے غیر انسانی فعل سے عام عوام کو کوئی تکلیف نہ پہنچے۔ حالانکہ اس جشن کو شروع کرنے کا سہرا ان ہی پاگل لوگوں کے سر جاتا ہے۔انتہائیبے سروسامانی کے عالم میں یہ جشن شروع کیا گیا تھا ۔ ذاتی خرچے پر قاق لشٹ کے ہر کونے میں جشن برپا کرنا ایسے ہی پاگل لوگوں کا جنون ہوسکتا ہے۔ ہوش مند لوگ ایسے جشن برپا کرنے لگیں تو دنیا گلزار نہ بن جائے۔ یہ پاگل لوگ کتنے سالوں کی محنت اور ذاتی وسائل سے آخر کار چترال کے لوگوں کو اس بات پر قائل کرنے میں کامیاب ہوگئے کہ ہر علاقے کی ایک ثقافت ہوتی ہے اور ثقافت کی حفاظت کے لئے ضروری ہے کہ ایک وقفے کے بعد ثقافتی پروگراموں کا انعقاد کیا جائے۔ تاکہ معدوم ہوتی ثقافت کو بحال رکھا جاسکے۔ بچوں کو بتایا جاسکے کہ ان کے اباؤ اجداد کس طرح زندگی گزارتے تھے۔ ان کا سفر کہاں سے شروع ہوا تھااب وہ کہاں پر ہیں ۔یہ پاگل لوگ اس جشن کے وارث ہیں آپ وارثوں کو زبردستی ان کے گھر سے باہر کیوں نکال رہے ہیں۔ ان پاگلوں کو ’’بی بی شیرین‘‘ سے کوئی دلچسپی نہیں ہے یہ ’’خوش بیگم‘‘ کے ساتھ خوش ہیں۔ یہ لوگ جو قاق لشٹ کے لق دق بیابان میں جمع ہوتے ہیں ۔ ان کو ذاکر زخمیؔ اچھے لگتے ہیں، افضل اللہ افضلؔ کی دھن سے ان کو دلچسپی ہے۔ امین الرحمن چغتائی ان کا غالبؔ ہے، مولا نگاہ نگاہؔ کو سن کر مہینوں ہنسنا چاہتے ہیں،سعادت حسین مخفی ان کو سعادت حسن منٹو سے زیادہ پیارے ہیں،ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ ان کے لئے کیا ہیں اس کا آپ کو اندازہ نہیں۔ ان کے علاوہ چترال کے ہزاروں ایسے فرزند وہ بھی صلاحیتوں سے مالامال فرزندموجود ہیں جوچترال کے لوگوں کے لئے قاق لشٹ کو گل و گلزار بنادیتے ہیں۔ پھر بھی آپ بضد ہیں کہ آپ ہمیں ’’بی بی شیرین‘‘ ہی سنائیں گے اور ہم آ پ کے دھن پر ناچ سکتے ہیں۔ ویسے آپس کی بات ہے وزیرستان میں امن تو قائم ہوگیا ہے کیونکہ نہ وہاں ’’بی بی شیرین‘‘ والی کسی ثقافتی شو کا انعقاد کریں اور کسی چترالی کو میزبان بنائیں۔ کتنی عزت افزائی ہوگی۔

کہتے ہیں کہ ادیب لوگ معاشرے کے نبض شناس ہوا کرتے ہیں۔ اتنے تلخ تجربات کے بعد بھی ایسا کہنا جہالت کی نشانی ہے یہاں گردن سے ذبح کرنے کا رواج ہے نبض کون دیکھتا ہے۔ ویسے ہمیں اس پر سیخ پا ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔چترالی ثقافت کے نام پر منعقد ہونے والے جشن قاق لشٹ میں گیت اردو، پنجابی ،پشتو اور سرائیکی ساتھ میں خٹک ڈانس ہوتو ہمیں دو چار سال بعدکسی خٹک، کسی چوہدری یا پھر کسی مالک یا میاں کے اس دعوے پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے کہ اصل میں قاق لشٹ کی زمین ان کے اباؤ اجداد کی میراث ہے۔ یہ جو میں بھونک رہا ہوں میں قسم کھانے کو تیار ہوں کہ نہ تو میں ادیب ہوں اور نہ ہی دانشور۔ نہ ہی مجھے قاق لشٹ یا گرین لشٹ سے کوئی دلچسپی ہے۔ وہ ایک زمانے میں شندور میں بھی چترالی ثقافت کا بول بالا تھا جب وہاں پر چترال کی ثقافت کو سائیڈ لائن لگانے کا کام شروع ہوا۔ تو ادیب لوگ اس وقت بھی بھونکتے رہے کسی نے نہیں سنی ۔اب شندور میں چترال کا صرف ڈھول رہ گیا ہے ۔ امسال قوی امکان ہے کہ وہاں پر نرگس کی اسٹیج پرفارمنس دکھائی جائے گی۔چونکہ چترالی ادیب نرگس کو نچانے کے قابل گانے تخلیق کرنے کی صلاحیت سے یکسر عاری ہیں اس لئے بروقت ان کو آگاہ کیا جاتا ہے کہ وہ جشن شندور سے اپنے آپ کو دور ہی رکھیں۔
Qaqlasht festival 2nd day 6

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , , , , , , , , ,
9016

چترال ٹاسک فورس کے زیر اہتمام ارسون میں‌فری میڈیکل کیمپ کا انعقاد ،

چترال (چترال ٹائمز رپورٹ ) چترال ٹاسک فورس کے زیر اہتمام چترال کے دورآفتادہ علاقہ ارسون میں‌فری میڈیکل کیمپ کا انعقاد کیا گیا . جس میں چترال سکاوٹس کے ڈاکٹروں اور سول ڈاکٹروں‌نے مریضوں کا معائنہ کیا اور انھیں چترال ٹاسک فورس کی طرف سے فری میڈیسن دیا. کمانڈنٹ چترال ٹاسک فورس کرنل معین الدین نے فری میڈ یکل کمیمپ کا دورہ کیا اور ارسون کے ستر سے زیادہ مستحق گھرانوں میں‌ مفت راشن اور بچوں میں مٹھائی تقسیم کی .
اس موقع پر 44فرنٹیئیرفورس رجمنٹ کی طرف سے لگائے گئے پھلوں‌کے باغ کا بھی افتتاح کیا . کمانڈنٹ علاقے کے عمائدین سے بھی ملے . ان کے مسائل سنے اور ان کے حل کیلیے ہر ممکن کوشسش اور تعاون کی یقین دہانی کی . علاقے کے عوام نے کمانڈنٹ چترال ٹاسک فورس کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے ان کا شکریہ ادا کیا .
chitral task force Ursoon free medical camp 27

chitral task force Ursoon free medical camp 25

chitral task force Ursoon free medical camp 23

chitral task force Ursoon free medical camp 22
chitral task force Ursoon free medical camp 8

chitral task force Ursoon free medical camp 10

chitral task force Ursoon free medical camp 19

chitral task force Ursoon free medical camp 20
chitral task force Ursoon free medical camp 18

chitral task force Ursoon free medical camp 15

chitral task force Ursoon free medical camp 14

chitral task force Ursoon free medical camp 12

chitral task force Ursoon free medical camp 2

chitral task force Ursoon free medical camp 3

chitral task force Ursoon free medical camp 4

chitral task force Ursoon free medical camp 6

chitral task force Ursoon free medical camp 7

Posted in تازہ ترین, چترال خبریںTagged , , , , , , , , ,
8994

فوزیہ بے قصور ہے ……………..محکم الدین ایونی

Posted on

تحریک انصاف نے پانچ سال پہلے چترال کی ایک چھوٹی سی این جی او میں کام کرنے والی بی بی فوزیہ کو جب خواتین کی مخصوص نشست کیلئے نامزد کرکے صوبائی اسمبلی کی سیٹ پر بیٹھایا ۔ تو ہر ایک چترالی نہ صرف تحریک انصاف کی اس فراخدلانہ عنایت پر حیرت زدہ تھا ۔ بلکہ اس کی تعریف کرنے پر مجبور تھا ۔ لیکن پانچ سال گزرنے کے بعد جس غیر شائستہ ، غیر سیاسی اور غیر اخلاقی طریقے سے اُسی خاتون کے سیاسی کرئیر کو تباہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ وہ نہ صرف قابل مذمت ہے ۔ بلکہ ناقابل قبول بھی ہے ۔ میڈیا پر تحریک انصاف کے قائد عمران خان کے اعلان کے حوالے سے دیگر متاثر ممبران اسمبلی کے حلقوں کے لوگ جس رائے کا اظہار کریں ۔ وہ یقیناًاُن کی صوابدید پر ہے ،لیکن چترال کے اہل دانش کا کہنا ہے کہ بی بی فوزیہ جیسی ایک پاکدامن خاتون پر ووٹ بیچنے کا الزام لگا کر پورے چترال کی شرافت ، دیانتداری اور ایمانداری پر جو کالی ضرب لگائی گئی ہے ۔ وہ انتہائی افسوسناک ہے ۔ اور چترال کے لوگوں کیلئے یہ عمل سبکی اور شرمندگی کے ساتھ ساتھ ناقابل برداشت ہے ۔ تحریک انصاف کے قائد عمران خان کو پارٹی سربراہ کی حیثیت سے فیصلے کرنے کا اختیار ہے ۔ لیکن جس طریقے سے ممبران اسمبلی پر الزامات لگا کر بغیر صفائی کا موقع فراہم کرنے کے اُن کا میڈیا ٹرائل شروع کیا گیا ۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے ۔ کہ انتہائی مہارت کے ساتھ سازش تیار کی گئی اور تحقیقات کی آڑ میں اُن افراد کو پارٹی سے باہر نکالنے کی راہ ہموار کی گئی ۔ جو موجودہ وزیر اعلی کی راہ میں رکاوٹ تھے ، جبکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا ۔ کہ تحقیقات کے بعد اُن کو شو کاز نوٹس دیے جاتے اور تسلی بخش جواب نہ دینے کی صورت میں پارٹی اصولوں کے مطابق کاروائی کی جاتی ، اُس کے بعد اُن کے نام میڈیا کے سامنے پیش کئے جاتے ۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔ کہ ہمارے ملک میں ہارس ٹریڈنگ کا لفظ نیا نہیں ہے ۔ سینٹ کے انتخابات جب بھی ہوئے ، پیسے کا بے دریغ استعمال ہوا ۔ اور ہر ممبر نے اس پر ہاتھ صاف کیا ۔ اب کے بار پاکستان تحریک انصاف کے ممبران جس طرح بکے اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ۔ کہ اس پارٹی میں بھی نظریہ کم اور پیسہ زیادہ چلتا ہے ۔ اس کے باوجود عمران خان کی طرف سے اپنے ممبران کا احتساب ایک اچھا قدم ہے ۔ لیکن جو طریقہ اپنایا گیا ۔ اُسے ہرگز صحیح نہیں کہا جا سکتا ۔ جس میں ملزموں کو سزا پہلے سنائی گئی اور شو کاز نوٹس بعد میں دی جارہی ہے ۔ اگر کوئی بندہ قصور وار نہیں ہے ۔ تو میڈیا میں اُن پر الزام لگانے کے بعد وہ اپنی بے گناہی کے بارے میں کس کس کو قائل کر سکتا ہے ۔ جبکہ اُس کی تذلیل پوری قوم کے سامنے پہلے کی گئی ہے ۔ پاکستان تحریک انصاف چترال کی ایم پی اے بی بی فوزیہ جو اس الزام کی زد میں آچکی ہیں ۔ کی طرف سے پشاور پریس کلب میں میڈیا کے سامنے قرآن پاک پر ہاتھ رکھ کر قسم کھانے کے بعد اُن کی بے گناہی ثابت ہوتی ہے ۔ اور اس بات کو تقویت ملتی ہے ۔ کہ اُنہیں ایک سازش کے تحت شامل کیا گیا ہے ، کیونکہ خان صاحب اُن کی بطور ممبر صوبائی اسمبلی نمایندگی سے مطمئن تھے ۔ اور چترال سمیت کئی مقامات پر عمران خان نے بی بی فوزیہ کے بطور ممبر صو بائی اسمبلی کردار کی بہت تعریف کی ۔ اور دوسری خواتین ممبران کو بھی اُس کی تقلید کی ہدایت کی ۔ یہی وہ بنیادی وجہ ہے ۔ جو صوبائی سطح پر پارٹی کے بعض ہائی اتھارٹیز کو پسند نہیں تھی ۔ اور اُن کو ووٹ بیچنے والوں میں شامل کرکے اُس کے مستقبل کا راستہ روکا گیا ۔ اورخان صاحب کی طرف سے فوزیہ بی بی کیلئے اعلان کردہ جنرل سیٹ کی راہ میں رکاوٹ ڈالی گئی ۔ فوزیہ بی بی اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے عزم کا اظہار کر چکی ہے ۔ وہ عدالت جانے کیلئے تیار ہے ۔ الیکشن کمیشن میں بھی اس حوالے سے اپنی درخواست دے چکی ہے ۔ اور سب سے بڑی عدالت جس پر تمام مسلمانوں کا ایمان ہے ۔ قرآن پر ہاتھ رکھ کر انہوں نے اپنی بے گناہی کا ثبوت دیا ہے ۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , , , , , ,
8989

پی ٹی آئی کی سولو فلائیٹ……………….محمد شریف شکیب

Posted on

موجودہ صوبائی حکومت کی آئینی مدت پوری ہونے میں ایک مہینہ رہ گیا ہے۔ 29مئی کو عبوری حکومت قائم ہوگی جو آئندہ نوے روز کے اندر انتخابات کروا کے اقتدار اگلی منتخب حکومت کے سپرد کرے گی۔تمام پارٹیاں انتخابات کی تیاریوں میں لگی ہوئی ہیں۔ جلسہ عام برپا کئے جارہے ہیں شمولیتی تقریبات کا انعقاد کیا جارہا ہے۔تاکہ اپنی سیاسی قوت کا مظاہرہ کرکے ووٹرز کو مرغوب کیا جاسکے۔دوسری جانب حکمران جماعت تحریک انصاف نے اپنے ہی بیس ارکان اسمبلی کو سینٹ انتخابات میں ووٹ بیچنے کے الزام میں پارٹی سے نکالنے کا اعلان کیا ہے۔ بنی گالا میں پارٹی قیادت کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے عمران خان نے ووٹ بیچنے والے ارکان کے نام گنوائے ۔انہیں اظہاروجوہ کے نوٹس بھجوانے اور نوٹس کا جواب نہ دینے پر ان کے اثاثوں کی چھان بین کے لئے قومی احتساب بیورو سے رجوع کرنے کا اعلان کیا۔پریس کانفرنس میں یہ بھی بتایا گیا کہ کس تاریخ کو کس کس ممبر نے کتنے کتنے پیسے لئے۔ان کا کہنا تھا کہ بیس ایم پی ایز کو پارٹی سے نکالنے کا نقصان برداشت کرسکتے ہیں لیکن ضمیر فروشی برداشت نہیں کرسکتے۔کرپشن کے خلاف زیرو ٹالیرنس کی پالیسی بلاشبہ قابل تحسین بھی ہے اور دوسری جماعتوں کے لئے قابل تقلید بھی۔ سیاسی مفادات اور مصلحت پر شفافیت کو ترجیح دینے کی ہماری سیاسی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ تاہم کپتان نے اتنا بڑا فیصلہ کرنے میں عجلت کا مظاہرہ کیا ہے۔ مسلمہ طریقہ کار یہ ہے کہ جن لوگوں پر ووٹ بیچنے کا الزام ہے۔ ان سے انفرادی طور پر پوچھ گچھ ہونی چاہئے اور تسلی نہ ہونے پر ان کوشوکاز نوٹس جاری کرنا چاہئے اگر وہ پھر بھی قیادت کو مطمئن نہ کرسکیں تو ان کے خلاف کاروائی ہونی چاہئے۔ ایک ملزم کو بھی پہلے تفتیش کے مرحلے سے گذارا جاتا ہے۔ اس کا ریمانڈ لیا جاتا ہے۔ عدالت میں اس کے خلاف مقدمہ چلایا جاتا ہے۔ وہاں سے الزام ثابت ہوجائے تو وہ مجرم اور سزاوار ٹھہرتا ہے۔ سزا پہلے دے کر تفتیش بعد میں کرنے والی بات کچھ ہضم نہیں ہورہی۔ سینٹ الیکشن میں ووٹ بیچنے کے حوالے سے پہلے تیس ارکان کے نام لئے جارہے تھے۔ تاہم ان میں سے دس کو کلین چٹ دیدی گئی۔ جن بیس ارکان کے خلاف کاروائی کی جارہی ہے ان میں پانچ خواتین،گیارہ پارٹی کے مرد ارکان کے علاوہ دوسری جماعتوں سے تحریک انصاف میں شامل ہونے والے چار ارکان بھی شامل ہیں۔چترال سے خصوصی نشست پر رکن اسمبلی بننے والی فوزیہ بی بی نے پریس کانفرنس میں قرآن پاک پر ہاتھ رکھ اپنی بے گناہی پیش کی۔ جس کی تقلید میں نرگس علی، نگینہ خان اور نسیم حیات نے بھی قرآن پر حلف اٹھا کر بتایا کہ انہوں نے پارٹی سے بے وفائی نہیں کی۔ انہوں نے کہ سوال بھی اٹھایا کہ ان کے پینل سے پارٹی کا امیدوار کامیاب ہوا ہے جس پینل کا امیدوار شکست کھا گیا اس پینل والوں سے باز پرس کیوں نہیں کی جاتی۔ ان خواتین نے عندیہ دیا کہ پارٹی کی صوبائی قیادت نے اپنے چہیتوں کو بچانے کے لئے ان کی قربانی دی ہے۔ انہوں نے اپنے دامن پر لگنے والا بدنامی کا داغ مٹانے کے لئے عدالتوں میں جانے کا اعلان کیا۔ضمیر فروشی اور کرپشن کا الزام لگنے کے بعد ان ارکان کا سیاسی کیرئر داو پر لگ چکا ہے۔ اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لئے کسی بھی حد تک جانا ان کا حق ہے۔پارٹی کی مرکزی قیادت کو حالات مزید بگڑنے سے پہلے الزامات کی اعلیٰ سطحی تحقیقات کرانی چاہئے بصورت دیگر پارٹی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ کرپشن سے اٹے ہمارے سیاسی نظام کی تطہیر کے لئے پی ٹی آئی کی پالیسی اور اقدامات خوش آئند ہیں۔ لیکن اس سولو فلائیٹ سے پورے نظام کو شفاف بنانے میں کئی عشرے لگ سکتے ہیں۔ تمام سیاسی جماعتوں کو اس کام میں اپنا حصہ ڈالنا ہوگا۔ سینٹ الیکشن میں جن لوگوں نے اپنے ووٹ بیچے۔ وہ بلاشبہ قوم کے مجرم ہیں۔ لیکن جن لوگوں نے ووٹ خریدے وہ بھی توقوم کے مجرم ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن، اے این پی، جے یو آئی، جماعت اسلامی، ایم کیو ایم، پی ایس پی، مسلم لیگ ق اور دیگر پارلیمانی پارٹیوں کو بھی ووٹ بیچنے اور خریدنے والوں کا محاسبہ کرنا چاہئے۔تیس چالیس پہلے کے مقابلے میں آج حالات مختلف ہیں۔ لوگوں میں سیاسی شعور آچکا ہے۔ میڈیا نے عوام کے سامنے ہر چیز کھول کر رکھ دی ہے۔ دقیانوسی ، مفادات اور مصلحت کی سیاست کو خیرباد کہہ کر اب شفاف جمہوری نظام کے قیام کے لئے سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , , , , , ,
8987

چترال کی خواتین مختلف شعبہ ہائے زندگی میں بھی نمایاں کردار ادا کر رہی ہیں۔۔سلیم خان

چترال(رپورٹ شاہ مراد بیگ)ممبرصوبائی اسمبلی وچیئرمین ڈیڈک چترال سلیم خان گورنمنٹ گرلز ہائی سکول جغورچترال کاافتتاحی تختی کی نقاب کشائی اور فیتہ کاٹ کرباقاعدہ افتتاح کیا۔اس موقع پرخطاب کرتے ہوئے ایم پی اے سلیم خان نے کہاکہ تعلیم کے شعبہ میں انقلابی اقدامات عمل میں لایا جارہا ہے۔گورنمنٹ گرلزہائی سکول جغور اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔مڈل سکول کو ہائی درجہ دینے کا مقصد یہاں کے طالبات اپنے گھرکے دہلیزمیں تعلیم حاصل کر سکیں گیں۔ انہوں نے کہاکہ خواتین اب اپنی روایتی ذمہ داریاں پورا کرنے کے ساتھ ساتھ مختلف شعبہ ہائے زندگی میں بھی نمایاں کردار ادا کر رہی ہیں۔ اس کی سب سے بڑی اور اہم وجہ خواتین میں تعلیم حاصل کرنے کا بڑھتا رجحان ہے۔ عورتوں کی تعلیم کی اہمیت کا شعور اب دنیا کے کسی بھی معاشروں میں بھی اجاگر ہونے لگا ہے۔انہوں نے کہاکہ عورت معاشرے کا اہم جز ہے جسے ہر روپ میں اسلام نے اعلیٰ مقام و مرتبہ دیا ہے۔اسلام دنیا کا پہلا مذہب ہے جس نے عورتوں کو حقوق دئیے۔اور ان حقوق میں ایک حق تعلیم کا بھی ہے۔تعلیم کے حصول کے لئے خواتین کو یکساں مواقع کی فراہم ہونے چاہئیں۔ تعلیم یافتہ خواتین قومی ترقی کے فروغ میں اہم کردار کی حامل ہیں۔ یہ امر ضروری ہے کہ خواتین تعلیم حاصل کریں اور مختلف شعبہ ہائے زندگی میں اپنا کردار ادا کریں تاکہ قومی ترقی کی رفتار تیز ہو کیونکہ تیز رفتار ترقی کیلئے خواتین کو اپنا مو ثر کردار اداکر سکتی ہیں ہے۔سلیم خان نے کہاکہ حالیہ پانچ سال کے اندر2ہائیرسیکنڈری،8ہائی کئی مڈل اورپرائمری سکول بنائیں عوامی مطالبے،علاقے کی پسماندگی اورایک سکول سے درسرے سکول کی فاصلے کومدنظررکھتے ہوئے رکھاہوں۔اپنے دس سالہ دورمیں ترقیاتی کاموں کاجال بچھانے میں کوئی کسرنہیں چھوڑی ۔چترال کے عوام کامشکورہوں کہ انہوں نے کارکردگی کی بنیادپردوسری دفعہ مجھے پرعتمادکرکے ممبرصوبائی اسمبلی منتخب کیا۔اس موقع پرپاکستان پیپلزپارٹی کے ضلعی انفارمیشن سیکرٹری قاضی فیصل ،پی پی پی خواتین ونگ کے ضلعی صدرناہیدہ سیف ایڈوکیٹ،ٹاون کے نائب صدرسفیراللہ ایڈوکیٹ ،سابق چیئرمین پی پی پی جغورمحمدظاہرشاہ،وی سی نائب ناظم جغورشہبازخان،کسان کونسلرمحمدشاقی ،مولانامختاراحمد،نوجوان سوشل ورکروسماجی کارکن گل آغا،کونسلرعبدالعزیزاوردیگرنے ایم پی اے سلیم خان کوخراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہاکہ ہم اہلیان جغور،بکرآباد،چمرکن وادیگرملحقہ دیہات مڈل سکول کوترقی دے کرہائی کادرجہ دینے پرجس محنت اورخلوص سے آپ نے کام کیاانتہائی لائق تحسین ہے ۔انہوں نے کہاکہ سکول کے اب گریڈیشن کی منظوری پرفنڈزکی فراہمی اورپھرتعمیرکے کام کے آغازسے لیکرتکمیل تک واجملہ اسٹاف کی تعیناتی تک ہرمرحلے پرانتہائی اہم کرداراداکیاہے اس پرعلاقے کے عوام آپ کابھرپورشکریہ اداکرتے ہیں۔ تقریب میں جماعت اسلامی اورپی ٹی آئی کے درجنون افرادپی پی پی میں شمولیت اختیارکی۔
ppp chitral saleem khan mpa 1

ppp chitral saleem khan mpa 4

ppp chitral saleem khan mpa 5

ppp chitral saleem khan mpa 3

Posted in تازہ ترین, چترال خبریںTagged , , , , , ,
8978

چترال کی بیٹی پر ووٹ بیجنے کا الزام افسوسنا ک ہے،ہم غریب ضرور ہیں مگر ضمیر فروش نہیں..حاجی ظفر

Posted on

دوبئی ( نمائندہ چترال ٹائمز ) دوبئی میں مقیم چترال کے معروف سماجی شخصیت، اورسیز چترالیز ویلفیئر ایسوسی ایشن کے صدر حاجی محمد ظفر نے گزشتہ دن پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کی طرف سے چترال سے ایم پی اے بی بی فوزیہ پربلا تحقیق ووٹ بیجنے کے الزام پر رد عمل کرتے ہوئے کہا ہے کہ خان صاحب نے صرف فوزیہ پر نہیں بلکہ پورے چترال کو مورد الزام ٹھرایا ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے ۔ چترا ل ٹائمز سے گفتگو کرتے ہوئے حاجی ظفر نے انتہائی افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان بلا تحقیق چترال کے پاک دامن بیٹی پر جھوٹے الزام لگا کر چترال کے پانچ لاکھ آبادی کو دکھ پہنچا یا ہے ۔ انھوں نے تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ فوزیہ کو جس امیدوار کو ووٹ دینا تھا وہ کامیاب ہوگیا ہے ۔ اور چودہ ایم پی ایز کی پینل میں سے دس ممبران نے ووٹ پی ٹی آئی کے نامزد امیدوار کو ووٹ دے چکے ہیں جبکہ صرف چار ممبران نے ووٹ کسی دوسرے امیدوار کو دئیے ہیں مگر پی ٹی آئی کے ہائی کمان نے چودہ ممبران کے پینل میں سے آٹھ ممبران کو پارٹی سے نکالنے کا اعلان کیاہے ۔ جو کہ تعجب خیز ہے ۔
حاجی ظفر نے بتایا کہ دوبئی میں مقیم چترال کے باسیوں نے پی ٹی آئی کے ہائی کمان کی طرف سے چترال کی بیٹی پر الزام تراشی پر انتہائی افسوس کا اظہار کیا ہے ۔ اور الیکشن کمیشن آف پاکستان سے باضابطہ تحقیقات کرنے اور اصل حقائق عوام کے سامنے لانے کا مطالبہ کیاہے ۔ انھوں نے کہا کہ چترال کے لوگ غریب ضرور ہیں مگر ضمیر فروش اور احسان فراموش نہیں ۔ پی ٹی آئی کے احسان مند ہیں کہ انھوں نے چترال کی ایک بیٹی کو صوبائی اسمبلی کی نشست نہیں دی ،بلکہ پورے چترال کو عزت دی ہے ۔ مگر اس کے جواب میں چترال کی بیٹی کبھی بھی اپنی ضمیر کو فروخت نہیں کرسکتی ۔ اور نہ وہ پارٹی کے ساتھ اتنی بے وفائی کرسکتی ہے ۔ حاجی ظفر نے چترال کے عوام سے اس گھناونے الزام کے خلاف آواز اُٹھانے اور چترال کے بے گناہ بیٹی پر الزمات لگانے والوں کے خلاف مشترکہ لائحہ عمل ترتیب دینے کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ کسی غیر جانبدار ادارے سے تحقیقات کرائے جائیں تاکہ اصل حقائق عوام کے سامنے اسکیں ۔انھوں نے مذید کہا کہ چترال کے عوام بھٹو سے لیکر مشرف تک سب کے احسان جتائے ہیں اور کبھی بھی احسان فراموشی نہیں کی ہے۔ کسی بھی پارٹی سے تعلق رکھنا ہر ایک کا آئینی اور جمہوری حق ہے مگر چترال کے خلاف کوئی بلاجواز آواز اُٹھائے تو ان کے خلاف سب کو متحد ہونا پڑے گا۔ تاکہ چترال کے دامن پر بلاتحقیق داغ نہ لگ جائے۔ حاجی ظفر نے چترال کے پی ٹی آئی ذمہ داروں سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ اس سنگین مسئلے پر سنجیدگی سے غور کریں پارٹی کے اندر اور باہر کے اختلافات اپنی جگہ مگر چترال کے حوالے سے کوئی مسئلہ سامنے آئے تو اس پر سب کو اتحاو اتفاق کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریںTagged , , , , , ,
8952

آل پاکستان مسلم لیگ شیشی کوہ ویلی کیلئے کابینہ تشکیل، مقبول احمد صدر مقرر

Posted on

چترال (چترال ٹائمز رپورٹ) آل پاکستان مسلم لیگ ضلع چترال کے صدر سابق کمشنر سلطان وزیر کے دفتر سے جاری ایک اعلامیہ کے مطابق شیشی کوہ ویلی کیلئے کابینہ اور ممبران کی نوٹفیکشن کی گئی ہے ۔ نوٹیفکشن کے مطابق مقبول احمد کو صدر مقرر کیا گیا ہے جبکہ باقی کابینہ و دیگر ممبران کی تفصیل ذیل ہے ۔

apml chitral notification1
apml chitral notification

 

Posted in تازہ ترین, چترال خبریںTagged , , , , , ,
8947

ڈیزل کی قیمتوں میں کمی کے بعد ٹرانسپورٹ اتھارٹی کی طرف سے نئے کرائے نامے جاری

پشاور ( چترال ٹائمز رپورٹ ) وفاقی حکومت کی جانب سے ڈیزل کی قیمت میں کمی کے بعد 96.45 روپے فی لیٹر مقرر کرنے پر صوبائی ٹرانسپورٹ اتھارٹی خیبرپختونخوا نے ڈیزل سے چلنے والی مسافر بردار گاڑیوں کے لئے نئے کرائے نامے تیار کئے ہیں، جو فوری طورپر لاگو ہوں گے۔ نئے کرانے ناموں کے مطابق فلائنگ کوچز/منی بسز، 1.11 روپے، اے سی بسز 1.31 روپے، عام بسیں 0.96 پیسے اورلگژری بسز 1.06 روپے فی کلو میٹر فی مسافر کرائے وصول کریں گی۔ تفصیلات کے مطابق پشاور سے کوہاٹ کے لئے فلائنگ کوچز / منی بسز 72 ۔روپے ،اے سی بسز 85 ۔روپے ،عام بسیں 62 ۔روپے اور لگژری بسیں 69 ۔روپے کرائے چارج کریں گی۔ اسی طرح پشاور سے بنوں کے لئے فلائنگ کوچز 216 ۔روپے اے سی بسیں 255 ۔روپے ،عام بسیں 187 ۔روپے اورلگژری بسیں207 ۔روپے ،پشاور سے ڈی آئی خان کے لئے فلائنگ کوچز / منی بسز373 ۔روپے ،اے سی بسز440 ۔روپے ،عام بسیں 323 ۔روپے اور لگژری بسیں 356 ۔روپے , پشاور سے ہری پور کے لئے فلائنگ کوچز / منی بسز173 ۔روپے ،اے سی بسز204 ۔روپے ،عام بسیں 150 ۔روپے اور لگژری بسیں 165 ۔روپے،پشاور سے ایبٹ آباد کے لئے فلائنگ کوچز / منی بسز214 ۔روپے ،اے سی بسز 253 ۔روپے ،عام بسیں 185 ۔روپے اور لگژری بسیں 205 ۔روپے،پشاور سے مانسہرہ کے لئے فلائنگ کوچز / منی بسز 241 ۔روپے ،اے سی بسز 284 ۔روپے ،عام بسیں 208 ۔روپے اور لگژری بسیں 230 ۔روپے،پشاور سے مردان کے لئے فلائنگ کوچز / منی بسز 64 ۔روپے ،اے سی بسز 76 ۔روپے ،عام بسیں 56 ۔روپے اور لگژری بسیں 61 ۔روپے،پشاور سے ملاکنڈ کے لئے فلائنگ کوچز / منی بسز 131 ۔روپے ،اے سی بسز 155 ۔روپے ،عام بسیں 113 ۔روپے اور لگژری بسیں 125 ۔روپے،پشاور سے تیمرگرہ کے لئے فلائنگ کوچز / منی بسز 196 ۔روپے ،اے سی بسز 232 ۔روپے ،عام بسیں 170 ۔روپے اور لگژری بسیں 188 ۔روپے،پشاور سے منگورہ کے لئے فلائنگ کوچز / منی بسز 191 ۔روپے ،اے سی بسز 225 ۔روپے ،عام بسیں 165۔روپے اور لگژری بسیں 182 ۔روپے،پشاور سے دیر کے لئے فلائنگ کوچز / منی بسز 278 ۔روپے ،اے سی بسز328 ۔روپے ،عام بسیں 240۔روپے اور لگژری بسیں 265 ۔روپے،پشاور سے چترال کے لئے فلائنگ کوچز / منی بسز 555 ۔روپے ،اے سی بسز 655 ۔روپے ،عام بسیں 480 ۔روپے اور لگژری بسیں 530 ۔روپے اورپشاور سے چارسدہ کے لئے فلائنگ کوچز / منی بسز 30 ۔روپے ،اے سی بسز 35 ۔روپے ،عام بسیں 26 ۔روپے اور لگژری بسیں 29روپے وصول کریں گی۔ دینی مدارس کے طلباء ،تعلیمی اداروں ،نابینا/ معذورافراد اور60 سال سے زائد العمرافراد کے لئے موجودہ 50 فیصد رعایت۔اگر ایئر کنڈیشن بسوں میں ایئرکنڈشن کام نہیں کررہاہوں توڈیلیکس سٹیج کیرج بس کے کرائے وصول کئے جائیں گے۔

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریںTagged , , , , , ,
8850

خیبرپختونخوا کے تمام بورڈز کے ملازمین کا ہڑتال ختم کرنے کا اعلان

پشاور ( چترال ٹائمز رپورٹ )خیبرپختونخوا کے تمام بورڈز آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن کے ملازمین نے آج سپیکر خیبرپختونخوا اسمبلی اسد قیصر سے ملاقات کے بعد اپنی ہڑتال ختم کرنے کااعلان کردیا ہے۔ یہ اعلان مذکورہ ملازمین نے سپیکرصوبائی اسمبلی اسد قیصر سے پختونخوا ہاؤس اسلام آباد میں ملاقات کے دوران کیا۔ اس موقع پر تمام بی آئی ایس ایز کے صدور اورملازمین کے نمائندوں نے تنظیم نو (ری سٹرکچرنگ) کے لئے مجوزہ بل کے بارے میں اپنے تحفظات سے متعلق سپیکر کو تفصیلی طورپر آگاہ کیا جس پر سپیکر نے انہیں یقین دلایا کہ جب تک تمام متعلقہ افراد اورسٹیک ہولڈر ز خاص طورپر بورڈ زکے ملازمین کو اعتماد میں نہ لیا جائے اور ان کی مشکلات کا ازالہ نہ کیا جائے اس بل کو کسی صورت بھی اسمبلی میں پیش نہیں کیاجائے گا۔ان بورڈز کے ملازمین کے نمائندوں نے سپیکر خیبرپختونخوا اسمبلی کو مطلع کیا کہ مجوزہ بل جلدی میں بنایا گیا ہے اور اساتذہ ،والدین، طلباء اور نہ ہی ملازمین کو اعتماد میں لیاگیا۔یہی وجہ ہے کہ مجوزہ ری سٹرکچرنگ سے ان بورڈوں کی خودمختاری بری طرح متاثر ہوگی۔ سپیکر خیبرپختونخوا اسمبلی نے انہیں غور سے سنا اور یقین دلایا کہ اس وقت تک کوئی بل پیش نہیں کیا جائیگاجب تک کہ تمام سٹیک ہولڈرز کی مشکلات مناسب طورپر حل نہیں کی جائیں۔ انہوں نے کہا کہ عام حالات میں ایسے بل جائزہ کے لئے سلیکٹیڈ کمیٹی کو بھیج دیئے جاتے ہیں اورپھر اسمبلی میں پیش کیے جاتے ہیں۔ایسا اس لیے کیاجاتا ہے کہ لیجسلیشن کامناسب معائنہ کیاجائے اور تمام سٹیک ہولڈرز کی مشکلات کو حل کیا جاسکے ۔تاہم اسد قیصر نے کہا کہ موجودہ کیس میں امتحانات کی تاریخ کا اعلان ہوچکاہے اسلئے انہوں نے یقین دلایا کہ ملازمین کی شکایات کاحل پہلے نکالاجائے گااور پھر اُن کی قسمت کا فیصلہ کیاجائے گا۔ انہوں نے مزیدکہاکہ چونکہ موجودہ اسمبلی کادور تقریباًختم ہونے والا ہے تاہم مستقبل کی اسمبلی میں بھی ان کی شکایات کا بھر پور خیال رکھا جائے گا۔ تمام بورڈوں کے ملازمین نے سپیکر اسد قیصرکے جذبے کی تعریف کی اور اپنی ہڑتال کے خاتمہ کااعلان کیا۔

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریںTagged , , , , , ,
8845

ہنزہ سٹوڈنٹس فیڈریشن میں نئے عہدیداران کا چناؤ عمل میں لایا گیا

Posted on

گلگت(چترال ٹائمز رپورٹ)ہنزہ سٹوڈنٹس فیڈریشن کے سالانہ انتخابات کا انعقاد۔2018-19کیلئے صدر محمد رحیم مقرر ، نائب صدر معین اللہ بیگ ، ایچ۔ایس۔ایف وومن ونگ کی صدر عینی سعید جبکہ ایچ۔ایس۔ایف ڈاٹر ونگ GYFکے چیئرمین صابر اللہ بیگ مقرر ہوگئے ہیں۔ہنزہ سٹوڈنٹس فیڈریشن کے سالانہ کنونشن کے دوران نئی کابینہ کیلئے باقاعدہ انتخابات کا انعقاد کیا گیا جس میں چار سو سے زائد طلباء و طالبات نے اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیا اور نئی کابینہ کے چناؤ کے بعد نئی کابینہ سے ان کے عہدوں کا حلف بھی لیا۔دوران کنونشن نئی کابینہ کیلئے باقاعدہ طور پر انتخابات کا انعقاد کیا گیا جس میں ایچ سی ایف کے سینکڑوں طلباء و طالبات نے ممبران نے اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیا۔الیکشن کمیشن کے فرائض معیز علی اور ان کے ٹیم نے انجام دیا۔
پروگرام کے مہمان خصوصی اکبر شاہ ہاشوان تھے۔تقریب میں یاسین سٹوڈنٹس آرگنائزیشن ، غذر سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے اعلیٰ عہدیداروں نے شرکت کی۔تقریب سے اکبر شاہ ہاشوان، عزیز علی داد ، عمران شمس، شاہانہ شاہ، یونس دلیاب کے علاوہ دیگر مقررین نے خطاب کیا۔مقررین کاکہنا تھا کہ ہنزہ سٹوڈنٹس فیڈریشن طلباء و طالبات کے مسائل حل کرنے کے علاوہ نصابی و غیر نصابی سرگرمیوں کے فروغ کیلئے اپنا کردار ادا کیا ہے۔امید ہے کہ HSFاپنی سابقہ روایات برقرار رکھتے ہوئے یونیورسٹی داخل ہونے والے نئے طلباء و طالبات مثبت انداز میں رہنمائی کرتے ہوئے یونیورسٹی میں داخل ہونے والے نئے طالباء و طالبات کے بنیادی مسائل حل کرنے میں اپنا کردار ادا کریگی۔ہنزہ سٹوڈنٹس فیڈریشن کے نو منتخب عہدیداران کا کہنا تھا کہ وہ یونیورسٹی میں مثبت سرگرمیاں و طلباء و طالبات کے مسائل حل کرنے کیلئے دیگر طلبہ تنظیموں کے ساتھ روابط کو بھی برقرار رکھیں گے تاکہ گلگت بلتستان کے مادر علمی کے۔آئی۔یو میں زیر تعلیم طلباء و طالبات کو حصول علم میں کسی قسم کی دشواریوں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
hunza students federation pic2

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستانTagged , , , , ,
8842

جشن قاقلشٹ اختتام پذیر،کمشنرملاکنڈ مہمان خصوصی، ثقافت سے وابستہ تنظیمیں‌نظرانداز

چترال ( محکم الدین )چارروزہ کاغلشٹ فیسٹیول اتوارکے روزاختتام پذیرہوا۔ہزاروں افرادنے فیسٹیول کے آخری میچوں میں شرکت کی۔کمشنر ملاکنڈڈویژن سید ظہیر الاسلام شاہ مہمان خصوصی تھے جبکہ ڈپٹی کمشنر چترال ارشادسودھر، تحصیل نائب ناظم مستوج فخرالدین،ممبرتحصیل کونسل سردارحکیم ، ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر چترال منہاس الدین، اسسٹنٹ ٹو کمشنر پولیٹکل اینڈڈیویلمپنٹ ملاکنڈ عبدالاکرم،اسسٹنٹ کمشنر چترال ساجدنواز،ڈسٹرکٹ فنانس آفیسرحیات شاہ، اسسٹنٹ کمشنر مستوج اون حیدر گوندل ،پراجیکٹ ڈائریکٹرگولین گول ہائیڈل پاورپراجیکٹ ،چیئرمین کاغلشٹ کمیٹی پرنس سلطان الملک اوردیگرموجودتھے۔جبکہ ہزاروں کی تعدادمیں تماشائیوں نے شرکت کی۔پولوکافائنل میچ ریشن اوربونی کے مابین کھیلاگیاجس میں ریشن وائٹ نے شاندار کھیل کا مظاہرہ کرتے ہوئے ٹرافی اپنے نام کرلی ،جبکہ فٹبال میں ایون فٹبال کلب نے ینگ اسٹاردروش کوشکست دی،اسی طر ح نشانہ بازی میں کوشٹ کے عبدالباقی ،رسہ کشی میں بونی ،ٹیبل ٹینس میں ہدایت اللہ ،میراتھن میں سمیع اللہ نے کامیابی حاصل کی۔جبکہ ولی بال اورکرکٹ کی ٹیموں کی تعدادزیادہ ہونے کی وجہ سے فائنل میچ اختتام پذیرنہ ہوسکا۔فائنل میچ کے دوران پیرا گلائیڈنگ کامظاہرہ کیاگیااورظاہرالدین بابربہترین پیرا گلائیڈرقرارپائے۔قبل ازین گذشتہ رات کاغلشٹ میں کلچرشوکاانعقادبھی کیاگیاچارروزہ کاغلشٹ فیسٹیول کے دوران دس ہزارفٹ بلندبے آب و گیاہ میدان میں جنگل میں منگل کاسماء رہااورچترال و ملک کے کئی شہروں اوربیرون ملک سے سیاحوں نے اس میں شرکت کی۔تاہم بارش نہ ہونے کے باعث اُڑتی دھول نے جشن کامزہ پھیکاکردیا۔

جشن کاغلشٹ نے جہاں لوگوں کوتفریح مہیاکی وہاں جشن کاغلشٹ کمیٹی کے بنیادی ممبران اورادب وثقافت سے وابستہ لوگوں نے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ کلچرل شوکے نام پرچترالی ثقافت کاہلیہ بگاڑدیاگیااورچترال کی ثقافت کوغیرچترالیوں کے غیر چترالیوں کے ہاتھوں ہائی جیک کی گی۔اورپیش کردہ کلچرشوکسی بھی طرح چترال کی ثقافت کی عکاسی نہیں کرتی۔انہوں نے کہاکہ انتظامی آفیسران کی طرف سے اس عوامی ثقافتی جشن میں مداخلت اوراس کے ابتدائی محرک ثقافتی اورادبی افراد و تنظیمات کوبائی پاس کرنے سے بہت مایوسی ہوئی ہے۔اوریہ دانستہ طورپرچترال کی تہذیبی اقدارکوسبوتاژکرنے کی کوشش ہے انہوں نے کہاکہ اس قدیم روایتی جشن کوچترال کے کلچر دوست افرادنے مختلف اداروں کے قلیل مالی تعاون اوراپنی مددآپ کے تحت اس مقام تک پہنچایاکہ یہ کیلنڈرایونٹ بن گیا۔ آج ملکی سیاحتی ادارے اورمختلف کمپنیاں اس کے لئے فنڈزفراہم کرنے لگے ہیں۔اب اُن رضاکاراداروں اورافرادسے جشن کاغلشٹ کے حوالے سے پوچھنابھی گوارانہیں کیاجاتا ۔جشن کاغلشٹ کمیٹی کے چیئرمین پرنس سلطان الملک ، ادبی اورثقافتی انجمن کے صدرذکرمحمدزخمی نے انتظامیہ کے اس رویے کو انتہائی طور پر نامناسب قرار دیا ہے اورکہاہے کہ کہوثقافت پرڈاکہ ڈالنے کی کوشش ہرگزقبول نہیں کیاجائے گا۔

kaghlasht festival concludes in mastuj22335

kaghlasht festival concludes in mastuj223 kaghlasht festival concludes in mastuj122 kaghlasht festival concludes in mastuj22 kaghlasht festival concludes in mastuj12 kaghlasht festival concludes in mastuj2 kaghlasht festival concludes in mastuj1kaghlasht festival concludes in mastuj

kaghlasht festival concludes in mastuj1223

kaghlasht festival concludes in mastuj2233

qaqlasht polo final

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged , , , , , ,
8791

ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں یکسان نصاب تعلیم رائج کیا جائے….تنظیم اساتذہ خیبر پختونخوا

Posted on

پشاور( چترال ٹائمز رپورٹ)نصاب سازی کا اختیار قومی وحدت کی خاطر دوبارہ مرکز کے کنٹرول میں دیا جائے اورملک بھر کے تعلیمی اداروں میں یکساں نصاب تعلیم،یکساں نظام امتحانات ،یکساں ذریعہ تعلیم ،اردو کا نفاذ اور عربی کو انٹرتک لازمی مضمون کا درجہ دیا جائے ۔ یہ مطالبہ تنظیم اساتذہ پاکستان صو بہ خیبر پختونخواکے صو بائی ذمہ دارا ن خیر اللہ حواری،پروفیسر ڈاکٹر محمد روؤف،ڈاکٹر محمد ناصر،میاں ضیاء الرحمن،شمشاد خان جھگڑا ،عبید اللہ،مصباح الاسلام عابد،سکندر خان یوسفزئی اور سید محمد شاہ باچانے اپنے ایک مشترکہ جاری کردہ پریس ریلیز میں کیا ہے ۔
انہوں نے مذید کہا ہے کہ طویل عرصہ گزرنے کے باوجود ارباب اقتدار پاکستان کے اساسی نظریے سے ہم آہنگ نظام تعلیم دینے میں بری طرح ناکام ہوئے جس کے نتیجے میں ملک کے اندر افرا تفری،بد امنیاور ہر شعبہ زندگی میں کرپشن کو فروغ ملا ۔پاکستان کے نظریاتی محاذوں
کو مضبوط بنانے کیلئے نظام تعلیم میں کلیدی کردار کے حامل معماران قوم کے دکھوں کا مداوا کیا جائے ۔تا کہ وہ کلاس روم کے مورچوں میں یکسوئی کے ساتھ اسلام اور پاکستان کے پاسبان تیار کر سکیں۔

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریںTagged , , , , ,
8787

امریکا کی افغانستان میں مقدس مقامات پر بمباریاں……… پیامبر…..قادر خان یوسف زئی

Posted on

امریکا کی جانب سے افغانستان میں خون کی ہولی میں بھارت کی شمولیت نے مسلمانوں کے لئے مزید مشکلات پیدا کردی ہیں ۔ قندوز آرچی میں’ عمریہ ہاشمیہ‘ مدرسے پر افغان سیکورٹی فورسز نے امریکا اور بھارت کے ساتھ ملکر جس طرح معصوم بچوں اور عام شہریو ں کو جانی نقصان پہنچایا ہے ایسی بربریت کی مثال دنیا بھر میں نہیں ملتی ۔ امریکا نے نئی اسٹریجی کے تحت اپنی مذموم کاروائیوں کے لئے سوشل میڈیا کا بھی استعمال کرنا شروع کردیا ہے جس میں جعلی تصاویر جاری کردی جاتی ہیں ۔ نام نہاد لبرل و سیکولرز اور اسلام دشمن عناصر’ ہمدردی ‘کی آڑ میں بڑی چالاکی سے ان جعلی تصاویر کو شیئر کرتے ہوئے منفی پروپیگنڈا پھیلاتے ہیں کہ فلاں تصویر تو سانحے سے قبل کی ہے ۔ یہ تو فلاں کے سوشل اکاؤنٹ پر پہلے سے موجود تھی ۔ یہ واقعہ مشکوک نظر آتا ہے ۔عام شہری نہیں افغان طالبان تھے ۔ بمباریاں تو ہوتی ہیں تو اس میں عام شہری کو بھی نقصان پہنچتا ہے ۔ فلاں فلاں واقعے میں بھی تو عام شہری ہلاک ہوئے تھے ۔ فلاں بازار ، فلاں علاقے ، فلاں سانحے میں بھی تو عام شہری ہلاک ہوئے اُن کی مذمت کیوں نہیں کی جاتی وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔ یہ وہ عام سوالات ہیں جب سوشل میڈیا میں پھیلائے جاتے ہیں تو عام فرد اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ کیونکہ سوشل میڈیا کا استعمال اس قدر بے ہنگم ہوگیا ہے کہ بغیر تصدیق کسی کے بھی اکاؤنٹ سے کوئی بھی خبر پھیلانے میں لمحہ نہیں لگتا۔ افسوس کا مقام تو یہ تھا کہ قندوز جیسے عظیم سانحے کے بعدالم ناک تصاویر اور ویڈیوز پر بھی سوالیہ نشان اٹھائے گئے کہ اتنے جلدی یہ تصاویر کہاں سے آگئی ۔ اس ڈیجیٹل دورمیں جب کہ ایک فرد کے ہاتھ میں پوری دنیا(موبائل فون، انٹرنیٹ) سمٹ آئی ہو ۔ ایساسوال کرنا انتہائی احمقانہ معلوم ہوتا ہے۔ ایک افغان چینل نے واقعے سے قبل ایک جعلی فضائی ویڈیو میں ثابت کرنے کی کوشش کی کہ افغان طالبان موجود تھے ۔ دنیا جانتی ہے کہ مذکورہ علاقہ امارات اسلامیہ کے زیر انتظام ہے ۔ افغانستان میں اس وقت امارات اسلامیہ کے خلاف سی آئی اے( امریکا) ، نیٹو ، این ڈی اے( افغان سیکورٹی فورسز) ، را ، (بھارت)موساد( سرائیل) ، ایم آئی 6( برطانیہ ) اور سب سے بڑھ کر شمالی اتحاد و حکومت کے جنگجو گروپس اور عالمی دہشت گرد تنظیم داعش مسلسل حملے کررہی ہے ۔کیا ان حالات میں مذہبی تقریب میں انتظامیہ کسی حفاظت کے لئے اہتمام نہیں کرے گی ۔ واضح ر ہے کہ جعلی تصاویر و واقعات کی غلط منظر کشی کی روایت کابل حکومت نے شروع کی ۔ کئی بار کابل حکومت کی ان منفی کوششوں کو امارات اسلامیہ نے غلط ثابت بھی کیا ۔ کئی مثالوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے سب سے بڑی مثال تو خود مغربی میڈیا نے بیان کرتے ہوئے کابل حکومت کا تمسخر اڑایا تھا۔ جب کابل کے صدر اشرف غنی اور امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن نے24اکتوبر2017کو امریکی فوجی اڈے بگرام ائیر بیس کے بنکر میں ملاقات کی لیکن سرکاری طور پر کابل انتظامیہ نے تصاویر جاری کیں کہ یہ ملاقات صدارتی محل میں ہوئی تھی ۔ لیکن جھوٹ کا ڈھول اُس وقت پھٹا جب امریکی میڈیا نے( جو اس وقت امریکی ؑ عہدے دارکے ساتھ تھا ) ملاقات کی اصل تصاویر شائع کردیں۔ جس کے بعد غنی حکومت کو سخت شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔ اس قبل بھی کئی مرتبہ کابل حکومت جعلی تصاویر کے منفی پروپیگنڈے کا سہارا لے چکی ہے ۔ 21اپریل2016کے ایک واقعے کی مثال دینا چاہوں گا ۔ جس میں کابل حکومت نے جعلسازی کی انتہا کردی تھی ۔ کابل شہر میں امارات اسلامیہ کی جانب سے این ڈی اے ( نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف اینٹلی جنس) کے مرکز پر حملے میں کابل دوہری انتظامیہ کے افغان سیکورٹی اہلکار ، اعلی و ادنیٰ عہدوں پر فائز خفیہ ادارے سے منسلک افراد ہلاک و ززخمی ہوئے ہیں ،واقعہ2016ماہ اپریل میں واقع پزیر ہوا تھا لیکن کابل دوہری انتظامیہ نے عوامی اذہان کو افغان طالبان سے بدظن کرنے کیلئے مختلف النوع تصاویر کو اکھٹے کرکے سوشل میڈیا اور دیگر ابلاغی ذرائع میں پھیلا کر انھیں افغان طالبان سے منسوب کردیا تھا ۔ یہ تمام عمل جعلی اور پر فریب عمل قرار دیا گیا تھا ۔ افغان طالبان کے مرکزی ترجمان اس سے پہلے بھی اعلامیہ جاری کرچکے تھے کہ حملہ اُس جگہ کیا جاتا ہے جہاں عام شہری کی رسائی ممکن ہی نہیں ہوتی ۔ سخت سیکورٹی کے حامل علاقے میں بچوں ، خواتین اور عام شہریوں کی بڑی تعداد میں ہلاکت کے کابل دوہری انتظامیہ کے دعوے کو کئی بار ا فغان طالبان پہلے بھی رد کرچکے ہیں۔ افغان حکومت کے زیر اثر بعض افغان میڈیا اور دیگر ابلاغی ذرائع میں ایسی تصاویر خبر کے ساتھ لگائی گئیں جن کا مذکورہ حملے سے کوئی تعلق نہیں تھا ۔ چند تصاویر کے ساتھ تفصیل بھی دی گئی مثلاََایک تصویر یکم فروری2016کابل کے دہمزنگ کے علاقے میں نظم عامہ کے مرکز پر ہونے والے دہماکے کی تھی یہ تصویر اے پی کے نامہ نگار نے کھینچی تھی لیکن اس تصویر کو افغان میڈیا اور دیگر ابلاغی ذرائع نے اپریل2016 حملے کی تصویر ظاہر کی اسی طرح ایک تصویر 2011کی تھی جو اہل تشیع کے محرم الحرم کے ماتمی جلوس کے دہماکے کے وقت لی گئی تھی ، ایک تصویر2008ء میں کابل میں بھارتی سفارت خانے کے قریب دہماکے کی تھی۔افغان میڈیا ذرائع ابلاغ کے بعض اداروں نے جلد بازی میں مصر 2013کو صدر مرسی کے حامیوں پر عبدالفتاح کی سیکورٹی اہلکاروں کی جانب سے کی جانے والے فائرنگ سے شہید ہونے والی بچے کے جسد خاکی کے پاس ان کی ماں کی روتی تصویر کو بھی تازہ کابل حملے کی تصویر ظاہر کردی بلکہ دسمبر2014میں پاکستانی شہر پشاور میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے حملے میں جاں بحق ہونے والے طالب علم کی لاش کے پاس کھڑی ماں کی روتی تصویر کو کابل حملے کے شہری نقصان ظاہر کیا گیا اور تو اور ابلاغی ذرائع نے پانی کو فوٹو شاپ کے ذریعے خون آلود اور شام کی خانہ جنگی میں بشار الاسد کی افواج کی جانب سے کی جانے والی 2012میں ذخمی ہونے والی بچی اور اپریل2007میں عراق بم دہماکے میں زخمی ہونے والے دو بچوں کی تصاویر بھی یہ لکھ شائع کردی کہ افغان طالبان کی جانب سے این ڈی اے ( نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف اینٹلی جنس کے مرکز پر حملے میں سویلین زخمی ہوئے ہیں یہ تمام تصاویر جب و اصل سیاق و سباق کے ساتھ جاری ہوئی تو کابل دوہری حکومت کی نا اہلی سے پردہ اٹھا گیا تھا۔ جس طرح افغانستان کی حکومت ہر معاملے کی طرح اس دہماکے میں بھی پاکستان کو ملوث کرنے کے جھوٹے الزامات لگاتی ہوئے شرم محسوس نہیں کرتی وہی ہتھکنڈا مارات اسلامیہ پر آزمانے کی کوشش کی اور کابل حملے کے بعد قندوز سانحے میں اٖٖفغان سیکورٹی فورسز کی ناکامی کو چھپانے کیلئے عام شہریوں و افغان طالبان کو نقصان پہنچانے کا بھونڈا طریقہ اختیار کیا گیا ۔

رمدرسہ ’ عمریہ ہاشمیہ ‘ پر بزدلانہ حملہ پہلا واقعہ نہیں ہے ۔ بلکہ افغانستان میں امریکی و افغان سیکورٹی فورسز نے مدارس و مساجد کو شہید کرنا وتیرہ بنا ہوا ہے ۔اس کی چند مثالیں ذیل سطور میں دی جا رہی ہیں ۔ تاکہ عام قاری سمجھ سکے کہ امریکا ، کٹھ پتلی حکومت اور بھارت کا یہ گٹھ جوڑ کسی امن مشن سے نہیں جڑا ہوا بلکہ ان کا مشترکہ مقصد مسلم نسل کشی اور اسلامی شعائر و مذہبی مقدس مقامات کو نشانہ بنانا ہے اور جب اس پر احتجاج کیا جائے تو جعلی و منفی بے بنیاد پروپیگنڈے کرکے مسلم امہ اور دنیا کو گمراہ کرنے کی ناکام کوشش کی جائے۔افغانستان کے بارے میں امریکی صدر ٹرمپ کی نئی جنگی حکمت عملی کے اعلان کے بعد افغان شہریوں کے گھروں، دکانوں، فصلات، مساجد، مدارس، اسکولوں اور دیگر عوامی مقامات پر امریکی فوجیوں کے چھاپوں، بمباریوں اور حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ ان حملوں میں شہریوں کو وسیع پیمانے پر جانی نقصان ہوا ہے۔ ان کے گھر تباہ کیے جا رہے ہیں۔خاص طور پر دینی مدارس، مساجد اور علمائے کرام پر قابض امریکی اور کٹھ تپلی حکومت کے حملوں میں زیادہ شدت آئی ہے۔ افغانستان کے مختلف علاقوں میں دینی مدارس اور مساجد پر فضائی حملے کیے گئے ہیں۔ ان کو جلا دیا گیا۔ طلباء، علماء اور اساتذہ کو گرفتار یا قتل کیا جا رہا ہے۔

17 نومبر2016 کو صوبہ لوگر کے ضلع چرخ کے علاقے ’’ملا علیم‘‘ گاؤں پر امریکی اور افغان سیکورٹی فورسزنے چھاپہ مارا، جس میں دو مدارس اور گھروں کی تلاشی لی گئی اور مدرسے کے طلباء سمیت پانچ شہریوں کو حراست میں لے لیا گیا۔20 نومبر کو مشرقی صوبے ننگرہار کے ضلع شیرزاد کے علاقے مرکی خیل پر قابض امریکی اور کٹھ پتلی فورسز نے مل کر چھاپہ مارا۔ جس میں ایک عالمِ دین ’’مولوی شیریندل صاحب‘‘ کو قتل کردیا گیا ۔22 نومبر کو صوبہ میدان وردگ کے ضلع نرخ کے علاقے عمر خیل میں قائم ایک دینی مدرسے پر امریکی اور افغان فورسز نے چھاپہ مارا۔ امریکی فوجیوں نے آٹھ چھوٹے طالب علموں کو ایک دیوار کے نیچے بٹھانے کے بعد ان پر گولیاں برسا دی گئی تھی ۔اسی دن صوبہ پکتیا کے ضلع احمد آباد کے علاقے کامران خیل میں پولیس نے ایک عالمِ دین مولوی حمداللہ کو جاں بحق کردیا۔26 نومبر کو قابض افواج نے صوبہ لغمان کے ضلع قرغی کے علاقے چار باغ اور امبیڑ میں ایک عالمِ دین سمیت پانچ شہریوں کو قتل کیا گیا۔22 اکتوبر کو صوبہ غزنی کے ضلع ناوا کے علاقے تنگی میں حملہ آوروں نے چھاپہ مارا۔ جس میں دو شہریوں حمداللہ اور لطف اللہ اخوندزادہ کوقتل اور خواتین اور بچوں سمیت دس افراد کو حراست میں لے لیا گیا۔22 اکتوبر کو صوبہ زابل کے ضلع شاجوئی اور ضلع نوبہار کے درمیان لوڑ مرغہ غٹ بٹ خیل کے علاقے میں ایک مسجد پر امریکی طیاروں نے بمباری کی، جس میں تین طالب علم قتل کئے گئے۔ 22 اکتوبر کو امریکی اور کٹھ پتلی فورسز نے صوبہ غزنی کے ضلع ناوہ کے علاقے چادر ماندہ پر چھاپہ مارا اور علاقے کے معزز دینی رہنماء اور روحانی شخصیت قطب اللہ اخوندزادہ سمیت تین افراد کو قتل اور ایک خاتون سمیت ان کے خاندان کے تمام افراد کو حراست میں لے لیا۔11 ستمبر کو صوبہ غزنی کے ضلع قرہ باغ کے علاقے شیر میں پولیس نے فائرنگ کر کے دو طالب علموں کوقتل اور ایک زخمی کر دیا۔15 ستمبر کو صوبہ بغلان کے ضلع برکی میں کٹھ پتلی فوجیوں نے مولوی کمال الدین کے مدرسے پر قبضہ کر کے اس میں مورچے قائم کیے۔ دیواروں کو گولیوں سے سوراخ زدہ کر دیا۔ جس سے مدرسے کی عمارت مخدوش ہو گئی ہے۔17 ستمبر کو صوبہ غزنی کے ضلع دہ یک کے علاقے بالائی میں پولیس نے ایک عالمِ دین مولوی عبدالہادی اخوندزادہ کوقتل اور ان کے بیٹے اور اہلیہ کو زخمی کر دیا۔27 ستمبر کو صوبہ بادغیس کے ضلع درہ بوم کے بازار میں فورسز کے راکٹ حملے میں مقامی مدرسے کے دو طالب علموں کو قتل کیا گیا۔دینی مراکز پر حملوں اور علمائے کرام اور طالب عملوں کی شہادت کے مذکورہ چند اعداد و شمار بطور نمونہ پیش کیے گئے ہیں۔ افغانستان کے مختلف علاقوں میں ہر روز حملہ آوروں اور کابل حکومت کے چھاپوں، بمباریوں اور حملوں میں نہتے شہریوں کے مکانات تباہ، خواتین اور بچے جاں بحق ہوتے ہیں۔ جب کہ مختلف بہانوں سے بے گناہ اور نہتے شہریوں کو گرفتار کر کے انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔کچھ عرصہ پہلے ننگرہار کے ضلع خوگیانو کے علاقے ٹٹنگ میں ایک دینی مدرسہ مسمار کر دیا تھا جس۔ تین طالب علموں جاں بحق اور متعدد طلبہ کو زخمی ہوگئے تھے۔ تقریبا دو ماہ قبل بھی قابض اور کٹھ پتلی فورسز نے صوبہ میدان وردگ کے ضلع نرخ میں ایک مدرسے پر چھاپہ مارا۔ 16 نوجوان طالب علموں کو بے دردی کے ساتھ شہید کیا گیا۔ جب کہ مختلف علاقوں میں اس طرح کے الم ناک واقعات وقتا فوقتا رونما ہوتے رہتے ہیں۔امریکا کی سرپرستی میں داعش بھی مذہبی مقامات کو نقصان پہنچاتی ہے ۔ داعش کے حوالے سے افغانستان میں دو بڑے اہم واقعات کا ذکر بھی کرتا چلوں ۔ افغانستان کے دارالحکومت کابل میں21اکتوبر2017 کوامام زمان مسجد میں داعش کے خودکش بمبار نے گھس کر نمازیوں پر فائرنگ اورپھر خود کو دھماکے سے اڑادیا تھا جس کے نتیجے میں 40 افراد جاں بحق اور 45 زخمی ہوگئے تھے۔کابل دھماکے کے کچھ ہی دیر بعد افغانستان کے صوبے غور کی مسجد میں بھی خودکش حملے کے نتیجے میں 20 سے زائد افراد جاں بحق اور 10 زخمی ہو گئے شدت پسند تنظیم داعش نے ان دھماکے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔داعش، امریکا ، اسرائیل ، بھارت اور کابل کٹھ پتلی حکومت کا یہ وتیرہ ہے کہ وہ خطے میں امن کا احیا نہیں چاہتے تاکہ خطے میں موجودگی کا جواز برقرار رہے ۔ تین برسوں سے موخر انتخابات اور اکتوبر میں دوبارہ انتخابات کے اعلان کے بعد اس قسم کے واقعات سے کابل حکومت عالمی رائے عامہ اپنے حق میں کرنے کی ناکام کوشش کرتی رہتی ہے۔ لیکن غیر جانب دار میڈیا کابل حکومت کی کارستانیوں کے پول کھولتا رہتا ہے۔ کابل حکومت امن کے قیام کے لئے کھوکھلے دعوے کرتی ہے ، مزاحمت کاروں سے مذاکرات کے لئے ہاتھ پیر جوڑتی ہے ۔ کبھی پاکستان تو کبھی سعودیہ و متحدہ امارات کو اپنا کردار ادا کرنے کی درخواست کرتی ہے ۔ لیکن دوسری جانب اشتعا ل انگیز کاروائیاں کرکے تمام کوششوں کو سبوتاژ کردیتی ہے۔

امارت اسلامیہ نے تمام عالمی غیرجانبدار تنظیموں، اداروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے مطالبہ کیا ہے کہ قندوز میں رونما ہونے والے جنایت کے بارے میں وسیع اور غیرجانبدار وفود کا انتخاب، انہیں علاقے روانہ کیجیے، تاکہ المیہ کی آزادانہ اور ہمہ پہلو تحقیقات کریں اور یہ ظاہر کریں، کہ حملہ کس پر ہوا ہے اور کن مقاصد کے لیے کیا گیا ہے۔امارت اسلامیہ ایسی وفود کی آمد کے لیے انتظامات کریگی اور علاقے میں ہر قسم کی سیکورٹی کا یقین دلاتی ہے۔ اسی طرح امارت اسلامیہ تمام ذرائع ابلاغ، صحافی حضرات اور محقیقین سے بھی مطالبہ کرتی ہے کہ آزادانہ طور پر علاقے کا دورہ کریں، مذکورہ جگہ کو قریب سے دیکھ لے، عوام اور متاثرین کیساتھ گفتگو کریں اور المیہ کے متعلق مؤثق معلومات جمع کرکے عوام اور دنیا تک پہنچا دیں۔امارات اسلامیہ کی جانب سے متعدد واقعات میں عالمی ذرائع ابلاغ کو کھلی دعوت دی کہ وہ آئیں وہ آزادنہ تحقیقات کریں کہ ظالم کون ہے ، لیکن کابل حکومت کسی بھی واقعے میں عام شہریوں کی ہلاکتوں سے لیکر مدارس ، اسپتالوں اور عوامی مقامات میں ہونے والی دہشت گردی کے واقعات کی کوریج کے لئے میڈیا کی آمد کو یقینی نہیں بناتی اورمیڈیا کو واقعے کی جگہ سے دور رکھا جاتا ہے تاکہ شواہد کو مٹا یا جا سکے ۔ بعد ازاں جعلی تصاویر اور جھوٹے پروپیگنڈوں سے اصل واقعے کو دھندلنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ افغانستان میں میڈیا کو آزادی سے کام کرنے کی اجازت نہیں ہے ۔ میڈیا کو کابل دوہری حکومت اور امریکا کی جانب سے سخت دباؤ کا سامنا ہوتا ہے ۔ کابل حکومت کی منشا پر حقائق جاری کرنے والے صحافیوں اور اداروں کو نشانہ بنایا جانا معمول بن چکا ہے۔ اس عالم میں افغانستان کی درست صورتحال کی عکاسی غیر جانب دارانہ ممکن نہیں ہے ۔ تاہم ان تمام نامساعد حالات کے باوجود اصل حقائق عالمی ذرائع ابلاغ میںآ جاتے ہیں۔عالمی ذرائع ابلاغ قندوز آرچی سانحہ کے حوالے سے نہ چاہتے ہوئے بھی اصل حقائق کی منظر کشی پر اس لئے مجبور ہوا کیونکہ واقعے کی موبائل پر بنی ویڈیو سوشل میڈیا کی توسط سے پوری دنیا میں پھیل چکی تھیں۔تاہم اس کے باوجود معصوم ، نہتے حفاظ القرآن بچوں کی مختلف تصاویر کو جعلسازی سے ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی کہ اس ریاستی دہشت گردی میں بچے نشانہ نہیں بنے ۔ بد قسمتی سے پاکستان میں بھی ایسے احباب کی موثرتعداد ہے جو اس منفی پروپیگنڈے کو بڑھا چڑھا کر پیش کررہے ہیں ۔ دہشت گردی کا واقعہ کہیں بھی اور کسی بھی جانب سے ہو ، اس کی مذمت احترامِ انسانیت ہے ۔ کسی بے گناہ کی جان کوئی بھی لے اس کو کبھی درست نہیں کہا جاسکتا ۔ نہ ہی اس کے لئے کوئی دلیل دی جاسکتی ہے۔ دہشت گردی میں عام شری اور بے قصور انسانوں کی ہلاکتیں قابل مذمت ہیں ، چاہے اس کا تعلق کسی بھی مذہب ، رنگ و نسل و فرقے سے کیوں نہ ہو ۔ کسی انسان کو حق نہیں کہ وہ کسی بے گناہ کی جان لے۔

افغانستان میں امارات اسلامیہ اپنی سرزمین پر قابض جارح مملکتوں کے خلاف مزاحمت کررہی ہے ۔ دونوں مسلح گروپوں کے درمیان جھڑپیں و جنگ کا تعلق جارحیت و مزاحمت سے ہے ۔ اس کا عام شہری سے کوئی تعلق نہیں۔ دنیا کا کوئی قانون اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ حالتِ جنگ میں ہسپتالوں ، مقدس مقامات ، تعلیمی اداروں سمیت عوامی مقامات میں نہتے اور بے گناہ شہریوں کو نقصان پہنچایا جائے ۔ ہمیں امارات اسلامیہ اور امریکا کے درمیان 17برسوں سے جاری جنگ کو سمجھنا ہوگا کہ امریکا ایک منصوبے کے تحت افغانستان میں داخل ہو اتھا ۔ زمینی جنگ میں امریکا اور اس کے حلیفوں کو شدید نقصان کا سامنا ہے لیکن امریکا عالمی معاشی جنگ میں افغانستان کو اپنی چھاونی کے طور پر استعمال کرنا چاہتا ہے۔ امریکا کو پاکستان اور افغانستان میں امن سے کوئی غرض نہیں ۔ بلکہ امریکا چاہتا ہے کہ پاکستان ، و افغان مزاحمت کار اپنا رخ چین کے صوبے سینانگ کی جانب منتقل کرلیں تاکہ چین کی توجہ و توانائی خانہ جنگی کے خاتمے میں صرف ہوسکے اور معاشی سپر پاور بننے کا خواب پورا نہ ہوسکے۔پاکستا ن ، امریکا کی خواہشات پر پہلے ہی تباہی و بربادی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے ۔ اب پاکستان نے اپنی ڈاکٹرئن تبدیل کی ہے تو امریکا اپنی ضد و جبر چھوڑنے کے لئے کسی صورت تیار نہیں ہورہا ۔ کابل امن پراسس کے چار ادوار ہونے کے بعد اور پھر پاکستان کی جانب سے اعلیٰ عہدے داروں کا افغانستان جانا ، سعودی عرب اور متحدہ امارات کو امن پراسس میں شمولیت کے لئے امریکا کی نام نہاد کوششوں کا پول ایک بار کھل چکا ہے۔کہ امریکا افغانستان میں امن کے نام پر دہشت گردی کررہا ہے۔پاکستانی وزیر اعظم ، صدر اشرف غنی کے دورے پر پھر کابل پہنچے ۔ لیکن جب تک خود کابل حکومت امن کے لئے سنجیدہ نہیں ہوگی ، پاکستا ن کی تمام کوششیں رائیگاں جاتی رہیں گی ۔ یہ غنی حکومت کو سوچنا ہوگا ۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , , , , ,
8784

تمام پرائیویٹ سکولز چھٹیوں میں اور ایک سے زیادہ بچوں سے نصف فیس وصول کرینگے…KP-PSRA

Posted on

پشاور ( چترال ٹائمز رپورٹ ) خیبر پختونخواپرائیویٹ سکولز ریگولیٹری اتھارٹی نے پرائیویٹ سکولز ریگولیٹری اتھارٹی ایکٹ 2017 کی شق 30 ۔ کے تحت KP-PSRA ریگولیشنز 2018کی منظوری دی ہے ان ریگولیشنز کو ویب سائٹ “www.kpese.gov.pk” پر آپ لوڈ بھی کر دیا گیاہے۔ تمام پرائیوٹ سکولوں کی انتظامیہ بشمول مانٹیسوری ، کنڈرگارٹن ، ٹیوشن اکیڈیمی یا سینٹر ، مڈل ، ہائی اور ہائیر سیکنڈری سکولوں یا اس کے مساوی سطح کا کوئی بھی ادارہ یا پرائیویٹ شعبے میں کسی تعلیمی سسٹم یا میڈیم کے ذریعے تعلیم فراہم کرنے والے اداروں کو ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ وہ ان ریگولیشنز؍پشاور ہائی کورٹ کے 8 ۔نومبر 2017 کے اعلان کردہ فیصلے پر ان کی حقیقی روح کے مطابق سختی سے عمل درآمد یقینی بنائیں۔ پشاور ہائی کورٹ کے 8 ۔نومبر 2017 کو اعلان کردہ فیصلے کے پیرا۔ 15 ۔ کے مندرجات کا خلاصہ ضروری عملدرآمد کے لئے درج ذیل ہے۔ سالانہ اور ٹیوشن فیس کی مساویانہ پالیسی ، جو KP-PSRA جلدہی تشکیل دے گی، اس وقت تک مذکورہ سالانہ اور ٹیوشن فیس میں کسی بھی اضافے پر مکمل پابندی ہوگی۔ یہ ادارے ، ایک والدین کے دوسرے اور تیسرے بچوں سے نصف ٹیوشن فیس سے زیادہ وصول نہیں کریں گے۔ فیصلے کے مطابق 30 یا زیادہ دنوں کے لئے تعطیلات کے دوران ٹیوشن فیس کی وصولی غیر منطقی ، غیر قانونی اور بدنیتی پر مبنی قرار دی گئی ہے تاہم تنخواہوں ، یوٹیلٹی بلوں اور کرائے وغیرہ کے اخراجات کے پیش نظر مذکورہ انتظامیہ کو سالانہ چارجز کے علاوہ ٹیوشن فیس کی مد میں پچاس فیصد فیس وصول کرنے کی اجازت ہو گی۔ مختلف ذرائع سے یہ بتایا گیا ہے کہ طلباء سے رقم بٹورنے کے لئے بعض اداروں میں بے رحم ڈیلر اور دیگر ملازمین رکھے گئے ہیں جو طلباء سے غیر ضروری رقوم فی طالب علم / فی کس کے حساب سے وصول کرتے ہیں۔ اس لئے اس پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ تعطیلات کے دوران طلباء سے ٹرانسپورٹ کے چارجز کی وصولی پر مکمل پابندی ہوگی۔ پشاور ہائی کورٹ نے ٹریفک پولیس ڈیپارٹمنٹ کو ہدایت کی ہے کہ وہ پرائیویٹ ادارو ں کے کسی بھی طالب علم جو کسی پرائیویٹ گاڑی پر لٹک رہا ہو کو اتار کر اس کے کلاس ٹیچر ، سکول پرنسپل اور سکول کے مالک کے خلاف کارروائی کریں۔ اسی طرح کسی سکول کے مقام کے پولیس سٹیشن کا انچارج، متعلقہ سکول انتظامیہ /پرنسپل کے خلاف عدالت کے فیصلے کی خلاف ورزی اور سالانہ فیس اور ٹرانسپورٹ کے سلسلے میں زیادہ رقوم وصولی کے خلاف پرچہ درج کرے گا۔

اس سلسلے میں تمام پرائیویٹ سکولوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں ٹرانسپورٹ سے متعلق طلباء کو مناسب ہدایات اور رہنمائی فراہم کرنے کو یقینی بنائیں۔تمام پرائیویٹ تعلیمی ادارے ، ادارے کی حدود کے اندر کینٹینز سے متعلق خیبر پختونخوا سیف فوڈ اور حلال فوڈ اتھارٹی کے ریگولیشنز پر بھی عمل درآمد کریں گے اور مجاز فوڈ انسپکٹر وغیرہ کی جانب سے ادارے میں خوراک کی اشیاء کا ہر ہفتے معائنہ کیا جائے گاجبکہ طلباء کی باہر سے خوراک کی اشیاء پر مکمل پابندی ہو گی۔اس امر کا اعلان مینجنگ ڈائریکٹر KP-PSRA سید ظفر علی شاہ کی جانب سے کیا گیا۔

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریںTagged , , , , ,
8603

پی کے ون چترال سے سردار احمد خان اے این پی کے امیدوار ہونگے..حیدرہوتی

Posted on

پشاور (چترال ٹائمز رپورٹ) عوامی نیشنل پارٹی کے چیئر مین پارلیمانی بورڈ اور پارٹی کے صوبائی صدر امیر حیدر خان ہوتی نے قومی و صوبائی اسمبلی کے مزید 8حلقوں کیلئے اپنے امیدواروں کا اعلان کر دیا ، پارلیمانی بورڈ کا اجلاس چیئرمین امیر حیدر خان ہوتی کی زیر صدارت باچا خان مرکز میں منعقد ہوا ، جس میں سیکرٹری سردار حسین بابک اور پارلیمانی بورڈ کے ممبران ایمل ولی خان اور خورشید خٹک نے بھی شرکت کی، بورڈ کے فیصلے کے مطابق این اے29پشاور کیلئے عالمگیر خان خلیل کو ٹکٹ جاری کر دیا گیا،این اے12بٹگرام سے مصباح اللہ بابر جبکہ این اے7دیر لوئر سے نذیر احمد گجر امیدوار نامزد کر دیئے گئے، صوبائی اسمبلی کے حلقوں پی کے ون چترال سے سردار احمد خان اے این پی کے امیدوار ہونگے ،پی کے11دیر اپر سے راجہ امیر زمان ، پی کے72پشاور سے اشفاق خان خلیل ،پی کے96ڈی آئی خان سے شیر اللہ وزیر اور پی کے97ڈی آئی خان سے تیمور علی خان کو میدان میں اتارنے کا فیصلہ کر لیا گیا۔پارلیمانی بورڈ کے چیئرمین امیر حیدر خان ہوتی نے پارٹی اور پارٹی کی ذیلی تنظیموں کے تمام عہدیداروں ، کارکنوں ،ادباء اور شعراء کو ہدایت کی ہے کہ وہ آئندہ عام انتخابات کیلئے انتخابی مہم انتہائی مؤثر انداز میں چلائیں اور مدلل و منظم انداز میں تسلسل کے ساتھ پارٹی کا پیغام گھر گھر پہنچائیں ، انہوں نے کہا کہ اس اہم موقع پر سب کو اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کرنے کے ساتھ ساتھ پارٹی امیدواروں کی کامیابی یقینی بنانے کیلئے دن رات کام کرنا ہوگا۔
anp amir haider khan meeting

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریںTagged , , , , ,
8584

داد بیداد ………….ریڈیو کا المیہ…………..ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ

Posted on

تازہ ترین اطلاعات کے مطابق وفاقی حکومت جولائی 2018 ء سے ملک کے سرحدات سے ملحق علاقوں میں قائم 14ریڈیو سٹیشنوں کو بند کررہی ہے ان میں سکردو ، گلگت ، چترال ، ڈی آئی خان ، تربت وغیرہ کے براڈ کاسٹنگ ہاؤ س شامل ہیں یہ منصوبہ 2015ء سے بتدریج روبہ عمل آرہا ہے ریڈیو پاکستان کے انجینئرنگ کا شعبہ 2015ء میں بند کر دیا گیاٹرانسمیٹروں کی تبدیلی ، نئے اے ایم ٹرانسمیٹروں کی تنصیب ختم کردی گئی اور فیصلہ کیا گیاکہ جس ریڈیو سٹیشن کا ٹرانسمیٹر خراب ہوگااس کو بند کردیا جائے گا 2016ء میں ایک قدم آگے بڑھ کر ریکارڈنگ کا شعبہ بند کر کے صرف خبروں کی او بی ( OB ) تک محدود کر دیا گیامیوزک ، ڈرامہ اور دیگر پروگراموں کی ریکارڈنگ کا سلسلہ ختم ہوا جنوری 2018ء میں پروگرام کا شعبہ بند کردیا گیا یہ وہ شعبہ تھا جس میں سعادت حسن منٹو ، احمد ندیم قاسمی ، اشفاق احمد، ممتاز مفتی، حفیظ جالندھری ،فارغ نجاری اور ہزاروں دیگر ادیبوں ، براڈ کاسٹروں کو متعارف کرایا ریڈیو پاکستان کے زوال کا سبب یہ ہے کہ ریڈیوپروزیر اعظم کی تصویر نہیں آتی وفاقی حکومت ریڈیو کیلئے مختص فنڈ پرائیوٹ ٹیلی وژن پروگرام اور اینکر پرسن خریدنے پر لگارہی ہے 3کروڑ روپے میں مہینے کا پرائیوٹ پروگرام خریدا جاتا ہے50لاکھ روپے پر اینکر پرسن آتا ہے ریڈیو پاکستان کو بچانے کیلئے بیوروکریسی نے جودلائل دیئے وہ سب رد کردئیے گئے ہیں پہلی دلیل یہ تھی کہ ریڈیو پاکستان اب بھی ملک کے اندر 70فیصد آبادی کا ذریعہ ابلاغ ہے شہروں سے لیکر دیہات تک لوگوں کی اکثریت ریڈیو پرانحصار کرتی ہے دوسری دلیل یہ تھی کہ سرحد پار افغانستان اور بھارت میں بھی ریڈیو سُنا جاتا ہے تیسری دلیل یہ تھی کہ ریڈیو پاکستان کا نام ملک کے اندر اور پڑوسی ممالک میں پاکستان کی بقا اور سلامتی کی علامت ہے 1948ء اور 1965ء کی جنگوں میں ریڈیو پاکستان نے قوم کی ترجمانی کی 1971ء میں بھارت نے مکتی باہنی کو ریڈیو پاکستان کے مقابلے میں ایف ایم ٹرانسمیٹرمہیا کئے جو جنگلوں اورکشتیوں میں چھپائے جاتے تھے اور دشمن کے اعلانات نشر کرتے تھے کارگل کی لڑائی میں دشمن کے ایف ایم چینل پکڑے گئے ریڈیو پاکستان کے گلگت اور سکردو سٹیشنوں نے مثبت کردار ادا کیا سوات کے اندر 2007ء کی بغاوت میں بھارت نے ایف ایم ریڈیو سے کام لیا یہ ایف ایم ٹرانسمیٹر موٹر سائیکل میں نصب تھا جو کبھی مام ڈھیری ، کبھی خوازہ خیلہ ، کبھی شموزی، کبھی چکدرہ پہنچتا تھا ایک ٹرانسمیٹر پکڑا جاتا تو دوسرا ٹرانسمیٹرنمودار ہوتا تھا سوات کی بغاوت میں قیدیوں اور زخمیوں کے ہندو ہونے کی بھی ڈاکٹری تصدیق ہوئی ریڈیو نشریات کی اہمیت کو سوات کے باغیوں نے بار بار منظر عام پر لایا اس وقت افغانستان میں 27ممالک کی خفیہ ایجنسیاں پاکستان کے خلاف پراپیگنڈہ کررہی ہیں بھارت کے 12قونصل خانے اس کام میں مصروف ہیں آل انڈیا ریڈیو، وائس آف امریکہ ، ریڈیو کابل اور 43ایم ایف چینل پاکستان کے خلاف پروپیگنڈہ مہم چلا رہے ہیں پاک فوج کے خلاف پروپیگنڈہ مہم چلارہے ہیں ان کا مقابلہ کر نے کے لئے ریڈیو پاکستان کو طاقتور اے ایم اور ایف ایم ٹرانسمیٹروں کی ضرورت ہے موجودہ ریڈیو سٹیشنوں کی تعداد میں اضافے کی ضرورت ہے نئے میوزک ریکارڈنگز کی ضرورت ہے پروگراموں کے شعبے کو مزید فعال اور منظم کرنے کی ضرورت ہے سرکاری حکام نے ایک اور دلیل یہ بھی دی تھی کہ ریڈیوپاکستان کا نام بھار ت اور دوسرے دشمنوں کو پسند نہیں وہ ریڈیو پاکستان سے خوف زدہ ہیں اسلئے ریڈیو پاکستان کو کمزور کرنے کے پیچھے دشمن کی سازش نظر آتی ہے مگر سیاسی قیادت نے کسی دلیل کے بغیر حکم صادر کیا ہے کہ اعلیٰ سطح پر ریڈیو پاکستان کے شعبہ پروگرام کو ختم کرنے اور 14ریڈیو سٹیشنوں کو بند کرنے کا فیصلہ ہوا ہے محب وطن حلقوں کے سامنے تین آپشن ہیں قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اندر اس فیصلے کے خلاف آواز اُٹھانی چاہیئے ، عدالت سے رجوع کرکے حکم امتناعی حاصل کر نا چاہیئے چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ سے درد مندانہ اپیل کرنی چاہیئے کہ ریاست کے مفاد میں ، سرحدی صورت حال کی حساسیت اور ملک کے اندر دہشت گردی کے خطرات سے نمٹنے کی نزاکت کو سامنے رکھ کر وفاقی حکومت سے کہا جائے کہ ریڈیو پاکستان مسلح افواج کا ہراول دستہ ہے کشمیر اور سیالکوٹ سے لے کر قصور اور کھوکھرا پار تک شکیل احمد کی آواز اب بھی لوگوں کو یا د ہے چمن سے طورخم تک عبد اللہ جان مغموم المعروف مرچکئے ، شاپسند خان اور اور پائندہ خان کے پروگرام اب بھی لوگوں کے ذہنوں میں تازہ ہیں وفاقی حکومت ریڈیو پاکستان کی آواز کو کمزور یا ختم کرنے سے باز رہے وفاقی حکومت کے پاس ریڈیو پاکستان کا شعبہ پروگرام ختم کرنے ، انجینئرنگ کے شعبے کو محدود کرنے اور 14ریڈیو سٹیشنوں کو بند کرنے کیلئے کوئی دلیل نہیں صرف ایک بات کہی جارہی ہے کہ اوپر سے حکم آیا ہے اور اس کا علاج COASکی فوری مداخلت ہے.
ورنہ ریڈیو پاکستان کا المیہ پوری قوم کا المیہ بن جائے گا

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , , , , ,
8567

سرکاری سکولوں‌میں داخلہ مہم شروع، انرولمنٹ کمپین ڈے کےموقع پر اگہی واک اورتقریب

چترال ( محکم الدین ) ڈی ای او چترال احسان الحق نے کہا ہے ۔ کہ ہمیں چترال میں کوالٹی ایجوکیشن کیلئے ہر وہ کوشش کرنی چاہیے ۔ جو ہم سے ہو سکتا ہے ۔ ہمیں چاہیے کہ دوسروں کو مورد الزام ٹھہرانے کی بجائے خو داچھے نتائج دینے کی کوشش کریں ۔ تعلیم کا مقصد علم حاصل کرنا ہے ،اس کا مقصد روزگار حاصل کرنا ہر گز نہیں ہے ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے منگل کے روزانرولمنٹ کمپین ڈے کے موقع پر گورنمنٹ سنٹینیل ماڈل ہائی سکول چترال میں ایک بڑی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ۔ جس میں محکمہ تعلیم کے جملہ آفیسران ، ڈپٹی دائریکٹر این سی ایچ ڈی محمدافضل سکولوں کے اساتذہ اور طلباء کی بہت بڑی تعداد موجود تھی ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ علم کی افادیت مسلمہ ہے ۔ کیونکہ اللہ کے نبی پر اترنے والی وحی کی پہلی آیت اقراء سے شروع ہوتی ہے ۔اسلام میں مذہبی اور عصری علوم دونوں کی اہمیت ہے ۔ اس لئے آج کی تقریب اُن بچوں کو تعلیم کے دائرے میں لانے کی کوشش ہے ۔ جو کسی وجہ سے محروم رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ جن قوموں نے تعلیم پر توجہ دی ۔ آج وہ پوری دنیا پر حکمرانی کر رہے ہیں ۔ ڈی ای او نے کہا ۔ کہ موجودہ حکومت تعلیم پر بڑے پیمانے پر فنڈ خرچ کر رہی ہے ۔ اور حصول تعلیم میں بہت آسانیاں پیدا کر دی ہیں ۔ اس لئے بچوں اور اُن کے والدین کوعلم کیلئے دیے گئے ان سہولیات سے فائدہ لینے کی ضرورت ہے ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ چترال کے تین طلبہ نے صوبے میں نمایاں پوزیشن حاصل کی ہے ۔ جو کہ چترالی طلبہ کی صلاحیتوں اور اساتذہ کی محنت کی عکاسی کرتے ہیں ۔ ڈپٹی ڈائریکٹر این سی ایچ ڈی محمد افضل نے کہا ۔ کہ چترال میں تعلیم کا معیار اگرچہ پہلے سے بہتر ہے تاہم اب بھی مسائل موجود ہیں ۔ جنہیں حل کرنے کیلئے باہم مل جل کر اقدامات کی اشد ضرورت ہے ۔ ڈپٹی ڈی ای او حافظ نوراللہ نے کہا ، کہ سرکاری سکولوں میں اعلی ، باصلاحیت اور تجربہ کار اساتذہ طلبہ کو تعلیم دیتے ہیں ۔ جبکہ سکولوں کی عمارتوں کا معیار بھی پرائیویٹ سکولوں سے بہت بہتر ہے ۔ اس لئے طلبہ کو فوائد حاصل کرنا چاہیے ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ 15فروری کو دروش ، 16کو بونی اور 19اپریل کو گرم چشمہ میں انرولمنٹ کمپین واک ہو گا ۔ تقریب سے پرنسپل سینٹنیل ماڈل ہائی سکول نے خطاب کرتے ہوئے کہا ۔ کہ انرولمنٹ زیادہ ہوگی تو بے روزگاری کا خاتمہ ہوگا ۔ جبکہ ہیڈ ماسٹر جی ایم ایس جغور منیر احمد نے کہا ۔ کہ پرائیویٹ سکولوں میں اخلاقی تربیت کی شدید کمی ہے ۔ اور سرکاری سکولوں میں پرائیویٹ سکولوں کی نسبت معیاری تعلیم دی جاتی ہے ۔ قبل ازین ڈی ای او، ڈپٹی ڈائریکٹر این سی ایچ ڈی، پرنسپل کمال الدین ، صدرآل ٹیچر ایسوسی ایشن اورمحکمہ ایجوکیشن کے ذمہ داروں کی قیادت میں داخلہ مہم کے حوالے سے ایک واک چترال پولوگراؤنڈ سے سینٹنیل ماڈل سکول تک کیا گیا ۔ جس میں مختلف سکولوں کے اساتذہ اور طلبہ نے شرکت کی ۔

chitral school enrolment campaign awarness walk held in Chiral picSaif ur Rehman Aziz

school enrollment campaign chitral 2

school enrollment campaign chitral 1

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریںTagged , , , , ,
8554

سرمایہ داری نظام کے اجارہ دار مغربی بلاک کی صف بندی…….. پیامبر……. قادر خان یوسف زئی

Posted on

کروڑوں مسلمانوں سمیت اربوں انسانوں کیخلاف پوری دنیا میں مالیاتی آمریت کی اجارہ داری کیلئے یوروپی یہودی اسرائیل نے مسلمانوں اور دیگر غریب ممالک کو اپنی غلامی اور محتاجی کے چنگل میں پھنسانے اور بین الاقوامی مذموم عزائم کو تقویت دینے کیلئے ایک مربوط اور منظم سازش کے تحت منصوبہ بندی کی ہوئی ہے جس پر متواتر عمل درآمد جاری ہے۔ “انٹرنیشنل کانفرنس برائے گولڈ دینار مالیات جوکوالالمپور کے پُڑا ٹریڈ سینٹر میں مورخہ24 اور25جولائی 2007ء کو منعقد ہوئی تھی ۔ کانفرنس میں ملائیشا کے سابق وزیر اعظم تُن ڈاکٹر مہاتیر محمد نے مالیات کے حوالے سے انتہائی پُر مغز تقریر کی تھی۔جس میں مرکزی خیال یہ تھا کہ” سونے کے دینار کے سکے واپس لائے جائیں اور اس کاغذی مالیاتی نظام کو تبدیل کردیا جائے جو امریکی ڈالر کے پُر فریب تانے بانے سے بندھا ہوا ہے تاکہ مسلمان اپنے آپ کو اس معاشی اور مالیاتی جال سے نکال سکیں”۔یہ نظام خصوصی طور پر ان لوگوں کو نشانہ بناتا ہے جو یہودی و نصاری گٹھ جوڑ کے آگے رکاؤٹ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں ، عنقریب یہ نظام اپنے ارتقائی منازل کو طے کرتے ہوئے اس مقام تک جا پہنچے گا جہاں موجودہ رائج کاغذی نوٹ کا نظام ہے۔برطانیہ اور اس کے حلیف اتحادی ممالک کی جانب سے سخت ردعمل کے جواب میں روس کی جانب سے بھی اپنے ملک سے سفارت کاروں کی بیدخلی کے اقدامات کو بھیعالمی سیاسی منظر نامے پر نظر رکھنے والے موجودہ صورتحال کو ایک نئے تناظر میں دیکھ رہے ہیں ۔ خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ روس کے خلاف یہ اقدامات دراصل چین کے ساتھ بڑھتی قربت اور ان کے نئے عالمی معاشی کردار کے خلاف کسی متفقہ منصوبہ کا حصہ ہے۔ چین نے تقریباََ40کے قریب ممالک سے ’ کرنسی سواپ‘ نامی معاہدہ کیا ہوا ہے ، پاکستان نے بھی2012 میں اس معاہدے پر دستخط کئے تھے۔ اس معاہدے کا اصل مقصد یہ تھا کہ ڈالر کے بجائے یو آن میں باہمی تجارت کی جائے گی۔اس وقت روس اور چین ’ یو آن ‘ تجارت کرتے ہیں ۔ آئی ایم ایف نے برطانوی پاؤنڈ ، جاپانی ین ، امریکی ڈالر اور یورو کے ساتھ ساتھ چینی کرنسی کو بھی انٹرنیشنل ریزرو کرنسی میں شامل کیا ہوا ہے۔ چین اور روس دونوں ممالک مل کر تیزی کے ساتھ عالمی تجارتی منڈی پر اپنا اثر رسوخ قائم کرنے کے لئے ڈالر کے مقابل اُسی ملک کی کرنسی کے تبادلے کی اہمیت پر زور دے رہے ہیں ۔ جس کا مطلب واضح ہے کہ اس طرح ڈالر کی مانگ اور اہمیت میں کمی واقع ہوجائے گی ۔ اور یہی عمل اگر چینی معاہدے کے مطابق دیگر40کے قریب ممالک نے مکمل طور پر اختیار کرلیا تو مستقبل میں ڈالر کی اجارہ داری ختم ہونے کا یقینی امکان موجود ہے۔ لازمی امر ہے کہ جس طرح ڈالر تجارتی خسارے میں آئے گا اسی طرح پاؤنڈ اور یورو بھی زد میں آئیں گے اس طرح سرمایہ دارانہ نظام کے حامی مغربی بلاک کو معاشی جنگ میں روس اور چین کے عسکری و دفاعی بلاک بننے کے سبب شدید نوعیت کا نقصان پہنچ سکتا ہے ۔ واضح رہے کہ پاکستانی اسٹیٹ بنک جنوری2018 میں باقاعدہ اجازت دے چکا ہے کہ سرکاری اور نجی طور پر برآمدات ، درآمدات ، سرمایہ کاری اور دو طرفہ تجارت کے لئے چینی کرنسی یو آن استعمال کی جاسکتی ہے۔روس اور چین کے درمیان 2014میں روبل اور یو آن میں تجارتی لین دین کا تبادلہ ہونے کا معاہدہ کیا گیا تھا اس و قت روس اور چین کے درمیان 80ارب ڈالر سے زیادہ تجارت ہوا کرتی تھی۔جو اَب کئی گنا بڑھ چکی ہے ۔ دونوں ممالک کے درمیان ایک کھرب ڈالرز سے زیادہ تجارت بڑھانے پر اتفاق ہواتھا ۔اسی طرح ترکی ، ایران ، ملایشیا ء اور کئی دیگر ممالک بھی مختلف اوقات میں اپنی کرنسی میں ڈالرز کے متبادل تجارتی پالیسی لانے کا کھلا اظہار کرچکے ہیں۔

اپریل1933ء کے ایک واقعے سے یہود ونصاری کے گٹھ جوڑ کی بین الاقوامی سازش سمجھنے میں آسانی ہوگی کہ اس مالیاتی نظام کے تحت دولت کی قانونی چوری کس طرح کی جاتی ہے۔امریکی حکومت نے ایک قانون لاگو کیا تھاجس کے تحت امریکی شہریوں کیلئے سونے کے سکے ، ان کی خام شکل اور سونے کے سرٹیفیکٹ رکھنا جرم قرار دے دیا گیا ، سونے کے سکوں کو لین دین کیلئے استعمال سے روک دیا گیا اور ان کی قانونی حیثیت کو ختم کردیا گیا ، یوں یہ سکے روپے کی طرح خرید وفروخت میں استعمال نہیں ہوسکتے تھے، امریکی حکومت نے یہ حکم بھی جاری کیا کہ ایک خاص وقت تک یہ سکے کسی کے پاس نظرآئے تو اس کو دس ہزار ڈالر کا جرمانہ یا چھ مہینے کی قید کی سزا ہوگی ، ان سکوں اور سرٹیفیکیٹوں کے عوض امریکہ کے فیڈرل ریزرو بنک نے جو ایک غیر سرکاری ادارہ ہے ، کاغذی نوٹ (امریکی ڈالر)جاری کردئیے اور ہر ایک اونس کے عوض 20ڈالر کا نوٹ دیا جانے لگا ، گویا ایک اونس سونے کا نعم البدل کاغذی نوٹ میں تبدیل کردیا گیا ، نتیجہ کے طور پر عوم دوڑ پڑی ، قید اور جرمانہ سے بچنے کیلئے اپنے سونے کے سکوں کے عوض ڈالے کے نوٹ تبدیل کروانے لگی ، مگر جو لوگ سمجھ بوجھ رکھتے تھے انھوں نے سونے کو تبدیل کرنے کے بجائے مزید سونا خریدنا شروع کیا ور انہیں سوئس بنکوں میں بھیجتے چلے گئے اور پھر اسی سال برطانیہ نے بھی امریکہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے ملک میں یہی کاروائی کی اور سونے کو تجارتی مقاصد کے استعمال سے روک دیا انہوں نے صرف یہ کیا کہ اپنی کاغذی کرنسی پاؤنڈ اسڑلنگ کو سونے کی ضمانت سے الگ کردیا ، جب امریکہ میں تمام کا تما م سونا کاغذی کرنسی میں تبدیل ہوگیا تو جنوری1934ء میں امریکی حکومت نے اپنی مرضی سے اپنے کاغذی ڈالر کی قیمت میں 41 فیصد کی کمی کردی اور اس کے ساتھ ہی اپنے اس قانون کو جس کے ذریعے سونا رکھنا ممنوع کردیا گیا تھا ، ختم کردیا ، اب امریکی عوام پھر دوڑی کہ اپنے کاغذی نوٹوں کو واپس سونے میں تبدیل کرلے مگر اب ڈالر کی قیمت گرنے کی وجہ سے فی اونس سونے کی قیمت35 ڈالر ہوگئی تھی،اس عمل کے دوران عوام کی41 فیصد لوٹ لی گئی۔ستمبر1931ء میں برطانوی پاؤنڈ کی قیمت 30فیصد گرائی گئی جو 1934ء تک 40فیصد پر پہنچ گئی ، اس کے بعد فرانس نے اپنی فرانک کی قیمت کو 30فیصد گرادیا ، اٹالین لیرا کو 41فیصد اور سوئس فرانک کو 30فیصد تک کم کردیا گیا ، اور تمام یورپی ممالک نے یہ عمل ہر جگہ دوہرایا ، یہاں تک کہ یونان نے اپنی کرنسی کو یک دم59فیصد تک کی کمی کردی ۔ اس پالیسی نے بے روزگاری کو جنم دیا ، پوری دنیا میں تجارت شدید خسارے میں مبتلا ہوگئی ، جس کو اس صدی کی دہائی کا”پستی اور اداسی کا دور” کہا گیا ۔

یہود و نصاری نے ان متفقہ چالوں سے کاغذی نوٹوں کی بنیاد پر ایک عالمی مالیاتی نظام”بریٹن ووڈزمعائدہ “کرلیا جس میں سونے اور ڈالر کے درمیان ایک رابطہ پیدا کرلیا ، جو بظاہر ٹھیک تھا کہ اب کاغذی نوٹ بغیر کسی زر ضمانت کے چھاپے جاسکتے تھے مگر اس کا کاروباری دنیا میں حقیقی طور پر کسی قیمت کا ہونے سے کوئی تعلق نہیں رہا ، لیکن اس معائدے نے1944ء میں آئی ایم ایف کے انعقاد کا راستہ ہموار کردیا ،جس کامقصد خصوصی طور پر اس بے ضمانت کاغذی کرنسی کے نظام کو عالمی مالیاتی نظام پر لاگو کئے رکھنا تھا لیکن1971ء میں یہ سازش بے نقاب ہوئی اور امریکہ اس عالمی معائدہ کی اس شق سے منحرف ہوگیا کہ امریکی ڈالر کو سونے کی ضمانت حاصل ہوگی ۔اس وقت بھی اسلامی دنیا کے معاشی ماہرین خواب غفلت میں ہیں کہ اسلام کے تجارتی نظام ، جس میں اجناس کے بدل میں اجناس اور سونے چاندی کے سکوں کی بنا ء پر کسی یہود و نصاری کی اجارہ داری نہیں تھی ،یکسر تبدیل کرکے اب اس نظام کو الیکڑونک روپیہ کے نظام میں تبدیل کرکے دنیا بھر کے سرمایہ کو یہودی اپنے تصرف میں رکھ کر مسلمانوں اور غریب ممالک پر سرمایہ دارانہ نظام کی ہولناک حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں۔سودی نظام کے شکار ، پاکستان جیسے غریب ممالک ، ان کے غلام بن کر ان کی منصوبہ سازیوں میں شریک ہونے پر مجبور ہوتے ہیں۔الیکڑونک روپیہ عام ہونے سے غریب انسان کی گردن میں سرمایہ داری کی غلامی کا طوق زندگی بھر کیلئے ڈال دیا جائے گا۔

برطانیہ و اتحادی ممالک کی جانب سے روس کے آڑ میں چین کو عالمی معاشی مارکیٹ میں داخلے سے روکنا امریکا اور حلیف ممالک کی اولّین ترجیح بن چکا ہے۔ امریکا واحد سپر پاور بننے کے زعم میں اپنے اتحادی ممالک کے ساتھ ملکر پوری دنیا میں قدرتی وسائل سے مالا مال ممالک میں خانہ جنگی کرا چکا ہے ۔ ان ممالک کے قدرتی وسائل کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہا ہے ۔ ان حالات میں چین و روس ہی ایسی دنیاوی طاقتیں ہیں جو امریکا اور اس کے حلیف ممالک کو لگام دے سکتے ہیں۔روس بھی جوابی وار میں اُن ممالک کو بیدخل کررہا ہے جن ممالک نے روسی سفارتکاروں کو ملک بدر کیا ۔ لیکن مغربی بلاک کے اس عمل سے ایک مرتبہ پھر سرد جنگ شروع ہوچکی ہے۔جس کا اختتام اب کسی افغانستان کی جنگ پر نہیں بلکہ بہت بڑی تباہی کے بعد ہی منتج ہوسکے گا۔دیکھنا یہ ہے کہ چین و روس اپنے بلاک میں شامل ہونے والے نئے اتحادیوں کے ساتھ ماضی کے مقابلے میں کتنا توازن رکھتا ہے۔ اگر روس و چین کا جھکاؤ صرف اپنے ملک کے مفادات تک محدود رہتا ہے تو روس کو ماضی کی طرح ایک بار پھر ہزہمیت کا سامنا ہوسکتا ہے۔

تاہم روس کے معاشی حوالے سے کمزور معیشت کا تمام تر دارومدار چین کے عظیم معاشی منصوبے پر ہے ۔ 2014ء میں 160 ارب اور 2015ء میں 180 ارب ڈالر روس سے باہر منتقل کیے گئے تھے۔ بجٹ کاخسارہ 95 ارب ڈالر سے تجاوز اور روسی کرنسی روبل کی قیمت 2014ء کی نسبت 90 فیصد کرچکی تھی۔ روس کی وزارتِ لیبر کے مطابق 2014ء میں 1,58,000 ملازمتیں ختم کی گئیں جبکہ 2015ء کے صرف پہلے دو ماہ میں 1,27,000 ملازمتوں کو ختم کیا گیا۔ روس کی 83 میں سے 63 علاقائی حکومتیں دیوالیے کا شکار اور صوبائی اورمرکزی حکومتوں کا قرضہ 300 ارب ڈالر سے تجاوز کرچکا ہے۔جب کہ چین کی معیشت مسلسل مضبوط ہو رہی ہے ۔ چین کو دنیا کی دوسری بڑی معیشت قرار دیا جارہا ہے ۔ چین نے 2016ء میں 6.7فیصد کے حساب سے ترقی کی ہے۔قومی ادارہ برائے اعدادوشمار کے سربراہ کا کہنا ہے کہ چین کی سالانہ معاشی پیداوار 11ٹریلین امریکی ڈالر تک پہنچ چکی ہے جو کہ جی ڈی پی میں ایک فیصد اضافے کے برابر ہے، چینی جی ڈی پی میں ترقی ایک عدد سے ڈبل ڈیجیٹ تک پہنچ چکی ہے، اس کے لئے ملک نے خاصی محنت کی ہے، سرمایہ کاری پرانحصار کم کیا ہے،برآمدات اور کھپت میں اضافہ کیا گیا ہے، سٹیٹ کونسل کے ڈویلپمنٹ ریسرچ سینٹر کے ایک ریسرچر زینگ لی کن کا کہنا ہے کہ اعدادوشمار حقیقی جانچ پڑتال کے بعد حقیقی صورتحال واضح کردیتے ہیں اور چینی معاشی مبصرین کو بھی اس صورتحال کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔قومی ادارہ اعدادوشمار کے سربراہننگ جز ہی کا کہنا ہے کہ چینی معیشت نئے نارمل سٹیج ذمہ دارانہ پیداوار اور بہتر معاشی ڈھانچے میں میں داخل ہو چکی ہے۔چین کو نئی اکنامک ورلڈ پاور کے طور پر دیکھا جارہا ہے ۔ گزشتہ دنوں امریکا میں امریکی صدر ٹرمپ نے چین کی معاشی پالیسیوں کے خلاف لائحہ عمل پر مبنی ایک صدارتی یاد داشت پر دستخط کئے تھے ۔ اپنے صدارتی خطاب میں صدر ٹرمپ چین کی تجارتی پالیسیوں کو غیر منصفانہ تجارت قرار دیا ۔ صدر ٹرمپ نے امریکا کی صورتحال واضح کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے ملک میں 60ہزار کارخانے بند اور کم ازکم 60لاکھ نوکریاں ختم ہوچکی ہیں ، امریکا کو 504ارب ڈالر کا تجارتی خسارے کا سامنا ہے۔امریکی صدر اس خسارے کو قابو پانے میں بے بسی کا واضح اظہار کرتے ہیں۔امریکی صدر چین کے ساتھ ہزاروں ارب ڈالر پر میحط انٹلیکچوئل پراپرٹی چوری کے مسائل پر مذاکرات کررہے ہیں۔امریکا چین پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ تجارتی خسارہ100ارب ڈالرز تک لیکر آئے۔ لیکن چین کے عدم تعاون پر امریکا نے 60ارب ڈالرز کی اشیا پر ٹیکس عائد کردیئے ہیں ۔امریکی صدر کی جانب سے ان اقدامات کو چین نے تجارتی جنگ قرار دیا ہے۔

سفیر لائٹزر نے سیکشن 301 کے قانون کے حوالے سے امریکی صدر کی صدارتی یاداشت کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے بتایا کہ ” یہ قانون صدر کو مخصوص حالات میں ہمارے تجارتی شراکت داروں کے غیرمنصفانہ اقدامات، پالیسیوں یا افعال درست کرنے کے لیے ٹھوس طاقت اور اختیار دیتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس معاملے میں ٹیکنالوجی پر بات ہو رہی ہے۔ ٹیکنالوجی غالباً ہماری معیشت کا سب سے اہم حصہ ہے۔ ہمارے ہاں 44 ملین لوگ اعلیٰ ٹیکنالوجی کے شعبے میں کام کرتے ہیں۔ کسی ملک کے پاس ٹیکنالوجی کے حوالے سے ایسی صنعت نہیں ہے۔ ٹیکنالوجی واقعتاً امریکی معاشی مستقبل کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ان مسائل کے ہوتے ہوئے صدر نے‘یوایس ٹی آر’کو ایک جائزہ لینے کے لیے کہا۔ ہم نے ایک جامع جائزہ لیا۔ ہم نے بہت سے لوگوں کی بات سنی۔ ہم نے لاکھوں صفحات پر مشتمل دستاویزات کا تجزیہ کیا۔ ہم نے بہت سے کاروباری لوگوں سے بات کی۔ جیسا کہ میں نے کہا ہمارے پاس شہادت موجود تھی۔ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ درحقیقت چین نے ٹیکنالوجی کی بزور قوت منتقلی، معاشی قدر سے سے کمتر درجے پر لائسنس کے حصول، ریاستی سرمایہ داری، جس کے تحت وہ امریکہ میں غیرمعاشی انداز میں ٹیکنالوجی خریدتے ہیں اور پھر آن لائن چوری کی پالیسی بنا رکھی ہے۔نتیجتاً صدر نے اس کا تجزیہ کیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ ہمیں ضروری اشیا پر ٹیرف عائد کرنا ہو گا۔ یہ ہم بعد میں واضح کریں گے کہ ہم نے ان اشیا کا تعین کیسے کیا۔ اس حوالے سے ہمارے پاس 200 صفحات پر مشتمل جائزہ ہے جسے ہم شائع کریں گے۔ ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ ہم اعلیٰ ٹیکنالوجی کے حوالے سے چین کے ساتھ سرمایہ کارانہ پابندیاں عائد کریں گے اور ڈبلیو ٹی او میں اس حوالے سے کیس دائر کیا جائے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس حوالے سے ایک اقدام سے ڈبلیو ٹی او کی خلاف ورزی ہوتی ہے”۔

امریکی صدر کی جانب سے چین کی تجارتی پالیسیوں کے خلاف باقاعدہ مہم اور امریکا سمیت مغربی بلاک کی جانب سے چین کو اکنامک سپر پاور بننے سے روکنے کے لئے سب سے پہلے ضروری تھا کہ روس کو محدود رکھا جائے ۔ گو کہ چین اس وقت دنیا میں سب سے بڑی فوجی طاقت کا درجہ رکھتی ہے لیکن چین ، براہ راست جنگی پالیسی اختیار کرکے اپنے مقاصد سے دور نہیں ہونا چاہتا ۔ اس لئے چین اپنے عظیم معاشی منصوبے کے تحت عمل پیرا ہے ۔چین کے نزدیک اس کے مفادات جنگ سے زیادہ اہم ہیں ، روس چین کا اہم پارٹنر ہے ۔ روس اس وقت دنیا کے مختلف حصوں میں اپنی فوجی طاقت کا اظہار عملی شکل میں کررہا ہے ۔ جس سے مغربی بلاک ، خاص کر برطانیہ اور امریکا کو سخت تشویش ہے۔ روس جس طرح عالمی معاملات میں امریکی عزائم کے خلاف اپنا ویٹو پاور استعمال کرتا ہے ۔ اس سے امریکی و اتحادی پریشان نظر آتا ہے ۔امریکا اگر افغانستان میں روس و چین کے بڑھتے کردار کو روکنے میں کامیاب نہیں ہوسکا تو پھر ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ پوری دنیا کو اپنے احاطے میں لے سکتا ہے۔ چین کے پاس سستی افرادی قوت اور دنیا میں مہنگی مصنوعات کے مقابلے میں ارزاں اشیاء کی فراہمی سے امریکا ، برطانیہ اور مغربی ممالک کی معیشت کو زبردست جھٹکا لگے گا ۔ جس طرح امریکی صدر نے صدارتی یاد داشت پر دستخط کرتے ہوئے امریکا میں بے روزگاری اور بند کارخانوں کے اعداد و شمار بیان کئے اور ان کی کابینہ کے رکن نے چین کے بڑھتے رسوخ پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے چین پر پابندیوں لگانے کا عندیہ دیا اس سے ظاہر ہورہا ہے کہ سرد جنگ کا نہ رکنے والا سلسلہ مزید بڑھے گا ۔ روس ، چین کے معاشی مفادات کا اسٹریجک اتحادی ہے اور چین کے عظیم معاشی منصوبے کا اہم سہرا پاکستان سے جڑا ہے اس لئے امریکا اپنی خارجہ پالیسیوں میں پاکستان کو افغانستان کی جنگ میں الجھا کر چین کا راستہ افغانستان میں روکنا چاہتا ہے۔ روس ، کی دفاعی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے چین مالی امداد میں کسی بھی حد تک جا سکتا ہے جبکہ اس کے سامنے ڈالر کی اجارہ داری بھی حائل نہ ہو اس صورتحال میں مغربی بلاک کی قبل از وقت پیش بندیاں عالمی امن کو خطرات سے دوچار کرنے کی منصوبہ بندی لگتی ہیں۔ عالمی تجارتی جنگ کا آغاز تشویش ناک ہے جس کے نتائج سے دنیا غیر روایتی جنگ میں بھی بدل سکتی ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , , , , ,
8487

قندوز افغانستان میں مدرسے پر امریکی حملے کے خلاف جماعت اسلامی کے زیر اہتمام احتجاجی ریلی

چترال (نمائندہ چترال ٹائمز) قندوز افغانستان میں مدرسے پر امریکی حملہ اور سو سے زائد حفاظ بچوں کی شہادت پر جماعت اسلامی ضلع چترال نے ایک احتجاجی ریلی نکالی جوکہ چیو پل سے شروع ہوکر پولو گراونڈ پر احتتام پذیر ہوئی جس کی قیادت ضلع ناظم مغفرت شاہ، امیر ضلع مولانا جمشید احمد، ضلعی جنرل سیکرٹری فضل ربی جان اور دوسروں نے کی۔ریلی کے شرکاء نے امریکہ کے خلاف زبردست نعرہ بازی کی جبکہ ریلی کے احتتام پر مقرریں نے کہاکہ دنیا کو امن کا سبق دینے والی امریکہ نے خود دہشت گردی کی ایک بدتریں مثال قائم کردی جوکہ اس کی تاریخ میں ایک سیاہ باب کا اضافہ ہے۔
jamat islami jalsa chiral2

jamat islami jalsa chiral23

Posted in تازہ ترین, چترال خبریںTagged , , , , ,
8485

صدا بصحرا ……….. ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات………..ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ

Posted on

قندوز، ڈمہ ڈولہ ، آرمی پبلک سکول پشاور ، مناواں پولیس ٹریننگ سکول لاہور اور سلالہ کے شہداء کی طرح دیگر 1485 مقامات پر گذشتہ 40سالوں کے دوران ہمارے شہداء نے جس طرح اپنے خون کا نذرانہ دیا ہے اس کی مثال تاریخ میں اس صورت میں کبھی بھی نہیں ملے گی کہ مرنیوالا بھی مسلمان اور مارنے والا بھی مسلمان ہی ہو۔ واشنگٹن ، تل ابیب اور نئی دہلی کا اس پر کامل اتفاق ہے کہ مسلمانوں کے اوپر حملوں کا یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہنا چاہیئے۔ 5 دنوں کے اخبارات ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کی خبروں کا جائزہ لیا جائے تو نہایت ڈراؤنی تصویر سامنے آتی ہے امریکی حکومت کہتی ہے کہ اگرچہ صدر ٹرمپ نے شام سے امریکی فوجوں کو واپس بلانے کا اصولی فیصلہ کر لیا ہے تاہم امریکہ اس کام میں جلد بازی ہر گز نہیں کرے گا۔انقرہ میں روسی صدر ولادی میر پیوٹن کے ساتھ سہ فریقی مذاکرات کے بعد ترک صدر رجب طیب اردگان اور ایرانی صدر روحانی نے اصولی طور پر بیان دیا ہے کہ ہم شام کی آزادی اور خود مختاری کا دفاع کرنے کا عزم پر قائم رہیں گے۔ واشنگٹن کے اہم سرکاری دورے سے واپسی پر سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان بن عبد العزیز نے ریاض میں پہلے جوا خانے کا افتتاح کیا اور پہلے سینما گھر کے افتتاح کے لئے 18 اپریل کی تاریخ مقرر کی ۔اپنے پالیسی بیان میں سعودی عرب کے مستقبل کے حکمران نے کہا کہ اسرائیل کا دشمن ہمارا بھی دشمن ہے ۔ گویا فلسطینی حریت پسندوں کو دشمن قرار دیا گیا۔ اور اُن کے تمام ہمدردوں کو دشمن قرار دیا گیا۔ ان میں ایران، پاکستان ، شام ، یمن ، ترکی اور وہ تمام ممالک آگئے جو فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں ۔ روس اور چین کا شمار بھی فلسطینی مسلمانوں کی حمایت کرنے والوں میں ہوتا ہے مرزا غالب نے کہا ؂
حیران ہوں کہ رؤں دل کو یا پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں
قندوز کے واقعے کی جو تفصیلات سامنے آگئی ہیں ان میں یہ بات ثبوتوں کے ساتھ لکھی گئی ہے کہ قندوز کے مدرسے پر حملہ کرنے والا جہاز افغان فوج کے زیر استعمال تھا اور اس کا پائلٹ بھی افغانی تھا۔ بمباری کا حکم دینے والے بھی افغانی تھے۔ نیز نقشے میں جو مقام دیا گیا تھا وہ مدرسہ ہی تھا ۔ اور اجتماع کی جو رپورٹ دی گئی تھی وہ بھی دستار بندی کے حوالے سے تھی۔ یعنی حملہ غلط اطلاعات کی بناء پر نہیں ہوا۔ غلط فہمی کے نتیجے میں نہیں ہوا۔ جان بوجھ کر پورے اطمینان قلب کے ساتھ افغانی مسلمانوں نے اللہ کا نام لیکر حفاظ اور علماء پر بمباری کر کے مسجد اور مدرسہ کو خون میں نہلا دیا اس میں امریکہ کا قصور بس اتنا ہے کہ اُس نے افغانیوں پر اعتماد کیا۔ عالم اسلام پر حسب معمول خاموشی چھائی ہے۔ پاکستان میں حسب معمول خاموشی ہے۔ سوشل میڈیا میں یہ بات زیر بحث نہیں کہ افغان فوج نے مدرسے پر حملہ کر کے بے گناہ حفاظ کو کیوں شہید کیا؟ بلکہ زیر بحث بات یہ ہے کہ واقعے کی مذمت میں کون آگے ہے ؟ کو ن پیچھے ہے اور کون لاپتہ ہے؟ گویا سانپ گذر گیا ہم لکیر پیٹنے کا شُغل فرمارہے ہیں ۔ اور پورے خلوص کے ساتھ لکیر پیٹ رہے ہیں ۔ سوشل میڈیا پر ایک سادہ لوح مسلمان نے سوال اُٹھایا ہے کہ علمائے کرام نے 1978 ء میں سویت یونین کے خلاف جہاد کو فرض قرار دیا تھا۔ قندوز مدرسے پر تازہ ترین حملے کے بعد امریکی حکومت ، امریکی فوج اور افغانستان کی امریکی انتظامیہ کے خلاف جہاد کو فرض کیوں قرار نہیں دیا جاتا ؟ میرے سادہ لوح مسلمان بھائی کو اس بات کی خبر نہیں کہ جہاد فرض ہے۔ جہاد فرض رہے گا۔ تاہم فتویٰ دینے کے لئے کسی محرک کا سامنے آنا ضروری ہے۔ 1978 ء میں نارکو ڈالر آیا۔ دولت کے انبار دکھائے گئے ۔ وسائل ، گاڑیاں ، بینک بیلنس لاکر ہمارے قدموں میں ڈال دیئے گئے ۔ یہ امریکہ، برطانیہ ، جرمنی ، فرانس اور سعودی عرب کی سخاوت تھی ۔ ان کی فیاضی تھی جس کی وجہ سے ہر دو ماہ بعد او آئی سی کے اجلاس ہوتے تھے ۔ جن میں سویت یونین کی مذمت کرکے مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب دی جاتی تھی۔ امریکہ اور سعودی عرب کی جنگی پالیسی کو سراہا جاتا تھا۔ شام پر امریکی حملوں کے خلاف او آئی سی کا ایک بھی اجلاس نہیں ہوا۔ کیونکہ او آئی سی کا کنٹرول امریکہ اور سعودی عرب کے پاس ہے ۔ شام کی خود مختاری ، یمن کی آزاد پالیسی ، ایران اور پاکستان کی ترقی ، فلسطینیوں کی حمایت ، افغانستان میں امن کا قیام ۔ مسلمان ملکوں سے قابض امریکی فوجوں کا انخلا جیسے موضوعات او آئی سی کے ایجنڈے مین جگہ نہیں پاسکتے ۔ غلام قومیں غلام ہوتی ہیں۔ وہ روس اور چین کی طرح آزاد پالیسی نہیں بناسکتیں ۔ روس اور چین سے ہمیں ایک ہی گلہ ہے یہ آزاد ممالک ہمارے صبر کا امتحان کیوں لیتی ہیں ؟ ڈالروں کی بارش بر ساکر امریکہ کے خلاف جہاد کا فتویٰ حاصل کیوں نہیں کرتے ؟ ہمیں جرمِ ضعیفی کی سزا کیوں دیتے ہیں؟ بقول علامہ اقبال ؒ ؂
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , , , , ,
8481

دروش ٹی ایم اے آفس کا بدست فوزیہ افتتاح، جنرل نشست کیلئے فوزیہ کو ٹکٹ دیا جائے۔۔عوام دروش

دروش( جہانزیب سے) پاکستان تحریک انصاف کے ایم پی اے اور پارلیمانی سیکریٹری برائے سیاحت بی بی فوزیہ نے دروش میں ٹی ایم اے آفس کا گزشتہ دن باقاعدہ افتتاح کر دیا ۔ایم پی اے بی بی فوزیہ نے کہا ہے کہ پی ٹی ائی حکومت میں میرٹ پر ریکارڈ ترقیاتی کام ہوئے۔ جس کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں پی ٹی ائی کی مقبولیت روز بروز بڑھ رہی ہے۔چترال دروش میں میگا پراجیکٹ لاوی ہائیڈو پاؤر پرجیکٹ ،جنجریت کوہ روڈ دروش میں متعدد سکولوں کی اپگریڈیشن ، دروش کو تحصیل کا درجہ اور ٹی ایم اے آفس کا ترجیہی بنیاد پر قیام، ٹی ایچ کیو ہسپتال دروش کی اپگریڈیشن جیسے بڑے بڑے پراجیکٹ شامل ہیں۔

ٹی ایم آفس کا دروش میں قیام کے بعد تحصیل دروش میں صفائی نظام کے ساتھ ساتھ عوام کے دوسرے ضروری کاموں میں بھی آسانی ہوگی۔ مختلف لائن ڈیپاڑمنٹ کے دفاتر بھی دروش میں کھولے جائیں گے۔

پی ٹی ائی تحصیل دروش کے صدر سمیع اللہ سمی نے ابتدائی تقریر میں پاکستان تحریک انصاف کے ایم پی اے بی بی فوزیہ اور ضلعی رہنما پی ٹی ائی رضیت با اللہ کی کارکردگی پر روشنی ڈالتے ہوئے انھیں خراج تحسین پیش کیا۔ شیشی کوہ سے زو الفقار نے علاقے کے پسماندگی اور علاقے میں حل طلب کاموں کو ایم پی اے کی نوٹس میں لایا جس میں لاوی ہائیڈو پاؤر پراجیکٹ میں مقامی لوگوں کی بھرتی کیساتھ ساتھ دوسرے اہم ایشو پر ایم پی اے بی بی فوزیہ کو اگاہ کیا گیا۔

اس کے بعد مختلف سیاسی پارٹیز سے تعلق رکھنے والے مقرریں قار ی جمال عبد الناصر،ممبر تحصیل کونسل شیرنذیر،صلاح الدین طوفانؔ ، ممبر تحصیل کونسل قاضی قسور اللہ قریشی ،سابق ڈسٹرکٹ چیرمین الحاج خورشید علی خان، سابق ناظم حیدر عباس، و سی فورم دروش صدر عمران الملک،تجار یونین صدحاجی ر شاد محمد،ڈرائیور یونین کے جنرل سیکٹری فاروق علی شاہ وغیرہ نے بھی پاکستان تحریک انصاف ، وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا ، ایم پی اے فوزیہ اوررضیت با اللہ کے کاوشوں کو خراج تحسین پیش کیے گئے۔اس موقع پر مقررین نے بی بی فوزیہ کے کارکردگی کو مد نظررکھتے والے پی ٹی ائی چیرمین عمران سے جنرل نشست کیلے بی بی فوزیہ کو ٹکٹ دینے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔

آخر میں ایم پی اے بی بی فوزنہ نے ائی ایس ایف دروش صدر انجینئر اظہار دستگیر اور جنرل سیکرٹری ڈاکٹر جواد کی موجودگی میں ائی ایس ایف ممبر شپ مہم کا بھی باقاعدہ افتتاح کیا۔ جبکہ اس موقع پر یونین کونسل شیشی کوہ کے عمائدین کے ایک بڑے وفد سے ملاقات میں ان کے مسائل حل کرنے کی یقین دہانی بھی کی اور ساتھ ساتھ تحصیل دروش ناظمین فورم عمران الملک کے قیادت میں بی بی فوزیہ سے ملاقات کی۔
bibi fouzia drosh tma office iftitah 1

Posted in تازہ ترین, چترال خبریںTagged , , , , , ,
8474

وزیر اعلیٰ کی طرف سے اپر ضلع کا اعلان، چترالیوں‌کے پاوں‌پر کلہاڑی مار دی..مولانا چترالی

Posted on

پشاور (چترال ٹائمز رپورٹ)پی ٹی آئی کے صوبائی وزیر اعلیٰ نے چترال اور چترالیوں کے پاؤں پر کلہاڑی مار دی ہے پولو گراؤنڈ چترال میں وزیر اعلیٰ کا اعلان چترال کو دو اضلاع میں تقسیم کر دیا چند دنوں میں نوٹیفیکیشن جاری کر کے بھیج دوں گا نہ ماننے والوں کے منہ پر دے ماریں لیکن افسوس ہے کہ ڈیڑھ ماہ بعد الیکشن کمیشن کے اجلاس میں نئے اضلاع پر پابندی کے بعد وزیر اعلیٰ کو یا د آیا اور آخر کار 28 دسمبر 2017 ؁ ء کیبینیٹ کے اجلاس میں چترالیوں کو لالی پاپ دینے کی ناکام کو شش کی گئی یو ں چترال اور چترالی ایک صوبائی سیٹ سے محروم ہوگئے جو خالصتًا وزیر اعلیٰ کی نااہلی اور صوبائی حکومت کا ہوم ورک نہ کر کے چترال کو نا قابل تلافی نقصان پہنچا ان خیا لا ت کا اظہار جماعت اسلامی اور متحدہ مجلس عمل کے نامزد امید وار برائے قومی اسمبلی اور سابق ایم این اے مولانا عبد الاکبر چترالی نے الیکشن کمیشن کے فیصلہ پر اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کیا انہوں نے کہا کہ چترال سے منتخب عوامی نمائندے بالخصوص رکن قومی اسمبلی مردم شماری کے دوران اور مردم شماری کے نتائج آنے کے بعد بھی کوئی کردار ادا نہ کر سکے انہوں نے کہا کہ 2018 ؁ء کے عام انتخابات میں چترالی عوام پی ٹی آئی کو سبق سکھائے گی اور وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کو یاد دلائے گی کہ جھوٹے وعدوں کے کیا نتائج نکلتے ہیں انہوں نے کہا کہ موجودہ پی ٹی آئی حکومت نے چترال اور چترالیوں کے ساتھ سوتیلی ماں کا سلوک روا رکھا ہو ا ہے ۔

Posted in تازہ ترین, چترال خبریںTagged , , , , , ,
8469

چترال میں ماہانہ پولیو مہم کا آغاز، چار دن تک جاری رہے گا ، ڈپٹی کمشنر نے قطرے پلاکر مہم کا افتتاح کیا

Posted on

چترال (نمائندہ چترال ٹائمز) چترال میں ماہانہ پولیو مہم 9اپریل سے شروع ہوکر چار دن تک جاری رہے گا جس کے دوران ضلع کے طول وعرض میں رہائش پذیر 70ہزار سے پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کو پولیو کے قطرے پلوائے جائیں گے جس کے لئے 505ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں جبکہ نگرانی کے لئے 117ایریا انچار ج اور 26یوسی مانیٹرنگ افیسروں کے ساتھ ساتھ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی طرف سے 70مانیٹرز بھی نگرانی کریں گے۔ مہم کا باقاعدہ آعاز باضابطہ آعاز اتوار کے روز ڈی سی چترال ارشاد سودھر نے اپنے دفتر میں متعدد بچوں کو پولیو کے خلاف قطرے پلاکر کیا جس میں ڈسٹرکٹ ہیلتھ افیسر ڈاکٹر اسرار اللہ ، ایڈیشنل ڈی سی مہناس الدین، ڈی او فنانس محمد حیات شاہ، ڈبلیو ایچ او کے پولیوایریڈیکیش افیسر ڈاکٹر کمال بھی موجود تھے۔ اس موقع پر ای پی آئی کے ڈسٹرکٹ کوارڈینیٹر ڈاکٹر فیاض رومی نے کہا کہ چترال کا افغانستان کے صوبہ کنڑ سے مشترکہ سرحد ہونے کی وجہ سے یہاں وائرس کا خطرہ موجود ہے ۔ انہوں نے کہاکہ چترال کا ضلع 1995ء سے پولیو فری ہے اور اس جان لیوا وائرس سے نمٹنے کے لئے غیر معمولی محنت اور فل پروف انتظامات کی ضرورت ہوتی ہے اور اس علاقے کی وسعت کی وجہ سے مشکلات کے باوجود یہ کام بطریق احسن انجام دیا جارہا ہے۔
polio campaign chitral

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, مضامینTagged , , , , , ,
8465

چترال کے معروف ادیب و شاعر، گُل مراد خان حسرت کے افسانوں کا مجموعہ “چیلیکیو چھاغ “کی تقریب رونمائی

چترال ( محکم الدین ) چترال کے معروف ادیب و شاعر،ماہر تعلیم ،محقق اور کہنہ مشق قلمکار گُل مراد خان حسرت کے افسانوں کا مجموعہ “چیلیکیو چھاغ “کی تقریب رونمائی انجمن ترقی کھوار چترال کے زیر اہتمام ضلع کونسل ہال چترال میں اتوار کے روز منعقدہوئی ۔ اس پُر وقار تقریب کے مہمان خصوصی پروفیسر شفیق احمد جبکہ صدر محفل کے فرائض ممتاز ادیب و شاعر امین الرحمن چغتائی تھے ۔ چترال کے نا مور علمی وادبی شخصیت پروفیسر اسرارالدین ، مسلم لیگ ن کے رہنما اور شاعر زار عجم خان اعز ازی مہمان کی حیثیت سے تقریب میں شرکت کی ۔ تقریب کی نظامت پروفیسر ظہورالحق دانش نے کی ۔ جبکہ صدر انجمن ترقی کھوار شہزادہ تنویرالملک نے شرکاء کا شکریہ ادا کیا ۔ کتاب پر اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے فرید احمد رضا ، ظہورالحق دانش ، عنایت اللہ اسیر ، پروفیسر ممتاز حسین ، محمد یوسف شہزاد ،ایم آئی خان سرحدی ایڈوکیٹ نے کہا ۔ کہ گُل مراد خان حسرت کی یہ کتاب کھوار افسانوں کا پہلا مجموعہ ہے ۔ اور اس میں جو افسانے پیش کئے گئے ہیں ۔ وہ چترال کے معاشرے کی بھر پور عکاسی کرتے ہیں ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ کھوار شاعری چترال میں اپنے عروج کو پہنچ چکاہے ۔ اور شعراء کے کلام کسی بھی زبان کے اعلی مقام کے حامل شعراء کے کلام سے کم نہیں ۔ لیکن افسانہ نگاری کی طرف چترال کے اُدباء نے بہت کم توجہ دی ۔ اسلئے اس کتاب کو افسانوں کی پہلی کتاب ہونے کا اعزازحاصل ہے ۔ انہوں گل مراد حسرت کی اس شاندار کاؤش کی تعریف کرتے ہوئے اسے چترال میں افسانہ نویسی کی طرف ایک اہم قدم قرار دیا ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ افسانوں میں اصلاحی پہلو نمایاں ہیں ، اور نہایت سادہ اور اعلی الفاظ کا چناؤ کیا گیا ہے ۔ جو کہ قاری کو اپنی طرف مسلسل متوجہ رکھنے کا سبب بن رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ ادب برائے ادب کی بجائے ادب برائے زندگی ہونی چاہیے ۔ جس میں خامیوں کی نشاندہی برائے معاشرتی اصلاح کے ہو نہ کہ برائے تنقید ۔ پروفیسر اسرار الدین نے اپنے خطاب میں کہا ۔ کہ چترال کی مٹی میں ایک کشش پایا جاتا ہے ۔ جو یہاں آتا ہے ۔ اسی کا ہوکے رہ جاتا ہے ۔ حالانکہ چترال سے بہت خوبصورت علاقے موجود ہیں ۔ لیکن چترال اپنے اندر مختلف النوع مناظر رکھنے اور مختلف کلچر میں رنگین ہونے کی وجہ سے سیاحوں اور ملکی و بیرونی اہل علم دانش کو بہت پسند ہے ۔ انہوں نے انجمن ترقی کھوار کے کردار کی تعریف کی ۔ کہ وہ اپنے محدود وسائل کے باوجود مختلف کتابیں شائع کرنے میں مدد دے کر زبان و ادب کی ترویج میں اہم کردار ادا کر رہا ہے ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ انجمن کو مالی طور پر مستحکم کرنے کیلئے ضروری ہے ۔ کہ جو کتابیں چھپ جائیں ۔ ممبران اُن کی خریداری کریں ۔ تقریب میں چترال کے پہلے ناول ‘انگریستانو”کے مصنف ظفر اللہ پرواز کی کوششوں کو سراہا گیا ۔ اور اس ناول کو چترال کی ادبی تاریخ کا قیمتی سرمایہ قرار دیا گیا ۔ انہوں نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا ۔ کہ غذر کے کھوار بولنے والے بھائیوں نے بھی چترال کے حروف تہجی کو ہی اپنانے کا فیصلہ کیا ہے ۔ انہوں نے غذر کے ایک شاعر کا مجموعہ انجمن ترقی کھوار کے زیر ادارت شائع کرنے اور چترال کے ممتاز ادیب محمد عرفان عرفان کی کتاب “چترال کے لوک گیت “پر بھی خوشی کا اظہار کیا ۔ ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی نے اپنے خطاب میں کہا ۔ کہ پاکستان کے تمام لکھاری اپنے افسانوں کی وجہ سے مشہور ہوئے۔ اور انہوں نے اپنے قلم کے ذریعے معاشرتی ناہمواریوں کو اُجاگر کیا ۔ گُل مراد حسرت نے اپنے چند افسانوں کو اکھٹا کرکے قابل تعریف کام کیا ۔ تاہم مزید کام کی ضرورت ہے ۔ مہمان خصوصی پروفیسر شفیق احمد اور صدر محفل امین الرحمن چغتائی نے اپنے خطاب میں چیلیکیو چھاغ کو ایک کامیاب کاوش قرار دیا ۔ اور کہا ، کہ ادب کے بہت سے شخصیات اپنے افسانوں کی بنا پر زندہ ہیں ، جن میں پطرس بخاری ، قدرت اللہ شہاب جیسے نامور ادیب شامل ہیں ۔ انہوں نے انجمن ترقی کھوار کے دامن کو وسیع کرنے اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو زبان و ادب کے حلقے میں شامل کرنے ضرورت پر زور دیا ۔ تاہم انجمن کے صدر شہزادہ تنویرالملک کی کوششوں کو سراہا گیا ۔ صدر انجمن نے تقریب میں شرکت پر تمام کا شکریہ ادا کیا ۔ اور انجمن کی کوششوں پر روشنی ڈالی ۔ تقریب کے دوران انصار الہی نے نعت شریف پیش کی ۔ جبکہ افضل اللہ افضل ، فدالرحمن فدا نے نظم اور محمد اسلم شیروانی نے اشور جان پیش کرکے داد وصول کی ۔
صاحب کتاب گل مراد حسرت نے چیلیکیو چھاغ کی رونمائی کیلئے شاندار تقریب منعقد کرنے پر صدر انجمن اور دیگر عہدہ داروں کی تعریف کی . اور تمام شرکاء کا شکریہ ادا کیا.

afsana gul murad hasrat chitral 11

afsana gul murad hasrat chitral 3

afsana gul murad hasrat chitral 2 afsana gul murad hasrat chitral 4 afsana gul murad hasrat chitral 5 afsana gul murad hasrat chitral 6

afsana gul murad hasrat chitral 1

afsana gul murad hasrat chitral 2
afsana gul murad hasrat chitral 7

afsana gul murad hasrat chitral 8

afsana gul murad hasrat chitral 9

afsana gul murad hasrat chitral 13

Posted in تازہ ترین, چترال خبریںTagged , , , , , ,
8448

شہید اسامہ وڑائچ کیرئیر اکیڈمی کے خلاف خفیہ گروپ سرگرم،نوٹس لیا جائیے..فداالرحمن

Posted on

چترال (چترال ٹائمز رپورٹ ) شہید اسامہ وڑائچ کیرئیر اکیڈمی چترال کے خلاف ایک خفیہ گروپ سرگرم ہو چکا ہے – رات کو آکر اکیڈمی کے اشتہارات پھاڑ دیتے ہیں اور اکیڈمی کے بینرز اٹھا کر لے جاتے ہیں – شہید اسامہ وڑائچ کیرئیر اکیڈمی چترالی قوم کو معیاری تعلیم دینے اور مختلف کیرئیرز کے حوالے سے آگاہی پروگرامات کرا رہا ہے – دو سال کے قلیل عرصے میں اکیڈمی کے سٹوڈنٹس ملک کے مختلف بڑے تعلیمی اداروں میں داخلہ لینے میں کامیاب ہو چکے ہیں – جن میں آغا خان میڈیکل کالج، یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی پشاور، کیڈٹ کالجز شامل ہیں –

یاد رہے کہ یہ اکیڈمی ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن کی زیر نگرانی کام کر رہا ہے – شہید اسامہ وڑائچ کیرئیر اکیڈمی کے کوآرڈینیٹر فدا الرحمن پشاور سے چترال ٹائمز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اکیڈمی اپنا عظیم مشن جاری رکھے گا -ہمارا مقصد چترال میں معیاری تعلیم مہیا کرنا اور چترالی طالب علموں کو مختلف کیرئیرز کے حوالے سے آگاہی فراہم کرنا اور انکی رہنمائی کرنا ہے -اسامہ وڑائچ کیرئیر اکیڈمی بہت ہی کم عرصے میں ترقی کے منازل طے کر رہا ہے – مخالفین کا اصل مقصد چترالی قوم کو آج کے جدید دور میں پیچھے ہی رکھنا ہے – اکیڈمی کی کامیابی ان کو ہضم نہیں ہو رہی ہے – کافی عرصہ سے یہ گروپ سرگرم ہے -کوآرڈینیٹر فدا الرحمن نے ڈپٹی کمشنر چترال اور ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر چترال سے اس گروپ کے خلاف کاروائی کرنے اور قرار واقعی سزا دینے کا مطالبہ کیا ہے –

Posted in تازہ ترین, چترال خبریںTagged , , , , , ,
8445

آج بھی ہو ابراہیم کا ایماں پیدا…………….. محمد شریف شکیب

Posted on

ایک بین الاقوامی جائزے کے مطابق پاکستانی قوم ایمانداری، دیانت داری اورامانت داری کے اعتبار سے 200ممالک میں 160ویں نمبر پر ہے۔ اگرچہ یہ بہت دکھ کی بات ہے کہ ایمانداری میں 159ممالک ہم سے آگے ہیں لیکن خوشی کی بات یہ ہے کہ 40ممالک ہم سے بھی گئے گذرے ہیں۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ہزاروں مدرسے ہیں۔جہاں قرآن و حدیث کی تعلیم دی جاتی ہے۔ سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بھی دین اور اسلام کی باتیں کی جاتی ہیں۔ہزاروں علماء دین کی تشریح کرتے پھیر رہے ہیں۔ ہمارے ہاں سالانہ تبلیغی اجتماع ہوتا ہے جس میں پچاس لاکھ سے زیادہ لوگ شرکت کرتے ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں تبلیغی جماعتیں تشکیل دی جاتی ہیں جو سال بھر ملک کے کونے کونے میں جاکر دین کی باتیں کرتے ہیں اور لوگوں کو دعوت دیتے ہیں۔ لاکھوں لوگ ہر سال حج بیت اللہ اور عمرہ کی سعادت حاصل کرنے حجاز مقدس جاتے ہیں۔ ربیع الاول کا مہینہ شروع ہوتے ہی ملک بھر میں محافل میلاد کا انعقاد شروع ہوتا ہے ۔ لاکھوں لوگ ان اجتماعات میں شرکت کرتے ہیں۔ تمام عبادت گاہوں میں رمضان المبارک اور ربیع الاول کے علاوہ دیگر مہینوں میں بھی درس اور حفظ قرآن کی محافل و مجالس ہوتی ہیں۔ محرم الحرام میں لاکھوں افرادشہدائے کربلا کی یاد میں عزاداری کرتے ہیں۔ عید اور جمعہ کے اجتماعات میں کروڑوں افراد شرکت کرتے ہیں ان میں بھی خدا اور رسول کی باتیں کی جاتی ہیں۔لاکھوں افراد راتوں کو اٹھ کر تہجد پڑھتے ہیں۔ کروڑوں لوگ درود و سلام کی محافل میں شرکت کرتے ہیں۔ اس کے باوجود ہمارا شمار بے ایمان، دروغ گو، بدعنوان اور بری اقوام میں ہوتا ہے۔اگر ان عبادات ، ذکر و اذکارکے باوجود ہم ایماندار نہیں بنتے تو ان عبادات کا فائدہ؟ظاہر ہے کہ ہم دین کا نام لے کر خود کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ اللہ کو دھوکہ نہیں دے سکتے کیونکہ وہ ہماری شہ رگ سے بھی قریب ہے ۔ وہ ہمارے دلوں کا حال جانتا ہے۔ مذہبی فرائض اور عبادات کے مقاصد بھی اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائے ہیں۔ قرآن کہتا ہے کہ بے شک نماز بے حیائی اور منکرات سے روکتی ہے۔اگرپابندی سے نماز پڑھنے کے باوجود ہم بے حیائی سے باز نہیں آتے ۔ تو اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ہم نماز پڑھنے کی پریکٹس تو کرتے ہیں ۔اس کا حق ادا نہیں کرتے۔ روزے کے بارے میں واضح طور پر قرآن کریم میں مذکور ہے کہ تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے کی امتوں پر فرض کئے گئے تھے۔تاکہ تم پرہیز گار بنو۔ جو انسان روزہ رکھنے کے باوجود پرہیزگار نہیں بنتا۔ جھوٹ بولتا ہے۔ مغلظات بکتا ہے۔ کسی کا حق مارتا ہے۔ ظلم سے باز نہیں آتا۔ اپنے گھر والوں، پڑوسیوں اور دیگر متعلقہ لوگوں کے ساتھ حسن سلوک نہیں کرتا۔ تو روزے کے نام پر دن بھر بھوکا پیاسا رہ کر خود کو سزا دیتا ہے۔ قربانی کا ذکر قرآن میں واضح ہے کہ تمہاری قربانی کا گوشت یا خون اللہ تعالیٰ تک نہیں پہنچتا۔ بلکہ تمہارا خلوص، نیک نیتی، ایثار کا جذبہ اور قرب الی اللہ کی خواہش اللہ تک پہنچتی ہے۔ اگر قربانی کا مطلب بہت سے جانور خرید کر اپنی دولت کا رعب جمانا ہے۔ اور قربانی کا گوشت فریج اور ڈیپ فریزروں میں بھر کر دعوتیں اڑانا ہے تو وہ انسان اللہ کو نہیں بلکہ خود کو دھوکہ دیتا ہے۔ ہم اپنے گریبان میں جھانک کر تھوڑی دیر کے لئے سوچیں کہ ہم خدا اور اس کے رسول کی کتنی فرمانبرداری کرتے ہیں۔ اسلام کی تعلیمات پر کس حد تک عمل کرتے ہیں۔اللہ کی نعمتوں کا کتنا شکر بجالاتے ہیں۔ جن کاموں سے اللہ اور اس کے رسول نے منع کیا۔ ان سے خود کو کتنا دور رکھتے ہیں اور جن کاموں کی تلقین کی گئی ان کی بجاآوری پر کتنی توجہ دیتے ہیں۔اور منافق کی جو تین نشانیاں بتائی گئی ہیں کہ بات کرے تو جھوٹ بولے، وعدے کرے تو اسے توڑ دے اور جب امانت اس کے پاس رکھی جاتے تو اس میں خیانت کرے۔ان میں سے کتنی نشانیاں ہم میں موجود ہیں۔ تو ہمیں اپنے بارے میں فیصلہ کرنے میں زیادہ دشواری نہیں ہوگی کہ ہم کتنے اچھے مسلمان ہیں۔جب یہ طے ہوا کہ ہم اچھے مسلمان نہیں ہیں۔ تو پھر یہ کیسے توقع کرسکتے ہیں کہ ہم پر منصف اور صالح لوگ حکومت کریں گے۔ ہم کیسے توقع کرسکتے ہیں کہ ہماری دعائیں قبول ہوں گی اور ہم پر رحمتوں کی بارش ہوگی اور فرشتے ہماری مدد کو آئیں گے۔علامہ اقبال نے بھی ہمیں یہی سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ ’’ آج بھی ہو جو ابراہیم کا ایمان پیدا۔۔ آگ کر سکتی ہے انداز گلستان پیدا۔پہلے ہمیں اپنی ذات کو منکرات سے پاک کرنا ہے۔ ہر شہری اپنی اصلاح کرے گا۔ تو محلے، شہر، صوبے اور پھر ملک کی سطح پر اصلاح ہوگی۔ دنیا والے اسلام کو سلامتی کا مذہب اور مسلمانوں کو صالح قوم تسلیم کریں گے۔اور ایمانداری میں ہم دیگر اقوام سے آگے نکل سکتے ہیں۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , , , , ,
8443

پشاور بورڈ : تمام طلبا و طالبات اپنے سرٹیفیکٹس چترال کیمپ آفس سے فوری وصول کریں ۔۔آمین اللہ

Posted on

چترال ( نمائندہ چترال ٹائمز ) بورڈ آف انٹر میڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن پشاور کے چترال کیمپ آفس کے انچارچ آمین اللہ نے چترال کے عوام الناس کو اطلاع دیتے ہوئے کہا ہے کہ یگولر اسٹوڈنٹس سال 2015سے میٹرک اور ایف اے ، ایف ایس سی کے اورجنل اسناد بورڈ آفس سے فوری وصول کریں ۔ چترال ٹائمز سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے تمام سرکاری و نیم سرکاری سکولوں کے پرنسپلز ، ہیڈ ماسٹرز اور طلبا و طالبات کو سرٹیفکیٹس کے وصولی کی تاکید کرتے ہوئے کہا کہ ان کے دفتر میں پڑے پڑے طلباء طالبات کے قیمتی سرٹیفیکٹس خراب ہونے کا خدشہ ہے ۔ انھوں نے بتایا کہ پرائیویٹ طلبا و طالبات کے 1995سے 2017سیشن تک اور ریگولر طلباو طالبات کے 2015سے اب تک کے اورجنل سرٹیفکیٹس بورڈ آفس پہنچ چکے ہیں۔ لہذا فوری طور پر ان کی وصولی کو یقینی بنایا جائے۔ ایک سوال کے جواب میں انھوں نے بتایا کہ ان سرٹیفکیٹ کیلئے کوئی اضافی فیس وصول نہیں کیا جائیگا۔ انھوں نے مذید بتایا کہ کیمپ آفس کی طرف سے پہلے بھی کئی دفعہ اشتہار ات اور بینرز کے زریعے طلباو طالبات اور ان کے والدین کو اطلاع دئیے جاچکے ہیں.

chitral BISE camp office 5
chitral BISE camp office 53
chitral BISE camp office 2

chitral BISE camp office 1

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریںTagged , , , , ,
8430

سیاست میں ہم کہاں آگئے………….ولی اللہ چترالی

Posted on

سنا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں سیاسی بحث ومباحثے کا رواج صرف الیکشن کے دنوں تک محدود ہوتا ہے، اس سےہٹ کر نمائندے اپنا فرض منصبی انجام دیتے ہیں اورعوام اپنے منتخب نمائندوں سے ان کے وضع کردہ منشور کے مطابق اپنا حق طلب کرتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے ان کے ہاں باتوں سے زیادہ کام کا رواج ہے لیکن ہمارے ہاں معاملہ الٹا ہے۔ الیکشن کے زمانے میں سیاسی بحث و مباحثے ہوتے ہی ہیں اور ہونے بھی چاہئیں لیکن اس کے علاوہ بھی سارا سارا سال سیاست اور گالم گلوچ ایک دوسرے پر بلا جواز تنقید کا سلسلہ تواتر سے جاری رہتا ہے اور پھر یہ رجحان صرف لیڈروں کے مابین ہو تو کسی حد تک سمجھ میں آنے والی بات ہے کیونکہ ان کے درمیان مقابلے کی فضا ہوتی ہے لیکن غضب یہ ہے کہ عام کارکنان جن کا کام صرف ووٹ دینا ہے کے مابین بھی جنگ و جدال کا ماحول گرم رہتا ہے۔ خصوصا سوشل میڈیا کے عام ہونے کے بعد لفظوں کی یہ فضول گولہ باری صبح سے رات گئے تک مختلف محاذوں میں اخلاقی حدود کو پار کرتی نظر آتی ہے حالانکہ ان میں سے اکثر کی حیثیت چاہے وہ جس پارٹی میں بھی ہوں مجھ جیسے ایک روڈ چھاپ کارکن کے سوا کچھ نہیں ہوتی۔ جن کا واحد مصرف صرف جلسہ اور جلوس کی رونقیں بڑھانا ہے۔ اس ساری لفظی جنگ میں جو موضوع زیر بحث نہیں آتا وہ عوام کی فلاح و بہود ہے۔ حالانکہ یہ ساری لڑائی عوام کے نام پہ ہی لڑی جاتی ہے۔

یہ تلخ حقیقت ہمیں پلے باندھنی چاہئے کہ چاہے آپ کا تعلق جس پارٹی سے بھی ہو اگر کل کلان وہ پارٹی بر سر اقتدار آتی ہے تو سب سے پہلے لیڈر، اس کے بچے، عزیز و اقارب، پھر چمچے نوازے جائیں گے اور آپ کو ماسوائے اس جھوٹی خوشی کے کہ میری پارٹی کی حکومت ہے یا کسی وزیر یا ایم این اے کے ساتھ تصویر بنوانے کے اور کچھ بھی ہاتھ نہیں آئے گا۔

کل کی ہی بات ہے یہی میاں نواز شریف صاحب پارلیمنٹ اور اپنے ایم این ایز اور وزیروں تک کو ٹائم دینے کے لئے تیار نہ تھے اور آج جب برے وقت نے لپیٹ میں لے لیا تو آئے دن کارکنوں کے درمیان دکھائی دے رہے ہیں اور پارلیمنٹ کا تقدس بھی انہیں شدت سے یاد آرہا ہے۔

باقی سیاسی رہنمائوں کا حال بھی اس سے مختلف نہیں۔ عمران خان صاحب کل تک زرداری کو ڈاکو کہتے رہے، پھر ڈپٹی چئیرمین سینیٹ کے لئے انہی “ڈاکو” کو ووٹ دے بیٹھے۔ پی ٹی آئی کے میرے بے چارے دوست اس حرام کے وقت بدلنے کے ساتھ حلال ہونے پر یقینا دل میں شرمندہ تو ہوں گے۔۔۔

اب پیپلز پارٹی کو دیکھ لیجئے۔ یہ پچھلے دس سال سے سندھ میں برسر اقتدار ہے۔ یہ اندرون سندھ کے حالات کیا سدھارتے، کراچی کا بھی کباڑا کر دیا اور ہر ہر محکمے میں کرپشن کی داستانیں قائم کیں لیکن انہیں پنجاب کی فکر کھائی جارہی ہے۔حالانکہ جس بھٹو کی یہ جماعت ہے، ان کی سوچ جمہوریت کے ساتھ کمٹمنٹ میں کھلی کتاب ہے، مگر آج انکے سیاسی جانشین غیر جمہوری قوتوں کی خوشنودی میں پنجاب فتح کرنے چلے ہیں اور مقتدر حلقے بھی ان کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہوئے سندھ کے کرپشن کیسز سردخانے منتقلی کا پروگرام بنا چکے ہیں۔

تازہ واقعہ ہے، ہمارے جمعیت کے کچھ ساتھی جماعت اسلامی پر اور جماعت والے کچھ دوست ہم پر بے جا تبرا کرتے نہیں تھکتے تھے لیکن آج متحدہ مجلس عمل کے وجود میں آنے کے بعد وہ ایک جھنڈے تلے ووٹ کے حصول کے لئے جدوجہد کر رہے ہوں گے۔۔۔۔ سو سیاست اپنی جگہ کہ اس کی آنکھ میں حیا نہیں ہوتی لیکن ضمیر کے بوجھ تلے ضرور گھٹن محسوس کر رہے ہوں گے لہذا ندامت اور شرمندگی سے بہتر ہے کہ پہلے ہی الفاظ تول کر بیان کئے جائیں تاکہ کل شرمندگی اور خفت اٹھانا نہ پڑے، لہذا گزارش یہ ہے کہ اپنے موقف کو مہذب انداز میں کھل کر بیان کریں، اگر کسی کو اعتراض ہو تو وہ بھی شائستہ انداز میں اس کا اظہار کریں اور کسی پارٹی سے وابستگی بھی ہے تو ڈنکے کی چوٹ پر اس کا اظہار ہونا چاہئے لیکن اپنے مخالف نظریے والے بھائی اور دوست سے خواہ مخواہ اس حد تک بغض اور مخالفت کا بازار گرم کئے مت رکھیں کہ کل کو یہ لیڈر سیاست اور ملکی مفاد کے نام پر ایک ہی اسٹیج پہ ہاتھوں میں ہاتھ دے کر بیٹھے نظر آئیں تو آپ دوسری پارٹی کے اپنے جیسے کارکن سے جلسہ گاہ کی آخری صف میں بیٹھے ان رہنماوں کی خاطر لڑی جانے والی ماضی کے کسی لڑائی کی وجہ سے آنکھیں چار نہ کر سکیں۔

یہ فضول بحث و مباحثے نوجوانوں میں بکثرت عام ہیں۔ جن کو اس عمر میں اپنے مستقبل کا زاد راہ تیار کرنا ہوتا ہے لیکن وہ اپنے اس کے بجائے بے مقصد بحثوں میں اپنا قیمتی وقت برباد کرتے نظر آتے ہیں اور پھر نہ سوال کا ڈھنگ نہ جواب کا سلیقہ، مخص سنی سنائی باتوں کو لے کر ایک دوسرے کے رہنماؤں پر کیچڑ اچھالنے میں اخلاص کے ساتھ سرگردان نظر آتے ہیں۔

سوال ایشوز پر ہو اور جواب بھی اس زاویے میں آئے تو سننے اور دیکھنے والوں کے علم میں اضافے کا سبب ہوتا ہے۔ یہ کیا بات ہوئی کہ آپ ایک لیڈر کو چور بولیں، دوسرا جواب میں آپ کے لیڈر کو ڈاکو کہہ دے۔ یہ وقت کے ضیاع کے سوا کچھ بھی نہیں۔ یاد رکھئے آپ کو بغیر فیس کی اس وکالت سے سوائے کل اپنا وقت برباد کرنے پہ ندامت اور پشیمانی کے کچھ بھی ہاتھ نہیں آئے گا۔۔۔۔۔۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , , , , ,
8428

قندوزسانحہ……… بھارتی وحشیانہ کاروائی………. پیامبر…….. قادر خان یوسف زئی

Posted on

معصوم بچوں کی مسکراہٹوں اور اُن سے وابستہ امیدیں کو اگر دیکھنا ہو تو اپنے جگر گوشوں کو اپنی نظروں کے سامنے بیٹھاکر اور اس کے فرشتے جیسے معصوم چہرے کو اپنے ہاتھوں میں لیکر اُس کا ماتھا چومیں تو دل میں اٹھنے والے سمندر کی لہروں سے بڑی شفقت و محبت آپ کی روح میں سر تا پیر دوڑ جائیں گی ۔ میں اس وقت اپنے جذبات کو قابو میں رکھنے کی کوشش کررہاہوں ۔ لیکن سانحہ اتنا بڑا ہے کہ میں اسے دوبارہ بیان کرنے کے لئے دلی تکلیف و ذہنی اذیت سے گذر رہا ہوں ۔گزشتہ دنوں افغانستان میں قندوز کے علاقے دشت آرچی پٹھان آباد ‘ میں امریکا و افغان فورسز و بھارتی ہیلی کاپٹروں نے کے ایک مدرسہ ’ ہاشمیہ عمریہ ‘ پرحملہ کیا ۔جہاں طالب علم ختم بخاری شریف کی تقسیم اسناد کی تقریب میں دستار فضیلت باندھے شریک تھے ۔ 150سے زاید معصوم احفاظ قرآن امریکا ،کابل و بھارت گٹھ جوڑ بربریت کا نشانہ بن گئے ۔ دہل دہلانے والی تصاویر اور ویڈیوز نے ہر انسان دوست کی آنکھوں کو اشکبار کردیا ۔ معصوم بچوں کا صرف یہ قصور تھا کہ یہ طالبان ( مدرسے کے طالب علم ) تھے ۔ جارح کے نزدیک ہر وہ شخص طالبان ہوتا ہے جو مدرسے میں تعلیم حاصل کرتا ہے ۔ کیونکہ سوویت یونین کے خلاف اٹھنے والی مزاحمتی تحریک بھی مدارس کے طلبا ( طالبان) نے اٹھائی تھی یہی وجہ ہے کہ امریکا و بھارت او ر مغربی بلاک کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو طالبائنزیشن سے نتھی کردیا جاتا ہے ۔

پاکستان میں بھی امریکی ڈرون حملوں میں کئی مدارس نشانہ بن چکے ہیں۔2007میں خیبر پختونخوا کے علاقے باجوڑ ایجنسی میں ڈماڈولہ کے مقام پر امریکی حملے میں مدرسے کے80طالب علموں کو شہید کردیا گیاتھا۔ 2013میں بھی ہنگو کے ایک مدرسے پر امریکا نے فضائی حملہ کیا ۔ ڈما ڈولہ حملے کا جواز بتایا گیا کہ اس مدرسے میں خود کش حملہ آورو ں کی تربیت کی جا رہی تھی اور یہ مدرسہ خودکش حملہ آوروں کی تربیت گاہ تھا۔ ڈما ڈولہ کے مدرسے میں سینکڑوں خود کش بمباروں کی تیاری کی خبروں پر فرانس سے ڈرون حملوں پر تحقیقات کرنے والی ایک انوسٹی گیشن جرنلسٹ ٹیم پاکستان آئی اور ڈماڈولہ میں مدرسے پر ہونے والے ڈرون حملے کے حوالے سے تحقیقات کا آغاز کیا ۔ ان کے پاس سرکاری اور غیر سرکاری ذرائع سے مہیا کردہ کچھ معلومات تھی ۔ ٹیم کے مطابق(جاں بحق) ایس پی چوہدری اسلم نے انہیں بتایا تھا کہ اس مدرسے میں کراچی سے تعلق رکھنے دو ایسے طالب علم بھی تھے جو اس حملے میں زندہ بچ گئے تھے باقی سب مارے گئے تھے ۔ ان بچوں کا تعلق پختون آبادیوں سے بتایا جارہاتھا۔ غیر ملکی صحافیوں کے ساتھ مختلف اسائمنٹ پر کام کرنے کے تجربے کی بنا پر مجھ سے بھی رابطہ کیا گیا۔ فرنچ صحافیوں نے دو طالب علموں کے نام کے ساتھ مدرسے کا نام بھی بتایا لیکن ان کی معلومات قیاس آرائیوں پر مبنی تھی۔ لیکن میرے لئے یہ انکشاف حیران کن تھا ۔ راقم نے کئی روز کی تحقیق اور چوہدری اسلم سے رابطے و موصولہ معلومات کے بعد بالا آخر ایک بچے کا سراغ لگا لیا ۔پھر اُس بچے کے والد تک پہنچے ، بچے کا والد فٹ بال کوچ تھا۔ جو کراچی کے پوش علاقے میں کوچنگ کیا کرتا تھا ۔ بچے کے والد انٹرویوکے لئے اس شرط پر تیار ہوگئے کہ ان کی شناخت ظاہر نہیں کی جائے گی ۔ ہم نے بھی وعدہ کرلیا ۔کراچی کے پوش علاقے میں بنے بنگلوز کے گیسٹ ہاؤس میں اس بچے سے ملاقات کی اور اس کے والد سے تفصیل سے سوالات پوچھے ۔ ڈرون حملے میں بچ جانے والے بچے نے بتایا کہ اس کے چچا نے والدین کی اجازت کے بغیر اُسے مدرسے میں داخل کرادیا تھا ۔ جہاں حملہ ہوا تو وہ بھی زخمی ہوگیا تھا ۔ زخمی بچے کی نشان دہی پر گرفتار ہوا اس کے خلاف قانونی کاروائی کی گئی اور اسے سزا بھی ملی تھی۔ فرنچ صحافی کے ساتھ راقم مہیا معلومات پر کراچی کے مخصوص مدارس گیا ۔ خاص طور اُن مدارس میں جن پر الزام تھا کہ وہ بچوں کی برین واشنگ کرتے ہیں ۔ ہم کئی بچوں اور ان کے والدین سمیت مدرسے کے اساتذہ سے بھی ملے ، اندرونی و بیرونی کئی مدارس کی تصاویر بھی اجازت و بنا اجازت بھی لیں ، لیکن کسی بھی مدرسے میں ایسے کوئی آثار نظر نہیں آئے کہ ان میں کوئی غیر قانونی طور پر ٹریننگ کیمپ بنا ہوا ہو۔ ساتھی صحافی مایوس تھے کہ انہیں ایسے کوئی شواہد نہیں ملے تاہم ڈرون حملے میں بچ جانے والے طالب علم اور اس کے والد کا انٹرویو ان کے لئے کافی اہم تھا ۔

مدارس سے متعلق پھیلائی جانے متعدد افواہوں میں نہ جانے کتنی صداقت ہو ۔ لیکن دنیا اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ مدارس دنیا کا سب سے بڑا تعلیمی نیٹ ورک ہے جہاں بھاری فیسوں کے بجائے صاحب ثروت افراد کی مالی امداد اور بعض مدارس کو حکومت کی جانب سے مالی اعانت ملنے کے سبب لاکھوں بچے ابتدائی تا مکمل دینی و عصری تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ بلکہ ایسے کئی بیٹھک مدرسے بھی دیکھے جہاں مدراس کے اساتذہ دینی و عصری تعلیم دیتے اور حکومت سے منظور شدہ این جی اوز انہیں معمولی مالی معاوضہ بھی دیا کرتی۔ ایسے مدارس بھی دیکھے جہاں مولوی حضرات این جی اوز سے تنخواہ لیکر طالب علموں کو دینی و عصری تعلیم مفت فراہم کرتے ۔ جس سے ان کے گھریلو مالی حالات میں تبدیلی بھی آئی۔ عموماََایک مدرسے کے مولوی کی ماہانہ تنخواہ چھ سے پانچ ہزار روپے بتائی جاتی ہے۔ مجبوراََ وہ جمعہ و عیدین کی نماز کے بعد اپنے گھریلو اخراجات چلانے کے لئے نمازیوں سے چندہ اکھٹا کرتا ہے ۔ رمضان میں تراویح پڑھا کر آمدنی حاصل کرتا ہے۔ شہری علاقوں میں تو ہمارے پختون علاقوں کی طرح رواج نہیں ہے کہ جہاں امام مسجد کی دنیاوی ضروریات گاؤں کے رہائشی مل جل کر پورے کرتے ہیں۔ مدارس دنیا کی سب سے بڑی این جی او ہے جہاں لاکھوں طلبا و طالبات دن رات ہوسٹل میں رہتے ہیں اور دینی و عصری تعلیم کا حصول و تکمیل بلا معاوضہ پوری کرتے ہیں۔

اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں شدت پسندوں نے حملہ کرکے 16دسمبر کو 150کے قریب معصوم بے گناہ طالب علموں کوشہید کرکے اپنی بربریت کا نشانہ بنایا ۔ اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ شدت پسندوں نے متعدد اسکولوں کو بھی بارود خیز مواد مواد سے تباہ کیا ۔ افغانستان کے ایک ایسے اسکول کے پاس صاف پانی میں زہر ملایا دیا تھا جس میں طالبات زیر تعلیم تھیں ۔ زہر خوارنی کے سبب 150معصوم بچیوں کی حالت خراب ہوئی۔ اب تو افغانستان میں کابل فورسز نے خود ایسے سرکاری اسکولوں پر قبضہ کرکے چوکیاں بن لی ہیں جہاں عصری تعلیم دی جاتی تھی ۔ اب اگر ان مورچوں پر مزاحمت کار حملہ کرتے ہیں تو یہ اب سرکاری اسکول نہیں رہے بلکہ کابل و امریکی افواج کی مسلح چیک پوسٹ وچھاؤنی کی شکل اختیار کر چکی ہیں۔ لیکن ان واقعات کو ایسے عناصرسے جوڑ دینا مناسب نہیں ہے جو حقیقی طور پر اسلام کے امن و سلامتی کے پیامبر ہیں۔ قندوز میں نہتے اور بے گناہ احفاظ القرآن معصوم بچوں پر وحشیانہ بمباری کے لئے یہ جواز تراشنا انتہائی گمراہ کن پروپیگنڈا ہے کہ یہاں امارات اسلامیہ کے آئمہ اکرام بھی موجود تھے۔ قندوز میں امریکا، کابل اور بھارتی ہیلی کاپٹرز کے بے رحمانہ حملے میں تادم تحریر ایک بھی ایسا افغان طالبان رہنما زخمی و جاں بحق نہیں سامنے لایا گیا جو امریکی فوج کے نزدیک دستار فضلیت کی تقریب میں شریک تھا ۔ کابل، بھارت اور امریکی حکومت کی جانب سے اس قسم کی کاروائیوں سے افغانستان میں امن کبھی نہیں آسکتا ۔ کیونکہ ردعمل بھی بڑا سخت دیا جاتا ہے ۔

افغانستان میں عام انتخابات گزشتہ تین برسوں سے التوا کا شکار ہیں ۔ کابل حکومت نے اس برس اکتوبر میں عام انتخابات کرانے کا دوبارہ وعدہ کیا ہے ۔ لیکن قرائن و شواہد اظہر من الشمس ہیں کہ کابل حکومت جانتی ہے کہ ماضی کے دھاندلی کی بدترین تاریخ دہرائے جانے والے انتخابات کا انجام کیا ہوا تھا ۔ قیاس یہی کیا جاتا ہے کہ کابل حکومت افغانستان میں امن قائم ہی نہیں کرنا چاہتی اس لئے ازخودمسلسل ایسے واقعات کرائے جاتے ہیں جس سے دنیا میں پیغام جائے کہ افغانستان میں انتخابات کے لئے ماحول سازگار نہیں ۔ کابل حکومت اپنے اقتدار کو طوالت دینے کے لئے اتحادی افواج کو غلط معلومات دینے سے بھی گریز نہیں کرتی ۔ قندوز سانحہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی معلوم ہوتا ہے۔امریکی صدر نے شام کے حوالے سے اپنی افواج کو شام سے واپس بلانے کا عندیہ ظاہر کیا ہے کہ شام کی مہنگی جنگ امریکی مفاد میں نہیں ہے ۔ لیکن افغانستان میں جنگ ، امریکی کی تاریخ کی مہنگی ترین لاحاصل جنگ ہونے کے باوجود کیونکر جارح ملک میں مفاد میں ہے اس کا جواب امریکی صدر ٹرمپ سمیت ان کے تمام اتحادیوں کے پاس نہیں ۔ معصوم بچوں کو بربریت کا نشانہ بنا کر کیا افغانستان میں امن کی خواہش اور افغان طالبان کو مذاکرات پر لانے کا ڈھونگ اپنے انجام کو پہنچ سکتا ہے۔یقیناََ نہیں ۔ خاص طور پر بھارت کے ہیلی کاپٹرز نے نہتے مسلم حافظ القرآن بچوں پر بربریت میں حصہ لیکر اپنے انتہا پسند سوچ کو مزید پھیلا دیا ہے جو خطے میں امن کے لئے ایک بڑا خطرہ ہے۔یہیں سے واضح ہوجاتا ہے کہ امریکا کیوں چاہتا تھا کہ بھارت افغانستان میں اپنا کردار بڑھائے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , , , , ,
8424

داد بیداد ……… ڈاکٹر محمد نصیر الدین مرحوم ………ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ

Posted on

خبر آئی کہ ڈاکٹر محمد نصیر الدین مدینہ منورہ میں وفات پاگئے اور جنت البقیع ان کی آخری آرام گاہ بنی تو ذہن کی سکرین پر اُن کی قابل رشک زندگی اور قابل رشک موت کے مناظر خیالی تصویر کی صورت میں نمودار ہونے لگے لمبا قد، دبلا پتلا جسم ، چہرے پر سدا بہار مسکراہٹ اور بشاشت ، گفتگو میں متانت اور چال ڈھال میں بے مثال شرافت کا نمونہ تھے سکول کی تعلیم میں میٹرک پاس کرکے دارالعلوم میں داخل ہوئے ، مولانا ایوب جان بنوریؒ کے پسندیدہ شاگر د تھے دارالعلوم سرحد سے شہادۃ العالمیہ کی سند لیکر واپس انگریزی تعلیم کی طرف مائل ہوئے، گریجویشن کے بعد یونیورسٹی میں داخل ہوئے پہلے ایم اے اسلامیات کیا پھر عربی میں ایم اے کیا، اس کے بعدفن حدیث میں تخصص کے ساتھ پی ایچ ڈی کیا خیبر پختونخوا کے ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے معتبر اور بزرگ اساتذہ میں آپ کا شمار ہوتا تھامختلف بورڈوں اور یونیورسٹیوں کے ممتحن تھے ان کی دیانت داری، امانت داری ، صداقت اور راستبازی ضرب المثل کا درجہ رکھنے والی صفات تھیں پروفیسر ڈاکٹر محمد نصیر الدین سابق ریاست کے مردم خیز گاؤں ورکپ تحصیل تورکھو میں 1947ء میں پیدا ہوئے کہا کرتے تھے کہ میری عمر اتنی ہی ہوتی ہے جتنی پاکستان کی عمر ہوتی ہے ان کا کنبہ علمی گھرانوں میں شمار ہوتا تھا ان کے والد الحاج محمد قاضی دارالعلوم دیوبند کے فاضل اور ریاست چترال میں عہدہ قضا پرفائز تھے چترال خاص کے مقام جنگ بازار میں شاہی قبرستان میں مدفون ہیں بڑے بھائی حاجی محمد عرفان الدین نے درس و تدریس میں عمر گذاری چھوٹے بھائی حاجی محمد ظہیر الدین بابر سول سروس میں گئے ’’ہمہ خانہ آفتاب‘‘ والا محاورہ اس گھرانے پر صادق آتا ہے اُن کے پڑدادا مُلا محمد دین خود عالم تھے اور دادا ملاّ برہان الدین بھی عالم دین تھے ڈاکٹر محمد نصیر الدین کی شادی ایون چترال کے ایک علمی گھرانے میں ہوئی آپ کے سسر قاضی صاحب نظام کا شمار چترال کے ممتاز علماء میں ہوتا تھا سیاست میں بھی ان کا بلند مقام تھا پاکستان کے ساتھ سابق ریاست چترال کے الحاق اور انضمام کی تحریک میں انہوں نے مولانا نور شاہدینؒ کے شانہ بشانہ کام کیا ان کی بذلہ سنجی، ادب دوستی ، ادب نوازی اور حاضر جوابی کے لطائف و ظرائف اب بھی زبان زدِ عام ہیں ڈاکٹر صاحب کے ساتھ جن احباب کی رفاقت و صحبت رہی وہ اس بات کے گواہ ہیں کہ آپ بیحد نفیس طبیعت اور حلیم مزاج کے مالک تھے کالج کی سطح پر سزا کا تصور ذرا کمزور سا ہے اس لئے طلباء سرکشی پر مائل ہوتے ہیں بالائی حکام کا رویہ عموماََ ناموافق ہوتا ہے آپ نے کبھی حرفِ شکایت زبان پر نہیں لایا ہشاش بشاش طبیعت کے باوجود آپکا علمی رعب و جلال ایسا تھا کہ طلباء آپ کے اشارے پر اپنی ’’ شرارتیں ‘‘ قربان کرتے تھے ڈائریکٹوریٹ سے آپ کو کبھی شکوہ نہیں رہا کیوں کہ ان کا ہر کام روٹین پر ہواروٹین سے ہٹ کر آپ نے کبھی کچھ نہیں مانگا کالج میں پرنسپلوں کے ساتھ کبھی ان بن نہیں ہوئی کیونکہ ڈیوٹی تدریس کی ہو، ہاسٹل وارڈن کی ہو یا کنٹرولر امتحانات کی ہو، آپ نے پرنسپل کو کچھ کہنے کا موقع نہیں دیااور یہ خوبیاں بہت کم لوگوں میں ہوتی ہیں کالج کی لائبریری ، سٹاف روم اور غلام گردشوں میں سازشیں اور شرارتیں پروان چڑھا کرتی ہیں ڈاکٹر ظہور احمد اعوان، پروفیسر سید تقویم الحق کاکاخیل اور پروفیسر شمشیر نے ایسے بے شمار واقعات کا تذکرہ اپنی کتابوں میں کیا ہے پروفیسر اقبال پراچہ نے بھی اپنی تحریر وں میں ایسے واقعات سے پردہ اُٹھایا ہے مگر ڈاکٹر محمدنصیر الدین نے کبھی اس طرح کی سرگرمیوں میں حصہ نہیں ڈالاوہ ’’ غیبت کلب ‘‘ سے دور رہتے تھے ، گپ شب کی مجلس میں کبھی نہیں بیٹھتے تھے البتہ راہ چلتے ، آتے جاتے یا کسی دفتری میٹنگ میں ہلکی پھلکی نوک جھونک سے ضرور لطف اندوز ہوتے نفسیات کی زبان میں ایسی شخصیت کے لئے انٹر و ورٹ (Intro-vert) کی ترکیب استعمال ہوتی ہے ریٹائرمنٹ کے بعد آپ نے حیات آباد میں گھر بسا لیا برادر نسبتی صالح نظام کو یہ بستی پسند ہے آپ کے ہم زُلف حاجی مسلم الحق بھی حیات آباد میں تا حیات آباد ہیں عرصہ ایک سال سے آپ کی طبیعت نا ساز تھی ہسپتال سے گھر آنے کے بعد بیماری میں کبھی افاقہ ہوتا کبھی بیماری عود کر آتی پروفیسر حسام الدین ان سے ملنے جاتے تو سارے احباب کا احوال پوچھتے ٹیلیفون پر ان کے ساتھ بات ہوتی تو دیر تک دوستوں کا ذکر کرتے 24 مارچ کو عمرہ کی ادائیگی کے لئے حرمین شریفین کے سفر پر روانہ ہوئے اہلیہ اور منجھلے بیٹے محمد اطہر الدین کو ساتھ لیا ایک ہفتہ بعد مدینہ منورہ سے آپ کی وفات کی خبر آئی اپنی صداقت ، دیانت اور شرافت کی وجہ سے بلا شبہ اس اعزاز کے مستحق تھے کہ جنت البقیع آپ کو اپنی آغوش میں لے لے چنانچہ ایسا ہی ہوا ’’ پہنچی وہیںیہ خاک جہاں کا خمیر تھا‘‘ اللہ پاک مرحوم کے درجات کو بلند کرے اور پسماندگان کو صبرجمیل کے ساتھ ترقی ، سرفرازی اور دین و دنیا کی کامیابیاں عطا فرمائے ( آمین) آپ کا بڑا بیٹا میجر محمد مظہر الدین آرمی ایوی ایشن میں ہے منجھلا بیٹا محمد اطہر الدین ، چھوٹا بیٹا محمد اظہر الدین دونوں ابھی تعلیم کے مراحل طے کررہے ہیں صاحبزادی بھی زیر تعلیم ہے پروفیسر ڈاکٹر محمد نصیر الدین اُن خوش قسمت لوگوں میں سے تھے جن کی زندگی نیک نامی سے عبارت تھی اور جن کی موت بھی قابل رشک قرار پائی ؂
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رُت ہی بدل گئی
ایک شخص سارے شہر کوویران کر گیا
Doctor Naseeruddin chitral

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , , , , ,
8417

مسلم لیگ (ن) ضلع چترال کیلئے کابینہ تشکیل دیدی گئی

چترال(نمائندہ چترال ٹائمز) پاکستان مسلم لیگ(ن) کے ضلعی صدر نوید الرحمن چغتائی ایڈوکیٹ نے مسلم لیگ (ن) کے صوبائی صدر انجینئر امیر مقام اور مقامی قیادت کے ساتھ مشاورت کے بعد پی ایم ایل (این) چترال کے لئے نئے کابینہ تشکیل دیا ہے۔ جس کے مطابق صفت زرین جنرل سیکرٹری، ساجد اللہ ایڈوکیٹ ایڈیشنل جنرل سیکرٹری، نیاز اے نیازی ایڈوکیٹ سیکرٹری اطلاعات ،زار عجم لال اورشوکت الملک سینئر نائب صدر ہونگے۔ ،حاجی محمد ظفر،راجہ محمد خان،امیر الرحمن چارویلو،معراج علی جان،عصمت اللہ ،ناصر علی شاہ،مولانا عمران احمد،،ظفر اللہ پرواز نائب صدور اور معراج الدین فنانس سیکرٹری مقرر کیے گئے ہیں۔ نئے کابینے کے ممبران اپنے عہدوں کا جلد حلف اُٹھائینگے۔
pmln chitral notification

Posted in تازہ ترین, چترال خبریںTagged , , , , ,
8411

چترال میں‌ریسکیو 1122کی سروس کا آغاز، ایم پی اے فوزیہ نے فتتاح کیا

Posted on

چترال(نمائدہ چترال ٹائمز ) ممبر صوبائی اسمبلی اور پارلیمانی سکریٹری برائے سیاحت بی بی فوزیہ نے کہا ہے کہ قدرتی آفات وحادثات کے مواقع پر متاثرین تک بر وقت پہنچنا اور اُنہیں سہولیات فراہم کرنے میں ریسکیو 1122 کا کردار قابل تعریف ہے ۔ ان خیالات کا اظہار اُنہوں نے چترال میں ریسکیو1122کے دفتر کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔اُنہوں نے کہا کہ سکول،کالج کی سطح پر طلبہ اور طالبات میں قدرتی آفات مثلاًسیلاب،زلزلہ آتشزدگی اور مختلف قسم کے حادثات کے موقع پر حالات سے نمٹنے کے لئے تربیت دینے کی ضرورت ہے۔تاکہ اُنہیں آگہی مل سکے اور ایسے مواقع پر جانی نقصان کم سے کم ہوں۔ُنہوں نے کہا کہ ریسکیو 1122کے جوان اپنی زندگیوں کی پرواہ کئے بغیر لوگوں کو سہولیات دے رہیں ہیں ۔اُنہوں نے کہا کہ 2015میں جب چترال کا طول و عرص قدرتی آفات کا شکار تھا اُس وقت وزیر اعلٰی KPKپرویز خٹک اور PTIقائد عمران خان نے چترال کا دورہ کرکے بونی کے مقام پر میرے مطالبے پر چترال اور بونی میں ریسکیو 1122کے قیام کا اعلان کیا تھا آج اپنا وعدہ پورا کر دیا ہے جس پر چترال کے عوام اُن کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ اس محکمے میں جن چترالی بے روزگار نوجوانوں نے ٹیسٹ انٹرویو دئیے ہیں بہت جلد میرٹ کی بنیاد پر اُن کی بھرتیوں کا عمل شروع ہوگا۔ اسے قبل ریسکیو1122کے ڈائیریکٹر اپریشن محمد آیاز خان نے اپنی خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ صوبے میں ریسکیو1122کا قیام 2010 ؁کو عمل میں لایا گیا تھا۔ قدرتی آفات،حادثات اور بم دھماکوں میں سب سے پہلے پہنچ جانا اور متاثریں کو سہولیات فراہم کرنا ریسکیو1122کا کارنامہ ہے۔بین الاقوامی سطح پر ہماری خدمات اورکارکردگی کو تسلیم کیا گیا ہے ۔ ہم نے سکولوں اور کالجوں میں لاکھوں افراد کو قدرتی آفات سے نمٹنے کے لئے تربیت دی ہے۔اب تک ایک لاکھ پچاس ہزار افراد کو مفت سہولیات پہنچا چکے ہیں۔ریسکیو1122کے اہلکار دن ہو یا رات ہر دم تیار رہتے ہیں اور اپنی جانوں کی پرواہ کئے بغیر سات منٹوں کے اندر اندر متاثرہ لوگوں تک پہنچ جاتے ہیں۔اس موقع پر تحصیل ناظم چترال مولانا محمد الیاس اور تحصیل ناظم مستوج مولانا محمد یوسف نے بھی خطاب کیا اُنہوں نے اپنی طرف سے ہر قسم کے تعاون کا یقین دلایا اور کہا کہ ریسکیو1122میں اب تک مقامی چترالی بے روزگار نوجوانوں کو بھرتی نہ کرنا نہایت آفسوس کا مقام ہے۔ اُنہوں نے صوبائی حکومت رسیکیو 1122کے دفترات کے لئے الگ سے بلڈنگ کا بندوبست کرنے پر زور دیا۔اس سے قبل مہمان خصوصی بی بی فوزیہ نے فیتہ کاٹ کر دفتر کا با قاعدہ افتتاح کیا۔
Rescue Chitral 1122 iftitah fouzia mpa 1

Rescue Chitral 1122 iftitah fouzia mpa 2

Posted in تازہ ترین, چترال خبریںTagged , , , , ,
8394

پشا ور چڑ یا گھر وزیر اعلیٰ پر ویز خٹک کے ایک اور وعدے کی تکمیل….. تحریر: یاسمین ارشد

Posted on

تحریر: یاسمین ارشد
ڈپٹی ڈائریکٹرمحکمہ اطلاعات خیبر پختونخوا
تفر یح ایک فطر ی ضر ورت ہے جو روزمر ہ کی سر گر میوں سے تھکے ہو ئے انسا ن کو کا روبا ر زند گی کیلئے پھر سے تا زہ دم کرکے فعا ل کر دار ادا کر نے کے قا بل بنا تی ہے لیکن تفر یح کیلئے مو زوں تفر یحی مقا م کا ہو نا لا زمی ہے جہا ں انسان خو بصو رت اور صحت افزا نظا روں کا مشا ہدہ کر ے، نئے مقا مات دیکھے اور نئے تجر بو ں سے گز رے۔ کچھ تفر یحی مقا ما ت ایسے ہو تے ہیں جہا ں قد رتی منا ظر کی فرا وانی انسا نو ں کو شہر کے شو ر و غل سے دور لے جا کر فطر ت سے قر یب کر دیتی ہے۔ لو گ ایسے مقامات دیکھنے کے آرزو مند ہو تے ہیں اور تجسس کا یہ احسا س انہیں نئے نئے مقا ما ت کی طر ف راغب کرتا ہے جہا ں وہ حسین قدر تی نظاروں سے پو ر ی طر ح لطف اندوز ہو تے ہیں۔

Peshawar zoo chilya ghar kp govt 1
پا کستا ن تحر یک انصا ف کی حکو مت نے صو بہ خیبر پختو نخوا کی بحا لی تر قی اور خصو صا پشا ور کی خو بصو رتی کا تہیہ کر رکھا ہے اور پشا ور میں چڑ یا گھر کے منصو بے کی تکمیل حکو مت کے اس عز م کا عملی ثبو ت ہے۔ صوبا ئی حکو مت نے طو یل عر صے سے تجا ویز کی حد تک محدود چڑ یا گھر کے منصو بے کو عملی شکل دینے کا اعزاز حا صل کر لیا ہے۔ راحت آباد پشاور میں واقع یہ چڑیا گھر اہلیا ن پشا ور کیلئے ایک تحفہ ہے۔ ما حو ل کی آلو دگی سے دور پر سکو ن علا قے میں اس منصو بے کو پشا ور کی تر قی اور مثبت تبد یلی کی سمت خو شگوار قد م قرا ر دیا جا سکتا ہے جس کو وقت کے ساتھ ساتھ تر قی دی جا تی رہے گی۔ تا ریخی دستا ویزات سے پتہ چلتا ہے کہ دنیا کا پہلا چڑ یا گھر چینی حکمرا نوں نے 1100 قبل مسیح میں بنا یا تھا جبکہ پہلا چلتا پھر تا چڑیا گھر بر طا نو ی حکمرا ن ہنر ی اول نے قا ئم کیا تھا بعد ازاں ٹا ور آف لند ن کے نز دیک ایک مستقل چڑ یا گھر قائم کر کے شا ہی مجمو عہ وہا ں منتقل کر دیا گیا۔ یہ چڑ یا گھر 1928 تک مو جو د رہا جس کے بعد ریجنٹس پا رک میں لند ن زو قا ئم کیا گیا جسے بر طا نیہ کا پہلا چڑیا گھر ہو نے کا اعزاز حا صل ہے۔ دنیا کا سب سے بڑا چڑ یا گھر بر ونکس زو ہے جو نیو یا رک میں واقع ہے جبکہ دنیا کا سب سے بڑا اور انو کھا زوالو جیکل گا رڈن ما لٹازوا لو جیکل گا رڈن ہے، ٹو کیو کا چڑیا گھر ایسا انوکھا چڑیا گھر ہے جہا ں شیر آزادانہ چہل قد می کر تے ہیں جبکہ یہ نظا رہ سفا ری پا رکو ں کے علا وہ کسی اور چڑیا گھر میں نہیں دکھا ئی دیتا۔ جا نو روں میں انسا ن کی دلچسپی اور ان سے تعلق اتنا ہی قد یم ہے جتنی کہ انسا نی تا ریخ ۔ 400 قبل مسیح میں ارسطو نے جا نو روں کے با رے میں تحقیق کی اور حیو ا نا ت پر پہلی انسا ئکلو پیڈیا لکھ کر نہ صر ف انسا نو ں کی جا نو روں میں دلچسپی کا ثبو ت پیش کیا بلکہ آنے والی نسلو ں کے لئے جا نو روں سے متعلق قا بل قد ر تحقیقی مواد اور معلو ما ت فرا ہم کیں۔ پا کستا ن کے شہروں خصو صا اسلا م آبا د، لا ہو ر اور کراچی میں مو جو د چڑیا گھر لو گو ں کی تو جہ کا مر کز ہیں۔ لا ہو ر کا چڑیا گھر 1872 میں پا کستا ن کے صوبہ پنجا ب میں قا ئم کیا گیااور برا عظم ایشیا ء کے بڑے چڑیا گھروں میں اسکا شما ر کیا جا تا ہے جب لا ہو ر کا چڑیا گھر بنا تو لعل

ما ہندارا م نے چڑیا گھر کیلئے پر ند ے فرا ہم کئے۔ جو ں جو ں وقت گزرتا گیا انکی تعداد اور اقسا م میں اضا فہ ہو تا گیا اور اب اس چڑیا گھر میں
پرندوں اور مختلف اقسام کے جانوروں کے علا وہ نباتاتی باغ بھی موجود ہیں۔

Peshawar zoo chilya ghar kp govt 5

دنیا کے اکثر شہروں میں چڑیا گھر مو جو د ہیں جہا ں جا نو روں کی حر کا ت و سکنا ت اور عا دات کا نہا یت قر یب سے مطا لعہ کیا جا تا ہے۔ بچو ں کیلئے چڑیا گھر کی سیر ایک دلچسپ تفر یح ہو تی ہے جس سے وہ بے حد لطف اندوز ہو تے ہیں ۔ آج کے دور کا ہر انسا ن ذہنی دبا ؤ اور تنا و کا شکا ر ہے۔ ایسے میں لو گ چھٹی کے دن اپنی فیملی یا دوست احبا ب کے ہمراہ پر کشش مقا ما ت پر جا کر کچھ وقت سکو ن کے ساتھ گزارنے میں راحت محسو س کر تے ہیں۔ پشاور میں تفر یح کے لئے پا رک تو بہت ہیں جیسے ڈیفنس پا رک، وزیر با غ، چا چا یو نس پا رک، گر یژن پا رک، با غ نا ران، تا تا را پا رک وغیر ہ جو عوام کیلئے دلچسپی کا سا ما ن مہیا کرتے ہیں لیکن پشاور کے با سی چڑیا گھر کی تفر یح سے محروم تھے۔ نو شہر ہ پا رک میں کچھ جا نو راور پر ندے لو گو ں کی دلچسپی کیلئے رکھے گئے ہیں جن کا مقصد تفر یح کو فر وغ دینا ہے لیکن با قا عدہ ایک ایسے چڑیا گھر کی کمی تھی جس میں جا نو ر اور پر ندے آزادانہ گھو م سکیں، لو گ انہیں قر یب سے دیکھیں اور خو شی محسو س کر یں۔

12 فروری 2018 کوخیبر پختو نخوا کے وزیر اعلیٰ پر ویز خٹک نے بچو ں اور بڑوں کیلئے تفر یح کا احسا س کر تے ہو ئے چڑیا گھر کے منصو بے کا با قا عدہ افتتا ح کیا۔ پشاور میں پلو سی روڈ پر پا کستا ن فا رسٹ انسٹی ٹیو ٹ کی حدود میں واقع چڑیا گھر خیبر پختو نخوا کے عوا م کیلئے بیش بہا تحفہ ہے یہ پا کستا ن کا پہلا چڑیا گھر ہے جسے ایک جا مع پلا ن کے تحت بین ا لا قوامی معیا ر کے مطا بق تعمیرکیا گیا ہے۔ 29 ایکڑ کے وسیع رقبے پر پھیلا ہو ا یہ چڑیا گھر اپنی نو عیت کا ایک منفرد منصوبہ ہے جو لا ہو ر اور اسلا م آبا د میں مو جو د چڑیا گھرو ں سے بھی رقبے کے لحا ظ سے وسیع ہے۔ اس منصو بے کی تخمینہ لا گت 2100 ملین روپے ہے۔ اس کیلئے 270 ملین روپے کے نا یا ب جا نو ر مختلف مما لک سے پہنچنا ابھی با قی ہیں۔ وزیراعلیٰ خیبر پختو نخوا پر ویز خٹک کی جا نب سے پشاور کی خو بصورتی کو دو با لا کر نے کیلئے یہ چڑیا گھر کا قیا م نہ صرف بچو ں کیلئے خو شی، تفر یح اور مسرت کا با عث بنا ہے بلکہ عوام اور طلبا ء کیلئے جا نو روں سے متعلق تحقیقی مواد اور معلو ما ت کا ذریعہ بھی بنے گا۔ چڑیا گھر کے قیا م سے تفر یحی سہو لیا ت کے علا وہ حیا تیا تی تحقیق کے فروغ میں بھی مدد ملے گی ۔ سیر و تفر یح کیلئے آنے والے لو گو ں کو مزید سہو لیا ت دینے کیلئے اس کے قر یب دو رویہ سڑ ک کی منظو ری دی گئی جس سے آمدورفت میں آسا نی پیدا ہو گئی ہے۔

پشا ور کے چڑیا گھر میں داخل ہو نے کے راستہ کو خوبصو رت جا نو روں کے مجسمو ں سے آراستہ کیا گیا ہے اس کی خو بصو رتی اور دلکشی خصو صاً ننھے بچو ں کو اپنی طر ف کھینچتی ہے اور وہ خو شی سے سر شار ہو کر دوڑتے ہو ئے چڑیا گھر میں داخل ہو تے ہیں۔ یہ نظارہ دیکھ کرصو بہ خیبر پختو نخواکے وزیر اعلیٰ پر ویز خٹک کے اس شا ہکا ر منصوبے کو داد دینے کو دل چا ہتا ہے کیونکہ پشا ور کے با سیو ں کے لئے خو بصو رت چڑیا گھر کایہ انمول تحفہ ہے جوصو بے کے عوام کیلئے خو شی کی علا مت بن گیا ہے ۔چڑیا گھر میں داخل ہو نے کیلئے خواتین و حضرات کیلئے علیحدہ علیحدہ گیٹ بنا ئے گئے ہیں جن میں خو اتین اور بچو ں کو اندر جا نے میں کسی دشو ار ی کا سا منا نہیں کر نا پڑتا۔ گیٹ کے اندر داخل ہو تے ہی ایک وسیع رقبے پر پھیلا سر سبز و شاداب چڑیا گھر آپ کی خو شی کو دوبا لا کر تا ہے۔ 29 ایکڑ رقبے پر پھیلے چڑیا گھر کا ڈ یڑھ سا ل کے قلیل عر صے میں قیام عزم اور عمل کی منہ بو لتی تصو یر ہے اس کی تزئین و آرائش کے کام کی تکمیل جا ری ہے چڑیا گھر میں جا نو روں اور پر ندوں کیلئے

Peshawar zoo chilya ghar kp govt 8

خو بصورت 10 کیجیز بنا ئے گئے ہیں جن میں مختلف قسم کے جا نو ر جن میں پر ند ے شیر، چیتا، بندر، مار خور، ہر ن، اونٹ، چکو ر، شتر مر غ ، تتلیا ں اور طو طوں کے علاوہ مختلف چرند پر ند قدرتی ماحو ل میں جمع کئے گئے ہیں۔ ان میں زیا دہ تر پا کستا ن کے مختلف شہروں لا ہو ر، چترا ل وغیرہ سے خر یدے گئے ہیں جبکہ زرافہ اور ہاتھی افریقہ سے منگوائے جا رہے ہیں ۔ ان جانوروں اور پرندوں کی تعداد میں اضافے کی بھی توقع ہے۔ اکثر چڑیا گھر وں میں دیکھا جاتا ہے ہے کہ جانور لوہے کے بڑے بڑے پنجرورں میں قید ہوتے ہیں جو بے بسی اور لا چاری کی منہ بولتی تصویر دکھائی دیتے ہیں اس لحاظ سے پشاور کے وسیع رقبے پر بننے والے چڑیا گھرمیں جانوروں اور پرندوں کے آزادانہ گھومنے کیلئے اچھا ماحول فراہم کیاگیا ہے ۔ جانوروں کیلئے پنجرووں کا نقشہ اس طرح تیار کیا گیا ہے ۔ جہاں ان کے آرام کرنے اور چھپنے کی مناسب جگہیں موجود ہیں ۔جانور سارا دن ٹہل ٹہل کر گزارتے ہیں اور جب تھک جاتے ہیں تب انہیں آرام کرنے کیلئے تنہائی درکار ہوتی ہے۔ ایسے میں انہیں جنگل جیسی کسی ایسی جگہ کی تلاش ہوتی ہے جہاں وہ کچھ وقت سکون سے گزار سکیں کیونکہ وہ جنگل میں صاف ستھرے اور خاموش ماحول کے عادی ہوتے ہیں اس لئے انہیں مصنوعی جنگل جیسی سہولیتیں درکار ہوتی ہیں ورنہ بصورت دیگر لوگوں کو پژمردہ جانور دیکھنے کو ملتے ہیں۔ جانوروں اور پرندوں کو پنجروں میں تفریح کا سامان بھی مہیا گیا ہے پشاور کے چڑیا گھر میں بچوں اور بڑوں کی تفریح اور خوراک و طعام کو بھی مد نظر رکھا گیا ہے۔ یہاں کیفے ٹیریا، ٹک شاپس،واکنگ ٹریک، چلڈرن پارک بھی بنائے گئے ہیں اور سفاری زو کے نام سے گاڑیاں بھی موجود ہیں جو تفریح کرنے والوں کو آرام وسہولیات فراہم کرینگی۔
چڑیا گھر کی سیر کیلئے آنے والے جب تفریح کرکے تھک جائیں تو تھکاوٹ دور کرنے کیلئے خوبصورت لان بنائے گئے ہیں۔ جہاں بیٹھ کر خوبصورت نظاروں سے لطف اندورز ہو سکتے ہیں اس کے اندر مناسب اور معیاری ریسٹورنٹ موجود ہیں جہاں بازار کی نسبت سستی اور معیاری خوراک کا بھی انتظام کیا گیا ہے جن میں چکن بروسٹ ، برگر، شوارما، پیزہ ، سموسے ، پکوڑے ، دھی بھلے، گول گپے، کول ڈرنکس، منرل واٹر اور چائے وغیرہ شامل ہیں ۔ پینے کے پانی کا مناسب انتظام کیا گیا ہے اور مختلف جگہوں پر واٹر کولر رکھے گئے ہیں اس کے ساتھ ساتھ خواتین حضرات کیلئے مختلف جگہوں پر علیحدہ علیحدہ واش روم بنائے گئے ہیں۔ ایڈمن آفیسر نعمت اللہ صاحب نے راقم کو بتایا کہ چڑیا گھر میں ایمرجنسی کی صورت میں فوری طبی امدادکیلئے کلینک اورمیڈیسن سٹور بھی موجود ہے ۔ انہوں نے مزید بتایاکہ گاڑیوں کی پارکنگ کیلئے ایک پلازہ تعمیر کیا جا رہا ہے جس پر کام جاری ہے۔ چڑیا گھر میں صفائی کا خصوصی خیال رکھاگیا ہے صاف ستھری گزر گاہیں اور صاف شفاف پارک ہیں نعمت اللہ صاحب نے بتایا کہ یہ 2020 تک پوری طرح مکمل ہونے والا منصوبہ ہے اور اس میں اب تک صرف 30 فیصد کام ہوا ہے۔ اسکی تزین و آرائش کا کام ابھی جاری ہے جسمیں وقت کیساتھ ساتھ نکھار آتا رہے گا۔

چڑیا گھر کے اندرواکنگ ٹریک کو دیکھا تو خیال آیا کہ کیا ہی اچھا ہوگا اگر اس ٹریک کی جگہ ایک خوبصورت ندی بنائی جائے راقم تجویز کی صورت میں وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کی توجہ اس جانب مبذول کرانا چاہتی ہے کہ مجوزہ ندی اتنی ہی جگہ گھیر تی ہے جتنی جگہ پر یہ ٹریک بنا ہے۔ اور اس ندی کے دونوں اطراف کو سر سبز و شاداب بنا کر مصنوعی جانوروں ، مصنوعی پرندوں ، درختوں، پھولوں ،، بیل بوٹوں ،

خوبصورت جھاڑیوں ، چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں، خوبصورت پتھروں سے سجایا جائے۔ اس ندی کے کناروں کو ہمارے کلچر کے نمونوں سے آراستہ کیا جائے اسی طرح چھوٹی خوبصورت کشتیوں کو ندی میں چلا کر تفریخ کیلئے اس کودلچسپ بنایا جائے تا کہ وہ نہ صرف ندی کے اجلے پانی میں چلتی ہوئی کشتی کا لطف اٹھائیں بلکہ ارد گرد کے پھیلے ہوئے ان خوبصورت نظاروں کو اور کلچر کے منا ظرے کو دیکھ کر بین الاقوامی سفاری (Safari World )ورلڈ کا مزہ اٹھا سکیں ۔ بنکاک چڑیا گھر کے دورے کے موقع پر وہاں کی سفاری ندی کے منظر نے راقم کو بہت متاثر کیا ۔ جس میں تفریح کے ساتھ بنکاک کی ثقافتی زندگی کی خوبصورت منظر کشی کی گئی تھی۔
اس کے علاوہ جانوروں اور پرندوں کے پنجروں کے اندر درختوں کی شاخوں کو خوبصورت رنگوں سے سجا کر پنجروں میں رکھا جائے۔ پنجروں کے اندر پتھروں سے چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں بنائی جائیں اس کے اندر درخت لگائے جائیں اور اسکی زمین کو سر سبز بنایا جائے۔ اس سے اس کی اندرونی خوبصورتی کو چار چاند لگ سکتے ہیں ہر جانور کے پنجرے کے باہر اسکا آرٹیفیشل مجسمہ بنا کر لگایا جائے تا کہ دور سے دیکھ کر معلوم ہو سکے کہ اس میں کون سا جانور یا پرندہ ہے۔

Peshawar zoo chilya ghar kp govt 6

خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک عوامی شکایات کو اپنی مصروفیات پر ترجیح دیتے ہیں اور یہ اس کا ثبوت ہے کہ وہ اس عظیم منصوبے کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کیلئے وقتاً فوقتاً چڑیا گھر کے اچانک دورے کرکے منصوبے پر کام کا جائزہ لیتے ہیں اور اس میں مزید بہتری کیلئے ہدایات بھی دیتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک کی خصوصیت ہے کہ وہ طویل المعیاد منصوبوں کو مختصر وقت میں پایہ تکمیل تک پہنچانے کا گربخوبی جانتے ہیں۔

12 فروری 2018 کو اس منصوبے کے افتتاح کے بعد لطف اٹھانے والے شہریوں نے چڑیا گھر کے پرندوں اور جانوروں کی جسطرح پزیرائی کی وہ لطف کی بجائے جانوروں کی ایزا رسانی اور چڑیا گھر انتظامیہ کی پریشانیوں میں بدل گئی۔
کون باشعور انسان ہوگا جو معصوم جانوروں کو کنکریاں اور پتھر مارے اور انہیں خوفزدہ کرے۔مہذب انسان اور ایک اچھے شہری ہونے کے ناطے ہم سبکو جانوروں کی حفاظت اور ان کے ساتھ اچھا برتاؤکرنا چاہئیے

پاکستان کی سرزمین دلکش مناظر سے آراستہ ہے اور وسیع حیاتیاتی انواع کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے جہاں نگاہوں کو راحتیں بانٹنے میں قدرت اتنی فیاض ہو وہاں مرجھائے ہوئے چہروں پرخوشیاں بکھیرنے میں ہم کیوں بخل سے کام لیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اورصوبائی قیادت خصوصاًوزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک نے وقت کے ساتھ ساتھ بڑی بڑی تبدیلیوں کے جو وعدے کئے وہ تیزی سے پایہ تکمیل تک پہنچانے میں مصروف ہیں اور ہماری دعا ہے کہ یہ حکومت جب اپنی مدت پوری کرے تو خیبر پختونخوا ایک ماڈل صوبے کی حیثیت اختیار کرچکا ہو۔آمین

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , , , , ,
8384 8381

اسرائیل و بھارت کو کون روکے گا ؟ ……….. قادر خان یوسف زئی

Posted on

دنیا بھر میں فلسطینی مسلمان مارچ کے آخری ہفتے کے دوران اور بالخصوص 30مارچ کو قومی سطح پر یوم الارض کا دن مناتے ہیں۔ گذشتہ 42برس سے یوم الارض منانے کا مقصد اقوام عالم کی توجہ فلسطینی جبراََ اپنی سرز مین سے بے دخل کئے جانے پر احتجاج ریکارڈ مقصود کرانا رہا ہے۔یوم الارض کے موقع پر جہاں فلسطینی مہاجرین کے اسرائیل میں اپنے گھروں کو لوٹنے کے حق میں چھ ہفتے طویل مظاہروں کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے تو دوسری جانب مقبوضہ کشمیر میں بھارتی قابض فوجیوں کے خلاف مظلومین کشمیر نے بھی کئی عشروں سے بھارتی جارحیت اور جبر کے خلاف احتجاجی مظاہرے اور ہڑتالوں کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے ۔ فلسطین میں قابض اسرائیلی کے ہاتھوں 20سے زائد فلسطینی جاں بحق اور سینکڑوں زخمی ہوئے تو مقبوضہ کشمیر میں بھی بھارتی قابض فوجیوں کے ہاتھوں 20سے زائد پُرامن مظاہرین جاں بحق اور سیکڑوں زخمی ہوئے ۔ مظلومین کی دونوں سر زمین میں کئی باتیں مشترکہ ہیں ۔ دونوں سرزمینوں پر یہود ، ہنود و نصاریٰ نے جبراََ قبضہ کیا اور طاقت کے استعمال سے نہتے عوام کو دبانے کی ہمیشہ کوشش کی جاتی ہے۔ فلسطین اور کشمیر کی عوام کو اپنی ہی آبائی سر زمین میں آزاد و خود مختیار زندگی بسر کرنے کا حق نہیں دیا جاتا۔ دونوں ریاستوں میں مسلمانوں کو اپنی مذہبی شعار و روایتی جلسے جلوس و تقاریب سمیت نماز جمعہ سمیت دیگراسلامی فرائض کو ادا کرنے آزادی حاصل نہیں ہے۔ دونوں ریاستوں کے عوام تحریک آزادی کے لئے نہتے و اپنی مدد آپ کے تحت مزاحمت کررہے ہیں۔ دونوں قابضین ریاستی دہشت گردی کے تمام تر ریکارڈ توڑ رہے ہیں ۔ دونوں ریاستوں میں قدرِ مشترک بھی ہے کہ ریاستی دہشت گردی کے خلاف اقوام متحدہ و سلامتی کونسل بے بس اور عضو معطل ہیں۔ دونوں مقبوضہ ریاستوں میں مسلم آبادی کو اقلیت بنانے کے لئے ناجائز اور غیر قانونی کالونیاں بناکر مسلمانوں کو ظلم کے آگے جھکنے میں مجبور کیا جارہا ہے ۔ دونوں ریاستوں میں خواتین ، مرد ،اور بزرگوں کے ساتھ یکساں توہین آمیز رویہ و تشدد کیا جاتا ہے ۔ اسرائیل اور بھارت نے مقبوضہ علاقوں میں استعماری قوتوں کی شہ پر ظلم و جبروت کا مظاہرہ اپنی پالیسی بنا لی ہے ۔ دونوں قابض ریاستیں پیلٹ گنوں کا استعمال کرتی ہیں جس سے نہتے پُرامن شہریوں کی بڑی تعداد آنکھوں سے معذور اور جسمانی طور پر اذیت ناک طریقے سے زخمی ہو رہی ہے۔ فلسطین اور کشمیر کا مقدمہ ایک جیسا ہے جس میں نہتے اور مظلوم عوام کو اپنی سر زمین میں جینے کے حق سے محروم کیا جارہا ہے اور اقوام عالم خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ امت مسلمہ کی جانب سے بھی افسوس ناک صورتحال کا سامنا ہے کہ صرف زبانی جنگ کے علاوہ کوئی متفقہ لائحہ عمل سامنے نہیں آرہا ۔

مسلم اکثریتی ممالک کے فروعی اختلافات نے مسلمانوں کے اہم مسائل و ظلم و ستم کا سدباب کرنے بجائے خود کو عملی طور پر معذور بنا رکھا ہے ۔ مقبوضہ کشمیر میں جارح بھارت نے کشمیریوں عوام کے جنت نظیر خطے کو جہنم بنادیا ہے ۔ پاکستان مقبوضہ کشمیر اور فلسطین کی اخلاقی ، سفارتی و اُصولی حمایت کرتے ہوئے بار بار عالمی ضمیر کو جھنجوڑ رہا ہے ۔ لیکن جہاں مغرب طاقت کے نشے میں مدہوش ہیں تو دوسری جانب مسلم اکثریتی ممالک خواب خرگوش میں سوئے نظر آتے ہیں۔ اقوام متحدہ ، سلامتی کونسل اور انسانی حقوق کے نا م نہاد علمبرداروں کی راویتی روش و بے حسی نے امت مسلمہ میں سخت بے چینی اور بے بسی کو جنم دیا ہواہے ۔ موت کی ان وادیوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر اقوام عالم نے مجرمانہ چپ سادھی ہوئی ہے۔بھارت اور اسرائیل کا گٹھ جوڑ اور مشترکہ مسلم کش منصوبہ مسلم اکثریتی ممالک کے لئے بھی نوشتہ دیوار ہے ۔ مسلم اکثریتی ممالک بے لگا م ہونے والے ان فرعونوں کے خلاف اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کرنے کے بجائے باہمی چپقلش اور خانہ جنگیوں میں الجھے ہوئے ہیں۔ اپنے کھربوں ریال ، مسلم نسل کشی کرنے والے ممالک کے سرپرستوں کے قدموں میں نچھاور کررہے ہیں۔ لیکن نمرود کے پیروکاروں کی جانب سے عظمتیں لٹنے والی بہن ، بیٹوں پر چادر ڈھانپنے کے لئے ان کے پاس وقت و الفاظ اور قوت نہیں ہیں۔ ترکی کے صدرطیب اردوغان نے اسرائیل کو دہشت گرد قرار دیتے ہوئے سخت بیان دیا تھا۔ ٹیلی ویژن پر نشر کیے جانے والے خطاب میں صدر اردوغان نے کہا’ارے نتن یاہو، تم قابض ہو۔ تم ان زمینوں پر قابض ہو۔ ساتھ ہی تم دہشت گرد بھی ہو۔’فلسطین کے وزیر تعلیم ڈاکٹر صابری صادیم کہتے ہیں ’آپ لوگ ان فوٹوز اور ویڈیوز میں دیکھ سکتے ہیں جو نشر کی گئیں، آپکو معلوم ہو گا کہ وہ لوگ پرامن مارچ کر رہے تھے۔انھوں نے کسی بندوق کا استعمال نہیں کیا اور نہ ہی ان کی طرف سے کسی قسم کی جارحیت نظر آتی ہے۔ جو چیز نظر آتی ہے وہ صرف جھنڈے ہیں جو وہ مارچ کے دوران لہرا رہے تھے۔‘دوسری جانب اسرائیل نے اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل سمیت کئی بین الاقوامی رہنماؤں کی جانب سے اس واقعے کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ مسترد کر تے ہوئے اسرائیلی وزیر اعظم نے الٹا اردوغان کو طعنہ دیا کہ” نہتے شہریوں پر خود بمباری کرنے والوں کو اخلاقی درس دینا نہیں دینا چاہیے”۔ یہ بہت بڑی تلخ حقیقت ہے۔ کہ ایک جانب جب کشمیر و فلسطین میں ڈھائے جانے مظالم پر آواز اٹھائی جاتی ہے تو غیر مسلم بلاک کی جانب سے مسلم امہ کو آئینہ دکھایا جاتا ہے کہ پہلے شام ، عراق ، لیبیا ، صومالیہ ، یمن، پاکستان اور افغانستان پر توجہ دیں ۔ کبھی ایران کی جانب سے مسلم ممالک میں جنگجو ملیشیاؤں کی مداخلت اور خانہ جنگی میں ملوث ہونے پر خنداں زن ہوتے ہیں تو کبھی سعودی عرب و متحدہ عرب امارات کی جانب سے قطر ، مصر ، یمن اور افغانستان میں مداخلت کا منظر نامہ پیش کردیا جاتا ہے کہ پہلے خود کو ٹھیک کریں ۔ خاص طور پر قدرت کی جانب سے معدنی وسائل سے مالامال عرب و عجم کے درمیان روز بہ روز بڑھتی کشمکش و جنگ کی دہمکیوں نے دنیا بھر میں موجود مسلم امہ کو پریشان کردیا ہے کہ منقسم مسلم اکثریتی ممالک امت واحدہ کب بنیں گے ۔اسلامی ممالک کے نام پر بننے والے اسلامی تعاون تنظیم کا کردار اتنا مایوس کن ہے کہ اس حوالے سے کچھ لکھنا ماسوائے وقت ضائع کرنے کے کچھ نہیں ہے۔ عرب لیگ کا اپنا الگ جداگانہ ایجنڈا ہے ۔ اسلامی اتحادی فوج کے اغراض و مقاصد و فعالیت سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے ، ایران کی مہم جوئیاں اور سعودی عرب کے مسلسل حالت جنگ میں رہنے کی وجہ سے مسلم اکثریتی ممالک کے تما م وسائل یہود و نصاری کے خزانوں میں جا رہے ہیں۔ یہوو ، ہنود و نصاریٰ مسلم اکثریتی ممالک کی نااتفاقی و انتشار کا بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔ مسلم امہ کی بیداری کی مہم کون سا ملک کرے گا ۔ اس کا تعین بھی کئے جانا ان حالات میں ممکن نہیں رہا ہے۔ تھوری بہت طاقت رکھنے والے مسلم اکثریتی ملک خانہ جنگیوں اور پڑوسیوں سے جنگ میں مصروف ہے ، قدرت کے عطاکردہ خزانوں کو بنی نوع انسان کی فلاح و بہبود پر خرچ کرنے کے بجائے دنیا کی بربادی پر صَرف کیے جا رہے ہیں ۔ پل کی خبر نہیں اور پر تعیش زندگی بسر کرنے کی سو برس کے منصوبے بن رہے ہیں ۔ بدقسمتی نہ کہیں تو اور کیا کہیں کہ پاکستان واحد ایک ایسا ایٹمی طاقت رکھنے والا ملک تھا جس نے ہمیشہ مسلم اکثریتی ممالک کی اخلاقی و عسکری مدد کی اور اپنے ہزاروں جوانوں کی قربانیاں بھی دیں ۔ عرب ، اسرائیل جنگ ہو یا پھر کسی بھی مسلم اکثریتی ملک کے ساتھ شانہ با شانہ کھڑا ہونا ۔ پاکستان نے تمام مسلم حکمرانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع بھی کردیا تھا ، مسلم حکمرانوں کو ان کی اصل طاقت سے بھی آگاہ کردیا تھا لیکن پاکستان استعماری قوتوں کے زیر خرید غلاموں کے ہاتھوں اس قابل نہیں رہا کہ وہ مسلم امہ پر ہونے والے ظالموں کی گو شمالی کرسکتا ۔ دنیا سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو نجات دہندہ کی صورت میں دیکھتی رہی ہے لیکن جب سے سعودی عرب کے ولی عہد نے اصلاحات متعارف کراتے ہوئے سعودی ویژن 2030کو متعارف کرایا ہے ۔ آل سعود کے امریکا اور مغربی ممالک کے ساتھ بڑھتی قربتوں اور ترجیحات کی تبدیلی نے امت مسلمہ میں بے چینی کی نئی لہر پیدا کردی ہے۔صہیونی ذرائع نے انکشاف کیا تھا کہ سعودی ولی عہد نے دورہ قاہرہ کے وقت یہودی ریاست کے ایک وفد سے ملاقات اور بات چیت کی تھی جس کے فورا بعد ہندوستانی فضائی کمپنیوں نے خبر دی تھی کہ سعودی حکام نے تل ابیب کی طرف پرواز کا دورانیہ کم کرنے کے لئے ہندی طیاروں کو سعودی فضائی حدود سے مقبوضہ فلسطین جانے کی اجازت دے دی ہے۔ واضح رہے کہ سعودی حکمرانوں نے پہلی بار بیرونی فضائی کمپنیوں کو اپنی حدود سے مقبوضہ فلسطین کی طرف پرواز کرنے کی اجازت دی ہے۔ ایک امریکی اخبار کو سعودی ولی عہد نے انٹرویو دیتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ اسرائیل کو وطن حاصل کرنے کا حق ہے۔ دوسری جانب امریکا نے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بھارت کی خوشنودی کے لئے پاکستان پر مزید دبا ؤ بڑھادیا ہے۔ امریکی دفتر خارجہ کی جانب سے اٹھائے اقدامات کے ساتھ ساتھ امریکی محکمہ خزانہ نے ‘ملی مسلم لیگ کی مرکزی قیادت کے سات ارکان کو غیر ملکی دہشت گرد کے طور پر نامزدگی کا اعلان کیا ہے۔ امریکی محکمہ خزانہ میں غیرملکی اثاثہ جات پر کنٹرول کے دفتر (او ایف اے سی) نے دفتر خارجہ نے لشکرطیبہ اور ملی مسلم لیگ (ایم ایم ایل) کے خلاف کارروائی کی جس میں ملی مسلم لیگ اور اس کے سات رہنماؤں کو بھی انتظامی حکم (ای او) 13224 کی مطابقت سے خصوصی طور پر نامزد کردہ عالمی دہشت گرد (ایس ڈی جی ٹی) قرار دیا گیا ہے۔ یہ حکم دہشت گردوں، ان کی معاونت کرنے والوں یا دہشت گردی کے اقدامات میں مدد دینے والوں کو ہدف بناتا ہے۔ خاص طور پر‘او ایف اے سی’نے‘ ملی مسلم لیگ’کی مرکزی قیادت کے سات ارکان کو نامزد کیا ہے جن میں سیف اللہ خالد، مزمل اقبال ہاشمی، محمد حارث ڈار، تابش قیوم، فیاض احمد، فیصل ندیم اور محمد احسان شامل ہیں۔ یہ امریکی دفتر خارجہ نے لشکر طیبہ کی بطور دہشت گرد تنظیم نامزدگی میں ترمیم کرتے ہوئے ‘ایم ایم ایل’اور‘تحریک آزادی کشمیر’(ٹی اے کے) کو بھی شامل کر لیا ہے۔ان نامزدگیوں کے دیگر نتائج کے علاوہ امریکی دائرہ کار میں ان لوگوں کی جائیداد اور جائیداد میں ان کے مفادات پر روک لگا دی گئی ہے اور عمومی طور پر امریکی شہریوں کا ان کے ساتھ کسی بھی طرح کا مالی لین دین ممنوع قرار پایا ہے۔

سیف اللہ خالد (خالد) کو‘ملی مسلم لیگ’کے صدر کی حیثیت سے متعارف کرایا گیا کیونکہ انہوں نے 8 اگست 2017 کو پارٹی کی ترتیب اور اغراض و مقاصد کے بارے میں پریس کانفرنس کی تھی۔مزمل اقبال ہاشمی (ہاشمی) ملی مسلم لیگ کا نائب صدر ہے اور 8 اگست 2017 کی پریس کانفرنس میں انہیں ملی مسلم لیگ کی مرکزی قیادت کے رکن کے طور پر متعارف کرایا تھا۔محمد حارث ڈار (ڈار) ملی مسلم لیگ کا جوائنٹ سیکرٹری ہے۔تابش قیوم ملی مسلم لیگ کا سیکرٹری اطلاعات ہے اور 8 اگست 2017 کی پریس کانفرنس میں ملی مسلم لیگ کی مرکزی کمیٹی کے رکن کے طور پر متعارف کرایا گیا تھا۔فیاض احمدملی مسلم لیگ کا جنرل سیکرٹری ہے اور 8 اگست 2017 کی پریس کانفرنس میں انہیں بھی ملی مسلم لیگ کی مرکزی قیادت کے رکن کی حیثیت سے متعارف کرایا گیا تھا۔فیصلندیم ملی مسلم لیگ کے شعبہ نشرواشاعت کا سیکرٹری ہے۔احسان ایم ایم ایل کا سیکرٹری مالیات ہے۔ وہ ملی مسلم لیگ کے ترجمان کی حیثیت سے بھی کام کر چکا ہے۔امریکا کی جانب سے ملی مسلم لیگ پر پابندی کا مقصد بھارت کو خوش کرنا اور کشمیر کی تحریک کو متنازع بنانا ہے۔

بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے مظالم پر بھی مسلم اکثریتی ممالک کے صرف رسمی بیانات ہی دیکھنے میں آئے ہیں۔ اقوام متحدہ میں منظور شدہ قرادادوں پر بھارت کی جانب سے عدم تعاون اور لائن آف کنٹرول پر مسلسل اشتعال انگیز کاروائیوں نے بھی اقوام متحدہ کی بند آنکھوں کو کھولنے کی زحمت نہیں کی ۔ پُر امن عوامی مظاہرے میں مقبوضہ کشمیرکے شوپیان، اننت ناگ اور پلوامہ میں احتجاج کرنے والے نہتے لوگوں پر بھارتی انتہا پسندفورسز اہلکاروں کی براہ راست فائرنگ سے20سے زاید زخمی و سینکڑوں افراد زخمی ہوئے جن میں اکثریت کو سرینگر کے مختلف اسپتالوں میں علاج و معالجہ کیلئے داخل کیا گیاتھا۔ کچھ ڈورہ میں بڑے پیمانے پر زخمی ہونے والوں کو شوپیان ضلع اسپتال میں داخل کیا گیا جن میں 14کو گولیاں لگی تھیں جبکہ دیگر پیلٹ اور شلوں سے مضروب ہوئے تھے۔ان میں سے درجنوں کو سرینگر ،لگام اسپتال،کو زینہ پورہ اسپتال، حرمین اسپتال میں داخل کیا گیا۔17افراد کو گولیاں لگیں تھیں۔مختلف اسپتالوں کی جانب سے فراہم کئے گئے اعدادوشمار کے مطابق سرینگر منتقل کئے گئی زخمیوں کی بڑی تعدادد میں س آنکھوں پر چھرے لگنے کی وجہ سے زخمی ہوئے جبکہ متعددافراد جسم کے مختلف اعضاء میں گولی لگنے سے مضروب ہوئے۔گولیوں سے زخمی ہونے والے بون اینڈ جوائنٹ برزلہ سرینگر، شیر کشمیر انسٹیچوٹ آف میڈیکل سائنسز صورہ، جے وی سی سرینگر جبکہ متعدد کو صدر اسپتال منتقل کیا گیا۔ تفصیلات فراہم کرتے ہوئے شیر کشمیر انسٹیچوٹ آف میڈیکل سائنسز صورہ کے میڈیکل سپر انٹنڈنٹ ڈاکٹر فاروق احمد جان کے مطابق زخمی افراد کے پیٹ میں گولیاں پیوست ہوئی تھیں جبکہ دیگر کے بازو اور ٹانگوں میں گولیاں آئی تھیں۔ بون اینڈ جوائنٹ اسپتال میں موجود ذرائع نے بتایا کہ اسپتال میں اتوار کو 9زخمی افراد کو داخل کیا گیا جو گولیاں لگنے کی وجہ سے زخمی ہوئے تھے۔ زخمی افراد میں سے اکثر افراد ٹانگوں میں گولیاں لگنے کی وجہ سے زخمی ہوئے تھے۔ جے وی سی سرینگر کی میڈیکل سپر انٹنڈنٹ ڈاکٹر شفاء نے بتایا کہ اتوار کو جے وی سی میں ایک زخمی نوجوان کو داخل کیا گیا جو پلہالن پٹن کا رہنے والا ہے۔ ڈاکٹر شفاء نے بتایا کہ مذکورہ نوجوان کی چھاتی اور بائیں آنکھ پیلٹ کا نشانہ بنی ہے۔سرینگر کے صدر اسپتال میں سب سے زیادہ زخمی افراد کو داخل کیا گیا۔صدر اسپتال سرینگر کے میڈیکل سپر انٹنڈنٹ ڈاکٹر سلیم ٹاک کے مطابق ’’اتوار کو کل 41افراد کو اسپتال میں داخل کیا گیا جن میں 40افراد کی آنکھوں میں چھرے لگے ہیں۔ “پاکستان نے مقبوضہکشمیر میں قابض بھارتی سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں ” بے گناہ کشمیری نوجوانوں کی ہلاکت” کی مذمت کرتے ہوئے بین الاقوامی برداری سے ایسے واقعات رکوانے کا مطالبہ کیا ہے۔پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے بھارتی سیکورٹی فورسز کی طرف سے مظاہرین کو چھرے والی بندوقوں سے نشانہ بنانے کی اطلاعات پر کہا ہے کہ یہ کشمیریوں کو دبانے کی کوشش ہے۔اقوام متحدہ کی ایمنسٹی انٹرنیشنل ( برائے انسانی حقوق) نے بھارتی انتہا پسند وزیر اعظم کو عالمی دہشت گرد قرار دیتے ہوئے اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی قابض جارح شدت پسند افواج کے خلاف اقدامات کرے ۔ لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ ہماری ان زبانی جنگوں سے کچھ نہیں ہونے والا ۔ ہم صرف لفاظی اور زیادہ تر زور صرف زبانی بیانات تک محدود رکھتے ہیں۔ پاکستان کے آرمی چیف نے بھی شدید الفاظوں میں بھارتی فورسز کی شدید مذمت کی ہے ، وزیر خارجہ خواجہ آصف نے مختلف وفود دوست ممالک بھیجنے کا عندیہ دیا ہے ۔ لیکن ان سب زبانی اقدامات سے کیا بھارت کسی قسم کا دباؤ کا شکار ہوسکتا ہے ۔ بھارتی انتہا پسندوں کو اسرائیل قاتل فورسز کی طرح دنیا کی کوئی پرواہ نہیں ۔ شاید وہ جانتا ہے کہ جب مالی وسائل سے مالا مال ممالک اسرائیل کا بال بیکا نہیں کرسکے تو بھارت کی ناراضگی مول لیکر کہاں جائیں گے ۔ مغرب بھارتی تجارتی منڈی کے سحر میں مبتلا اور مفادات کے حصول کے خاطر بھارت کی خوشنودی چاہتا ہے ۔ امریکا ، خطے میں چین کے خلاف عظیم تجارتی جنگ چھیڑ چکا ہے ۔ چین جوابی وار کرچکا ہے۔ پاکستان ماضی کی غلطیوں کی سزا بھگت رہا ہے ۔ پاکستان کے مختلف شہروں میں رہنے والے کشمیر ی مہاجرین بے بس ہیں ۔ کچھ کرنا چاہتے ہیں تو حافظ سعید کی طرح ان کے سروں پر پابندیوں عالمی دہشت گرد قرار دینے کی تلوار لٹکا دی جاتی ہے ۔ حال ہی میں بھارت اور امریکا کے درمیان 12915واں ورکنگ ریلشن شپ اجلاس دہلی میں ہوا تھا ۔ اجلاس کے خاتمے کے بعد مقبوضہ کشمیر میں کئی روز سے جاری جارحیت ظاہر کرتی ہے کہ امریکا کی شہ پر بھارت ، مقبوضہ کشمیر میں اسرائیلی طرز پر کشمیری مسلمانوں کو پاکستان کے ساتھ حب الوطنی کی سزا دی جا رہی ہے کیونکہ فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ کشمیر کا بھی ایک نعرہ ہے کہ ہمیں اپنی سر زمین پرجینے کا حق دو۔ کیونکہ یہ زمین ہماری ہے ، ہمارے آبا و اسلاف کی ہے ۔ اقوام متحدہ بہری اندھی ، سلامتی کونسل بہری اور اسلامی تعاون تنظیم گونگی بنی ہوئی ہے لیکن کب تک ۔ ایک دن نہ ایک آتش فشاں پھٹے گا ۔اور فروعی مفاداتی حصول کے شکار جانب دار ممالک کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گا ۔ مسلم امہ پر فلسطین سے لیکر کشمیر تک بہیمانہ ظلم و ستم کئے جا رہے ہیں ۔ پاکستان میں مولانا فضل الرحمن کی جانب سے فلسطین و کشمیری عوام کے خلاف ظلم و بربریت پریوم احتجاج اور حکومت کی جانب سے یوم یک جہتی کشمیر منایا جارہا ہے ۔ یہاں تک کہ جب شاہد خان آفریدی نے کشمیریوں کے حق میں بیان دینے پر مقبوضہ کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ نے آفریدی کے بیان کی حمایت کی توپورے بھارت میں پاکستان اور شاہد آفریدی کے خلاف غصے کی آگ بھڑک اٹھی۔ سوال یہی ہے کہ کیا اس سے فلسطین یا کشمیر کا حل نکل سکتا ہے ۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , , , ,
8379

داد بیداد ………… پاکستان زندہ باد………. ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ

Posted on

صوبائی دالحکومت پشاور سمیت بڑے شہروں اور چھوٹے قصبوں میں عوامی اجتماعات کے ذریعے ’’ پاکستان زندہ باد ‘‘ کا نعرہ مستانہ بلند کیا گیا ہے یہ نعرہ قوم کی آواز ہے اور اس نعرے کی وجہ سے اسرائیل، بھارت ، افغانستان اور امریکہ سمیت کئی ممالک کو وہی پیغام ملا ہے جو اگست 1947ء میں قیام پاکستان کے وقت ملا تھا اور 1974ء میں لاہور کے اندر اسلامی سربراہ کانفرنس کے ذریعے دیاگیا تھا پاکستان کے دشمنوں کو تین باتوں کا دُکھ ہے پہلی بات یہ ہے کہ پاکستان 1971ء میں ختم کیوں نہیں ہوا؟ دوسری بات یہ ہے کہ پاکستان ایٹمی طاقت کیوں بنا؟ اور تیسری بات یہ ہے کہ پاکستانی قوم اور پاکستان کی سیاسی جماعتیں پاک فوج کی حمایت میں کیو ں اور کس لئے کمر بستہ ہوجاتی ہیں ؟ نپولین کا مشہور قول ہے کہ جنگوں میں بندوق کی اہمیت نہیں ہوتی بندوق کے پیچھے جو قوم ہوتی ہے وہ اہم ہے جنگیں بندوق کے ذریعے نہیں جیتی جاسکتیں قوم کے ذریعے جیتی جاسکتی ہیں فرانسیسی مفکر، مدبّر اور ادیب سارتر جنرل ڈیگال کا ہم عصر تھا ایک وقت ایسا آیا جب فرانسیسی خفیہ ادارے نے سارتر کو گرفتار کر نے کی تجویز دی جنرل ڈیگال نے تجویز کو رد کرتے ہوئے لکھا سارتر فرانسیسی قوم کی شناخت ہے فرانس کا چہرہ ہے ہم اپنی قوم کو ، قوم کے چہرے کو جیل میں ڈال کر دُنیا کو کیا منہ دکھائیں گے ؟ پہلی اور دوسری عالمی جنگوں میں برطانوی فوج نے نو آبادیات کے اندر بسنے والی قوموں سے مدد کی اپیل کی تاج برطانیہ کے بارے میں مشہور تھا کہ اس کی حکومت مشرق سے مغرب تک اس طرح پھیلی ہوئی تھی کہ اُن کے پرچم یونین جیک پر سورج غروب نہیں ہوتا یعنی ایک ملک میں غروب کا وقت ہوجاتا تو دوسرے ملک میں طلوع کا وقت ہوتا تھا پھر بھی ان کو عوام کا سہارا لینا پڑتا تھا پاکستان نے بیرونی دشمن کے خلاف 1948ء اور 1965ء میں جو بڑی جنگیں لڑیں ان میں پاک فوج نے عوام کی بھرپور تائید اور حمایت سے کامیابیاں حاصل کیں حفیظ جالندھری نے اپنی نظموں میں مہمند، آفریدی، شنواری، وزیر اور محسود قبائل کی رضاکار فورس کا ذکر کیا ہے اور ان بہادروں کو خراج تحسین پیش کیا ہے سکردو کا قلعہ چترال کی رضاکار فورس نے فتح کیا شہزادہ مطاع الملک نے کرنل تھاپا کو گرفتار کیا کیپٹن گنگا سنگھ مارے گئے جنرل محمد اکبر خان ، جنرل مجید ملک اور پروفیسر منظوم علی نے اپنی کتابوں میں اس واقعے کا تفصیلی ذکر کیا ہے اکتوبر 1998ء میں پولیس سروس آف پاکستان کے دبنگ افیسر سلطان حنیف اورکزئی اوراُس وقت کے صوبائی ہوم سیکرٹری کرنل جہانزیب نے گورنرز کاٹیج چترال میں عوام کے بڑے اجتماع کے سامنے بھارتی خفیہ ایجنسی را (RAW) کی 1966ء میں لکھی ہوئی رپورٹ دکھائی رپورٹ میں لکھا تھا ’’ 1965ء کی جنگ کا بڑا سبق یہ ہے کہ جب تک پاکستانی قوم اپنی فوج کیساتھ ہے ہم جنگ نہیں جیت سکتے جنگ جیتنے کیلئے پاکستانی قوم کو فوج سے الگ کرنا ہوگا ‘‘5سال دشمنوں نے اس سکیم پر کام کیا مشرقی پاکستان میں ’’ مکتی باہنی ‘‘ بنائی پاکستان کے دو ٹکڑے کر دیے یہ لڑائی باہر سے حملہ کرنیوالے دشمن نے نہیں لڑی ملک کے اندر ہمارے سکولوں ، کالجوں ،یونیورسٹیوں ، مدرسوں ، مسجدوں ،محلوں اور بازاروں سے اُٹھنے والے لوگوں نے دشمن کا کام آسان کردیا اندر کے دشمن نے جڑوں کو کاٹ دیا باہر کا دشمن تالیاں بجانے کے لئے آیایہ ماضی قریب کا واقعہ ہے آج مذہب کے نام پر 13مکتی باہنیاں پاکستان کے اندر کام کر رہی ہیں قومیت کا نام لیکر 10مکتی باہنیاں وجود میں آچکی ہیں بلوچ ، پشتون ، مہاجر ، سرائیکی ، سندھی ، پنجابی ،ہزارہ اور دیگر ناموں سے جو تنظیمیں آج پاکستان کے اخبارات میں بیان دیتی ہیں تو ایک ہفتہ بعد واشنگٹن ، کابل اور لندن سے اس کی باز گشت سنائی دیتی ہے اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ تاریں باہر سے ہلائی جارہی ہیں کٹھ پتلیاں یہاں ناچتی ہیں ہماری موجودہ نسل کو تین امور پر آگاہی اور شعور کی ضرورت ہے پہلی چیز یہ ہے کہ پاکستان بننے سے پہلے سکولوں میں ہندؤں کا ترانہ ’’ بندے ماترم‘‘ گایا جاتا تھا پاکستان نہ رہا تو ایک بار پھر ہمارے سکولوں میں ہندؤں کا ترانہ گایا جائے گا دوسری چیز یہ ہے کہ آج ہمارے نوجوان یونیورسٹیوں سے لیکر ملٹری اور سول سروس تک بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہیں یہ پاکستان کی برکت ہے پاکستان نہ رہا تو ہماری نئی نسل کو ہندؤں کی بالادستی قبول کرنی ہوگی تیسری اہم بات یہ ہے کہ گذشتہ 40سالوں کے اندر دشمنوں نے افغانستان ، عراق اور لیبیا پر قبضہ کرنے کے لئے سب سے پہلے قوم کو فوج کے خلاف اکسایا پھر ملک پر دشمن کا قبضہ ہواشام ، ایران اور پاکستان کے خلاف یہی حربہ آزمایا جارہا ہے آج کل کے حالات میں پاکستان زندہ باد کو تحریک کی صورت میں آگے بڑھانا وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے تمام سیاسی جماعتوں کو اس پر متفق ہونا چاہیئے ؂
خدا کرے میرے ارض پاک پر اترے
وہ فصل گُل جسے اندیشۂ زوال نہ ہو

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , , , ,
8376

اوپن یونیورسٹی کے خزاں سمسٹرکے پروگرامز کی مشقیات جمع کرانے کی آخری تاریخ میں توسیع

Posted on

چترال (چترال ٹائمز رپورٹ ) علامہ اقبال اوپن یو نیورسٹی چترال ریجن کے ڈپٹی ریجنل ڈائیریکٹر رفیع اللہ کے دفتر سے جاری شدہ پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ خزاں 2017سمسٹر میں کتب کی ترسیل میں بعض تکنیکی وجوہات کی بنا پر تاخیر ہوئی جسکی وجہ سے طلباء وطالبات اپنی مشقیں بروقت جمع نہ کر سکے۔لہذا طلبہ کی سہولت کے لئے یونیورسٹی انتظامیہ نے خزاں سمسٹر 2017کے مشقیات جمع کرانے کی آخری تاریخ میں 20-04-2018تک توسیع کر دی ہے۔اور تمام طلباء و طالبات اپنے کورسز کی مشقیات 20-04-2018تک اپنے متعلقہ ٹیوٹر کو حوالہ کریں۔ اور تمام ٹیوٹرز کو بھی ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ 20اپریل تک طلباء و طالبات سے مشقیات وصول کریں۔ مذید معلومات کے لئے دفترکے نمبروں پر رابط کریں۔
AIOU 1

Posted in تازہ ترین, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged , , , ,
8374