Chitral Times

Mar 19, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

اُسامہ احمد وڑائچ شہید………..میر سیما آمان

Posted on
شیئر کریں:

osama DC Chitral forever
ایک وقت تھا جب لفظ ’’اُسامہ ‘‘ لوگوں کے لئے دہشت اور خوف کی علامت ہوا کرتی تھی۔اسے سنتے ہی ہر ذہن میں پہلا تاثر امریکہ تو دوسرا طالبان کا اُبھرتا تھا۔لیکن اکتوبر ۲۰۱۵میں چترال میں تعینات ہونے والے ڈپٹی کمشنر اُسامہ احمد وڑائچ نے ’’اُسامہ ‘‘ نام کی تاریخ ہی بدل ڈالی۔نہ صرف نام بلکہ اُنھوں نے ایڈمنسٹریشن کے مُردہ جسم میں ایسی روح ڈال دی جو چترال کے باسیوں کے لئے ایک خواب ہی بن چکا تھا۔تاریخ گواہ ہے کہ عرصہ دراز سے چترال کی سرزمین نے ایڈمنسٹریشن کے نام پر محض شان و شوکت سے پھرنے والے افیسرز دیکھے۔سائرن بجاتے ہوئے گاڑیاں دیکھیں۔ ’’کام ‘‘ کو نیلی پیلی فائلوں میں مُقید اگلے سے اگلے سالوں کے نام پر درازوں میں بند پایا تو سرکاری مُلازم کے نام پر دفتروں میں اُنگھتے ہوئے کام چور ہی دیکھے۔جہاں ایک طرف رشوت خوری کا بازار گرم تو دوسری طرف تجاوزات کے ملبے تلے بے جان سڑکیں بھی آہ فغاں کا منظر پیش کر رہی تھیں۔پچھلے کئی سالوں سے چترال قدرتی آفات میں مُبتلا رہا۔۔امداد کے نام پر آنیوالی کڑوڑوں چیکس غلط ہاتھوں میں گئے۔۹۰ فیصدمُتا ثرین خالی دامن ہی رہے،کیونکہ انتظامیہ میں بیٹھے ہوئے چھوٹے بڑے چور اپنا ہی پیٹ بھرتے رہے۔ایسے حالات میں اُسامہ احمد وڑائچ کی صورت میں پہلی بار عوام کو ایک نجات دہندہ کی صورت نظر آئی۔چترال تعینات ہوتے ہی سب سے پہلے اُنھوں نے تجاوزات کے خلاف بھر پور اپریشن کیا۔پھر زلزلہ ذدگان کے نام پر جب امدادی چیک آئے تو اُسامہ شہید نے نہایت دیانت داری سے متاثرین میں تقسیم کرنے کی حتیٰ المقدور اپنی کوشش کی۔بطور ڈپٹی کمشنر ہر طرح کی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھانے کے ساتھ ساتھ چترالی عوام سے اپنی بے پناہ محبت کا ثبوت دیتے ہوئے نوجوانوں کے لئے کیرئر اکیڈمی بنائی۔جب انھوں نے یہ محسوس کیا کہ چترال میں بچوں کے لئے کوئی تفریحی مُقام نہیں تو اپنی ذاتی کوششوں سے اپنے دوست احباب سے فنڈ اکھٹا کرکے محض ۴۵ دن کے قلیل مُدت میں عوام کو ڈی سی پارک کا تحفہ دیا۔یہ باتیں کہنے میں شائد کچھ لوگوں کو بہت چھوٹی لگیں گی لیکن ان تمام عوامل کے پیچھے چھپے اُس خلوص اور لگن پر اگر غور کیا جائے تو احساس ہوتا ہے کہ اُسامہ احمد وڑائچ کتنے عظیم شخصیت تھے۔ ایک سابق چیف سیکرٹری کا یہ کہنا ہے کہ جو بات سینکڑوں لیکچرز سے نہیں سمجھائی جاسکتی وہ اُسامہ نے چترال میں اپنی ۱۴ ماہ کی سروس سے سمجھادیا تھا۔اور نہ صرف چترال دوران مُلازمت جہاں بھی گئے اپنی انھی خوبیوں کی وجہ سے چھا گئے۔
اُسامہ وڑائچ سچ میں ایک مردِ آہن تھے وہ پشاور جیسے بھتہ خوروں کے شہر میں آئے تو کہیں طرم خانوں کو اپنے ہتھیار پست کرنے پڑگئے۔وہ نہ دھمکیوں سے ڈرتے تھے نہ بندوق سے نہ ہی ’’کُرسی ‘‘ چھن جانے سے ڈرتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ ۷سال کی ملازمت میں وہ جہاں بھی گئے مظبوط پہاڑ کی طرح ڈٹے رہے اور باطل کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا۔میں یہ نہیں کہتی کہ اُسامہ شہید کوئی فرشتہ تھے ۔بے شک وہ انسان ہی تھے مگر ایسے انسان جو صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔’’محنت میں عظمت‘‘کا جملہ تو ہم ہمیشہ ہی سنتے آئے ہیں لیکن شہید اُسامہ کا کردار اس جُملے کی صحیح اور مکمل تشریح ہیں۔
آج طیارہ حادثے کو دو برس مکمل ہوگئے۔ لیکن چترال میں اُن کا نام روذِ اول کی طرح روشن ہے،چترال کی عوام کا اُن سے محبت اس بات کا ثبوت ہے کہ نیکی اور حق پر ڈٹے رہنا کبھی رایئگاں نہیں جاتیں۔سچ تو یہ ہے کہ اُسامہ شہید ایک شخصیت یا ایک نام نہیں وہ ایک ادارے کی حیثیت رکھتے ہیں۔اُن پر جتنی بھی بات کی جائے کم ہے۔وہ نو جوانوں کے لئے مشعل راہ ہیں۔
اس وقت چترال میں موجود اُسامہ احمد اکیڈمی اُن کے نام ہی کی طرح جگمگا رہی ہے،اکیڈمی کے کئی طالب علم ملک کے بڑے تعلیمی اداروں ،ا نجینئرنگ اور میڈیکل کے اداروں میں پہنچ چکے ہیں ، علاقے میں علم کی روشنی پھیلانے کے ساتھ ساتھ ادارہ مختلف مُثبت سرگر میوں میں بھر پور حصہ لے رہا ہے۔کہیں مُستحق بچوں کو وظیفے دینے کے ساتھ ساتھ طالبات میں انعامات کی تقسیم سے حوصلہ افزائی پیداکی جا رہی ہے تو دوسری طرف منفی سرگرمیوں کی روک تھام خود کُشی اور منشیات وغیرہ کے خلاف آگاہی مہم اور سیمنارز اور مختلف علمی مُقابلے منعقد کر کے ادارہ پورے چترال میں اپنی ایک مظبوط اور قابل فخر ساکھ بنا چکاہے۔جسکا کریڈٹ یقیناً اکیڈمی کے تمام سٹاف اور کو ارڈینٹرزکو جاتا ہے جو نہایت احسن طریقے سے اُسامہ شہید کے نیک مقصد کو اگے بڑھائے ہوئے ہیں اور اُسامہ شہید سے اپنی محبت کا ثبوت دے رہے ہیں۔
میں موجودہ انتظامیہ سے ا ور ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن کے تمام حکام سے اس بات کی اپیل کرونگی کہ وہ اس اکیڈمی کو مزید ترقی دینے میں اسی طرح اپنا کردار ادا کرتے رہیں۔اور جہاں کہیں اکیڈمی کو کسی بھی قسم کی مُشکلات کا سامنا ہو توانتظامیہ انکا بھر پور دفاع کریں۔اسکے علاوہ ڈی سی پارک کے حوالے سے بھی میں انتظامیہ سے اپیل کرونگی کہ اس پارک میں خواتین اور مردوں کے لئے براہِ مہربانی الگ الگ ٹائمنگ رکھی جا ئیں۔کیونکہ ہم عوام یہ بلکل نہیں چاہتے کہ اُسامہ جیسے اُجلے اور شفاف کردار کے نام پر بنا گیا پارک کبھی بھی خدا نخواستہ کسی بھی قسم کے کسی نا خوشگوار واقعے یا کسی نا ذیبا الزام کے ذِد میں بھی آئے۔لہذا براہِ مہربانی پارک کی چار دیواری اور خواتین و حضرات کے لئے الگ الگ اوقات رکھنے کی تجویز پر توجہ دی جائے۔۔
باقی میں عوام سے اتنا ہی کہونگی کہ کوشش کریں کہ ہر بات میں حکومت کو ہی بدنام کرنے کے بجائے جس کُرسی ،جس ادارے اور جو اختیارات آپکو دیے گئے ہیں انکی خود بھی کچھ ’’عزت ‘‘‘ رکھ لیں۔۔وہی عزت جو ۲۴ سال کی عمر میں سی ایس ایس پاس کرنے والے کم سِن اُسامہ احمد وڑائچ نے رکھی۔سُننے میں آتا ہے کہ اُسامہ اپنے دوست احباب کے درمیان اکثر مذاق میں خود کو’’’ GOD GIFTED‘‘‘ کہا کرتے تھے۔آج اُن کے اعلیٰ کردار نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ عوام کے لئے اﷲ کی طرف سے واقعی ایک تحفہ تھے۔
اللہ تعالیٰ اسامہ شہید سمیت تمام شہدا حویلیاں کی درجات کو بلنداور جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔آمین!


شیئر کریں: