Chitral Times

Apr 26, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

اخوت اوراسلام کی معاشی اقدار….ڈاکٹر ساجد خاکوانی(اسلام آباد،پاکستان)

شیئر کریں:

بسم اللہ الرحمن الرحیم

                اخوت ایک رشتہ کانام ہے،یہ لفظ عربی میں ”اخی“سے ماخوذہے جس کامطلب ”بھائی“ہے۔”بھائی“اگرچہ ایک رشتہ داری تعلق ہے لیکن یہ لفظ پیار سے مستعار ہے۔بھائی بھائی کا سانھجاہوتاہے،بھائی باہمی طور پر اپنے ماں باپ میں مشترک ہوتے ہیں،خاندان اور نسل میں مشترک ہوتے ہیں اور ایک ہی تاریخ،تہذیب و ثقافت اور ایک ہی طرح کی روایات کے وارث و امین ہوتے ہیں۔”اخوت“سے مرادایساماحول پیداکرنا جس میں سب لوگ ایک دوسرے کو اپنا بھائی سمجھنے لگیں۔دنیامیں بہت سے تعلق انسانوں کو جوڑنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں،مثلاََزبان،نسل،رنگ،علاقہ،تہذیب و تاریخ اور ملک و قوم وغیرہ وہ ناطے ہیں جو کوئی سے دوانسانوں کوکسی ایک لڑی میں پرو سکتے ہیں۔اسلام نے ان سب سے بالاتر ہوکر اور تمام تعصبات کے بت توڑ کر سب انسانوں کوایک عقیدے کے رشتے میں پروکر ایک تسبیح بنادیاہے۔اب پوری دنیاکے اہل ایمان اس عقیدے کے رشتے سے بھائی بن گئے ہیں اور نبی آخرالزماں علیہ السلام نے انہیں اس طرح کابھائی بنایاہے کہ سگے اور اصل بھائیوں کی محبت اس کے سامنے ماندپڑ کر چندھیاگئی ہے۔دنیاکی تمام زبانوں کے ادب میں مزکرکومخاطب کرکے مونث بھی مرادلیاجاتاہے،جیسے یہ جملہ کہ ”قانون توڑنے والے کو سزادی جائے گی“اس سے مرادصرف مردحضرات نہیں ہیں بلکہ خواتین بھی قانون شکنی کی مرتکب ہونے کی صورت میں سزا کی مستوجب ہوں گی۔اسی طرح عربی میں جب ”اخوت“کہاجاتاہے تواس سے مراد معاشرے میں موجودکل حضرات و خواتین کو بھائی چارے کے رشتے میں پروناہے جو کہ عین مقتضائے شریعت اسلامی ہے۔

                آپ ﷺ نے اپنے آخری خطبہ میں حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد ہونے کے ناطے سے سب انسانوں کو برابر قرار دیا۔اللہ تعالی نے انسانوں کی پہچان کے لیے ان کے قبائل بنائے جبکہ رنگ،نسل،علاقے،زبان اور ملک و قوم کا رشتہ مجبوری کارشتہ ہے،کیونکہ کوئی بھی شخص اپنی مرضی سے اپنے رنگ،نسل،علاقے،زبان اور ملک و قوم کا انتخاب نہیں کرتا،بلکہ فطرت وقدرت اسے جہاں چاہتی پیداکرتی ہے،تب صرف ایمان ایسا امر ہے جو اپنی مرضی سے انسان کو کسی برادری میں داخل ہونے کاباعث بنتاہے۔دنیابھرمیں کسی بھی قوم،ملک،علاقے یازبان وغیرہ کاحامل کوئی بھی شخص ایک کلمہ پڑھ کر امت مسلمہ کارکن ہوکراس عالمی اخوت و برادری کاحصہ بن سکتاہے۔آپ ﷺ نے کل مسلمانوں کو ایک جسم قرار دیااور فرمایا کہ جسم کاجب ایک حصہ بیمار ہو تو پورا جسم درداوربے خوابی کا شکار ہوجاتاہے۔تاسیس امت مسلمہ کے بعد سے سینکڑوں سال گزرگئے کل امت ایک رشتے میں پروئی ہوئی عالمی اخوت کی بہترین مثال پیش کررہی ہے۔قرآن مجیدکے مطابق:

 اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ فَاَصْلِحُوْا َبیْنَ اَخَوَیْکُمْ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ(۹۴:۰۱)

ترجمہ:”مومن تو ایک دوسرے کے بھائی ہیں،لہذااپنے بھائیوں کے درمیان تعلقات کو درست کرواوراللہ تعالی سے ڈرو،امیدہے کہ تم پر رحم کیاجائے گا۔“(49سورۃ الحجرات،آیت10)،

 یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا کَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّ لَا تَجَسَّسُوْا وَ لَا یَغْتَبْ بَّعْضُکُمْ بَعْضًا اَیُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنْ یَّاْکُلَ لَحْمَ اَخِیْہِ مَیْتًا فَکَرِہْتُمُوْہُ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ تَوَّابٌ رَّحِیْمٌ(۹۴:۲۱)

ترجمہ:”اے لوگوجوایمان لائے ہو، بہت گمان کرنے سے پرہیزکروکہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں،تجسس نہ کیاکرواور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے کیاتمہارے اندرکوئی ایساہے جو مرے ہوئے بھائی کاگوشت کھانا پسندکریگاَ؟؟دیکھوتم خود اس سے گھن کھاتے ہو،اللہ تعالی سے ڈرووہ بڑاتوبہ قبول کرنے والااور رحیم ہے۔“(49سورۃ حجرات آیت12)،

 وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا وَ اذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْ کُنْتُمْ أَعْدَآءً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖ اِخْوَانًا وَ کُنْتُمْ عَلَی شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَکُمْ مِّنْہَا کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمْ تَہْتَدُوْنَ(۳:۳۰۱)

                ”سب مل کراللہ تعالی کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لواور تفرقہ میں نہ پڑو۔اللہ تعالی کے اس احسان کو یاد رکھو جواس نے تم پرکیا،تم ایک دوسرے کے دشمن تھے اس نے تمہارے دل جوڑ دیے اور اس کے فضل و کرم سے تم بھائی بھائی گئے،تم آگ کے گڑھے کے کنارے پہنچ چکے تھے اللہ تعالی نے تمہیں بچالیا۔“(3سورۃ آل عمران آیت103)،

اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّ عُیُوْنٍ(۵۱:۵۴)اُدْخُلُوْہَا بِسَلٰمٍ اٰمِنِیْنَ(۵۱:۶۴) وَ نَزَعْنَا مَا فِیْ صُدُوْرِہِمْ مِّنْ غِلٍّ اِخْوَانًا عَلٰی سُرُرٍ مُّتَقٰبِلِیْنَ(۵۱:۷۴)

                ”بے شک متقی لوگ باغوں اور چشموں میں ہوں گے اور ان سے کہاجائے گاداخل ہوجاؤ امن و سلامتی کے ساتھ بے خوف و خطر،ان کے دلوں میں جو تھوڑی بہت کھوٹ کھپٹ ہوگی وہ ہم نکال دیں گے،وہ آپس میں بھائی بھائی بن کر آمنے سامنے تختوں پربیٹھیں گے۔“(15سورۃ حجرآیت47)،

 فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ  وَ یَسْءَلُوْنَکَ عَنِ الْیَتٰمٰی قُلْ اِصْلَاحٌ لَّہُمْ خَیْرٌ وَ اِنْ تُخَالِطُوْہُمْ فَاِخْوَانُکُمْ وَ اللّٰہُ یَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ وَ لَوْشَآءَ اللّٰہُ لَاَعْنَتَکُمْ اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ(۲:۰۲۲)

ترجمہ:”دنیااورآخرت (میں انجام) کے بارے میں لوگ آپ سے پوچھتے ہیں:یتیموں کے ساتھ کیامعاملہ کیاجائے؟؟کہ دیجئے جس طرزعمل میں ان کے لیے بلائی ہو وہی اختیارکرنا بہتر ہے،اگرتم اپنااور ان کاخرچ اور رہناسہنا مشترک رکھوتواس میں کوئی مضائقہ نہیں آخروہ تمہارے بھائی بندہی تو ہیں،برائی کرنے والے اور بھلائی کرنے والے دونوں کاحال اللہ تعالی پر روشن ہے۔“(2سورۃ البقرہ آیت220)،

 فَاِنْ تَابُوْا وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ فَاِخْوَانُکُمْ فِی الدِّیْنِ وَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ (۹:۱۱)ترجمہ:”پس اگروہ توبہ کرلیں اورنمازقائم کریں اور زکوۃ دیں توتمہارے دینی بھائی ہیں اورجاننے والوں کے لیے ہم اپنے دینی احکام واضع کیے دیتے ہیں۔“(9سورۃ توبہ آیت11)،

 وَ الَّذِیْنَ جَآءُ ْو مِنْ بَعْدِہِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا وَ لِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ وَ لَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلَّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَآ اِنَّکَ رَءُ وْفٌ رَّحِیْمٌ(۹۵:۰۱)

ترجمہ:”جو کہتے ہیں اے ہمارے رب ہمیں اور ہمارے ان بھائیوں کو بخش دے جو ہم سے پہلے ایمان لائے ہیں اور ہمارے دلوں میں اہل ایمان کے لیے کوئی بغض نہ رکنا اے ہمارے رب تو بڑا مہربان اور رحیم ہے۔“59سورۃ حشرآیت10

                آپ ﷺنے فرمایا ”المسلم اخوالمسلم لایظلمہ ولایحذلہ ولایحقرہ التقوی ھھناویسیر علی صدرہ ثلاث مراۃ یحسب امرء من الشران یحقراخاہ المسلم کل مسلم علی مسلم حرام دمہ ومالہ وعرضہ(رواہ مسلم)ترجمہ: ”مسلمان مسلمان کابھائی ہے،اس پرظلم نہیں کرتا،اس کو بے یارومددگارنہیں چھوڑتا،اسے حقیرنہیں جانتا،پھرآپﷺنے تین دفعہ اپنے سینہ مبارک کی طرف اشارہ کرکے فرمایاتقوی یہاں ہوتاہے،کسی شخص کے براہونے کے لیے اتناہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کوحقیرجانے،ہرمسلمان پردوسرے مسلمان کا خون،مال اورعزت حرام ہے“۔اسی طرح ایک اورموقع پر آپﷺنے فرمایا مثل المومنین فی توادھم وتراحمھم وتعاطفھم کمثل الجسداذااشتکی عضوتداعی لہ سائرجسدہ بالسہروالحمی(بخاری)ترجمہ:”ایمان والوں کی آپس کی محبت،رحم دلی اورشفقت کی مثال ایک جسم کی مانندہے کہ اگرجسم کاکوئی حصہ تکلیف میں مبتلاہوجاتاہے توپوراجسم اس کے ساتھ بے خوابی اوربخارمیں مبتلا ہوجاتاہے“۔آپ ﷺنے ہجرت مدینہ کے بعد باسیان شہرنبویﷺکو باہم اخوت کے رشتے میں پرودیا اور ”مواخات“کے عمل کے توسط سے انصارومہاجرین باہم بھائی بھائی بن گئے۔یہ اپنی مثال کاواحد عمرانی معاہدہ تھاجسے مورخ کے قلم نے قرطاس ارضی پررقم کیا۔ریاست مدینہ میں اس وقت کی آباد دنیاکے تقریباََہر رنگ و نسل اور علاقے کی نمائندگی موجود تھی اور سب مسلمان کسی بھی دیگر تعصب سے بالا تر ہو کرصرف رشتہ ایمانی کے باعث ایک دوسرے کو سگے بھائیوں سے بڑھ کر بھائی سمجھتے تھے اور ایک دوسرے پر جان چھڑکتے تھے۔

                یہ انسانی فطرت ہے کہ جتناقریبی رشتہ ہوگا انسان اتناہی اس کے لیے اپنی جیب کا منہ خوشی سے کھولے گا۔اولادانسان کو بہت عزیزہوتی ہے چنانچہ انسان اپنی آل و نسل پر بے دریغ خرچ کرتاچلاجاتاہے،اولاد کے بعد بہن بھائی انسان کو عزیزترہوتے ہیں اورپھردیگر اقراباء و رشتہ دارجن پر غمی و خوشی کے مواقع پر انسان دل کھول کرخرچ کرتاہے۔اسلام نے کل مسلمانوں کو باہمی طور پر اخوت کے رشتے میں پروکر اس بات کی آسانی پیداکردی ہے کہ وہ ایک دوسرے پر کھل کر خرچ کر سکیں۔جب کوئی کسی کو غیرسمجھے گا تو اس پر کیونکر خرچ کرے گا جبکہ اس کے مقابلے میں جب کوئی انجانا،اوپرااورپرایاشخص بھی سڑک کے کنارے پانی مانگ رہاہوگا اور سننے والا اسے ایمان کے رشتے سے اپنا بھائی گردانے گاتو لپک کر اپنے بھائی کی مددکرے گا،اسکے منہ میں پانی ٹپکائے گااور ضروری ہواتواسے شفاخانے تک بھی پہنچائے گااور اسکے دل میں یہ جذبہ موجزن ہوگا کہ اس نے اپنے بھائی کی مدد کی ہے۔بھائی بھائی کو بھوکا نہیں دیکھ سکتا،بھائی بھائی کو تنگ دست نہیں دیکھ سکتا،بھائی نہیں دیکھ سکتا کہ خود تو پیٹ بھرکے سوئے اور دوسرابھائی اور اسکے بچے بھوکے سو رہے ہوں،بھائی بھائی سے رشوت نہیں لے سکتا،بھائی بھائی سے سودنہیں لے سکتا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ بھائی بھائی کا استحصال نہیں

کرسکتا۔چنانچہ اخوت اسلامیہ کے باعث مسلمانوں کی معاشی حالت بھی سنبھلنے لگی۔دوسرے مسلمان کو اپنا بھائی سمجھنے کاہی جذبہ تھاجس نے ایک صحابی رسول کو خود بھولارہنے پرآمادہ کیااور اپنے مہمان مسلمان بھائی کو پیٹ بھرکر کھاناپیش کیا۔اس برادرانہ رویے پر قرآن مجیدنے کتناشاندارتبصرہ کیاکہ ”وَالَّذِیْنَ تَبَوَّؤُ الدَّارَ وَ الْاِیْمَانَ مِنْ قَبْلِہِمْ یُحِبُّوْنَ مَنْ ہَاجَرَ اِلَیْہِمْ وَ لَا یَجِدُوْنَ فِیْ صُدُوْرِہِمْ حَاجَۃً مِّمَّآ اُوْتُوْا وَ یُؤْثِرُوْنَ عَلٰی اَنْفُسِہِمْ وَ لَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُولٰٓءِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۹۵:۹)ترجمہ:”(مال فے)ان لوگوں کاحق ہے جوان مہاجرین کی آمدسے پہلے ہی ایمان لاکر یہاں (مدینہ)میں موجودتھے،یہ ان لوگوں سے محبت رکھتے ہیں جوہجرت کرکے ان کے پاس آئے ہیں اورجوکچھ بھی ان کودے دیاجائے اس کی کوئی حاجت تک یہ اپنے دلوں میں محسوس نہیں کرتے۔اوراپنی ذات پر وسروں کو ترجیح دیتے ہیں خواہ اپنی جگہ خود محتاج ہوں،حقیقت یہ ہے کہ جولوگ اپنے دل کی تنگی سے بچالیے گئے وہی فلاح پانے والے ہیں“۔

                مواخات مدینہ سے ماضی قریب تک اور حال تک بھی جب بھی امت کے کسی گروہ پر مشکل وقت آیاتو دوسرے گروہوں نے اپنی تجوریاں اپنے بھائیوں کے لیے کھول دیں اور انہیں ہر ممکن آسودگی کے وسائل مہیاکیے۔اسلامی اخوت کی شاندار مثالوں سے تاریخ کے صفحات بھرے پڑے ہیں جب معاش سے بڑھ کر اپنی جان بھی بھائی پرنچھاورکر دی۔ اخوت کاعنصر اسلامی معاشیات میں وہی کام کرتاہے جس طرح ایک جسم کے اندر روح کارفرماہوتی ہے۔کانٹا کابل میں چبھتاہے اور ہندوستان کاہر پیروجوان بے تاب ہوتاہے،زلزلہ کشمیرمیں آتا ہے اور پوری دنیاکے مسلمان عام طور پراورپاکستان کے مسلمان خاص طورپراپنی جیبیں خالی کرنے لگتے ہیں،حادثے کے باعث ٹرینیں پہروں تک جنگلوں میں رکی رہتی ہیں اور جب شہری اسٹیشنوں پر پہنچتی ہیں تو لوگ کھانوں کی دیگیں اور بچوں کے لیے دودھ کے بھرے ہوئے ڈبے لیے کھڑے ہوتے ہیں اور مفت تقسیم کرتے ہیں اور لینے والے کے مشکور بھی ہوتے ہیں اور رمضان تو اخوت کے معاشی پہلوسے سارامہینہ بھرارہتاہے کہ مساجد میں ہر خواص وعام کے لیے دسترخوان منتظر رحمت رہتے ہیں۔اخوت کاجذبہ اسلامی دل میں گھرکرلے توکوئی مسلمان دوسرے انسان کے ساتھ جھوٹ،دھوکہ،فریب،ملاوٹ،رشوت اورجوئے میں لوٹنے کاسوچ بھی نہیں سکتا اور سودکامعاملہ تو اس رشتے کے تقدس سے دورکاواسطہ بھی نہیں رکھتا۔مسلمانوں کے زوال کے بعد جب سیکولرازم نے عروج حاصل کیاتو سرمایادارانہ ذہنیت نے”بھائی“کے رشتے کو”گاہک“میں تبدیل کردیا۔پس جب اخوت کاتقدس درمیان سے ہٹ گیاتوسیکولرازم نے انسان کو اُولٰٓءِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ہُمْ اَضَلٌّ َ(۷:۹۷۱) ترجمہ:”وہ جانور ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے“بنادیا۔گزشتہ تین سوسالوں سے عالم انسانیت پر مسلط سیکولرازم نے بڑی قوموں کوسکھایاکہ کس طرح لوٹ مار،بے ایمانی،دغابازی،کسادبازاری اورکرنسی کے مصنوعی مقابلے سے چھوٹی قوموں کو غلام بناکراورانہیں قرض کے ذریعے سودکی بیڑیوں میں جکڑکران کی گردنوں میں معاشی غلامی کی زنجیریں ڈالنی ہیں۔چنانچہ سیکولرازم دراصل لہوپی کر تعلیم مساوات دینے والا نظریہ ہے،الامان والحفیظ۔

drsajidkhakwani@gmail.com


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
44471