Chitral Times

تبدیلی کے تین سال – فکروخیال ۔ فرہاد خان

تبدیلی کے تین سال – فکروخیال ۔ فرہاد خان


بائیس سال کی جہدوجہد ،جلسے جلوسون، بلند بانگ تقاریر اور دعووں کے بعد بلاآخر خان صاحب سادہ اکثریت کے ساتھ انتخابات جیت کر وزیراعظم کے عہدے پر براجمان ہوچکے تھے ۔اسمبلی سے اپنی پہلی تقریر میں حکومت کے نوے دن کے پلان کا اعلان کرتے ہوئے پوری کابینہ کو اس مشن کی کامیابی کا ٹاسک دے دیا تھا اور خود بھی کام پر لگ گئے تھے۔معاملات آگے بڑھ رہے تھے اور یہ نوے دن نہیں بلکہ پورے تین سال بعد کے ایک خوبصورت دن کا آغاز تھا ۔چونکہ سوئس بینک میں پڑے زرداری کے اربون ڈالر وزیراعظم کے ایک کال پر دوسرے ہی دن پاکستان پہنچ چکے تھے،

نواز شریف ،شہباز شریف اور دوسرے ملزمان سے اربون ڈالر کی مالیت کے رقوم کی نیب کے زریعے ریکوری عمل میں لائی گئی تھی اس لئے ائی۔ایم۔ایف کا کشکول بقایاجات سمیت واپس کرنے فواد چودھری امریکہ یاترا پر تھے۔ جبکہ لٹیرون ،چورون اور بدعنوان افراد کو شہر شہر اور گلی گلی لٹکایا گیا تھا ۔ شہر شہر قریہ قریہ لوگ ان کے عبرتناک مناظر پر کان پکڑ کر توبہ کررہے تھے۔ ملکی خزانہ وصول کئے جانے والے رقوم سے بھرا پڑا تھا۔پٹرول کی قیمت بڑھانے والے ملک دشمن عناصر سے چھٹکارا مل گیا تھا،زخیرہ اندوزی کرنے والے افراد معافی مانگنے کے بعد سدھر گئے تھے۔چونکہ خان کے پاس معاشی ماہرین کی قابل ترین ٹیم موجود تھی اس لئے انہوں نے تین سال کے قلیل عرصے میں برسون سے ملکی زمیں بوس معیشت کو آسمان پر اُٹھا لیا اور یون ملکی معیشت تاریخ کی مستحکم ترین معشت بن گئی۔

نتیجتا اشیا خوردنی کی قیمتین انتہائی کم ہوگئیں۔ پٹرول کی قیمت وزیراعظم کی تقاریر کے مطابق چالیس روپے مقرر کی گئی تھی اور ملک خوشحالی کی جانب گامزن تھا۔اسی اثنا لندن میں ایون فیلڈ کے بنگلے ،متحدہ عرب امارات میں موجود لیگی و پیپلزپارٹی کے سیاستدانون کے گھر،پنجاب اور سندھ میں بلاول ہاوسز،جاتی امرا اور رائیونڈ میں نواز شہہاز کے قلعہ نما گھر جائیداد بھی نیلام کردیئے گئے۔ اسلام اباد میں موجود وزیراعظم ہاوس کو جدید یونیورسٹی میں بدل دیا گیا تھا اور صوبائی دارالحکومتون میں قائم گورنر ہاوسز بھی پبلک مقامات بن چُکے تھے اس لئے شہریون کی خوشی دیدنی تھی۔

ہر طرف انصانی حکومت کی شہرت کے شادیانے بج رہے تھے ۔ ملکی خزانہ بھر جانے کی وجہ سے چونکہ ترقی کا آغاز ہوچکا تھا اس لئے بیرون ملک کام کرنے والے ہمارے سارے پاکستانی بھائی وہان کی نوکری چھوڑ کر پاکستان پہنچنا شروغ ہوگئے تھے۔ ایک کروڑ لوگون کو ملک میں ہی نوکریان ملک گئی تھیں ۔زرعی و صنعتی انقلابی اقدامات کی وجہ سے ملک زرعی و صنعتی لحاظ سے خود کفیل ہونے کے ساتھ ساتھ درامدات و برامدات میں توازن کی وجہ سے پاکستانی روپے کی قدر میں حیران کن طور پر اضافہ جبکہ امریکی ڈالر اپنی قدر کھونے کے ساتھ ساتھ ملک چھوڑ کر جانے کا سوچ رہا تھا اور ائی ایم ایف و عالمی بینک والے ہمارے انقلابی اقدامات سے حیران تھے۔ہمارے وزیراعظم کی اصول پسندی اور موروثی سیاست سے نفرت کا عالم یہ تھا کہ پائے کے سیاستدان جن میں شیخ رشید سرفہرست تھے کو چپڑاسی کی نوکری بھی نہیں مل رہی تھی ۔اور اس جسیے بہت سے جید سیاستدان بیروزگار پھررہےتھے۔

پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو چوہدری پرویزالٰہی اپنے بڑے بھائی چوہدری شجاعت و اہل و عیال سمیت جیل میں مقیم تھے۔ جبکہ انصاف کا یہ عالم تھا کہ عدالتون میں زیرالتوا لاکھون غریبون کے مقدمات میں انہیں انصاف ملنا شروغ ہوچکا تھا اور ظلم و جبر پیسے اور طاقت کے بل بوتے پر عدالت پر اثرانداز ہونے والون کو نشان عبرت بنایا جارہا تھا۔ قانون کی پاسداری کا عالم یہ تھا کہ تین بار ملک کے وزیراعظم رہنے والے نواز شریف کی علاج واسطے لندن جانے کی درخواست و التجا یکسر مسترد ہونے پر وہ اڈیالہ جیل میں عام قیدیون جیسی زندگی گزارنے پر مجبور تھا۔ملک میں قاتم فرسودہ پنچائیت کے فیصلون پر مکمل پابندی کے ساتھ ساتھ وڈیرون،چوہدریون ،نوابون اور خانون کے ظلم سے عام لوگون کو خلاصی مل چکی تھی۔

بھٹو بینظیر زرداری و بلاول ، نواز شہباز ،مریم ،حمزہ یہ سارے نام قصہ پارینہ بن چکے تھے اور انہیں جلسون کے لئے عوام تو کیا اپنے کارکن بھی نہیں مل رہے تھے۔جبکہ اپنا پاکستان کے تحت پچاس لاکھ گھر بنا کر غریبون میں تقسیم کرکے غربت کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکنے کی شروعات ہوچکی تھی۔یون ریاست مدینہ کی طرح کا ایک بہترین ریاست پروان چڑھ رہا تھا جس کی گواہی ملک کے تقریبا سبھی میڈیا چینلز، اخبارات ، اور سوشل میڈیا کے صارفین دے رہے تھے جبکہ غیرملکی میڈیا میں بھی ہمارے کپتان اور اس کے قابل ترین وزرا و مشیران کی بہترین کارکردگی کا چرچا تھا اور ہر ملک میں ان کی مثالیں دی جانے لگی تھیں ۔دل بہت خوش تھا۔باغ باغ تھا ۔کسی قسم کی کوئی پریشانی نہیں تھی۔ پیرس و سوئزرلینڈ کی طرح ملک ترقی کی منزلیں طے کررہاتھا اور ہم خان کے گُن گانے میں مصروف تھے کہ اتنے میں کان کے قریب کسی نے آواز دی کہ پاپا اُٹھئیے گا صبح ہوگئی ہے آپ نے آفس نہیں جانا ؟۔ میں چونک کر اُٹھا تو بیٹی سرہانے پر کھڑی پکار رہی تھی اور یہ سب کچھ خواب تھا ایسا سنہرا خواب جس کے بارے ہم خان کے کنٹینر میں جلسے جلوسون میں سنتے سنتے اتنے عادی ہوچکے تھےکہ دماغ میں سرایت کرگئی تھی۔

سر پکڑ کر گھر میں داخل ہوا تو ایک چینل پر سرکار کے قابل ترین وزرا و مشیران قوم کو شہاز شریف کی کرپشن کے قصے سنارہے تھے اور ساتھ ہی ساتھ یہ امید دلارہے تھے کہ جلد نواز و شہباز ،زرداری و دیگر بد عنوان لوگون کی چوری قوم کے سامنے لائی جائیگی اور بہت جلد یہ جیل میں ہونگے۔جبکہ دوسرے چینل پر پٹرولیم مصنوعات میں مذید اضافے کی خوشخبری کے ساتھ ساتھ اشیاخوردنی کے دام بڑھ جانے کی نوید سنائی جارہی تھی جبکہ ہم سہانے خواب سے جگانے پر بہت نالان تھے ۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
53540

داد بیداد ۔والنٹیر اور کاروباری قرضہ ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

صحا فیوں اور کا لم نویسوں کو ہر روز کسی نہ کسی کی ایسی کا ل آتی ہے جس میں و النٹیر کی تنخوا کے بارے میں شکا یت ہوتی ہے نو جوا ن کا باپ، چچا یا بھا ئی شکا یت کر تا ہے کہ نو جوان نے ڈبل ایم اے کیا ہے بی ایڈ اور ایم ایڈ بھی ہے چا ر مہینوں سے والنٹیر بھر تی ہوا ہے انٹر ویو میں فر سٹ آیا تھا اب تک ایک بھی تنخوا نہیں ملی ہم پریشان ہیں تنخوا کب ملیگی؟ نو کری کب پکی ہو گی؟ کا لم نویس جواب دیتا ہے اس جوان سے پو چھیں والنٹیرکس کو کہتے ہیں اگر معنی نہیں آتے تو انگریزی سے اردو میں ترجمہ والی کوئی لغت کھول کر دیکھیں نو جوان کو معلوم ہوگا کہ والنٹیر مفت کا م کر نے والے کو کہتے ہیں اس کا اردو مترا دف رضا کار ہے رضا کار وہ جوان ہوتا ہے جو اپنی خو شی سے مفت کا م کرنے کے لئے آگے بڑھتا ہے اور راضی ہو کر مفت کا م کر تا ہے یہ کا م مستقل ہے مگر تنخوا ہ کے بغیر ہے .

اگر کسی افیسر نے نو جوان کا انٹر ویو لیا اور نمبر دیدیے تو اس نے غلطی کی ہے رضا کار کا کوئی انٹر ویو نہیں ہوتا وہ رضا کار ہے اور بس لیکن یہ بات کسی ایک کی سمجھ میں بھی نہیں آتی اگر دو چار بندے ما یوس ہو کر فون کر نا چھوڑ دیتے ہیں تو دو چار ایسے بندے فو ن کر تے ہیں جو ما یو س نہیں ہوئے پہاڑی علا قے سے تعلق رکھنے والا ایک شہری کہتا ہے کہ میں نے اپنی بیٹی کو دو بچوں کے ساتھ گاڑی میں بٹھا کر 80کلو میٹر کے فاصلے سے انٹر ویو کے لئے لا یا تھا سکول میں پڑھا نے کے لئے روز انہ 4کلو میٹر سفر کر تی ہے ہم بڑے خو ش تھے کہ والنٹیربھر تی ہو گئی اب تنخوا ہ کے بغیر کیسے ڈیو ٹی کر یگی؟ ہم نے معزز شہری کو سمجھا یا کہ آپ کو انگریزی زبان کی وجہ سے مغا لطہ ہو ا ہے آپ کی بیٹی کو پتہ ہے کہ والنٹیر مفت کا م کر تی ہے مفت کا م کے لئے 80کلو میٹر پہاڑی راستوں پر سفر کرکے انٹر ویو دینا بھی غلط تھا روزانہ 4کلو میٹر سفر کر کے سکول جا نا بھی دا نش مندی نہیں مگر کس کس کو یہ بات سمجھا ئی جا ئے اور کیسے سمجھا ئی جا ئے دو سال پہلے ٹائیگر کی بات آگئی تھی.

جو انوں نے جو ق در جوق ٹائیگر بننا قبول کیا والدین کو مبا رک باد کے پیغا مات مو صو ل ہوئے بعض نے دوستوں کو مٹھا ئی بھی کھلا ئی بعض نو جوانوں کے رشتے اس بنیا د پر طے ہوئے کہ ٹائیگر فوس میں بھر تی ہوا ہے نکا ح اور رخصتی کے بعد معلوم ہوا کہ ٹائیگر فورس کی کوئی تنخوا ہ، الا ونس، وغیرہ نہیں ہے اب اس کے والدین خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس بہا نے سے بیٹے کی شادی ہو گئی روزی دینا اللہ تعا لیٰ کا کا م ہے ویسے بھی دے دیگا یہاں بھی انگریزی زبان آڑے آگئی تھی دیہا تیوں کو پتہ نہیں تھا کہ ٹائیگر فورس رضا کار تنظیم ہے، مجا ہد فورس یا فرنٹیر فورس یا رینجر فورس کی طرح تنخوا ہ اور پنشن والی نو کری نہیں یہی حال ”سٹارٹ اپ“ کا ہے نو جوانوں کو کاروبار اور روزگار کے لئے آسان شرائط پر حکومت جو قرضے دے رہی ہے اس کا نا م ”سٹارٹ اپ“ رکھا گیا ہے

دیہاتی لو گوں کو پتہ ہی نہیں کہ سٹارٹ اپ کیا ہے یہی حال اکنا مک زون اور ما ربل سٹی کا ہے حکومت کہتی ہے اکنا مک زون بنے گا، ما ربل سٹی بنے گی عوام حیران ہیں کہ یہ کس جا نور کے نا م ہیں؟ پلا ٹ لینے کے لئے کرا چی اور ملتا ن سے لو گ آتے ہیں مقا می لو گ پلا ٹوں سے بے خبر ہیں سوال یہ ہے کہ حکومت جا ن بوجھ کر بے چا رے عوام پر انگریزی کا بوجھ ڈال رہی ہے یا حکومت کو اس بات کا علم نہیں کہ ہمارے دیہات میں والنٹیر کو ملا زم سمجھا جا تا ہے ٹائیگر فورس کو فو جی ملا زمت قرار دیا جا تا ہے اگر حکومت کے علم میں یہ بات لا ئی گئی تو عوام کے مفاد میں انگریزی نا موں کے اردو تر جمے رائج کریگی اردو نا موں کو لوگ پہچانینگے رضا کار تنخوا نہیں ما نگے گا ٹائیگر فورس والا پہلی فرصت میں روز گار تلا ش کرے گا اور سٹارٹ اپ کی جگہ اردو میں کاروباری قرضہ لکھا گیا تو نو جوانوں کی بڑی تعداد اس سہو لت سے فائدہ اٹھائیگی۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
53538

معمولات نبویﷺ ۔ ( ماہ ربیع الاول کے حوالے سے خصوصی تحریر ) ۔ ڈاکٹر ساجد خاکوانی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

معمولات نبوی ﷺ

 (ماہ ربیع الاول کے حوالے سے خصوصی تحریر)

ڈاکٹر ساجد خاکوانی

                محسن انسانیت ﷺ کا معمول مبارک تھا کہ رات گئے بیدارہوتے تھے،وضو فرماتے اور پھر تہجد کی نماز کے لیے کھڑے ہوجاتے۔آپ ﷺ کی تہجد کی نماز بہت طویل ہوا کرتی تھی۔قیام کی حالت میں بہت لمبی تلاوت فرماتے تھے اور رکوع و سجود بھی بہت طویل ہواکرتے تھے۔کچھ صحابہ کرام نے آپ ﷺ کے ساتھ تہجد کی نماز میں شریک ہونے کی کوشش کی لیکن ان کے لیے ممکن نہ رہا۔حضرت عائشہ ؓ  فرماتی ہیں کہ آپ ﷺ اتنا طویل قیام فرماتے تھے کہ پاؤں مبارک سوج جاتے اور پنڈلیوں میں ورم آجاتا۔جب سجدہ کرنا مقصود ہوتا تو حجرہ مبارک میں اتنی جگہ نہ ہوتی کہ سجدہ کر سکتے۔حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ سجدہ کرنے کے لیے آپ ﷺ میری ٹانگوں پر اپنا ہاتھ مارتے میں اپنے پاؤں اکٹھے کرتی تو اس جگہ پر آپ ﷺ سجدہ فرماتے تھے۔اس بات سے حجرہ مبارک کی لمبائی چوڑائی کااندازہ کیا جاسکتا ہے جبکہ اونچائی اتنی تھی کہ لمبے قد کاآدمی کھڑاہوجائے تو کھجورکے پتوں سے لیپی ہوئی چھت سے اسکاسرٹکراجائے۔تہجد کی نمازمکمل ہونے پر حضرت بلالؓ کی آذان بلند ہوجاتی،تب آپ ﷺ فجر کی دورکعتیں اداکرتے جنہیں امت فجر کی سنتوں کے نام سے جانتی ہے،پہلی رکعت میں سورۃ کافرون اور دوسری میں سورۃ اخلاص تلاوت فرماتے،یہ مختصررکعتیں ہوتی تھیں۔اسکے بعد آپ ﷺ تہجد کی تھکاوٹ کے باعث سستانے کے لیے لیٹ جاتے  اور مسلمان بھی اتنی دیر میں مسجد میں جمع ہوچکتے۔تب آپ ﷺ نمازپڑھانے کے لیے مسجد میں تشریف لے جاتے اور فجر کی طویل قرات والے دو فرائض پڑھاتے اور پھر مسلمانوں کی طرف چہرہ انور کر کے بیٹھ جاتے۔کوئی خواب دیکھاہوتا تومسلمانوں کو سناتے اور اگر مسلمانوں میں سے کسی نے خواب دیکھاہوتا تو سن کر اسکی تعبیر دیتے۔بعض اوقات فجر کے بعد دیگر امور پر بھی گفتگو فرماتے اورانہیں جملہ ہدایات دیتے  اس بہانے مسلمانوں کی تعلیم کاانتظام بھی ہوجاتاجبکہ خواتین بھی موجود ہوتی تھیں۔

                فجر کے بعد سوناآپ ﷺ کو بے حد ناپسند تھا۔یہ بہت برکت والاوقت ہوتا ہے جسے ذکروفکرمیں گزارناچاہیے۔قرآن مجید نے بھی فجرکے وقت  تلاوت کی ترغیب دی ہے۔عشراق اور چاشت کے نوافل بھی آپ ﷺکے معمولات کاحصہ تھے لیکن یہ نوافل بہت چھوٹے چھوٹے ہوتے تھے۔آپ ﷺ کی عادت مبارکہ تھی کہ رات کے نوافل لمبے لمبے اداکرتے اور دن کے نوافل کو بہت مختصر کر کے تو ختم کردیتے۔فجرسے ظہر تک کاوقت زیادہ تر مسجد کے باہر گزارتے تھے جبکہ آپ ﷺکے صحابہ کرام نے اپنی تعداد کے دو حصے کیے ہوتے تھے،ایک حصہ فجر سے ظہر تک آپ ﷺ کے ساتھ رہتا اور دوسرا حصہ کاروبار دنیا میں مشغول ہوتاجبکہ ظہر بعد پہلا حصہ دنیامیں مشغول ہوجاتااور دوسرے حصے کے اصحاب صحبت نبوی ﷺ سے فیض یاب ہوتے تھے۔اس دوران بعض اوقات بازارتشریف لے جاتے اور معاملات کی نگرانی کرتے۔ایک بار ایک دکان کے باہر غلے کے ڈھیر میں آپ نے ہاتھ ڈالا تو وہ باہر سے خشک اور اندر سے گیلا تھا۔آپ ﷺ نے دکاندار سے پوچھایہ کیاہے؟؟اس نے جواب دیا رات کو بارش کی پھنوارکے باعث گندم گیلی ہوگئی۔آپﷺ نے اسکو سخت ناپسندفرمایاکہ اوپراوراندر میں فرق ہے تب آپ ﷺنے فرمایاکہ”جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں“۔بازرارمیں ایک بار آپ ﷺ کو بہت پرانا شناسا دکھائی دیا،آپﷺ نے فرط محبت میں پیچھے سے اسکی آنکھوں پر ہاتھ دیے،یہ اشارہ تھا کہ مجھے پہچانو!،ابتداََتو اسے اندازہ نہ ہوا لیکن جب پتہ چل گیا تو اس نے اپنی کمر آپ ﷺ کے سینے سے خوب خوب مس کی کیونکہ نبی کے جسم سے جو چیزمس ہوجائے اس پر آگ اثر نہیں کرتی۔بعض اوقات خاص طورپر خواتین سے ملاقات کے لیے تشریف لے جاتے جبکہ مرد حضرا ت اپنے اپنے کاموں پرگئے ہوتے تھے،ایک بار آپ ایک بندمحلے میں تشریف لے گئے اورزورسے فرمایا کہ ”السلام علیکم“کوئی جواب نہ آیا،پھرفرمایاتو بھی جواب نہ آیا،تیسری دفعہ سلام کیاتو بھی کوئی جواب نہ آیا،آپ ﷺ واپس مڑنے لگے تو ہر گھرسے خواتین کی آوازبلندہوئی کہ ”وعلیکم السلام یا ایھاالنبی“،آپ ﷺ نے پوچھا پہلے کیوں جواب نہ دیاتو عرب کی ذہین عورتوں نے جواب دیا کہ ہم چاہتی تھیں کہ لسان نبویﷺ سے زیادہ زیادہ سلامتیاں ہم تک پہنچیں،کیونکہ پہلی دفعہ جواب دے دیاجاتا توباقی دونوں دفعہ کے دعایہ سلام سے محروم رہ جاتیں۔سوموارکادن عورتوں کے لیے مخصوص تھاجبکہ عمرعزیزکے آخری ایام میں ہفتہ بھرمیں دو دن خواتین کے لیے مخصوص کر لیے گئے تھے۔

                بعض اوقات اچھاکھانا کھائے بہت دن گزرجاتے تو آپ ﷺ کسی امیر مسلمان کے تشریف لے جاتے۔اسی طرح ایک دن آپ ایک انصاری صحابی کے باغ میں تشریف لے گئے اور اس سے بے تکلفی سے فرمایا کہ ہمیں کھانا کھلاؤ،اس کے دروازے پر تو گویا دنیاوآخرت کی خوش بختیاں پہنچ گئی تھیں۔اس نے فوراََ ہی کھجور کے کچے پکے پھلوں کی ایک ڈالی بطور سلاد کے خدمت اقدس ﷺمیں پیش کی اور گھروالوں کو روٹیاں پکانے کا کہ کر خود ایک بکری ذبح کرنے میں مشغول ہو گیااور تھوڑی دیر بعدایک تھال میں بھنا ہواگوشت اور ایک رومال میں پکی ہوئی روٹیاں دسترخوان پر چن دی گئیں۔آپﷺ نے کھانا تناول کرنے سے پہلے چار روٹیوں میں کچھ سالن کی بوٹیاں رکھ کر حضرت ابوہریرہ ؓکو دیں کہ جاؤفاطمہؓکو دے آؤ اس نے اتنے دنوں سے کھانا نہیں کھایا۔بعض اوقات آپﷺ دوستوں کے ساتھ شہر سے باہر تشریف لے جاتے اور انکے ساتھ اچھاوقت گزارتے۔ایک بار آپﷺقریب کی جھیل میں گئے اور دودوکی جوڑیاں بناکر تیراکی کی مشق کی اور مقابلے کیے۔آپ ﷺ کے ساتھ جوڑے میں حضرت ابوبکرصدیق ؓشامل تھے۔بعض اوقات جنات کو ملنے کے لیے بھی پہاڑوں پر تشریف لے جاتے تھے اور ایک خاص مقام پر پہنچ کر صحابہ کرام کو آگے آنے سے روک دیتے اور خود آگے بڑھ کر جنات کے قبائل میں تبلیغ فرماتے۔جب سفردرپیش ہوتاتوگھرسے دو نفل پڑھ کر سفر شروع کرتے اورواپسی پرپہلے مسجد میں دو نفل اداکرتے تب گھرمیں وارد ہوتے۔

                آپ ﷺ بہت کم بولتے تھے اور مجلس میں کافی کافی دیر تک خاموشی رہتی۔سوال کرنا سخت ناپسند تھا،ایک بار آپ ﷺ نے فرمایا کہ ”حج فرض ہے“،ایک مسلمان نے سوال داغ دیا کہ کیا ہرسال؟؟اس پر آپ ﷺ کا چہرہ غصے سے سرخ ہوگیااور آپ ﷺ خاموش ہوگئے۔غصہ تحلیل ہونے پر فرمایا مجھ سے سوال کیوں کرتے ہو؟؟اگر میں ہاں کہ دیتاتو پھر۔قرآن مجید نے بھی مسلمانوں کو منع کیا کہ بنی اسرائیل نے جس طرح حضرت موسی علیہ السلام سے سوال کیے تھے تم اپنے نبی سے اس طرح سوال نہ کرو۔تاہم کسی اہم سوال کا جواب دیابھی کرتے تھے مثلاََ محفل میں خوشبو پھیل جانے پر مسلمانوں کو اندازہ ہوجاتا تھا کہ جبریل آ گئے ہیں،ایک بار مسلمانوں نے پوچھا کہ جبریل ہمیشہ اس طرف والی گلی سے کیوں آتے ہیں؟؟تب آپ ﷺ نے فرمایا اس لیے کہ اس گلی میں حضرت حسان بن ثابت ؓکا گھر ہے جو نعت گو شاعر رسولﷺ تھے۔نعت شوق سے سنتے تھے اور نعت گو شاعر کے لیے دعابھی فرماتے تھے۔جب کسی سے خوش ہوتے تھے تو اس کے سامنے محبت کااظہارکرتے تھے اور جب کسی سے ناراض ہوتے تو خاموشی اختیارکرلیتے تھے اور بہت زیادہ ناراضگی ہوتی تو چہرہ انور اس سے پھیر لیتے تھے،ایک صحابی کی داڑھی میں ایک ہی بال تھا آپ ﷺ اسے دیکھتے تھے اور مسکراتے تھے اس صحابی ایک بارنے وضوکے دوران وہ بال توڑ دیا،آپ ﷺ نے دیکھا تو ناراضگی سے چہرہ انور پھیرلیا،اس صحابی نے عرض کی یارسول اللہ ﷺایک ہی تو بال تھاتو سرزنش فرماتے ہوئے جواب دیا کہ خواہ ایک بال تھا تب بھی میری سنت تو تھی،تم نے اسے بھی توڑ دیا؟؟؟

                ظہر سے قبل آپ ﷺ اپنے حجرہ مبارک میں تشریف لے آتے اور تھوڑی دیر کے لیے قیلولہ فرماتے تھے۔آپﷺ کا ارشادمبارک ہے کہ رات کو اٹھنے (تہجدپڑھنے)کے لیے دوپہر کے سونے سے مدد لو۔اس دوران کوئی ملنے گھر پر آجاتا تو طبیعت اقدس پر سخت ناگوار گزرتاتھا،لیکن آپ کااخلاق اتنا بلند تھا کہ آپﷺ نے کبھی اپنی ناگواری کا اظہار نہیں فرمایاتھا،اس پر اللہ تبارک وتعالی نے سورۃ حجرات میں مسلمانوں کو حکم دیا کہ نبی ﷺجب اپنے گھر میں استراحت فرمارہے ہوں توانکو آوازیں نہ دیاکرو بلکہ مسجد میں بیٹھ کر انکا انتظار کیاکرو۔قیلولہ کے بعد آپ ﷺ ظہر کے لیے نکلتے اور مسلمانوں کو ظہر کی نماز پڑھاتے تھے،اگرکوئی منتظر ہوتاتو نماز مختصر کر لیتے اورکسی بچے کی رونے کی آواز آجاتی تو بہت جلد نماز ختم کردیاکرتے تھے۔ظہرکے بعد کا وقت زیادہ تر مسجد میں گزارتے تھے،شایداس کی وجہ نمازوں کے مسلسل اوقات تھے۔اس دوران  باہر سے آنے والے مہمانوں سے بھی ملاقات کرتے تھے،بعض اوقات مقدمات کا فیصلہ کرتے تھے اورتحفے و ہدیے بھی قبول فرماتے تھے۔ایک بار ایک مسلمان روزے کی حالت میں بیوی ے پاس جانے کی شکایت لے کرآگیا،فرمایا ساٹھ روے رکھو،عرض کی ایک روزے کاحال سن لیا ساٹھ کیسے رکھ پاؤں گا؟؟؟فرمایا ساٹھ مسکینوں کو کھاناکھلاؤ،عرض کی استطاعت نہیں ہے۔وہ مسلمان مجلس میں بیٹھ گیاکہ اسی اثنامیں ایک شخص کھجوروں کاٹوکرالایااورخدمت اقدسﷺ میں پیش کردیا،فرمایاوہ مسلمان کہاں ہے جس کاروزہ ٹوٹ گیاتھا؟؟؟جی میں ہوں،فرمایایہ کھجوریں غریبوں میں تقسیم کردو تمہاراکفارہ اداہوجائے گا۔اس نے عرض کی اے للہ کے رسولﷺاس شہر مدینہ کے دو پتھروں کے درمیان مجھ سے زیادہ غریب اور کوئی نہیں،اس بے ساختہ جواب پرچہرہ انورخوشی سے اس حد تک کھل اٹھاکہ اصحاب خوش بخت نے دندان مبارکہ کی زیارت بھی کر لی تب فرمایا جاؤخود کھاؤ اپنے گھروالوں کو کھلاؤیہی تمہارے روزےکاکفارہ ہے۔

                کھانے میں آپ ﷺ کو کدوشریف پسند تھا،بکری کی اگلی ٹانگ،دستی،شوق سے تناول فرماتے تھے،سفید لباس خوش ہو کر پہنتے تھے،زندگی بھر میں ایک دفعہ آپ ﷺنے سرخ دھاری دار کپڑے بھی زیب تن کیے تھے۔ایک بار آپ ﷺ یمنی چادر اوڑھ کر بیٹھے تھے اور مسلمانوں کے درمیان بیٹھے ایسے لگ رہے تھے جیسے ستاروں میں چاند جگمگارہاہو،سب مسلمان آپﷺ کو شوق سے دیکھ رہے تھے کہ ایک نے وہ چادرآپ ﷺ سے مانگ لی،عادت مبارکہ تھی کہ مانگنے والے کو انکار نہیں کیاکرتے تھے،اس کو چادردے دی تو سب مسلمان اس آدمی سے ناراض ہوگئے اس پر اس آدمی نے کہا کہ میں اس سے اپنا کفن بناؤں گا اور دوزخ کی آگ سے محفوظ و مامون ہوجاؤں گا۔آپ ﷺ کو خوشبو بہت پسند تھی،خوشبو کا تحفہ لیاکرتے تھے اور دیا بھی کرتے تھے۔جانوروں میں بلی سے بہت پیارتھاکبھی غصہ آتا تو کپاس کا گولہ بلی کو دے مارتے تھے۔بچے بہت اچھے لگتے تھے خاص طور پر یتیم بچوں کو اپنی اولاد پر بھی فوقیت دیتے تھے ایک بار بی بی پاک فاطمہ الزہرانے خدمت گار کا تقاضاکیاتو فرمایا کہ ابھی بدر کے یتیم باقی ہیں۔کپڑے،جوتے،جرابیں پہنتے ہوئے پہلے دائیں عضومیں چڑھاتے تھے اور اتارتے ہوئے پہلے بائیں عضوسے اتارتے تھے،بیت الخلامیں پہلے بایاں قدم مبارک دھرتے تھے اور نکلتے ہوئے پہلے دایاں قدم مبارک باہر نکالتے تھے،جبکہ مسجد میں اس کا الٹ۔جب بھوک ہوتی تو کھاناتناول فرماتے اور تھوڑی بھوک باقی ہوتی تو ہاتھ کھینچ لیتے تھے،کھانا خلاف مزاج ہوتا تو نقص نہ نکالتے تھے بلکہ دسترخوان سے اٹھ جاتے تھے۔مسلمانوں کو نمازکی بہت تاکیدکرتے تھے اورجب بھی کوئی مشکل وقت ہوتا توخود بھی نماز میں کھڑے ہوجاتے۔دعائیں اور مناجات بہت کثرت سے کرتے تھے اور مسلمانوں کو بھی اسکی تلقین کرتے تھے۔

                ”گوہ“ایک حلال جانور ہے جوخرگوش سے چھوٹااور چوہے سے بڑاہوتاہے لیکن آپﷺ کو کھانے میں پسند نہ تھا،پیاز بھی طبع نبوی پر گراں تھا،بدبو سے بہت نفرت تھی اسی لیے کثرت سے مسواک کرتے تھے سوکر اٹھنے پر مسواک کرتے،وضومیں مسواک کرتے اور اگلی نماز میں گزشتہ وضو برقرارہوتاتب بھی نماز شروع کرنے سے قبل مسواک دانتوں پر پھیراکرتے تھے اورکافی دیرگزرجاتی تو بھی مسواک کرلیتے تھے،آپﷺ نے حکم دیا کہ جب اپنی بیویوں کے پاس جاؤ تو دانت صاف کرکے جاؤیعنی اس دوران منہ سے بو نہیں آنی چاہیے۔بکھرے بال اور میلے کچیلے کپڑے سخت ناپسند تھے،کوئی اس حالت میں پیش ہوتا تو براہ راست تنقید کی بجائے دوسروں کی طرف رخ انور کرکے تنبیہ فرماتے تھے،جب کبھی گیسوئے مبارکہ دراز ہوجاتے تو جیب میں ایک کنگھی رکھاکرتے تھے،ایک زمانے میں آپ ﷺ کے پاس ہاتھی دانت کی بنی کنگھی بھی رہی۔فجر کے بعد سونااور عشاء کے بعد محفلیں جمانا بہت ناپسند تھا،راستوں میں بیٹھنے سے بھی آ ُپ ﷺ نے منع فرمایا۔ایک صحابی پرندوں کے بچے اٹھالایا تو آپ نے سخت ناپسند فرمایا اور اسے حکم دیا واپس چھوڑ آو۔سادگی،فقراور درویشی سے آپﷺ کی زندگی عبارت تھی،ایک بارحضرت عمر بن خطاب آپ ﷺ کے حجرہ مبارک میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ کھجور کی بنی فرشی چٹائی پر سونے کے باعث کمراقدس پر چٹائی کے نشان کنداں ہیں اور کمرے میں کل تین مٹی کے برتن رکھے ہیں،حضرت عمر آبدیدہ ہو گئے عرض کی روم و ایران کے بادشاہوں کے لیے ریشم اورمخمل کے بچھونے ہوں اور سرکاردوجہاں کے لیے کھجورکی یہ چٹائی؟؟؟فرمایاعمرکیاتم نہیں چاہتے کہ ان کے لیے صرف دنیاکی نعمتیں ہوں اور ہمارے لیے آخرت کی،لیکن اس حالت میں بھی کمرے کی دیوار سے نو (9)تلواریں لٹکی تھیں۔سخاوت کی عادت مزاج مبارک کا لازمی حصہ تھا،باغات کی آمدن سے مسجد نبوی کا صحن بھرجاتاتھا اور کل مال تقسیم فرمادیتے اور گھرجاکر پوچھتے کچھ کھانے کو ہے؟؟ توجواب میں انکارملتاتھااور بھوکے پیٹ سو جاتے تھے۔ مردوں کے لیے سونا،ریشم اورمخمل سے بھی آپﷺ نے منع فرمایا۔رات عشاء کے بعد جلد سوجانے کے عادی تھے اور سونے سے پہلے قرآن مجید کی کچھ آیات کی تلاوت کر کے سوتے تھے جن میں چاروں قل اور آیت الکرسی کی روایات بہت ملتی ہیں۔اللہ تعالی ہمیں بھی معمولات نبوی عطا فرمائے،آمین۔

[email protected]

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
53515

آہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان – تحریر:اشتیاق احمد

ڈاکٹر عبدالقدیر خان آج سے 85 سال قبل 1936 کو متحدہ ہندوستان کے شہر بھوپال میں پیدا ہوئے۔ان کا تعلق پشتون قبیلے اورکزئی سے تھا،ان کے بہن بھائی قیام پاکستان کے وقت ہی یہاں ہجرت کرکے منتقل ہو گئے اور وہ خود خاندان کے باقی افراد کے ہمراہ 1954 میں یہاں آکے سکونت اختیار کی۔ ابتدائی طور پرکراچی کے میٹروپولیٹن کارپوریشن میں ملازمت اختیار کرتے ہیں پھر اسکالر شپ کے تحت اعلٰی تعلیم کے حصول کیلئے ہالینڈ اور جرمنی سے میٹیریل ٹیکنالوجی میں ایم ایس سی اور بعد آزان بیلجیئم سے اسی شعبے میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی.

۔1972 میں جب انڈیا نے ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ میں شامل ہونے کیلئے ایٹمی تجربات کئے تو ہالینڈ میں مقیم حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے دل میں اپنے ملک کو نا قابل تسخیر ایٹمی قوت بنانے کی خواہش پیدا ہو جاتی ہے اور اس کو عملی جامہ پہنانے کیلئے اپنی خدمات پیش کئے اور اس سلسلے میں حکومت پاکستان کو خطوط ارسال کئے۔اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو انھوں نے دو خطوط ارسال کئے جس کے بعد ان کو پاکستان بلوایا گیا اور اس حوالے سے ان کے ساتھ سیر حاصل گفتگو ہوئی اور انھوں نے باقاعدہ حکومت کو اپنی خدمات پیش کیں۔اس ملاقات کے بعد ڈاکٹر صاحب دو سال تک ہالینڈ میں مقیم رہے اور پھر 1976 میں اس منصوبے پر عملی کام کا آغاز ہوا اور انجینئرنگ ریسرچ اکیڈمی کی بنیاد رکھ دی گئی اور بعد آزاں اس ادارے کا نام اس وقت کے سربراہ مملکت جنرل ضیاء الحق نے تبدیل کرکے ان کے اپنے نام “ڈاکٹر عبدالقدیر خان ریسرچ لیبارٹریز؛رکھ دیا۔

اس بات پہ کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ ایٹمی پروگرام کا سنگ بنیاد اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے رکھی اور حکومتی سطح پر اس کی سرپرستی کی اور بعد نیں آنے والے حکمرانوں نے اسے آگے بڑھایا اور اس بات کا اعتراف ڈاکٹر صاحب نے جابجا اپنی تقاریر میں کئے۔پاکستان کے جوہری پروگرام کے حوالے سے ڈاکٹر صاحب کا نام اور ان کی خدمات کلیدی اہمیت کے حامل ہیں اور طویل عرصے تک وہ اس کے سربراہ بھی رہے اور آخر کار وہ وقت بھی آیا جب پاکستان نے تمام تر بیرونی دباءو کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ایٹمی دھماکے کرنے اور پہلا اسلامی ایٹمی قوت بننے کے لئے دھماکے کئے اور اپنی خودمختاری اور سالمیت پہ مہر ثبت کر دئے اور بلوچستان کے علاقے چاغی میں کامیاب جوہری تجربات کئے۔ہالینڈ کی حکومت نے اہم معلومات کی منتقلی پر ان پر مقدمات بھی کئے لیکن بعد آزاں ہالینڈ، بیلجیئم، جرمنی اور برطانیہ کےپروفیسرز پر مشتمل ٹیم نے ان الزامات کا جائزہ لینے کے بعد یہ کہ دیا کہ یہ ساری معلومات کتابوں میں موجود ہیں اس لئے ڈاکٹر صاحب اس کیس سے باعزت بری ہو گئے۔

ڈاکٹر صاحب نے اپنے اوپر لگے الزامات ملکی وقار، اور سالمیت کے لئے برداشت کئے اور ملکی خودمختاری پر آنچ نہیں آنے دی۔ڈاکٹر صاحب مختلف سربراہان مملکت کےساتھ بطور مشیر خدمات انجام دئے جس میں سر فہرست سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کو ان کی خدمات کے اعتراف میں 1989 میں ہلال امتیاز اور 1996 میں نشان امتیاز سے بھی نوازا گیا ۔سال 1998 میں جوہری ہتھیاروں کے کامیاب تجربے کے بعد ،1999 میں ایک بار پھر نشان امتیاز سے نوازا گیا۔

ڈاکٹر صاحب ایک سچے مسلمان ،محب وطن پاکستانی ہونے کے ساتھ ساتھ انسانوں کی خدمت کے جذبے سے سرشار مخلص پاکستانی بھی تھے اور خدمت کے کاموں میں بھی پیش پیش ریے۔ڈاکٹر صاحب نے 2012 میں ایک سیاسی جماعت :تحریک تحفظ پاکستان؛ کی بھی بنیاد رکھی لیکن کوئی خاطر خواہ کامیابی نہ ملنے کی وجہ سے بعد میں اس کو تحلیل کر دیا۔ڈاکٹر صاحب نے ساری زندگی جہد مسلسل ، حب الوطنی اور خدمت خلق کے جذبے سے سرشار رہے تعلیم سے بھی محبت ان کے رگ رگ میں رچی بسی ہوئی تھی اور اپنے نام سے تعلیمی ادارے بھی قائم کئے جہاں ان کی وفات کے بعد بھی معماران قوم کو مستقبل کے درپیش چیلینجز سے نمٹنے کیلئے کوشان ہیں۔

پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے اور اس کی سالمیت کو نا قابل تسخیر بنانے والے مرد حر آخر کار 10 اکتوبر کو ہزاروں اشکبار آنکھوں کے سامنے مٹی تلے ہمیشہ کیلئے دفن ہو گئے اور اپنے پیچھے ساری قوم کے علاوہ (بیوہ ہنری قدیر خان اور دو بیٹیوں ) کو چھوڑ دئے اور خود رب کے سامنے حاضر ہو گئے اور انشاء اللّٰہ رب کے سامنے بھی سرخرو ٹھیریں گے۔ڈاکٹر صاحب کی ساری زندگی خدمت اور اس مملکت خداداد کو نا قابل تسخیر بنانے کی جدوجہد سے عبارت ہے اور اپنے جانے کے بعد بھی اپنے چاہنے والوں کو یہ سبق دے گئے کہ حالات جیسے بھی ہوں حب الوطنی کے جذبے کو ہاتھ سے چھوٹنے نہیں دینا ہے اوع مسلسل آگے بڑھنا ہے اور اس مملکت خداداد کو اس مقام تک پہنچانا ہے کہ دنیا رشک کرے اور وہ وقت انشاء اللّٰہ آکر رہے گا۔

ڈاکٹر صاحب نے اس ملک کو ایٹمی قوت بنانے کیلئے جو جدوجہد اور سعی کی اللّٰہ رب العزت اس پر ان کروٹ کروٹ آخرت کے مراحل میں کامیابی عطا فرمائے اور اپنے انعام یافتہ بندوں میں ان شمار کرے ان کے درجات بلند کرے اور ان کو جنت الفردوس میں جگہ عنایت فرمائے اور ہم سب کو ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس عظیم مملکت کو اور بھی نا قابل تسخیر بنانے کی جدوجہد میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔۔آمین

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
53494

محسن ملک و ملت الوداع ۔ محمد شریف شکیب

یکم اپریل 1936کو بھارت کے شہر بھوپال کے پٹھان خاندان میں پیدا ہونے والے بچے عبدالقدیر خان کے لئے پاکستان کی آزادی کا دن بہت یادگار تھا۔1951میں وہ اپنا گھر بار چھوڑکر ماں باپ اور بہن بھائیوں کے ساتھ پاکستان ہجرت کرلی۔ پندرہ سالہ عبدالقدیرخان جب امرتسر پہنچا تو ایک سکھ سپاہی نے ان کی تلاشی کے دوران جیب میں رکھا ان کا پسندیدہ پارکر قلم مانگ لیا۔اور کہا کہ آپ ایک آزاد ملک جارہے ہیں وہاں اچھی تعلیم حاصل کرو گے بڑا افسر بنو گے اپنے لئے اس سے زیادہ قیمتی قلم لے سکتے ہو۔سکھ سپاہی کی پیش گوئی سچ ثابت ہوئی۔ عبدالقدیر خان بہت بڑے آدمی بن گئے۔اگر یہ کہاجائے تو مبالغہ نہیں ہوگا کہ قائد اعظم محمد علی جناح کے بعد ڈاکٹر قدیر ہی قوم کے واحد اورغیر متنازعہ ہیرو رہے۔

وہ شاید واحد پاکستانی تھے جس سے بائیس کروڑ عوام محبت کرتے تھے۔ 1999میں جلال بابا اڈیٹوریم ایبٹ آباد میں مجھے محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا انٹرویو کرنے کی سعادت ملی۔ جس میں انہوں نے پہلی بار میڈیا میں پاکستان کے جوہری پروگرام کے حوالے سے تفصیلی گفتگو کی۔ڈاکٹر عبدالقدیر نے بتایا کہ 1974میں جب بھارت نے اپنا پہلا ایٹمی دھماکہ کیا۔اس وقت وہ ہالینڈ کی نیوکلیئر لیبارٹری میں کام کر رہے تھے۔

اے کیوخان کا کہنا تھا کہ بھارت کے جوہری دھماکوں کے بعد چار دن تک اس نے کھانا نہیں کھایااور مسلسل روتے رہے، ایک ہفتے تک اسے نیند نہیں آئی۔ بہت سوچ بچار کے بعد انہوں نے پاکستان میں جوہری پروگرام شروع کرنے کے حوالے سے وزیراعظم پاکستان کو خط لکھا۔انہیں توقع نہیں تھی کہ ان کا خط وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو تک پہنچ پائے گا۔ دو ہفتے بعد جب اسے وزیراعظم پاکستان کا جوابی خط میں ملا تو اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ وزیراعظم نے پیش کش کی تھی کہ وہ جس طرح کی سہولیات چاہتے ہیں حکومت ان کی مدد کے لئے تیار ہے۔ خط کے جواب میں انہوں نے وزیراعظم کو دوسرا خط لکھ بھیجا کہ وہ فوری طور پر اگر پاکستان آگئے تو مشکوک ٹھہریں گے۔ چھٹیوں میں پاکستان آکر وزیراعظم نے اس معاملے پر تفصیلی بات چیت کریں گے۔

chitraltimes dr qadir khan pride of pakistan

جب پاکستان پہنچا تو وہ وزیراعظم سے ملنے اور ذوالفقار علی بھٹو ان سے ملنے کے لئے بے تاب تھے۔ ملاقات میں جوہری پروگرام کی تیاریوں کو حتمی شکل دیدی گئی۔ کہوٹہ میں کے آر ایل کے نام سے لیبارٹری قائم کردی وہی لیبارٹری ہمارا دفتر بھی تھا اور بیڈ روم بھی تھا۔ کام سے تھک کر وہیں فرش پر پڑے فوم پر دراز ہوجاتے اور نیند سے بیدار ہوکر پھر کام شروع کردیتے۔وزیراعظم نے اس وقت کے گورنر سٹیٹ بینک غلام اسحاق خان کو یہ ذمہ داری سونپ دی کہ کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز کو جس چیز کی ضرورت ہو۔ فوری طور پر مہیا کی جائے۔رات کو دو بجے بھی ضرورت پڑنے پر غلام اسحاق خان کو فون کرلیتے اور وہ بلاتاخیر سلیپنگ سوٹ میں ملبوس حاضر ہوجاتے۔

ڈاکٹر اے کیوخان کا کہنا تھا کہ انہوں نے غلام اسحاق خان جیسا محب وطن نہیں دیکھا۔ساری دنیا میں پاکستان کی ایٹمی تیاریوں کے چرچے شروع ہوگئے۔ طویل محنت اور جدوجہد کے بعد جب قدیرخان ریسرچ لیبارٹری نے کولڈ ٹیسٹ کی تیاری مکمل کرلی تو اس وقت کے صدر ضیاء الحق نے لیبارٹری کا دورہ کیا۔جب انہیں بتایاگیا کہ پاکستان اب اپنے جوہری پروگرام کے کولڈ ٹیسٹ کے لئے تیار ہے تو صدر ضیاء الحق حیرانگی سے دیکھنے لگے اور ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے پھر کہنے لگے کہ جبھی تو ساری دنیا میں پاکستان کے جوہری پروگرام پر شور مچایاجارہا ہے۔ 1974سے لے کر چوبیس سالوں تک کی شبانہ روز محنت کے بعد پاکستان نے 28مئی1998کو اپنا پہلا ایٹمی دھماکہ کیا اور پاکستان عالم اسلام کا پہلا اور دنیا کا ساتواں جوہری صلاحیت رکھنے والا ملک بن گیا۔

تب سے دشمن کو پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرات نہیں ہوئی۔ صرف جوہری تجربے پر اکتفا نہیں کیاگیا۔پاکستان نے غزنوی، غوری اور شاہین جیسے بیلاسٹک میزائل بھی تیار کئے جو ساڑھے تین ہزار کلو میٹر تک جوہری ہتھیار لے جانے اور دشمن کے عزائم خاک میں ملانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔حکومت پاکستان نے ملک کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے پر ڈاکٹر عبدالقدیر خان کوتین مرتبہ تمغہ حسن کارکردگی، ہلال امتیاز اور نشان امتیاز کے اعزازات سے نوازا۔

میرا ماننا یہ ہے کہ ڈاکٹر قدیر خان کے سینے پر سجنے کے بعد ان اعزازات کی قدر اور اہمیت بڑھ گئی ہے۔ پاکستانی قوم پر ڈاکٹر قدیر کا صرف ایک یہ احسان نہیں کہ انہوں نے ملک کو ایٹمی صلاحیت کے قابل بنایا۔جب پاکستان پر ایران، لیبیا اور جنوبی کوریا کو جوہری مواد فراہم کرنے کے الزام میں پابندیاں لگنے والی تھیں اس وقت ملک پر آنے والے تمام الزامات اپنے سر لے کر انہوں نے ملک کو بچایا۔یہ اس قوم پر اے کیوخان کا ایک اور احسان تھا۔

انہوں نے ملک میں دس ہزار جوہری سائنسدان بنائے یہ اے کیوخان کا قوم پر ایک اور بڑا احسان ہے۔85سال کی عمر میں جب ان کا انتقال ہوگیا تو ان کے اندرون و بیرون ملک کوئی جائیداد، آف شور کمپنیاں، کارخانے نہیں تھے۔ البتہ چندے جمع کرکے مختلف شہروں میں تعلیمی ادارے اور ہسپتال بنادیئے جو اس قوم پر ان کا ایک اور احسان ہے۔ آج وہ محسن ملک و ملت ہم میں نہیں رہے۔ لیکن پاکستان کو دفاعی لحاظ سے ہمیشہ کے لئے ناقابل تسخیر بنادیا۔ قوم تاقیامت ان کی احسان مند رہے گی۔وہ قوم کے دلوں اور تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ زندہ جاوید رہیں گے۔

chitraltimes dr qadir khan pride of pakistan2
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
53451

داد بیداد ۔ایک اور پیش گوئی۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

ایک سیا سی گرو نے کہا ہے کہ آنے والے 120دن پا کستان کی تاریخ میں اہم ہیں مر حوم پیرشاہ مردان شاہ پگاڑا بہت پیش گوئیاں کیا کر تے تھے ان کی جدائی کے بعد حا فظ حسین احمد اور شیخ رشید رہ گئے ہیں دونوں کی پیشگو ئیوں کو لوگ سنجیدہ لیتے ہیں سندھ کے منظور وسان کبھی کبھا ر پیش گوئی کر تے ہیں مگر انہیں کوئی سنجیدہ نہیں لیتا جب سیا سی گرو کی تازہ پیشگوئی پرنٹ اورا لیکٹرا نک میڈیا میں آئی سب نے سر جوڑ لئیے اور چہ میگو ئیوں کا آغا ز کیا کسی نے کہا نیا چیر مین نیب آنے والا ہو گا، کسی نے بے پر کی اڑا ئی کسی بڑے کی قر با نی دی جائیگی بعض دوستوں نے رائے دی بلدیا تی انتخا بات ملکی سیا ست کے مستقبل کا رُخ متعین کرینگے

بعض دوستوں نے کہا امارت اسلا می افغا نستان کو تسلیم کرنے کے مسئلے پر پھڈا ہو گا کسی بزر جمہر نے دور کی کوڑی لا تے ہوئے کہا پا کستان واپس امریکہ کے کیمپ میں جا ئے گا بعض دوستوں نے رائے دی پا کستان دو قریبی مما لک چین اور روس کے ساتھ ملکر نیا بلا ک بنا ئے گا غرض جتنے منہ اتنی باتیں لیکن گُر ونے جو کچھ کہا وہ پتھر کی لکیر ہے سنہرے حروف میں لکھنے کے قابل ہے اگلے 120دنوں میں اور کچھ ہو یا نہ ہو 2021کا آخری سورج غروب ہو کر 2022کا نیا سورج طلوع ہو گا 2022کے دوسرے مہینے پا کستان میں بہار کا مو سم اپنے عروج پر ہو گا مگر یہ تو ہر سال ہو تا ہے اس میں پیش گوئی کا کوئی کمال نہیں 120دنوں کی کوئی اہمیت نہیں پھر مسئلہ کیا ہے؟

پر انے زما نے کی کہا نی ہے لو گ پیدل سفر کر تے تھے مسجدوں میں رات گزار تے تھے ایک شخص اپنے بوڑھے باپ کے ساتھ سفر کر رہا تھا رات گزار نے کے لئے مسجد میں گیا مسجد میں اور بھی مسا فر سوئے ہوئے تھے نئے مسا فر کا باپ بہت کھانستا تھا وہ کھا نستا تو مسجد کے ایک کو نے سے آواز آتی کھانسو مت، آئیندہ کھانسنے کی آواز آئی تو مسجد سے با ہر نکال کر دروازہ بند کر وں گا یہ پیش گوئی تھی یا دھمکی تھی بوڑھا شخص ڈر گیا مگر کھا نسی قا بو نہیں ہو رہی تھی اُس نے بیٹے سے کہا دیکھو آواز دینے والا کون ہے اس کو بتاؤ میرا باپ بیمار ہے، بیٹے نے کہا غم مت کر و یہ خد اکا گھر ہے سونے والے سو ئینگے، کھا نسنے والے کھا نسینگے بولنے والے بو لتے رہینگے ایسی باتوں کی پروا مت کرو یہ صرف باتیں ہیں اگر ہم نے مو جو دہ دور میں ایسی باتوں پر تو جہ دی اور ان باتو ں کو سنجیدہ لیا تو ہماری نیندیں بر باد ہو جائیگی

محفوظ راستہ یہ ہے کہ کسی بھی گرو کی کسی پیش گوئی کو سنجیدہ نہ لیا جا ئے کیونکہ سیا ست کے کوچے میں خد مت نہیں رہی صرف گپ شپ رہ گئی ہے اور گپ شپ ایسی ہی پیشگو ئیوں سے آگے بڑھتی ہے چند سال پہلے پیشگوئی آئی تھی کہ قر با نی سے پہلے قر با نی ہو گی قر با نی آئی مگر جس قربا نی کی پیش گوئی کی جا رہی تھی وہ کسی نے نہیں دیکھی ایک سال فروری کے مہینے میں پیشگو ئی کی گئی کہ مارچ سے پہلے ڈبل مارچ ہو گا مگر ڈبل مارچ نہیں ہوا یہاں تک مارچ کا مہینہ بھی ڈبل مارچ کے بغیر گزر گیا 120دنوں کے اہم ہونے کی پیشگو ئی کا ایک فائدہ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اس پیشگو ئی کے منظر عام پر آنے کے بعد لو گ مہنگا ئی، نا انصافی، ظلم اور جبر کو بھول کر 120دنوں کی بتی کے پیچھے لگ چکے ہیں گیس اور بجلی کی گرانی، ڈالر کی اونچی اڑان اور تیل کی آسمان سے باتیں کرنے والی قیمتوں سے لو گوں کی تو جہ ہٹ چکی ہے اب ہم آنے والے 120دنوں کے شوق میں محو ہو چکے ہیں خدا کرے 120دن خیر سے گذر یں۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
53448

بزمِ درویش ۔ شکاری ۔ تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

کسی کام کے سلسلے میں شہر سے باہر گیا ہو اتھا دن بھر کی مصروفیت اور طویل سفر کے بعد جب رات کی دیوی اپنی سیاہ زلفیں تیزی سے لاہور شہر پر پھیلا رہی میں اپنی گلی میں داخل ہوا تو گلی کا سیکورٹی گارٖڈتیزی سے میری طرف بڑھا اوربولا جناب مجھے پتہ ہے آپ نے منع کیا ہوا ہے لیکن کوئی شخص صبح سے آپ کا انتظار کررہا ہے میں نے کئی بار اُس کو منع کیا دفتر کا ایڈریس بھی دیا کہ کل جا کر آفس میں مل لینا لیکن وہ بضد ہے ابھی نماز پڑھنے مسجد گیا ہوا ہے بہت پریشان لگتا ہے سر اُس کو مل لیں اُس نے آپ سے ملے بغیر واپس نہیں جانا آپ کے کالج کے دور کا دوست کہتا ہے یہ رقعہ بھی دے گیا ہے کہ جب آپ آئیں آپ کو دے دوں میرے کالج کے ذکر پر میں چوکنا سا ہو گیاکہ کالج دور کا کون دوست ہے جو فون یا رابطہ کئے بغیر آدھمکا جلدی سے رقعہ کھولا تو مختصر الفاظ میں لکھا تھا جناب آپ یقینا مجھے بھول گئے ہونگے کیونکہ میری آپ کی آخری ملاقات تیس سال پہلے ہوئی تھی آپ اور آپ کے دوست مجھے شکار پر جاتے ہوئے ساتھ لے کر جاتے تھے میرا نام ”مودا شکاری“ ہے برائے مہربانی مُجھ سے مل لیں بہت پریشانی میں آپ کے پاس درخواست لے کر آیا ہوں ”مودے شکاری“ کا نام اشتہار کی طرح کئی بار چلا بجا پھرماضی کے دھندلکوں میں مودا شکاری واضح ہو تا گیا میری یادداشت نے اُس کی شکل و صورت کریکڑ کو میرے سامنے زندہ کر دیا بہت دل چسپ کردار تھا میری زیادہ ملاقاتیں نہیں دو یا تین بار ہی ملا تھا لیکن کریکڑ اتنا دل چسپ بھر پور تھا اپنا تاثر چھوڑ گیا

چھوٹے چھریرے جسم کا چست پھرتیلا تیز مو دا شکاری جو بہت ساری حیرت انگیز صفات کا مالک تھا میں گھر آکر مودے شکاری کا انتظار کر نے لگا بہت سالوں بعد اُس سے ملاقات ہونے جار ہی تھی کالج دور میں ہم دوست مل کر اکثر پرندوں خرگوش یا مچھلی کا شکار کر نے جاتے تھے ایک دوبار ہم اناڑی لوگوں نے شکار کی کوشش کی لیکن دن رات بھاگ بھاگ کر جب ناکام رہے تو ایک دوست نے مودے شکاری کا ذکر کیا جو اِس کو جانتا تھا کہ وہ ہر قسم کے شکار کا ماہر ہے اگلی بار اُس کو لے کر آؤں گا ہم بار بار ناکام کوششیں کر چکے تھے لہذا اگلی بار مودا شکاری جس کا اصل نام محمود احمد تھا لیکن اپنی عادات کریکڑاور شہرت کی وجہ سے مودا شکاری کے نام سے مشہور ہو گیا مودا شکاری ہلکے پھلکے چست پھرتیلے جسم کا جوان تھا شکاری کتوں کے ساتھ اتنی ہی برق رفتاری سے دوڑتا خرگوش کودوڑ کر پکڑ لیتا تھا درختوں پر آسانی سے چڑھ جاتا تھا اور جب مچھلی کے شکار پر ا ٓتا تو پانی میں کھڑے ہو کر تیزی سے تیرتی ہوئی مچھلیوں کو جال کنڈی کے بغیر ہاتھ سے ہی پکڑ لیتاپانی اور مٹی دیکھ کر بتا دیتا یہاں پر خرگوش مچھلیاں وغیرہ ہیں کہ نہیں پورے علاقے کی شکار گاہوں سے اچھی طرح واقف تھا

پھر شکار کے لیے مطلوبہ اوزار چیزیں مسالہ اِس کے پاس موجود ہوتا تھا پورا چالاک مکمل شکاری تھا شکار کرنے کے طریقوں سے خوب خوب واقف تھا پرندوں مچھلیوں جانوروں کی خصوصیات نفسیات سے بھی واقف تھا اگر شکار کیا ہوا پرندہ نہر یا دریا میں گر جاتا تو چھلانگ مار کر پانی میں اُتر جاتا اور تیرتا ہوا جا کر برق رفتاری سے شکار کو جھپٹ لیتا مودا شکاری ون مین آرمی تھا ہم سب اناڑی تھے لیکن اِس کے آنے سے ہم سب تربیت یافتہ شکاری بن گئے تھے مودے نے پہلی اینٹری پر ہی اپنی اہمیت اور مہارت کا بھر پور مظاہرہ کیا ہمیں بھی شکار کے بہت سارے گُر جاننے کا موقع ملا مودا ہمارا لیڈر تھا ہم اُس کے پیچھے پیچھے حرکت کرتے وہ ہماری شکار پارٹی کا روح رواں تھا دو تین ملاقاتوں میں ہی مودا شکاری ہم سب کی آنکھوں کا تارا بن گیا غیر معمولی انسان مجھے شروع سے ہی بہت زیادہ متاثر کرتے ہیں میں بغور مودے کو دیکھتا اُس کے چہرے کی چالاکی آنکھوں کی چمک قابل ذکر تھی پھر نوکری کے سلسلے میں میری نوکری کوہ مری ہو ئی تو میں کالج کے دوستوں سے دور ہو تا گیا آج جب مودے کا نام سامنے آیا تو ساری یادیں پھر سے تازہ ہو گئیں میں نے گھر میں کھانے کا کہا کہ صبح سے مودا آیا ہوا ہے اُس کے ساتھ ہی کھاؤں گا پھرتھوڑی دیر بعد شکاری آگیااُجڑا ہوا ویران کمزور اجڑے بال میلے کچیلے کپڑے چہرے کی سرخی اور آنکھوں کی چمک رخصت ہو چکی تھی.

میرے دماغ میں شوخ چنچل پھرتیلا مودا تھا لیکن یہ تو بوڑھا ہو گیاتھاگردش ایام نے اُس سے جوانی پھرتی چھین کر اُس پر ضرورت سے زیادہ بڑھاپا طاری کر دیا تھا کئی غم درد پچھتاوا اُس کو اندر سے مار رہا تھا میں گرم جوشی سے ملا۔کھانا منگوایا معذرت کی کہ میں گھر پر موجود نہیں تھا مودے کے ساتھ مل کر کھانا کھایا پھر جب چائے آگئی تو میں نے مودے کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا اور کہا بہت سالوں بعد ملاقات ہو رہی ہے پھر تھوڑی دیر ماضی کے دوستوں کا ذکر بھی ہوا تو مودا بولا جناب پچھلے دنوں خالد سے ملاقات ہوئی تو اُس نے آپ کی درویشی فقیری کا ذکر بہت ساری تعریفیں کیں تو میں اپنا مسئلہ غم لے کر حاضر ہو گیا ہوں میری مدد کریں میں جوانی میں شکاری تھا میں بہت چالاک بہت تیز دماغ تھا ہر مسئلے کا حل نکالنا اُس کی تہہ تک پہنچنا میرے بائیں ہاتھ کا کام تھامیں جانوروں پرندوں کے ساتھ انسانوں کی نفسیات کو بھی خوب جانتا تھا میں انسانوں سے بھی کھیلتا تھا اپنی غلط خواہشوں کی تکمیل بھی نہایت چالاکی سے کرتا تھا

مجھے جوانی میں عورتوں سے عشق لڑانے کی بھی بیمار ی تھی اپنی چالاکی ذہانت سے عورتوں کو اپنے دام میں پھنسا لیتا تھا اپنی مرضی پوری کر نے کے لیے میں رشتوں کا خیال بھی نہیں کرتا تھا انہی دنوں میری نظر گاؤں کے قاری صاحب کی بیگم پر آگئی پھر میں نے اُس کو بھی قابو کر لیا قاری صاحب کو پتہ چلا تو میری بہت منتیں کیں کہ میں اُس کی بیوی کو چھوڑ دوں لیکن میں باز نہ آیا دس سال اُس کے ساتھ کھیلتا رہا ایک دن قاری صاحب نے مجھے کہا تم چالاک طاقتور ہو میں مجبور بے بس لیکن تہجد کے وقت تمہارے لیے بد دعائیں کر تا ہوں میں قاری کی بات سن کر غرور سے مسکرا دیا کہ اور بد دعائیں دو مجھے نہیں لگتیں میں جوانی میں مست سال گزرتے چلے گئے پانچ سال پہلے میری جوان بیٹی کسی بد معاش کے ساتھ بھاگ گئی چند دن دل بہلا کر اُس نے کوٹھے پر بیچ دی بڑی مشکلوں سے بیٹی کو واپس لایا وہ چند دن بعد پھر کراچی بھاگ گئی اب وہ پتہ نہیں کہا کس کوٹھے پر میری عزت کا جنازہ نکال رہی ہے میں ساری زندگی لوگوں کو شکار کر تا رہا آخر خود شکا رہو گیا پھر شکاری بہت رویا کہ خدا کے لیے دعا کریں وہ شرافت کی زندگی کی طرف آجائے میں نے ذکر بتایا تو وہ چلا گیا اور میں سوچنے لگا طاقت جوانی میں مست انسان دوسروں کو شکار کر تا ہے پھر وقت اُس کو شکار کرلیتا ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامین
53443

مختصرسی جھلک-ورلڈمینٹل ہیلتھ ڈے-فریدہ سلطانہ فری

    اللہ تعالی نے انسان کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے جن کا ہم دن رات بھی شکرادا کریں تو کم ہے ا ن  تعمتوں میں صحت اللہ پاک کی سب سے عظیم نعمت ہے اور یہ بھی سب سے بڑی حقیقت ہےکہ ایک صحت مند زندگی گزارنے کے لئے جسمانی صحت کے ساتھ ساتھ زہنی طور پر تندرست ہونا بے حد ضروری ہے۔

سالانہ ۱۰ اکتوبر کوورلڈ مینٹیل ہیلتھ ڈے کے طور پر منایا جاتا ہے اس دن کو منانے کا واحد مقصد ذہنی اور دماغی امراض کی روک تھام اوراس کے بارے میں اگاہی اور شعور پھلانا ہے۔

پاکستان سائیکائٹرک سوسائٹی کی ایک سروے کے مطابق پاکستان میں ذہنی اور نفسیاتی امراض میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ ملک میں 50 فیصد،جبکہ خیبر پختونخوا میں 80 فیصد آبادی کسی نہ کسی نفسیاتی یا ذہنی مرض کا شکار ہے۔

طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ قدرتی آفات، دہشت گردی ، بے روزگاری ،غربت اور خوف ،رشتوں میں اونچ نیچ ،خاندانی پیچیدگیاں  ذہنی امراض کی بنیادی وجوہات میں سے چند ایک ہیں۔ اگرچترال کے تناظرمیں دیکھآ جائے توچترال میں اَئے دن خودکشیوں کی تعداد میں تشویش ناک اضآفہ اس بات کا ثبوت ہے کہ کہی نہ کہی ان خود کشیوں کے پیچھے زہنی امراض کا بھی ہاتھ ہے اس حوالے سے افسوس ناک بات یہ ہے کہ اس طرف نہ حکومت توجہ دے رہی ہے اورنہ ہی نجی سطح پرکوئی خاص اقدمات اٹھائے جارہے ہیں اور سب سے بڑاعلمیہ یہ ہے کہ ابھی تک دسٹرکٹ ہیڈ کواٹرہسپتا ل چترال میں زہنی امراض کے حوالے سے کوئی ایک  ڈاکٹر بھی موجود نہیں ہے جس سے لوگ کسی بھی زہنی پچیدگی کی صورت میں ابتدائی امداد اوررہنمائی حاصل کرسکے۔

عالمی دن منانے کے ساتھ ساتھ اس حوالےسےگراس روٹ لیول پرکام کرنے اوراگاہی پھیلانے کی ضرورت ہےکیونکہ زیادہ ترلوگ زہنی امراض کوبیماری کا درجہ دینے کو بھی تیار نہیں ہوتے ہیں اوربعد میں بہت سے قیمتی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے اوردوسرا اہم قدم اس حوالےسے یہ ہے کہ نوجوان لڑکے اورلڑکیوں کوموبائل کے بے جا استعما ل سے روکا جائے کیونکہ وقت کی بربادی اپنی جگہ اکثربچےموبائل زیادہ استعمال کرنےکی وجہ سے گھروالوں سے دوررہ کر تنہائی اورفرشٹریشن کا شکار ہوتےجار ہےہیں اورمختلف گمیزکی دیکھا دیکھی حقیقی زندگی میں بھی ہرکام کو اسی رفتار اورجلد بازی سے کرنے کےعادی ہوجاتے ہیں جوبعد میں مختلف زہنی پیچیدگیوں کو جنم دینے لگتی ہے خاص کرسکولوں کالجوں کی سطح پربچے بچیوں کے لیے لائف سکیل کیریر کونسلینک اور زہنی صحت کے حوالے سے  سیشن کا انتطام کیا جائے۔

مساجد جماعت خآنوں اور دوسرے مقدس جگہوں پر اس حوالے سے پروگرامات  کا انعقاد ہونا چاہیے۔اس کے علاوہ چترال میں خواتین کے بہت سارے معاشی ،معاشرتی اور گھریلو مسائل بھی ہیں خصوصا طالب علموں کے ،جو زہنی امراض کے فروغ کا باعث بن رہی ہیں اس کے لِئے بھی سنجیدگی سے کوئی قدم اٹھانے کی ضرورت ہے زہنی امراض کے معالج کی فراہمی کے ساتھ ساتھ  وہ تمام مسائل جو خواتین اوربچیوں میں زہنی امراض کا سبب بنتی ہیں ان کو روکنے اورکم کرنے کے لئے حکومتی اورنجی سطح پر کوَئی خاض اقدامات اٹھانا بہت ضروری ہے تاکہ زہنی امراض پر قابو پایا جاسکے اورمعاشرے کا ہرفرد خصوصا عورتیں ایک خوشحال و خوش و خرم زندگی گزارکرمعاشرے کی تعمیروترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
53440

محسن پاکستان ڈاکٹرعبدالقدیر خان – پروفیسرعبدالشکورشاہ

محسن پاکستان ڈاکٹرعبدالقدیر خان – پروفیسرعبدالشکورشاہ

موت اسکی ہے جس کا زمانہ کر ے افسوس

ورنہ دنیا میں سبھی مرنے کے لیے آتے ہیں

پاکستان کو اسلامی دنیا کی پہلی ایٹمی طاقت بنانے والے محسن پاکستان ڈاکٹرعبدالقدیر خان نے1976میں کہوٹہ لباریٹریز کی بنیاد رکھی اور لگ بھگ25سال تک اس کے سربراہ رہے۔ ڈاکٹر خان 1936کو بھوپال بھارت میں پیدا ہوئے۔ آپ کا تعلق اردو سپیکنگ پٹھان خاندان سے ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے والدڈاکٹر عبدالغفور خان ایک ماہر تعلیم تھے جنہوں نے1935میں ریٹائرمنٹ کے بعد ریاست بھوپال میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔تقسیم ہندوستان کے بعد ہجرت کر کے پاکستان چلے آئے اور مغربی پاکستان میں آباد ہو گئے۔ڈاکٹرعبدالقدیر خان نے سینٹ انتھونی ہائی سکول)لاہور) سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد سانئس اور میتھ کی تعلیم کے لیے ڈی جے سائنس کالج کراچی میں داخلہ لیا۔

کراچی یونیورسٹی سے 1960میں بی ایس سی میٹالرجی کی ڈگری حاصل کی۔سائمنز انجینئرنگ میں انٹرنشپ حاصل کرنے کے بعدکراچی میٹرپولیٹین کارپوریشن میں شامل ہو کر سٹی انسپکٹر ویٹ اینڈ میئرکے طور پر کام کیا۔ 1961میں آپ میٹالرجیکل انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے مغربی برلن تشریف لے گئے اورٹیکنیکل یونیورسٹی آف برلن میں داخلہ لیا۔ ڈاکٹر اے کیو خان نے نیدر لینڈ کی ڈیلفٹ یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی سے ٹیکنالوجی میں ڈگری حاصل کی۔1972میں ڈاکٹر اے کیو خان نے کیتھولک یونیورسٹی آف  لیوئن سے مارٹن برابرز کی نگرانی میں انجینئرنگ کے شعبہ میٹالرجیکل میں پی ایچ ڈی کی۔ڈاکٹر اے کیو خان کا پی ایچ ڈی کا تھیسسز جرمن زبان میں لکھا ہوا ہے۔

پی ایچ ڈی کرتے ہی ڈاکٹر اے کیو خان نے ایمسٹرڈیم کی فزکس ڈائنامکس کی تحقیقی لباریٹری میں شمولیت اختیار کر لی۔یہاں پر انہوں نے انتہائی طاقتور دھاتوں کو گیس سینٹری ی فیوج کے قابل بنانے کے بارے میں کام کیا۔ گیس سینٹری فیوج پر پہلے 1940میں منہاٹن پروگرام کے دوران جیس بیمز نے کام کیا تھامگر یہ تحقیق1944میں روک دی گئی تھی۔ فزکس کی جس لیبارٹری میں آپ کام کر رہے تھے وہ اورینکو گروپ سے منسلک تھی جو1970میں یورینیم افزودہ کرنے کے لیے المیلو نیدر لینڈ میں قائم کی گئی تھی تاکہ نیدر لینڈ کے یورینیم پر چلنے والے پاور پلانٹ کے لیے یورینیم کی سپلائی کو یقینی بنایا جا سکے۔

chitraltimes dr qadir khan pride of pakistan

ڈاکٹر اے کیو خان نے فزکس لیبارٹریز کو خیرباد کہتے ہوئے اورینکو گروپ میں شمولیت اختیار کر لی۔یہاں پر آپ کو یورینیم میٹا لرجی پر فزکس کے تجربات کی ذمہ داری سونپی گئی تاکہ چھوٹے پیمانے پر پانی سے چلنے والے تجارتی گریڈزکے لیے تجارتی پیمانے پر یورینیم کو افزودہ کیا جائے۔ اورینکو گروپ میں کام کے دوران ڈاکٹر اے کیو خان کی میٹالرجیکل تحقیق کی وجہ سے اس گروپ کی طوطی بولتی تھی۔ ڈاکٹر اے کیو خان کی میٹالرجیکل اور سینٹری فیوج پر اعلی سطح کی تحقیق اور اس کی کارکردگی کو بہتر بنانے سے متعلق شاندار کام کا اثرترقی یافتہ زفے سینٹری فیوج پر واضع نظر آتا ہے جسے روس کے ایک سائنسدان گورنوٹ زفے نے1940میں تیار کیا تھا۔ 1971کی پاک بھارت جنگ اور بھارت کی جانب سے ایٹمی تجربات نے ڈاکٹر اے کیو خان کو اپنے وطن کے لیے کچھ کرنے پر مجبور کیا۔

آپ نے حکومت پاکستان کو اپنی خدمات کی پیشکش کی اور 1974میں پاکستان تشریف لے آئے۔ 1979میں ڈچ حکومت نے یو سی ٹیکنالوجی تک رسائی سے متعلق محض شک کی بنیاد پر آپ کے خلاف ایک مقدمہ دائر کیا اور ڈچ عدالت نے1985 میں ڈاکٹر اے کیو خان کی عدم موجودگی میں 4سال کی سزا سنائی جسے بعد میں ایک اپیل کے زریعے قانونی اور تکنیکی بنیادوں پر چیلنج کیا گیا اور ڈچ عدالت ہی نے آپ کی سزا کو کالعدم قرار دے دیا۔ 1976میں آپ نے قومی ایٹمی منصوبے میں شمولیت اخیتار کی اور پی اے ای سی کے ممبر بنے۔ 4جون1978 کو یورینیم افزودگی کا پروگرام مکمل ہو گیا تھا۔ 1981میں ڈاکٹر اے کیو خان نے ای آر ایل کے آپریشنز کا چارج سنبھالا اور اس کے انٹرم سینئر سائنسدان اور ڈائریکٹر مقرر ہو ئے۔ 1983میں آپ ای آر ایل کے باضابطہ ڈائیریکٹر تعینات ہوئے۔ وطن سے محبت اور دفاع کا یہ سفر ان گنت مشکلات سے گزرتا ہوا جاری رہا اور 28مئی 1998کو پاکستان اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی طاقت بن گیا۔ ڈاکٹرعبدالقدیر خان کے بقول پاکستان1984میں ہی ہتھیار تیار کر چکا تھا اور انہوں نے ایک خط کے زریعے آگاہ کیا تھا کہ ایک ہفتے کے نوٹس پر تجربہ کیا جا سکتا ہے۔

مگر پاکستان نے کچھ قومی اور بین الاقوامی وجوہات کی بنیاد پر تجربات نہ کرنا مناسب سمجھا۔ ڈاکٹر خان ایک اعلی صفت انسان تھے۔بعض لوگ آپ پر سارا کریڈیٹ لینے کا الزام عائد کرتے ہیں جو کہ درست نہیں ہے۔ ڈاکٹر اے کیو خان نے دی نیوز انٹرنیشنل کو ٹارچ بیرئیر کے عنوان سے ایک کالم بھی لکھا اور یہ واضع کیا کہ پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے والے وہ واحد شخص نہیں ہیں بلکہ بہت سارے دیگر سائنسدانوں کا بھی اس میں بھر پور حصہ شامل ہے۔ ڈاکٹر اے کیو خان ٹیلر کے ڈیزائن پر ہائیڈروجن بم بنانے کے لیے بھی تیار تھے جس سے پے اے ای سی نے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ یہ حکومت کی پالیسی کے خلاف ہے۔ ڈاکٹر اے کیو خان نے میٹالرجی اور میڑیل سائنس پر پاکستان اکیڈمی آف سائنس کے تحت دو کتابیں بھی شائع کی ہیں۔ ڈاکٹر خان مرحوم 1980سے کے آر ایل سے اپنے کالم شائع کررہے تھے اور میٹا لرجی پر بے شمار کانفرنسسز کا انعقادر اور انتظام بھی کروایا۔ تعلیم و تدریس سے وابستہ ہونے کی آپ کی دلی خواہش تھی۔ اسی خواہش کے پیش نظر آپ نے غلام اسحاق خان انسٹی ٹیوٹ کے پراجیکٹ ڈائریکٹر کے علاوہ فزکس ڈیپارٹمنٹ کے شعبہ میٹالرجی  اور میڑیل سائنس کے چئیرمین بھی رہے۔

کراچی یونیورسٹی میں ڈاکٹر اے کیو خان بائیو ٹیکنالوجی اور جینیٹک انجینئرنگ کے شعبے کے قیام میں بھی پیش پیش رہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے ڈاکٹر اے کیوخان سکول سسٹم کا آغاز بھی کیا اور عوامی سہولیات کے لیے دیگرخدمات بھی سر انجام دیں۔ ڈاکٹر اے کیو خان ایٹمی ہتھیاروں کے زریعے دفاع کے بہت بڑے حامی تھے اور اپنے نقطہ نظر کو منوانے کی بھر پور صلاحیت رکھتے تھے۔ عراق اور لیبیا کی تباہی کے بعد ڈاکٹر اے کیو خان کی منطق سب کو اچھے طرح سمجھ آچکی تھی۔ مرحوم ڈاکٹر اے کیو خان کا کہنا تھا اگر 1971سے پہلے ہمارے پاس ایٹمی ہتھیار ہو تے تو ملک دوٹکڑے کبھی نہ ہوتا۔ ڈاکٹر اے کیو خان اور ان کی ٹیم کی دن رات کی محنت نے پاکستان کو ناقبل تسخیر بنا دیا ہے اور قائد اعظم کے فرمان پاکستان پریقین رکھیں پاکستان رہنے کے لیے بنا ہے کو سچ کر دکھا یا۔ پاکستان کو ایٹمی دوڑ میں مجبورا شامل ہو نا پڑا اور اس کی سب سے بڑی وجہ بھارتی جارحیت اور دھمکیاں تھی۔ ڈاکٹر اے کیو خان کو بہت سے اعزازت سے نوازہ گیا ہے۔

آپ کو 1999میں نشان امتیاز، 1996میں ہلال امتیاز سے نوازہ جا چکا ہے۔ اس کے علاوہ آپ کو 60سے زائد یونیورسٹیز نے گولڈ میڈلز سے نوازہ۔ پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کے بعد ڈاکٹر اے کیو خان نے پاکستان کی قومی سپیس ایجنسی سپارکو کو دوبارہ سے منظم کیا۔ 1980کے اواخر میں ڈاکٹر خان نے پاکستان کے فضائی پروگرام میں اہم کردار ادا کیابلخصوص پاکستان کی پہلے پولر سیٹلائٹ منصوبے میں آپ کا کلیدی کردار رہا۔ ڈاکٹر ا ے کیو خان نے قومی یونیورسٹیز کے شعبہ میٹالرجی اور میٹریل سائنس کے نصاب ترتیب دینے کے علاوہ ان میں متذکرہ بالا شعبوں کے قیام کے لیے بہت اہم کردار ادا کیا۔ ساری قوم ڈاکٹر اے کیو خان کی رحلت پر رنجیدہ ہے۔ ہیروز کبھی مرتے نہیں ہیں وہ ہمیشہ قوم کے دلوں میں زندہ رہتے ہیں۔ اسلام اور پاکستان کے لیے آپ کے کارناموں کی وجہ سے آپ کا نام رہتی دنیا تک روشن رہے گا۔

مجھ پہ تحقیق میرے بعد کرے گی دنیا

مجھ کو سمجھیں گے میرے بعد زمانے والے

chitraltimes dr qadir khan pride of pakistan2

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
53419

اسوۃ حسنہﷺکی روشنی میں عدل کی بالا دستی اوربے لاگ ا حتساب کاتصور-ڈاکٹر ساجد خاکوانی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اسوۃ حسنہﷺکی روشنی میں

عدل کی بالا دستی اوربے لاگ احتساب کاتصور

(ماہ ربیع الاول کے حوالے سے)

ڈاکٹر ساجد خاکوانی

                 اللہ کی بہت ساری صفات میں سے ایک صفت ”عدل“بھی ہے،قرآن میں اللہ تعالی نے فرمایاکہ کہ ”وتمت کلمت ربک صدقاََوعدلاََ(سورۃ انعام،آیت115)“ترجمہ: تمہارے رب کی بات سچائی اور عدل کے اعتبار سے کامل ہے۔ اللہ تعالی نے انسان میں اپنی روح پھونکی ہے اورپھرفرمایاکہ ”یاایھاالانسان ماغرک بربک الکریمOالذی خلقک فسوک فعدلکO(سورہ الانفطارآیات6,7)“ترجمہ:اے انسان تجھے اپنے رب کرم کی طرف سے کس نے دھوکے میں ڈال دیا جس نے تجھے پیداکیا،تجھے نک سک سے درست کیا اور تجھے متناسب(فعدلک)بنایا“۔گویا”عدل“نہ صرف یہ کہ انسان کی فطرت میں شامل ہے بلکہ انسان کی ساخت میں بھی شامل کردیاگیاہے۔ان سب کے بعداللہ تعالی نے اپنی آخری کتاب میں عدل کرنے کا حکم بھی دیا”ان اللہ یامربالعدل والاحسان“(سورۃ نحل آیت 90)ترجمہ:اللہ تعالی عدل اور احسان کا حکم دیتاہے۔اس رب کریم نے صرف اسی پر ہی بس نہیں کیابلکہ ایک ذات بابرکات بھی مبعوث فرمائی جس کی کل حیات طیبہ اور تعلیمات کے تمام تر مجموعہ کواگر عدل کامل کانام دیاجائے تو بے محل نہ ہوگا۔

                معاملات کے اعتبارسے تین اصطلاحات کااستعمال عموماََورد زبان رہتاہے،عدل،احسان اور ظلم۔عدل سے مرادکسی کو اس کا حق اداکردیناہے،احسان سے مراد حق سے زیادہ ادا کردیناہے جبکہ ظلم سے مراد کسی کا حق دبالیناہے۔ظلم سے ملتاجلتاایک اور لفظ”طاغوت“بھی آسمانی تعلیمات میں کثرت سے استعمال ہوتاہے جو بالاصل ”عدل“کے متضادکے طور بھی استعمال کیاجاتاہے۔عدل سے ایک مراد یہ بھی ہے کہ کوئی اپنی حدودکے اندر رہے جبکہ ”طاغوت“کی اصطلاح کو ”طغیانی“کی کیفیت سے بآسانی سمجھاجاسکتاہے جب کہ دریااپنی حدود سے باہر نکل آتاہے،پس انسانی رویے جب اپنی حدود میں رہیں گے تو گویا عدل کامصداق ہوں گے اور جب اپنی حدود سے نکل کر دوسروں کی حدود میں داخل ہونے لگیں گے تو طاغوت کی شکل اختیار کر جائیں گے اور تب یہیں سے فسادات جنم لیتے ہیں جو انسانی معاشرے میں بگاڑ کا باعث بنتے ہیں۔ظلم سے بچنا،عدل پر عمل پیرارہنااوراحسان کے رویے کو بخوشی اپنانااسوۃ حسنہ کے سوتے پھوٹنے والے چشمے کاوہ پانی ہے جو انسانیت کی پیاس کو بدرجہ اتم مٹانے کی پھرپورصلاحیت رکھتاہے اوریہی وہ منزل ہے جس کی طرف عدل اجتماعی کی شاہراہ کاراستہ صراط مستقیم کی چھاؤں سے ہوکر گزرتاہے۔

                محسن انسانیت ﷺ نے انسانیت کو عدل کی بالادستی کا درس دیااورایک بار جب ایک حد کے اجراسے روکنے کے لیے آپ ﷺ پر ناجائزدباؤ ڈالا گیاتوآپ نے ارشاد فرمایا کہ تم سے پہلے کی اقوام اسی لیے تباہ ہوئیں کہ جب ان کے بڑے جرم کرتے تو ان سے صرف نظر کرلیاجاتاتھااور جب ان کے چھوٹے طبقوں کے لوگ جرم کرتے تو ان پر قانون پوری قوت سے نافذ کردیاجاتا۔ایک اور موقع پر عدل کی بالادستی کو یقینی بنانے کے لیے آپ ﷺکے ارشاد کا خلاصہ ہے کہ اگرکسی مسلمان نے اسلامی ریاست کے کسی غیر مسلم (ذمی)پر زیادتی کی آپ ﷺ نے فرمایاکہ اس مسلمان کے خلاف روز محشراس غیرمسلم کی طرف سے میں محمدﷺ خود دعوی دائر کروں گا۔آپ ﷺ نے ظلم کوقیامت کے اندھیروں میں سے ایک اندھیراقراردیااور اس سے بچنے کا حکم دیااور ساتھ فرمایا کہ تمہیں قیامت کے دن حق والوں کے حق ضرور اداکرنے ہوں گے۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایاجس آدمی پر بھی اپنے بھائی کاکوئی حق ہو تو اسے چاہیے کہ دنیامیں ہی اس سے عہدہ براہو جائے قبل اس کے کہ وہ دن آ جائے جس دن کسی کے پاس درہم و دینارنہ ہوں گے۔

                عدل نبوی ﷺ کااس بات سے بھی اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ جب بھی کسی کو حاکم بناکر بھیجتے یاکسی سرکاری امورکی بجاآوری کے لیے روانہ فرماتے یا زکوۃ کی وصولیابی کے لیے تعینات کرتے تو عدل کادامن تھامے رکھنے کی ہدایات صادر فرماتے۔اس آسمان نے وہ دن بھی دیکھاجب خیبر کے یہود اس بات کے منتظر تھے کہ اب انہیں غلام بناکراسلامی افواج میں تقسیم کردیاجائے گا، ان کی جائدادیں اور تیارفصلیں اجاڑ دی جائیں گی اور ان کی خواتین کو بھیڑبکریوں کی طرح ہانک کر لے جایاجائے گاکہ اس وقت تک یہی دستوردنیاتھالیکن وقت کی رفتار تھم گئی جب تاریخ انسانی کے مشاہدہ کار نے اس صفحہ ہستی پر پہلی بارفاتح اور مفتوح کے درمیان مزاکرات کے عمل کو جاری و ساری ہوتے دیکھااور فصلوں کی ایک نسبت کی تقسیم پرمعاہدہ نامہ طے پاگیااور پھر اگلی فصل پر جب ایک قاصد نبویﷺ خیبرپہنچااورفصلوں کو نصف نصف تقسیم کیاگیاتواس قاصدنے یہود سے کہا کہ ان میں سے جو حصہ چاہو لے لواور جو جو تم چھوڑ دو گے وہ ہم لے جائیں گے،اس پر خیبر کے یہود چینخ اٹھے کہ خدا کی قسم اسی عدل و انصاف کا حکم توریت میں ہمیں دیا گیا تھااور اسی عدل و انصاف کے حامل کی توریت میں پیشین گوئی تھی کہ وہ آخری نبی علیہ السلام ہو ں گے۔

                محسن انسانیت ﷺ کی ختم نبوت کا ایک حسین پہلو یہ بھی ہے کہ آپ ﷺ نے عدالتوں کو عدل و احتساب کا درس دیا،یہ سبق آپ ﷺ کی ذات بابرکات سے پہلے دنیاسے عنقا ہوچکاتھااورانسایت عدل و انصاف کو فراموش کر چکی تھی،آپ نے انبیاء علیھم السلام کے اس درس انسانیت کی اس طرح تجدید کی کہ اس کا حق ادا ہو گیا،آپ ﷺ کے گزرے آج کم و بیش ڈیڑھ ہزار برس بیت چکے،اس دوران انسانیت نے بہت ترقی کر لی،علو م و معارف آسمان ثریاکو چھونے لگے ہیں،انسان کے قدم اس کائنات میں زمین سے کوسوں دور خلاؤں میں جا ٹکے ہیں،راتیں دنوں سے زیادہ روشن ہونے لگی ہیں،تہذیب و تمدن اور ثقافت کے ڈانڈے مستقبل میں کمندیں ڈالنے کے قابل ہواچاہتے ہیں،فاصلے سمٹ گئے اوراور انسان اس جگہ پر پہنچ رہاہے جہاں پر چند سال پہلے تک بھی سوچنا محال تھا لیکن اس سب کچھ کے باوجود عدالتوں کے لیے کسی ازم نے،کسی دانشورنے،کسی نئے نظام حیات نے عدل و انصاف سے بڑھ کر کوئی درس تجویز نہیں کیایہ انسانیت اپنی ساری ترقیوں کے باوجود نبی آخرالزمان کے دیے ہوئے درس اعتدال و عدل اوحتساب سے آگے نہیں گزرسکی،ہماری عقل کہتی ہے کہ ہم اس کو آخری نبی مانیں گے جو اس درس میں کوئی اضافہ کر عمل عدالت کے ارتقاء مزید کاباعث بنے گاجبکہ ہمارا ہماراایمان کہتاہے کہ عدالتوں کے ارتقاء کا سفرمعراج مکمل ہو چکااور اب اس میں کسی اضافے کی گنجائش باقی نہیں رہی کیونکہ”بعثت لاتمم مکارم الاخلاق“(مجھے اخلاقیات کے معیارات کی تکمیل کے لیے بھیجاگیاہے)اور ایمان ہر درجہ عقل سے کہیں بڑااور بزرگ و برتر ہے،سودرس عدل مکمل ہوچکااورچونکہ اس میں اب اضافہ ممکن نہیں اس لیے کسی نئے نبی کی بھی ضرورت نہیں۔

                محسن انسانیت ﷺ نے عدل کے اطلاقی پہلویعنی بے لاگ احتساب کے لیے سب سے پہلے اپنی ذات کو پیش کیا،اس سے بڑھ کر عدل و احتساب کی کوئی مثال کہاں مل سکتی ہے کہ عمرمبارک کے آخری ایام میں خود کو پیش کر دیاکہ میرے ہاتھوں کسی سے زیادتی ہوئی ہو تووہ اپنا بدلہ چکاسکتاہے۔ایک مسلمان آگے بڑھااورعرض کی ایک جنگ کے موقع پرآپ ﷺنے صفیں سیدھی کرتے ہوئے میری ننگی کمر پر چھڑی رسید کی تھی،پس سورج کی آنکھیں موندنیں کو ہو گئیں جب ختم عدالتﷺنے اپنی کمر ننگی کرلی اور فرمایاکہ آؤاپنابدلہ وصول کرلووہ مسلمان آیااور کمرمبارک سے لپٹ کرمہرنبوت کو بوسے دینے لگااور پھراس نے کہاکہ میری کیامجال کہ نبی سے بدلہ لوں میں تودراصل اس بہانے مہر نبوت کابوسہ لیناچاہتاتھا۔سود حرام کیالیکن سب سے پہلے اپنے گھرکا حضرت عباس بن عبدالمطلب کاسودمعاف کیا،قتل معاف کرنے کی ریت کاآغاز کیااورسب سے پہلے اپنے گھرکاحضرت حمزہ بن عبدالمطلب کاخون معاف کیااورغلام آزاد کرنے کاحکم دیاتو سب سے پہلے غزوہ حنین کے موقع پراپنے غلام آزاد کیے۔احتساب کی یہ مثال آج بھی دنیاکے قوانین میں نابود ہے۔دنیاکایہ مسلمہ رواج ہے کہ جو طبقہ قانون بناتاہے وہ اپنے طبقے لیے خصوصی مراعات کا تعین کرتاہے یاجو خاندان قانون بناتاہے وہ اپنی نسل کے لیے برہمنی تفوقات کاپہلے سے دائرہ کھینچ لیتاہے لیکن خود احتسابی کی یہ مثال کہیں بھی تو نہیں ملے گی ختمی مرتبتﷺ نے خود اپنی نسل کے لیے مسلمانوں کے سب سے بڑے فنڈ”زکوۃ“کو ممنوع قرار دے دیااور اقرباپروری کے دروازے ہمیشہ کے لیے بندکرکے تو بے لاگ احتساب کا شیریں چشمہ فیض تاابد جاری فرمایا یہ کہ کر کہ کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت نہیں سوائے تقوی کے۔

                نبی ﷺکایہ بے لاگ احتساب جب اپنی ذات مبارکہ سے نکل کر معاشرے میں جگہ پاتاہے تو وہ معاشرہ مدینۃالنبی کی پاکیزہ و مقدس ریاست بن جاتاہے جہاں ایک بار جب حضرت عمر جیسے قریش کے اعلی نسب شخص نے ایک غلام زادے کو سخت سست الفاظ کہ ڈالے تو احتساب نبوی جوش مار گیااوربات تب ختم ہوئی جب حضرت عمر نے اپناایک گال زمین پر رکھاتودوسرے پراس غلام زادے صاحب ایمان نے اپنا پاؤں رکھا،بھلااس طرح کااحتساب اس آسمان نے کہیں اور بھی مشاہدہ کیاہوگا؟؟محسن انسانیت ﷺ نے دوستوں اور دشمنوں پر بہت احسانات کیے لیکن عدل کے معاملے میں کسی سے کوئی رعایت نہیں کی،غزوہ احزاب کے موقع پر جب بنی قریظہ نے غداری کی توان کا محاصرہ کرلیاانہوں بہت زور لگایا لیکن احتساب نبوی ﷺ کا کوڑا اس زور سے ان یہودیوں پر برسا کہ ان کے سینکڑوں قابل جنگ مرد حضرات سر بازار قتل کر دیے گئے کہ دامن نبوی ﷺمیں دوستوں اور دشنوں دونوں کی گنجائش ہے لیکن غداروں کے لیے جو آستین کے سانپ ہوں اور مسلمانوں کے درمیان آسودہ رہ کر دشمن کے گن گائیں اوراہل ایمان کے خلاف سازشیں کریں ان کے لیے دامن نبوی ﷺ میں بھی کوئی نرم گوشہ نہیں ہے۔

                عوامی جمہوریت کے نام پر گزشتہ تین صدیوں سے سیکولر مغربی تہذیب نے جن عالمی اداروں کے اندر عالمی عدالت انصاف کا ڈھنڈوراپیٹ رکھاہے اس کی حقیقت بوسنیاکے لاکھوں مسلمانوں کے مقدمہ قتل کے دوران کھل گئی تھی،گوری چمڑی کے تعصب سے بھرپورسیکولرازم کے مکروہ چہرے سے اس دنیائے انسانیت کو عدالت کے کٹہروں سے بھی سوائے ظلم و ستم کے کچھ میسر نہیں آیا۔آج بھی عدل نبوی ﷺ اور نبی علیہ السلام کے بے لاگ احتساب سے معمورتعلیمات ہی اس کرہ ارض سے ظلم و ستم کے خاتمے اور عدل و انصاف کے قیام کے باب کاعنوان بن سکتی ہیں اور وہ دن دور نہیں جب کیمونزم کے خاتمے کی طرح سیکولرازم بھی بحراوقیانوس کے موجوں میں جا ڈوبے گااور سرمایاداری نظام کی باقیات بھی اس کو ڈھونڈ نہ پائیں گیں اور یہ انسانیت بلآخرتوحیدو نبوت و فکرآخرت کی ٹھنڈی چھاؤں میں خوب خوب جگہ پائے گی اور اپنے آنے والی نسلوں کی بھی آسودگی و راحت کاباعث بنیں گی۔انشاء اللہ تعالی۔

کی محمدﷺسے وفاتو نے تو ہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیز ہے کیالوح و قلم تیرے ہیں

[email protected]

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
53417

مہمان نوازی : سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں – خاطرات: امیرجان حقانی

رسولِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم  کو اللہ رب العزت نے نسل انسانی کے لیے ایک کامل نمونہ اور اسوہ حسنہ بنا کر دنیا میں بیجا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی کو قیامت کی صبح تک کے لیے معیار بنادیا۔سیرت طبیہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر گوشہ تابناک اور ہر پہلو روشن ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت سے لے کر رحلت تک کا ہر ہر لمحہ اللہ تعالی کی منشاء سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانشینوں نے محفوظ کیا۔ہم اگر عہد رسالت کی بات کریں تو اآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام حالات زندگی، معمولات زندگی،طرز حکومت،طرز تعلیم، طرز تبلیغ ، انداز و اطوار، مزاج و رجحان، حرکات و سکنات، نشست و برخاست اور عادات وخیالات  غرض ہر چیز اس میں شامل ہوگی۔ تاہم ہم کوشش کریں گے کہ اختصار کیساتھ ددینی تعلیمات اور  محمد مدنی العربی  ﷺ کی سیرت کی روشنی میں  مہمان نوازی اور اکرام مسلم کے حوالے سے چند اہم  نکات آپ سامعین کی خدمت میں پیش کریں۔

دنیا کی تمام مہذب قوموں کا شعار ہے کہ وہ مہمانوں کی آمد پر ان کا پرتپاک استقبال کرتی ہیں۔مہمانوں کو خوش آمدید کہا جاتا ہے۔اور ان کی خاطر مدارت کی جاتی ہے۔ہر ملک اور قوم کے مہمان نوازی کے انداز و اطوار اور طریقے الگ الگ ہیں۔تاہم یہ بات ایک جیسی ہے کہ دنیا کی تمام مہذب قومیں  مہمان کی عزت اپنی عزت  اور مہمان کی توہین اپنی توہین سمجھتی ہیں۔دین اسلام میں مہمان نوازیدین اسلام میں مہمان نوازی کے متعلق جو بہترین اصول و قواعد ہیں اور جس شاندار انداز میں مہمان نوازی کا حکم دیا گیا ہے

اسکا ذکر قرآن کریم میں بھی ہے اور اس کی مثالیں ہمیں آپ ﷺ کی سیرت میں بے تحاشا ملتی ہیں۔ کتب احادیث بھری پڑی ہیں۔ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اور علماء امت کی سیرت بھی اس حوالے سے بہت واضح ہے۔اور مسلمانوں نے مہمان نوازی کو اپنا شعار بنا رکھا ہے۔مہمان نوازی علامات ایمان میں سے ہے۔اور تمام انیباء علہیم السلام کی سنت ہے۔ اللہ رب العزت نے قرآن میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی مہمان نوازی کا ذکر کیا ہے۔سیدنا ابراہیم بڑے مہمان نواز تھے۔اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:وَلَقَدْ جَاۗءَتْ رُسُلُنَآ اِبْرٰهِيْمَ بِالْبُشْرٰي قَالُوْا سَلٰمًا  ،  قَالَ سَلٰمٌ ، فَمَا لَبِثَ اَنْ جَاۗءَ بِعِجْلٍ حَنِيْذٍ (ھود: 69) ترجمہ: اور ہمارے فرشتے(انسانی شکل میں) ابراہیم کے پاس (بیٹا پیدا ہونے) کی خوشخبری لے کر آئے۔انہوں نے سلام کیا۔

ابرہیم علیہ السلام نے بھی سلام کہا۔اور بغیر کسی تاخیر کے گائے کا بھنا ہوا بچھڑا لے آئے۔(ان کی مہمان نوازی کے لیے)حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مہمان نوازی”اس سے معلوم ہوا کہ فرشتے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ہاں انسانی صورت میں پہنچے تھے اور ابتداء انہوں نے اپنا تعارف نہیں کرایا تھا ۔  اس لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خیال کیا کہ یہ کوئی اجنبی مہمان ہیں اور ان کے آتے ہی فورا ان کی ضیافت کا انتظام فرمایا ۔” ( تفہیم القرآن)حضرت ابراہیم علیہ السلام کا معمول یہ تھا کہ کبھی تنہا کھانا نہ کھاتے،  بلکہ ہر کھانے کے وقت تلاش کرتے تھے کہ کوئی مہمان آجائے تو اس کے ساتھ کھائیں ۔ (قرطبی)حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی عادت مہمان نوازی کے مطابق بشکل انسان آنے والے فرشتوں کو انسان اور مہمان سمجھ کر مہمان نوازی شروع کی اور فوراً ہی ایک تلا ہوا بچھڑا سامنے لا کر رکھ دیا ۔ آنے والوں کی مہمانی کرنا آداب اسلام اور مکارم اخلاق میں سے ہے، انبیاء و صلحاء کی عادت ہے۔

ضیافت کا حکمآپ ﷺ نے مہمان کے اکرام اور ضیافت کا واضح حکم دیا ہے۔آپ ﷺ کا  ارشاد گرامی ہے : ’’جو شخص اللہ جل شانہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے مہمان کا اکرام کرے۔ مہمان نوازی کی مدتمہمان کا جائزہ (خصوصی اعزاز و اکرام) ایک دن ایک رات ہے، اور مہمانی تین دن تین رات ہے۔ اور مہمان کے لیے یہ بات جائز نہیں کہ وہ اتنا طویل قیام کرے کہ جس سے میزبان مشقت میں پڑجائے۔‘‘(بخاری ح/6019)آپ ﷺ کے الفاظ دھرا رہا ہوں: “ومن کان یومن باللہ والیوم الآخر فلیکرم ضیفہ”۔مہمان نوازی انسانی اور معاشرتی اخلاق کا ایک اہم اور بہترین خلق ہے۔ تعلیمات اسلامی  میں مہمان نوازی پر خوب زور دیا گیا ہے۔

سیرت کی کتب میں آتا ہے: جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم غار حرا سے واپس آئے تو سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ کو ڈھارس بندھائی اور  فرمایا”اللہ کبھی آپ کو رسوا نہیں کرے گا۔آپ تو اخلاق فاضلہ کے مالک ہیں۔مفلسوں کے لیے آپ کماتے ہیں”۔اور خصوصیت کے ساتھ آپ ﷺ کی مہمان نوازی کے متعلق سیدہ نے فرمایا:”وتقری الضیف “آپ مہمان نوازی کرتے ہیں اورمہمان نوازی میں آپ ﷺ بے مثال ہیں۔(بخاری ح 3)مہمان نوازی نہ کرنے  پر وعیدجو لوگ مہمان نوازی اور اکرام مسلم سے کتراتے ہیں ان کے لیے وعیدیں ہیں۔آپ ﷺ نے ایک موقع پر فرمایا”لَا خَيْرَ فِيمَنْ لَا يُضِيف”’’ جو شخص مہمان نوازی نہ کرے اس میں کوئی خیر نہیں۔(مسند احمد،ح/ 9087)یعنی  اس شخص میں کوئی بھلائی نہیں جو مہمان نوازی نہیں کرتا۔

مہمان کو کھانا کھلانے کا طریقہآپ ﷺ نے فرمایا: تم اپنے مہمان کے ساتھ کھانا کھالو۔ کیونکہ مہمان اکیلے کھانے سے شرماتا ہے۔(شعب الایمان ح/9186)کافروں کی مہمان نوازییہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ آپ ﷺ صرف مسلمانوں اور جاننے والوں کی مہمان نوازی نہیں کرتے تھے بلکہ کفار کی بھی مہمان نوازی فرماتے تھے۔مہمان نوازی صرف مسلمانوں کے ساتھ خاص نہیں بلکہ اگر کوئی کافر بھی دروازے پر آجائے تو اس کی ضیافت کرنی چاہئے اور اسے پیٹ بھر کھلانا پلانا چاہئے:”حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے، کہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس ایک مہمان آیا وہ شخص کا فر تھا رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس کے لیے ایک بکری کا دودھ دوہنے کا حکم دیا اس نے دودھ پی لیا پھر دوسری بکری کا دودھ دوہنے کا حکم دیا اس نے اس کو بھی پی لیا ،پھر ایک اور  ( بکری کا دودھ دوہنے  )  کا حکم دیا اس نے اس کا بھی پی لیا ،حتی کہ اس نے اسی طرح سات بکریوں کا دودھ پی لیا پھر اس نے صبح کو اسلام لے آیا رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس کے لیے ایک بکری کا دودھ دوہنے کا حکم دیا اس نے وہ دودھ پی لیا  پھر دوسری بکری کا دودھ دوہنے کا حکم دیا،وہ اس کا سارا دودھ نہ پی سکا تو رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرما یا :   مسلمان  ایک آنت میں پیتا ہے جبکہ کافر سات آنتوں میں پیتا ہے۔

مسلم،کتاب الاشربہ،ح 5379)اسی طرح ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کے پاس ایک مہمان آیا تو آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے ایک یہودی کے پاس اپنی زرہ رہن (یعنی گروی) رکھ کر اس کی ضیافت فر مائی ۔ مہمان کو رخصت کرنے کا طریقہحضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔آپ ﷺ نے فرمایا: مہمان کو دروازہ تک رخصت کرنے جائے(شعب الایمان ح/ 9202) مہمان نوازی پر کچھ واقعاتآپ ﷺ کی بارگاہ میں جو بھی وفود آتے تھے ان کی خوب مہمان نوازی فرماتے تھے۔ احادیث کی کتب میں آتا ہے کہ آپ ﷺ کی خدمت میں جو وفود آتے آپ ﷺ ان کی خاطر داری  اور مہمان نوازی کا فرض صحابہ رضوان اللہ علیہم  کے سپرد فرماتے۔ایک دفعہ قبیلہ عبدالقیس کے مسلمانوں کا وفد آپ ﷺ کی خدمت حاضرہوا۔ تو آپ نے انصار کو ان کی مہمان نوازی کا ارشاد فرمایا چنانچہ انصار ان مہمانوں کو اپنے ساتھ  لے گئے۔ صبح کے وقت وہ لوگ حاضر ہوئے تو آپ نے دریافت فرمایا کہ تمہارے میزبانوں نے تمہاری خاطر مدارت کیسی کی۔

انہوں نے کہا یا رسول اللہ بڑے اچھے لوگ ہیں۔ ہمارے لیے نرم بستر بچھائے، عمدہ کھانے کھلائے اور پھر رات بھر کتاب و سنت کی تعلیم دیتے رہے۔امام غزالی نے اپنی معروف کتاب  احیاء العلوم میں ایک واقعہ نکل کیا ہے:ایک مرتبہ امام شافعیؒ بغداد میں امام زعفرانیؒ کے مہمان بنے۔ امام زعفرانی ؒ روزانہ امام شافعیؒ کی خاطر اپنی ایک باندی کو ایک پرچہ لکھا کرتے تھے، جس میں اس وقت کے کھانے کی تفصیل درج ہوتی تھی۔ امام شافعیؒ نے ایک وقت باندی سے پرچہ لے کر دیکھا اور اس میں اپنے قلم سے ایک چیز کا اضافہ فرما دیا۔دسترخوان پر جب امام زعفرانیؒ نے وہ چیز دیکھی تو باندی پر اعتراض کیا کہ میں نے اس کے پکانے کو نہیں لکھا تھا۔‘‘ وہ پرچہ لے کر آقا کے پاس آئی اور پرچہ دکھا کر کہا کہ : ’’ یہ چیز حضرت امام شافعیؒ نے خود اپنے قلم سے اضافہ فرمائی تھی۔‘‘ امام زعفرانیؒ نے جب اس کو دیکھا اور حضرت امام شافعیؒ کے قلم سے اس میں اضافہ پر نظر پڑی تو خوشی سے باغ باغ ہوگئے اور اس خوشی میں اس باندی کو ہی آزاد فرمادیا۔ ( احیاء العلوم)بعض علماء  کرام نے لکھا ہے  کہ دیہاتوں اور گاؤں والوں پر میزبانی واجب ہے کہ جو شخص ان کے گاؤں میں ٹھہرے اس کی مہمانی کریں؛ کیوں کہ وہاں کھانے کا کوئی دوسرا انتظام نہیں ہوسکتا اور شہر میں ہوٹل اور دیگر رہنے اور کھانے پینے  وغیرہ سے اس کا انتظام ہوسکتا ہے، اس  لیے شہر والوں پر  میزبانی واجب نہیں بلکہ سنت اور مستحب ہے۔

خلاصہ کلامانتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آپ ﷺ اور صحابہ کرام و بزرگوں کے اتنے شاندار اسوہ ہونے کی باوجود بھی مسلمانوں  میں مجموعی طور پر مہمان نوازی کی صفت ختم ہوتی جارہی ہے۔اور جو لوگ مہمان نوازی میں تکلفات میں پڑتے ہیں دراصل انہوں نے تمدن اسلامی کی سادگی کو کھو دیا ہے۔ہمیں مہمان نوازی میں وضعداری اور بے جا تکلفات نے بری طرح جھکڑ  لیا ہے۔ہمیں چاہیے کہ وضعداری کی بجائے گھر میں جو ماحضر ہے  اس کو مہمان کے سامنے خندہ پیشانی سے پیش کریں تاکہ مہمان نوازی بھی ہو اور ثواب بھی ملے۔گھر میں کچھ خاص نہ ہونے کی وجہ سے مہمان نوازی کو ترک کرنا مناسب نہیںآپ ﷺ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام و اہل بیت کی سیرت ہمارے سامنے ہے۔آپ ﷺ نے کبھی بھی مہمانوں کو بغیر مہمان نوازی اور اکرام کے نہیں جانے دیا۔

آپ  ﷺ نے ہمیں وہ طریقے بھی سکھائے کہ کس طرح مہمان کی مہمان نوازی کرنی ہے اور کتنے دن تک کرنی ہے۔ اور ساتھ یہ بھی بتایا کہ میزبان کو کیا کرنا چاہیے اور ان تمام حرکات و سکنات سے بچنے کی ترغیب دی جن سے مہمان کو تکلیف کا احساس ہوا۔یقینا ایسا کرنے سے باہمی محبت کم ہوکر مہمان نوازی ایک رسم بن جاتی ہے جس سے اسلامی اخوت ومحبت کا رشتہ کم ہوجاتا ہے اور معاشرہ  تباہی کی طرف جاتا ہےیہ ہمارے لیے باعث اطمینان ہے کہ گلگت بلتستان کے لوگ بہت مہمان نواز ہیں۔ آپ گلگت بلتستان کے کسی بھی کونے میں چلے جائیں لوگ انتہائی خلوص کیساتھ آپ کی مہمان نوازی کریں گے۔ گلگت بلتستان کے لوگوں کی مہمان نوازی کا سارا کا سارا صلہ تعلیمات اسلامی، آپ ﷺ ، اہل بیت کرام اور صحابہ رضوان اللہ علیہم کے طفیل اور مرہون منت ہے۔وماعلینا الا البلاغنوٹ: یہ تحریر/ مقالہ  ریڈیوپاکستان کے 2021 کی ربیع الاول ٹرانسمیشن کے لیے خصوصی لکھی گئی ہے اور ریکارڈ کروائی گئی ہے.ریڈیو پاکستان گلگت میں منعقدہ قومی سیرت سیمنار میں اپنے عزیز طلبہ کے ساتھ مقالہ پڑھنے کی سعادت حاصل کی، پروڈیوسر ڈاکٹر شیر دل جبکہ میرمحفل شیخ شرافت ولایتی تھے. 

chitraltimes radio program gilgit seratun nabavi
Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
53413

ایڈوانس انکم ٹیکس کا نیا فارمولہ ۔ محمد شریف شکیب

فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے گھروں میں کام کرکے کمانے والوں پر ایڈوانس انکم ٹیکس عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ ٹیکس ان کے بجلی بلوں میں شامل کیا جائے گا۔ ان پروفیشنلز میں ایف بی آر کے ساتھ رجسٹرڈ نہ ہونے والے اکاونٹنٹس، وکلاء، ڈاکٹرز، انجینئرز، آرکٹیٹکس، آئی ٹی ماہرین، ٹویٹرز، ٹرینرز اور بیوٹیشنزسمیت گھروں میں بیٹھ کر خدمات فراہم کرنے والے سروس پر و ائیڈرز شامل ہیں ان سے ماہانہ بجلی بلوں کے ساتھ نارمل ود ہو لڈنگ ٹیکس کے علاوہ 80روپے سے لیکر 650روپے تک اضافی ایڈوانس انکم ٹیکس وصول کیا جائے گا۔اضافی ٹیکس سمیت بجلی کا بل 10ہزارسے زائد ہونے کی صورت میں مزید 17فیصد اضافی ٹیکس لگایا جائے گا۔

ایف بی آرنے اضافی ایڈوانس ٹیکس کی جو شرح مقرر کی ہے اس کے مطابق 600روپے ماہانہ بل کی صورت میں 80روپے، ایک ہزار بل پر 160روپے،3ہزار روپے ماہانہ بل پر 350روپے، 4ہزار 500روپے ماہانہ بل کی صورت میں 450روپے، 6ہزار روپے ماہانہ بل کی صورت میں 500روپے، 10ہزار ماہانہ بل پر650روپے اور 10ہزار روپے سے زائد ماہانہ بل کی صورت میں اسی تناسب سے اضافی ایڈوانس انکم ٹیکس لیا جائے گا۔ بیس ہزار روپے ماہانہ بل پر 7فیصد، 30ہزار روپے پر 10فیصد، 40ہزار پر 12فیصد، 50ہزار بل پر 15فیصد اور پچاس ہزار روپے سے زائد ماہانہ بل پر 17فیصد اضافی ٹیکس وصول کیا جائے گا۔ایف بی آر کو کسی سنگدل نے مشورہ دیا ہوگا کہ ایڈوانس ٹیکس خود جمع کرنے کے بجائے ٹی وی فیس کی طرح بجلی کے بلوں میں ڈالا جائے تو وصولی کے سو فیصد چانسز ہیں۔اگر کوئی شخص بطور احتجاج بجلی کا بل مقررہ وقت پر جمع نہیں کرائے گا تو اس کی بجلی کاٹ دی جائے گی۔

اس طرح سانپ بھی مرے گا اور لاٹھی بھی سلامت رہے گی۔ لاٹھی کا سلامت رہنا اس لئے ضروری ہے کہ جس کے ہاتھ میں یہ ہوتی ہے بھینس اسی کی ہوتی ہے۔ اور بھینس جس کی ہوگی دودھ بھی اسی کو دے گی۔ اور بھینس کے اصل مالک دیکھتے رہ جائیں گے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ گھروں میں کام کرکے اس کا معاوضہ وصول کرنے والوں کا تعین کیسے ہوگا۔ اور کتنی آمدن پیدا کرنے والوں پر یہ ٹیکس لاگو ہوگا۔وکیلوں، ڈاکٹروں، انجینئروں اور بیوٹیشن کا مرکز چلانے والوں کا کھوج لگانا شاید مشکل نہ ہو۔ کیونکہ ان طبقات سے جلنے والوں کی بھی کمی نہیں ہے وہ اپنا غصہ اتارنے کے لئے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایف بی آر والوں کو سب کچھ بتا سکتے ہیں۔ اگر بورڈ آف ریونیو والے ایسے لوگوں کی اطلاع دینے والوں کے لئے معقول انعام مقرر کرے تو کام مزید آسان ہوسکتا ہے۔ تنخواہ دار طبقے کو ایف بی آر کے طرزوصولی پر کافی تحفظات بھی ہیں۔

وہ ہر مہینے بجلی، گیس، پانی، ٹیلی فون، موبائل کارڈ اور دیگر خدمات پر مختلف اقسام کے درجن بھر ٹیکس اور تنخواہ پر انکم ٹیکس ادا کرنے کے باوجود نان فائلر اور نان رجسٹرڈ کہلاتے ہیں۔اورانہیں مختلف طریقوں سے ہراساں کیا جاتا ہے۔ حالانکہ پاکستان کا ہر شہری مختلف مصنوعات کے استعمال اور خدمات کے حصول پر ٹیکس ادا کرتا ہے جن میں انکم ٹیکس، سیلز ٹیکس، ایڈیشنل ٹیکس، محصول چونگی، سرچارج، ایڈیشنل سرچارج اور دیگر محصولات اور ٹیکسز شامل ہیں۔ریونیو جمع کرنے والے حکام بجلی اور گیس استعمال کرکے بل دینے سے انکار کرنے والے صنعت کاروں، کارخانے داروں، جاگیر داروں، برآمد کنندگان، بڑے تاجروں، افسروں، سرکاری محکموں، کنڈہ لگا کر اے سی چلانے والوں کا غصہ بھی بیچارے ٹیکس دھندگان پر نکالتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ بڑے ٹیکس چوروں کا ناطقہ اگر کسی طریقے سے بند کردیا جائے اور ان سے آمدن کے حساب سے وصولیاں کی جائیں تو شاید ایف بی آر والوں کو اپنے گھر کا چولہا گرم رکھنے کے لئے محنت مزدوری کرنے والوں کو تنگ کرنے کی ضرورت ہی پیش نہ آئے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
53380

ندامت کے آنسووں کی تاثیر – تحریر: اقبال حیات اف برغذی

ایک کتاب میں ایک بزرگ سے منسوب واقعہ نظروں سے گزراتھا جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے قابل توجہ اور چشم کشا ہے فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک گلی سے گزرنے کا اتفاق ہوا۔ یکاک ایک گھر کا دروازہ کھلا ۔ایک خاتون ایک سات آٹھ سال کی عمر کے لڑکے کو دھکے دیکر باہر نکالتی ہوئی کہنے لگی کہ “نکل جاو” تم نا فرمان ہوگئے ہو۔کوئی بات سننے کے لئے تیار نہیں اور ہروقت دل آزاری کرتے رہتے ہو۔اب کے بعد یہ دروازہ تمہارے لئے بند ہے۔ اور دوبارہ اس کی طرف سے رخ کرنے کی کوشش کی تو جان سے مار دونگی۔

اس بچے کا ردعمل دیکھنے کے لئے میں وہاں کچھ دیر کھڑا رہا ۔وہ لڑکا کافی عرصہ روتے رہے پھر اٹھ کر خرامان خرامان گلی کے کونے میں جاکر کھڑا رہا اور ہاتھ سے پیشانی کومروڑتے رہے اور واپس گھر کی طرف روانہ ہوا۔ اور دروازے پر آکر بیٹھ گیا رو رو کر تھک گیا تھا اس لئے تھوڑے ہی دیر میں سوگئے۔

ماں نے جب دوبارہ دروازہ کھولی تو بیٹے کو چوکٹ پر سر رکھے سوتے ہوئے دیکھی ۔ماں کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہوا تھا۔ اس نے بچے کے سر کے بال پکڑ کر جھنجھوڑتی ہوئی کہنے لگی کہ بد تمیز لڑکا میں نے تم سے کہہ دی تھی کہ آئندہ کےلئے اس دروازہ کا رخ نہ کرنا۔ اور اپنا شکل مجھے نہ دکھانا ۔ لڑکا چیخ کر روتے ہوئے ہچکی لےکر ماں سے کہنے لگا کہ ” اے میری پیا ری ماں مجھے ماکر کر دروازے سے باہر پھینکنے پر میں نے سوچا کہ کیوں نہ بازار جاکر بھیگ مانگ کر یا بوٹ پالش کرکے زندگی کے ایام گزاروں۔ مگر گلی کے کونے پر پہنچنے کے بعد میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ ” اے نادان لڑکا” تم جہاں بھی جاو گے ہر طریقے سے اپنا پیٹ بھر سکوگے۔ مگر ماں کی مامتا اور پیار کی نعمت عظمی سوائے اس در کے تمہیں کہیں بھی نصیب نہ ہوگی۔ دل میں پیدا ہونے والے اس خیال نے میرے قدم روکے اور واپس مڑکر مہرومحبت سے لبریز اس چوکھٹ پر سر رکھتے ہی سکوں کی نیند سے مستفید ہوا اب زندہ حالت میں کسی صورت بھی اس چوکھٹ کو چھوڑنے کے لئے تیار نہیں۔

ان جذبات کو سن کر ماں کے رحم بھرے دل کی حالت بدل گئی  اور یہ کہتی ہوئی اسے گلے لگائی ۔کہ اگر تم میں میرے بارے میں اتنی سمجھ اور احساس پیدا ہوا ہے۔ تو تمہارے لئے اس گھر کے دروازے کو بند کرنےکاکوئی جواز ہی نہیں اور یہ ہمیشہ تمہارے لئے کھلا رہیگا یوں اس لڑکے کو گلے لگاکر اندرچلی گئی۔

موصوف اس واقعے کے تناظر میں کہتے ہیں کہ اگر ایک نافرمان اور گناہگار بندہ ندامت کے آنسو بہائے اپنے عظیم ور مہربان پرودگار کی حقا نیت پر کامل ایمان کے ساتھ مغفرت کےلئے استدعاکرے گا۔ تو خداوند کریم اس کے احساسات کو قدردانی سے کبھی بھی محروم نہیں کریں گے۔ کیونکہ اپنے گناہگار بند ے کے ساتھ آپ  کی محبت ماں کی محبت سے ستر گنا زیادہ ہے۔ مگر افسوس ہم اپنے رحیم اور کریم پرودگار کو پہچاننے میں کوتاہی کرتے ہیں اور ان کے دروازے کو کھٹکھٹانے میں غفلت کا ارتکاب کرتے ہیں۔

تو آئے آج ہی اس عظیم ذات کے سامنے ہاتھ پھیلائے ،گڑ گڑا کر اپنے اعمال بد کےلئے معافی مانگیں۔ کیونکہ زندگی کا چراغ گل ہونے میں دیر نہیں لگتی ۔ قرآئین اور آثار سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ مہربان ذات ہم سے ناراض ہیں۔

                                        

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
53378

بلدیاتی الیکشن ۔ محمد شریف شکیب

الیکشن کمیشن نے خیبر پختونخوامیں نومبر میں پہلے مرحلے کے بلدیاتی انتخابات کا انعقاد یقینی بنانے کے لئے 14اکتوبر کو اہم اجلاس طلب کرلیا ہے۔اور صوبائی حکومت کو ہدایت کی گئی ہے کہ صوبہ میں بلدیاتی انتخابات کے مرحلہ وار انعقاد کا مکمل شیڈول الیکشن کمیشن کے اجلاس میں پیش کرے تاکہ ان انتخابات کے لئے بروقت تیاریاں مکمل کی جاسکیں۔ الیکشن کمیشن نے آئندہ عام انتخابات کے لئے انتخابی فہرستوں پر نظر ثانی کا بھی فیصلہ کر لیااور عام انتخابات کے انعقاد سے قبل تمام ضروری انتظامات کی بروقت تکمیل کو بھی یقینی بنانے کا حکم دے دیا، الیکشن کمیشن نے یہ فیصلہ بھی کیا ہے کہ آئندہ عام انتخابات کے لئے نئی حلقہ بندی حکومت کی طرف سے شائع شدہ آبادی کے اعدادوشمار کو سامنے رکھ کرازسرنو کی جائے گی۔الیکشن کمیشن نے دیگر صوبائی حکومتوں کو ہدایت کی کہ الیکشن کمیشن کے تحریری فیصلے کا انتظار کئے بغیر فوری طور پر آئندہ بلدیاتی انتخابات کی مرحلہ وار ترتیب اور اضلاع کی تفصیل مہیا کی جائے۔

خیبر پختونخوا حکومت نے پہلے ہی اعلان کیاتھا کہ وہ رواں سال نومبر اور دسمبر میں مرحلہ وار بلدیاتی انتخابات کروانے کے لئے تیار ہے۔ پہلے مرحلے میں صوبے کے میدانی علاقوں میں انتخابات ہوں گے۔اگر حکومت 20نومبر کے بعد انتخابات کرانا چاہتی ہے تو حکومت کے پاس صرف ڈیڑھ مہینے کی مہلت باقی ہیں۔الیکشن شیڈول کا اعلان ہونا ہے۔ امیدواروں کو کاغذات نامزدگی جاری کئے جائیں گے۔ان کی وصولی اور جانچ پڑتال ہوگی، حتمی فہرست جاری کی جائے گی۔ امیدواروں کو انتخابی نشانات الاٹ ہوں گے اور انتخابی مہم چلانے کے لئے بھی کم از کم دو ہفتوں کی مہلت درکار ہوگی۔ اس سارے عمل کے لئے ڈیڑھ ماہ کا عرصہ بہت کم ہے۔انتخابی عمل کے علاوہ کئی دیگر عوامل کا فیصلہ بھی ہونا باقی ہے۔ ابھی تک یہ طے نہیں ہوا کہ بلدیاتی انتخابات جماعتی بنیادوں پر ہوں گے یا غیر جماعتی ہوں گے۔ بلدیاتی اداروں کی ہیئت کیا ہوگی۔

کیا ضلع کونسل کے انتخابات بھی ہوں گے یا صرف میونسپل کارپوریشن، ٹاون کونسل، تحصیل، نیبرہڈ اور ویلج کونسل کے ہی انتخابات ہوں گے۔ صوبائی حکومت کورونا کی وباء کے پیش نظر بلدیاتی انتخابات اگلے سال مارچ میں کرانا چاہتی تھی تاہم الیکشن کمیشن نے صوبائی حکومت کی تجویز سے اتفاق نہیں کیا اور انتخابات ہر صورت میں اسی سال کرانے کی ہدایت کی۔بلدیاتی اداروں کی غیر موجودگی میں نچلی سطح پر عوامی مسائل گذشتہ دو سالوں سے جوں کے توں ہیں۔جن میں گلیوں کی پختگی، نالیوں کی تعمیر، صفائی کے انتظامات، بجلی، گیس سے متعلق چھوٹے چھوٹے مسائل، اسناد کی تصدیق وغیرہ شامل ہیں۔ ان کاموں کے لئے لوگ ایم پی اے، ایم این اے اور سینیٹرز کے پیچھے جانے سے قاصر ہیں اور ان سے ملاقات بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ایک اہم قومی ضرورت ہی نہیں بلکہ ایک آئینی تقاضا بھی ہے۔

تاہم عجلت میں ادھورے اور غلط فیصلے کرنے سے بہتر ہوگا کہ بلدیاتی انتخابات نومبر کے بجائے میدانی علاقوں میں دسمبر اور پہاڑی علاقوں میں مارچ میں کرائے جائیں تاکہ اداروں اور امیدواروں کو تیاری کا مناسب موقع مل سکے۔اس عرصے میں حکومت کو بھی نئے بلدیاتی ڈھانچے کی نوک پلک درست کرنے کا بھی موقع ملے گا۔ بلدیاتی اداروں کو جمہوریت کی نرسری قرار دیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں جمہوری نظام کمزور ہونے کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہے کہ یہاں بلدیاتی انتخابات کو جمہوری حکومتوں کی سرپرستی حاصل نہیں رہی۔ غیر جمہوری حکومتوں نے بلدیاتی ادارے قائم کئے اور جمہوری حکومتیں ان کی بساط لپیٹتی رہیں۔ اگر حکومت بلدیاتی انتخابات غیر سیاسی بنیادوں پر کرانے کا اعلان کرے تو زیادہ پڑھے لکھے، قابل اور اہل لوگ بلدیاتی اداروں میں منتخب ہوکر آسکتے ہیں جس سے اس نظام کو تقویت بھی ملے گی۔اور زیادہ اہل لوگ صوبائی اور قومی سطح کی سیاست میں آئیں گے۔ جس سے جمہوریت کو استحکام حاصل ہوگا۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
53366

کالعدم ٹی ٹی پی سے بار بار مذاکرات ؟ ۔ قادر خان یوسف زئی

ملکی سا  لمیت کے وسیع تر داخلی اور خارجی تناظر میں انتہائی ہولناک اور افسوس ناک سانحات پر سنجیدہ غور وفکر متقاضی ہے کہ عوام کے تحفظات و تشویش کو دور کرنے کے لئے ریاستی حکمت عملی کو واضح کیا جائے۔ شدت پسندوں کیہتھیار ڈالنے پر معافی کے اعلان اور کالعدم تنظیموں سے مذاکرات کی خبروں سے ایک بے یقینی پائی جا رہی ہے، اس پر عوام،سول سوسائٹی اور حزب اختلاف کے خدشات سامنے آئے ہیں کیونکہ عوام (پارلیمنٹ) کو اعتماد میں لئے بغیر ایک بار پھر وہی عمل دوہرایا جارہا ہے جس کے نتائج ماضی میں توقعات کے برخلاف نکلے اور ملک میں دہشت گردی اور شدت پسندی کا خاتمہ نہیں ہوسکا لیکن جب بھی ایسے علاقوں میں فوجی آپریشن  کیا گیا تو بیشترسیاسی جماعتوں کی تائید اور مکمل حمایت کی تھی جس کے نتیجے میں مسلح افواج نے شدت پسندی کے خلاف بے رحم آپریشنز کئے، آپریشن کامیاب بھی ہوئے اور کالعدم تنظیمو ں کے سرکردہ شدت پسند جنگجو افغانستان فرار ہوگئے اور افغان سرزمین مملکت کے خلاف استعمال کئے جانے سے ناقابل جانی و مالی نقصان کا سلسلہ نہ رک سکا۔


وزراعظم عمران خان نے ترک نشریاتی ادارے کو دیئے گئے انٹرویو میں انکشاف کیا کہ کچھ ٹی ٹی پی گروپس سے، افغان طالبان کے تعاون سے مذاکرات کئے جارہے ہیں۔ وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید کے مطابق’حکومت جانتی ہے کہ کون اچھے ہیں اور کون بُرے، اس لئے مذاکرات کئے جا رہے ہیں‘ لیکن وزیردفاع پرویز خٹک کا کہنا تھا کہ’ٹی ٹی پی سے افغانستان یا پاکستان میں کوئی خفیہ مذاکرات نہیں کئے جا رہے‘۔ اعلیٰ حکومتی عہدے داروں کا متضادبیانیہ ہی دراصل عوام میں تحفظات کا سبب بنا کہ یہ سب کیا ہورہا ہے۔ سینیٹر رضا ربانی کا کہنا تھا کہ’ وہ حکومت کو پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیے بغیر کالعدم ٹی ٹی پی سے مذاکرات کے حق میں نہیں، معاملے پر بحث کے لئے ایوان کا اجلاس بلایا جائے۔‘ واضح رہے کہ ماضی میں شدت پسندوں کے ساتھ مذاکراتی عمل میں کوشش کی گئی تھی کہ وہ غیر مسلح ہوجائیں اور مذاکرات کے نتیجے میں بعض گروپس کے مطالبات بھی تسلیم کئے گئے۔ 2004 میں سب سے پہلے مذاکرات نیک محمد گروپ سے کئے لیکن چند مہینوں بعد ہی معاہدہ ختم ہوگیا۔2006 میں ٹی ٹی پی کے سابق سربراہ بیت اللہ محسود سے معاہدہ  بھی ناکام رہا،2008 اور2009 میں ٹی ٹی پی سوات کے  ملا فضل اللہ سے معاہدہ بھی زیادہ دیر قائم نہ رہ سکا۔2014 میں ایک بار پھر ٹی ٹی پی سے مذاکرات ہوئے لیکن یہ بیل بھی منڈھے نہیں چڑھ سکی۔ غور طلب پہلو ہے کہ ٹی ٹی پی سے قیام امن کے لئے اُس وقت کی سیاسی حکومتوں نے ہی مذاکرات کئے، پی ایم ایل ن، پی پی پی اور اے این پی کی وفاقی و صوبائی حکومتوں نے ان کے مطالبات بھی مانے لیکن کالعدم تنظیم نے غیر مسلح ہونے کے بجائے خود کو مزید منظم اور مضبوط کیا اور عوام کے لئے شدیدتکالیف کا سبب بنے۔


پی ٹی آئی  اس بار افغان طالبان کے تعاون سے جن گروپس سے مذاکرات کررہی ہے ان کے نام تو ظاہر نہیں کئے گئے لیکن ذرائع کے مطابق یہ وہ گروپس ہیں جو منظم و مستحکم نہیں  رہے اور شدت پسندی کے ان گنت واقعات میں انہوں نے براہ راست کسی دہشت گردی کے واقعے کی ذمے داری بھی قبول نہیں کی۔کالعدم ٹی ٹی پی،پاکستان میں بدترین شدت پسند کاروائیوں میں ملوث رہی اور افغانستان میں داعش خراساں کے ساتھ، اتحادی بننے کے بعد شمال مغربی علاقوں میں مسلح افواج کے خلاف مسلح کاروائیاں کرتے اور اس کی ذمے داری بھی قبول کرتے رہے۔ افغان طالبان تو کہہ چکے کہ ٹی ٹی پی، پاکستان کا مسئلہ ہے لیکن انہوں نے یہ بھی یقین دہائی کرائی تھی کہ ان کی سرزمین سے پاکستان سمیت کسی بھی ملک کے خلاف کاروائی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ پاک۔ افغان بارڈر پر باڑ لگنے کے بعد شدت پسندی کے واقعات میں نمایاں کمی آئی لیکن پاک۔ایران سرحد اور افغان۔ ایران سرحد کو ابھی تک محفوظ نہیں بنایا جاسکا اس لئے آئے روز دہشت گردی کا کوئی نہ کوئی واقعہ مسلح افواج کے خلاف رونما ہوتا رہتا ہے۔ شدت پسندی کو جڑ سے ختم کرنے میں شاید کئی برس لگ سکتے ہیں کیونکہ دنیا کا کوئی ایسا ملک نہیں جہاں شد ت پسند مختلف بہروپ میں نہ پائے جاتے ہوں، لہذا اس ضمن میں یہ تصو ر کرنا کہ بھارت جیسے ملک کے ہوتے ہوئے اور اس کے پھیلائے ہوئے زہر سے افغانستان میں اثر ختم ہوچکا تو یہ ہماری غلط فہمی ہوگی کیونکہ ناسور کا علاج کرنا بڑا کٹھن اور وقت طلب کام ہے۔


قریباََ ہر متشدد جنگ کا اختتام مذاکرات کی میز پر ہی ہوتا ہے۔ ہمارے سامنے افغانستان کی جیتی جاگتی مثال موجود ہے، اس سے قبل ایران و عراق کے درمیان  برسوں کی جنگ کا خاتمہ بھی مذاکرات کی ٹیبل پر ہوا توپاک۔ بھارت کے ساتھ ہونے والی جنگیں بھی مذاکراتی میز پر ہی ختم ہوئیں، بدتر حالات کے تناظر میں اگر کوئی ایسی یقین دہانی عوام (پارلیمنٹ) کو مطمئن کرسکتی ہے کہ مسلح گروپ، ہتھیار ڈالنے کے بعد نارمل زندگی بسر کرنے لگیں تو ماضی کے تجربات اچھے نہیں رہے، تاہم اگر ہم یہ سوچ رکھتے ہیں کہ افغان طالبان انہیں روک دیں گے تو یہ بھی دشوار گذار مرحلہ ہوگا کیونکہ ٹی ٹی پی کے جو مطالبات ہیں وہی افغان طالبان کے رہے ہیں، اس لئے ممکن نظر نہیں آتا کہ شدت پسندوں کے ساتھ،  قربانیوں دینے والے عوام گلے لگنے کے لئے ذہنی طور پر تیار ہوجائیں گے۔


مسلح افواج نے شدت پسندوں کے خلاف آپریشن بلیک ٹھنڈر سٹورم، آپریشن خیبر، آپریشن راہ راست، آپریشن راہ حق، آپریشن ضرب عضب اور آپریشن ردالفساد کیا،جس کے نتیجے میں مملکت میں بڑے پیمانے میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں کمی واقع ہوئی ورنہ اس سے قبل عوامی مقامات، مساجد، بارگاہوں، مزارات اور سرکاری املاک سمیت حساس و مرکزی فوجی مراکز کو بھی نشانہ بنایا جاتا تھا جس کو  سیکورٹی فورسز نے قربانیوں کے بعد روکا۔  ریاستی ادارے اس امر کی اہلیت رکھتے ہیں کہ وہ شدت پسندوں کے خلاف بھرپور کاروائیاں کریں لیکن حکومت کی رٹ کیوں کمزور نظر آرہی ہے اس پر غور کی ضرورت ہے، کیونکہ گروپس خود کو منظم کرنے کے لئے مذاکرات کے نام پر مہلت چاہ رہے ہیں تاکہ ماضی کی طرح وہ فائدہ اٹھاکر ایک بار پھر ریاست کو چیلنج کریں اور ملک بھر میں بے خوف پھیل جائیں۔ عوامی تحفظات کو دور کرنا حکومت کی ذمے داری ہے جو انہیں پارلیمان کی کھلی بحث میں حصہ لے کر دور کرناچاہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
53351

پس وپیش – پانی دھرتی کا دودھ – اے.ایم .خان

اقوام متحدہ کے ایک ذیلی تنظیم کا دُنیا میں پانی کے بحران کے حوالے سے رپورٹ قابل غور اور تشویشناک ہے۔ وہ علاقے اور ممالک جہاں موسمیاتی تبدیلی سے جو بھی حالات ہو چُکے ہیں  اور رونما ہو رہے ہیں جسمیں مزید شدت آنے  کی پیشن گوئی کی گئ ہے ۔ اور وہ ممالک جہاں لوگوں کا زیادہ دارومدار زراعت پر ہے وہاں موسمیاتی تبدیلی سے پیداوار میں کمی اور پانی کی قلت سے مزید نقصانات ہو نے کی گنجائش ہے۔

  ورلڈ میٹیورولوجیکل ارگنائزیشن کے رپورٹ کے مطابق دُنیا میں پانچ عرب سے زیادہ لوگوں کو 2050  ء تک پانی کی رسائی میں مشکلات درپیش ہوسکتے ہیں جوکہ 2018ء تک ایک سال کے دوران تین اعشاریہ چھ عرب لوگوں کیلئے کم ازکم سال کے ایک مہینے پانی تک رسائی کے مسائل  بنتے تھے۔

سطح زمین پر پانی کے ذخائر کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ پانی کی یہ مقدار گزشتہ بیس سال سے ایک سینٹی میڑ  کے حساب سے گھٹ رہی ہے۔ اب جوکہ زمین میں 0.5فیصد پانی تازہ اور قابل استعمال ہے، وہ ذخائر جو زمین کی سطح، زیر زمیں ، برف اور گلیشیرز کی صورت میں موجود ہیں، اُن میں مزید کمی ہوسکتی ہے۔رپورٹ کے مطابق گزشتہ دو دہائی سے سیلاب اور اس سے متعلق تباہی میں بھی 124 فیصد اضافہ دیکھنے میں آئی ہے۔

  جرمن واچ کا حوالہ دے کر پاکستان اکنامک سروے (2019-20)میں یہ رپورٹ ہوئی ہے کہ پاکستان اپنے جغرافیہ کی وجہ سے دُنیا میں اُن دس ممالک میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے گزشتہ بیس سال سے سب سےزیادہ متاثر ہونے والا ملک ہے۔ ماحولیاتی ابتری اور حالات سے نمٹنے کے لئے ملک میں ، سروے کے مطابق،  ہر سال سات سے چودہ عرب ڈالر کی ضرورت پڑ جاتی ہے۔ ایک دوسرے  اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر سال تین اعشاریہ آٹھ عرب ڈالر کے حساب سے معاشی نقصان موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے پیدا ہوجاتا ہے۔

پاکستان میں پانی کا سب سے بڑا اور اہم ذریعہ دریائے سندھ ہے جس سے زراعت میں نوے فیصد پیداوار  ہوجاتی ہے۔ ذرعی پیداوار  ملک کے جی۔ڈی۔پی کا  ایک کوارٹر حصہ بن جاتی ہے اور یہ ملک کے اندر خوارک اور ذریعہ معاش کا اہم وسیلہ ہے۔ پاکستان کے برآمدات اور بیرونی آمدنی کا اہم ذریعہ بھی ذراعت ہے جو پانی کی کمی سے زیادہ متاثر ہوسکتا ہے۔

دلچسپی کی بات یہ ہے کہ  آزادی کے وقت پاکستان میں پانی فی کس کے حساب سے عالمی معیار کے مطابق زیادہ تھی جوکہ اب گر کر ایک ہزار میٹر فی کس سے بھی کم ہوچُکی ہے جس سے شدید پانی کی قلت، ترقی میں رکاوٹ اور انسانی صحت متاثر ہونے کا خطرہ ظاہر کیا جاتا ہے۔

پاکستان واٹر وژن 2025 کے مطابق پاکستان میں جنگلات کی کٹائی ہر سال چار فیصد کے حساب سے جاری ہے جس سے بلندی پر واقع علاقےجہاں عالمی حدت کا اثر زیادہ ہو جاتی ہے جس سے برف کی پگھلاو زیادہ اور پانی کے ذخائر میں کمی ہورہی ہے۔ اگر اس عمل سے ایک طرف  نقصانات ہو رہے ہیں تو دوسری طرف پانی کے وسائل کم ہونے کا شرح بڑھ چُکی ہے۔

پاکستان کے ڈرافٹ نیشنل واٹر پالیسی کے مطابق پاکستان میں 2025ء  تک پانی اور اُس کے ذخائر کے تحفظ اور ترقی سے کافی پانی  موجود ہونا چاہیے۔اس مقصد کے حصول کے لئے ملک میں پانی کی تقسیم کا معیار بہتر  کرنے پر زور دیا گیا ہے۔پانی کے حوالے سے قومی پالیسی کا لب لباب یہ ہے کہ  ماحول کو سامنے رکھتے ہوئے معیار زندگی کو بہتر بنانے، وسائل کی معاشی اہمیت اور تمام اسٹیک ہولڈر کی شمولیت سے پانی کے نظام تقسیم کے معیار کو بہتر بنانے اور اس کی برابر تقسیم کو یقینی بنانا چاہیے۔ اور صارفین کے ضروریات کو مدنظر رکھ کر بہتر انتظام کا ہونا، اداراتی اور قانونی نظام جس سے پانی کے پائیدار استعمال سے ملک میں سماجی اور معاشی ترقی ممکن ہوسکے۔

پانی کو دھرتی کے دودھ سے تغبیر کیا جاتا ہے جس سے زمین میں بسنے والے زندگی کا انحصار ہے۔ گوکہ پاکستان میں کئی علاقوں میں پانی کی کمی موجود ہے ، اور چند شہروں میں پانی کی کمی قلت کی صورت لے چُکی ہے۔بشمول پاکستان، دُنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلی اور عالمی حدت سے متاثر ہونے والے ممالک میں پانی کی کمی سے قلت اور اس سے پیدا  ہونے والے نقصانات کا اندازہ  قابل غور ہے۔  دُنیا میں پانی کے بحران کے حوالے سے اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے کی یہ رپورٹ پاکستان میں آنکھ کھولنے کیلئے کافی ہے۔ نیشنل واٹر پالیسی پر عملی کام کرکے ملک میں بننے والے پانی کی قلت سے نمٹنے کیلئے اقدامات اور موجود پانی کے ذخائر کو محفوظ کرنے ، اور اُن کے پائیدار استعمال کو یقینی بنانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
53329

تلخ و شیریں ۔ ٹیچر ڈے اور حمیدہ ایجوکیشن اکیڈمی ۔ نثار احمد

تلخ و شیریں ۔ ٹیچر ڈے اور حمیدہ ایجوکیشن اکیڈمی ۔ نثار احمد

دو دن قبل یومِ استاد سوشل میڈیا بالخصوص فیس بُک پر نہایت ہی جوش و خروش سے منایا گیا۔ جوش و خروش سے اس دن کو منانے والوں میں اساتذہ ہی پیش پیش رہے۔ اپنے جذبات حروف و الفاظ میں ڈھال کر یوم استاد منانے والے یہ اساتذہ اپنے اساتذہ کو خراجِ عقیدت پیش کر رہے تھے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ اساتذہ کی بجائے دیگر شعبہائے زندگی کے لوگ بڑھ چڑھ کر اس میں حصہ لیتے۔ اور محبت و عقیدت کے دو بول اپنے اساتذہ کی نذر کرتے۔

 فرینڈ لسٹ میں بڑی تعداد میں پولیس اہلکار، ڈاکٹرز، بیوروکریٹس سمیت دیگر طبقہائے زندگی کے افراد موجود ہیں. مجال ہے کہ سوائے چند کہ ان میں سے کسی نے اس مہم میں حصہ لینا گوارا کیا ہو۔  یہ ایک مثال اساتذہ کے تئیں ہمارے معاشرے کی نفسیات و ترجیحات سمجھنے کے لیے کافی ہے۔ یہ صورت حال اس بات کی عکاسی کر رہی ہے کہ یا تو ہمارا معاشرہ اساتذہ کرام کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہے یا پھر ان کو ایک حریف گروہ کے طور پر لے رہا ہے۔ جب تک معاشرے اور استاد میں قابلِ رشک انڈر اسٹنڈنگ اور مثالی تعلق نہ ہو،تب تک تعلیمی لحاظ سے معاشرتی ترقی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

 اس صورت حال کے تناظر میں معلمی کے پیشے سے وابستہ افراد کو منقبض ہونے کی بجائے اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے کہ آیا کہ ہم خود واقعی مثالی استاد کے درجے پر فائز بھی ہیں؟ اگر جواب نفی میں یا بیچوں بیچ ہے تو پھر ایک استاد کے لیے مطلوب صفات و عادات سے خود کو متصف کرنے میں زرہ برابر کوتاہی نہیں برتنی چاہیے۔ 

بچپن سے میری ایک ہی خواہش تھی کہ استاد بن کر بچوں کو پڑھاؤں۔ مدرسے میں گیا تو بھی اس خواہش کو زنگ آلود ہونے نہیں دیا۔ اسے پالا پوسا، جوان کیا پھر ایک دن ایسا آ گیا کہ اس خواہش نے عملی جامہ اوڑھ لیا۔  آج الحمد للّٰہ بطورِ استاد اپنی زمہ داری نبھانے کی کوشش کر رہا ہوں اور اس دن کے انتظار میں ہوں کہ حقیقی معنوں میں ایک استاد بن سکوں۔ 

معلمی یقیناً نہایت ہی معزز پیشہ ہے، انتہائی توجہ طلب اور حساسیت کا متقاضی بھی۔ معاشرے کی سرد مہری ایک طرف، لیکن کبھی کبھار کسی شاگرد کی طرف سے ملنے والی محبت سیر، سوا سیر خون ہی نہیں بڑھاتی ، ساتھ ساتھ ایک استاد کو نہایت شادان و فرحان بھی کرتی ہے۔

چند روز قبل ایک دو دوستوں کے ساتھ حمیدہ ایجوکیشن اکیڈیمی دنین گیا تھا وہاں بیسیوں پھول جیسے بچے ظہرانہ تناول کرنے کے بعد کیلوں (Bananas) سے نمٹنے میں مصروف تھے جونہی میں اندر داخل ہوا دو بچے بڑے ہی احترام، خلوص، محبت اور اپنائیت بھری نظروں سے مجھے گھورنے لگے۔ میں ابھی یادداشت ٹٹول کر بچوں کو پہچاننے میں مگن ہی تھا کہ ایک ان میں سے ایک بچے نے آگے بڑھ کر ہاتھ ملاتے ہوئے ان الفاظ میں تعارف اپنا کرایا کہ

    ” سر میں اویر کے سکول میں  آپ کا شاگرد تھا۔ برم اویر میں میرا گھر ہے”

 اگرچہ ساتویں جماعت کے ان بچوں کی درسگاہ میں میرا باقاعدہ سبق نہیں تھا لیکن مرخص اساتذہ کی جگہ چند بار اس کلاس میں داخل ہونے اور پڑھانے کا شرف ملا تھا۔ یہاں اس بچے کے محبت بھرے دو جملوں نے مجھے کتنا خوش کیا، ناقابلِ بیان ہے۔

chitraltimes hamida education academy danin chitral2

 حمیدہ ایجوکیشن سینٹر (دنین, چترال) مولانا عماد کا قائم کردہ ادارہ ہے اس  میں ایسے بچے مقیم ہیں جو والد جیسے شجر ِ سایہ دار کی گھنیری چھاؤں سے محروم ہیں۔ ان بچوں کی سکونت واقامت تو یہاں ہوتی ہے لیکن پڑھائی چترال ٹاؤن کے مختلف بہترین سکولوں میں ہوتی ہے۔ نوٹس بورڈ پر لگے لینگ لینڈ سکول کی طرف سے ارسال کردہ مراسلے سے معلوم ہو رہا تھا کہ دو تین بچے لینگ لینڈ جیسے معیاری سکول میں زیر ِ تعلیم ہیں۔  اسی طرح سینٹینل ماڈل سکول سمیت دیگر اچھے سکولوں سے بھی یہاں کے سکونت پذیر بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ادارے کا نظم قابلِ اطمینان ہے۔ مانیٹرنگ کے لیے کیمرے نصب ہیں۔ بچوں کے سونے کے لیے تین منزلہ چارپائیاں موجود ہیں۔ جامعہ اشرفیہ کا فاضل مولانا نور شاہد یہاں وارڈن ہے۔ اندر داخل ہوتے ہی جس چیز پر پہلی نظر پڑتی ہے وہ نوٹس بورڈ ہے۔ نوٹس بورڈ پر تمام بچوں کا مکمل ریکارڈ آویزاں ہے۔

 ایسی جگہوں پر جا کر بہت فرحت محسوس ہوتی ہے جہاں ضرورت مند بچوں کے قیام و طعام اور تعلیم و تربیت کا انتظام ہو۔ ایسے اداروں میں پلنے، بڑھنے اور پڑھنے والے بچے معاشرے پر بوجھ بننے کی بجائے معاشرے کے نہایت  مفید شہری بنتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مولانا موصوف کو جزائے خیر عطا فرمائے کہ آپ انسانیت کی خدمت میں زریعہ بن رہے ہیں۔ فی الوقت زمینی منزل تیار ہو چکی ہے مزید تعمیراتی کام مخیّرین کی توجہ کا منتظر ہے۔ امید یہی ہے کہ ادارہ بچوں کی تعلیم و تربیت میں کوئی کسر نہیں چھوڑے گا۔

chitraltimes hamida education academy danin chitral
chitraltimes hamida education academy danin chitral 2
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
53324

بزمِ درویش ۔ بھارتی چیخیں ۔ تحریر:پروفیسر محمد عبد اللہ بھٹی

مادیت پرست ترقی یافتہ ملک پھٹی نظروں سے حیران کن منظر دیکھ رہے تھے کہ کس طرح سپر پاور امریکی گرانڈیل دیو قامت پہلوان کو کمزور ترین افغانستا ن طالبان نے چاروں شانے چت کیا پھر جس طرح طالبان نے دنوں میں کابل کو فتح کیا اور امریکی طالبان سے رحم کی بھیک مانگ رہے تھے کہ معاہدے کے مطابق اُسی تاریخ کو امریکی افواج بلگرام ائر پورٹ اور افغانستان کو چھوڑ دیں گے سپر پاور کی شرم ناک عبرت ناک شکست سے مخالفین اسلام کفار پر پہلے تو سکتہ طاری ہو گیا کہ دنیا کے جدید اسلحے سے لیس سپر پاور کس طرح نہتے طالبان سے شکست کھا گئی لیکن دنیا بھر کے چینل پر یہ کرشماتی مناظر دیکھاتے جارہے تھے کہ کس طرح طالبان نے آرام سے آکر کابل کو فتح کر لیا تھا.

امریکی پٹھو اشرف غنی طالبان کی آمدسے پہلے ہی ڈالروں کے بیگ بھر کر اپنے حواریوں کے ساتھ بھاگ گیا تھا پہلے تو منافق بزدل مکار بھارت اور مغربی ممالک سکتے میں رہے لیکن پھر تو جیسے بھونچال آگیا ہو گیا بھارتی اینکرز اور موجودہ سابقہ بھارتی جرنیل پاگل کتوں کی طرح بھونکنا شروع ہو گئے بھارت جو ہر میدان میں پاکستان کو شکست دینے کے خواب دیکھتا ہے اور ہر ممکن وہ کو شش کرتا ہے جس سے پاکستان کی سالمیت کو کمزور کیاجاسکے افغانستان پر امریکی حملے اور طالبان کی شکست کے بعد جب امریکی کٹھ پتلی حکومت افغانستان میں آئی بھارت کو مکاری چالاکی دشمنی کا موقع مل گیا اب بھارت نے افغانستان میں اپنا اثر رسوخ بڑھانے اور اپنا نیٹ ورک قائم کرنے کے لیے اربوں ڈالر انفراسٹرکچر ڈیم سڑکیں سکول مختلف عمارتیں بنانے پر خرچہ کر دئیے پورے افغانستان میں اپنے سفارت خانے کھول دئیے

در پردہ اِن سفارت خانوں میں ”را“ کے ایجنٹ تھے جو پاکستا ن میں دہشت گردی اور پاکستان دشمن عناصر کو پرموٹ کر نے کے لیے تھے بیس سالوں میں بھارت نے اپنے مذموم مقاصد کے لیے اربوں ڈالر خرچ کئے تاکہ افغانستان میں اپنے خفیہ اڈے بنا کر پاکستان کو کمزور کر سکے بھارت شیخ چلی بنا افغانستان پر ڈالروں کی بارش کر رہا تھا کہ افغانستان میں بیٹھ کر بلوچستان اور وزیر ستان میں مقامی لوگوں کو استعمال کیا جاسکے طالبان جب امریکہ کے خلاف بر سر پیکار تھے تو وہ اچھی طرح بھارتی امریکی گٹھ جوڑ کو دیکھ رہا تھا اوپر سے طالبان جن کا مقصد اعلی حق تعالی کی خوشنودی اور خدا کے نظام کو دھرتی پر نافذ کر نا وہ بھارتی سازشوں سے بخوبی واقف تھے اب جب امریکہ طویل جنگ کے بعد دم دبا کر افغانستان سے بھاگا بھاگنے سے پہلے اشرف غنی اور اُس کی بزدل فوج کو جدید ترین اسلحے سے لیس کر گیا لیکن جدید اسلحہ اور بزدل افغانی فوج ریت کی دیوار ثابت ہوئے میدان جنگ میں ہتھیار ڈال دئیے یا پاکستان میں آکر پناہ لے لی طالبان کا اتنی جلدی کابل کو فتح کر نا یہ امریکہ بھارت اور اُس کے حواریوں کے لیے ناقابل یقین خواب تھا لیکن یہ خواب زندہ تعبیر ہو چکا تھا

بھارت کی انٹیلی جنس را ایجنسی جو بیس سالوں میں اپنا جامع مربوط نظام بنا کر بیٹھی تھی آئی ایس آئی نے را کے غبارے سے اِس طرح ہوا نکالی کہ را کے ایجنٹ بھی بزدل گیڈروں کی طرح افغانستان سے جانیں بچا کر بھاگے کٹی پتلی حکمران اشرف غنی اور امریکی پالتو جب میدان جنگ چھوڑ کر بھاگے تو را اور بھارت کے پاس بھی بھاگنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا اب بھارت شکست خودر کتے کی طرح اپنی ہی دم کو کاٹ رہا ہے بھارتی پاگل جرنیل مختلف چینل پر بیٹھ کر آئی ایس آئی اور پاکستانی فوج پر الزامات کی بارش کر رہے ہیں اِس طرح کی رسوائی والی شکست بھارت نے خواب میں بھی نہیں سوچی تھی بھارت جو پاگل کتے کی طرح بھونک رہا ہے بھارتی چیخیں آسمان تک جارہی ہیں وہ خوفزدہ اِس بات سے ہیں کہ اگر ساٹھ ہزار طالبان دنیا کی سپر طاقت کو بھاگنے پر مجبور کر سکتے ہیں جن کا دفاعی نظام اور فوجی طاقت ناقابل تسخیر سمجھی جاتی تھی اگر نہتے طالبان جذبہ ایمانی کے بل بوتے پر دنیا کی سپر پاور کو عبرت ناک شکست دے سکتے ہیں تو بھارت کس کھیت کی مولی ہے.

بزدل بھارت کو اب کشمیر ہاتھ سے نکلتا نظر آرہا ہے کہ طالبان کو جیسے ہی استحکام حاصل ہوا انہوں نے کشمیر کا رخ کر نا ہے جیسے ہی طالبان کشمیر میں داخل ہو نگے بزدل بھارتی فوج دلی جا کر سانس لے گی جب طالبان نے کابل فتح کیا تو بھارتی پاگل کتوں نے یہ بھونکنا شروع کر دیا کہ ابھی وادی پنج شیر میں مسعود شاہ اور اُس کے جنگجو بھی ہیں جنہوں نے طالبان کے خلاف اعلان جنگ کر دیا ہے لیکن چند دنوں میں مسعود شا ہ کا بیٹا اپنے کمانڈروں کے ساتھ اپنے محلات چھوڑ کر بھاگا تو بھارت نے ظالم غدار عبدالرشید دوستم کو ہیرو بنانا شروع کر دیا دوستم ظالم جس کو طالبان کا دشمن اول سمجھا جاتا ہے جو ہمیشہ غیر ملکی حملہ آور وں کے ساتھ مل کر طالبان کے ساتھ لڑتا آیا ہے جس نے دشتِ لیلیٰ میں دس ہزار طالبان کو زندہ دفن کیا تھا.

دھوکے سے جھوٹ بولا طالبان اُس زخم کو آج تک نہیں بھولے وہ پہلے روس کا چیلا بنا پھر امریکہ کا پٹھوبن گیا لیکن وہ بھی طالبان کے سامنے گیڈر بن کر اپنے بیٹے کو طالبان کی قید میں چھوڑ کر بھاگ گیا طالبان دوستم کی تلاش میں ہیں اوروہ گیڈر کی طرح بھاگتا پھر رہا ہے یہ تما م حقائق بھارت کے لیے ناقابل ہضم ہیں اب وہ چیخیں مار رہا ہے بھارت یہ بھول گیا ہے کہ صدیوں سے کفر اسلام کی جنگ میں ہمیشہ پلہ مسلمانوں کابھاری رہا ہے سلطان محمود غزنوی کے کامیاب حملے تاریخ کا حصہ ہیں شہاب الدین غوری نے ہندو ؤں کے راجہ پر تھوی راج کو شکست دے کر اُس کی زنجیریں پہنا کر افغانستان لے جانا کس کو یاد نہیں احمد شاہ ابدالی نادر شاہ پھر مغل بابر بادشاہ نے کس طرح بھارتی سورماؤں کو خاک چٹائی یہ بزدل بھارت جانتا ہے بھارتی ابھی نہیں بھولے ہو نگے جب علاؤ الدین خلجی نے بھارتی راجاؤں کو جنگوں میں شکست دی ہرمیدان میں فاتح رہا سپر پاور کی شکست کے بعد اب بھارت جانتا ہے کہ جن طالبان نے سپر پاور کو دھول چٹائی یہ ایمان کے شرارے جب کشمیر بھارت کا رخ کریں گے تو کالی ما تا کے پجاریوں کی صرف موت ہو گی اور وہ دن اب دور نہیں۔

Posted in تازہ ترین, مضامین
53290

داد بیداد ۔حملہ ہی حملہ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

پو لیو، کو رونا اور ڈینگی کے حملے جاری تھے اوپر سے پنڈو را حملہ آور ہوا ہے اب جا ن عزیز پر بنی ہوئی ہے کس کس حملے کو کیسے روکا جائے اور کس حملہ آور پر کیسا وار کیا جا ئے کہ وار خطا نہ جا ئے ہمارے دوستوں کا کہنا ہے کہ خیر گذری گر میوں کے اختتام کا سیزن آیا چاہتا ہے ورنہ ڈینگی اور پنڈورا کے ساتھ ملخ اور چوہوں کے حملے بھی ہو جا تے اب کم از کم دو دشمنوں سے جا ن چھوٹ گئی ڈاکٹر وں کا کہنا ہے کہ پولیو انسا نی نسل کا سب سے مو ذ ی دشمن ہے مگر ہمارے دشمنوں کا خیال ہے کہ پو لیو کو کھلی اجا زت ملنی چا ہئیے پو لیو کے انسداد ی قطروں کے خلا ف سیسہ پلا ئی ہوئی دیوار بن جاؤ اسی طرح شعبہ صحت کے ما ہرین کا کہنا ہے کہ کورونا طویل وباء ہے سال دو سال بعد ختم ہو نے والی بیما ری نہیں اس کے خلا ف ویکسین لگاؤ ما سک پہنے رکھو اور سما جی فاصلوں کی کڑی پا بندی کرو دوسری طرف ہمارے دشمنوں نے جال بچھا ئی ہے کہ کورونا کوئی بیما ری نہیں ویکسین اور ما سک کی ضرورت نہیں سما جی فاصلوں کی حا جت نہیں مو ت کا دن اٹل ہے اس کو ٹا لنے کی طا قت کوئی نہیں رکھتا .

تم لا پرواہی کرو اور قسمت کو الزام دو ہماری حکو متوں نے کئی سالوں کی محنت، کو شش اور ویکسی نیشن کے ذریعے ملیریا کو ختم کیا یہ کا م مچھروں کے طبع نا زک پر گراں گذرا چنا نچہ مچھروں نے اپنے بڑے بھا ئی کو بلا یا اُس نے ڈینگی پھیلا یا اس نیک کا م میں مچھروں کے بڑے بھا ئی کو میو نسپلیٹی کی پوری مدد حا صل ہے محکمہ صحت کے حکا م کا مکمل تعاون حا صل ہے اور صو بائی حکومت کی تائید بھی حا صل ہے عوام کی طرف سے بھی بھر پور تعاون کا مظا ہرہ دیکھنے میں آرہا ہے ہمارے ایک دوست نے خواجہ حسن نظا می کے طرز پر اخبار کے مدیر کو ایک خط لکھا ہے خط کا آخری حصہ بہت دلچسپ ہے ڈینگی کے حملوں کا پس منظر اور پیش منظر بیان کر کے ہسپتالوں کی حا لت اور ڈاکٹروں پر پو لیس کی لا ٹھی چارج کا حوالہ دینے کے بعد خط میں لکھا ہے کہ مچھروں کی سپریم کونسل کے اجلاس میں تحصیل اور ٹاون کو نسلوں کے حکام کا شکریہ ادا کر نے کے لئے قرار داد منظور کی گئی قرار داد میں کہا گیا کہ متعلقہ حکام کا تعاون اسی طرح جاری رہا تو مچھروں کی سپریم کونسل ڈینگی کا تحفہ لیکر گھر گھر پہنچے گی اور ہر گھر کے دروازے پر دستک دے گی.

ہم نے ابھی خط کو پوری طرح نہیں پڑھا تھا کہ اوپر سے پنڈورا کے حملے کی خبر آگئی پہلے ہم نے پنڈورا کو بھی ڈینگی کا چچا زاد بھا ئی خیال کیا مگر جلد ہی ہمیں معلوم ہوا کہ اس کی نسل الگ ہے قدیم داستانوں اور کہا نیوں میں آتا ہے کہ شہزادی جنات کے باد شا ہ کی قید میں چلی گئی شہزادہ اس کو ڈھونڈ تے ڈھونڈتے ایک بڑھیا کے پاس گئی بڑھیا نے اس کو صندوق دے کر کہا اس میں وہ نسخہ ہے جو شہزادی کو رہا ئی دلا ئیگا صندوق کو کھو لا تو اندر سے دوسرا صندوق نکلا اس کو کھولا توپھر صندوق بر آمد ہوا 100صندوقوں کو کھولنے کے بعد نسخہ ہاتھ آیا انگریزی میں دیو ما لا ئی کہا نی کے اس صندوق کو پنڈورا ) Pandora)کا صندوق کہا جا تا ہے خیبر پختونخوا کی قدیم زبان کھوار میں پنڈوروایسی شکل کو کہتے ہیں جو گول مٹول ہو اس گول مٹول شکل پر کوئی کیڑا سفر کرے تو واپس اُسی جگہ پہنچے گا جہاں سے چلا تھا پنڈورا کے ڈھنڈ ورے میں دنیا بھر کی اہم شخصیات کے بد عنوا نیوں کے رازوں کا انکشاف ہوا ہے مگر یہ گول دائرے کا چکر ہے چند مہینوں کے لئے گپ شپ کا سا مان ہے آخر میں وہی ہو گا جو پا نا مہ کے انکشا فات کے بعد ہوا تھا یعنی کھودا پہاڑ نکلا چوہا سو ہمارے نصیب میں حملہ لکھا ہے چاہے ڈینگی یا کورونا کا ہو یا پنڈورا کا۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
53288

پینڈورا پیپرز کا نیا پینڈورا بکس ۔ محمد شریف شکیب

پینڈورا بکس کی اصطلاح بچپن سے سنتے آئے تھے مگر اس کی کہانی حال ہی میں معلوم ہوئی۔ پینڈورا کسی یونانی خاتون کا نام تھا۔جسے شادی پر بھائی کی طرف سے ایک چھوٹے صندوق کا تحفہ ملا۔ بھائی نے اپنی بہن کو تاکید کی یہ بکس کبھی نہیں کھولنا۔ بہن نے وعدہ کیا کہ اسے بھائی کے ہاتھ کی نشانی سمجھ کر اپنے پاس آخری دم تک محفوظ رکھیں گی اور کبھی نہیں کھولیں گی۔ شادی کے کچھ عرصے بعد کمرے کی صفائی کے دوران اسے بھائی کا دیاہوا بکس نظر آیا۔ اسے بکس نہ کھولنے سے متعلق بھائی سے کیاہوا وعدہ بھول گیا۔ تجسس سے مجبور ہوکر اس نے جونہی بکس کھولا تو اس میں سے دنیا بھر کی برائیاں، شیطانی کھلونے،بدبختیاں نکلیں اور فضا میں پھیل گئیں۔ بھائی نے اس بکس نے دنیا کی ساری برائیاں بندکردی تھیں تاکہ اس کی بہن ان سے محفوظ رہے۔ اپنی بے صبری کی وجہ سے پینڈورا نے اپنے لئے خرابیوں، برائیوں اور بدبختیوں کے دروازے خود ہی کھول دیئے۔

حال ہی میں دنیاکے 117 ممالک کے 150 میڈیا اداروں سے تعلق رکھنے والے 600 سے زائد صحافیوں نے 2 سال تک تحقیق کے بعد پینڈورا پیپرز کے نام سے سات کھرب ڈالر کے مالیاتی سکینڈل کو بے نقاب کیا ہے۔جس میں دنیا بھر کے 35سابقہ اور موجودہ سربراہان مملکت اور ساڑھے تین سو سیاست دانوں کی بیرون ملک آف شور کمپنیوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ فہرست میں پاکستان کی سات سو سے زائد شخصیات کے نام بھی شامل ہیں جن میں مسلم لیگ ن کے 44، پیپلز پارٹی کے 21اور حکمران جماعت تحریک انصاف کے 13مرکزی اور صوبائی رہنماؤں کے نام بھی آئے ہیں۔تاہم آف شور کمپنیوں کے بیشتر مالکان سابق فوجی افسران، بیوروکریٹس، تاجر، صنعت کار اور میڈیا ہاؤسز کے مالکان نکلے۔اس سے پہلے پانامہ لیکس کے نام سے آف شور کمپنیوں کی ایک رپورٹ منظر عام پر آئی تھی جس میں ساڑھے چار سو پاکستانیوں کے نام آئے تھے۔

صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم کی طرف سے جاری کردہ رپورٹ اس حوالے سے حوصلہ افزاء ہے کہ ہمارے ملک کے ایک ہزار سے زائد افراد کے مختلف ملکوں میں کاروباری ادارے چل رہے ہیں اور ہزاروں غیر ملکی شہری ان اداروں میں کام کرتے ہیں۔تحقیقی رپورٹ سے بہت سارے لوگوں نے بڑی توقعات وابستہ کررکھی تھیں۔ انہیں امید تھی کہ اپنے سیاسی مخالفین کی ٹانگیں کھینچنے کے لئے رپورٹ میں انہیں اچھا خاصا مواد مل جائے گا مگر بیشتر لوگوں کی امیدوں پر رپورٹ سامنے آنے کے بعد اوس پڑگیا۔اور انہوں نے رپورٹ کو کھودا پہاڑ نکلا چوہا کے مترادف قرار دیا۔ پینڈورا پیپرز میں یہ نہیں بتایا گیا کہ جن لوگوں نے آف شور کمپنیاں بنائی ہیں وہ منی لانڈرنگ، کرپشن یا چوری کے پیسے سے بنائی ہیں۔ آف شور کمپنی بھی ایک دکان کی طرح ہے۔ اگرکوئی شخص اندرون یا بیرون ملک کوئی دکان کھولتا ہے تو یہ کوئی غیر قانونی کام یا میڈیاکے لئے اہمیت والی خبر نہیں۔

صحافت کی زبان میں اس رپورٹ کو ”کتے نے آدمی کو کاٹا“ کے مترادف قرار دیا جاتا ہے۔ جو خبر کے زمرے میں نہیں آتی۔ اگر آدمی کتے کو کاٹتا تو یہ خبر بن سکتی تھی۔ آف شور کمپنیوں کے سورس آف فنڈنگ اور مصارف کی تفصیل جاننے کے لئے شاید کئی تحقیقاتی کمیشن اور کمیٹیاں بٹھائی جائیں گی۔ حکومت پاکستان نے بھی پینڈورا پیپرز میں اپنے لوگوں کی آف شور کمپنیوں کی چھان بین کا فیصلہ کیا ہے اور غیر قانونی کمپنیوں کے مالکان سے باز پرس کی ٹھان لی ہے۔ تاہم عام لوگوں کا خیال ہے کہ جس طرح پانامہ لیکس میں ملوث ساڑھے چار سو بڑے لوگوں کا حکومت اور قانون کچھ نہیں بگاڑ سکے اسی طرح پانامہ پیپرز کی فہرست میں شامل لوگ بھی صاف بچ جائیں گے۔ اور چائے کی پیالی میں اٹھایاگیاطوفان چند دنوں کے اندر جھاگ کی طرح بیٹھ جائے گا اور لوگ پھر سے معمول کی طرح ہنسی خوشی زندگی گذاریں گے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
53285

حکومت کی سیاسی بقاء کیلئے اصل خطرہ ۔ محمد شریف شکیب

وزیراعظم عمران خان نے قوم کو نوید سنائی ہے کہ ملک میں مہنگائی کی لہر عارضی ہے اور پاک چین اقتصادی راہداری پر کام کی رفتار تیز ہونے سے اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں جلد کمی آئے گی۔ وزیراعظم نے کہا کہ بجلی کے ایک فیصد لائن لاسز سے ملک کو کئی ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ ہماری بجلی کی ترسیلی لائنز بہت پرانی ہوچکی ہیں، تمام پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں خاص طور پر پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی کے لائن لاسز بہت زیادہ ہیں، جس کی وجہ سے ہم بجلی ہوتے ہوئے بھی صارفین تک نہیں پہنچا سکتے، جس کے نتیجے میں لوڈ شیڈنگ کرنی پڑتی ہے اور عوام کو تکلیف ہوتی ہے، وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سی پیک کا آغاز بجلی کی پیداوار سے ہوا، جس میں پہلے سڑکوں کی تعمیر اور پھر ٹرانسمیشن کے منصوبے شامل کیے گئے،

بڑے منصوبوں میں بیرونی سرمایہ کاری آئے گی توملک میں روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے ملک کے وسائل میں اضافہ ہوگااور ہم بیرونی ملکی قرضے اتار سکیں گے،غربت میں کمی آئے گی اور ملک خوشحال ہوگا۔ کورونا کی وجہ سے دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی رسدی زنجیریں متاثر ہوئیں اوردنیا کے دیگر ملکوں کی طرح پاکستان میں بھی اشیائے خوردو نوش کی قیمتیں بڑھ گئیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ کورونا کی عالمگیر وباء نے دنیا کی سیاست، معیشت، معاشرت اور تجارت سمیت تمام شعبوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ تیل کی قیمتوں میں آئے روز اضافے کی وجہ سے گیس اور بجلی کی قیمتیں بھی آسمان سے باتیں کررہی ہیں جس سے ہر چیز کی پیداواری لاگت میں اضافہ ہوا ہے۔ دنیا بھر میں بڑی بڑی کمپنیاں دیوالیہ ہوگئی ہیں۔

پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کا عالمی بحران سے شدید متاثر ہونا فطری امر ہے۔ تاہم ہمارے ہاں کچھ عوامل ایسے ہیں جو مہنگائی میں غیر معمولی اضافے کا باعث بن گئے ہیں۔ جن میں کرپشن اور سرکاری اہلکاروں کی فرائض سے غفلت اور لاپراہی کو بھی بڑا دخل ہے۔ملک میں مقامی حکومتوں کی غیر موجودگی اور مجسٹریسی نظام کے خاتمے کی وجہ سے پرائس کنٹرول کا کوئی ڈھانچہ موجود نہیں۔ مختلف سرکاری محکمے اپنے طور پر چھاپہ مار کاروائیاں ضرور کرتے ہیں مگر ان کاروائیوں کے نتیجے میں مہنگائی میں کمی، ملاوٹ اورذخیرہ اندوزی کے خاتمے کے بجائے اس میں مزید اضافہ ہورہا ہے۔ کیونکہ سرکاری محکموں کے اہلکار اپنی مٹھی گرم کرکے چلتے بنتے ہیں اور گرانفروشوں، ذخیرہ اندوزوں اور ملاوٹ کرنے والوں کو کھلی چھوٹ مل جاتی ہے۔ وفاق کی طرف سے بار بار یاد دہانی کرائی جاتی ہے کہ مہنگائی پر قابو پانا دراصل صوبائی معاملہ ہے۔

مگر بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ وفاق کی طرف سے کیا جاتا ہے۔ اوریہی مہنگائی کے اصل محرکات ہیں پھر صوبائی حکومتیں کیسے مہنگائی پر قابو پائیں۔حکومت نے تعمیراتی شعبے کو ریلیف دینے کا اعلان کیا تھا۔ گھروں کی تعمیر کے لئے بینکوں سے لوگوں کو آسان شرائط پر قرضے بھی فراہم کئے جارہے ہیں اور حکومتی سطح پر بھی سستے گھروں کی سکیم شروع کی گئی ہے۔ تعمیراتی شعبے میں کام تیز ہونے کی وجہ سے سیمنٹ، سریے، ریت، بجری، اینٹ، بلاک، تعمیراتی لکڑی اور دیگر سامان کی قیمتوں میں کمی آنے کے بجائے ہر چیز کی قیمت میں چالیس سے پچاس فیصد اضافہ ہوا ہے۔

لوگوں کو یہ عمومی شکایت ہے کہ حکومت جس چیز کا نوٹس لیتی ہے اس کی قیمت کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ جاتی ہے۔ حکمران قیادت کو ضرور یہ احساس ہوگا کہ موجودہ حکومت کی سیاسی بقاء کا دارومدار مہنگائی کو کنٹرول کرنے میں ہے۔ اگرچہ پاکستان میں مہنگائی کے خلاف عوام سڑکوں پر ابھی تک نہیں آئے۔ مگر ان میں شدید غم و غصہ پایاجاتا ہے۔عام آدمی کی حالت نہایت دگرگوں ہے۔ اگر اسے ریلیف نہ ملا توپی ٹی آئی کے ماتھے پر یہ بدنما داغ کی صورت میں نمودار ہوگا۔اور اس کی سیاسی بقاء خطرے میں پڑسکتی ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامین
53265

انتھروپو لوجی یا علم بشریات کا ارتقا ۔ تحریر۔شمع باسط

علم بشریات کے مطالعے یہ معلوم ھوتا ھے کہ انسانی ماضی کیسا تھا بشریات ایک وسیع سماجی مضمون ھے کئی ادوار سے لکھا اور پڑھا جانے والا یہ مضمون نہ جانے کیوں انسانی غربت اور افلاس کو کم کرنے کے حوالے سیاپنے اندر کوئی جامع مضمون نہ لا سکا کہ جسکی بدولت انسان کی افادیت مشینی افادیت سے ذیادہ مانی جاتی قدیم دنیا قرون وسطی یا کے جدید دنیا کا مطالعہ کریں تو ہمیں سوچنا پڑے گا کہ انسانی ارتقا سے لیکر اب تک انسان نے کیا سیکھا ھے سیکھنے کا یہ عمل کیا موثر رھا ھے کیا جو انسانی عقل نے سیکھا ایجاد کیا وہ کافی ھے یہ ترقی کی انتہا ھے ہر انسان موبائیل کو اپنے سیکریث پاسورڈ کے ساتھ ایک آرام دہ وقت اور زندگی گزار رھا ھے کیا دوسروں کے لیے سوچنے کا وقت اسے مل رھا ھے اگر انسان نے اپنا ایک مخصوص کوڈ لگا کر سب سے علیحدہ رہنا تھا تو پھر انسان نے دنیا کو گلوبل ولیج کا نام کیوں دیا گلوبل ویلج کی ضرورت کہاں سے آٹپکی.

یہ باتیں کافی غور طلب ہیں اور انسان کی ترقی اور فطرت کا دوغلا پن تو دیکھیے کہ اپنے سوشل اکاوئنٹس پر وہ بیشمار دوستوں کوایڈ رکھتا ھے اور حقیقت میں اسے چند لمحے بھی کسی کے ساتھ گزارنا بھاری محسوس ھونے لگتے ہیں وہ پوری توجہ اور دھیان سیاپنے موبائیل یا اپنی سوشل اپ ڈیٹ کے بارے میں ہی سوچتا رھے گا اور وہ انسانی محفل سے اٹھ کر ایک خاموش بے جان چیز جسے موبائیل کہتے ہیں اس کے پاس جانے کے لیے بیقرار ر ھیگا.

موبائیل کی اختراح کا مقصد یہ تھا کہ انسان کی مشینی ترقی کو اجاگر کیا جائے کہ ہم کئی میل دور بیٹھ کر بھی اپنے پیاروں کو دیکھ سکتے ہیں مجھے تو لگتا ھے انسانی ترقی کی اس پر حالات یوں واضح ھوتے ہیں کہ ہم نے دور والوں کو تو پاس کر لیا ھے مگر جو پاس ہیں جنکا ہم پہ پہلا حق ھے انکو ہم دور کر رھے ہیں اس طرح سے اگر ہم سوچیں تو انسانی ترقی ابھی پستی کی راہ پر ھی گامزن ھے کاش اب ترقی یافتہ دور ھوتا اور یہ دور ایسا دور ہوتا کہ جہاں انسان غربت سے نکل چکے ھوتے ہر ملک ھر خطہ ھر شہر علاقہ انسانی خوشحالی کا منہ بولتا ثبوت ھوتا انسانی ترقی کا مزا اسمیں نہیں کہ ہر بندہ موبائیل پکڑ لے اور أپنی آنکھیں اسی زاویے پہ سیٹ کر لے جو موبائیل کی دنیا میں دیکھائی دے بلکہ ہماری کامیابی اسمیں ھوتی کہ ہر بچہ تعلیم حاصل کرتا اپنے شعور اور آگہی سے دوسروں کے لیے بھلائی کے کام کرتا.

ھر انسان انسانیت کے ناطے ایک دوسرے کی مدد کے لیے بے چین رہتا اگر یہ انسانی رویے ہم جانچیں تو کچھ دیر ہم اس بات پر مکمل یقین کر سکتے ہیں کہ موجودہ انسانی حالات اور نفسیات کسی طور بھی ایک ترقی یافتہ دور کہلانے کا حق نہیں رکھتیں.ابھی تو یہ دور شائد مشینوں کی کامیابی اور کامرانی کا دور ھے مگر اگر ہم کوشش کریں تو اس دور کو ہم بہتر سے بہتر بنا سکتے ہیں ترقی والا دور ؤہ دور ھوگا جس میں امن ھو گا جس میں مسئلہ فلسطین مسئلہ اور کشمیر حل ھوئے ھونگے انسانی جانوں کا ضیاع بم دھماکوں میں نہیں ھوگا کسی طاقتور کو کسی کمزور پر جارحیت کی جرات نہ ھوگی بچے اورعورتیں اپنی آذادی اور مرضی سے گھوم پھر سکیں گے کیا ایسا نہیں ھونا چاھیے…

موجودہ دور میں ابھی مزید انسانیات کے مضمون کو کھنگالنے کی ضرورت ھے تاکہ انسانی بھلائی کے رجحان پیدا کیے جائیں تو پھر جو ماہرین موجودہ دور کو ترقی یافتہ دور کہتے ہیں وہ اپنی علمیت تحقیق اور اندازوں پر نظر ثانی کریں اور دوبارہ سے وضح کریں کے کس طرح کا معاشرہ بہتر معاشرہ ھوگا وہ جسمیں ہر انسان دوسرے سے بے خیر ھوگا بھوک اور جنگی آلات سے مر رھا ھو گا یا کہ وہ جسمیں سب ایک دوسرے کے ساتھ بلا خوف رہیں گے جہاں لوگ بھوک سے نہیں مرینگے سبکو برابر حقوق ملیں گے تو وہ ماھرین جو ادوار کو کسی بھی حثیت سے حساب کتاب کر کے خوشحالی یا بد حالی کی رپورٹ تیار کرتے ہیں ان سے گزارش ہے کہ موجودہ دور کی ایمانداری سے رپورٹ تیار کریں اور بتائیں کہ موجودہ حالات میں دنیا ترقی کے کس مقام پہ ہے سوچنا صرف یہ ہے کہ انسانی خوشحالی چائیے یا مشینی خوشحالی..

اصل خوشحالی اور کامیابی کاش اس چیز کو گردانا جاتا کہ انسانی قدروں کو اہمیت دی جاتی انسانیات کو پڑھا جا تا انسانوں کے رویوں میں جاکر انسانی مشکلات کو حل کیا جاتا مگر ہم نے تو اس دور کو اپنے لیے اسقدر مشکل بنا دیا ھے ہر انسان کو ہم دولت کے ترازو میں تولنے لگے ہیں کیا انسانی ارتقا کے عمل سے لیکر اس وقت تک کوئی ایسا مضمون شامل نصاب نہ ھوسکا کہ جسکی تعلیم سے انسانی غربت کو انسانی بھوک کو کسی طور کم کیا جا سکے کتنے بڑے بڑے نام کتنے بڑے بڑے ادارے انسانی فلاح کے لیے کھربوں کے فنڈ دیتے ہیں کیوں مگر کیوں پھر بھی انسانیت غربت سے نہیں نکل رھی ہمارے ملک میں بھی بچے سکولوں سے باھر ہیں مزدور کے طور پر کام کرتے ہیں بھٹہ مالکاں کے شکنجوں میں ہیں.

کدھر کدھر کے دکھ بیاں کیے جائیں چھوٹے بچے جنکا حق سکول جانا ہے وہ محنت کر کے اپنے گھر والوں کا پیٹ پالتے ہیں کیونکہ انکے کنبے کا سربراہ اکیلے اس قابل نہیں ہوتا کہ اپنے گھروالوں کی کفالت کر سکے جسکی سزا چھوٹے بچوں کو ملتی ہے اور وہ پڑھاتی سے دور ھو جاتے ہیں اور شعور کی منزلیں طے کرنے میں بعض اوقات فیل ھوجاتے ہیں کیونکہ تعلیم کی آگاھی ہاتھ نہیں آتی..اور ہم بے مقصد ہی دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں ہمیں اس بات کو پھیلانا ہے کہ اس وقت ترقی کے لحاظ سے زمانہ بہت آگے ھو گا بلا شائبہ مگر انسانی فلاح کے حساب سے اصول انتھروپولوجی مناسب کام نہ کرسکے لہذا ایک نئے انداز اور عزم سے انسانی رویوں اقدار کو چانچنے کی اس وقت اشد ضرورت ہے کہ جس سے ہم انسان کو اس معیار پر دوبارہ رکھ سکیں کہ انسان ہی اشرف المخلوقات ہے اس کی کامیابی ہی دراصل زمانے کی کامیابی ھے مشینوں اور انسانی ہاتھ سے بنی انسان کو تھکا دینے والی اشئیا ترقی تو ہیں مگر یہ ترقی وہ ترقی نہیں ہیں جسکا مقصد کالم لکھنا ھے..

وہ لوگ جو سمجھے بیٹھے ہیں کہ زمانہ بہت آگے نکل گیا اب سب کچھ حاصل ھوگیا سب چیزیں انسانی پہنچ میں آ گئی ہیں اب کوئی مشکل نہیں تو سوچیے یہ ترقی چند لوگوں کی ترقی ہے اصل ترقی وہی ھو گی جب سبکو یکساں حقوق ملیں گے جب لوگوں کو بھوک آور کھانے کی فکر سے آزادی نصیب ھوگی ذہنی اور قلبی سکوں میسر ھوگاجب مزدور کو اسکی مزدوری پسینہ خشک ھونے سے پہلے ملے گی..اس تمام تحریر پر اگر غور کیا جائے تو امید راسخ ھے کہ انسانی ترقی کے لیے کوئی بہتری کی امید نظر آئے گی اور انسان کی خوشحالی سب سے مقدم ھو گی

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
53257

دوحہ معاہدے سے’ آپریشن ایلائیز ویلکم’ کے اختتام تک !- قادر خان یوسف زئی

چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل مارک ملی اور ملک کے اعلیٰ فوجی افسروں نے اراکینِ کانگریس کو بتایا کہ افغانستان کی جنگ لاجسٹکس کے اعتبار سے کامیابی اور دفاعی اعتبار سے ناکامی تھی۔افغانستان میں قیام امن کے لئے کردار ادا کرنے والے ممالک کے خلاف، پس پردہ مقاصد کو سمجھنا مشکل نہیں کہ اس نئی مہم جوئی کے تانے بانے کہاں ملتے ہیں۔ امریکی سینیٹ کی خارجہ کمیٹی کے رکن سینیٹرجم ریش اور دیگر ریپلیکنز نے سینیٹ میں افغانستان انسداد دہشت گردی، نگرانی اور احتساب ایکٹ متعارف کرایا تاکہ جوبائیڈن انتظامیہ کے ’افغانستان سے عجلت اور تباہ کن انخلا‘ سے متعلق فیصلہ سازی کی جاسکی۔ در حقیقت 20 برس بعد امریکہ کا افغانستان سے مکمل انخلا سابق امریکی صدور بارک اوباما، ٹرمپ کے اُس منصوبے کا حصہ تھا جو انہوں نے افغان امن مذاکرات کے مختلف ادوار میں کیا۔ 2013 میں افغان طالبان سے امریکی مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا جو2019 میں باضابطہ شکل اختیار کرچکا تھا۔ فوجی انخلا میں صدر بائیڈن کا حصہ اتنا  ہے کہ انہوں نے امریکہ اور افغان طالبان کے دوحہ معاہدے پر عمل درآمد کو یقینی بنایا،جس کے مطابق امریکہ کو 14 مہینے میں اپنا انخلا مکمل کرنا تھا۔ انخلا کے لئے29 فروری سے یکم مئی 2021 کی تاریخ طے پاچکی تھی لیکن نئے امریکی صدر نے 11 ستمبر کی حتمی تاریخ دے دی اور آپریشن کو خفیہ رکھنے کے لئے امریکی صدر نے31 اگست کی حتمی ڈیڈ لائن کا اعلان کردیا، امریکی ‘آپریشن ایلائیز ویلکم’  کی مدت بڑھانے کے لئے 25اگست کو امریکی سی آئی اے چیف نے افغان طالبان نے مزید توسیع چاہی لیکن افغان طالبان نے تاریخ بڑھانے سے انکار کرتے ہوئے 31اگست کو آخری ریڈ لائن قرار دے دیا۔درحقیقت کچھ اچانک نہیں تھابلکہ29 فروری2020 میں طے پانے والے دوحہ معاہدے کے مطابق عمل ہورہا تھا، جوبائیڈن کا فیصلہ زمینی حقائق کے مطابق درست تھا کہ انہوں نے ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھا اور افغان جنگ سے باہر نکل آئے۔


 امریکی انتظامیہ نے دوحہ معاہدے میں افغان طالبان سے امریکی افواج کے انخلا کے حوالے سے طویل مذاکرات کئے۔ 8 ستمبر 2019 کوتعطل کے بعد ایک بار پھر 07 دسمبر2019 کو مذاکرات بحال ہوئے۔ 21فروری کو امریکہ کے سات دن کے جزوی  جنگ بندی کے مطالبے  پر عمل کرکے افغان طالبان نے ثابت کردیا کہ وہ امن قائم کرسکتے ہیں اور ان کے درمیان کوئی گروپ بندی نہیں۔  29 فروری 2020 کو دوحہ معاہدے کی صدر ٹرمپ کی توثیق کے بعد اقوام متحدہ کے نمائندوں سمیت 50 ممالک کی موجودگی میں امریکی نمائندے نے دوحہ میں مفاہمتی معاہدے پر دستخط کئے لیکن یکم مئی تک امریکہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ انخلا کرنے میں ناکام رہا اور معاہدے کے مطابق29مئی تک افغان طالبان کے رہنماؤں کو بلیک لسٹ اور سفری پابندیاں ختم کرانے کی کوئی کوشش بھی نہیں کی۔ معاہدے کے مطابق افغان طالبان کے پانچ ہزار اسیروں کو ایک ہزار امریکی فوجیوں کے تبادلے میں رہا کرانا تھا جن کی فہرستوں کا تبادلہ دونوں فریقین پہلے کرچکے تھے۔ ٖغنی انتظامیہ نے دوحہ  سمجھوتے کے برخلاف معاہدے کو ختم کرانے کے لئے غلط فہمیاں اور اشتعال دلانے کی کوشش کی، پہلے مرحلے میں یکم مارچ کودوحہ معاہدے کی نکات کوتسلیم کرنے سے انکار کیا، لیکن امریکی حکم پر ماننے پر راضی ہوگئے، اسیروں کی رہائی کے آخری مرحلے میں 400 قیدیوں کی رہائی جرگہ کے فیصلے سے مشروط کردیا، لیکن افغان مصالحتی کونسل نے تمام قیدیوں کی رہائی کی منظور دے کر غنی کا کھیل بگاڑ بنادیا،400 قیدیوں کے بدلے ایک ہزار افغان سیکورٹی کے اہلکاروں کو رہا کئے جانا تھا، لیکن غنی نے60 قیدیوں کے رہائی کے بعد، ایک بار پھر طالبان اسیروں کو رہا کرنے  کا عمل روک دیا،بالا آخر امریکی مداخلت کے بعد قیدیوں کا تبادلہ تکمیل کے آخری مراحل میں داخل ہوا تو غنی انتظامیہ نے امریکی رویئے سے مایوس ہوکر دیگر مغربی ممالک آسٹریلیا اور فرانس کو دخل اندازی کرانے کے لئے سات اہم قیدیوں کی رہائی سے انکار کردیا کہ اُ س پر آسٹریلیا و فرانس کا دباؤ ہے۔ یہ ایک بڑی گہری سازش تھی جو غنی انتظامیہ نے تیار کی تھی تاہم امریکہ نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر درمیانی راستہ نکالا اور یہ قیدی قطر کی حکومت کی ضمانت پر رہا ہو گئے ۔  قیدیوں کے تبادلے میں قریباََ ایک برس کا عرصہ ضائع کرایا گیا اور بین الافغان ڈیڈ لاک شکار ہوگئے۔ غنی انتظامیہ اور ان کے حامیوں کا خیال تھا کہ افغان طالبان معاہدہ کو منسوخ کرکے غیر ملکی افواج پر حملے شروع کردیں گے، لیکن افغان طالبان نے عسکری محاذ پر غیر ملکی افواج کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی اور معاہدے کے مطابق عمل کیا جس کا اعتراف امریکی اعلیٰ حکام بھی کرچکے ہیں۔


 صدر ٹرمپ کو اپنی کئی سخت گیر اور ناقابل عمل پالیسیوں کی وجہ سے جو بائیڈن کے ہاتھوں صدارتی انتخابات میں شکست کا سامنا ہوا۔ اب یہ نئے امریکی صدر پر متنج تھا کہ وہ دوحہ معاہدے کو جاری رکھتے ہیں یا ختم کرتے ہیں، صدر جوبائیڈن نے جو کہ افغان جنگ میں سابق صدر بارک اوباما کے نائب  رہ چکے تھے، جنگ کی کامیابی یا ناکامی سے متعلق گہرا مشاہدہ رکھتے تھے کہ اسامہ بن لادن کو قتل کرنے کے بعد امریکی مشن پورا ہوچکا ہے لہذا ن کا افغانستان میں مزید رہنا ایک نئی نسل اور آنے والے نئے صدر کے لئے  بھیانک ہے، اس لئے زمینی حقائق کے مطابق انہوں نے فوجی انخلا سے متعلق ڈیڈ لائن کا اعلان کردیا گوکہ مقررہ تاریخ یکم مئی کو امریکی افواج کا انخلا ممکن نہیں ہوسکا، پہلینائن الیون کے موقع پر اعلان کا ارادہ کیا گیا تھا، وائٹ ہاؤس اور پینٹاگون کے درمیان محاذ آرائی کی فضا تھی کہ امریکہ ابھی مکمل انخلا نہ کرے لیکن صدر بائیڈن نے ٹھوس انداز میں ستمبر سے قبل ہی مکمل انخلاکے احکامات جاری کردیئے۔ امریکی افواج نے فوجی بیس کمیپ خالی کرکے غنی انتظامیہ کو حوالے کر نا شروع کردیئے اور بالا آخر بلگرام ائیر بیس بھی خالی کردیا گیا،  امریکہ نے اپنے  ڈھائی ہزار فوجی سمیت مجموعی طور پر7500  اہلکارافغانستان میں موجود رکھے، تاہم امریکی فیصلے کے بعد غنی انتظامیہ میں ہلچل مچ چکی تھی،  خیال رہے کہ سابق صدر اشرف غنی نے ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے ہمراہ  26جون کے دورہئ امریکہ میں صدر جوبائیڈن و وزیر دفاع لائیڈ آسٹن اور اسپیکر نینسی پلومیسی سے آخری ملاقات میں کوشش کی کہ امریکی انخلا نہ ہو، لیکن بائیڈن حتمی فیصلہ کرچکے تھے، جس کے بعد کابل میں مایوسی کے گہرے بادل چھا گئے۔ جس کا براہ راست اثر ایسی افغان سیکورٹی فورسز پر ہوا جن کی تربیت پیشہ ورانہ نہیں کی گئی تھی اورکابل انتظامیہ کی کرپشن، تنخواہوں کی عدم ادائیگی اور اپنے تحفظ کی وجہ سے دل برداشتہ ہوچکے تھے۔


 امریکی انٹیلی جنس نے اپنی رپورٹس میں ان خدشات کا اظہار بھی کیا کہ افغان سیکورٹی فورسز، افغان طالبان کا مقابلہ نہیں کرسکتے اور افغان طالبان بہت جلد افغانستان پر کرلیں گے، انہوں نے پہلے ایک برس کااندازہ لگایا، پھر کابل پر قبضے کا 90دن اور پھر18اگست کو72گ ھنٹوں میں درالحکومت پر قبضے کی نشا ن دہی کردی تھی لیکن جوبائیڈن کا موقف بڑا واضح تھا کہ امریکہ افغانستان میں تعمیر نو کے لئے نہیں آئے تھے۔افغان طالبان کی فتوحات پر دنیا بھر میں حیرت و تحفظات کا اظہار کئے جانے لگا کہ امریکہ نے جن ایک  لاکھ 80ہزارسے زائد افغان نیشنل فورسز اور پولیس و  خفیہ سیکورٹی کو ملا کرتینلاکھ سات ہزار نفری کی تربیت کی تھی وہ کہاں غائب ہو گئے اور پورے افغانستان میں بنامزاحمت (سوائے چند علاقوں) کے قبضہ کیسے ہوگیا۔ واضح رہے کہ امریکی محکمہ دفاع کے مطابق افغانستان میں (اکتوبر 2001 سے ستمبر 2019 تک) مجموعی فوجی اخراجات 778 بلین ڈالر تھے۔سرکاری اعداد و شمار  کے مطابق امریکہ نے افغانستان میں پچھلے 18 سالوں میں ہونے والی تعمیر نو کی کوششوں میں خرچ ہونے والی تمام رقم کا تقریباً 16 فیصد یعنی 143.27 ارب ڈالر ادا کیااور اس میں سے نصف سے زیادہ یعنی 88.32 ارب ڈالر افغان نیشنل آرمی اور پولیس فورس سمیت افغان سکیورٹی فورسز کی تیاری میں خرچ ہوا۔3.1ٹریلین ڈالرز سے زائد امریکہ نے کابل انتظامیہ پر خرچ کئے۔اصل سوال یہ ہے کہ امریکی رقم کا بڑا حصہ کن کی جیبوں میں گیا۔ کرپشن زدعام تھی، امریکہ نے کرپشن روکنے کی کوشش کیوں نہیں کی۔ افغان مرکزی رہنماؤں کے گھروں سے ڈالروں کے انبار ثابت کررہے ہیں کہ امریکہ کو اصل نقصان کابل انتظامیہ نے دیا۔ جب کہ پاکستان کی قربانیوں کے جواب میں امریکہ نے فنڈز بھی روکے پابندیاں بھی لگائیں، ڈومور کے مطالبات بھی کئے اور کولیشن فنڈز کے علاوہ دیگر امداد رقوم کو مختلف طریق کار اختیار کرکے روکا گیا، پاک فوج کو جدید ساز وسامان و تربیت دینے پر پابندی عائد کی، جب کہ پاکستان مسلسل قیام امن کے لئے امریکہ کا ساتھ دیتا رہا اور جانی و مالی نقصان برداشت کرتا رہا، تما م تر حقیقت سامنے آنے کے باوجود بھی پاکستان پر د باؤ ڈالنا ذو معنی ہے۔


 افغان طالبان کے کابل دروازے تک پہنچنے کے بعد غنی انتظامیہ کے ہاتھ پیر پھول گئے اور وہ اپنے قابل اعتماد رفقا ء و اتحادیوں سے مشاورت کے بعد اور کچھ رہنماؤں کو اندھیرے میں رکھ کر فرار ہوگئے۔  امریکہ سمیت تمام نیٹو اتحادیوں نے اپنے اہلکاروں و شہریوں کو  نکالنے کا عمل شروع کردیا اور15 اگست سے31اگست تک انخلا کا آپریشن شروع کیا، جس میں مشکلات بھی انہوں نے اپنے لئے خود پیدا کیں جب پرائیوٹ کنٹریکٹرز سمیت افغان شہریوں کو نکالنے کا بھی اعلان  کیا گیا اُس وقت کابل عملی طور پر دوحصوں میں تقسیم تھا اور امریکی حصے میں ان گنت افغانیوں نے ڈیرے ڈال دیئے تھے، دوحہ میں امریکی فوجی حکام نے افغان طالبان سے ضمانت لی کہ وہ انخلا کے اس مرحلے میں کوئی رخنہ نہ ڈالیں۔ امریکہ نے کمرشل فلائٹ پر پابندی عائد کرکے فوجی پروازں کا سلسلہ شروع کردیا تھا، اگر اُس وقت امریکہ کمرشل فلائٹس پر پابندی عائد نہ کرتا تو ممکن تھا کہ وہ سانحات جنم نہ لیتے جو کابل ائیر پورٹس میں دیکھے گئے۔  امریکہ کو اصولی طور پر اپنے7500 اہلکاروں کو کابل سے لے جانا تھا، لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔ امریکہ نے اپنے تمام جنگی ساز و سامان کو تباہ کر دیئے۔ 31اگست کو جب امریکہ کا آخری فوجی افغانستان کی سرزمین سے نکل رہا تھا تو اس وقت تک نیٹو کے تمام ممالک اپنے اہلکاروں کو واپس بلا چکے تھے، بعد ازاں علم ہوا کہ افغان شہریوں کو نکالنے کے آپریشن میں 100امریکی پھر بھی افغانستان میں رہ گئے۔ نیٹو ممالک نے انخلا کے لئے پاکستان کا سہارا لیا اور تعاون کا شکریہ بھی ادا کیا۔ خیال رہے کہ اُس وقت امریکی انتظامیہ نے تمام صورت حال و شکست کا ذمے دار اشرف غنی اور اس کی انتظامیہ کو قرار دیا تھا۔


 پاکستان نے امریکہ کا ساتھ نان نیٹو اتحادی ہونے کے ساتھ دیا اور قیام امن کے لئے ہر ممکن وہ کردار ادا کیا جو اس کے بس میں تھا۔ افغان طالبان کا اثر رسوخ عالمی سطح پر بڑھ چکا تھا اور سفارتی محاذ پر روس، چین، ایران اور قطر جیسے ممالک کی ہمدردیاں وہ حاصل کرچکے تھے۔ پاکستان، افغانستان میں بھارتی کردار کی وجہ سے تحفظات رکھتا تھا اور اس کے خدشات غلط نہیں تھے کیونکہ بھارت افغان سرزمین کابل انتظامیہ و خفیہ ایجنسیوں کے ساتھ مل کر استعمال کررہا تھا۔ بھارت، پاکستان کی سلامتی و بقا کے خلاف ہر گھناؤنی سازش میں سرفہرست رہا ہے اس لئے پاکستان کا اپنی سرزمین کو دہشت گردی سے بچانے کے لئے افغانستان کے امن عمل میں کردار فطری تھا۔ بھارت نے وادی پنچ شیر کو مرکز بنا کر افغانستان میں خانہ جنگی و گوریلا وار کا گڑھ بنانے کی کوشش کی، لیکن افغان طالبان جانتے تھے کہ ان کا مقابلہ کیسے کرنا ہے، کیونکہ انہیں اس کا چالیس برس کا تجربہ تھا۔ پھر افغانستان میں ماضی کے مقابلے میں بڑی مزاحمت کے بغیر انہیں فتوحات ملی تھی، خاص کر کابل ایک پکے ہوئے پھل کی طرح جب ان کی جھولی میں گرا تو ان کے حوصلے کافی بلند ہوچکے تھے اور ان کے پاس مفتوحہ علاقوں سے جدید جنگی ساز وسامان اور نقل وحرکت کے لئے ہیوی مشینری بھی مل چکی تھی، رستم دوستم، عطا نورجیسے جنگجو پہلے ہی فرار ہوچکے تھے۔ء افغان طالبا ن نے احمد مسعود اور امر صالح کی ضد کی باوجود پہلے مذاکرات کئے جو ناکام رہے، شمالی مزاحمتی اتحاد غلط فہمی کا شکار تھا کہ بھارت اس کی مدد کرے گا، لیکن بادی ئ النظر ایسا کچھ نہیں ہوا اور جب افغان طالبان نے عبوری حکومت کا اعلان کیا تو وادی پنچ شیر کا آخری مورچہ بھی ان کے قبضے میں آچکا تھا اور بغیر شراکت افغان طالبان نے اپنے بل بوتے پر سرزمین افغانستان پر اپنی معزول حکومت بحال کرنے کا اعلان کردیا۔
 ریپبلکن پارٹی  کے گروپ نے مخصوص مقاصد کے تحت امریکہ کو دوبارہ جنگ میں جھونکنے کی ہے، پاکستان کے کردار پر سابق صدر ٹرمپ بھی جنوبی ایشائی پالیسی میں سخت زبان استعمال کرچکے ہیں لیکن وقت نے ثابت کیا کہ وہ غلطی پر تھے۔ ماضی میں پاکستان کا جو بھی کردار تھا وہ امریکی ڈومور پالیسوں کی وجہ سے ہی رہا، اب حکومت نے امریکی جنگ کا حصہ بننے کے بجائے امن کا ساتھ دینا کا فیصلہ کیا تو عملی طور پر ثابت بھی کیا، درحقیقت امریکی سینیٹرز بل کی آڑ میں ایرا ن، چین اور روس کو نشانہ بنانا چاہتے ہیں جنہوں نے افغانستان میں قیام امن کے لئے پاکستان کے تعاون سے اہم کردار ادا کیا، خیال کیا جارہا ہے بل کو اکثریت حمایت حاصل  نہیں ہوگی،  کئی ارکان نے و زیرِ دفاع لائیڈ آسٹن، جوائنٹ چیفس آف اسٹاف چیئرمین جنرل مارک ملی، اور سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل کینتھ فرینک میکنزی سے فوری طور پر مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا۔امریکہ میں ایوانِ نمائندگان کی آرمڈ سروسز کمیٹی میں افغان جنگ کے خاتمے پر فوج کی اعلیٰ قیادت کو سخت سوالات میں تنقید و تعریف کا سامنا بھی کرنا پڑا۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
53255

تلخ و شیریں – منافرت کون پھیلا رہا ہے؟ – نثار احمد

گزشتہ کئی سالوں سے نجی محافل اور عوامی جلسوں میں کبھی بلند آہنگ تو کبھی دھیمے سر میں یہ بات بتکرار بولی اور بااصرار کہی جاتی رہی کہ چترال کی تمام محرومیوں اور شدید پسماندگی کا حل “اپر” کے سابقے کے ساتھ ایک عدد نیا ضلع بنانے میں ہے۔ دو ضلعے بنانے کے حق میں آوازیں اٹھتی رہیں، دبتی رہیں بلند ہوتی رہیں، بیٹھتی رہیں۔ اٹھان اور دباؤ کی یہ آنکھ مچولی جاری تھی کہ ایک دن صبح آنکھ کھلی تو پتہ چلا کہ کھونگیر بوہتو سے لے کر بروغل تک، میڑپ سے لے کر شندور تک ایک نیا نویلا ضلع جنم پاچکا ہے۔ ضلع ابھی تازہ بہ تازہ بنا تھا اس لیے مسائل بھی اسے انبار کی شکل میں ملے۔ حکومت نے عوامی خواہشات کا لحاظ و احترام کر کے اگرچہ ضلع بنا کر دیا لیکن اس ضلعے کو چلانے کے لیے درکار وسائل کی فی الفور فراہمی ممکن نہ ہو سکی تھی۔ (حکومت کے پاس آلہ دین کا چراغ بھی نہیں ہوتا جسے رگڑنے سے تمام مسائل آن ِ واحد میں حل ہوں)۔


نومولود ضلع کے تئیں جو سمجھا جارہا تھا کہ معرضِ وجود میں آتے ہی اپر چترال کی تمام محرومیوں کا ازالہ ہو گا، وسیع تعداد میں ملازمتوں کے مواقع ہوں گے، نت نئے پراجیکٹس کی وجہ سے بے روزگاری کا خاتمہ ہو گا بوجوہ ایسا نہ ہو سکا۔ اس گو مگو کے ماحول میں ایک بڑا مسئلہ اثاثہ جات کی تقسیم اور نئے ضلعے کو اثاثہ جات سے آراستہ کرنے کا تھا۔ گریڈ سولہ سے نیچے سرکاری ملازمین کو دو ضلعوں میں تقسیم کرنا بھی اثاثہ جات کی تقسیم کا ایک ضمنی پہلو تھا۔ عام طور پر گریڈ سولہ تک کے ملازمین ڈومیسائل کی بنیاد پر متعلقہ ضلعے سے بھرتی کیے جاتے ہیں ۔ جہاں بھی ایک ضلع دو ضلعوں میں تقسیم ہوتا ہے وہاں انتظامیہ کی کوشش ہوتی ہے کہ بائفرکیشن میں متعلقہ ضلعے کا ڈومیسائل ہولڈر اپنے ہوم ضلعے میں خدمات سر انجام دیتا رہے۔ چترال میں بھی بعض محکموں میں ایسا ہی ہوا۔

دونوں اضلاع کے ملازمین کو ڈومیسائل کی بنیاد پر ان کے ہوم ضلعے میں ایڈجسٹ کیا گیا لیکن محکمہء تعلیم اور دیگر چند محکموں میں ایسا نہیں کیا جا سکا۔ اس کی ایک وجہ یہ بنی کہ بڑی تعداد میں اپر چترال کے ڈومیسائل ہولڈرز لوئر چترال میں زمینیں ہی نہیں خرید چکے، بلکہ گھر بھی بسا چکے ہیں۔ ایک طریقے سے اب وہ لوئر چترال کے ہی باشندے بن چکے ہیں۔ ایسے میں ان سے یہ توقع رکھنا کہ وہ گھر بار چھوڑ کر اپر چترال ٹرانسفر ہونے پر تیار ہوں گے قابلِ عمل نہیں ہے۔ دوسرا سبب شاید دونوں اضلاع کے اساتذہ کا عدم توازن ہے۔ اپر چترال کے ڈومیسائل ہولڈرز کی جتنی تعداد ہے شاید اتنی تعداد کو کھپانے کے لیے فی الحال اپر چترال میں اسامیاں نہیں ہیں۔ اس طرح بڑی تعداد میں ایسے اساتذہ کرام بھی اپنے آبائی ضلع اپر چترال کی طرف کوچ کرنا نہیں چاہتے جن کی یہاں جائدادیں ہیں اور نہ ہی گھر وغیرہ۔ ان کا مطمع نظر شاید آبائی ضلع میں پُرمشقت نوکری سے بچنا ہے۔ ان تمام باتوں کے جمع ہونے کی وجہ سے صورت حال کافی پیچیدہ شکل اختیار کر گئی۔ انتظامیہ نے محکمہء تعلیم میں بائفرکیشن کے عنوان سے دو دفعہ تبادلہ بھی کیا۔

اس کے نتیجے میں اپر چترال میں تعینات لوئر چترال کے ڈومیسائل ہولڈر بڑی تعداد میں اپنے آبائی ضلع میں ایڈجسٹ ہو گئے۔لیکن لوئر چترال سے اپر چترال کے ڈومیسائل ہولڈر انتہائی قلیل تعداد میں ٹرانسفر ہو گئے۔ یہی نہیں، مزید اساتذہ کی ایک بڑی تعداد اپر چترال سے لوئر ٹرانسفر ہونے کے لیے پر تولے تیار بیٹھی ہے۔ اب اگر اپر سے لوئر کی طرف ٹراسفرز کا یہ سلسلہ جاری و ساری رہے اور یہاں خالی ہونے والی اسامیوں پر اپر چترال سے لوئر ٹرانسفر ہونے والے ہی ایڈجسٹ ہوتے رہیں تو اس کے نتیجے میں لوئر چترال میں نہ صرف ملازمین کی محکمہ جاتی ترقیاں شدید متاثر ہوں گی بلکہ مستقبل میں نئی اسامیاں بھی معدوم ہو جائیں گی۔ جس طرح اپر چترال کے اُن ڈومیسائل ہولڈرز کو زبردستی بھیجنا غلط ہے یا غلط لگ رہا ہے جو لوئر چترال میں گھر بنا چکے ہیں ٹھیک اسی طرح یہاں کے لوگوں کو بھی ترقی اور ملازمتوں سے محروم کرنا شدید ناانصافی بھی ہے اور حق تلفی بھی۔ ایسے میں معقول حل نیا فارمولہ وضع کر کے ہی نکالا جا سکتا تھا۔ مثلاً ایک سن متعین کر کے یہ اصول بنایا جا سکتا تھا کہ اس سَن کے بعد لوئر چترال میں بھرتی ہونے والے بہرصورت قربانی دے دیں اور اپنے آبائی علاقے میں شفٹ ہونے کے لیے تیار ہو جائیں۔ اس سن سے پہلے بھرتی ہونے والے یہیں ملازمت جاری رکھ سکتے ہیں۔ بہرحال اول تا آخر یہ تکنیکی اور انتظامی مسئلہ تھا جسے لوئر چترال کے ملازمین کے معقول تحفظات اور اپر والوں کی مجبوریاں مدنظر رکھ قانونی، انتظامی اور تکنیکی بنیادوں پر حل کیا جا سکتا تھا لیکن جزباتیت کا عنصر اس میں درلاکر اسے مسئلہ منافرت بنایا گیا۔


اپر چترال کے ڈومیسائل ہولڈر ملازمین کی طرف سےکبھی شاعری تو کبھی نثر میں فرمایا جا رہا ہے کہ چترال میں تین اقوام آباد ہیں بائفرکیشن کا مطالبہ کرنے والے کس قوم سے ہیں۔ میرے خیال میں ایسا مطالبہ نفرت کی فصیل کو مزید مضبوط کرنے کی کوشش کے مترادف ہے۔ یہ مسئلہ گجر، کھو اور کیلاش کا سرے سے ہے ہی نہیں، یہ دو ضلعوں ڈسٹرکٹ اپر چترال اور ڈسٹرکٹ لوئر چترال کے چند ملازمین کا مسئلہ ہے۔ ویسے بھی چترال میں صرف یہ تین قومیں نہیں، اور بھی اقوام ہیں۔ اس نعرے کو اٹھا کر انہیں بھی مشتعل کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح ان مذکورہ تینوں اقوام کی نسلیں بھی دونوں اضلاع میں آباد ہیں۔ صرف اپر چترال یا صرف لوئر چترال میں نہیں۔ ایسا زہر آلود نعرہ لگا کر لوگوں کو بلیک میل کرنے کی کوشش کرنا ناقابلِ فہم ہی نہیں، قابلِ مذمت بھی ہے۔


حیرت ہو رہی ہے کہ بار بار بیٹھیکں لگا کر ان حضرات نے قومیتوں کا نام لے کر کمال ِ ہوشیاری سے چند ملازمین کے مسئلے کو تمام چترالیوں کا مسئلہ کیوں باور کرایا؟ آئے دن نفرت کی دیوار کیوں بلند کر رہے؟ ان کا ایجنڈا کیا ہے؟ اتنی بات انہیں بھی سمجھ لینی چاہیے کہ وحشت و نفرت کا بازار جتنا گرم ہو گا اس کا نتیجہ ہم سب کے لیے شدید نقصان کی شکل میں ظاہر ہو گا۔ آبادی کے لحاظ سے چھوٹا سا چترال اس بات کا ہرگز متحمل نہیں ہے کہ یہاں شناختی کارڈز اور قومیتوں کی بنیاد پر نفرتیں پھیلائی جائیں۔ اللہ تعالیٰ ہر قسم کی نفرت آمیز شرارتوں سے ہم سب کو محفوظ رکھے۔ اپر چترال کے دانشور طبقے کو بھی اس صورت حال کا نوٹس لینا چاہیے کہ چند ملازمین کا مسئلہ پورے چترال کا مسئلہ کیوں بن رہا ہے؟؟ انتظامیہ کا مسئلہ انتظامیہ پر ہی چھوڑنا چاہیے۔ اس پورے قضیے میں مجھے پروفیسر ممتاز حسین کا مشورہ بہترین ہے کہ اپر چترال اور لوئر چترال کے ڈپٹی کمشنرز کو مل بیٹھ کر اس مسئلے کا حل نکالنا چاہیے۔
خدا لگتی بات بھی یہی ہے کہ دونوں ڈی سیز اپنے ماتحت ہیڈ آف ڈیپارٹمنس سے بریفنگ اور اور فریقین کے تحفظات و مجبوریاں مدنظر رکھ کر اس مسئلے کو حل کر سکتے ہیں۔ کاش کہ ایسا ہی ہو جائے۔ اور ہمیشہ کے لیے یہ مسئلہ حل ہو۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
53222

دھڑکنوں کی زبان – “عالمی یوم استاذ-اس استاد کے نام” -محمد جاوید حیات

استاد نام ہی قابل احترام ہے نہ چاہتے ہویے بھی احترام کرنے کو دل کرتا ہے ۔انسان مخلوقات میں عقل اور شعور کی وجہ سے افضل ہے اور مکلف بھی کہ اس کو بہت سارے امتحانات دینے ہوتے ہیں بلکہ اللہ کے حضور ذرے ذرے کا حساب دینا ہوتا ہے ۔ایسی ذی عقل مخلوق کی تربیت لازمی ہے جو استاد کے ہاتھوں انجام پاتی ہے ۔اس کا ہاتھ پکڑ کر الف با لکھانے والا استاد ہوتا ہے اس کو صفائی ستھرائی کی تربیت دینے والا استاد ہوتا ہے اس کی ناک پونجھنے ہاتھ صاف کرنے واش روم جانے کی نصیحت کرنے والا استاد ہوتا یے ۔اس کو اٹھنے بیٹھنے کی تربیت دینے والا استاد ہوتا ہے اس کو سچ بولنے حق نا حق میں فرق کرنے کی تربیت سیکھانے والا استاد ہوتا ہے اس کو معاشرے کے بے ہنگم شور اور بے ترتیب اجتماع سے بچا کر کردار سیکھانے والا استاد ہوتا ہے استاد گرو ہے، راہبر ہے، محسن ہے، مربی ہے، روحانی باپ ہے۔۔ استاد ہی بچے کو زندگی کی جنگ کے لیے تیار کرتا ہے ۔

دنیا میں کتنے اساتذہ ہیں جو اپنے شاگردوں کے لیے رول ماڈل ہیں۔ ہیرو ہیں۔ وہ اپنی ساری زندگیاں ان کے نام کرتے ہیں ۔لیکن سوال ہے کہ کیا سارے اساتذہ اس معیار پر پورا اترتے ہیں ۔افسوس سے ایسا نہیں ہے کسی بھی شاگرد کی زندگی میں شاید کوئی ایک استاد آجایے جو اس کا گرو ہو وہ اس سے متاثر ہو وہ اس کو نہ بھولتا ہو آخر یہ کونسا استاد ہوتا ہے ۔۔یہ استاد نہیں استاد نما مسیحا ہوتا ہے یہ شاگردوں کی زندگیاں بدل کے رکھ دیتا ہے یہ کبھی اپنا وقت ضایع نہیں کرتا اور نہ کبھی شاگرد کا وقت ضایع کرتا ہے یہ کلاس روم میں شاگرد کے لیے ایسا آینہ ہوتا ہے کہ شاگرد اس میں اپنا مستقبل دیکھتا ہے وہ لفظ لفظ اس کے دماغ میں بھر دیتا ہے اس کے ذہن کو صلاحیتوں سے بھر دیتا ہے ایک ساقی کا کام کرتا ہے اور اس کی علمی پیاس بجھا دیتا ہے اس کو محنت، شرافت، کردار اور علم کے میے پلا کر سرشار کر دیتا ہے ۔

اس کو خودی کا درس دے کر خوداری کا پیکر بنا دیتا ہے اس کو جھکنے، بکنے اور مانگنے کی کوتاہیوں سے پاک کر دیتا ہے اس کو محنت کا خوگر بنا کر کندن بنا دیتا ہے ۔اس کو کامیابی کا خواب دکھا کر پھراس کی تعبیر بتا تا ہے ۔خود علم کا دریا ہوتا ہے شاگرد کی رگوں میں بہتا رہتا ہے ۔وہ شاگرد کی رگوں میں خون بن کر، اس کی سانسوں میں خوشبو بن کر، اس کی آنکھوں میں چمک بن کر ،اس کے دل کی دھڑکن بن کر اس کی رگ و پیے میں اترتا ہے ۔شاگرد استاد کو دیکھ کر کھل اٹھتا ہے اور نہ دیکھے تو ماہی بے آب کی طرح تڑپتا ہے ۔یہ استاد ایک الگ دنیا ہوتا ہے ایک کھلی کائنات، ایک دلنشین کتاب جس کے ہر ورق پہ ایک سبق لکھا ہو، ایک گر، ایک ہنر، ایک اچھائی اور ایک عظمت ۔

یہ ہر برائ سے پاک ہوتا ہے ۔لالچ ،حسد، بعض کینہ سب سے پاک ۔۔اس کی نگاہ جوہر انداز میں سارے شاگرد جوہر موتی اور یہ جوہری ہوتا ہے ۔سارے شاگرد گلشن انسانیت کے پھول اور یہ۔مالی ۔سارے شاگرد آکاش کے ستارے اور یہ چاند ۔سارے شاگرد چہکتے چہچہاتے طیور اور یہ عندلیب ۔سارے شاگرد کاروان علم کے بانکے مسافر اور یہ میر کاروان ۔۔یہ صداقت کا پیکر ،محبت کا تاج محل ،خلوص کا مینارہ ،محنت کی چٹان ،یہی خوابوں کا شہزادہ ،یہی وقت کا دھارہ بدل دیتا ہے اسی کے نام “ڈے” منایے جاتے ہیں اسی کو یاد کیا جاتا ہے یہ ایک پھول ہےجس کا نغمہ شاگرد بلبل بن کر گاتے ہیں یہی وہ شمع ہے جس کی شاگرد پروانہ بن کر طواف کرتے ہیں ۔۔اسی کی مثال دنیا میں رہی ہے


~۔۔پروانے کوچراغ ہے بلبل کو پھول بس
صدیق رض کے لیے ہے خدا کا رسول ص بس
یہ “ڈے” اسی استاد کے نام کیا جایے جو قوم کا محسن ہے ۔۔آج استاد بھی سوالیہ نشان بن گیا ہے وہ استاد جو نقل کا حامی ہے وہ استاد جومحنت سے جی چراتا ہے وہ استاد جو کرپشن کا حصہ ہے وہ استاد جو اپنا فرض منصبی چھوڑ کر سیاست خدمت کے نام پر نفرت پھیلانے اور دوسرے دھندوں میں ملوث ہے اس کے نام کیا “ڈے” منایں ۔خدا کرے وہ استاد کسی کی زندگی میں نہ آیے اور قوم کو اس کی ضرورت ہے ۔استاد کو اپنی پہچان خود کرانا چاہیے اور اپنا مقام خود بنانا چاہیے تاکہ واقع اس کے ” نام ڈے ” منایا جایے ۔۔۔سلام استاد

Posted in تازہ ترین, مضامین
53211

بزمِ درویش ۔ امریکی غرور دفن ہوا ۔ تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

روس کے جب ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے تو طویل عرصے سے جاری سرد جنگ کا خاتمہ بھی ہو گیا تھادنیا جو کئی عشروں سے دو بلاک میں تقسیم تھی ایک لیڈر امریکہ بہادر جبکہ دوسری طرف روس نے کمیونسٹ بلاک بنایا ہوا تھا روس کے بکھرنے کے بعد امریکہ بہادر غرور کے ساتویں آسمان پر پہنچ گیا اور سینہ ٹھونک کر بڑھکیں مارنے لگا کہ اب اقوام عالم کے فیصلے امریکہ کے ابروئے چشم سے ہوا کریں گے اب کرہ ارضی کا اکلوتا وارث مالک حکمران امریکہ ہے اب باقی اقوام کو امریکہ کی غلامی کرنی ہوگی امریکہ کے سامنے سر جھکانا ہو گا پہلے جو باقی ایٹمیں طاقتیں جرمنی فرانس وغیرہ دبے لفظوں میں کبھی کبھار اعتراض یا احتجاج بلند کرتے تھے انہوں نے بھی امریکی بالا دستی کو قبول کیا اقوام متحدہ میں بھی امریکہ بہا در کے غلاموں کی فوج بھرتی تھی اب امریکہ نے خود کواقوام عالم کا تنہا لیڈر سمجھ لیا روس کی شکست کے بعد طاقت اقتدار اور ٹیکنالوجی کا استحکام امریکہ کو پاگل کر گیا طاقت اقتدار دولت کا نشہ دنیا کے تما م نشوں سے زیادہ خطرناک ہے.

امریکہ کوبھی یہ نشہ چڑھ گیا اب امریکہ کے مقابلے پر کوئی نہیں تھا کرہ ارضی پر کہیں کہیں دبی ہوئی چنگاری اگر تھی تو وہ مسلمان مجاہدین تھے جو جہاد اور اسلام کے غلبے کی بات کرتے امریکہ کو یہ مٹھی بھر مجاہدین بھی بہت گستاخی محسوس ہوتے اب وہ موقع کی تلاش میں تھا کہ مسلمانوں کو بھی اپنے غلاموں کی صف میں کھڑا کر کے اِسی دوران نائن الیون کا واقعہ یا سازش منظر عام پر آئی یہ امریکہ بہادر کے لیے گستاخی عظیم تھی کہ وہ اِس دھرتی کا اکلوتا خدا لیڈر ہے کسی کو جرات کیسے ہوئی کہ اُس نے امریکہ کی طرف میلی آنکھ سے دیکھا حالانکہ امریکہ اپنی مسلم دشمنی کی وجہ سے مسلمان جوانوں میں نفرت کی آگ خود ہی بھڑکا چکا تھا اب نائن الیون کو امریکہ پر حملہ تصور کیا گیا

اِس واقعہ کی آڑ میں مسلمانوں کو سبق سکھانے اور غلام بنانے کے منصوبے پر عمل شروع ہو گیا امریکی تھینک ٹینک اور بش انتظامیہ غصے سے آگ بگولہ ہو چکے تھے کہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملہ امریکہ پر حملہ ہے اب القاعدہ اور اسامہ بن لادن کو قصور وارٹھہرا کر افغانستان میں موجود اسامہ بن لادن اور مجاہدین کوصفحہ ہستی سے مٹانے پر تل گیا بش نے بڑھک مارتے ہوئے اعلا ن کیا کہ افغانستان میں طالبان غیر مشروط ہتھیار ڈال دیں اسامہ بن لادن کو امریکہ حوالے کر دیں ورنہ افغانستان کو راکھ کا ڈھیر بنا دیں گے افغانستان پر فوجی حملے کا اعلان کردیا پہلے جب بھی ایسی صورتحال پیدا ہوتی روس امریکہ کے سامنے کھڑا ہو جاتا لیکن روسی شیرازہ بکھرنے کے بعد اب امریکہ کو لگام دینے والا کوئی نہ تھا .

پاکستان نے جب دبے لفظوں میں امریکہ سے کہا کہ طالبان سے مذاکرات کر کے کوئی راستہ نکالنا چاہیے تو امریکہ نے جنرل مشرف کو بھی دھمکی دی کہ اگر پاکستان نے امریکہ کی بات نہ مانی تو پاکستان پر بھی حملہ کر کے پاکستان کو پتھر کے زمانے میں دھکیل دیا جائے اگر پاکستان اپنی بقا چاہتا ہے تو جو امریکہ بہادر حکم دے رہا ہے اُس پر عمل کرے امریکہ ایک لاحاصل جنگ میں ہر صورت کو دنا چاہتا تھا پاکستان نے جب امریکہ کا موڈ دیکھا تو عرب ملک کے ساتھ مل کر امریکہ کو سمجھانے کی کو شش کی اِس کا انکشاف پاکستان کے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل احسان الحق نے عرب اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے اِسطرح کیا کہ وہ عرب ملک کے ساتھ مل کر خفیہ مشن پر امریکہ گیا اور امریکہ کو یہ سمجھانے کی کو شش کی کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کر کے نائن الیون کے دہشت گردوں تک رسائی پا ئی جاسکتی ہے.

اِس کو شش میں برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلئیر کو بھی شامل کیا گیا جو اِس جنگ کے خلاف تھا پاکستان نے یہ تجویز بھی دی کہ اقوام متحدہ کے کنڑول میں ایک وسیع الخیال گورنمنٹ افغانستان میں قائم کر دی جائے جو اِس مسئلے کو حل کر نے میں معاون ہو لیکن امریکہ انتقام کے شعلوں میں جل رہا تھا وہ ہر حال میں افغانستان پر گولہ باری یابارود کی بارش کرنا چاہتاتھا وہ طالبان القاعدہ کو عبرت ناک شکست دے کر دنیا پر اپنی طاقت کا رعب بٹھانا چاہتا تھاپاکستان کی اقوام متحدہ میں سابق مستقل مندوب ملیحہ لودھی نے بھی اکانومسٹ میں اپنے حالیہ مضمون میں ایسے ہی خیالات کا اظہار اس طرح کیا ہے پاکستان کے نائن الیون کے بعد جب امریکہ شعلے اگل رہا تھا افغانستان کو راکھ کا ڈھیر بنانے کے چکر میں تھا.

پاکستان نے امریکہ کو باز رکھنے کی بہت کو شش کی کہ جنگ کسی مسئلے کا آخری حل نہیں ہوتا افغانستان میں القاعدہ کے لوگوں پر ٹارگٹڈ حملہ کر کے بھی امریکہ اپنا مقصد حاصل کر سکتا ہے ملٹری آپریشن سے مسئلہ حل نہیں ہو گا بلکہ ایسے اِس نفرت اور پھیلے گی اور امریکہ لا حاصل جنگ میں الجھ سکتا ہے امریکہ کو طالبان اور القاعدہ میں فرق کرنا چاہیے القاعدہ کی سزا افغانستان کو نہیں دینی چاہیے امریکہ کو طالبان کے ساتھ مذاکرات کر کے کوئی راستہ نکالنا چاہیے لیکن امریکہ طاقت انتقام کے گھوڑے پر سوار اپنی ضد پر اڑا رہا جنگ شروع کر دی پاکستان پر بھی بار بار ڈو مور کا پریشر ڈالتا رہا .

پھر پچھلے بیس سالوں میں اپنے ہزاروں فوجی مروانے اور کھربوں ڈالر خرچ کرنے کے بعد کابل بلگرام ائر پورٹ پر اپنا جنگی سازو سامان چھوڑ کر جاتے ہوئے یہ ضرور سوچ رہا ہو گا کہ اِس بیس سالہ جنگی جنون کے بعد امریکہ کی عزت شہرت میں اضافہ ہوا یا افغانستان امریکہ کی طاقت اور فوجی استحکام کا قبرستان ثابت ہوا امریکہ دنیا کا سب سے طاقت ور ملک جبکہ افغانستان سب سے کمزور لیکن جذبہ ایمانی سے سر شار طالبان نے مغرور امریکی فوج کو چوہوں کی طرح بھاگنے پر مجبور کر دیا امریکہ جو مرضی تاویلیں دے لے لیکن یہ بات اب روشن حقیقت کی طرح عیاں ہے کہ امریکی غرور طاقت جنگی سپر پاور کا افغانستان قبرستان ثابت ہوا ہے اللہ تعالی نے ایک بار پھر زمینی خدا ؤں کو اُن کی اوقات اِسطرح یاد دلائی کہ سپر پاور کا غرور نہتے طالبان نے افغانستان میں دفن کر دیا۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
53203

میری ڈائری کے اوراق سے – استاد تجھے سلام – تحریر شمس الحق قمر

میری ڈائری کے اوراق سے ————- (   آج تک  اُن کے  محبت سے بھر پور الفاظ   کی ڈھارس شامل حال ہے  – استاد تجھے سلام )

تحریر شمس الحق قمر

آج  اساتذہ کو سلام  پیش کرنے کا دن ہے   اور میں ماضی کے جھروکوں سےاپنی زندگی کے  اُن  نازک اور پُر پیچ   راستوں  کو دیکھ  رہا ہوں کہ جہاں   سے    محفوظ  گزرنے  میں   ہمارے اساتذہ  کی شاندار    راہمنائی کا کلیدی کردار  ہمیشہ  ساتھ رہا ۔ پیش تر  کہ میں اساتذہ کا  ذکر کروں میں اپنی قابلیت   کا  مختصر قصہ ضروری سمجھتا ہوں ۔

 سن 1985 میں عربی کے پرچے پرا عراب کی شدید بھرمار کی بدولت میٹرک پاس کہلائے  جانے  کا استحقاق  حاصل  ہوا  – میرے میٹرک کے پرچے سے عربی کے 100 میں سے 90 نمبروں کے بے جا حصول کو  میرے کُل حاصل شدہ  نمبروں سے خدا نخواستہ  منفی کیا جائے تو مجھے  تھرڈ ڈویشن  میٹرک پاس کا اعزاز  ضرور حاصل رہے گا –  میرے تعلیمی سفر کا لب لباب یہ ہے کہ   سکول  میں داخلے کی تاریخ  اب تک  درست  نہیں ہو سکی  ؟   بہر حال اس  گتھی  کو سلجھانے  کےلئے مجھے ہر حال میں  سن1985  سے 10 سال منہا کرنے ہوں گے تو معلوم ہوگا کہ میرے  سکول میں داخلے کا سن کونسا تھا  ۔

مشکل یہ ہے کہ  ابجد جب نکال لیتا ہوں تو میرے سکول میں  داخلہ  لینے کی عمر  9 سال پر منتج ہوتی ہے  ۔ لیکن میرے والد صاحب اور سکول ریکارڈ کے مطابق ہائی سکول بونی میں میرا داخلہ 6 سال کی عمر میں ہوا تھا    جوکہ   1972 بنتا ہے ۔ 72 میں اگر  داخلہ ہوا تھا    تومجھے   میٹرک  کرنے  میں 10 سال کے بجائے   13 سال  کیوں کر  لگے؟ اس پیچدار سوال کا جواب میرے ہم جماعت  رحمت اللہ  بزاندہ ،  محمدی  پرسنک، بودین    پرسنک،  حیدر شکراندہ ، دلبر  اور معراج بونی گول ، اسلم  ڑوقاندہ،   غلام مصطفی ، شاہ نواز ، سردار ولی تاج ،    زکریا    بونی ڈوک شمس الدین   اویر  اور  کئی  ایک پر منکشف ہے  ۔  آج تک اپنے آپ کو  اپنے  ہم عصروں میں کند ذہنی کا باوائے آدم  تصوّر     کرتے ہوئے بھی     اپنی قابلیت کے بیان میں تشنگی  باقی  محسوس ہوتی ہے  جو کہ سو فیصد درست  ہے   ۔

my teachers

مجھےآج کی طرح  یاد ہے جب میں جماعت پنچم میں تھا تو  میرے والد  صاحب  نے  اپنے  دوست  افضل استاد  ( چرون )کو میرے لیے  حساب کا ٹیوٹر  مقرر کیا  تھا ایک ایسا ٹیوٹر  جو  گھنٹوں  مغز ماری بھی کرے   اور اُجرت بھی نہ لے وہ   افضل استاد   ہی  ہو سکتے  تھے     ۔  موصوف والد  صاحب کے دوست  اورننھیال کی طرف سے میرے ماموں ہیں     ۔ آپ   اپنے دور کے    ریاضی   کے  نامور استادوں  میں شمار ہوتے تھے ۔  موصوف تقسیم کے باب میں پانچ دنوں تک  مسلسل عرق ریزی سے  مجھے پڑھانے کے بعد پُر امید تھے کہ اب اُن کی محنت  ضروررنگ لائے گی ۔ اُنہوں نے   تقسیم کے ایک سوال سے میرا امتحان لیا ۔ سوال  ( 4/2) کا تھا ۔ یعنی  چار چیزوں کو دو میں تقسیم  کرنا۔ میں نے بہت سوچ بچار کے بعد  6  جواب لایا  جو کہ میرے حساب سے بالکل درست جواب تھا  ۔  میرا جواب سن کر  سر کو  کوئی  حیرت نہ ہوئی   اور نہ ہی اُسے غصہ آیا   – یہی نہیں بلکہ اُنہوں نے مجھے  مزید پیار سے سمجھانے کی کوشش کی کیوں کہ وہ استاد تھے اور اُنہیں سکھانے کا گر آتاتھا

tufiq jan

لہذا موصوف نے عملی طور پر مجھے سمجھانے کی حکمت  عملی  اختیار کی  اور سامنے رکھی لکڑی کی چار  بوسیدہ کرسیوں کو مثال کے طور پر پیش کرتے ہوئے کہا ” دیکھو ، وہ چار کرسیاں ہیں اور ہم دو لوگ ہیں اگر اُن چار کرسیوں کو ہم دو میں برابر برابر تقسیم کیا جائے تو آپ کو اور مجھے کتنی کرسیاں ملیں گی ؟ “   گویا اُس نے رائی کاپہاڑ  میرے کمزور شانوں پر  گرادیا یہ تو میرے لیے  پہلی والی تھیوری سے بھی زیادہ  تکلیف دہ سوال تھا ۔ کیوں کہ یہاں تو سوال کو عملی طور پر حل کرنا تھا ۔  مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا  ، لیکن میں اپنے پہلے والے جواب  پر  تا حا ل ثابت قدم رہتے ہوئے  دوبارہ  6 جواب نکالا ۔  سر   افصل کیوں کہ ایک  اعلیٰ    اپنے کام میں یکتا  پیشہ   تھے  لہذا   انہوں نے سب چھوڑ چھاڑ کےگھریلو    اور نجی گفتگو  شروع کی  اور  بیچ میں   میرے گھر ہستی کی تمام سرگرمیوں کی  دل کھول کر تعریف کی   ۔ مجھ میں حوصلہ پیدا  ہوتے دیکھا تو      مجھے    اس  بات کا   مزید حوصلہ  دیکر کہ  میں   پڑھائی میں بھی  اچھا ہوں البتہ تھوڑی سی توجہ کی ضرورت ہے   جبکہ دوسرے طلبہ کے ساتھ   بہت زیادہ محنت کرنی  پڑتی ہے ، دوبارہ سوال کی طرف آئے    ۔

afzal ustad

   ہم سوال کی طرف دوبارہ آ ہی رہے تھے کہ  والد صاحب در آئے    اورسر افضل سے پوچھے”  لڑکا  کیسا  جا رہا ہے ؟  ”  اُن کا  یہ سوال       میرے لیے  قیامت  سے  کم  نہ تھا ۔ اب  زرا  ایک اچھے ٹیچر کا جواب سنیئے  ، بولے  ”  ماشا اللہ بہت تیز  بچہ ہے بس تھوڑی سی   محنت کرے  تو    ہم جماعتوں سےسبقت پا لے گا ۔”  آج تک  اُن کےمحبت  سے بھر پور الفاظ   کی ڈھارس شامل حال ہے ۔ انہوں نے  بہت نزاکت سے کام لیا تھا  کیوں میرا  پورا مستقبل اُن کے پیش نظر تھا ۔  کسی نے کیا خوب کہا ہے ۔     لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام    آفاق کی اس کارگہ  شیشہ گری کا ۔  میری  زندگی میں  ایسے کئی ایک شیشہ گروں کا  ساحرانہ  کردار رہا ہے    کہ جنہوں نے بڑی نزاکت سے  مجھے ایک سانچے میں ڈھالا  ۔  آج چونکہ  اساتذہ   کا دن ہے  ۔ 

میں ایک  استاد کو ایک سے جدا  کر کے  قطعی  طور پر نہیں  دیکھ سکتا  یہ صرف   سر افضل کی کہانی نہیں  بلکہ  تمام  اساتذہ کی ہے  کیوں کہ   تمام   نے اپنی  بساط کے مطابق سر افصل   جیسی محبتوں سے نوازا ہے ۔ہمیں ہمارے زمانے کے  بہت سارے اساتذہ کے  نام معلوم   نہیں کیوں کہ اُس زمانے  میں  کسی استاد کو  نام سے   پکارنا معیوب سمجھا جاتا تھا  لہذا  ہم    اکثر اُن کے   علاقوں  کی نسبت سے   اُنہیں   یاد کرتے  تھے ۔ میں شروع سے لیکر آخر تک  بہت شریر طالب علم رہاں ہوں  لیکن آپ کی محبتوں  کی طفیل  میں معاشرے کا ایک اچھا انسان اور ملک کا ایک پرامن  شہری ہوں  ۔

   آج میں   اپنی زندگی اور اپنی اولاد  کی زندگی کو  آپ ہی کی   مرہونِ منت سمجھتا ہوں ۔   میرے  قابل  صد تحسین  اساتذہ  کرام !   میں آپ کا نام لیکر آپ  کو  دل سے تحسین و سلام پیش کرتا ہوں :

chitraltimes teachers day chitral

Posted in تازہ ترین, مضامین
53176

اووربلنگ اور لوڈ شیڈنگ کے مسائل ۔ محمد شریف شکیب

واپڈانے یہ نوید سنائی ہے کہ حالیہ دنوں میں پن بجلی گھروں سے نیشنل گرڈ کو 8ہزار854میگاواٹ بجلی فراہم کی گئی جو ایک ریکارڈ ہے۔رپورٹ کے مطابق تربیلاسے چار ہزار 926میگاواٹ، منگلا ہائیڈل پاور سٹیشن سے 920میگاواٹ، غازی بروتھا سے1450میگاواٹ،نیلم جہلم سے 850میگاواٹ جبکہ دیگرچھوٹے بجلی گھروں سے 708میگاواٹ پن بجلی قومی گرڈ کو مہیا کی جارہی ہے۔ ملک بھر میں واپڈا کے پن بجلی گھروں کی تعداد 22ہے جن کی مجموعی پیداواری صلاحیت 9 ہزار 406میگاواٹ ہے، جو نیشنل گرڈ کوسالانہ 37 ارب یونٹ سستی پن بجلی مہیا کرتے ہیں،رپورٹ کے مطابق پانی سے بجلی پیدا کرنے کے مختلف منصوبے اگلے سات سالوں کے دوران مکمل ہوں گے.

ان منصوبوں کی تکمیل سے واپڈا کی پیداواری صلاحیت9ہزار 406میگاواٹ سے بڑھ کر 18ہزار 431میگاواٹ ہو جائے گی اور نیشنل گرڈ کو مہیا کی جانے والی سستی اور ماحول دوست بجلی بھی 37ارب یونٹ سے بڑھ کر 81ارب یونٹ سالانہ ہو جائے گی۔سابقہ حکومت کا دعویٰ تھا کہ انہوں نے ملکی ضروریات سے زیادہ بجلی کی پیداوار حاصل کرنے کا ہدف حاصل کیا تھا۔ موجودہ حکومت بھی بجلی کی پیداوار میں مزید ہزاروں میگاواٹ اضافے کا دعویٰ کر رہی ہے۔ اس کے باوجود لوڈ شیڈنگ کے عذاب سے عوام کو نجات نہیں مل رہی۔ واپڈا کا موقف ہے کہ ملک میں بجلی کی کوئی کمی نہیں،تاہم ڈسٹری بیوشن کا نظام بوسیدہ ہے اور پرانی ٹرانسمیشن لائنیں زیادہ لوڈ نہیں اٹھا سکتیں۔ لوڈ شیڈنگ صرف ان علاقوں میں ہوتی ہے جہاں بجلی چوری ہوتی ہے اور بل ادا نہیں کئے جاتے۔

بجلی کی چوری ایک سنگین مسئلہ ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق چاروں صوبوں اور آزاد کشمیر کے بیشتر سرکاری ادارے واپڈا کے اربوں کے مقروض ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں 50فیصد حکومتی ادارے بجلی چوری میں ملوث ہیں۔ 40فیصد چوریاں صنعت کار اور کارخانے دار کرتے ہیں عام صارفین میں سے صرف 10فیصدکنڈے لگاتے ہیں۔اگرتمام نادہندہ سرکاری ادارے اپنے ذمے کے بقایاجات ادا کریں تو شاید واپڈا کو بجلی کی قیمت آئے روز بڑھانے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ قیمتوں میں اضافے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ملک میں صرف چالیس فیصد بجلی پانی سے پیدا کی جاتی ہے جبکہ ساٹھ فیصد ضروریات تیل، ایٹمی ٹیکنالوجی، سولر، ونڈ ملز اور کوئلے سے بجلی پیدا کرکے پوری کی جاتی ہیں۔

تیل کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے بجلی کی پیداواری لاگت بھی بڑھتی ہے اور قیمتوں میں اضافہ ناگزیر ہوجاتا ہے۔قیمتوں میں اضافے کے علاوہ اووربلنگ بھی صارفین کے لئے ایک سنگین مسئلہ ہے۔ملک میں بجلی اور گیس کے استعمال کی مقدار بڑھنے کے ساتھ اس کے ریٹ بھی تبدیل ہوتے ہیں۔ ایک سو یونٹ استعمال کرنے پر بجلی کی فی یونٹ قیمت بارہ روپے بنتی ہے۔ دو سویونٹ کے استعمال پر فی یونٹ قیمت سولہ روپے بنتی ہے۔ تین سو یونٹ استعمال پر فی یونٹ بائیس، چار سو یونٹ پر اٹھائیس اور پانچ سو یونٹ سے زائد استعمال پر بتیس روپے فی یونٹ صارفین سے وصول کئے جاتے ہیں۔ کاروبار کا اصول یہ ہے کہ آپ جتنی زیادہ مقدار میں چیزیں خریدیں گے پرچوں کے بجائے تھوک وصولی کی جائے گی۔ اصولی طور پر ایک یونٹ سے ایک ہزار یونٹ تک بجلی کے استعمال کا ایک ہی ریٹ ہونا چاہئے۔

صارفین کا اعتماد بحال کرنا بجلی اور گیس کی تقسیم کار کمپنیوں کی پہلی ترجیح ہونی چاہئے۔لائن لاسز بجلی تقسیم کرنے والی کمپنیوں کے لئے ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اس پر قابو پانے کے لئے جامع حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ پاور کمپنیوں نے اپنے ملازمین کے لئے مفت بجلی کی سہولت فراہم کردی ہے۔ مفت بجلی کا بے دریغ استعمال ہوتا ہے اور بیشتر ملازمین اپنے رشتہ داروں اور پڑوسیوں کو بھی کنکشن دیتے ہیں۔یہ کمپنیاں اگر مفت بجلی دینے کے بجائے مقررہ یونٹ کی ملازمین کو نقد ادائیگی کریں اور تمام ملازمین سے بلاتحصیص بل وصول کریں تو پندرہ سے بیس فیصد بجلی کی بچت ہوسکتی ہے۔ حکومت اور بجلی پیدا کرنے والے کمپنیاں اپنے طور پر اصلاح احوال کے لئے کوششیں کررہی ہیں لیکن اس کے ثمرات صارفین تک نہیں پہنچ پاتے۔ عوام کا اعتماد بحال کرنے کے لئے پالیسیوں پر نظر ثانی اور جامع حکمت عملی وضع کرنا ازحد ضروری ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
53181

تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات کن شرائط پر ممکن ہیں؟ – پروفیسرعبدالشکورشاہ

 ہمیں کبھی بھی خوف کی وجہ سے مذاکرات نہیں کرنے چاہیے اور نہ ہی مذاکرات سے خوفزدہ ہونا چاہیے، جے ایف کینڈی۔ ریاست کی جانب سے کلعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذکرات نے قومی اور بین الاقوامی سطح پر ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ اگرچہ ریاست کا ریاست مخالف گروہوں سے بات چیت کرنے کا یہ پہلا موقعہ نہیں ہے اس سے پہلے بھی بہت سارے گروہوں سے مذاکرات ہوتے رہے ہیں۔ آج سے لگ بھگ آٹھ سال پہلے بھی ٹی ٹی پی سے مذاکرات کیے گئے تھے۔ اے این پی اور جے یو آئی کی جانب سے دو اے پی سیز کا انعقاد بھی کیا گیا تھا جس میں سے ٹی ٹی پی نے اول الذکر کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا جبکہ ثانی الذکر کو تسلیم کیا تھا۔ سیاسی جماعتوں کی جانب سے مفاہمتی منصوبہ بندی کی قلت اور اسٹیبلیشمنٹ کی عدم آمادگی کے باعث مذاکرات کا سلسلہ سردی مہری کا شکارہو گیا۔ مسٹر خان کی جنگ کے بجائے مذاکرات کے زریعے حل کی منطق کافی مقبولیت کی حامل ہے۔

سمارٹ خان نے امریکہ کو بھی افغانستان کے حوالے سے یہی مشورہ دیا تھا۔ ریاست مخالف گروہوں سے مذکرات کر کے انہیں قومی دھارے میں لانے کی کوشش قابل ستائش ہے۔ تصادم سے بچنے اور مسائل کے پرامن حل کے لیے مذکرات بہترین راستہ ہیں۔مسٹر خان کوطالبان کا حامی بھی تصور کیا جاتا ہے کیونکہ انہوں نے افغانستان، شمالی علاقہ جات اور دیگر معاملات میں طاقت کے بجائے مذاکرات کی حمایت کی۔ ٹی ٹی پی کے ساتھ ہونے والے ماضی کے نمایاں معاہدوں میں شکئی امن معاہدہ 2004،ساروگہا امن معاہدہ2005، میراں شاہ امن معاہدہ2006اور سوات امن معاہدہ2009قابل ذکر ہیں۔ سوات امن معاہدہ کے علاوہ تمام معاہدے سول انتظامیہ کی جانب سے کیے گئے۔

سوات معاہدے میں اے این پی نے مولانا صوفی محمد کے زریعے فوجی قیادت کی سرپرستی میں کیا گیا۔ اگر ماضی کے امن معاہدوں کا جائزہ لیں تو یوں محسوس ہوتا ہے ان معاہدوں میں حکومت کی پوزیشن کافی کمزور رہی ہے مگر اب صورتحال یکسر مختلف ہے۔ ماضی کے معاہدوں سے پاکستان کے بجائے طالبان کو فائدہ ہوا اور وہ پہلے سے زیادہ طاقت ور ہو کر حملہ آور ہوئے۔ ریاست شمالی علاقہ جات کو ٹی ٹی پی سے پاکرنے اورانہیں غیر مسلح کرنے میں بری طرح ناکام رہی۔ ماضی میں شریعت کا نفاذ اور امریکی جنگ سے علیحدگی ٹی ٹی پی کے دوبنیادی مطالبات تھے۔ ماضی میں ٹی ٹی پی مختلف سیاسی پارٹیوں اور شخصیات کو بھی ضامن کے طور پر نامزد کرتی رہی ہے۔اب امارت قائم ہو چکی ہے اور طالبان کابل میں مقتدر ہیں۔ اس لحاظ سے طالبان کی شرائط بھی یقینا ماضی کی نسبت مختلف ہوں گی۔ اب دیکھنا یہ ہے کیا ٹی ٹی پی روایت سے ہٹ کر مذاکرات کی طرف قدم بڑھاتی ہے یا ماضی کی طرح اسے ایک بہانے کے طور پر استعمال کر تی ہے۔

ٹی ٹی پی کے چند ممکنہ مطالبات میں ٹی ٹی پی قیادت اور ممبران کی رہائی، شریعت کا نفاذ، شمالی علاقہ جات کے کچھ حصوں سے فوج کا انخلاء  وغیر ہ شامل ہوسکتے ہیں۔ ٹی ٹی پی ماضی میں امن معاہدوں کی آڑ میں دوبارہ منظم اور متحدہو کر حملہ آور ہوتی رہی ہے۔ یہ بات بھی بعید از قیاس نہیں ہیکہ ٹی ٹی پی کی افغانستان کے مغربی حصوں میں مقیم قیادت کہیں مذاکرات کو پھر سے دوبارہ منظم اور متحدہونے کے لیے استعمال تو نہیں کرنا چاہتی۔ ماضی میں ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کے بجائے فوجی حل ہی سود مندثابت ہوا تھا۔ دراصل ٹی ٹی پی میں بھی کئی دھڑے ہیں، مذاکرات کی صورت میں ہمیں یا تو ان سب دھڑوں کے ساتھ مذاکرات کرنے ہوں گے یا پھر مرکزی دھڑے کو یہ ذمہ داری لینی ہو گی کہ وہ باقی ماندہ چھوٹے دھڑوں اورگروہوں کو معاہدہ پر عمل درآمد کروانے کی ذمہ داری لے بصورت دیگر یہ مذاکرات قومی مفادات کے ضامن نہیں ہو سکتے۔ ایک سوال یہ بھی ہے ہزاروں سولین،افواج پاکستان کے نوجوانوں،اعلی افسران اور دیگر سیکورٹی اہلکاروں کی قربانیوں کو کیا ہم پس پشت ڈال دیں گے؟دوسری وجہ یہ بھی ہے ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کرنے کی صورت میں دیگر متحارب اور ریاست مخالف گروہوں کو یہ پیغام ملے گا کے وہ بھی اپنے آپ کو کلعدم کے داغ سے پاک کرسکتے ہیں۔

اس طرح مذاکرات کی آڑ میں یا تو دیگر گروہ ٹی ٹی پی کی چھتری کے نیچے متحد ہو جائیں گے یا وہ اسے ثبوت بنا کر اپنے اوپر لگائی گئی پابندیوں سے چھٹکارہ حاصل کرنے کی تگ و دو کریں گے۔اگر دیگر گروہ ٹی ٹی پی کی برتری تسلیم کرتے ہوئے یہ مان لیتے ہیں کے ٹی ٹی پی کے پاس حکومت کو مذاکرات کی میز پر لانے کی طاقت ہے تو دیگر گروہ اس کے ساتھ ملکر مستقبل میں پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کر سکتے ہیں۔ مذاکرات کے زریعے ٹی ٹی پی ملک میں موجود اپنے حمایتیوں کی بھر پور حمایت حاصل کرنے میں بھی کامیا ب ہو جائے گی اور دیگر کلعدم تنظیمیں ریلیف لینے عدالت پہنچ جائیں گی۔ ٹی ٹی پی کو غیر مسلح کرنے کی امید پوری ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ اس کی سب سے بڑی وجہ قبائلی دشمنی کی روایات ہیں۔ ٹی ٹی پی نے اپنے کنڑول والے عرصے میں بہت سارے قبائلی سرداروں کو موت کی گھاٹ اتارا تھا۔ اگر وہ غیر مسلح ہوتے ہیں تو انہیں اچھی طرح معلوم ہے قبائلی ان سے انتقام لیے بغیر چین سے نہیں بیٹھیں گے۔

یہی وجہ ہے کہ سوات امن معاہد ہ کے بعد ٹی ٹی پی کے آپریشنل کمانڈر ابن امین نے ہتھیار ڈالنے سے انکار کر دیا تھا اور انہی تحفظات کے پیش نظروہ غیر مسلح نہیں ہوا تھا۔یوں ٹی ٹی پی شائد غیر مسلح ہونے پر کسی صورت راضی نہ ہو۔ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات سے پاکستان کو افغانستان میں اپنی گرفت مضبوط کرنے میں مدد ضرور ملے گی کیونکہ مذاکرات کے لیے رابطے بھی افغانستان میں مقیم ٹی ٹی پی قیادت کر رہی ہے۔ سال 2020میں حقانی گروپ کی جانب سے مذاکرات کا آغاز کیا گیا تھاجو نتیجہ خیز ثابت ہوئے بغیر ہی ختم ہو گیا۔ یہ بھی دعوی کیا جا رہا ہے کہ ٹی ٹی پی نے مذاکرات کے لیے اپنے 10ارکان کے ناموں کی فہرست بھی پیش کر دی ہے۔ پاکستان کے خلاف جنگ ختم کرنے کے بدلے قیدیوں کی رہائی، قبائلی علاقوں سے فوج کا انخلاء اور وہاں پر شریعت کا نفاذ وغیرہ جیسے مطالبات شامل ہو سکتے ہیں۔

یاد رہے سال 2009میں امن معاہدے کے تحت نفاذ شریعت کی اجازت دی گئی تھی مگر ٹی ٹی پی کی جانب سے دہشت گردانہ کاروائیوں کی وجہ سے اسے ختم کر تے ہوئے فوجی آپریشن کیا گیا۔ پاکستان کی جانب سے ممکنہ مطالبات میں پاکستان کے خلاف محرکہ آرائی کو ختم کرنا، پاکستان کے آئین کے تحت چلنا، شہدا ء اور زخمیوں کے لیے معاوضہ ادار کرنا، غیر مسلح ہونا، اسلحہ پاکستان کے حوالے کرنا اور مذاکرات پر ہونے والے اخراجات کی ادائیگی شامل ہو سکتی ہے۔ اگر دونوں اطراف کے ممکنہ مطالبات کا بغورجائزہ لیا جائے تو مذاکرات کسی منطقی انجام تک پہنچتے دکھائی نہیں دیتے۔ اگر اقوام متحدہ کی رپورٹ اورپاکستانی وزیر دفاع کے بیانات کا بغور جائزہ لیا جائے تو یوں محسوس ہو تا ہے کوئی تیسرا فریق دونوں کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کر رہا ہے۔ پاکستانی عوام بھی ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات پر منقسم ہے۔

اپوزیشن حکومت کو الزام لگا رہی ہے کہ وہ پارلیمنٹ کو اعتماد میں لائے بغیر کلعدم تنظیم کو این آر او دے رہی ہے۔ اگر حکومت نے ہاتھ ہلکا رکھا تو یہ مذاکرات مستقبل میں دلدل ثابت ہو ں گے۔ اپوزیشن ماضی میں متحارب گروہوں کے ساتھ مذاکرات کرتی آئی ہے اور مذاکرات کی حامی بھی رہی ہے مگر اب اس مسلے کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی بھر پور کوشش کر رہی ہے۔ ریاست اور تحریک طالبان دونوں اپنے لیے بہترین موقعہ کی تلاش میں ہیں جو بہتر کھیلے گا وہ زیادہ فائدے میں رہے گا۔ مگر اسلام آباد کو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے ماضی میں مذاکرات نے ٹی ٹی پی کو مضبوط اور متحد کر کے زیادہ تقویت دی اور کا حل فوجی آپریشن ہی نکالا گیا تھا۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
53149

ٹریفک حادثات، وجوہات اور تدارک ۔ محمد شریف شکیب

وفاقی حکومت نے ڈرائیونگ کے دوران موبائل فون کے استعمال کو سنگین جرائم کی فہرست میں شامل کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔وزارت داخلہ اور وزارت قانون نے تجویز پیش کی ہے کہ ڈرائیونگ کے دوران موبائل فون استعمال کرنے والے موٹرسائیکل سواروں کوایک ہزار روپے، کار ڈرائیوروں کوایک ہزار پانچ سو روپے اور پبلک ٹرانسپورٹ کے ڈرائیوروں کو 2 ہزار روپے جرمانہ کیا جائے گا۔ موبائل فون پر ایس ایم ایس کرنا، کال کرنا، کال وصول کرنا، وائس میسج بھیجنا اور وڈیو بنانا خلاف قانون تصور کیاجائے گا۔ایک سروے کے مطابق ملک میں ماہانہ ٹریفک حادثات میں مرنے والوں کی تعدادکورونا، کینسر، یرقان، گردوں کے امراض، ٹائیفائیڈ،امراض قلب اور دیگر بیماریوں میں جاں بحق کی تعداد سے دوگنی ہے۔ ٹریفک حادثات کی اہم وجوہات میں ڈرائیوروں کا موبائل فون استعمال کرنا، موسیقی سننا، نشہ کرنا، ٹریفک قوانین سے نابلد ہونا، تیز رفتاری، گاڑیوں میں نقص اور رات کے وقت سفر کرناشامل ہیں۔

خیبر پختونخوا کے ضلع چترال میں گذشتہ ایک ماہ کے دوران اٹھارہ ٹریفک حادثات میں 25افراد لقمہ اجل بن گئے جبکہ بیس افراد شدید زخمی ہیں ان میں سے بارہ افراد کے زندگی بھر کے لئے معذور ہونے کا خدشہ ہے۔ پشاور اور اسلام آباد سے چترال کے لئے صرف رات کے وقت گاڑیاں جاتی ہیں کھلی سڑکوں پر تیز رفتاری سے گاڑی چلانے سے اکثر حادثات رونما ہوتے ہیں۔ تنگ اور دشوار پہاڑی راستوں پر رات کے وقت ڈرائیونگ کرتے ہوئے ڈرائیوروں پرنیند کے غلبے کی وجہ سے غنودگی طاری ہونا فطری امر ہے اور زیادہ تر حادثات ڈرائیوروں کی آنکھ لگنے کی وجہ سے رونما ہوتے ہیں۔پشاور کی ضلعی انتظامیہ نے غیر قانونی اڈوں، بغیر روٹ پرمٹ چلنے والی گاڑیوں، رات کو سفر کرنے،سرکاری نرخنامے سے زیادہ کرایہ وصول کرنے کے خلاف کاروائیوں کی بارہا ہدایات دی ہیں لیکن ٹریفک پولیس کی سرپرستی میں چلنے والے ان اڈوں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوپارہی۔

حکومت کورونا اور پولیو پر قابو پانے کے لئے کروڑوں ڈالر خرچ کر رہی ہے۔ امراض قلب و جگر کے لئے الگ ادارے بن رہے ہیں، جذام، زیابیطس اور دیگر امراض کے علاج کے لئے الگ ہسپتال بنائے جارہے ہیں لیکن کسی حکومت نے سب سے زیادہ انسانی جانوں کے ضیاع کا سبب ٹریفک حادثات کم کرنے پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی۔ موٹر وے سمیت شاہراہوں کے کنارے 70سے زائد اقسام کے سائن بورڈ ز لگے ہوتے ہیں ان میں کچھ گول، کچھ چوکور اور کچھ تکون ہوتے ہیں۔ 44سائن بورڈز ان قوانین سے متعلق ہیں جن کی خلاف وزری پر جانی نقصان کا خدشہ ہوتا ہے جبکہ 32نشانات وہ ہیں جن کی خلاف ورزی پر ڈرائیور گرفتار اور گاڑی سرکاری تحویل میں لی جاسکتی ہے۔ 24سائن بورڈز میں پلوں، دریاؤں، نہروں، سکولوں، ہسپتالوں اور شہری آبادی کی نشاندہی ہوتی ہے ان نشانات کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہاں سے گذرتے ہوئے رفتار کم کی جائے تاکہ جانی نقصان سے بچا جاسکے۔ سڑک پر دو سفید یا پیلے رنگ کی لکیریں ہوتی ہیں۔

انتہائی بائیں جانب کا حصہ سست رفتار گاڑیوں، درمیانی حصہ عام ٹریفک کے لئے مختص ہوتا ہے۔ سڑک کی انتہائی دائیں جانب کا حصہ ایمرجنسی یا وی آئی پی موومنٹ کے لئے مختص ہوتا ہے۔ عام گاڑیاں اسے صرف بیس سیکنڈ تک آگے والی گاڑی کو اوور ٹیک کرنے کے لئے استعمال کرسکتی ہیں۔ ان ٹریفک نشانات کے بارے میں 80فیصد ڈرائیوروں کو علم ہی نہیں ہوتا۔قانون کے تحت دھواں دینے اور شور مچانے والی گاڑیاں سڑکوں پر چلانے کی ممانعت ہے کیونکہ اس سے فوگ اور نائیس پالوشن پھیلتی ہے۔ہماری سڑکوں پر ایسی درجنوں نہیں بلکہ سینکڑوں گاڑیاں روز چلتی ہیں قانون نافذ کرنے والوں کی توجہ کبھی اس طرف نہیں جاتی۔ ٹریفک حادثات اور اس کے نتیجے میں قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع روکنے کے لئے ضروری ہے کہ موٹر سائیکل سواروں سے لے کر موٹرکار، سوزوکی، لوڈر، ٹریکٹر، ٹرالی، ٹرک اور ہیوی گاڑیاں چلانے والوں کو لائسنس کے اجراء سے قبل ٹریفک قوانین کا امتحان پاس کرنے کا پابند بنایاجائے اورحادثے میں غلطی ثابت ہونے اورجانی نقصان پر لواحقین کو معاوضے کی ادائیگی کاڈرائیور کو پابند بنایاجائے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
53145

چین نے جب غلامی کی زنجیریں توڑیں ! – قادر خان یوسف زئی کے قلم سے

 ’انقلاب کوئی کھانے کی دعوت، آرٹیکل لکھنا یا مصوری کرنا نہیں، یہ اتنا شائستہ، پر اطمینان اور پر سکون نہیں ہو سکتا۔انقلاب پر آشوب ہے، یہ ایک طبقے کا دوسرے کو ہٹانے کا پرتشدد عمل ہے۔‘ یہ الفاظ 1927 میں ماؤ کے لکھے ایک آرٹیکل سے لیے گئے ہیں۔ یکم اکتوبرچین کی تاریخ کا وہ دن ہے جب ماؤزے تنگ نے انقلاب کی بنیاد رکھی اور اس کے نتیجے میں یکم اکتوبر1949 کو عوامی جمہوریہ چین کا قیام عمل میں آیا۔   اُ س دور میں  غیر متوازن معاشرے کے شکار غریب محنت کش اور کسان طبقہ سراپا احتجاج بنا اور ایک ایسا انقلاب برپا کیا جس نے 2 ہزار سال پر محیط شنہشاہت کی بالادستی کو ختم کرکے  نئے دور کی بنیاد رکھی۔ معاشرے میں جب اشرافیہ اپنی مراعات اور خوشحالی کے لئے محنت کشطبقے کا گلہ گھونٹتا ہے تو محرومطبقہ اپنے حقوق کے اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ چینی انقلاب کے بعد مستحکم حکومت و عوام کو اُن کے حقوق دلانے کے لئے کوششوں کا آغاز تیز رفتار نہیں تھا کیونکہ اس وقت زمینی اصلاحات کا عمل جنگ عظیم اوّل و دوم کے مضمر اثرات سے باہر نہیں نکل سکا  تھا۔ سوویت یونین کی سیاسی،سماجی، اقتصادی اور زرعی اصلاحات نے مغربی جمہوری حکومتوں کو پریشان کردیا تھا کہ کہیں یہ لہر یورپ میں بھی نہ پھیل جائے جب کہ چینی عوا م روسی انقلاب سے بُری طرح متاثر تھے،اور امرا ء کی بالادستی کے خاتمے کے لئے ماؤزے تنگ کی آواز پر لبیک کہہ رہے تھے۔


عوامی جمہوریہ چین نے خود کو منوانے کے لئے کئی مشکل ادوار اور حالات مقابلہ کیا،  موجودہ چین کی مخلص قیادت کی پالیسیاں مغربی دنیا کے لئے ایک جانب جہاں اکنامک چیلنج دے رہی ہیں تو دوسری جانب عسکری اعتبار سے بھی چین ایک موثر ناقابل تسخیر دفاعی طاقت کے طور پر ابھر کر سامنے آیا ہے۔ چینی قیادت کے اقدامات نے جہاں 10کروڑانسانوں کو خطہ غربت سے باہر نکالا وہاں دنیا کی سب سے بڑی آبادی والی مملکت کی حیثیت سے اقتصادی طور پر خود کو عالمی سطح پر کسی دوسری عالمی طاقتکا محتاجبننے کے بجائے سپر اکنامک پاور ملک کی حیثیت سے منوایا۔ سرمایہ داری نظام نے بڑی بڑی حکومتوں کو سرنگوں کیا ہے اور عوام سرمایہ داری نظام کے بوجھ تلے دبے اور پسے ہوئے ہیں، چین کے پالیسی ساز 2049 تک کی ایک ایسی پالیسی ساز منصوبے پر گامزن ہیں جس میں  وہ ایک مکمل جدید اور طاقتور سوشلسٹ ملک کی شناخت کے ساتھ اپنے عوام کے مفادات کی نگرانی کرسکے، 28 ستمبر کو جاری وائٹ پیپر جاری کیا گیا،جس سے ان کی مستقبل کی پالیسی کی جھلک نمایاں ہے کہ ’چین کا اعتدال پسند خوشحال معاشرہ ترقی کے توازن، ہم آہنگی اور پائیداری کی عکاسی کرتا ہے۔ چین ہمیشہ عالمی امن کا معمار، عالمی ترقی میں معاون، بین الاقوامی نظم و نسق کا محافظ اور عوامی اشیاء کا فراہم کنندہ رہا ہے“۔


پاکستان اور چین کے تعلقات تاریخی، دیرینہ اور گہرے ہیں۔ دونوں ممالک اپنے تعلقات کو مضبوط تر بنانے کے کوشاں ہیں، دونوں کو ایسی عالمی استعماری قوتوں کے مخالفت کا بھی سامنا ہے جو پاک۔ چین کو پُر امن اور ترقی کے راستے پر گامزن نہیں دیکھنا چاہتے۔ عالمی قوتوں نے جہاں چین کے عظیم منصوبے ون بیلٹ ون روڈ کو اپنی ہٹ لسٹ پر رکھا ہوا ہے تو دوسری جانب پاکستان کو چین کا دیرینہ اتحادی ہونے اور سی پیک منصوبے کے لئے راستہ دینے پر کئی جانب سے انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔  چین اقتصادی انقلاب کے لئے دنیا بالخصوص یورپ اور مغربی ممالک کے ساتھ چلنے کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے لیکن مخصوص عالمی مفادات کی آڑ میں داخلی مداخلت اور اپنی خود مختاری پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہ کرنے کا پیغام بھی دیتا ہے۔ چین  ’سبق سیکھانے‘ کی دھمکیوں سے کبھی نہیں دبا بلکہ جس راستے پر رواں ہے انہیں بڑی سمجھداری اور فہم کے ساتھ حل کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔ افغانستان میں قیام امن کے لئے چین کا کردار اہمیت کا حامل ہے۔ اہم اسٹریجک پارنٹر اور پڑوسی ملک ہونے کے ناتے پاکستان نے اپنے ہر دور میں چین کو کندھے سے کندھا ملاتے پایا۔  کچھ عناصر پاک۔ چین تعلقات کو خراب کرنے کی عالمی سازشو ں میں ملوث بھی پائے گئے لیکن پاکستان نے چین کو ہمیشہ رول ماڈل دوست ملک قرار دیا۔


وزیراعظم عمران خان چینی قیادت کی پالیسیوں بالخصوص چینی عوام کی کروڑوں کی تعداد کو خطہ غربت سے نکالنے اور کرپشن کے خلاف موثر اقدامات سے کافی متاثر ہیں اور کئی مواقعوں پر اس کا کھل کر اظہار بھی کرچکے، چین بھی پاکستان کو آزمایا ہوا قابل اعتماد دوست سمجھتا ہے۔ مملکت کی ترقی و دفاع کے لئے چین کے تعاون کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ سی پیک منصوبہ پاکستان اور افغانستان کے معاشی انقلاب کے لئے گیم  چینجر ہے اور اس کی افادیت اور اہمیت کو سمجھتے ہوئے چین کے ساتھ تعلقات میں بہتری اور اعتماد سازی کے رشتے کو ہمیشہ مضبوط بنانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ پاکستان، صرف چین کے لئے دنیا کے کسی بھی ملک سے سفارتی تعلقات خراب نہیں کرسکتا، اسی طرح چین بھی پاکستان کے خاطر دنیا کو نہیں چھوڑ سکتا، کیونکہ اس کا فلسفہ انہی بنیادوی خطوط پر استوار ہے کہ انہوں نے ہمیشہ چینی عوام کے مفادات کو تمام ملکوں کے لوگوں کے مفادات کے ساتھ ملایا ہے۔


خطے میں تبدیل ہوتی صورت حال میں دیگر ممالک بالخصوص افغانستان میں تعمیری کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، چین اپنے منصوبے کے لئے ایک ایسا سازگار اور پُر امن ماحول کا ویسا ہی خواہشمند ہے جیسا کہ دنیا کا کوئی بھی ملک ہوسکتا ہے۔ پاکستان نے چین کے ساتھ دوستی اور بہتر تعلقات کے لئے ہر دور میں اہم کردار ادا کیا ہے جس کا چین معترف بھی ہے، یہی وجہ ہے کہ چین پاکستان کو اپنے قابل اعتماد ممالک میں دوستی کے پہلے درجے پر رکھتا ہے۔ دنیا کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعلقات اور پاکستان کے ساتھ قربت میں نمایاں یکسانیت ہے۔ دونوں ممالک اپنی عوام کو خوش حال اور غربت سے نکالنے کے لئے کرپشن اور منی لانڈرنگ کے خلاف ایک صفحے پر باہمی و دو طرفہ تعاون پر یقین رکھتے ہیں۔ پاکستان، چین کے قومی دن پر اُن مثبت اقدامات کو عملی طور پر اپنانے کے عزم کا اعادہ کرے جس نے چین کو ایک سپر اکنامک پاور ملک بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ چین کے قومی دن پر ہمیں واضح پیغام ملتا ہے کہ جب تک اُس ملک کی عوام خود نہ چاہے کہ غلامی کی زنجیریں توڑیں تب تک کسی قسم کے انقلاب لانے کی راہ ہموار نہیں ہوسکتی۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
53120

کاکونکائے کی رات – عبدالکریم کریمی

کل کا دن اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ گزر رہا تھا۔ ایمت بیس کیمپ کے برآمدے میں بیٹھے میں اس دلآویز گاؤں کی خوبصورتی میں کھویا تھا۔ ایمت جہاں اپنی خوبصورتی کی وجہ سے بے مثال ہے وہاں اپنی گوناگونی اور تکثیریت کی وجہ سے بھی مشہور ہے کہ اس گاؤں میں نو زبانیں بولنے والی مختلف النسل قومیں بستی ہیں۔ قدیم زمانے میں ایمت گورنر اشکومن کی قیام گاہ بھی تھا۔ مشہور ہے کہ میر علی مردان خان جب واخان سے ہجرت کرکے اشکومن میں آباد ہوئے تو واخان سے ان کی رعایا کا ایک وفد ان سے ملنے ایمت آیا۔ میر صاحب کو سبزی اور سلاد کھاتے ہوئے دیکھ کر وہ حیران ہوئے اور واپس واخان جاکے کہنے لگے کہ اشکومن کا راجہ گھاس کھاتا ہے۔ سبزی اور سلاد کھانے کا رواج آج بھی ایمت میں باقی ہے۔ آپ کو دسترخواں پر کھانے سے زیادہ مختلف قسم کے سلاد کھانے کو مل جائے گا شاید یہی وجہ ہے کہ یہاں کے لوگ خوبصورت اور تندرست ہیں۔ ایمت میں گزرے خوبصورت ایام کے بارے میں یا یوں کہئے یہاں کی ڈھلتی خمار آلود راتوں کے بارے میں پھر کبھی بات ہوگی۔ آج ہم کاکونکائے میں گزری رات اور اس سے جڑی دیگر باتوں کا تذکرہ کرنے چلے ہیں۔ 


ایمت میں یہ میرے آفیشل دورے کا چھٹا دن تھا، آج کاکونکائے جانا تھا۔ کاکونکائے کے نام کے بارے میں دیومالائی قصے مشہور ہیں کہ اس نالے میں ایک دیو اپنی بہن کے ساتھ رہتا تھا۔ بہن بھائی ایک دوسرے کو کاکو اور کائے کے نام سے پکارتے تھے، یوں بہن بھائی کے یہ الفاظ کاکو اور کائے کاکونکائے بن گئے اور اس گاؤں کا نام ہی کاکونکائے پڑ گیا۔ خیر اس نام کی وجہ تسمیہ کچھ اور بھی ہوسکتی ہے۔ اب اس گاؤں کا نیا نام شمس آباد ہے۔ کئی سال پہلے کی بات ہے آغا خان ایجوکیشن سروس کا ایک آفیسر پہلی بار پا پیادہ اس گاؤں کی یاترا کو پہنچے۔ آفیسر کا نام بلبل جان شمس تھا، وہ ہمارے بزرگ دوست بھی ہیں۔ لوگوں نے ان کی تعلیمی خدمات کو سراہتے ہوئے اس گاؤں کا نام ان کے نام سے منسوب کرکے شمس آباد رکھا۔ 

chitraltimes kakonkai visit karimi 3


میرے ہمسفر تھے دیدار شاہ بھائی۔ دیدار بھائی میرے پھوپھی زاد ہیں۔ ان سے محبت کا سلسلہ کافی پُرانا ہے۔ یہ سنہ دوہزار تین کی بات ہے۔ جب پہلی بار تعلیم کے حصول کے لیے شہر قائد جانے کا تہیہ کیا تو کراچی میں دیدار بھائی کی محبت نے مجھے کچھ وقت وہاں خیمہ زن ہونے کا حوصلہ دیا ورنہ والدین کے اکلوتے چشم و چراغ اور چھ بہنوں کے اکلوتے بھائی کے لیے ایک لمحہ بھی گھر سے دور رہنا محال تھا۔ کراچی میں دیدار بھائی کی محبت نہیں ہوتی تو شاید میرے وہاں گزرے تین مہینے قید تنہائی کا منظر پیش کرتے۔ یہ پردیسی بھی کیا چیز ہے کہ ماں باپ اور بہنیں تو ٹھہریں ایک طرف، گاؤں کی گلیوں کی بھی یاد ستانے لگی۔ کراچی کے میرے شب و روز ذیشان مہدی کے ان اشعار کی ترجمانی کر رہے تھے؎


پردیس میں گھر یاد جب آیا تو میں رویااحساسِ جُدائی نے ستایا تو میں رویاگاؤں کی کسی صبح کا یا شام کا جب بھیآنکھوں میں کوئی نقش سمایا تو میں رویاخط ہی سے تو ملتی تھی میرے دل کو تسلیجب دوست کا خط دیر سے آیا تو میں رویاوہ کھیل، وہ جھگڑے، وہ ستانا، وہ منانااس دیس میں ان سب کو نہ پایا تو میں رویا”ذیشان! ترے بِن میں بھلا کیسے جیوں گی”کل ماں نے مجھے خواب دکھایا تو میں رویا


پردیس میں ہمارے رونے کی خبر بھی غالباً دیدار بھائی کو معلوم پڑی تھی کہ انہوں نے ہمیں واپس گاؤں چھوڑ کر ہی ہمارے دکھوں کا مداوا کیا تھا۔ آج کئی سالوں بعد پھر وہی دیدار بھائی کی قربت ملی تھی۔ دیدار بھائی نفیس طبیعت اور اعلیٰ اقدار کے ایک محبت کرنے والے انسان ہیں۔ اب ہم تھے، دیدار بھائی کا ساتھ تھا، ہماری گاڑی تھی اور کاکونکائے کی چڑھائی تھی۔ شام کے سائے کے ساتھ ہم بھی کاکونکائے پہنچے تھے۔ ایمت سے صرف پندرہ کلومیٹر کی دوری پر پینتالیس گھرانوں پر مشتمل یہ گاؤں فلک کی آغوش میں کچھ ایسا پُرسکون تھا جیسے کوئی شرارتی بچہ کھیلتے کھیلتے ماں کی آغوش میں ہوتا ہے۔ مجھے یہاں کے لوگوں کے اس اطمینان کو دیکھ کر سقراط یاد آگئے تھے۔ انہوں نے بڑے پتے کی بات کی تھی:
“جو شخص روکھی سوکھی کھا کر بھی مطمئن رہتا ہے وہ سب سے زیادہ دولت مند ہے، کیونکہ اطمینان فطرت کی سب سے بڑی دولت ہے۔”

chitraltimes kakonkai visit karimi 5


کاکونکائے والے اطمینانِ قلب کی اس دولت سے مالامال تھے۔ ہم جس گھر کے مہمان بننے والے تھے اس کے مکین نیچے نالے کے دامن میں کسی کام میں مصروف تھے۔ دیدار بھائی کو وہاں چھوڑ کر میں ان کی تلاش میں نشیب کی طرف گیا۔ اب میں جہاں کھڑا تھا وہاں سے جہاں گھر کے مکین نظر آ رہے تھے وہاں باج گوز نالے کا پانی نشیب میں ایسے بہہ رہا تھا جیسے کوئی عاشق اپنے معشوق کے عشق میں اُداس اور بوجھل قدم اٹھاتا ہے۔ حبیب بھائی نے ایسے ہی کسی منظر کی خوب منظرکشی کی ہے۔ کہتے ہیں؎
کچھ دن ہوئے ہیں پانی وہ لینے نہیں گئیکوئی اُسے بتائے کہ دریا اُداس ہے
آسمان کو اتنے قریب سے شاید پہلی بار دیکھنے کا موقع مل رہا تھا۔ عرشِ برین اور یہاں کی جنت زمین کا یہ منظر دلآویز تھا۔ جمشید دکھی بھائی نے خوب کہا ہے؎


بس آسماں زمیں کے لپٹنے کی دیر ہےبوس و کنار پیار کا شاید اِرادہ ہے
میں بُت بنا نہ جانے کب تک اس منظر میں کھویا رہتا۔ گھر کے مکینوں نے میرا ہاتھ تھاما۔ ہم گھر کی اور چلے گئے۔ مٹی سے بنے صاف ستھرا گھر اور اسے کئی زیادہ من کے اُجلے اور صاف ستھرے مکین ہماری سیوا میں لگ گئے تھے۔ ظاہری طور پر غریب اور من کے امیر مجھے یہ سوچنے پر مجبور کر رہے تھے کہ دُنیا میں غریب نہیں ہوتے تو شاید محبت نہ ہوتی۔ 


اس گاؤں کی اخلاقی اقدار کو دیکھ کر اندازہ ہوا کہ مرشد سے جڑے رہنے کا کتنا فائدہ ہوتا ہے۔ کسی نے بڑۓ پتے کی بات کی ہے:
“حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جس راستے سے دریا پار کیا تھا، فرعون اسی راستے پر غرق ہوا۔ راستے نہیں بچاتے راہبر اور مرشد بچاتے ہیں۔”
مرشد سے تعلق کا تذکرہ ہوا تو مولانا رومیؒ یاد آگئے۔ مولانا رومیؒ نے “تعلق” کی خوبصورت تشریح بارش کے قطرے سے کی ہے۔ فرماتے ہیں:


“بارش کا قطرہ صاف ہاتھوں پر گرے تو پینے کے قابل بنتا ہے۔ گٹر میں گرے تو پاؤں دھونے کے قابل نہیں ہوتا۔ گرم سطح پر گرے تو بخارات بن کر غائب ہوجاتا ہے۔ لوٹس کے پتے پر گرے تو موتی کی طرح چمکنے لگتا ہے۔ سیپی کے اندر گرے تو موتی بن جاتا ہے۔ قطرہ وہی ہے فرق صرف یہی ہے کہ اس کا تعلق کسے رہا۔”
میں مرید و مرشد کے اس تعلق کی بقا کے لیے دُعاگو ہوں۔


کاکونکائے کی رات ڈھل رہی تھی، نیلگوں آکاش سے چکمتے ستارے، تاربوٹ نالے کی سرد ہوائیں اور نیچے نشیب میں بہتا باج گوذ کے ٹھنڈے ٹھار پانی کی آوازیں ایک عجیب سرشاری طاری کر رہی تھیں۔ اس خوبصورت احساس کے ساتھ نہ جانے کب نیند کی دیوی نے اپنی آغوش میں لی۔ صبح جب دیدار بھائی نے مجھے جگایا، تو میرے خواب کا تسلسل ٹوٹ رہا تھا۔ ان خوابوں کی بھی کیا بات ہے۔۔۔۔۔۔ کیا کیا دکھاتے ہیں، کس کس سے ملاتے ہیں اور کس کس سے جُدا کر دیتے ہیں، میری حالت کہوار کے اس شعر کے مصداق تھی؎
ای بس جو بس بیرائے نغمہ سرائیہتے سوم عمرا پت درونگار جُدائی


یوں کاکونکائے میں گزری رات اپنی انجام کو پہنچی۔ ناشتے کے بعد ہم نے میزبانوں کا شکریہ ادا کیا اور واپسی کی راہ لی۔ مجاور میں ریور ویو گیسٹ ہاؤس کے منیجر دولت علی ہماری راہ تک رہے تھے۔ ریور ویو گیسٹ ہاؤس کے صحن میں جہاں قرمبر جھیل کی کھوک سے نکلتے دریا کا نظارہ ہماری آنکھوں کو تراوت بخش رہا تھا وہاں دولت علی کی مہمان نوازی اور ان کی نمکین چائے ہماری تھکاوٹ دور کرنے کے لیے کافی تھی۔ آپ کو پیاس ستائے، بھوک لگے اور تھکن سے بدن چور ہو، ایسے میں خوش گاؤ کے گوشت کا کباب ہو، وخی تاجکی نمکین چائے ہو، گرم گرم دیسی روٹیاں ہوں اور میزبان سراپا محبت ہو تو بندے کی زبان سے اس آیہ کریمہ کا ورد جاری ہونا اچھنبے کی بات نہیں۔ ارشاد ہے:
فبای الاء ربکما تکذبان! 


یکے از تحاریر: عبدالکریم کریمی٢٩/ ستمبر ٢٠٢١ءایمت اشکومن غذر

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامین
53115

چترال کے تعلیمی میدان کا ایدھی – تحریر: اشتیاق احمد


ضلع چترال تعلیمی لحاظ سے اور اپنی بہتر خواندگی شرح کی وجہ سے صوبہ بھر کے اضلاع میں سے ایک نمایاں حیثیت کا حامل ضلع ہے اور یہاں کا %75 سے بھی زیادہ آبادی تعلیم کے زیور سے آراستہ ہے اسی تعلیمی شرح کو دیکھ کر اس کو صوبے میں ہی نہیں پورے ملک کے باقی اضلاع میں بھی نمایاں پوزیشن دلوانے کے لئے ہدایت اللّٰہ نام کے ایک شخص نے” ROSE (Regional Organization For Supporting Education) نامی ایک غیر سرکاری تنظیم کا قیام عمل میں لاتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ نام زباں زد عام ہو جاتا ہے۔


ہدایت اللّٰہ صاحب زمانہ طالب علمی سے ہی تعلیم کے ساتھ شغف رکھتے تھے اور طلبہ کے مسائل حل کرنے کیلئے پاکسان کے سب سے بڑے طلبہ تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ رہے، ناظم اسلامی جمعیت طلبہ چترال کے طور پر خدمات سر انجام دئے اور پھر تعلیم سے فراغت کے بعد شباب ملی(جس کو بعد میں جماعت اسلامی یوتھ ونگ ) کا نام دیا گیا کے ضلعی صدر رہے پھر جماعت اسلامی پاکستان کے پلیٹ فارم سے عملی سیاست کا آغاز کیا اور مختلف ذمہ داریوں پہ فائز رہے جس میں جنرل سیکرٹری جماعت اسلامی ضلع چترال قابل ذکر ہے ،( یہ وہ واحد شخص ہیں جن کی انتھک کوششوں کی بدولت الخدمت فائونڈیشن یہاں کے طلبہ کے مسائل کو بھانپتے ہوئے الخدمت یوتھ ہاسٹل کا قیام کرتے ہیں اور یہی ہدایت اللّٰہ سب سے پہلے اس کمپلیکس کے وارڈن مقرر کر دئے جاتے ہیں اس کا بھی سارا کریڈٹ ان ہی کے سر جاتا ہے)۔طالب علموں اور تعلیم کے ساتھ ان کی محبت کم نہ ہو سکی چونکہ چترال ایک پسماندہ ضلع ہعنے کے ساتھ ساتھ تعلیمی میدان میں نامور سپوت پیدا کر چکی ہے اور اس میں مزید تیزی اور جدت پیدا کرنے اور غریب اور اہل طالب علموں کے مسائل حل کرنے کیلئے ROSE کو اتنا فعال کیا کہ پورے ملک میں اس کی گونج گونجنے لگی۔اس میں چترال کے نامی گرامی ایجو کیشنسٹس کو مدعو کرکے ان سے اپنا نقطہ نظر شیئر کرتے ہیں اور پھر اس کو مزید فعال بنا دیا جاتا ہے۔

Rose schlorship chitral


“تعلیم کے تیزاب میں ڈال اس کی خودی کو؛؛ ہو جائے ملائم تو جدھر چاہے اسے پھیر کے مصداق ہدایت صاحب نے طلبہ کے مسائل حل کرنے اور ان کو صرف اور صرف تعلیم سے وابستہ کرنے کا تہیہ کرکے پورے ملک کے تعلیمی اداروں کا رخ کرتے ہیں اور ان تعلیمی اداروں میں چترالی طلبہ کو داخل کرانے کا بار گراں اپنے نا تواں کندھوں پہ لئے جب ان اداروں کے سربراہاں سے ملاقات کرتے ہیں تودامے درمے قدم سخنے وہ ان کو خوش آمدید کہتے ہیں شروع شروع میں تو مسائل ان کو گھیر لیتے ہیں لیکن ” یقین محکم،عمل پیہم، محبت فاتح عالم “” جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں کا عملی جامہ بنتے ہوئے جہد مسلسل کو اپنی زندگی کا شیوہ بناتے ہیں، ثابت قدمی اور یقین محکم سے لیس آگے کی جانب بڑھتے ہیں اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے سارے پرائیوٹ یونیورسٹیز جن میں داخلہ عام غریب طلبہ کے لئے مشکل ہی نہیں نا ممکن خواب ہوتا ہے وہ شرمندہ تعبیر ہو جاتا ہے اور پاکستان کے ٹاپ رینک کے یونیورسٹیز جن میں قابل ذکر(UMT,CECOS,ABASYN,QURTABA,SUPERIOR,PAC,RIPAH) ہیں ان کے ساتھ MOU,s پہ دستخط کرتے ہیں اور یوں چترالی طلبہ کے لئے ان کے در کھول دئے جاتے ہیں ۔


ہدایت صاحب شروع میں تواکیلے تھے لیکن ‘میں اکیلے ہی چلا تھا جانب منزل مگر : لوگ آتے گئے اور کاروان بنتا گیا کے مصداق آج ایک قافلے کے سالار بنے ہوئے ہیں۔آج پورے پاکستان کے پرائیوٹ تعلیمی ادارے جو چترال جیسے پسماندہ علاقے کے طالب علموں کو خوش آمدید بھی کہ رہے ہیں اور یہ سارا کریڈٹ بھی ہدایت صاحب کے ہی سر جاتا ہے کہ ان کے ساتھ مستقل رابطے میں رہے اور ان سے چترال کے طلبہ کے مسائل بیان کئے اور ان کو اس با ت پہ راضی کر لیا کہ وہ ان طلبہ کو اپنے اداروں میں داخلہ دلوا کر ان کو مزید علم کی روشنی سے مزین کریں ۔یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ہدایت اللّٰہ صاحب کا نام سن کے یہاں کے سارے لوگ با آواز بلند ان کو اپنا مسیحا مانتے ہیں چاہے جن کا تعلق کسی بھی کمیونٹی اور کسی بھی شعبہ ہائے زندگی سے ہو ان کو سپورٹ کرتے ہیں اور ان کی سادگی خلوص، محنت اور لگن اور یہاں کے طلبہ کے مسائل کے حل کیلئے ان کی خدمات اور کاوشوں پر آنکھیں بند کرکے یقین کرتے ہیں اور بھر پور تعاون کرتے ہیں۔

Rose mou sign


ان کے ادارے “ROSE” چترال نے ابھی تک پانچ سو سے زائد طالب علموں کو پاکستان کے مختلف یونیورسٹیز میں داخلے دلوا چکی ہے اور کچھ نادار اور مالی مشکلات سے دوچار طالب علموں کے ہاسٹلز کے فیس تک ادا کر دی جاتی ہے ۔
ہدایت اللّٰہ صاحب نے اپنے اس تنظیم کا مقصد یہاں کے طالب علموں کو علم سے روشناس کرانے پر صرف کیا ہوا ہے اور اس سے مستفید ہونے والے طلبہ سے باقاعدہ تحریری طور پر لکھوا کر لیتے ہیں کہ وہ طالب علم عملی زندگی میں قدم رکھنے کے بعد اپنے جیسے ایک طلب علم کے تعلیم کاخرچہ اپنے ذمہ لے لیتا ہے چونکہ یہ طالب علم قابل اور اچھے کیرئیر کے متحمل ہوتے ہیں جو ان کے لئے چنداں مشکل نہیں ہوتا اور اسی طرح یہ مشن آگے نسل تک منتقل ہو رہی ہے۔


ابھی تک اس ادارے سے مستفید طلبہ جن میں پی ایچ ڈیز ،ایم فل، ایم۔ایس سی، ایم اے،ایم ایڈ، ایم بی اے، بی بی اے ، ایم بی۔بی۔ایس، بی۔ایس سی۔انجینئرنگ اور دیگر شعبوں میں ایک سو اسی ایسے طالب علم ہیں جو علم حاصل کر رہے ہیں اور کچھ ایسے بھی ہیں جو اس سے استفادے کے بعد عملی میدان میں اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں اور اپنے علاقے اور ملک کی خدمت کے علاوہ اس تنظیم کے لئے بھی نیک نامی کا باعث بن رہے ہیں۔


چونکہ یہ ایک غیر سرکاری ادارہ ہے یہ مخیر حضرات کے تعاون جس میں بہت سے اہل علم اور اہل ثروت مردو خواتین اور ادارے شامل ہیں جو اس نیکی کے کام میں ان کے دست بازو بنے ہوئے ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ اس اہم اور نیک مشن میں نادار اور اہل طالب علموں کی مالی مدد کی جائے اور ان کو اس معاشرے کا اہم شہری بنانے کے لئے اور ان کی کیرِیئیر کونسلنگ کے ساتھ ساتھ کردار سازی پہ توجہ دے کر ان کو اعلٰی تعلیم کر زیور سے اراستہ کیا جا سکے اور پاکستان میں بھی غربت کے خاتمے اور تدارک اور پاکستان کو تعلیم کے شعبے میں ان ممالک کے صفوں میں لانے کے لئے ہمبسب کو ہداہت اللّٰہ بن کے کام کرنا پڑے گا اور انشاء اللّٰہ وہ وقت دور نہیں جب ان کا یہ خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے گا۔۔۔۔

Rose schlorship chitral 1
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
53106

داد بیداد ۔ سو شل ٹیکنا لو جی ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

خبروں میں روحا نی جمہوریت کا ذکر آیا تو بہت سے لو گوں نے سوشل ٹیکنا لو جی کا نا م لیا رو حا نی جمہوریت کی تر کیب بھی نئی ہے سوشل ٹیکنا لو جی کا نا م بھی نیا ہے ہمیں جمہوریت سے بھی محبت ہے روحا نیت بھی ہمیں پسند ہے مگر دونوں کو یکجا کر کے ہم نے کبھی نہیں پر کھا با لکل اسی طرح ہم لو گوں کو سوشل ہو نا اچھا لگتا ہے ٹیکنا لو جی سے ہمیں پیار ہے لیکن سو شل ٹیکنا لو جی سے ہم کو ڈر لگتا ہے ہزار بار کوئی کہہ دے آپ نے گھبرا نا نہیں مگر ہم گھبرا جا تے ہیں نا قا بل بر داشت گھبر اہٹ کا شکار ہوتے ہیں ہما رے دوست فاطمی کہتے ہیں مغل اعظم جلا ل الدین اکبر خو ش قسمت تھے.

ان کے دور میں فوٹو شاپ کی ٹیکنا لو جی نہیں تھی مغل با د شاہ شا ہجہان بھی خو ش نصیب تھے ان کے دور میں کوئی پا رلیمنٹ کوئی اسمبلی نہیں تھی پلا ننگ کمیشن نہیں تھا اگر یہ معا ملا ت اُس وقت ہو تے تو وہ نہ تا ج محل بنا تے نہ شا ہجہان آبادکو اباد کرتے نہ خو بصورت مسا جد اور با غات تعمیر کر تے قدم قدم پر قواعد و ضوابط اُس کا دا من پکڑ لیتے اُس کا ہا تھ تھا م لیتے اور اس کو کا م سے روک دیتے اگر مغل اعظم کے دور میں سوشل میڈیا ہوتا سو شل ٹیکنا لو جی ہو تی فو ٹو شاپ کے چونچلے ہوتے تو جلا ل الدین اکبر کے ہاتھ پاوں بند ھے ہوئے ہوتے وہ نہ مر ہٹوں کے خلا ف فوج کشی کر نے کی ہمت کرتا نہ کا بل سے بنگا ل تک اپنی سلطنت کے طول و عرض میں جا سو سی کا جا ل بچھا کر مخا لفوں کو تہ تیغ کر نے کی آزادی کا فائد ہ اٹھا تا .

وہ تو قدم قدم پر آگے پیچھے، دائیں با ئیں، اوپر نیچے دیکھتا رہ جا تا کہ کہیں خفیہ کیمرہ میری حر کتوں کی عکس بندی تو نہیں کر رہا وہ انا رکلی کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی جرء ت نہ کر تا کہ کہیں انسا نی حقوق والے مجھے دھر نہ لیں فا طمی باد شاہ خصلت آدمی ہیں ان کی سوچ بھی باد شاہوں والی ہے ہم خا ک بسر خا ک نشین باد شا ہوں کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے ہماری سوچ بہت بلند پرواز کرے تو بیربل، ملا دو پیا زہ، راجہ ٹوڈر مل اور خا نخانا ن تک جا تی ہے آگے اس کے پر جل جا تے ہیں ہم کس قدر ظا لم سما ج میں رہتے ہیں جہاں ہر وقت، ہر آن ہماری حر کتوں کو تصویروں میں محفوظ کر کے دوستوں میں تقسیم کیا جا تا ہے

اور چشم زدن میں لا کھوں صارفین ہماری تصویروں کو دیکھتے ہیں اگر ملا دو پیازہ کے زما نے میں فیس بک اور ٹو ئیٹر کی سہو لت ہوتی تو اُسے بیر بل کو لا جواب کر نے کے لئے باد شاہ کے دربار میں حا ضری کی ضرورت نہ پڑتی وہ فیس بک پر پوسٹ لگا تا اور بیربل کمنٹ میں اس کا جواب دے دیتا راجہ ٹو ڈرمَل پٹوارخا نے سے ٹویٹ کر تا کہ آج زمینوں کی پیما ئش مکمل ہو ئی ادھر خا نخا نا ن ٹویٹ کے جواب میں ٹو یٹر پر ہی حکم دیتا کہ لگا ن وصول کر کے مغل اعظم کے خزا نے میں جمع کیا جا ئے جلا ل الدین اکبر بھی در بار لگا نے کی زحمت نہ فر ماتے اپنی خواب گاہ سے ٹویٹ کر تے کہ مر ہٹوں کو کھلی چھوٹ دی جا ئے تا کہ دنیا میں ہماری ساکھ بہتر ہو ہم پر من ما نی کا داغ دھبہ نہ لگ جا ئے انسا نی حقوق والے ہمیں طعنے اور کو سنے دیتے نہ پھیریں.

چین، روس اور ایران نے سوشل ٹیکنا لو جی کو اپنی سرحدوں پر روک رکھا ہے ہمارے ہاں کے بڑے بڑے فیس بکی مشا ہیر جب ان میں سے کسی ملک کے دورے پر جا تے ہیں تو مدا حوں کو اطلا ع دیتے ہیں کہ دو مہینوں کے لئے چین، روس یا ایران جا رہا ہوں فیس بک پر وہاں پا بندی ہے میں سو شل میڈیا کے آسمان پر جگ مگ، جگ مگ نہیں کر سکوں گا دوست میرا انتظار نہ کریں شکر کا مقا م ہے کہ حکومت ہمارے ہاں بھی چین، روس اور ایران کے طرز کی پا بند یاں لگا رہی ہے اگر پا بندیاں لگ گئیں تو ہمارا شما ر بھی ان خوش نصیب لو گوں میں ہو گا جو مغل اعظم کے دو رمیں فیس بک اور ٹو ئیٹر کے بغیر خوش و خر م زند گی گزار رہے تھے ”دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو“

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
53099

پیٹرولیم مصنوعات کی قیمیتوں میں آئے روز گرانی – قادر خان یوسف زئی

مہنگائی کا ایک ایسا عفریت ملک پر حاوی ہوتا جارہا ہے جس کے سدباب کی ایسی کوئی سنجیدہ کوشش نظر نہیں آرہی، جس کے سبب عوام کو ریلیف مل سکے۔ مہنگائی کی سب سے بڑی وجہ پیٹرولم مصنوعات میں ہر پندرہ دن بعد اضافہ ہے۔ ایک عام مزدور کی اجرت اس کے گھر کا چولہا جلانے کے لئے بھی ناکافی ہے، اس وقت 102ڈالر ماہانہ اجرت ہے، اس محدود آمدنی کی وجہ سے پسماندہ طبقہ اشیاء ضروریہ کی گرانی کے سبب مسلسل معاشی عذاب کاسامنا کررہا ہے۔ حکومت کی جانب سے مہنگائی، ذخیرہ اندوزی اور گرانی میں ملوث مافیاز کے خلاف آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا اعلان تو کیا جاتا ہے لیکن اس کے ثمرات سے عوام ابھی تک محروم ہیں، کیونکہ جہاں عالمی کسازد بازاری کی وجہ سے پیٹرولیم مصنوعات مہنگی ہوتی جا رہی ہیں تو روپے کی قدر گرنے کے باعث بھی بھاری بوجھ تلے عوام نیچے آچکے ہیں،

اس بوجھ کی کمی کے لئے حکومت کی جانب سے بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پینشن میں کسی قدر اضافہ تو کردیا جاتا ہے لیکن وہ بھی آٹے میں نمک کے برابر نہیں ہوتا، لیکن دوسری جانب نجی سیکٹر میں ملازمین کی تنخواہ میں کسی قسم کا کوئی اضافہ دیکھنے میں نہیں آیا، غیر محفوظ ملازمت کی وجہ سے متوسط طبقہ بھی غیر یقینی صورت حال کا شکار رہنے کی وجہ سے، نفسیاتی الجھنوں اور گھریلو مسائل میں الجھ گیا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے درمیان چپقلش کی وجہ سے عوا م کے دیرینہ مسائل بڑھتے ہی جارہے ہیں، ان کی توجہ بدقسمتی سے سیاسی اکھاڑ پچھاڑ اور پوائنٹ اسکورنگ تک محدود ہے، ان کے پاس موجودہ حالات کے لئے کوئی ایسی مربوط منصوبہ بندی نہیں جس کی وجہ سے عوام سکون کا سانس لے سکیں۔


پاکستان میں غریب اور متوسط طبقے پر پیٹرولیم مصنوعات کے بڑھنے سے براہ راست اثرات مرتب ہوتے ہیں  اس وقت پیٹرول کی قیمت123روپے 80پیسے اور ڈالر 170کی اڑان بھر رہا ہے، پیٹرولیم مصنوعات کی وجہ سے ٹرانسپورٹ کے ساتھ ساتھ ذرائع نقل وحرکت اور پیداواری لاگت میں اضافہ ہوجاتا ہے، ملازمت پیشہ افراد کے لئے پیٹرولم مصنوعات کے اضافے سے سبزی، گوشت، دالیں، آٹا،چینی، تیل، گھی وغیرہ سب مہنگا ہوجاتا ہے چونکہ اس کی بنیادی وجہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے پیداواری لاگت کا بڑھنا قرار دیا جاتاہے۔ پیٹرولیم مصنوعات میں اضافے کو روکنے کے لئے متبادل ذرائع بھی دستیاب نہیں، عوام اشیا ء ضروریہ میں خوردنوش کا استعمال کرتے ہیں کیونکہ یہ انسانی زندگی کی ناگزیز ضرورت ہے،دو وقت کے بجائے ایک وقت کا کھانا بھی پیٹ بھر نہیں کھا سکتے،

دودھ کی قیمتوں میں اضافے کے باعث غریب طبقہ تو تصور بھی نہیں کرسکتا کہ اپنے بچوں کی صحت کا خیال رکھنے کے لئے غذائی ضرورت کو پوری کرسکے، بچوں کی تعلیم کے لئے سرکاری اسکولوں کا مناسب معیار نہ ہونے کے باعث متوسط طبقہ اپنے بچوں کو کسی اچھے اسکول میں بھی داخل کراتا ہے تو اس کی فیس آسمان سے چھو رہی ہوتی ہیں، اگر بچوں کی تعداد تین سے زیادہ ہوں تو ان کے پڑھائی کے اخراجات، ٹیوشن اور ٹرانسپورٹ کی فیس ادا کرنے کے لئے گھر کے کفیل کو اپنی خواہشات کا گلہ گھوٹنا پڑتا ہے، کم تنخواہ میں گذارا کرنے کے لئے خوشحال زندگی کا تصور مقفود ہوتا جارہا ہے، نجی اداروں میں کام کرنے والے ملازمین دوہرے مسائل کا شکار ہوتے ہیں، انہیں بغیر اوور ٹائم  ملے، طے شدہ وقت سے زیادہ مشقت کرنا پڑتی ہے، ان پر ایسی ذمے داریوں کا بوجھ بھی لاد دیا جاتا ہے، جو ان کی نہیں ہوتی، لیکن ملازمت بچانے یا اچھی ملازمت کی تلاش کرنے تک انہیں گھٹے ہوئے ماحول میں رہنے کی عادت اختیار کرنی پڑتی ہے جس کے باعث ان کا مزاج و اطوار میں نفسیاتی الجھنیں پیدا ہونا شروع ہوجاتی ہیں اور تلخ مزاجی اور چڑ چڑے پن کی وجہ سے ان کی استعداد اور تخلیقی صلاحیتوں کو زنگ لگنا شروع ہوجاتا ہے۔ ایسے شخص کو معاشرے میں بوکھلاہٹ کا شکارسمجھا جانے لگتا ہے، جس سے ڈیپریشن اور سماجی الجھنیں بڑھتی چلی جاتی ہیں۔


حکومت کی جانب سے مہنگائی کے جواز کے لئے حیرت انگیز بیانات آنے سے عوام کے زخموں پر مزید نمک پاشی ہوتی ہے، وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری حکومتی اقدام کا دفاع کرتے ہوئے دعویٰ  کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ”پاکستان میں تیل کی قیمتیں اب بھی خطے میں سب سے کم ہیں، ان کے مطابق کہ جب آپ نے تیل باہر سے خریدنا ہے تو قیمتیں بڑھیں گی، اصل کامیابی ہے کہ پچھتر فیصد آبادی کی آمدنی میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے“۔ عوام کو یہ فلسفہ کبھی سمجھ میں نہیں آیا کہ اگر موازنہ کسی بھی دوسرے ملک سے کرنا مقصود ہے تو پھر ان کی اشیا ء ضروریہ کا تقابل بھی سامنے رکھا جائے، کہ آیا اُن ممالک میں اگر پیٹرولم مصنوعات کی قیمتیں پاکستان سے کم ہیں تو کیا آٹا،چینی، گھی، تیل، دالیں، گوشت وغیرہ کی قیمت بھی کم ہیں، یہ افسوس ناک امر ہے کہ اس کا تقابل نہیں کیا جاتا ہے کہ اُن ممالک میں عوام کو زندگی کی بنیادی ضرورت کی اشیا کی قیمتیں کئی گنا کم ہیں، ذخیرہ اندوزی اور لوٹ کھسوٹ کے لئے مافیاز کا ایسا کردار بھی نہیں ہے جیسا  اب  دیکھنے میں آتا ہے۔ حکومت کو توازن برقرار رکھنے اور مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لئے ان مافیاز کو لگام دینے کی زیادہ ضرورت ہے جو سیاسی چھتری کا استعمال کرکے اربوں روپے کی کرپشن کرتے ہیں اور عوام کی معاشی کمر کو توڑ نے میں کوئی کسر نہیں رکھتے، بظاہر لاکھوں روپے گاڑی رکھنے والوں کے لئے چند روپوں کا اضافہ کوئی معنی نہیں رکھتا لیکن غریب اور متوسط طبقہ، قیمتوں میں معمولی اضافے سے ہر اُس اشیا کی قوت خرید سے دور ہوتا چلا جاتا ہے جو اس کے اور اس کے اہل خانہ کے لئے اہمیت کا حامل ہے، پھلوں اور غذائیت کی کمی کو پورا کرنے کے اشیاء کی قیمتوں میں اضافے سے نئی نسل میں قوت مدافعت میں کمی اور جسمانی و ذہنی کمزوری کے اثرات نمایاں ہوتے نظر آرہے ہیں، ناتوانی کے باعث ایک ایسی نسل کا دور سامنے آرہا ہے جنہیں غذائی کمی کا سامنا ہوگا اور اشرافیہ انہیں اپنا معاشی غلام بناتے چلے جائیں گے۔


بدترین صورت حال یہ بھی ہے کہ ملک کو خطے میں تبدیل ہوتی صورت حال کے باعث دہشت گردی کا بھی سامنا ہے جس کی وجہ سے بیرونی سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے، سلگتے ہوئے عوام کو مہنگائی کے ظالمانہ سسٹم نے ایک ایسے حصار میں جکڑ لیا ہے کہ عوامی حلقے بے یقینی میں خیال آرائی کرتے ہیں کہ کیا نادیدہ اور مافیاز حکومت پر حاوی تو نہیں، ملکی ڈیمو گرافک تبدیلیوں، اشرافیہ کے شاندار محلات نما عمارات پر مبنی نئی آبادیاں اور ان مکانوں کی بیش بہا قیمتوں کے آرائش کے تناظر میں سمجھا جاسکتا ہے کہ تین فیصد طبقہ 97فیصد عوام پر مسلط ہے۔ مہنگائی ملک کا ایک ایسا آتش کدہ ہے جس میں عوام جھلستے جا رہے ہیں، عوام کو مختلف النوع مذہبی، فرقہ وارنہ، لسانی اور قوم پرستی کا ایک ایسا میٹھا زہر دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے دیرینہ مسائل کے حل کے لئے بھی آواز اٹھانے کے قابل نہیں رہتے۔انسانی زندگی کو بچانے کے لئے جس طرح دہشت گردوں کی تخریب کاری کا سدباب جتنا ضروری ہے، وہیں عوام دیکھنا چاہتے ہیں کہ وہ تاریخ ساز دورانیہ کب آئے گا جب ان کے مسائل کے حوالے سے درد مندی کا مشاہدہ کرتے ہوئے مثبت اقدامات کئے جائیں گے، ضرورت اس امر کی ہے کہ غریب اور متوسط طبقے کے تالیف قلوب اور بحالی کے اقدامات پر توجہ دی جائے، ارباب اختیار مہنگائی کے بڑھتے سونامی کے متبادل اقدامات کی حکمت عملی اپنائے اور سار بوجھ پہلے سے کچلے ہوئے طبقے پر ڈالنے سے گریز کرے۔ مافیاز کے خلاف ایک ایسا آپریشن کیاجائے جو ضرورت بلا امیتاز ایک ایسا نتیجہ خیز اور بے رحم ہو کہ وہ نشانہ عبرت بنیں اور یہ کاروائی قوم کو نظر آئے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
53091

پس و پیش … محتاط سفارت… اے۔ایم۔خان


جنوری 2018ء کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا وہ ٹوئٹ  اُس وقت ایک سیاسی ہلچل مچا دی جسمیں اُس نے پاکستان کے کردار کے حوالے سے سوال اُٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ گزشتہ پندرہ سال سے امریکہ نے پاکستان کو 33بلین سے زیادہ ڈالر مہیا کی ہے لیکن اس نے ہمیں دھوکہ اور جھوٹ کے علاوہ کچھ نہیں دیا ، یہ سوچتے ہوئے کہ ہمارے رہنما بیوقوف ہیں۔

 گلوبل پالٹکس کے مطابق ریاستی اہلکار  قومی مفادات کے تحفظ پر مامور ہوتے ہیں۔ حکومت کی پالیسی اور سفارت کاری کا حاصل اس کی بین الاقوامی کردار اور حصول  ہوتی ہیں۔ حکومت آتے اور جاتے ہیں اور حالات کے مطابق حکومتی پالیسی وقت کے ساتھ تبدیل ہوتی رہتی ہیں جس طرح ڈونلڈ ٹرمپ کا امریکی صدر بننے کے بعد افعانستان سے انخلاء کے حوالے سے حتمی فیصلہ لینا اور ساتھ پاکستان اور اس کے کردار کے حوالے سے پاکستانی حکومت کو ہمیشہ اڑے وقت اور حالات سے گزارنا اس کی حکومتی پالیسی رہی ۔  

اس سال اگست کے مہینے افعانستان میں طالبان کا حکومت  میں  آنے کے بعد دوبارہ امریکی کانگریس میں  پاکستان کا کردار دوبارہ زیربحث آگئی ہے۔ طالبان کا حکومت میں آنے سے پہلے اور آنے کے بعد جسمیں کئی ایک ممالک کے حوالے سے سوالات اُٹھا ئے جاتے ہیں جسمیں خصوصاً پاکستان کے کردار کے حوالے سے حکومت سے وضاحت طلب کی گئی ہے۔ اس سے پہلے امریکی سیکرٹری خارجہ ایوان نمائندگان میں افعانستان میں پاکستان کے مختلف مفادات ، جسمیں بعض امریکی مفادات کے تضاد میں ہیں،  کا حوالہ دیتے ہوئے خارجہ امور کے کمیٹی  سے ایک ممبر کو جواب دیتے ہو ئے یہ کہا کہ واشنگٹن  پاکستان کے ساتھ تعلقات پر غور کررہا ہے اور اسے اب کیا کردار افعانستان میں ادا کرنا ہوگا؟

بدھ کے روز امریکی کانگریس کے ایوان بالا میں ایک بل  “افعانستان کاونٹر ٹریریزم ، اورسائٹ ، اینڈ  اکاونٹبیلٹی ایکٹ” ان خدشات میں مزید اضافہ کر دی جسمیں نہ صرف بائیڈن حکومت کا افعانستان سے جلد بازی میں واپسی کے فیصلے اور تباہی پر سینٹ میں ایک  وسیع رپورٹ کا مطالبہ ہوا ہےبلکہ گزشتہ 20 سال سے کس نے طالبان کی مدد اُس وقت کی جب وہ افعانستان پر قابض ہوئے اور پنجشیر کی وادی کو اپنے گھیرے میں لے آئے؟   اس کے علاوہ  یہ بھی اس بل کے مطابق وضاحت طلب ہے کہ کونسے ریاستی اور غیر ریاستی عناصر  ،جسمیں پاکستان بھی شامل ہے ،  سن 2001سے 2020ء تک طالبان کی مدد کیں؟

اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ جو حالات افعانستان میں رونما ہوجاتے ہیں اُن کا خمیازہ پاکستان کو دوسرے ہمسایہ ممالک سے زیادہ سیاسی، معاشی اور معاشرتی سطح پر بگھتنا پڑتا  ہے۔ افعانستان میں طالبان حکومت کو  اگر مدد مل نہیں جاتا تو بحران ناگزیر خیال کیا جاتا ہے جو ورلڈ ہیلتھ ارگنائزیشن کا صحت کا انتظام درہم برہم ہونے،  اور اقوام متحدہ کا انسانی اور معاشی بحران کا عندیہ پہلے سے دے چُکا ہے۔

 پاکستان کی طرف سے طالبان کی کامیابی اور حکومت بنانے پر  اسے تسلیم کرنے کے حوالے سے سیاسی اور سفارتی بیانیہ گلےپڑ چُکی ہے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک اس بیانیے کو دوسرے تناظر میں دیکھ رہے ہیں ۔  گزشتہ 20  سال تک افعانستان پر قابض رہ کر افعانستان کو اس طرح تباہی کے دہانے پر پہنچانے ، بدعنوانی اور اپنی سفارتی ناکامی پر غور کرنے کے بجائے امریکی حکومت دوسرے ممالک اور عناصر پر سارا ملبہ ڈالنے کی کوشش کررہی ہے۔

پاکستان میں موجودہ حکومت کیلئے نہ صرف  معاشی حالات کے تناظر میں مشکلات درپیش ہیں جسمیں آئی۔ایم۔ ایف اور ایف۔اے۔ٹی۔ایف کے شرائط کو پورا کرنا ہے بلکہ افراط زر پر قابو کرنے کے ساتھ عوام کو ریلیف کی ضرورت اہمیت لے چُکی ہے۔ سفارت کاری ایک ہنر ہے ۔سفارتی لحاظ سے پاکستان کیلئے سفارتی اور بین الاقوامی سطح پر جو امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک میں پاکستان کے حوالے سے حالات بننے جارہے ہیں اس پر محتاط سفارتی کردار اہمیت کا حامل ہے تاکہ جو حالات بنتے دیکھائی دے رہے ہیں جس سے ملک میں معاشی مشکلات زیادہ ہونے ،  سفارتی اور بین الاقوامی سطح پر  تعلقات ناگفتہ بہ ہوسکتے ہیں۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
53055

عالمی موسمیاتی تبدیلی اور کرونا وبا کی روک تھام پر اقوام عالم کے ناکافی اقدامات-قادر خان یوسف زئی

عالمی موسمی تغیرات میں دنیا بھر میں درجہ حرارت کی کمی کے لئے سنجیدگی سے کوششیں نہ ہونا عالمی برداری کے لئے ایک چیلنج بن چکا۔ دنیا کو اس وقت مختلف امور میں عالمی سطح پر چیلنجز کا سامنا ہے، جس میں دو اہم معاملات کرہ ئارض کے لئے شدید خطرات میں سر فہرست ہیں، ایک عالمی وبا کوویڈ 19 اور بھارتی کرونا، جو مختلف اشکال  اور ہیت بدل کر ویکسین مہم کے آگے دیوار بنتا جارہا ہے، تیزی کے ساتھ اپنی نئی اشکال کو تبدیل کرتے کرونا وائرس، جس طرح بھارتی کرونا نے بھی لاکھوں انسانوں کو نقصان پہنچا یا وہ کوویڈ 19کے بعد سب سے خطرناک حیاتیاتی وار ثابت ہورہا ہے، عوام میں آگاہی مہم کا اثر پذیر نہ ہونا ایک الگ مسئلہ بنا ہوا ہے جس کی وجہ سے عالمی سطح پر ویکسین مہم کو مشکلات کاسامنا ہے، بالخصوص عالمی مساوی اصولوں کے منافی ویکسین کی تقسیم نے دنیا میں طبقاتی تفریق کو بڑھا دیا ہے، غریب اور ترقی پذیر ممالک کے لئے ویکسین کا حصوؒل ان کے معاشی توازن کی راہ میں حائل ہے، اور مایوس کن کیفیت یہ بھی سامنے آرہی ہے کہ عالمی سطح پر جب اقوام متحدہ کے ادارے یہ کہیں کہ کرونا ابھی ختم نہیں ہوسکتا،اسے ختم میں مزید کئی برس لگیں گے، ہوسکتا ہے کہ ایک دہائی یا کم ازکم پانچ برس، وہ بھی اُس صورت میں اگر امیر ممالک امتیازی سلوک کے بغیر دنیا کی مدد کریں۔ افریقی جزیرے مڈغاسکر کے صدر اینڈری راجویلینا  کا کہنا ہیکہ، ” ایک ایسے وقت میں جب دنیا کوویڈ 19 کی وبا کے خلاف لڑ رہی ہے، آب و ہوا کا بحران بھی پوری طاقت سے حملہ آور ہو گیا ہے۔” یہ پیغام بھی دنیا میں مایوسی پھیلا رہا ہے کہ انسان کو کرونا کے ساتھ جینے کی عادت اپنانا ہوگی، کرونا کی چوتھی اور پانچویں لہر کی آمد نے نئے خطرات کو بھی ابھارا ہے کیونکہ اس دوران کرونا اپنی ہیت تبدیل کرچکا  اور ایک اندازہ لگایا جارہا ہے کہ موجودہ ویکسین طاقت ور کرونا کا مقابلہ کرنے کے لئے کافی نہ ہو، اس لئے کمزور صحت کا حامل و بوڑھے افراد کو بوسٹر ویکسین لگانے کی منصوبہ بندی بھی سامنے آچکی ہے، جس کا واضح مطلب یہی لیا جارہا ہے کہ موجودہ ویکسین بھی کرونا کو کنٹرول کرنے کے لئے کافی نہیں، نیز دنیا میں جنگ زدہ علاقوں میں عالمی اداروں کی جانب سے ویکسین کی عدم فراہمی اور صحت عامہ کی خراب ترین صورت حال میں غیر موثر کردار بہت بڑا چیلنج ہے کہ کس طر ح اس امر کو یقینی بنایا جاسکے کہ مہاجرت کی وجہ سے آنے والے آئی ڈی پیز اور مہاجرین سے کرونا کی نئی طاقت ور و خطرناک شکل دنیا کو خطرے سے دوچار نہیں کرے گی۔


کرونا پرفتح پانے کے لئے کمزور قوت مدافعت نظام کو طاقت ور بنانے کا سرا ماحولیات سے جڑا ہے، آب وہوا میں تبدیلی اور ماحول کو صحت مند بنانے کے لئے عالمی بنیادوں پر بہت کام کرنے کی ضرورت ہے، صحت مند ماحول ہی انسانوں میں کسی بھی بیماری سے لڑنے کی قوت فراہم کرتا ہے، لیکن دیکھنے میں یہی آرہا ہے کہ صنعتی کثافت کی وجہ سے عالمی درجہ حرارت  و موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف عالمی کوششیں جمود کا شکار ہیں ، امریکہ نے پیرس معاہدے کو غیر فعال کرنے کے بعد دوبارہ شمولیت تو کی لیکن کرونا کی وبا سے باہر نکلنے کے لئے انہیں دیگر ترجیحات پر توجہ کم دینا پڑی۔ دو ماہ بعد اسکاٹ لینڈ کے شہر گلاسکو میں 2015 کے پیرس معاہدے پر پیش رفت کے حوالے سے ایک بڑی بیٹھک ہونے کی توقع کی جا رہی ہے، پیرس ماحولیات کا عالمی معاہدہ اپنی روح کے مطابق روایتی طور پر آگے نہیں بڑھ پایا ہے، ابھی تک فنڈز کے تعین اور متاثرہ ممالک کو ماحولیاتی کمی کے لئے تعاون کا باقاعدہ آغاز بھی دیکھنے میں نہیں آرہا، چھ برس گذرنے کے باوجود عالمی قوتیں اور دنیا ماحولیاتی جنگ کا سامنا اُس طرح نہیں کررہی، جو وقت کا اہم تقاضا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک عالمی درجہ حرارت میں کمی کے لئے اپنی صنعتی پیدوار میں کاربن کے اخراج کو روکنے اور مضر اثرات کی کمی کے لئے گرین ہاؤسز پر کماحقہ منصوبہ بندی کے مطابق عمل پیرا نہیں، آب وہوا کی تبدیلی کی وجہ سے جنگلات میں آگ لگنا اور پانی کے ذخیرے کی کمی سمیت زمینی اثاثہ گلیشئر کو پگھلنے سے روکنے کے لئے اُن ممالک کے ساتھ عملی طور پر معاون کا کردار ادا نہیں کررہے، جس باعث پوری دنیا کو ماحولیات و آب وہوا میں تبدیلی کا دوسرا بڑا چیلنج کا سامنا ہے۔ برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے  اپنی ایک ٹوئٹر پوسٹ میں کہا کہ امیر ممالک نے ترقی سے فائدہ اٹھایا ہے جس کے نتیجے میں آلودگی پیدا ہوئی ہے، اور اب یہ ان کا فرض ہے کہ وہ ترقی پذیر ممالک کو اپنی معیشت کو ماحول دوست اور پائیدار طریقے سے آگے بڑھانے میں مدد دیں۔


کرونا یا صحت عامہ کے کوئی بھی امراض ہوں ایک اچھاصحت مند ماحول ہی طاقت ور انسانوں میں قوت مدافعت کو بڑھاتا ہے۔ دنیا کے دیگر ممالک کے طرح پاکستان کو بھی آب وہوا کی تبدیلی باعث دیرینہ مسائل کا سامنا ہے، اس کی بنیادہ وجوہ میں جنگلات کا نہ ہونا اور جو جنگلات تھے، انہیں ٹمبر مافیا کی جانب سے کاٹ دینے سے موسمیاتی تبدیلی کے بڑے مضر اثرات سے گزرنا پڑ رہا ہے۔پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے، 24 فیصد سے زائد آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کررہے ہیں، ماحولیاتی حوالے سے پاکستان کو دنیا کے بدترین ممالک میں شمار کیا جاتا ہے۔ تیزی سے بڑھتی آبادی اور بے ہنگم و منصوبہ بندی کے بغیر پھیلنے والی آبادی کسی بھی حکمت عملی و لائحہ عمل کو تہس نہس کردیتی ہے، مون سون، گلیشئر کے تیزی سے پگھلنے اور موسم کی تبدیلی نے قدرتی ماحول کو تاراج کرکے رکھ دیا ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت نے صوبہ خیبر پختونخوا میں 2014 کو بلین ٹری منصوبے کی شروعات کیں، جسے عالمی سطح پر سراہا گیا۔ اس منصوبے کی ابتدائی لاگت 169ملین ڈالر رہی اور درختوں کی نرسری کو پودوں لگانے کے عمل میں ہزاروں لوگوں کو روزگار بھی ملا، مقامی افراد کی آمدن میں قدرے اضافہ ہوا، اسے گرین نوکری کے نام سے تشبہ دی گئی۔ ورلڈ اکنامک فورم نے اپنے مضمون میں یہ بھی لکھا”کہ خیبر پختونخوا کی حکومت نے عالمی ماحولیاتی کانفرنس یا بون چیلنج کے لیے لگ بھگ ساڑھے چار لاکھ ایکٹر زمین کو درختوں کی کاشت کے لیے مختص کیا۔

یہ حکومت 2020 تک 150 ملین ہیکٹر رقبے کوو دوبارہ درختوں کی کاشت کے لیے مناسب بنائے گی اور سن 2030 تک 350 ملین ہیکٹر کو درختوں کی کاشت کے قابل بنایا جائے گا“۔ لیکن یہ فطری امر ہے کہ اہم بڑے اور طویل المدت منصوبوں کو تعریف کے ساتھ تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور کسی بھی بڑے پراجیکٹ کے ابتدائی منصوبے میں تجربہ نہ ہونے کے باعث بھی کئی کمزوریوں کا سامنے آنا، خارج از امکان نہیں، اسی طرح بلین ٹری منصوبے کو تنقید کا سامنا بھیہوا اور سرکاری سطح پر  اس پراجیکٹ میں مالی بدعنوانی سے متعلق تحقیقات کا آغازہوا۔ تاہم ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ پاکستان کے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ ماحولیاتی، اقتصادی اور سماجی لحاظ سے ایک کامیاب منصوبہ ہے۔ماہرین نے حکومت کے10 ارب پودے لگانے کے منصوبے کو تکنیکی بنیادوں پر جانچا اور کئی اہم امور کی نشان دہی کرتے ہوئے حکومت کی توجہ اس جانب بھی مبذول کرائی ہے کہ جنگلات کے لئے ایک مخصوص ماحول کی ضرورت ہوتی ہے، ایک خاص ماحول کی عدم موجودگی میں پودے اُس طرح بڑھ نہیں پاتے جس کے اندازے لگائے جاتے ہیں، درخت بنانے کے لئے پودے لگانا ضروری ہے لیکن ان کی افزائش کے لئے وہ ماحول اہمیت رکھتا ہے،جس طرح جڑی بوٹیاں، گھاس پھوس وغیرہ پھل پھول سکیں۔ ماہرین نے منصوبے کا جائزتی عمل میں اظہار کیا ہے کہ منصوبے سے متعلقہ ذمے داران نے اُن علاقوں میں بھی پودے لگائے جو پہلے ہی پانی کی کمی کا شکار ہیں، آبی ذخائر کی کمی کے باعث ان کا مستقبل میں تناور درخت بننا ممکن نہیں، پاکستان کے سابقہ انسپیکٹر جنرل آف فاریسٹریشن سید محمود ناصر بھی اس بات سے متفق ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سب سے پہلے امپیریکل مطالعے کی ضرورت ہے کہ کہاں پانی موجود ہے اور کہاں نہیں۔ اس وقت پودوں کے لیے زیرزمین پانی نکالنا، پہلے سے دباؤ کے شکار آبی ذخائر پر اضافی بوجھ ہو گا۔ حکومت نے دس ارب پودے لگانے کے لئے 125ارب روپے کا تخمینہ لگایا ہے، لیکن ماہرین کے مطابق حکومت کئی اہم اخراجات کو نظر انداز کردیا ہے جس کی وجہ سے خدشہ ہے حکومت جو اعداد و شمار حاصل کرنا چاہتی ہے، اس کے اہداف پورے نہ ہوسکیں اور طویل المدت منصوبے میں بھاری رقوم، جو کہ عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے استعمال ہورہی ہے بڑے نقصان کا باعث نہ بن جائیں۔ ڈاکٹر حسن عباس کے مطابق خیبر پختونخوا کے صحرائی علاقے میں لگائے جانے والے ایک پودے کے لیے مجموعی طور پر پندرہ روپے کے پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ”اب آپ خود اربوں درختوں کی اخراجات کا تخمینہ لگائیں۔ یہ پیسہ دریاؤں کے کناروں کی صفائی پر خرچ کیا جانا چاہیے تھا تاکہ ان کا بہتر بہاؤ ممکن بنایا جائے۔ پاکستان کے سابقہ انسپیکٹر جنرل آف فاریسٹریشن محمود ناصر کہتے ہیں کہ قدرتی ماحول کا خیال رکھے بغیر اگائے جانے والے درخت نہایت مہنگے اور ماحولیاتی اعتبار سے تباہ کن اثرات کے حامل ہو سکتے ہیں، ”کیا کسی نے ایمیزون جنگل میں کبھی درخت لگایا؟ کیا ملک کے شمالی علاقوں میں حکومت نے درخت لگائے؟ قدرت کا درخت لگانے کا اپنا نظام ہے۔ آپ کو درختوں کی دیکھ بھال کی ضرورت نہیں ہوتی۔“
بلین ٹری منصوبے لگانے میں کئی مسائل کا بھی جائزہ لیا گیا، پودوں کی حفاظت کے لئے موثر نظام موجود نہیں اسی طرح جنگلات کے مختص کئے جانے والے علاقوں میں چراگائیں نہیں، کیونکہ جانور گھاس او ر جڑی بوٹیاں کھا کر جنگلات کو آگ سے محفوظ رکھنے کا کام کرتے ہیں تو دوسری جانب درخت اسی ماحول میں تیزی سے بڑھتے ہیں جنہیں قدرتی ماحول فراہم کیا گیا ہو، پراجیکٹ والے علاقوں میں چرنے والے جانوروں پر پابندی عائد ہے، جس کا مطلب ماہرین کے نزدیک مستقبل میں جنگلات میں لگنے والی آگ کو نہ روکنے کی حکمت عملی قرار دی جا رہی ہے جس کے مستقبل میں بڑے نقصانات ہوسکتے ہیں۔تمام تر تنقیدی جائزوں کا مقصد حکومت کی مستقبل کی پالیسی کو ناکام ظاہر کرنا نہیں، جس طرح جرمن یونیورسٹی ہائیڈل برگ سے ڈگری حاصل کرنے والی پروین کے مطابق یہ پہلی پاکستانی حکومت ہے جس نے ماحولیات کے مسئلے کو سنجیدہ لیا ہے اور اس کے تدارک کے لیے قدم اٹھایا ہے۔تو اسی طرح حکومت کے10ارب پودے لگانے کے منصوبوں کے تمام اعداد و شمار و لاگت سمیت اہم امور کو تعمیری تنقید کے طور پر لینا چاہے کیونکہ کوئی تو ایسا قدم اٹھایا گیا، جو کئی دہائیوں بعد مملکت کے ماحول و آب و ہوا کی تبدیلی کے لئے موثر ثابت ہوسکتا ہے، تمام پودے درخت بن نہیں سکتے، لیکن ایسا بھی نہیں کہ پورا پراجیکٹہی  ناکام ہوجائے، یہ اداروں کا کام ہے کہ اگر کرپشن ہو رہی ہے تو اس کو روکنے کے لئے حکومت عملی اقدامات کرے، مصنوعی جنگلات اور مستقبل میں سیاحت کے حوالے سے منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ اس سے آنے والی نسلوں کو کئی مسائل سے نمٹنے میں مدد ملے گی۔


دنیا کو جنگی ہتھیاروں وخانہ جنگیوں کی دوڑ سے نکل کر کرہ ئارض کی حفاظت کے لئے اپنی پالیسوں کو تبدیل کرنے کی ضرورت، ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔کرہ ئارض کی تباہی اور وبا میں اگر امتیازی رویوں کا خاتمہ نہیں کیا گیا تو اس سے دنیا میں طبقاتی خلیج بڑھتی چلی جائے گی اور احساس محرومی و وسائل کی کمی کا شکار ممالک معاشرتی عدم توازن سے دنیا کے پر امن نقشے میں جگہ نہیں پاسکیں گے۔ماحولیات اور کرونا وبا بلاشبہ انسانوں کا اجتماعی مسئلہ ہے جسے کوئی ایک ملک حل نہیں کرسکتا۔ اعداد وشمار کے گنجلگ دائرے سے باہر نکل کر دنیا کے اُن طبقوں کو امداد کی شدید ضرورت ہے، جن کو دَبا کر ترقی کے منازل کرکے چند اجارہ دار ممالک امیر و ترقی یافتہ حکومتیں سمجھی جاتی ہیں۔ عالمی موسمیاتی اور آب وہوا کی تبدیلیوں اور عالمی وبا کے خاتمے کرنا اگر عالمی قوتوں کی ترجیحات ہیں تو اس کے نتائج خطرناک ہوں گے۔ امریکہ مستقبل کی پیش بندی کے تحت نئے بلاک بنانے میں مصروف ہے،جس کا مطمع نظر عوام کو محفوظ بنانے کے لئے دفاعی حکمت عملی کو اختیار کرنا ہے،  امریکی صدر جو بائیڈن  کا کہنا ہے کہ، ”ہم اس بحران کو تھوڑے بہت اقدامات یا درمیانی راستے کے انتخاب سے حل نہیں کر سکتے۔ ہمیں اس پر قابو پانے کے لیے بڑے پیمانے پر اقدامات کی ضرورت ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کو اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے حکومتوں، نجی شعبے، سول سوسائٹی کے قائدین اور مخیر حضرات کے آگے آنے کی ضرورت ہے۔ یہ ایک سنگین بحران ہے۔“

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
53049

ففتھ جنریشن وار اپنے ہی خلاف – تحریر:تقدیرہ خان


عام طو رپر کہا جاتا ہے کہ میڈیا مملکت کا چوتھا ستون ہے۔حقیقت تو یہ ہے کہ دیگر تین ستونوں کی حالت بھی اچھی نہیں اور نہ ہی بنیادیں مضبوط ہیں۔ جس طرح پاکستان کا وجود قدرت کا کرشمہ ہے ویسے ہی یہ مملکت قدرت کے سہارے پر قائم ہے۔ دیگر بہت سے قومی اداروں کی طرح میڈیا مملکت کا نہیں بلکہ مفاداتی عناصر اور تاجرانہ ذہنیت کے حامل سیاستدانوں اور کسی حدتک ملک دشمن عناصر کا آلہ کار ہے۔ پاکستانی اور دیگر دنیا کے میڈیا کا موزانہ کیا جائے تو دنیا کے کسی بھی ملک کا میڈیا اپنے ہی عوام اور ملک کے محافظ اداروں کے خلاف میڈیا وار میں ملوث نہیں اور نہ ہی کوئی حکومت ایسے مادر پدر آزاد اور شتر بے مہار میڈیا کو ایسی حرکات کی اجازت دیتی ہے۔


چندٹی وی اینکروں، صحافیوں اور دانشوروں کی مثالیں آپ کے سامنے ہیں جو ملک کی بربادی اور پاکستانی عوام کی بد حالی کا نظارہ دیکھنے کے منتظر ہیں۔ یہ خواتین اور کچھ حضرات پریشان ہیں کہ افغانستان کے ساتھ امریکہ اور اُس کے اتحادیوں نے ابھی تک پاکستان پرپابندیاں عائد کیوں نہیں کیں اور مودی سمیت پاکستان دشمنوں کا ایجنڈا پاکستان پر لاگو کیوں نہیں ہوا۔
ننگے سراور مردانہ لباس میں ملبوس خاتون اینکر نے جناب رستم شاہ مہمندسے سوال کیا کہ طالبان نے ابھی تک وعدے پورے کیوں نہیں کیے اور ببرک کا رمل کابینہ کی ایک رکن عنائتہ جیسی پینٹ کوٹ اور ٹائی والی خواتین طالبان حکومت کا حصہ کیوں نہیں بن سکیں۔ رستم شاہ مہمند نے جواب دیا کہ چالیس سے زیادہ اسلامی ملکوں میں کوئی عورت کابینہ میں شامل نہیں۔ تم دس اسلامی ملکوں کے نام بتا دو جہاں عورتیں پالیمنٹ اور کابینہ کی ممبر ہیں۔ خاتون اینکر جو تیاری کر کے آئی تھی اس میں عقل و علم کی کوئی بات نہ تھی اور نہ ہی اُسے کسی اسلامی ملک کا پتہ تھا کہ بات آگے چلتی۔ ایسی اینکر خواتین کی مثال بھارتی فلم کے گانے جیسی ہے کہ ”جتنی چابی بھری رام نے اتنا ہی چلے کھلونا“ پتہ نہیں ان کا رام یاراون کون ہے؟۔ ننگے سر، مردانہ لباس، بوائے کٹ اور میک اپ سے عقل میں اضافہ نہیں ہوتا اور نہ ہی کمپیوٹر سے ڈاؤن لوڈ کیے پروگراموں او رجھوٹے پراپیگنڈہ چینلوں سے حاصل کردہ مواد سے کوئی محقق بن جاتا ہے۔ البتہ ایسے بیانات اور پراپیگنڈہ سے بھارت، امریکہ اور اُس کے اتحادیوں کو خوشی ہوتی ہے کہ خود پاکستانی صحافی اور دانشوراپنے ہی ملک پر پابندیوں کے منتظر ہیں۔


اسی خاتون کے سامنے چند روز پہلے ایک پرانے،خرانٹ اور مغرب زدہ ریٹائر ڈ سفیر بیٹھے تھے۔ فرما رہے تھے کہ جب تک طالبان افغان عورتوں کو عالمی معیار کی آزادی نہیں دیتے مغرب، امریکہ اور دیگر دنیا انہیں قبول نہیں کر ے گی۔ کیا بات ہے ایسے سفیروں کی؟ پتہ نہیں ایسے سفیر اس ملک کی کیا خدمت کرتے رہے ہونگے جنہیں اسلامی تہذیب و تمدن کا کچھ پتہ ہی نہیں۔ یوں لگتا تھا جیسے موصوف پاکستان میں کسی ایسے جزیرے کے سفیر رہے ہوں جہاں تہذیب وثقافت کا کوئی نا م و نشان تک نہ تھا۔ ابن بطوطہ کے سفر نامے میں کچھ ایسے جزیروں کا ذکر آتا ہے جہاں عورتیں اور مرد بے لباس ہوتے تھے یا پھر انتہائی مختصر لباس پہنتے تھے۔شاید یہ اسی دور کے سفیر ہوں یا پھر ابن بطوطہ کے قافلے سے جدا ہوئے کوئی بارہویں صدی کے انسان ہوں۔موصوف یہ بھی تو بتا جاتے کہ عورتوں کی آزادی کا عالمی معیار کیا ہے۔ بے حیائی، مختصرلباس، مردانہ لباس یا پھر”میرا جسم میری مرضی“۔ہمارے ہاں ایسے کمرشل اشتہاروں کی بھرمار ہے اور ٹی وی ڈراموں کی بھی کمی نہیں دینی شعار کا مذاق،ذومعنی مقالمے، رشتوں کے تقدس کی پامالی، غریبوں سے نفرت،نوکروں پر ظلم و تشدد، معاشرتی ماحول کا بھگاڑ اور روایات سے بغاوت۔ان آزادیوں کے باوجود ابھی بھی عورتوں کی آزادی کی آوازیں بلند ہیں اور مزید آزادیوں کی مانگ ہے۔


افغانستان 1747؁ء سے قائم ایک ملک ہے اوراس کے اصل باشندے پختون ہیں جو آٹھ سوسال قبل مسیح سے یہاں آباد ہیں۔ اُن کی اپنی تاریخ اور روایات ہیں۔ وہ امریکہ، بھارت اور مغربی ممالک سے صدیوں پہلے ایک تہذیب یافتہ قوم تھے۔ اُن کی اپنی روایات اور کلچر ہے جسے اسلام نے اپنے رنگ میں رنگا تو وہ ہماری طرح کبھی بد رنگ نہیں ہوئے۔ ماضی میں جو کچھ انہوں نے کیا وہ امریکہ، بھارت اورا ہل مغرب کی درندگی اور انسانیت سوز مظالم کا عشر وعشیر بھی نہیں۔ طالبان نے جن لوگوں کو قتل کیا یہ وہی لوگ تھے جو ہزاروں افغانوں کے قاتل اور دشمن کے آلہ کار تھے۔ بد کردار عورتوں کو سرعام سزائیں دیں تاکہ لوگ عبرت حاصل کریں۔ مگر افغانستان کے وار لارڈ ز جنہیں مغر ب اور امریکہ کی حمایت حاصل تھی کی طرح انسانی سروں سے فٹ بال نہیں کھیلا،نہ بچوں سے بد کرداری کے مرتکب ہوئے اور نہ ہی عورتوں کی خرید و فروخت کا کاروبار کیا۔ اس گھناؤنے کاروبار پر موسیٰ خان جلالزئی کی کتاب پڑھی جاسکتی ہے۔ہمارے اینکرشاید نہیں جانتے کہ مغربی حمایت یافتہ جنگجو کمانڈر شہید طالبان کے جسم میں پیٹرول بھر کر آگ لگاتے تھے اور پھر مردے کا ڈانس دیکھ کر خوش ہوتے تھے۔ طالبان نے تو کبھی ایسا نہیں کیا اور نہ ہی کسی کے پاس ایسا ثبوت ہے کہ انہوں نے انسانی جسم کو بُز کشی میں استعمال کیا ہو۔ دہشت لیلیٰ اور قلعہ جنگی میں کیا ہوتا رہا، ہمارے صحافیوں کو پلاٹوں اور پرچیوں سے فراغت ہو تو اس پر بھی دو لفظ بول دیں،ثواب ہو گا۔


امریکیوں نے انسانوں کو پنجروں میں بند کیا اور کتوں کی طرح چلنے پر مجبور کیا۔ گلے میں زنجیریں ڈالیں اور بچوں پرنیپام بم برسائے، کیا یہ سب عالمی معیار کے مطابق ہوتا رہا ہے۔


ایک اور چینل پر بیٹھی دانشورہ اکثر پریشان رہتی ہے کہ ابھی تک پاکستان پر پابندیاں کیوں نہیں لگیں۔ کبھی کبھی اُس کے مہمان بھی اُسی طرح کی ذہنیت کے ہوتے ہیں اور وہ خوشخبری سنا جاتے ہیں کہ جلد یا بدیر اُن کی شیطانی خواہش پوری ہو جائے گی۔یہ سن کر وہ خوش ہو جاتی ہے اور پھر مسکراتی بھی ہے۔ یہی سوال محترمہ نے سابق سفیر اعزاز چوہدری سے کیا تو انہوں نے کہا کہ آپ کو ایسا سوال نہیں کرنا چاہیے چونکہ ایساہو نہیں سکتا۔ مجھے یا آپ کو ایساسوچنا اور اس کا پراپیگنڈہ کرنا زیب نہیں دیتا۔ جو بات ابھی امریکہ اور مغرب کے ذہن میں نہیں یا پھر ایسا ممکن نہیں تو آپ ایسا زہر اُن کے کانوں میں کیوں گھولتی ہیں۔ ایک دانشور اور ایک اعلیٰ تعلیمی ادارے کے اُستاد جو علم سیاسیات کے ماہر جانے جاتے ہیں،ایک چینل پر فرما رہے تھے کہ چین اور روس نے پاکستان کو تھپکی دیکر آگے کر دیا ہے اور خود تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ کتنی گھٹیا او ر سطحی سوچ ہے۔

مقصد صرف روس، چین اور پاکستان کے درمیان افغانستان کے معاملے پر پیدا ہونے والی یکجہتی اور مثبت سوچ میں رخنہ ڈالنا اور بھارت کی نمائندگی کرنا ہے۔ جو پراپیگنڈہ بھارت کر رہا ہے ہمارے دانشور بھی اُسی کے راستے پر چل کر اپنی بری نیت، کم عقلی اور پست ذہنیت کا مظاہر ہ کر رہے ہیں۔
ذرا اپوزیشن جماعتوں کی ذہنیت اور ملک سے محبت کا مظاہرہ بھی دیکھے۔ لیڈراور ان کے حمائت یافتہ صحافی فرماتے ہیں کہ عمران خان طالبان کا ترجمان بن گیا ہے۔ اے عقل کے دشمنو،وہ پاکستان کا ترجمان ہے۔ مریم صفدر اور بلاول زرداری سکرپٹ سے ہٹکربھی کبھی بات کیا کریں۔ افغانستان ہمارا پڑوسی ہے اوروہاں کی عوام کی روٹی روزی کا قدرتی انحصار پاکستان پر ہے۔آخر یہ ملک کب تک بیرونی امدا د پر چلے گا۔ پاکستان کتنا ہی غریب اور بد حال کیوں نہ ہو جائے یہاں کی مٹی اللہ کی رحمت سے نہ صرف پاکستانیو ں بلکہ افغانوں کے رزق کا بھی وسیلہ ہے۔ بلاول کے نانا نے روٹی کپڑا اور مکان کا کھوکھلا نعرہ لگایا اور ساتھ ہی کالا باغ ڈیم کا منصوبہ ترک کر کے عوام دشمنی کا ثبوت دیا۔زرداری اور شریفوں میں ہمت اور وطن سے پیار ہے تو کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا اعلان کریں نہ کہ اوٹ پٹگ فلسفوں پر گزارہ کریں۔


عمران خان کہہ رہا ہے کہ افغانوں کو اپنی زمین پر جینے اوررہنے کا حق دیا جائے ورنہ وہ لوگ ایک بار پھر ہجرت پر مجبور ہو جائینگے اور پاکستان کے وسائل پر بھاری بوجھ پڑ ے گا۔ وہ آنیوالے کل کی بات کر رہا ہے اور تم ڈنگ ٹپاؤ پالیسوں پر بونگیا مار رہے ہو۔ تمہاری دولت تو یورپ اور امریکہ میں ہے۔ تمہیں پاکستان اور اس کے عوام سے کیا غرض؟۔
ہمارے میڈیا کو بھی اپنی چال بدلنے کی ضرورت ہے۔ گزارش ہے کہ میڈیا ہاؤس مالکان خوبصورت مگر عقل سے عاری چہروں کی جگہ محب وطن اور حالات کی نزاکت سمجھتے والوں کو اپنی سکرینوں پر لائیں جو سکرپٹ سے ہٹ کر بولنے کا سلیقہ جانتے ہوں اور اپنے ہی ملک اور عوام پر میڈیا وار مسلط نہ کریں۔

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
53047

مختصرسی جھلک – بیٹیوں کا دن -فریدہ سلطانہ فری

    اس حقیقت سے تو کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ اللہ پاک کی نظرمیں تمام انسان برابر ہیں اور نبی پاک ﷺ نے بھی اللہ پاک کی انہی ارشادات کی روشنی میں زندگی گزار کر تمام انسانوں سے برابری ،حسن سلوک اور محبت کا درس دیا ہے مگر ہم انسانون سے اس حوالے سے بہت کوتاہیاں ہوتی رہتی ہیں جن کی وجہ سے ہماری زندگی اونچ نیچ کا بھی شکار ہورہی ہے پچھلے دنوں بیٹیوں کے قومی دن کے طور پر منایا گیا اگر دیکھا جائے تو ہر دن بیٹیوں کے نام ہونا چاہیے کیونکہ اس بات سے تواب سب لوگوں کا اتفاق ہوگا کہ بیٹاں ہر گھر کے انگن کی زینت اورخوبصورتی ہوتی ہیں بیٹاں انتہائی حساس اور سب کا خیال رکھنے والی  بے ضرر سی مخلوق ہوتی ہیں اور بلاشبہ بیٹیاں اللہ رب العزت کی طرف سے والدین کے لیے انعام ہوتی ہیں۔ وہ ایک ایسا پھول ہوتی ہیں جو کِھلتے ہی اپنی خوشبو ہر سُو پھیلا دیتی ہیں۔ نبی آخر الزمان ﷺ خود بھی بیٹیوں والے تھے، اگر کسی کی ایک یا ایک سے زائد بیٹیاں ہیں تو اس سے زیادہ فخر کی کیا بات ہوسکتی ہے کہ اس وجہ سے اسے نبی کریم ﷺ سے ایک نسبت اور مشابہت حاصل ہے۔

رحمت اللعالمین حضرت محمدﷺ نے فرمایا، ’’جس شخص نے تین لڑکیوں اور تین بہنوں کی سرپرستی کی، انہیں تعلیم و تربیت دی اور ان کے ساتھ رحم کا سلوک کیا، یہاں تک کہ خدا انہیں بے نیاز کردے تو ایسے شخص کے لیے خدا نے جنت واجب فرما دی‘‘۔ اس پر ایک آدمی بولا، ’’اگردو ہوں؟‘‘ تو نبی ﷺ نے فرمایا: ’’دو لڑکیوں کی پرورش کا بھی یہی صلہ ہے‘‘۔ حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ اگر لوگ ایک کے بارے میں پوچھتے تو آپ ﷺ ایک کی پرورش پر بھی یہی بشار ت دیتے۔ (مشکوٰۃ

 ہم اسلامی معاشرے کے تو دعوے دار ہیں اورچاہتے ہیں کہ اللہ کی رضآ کی خآطرزندگی گزارے مگرافسوس کا مقام یہ ہےکہ اج بھی ایسے گھرمیں نےدیکھے ہیں جہاں مائیں اس پریشانی میں ہوتی ہیں کہ میرے شوہریا ساس نےاس بار بیٹے کی فرمائش کی ہے اگر بیٹا نہ ہو تو گھر سے نکالے جاوگے اج بھی زمانہ جاہلیت کی طرح اکثریت بیٹی کی پیدائش پر زیادہ خوشی محسوس نہیں کرتی۔ اوراگر ایک سے زائد بیٹیاں پیدا ہوجائیں تو انہیں رحمت کے بجائے بوجھ سمجھا جاتا ہے۔ اور دوسر ی تیسری شادی تک اتر اتے ہیں ایسے گھر بھی میں نے دیکھے ہیں جہاں بیٹیوں سے حسنِ سلوک تک روا نہ  نہیں رکھا جاتا اور لڑکو ں کے مقابلے میں انہیں جائز حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے اور ایسے گھر بھی ہیں جہان بیٹے اس غرض سے معیاری تعلیمی اداروں میں پڑھایا جاتا ہے کہ وہ خاندان کے کفیل ہوتے ہیں اور بیتٹیوں کو گورنمنٹ سکولوں میں بھیج دیا جاتا ہے کیونکہ انہیں دوسرے گھر جانا ہوتا ہے یا سرے سے ان کو تعلیم سے ہی محروم رکھا جاتا ہے اج بھی ایسے گھرموجود ہیں جہان حق وراثت سے بیٹیوں کو محروم رکھا جاتا ہے شاید یہی وجہ ہے کہ چترال کی عدالت میں حق وراثت کے کیسز سب سے زیادہ ہیں۔ یوں تو ہم ہررشتوں کا عالمی یا قومی دن میڈیا میں شاندار طریقے سے منا رہے ہوتے ہیں مگرعملی طور انہی رشتوں کو نبھانے میں اتنے کامیاب نہیں ہیں جنتے میڈیا میں خود کودیکھآ رہے ہیں۔

ایک دن بیٹی کے نام  کرنا اچھی بات ہے مگر اس سے بھی زیادہ اچھی بات یہ ہوگی کہ بیٹی کواچھی تعلیم وتربیت سے نواز کر اسے باآختیار اور باشعوربنایا جاَئےاورصنفی امیتاز سے بالا تر رکھ کر اس کی بنیادی حقوق اسےدی جائے۔ والدین کو چاہیے کہ بچپن ہی سے بچیوں کی مہارتوں اورصلاحیتوں پراعتماد کرتے ہوئے انھیں آگے بڑھنے کی جانب مائل کریں تاکہ وہ اپنی شخصیت سے متعلق ظاہری اور باطنی دونوں قسم کا اعتماد حاصل کرکےتعلیم و تربیت کی روشنی میں اگے بڑھ کر معاشرے کے ایک کامیاب فرد کے طور پر جانا جاسکیں۔

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
53045

چترال میں سوشل ویلفئر اور اسپیشل ایجوکیشن ۔ تحریر: عبد الباری

قومی اور بین الاقوامی قوانین کے مطابق افراد باہم معذوری کی بحالی لازم و ملزوم ہے ان کو کسی بھی صورت میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے اور ایسا کرنا بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔  اسی لیے ملک کے اندر اور بین الاقوامی سطح پر مختلف قسم کے قوانین مرتب کیے جاتے ہیں جن کے ذریعہ سے افراد باہم معذوری کی فلاح و بہبود کو یقینی بنایا جا سکے۔

  افراد باہم معذوری کے لیے بنائے جانے والے اداروں کا بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ یہ ادارے افراد باہم معذوری کی فلاح و بہبود کے لئے اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔ مملکت کے اندر ان اداروں کے ہوتے ہوئے افراد باہم معذوری کی فلاح و بہبود میں کوئی کسر باقی نہیں رہنا چاہیے۔ حکومت نے ہر شہر میں افراد باہم معذوری کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے اور بنیادی حقوق تک رسائی کو آسان بنانے کے لیے ہر شہر میں متعلقہ ادارہ قائم کر رکھا ہے۔ تاہم کئی ادارے افراد باہم معذوری  کی بحالی کے لیے اپنی گنجائش کے مطابق خدمات سرانجام دے رہے ہیں البتہ وسائل نہ ہونے کی وجہ سے اس کار خیر میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔

پاکستان کے دیگر شہروں میں لوگ اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرتے ہیں اس کی وجہ سے ان کو ان کے حقوق بروقت میسر ہوتے ہیں، چترال پاکستان کا ایک پسماندہ علاقہ ہے اور یہاں  کے لوگ اتنے سادھے اور سیانے ہیں ہیں کہ اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے میں بھی تاخیر کرتے ہیں۔ چترال کا ایک دیرینہ مسئلہ ایسا ہے کہ جس کے لئے اب تک کسی نے آواز بلند نہیں کیا اور لوگوں کو اپنے اس حق کے بارے میں صحیح طرح علم بھی نہیں ہے میرا مقصد چترال میں موجود  خصوصی افراد کی بحالی ہے۔ خصوصی افراد کی بحالی کے  لیے چترال میں سوشل ویلفیئر کے دفاتر موجود ہیں اور تو اور  خصوصی تعلیم کے لیے ایک اسکول بھی موجود ہے۔ متعلقہ اداروں کے موجود  ہونے کے باوجود ابھی تک چترال جیسے دور افتادہ اور پسماندہ علاقے کے لوگوں کو معذور افراد کی فلاح و بہبود اور  ان کے حقوق تک رسائی کے طریقہ کار کے بارے میں لوگوں کو آگاہ نہیں کیا گیا ہے۔

خصوصی افراد کی بحالی کے لیے پاکستان میں قوانین تو بنائے گئے ہیں اور انہی قوانین کے مطابق خصوصی افراد کے لئے بہت سارے سہولیات اور رعایات بھی میسر ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ ان پر عملدرآمد کون کرے گا۔ ملک کے حکمران خود اپس کی رسہ کشی میں مصروف ہیں ایسے اداروں کی طرف ان کی توجہ تو جاتی ہی نہیں وگرنہ چترال کے اس واحد ادارے کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک نہیں ہوتا اور یہاں کے افراد باہم معذوری اپنے حقوق سے محروم نہیں ہوتے۔ اکیسویں صدی کے جدید دور میں سانس لینے والے چترال کے افراد باہم معذوری آج بھی اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہیں جبکہ پوری دنیا میں افراد باہم معذوری کو ان کے پورے پورے حقوق فراہم کیے جا رہے ہیں۔

1986 کے حکمرانوں نے چترالیوں پرایک احسان یوں کیا کہ وہاں ایک اسکول برائے افراد باہم معذوری کے لیے بنائے لیکن اس کے بعد اس کی طرف نہ تو حکومتی اراکین نے توجہ دی اور نہ ہی چترال کی انتظامیہ نے۔ اور اب میں نے خود سے یہ عہد کیا ہے کہ میں اس طبقے کی نمائندگی انشاللہ ہر فورم پر کروں گا۔ میں حکومت وقت سے التماس کرتا ہوں کہ اس پینتیس سال سے جاری ظلم و ستم کو روکا جائے اور افراد باہم معذوری کو ان کے حقوق سے مزید محروم نہ رکھا جائے۔ لوئر چترال کے علاقے زرگران دہ میں 1986 سے ایم آر اینڈ پی ایچ  سنٹر کے نام سے ایک ادارہ فعال ہے مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ مذکورہ بالا ادارے سے عوام الناس نے کماحقہٗ فائدہ حاصل نہیں کر سکے، وجہ یہ ہے کہ ادارہ ہذا حکومت کی توجہ اور بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ ملک کے اندر ہر اداروں کے ساتھ یکساں سلوک رواں رکھے تاکہ عوام کو یکساں حقوق میسر ہو سکیں۔

اگر آپ پاکستان کے دیگر شہروں میں جائیں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ وہاں خصوصی افراد کو ان کے حقوق تقریباً مکمل میسر ہیں اور ان کی بہتری کے لئے بھی ہر ممکن اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ جبکہ ہمارے ہاں چترال میں خصوصی افراد  اپنے حقوق سے محروم  اور گھروں میں نظربند زندگی گزارنے پر مجبور  ہیں، اور ان کی فلاح و بہبود کے لئے جو ادارہ بنایا گیا تھا وہ آج بھی بنیادی سہولیات سے محروم ہے اور بے شمار مسائل سے دوچار ہے۔ جس طرح دیگر شہروں میں افراد باہم معذوری کی بحالی کے لیے بنائے گئے اداروں کو جو سہولیات فراہم کیے جا رہے ہیں ویسے ہی سہولیات چترال کے اس واحد ادارے کو بھی فراہم کیئے جائیں۔ اور عوام الناس کو اس سے استفادہ حاصل کرنے کا بھرپور موقع دیا جائے۔

 خصوصی افراد کے لیے بنائے جانے والے اداروں کی کامیابی کا راز یہ ہے کہ یہاں سے فارغ ہونے والے افراد باہم معزوری اپنے لیے خود مختار زندگی گزارنے کے قابل ہو جائیں۔ مصدقہ ذرائع کے مطابق مذکورہ بالا ادارے میں سہولیات کی عدم دستیابی کے باوجود بھی اب تک بے شمار خصوصی افراد ایسے فارغ ہوچکے ہیں جو آج ایک خود مختار زندگی گزار رہے ہیں۔ میں بذات خود ایم آر اینڈ پی ایچ سنٹر چترال کے عملے کو سلام پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے اس مشکل وقت میں اور سہولیات نہ ہونے کے باوجود بھی اب تک بہترین خدمات سرانجام دے رہے ہیں اللہ رب العزت آپ سب کو اس کار خیر کا اجر عظیم ضرور عطا فرمائے گا انشاء اللہ۔ میں چترال کی انتظامیہ اور حکومت وقت کے نمائندگان بالخصوص سیکرٹری سوشل ویلفیئر تک یہ پیغام پہنچانا چاہتا ہوں کہ میں نے شعبہ خصوصی تعلیم کے ایک طالب علم کی حیثیت سے مذکورہ بالا ادارے کا دورہ کیا۔

جب میں وہاں پہنچا تو مجھے حیرانگی ہوئی کہ یہ ادارہ خصوصی افراد کی بحالی کے لیے تو بنایا گیا ہے لیکن بنیادی سہولیات سے ہی محروم ہے۔ ادارے کے چند درینہ مسائل پیش خدمت ہیں۔ ادارہ ہذا کو کو ذاتی عمارت کی اشد ضرورت ہے جو افراد باہمی معذوری کے لئے قابل رسائی ہو، موجودہ عمارت کے اندر افراد باہم معذوری ایک کلاس سے دوسری کلاس تک آسانی سے منتقل نہیں ہو سکتے ہیں کیونکہ افراد باہم معذوری کے لیے جو بلڈنگ اسٹرکچر حکومت پاکستان نے متعارف کروایا ہے یہ بلڈنگ اس اسٹرکچر کے مطابق نہیں ہے۔ادارے میں ایک ہاسٹل کی اشد ضرورت ہے، تاکہ کہ چترال کے دور دراز علاقوں سے تعلق رکھنے والے خصوصی افراد بھی ادارہ ہذا سے استفادہ حاصل کر سکیں۔محکمہ سوشل ویلفیئر اور خصوصی تعلیم کے اس اسکول و دیگر متعلقہ دفاتر کو ایک چھت تلے تعمیر کیا جائے تاکہ عوام الناس کے لئے بھی آسانی ہو اور کرائے کے مکانوں سے بھی جان چھوٹ جائے۔

 ٹرانسپورٹ کے لیے لیے اضافی گاڑی بھی فراہم کیا جائے، موجودہ 16 سیٹر ٹوئٹا ادارے کے لیے ناکافی ہے۔ موجودہ اساتذہ کو  ٹریننگ دینے کی اشد ضرورت ہے، ان کی تعیناتی کے بعد اب تک انہیں کوئی ٹریننگ نہیں دی گئی ہے۔ ادارہ ہذا میں اساتذہ کی انتہائی قلت ہے لہذا ادارے کی ضرورت کے مطابق اساتذہ و دیگر  عملے کی تعیناتی کو ہنگامی بنیادوں پر یقینی بنایا جائے۔موجودہ اسٹاف کو انکے سروسز  کی بنیاد پر اگر ترقی دیا گیا یا تو مزید آسانیاں خالی ہوجائیں گے جس کی وجہ سے خصوصی طلباء کی بنیادی ضروریات کو مکمل نہیں کیے جا سکیں گے، اور ادارے کے لیے ممکنہ طور پر مزید مشکلات درپیش ہو جائیں گے۔ ادارہ ہذا میں چند بنیادی آسامیاں خالی ہیں جن کو ہنگامی بنیاد پر پورا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ موجودہ اسٹاف ادارے کے لئے بالکل ہی ناکافی ہے۔ 

ادارے میں ایک سمینار حال کی اشد ضرورت ہے تاکہ عوام الناس کو آگاہی دینے کے لیے وقتا فوقتا مختلف نوعیت کی تقریبات منعقد کی جا سکیں۔


یاد رہے کہ خصوصی افراد کی بحالی میں ہمارے معاشرے کی ہی بقا ہے، تاکہ یہ لوگ ایک خود مختار زندگی گزار سکیں اور معاشرے پر بوجھ نہ بن سکیں۔  اس بات کو بھی ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ اگر اللہ رب العزت نے انہیں کسی ایک قوت سے یا طاقت سے محروم رکھا ہے تو کسی دوسری قوت کو یا طاقت کو بڑھا چڑھا کر انہیں عطا کیا ہے بس ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کی صلاحیتوں کو اجاگر کیا جائے پھر دیکھیں تماشہ کے یہ لوگ دنیا میں کیسے آگے پڑھتے ہیں آج بھی پاکستان سمیت پوری دنیا میں بے شمار ایسی مثالیں موجود ہیں جو کہ خصوصی افراد نے اپنی انتھک محنت کی بدولت تاریخ کی صفحوں میں رقم کر چکے ہیں۔  انہیں بس صرف ان کے حقوق چاھئے وہ آپ سے اپنے حقوق مانگتے ہیں کوی بھیک نہیں۔

اگر آپ کے ہاتھ میں اختیار ہوتے ہوے آپ نے یہاں ان کے حقوق سے محروم رکھا تو یاد رکھئے کہ کہ بروز محشر ان کے رب آپ سے پوچھے گا لیکن پھر اس دن کوئی بخشش نہیں ہو گی۔ عوام الناس کے نام ایک مختصر پیغام یہ ہے کہ اللہ رب العزت فرماتا ہے “کہ تم دنیا والوں پر رحم کرو میں تم پر رحم کرونگا” اسی بنیاد پر عوام الناس سے اپیل  ہے کہ افراد باہم معذوری کا خاص خیال رکھا جائے, ان سے ہمدردی رکھی جائے, ان کو اپنے برابر کا انسان سمجھا جائے٫ ان کے حقوق ان تک پہنچائے جائیں, ان پر تماشا اور ان پر ظلم کرنے سے پرہیز کیا جائے۔اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو آمین۔ 

Posted in تازہ ترین, مضامین
53024