Chitral Times

Apr 26, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

خودکشی: ذہنی مرض یا جرم . تحریر: دیدار علی شاہ

Posted on
شیئر کریں:

خودکشی : ذہنی مرض یا جرم – تحریر: دیدار علی شاہ

صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع چترال سے پروین (فرضی نام)گلگت بلتستان کے ضلع غذر سے نازیہ (فرضی نام) گلگت شہر سے عمران (فرضی نام) اور ہنزہ سے آفتاب(فرضی نام) نے ایک مہینے کے اندر خودکشی کی۔ان جوان سال بیٹا اور بیٹیوں کے جانے سے ان کے خاندان پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ ان میں سے دو نے دریا میں چلانگ لگا دی تھی اور دو نے گلے میں پھندا ڈال کر زندگی کا خاتمہ کیا۔ پھر یوں ہوا کہ ان چاروں کی لاش برآمد ہوئی، اور لاشوں کو پوسٹ مارٹم کے لیے بھجوائی گئی، ڈاکٹروں نے لکھ کر دیا کہ ان کی موت پانی میں ڈوبنے سے اور گلے میں پھندا کے دباو سے ہوئیں۔پھر خاندان اور گاوں کے کچھ لوگوں نے پولیس سے درخواست کی کہ لاش ان کے حوالے کیا جائے۔ کیوں کہ ان کے خاندان، گاوں اور علاقے کی عزت اور بدنامی کا مسئلہ ہے۔ اور ہاں پولیس کو قانونی طور پر قائل کرنے کے لئے یہ جھوٹی بات بتا دی کہ خودکشی کرنے والا ذہنی طور پر ٹھیک نہیں تھا۔ یہ تھے وہ قصے جو آج تک خود کشی کے کیسوں میں چترال اور گلگت بلتستان میں ہوتا رہا ہے۔

خودکشی کے عمل میں انسان اپنی جان لینے کی کوشش کرتا ہے۔ ہر معاشرہ اس پر مختلف رد عمل کا اظہار کرتا ہے کہیں اسے مذہبی، سماجی اوروعقلی طور پر غلط عمل سمجھا جاتا ہے۔ اور کہیں اسے حالات اور واقعات کے لحاظ سے درست بھی قرار دیا جاتا ہے۔

بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق چترال میں پچھلے دس سالوں میں خودکشی کے 175 واقعات درج کیے گئے۔ جن میں سے 106خواتین شامل تھیں۔اور گلگت بلتستان میں ہونے والے واقعے میں انڈپنڈنٹ اردو کی ایک رپورٹ کے مطابق 2018 سے2020 تک 70 واقعات رپورٹ کئے گئے ہے۔
خودکشی کے کیسوں میں اگر ہم پولیس کی نقطہ نظر کو جاننے کی کوشش کرے تو ان کے مطابق جب پولیس مکمل چھان بین کرنے کی کوشش کرے تو انھیں گاوں یا کمیو نٹی کی طرف سے دباو ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اور بعض دفعہ بات احتجاج تک پہنچتی ہے۔دوسری بات یہ ہے کی پولیس کو اس کیس میں گواہ اور شواہد نہیں ملتے اور کیس کمزور پڑتا ہے۔

پھر ہم نے گاوں یا علاقے کے زمہ داران سے اس حوالے سے جاننے کی کوشش کی تو ان کے مطابق گاوں یا علاقے کے لوگ ایک دوسرے کو جانتے ہے۔ اس لئے زیادہ تر خودکشی کے کیسوں میں قانونی کاروائی یا بدنامی کے خوف سے وہ سچ بتانے سے ڈرتے ہے۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کی رپورٹ کے مطابق عالمی سطح پر ہر چالیس سکینڈ میں ایک شخص خودکشی کرتا ہے۔ جس میں پندرہ سے اُنتیس سال کی عمر کے بچوں میں موت کی دوسری اہم وجہ ہے۔ اور ان میں سے 79فیصد واقعات غریب ممالک سے تعلق رکھنے والے خاندانوں میں پیش آتے ہے۔
پاکستان اور دنیا بھر کی ماہرین نفسیات کے مطابق معاشرہ تیزی سے بدل رہی ہے۔ اور اس تیزی سے بدلتی دنیا میں ٹیکنالوجی نے انسانی ضروریات کی زیادہ تر چیزوں کو ریپلیس کیاہے۔ جس سے نوجوانوں میں ذہنی دباوَ سے نمٹنے کی صلاحیت میں کمی اور دباو برداشت نہ کرنا اس نوعیت کے خیالات جنم لیتا ہے جس میں خودکشی سرفہرست ہے۔

ایکسپریس نیوز کے ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں خودکشی کا سب سے زیادہ رجحان گلگت بلتستان میں ضلع ہنزہ اور ضلع غذر میں ہیں۔ میرا نہیں خیال کہ ہنزہ اور غذر میں یہ رجحان سب سے زیادہ ہے۔ پورے پاکستان میں چترال کے علاوہ ایسے دوسرے ضلعے یا صوبہ ہونگے جہاں خودکشی زیادہ ہوتے ہونگے مگر بدنامی کی خاطر رپورٹ نہیں کرتے۔

گلگت بلتستان میں خودکشی کے واقعات کو جانچنے کی کوشش کرے تو ہمیں اس کے دو پہلو نظر آتے ہیں۔ پہلا عدم برداشت اور دوسری ذہنی بیماری۔ عدم برداشت کی وجہ معاشرے میں آپس کی تعلقات میں ناچاقی، رشتوں میں تنازعات، گھریلومعاملات میں نااتفاقی، افسردگی، کم اعتمادی، ظلم و جبر، بے جا تنقیدات، مایوسی، غصہ، جبری شادی، غربت و افلاس، بے روزگاری، محتاجی، مالی تنگی، قرضوں کا بوجھ، ذہنی و جسمانی تشدد اور تیزی سے بدلتی معاشرہ شامل ہے۔
دوسری وجہ یعنی ذہنی بیماری، کو سمجھنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ جس طرح سے انسانی جسم میں ہر اعضا کی مختلف بیماریاں ہے۔ ذہنی بیماری بھی اسی طرح ایک قسم ہے۔ اور قابل اعلاج ہے۔ َِ؟.

جس طرح جسمانی صحت کے لئے سہولیات موجود ہے۔ اسی طرح اب وقت کی ضرورت ہے کہ ذہنی صحت کے لئے بھی کام شروع کرے۔ اور ذہنی بیماریوں سے متعلق لوگوں میں شعور اجاگر کرنے کے لئے اقدامات کیا جائے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں ماہر نفسیات سے ملنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔یہی وقت ہے کہ ذہنی بیماری کو تسلیم کر کے علاج کو ممکن بنایا جا سکے۔

پاکستان کے دوسرے علاقوں کی بات کرے توپاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (پمز) کی رپورٹ کے مطابق وہاں پر روزانہ خودکشی کے اوسطاً پانچ واقعات رپورٹ ہوتے ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں اس سنگین مسئلے کو روکنا صرف حکومت یا ایک ادارے کا کام نہیں۔ بلکہ اس میں معاشرے کے تمام سٹیک ہولڈرز مل کر کام کرے۔

حکومت گلگت بلتستان ہر ضلعے میں کم از کم ایک ماہر نفسیات کی تقرری کو یقینی بنائے۔ اور ساتھ ساتھ ہر گاوں میں ذہنی صحت سے منسوب معاشرتی بدنامی کے ڈر اور خوف کو مٹانے کے لئے آگاہی مہم چلائے۔ اور ساتھ ساتھ اس مرض میں مبتلا افراد کی امداد کو بھی یقینی بنائے۔

گلگت بلتستان میں بڑھتی ہوئی خودکشی کے واقعات سے متعلق ابھی تک کوئی ریسرچ نہیں ہوسکا ہے۔ لہذا کسی ایسے ادارے جو مینٹل ہیلتھ سے متعلق عبور رکھتا ہو۔ سے ایک جامع تحقیق کرانے کی اشد ضرورت ہے۔جس سے ان واقعات میں کمی لانے پر کام کیا جاسکے۔اور ساتھ ساتھ خودکشی سے متعلق گلگت بلتستان کی حکومت ایک موثر تفتیشی نظام کے ساتھ قانون سازی کرے۔تا کہ قانون کے مطابق پولیس اپنی انوسٹگیشن پوری کرے۔ اور ان عوامل اور محرکات کا پتہ چل سکے جس کی وجہ سے خودکشی ہوئی۔ اور اسی عوامل اور محرکات کے زریعے آنے والے وقت میں خودکشی پر قابو پایا جاسکیں۔ تاکہ خاص کر خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کر کے خودکشی کے نام پر دفن کرنا بند ہوں

آج تک گلگت بلتستان اور چترال میں جتنے بھی خودکشی کے واقعات ہوئے ہیں۔ ان کے خاندان کے لئے یہ دردناک موت کو بھلاناممکن نہیں۔وہ آج بھی یہ جاننے کی کوشش میں ہے کہ ان کے بچوں نے اتنے بڑے اقدام پر کیوں مجبور ہوگئیں۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق 2015میں خودکشی کے ایک ہزار نو سو واقعات رپورٹ کئے گئے۔ اور دو سالوں میں یہ تعداد بڑھ کر تین ہزار پانچ سو تک جا پہنچی۔اور تقریباً 90فیصد واقعات ذہنی بیماری میں مبتلا افراد کی ہے۔ ہر خودکشی کی الگ الگ وجوہات ہوتی ہے۔لہذا ہر واقعے کو خودکشی قرار دینا ہر گز درست نہیں۔

خودکشی کو ختم کرنا ممکن نہیں اور آسان بھی نہیں اگر ایسا ہوتا تو ترقی یافتہ ممالک کب کے کر چکے ہوتے۔ اسی لئے جن کو آپ جانتے ہے اور پیار کرتے ہے۔ ان کا خیال رکھیں۔ اگر ان کی زندگی باہر سے ٹھیک دکھائی دے رہی ہے تو ہر گز اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کے نجی معاملات سب ٹھیک ہے۔ اسی لئے شعوری طور پر ایک دوسرے کا سہارا بنیں۔ اور اگر آپ کے جاننے والوں میں کسی کی مزاج، گفتگو اور حرکات میں اچانک تبدیلی محسوس کرے تو انھیں انزائٹی، ڈیپریشن یا کوئی اور ذہنی بیماری کی علامت ہوسکتا ہے۔ لہذا انھیں ڈاکٹر تک پہنچاکر زمہ دار اور ایک مہذب شہری ہونے کا ثبوت دے۔ ورنہ ان کا بھی انجام وہی ہوگا جن کا اوپر ذکر کرچکا ہوں۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, گلگت بلتستان, مضامینTagged
62437