Chitral Times

Apr 27, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

ماہ مبارک رمضان کی برکات ….تحریر سید جواد نقوی (تحریک بیداری امت مصطفٰی)

شیئر کریں:

ماہ مبارک رمضان تمام اہل اسلام و امت اسلامیہ کو تبریک و تہنیت عرض ہے۔ یہ ماہ عظیم، ماہ شریف، ماہ باکرامت، ماہ رحمت و برکت، اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے ایک نعمت کے طور پر مقرر فرمایا ہے تاکہ بندگان خدا اس ماہ میں اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہوکر اپنے مقصد خلقت، اپنی زندگی اور اپنی زندگی کے دیگر جملہ متعلق امور کے لیے خداوندتبارک وتعالیٰ سے عہد کریں اور اپنی زندگی کا مقصد مدنظر رکھیں اور اس مقصد کے حصول کے لیے سابقہ کوتاہی اور کمی جو گزشتہ سال کی رہ گئی ہے اس کی بابت پروردگار کی بارگاہ میں استغفار و توبہ کریں، آنے والے سال کے لیے خداوندتبارک سے عہد کریں اور اپنے فرائض و ذمہ داریاں جو انہیں اپنے پروردگار کی طرف سے سوپنی گئیں ہیں ان کے لیے پابندی کا عہد کریں۔

ماہ مبارک رمضان کوہم عموماً روزوں کا مہینہ کہتے ہیں اور اس کی شہرت و شناخت بھی روزے کے نام سے ہی ہے جبکہ قرآن کریم میں خداوندتبارک و تعالیٰ نے ماہ مبارک رمضان کو قرآن کے نام سے متعارف کروایا ہے۔قرآن کے متعلق شروع سے یہ شبہ ایجاد کیا گیا ہے کہ قرآن عام انسان کی سمجھ میں نہیں آتا ہے۔ بعض اوقات علماء اور بعض اوقات غیر علماء اس بات کا اظہار کردیتے ہیں، اس کے اظہار و عواقب اور نتائج کے طرف توجہ کیے بغیر کہ انسانوں اور مسلمانوں کے لیے ان جملوں کاکتنا غلط نتیجہ نکل سکتا ہے کہ جنہیں ہم یہ کہہ کر کے ناامید کردیں کہ قرآن کی سمجھ سے بالاتر ہے اور عام انسان کی سمجھ میں نہیں آتا۔ یہ غیر شعوری طور پر مقصد قرآن کریم و مقصد نزول کا انکار ہوجاتا ہے، انسان نادانستگی میں نعوذباللہ منکرِ مقصدیت قرآن ہوجاتا ہے کہ قرآن عام انسان کی سمجھ میں نہیں آتا۔

قرآن عام انسان کی ہدایت کے لیے نازل کیا گیا ہے اور عام انسان کے سمجھنے کے لیے لفظی قرآن کریم کی سطح رکھی گئی ہے اور عام انسان کے سمجھنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن کا اہتمام کیا ہے۔ عام آدمی سے مراد وہ لوگ جو تخصص نہیں رکھتے، جو بڑے اعلیٰ درجے کی مہارت نہیں رکھتے، جنہوں نے سالہاسال علوم میں صرف نہیں کیے بلکہ اپنے روز مرہ معمول کی گھریلوو کاروباری زندگی بسر کررہے ہیں اور دیگر پیشوں سے ان کا تعلق ہے جو معاشرے کے اندر متداول و رائج ہیں انہیں سے تعلق رکھتے ہوئے قرآن کریم سے اپنی سطح کی ہدایت بھی دریافت کرے، یہ عام آدمی ہے۔ اس کے مقابلے میں خاص آدمی وہ ہیں جنہوں نے باقی معمولات زندگی چھوڑ کر فقط علوم میں مہارت حاصل کی ہے اور ایک اعلیٰ علمی درجہ حاصل کیا ہے، جنہوں نے سالہاسال اپنی ساری عمر ملکات علمی، درجات علمی اور اسناد علمی حاصل کرنے میں وقف رکھی ہے۔

اگر ہم یہ کہیں کہ قرآن انہی کی سمجھ آتا ہے اور انہیں کے لیے اتارا گیا ہے تو قرآن کے نزول کی مقصدیت کا انکار ہے۔اسی طرح ایک اور شبہ جو بعض لوگوں نے قرآن کے بارے میں ایجا دکیا ہے وہ یہ کہ”قرآن کریم فقط انبیاء، آئمہ اور معصومین کو سمجھ میں آتا ہے، فقط ان کے لیے اتارا گیا ہے اور ان کے علاوہ باقی عام افراد، مرد و عورت کو سمجھ میں نہیں آتا“۔ بعض اوقات انسان معصومین کی تفضیل، عظمت یا تعریف کے لیے یہ جملہ کہہ دیتا ہے لیکن اس سے قرآن کی مقصدیت کا انکار ہوجاتا ہے قرآن کریم ناس(عام آدمی) کی ہدایت کے لیے ہے۔ ناس سے مراد عام آلناس یا عوام الناس عورت و مرد ہی مراد ہیں۔قرآن کریم کے مطالب و ہدایت کو سمجھنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اہتمام فرمایا ہے اور اس اہتمام کا ایک حصہ ماہ مبارک رمضان ہے۔

ماہ مبارک رمضان میں نزول قرآن کی کئی وجوہات ہیں جس کا ایک پہلو یہ ہے کہ ماہ مبارک رمضان میں اللہ تعالیٰ کی خصوصی عنایات ہیں چونکہ اسباب اللہ کے اختیار میں ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ان اسباب کو ایک نظم و نظام کی صورت میں مقرر فرمایا ہے۔بعض اوقات جس طرح ہم کچھ افراد کی مثال دے کر تصور کرتے ہیں کہ اپنی مرضی سے کام کرنا، مرضی سے کام کرنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کوئی ضابطہ، قاعدہ، اصول اور نظام و نظم نہیں ہے بلکہ جیسے جی میں آیا کردیا اگر کوئی کام اچھا لگا تو کردیا، اچھا نہ لگا تو رہنے دیایا یہی کام آج کردیا کل روک لیاکیونکہ آج جی میں آیا ہے یہ کیا جائے کل جی میں آیا یہ نہ کریں جیسے مخلوقات میں انسان یہ کام کرتے ہیں، ایک دن عبادت میں جی کرتا ہے کردیتے ہیں، کسی دن موڈ نہیں ہوتا تو چھوڑ دیتے ہیں، ایک دن مطالعہ کرتے ہیں، ایک دن مطالعہ چھوڑ دیتے ہیں جبکہ اللہ کے یہاں مشیّت کو اس طرح تفسیر نہیں کیا جاسکتا۔

اللہ کا ہر کام مشیّتِ الہٰی سے ہے لیکن مشیّت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جیسے انسانوں کے اندر ہے کہ جی چاہتا ہے تو کچھ کردیا، جی نہیں چاہا تو کچھ کرنا چھوڑ دیابلکہ اللہ تعالیٰ کے افعال، نظام اور اللہ تعالیٰ نے جو خلائق ایجاد کی ہیں خواہ وہ حصہ اللہ کی مخلوق میں کائنات ہویا اس کائنات کے اندر وہ مخلوق جو انسان کے نام پر اللہ تعالیٰ نے خلق فرمائی ہے، ہر دو کے لیے قوانین و ضوابط ہیں اور اس کے لیے نظام ہے اور وہ نظام چونکہ اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمایا ہے تو اللہ تعالیٰ کے جتنے بھی افعال و اعمال ہیں، وہ سب انہیں قوانین کے تحت ہوتے ہیں، وہ قوانین خود ہی اللہ تعالیٰ کے اعمال سمجھے جاتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
47554