Chitral Times

صرف اعلانات نہیں، عمل درآمد کرائیں – محمد شریف شکیب


خبر آئی ہے کہ وفاقی حکومت نے اشیائے خوردونوش پر ٹیکس کم کرنے کا فیصلہ کرلیا۔یہ فیصلہ وزیراعظم کی زیر صدارت مہنگائی اور معاشی صورتحال پرغور کے لئے بلائے گئے اجلاس میں کیاگیا۔ وزیراعظم نے وفاقی وزرا کو پرائس کنٹرول کمیٹیوں پر عمل درآمد کے لیے اقدامات کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ وزراء اپنے حلقوں میں مصنوعی مہنگائی پر نظر رکھیں اورگرانفروشوں کے خلاف سخت اقدامات کیے جائیں۔وزیراعظم عمران خان نے ذخیرہ اندوزوں کے خلاف بھی سخت ایکشن لینے کا حکم دیا۔انہوں نے کم آمدنی والے لوگوں کو پٹرول پر سبسڈی دینے کا اعلان کیا جس کے تحت موٹر سائیکل اور رکشہ والوں کو رعایتی نرخوں پر پٹرول فراہم کیاجائے گا۔ جبکہ یوٹیلٹی سٹورز پر بھی نادار لوگوں کو اشیائے ضروریہ کی خریداری پر سبسڈی دی جائے گی۔

جس دن وزیراعظم نے اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کمی کی ہدایت کی اسی روز وفاقی وزیر منصوبہ بندی نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئندہ چند ماہ میں مہنگائی میں کمی کا کوئی امکان نہیں،ان کا کہنا تھا کہ مہنگائی میں حالیہ اضافہ صرف پاکستان کا نہیں عالمی مسئلہ ہے، دنیا میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں اور مہنگائی پاکستان سے کہیں زیادہ ہیں، خوردنی تیل کی قیمتوں میں چند روز کے اندر 45 سے 50 روپے فی لیٹر کمی کریں گے وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ مہنگائی کی چار بنیادی وجوہات ہیں، پچھلے سال پوری دنیا کو غیر معمولی آفت کا سامنا کرنا پڑا، اقوام عالم کے درمیان تجارت بند ہوگئی۔کورونا کی شدت میں کمی کے بعد جب دنیا معمول پر آئی تو اشیائے خوردونوش کی طلب بڑھنے اوررسد کم ہونے سے قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ ہوا۔

دنیا میں کروڈ آئل کی قیمت میں 81.55 فیصدجبکہ پاکستان میں 55.17 فیصد اضافہ ہوا، بین الاقوامی مارکیٹ میں گیس کی قیمت میں 135 فیصد اضافہ ہوا جبکہ پاکستان کی ڈومیسٹک گیس کی قیمت میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ چینی کی قیمت میں عالمی منڈی میں 53 فیصد جبکہ پاکستان میں 15 فیصد اضافہ ہوا۔حکومت اپنے وسائل کے اندر رہتے ہوئے کم آمدنی والے لوگوں کو اشیائے ضروریہ کی قیمتوں پر سبسڈی دینے کا اعلان کرتی ہے مگر ان فیصلوں پر عمل درآمد کی نگرانی کے فقدان کی وجہ سے اس کے ثمرات لوگوں تک نہیں پہنچ پاتے۔ سرکاری سٹورز پر جن اشیاء کی نرخوں میں کمی کا اعلان کیاجاتا ہے وہ اشیاء وئر ہاؤسز سے اوپن مارکیٹ پہنچ جاتی ہیں اور سرکاری سٹورز پر چینی، کوکنگ آئل، آٹا اور دیگر رعایتی چیزیں کبھی دستیاب ہی نہیں ہوتیں۔

سرکاری ادارے حکومت کو قیمتوں میں استحکام کی جو رپورٹ دیتے ہیں وہ بھی زمینی حقائق سے مختلف ہوتی ہیں۔ مارکیٹ میں مرغی کا گوشت ڈھائی روپے فی کلو سے تجاوز کرگیا ہے۔ آلو سو روپے کلو فروخت ہورہا ہے۔ قیمتوں کی بلند ترین سطح کو قیمتوں میں استحکام قرار دینا مہنگائی کے مارے لوگوں کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے۔ حکمران عام طور پر اپنے ملک میں قیمتوں کا موازنہ امریکہ، برطانیہ، جرمنی، فرانس، ناروے، ہالینڈ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک سے کرتے ہیں۔ مگر یہ نہیں بتاتے کہ ان ممالک اور پاکستان میں لوگوں کی فی کس آمدنی کتنی ہے اور ان کی قوت خرید میں کتنا فرق ہے۔

وزیراعظم اور ان کی معاشی ٹیم کو مہنگائی کی وجہ سے عوام کو درپیش مسائل کا بخوبی احساس ہے اور وہ اس کا اظہار بھی اکثر کرتے رہتے ہیں لیکن ان مسائل کا جو حل وہ تجویز کرتے ہیں وہ سطحی اور مصنوعی ہوتے ہیں ان تجاویز کو عمل کا جامہ پہنانے میں کئی رکاوٹیں حائل ہوتی ہیں۔ بہتر ہوگا کہ وزیراعظم مہینے میں ایک بار اپنے فیصلوں اور احکامات پر عمل درآمد کی رپورٹ بھی طلب کریں تاکہ انہیں معلوم ہوسکے کہ انہوں نے عوامی مفاد میں جو فیصلے کئے ہیں ان پر کس حد تک عمل درآمد ہوا ہے اور عوام کو اس سے کتنا فائدہ پہنچا ہے۔ محض اعلانات سے عوام کو ریلیف نہیں بلکہ مزید تکلیف پہنچتی ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
54016

داد بیداد ۔ معدنیات کی دولت ۔ ڈاکٹرعنا یت اللہ فیضی

ایک بڑھیا کی کہا نی ہے بڑھیا اپنی جھو نپڑی میں اکیلی رہتی تھی بیٹا ہر مہینے اس کو روزمرہ ضروریات کے لئے معقول رقم ایک لفا فے میں ڈال کر پہنچا تاتھا بڑھیا لفا فے کو چوم کر اپنی پیشانی سے لگا تی تھی آنکھوں پر مل کر دوبارہ دیکھتی تھی اور ایک صندوق میں ڈال کر تا لہ لگا تی تھی وقت اس طرح کسمپرسی کی حا لت میں گذرتا رپا یہاں تک کہ بڑھیا کی مو ت واقع ہوئی، لو گوں نے بڑھیا کو دفنا نے کے بعد صندوق کھو لا تو اس میں درجنوں لفا فے تھے اور لفا فوں میں لا کھوں روپے تھے جو بڑھیا نے چوم کر پیار اور محبت سے رکھے ہوئے تھے بیٹے نے اس لئے بھیجا تھا کہ بڑھیا کی زندگی میں کوئی سہو لت ہو لیکن ان لفا فوں سے بڑھیا کی زند گی میں کوئی سہو لت نہیں آئی وطن عزیز پا کستان میں بلو چستان کے ریکو ڈک سے لیکر سند ھ کے تھر کول اور چترال کے فولاد، یو رینیم یا سونے کے معدنی ذخا ئر تک سوئی اور کر ک کے گیس سے لیکر سندھ اور بلو چستان کے تیل تک ہر قسم کی دولت قدرت کی طرف سے مو جو د ہے لیکن ہم نے 72سالوں سے ان کو صندوق میں بند کر کے تا لا لگا یا ہوا ہے اور قومی زندگی مر زا غالب کی طرح یو ں گذر تی ہے ؎
قرض کی پیتے تھے مئے اور کہتے تھے ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن


ہماری حکومتوں نے ریکو ڈک میں سونے کے ذخا ئر سے اتنا فائدہ نہیں اُٹھا یا جتنا ہم نے کروڑوں ڈالروں میں اس کا جر ما نہ اداکیا ہے ایسے میں خیبر پختونخوا کی صو بائی حکومت نے معدنیات سے فائدہ اٹھا نے کے لئے انقلا بی قدم اٹھا تے ہوئے معدنیات سے مالا مال پہاڑوں اور صحراوں کی لیز(Lease) کا آن لا ئن سسٹم متعارف کرایا ہے خیبر پختونخوا کی سرکاری ویب سائیٹ پر معدنیات کی لیز کے قواعد وضوابط کے ساتھ نقشے اور روابط (maps & coordinates) بھی دیئے گئے ہیں کسی دفتر کا چکر لگا نے کی ضرورت نہیں کسی کی مٹھی گرم کرنے کی حا جت نہیں معدنیات کی لیز میں دلچسپی رکھنے والے کاروباری شہری اس ویب سائیٹ سے معلو مات حا صل کر کے جگہ پسند کر کے آن لا ئن در خواست جمع کر سکتے ہیں یوں گھر بیٹھ کر کاروباری خواتین اور حضرات سونے، فولاد، گیس، تیل اور یو رینیم کے قیمتی ذخا ئر کے ما لک بن سکتے ہیں

گذشتہ ڈیڑھ سال کا تجربہ اور مشا ہدہ یہ ہے کہ امریکی، بر طانوی اور چینی کمپنیاں آن لائن فارم جمع کر کے لا کھوں مر بع کلو میٹر کے رقبوں کا لیز لے لیتی ہیں پا کستانی سرمایہ کار اس میں دلچسپی نہیں لیتے مقا می لو گ شکا یت کر تے ہیں کہ ہمارے پاس سر ما یہ نہیں لیز حا صل کرنے کے بعد ہمیں کیا ملے گا، سرحد چیمبر آف کا مر س اینڈانڈسٹری کے کوارڈینیٹر سرتاج احمد کا کہنا ہے کہ ہماری مثال اُس بڑھیا سے مختلف نہیں جو نو ٹوں سے بھرے لفا فوں کو صندوق میں ڈال کر تا لا لگا تی تھی اور مر تے دم تک غربت، نا داری اور بے چار گی کا رونا روتی تھی دولت اس کے گھر میں مو جود تھی مگر وہ اس دولت سے کا م لینا نہیں جا نتی تھی امریکی کمپنی معدنیات کے 6ہزار مربع کلو میٹر رقبے کے لئے فارم جمع کر تی ہے چینی کمپنی معدنی ذخا ئر کے 5ہزار مر بع کلو میٹر رقبے کے لئے فارم جمع کر تی ہے پا کستانی سر ما یہ کار 300مربع کلو میٹر رقبے پر نظر رکھتا ہے جبکہ مقا می درخواست گذار بڑی مشکل سے کوارڈنیٹ نکال کر 40مر بع کلو میٹر رقبے کے لئے فارم جمع کر تا ہے اس میں وسائل اور دولت کا مسئلہ نہیں درخواست گذار کے دما غ میں خلل ہے وہ 50مر بع کلو میٹر سے آگے سوچنے کی صلا حیت نہیں رکھتا وہ اس بات سے واقف نہیں کہ لیز لینے کے بعد کسی بڑی کمپنی کے ساتھ شراکت اختیار کر کے جوائنٹ وینچر کے ذریعے وہ اربوں کی سرمایہ کاری میں حصہ دار بن سکتا ہے معدنیات کی لیز کے لئے آن لا ئن درخواستوں کی سہو لت صو بائی حکومت کا بڑا کار نا مہ ہے مستقبل میں اس کے دور رس نتائج برآمد ہو نگے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
53996

اسلامی حکومت کیسی ہوتی ہے؟ ۔ غزالی فاروق


اٹھارویں صدی کے وسط تک اسلام ایک شاندار درخت کی مانند تھا جس کی شاخیں مضبوط تھیں اور اس کی ڈالیاں ہری بھری اور شاداب تھیں اور یہ درخت اپنی  پوری آب و تاب کے ساتھ تروتازہ اور پھل دار تھا۔ اٹھارویں صدی کے وسط میں یورپ میں رونما ہونے والے صنعتی انقلاب کے نتیجے میں عالمی منظرنامہ تبدیل ہونا شروع ہو گیا جس کے بعد عالمی رہنما کی حیثیت رکھنے والی اسلامی ریاست اپنا مقام کھو بیٹھی اور اس کا زوال نمایاں ہو گیا۔مغربی ایجادات نے مسلمانوں کو اتنا مرعوب کیا کہ وہ اپنے اسلامی نظریات پر ہی نظرِ ثانی کرنے لگے۔ کچھ لوگ تو اتنے آگے بڑھ گئے کہ انھیں اسلامی افکار اور قوانین میں خامیاں نظر آنے لگیں جس کے نتیجے میں اسلام کے نفاذ میں کمزوری آنا شروع ہو گئی۔ اسلام کے نفاذ میں کمزوری اور اسلام کے فہم کے دھندلے ہو جانے کی وجہ سے اسلامی ریاست کی شان و شوکت پہلی جیسی نہ رہی اور اس نے اپنی اصل طاقت کھو دی۔ اسلامی نظریات کے فہم کی اسی کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جنگِ عظیم  اول میں مسلمانوں کی شکست کے پیشِ نظر برطانیہ نے مصطفیٰ  کمال کے مدد سے اسلامی ریاست کا خاتمہ کر دیا۔

مسلمانوں اور اسلام کے افکار کی حفاظت کرنے والی  ریاست خلافت  عثمانیہ کے انہدام کے بعد  مغرب نے مسلمانوں کے علاقوں  کے حصے بخرے کیے اور آپس میں بانٹ لیے۔ یوں  بالآخر مغربی تہذیب  مسلم علاقوں پر راج کرنے لگی اور یہ علاقے  یورپ ، روس اور امریکہ جیسی عالمی طاقتوں کی رسہ کشی کا اکھاڑا بن  گئے۔ مغربی تہذیب کی علمبردار ریاستوں نے اسلامی تہذیب کے باقی ماندہ افکار  کو  مسلمانوں کے  اذہان سے کھرچنے اور اس کی جگہ مغربی تہذیب کے افکار ٹھونسنے کیلئے ان کی تعلیم، میڈیا، ثقافت اور ہر نظام کو  مغربی طرز پر استوار کردیا۔ اگر کسی علاقے میں مسلمانوں نے اس مغربی ایجنڈے کا انکار کیا تو انہیں مغرب  کی فوجی اور اقتصادی طاقت کے بل بوتے پر مغربی سیکولر نظام کے آگے جھکنے پر مجبور کیا گیا۔

آج اکیسویں صدی میں مسلم دنیا مغربی نظام کی تباہ کاریوں اور افسوسناک نتائج سے تنگ آ چکی ہے لیکن اس کے پاس اسلام کی تہذیب کی طرف  واپسی کیلئے درکار افکار کا فقدان ہے جو مغربی نظام کو اسلام کے نظام سے تبدیل کر دینے کی راہ میں حائل ایک  رکاوٹ ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمانوں کے اذہان میں اسلام کے ان سچے تصورات کو دوبارہ اجاگر  کیا جائے جو مغربی تہذیب کے مقابلے میں اسلامی تہذیب کی شروعات کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ان   تصورات کے ذریعے ہی مسلمان اس قابل ہو سکیں گے  کہ وہ اس اسلامی ریاست کو پہچان سکیں جس کا قیام  اسلامی طرزِ زندگی کے ازسرِ نو آغاز کیلئے  لازم ہے۔جہاں دنیا بھر کی بیشتر اسلامی تحریکات مسلم ممالک میں اسلا م کے نظام  کی واپسی  کیلئے کوشاں ہیں وہاں ان تصورات کو سمجھنے اور واضح کرنے کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے، تاکہ مغرب کہیں تبدیلی کی ان   مخلصانہ کوششوں  کے باوجود مسلمانوں کی  فکری کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انھیں دھوکہ دے کر ایک حقیقی اسلامی ریاست کے قیام سے دور نہ کر دے۔

  کسی بھی  ریاست کو  ایک اسلامی ریاست  کہلانے کے لئے  جن  بنیادی صفات  کا حامل ہونا لازمی ہے  ان میں  سے  سب سے پہلی صفت  اس ریاست کی بنیاد کا دین اسلام  پر مبنی ہونا ہے۔رسو ل اللہ ﷺ  نے جب مدینہ میں ریاست قائم کی اور حکومت سنبھا لی تو پہلے دن سے ہی  دین اسلام  کو اس ریا ست اور اقتدار کی بنیاد بنا یا ۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے  حکمرانی میں اسلام کے احکامات  کی خلاف ورزی پر عوام کو   حکمران کا کڑا احتساب کرنے کا حکم دیا اور اسے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے فریضہ میں شامل کیا۔ اسی طرح  دین اسلام    کا اسلامی حکومت کی بنیاد ہونے کا مطلب یہ  بھی ہے کہ  تمام قانون سازی صرف اور صرف  اللہ سبحانہ وتعالی کے احکامات تک محدود ہو گی اور اس معاملے میں اسلام کے علاوہ کسی اور آئیڈیالوجی   کی طرف رجوع نہیں کیا جائے گا۔لہٰذا ایک اسلامی حکومت میں تمام ریاستی معاملات بشمول عدلیہ، اقتصادیات، معاشرت، حکومت، داخلہ و خارجہ پالیسی، تعلیم، صنعت، صحت، فوج، بیت المال وغیرہ صرف اور صرف اسلامی احکامات  کے مطابق  منظم ہوتے ہیں۔

پھر کوئی بھی ملک صرف اس وقت ایک مکمل اسلامی ریاست قرار پاتا ہے جب  وہاں کی امان ( یعنی علاقے کی اندرونی و بیرونی خطرات سے  حفاظت)مسلمانوں کے ہاتھ میں ہو اوروہاں  اسلام ہی کے احکامات نا فذ ہو ں ۔ اگر اِن میں سے کوئی ایک شرط بھی موجود نہ ہو تو وہ علاقہ  اسلامی ریاست نہیں ہو  گا ۔رسول اللہ ﷺ نے پہلی اسلامی ریاست کے قیام کیلئے جو بیعت لی، اس میں یہ دونوں شرائط موجود تھیں۔انصار نے مدینہ میں اسلام کی حکمرانی کو  اور  رسول اللہﷺ کو حاکم کے طور پر قبول کیا  تھا اور کسی   بیرونی  طاقت پر انحصار کیے بغیر  اس ریاست کی امان کا خود  ذمہ لیا تھا۔

اسلامی ریاست کی تیسری بنیادی صفت  اس میں  حکمرانی کا   اجتماعی نہیں بلکہ انفرادی ہونا  ہے۔ لہٰذا ایک اسلامی حکومت میں حکمرانی انسانوں کی  اجتماعی  دانائی کی بنیاد پر نہیں بلکہ  اللہ سبحانہ وتعالی  کی لامحدود دانائی پر مبنی وحی کی بنیاد  پر منظم ہوتی ہے جسے نافذ کرنے کا اختیار  صرف ریاست کے سربراہ  یعنی خلیفہ کو ہوتا ہے۔  ایک اسلامی حکومت   میں قانونی آراء کو ان کی فکر کی مضبوطی کی بنیاد پر ترجیح  دی جاتی ہے جبکہ اجتماعی حکمرانی پر مبنی حکومت میں قانونی آراء کو عوامی قبولیت اور خواہشات  کی بنیاد پر ترجیح دی جاتی ہے ۔اسلام اجتماعی حکمرانی کی نفی کرتا ہےاور اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ ایک ریاست کے ایک سے زیادہ حکمران ہوں۔ خلیفہ ہی وہ شخص ہوتا ہے جسے ریاست کے مسلمان شہری بیعت کے ذریعے اسلام کو نافذ کرنے اور پھیلانے کی اتھارٹی سونپتے ہیں اور خلیفہ یہ فرائض  اپنے  معاونین، والیوں اور عاملین پر مبنی ریاستی ڈھانچے کے ذریعے سرانجام  دیتا ہے   ۔

اسلامی حکومت کی  چوتھی صفت یہ ہے کہ اس  میں حکمران  کے انتخاب یا تقرری کا  حق امت کے پاس ہوتا ہے جو اسلام کے نظام کے نفاذ اور اسلامی دعوت کو پوری دنیا تک لے کر جانے پر  حکمران کا انتخاب  کر کے اسے خلیفہ کے منصب پر فائز کرتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ  اس وقت مدینہ کے حکمران بنے جب محرم کے مہینے میں   عقبہ کی گھاٹی میں  بیعت ِ عقبہ  ثانیہ کا واقعہ  پیش آیا،جس میں اوس اور خزرج کے قبائل  سے آئے ہوئے مسلمانوں نے اپنی رضامندی  سے رسول اللہ ﷺ کو  اطاعت اور حفاظت  پر حکمرانی کی بیعت دی۔ لہٰذا وہ حکومت اسلامی نہیں ہو سکتی جہاں حکمران کے انتخاب کا  حق امت سے چھین  کر کسی مخصوص طبقے یا گروہ  کو دے دیا جائے ۔

 جمہوریت کی طرح اسلام نے بھی اختلافِ رائے کو رفع کرنے  اور قانون بنانے کیلئے مختلف آراء میں ایک رائے کو اختیار کرنے کا طریقہ کار رضع کیا ہے جو جمہوری طریقہ کار سے یکسر مختلف ہے۔ایک اسلامی حکومت میں ریاست کے سربراہ  یعنی خلیفہ کو یہ اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ  متعدد اسلامی آراء میں سے مضبوط ترین رائے کو قانون کی حیثیت سے اختیار کر سکتا ہے۔شرعی احکامات کے معاملے میں مضبوط ترین رائے کا انتخاب شرعی دلیل کی مضبوطی کی بنیاد پر کیا جاتا ہے ۔ مثال کے طور پر، ابوبکر ؓ نے اپنے اجتہاد کے مطابق  ایک نشست میں تین طلاقوں کو ایک طلا ق قرار دیا اور مال غنیمت کو مسلمانوں کے درمیان برا بر تقسیم کرنے کو اختیار  کیا اور اس معاملے میں نئے اور پرانے مسلمانوں  کے درمیان فرق نہیں کیا۔  لیکن جب عمرؓ خلیفہ بنے تو انہوں نے  اپنے اجتہاد کے مطابق ان مسا ئل میں ابو بکرؓ کی رائے سے مختلف   رائے کو اختیار کیا  اور تین طلاقوں کو تین ہی قرار دیا اور مال کی تقسیم میں اسلام میں سبقت اور ضرورت مندی کو مقدم رکھا اوربرا بری کی بنیا دپر تقسیم نہیں کی۔

کسی ریاست کو اسلامی ریاست بننے کیلئے چھٹی  بنیادی صفت  یہ  ہے  کہ  اس ریاست کا مکمل آئین  ،تمام قوانین  اوردیگر پالیسیاں  صرف اور صرف وحی  پر مبنی نصوص سے اخذ شدہ ہوں۔اللہ سبحانہ وتعالی کی طرف سے نازل کردہ  وحی ہی وہ راہنمائی  اور ہدایت ہے جس پر عمل کرنا تمام دنیا کے انسانوں کیلئے روزِ قیامت نجات کا ذریعہ ہے۔ وحی سے مراد قرآن اور سنتِ رسول اللہ ﷺ ہے۔ لہٰذا  حکمرانی  اور نظام کیلئے   قوانین کی بنیاد صرف  قرآن و سنت ہیں، اور وہ  ماخذ جو قرآن و سنت ہی پر  مبنی ہوں ۔اللہ سبحانہ وتعالی نے  فرمایا: ﴿وَمَن لَّمۡ يَحۡڪُم بِمَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ فَأُوْلَـٰٓٮِٕكَ هُمُ ٱلظَّـٰلِمُونَ﴾”اورجو اللہ کے نازل کردہ (احکامات) کے مطابق حکومت نہیں کرتے، وہی لوگ ظالم ہیں”(المائدۃ:45)۔ اور فرمایا: ﴿وَأَنِ ٱحۡكُم بَيۡنَہُم بِمَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ وَلَا تَتَّبِعۡ أَهۡوَآءَهُمۡ﴾”اور ان کے درمیان اللہ کے نازل کردہ (احکامات)  کے مطابق حکومت کریں اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں”(المائدہ:49)۔

اسی طرح  کسی ریاست کو اسلامی ریاست بننے کیلئے یہ بھی  ضروری ہے  کہ  وہ دیگر ممالک کے ساتھ صرف  اسلام کی بنیاد پر تعلقات استوار کرے اور دینِ  اسلام کو پوری دنیا پر غالب کرنے کیلئے دعوت کی علمبردار بنے۔ مدینہ میں مسلمانوں کی فوجی طاقت کا قریش سے کمزور ہونا مسلمانوں کو معلوم تھا  لیکن اس کے باوجود رسول اللہ ﷺ نے قریشِ مکہ سے تعلقات اسلام ہی کی بنیاد پر رکھے ، ان پر غلبہ حاصل کرنے کی پالیسی کو جاری رکھا اور بالآخر مکہ میں فتح حاصل کی۔رسول اللہ ﷺ نے  اپنے  دور کی جتنی بھی عالمی طاقتوں کے بادشاہوں کو خطوط بھیجے، وہ سب باہمی مفادات کی بنیاد پر تعلقات استوار کرنے کیلئے نہیں بلکہ صرف  اسلام  کو قبول کرنے اور اسلام کی حاکمیت تسلیم کرنے کی طرف دعوت دینے  پر مبنی تھے۔ اسامہ ؓ کے لشکر کی تیاری جسے آپ ﷺ   نے اپنے وصال سے پہلے سخت بیماری کی حالت میں بھی روانہ کرنے پر اصرار کیا، وہ   سلطنتِ روم کو اسلام کی اتھارٹی کے نیچے لانے کیلئے تھا۔اس کے علاوہ تمام خلفاء راشدین کے دورِ خلافت میں اسلامی ریاست مسلسل پھیلتی رہی اورمسلمان  دیگر دنیا میں موجود نظاموں کو چیلنج کرتے ہوئے    اسلامی دعوت  کو ان علاقوں تک وسعت دیتے  رہے۔

لہٰذا اسلام کسی ایسی ریاست کا تصور پیش نہیں کرتا جو  اندرونی طور پر تو اسلام کے احکامات کے نفاذ کا دعویٰ کرے لیکن  دنیا کی عالمی طاقتوں کے سامنے  اپنے مقام اور حیثیت کو تسلیم کروانے کیلئے عالمی ورلڈ آرڈر کو تسلیم کر لے۔اسلام میں ایسی کسی ریاست کا تصور موجود نہیں  جو مغربی عالمی قوانین کی پاسداری کرے، اقوامِ متحدہ یا سلامتی کونسل یا آئی ایم ایف یا عالمی عدالتِ انصاف جیسے استعماری  اداروں کو تسلیم کرے یا ان میں شمولیت اختیار کرے، قومی ریاستوں کے تصور کی بنیاد پر ریاست کی مستقل سرحدوں کو تسلیم  کرے اور اپنی  سرحدوں کے پار مقبوضہ مسلم علاقوں کو کفار کے تسلط سے آزاد کروانے کو   اپنا اولین مسئلہ نہ سمجھے، ایسی کسی ریاست کے وجود کیلئے اسلام میں کوئی شرعی  دلیل موجود نہیں۔

یقیناً موجود  دور میں ،جب مغرب مسلم دنیا پر اپنی زبردست  ثقافتی اورفکری یلغار کے ذریعے مسلم اذہان سے اسلامی تصورات کو کھرچنا چاہتا ہے، وہاں مسلمانوں کیلئے یہ لازم ہے کہ وہ اسلامی تہذیب کی بنیاد رکھنے والے ان افکار  کا مکمل فہم حاصل کریں تاکہ اسلام دشمن عالمی طاقتیں اور مسلم دنیا میں موجود ان کے ایجنٹ حکمران  امت کو اسلامی حکومت کے نام پر کوئی دھوکہ نہ دے سکیں۔یقیناً یہ ان اسلامی تصورات کا درست  فہم ہی ہو گا جو تمام دنیا کے مسلمانوں کومغرب کے تسلط سے آزاد ہونے کا اور اور اسلام کے عادلانہ نظام کو پوری دنیا تک لے  کر جانے  کا   نکتۂ آغاز بنے گا۔

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
53994

چترالی بازار پشاور، ارتقا، خدمات اور اہمیت – عنایت جلیل قاضی

چترالی بازار پشاور، ارتقا، خدمات اور اہمیت – عنایت جلیل قاضی

مشہورزمانہ تاریخی بازار،قصہ خوانی کےعقب میں، ایک گلی نما بازار، ٹھٹی بازار کے نام سے ہوا کرتا تھا،جو ہندو اور انگریز ادوارمیں، پشاور کا بازار حسن کہلاتا تھا۔ اس بازارکے بالاخانوں میں، ڈھول کی تھاپ پر،پائل کی جھنکار میں، صنف نازک کی جسمانی شاعری رات گئے تک جاری رہتی۔ رات کے پچھلے پہر، رند، خماراور نیند سے بوجھل، نیم کھلی آنکھوں کے ساتھ ، قصہ خوانی،جہانگیرپورہ اور شاہ برہان کی گلیوں میں، تھرتھراتے، ڈگمگاتے قدموں اور خود کلامی کے ساتھ چلتے پھرتے نظرآتے۔ پھریوں ہوا، کہ اس بازار میں کچھ صوفی منش لوگ آئے، اوران کی کاوشوں سے، بازار حسن،اسلام آباد بازار بن گیا۔

یہ غالباً 1939 کی بات ہے، کہ لویر چترال کے گاٶں کُجو سے دو بھائی، قاضی خیر محمد اور قاضی محمد میاں، جوقاضیاں کُجو کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے، اس بازار سے متصل جہانگیرپورہ بازار میں، ایک دکان کھول لی۔ چند سال بعد،1942میں، اپر چترال کے اویر نامی گاٶں سے شمس الرحمٰن انوری (قوم خوشے) نے میں ٹھٹی بازارمیں، چترالی مصنوعات کی دکان کھولی، اور یوں،اس بازار میں چترالی مصنوعات کی کاروبار کا آغاز ہوا۔ سلسلے چلتے رہے اورکارواں بنتے گئے اور اس وقت، اس بازار میں، چترالیوں کی کل 180 دکانیں ہیں (جبکہ ضلع پشاور میں چترالیوں کی کل دکانوں کی تعداد 850 سے ذیادہ ہے)۔ اس کاروبار سے وابستہ، سینگڑوں کاریگر، رزق حلال کما نے میں مصروف ہیں۔ یہ بازار، پشاور میں چترالیوں کی آماجگاہ اور پناہ گا ہے۔

chitrali bazar peshawar 4

یقیناً ، ابتدائی دور، نووارد چترالیوں کے لئے ایک مشکل دور ہوتا ہوگا، یہاں کے لوگ ماضی قریب تک، ذہنی طور پر چترالیوں کو قبول نہیں کرتے تھے۔ ان کی سادگی کی وجہ سے، اپنے سے کم تر سمجھنا، دھوکہ دینا، زور زبردستی کرنا روزمرہ کا معمول تھا۔ چترالیوں کے ساتھ، اکیسویں صدی میں بھی یہی کچھ ہوتا رہتا ہے، تو اس زمانے کی بات ہی کچھ اور ہوگی۔ ہماری شرافت ہماری طاقت نہیں، بلکہ ہماری کمزوری سمجھی جاتی ہے اور ہم، ہر قدم پر استحصال کا شکار نظر آتے ہیں۔ ذرہ سوچئے، اس زمانےمیں کن حالات سے یہ بہادر لوگ دوچار رہے ہوں گے۔ لیکن اس بازار کے ابتدائی لوگ ، دیانتداری، صداقت اور صبر سے کام لیتے رہے اور قلیل عرصے میں چترال کےلئے نرم گوشہ اور شناخت پیدا کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ ان ابتدائی لوگوں میں، شمس الرحمٰن انوری، حافظ اویری، نادر خان، میراحمد بلبل، صالحین صاحب۔ حاجی سعیداللہ، حاجی رحمت خان،سیکریٹری نورغازی،صدر امان اللہ، ماسٹر ولی الدین، حاجی میر طانیت شاہ، حاجی عظیم،بزرگ حاجی۔ حسین حاجی۔ حاجی تکبیر خان، خان حاجی، ولی شاہ حاجی، حاجی محمد شاہ، حاجی عزت من شاہ المعروف کابلی جان،حاجی حبیب اللہ، گلسمبر خان، فضل خان ماما۔ میرزہ خان، عبدالواحد، حاجی گل محمد، اور حاجی غیاث الدین نے اچھے نام کمائے۔ بعد میں آنے والوں میں، صادق آمین مرحوم، حاجی خلیل الرحمان، حاجی فضل خان، شاکرالدین،محمد فاضل، حاجی صفدر حکیم ، حاجی حکیم، حاجی امان اللہ، عمرعظیم، قیوم لالہ، محمد طئیب ،حسن محمود، ابراہیم، دوردانہ خان، فیض اللہ، شکور اعظم، اسلام الدین،حاجی مقصود، حاجی ژنوژان، زار بہار، حاجی الیاس شیرعبداللہ اور شیرعزیز نے کاروبار میں نام کماکر صاحب جائداد ہوئے۔

چترالی بازار پشاور، چترالیوں کو بہت کچھ دے چکا ہے اور دے رہا ہے۔ اس حوالے سے سب سے اہم کام، کاروباری ذہن سازی ہے۔ چترالی، من حیث القوم، کاروبار کو ذیادہ پسند نہیں کرتے اور سرکاری ملازمت کے دلدادہ نظرآتے ہیں، لیکن اس بازار نے ان کو کاروبار کی طرف راغب کیا اور اس سے وابستہ لوگ، معاشی طور پر مستحکم ہوکر دوسرے لوگوں کے لئے مثال اور ترغیب کے سبب بنتے گئے۔ یوں اس بازار نے چترال کے کئی خاندانوں کو،غربت سے نکال کرآسودہ حال کردیا۔ پھر لوگ ملتے گئے ، کارواں بنتے رہے۔ 180 دکانیں اور ان سے جُڑے لگ بھگ تین ہزار کاریگر، چترالی مصنوعات کے روزگار سے وابستہ ہیں۔ اگر ہم ایک درمیانی دُکان کے حساب سے بازار کا جائزہ لیں تو، اس بازار میں لاکھوں کپھوڑ بنتے،اور بکتے ہیں جن سے اچھی خاصی آمدن ہوتی ہے۔ ان کے علاوہ چترالی واسکٹ، کوٹ اور چوغے کی بھی بڑی مانگ ہے۔ ساتھ ساتھ سینگڑوں کاریگر، دان رات کام کرکے چترال کی اقتصادی ترقی میں بہت بڑا حصہ ڈال رہے ہیں۔

chitrali bazar peshawar1

تعلیم کے حوالے سے بھی اس بازار کا بہت بڑا کردار رہا ہے۔ چترال سے تعلق رکھنے والے کئی افسران، ڈاکٹرز اور دیگر لوگوں کا زمانہ طالب علمی میں اس بازار سے بلواسطہ یا بلا واسطہ تعلق رہاہے اور انتہائی مشکل اوقات میں اس بازار سے فائدہ اٹھاتے رہے ہیں۔ بازار کے 180 دکانداروں اورسینگڑوں کاریگروں کے بچے اور رشتہ دار، پشاور میں دینی اور دنیاوی تعلیم حاصل کرچکے ہیں اور کر رہے ہیں۔ بازار سے وابستہ ہر فرد کے گھر میں کم ازکم ایک دینی یا دنیاوی تعلیم یافتہ ضرور موجود ہے۔ اس وقت ضلع پشاور کے اندر 90 مساجد کے خطیب اور امام چترالی ہیں اور ذیادہ تر کا تعلق بلواسطہ یا بلا واسطہ اسی بازار سے ہے۔ امسال، اسی بازار سے وابستہ ماجداللہ، سی ایس ایس پاس کر چکا ہے۔ ان کے علاوہ ڈاکٹرخالد اقبال، انجنئر ظہیرالدین، انجنئر سیف اللہ، انجنئر نسیم اللہ، ایڈوکیٹ صادق امین، ایڈوکیٹ توفیق اللہ (صدر چترال لائرز فورم)، پروفسر ڈاکٹر جمیل چترالی۔سرجن ڈاکٹر محب الرحمان۔ سنئر صحافی عبدالودود بیگ۔ سابق سٹلمنٹ آفیسر شاہ نادر،پروفیسرڈاکٹراسداللہ ،معروف وکیل نیاز اے نیازی۔ ڈاکٹر محمد قاسم ، ایڈشنل ڈپٹی کمشنر عبدالولی چیف، پروڈیوسر نظام الدین ۔ ڈپٹی ڈائرکٹر محمد خالد، آئی ٹی کی دنیا کا ایک کامیاب نام عطاٗالرحمٰن، پرائڈ آف چترال کے ایڈمن خلیل احمد، سنئر صحافی فیاض احمد، معروف ٹووراوپریریٹر جلیل احمد اسی بازار سے وابستہ رہے ہیں۔

اس بازار کی سیاسی خدمات کے حوالے سے بات کی جائے تو، چترالیوں کو سیاسی شعور اور حقوق دلوانے کے حوالے سے اس بازار کے تاجروں نے ہراول دستے کا کام کیا ہے جس کی مثال نہیں ملتی۔ سب سے پہلے میر احمد بلبل، محمد نادر خان نے چترال یونئین تشکیل دے کر سیاسی بیداری کا آغاز کردیا۔ میر احمد بلبل پیپلزپارٹی کا جیالا تھا اور عمر کے آخری لمحے تک اس منشور سے جُڑے رہے۔ بعد میں صادق امین مرحوم نے بازار کا بھاگ ڈور سنبھالا تو پشاور میں چترالیوں کو ایک نئی شناخت مل گئی۔ چترالی بازار کے لوگ جلوس جلسوں میں، شاہراہیں بند کرنے کے قابل ہوگئے۔ صادق امین سیاسی طور پر عوامی نیشنل پارٹی سے تعلق رکھتے تھے۔ بلور برادران اور دوسرے سیاسی زعما، ان کے والد صاحب، ماسٹر ولی الدین کے شاگرد رہے ہیں۔ صادق امین مرحوم، پشتو، ہندکو اور اردو پر مکمل دسترس رکھتے تھے اور فن تقریر کے بھی ماہر تھے۔ سیاسی داوپیچ کے بھی ماہر تھے۔

chitrali bazar peshawar2

انہوں نے چترال یوتھ ارگنازئشین اور چترال تجار یونئین جیسی متحرک فورمز کی بنیاد رکھی۔ صادق امین کی سیاسی خدمات ہمیشہ سنہری حروف میہں لکھی جائیں گی۔ سیاسی لحاظ سے اس وقت میدان عمل کے شیرعبدالطیف کا تعلق بھی اسی بازار سے ہے۔ عبدالطیف گزشتہ 22 سالوں سے تحریک انصاف کے ساتھ وابستہ، ایک سنیر رہنما ہیں۔ عبدالطیف کے بھائی عبدالرزاق اس وقت چترالی بازار کے صدر نشین اور تحریک انصاف کے ایک فعال سیاسی کارکن ہیں۔ انجمن تاجران پشاور کے جائنٹ سکریٹری ہیں اور سیاسی داو پیچ سے باخبر ہیں۔ اسی بازار سے وابستہ شاکرالدین کاروبار، وکالت اور سیادست تینوں سے وابستہ ایک فعال چترالی ہے۔ سیاسی لحاظ سے، پیپلزپارٹی سے وابستہ ہے۔ صادق امین کے فرزند انجمند، فہد آمین، اس بازار کے نووارد ہیں۔ والد صاحب کی وفات کے بعد چترالی بازار کے کاروبار کے ساتھ جُڑگیا ہے۔ یہ ایک تعلیم یافتہ نوجوان ہیں، مٹی زرخیز ہے اور امید ہے کہ مستقبل قریب میں، والد صاحب کی سیاسی خلا کو پر کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ ہماری نیک خواہشات ان کے ساتھ ہیں۔ لواری ٹنل تحریک ، پشاور میں چترالیوں کی سب سے بڑی تحریک تھی اور اس کا مرکز یہی چترالی بازار تھا۔ یہی دکاندار اپنا کام کاج چھوڑ کربھوک ہڑتالی کیمپ لگاتے رہے، جلوس جلسے کرتے رہے۔ مرکزی قائد مولانا عبد الاکبر کے ساتھ، جناب صادق امین مرحوم، جناب عبدالطیف اور دوسرے دکاندار، اپنا سب کچھ قربان کرتے رہے۔

chitrali bazar peshawar

چترالی بازار پشاور کی، چترال کے لئے سماجی خدمات کی ایک لمبی فہرست ہے۔ بےسہارہ چترالوں کو سہارا دینا، بیماروں کو عطایات خون دینا، مُردوں کو دفنانا یا لاشوں کو چترال بھجوانے کی انتظامات کرنا اور چترال سے متعلق مسائل کو حل کرنا، گویا ان کی ذمہ داری ہے۔ اس حوالے سے اس بازار کی سب سے بڑی خدمت وزیر باغ پشاور میں ایک وسیع و عریض چترالی قبرستان کا قیام ہے۔ اس قبرستان کا کل رقبہ 84 مرلہ ہے جس کی اس وقت مالیت کم از کم 5 کروڑ روپے سے ذیادہ ہے۔ یہ جگہ 1991 میں خریدی گئی تھی اور تب سے اب تک اس میں کوئی 400 کے لگ بھگ چترالی مدفون ہیں۔ اور 200 تک مزید گنجائش باقی ہے۔ اس سے پہلے پشاور میں انتقال کرنے والے چترالیوں کے لئے تدفین کا انتظام کرنا یا میت کو براستہ افغانستان چترال بھجوانا انتہائی تکلیف کا معاملہ ہوا کرتا تھا۔ چترالی بازار کی کاوشوں کی بدولت، یہ انتہائی تکیلف دہ کام اسان ہو چکا ہے۔

chitrali bazar peshawar3

اس بازار اور اس کے مکینوں نے چترالی ثقافت کو بھی چترال سے باہر متعارف اور ترقی دینے میں ایک بےمثال کردار آدا کیا ہے۔ کپھوڑ، واسکٹ، چوغہ اور کوٹ، جو چترالی لباس اور شناخت کی علامت ہیں، اسی بازار کے طفیل پوری دنیا میں چھاگئے۔ کپھوڑ اب پورے صوبے کی پہچان بن چکا ہے، بلکہ افغانستان کے شمالی اضلاع بھی اس کو اپنا چکے ہیں۔ شمالی اتحاد نے ایک زمانے میں کپھوڑ کو وردی کا حصہ تک بنا رکھا تھا۔ چترالی بازار کے اندر چترالی کھیل تماشوں اور موسیقی کے دلدادہ بیٹھے ہوئے ہیں جو کئی بیروزگار فنکاروں اور کھلاڑیوں کو موسم سرما میں مہینوں تک مہمان بناکر رکھتے ہیں۔ ریڈیو پاکستان پشاور میں جس وقت کھوار پروگرام کا اجرا ہوا، تو اسی بازار سے وابستہ لوگ،فنکار بھی بنے اور سامع بھی۔ اس پروگرام کو کامیاب بنانے میں اس وقت کے ثقافت پسند لوگوں نے بڑے کردار آدا کئے۔ باالخصوص بچوں کے پروگرام میں حصہ لینے والے بچے، اسی بازار کے دکانداروں کے بچے ہوا کرتے تھے۔ حاضر وقت میں، زیباوار خان ہمدرد کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ ہر وقت ان کی رہائش گاہ میں ستار، دف، جریکین اور ایک گلوکار موجود ہوتا ہے۔

chitrali bazar peshawar4

گھُڑ سواری سے لے کر فٹبال تک، مرغ زرین کے پر سے لیکر پیتاوا تک ، ہر ضرورت کی چیز ان کے پاس موجود ہوتی ہے اور ہر مشکل وقت میں کھلاڑی اور فنکار کا یہی سہارا بنتا ہے۔ فٹبال، چترالیوں کا ایک انتہائی پسندیدہ کھیل ہے جس کے لئے تمام چترالی جمعے کے دن کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔ اس حوالے سے معروف عالم دین اور مقرر مولانا بجلی گھر نے کہا تھا کہ ” مجھے زندگی بھر دو چیزوں کی سمجھ نہیں آئی ایک چترالیوں کا فٹبال اور دوسری پاکستان کی سیاست، دونوں میں کوئی ضابطہ قانون کی پاسداری نہیں ہوتی” چترالی بازار سے وابستہ لوگوں نے شاہی باغ یا وزیر باغ میں فٹبال کے بے مثال ٹورنمنٹس منعقد کروائے۔ ان میں جو لوگ سر فہرست رہے ان میں میراحمد بلبل مرحوم، صادق امین مرحوم، وزیر خان، عبدالعلی خان، عبدالودود، شاہ نادر اور شاکر الدین قابل ذکر ہیں۔ 1988 سے 2005 تک کوئی 30 ٹورنامنٹس میں، راقم بھی ایک منتظم اور کامنٹیٹر کی حیثیت سے حصہ لیتا رہا ہے۔ انہی ٹورنمنٹس سے کھلاڑی ابھرے اور قومی فٹبال ٹیم تک، جگہ بنانے میں کامیاب رہے۔ ان تمام خدمات کے پیش نظر، دیگرچترالیوں کو چاہئے کہ اس کام اور کاروبار کو ہدف تنقید بناکر، ان پر طنز کے تیر برسانے کی بجائے ان کی خدمات کا ادراک اور اعتراف کریں تاکہ چترال کے ہزاروں بیروزگار نوجوان کاروبار کی جانب راغب ہوجائیں اور خودکُشی پر مجبور نہ ہوجائیں۔

chitrali bazar peshawar5
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
53963

لاکھوں بچے اور بچیوں سے بدترین جنسی استحصال، انسانیت کی تذلیل ! – قادر خان یوسف زئی

کمسن بچوں اور بچیوں سے جنسی استحصال کی خبریں دل دہلانے والی ہوتی ہیں، ایسے واقعات سے انسانیت کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ کسی بھی معاشرے کی تہذیب و روایات کے ساتھ سماجی اقداروں کا موازنہ کرکے شرمناک واقعات کے اسباب و سدباب پر غور کرنا ناگزیر ہوگیا ہے۔ سخت سزاؤں کا خوف دلانے کے لئے قانون سازی و جرم ثابت کرنے کے لئے تفتیشی عمل ایک دقت طلب مرحلہ ہے۔ کسی بھی ایسے واقعے کو ثابت کرنے میں تاخیر سے متاثرہ بچے سنگین نفسیاتی الجھنوں کا شکار بن جاتے ہیں۔ آئے روز کسی نہ کسی علاقے میں جنسی زیادتیوں کے واقعات نے معاشرتی انحطاط پزیری کے اصل اسباب کو جاننے کی ضرورت کو اجاگر کیا ہے تاہم بااثر شخصیت اور سماجی و اخلاقی تقاضوں کے نام پر زبان بندی ایک ایسا مرض بن جاتا ہے جس میں مجرم بے خوف و متاثرہ فرد سنگین مسائل میں اپنی زندگی کو بوجھ سمجھنے لگتے ہیں۔  بچوں سے جنسی استحصال پر مخصوص ذہن رکھنے والے اپنی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ اور ریٹنگ بڑھانے کے لئے بھی متنازع معالات میں مخالف طبقات کے خلاف منفی پراپیگنڈا شروع کردیتے ہیں، کسی کے غلط فعل کو کسی مذہب یا قومیت سے جوڑنے کا عمل کبھی بھی اچھا نہیں سمجھا جاتا تاہم جہاں مذہب کے نام پر ایسے واقعات سامنے آئیں تو پھر معاشرتی بگاڑ کی درستگی کے لئے یہ سمجھنا انتہائی ضروری ہوتا ہے کہ غیر جانب دار اور تعصب سے بالاتر ہو کر بغیر کسی صنفی امتیاز،نگ نسل اورمذہب اس قسم کے واقعات کی روک تھام کے لئے آگاہی کی ضرورت  کو اپنایا جائے۔


پاکستان میں مخصوص مذہب بیزار طبقہ جنسی استحصال کے واقعات میں مذہبی شخصیات کے ساتھ ساتھ اُس کے ادارے، نظام اور درس و تدریس کو نشانہ بناکر یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں کہ تعلیمی ادارے و درسگاہیں مبینہ فحاشی و جنسی استحصال کی گڑھ ہیں۔ یہ ایک قابل مذمت سوچ و نظریہ ہے جس کومخصوص مفادات کے استعمال کرنے کی حوصلہ شکنی تمام طبقات کی یکساں ذمے داری بنتی ہے۔ گذشتہ دنوں فرانسیسی مذہبی رہنماؤں کے ہاتھوں لاکھوں بچوں کے ساتھ جنسی استحصال کی رپورٹس نے انسانیت کو ہلاکر رکھ دیا۔ فرانس اپنے مذہبی آزاد پسند نظریات کی وجہ سے دیگر مذہبی اکائیوں کے لئے متنازع ملک کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس ملک کے مقرر کردہ ایک کمیشن کی تازہ ترین رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ فرانسیسی پادریوں نے گذشتہ 70 برسوں میں دو لاکھ زائد ایسے بچوں کا جنسی استحصال کیا جن کی عمریں 10سے13برس کے درمیان تھیں۔بچوں سے جنسی استحصال کے واقعات کا کسی بھی مذہبی ادارے کے رہنماؤں اور سرپرستوں کے ساتھ وابستگی ان گنت لوگوں کے اعتماد کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کا سبب بن جاتا ہے۔


فرانس کے علاوہ مشرقی یورپ کے ملک پولینڈ میں بھی سیاسی اثر رسوخ رکھنے والے کلیسائی اداروں میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتیوں کے بڑی تعداد میں واقعات سامنے آئے۔ بچوں سے جنسی زیادتی کے واقعات پر تحقیق کرنے والے Jesuit پادری ایڈم ذاک کا کہنا تھا کہ 2018 سے لے کر گذشتہ برس کے آخر تک پولینڈ کے صرف ایک چرچ میں 368 جنسی استحصال کے واقعات رپورٹ ہوئے جبکہ کلیسائی اہلکاروں کی طرف سے جنسی زیادتی کے واقعات میں بچے اور بچیوں کی بڑی تعداد بتائی گئی ہے کہ ایک عشرے سے بھی زیادہ عرصے تک جنسی استحصال کیا جاتا رہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق آسٹریا میں 2010 تک 800 جنسی استحصال کے واقعات رپورٹ ہوئے جب کہ آئرلینڈ میں 14500، جرمنی میں 3677، فلپائین میں 200، آسٹریلیا میں 15000 اور امریکہ میں ایک اندازے کے مطابق ایک لاکھ بچوں کو جنسی استحصال کا نشانہ بنایا گیا۔ انگلینڈ اور ویلز میں سرگرم کئی مذہبی تنظیموں پر بچوں کے جنسی استحصال میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا گیا.ایک آزاد تحقیقاتی رپورٹ میں بھی ان الزامات کا ذکر ہے۔رپورٹ کے مطابق انگلینڈ اور ویلز میں بچوں کے جنسی استحصال میں ملوث کل38 تنظیمیں شامل ہیں.اس انکوائری میں  2015 سے لے کر 2020 کے دوران متعدد مذہبی تنظیموں کی چھتری تلے رونما ہونے والی سرگرمیوں اور کارروائیوں کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ اس دوران یہ واضح ہوا کہ بچوں کے ساتھ اس استحصالی عمل میں ملوث افراد یا تو مذہبی تنظیموں کے ملازم تھے یا پھر ان سے وابستہ افراد تھے اور جنسی استحصال کے تمام واقعات کو رپورٹ بھی نہیں کیا گیا۔تفتیش کاروں نے اپنی رپورٹ میں بیان کیا کہ مذہبی تنظیموں سے وابستہ افراد کی یہ استحصالی سرگرمیاں یقینی طور پر طاقت و اختیار کا غلط استعمال تھا۔ ایسے افراد کو مذہبی اکابرین کی سرپرستی اور کسی حد تک حمایت بھی حاصل تھی۔


نوبل امن انعام یافتہ کیلاش ستیارتھی کی ‘ کیلاش ستیارتھی چلڈرن فاؤنڈیشن‘ (کے ایس سی ایف)  کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق پولیس ہر سال بچوں کے خلاف جنسی استحصال کے درج تین ہزار شکایات کے بارے میں کوئی ثبوت اکٹھا کرنے میں ناکام رہتی ہے اور یہ معاملات عدالت پہنچنے سے پہلے ہی بند کر دیے جاتے ہیں۔یہ تحقیقاتی رپورٹ بھارتی حکومت کے جرائم کا اعدادوشمار رکھنے والے ادارے نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو(این سی آر بی) کی طرف سے 2017 سے  2019 کے درمیان حاصل کردہ ڈیٹا پر مبنی ہے۔ بھارت میں پربھوداسی نامی مبینہ روایت ساتویں صدی کے درمیان پروان چڑھی۔ مذہب کے نام غریب اور معصوم بچیوں کا بدترین جنسی استحصال کرنا شروع کیا جاتا ہے۔ انڈین نیشنل ہیومن رائٹس آف کمیشن کے مطابق 2013 میں دیو داسیوں کی تعداد 4 لاکھ 50 ہزار تھی جو 2017 میں پچاس فیصد بڑھی۔ زیادہ تر پربھوداسیاں آندھراپردیش، کرناٹکا اور مہاراشٹر میں ہیں، ان دیوداسیوں کی عمر 11 سے 15 برس کے درمیان ہوتی ہے۔ خیال رہے بھارت اور اریکہ کا شمار ان ملکوں میں ہوتا ہے جہاں خواتین، بچیوں اور لڑکیوں کے ساتھ سب سے زیادہ جنسی استحصال کیا جاتا ہے۔


 سال 2020 میں پاکستان کے چاروں صوبوں، اسلام آباد، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں بچوں پر جنسی تشدد کے مجموعی طور 2960 واقعات رپورٹ ہوئے۔یر سرکاری تنظیم ساحل کی جانب سے جاری رپورٹ کے مطابق پچھلے سال کی نسبت اس سال ان واقعات میں 4 فیصد اضافہ ہوا۔ساحل کی رپورٹ کے مطابق ان واقعات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس سال روزانہ 8 سے زائد بچے جنسی تشدد کا شکار ہوئے۔ اس سال بھی پچھلے سال کی طرح لڑکیوں کے ساتھ جنسی تشدد کی شرح لڑکوں کی نسبت زیادہ رہی-جاری اعدادو شمار کے مطابق سال 2020 میں 1510 لڑکیاں اور 1450 لڑکوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق مذہبی اسکولوں اور مدرسوں مں بچوں کے ساتھ جنسی استحصال کا رجحان انتہائی حد تک بڑھا ہوا ہے۔ تاہم اس طرح کے زیادہ تر واقعات منظر عام پر نہیں آتے۔ اے پی کے مطابق اس کی دو بڑی وجوہات میں ایک تو یہ کہ پاکستان جیسے ملک میں مذہبی مبلغ یا مدرسے کے اساتذہ بہت زیادہ با اثر ہیں اور دوسرا یہ کہ جنسی استحصال یا زیادتی کے معاملے پر بات کرنے کو شجر ممنوعہ سمجھا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے نہ تو معاشرے میں ان موضوعات پر زیادہ تر بات کی جاتی ہے اور نہ ہی عوام سطح پر اسے تسلیم کیا جاتا ہے۔


جنسی استحصال و کم عمر بچوں، بچیوں سے لے کر لڑکیوں اورخواتین کے ساتھ زیادتی کے واقعات کا اباافراط ہونا ایک انسانی المیہ ہے۔ مذہب کی آڑ میں ایسے شرم ناک جرائم کرنے والے اپنی جنسی خواہشات کے غلام تو قرار دیئے جاسکتے ہیں لیکن انہیں کسی بھی مذہبی اقدار سے نہیں جوڑا جانا چاہے۔ کوئی بھی مذہب اس قسم کے غلیظ و شرم ناک حرکات کی اجازت نہیں دیتا لیکن جنسی مریض جو کسی بھی لبادے میں ہوں، وہ جنسی استحصال میں مذہب، رشتہ اور انسانی و اخلاقی اقدار کو روند ڈالنے پر یقین رکھتے ہیں۔ اس مرحلے پر سب اہم و قابل توجہ ذمے داری والدین پر عائد ہوتی ہے کہ اپنے بچوں اور بچیوں کے تحفظ کے لئے اُ ن اقدامات پر توجہ مبذول کریں اور احتیاطی تدابیر اختیار کریں جو وقتاََ فوقتاََ سماجی مسائل کے حل سے منسلک تنظیمیں، ادارے یا حکومت جاری کرتے رہتے ہیں،انہیں جنسی استحصال کے سدباب کے لئے اُن اسباب کی حوصلہ شکنی کرنا ہوگی جس کے سبب مذہبی و انسانی اقداروں کو برباد کردیا جاتا ہے۔ بالا سطور میں درج اعداد و شمار اُن کمیشن کی رپورٹ سے اخذ کئے گئے جنہوں نے جنسی استحصال کے بڑھتے واقعات پر ذمے داروں کا تعین کیا۔ جنسی استحصال اور زیادتی کے واقعات سے بچاؤ کے لئے ہر سطح پر آگاہی، دنیا کے تمام ممالک کو یکساں دعوت فکر دیتی ہے کہ وہ ایسا مربوط نظام اپنائیں جس میں سنگین جرائم کا ارتکاب کم سے کم ہو۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
53961

بلدیاتی اداروں کی بحالی کی امید ۔ محمد شریف شکیب

دوسال کے طویل انتظار کے بعد بالاخر صوبے میں بلدیاتی اداروں کے قیام کی امید پیدا ہوگئی۔الیکشن کمیشن نے صوبے میں دو مراحل میں بلدیاتی انتخابات کا شیڈول جاری کردیاہے۔ پہلے مرحلے میں صوبے کے 17اضلاع میں 19دسمبر کو نیبرہڈ کونسل، ویلج کونسل اور تحصیل کونسل کے انتخابات ہوں گے دوسرے مرحلے میں صوبے کے باقی ماندہ 18اضلاع میں بلدیاتی انتخابات اور تحصیل کونسل کے چیئرمینوں کا چناؤ16جنوری کو ہوگا۔ خیبرپختونخوا حکومت نے صوبے میں 15 دسمبراور25مارچ کو دو مراحل میں بلدیاتی انتخابات کرانے کی الیکشن کمیشن کو تجویز دی تھی۔

محکمہ بلدیات خیبرپختونخوا کی جانب سے سیکرٹری الیکشن کمیشن کو لکھے گئے خط میں کہا گیاتھا کہ 15دسمبر کو نیبرہڈ اور ویلج کونسلوں کے انتخابات کرائے جائیں گے جبکہ تحصیل کونسل کے چیئرمینوں کا انتخاب25مارچ کو کیاجائے گا۔ تاہم الیکشن کمیشن نے صوبائی حکومت کی اس تجویز سے اتفاق نہیں کیا۔ سیکرٹری بلدیات نے اپنے خط میں موقف اختیار کیا تھا کہ صوبائی حکومت بلدیاتی اداروں کی مدت مکمل ہونے پر انتخابات وقت پر کرانا چاہتی تھی تاہم کورونا وبا، فاٹا انضمام، حد بندی اور مغربی سرحدوں پر امن وامان کے مسائل کے باعث بلدیاتی انتخابات کرانے میں تاخیر ہوئی۔خیبر پختونخوا میں بلدیاتی اداروں کی معیاد28اگست 2019کو ختم ہوگئی تھی۔ آبادی کے سرکاری اعداد وشمار کی اشاعت میں وقت لگنے، کورونا وبااور امن وامان کی صورت حال کے پیش نظر بلدیاتی انتخابات مسلسل التواء کا شکار رہے۔

الیکشن ایکٹ کی دفعہ (4) 219کے تحت بلدیاتی اداروں کی معیاد ختم ہونے کے بعد 120دنوں کے اندرانتخابات کا انعقادآئینی تقاضا ہے۔ صوبے میں آبادی کے اعدادوشمار 6مئی 2021کو شائع ہو چکے ہیں۔اس لئے انتخابات میں مزید تاخیرکا کوئی جواز نہیں رہتا تھا۔صوبائی حکومت کے مراسلے اورالیکشن کمیشن کے جاری کردہ شیڈول سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ بلدیاتی انتخابات دو درجاتی ہوں گے۔ شہری علاقوں میں نچلی سطح پر نیبر ہڈ کونسل اور بالائی سطح پر تحصیل اورٹاؤن کونسل ہوں گی۔جبکہ دیہی علاقوں کے بلدیاتی ادارے ویلج کونسل اور تحصیل کونسل پر مشتمل ہوں گے۔ ضلع کونسل کا تیسرا درجہ ختم کردیاگیا ہے۔ نیبرہڈ اور ویلج کونسلوں کے چیئرمین بلحاظ عہدہ تحصیل کونسلوں کے ممبران ہوں گے جبکہ تحصیل اور ٹاؤن کونسل کے چیئرمین کا انتخاب براہ راست ہوگا۔ ضلع کونسل کے خاتمے سے دفاتر، اعزازیے، ٹرانسپورٹ،بجلی، گیس، پٹرول اور دیگر مدات میں بلدیاتی اداروں کے انتظامی اخراجات میں خاطر خواہ کمی آئے گی اور یہ رقم عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ ہوسکے گی۔

بلدیاتی اداروں کی عدم موجودگی کے باعث نچلی سطح پر عوامی فلاحی منصوبے ٹھپ ہوکر رہ گئے تھے۔ جن میں سڑکوں اور نالیوں کی صفائی، پینے کے صاف پانی کی فراہمی، نکاسی آب، برتھ اور ڈیتھ سرٹیفکیٹس کا اجراء، ڈومیسائل سرٹیفکیٹ کی تصدیق، گلیوں اور نالیوں کی پختگی،بجلی و گیس کی فراہمی جیسے چھوٹے موٹے مسائل شامل ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ بلدیاتی نمائندے عام لوگوں کی پہنچ میں ہوتے ہیں وہ عوام کے دکھ درد اور غمی خوشی میں شریک رہتے ہیں۔عام لوگوں کو ایم پی ایز اور ایم این ایز تک رسائی نہیں ہوتی اور نہ ہی صوبائی وقومی اسمبلی اور سینٹ کے ممبران عام لوگوں سے رابطے میں ہوتے ہیں۔اکثر ایم این ایز اور ایم پی ایز منتخب ہونے کے بعد پانچ سال تک اپنے حلقے کا دورہ بھی نہیں کرتے ایسی صورتحال میں بلدیاتی نمائندوں کی عدم موجودگی عوام شدت سے محسوس کر رہے تھے۔

خیبر پختونخوا نے بلدیاتی انتخابات کروانے میں بھی دیگر صوبوں سے سبقت لے لی۔ حالانکہ صوبائی حکومت کے سامنے فاٹا انضمام کے بعد نئی حلقہ بندیاں کرانے اور وسائل کی کمی سمیت بہت سی رکاوٹیں تھیں۔ توقع ہے کہ خیبرپختونخوا حکومت صوبائی فنانس کمیشن کے تحت بلدیاتی اداروں کو عوامی فلاح و بہبود اور ترقی کے لئے خاطر خاطر وسائل بھی فراہم کرے گی تاکہ نچلی سطح پر عوام کے مسائل حل کرنے میں مدد مل سکے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
53959

داد بیداد ۔ معیشت کا معاشی علا ج نہیں۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

سابق

کیا واقعی خراب معیشت کا معاشی علا ج نہیں کیا معا شی بیما ریوں کے تما م طریقہ ہائے علا ج غیر معا شی ہیں؟ بظا ہر عجیب بات ہے لیکن اس میں سو فیصد صداقت ہے ما ہرین معیشت کا اسپر کا مل اتفاق ہے کہ معا شی مسائل صرف معا شیات کی مدد سے حل نہیں ہو سکتے ان کا سیا سی اور سما جی حل ڈھونڈ نا پڑتا ہے ہمیں شا ید اس بات کا یقین نہ آتا اگر ہم حکومت پا کستان کے سابق چیف اکا نو مسٹ ڈاکٹر پرویز طاہر کو مقا می کا لج میں گریجو یٹ اور پوسٹ گریجو یٹ سطح کے طلباء و طا لبات سے علمی گفتگو کر تے ہوئے انہماک سے نہ سنتے ڈاکٹر صاحب نے اپنے لیکچر کا آغاز ایک سوال سے کیا سوال یہ تھا کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے؟ پا نچ طا لبات اور تین طلباء نے سوال کے جواب میں افراط زر، آبادی میں اضا فہ، دولت کی غیر منصفا نہ تقسیم، گردشی قرضہ جا ت اور سودی قرضوں کو بڑے مسائل میں شمار کیا.

ڈاکٹر صاحب نے کہا میں اپنی بات غیر روایتی انداز میں شروع کر تاہوں غیر روایتی اسلوب یہ ہے کہ یہ سارے معا شی مسائل ہیں جو حقیقت میں ہمارے ملک کو درپیش ہیں مگر حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ان مسائل کا معا شی حل کوئی نہیں کیونکہ یہ مسائل معیشت کی وجہ سے پیدا نہیں ہوئے یہ تمام مسائل ہمارے سما جی، معاشرتی اور سیا سی رویوں کی وجہ سے پیدا ہوئے ان مسائل کو حل کر نے کے لئے سیا سی، سما جی اور معاشرتی رویوں کی اصلا ح نا گزیر ہے انہوں نے کہا کہ معا شی ما ہرین اگر پیداوار ی منصو بوں کے لئے بجٹ میں 50ارب روپے رکھتے ہیں تو سیا سی اور سما جی مجبوریوں کی وجہ سے یہ رقم غیر پیدا واری منصو بوں پر لگ جا تی ہے اور یہ ایسا مسئلہ ہے جو صرف معیشت کا نہیں سیا ست اور معا شرت سے تعلق رکھتا ہے دولت کی غیر منصفا نہ تقسیم، آبادی میں اضا فہ، سودی اور گردشی قرضوں کا تعلق بھی معیشت سے زیا دہ سیا ست اور معاشرت کیساتھ ہے.

افراط زر کا تعلق بھی ہماری سیا ست سے جڑا ہوا ہے جن ملکوں میں افراط زر آیا ان ملکوں میں دیکھا گیا کہ لو گ بوریوں میں کرنسی بھر کر بازار جا تے تھے اور جیبوں میں سودا لیکر واپس آتے تھے، شکر ہے پا کستانی اب بھی کرنسی جیبوں میں لے جا تے ہیں سودا بوریوں میں لیکر آتے ہیں ڈاکٹر پرویز طاہر نے لیکچر کے بعد حا ضرین کو سوالات کی دعوت دی طلباء اور طا لبات کے علا وہ فیکلٹی ممبر ز نے بھی تیکھے سوالات پوچھے سوالات کے جواب میں مہمان مقرر نے بڑے پتے کی ایک بات کہی بات یہ تھی کہ جب تک ہم ووٹر کی تر بیت نہیں کرینگے ہم کو جمہوریت کا فائدہ نہیں ملے گا معا شی ترقی کے ثمرات نہیں ملینگے ہمارے ہاں انتخا بی مہم انفرادی مسائل پر چلا ئی جا تی ہے ووٹر بھی انفرادی مسائل اور شخصی مفا دات کے لئے ووٹ دیتا ہے معیشت کو نہ انتخا بی مہم میں اٹھا یا جا تا ہے نہ پو لنگ بوتھ میں معیشت پر نظر رکھی جا تی ہے لیکچر سے پہلے پرنسپل ایوب زرین اور ان کے سٹاف نے معزز مہمان کا استقبال کیا پروفیسر غنی الرحمن نے سپاسنا مہ پیش کیا سرحد رورل سپورٹ پروگرام کے چیف ایگزیگٹیو افیسر شہزادہ مسعود الملک نے مہمان مقرر کا تعارف کرایا کا لج کے طلبہ اور طا لبات کے لئے ایک نادر مو قع تھا جب بین الاقوامی ما ہر معیشت کا پر مغز لیکچر سننے کا مو قع ملا ایسے مواقع بہت کم ہا تھ آتے ہیں۔

chitraltimes srsp chief economist speech gdc chitral 3
chitraltimes srsp chief economist speech gdc chitral 2
chitraltimes chief economics tahir speech chitral4
Posted in تازہ ترین, مضامین
53945

پہ خیر راغلے امریکی سفیر، لیکن ! – قادر خان یوسف زئی کے قلم سے

 پاکستان میں امریکی سفیر کی نامزدگی کے بعد صدر جو بائیڈن کے فیصلے کی توثیق امریکی سینیٹ کرے گا۔ افغان امور و سفارت کاری کا وسیع تجربہ رکھنے والے ڈونلڈ بلوم کی نامزدگی ایک ایسے وقت سامنے آئی ہے جب کہ امریکا بادیئ النظر افغانستان سے جاچکا اورسفارت خانہ بند ہے۔ خطے میں اہم ترین تبدیلیوں اور امریکا سمیت نیٹو ممالک کو تنوع صور ت حال کے باوجود بھی صدر بائیڈن کا وزیراعظم عمران خان سے رابطہ نہ کرنا،  مایوس کن رہا ۔ اب طویل عرصے کے بعد امریکی سفیر کی اسلام آباد میں موجودگی سے توقع کی جاسکتی ہے کہ پاکستان اپنا موقف زیادہ بہتر انداز میں پیش کرسکے گا اور نامزد امریکی سفیر جنہیں تیونس، افغانستان، اسرائیل اور بغداد میں سفارتی و سیاسی امور میں وسیع تجربہ حاصل ہے، انہیں پاکستان کے تحفظات کو سمجھنے میں بظاہر دقت کا سامنا نہیں ہوگا۔


امریکا  ایک انجانے خوف کا شکار دکھائی دیتا ہے۔ اس کی مثال ایک ایسے استاد کی ہے جس کے پنجہ ئ استبداد سے کم ازکم کچھ وقت کے لئے بعض بچے چھوٹنا چاہتے ہیں تو منظم ہو کرشرارت کرتے ہیں، ایک  بچہ آتے ہی کہتا اوہو! قبلہ خیریت ہے، آج کچھ طبیعت مضمحل سی نظر آتی ہے۔ تو موصوف فرماتے کہ ہاں بھائی، رات کچھ دیر سے سویا اچھی طرح نیند نہیں آئی۔ رفت گذشت،دوسرا ٓتا اور سلام کے بعد چہرہ پر متّردوانہ نگاہ ڈال کر پوچھتا کہ خیریت ہے! آنکھیں سرخ ہو رہی ہیں، چہرے پر کچھ تمازت کے آثار بھی ہیں، موصوف فرماتے کہ ہاں بھئی کچھ اعضا  ئ شکنی سی محسوس ہو رہی ہے، تیسرا ابھی آکر بیٹھنے بھی نہ پاتا کہ ایک گہری تشویش سے پوچھتا کہ حضرت، مزاج گرامی میں کچھ خرابی سی نظر آرہی ہے، اب استاد صاحب کا دل بھی ڈوبنا شروع ہوجاتا، فرماتے کہ ہاں حرارت سی محسوس ہو رہی ہے۔ چوتھا  بچہ ابھی آنے بھی نہ پاتا کہ استاد صاحب حجرے میں دراز اور نبض پر ہاتھ رکھو تو سچ مچ تپ چڑھتی نظر آتی۔


اب استاد صاحب کے بخار آجانے کا واقعہ فسانہ ہو یا حقیقت، لیکن اس میں کچھ کلام نہیں کہ پراپیگنڈااگر منظم طریقہ سے کیا جائے تو فی الواقع قلبِ ماہیت پیدا کردیتا ہے، اشیا ء کی نوعیت اور دیکھنے والوں کی نگاہوں کے زاوئے بدل دیتا ہے۔ جو چاہتا ہے منوالیتا ہے اور جس طرح چاہتا ہے تسلیم کرا لیتا ہے۔ پاکستان ابھی معرض ِ وجود میں آیا ہی تھا کہ بھارت کے اربابِ عقد کو اس سے خطرہ محسوس ہوا، اسلام کے نام پر بنی والی ریاست کے خلاف مسلسل پراپیگنڈا کرنے کا سلسلہ جاری ساری ہے، امریکا، برطانیہ اور یورپ بلاجواز خوف میں مبتلا ہوکر بخار میں مبتلا ہیں، ارباب ِ سیاست کے پیش نظر کچھ اپنی مصلحتیں، کچھ اسلام فوبیا کے شکار اپنی سیادت کا تحفظ چاہتے تھے چنانچہ دونوں گروہ اس مشترکہ مقصد کو لے کر اٹھے اور زبان و قلم کے زور سے پاکستان اور افغانستان کی ایک ایسی بھیانک تصویر کھینچی کہ غیر تو غیر خود اپنے بھی جب اس کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھتے ہیں تو کانپ کر رہ جاتے۔ یورپ، برطانیہ،امریکا اور بھارت پرمخصوص پراپیگنڈاکا تسلط بڑھتا چلا گیا اور مسلم مخالف قوتوں نے دونوں مسلم اکثریتی ممالک کی تصویر کے جو ایڈیشن شائع کئے۔ دل و دماغ کے چوکھٹوں میں فریم کراکر رکھے گئے۔

اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج دنیائے تہذیب و تمدن میں جب بھی اسلام کے ساتھ پاکستان اور افغانستان کا نام آتا ہے تو قتل و غارت گری، دہشت گردی، انتہا پسندی، شدت پسندی، بربادی اور تباہی، ہلاکت و خوں ریزی، جورو تظلّم، ستم و استبداد کے خونی مناظر ایک ایک کرکے نگاہوں کے سامنے کسی فلم کی طرح چلائے جاتے ہیں کہ جیسے ان سب خونی مناظر کے ہدایت کار، فلمساز، اداکار اور تمام پروڈوکشن ان دو ممالک کی ہی ہے۔


اسلا م فوبیا  کے عفریت نے جیسے افغانستان اور پاکستان کو کسی قہر خداوندی سے دوچار کردیا ہو کہ اس سیلاب بلا، اس طوفان میں تہذیب و تمدن، علم عمرانیت، عدل و انصاف، عفت و عصمت، مذہب و مسلک ایک ایک کرکے جڑ سے اُکھڑتے چلے جاتے ہوں، مظلوموں کی فریاد، یتیموں کی آہ و بکا، بیاوؤں کا نالہ و فغاں آسمان تک جاتا اور ٹکرا کر واپس آجاتا ہے۔ منظم پراپیگنڈوں نے دونوں مسلم اکثیریتی ممالک کو دنیا کے سامنے اس طرح پیش کیا ہے کہ جب تک یہ ہیں،ان کے دیس میں قیامت صغریٰ گذرے گی، آبادیاں ویران ہوجائیں گی، بستیاں اُجڑ جائیں گی، لائبریاں، کالج یونیورسٹیاں جل کر راکھ کا ڈھیر بن جائیں گے۔تہذ ب و تمدّن کے آئینہ ْسر ِ شاہی کھنڈرات میں تبدیل ہوجائیں گی، انہیں خوابوں میں ٹوٹی ہوئی صلیبوں کے انبار نظر آتے ہیں، کسی جگہ زنّار کا ڈھیر دکھائی دیتا ہے، مندر ویران، گرجے مسمارر، نہ برہمن کو امن نہ کلیسا کے راہب کو سکون، نہ عورتیں محفوظ،نہ بچے مصؤن، قتل کردیئے جائیں گے جو بچ جائیں تو ناک میں نکیل ڈلائے حبشی سرداروں کے کوڑے کھاتے نخاس کی طرف گھسٹتے لئے جائیں گے کہ وہاں انسانیت عظمیٰ دو دو ٹکوں میں فروخت کی جائے۔ غرض یہ ہے کہ یہ ہے وہ تصویر جو امریکہ، برطانیہ، یورپ اوربھارت اپنی عوام کو دکھارہے ہیں کہ جسے دیکھ کر آنکھ کی پتلیوں میں سکتہ پیدا ہوجاتا ہے اور دیکھنے والوں کا خون کھول اٹھے۔ حقارت و تنفر انتقام و مواخذہ کے بخارات قلب سے اٹھ کر دماغ پر چھا جائیں اور اس عالم سوز تہذیب اور ننگ انسانیت تمدن کو امن و سلامتی کی دنیا سے مٹا دینے کی مختلف تادبیر و خیالات جولانگاہ بن جاتے ہیں۔


پاک۔افغان  تہذیب و تمدن کو تلوار اور آگ کی نسبت سے انسانیت سوز سمجھنے ہونے والوں کو جاننا ہوگا کہ اصلیت کیا ہے۔  دین اسلام اور دونوں ممالک کی سماجی و معاشرتی اصل اساس کو مسخ کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے، کسی فرد واحد کی ذاتی اختراع و مفادت  کو پاکستان اور افغانستان کی تاریخ و تمدن نہ سمجھا جائے۔ امریکا اپنے سفیر کو پاکستان میں اس حقیقت کو سمجھنے کے لئے بھیجے کہ آخر امریکا کو پاکستان نے کس میزائل سے نقصان پہنچایا، اس کے کن مفادات کو سولی پر چڑھایا، کس مفاد پرکیل ٹھونکی۔ امریکی سفیرکو سمجھنا ہوگا کہ پاکستان چاہتا ہے کہ اسے اپنا کھلونا سمجھنے کے بجائے مفاداتی برابری کی بنیاد پر تعلقات قائم رکھے، کسی ضدی بچے کی طرح پاک۔ افغان کو جب دل چاہے کھیلنے اور توڑنے کی روش کو ختم کرے۔ 

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
53894

دھڑکنوں کی زبان – الخدمت کی کامیابی-اجتماعی شادی- محمد جاوید حیات ”


فلاح اور نیکی کا کام جو بھی کرئے قابل تحسین ہے۔۔وہ فرد ہو کوئی ادارہ ہو یا حکومت۔۔ اس کی قدر ہونی چاہیے اس پرُ اشوب دور اور اس بے ہنگم معاشرے میں لوگوں کو اپنی جان کی پڑی ہو ان کے تکالیف کو محسوس کرنا ان کی بے لوث خدمت کرنا اور ان کی مدد کرنا بھلائی کا کام ہے اس خود عرض اور لالچ کے دور میں اچھے خاصے انسان پتھر ہیں۔۔ درندے ہیں۔۔اگر فلاح انسانیت کی فکر ہوئی تو اُمید باندھی جاسکتی ہے کہ فکر انسان کی چنگاری بجھی نہیں۔آج کل ملک خداداد میں مہنگائی نے لوگوں کی کمر توڑ کے رکھ دی ہے زندگی کی گاڑی کچھنا مشکل ہوگئی ہے لوگ بچیوں کی رخصتی اور بیٹوں کے رشتوں سے معذور ہو گئے ہیں کتنی قوم کی بیٹیاں اپنی جوانیاں کھو رہی ہیں۔ اپنی زندگیاں رشتے کے انتظار میں برباد کر رہی ہیں ان کے سامنے صرف غربت رکاوٹ ہے۔

chitraltimes alkhidmat mass marriages chitral

جہیز اور اخراجات رکاوٹ ہیں۔۔اگر فلاحی معاشرہ ہو، اگر اسلامی اقدار رائج ہوں تو نکاح آسان ہو جائے اور معاشرہ مایوسی اور بُرایوں سے پاک ہو جائے۔ مگر یہ سب خواب ہیں۔۔ مگرملک میں کچھ سیاسی پارٹیاں اور کچھ نجی ادارے اس کی فکر کر رہے ہیں حال ہی میں چترال میں الخدمت فاونڈیشن کی ایک احسن کاوش اجتماعی شادی کی تھی جس کو معاشرے کے سارے طبقوں نے سراہا۔۔جماعت اسلامی اور الخدمت فاونڈیشن اس کے کریڈٹ کے مستحق ٹھہرے۔۔

الخدمت فاونڈیشن کے نوجوان اور فعال صدر نوید احمد بیگ کوہکان کی کوشیشیں اور خدمات میں اللہ برکت دے کہ انھوں نے یہ کارنامہ انجام دیا۔چترال کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے پندرہ نوجوان جو اپنی شادی کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے تھے دلہے اپنے ولیمے کے اخراجات اور دلہنیں اپنی رخصتی کے سامان نہیں خرید سکتے تھے ان کی شادی کرائے۔اجتماعی شادی میں ایک ہزار افراد کے لیے ولیمے کا بندوبست کرایا دوہزار سے زیادہ لوگوں نے اس ولیمے میں شرکت کی۔ہر بیٹی کے لیے 150000روپے کے سامان خریدے گئے جس میں بیڈ، سنگار میز، واشنگ مشین،استری،پھنکا،میک اپ اور عروسی کے سامان شامل تھے۔

ہر بیٹے کے لیے شادی کے سوٹ وغیرہ شامل تھے یہ سامان دیکھ کر آنکھوں میں آنسو آگئے۔۔اس بیٹی کا قصور یہ ہے کہ وہ غریب ہے۔ لیکن اس کاوش سے واضح ہوا کہ وہ بے سہارا نہیں۔الخدمت فاونڈیشن کی طرح سہارا ان کے پاس ہے۔

الخدمت

نوید احمد بیگ کوہکان قوم کے درد مند بیٹے ہیں۔۔ان کی ٹیم فیصل کمال جنرل سکرٹری الخدمت فاونڈیشن،عبدالعزیز خان رضاکار اور خدمت سے سرشار نوجوان،عمیر خلیل،مجاہد ضیاء الحق،سمیع الدین ریس وغیرہ وہ مخلص اور درد رکھنے والے نوجوان ہیں جو ایسے کار خیر میں تن من دھن سے شریک رہتے ہیں ان کی خدمات بھلائے نہیں جا سکتے۔پریڈ گراونڈ میں جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی امیر سراج لالہ جلوہ افروز تھے جماعت کے ضلعی امیر اور دوسرے اکابریں تشریف فرما تھے۔۔

alkhidmad foundation weeding ceremony chitral

اچھی اور حوصلے کی ایک اور بات جو دیکھنے میں آئی وہ یہ تھی کہ پولیس کے ضلعی آفیسر ڈی پی اومحترمہ سونیہ شمروز صاحبہ اور ایس پی انوسٹیگیشن محمد خالد بھی موجودتھے۔ہمارے آفیسرز کی ایسی سوشل روایات نہیں وہ اپنے آپ کو عوام اور ہجوم سے پرے سمجھتے ہیں ان کی شناخت ان کا حکم ہوتا ہے مگر یہ آفیسرز عوام کا درد رکھنے والے ہیں۔۔عوام میں رہنا عوام میں جینا چاہتے ہیں یہ ان کی عظمت ہے ممکن ہے یہ بھی ایسے فلاحی کاموں کی آرزو رکھیں اور اپنے طور پر ان کو ممکن بنائیں کیونکہ ڈ ی پی اوصاحبہ ایک بیٹی کا درد سب سے زیادہ محسوس کرئینگی اور ایس پی صاحب کی اپنی بیٹیاں ہیں ان کے دل کو بھی دھڑکنا چاہیے۔

سراج لالہ کا خطاب ایک پیغام تھا یہ اسلام کا درس ہے اسلام درس انسانیت دیتا ہے اللہ کے نبیؐ نے اس اُمت کو ایک جسم سے تشبیہ دی۔۔ہم اگر اپنے ارد گرد دیکھنے اور محسوس کرنے کا مشق کریں تو کتنی آنسو بھری آنکھیں ہمیں تک رہی ہیں کتنے محروم و مقہور ہماری مدد کے منتظر ہیں۔۔اپنے بچوں کی خوشیوں پر کروڑوں خرچ کرتے ہوئے یہ مستنڈے سوچیں کہ کتنے اور بچے مسرتوں سے محروم ہیں تو یہ دنیا جنت بن جائے۔پشاور کے جماعت اسلامی کے ایک کارکن نے ان اخراجات میں اپنا سب سے زیادہ حصہ ڈالا ۔۔۔اس کے ساتھ چترال کے مخیر حضرات نے اس کار خیر میں بڑھ چڑ کر حصہ لیا اور یہ امید پیدا ہوگئ کہ اگر اس طرح کی کاوش ہوگی تو چترال میں بھی ایسے افراد کی کمی نہیں جو نیکی کے کاموں کسی سے پیچھے رہیں ۔خوش قسمت ہیں وہ جنہوں نے پندرہ جوڑوں کی مسرتیں اور دعایں اپنے نام کر دیں ۔۔

alkhidmad foundation weeding ceremony chitral4

Posted in تازہ ترین, مضامین
53885

چترال انٹر پرینیور شپ ایکسچینج ایکسپوزیم چترالی طلبہ کے لئے عظیم تحفہ ۔ تحریر: اشتیاق احمد

گلوبلائزیشن کے اس دور میں دنیا کے لوگ ایک دوسرے کے اتنے قریب آچکے ہیں کہ ایک دوسرے سے رابطہ اور کسی بھی ملک کے بارے میں جانکاری،معلومات اور ویڈیو کالز کے ذریعے سات سمندر پار بیٹھے ہوئے افراد سے بھی قربت کا اتنا گمان ہو جاتا ہے جیسے وہ ہمارے سامنے بیٹھے ہوئے ہوں اور اسی لئے دنیا کو گلوبل ویلج کہا جانے لگا ہے۔


انڈسٹریل انقلاب کے اس دور میں انسان کو ہونے والے اقدامات، تبدیلیوں کے بارے میں آگاہی اور اپنے آپ کو اس سانچے میں ڈھالنے کیلئے مشینوں کا استعمال مجبوری بن گیا ہے اور اپنے آپ کو ان تبدیلیوں کے ساتھ ایڈجسٹ کرکے اس سانچے میں ڈھلے بغیر آگے بڑھنا دیوانے کے خواب کے علاوہ کچھ نہیں اور ہاتھ کے بجائے مشین سے مستفید ہونے کا عمل اپنے عروج کو پہنچ چکا ہے۔


چترال جیسے پسماندہ اور دور آفتادہ ضلع لیکن بہتر شرح خواندگی سے لیس علاقے میں بھی جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے اور ان کے استعمال کو آسان بنانے کیلئے چترال گرم چشمہ سے تعلق رکھنے والی نگہت اکبر شاہ صاحبہ کے دل میں ایک تڑپ اٹھ جاتی ہے اور میدان میں کچھ کر گزرنے کا خیال پیدا ہو جاتا ہے۔


نیشنل انکوبیشن سنٹر پشاور اور چترال یونیورسٹی کے تعاون سے چترال یونیورسٹی میں چترال انٹر پرونیور شپ ایکسچینج ایکسپوزیم (این آئی سی) کے تحت طلبہ کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے لئے دو مہینوں پر محیط ایک ٹریننگ کا آغاز کیا گیا جس کے لئے پورے چترال سے تقریباً سات سو پچاس کے لگ بھگ طالب علموں نے اپلائی کیا اور قابلیت اور اہلیت جانچنے کے بعد سو طلبہ کو اس کے لئے اہل ٹھرایا گیا۔ان دو مہینوں کے کورس میں طلبہ و طالبات کو بلاگنگ اینڈ کنٹنٹ رائیٹنگ جس کے ماسٹر ٹرینر جناب شفیق احمد،گرافک ڈیزائیننگ کی جناب محمد طییب، ڈیجیٹل مارکیٹنگ اینڈ ای کامرس جناب محمد نایاب، ورڈ پریس جناب آدیب حسین اور فوٹو گرافی اینڈ ویڈیو فلمنگ کے ماسٹر ٹرینر جناب عدنان الدین کی نگرانی میں ٹریننگ حاصل کریں گے یہ ماسٹر ٹرینرزحالیہ دنوں میں پشاور میں ہونے والے اس شعبے کی ٹریننگ حاصل کرکے آئے ہیں۔


چوتھے انڈسٹریل ریوالوشن کے تقاضوں کے مطابق چترال کے طلبہ و طالبات کو اس بڑے چیلنج سے نبرد آزما کرانے کے لئے یہ اپنی نوعیت کا پہلا کارنامہ ہے جس کے لئے بجا طور پر نگہت اکبر شاہ صاحبہ داد کے مستحق ہیں اور چترالیوں پر یہ ان کا بڑا احسان ہے۔ایک اندازے کے مطابق 2030 تک موجودہ سکلز تقریباً نا پید ہو جائیں گے اور آنے والے نئے چیلنجز اور ختم ہونے والے سکلز کی جگہ نئے اور جدید سکلز لیں گی اور ان دو مہینوں کی ٹریننگ سے یہ طلبہ و طالبات آپنے آپ کو ان چیلنجز کے لئے ہر حوالے سے تیار اور لیس کریں گے اور گھر بیٹھے لاکھوں روپے کمانے کی پوزیشن میں ہونگے، وہ وقت دور نہیں جب چترال کے طلبہ و طالبات اس جدید ٹیکنالوجی کے استفادے سے اپنے خاندانوں کی بہتر انداز میں کفالت کر رہے ہونگے۔

چونکہ پاکستان دنیا کا چوتھا فری لانسنگ والا ملک بن چکا ہے اور چترال کو بھی اس شعبے میں آگے لانے کے لئے جو قدم نگہت اکبر شاہ صاحبہ نے اٹھائی ہے اور اس کورس کو فنڈ کر رہی ہیں اسی سے ان سو افراد کے توسط سے ہزاروں افراد مستفید ہونگے اور انھیں اپنے قدم پر کھڑا کرنے میں ممد و معاون ہونگی۔

پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں بیروزگاری اپنے انتہا کو پہنچ چکی ہے اور ایک اندازے کے مطابق پینسٹھ لاکھ ایسے گریجویٹس ہیں جو ابھی تک روزگار کی تلاش میں سرگرداں ہیں تو اس طرح کے ٹریننگ پروگرامز کے ذریعے سے ان کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرتے ہوئے اس کا دائرہ کار مزید علاقوں تک بڑھانے کی ضرورت ہے اور اس تحریر کے توسط سے ہم ان سے یہ استدعا بھی کرتے ہیں کہ پورے چترال کے طلبہ و طالبات کو اس سے استفادے کا موقع مل سکے۔یونیورسٹیز سے فارغ التحصیل طلبہ جو اتنی بڑی تعداد میں اس ملک میں مقیم ہیں اس طرح کے پروگرامات سے مستفید ہو کر ملک و قوم کی بہتر خدمت کر سکیں اور اس طرح کے پروگرامات کے انعقاد سے چوتھے انڈسٹریل ریوالوشینز سے استفادہ ممکن ہو سکے اور پھر یہ خوشحال پاکستان کا ضامن بن سکے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ اس طرح کے پروگرامات کی ہر طرف سے سرپرستی اور پذیرائی ہونی چاہئے اور کوئی بھی طالب علم اس سے مستفید ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور اپنے آنے والی نسلوں کو دنیاکے اندر پیش ہونے والی تبدیلیوں اور انقلابات کے لئے پیشگی تیاری سے مزین پائیں۔۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
53874

داد بیداد ۔زوال۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

داد بیداد ۔زوال۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

ما ضی پر ستی ایک بیما ری ہے اس نفسیا تی عارضے کو انگریزی میں نا سٹلجیا کہتے ہیں اس بیما ری کا مریض زما نہ حال سے نا لا ں رہتا ہے ما ضی کو یا د کر تا ہے اور ہر وقت ما ضی کی یا دوں میں کھو یا رہتا ہے اگر آپ کہدیں آج مو سم خو شگوار ہے تو وہ 100سال پہلے کے مو سم کی کہا نی سنا ئے گا آپ اگر کہہ دیں آج پا کستان کو بڑی کا میا بی ملی ہے تو وہ 50سال پہلے کی کسی کا میا بی کا قصہ لے کر بیٹھ جا ئے گا اس کو زما نہ حال کے ہر بڑے کا م سے زما نہ ما ضی کا چھوٹا واقعہ بھی اچھا لگیگا آج کل یہ بیما ری بہت عام ہے شہر کے بڑے محلے کے لو گوں کو عوامی مسا ئل کے حل پر تجاویز دینے کے لئے مقا می سکول کی عما رت میں بلا یا گیا سر کاری حکا م اور اخبار نویس بھی مو جو د تھے محلے کے 20عما ئدین کو اظہار خیال کی دعوت دی گئی ان میں سے 18عما ئدین نے اپنی تقریروں میں گذرے ہوئے دور کے ملک صاحبان، جا جی صاحبان، مولوی صاحبان اور بی ٹی کے ممبروں کا ذکر کیا ان کی تقریر وں کا خلا صہ یہ تھا کہ ہمارا محلہ قیا دت سے محروم ہے مو جو دہ قیا دت مسا ئل حل کرنے میں نا کام ہوگئی ہے.

جن دو معززین نے ما ضی کی ”درخشان روایات“ کا ذکر نہیں کیا ان کا تعلق ”مو جودہ قیادت“ سے تھا یہ ایک محلے کی کہا نی نہیں ہر گاوں کی کہا نی ہے سطح سمندر سے 9000فٹ کی بلندی پر واقع پہا ڑی گاوں کی آبادی اگر ایک ہزار نفوس پر مشتمل ہے تو ان میں سے 900لو گ گذر ے ہوئے ممبروں اور ملکوں کو یا د کر کے مو جو دہ قیا دت پر نفریں بھیجتے ہیں شہر کے محلے میں واقع سکول کی تقریب میں باہر سے آیا ہوا مہمان بھی بیٹھا تھا مہمان جہا ندیدہ اور تجربہ کار تھا اُس نے محلے کے عما ئدین کی اجا زت سے اظہار خیال کر تے ہوئے بڑے پتے کی ایک بات کہی اُس نے کہا آپ لو گ اللہ پاک کا شکر ادا کریں آپ کو آزاد وطن ملا ہے ہمارے اباو اجداد غلا می کی زند گی گزار کر فوت ہوئے آپ مو جو دہ دور کی جن محرومیوں کا ذکر کر تے ہیں ان کا تعلق صرف آپ کے محلے سے نہیں یہ محرومیاں ہر شہر، ہر گاوں اور ہر محلے میں پا ئی جا تی ہیں .

وجہ یہ ہے کہ ہمارا طرز بود وباش بدل گیا ہے ہماری ضروریات بڑھ گئی ہے 100سال پہلے یا 50سال پہلے ایسی ضروریات نہیں تھیں بجلی اور گیس کے مسا ئل نہیں تھے وائی فائی اور فو جی کا نا م کسی نے نہیں سنا تھا نہ ڈالر کے ریٹ سے کسی کو سرو کارتھا نہ سٹاک ایکسچنج سے کسی کا لینا دینا تھا ہم کو مو دہدہ دور کی بیش بہا نعمتوں پر ہر وقت اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چا ہئیے مہمان مقرر نے اگر چہ تصویر کا دوسرا رخ سامنے رکھ دیا لیکن یہ بھی پورا سچ نہیں زوال آیا ہے اور زوال کی رفتار بڑھ رہی ہے.

مختار مسعود کی کتاب آواز دوست 1976ء میں پہلی بار شائع ہوئی اسکا ایک باب ”آٹو گراف بک“ ہے مصنف لکھتا ہے کہ میرے والد کی وصیت تھی ہر کسی کا آٹو گرا ف نہ لیا کرو صرف بڑی شخصیات کا آٹو گراف لیا کر و انہوں نے 1976ء میں آٹو گراف بک کو بند کیا وہ لکھتا ہے کہ زمین بانجھ ہو گئی ہے دھر تی نے عظیم شخصیات پیدا کر نا بند کردیا ہے وہ ایوب خا ن اور بھٹو کی حکو متوں میں بڑا افسر تھا مگر اُس نے ایوب خا ن اور بھٹو کا آٹو گراف نہیں لیا وہ لکھتا ہے کوئی ٹا ئن بی اور عطا ء اللہ شاہ بخا ری جیسی شخصیت نظر آتی تو آٹو گراف بک کو بند نہ کر تا محلے کے بزرگ اپنے محلے میں قیا دت کے زوال کا رونا رورہے تھے .

ہم نے سوچا پورے ملک کی قیا دت زوال کے دور سے گذر رہی ہے عالم اسلا م کی قیا دت زوال پذیر ہے محمد علی جناح، علا مہ اقبال، سلطان محمد شاہ آغا خا ن سوم، نواب بہا در یا رجنگ، عطاء اللہ شاہ بخا ری جیسے نا بغہ روز گار لو گ پھر پید انہیں ہوئے سوئیگا ر نو اور مصطفٰے کمال اتاترک جیسے لیڈر پیدا نہیں ہوئے دنیا کے نقشے پر نظر دوڑا ئیں تو فیڈ ل کا سترو عظیم شخصیات کی فہرست کا دوسرا آخری شخص تھا ان کے بعد صرف نیلسن منڈیلا آیا اور عظیم شخصیات کا باب بند ہوا بات ہمارے ملک، محلے اور گاوں پر ختم نہیں ہو تی پوری دنیا بانجھ پن کا شکار ہے عالم اسلا م پر بھی بانجھ پن طاری ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
53855

جناب شاعری  کیجیے! نفرت مت پھلائیے – تحریر: نورالھدٰیٰ یفتالیٰ

جناب شاعری  کیجیے! نفرت مت پھلائیے

شاعری کریں لیکن  بھٹوارہ مت  کیجیے

معاشرے میں تین  طبقے  کے لوگ محبت اور آمن کے داعی ہوتے ہیں،شاعر،کھلاڑی،ڈاکٹر

یہ طبقہ  نفرت  کو محبت میں بدلنے کا ہنر  خوب جانتے ہیں،یہ  اس سماج میں  نفرت کو بھی محبت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں،اور محبت کوگلے لگا لیتے ہیں،یہ طبقہ  انسانیت کی ہونٹوں پرمسکراہٹین  بکھیرنے کا واحد ذریعہ ہیں۔اس طبقے کی سوچ بھی اجتماعی ہوتی ہے،اس طبقے سے معاشرےمیں  ہرمکتب فکر متاثر ہوتے ہیں، یہ  طبقہ  مشترکہ  ہوتا ہے ،ان کی کوئی سرحد کوئی لکیر، کوئی،تقسیم   ناممکن ہے۔

شاعر اپنے شاعری سے      نفرت کو محبت میں بدل دیتا ہے،انکی شاعری  سب لیے ہوتاہے۔ڈاکٹر  کو اس سماج میں مسیحا سمجھا جاتا ہے۔ایک مریض کے لیے اللہ  تعالیٰ  کے بعد آخری امید  ایک معالج ہی ہے۔ایک کھلاڑی اپنے ہنر  سے اپنے لئے داد وصول  کر لیتا ہے،وہ چاہے  جس  نسل  جس رنگ  جس طبقے  کا بھی کیوں  نہ ہو  وہ سب کے واسطے  ایک ہی  ہے۔لیکن ان سب کو  تقسیم کر نے والا  ہم جیسے لوگ  ہیں،کسی قوم کی شناخت اُس کی ثقافت سے کی جاتی ہے۔ قوم کے افراد جب مل جل کر ایک جگہ پر رہتے ہیں تو اُن کے رسم رواج، رہن سہن، بول چال یہاں تک کہ کھیل، خاندانی قوانین بھی قدرے مشترک ہو جاتے ہیں۔

جناب من شاعری کیجیے  لیکن خدارا نفرت مت پھلایئے!

انسان فطری طور پر محبت پسند ہے اور دنیا میں محبت کا پیغام پھیلانے آیا ہے لیکن اس کے باوجود دنیا کے بہت سے علاقوں میں ہر طرف نفرت کی وہ آگ بھڑک رہی ہے جس نے پوری سماج کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ انسان فطری طور پر ، امن پسند، محبت کرنے اور محبت چاہنے والا ہے جبکہ یہی انسانی جذبہ نفرت اپنے ارد گرد کے ماحول سے کشید کرتا ہے ۔ کسی بھی انسان کی سوچ  پیداشی نفرت کی طرف مائل نہیں اور نہ ہی یہ منفی رجحان جذبہ محبت کی طرح ایک فطری جذبہ ہے بلکہ یہ جذبہ یا منفی رجحان دیگر ناگوار و ناپسندیدہ رویوں کے ردعمل کے طور پر پیدا ہونے والا منفی رجحان ہے۔اس معاشرے میں  حضرت انسان پر یو ں تو کئی سماجی ذمہ داریاں عائد  کر دی گئی ہیں۔جو اپنے زندگی میں ان ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے نبھاتے ہیں،اور  اس دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی ان کی سماجی خدمات  ان کی عظیم  ہونے کی گواہی دیتے ہیں۔

قوم اور قوم پرستی جیسے تصورات کی حیثیت بالائے تاریخ یا ماورائے سماج نہیں ہے کہ جو ازل سے موجود تھے اور ابد تک موجود رہیں گے۔لیکن قوم پرستی کوبنیاد بنا کر    طعنے  بازی  معاشرے کو زوال کی طرف لے جاتا ہے۔قوم پرستی ایک خطرناک موذی مرض ہے اس سے ہر مسلمان کو آگاہی ہونا بہت ضروری ہے تبھی ہم اس خطرناک مرض سے بچ سکیں گے، کیا وجہ ہے کہ ہم ایسی بیماری جو انسان کی جان لےسکتی ہے سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں مگر ایسا مرض جو ایک انسان کی ہی نہیں پوری انسانیت کے لیے موت کا پیغام ہے سے بچنے کی تدبیر نہیں خود احتسابی دنیا کے مشکل ترین کاموں میں سے ایک ہے، کیونکہ انسان اپنی فطرت کیمطابق خود کو خامیوں سے پاک سمجھتے ہوئے تمام غلطیوں کا ذمے دار دوسروں کو ٹھہراتا ہے۔کررہےہیںیہ دین ہمیں انسانوں کے ساتھ پیار و محبت کا درس دیتا ہے، مخلوق اللہ کا کنبہ ہے اور وہ شخص اللہ کو زیادہ محبوب ہے جوا س کے کنبے کے لئے زیادہ مفید ہو۔

ہم ایک ہیں،ایک تھے اور ایک ہی قوم رہینگے۔

ہمار ی چھترار  ہماری پہچان​

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
53844

دھڑکنوں کی زبان ۔ نرخ بالا کن ۔ محمد جاوید حیات


تیل اور دوسری سب چیزوں کی قیمتیں بڑھانا شاید تمہاری مجبوری ہو لیکن اس میں شک اس لیے پڑتا ہے کہ مجبوری میں عیاشیاں نہیں ہوتیں۔عظیم راہنما”میری قوم“ کہا کرتے ہیں اور ہمہ وقت قوم اور قوم کے اوقات ان کی نظروں میں ہوتے ہیں۔حکمران تو کسی بھی قوم کا چہرہ ہوتا ہے اس کی ناموس اس کی پہچان۔۔تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ حکمرانوں کو تو تاریخ زبانی یاد ہونی چاہیے۔ہم اسلامی ملک میں رہتے ہیں اسلامی تاریخ۔۔۔ اگر نہیں تو چرچل شی گویرا کاسترو نلسن منڈیلا جرمنی کی سابقہ چانسلر جو کرایے کی فلیٹ میں رہتی ہے ان کی زندگی اور تاریخ سے تو واقفیت ہو۔۔یہ سب اپنی قوم کے چہرے تھے قوم کی عیاشیاں اور ساتھ دکھ ان کے چہروں سے عیان ہوتے۔ایسا نہیں کہ وہ آرام دہ گاڑیوں میں پھیریں اور قوم پیدل ٹھوکریں مارتی پھرے۔۔وہ اپنے سامنے ہفت خوان سجائیں اور قوم کا چولہا نہ جلے ایسا کبھی نہیں ہوا۔۔ہم ذرا ان سے مختلف ہیں۔۔

ہم اس لیے کسی مجبوری کا ادراک نہیں کر سکتے۔دکھ درد بانٹنے والے حکمران ہوتے اشک شوئی کرنے والے راہنما ہوتے تو ہم قبول کرتے کہ ان کی بھی مجبوریاں ہیں۔ ہم مانتے ہیں کہ ہم میں قناعت نہیں لیکن ہم مقابلے کے معاشرے میں رہتے ہیں ہم اپنے اردگرد میں جکڑے ہوئے ہیں جس کے ارد گرد دولت کی ریل پیل ہو وہ بے موت مرتا ہے۔وہ زندگی نہیں گزار سکتا۔وہ بچوں والا اپنے بچوں کی آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھ سکتا۔وہ ان کو تعلیم نہیں دلا سکتا اور اس آرزو میں بے موت مرتا ہے وہ گھر نہیں بنا سکتا اور”حسرت تعمیر“ لے کے دنیا سے جاتا ہے۔وہ بچوں کو کھیلا پہنا نہیں سکتا اور اس وجہ سے بچوں کی آنکھوں میں افسردگی برداشت نہیں کر سکتا وہ ان کی شادی نہیں کر ا سکتا اس وجہ سے ان کی بچی کو پتہ نہیں ہوتا کہ جوانی کب آئی کب گئی۔ان کے بچے کو صرف یہ پتہ ہوتا ہے کہ حسرتیں جوان ہوتی ہیں آرزویں کبھی جوان نہیں ہوتیں۔وہ زندگی کی جنگ لڑ رہے ہیں بس تو نرخ بالا کر وہ مذید ٹکڑے ٹکڑ ہوجائینگے تمہیں قوم نہیں چاہیے بس ہڈیوں کا ڈھانچہ چاہیے۔


~۔۔ہر گھڑی عمر گزشتہ کی ہے میت فانی
زندگی نام ہے مر مر کے جیے جانے کا


سب ان کی زندگی سمٹ گئی ہے باورچی خانے تک آگئی ہے اب انہیں فاقوں کی فکر ہے کہیں ان کے بچے ان کے سامنے فاقوں سے تڑپ تڑپ کر مر نہ جائیں۔جس کو بچوں کی تعلیم کی فکر تھی وہ یہ فکر بھول گیا ہے۔۔کہیں لے دے کے ایم اے کرتے تھے Bs نے یہ موقع بھی چھین لیا ہے ابھی قوم کے بچے ہاتھ ملتے ہوئے بے تعلیم اپنے گھروں میں بیٹھے ہیں۔تو مذید تعلیم کی نرخ بالا کر۔۔۔
عالمی منڈی میں تیل کی کیا قیمت ہے یہ ان پڑھ قوم کو سمجھانے والی بات نہیں۔۔آپ کے پارلیمان میں غریبوں کے نمایندوں کی عیاشیاں کیسی ہیں یہ سمجھ میں آنے والی بات نہیں۔ تمہیں ماننے والوں اور تمہارے کارکنوں پہ بھی مشکل آن پڑی ہے
~۔۔ کرکے محبت کرکے تمنا سر جھکنے کے بعد
ہم پہ یہ مشکل آن پڑی ہے کیسے بتائیں تمہیں۔


اقوال اور اعمال میں بڑا فاصلہ ہوتا ہے۔کامیابی کے پیچھے ایک مضبوط قوم ہونی چاہیے قوم اس وقت مضبوط ہوگی جب اس کی فکر کی جائے اس کے بارے میں سوچا جائے۔ہماری تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے۔۔ کہ ہم مسجد نبویؐ کے ننگے فرش پر اینٹ سرہانے رکھ کر دنیا پر حکومت کرنے والے لوگ ہیں۔ ہم اپنا معاوضہ ایک مزدور کے معاوضے کے برابر رکھنے والے لوگ ہیں۔ ہم راتوں کو آٹے کی بوریاں کندھوں پہ اٹھا کے گلیوں میں پھرنے والے لوگ ہیں ہم انصاف اور عدل کے وہ چمپٗین ہیں کہ اپنے لخت جگر کو خود سزا دیتے ہیں۔انصاف کی دھائی نہیں دیتے انصاد کرکے دکھاتے ہیں تب ہم نے فخر موجوداتؐ کا ڈیزائن کیا ہواریاست مدینہ بر قرار رکھا تھا جو دنیا کے لیے خواب ہے دوسری قوم اس خواب کے پیچھے دوڑتے دوڑتے ترقی کر رہی ہیں۔ ہم ان کی مثال دیتے پھر رہے ہیں۔ہمارے ہاں سارا سسٹم فیل ہے بظاہر سارے محکمے فیل ہیں۔ایک دوسرے کو گلے شکوے بہت ہیں۔چیزوں کی نرخ کنٹرول نہیں ہوتی انتظامیہ فیل ہے۔قصوروار سے قصور منوایا نہیں جاتا مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ فیل ہے۔ اپنا احتساب ہم نہیں کرتے اپنی غلطیاں ہمیں نظر نہیں آتیں بحیثیت قوم ہم فیل ہیں۔ ایسی قوم کے ساتھ ایسا سلوک ہونا ہے۔بے سرو پا بے بس۔۔ہم میں اپنے پاوں پر کھڑے ہونے کی جرات ہی نہیں مقروض قوم کا یوں حال ہونا ہے۔۔بس نرخیں بالا کرتے جاو بس چیخیں نکلیں گی اور کیا ہوگا۔۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
53842

کروناسے گرے ڈینگی میں اٹکے – پروفیسرعبدالشکورشاہ

بڑی مشکلات کے بعد کرونا میں کمی آنے ہی لگی تھی کہ ڈینگی نے آدبوچا۔ ہم ابھی ایک مصیبت سے نہیں نکلتے کہ دوسری آ گھیرتی ہے۔ آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا،محاورہ ہماری موجودہ صورتحال کی درست عکاسی کر تا ہے۔ ڈینگی بخار کی چار روائیتی اقسام ہزار سال پہلے بھی موجود تھیں مگر گزشتہ چند سو سالوں میں اس نے انسانوں کو مصیبت میں مبتلا کر رکھا ہے۔ 1970سے قبل دنیا بھر میں صرف 9ممالک کو شدید ڈینگی کے خطرات کا سامنا تھا۔ اب ڈینگی تقریبا 100سے زیادہ ممالک میں پھیل چکا ہے۔ گزشتہ چند عشروں میں اس نے دنیا میں اپنے پنجے گاڑھنے کے ساتھ ساتھ تباہی مچارکھی ہے۔ ڈینگی وائرس کی وجہ سے دنیا کی تقریبا آدھی آبادی خطرے میں ہے۔ ملیریا کے بعد ڈینگی اس وقت دنیامیں بخار کی دوسری سب سے بڑی وجہ بن چکا ہے۔ ڈینگی کی وجہ سے سالانہ تقریبا100-400ملین انفیکشن ہوتے ہیں جن میں سے 96ملین شدید نوعیت کے حامل قرار دیے جاتے ہیں۔ اس وقت دنیا بھر کے 129ممالک کو ڈینگی انفیکشن کاسامنا ہے جبکہ اس کا 70% جنوبی ایشیاء میں پایا جاتا ہے۔

صحت کے عالمی ادارے WHOکے مطابق گزشتہ دو عشروں کے دوران ڈینگی وائرس میں 8%اضافہ ہوا ہے۔سال 2000میں ڈینگی کے کل 505,430کیس تھے جو 2010میں بڑھ کر2.4ملین اور 2019میں 5.2ملین سے تجاوز کر گئے۔ ڈینگی کی وجہ سے2000میں شرح اموات 960تھی جو 2015میں بڑھ کر4032ہو گئی۔ عالمی سطح پر ڈینگی کی وجہ سے کس حد تک اور کتنی مشکلات کا سامنا کر نا پڑ سکتا ہے ابھی اس کے بارے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔جنوب مشرقی ایشیاء اور مغربی پیسیفک کے علاقوں میں اس کی شدت بہت زیادہ ہے اور دنیا بھر میں ڈینگی کی بیماری کا 70%جنوبی ایشیاء میں پایا جاتا ہے۔ ڈینگی کے مریضوں کی تعداد میں مسلسل اضافے کے ساتھ ساتھ  مختلف ممالک میں اس کا پھیلاو بھی لگا تار بڑھتا جا رہا ہے۔

اب ایشیاء اور دیگر علاقوں کے ساتھ یورپ میں بھی اس کے پھیلاو کے خطرات محسوس کیے جا رہے ہیں۔2010میں مقامی سطح پر منتقل ہونے والے ڈینگی وائرس کے واقعات فرانس، کروشیا کے علاوہ تین دیگر یورپی ممالک میں رپورٹ ہو چکے ہیں۔ دوسال کے قلیل عرصے میں یہ یورپ کے 10ممالک تک پھیل گیااور 2012میں 2000سے زیادہ ڈینگی کے کیسیز رپورٹ ہوئے۔سال 2020میں ڈینگی کے وار جاری رہے اور دنیا بھر کے کئی ممالک اس سے متاثر ہوئے۔ سال 2021میں بھی ڈینگی نے پاکستان سمیت بہت سے ممالک کو متاثر کیا۔ کرونا کی وجہ سے صحت کے مسائل پہلے ہی ابتر ہیں۔ محکمہ صحت پہلے ہی مشکلات سے دوچار ہے اوردنیا بھرمیں صحت کے شعبے پر بہت زیادہ دباو کی وجہ سے ان گنت مسائل کا سامنا ہے۔ WHOنے کرونا کے دوران ویکٹر بورن بیماریوں بشمول ڈینگی کی تشخیص، روک تھام، احتیاطی تدابر اور ان کے علاج پر بہت زور دیا ہے۔

اگر ضروری اقدامات نہ کیے گئے تو کرونا وباء اور ڈینگی انسانوں کے لیے مہلک ترین ثابت ہو سکتے ہیں۔ عالمی سطح پر ڈینگی کے سب سے زیادہ خطرناک حملے 2019میں دیکھنے کو ملے جب امریکہ میں 3.1ملین ڈینگی مریض تشخیص ہوئے، جن میں 25,000سے زیادہ کیس شدید ڈینگی کا شکار تھے۔ بنگلہ دیش میں 101,000، ملائشیاء میں 131,000, فلپائن میں 421,000,ویتنام میں 420,000جبکہ ایشیاء میں 320,000کیس رپورٹ ہوئے۔ 2016کو بھی ڈینگی کا سال کہا جا تا ہے کیونکہ اس عرصہ کے دوران امریکہ میں 2.38ملین، برازیل میں 1.5ملین ڈینگی مریضوں کی تشخیص ہوئی جو 2014کے مقابلے میں 3%سے بھی زیادہ ہے۔ مغربی پیسیفک ریجن میں 375,000سے زیادہ مریض رپورٹ ہوئے جبکہ فلپائن میں 176411اور ملائشیاء میں 100028مریض تشخیص ہوئے اور ان دو ممالک میں گزشتہ سالوں کے دوران بھی تقریبا یہی شرح رہی۔ 2017میں شدید ڈینگی کے مریضوں میں 53%کمی دیکھنے کو ملی جبکہ گزشتہ عشرے کے دوران ڈینگی کے مریضوں کی تعداد میں دوگنا اضافہ ہو چکا ہے۔

پاکستان میں تو ڈینگی تقریبا سارا سال ہی اپنے حملے جاری رکھتا ہے تاہم اکتوبر اور دسمبر کے دوران اس کی شدت میں اضافہ ہو جا تا ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق پاکستان کی تین چوتھائی سے زیادہ آبادی غربت کی لکیر سے نیچے ز ندگی بسر کر رہی ہے جنہیں صحت کے شدیدترین مسائل کا سامنا ہے۔ صحت کی ناکافی سہولیات کی وجہ سے ڈینگی نے پاکستان کو زیادہ متاثر کیا ہے۔ بے شمار دیگر بیماریوں کے پھیلاو کے ساتھ ساتھ ڈینگی ایک بار پھر حملہ آور ہو چکا ہے۔ پنجاب کے اکثر ہسپتالوں میں جگہ دستیاب نہیں ہے۔ سال 2019میں پاکستان میں تقریبا50,000افراد ڈینگی سے متاثر ہوئے مگر اس کے باوجود ڈینگی کے مکمل خاتمے، اس کی روک تھام یا اس کے مناسب علاج کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے گئے۔دیگر صوبوں میں بھی صورتحال تسلی بخش نہیں ہے۔

ہمارے ہسپتالوں میں جگہ اور عملے کی قلت کے ساتھ مناسب تربیت اور ادوایات کی بھی شدید کمی ہے جس کے سبب ہمارے ہسپتال کسی بھی بیماری کے پھیلاو کو روکنے میں کامیاب نہیں ہو پاتے۔ کویڈ کی وجہ سے ہسپتالوں میں بستروں کی شدید کمی ہے ایسی صورتحال میں اگر ڈینگی 2019والی صورت اختیار کر لیتا ہے تو ہمارا کیا بنے گا؟ اللہ اللہ کر کے کرونا کے مریضوں میں کمی آنا شروع ہوئی تھی کہ ڈینگی نے حملہ کر دیا۔ ہر حکومت مسلے کا دیرپا حل نکالنے کے بجائے درد کم کرنے والی ادوایات کی طرح عارضی حل کو ترجیح دیتی ہے۔ ڈینگی دراصل ہماری بدانتظامی، لاپرواہی، عدم توجہ، صفائی کے ناقص نظام اور مستقبل کے لیے کسی ٹھوس لائحہ عمل کی عدم موجودگی کا شاخسانہ ہے۔ جب ہمارے شہر، گلیاں کوڑے کا ڈھیر بنے رہیں گے، ہر جگہ پانی کے جوہڑ بنے رہیں گے، کچرا جگہ جگہ جمع رہے گا پھر ڈینگی کسی صورت بھی ختم نہیں ہو سکتا۔

ہم ماضی سے سبق سیکھنے کے بجائے سابقہ حکومتوں پر الزام تراشی کرتے اور ہر مسلے کا ذمہ دار سابقہ حکومتوں کو ٹھہرانے کے عادی ہو چکے ہیں۔ کروناوباء کی وجہ سے عوام کی معاشی سکت جواب دے چکی ہے اور رہی سہی کسر مہنگائی خان نے نکال دی ہے۔ اشیاء خوردونوش کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافے کی وجہ سے یوں محسوس ہوتا ہے روزمرہ کے استعمال کی چیزیں کوہ قاف کی پہاڑی پر چپکا دی گئی ہیں۔ ادوایات میں کئی سو گنا اضافہ، نادار افراد کے لیے جان بچانے والی ادوایات کی مفت فراہمی پر پابندی اور بنیادی ادوایات کی ترسیل اور فراہمی میں کمی نے عام آدمی کی زندگی اجیرن بنا دی ہے۔

اب عوام جمہوریت، کرونا یا ڈینگی کے بجائے دووقت کے کھانے کے بارے میں فکر مند ہیں۔ انکا سارا وقت اس سوچ میں گزر جا تا ہے کے اگلا کھانا ملے گا بھی یا نہیں۔ مہنگائی کے اس عالم میں موت کی دعا مانگتے بھی ڈر لگتا ہے کہیں دفنانے کے بجائے کووں اور چیلوں کے کھانے کے لیے نہ پھینک دیا جائے۔ عوام ہر طرف سے مصیبت میں مبتلا ہے۔ ایک طر ف کرونا نے جینا دوبھر کر رکھا ہے جبکہ دوسری جانب مہنگائی نے کمر توڑ دی ہے اور رہی سہی کسر ڈینگی نے نکال دی ہے۔ پی ٹی آئی نے ایسی ریاست مدینہ میں لا کھڑا کیا ہے جہاں نہ آگے جانے کا کوئی راستہ ہے اورنہ پیچھے مڑنے کا۔ کرونا،مہنگائی اور اب ڈینگی نے عوام کا حوصلہ توڑ دیا ہے۔ بنیادی سہولیات کی دستیابی ریاست کی ذمہ داری ہے مگر یوں لگتا ہے ریاست نے غریب عوام کا خون نچوڑے کا تہیہ کر رکھا ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
53836

کیلاش قبیلے کا تہوار “پوڑ” – تحریر:اشتیاق احمد

وادی کیلاش کے تینوں وادیوں میں سارا سال مختلف فیسٹیولز اور مذہبی تقریبات منعقد ہوتے رہتے ہیں جن کی وجہ سے ملکی اور غیر ملکی سیاح ان وادیوں کا رخ کرتے ہیں۔


گزشتہ سالوں کی طرح امسال بھی 10 سے 15 اکتوبر تک ان کا پوڑ فیسٹیول وادی بریر میں منعقد ہوا جس میں تینوں وادیوں سے کیلاش قبیلے سے تعلق رکھنے والے مرد و خواتین نے بھاری تعداد میں شرکت کی اورروایتی جوش و خروش سے اس تہوار کو منایا۔
سکندر اعظم کی اولاد کہلائے جانے،پوری دنیا میں اپنی الگ شناخت،پہچان، رسم و رواج،ثقافت اور رنگا رنگ فیسٹیولز کی وجہ یہ علاقے سیاحوں کو اپنی طرف کھینچ لاتے ہیں۔اس سال بھاری تعداد میں ملکی و غیر ملکی سیاح جس میں پولینڈ،ناروے فرانس اور دیگر ممالک سے مرد اور خواتین شامل تھے، اس ایونٹ سے خوب محظوظ ہوئے ،اس دوڑ میں ملکی سیاح بھی پیچھے نہ رہے اورمشہور بائیک رائیڈ اور مائونٹین ایرز مرد اور خواتین نے بھی فیسٹیول میں شرکت کئے۔


یہ فیسٹیول تو بظاہر کیلاش قبیلے کے افراد ایک مذہبی تہوار کے طور پر مناتے ہیں اور اس میں ان کے مرد اور خواتین ڈھول کی تھاپ پر رقص کرتے ہیں،پھلوں جس میں اخروٹ اور انگور شامل ہیں کو درختوں سے تب تک نہیں اتارتے اور استعمال نہیں کرتے جب تک اس تہوار کو نہ منائیں اور اگر کوئی اس فیسٹیول سے پہلے ان چیزوں کی خلاف ورزی کرے اور قبل اس فیسٹیول کے ان پھلوں کا استعمال کرے تو ان پر جرمانے عائد کر دئے جاتے ہیں اور پھر اپنے سروں کو پھولوں سے بنے ہوئے ہار سے مزین کرتے ہیں اور اس کیمونٹی کے عمر رسیدہ خواتین دس سال کی عمر کو پہنچنے والی لڑکیوں کو یہ ٹوپیاں پہناتی ہیں۔


اس سال اس ایونٹ کو اور بھی رونق بخشنے کیلئے کیلاش کمیونٹی ہی سے تعلق رکھنے والے وزیر اعلٰی خیبر پختونخوا کے مشیر برائے اقلیتی امور جناب وزیر زادہ مہمان خصوصی تھے اور ان کے ساتھ ڈی آئی جی مالاکنڈ ڈویژن جناب غفور آفریدی ، اکاؤنٹنٹ اوقاف ڈیپارٹمنٹ مجیب الرحمن اور دیگر آفیشلز نے بھی خصوصی طور پہ شرکت کئے۔


مشیر وزیر اعلٰی نے مہمانان کا شکریہ بھی ادا کیا اور روایتی ٹوپیوں اور چغے کے تخفے پیش کئے۔اس موقع پر جناب وزیر زادہ صاحب نے کیلاش قبیلے کے مذہبی پیشواءوں جن کو اس قبیلے کے لوگ عرف عام میں قاضی کہتے ہیں کے مابیں پینتیس لاکھ روپے کے چیک تقسیم کئے۔
یہ فیسٹیول پانچ دن اپنی تمام تر رنگینوں اور رعنائیوں کے ساتھ جاری رہنے کے بعد پندرہ اکتوبر کو اپنے اختتام کو پہنچا اور اس امید اور پیغام کے ساتھ کہ ہمارا پیارا ملک پاکستان میں ہر طرح سے مذہبی آزادی کے ساتھ ساتھ ایک پر آمن خوبصورت، اور مہمان نواز لوگوں کی بستی ہے اور اس ایونٹ میں شریک غیر ملکی سیاحوں نے اپنے تاثرات کچھ اس طرح بیاں کئے کہ وہ اپنے ملک سے بھی زیادہ پاکستان کے کسی بھی علاقے اور وادی میں آزادی محسوس کر رہے ہیں اور ان کو کسی بھی قسم کا کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔


ضرورت اس امر کی ہے کہ اس طرح کے ایونٹس کو ہائی لائٹ کرنے اور پوری دنیا کے لوگوں تک اس پیغام کو پہنچا دیا جائے کہ پاکستان ہر حوالے سے ایک پر آمن لوگوں کا ملک ہے اور یہاں پر ہر مذہب کے افراد آزادی کے ساتھ اپنے مذہبی رسومات بغیر کسی خوف کے ادا کرتے ہیں۔ ان غیر ملکی سیاحوں کا بھاری تعداد میں ان ایونٹس میں شرکت اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان کو ہر حوالے سے ایک خطرناک اور سیکیورٹی رسک قرار دلوانے اور اس کے لئے ہر وقت کوشش میں لگے رہنے والوں کو ایک پازیٹو پیغام پہنچے اور دنیا میں پاکستان ایک بار پھر سیاحوں اور ہر سطح کے لوگوں کے لئے خواہ وہ کھیل کے میدان ہو یا کوئی شعبہ ہائے زندگی ایک جنت کہلوایا جا سکے اور لوگ بے خوف و خطر ہمارے پیارے ملک کا رخ کریں اور پھر انشاء اللّٰہ وہ وقت دور نہیں ہو گا جب ہمارے پیارے ملک میں انٹرنیشنل لیول کے ایونٹس منعقد ہوسکیں۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
53744

چترال میں شکیل دورانی کے بعد پہلا مثالی ڈپٹی کمشنر محمد علی – تحریر : شمس الحق قمرؔ

میری ڈائری کے اوراق سے – چترال میں شکیل دورانی کے بعد پہلا مثالی ڈپٹی کمشنر محمد علی ) – تحریر : شمس الحق قمرؔ

میں اگر کہوں کہ محمد علی کو اپر چترال کے لیے ڈپٹی کمشنر تعینات کرنا حکومت وقت کا اپر چترال پر بڑا  احسان ہے تو بے جا  نہیں ہوگاتاہم   لوگ اس سے مطلب ضرور  تراشیں  گے  لہذا میں واضح کرنا چاہتا ہوں   کہ میرا کسی سرکاری  کوتوال  یا کسی   سیاسی ہرکارے  سے کوئی مراسم    نہیں   البتہ  چیزیں جیسی  نظر آتی ہیں ویسی  دکھانے کی ہمت  باندھتے ہیں    ۔ مجھے یاد ہے  ہم جب چھوٹے  ہوتے تھے تو  چترال میں  شکیل درانی نام کا  ایک ڈپٹی کمشنر  وارد ہوےتھے ۔  اُن کا نام  آج بھی  چترال میں   میری  عمر   یا میری عمر سے بڑے  لوگوں کے یہاں زبان زد خاص و عام ہے ۔   موصوف جب اپر چترال  آتے  تو بستی کے لوگ خوشی سے پھولا نہ سماتے ۔   یہ لوگوں کو ایک دوسرے سے ملانے کا ایک  بہانہ اور ایک ذریعہ  بن کر آتے  ۔  دن کو پولو  کا  میچ ہوتا  اور  رات کو   چترالی  دھول کی تھاپ   اور سرنائے  کی  لے پر   رقص و سرود   کی  محفلیں ۔   موصوف چترال کے لوگوں کی طرح  پولو کے بڑے شوقین تھے    ۔  جب بھی بونی پولو گراؤنڈ تشریف لاتے    تو لوگ    شکیل درانی  زندہ باد کے  فلگ  شگاف نعروں سے   اُن کا استقبال کرتے    ۔ ایسا معلوم ہوتا جیسے  ملک کا وزیر  اعظم  آئے ہیں ۔

chitraltimes dc upper chitral muhammad ali 5

  یہ معلوم نہیں کہ وہ  یہاں  کے لوگوں کے گھروں میں مہمان ٹھہرتے   یا نہیں  لیکن  بونی کی تمام قد آور شخصیات سے اُن کی گہری  شناسائی تھی  جن میں حیدر احمد  حیدر    (سابق  وزیر  تجارت  ریاست  چترال   )   بابا  خلیفہ  صوبیدار  ( مرحوم)   صوبیدار  نازک ( مرحوم )   بابا   محمد  دبور ( مرحوم )  وغیرہ    اُن کے  ہالے میں ہمیشہ نظر آتے تھے ۔  شکیل صاحب  نے جو سب سے بڑا  کا م کیا وہ اُن کا چترال کے لوگوں کے لیے امن و امان کا درس تھا  ۔   وہ جب تک یہاں رہے لوگوں کو   اپنے  خلوص کے  دام  میں پھنسا ئے رکھے  ۔  ہم نے   لوگوں کو  کہتے  سنا ہے  کہ شکیل  درانی   بلا  تفریقِ   مسلک  ، علاقہ  ، زبان  اور عمر  سب  کو اُن کے ظرف کے مطابق  عزت  دیتے ،  احترام کرتے اور کرواتے  ۔  ایک  مرتبہ  بونی کے پولوگراؤنڈ میں  انہوں نے  مجھ سے بھی ہاتھ  ملایا  تھا   ، آج تک یاد ہے ۔ یار باش اور  عوامی  آدمی تھے  ایک اور واقعہ  جو  آج تک یا د ہے وہ  یہ کہ  ایک  پولو ٹور نامنٹ  کے دوران  مسل  خان  پولو گراؤنڈ میں   وارد ہوئے ۔   مسل خان  زنانہ  بھیس میں آئے تھے ۔  ایک  خاکی  رنگ کی تنگ  پتلوں   اوپر  نیلون  کی  جسم کے ساتھ   چپکنے والی  زنانہ   بنیان   اور    سینے کی دونوں اطرف  روئیاں  ٹھونسنے سے  دل لبھانے  والا   نسوانی  ابھار    ،   بالوں کے لٹ کے  اوپر  کالے  چسموں  بینڈ   مخمور  آنکھیں اورسر پر   کاؤ بوائے  والی ہیٹ  ایک فلمی حلیے  میں       بونی جنالی میں   نازل ہوئے  ۔  مسل  خان کے پرستار  وں کے علاوہ جتنے بھی  من چلے   اور   موجود تھے سب نے  اتنی    بے  تحاشا  تالیاں  بجائیں کہ  اسٹیج پر موجود  تمام لوگ ایک دوسرے  کو دھکیل کر  کھڑے ہو ہو  کے  مسل  خان  کو  دیکھنے لگے    اتنے میں  مسل خان    ایک خاص  لجاجت سے  نسوانی  چال  چلتے ہوئے      چبوترے کے سامنے  سے سے  گزرنے لگے    تو    شکیل درانی سے رہا نہ گیا    ۔ اسٹیج سے اتر کر  مسل خان سے گلے ملنے   نیچے گراونڈ میں  آئے  تو   اُن کے ساتھ بونی کے تمام   معتبرات    نیچے آئے  اور  مسل خان سے باری باری ملنے لگے  ایسا لگا جیسے  یہ لوگ  کسی  دوسرے ملک کے سفر کو  خوش آمدید کہ رہے ہوں ۔  دیکھتے ہی دیکھتے کہیں کوئی اشارہ ہوا     ، سرنائے  پر  تیز دھن چلی تو  آگے مسل  خان  پیچھے   شکیل  درانی اور  اس کے پیچھے بونی کے تمام  معتبرات    ناچنتے  لگے ۔   ۔    یہ تھی  شکیل درانی کی کہانی  جو ہم  نے دیکھی تھی ۔ اب ہم  دیکھتے  ہیں کہ  ڈپٹی کمشنر اپر چترال  محمد علی اور  سابق ڈپٹی کمشنر  چترال  شکیل درانی میں  کیوں کر ایک نسبت  نظر آتی ہے  بلکہ  محمد  علی ایک بالشت  آگے  کیوں  ہیں ؟ اس سوال کے جواب کے  لیے  ہمیں  تھوڑی تمہید باندھنی ہوگی ۔

chitraltimes dc upper chitral muhammad ali 1

           انتظامیہ کا مطلب کسی علاقے کے انتظام انصرام کو کچھ اس ادا سے چلا  نا کہ   سانپ اور لاٹھی  دونو ں پر کوئی آنچ نہ آئے  ۔ کوئی فرد اُس وقت تک کسی گھر  ، دفتر  ، گاؤں  ، ضلع، صوبہ  اور ملک کے لیے ایک بہترین منتظم ثابت نہیں ہو  سکتا / سکتی  جب تک کہ  وہ اپنے دائرہ کار میں موجود باسیوں کے مزاج سے مانوس نہ ہو، اُن کی عزت نفس  کا خیال نہ رکھے ،  ا ُن کے دکھ  میں دکھی نہ  ہو ، اُن کے  درد کو اپنے سینے میں محسوس نہ کرے  اور  اُن کی خوشیوں میں شریک نہ ہو ۔   محمد  علی  صاحب  نے جب سے   ڈپٹی کمشنر  کی حیثیت سے اپر چترال   کی بھاگ ڈور  سنبھالی ہے تب سے  عوام میں  خوشی کی لہر دوڑ چکی ہے ۔ موصوف کے  بارے میں   آپ از راہ تفنن  ہی کسی سے استفسار  کیجئے  تو    بھی آپ کو  اُ ن کے بارے میں   خوش آئند   اور مثبت جواب   ملے گا ۔ اپر چترال  میں کوئی غمزدہ  خاندان ایسا نہیں   جہاں تعزیت  کےلئے یہ آدمی نہ گیے ہوں۔ سکولوں  کی تقریبات  میں جاکر  طلبہ کی دلجمعی و حوصلہ افزائی سے لیکر  مریضوں کی عیادت تک کی سرگرمیاں   موصوف  کے دفتری فرائض کے علاوہ ہیں ۔    ضلعے کا  ڈپٹی  کمشنر   بے حد مصروف  جوابدہ   آدمی ہوتا ہے  جنہیں  دن رات    مستعد رہنا    پڑتا ہے ۔ ایسے میں   یہ آدمی   دفتر سے گھر جاکے ڈھیر ہونے کے بجائے  اگر اپنا ذاتی وقت    باقی لوگوں کی نذر کرتا ہے تو   اُس سے بڑ ا  آدمی میری نظر میں  کوئی   نہیں ہو سکتا ۔ اُنہوں نے علاقے میں  امن  قائم  کرنے کےلیے  بہت سارے    قوانیں  نہیں  بنائے ہیں   صرف ایک  قانون ہے اور وہ ہے  اُس کی اپنی  مقناطیسیت   کہ جس کی وجہ سے  لوگ اُن سے چپک گیے ہیں    ۔ اب سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ  کوئی   اُن کی محبتوں کی لکیر  کو    پھلانگ کر      قانون شکنی کرے ۔

chitraltimes dc upper chitral muhammad ali 3

کسی علاقے کی  ترقی کےلیے یہ ضروری نہیں کہ  کوئی   ذمہ دار آدمی  جیب  سے یا   ادارے  سے  ایک دو روپے  لاکر  پل  بنائے  یا ایک   سکول   بنا  کے  اپنے آپ  کو اپنے فرائض سے سبکدوش  سمجھے   بلکہ      ایک   علاقہ  صحیح  معنوں  میں ترقی کے زینے اُس  وقت چڑھنا  شروع  کرتا ہے  جب باہر سے  لوگ  آپ کے علاقے  میں آئیں  ، سیرو سیاحت کو فروع ملے  ، آپ کے  ہوٹل  چل پڑیں ،  دکانوں میں سودے سلف ہو ں،      آپ کے کھیت کی سبزی بکے ،  آپ کی ٹکسی چلے  ۔   یہی کچھ  اپر چترال میں محمد علی صاحب  کی آنتھک  کاوشوں اور دور اندیشی سے   واقع ہو رہا ہے  ۔  حال ہی میں   اپر چترال کے مرکز بونی  میں دو  بڑے  ایونٹ  ہوئے جن میں   پیرا گلائڈنگ کے  قومی  سطح پر  قاقلشت میں  ہونے  والے  مقابلے اپر چترال کی تاریخ  کا  حصہ  بنے        کہ جس کی خبر  پوری دنیا  کی میڈیا میں  بریکینگ نیوز کے طور پر    سنسنی    پھیلاتی رہی  ۔  توقع کی جاتی ہے   کہ اگلے سال   کسی   موزوں وقت   پر    یہ مقابلے بڑے پیمانے پر ہوں گے  جس میں  بہت ممکن ہے کہ  بین  الاقوامی  ٹیمیں بھی حصہ لیں گی   اور  اس کا سہر ا    اپر چترال کے ڈپٹی کمشنر کے سر  ہمیشہ کےلیے  سجے گا ۔     یہ مقابلے بین الاقوامی سطح پر  اگر  شہرت   کے حامل رہے  تو   پاکستان کے شعبہ  سیر و سیاحت  کو      بین الاقوامی  پائیلٹوں کی میزبانی کا اعزاز   بھی حاصل ہو گا جس سے بڑے پیمانے پر زر مبادلہ  کی توقع  کی  جاتی ہے ۔ دوسرا بڑا ایونٹ بونی میں  ڈپٹی کمشنر  پولو کپ  ٹورنامنٹ کا تھا  جس میں  گلگت سے  ضلع  غذر   یاسین کی ٹیم نے بھی  حصہ  لیا ۔  یہ  ٹورنامنٹ  گلگت اور چترال کے  مابیں    دوستی کے ہاتھ  بڑھانے  کے  ایک عظیم  سلسلے کی پہلی کڑی  تصور ہوتی ہے   جس کا سہرا  بھی محمد علی  صاحب کے سر  سجتا ہے

          میں   اگرچہ  چترال میں  مقیم  نہیں ہوں  تاہم  ( کے پی کے ) کی   صوبائی  حکومت سے یہ اپیل  ضرور ہے کہ  اس  ڈپٹی کمشنر  کی  مدت   خدمات میں کچھ سالوں  کی مزید  توسیع کر کے ا ِنہیں چترال کی  خدمت کا موقع دیا جائے  تو  شاید یہ نیا  ضلع ترقی   کی راہوں پر جلد  گامزن ہو پائے گے ۔

chitraltimes dc upper chitral muhammad ali 2
chitraltimes dc upper chitral muhammad ali 4
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
53828

مدینہ منورہ،ایک چنیدہ ریاست -(ماہ ربیع الاول کے حوالے سے خصوصی تحریر)- ڈاکٹر ساجد خاکوانی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

مدینہ منورہ،ایک چنیدہ ریاست

(ماہ ربیع الاول کے حوالے سے خصوصی تحریر(

ڈاکٹر ساجد خاکوانی

                 حضرت موسی علیہ السلام نے فرعون کے سامنے جب اپنی دعوت،معجزات اور مقصد بعثت بیان کیا تو اس پر جو فوری ردعمل سامنے آیا اس کے بارے میں قرآن کہتاہے ”قَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ اِنَّ ہٰذَا لَسٰحِرٌ عَلِیْمOٌیُّرِیْدُ اَنْ یُّخْرِجَکُمْ مِّنْ اَرْضِکُمْ فَمَا ذَا تَاْمُرُوْنOَ(سورہ اعراف،آیات109,110)،ترجمہ:اس پر فرعون کی قوٍم کے سرداروں نے آپس مٍیں کہا یقیناََیہ شخص بڑا ماہر جادوگر ہے،تمہیں تمہاری زمین سے بے دخل کرنا چاہتاہے “۔مصر کے ذہین سردارفوراََ یہ بات سمجھ گئے کہ اس شخص کے مقاصد میں زمین پر قبضہ کرنا بھی شامل ہے اور بلآخریہ ہمیں ریاست سے بے دخل کر کے اقتدارحاصل کرنا چاہتاہے۔پس انبیاء علیھم السلام جس پروگرام کے تحت اس زمین پر مبعوث کیے گئے اور جس ایجنڈے کے تحت انہوں نے اپنی جدوجہد کو جاری و ساری رکھااس میں نظام سیاست کی تبدیلی بذریعہ حصول اقتدار شامل تھی۔خود ختمی مرتبت ﷺ کی یہ دعا قرآن مجید نے نقل کی ہے کہ”وَ قُلْ رَّبِّ اَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّ اَخْرِجْنِیْ مُخْرَجَ صِدْقٍ وَّ اجْعَلْ لِّیْ مِنْ لَّدُنْکَ سُلْطٰنًا نَّصِیْرًاO ترجمہ:اوردعاکرو کہ پروردگارمجھ کو جہاں بھی لے جاتو سچائی کے ساتھ لے جااور جہاں سے بھی نکال سچائی کے ساتھ نکال اور اپنی طرف سے ایک اقتدار کو میرا مددگار بنادے“(سورہ بنی اسرائیل،آیت80)۔پس اسی مطلوب قتدار کے لیے مدینہ طیبہ کی ایک ریاست محسن انسانیت ﷺ کے لیے تیارکی گئی۔

                مدینہ منورہ کی ریاست انسانی تاریخ کی پہلی ریاست ہے جو کسی تحریری دستور کی بنیاد پر وجود میں آئی۔اس سے پہلے بھی قبیلہ بنی نوع انسان میں کتنی ہی ریاستیں وجود میں آتی رہیں اور مٹتی رہیں بڑی سے بڑی بھی اور چھوٹی چھوٹی بے شمار ریاستیں اس کرہ ارض کے صفحہ قرطاس پر اپنا وجود منواتی رہیں اور پھر تاریخ انسانی کے صحیفوں میں ہمیشہ کے لیے دفن ہو چکیں لیکن مدینہ منورہ عالم انسانیت کی وہ پہلی ریاست بنی جس کی بنیاد ایک تحریری دستاویز”میثاق مدینہ“پراستوارکی گئی،اور اسی میثاق کی بنیاد پر محسن انسانیتﷺاس ریاست کے حکمران مقرر ہوئے۔میثاق مدینہ کی آخری شق یہی تھی کہ کسی بھی اختلاف کا آخری فیصلہ محسن انسانیت ﷺ کریں گے۔یہ تحریری دستورمحض دکھاوے کاورق نہ تھا بلکہ اس کے مطابق ریاست مدینہ کا نظم و نسق چلایاگیااور بے شمار مواقع پر اس دستور کے مطابق فیصلے کیے گئے اور جن جن فریقوں نے اس دستور کی خلاف ورزی کی ان کے خلاف تادیبی کاروائی بھی کی گئی جیسے غزوہ احزاب کے موقع پر بنی قریظہ کے یہودیوں نے اس معاہدہ کی خلاف ورزی کی تو غزوہ کے فوراََ بعد ان کا قلع قمع کر دیا گیا۔

                ریاست مدینہ تاریخ انسانی کی پہلی ریاست تھی جو کثرت مذاہب،کثرت قوام اور کثرت لسان پر مشتمل ایک کثیرالمذہبی،کثیرالقومی اور کثیرالسانی معاشرے پر مشتمل تھی۔اس ریاست میں خود مسلمان اگرچہ اکثریت میں تھے لیکن اس کے باوجود گروہی شناخت ان کے دامن گیر رہی،انصارومہاجرین ے دوبڑے بڑے گروہ مسلمانوں کے تھے پھر مہاجرین میں سے قریش اور غیر قریش لوگ بھی موجود تھے جیسے حضرت بلال،حضرت سلمان فارسی وغیرہ غیرقریشی مہاجرین تھے۔انصاری مسلمان اوس اور خزرج میں تقسیم تھے،اس پر مستزادخود مسلمانوں کا گروہ کثیر منافقین و مومنین کے درمیان بٹا ہواتھاجس پر قرآن مجید نے بڑے سنگین قسم کے تبصرے کیے ہیں۔غیر مسلموں میں سب سے بڑی اقلیت یہود تھے جو اقلیت میں ہونے کے باوجوداپنے مال و اسباب اور اثرورسوخ میں اکثریت سے کسی طور کم نہیں تھے،اور اپنی اس حیثیت کو مسلمانوں کے برخلاف استعمال کرنے میں کبھی نہیں چوکتے تھے۔اتنے بڑے انسانی تنوع کے ساتھ اس آسمان نے پہلی بار اس زمین کے سینے پرکوئی ریاست بنی ہوئی دیکھی اور کامیابی سے چلتی

ہوئی بھی دیکھی۔آج کی دنیاؤں میں قائم اس طرح کے معاشرے تعصب اور فرقہ ورانہ اور نسلی فسادات سے بھرے پڑے ہیں،دنیاکے مہذب ترین سیکولریورپی معاشرے اپنے ہی ہم فکرسیکولرایشیائیوں کو برداشت نہیں کرتے اور وقتاََ فوقتاََان پر چڑھ دوڑتے ہیں لیکن مدینہ منورہ کی اس کثیرالقومی وکثیرالمذہبی ریاست میں اس نوع کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیااورمواخات کے درخشاں باب نے تو جیسے اس معاشرے کے افراد کو تسبیح کی طرح ایک دھاگے میں پرو سا دیا تھا۔

                ریاست مدینہ دنیاکی اولین ریاست تھی جس قانون سب کے لیے تھااور سب انسان قانون کی نظر میں برابر تھے۔ریاست مدینہ کی تشکیل وتاسیس تک تو کسی ریاست نے اس بات کا دعوی بھی نہیں کیاتھااس کے ہاں سب برابر ہیں لیکن اس کے بعد آج کی ریاستوں میں کاغذی دعوے تو کیے جاتے ہیں لیکن قانون سب کے لیے یکساں کا رواج عملاََکہیں بھی موجود نہیں ہے۔عیسائی راہبات کے لیے سکارف کی اجازت ہے جبکہ مسلمان خواتین کے لیے اس قانون میں کوئی گنجائش نہیں،گوروں کے لیے مالیاتی و سفارتی قوانین الگ ہیں جبکہ کالوں کے لیے اور سانولوں کے لیے مطلقاََجداجداہیں جبہ ریاست مدینہ ایسی ریاست تھی جس میں مسلمان قاضی ریاست کا فیصلہ یہودی کے لیے برات کا تھااورمسلمان کے لیے گردن زدنی کا تھا۔جب محسن انسانیت ﷺ سے مجرم کے لیے قانون میں رعایت مانگی گئی تو فرمایامیری بیٹی بھی ایساجرم کرتی تو یہی سزا پاتی۔بذات خود عمر کے آخری ایام میں مسلمانوں کے درمیان براجمان ہوئے اور فرمایا میں نے کسی کے ساتھ زیادتی کی ہو تو بدلہ لے لے۔قانون کی نظر میں سب کی مساوات نے ہی اس معاشرے کو عدل فاروقی کی منزل سے روشناس کرایا۔

                ریاست مدینہ دنیا کی وہ اولین ریاست تھی جودیگرریاستوں سے مزاکرات پر یقین رکھتی تھی،میثاق مدینہ کا ذکر ہو چکاجومزاکرات کا ہی نتیجہ تھا۔غزوہ خیبر میں فتح مند ہونے کے بعد اس وقت تک کے رواج کے مطابق مفتوح قوم کی قتل و غارت گری ہونی تھی،بچ جانے والوں کو لونڈی غلام بنایاجاناتھااور اس قوم کی املاک و جائدادسب فاتحین کا حق تھا لیکن آسمان انگشت بدنداں تھا کہ فاتح نے مزاکرات کی بساط بچھائی اور مفتوح کو اپنے سامنے برابر ی کی بنیاد پر بٹھاکر ان سے مزاکرات کیے،مفتوحین کا سب کچھ انہیں لوٹاکر نصف پیداوارپر معاہدہ طے پاگیا۔فصل تیارہونے پرمسلمانوں کانمائندہ پہنچااورپیداوارنصف کی اور مفتوحین سے کہا کہ جوحصہ چاہو لے لواور جو چھوڑ دو گے وہ ہم لے جائیں گے۔گویا ریاست مدینہ کے مزاکرات مفتوح  و مجبوراقوام پر احسان مندی کا ذریعہ تھے نہ کہ آج کی نام نہاد انسانی حقوق کی علمبردارسیکولرازم کی پروردہ ریاستوں کی مانندجن کے مزاکرات سوائے ڈھونگ کے کچھ نہیں اور جن کے مقاصدظالم کو مہلت مزید دے کر مجبورو مظلوم سے حق زندگی تک کا چھین لینا ہے۔ریاست مدینہ نے بیعت رضوان کے باوجود جنگ کو روک کر دشمن تک سے مزاکرات کیے اورتحریری صلح نامہ پردستخط کرنے سے پہلے بھی ثابت کیاکہ مزاکرات میں قول و قرارہو چکنے کے بعد پھر کسی رو رعایت کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔

                ریاست مدینہ کی ایک اور شانداربنیاد”مشاورت“تھی،آج صدیوں کے بعد جمہوریت کے نام پر اکثریت کی بات کو تسلیم کرنے کا رواج پیداہوا جبکہ ریاست مدینہ کا حکمران محسن انسانیت ﷺنے تاریخ انسانی میں سب سے پہلے اپنی رائے کی قربانی دے کر اور اکثریت کی رائے پر فیصلہ کر کے ثابت کیاکہ جمہورکا فیصلہ قابل اقتداہواکرتاہے جبکہ یہ وہ دور تھا جب دنیائے انسانیت میں سرداری و بادشاہی نظام نے پنجے گاڑھ رکھے تھے اور حکمران سے اختلاف تو بڑی دور کی بات تھی اس کے سامنے بولنا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔گویا اس وقت کے بادشاہوں کی تلوارآج کے سیکولرممالک کی خفیہ ایجنسیوں کی مانند تھی کہ جس نے اختلاف کیااس کا وجود ہی دنیا سے عنقا کردواور اوپر سے جمہوریت اورآزادی رائے اوربے باک صحافت کاراگ الاپ کر دنیاکو خوب بے وقوف بناتے رہولیکن ریاست مدینہ کا وجود صحیح آزادی رائے کا مجسم نمونہ تھاجس میں معاشرے کے ہر طبقے خواہ وہ غلام ہوں،خواتین ہوں یابدیسی شہری ہوں سب کو اپنے مافی الضمیرکے اظہارکے مکمل مواقع میسرتھے اور ان پر کوئی قدغن نہیں تھی۔فجرکی نماز کے بعد محسن انسانیت مسلمانوں کی طرف متوجہ ہو کر بیٹھ جاتے اور مردوخواتین میں سے جو بھی جو کہناپوچھناچاہتااسے ادب و احترام کی حدود کے اندر مکمل آزادی تھی۔

                ریاست مدینہ منورہ کی مدح و ستائش میں دفترلکھے گئے،لکھے جا رہے ہیں اور تاقیامت لکھے جاتے رہیں گے۔فتح مکہ،ریاست مدینہ کا فیصلہ کن وتاریخ ساز اقدام تھاجس کے بعد انسانیت نے شرک کے اندھیروں سے نرتوحید کی طرف اپنے سفر کی تاسیس نو کی۔فتح مکہ کے بعد قیام پاکستان تاریخ اسلام کا سب سے بڑا واقعہ ہے،لفظ مدینہ کا مطلب رہنے کی جگہ ہے اورطیبہ کا مطلب پاکیزہ ہے جبکہ یہی مطلب لفظ”پاکستان“کا بھی ہے،ایستان رہنے کی جگہ کو کہتے ہیں اور پاک کا مطلب پاکیزہ ہے،ریاست مدینہ کے سبق کااولین باب ہجرت ہے اور پاکستان کا مقدمہ بھی ہجرت سے شروع ہوتاہے،ریاست مدینہ منورہ کے دونوں جانب ایران و روم کی بڑی بڑی طاغوتی ریاستیں تھیں جبکہ پاکستان بھی روس اور امریکہ کی کالونیوں میں گھراہواہے،ریاست مدینہ کے قیام کے ساتھ ہی منافقین اس کے درپے آزار ہوئے اور کچھ یہی حال وطن عزیزپاکستان کا بھی ہے،      ریاست مدینہ کے اولین باشندے جس جگہ سے ہجرت کر کے اپنے دینی وطن میں وارد ہوئے تھے اس جگہ کے فراعین نے آخری وقت تک ریاست مدینہ کو تسلیم نہیں کیا،وطن عزیز پاکستان کی بھی صورتحال اس سے کچھ مختلف نہیں۔آج کے”دانشور“ ریاست مدینہ کے وقت موجود ہوتے توحالات کے زیروبم سے وہ یہی نتائج اخذکرتے کہ ”زمینی حقائق“بتاتے ہیں یہ ریاست اپناوجود برقرارنہیں رکھ سکے گی لیکن تاریخ نے ثابت کیاکہ جس طرح وقت کے ابوجہل و ابولہب یہودکی دولت وثرت کے ساتھ مل کر بھی ریاست مدینہ کا کچھ نہیں بگاڑسکے اسی تاریخ کا پہیہ چلتے ہوئے وقت کو پھر دہرائے گااور وطن عزیزاسلامی جمہوریہ پاکستان جو دنیا کے نقشے پر ایک مسجدکاسا تقدس رکھتاہے اسلامی نشاۃ ثانیہ کا ہروال دستہ ثابت ہوکرخلافت علی منہاج نبوت کا سامان میسر کرے گا انشاء اللہ تعالی۔

[email protected]

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
53815

پس وپیش – یک گونہ چترال؟ – اے۔ایم۔خان

ماضی بعید میں جانے کے بجائے  اگر ہم چار سال پہلے یعنی سن 2017 کے مردم شماری کو دیکھیں جسکے مطابق  چترال کی آبادی چار لاکھ  سینتالیس ہزار تین سو بیاسٹھ  نفوس پر مشتمل ہے۔ لواری ٹاپ کے پار جو لوگ رہائش پذیر ہیں وہ ارندو کے باسیون سے جغرافیہ ، ذریعہ روزگار، زبان، رہن سہن اور رسم ورواج کے تناظر میں مختلف ہیں۔  بالکل اسی طرح بمبوریت ، رمبور اور بریر میں کیلاش کمیونٹی کے لوگ انہی علاقے اور اس سے متصل رہنے والے لوگوں سے موازنہ کیا جائے تو رنگ برنگی ظاہر ہے۔  چترال کے  ایک دوسرے وادی یعنی بوروغل میں ہی جائیں وہاں رہائش پذیر لوگوں کو دیکھا جائے تو ہمیں موجود گونا گونی مزید واضح ہوگی۔  

  یہ ہر فرد کا ذاتی تجربہ  ہے اور ہو بھی سکتا ہے کہ اُس کے گھر میں  رہنے والے لوگوں کی فطرت ، پسند و ناپسند اور ترجیحات کس طرح ہوتے ہیں۔ اپنے گھر میں فطرت کی رنگ برنگی ، پسندوناپسند اور ترجیحات کو مدنظر  رکھتے ہوئے ہم مختلف زبانین بولنے والے، ایک خاص خغرافیائی علاقے میں رہائش پذیر،  اور مختلف  مذاہب [یا مسلک] و تمدن کے  مطابق زندگی گزارنے والے لوگوں کی عام فطرت ، ترجیحات، پسندوناپسند ، سوچ اور سمجھ  کا اندازہ لگا سکتے ہیں جو ساڑھے چار لاکھ کے قریب آبادی میں کیا ہوسکتی ہے۔

چترال میں یہ عام ہے  کہ مختلف مقامات پر رہائش پذیر لوگوں کے پسند  وناپسند ، رجحانات اور عمومی فطرت کے حوالے سے ، گوکہ اس میں غلطی بھی ہوسکتی ہے، ایک تاثر پایا جاتا ہے جسمیں کچھ حد تک حقیقت بھی ہوتی ہے۔جسطرح  وقت ، حالات اور سماجی تغیر ایک حقیقت ہے بالکل اسی طرح چترال اور یہاں کے لوگوں اور  زندگی  کی ہے ۔ اور یہ تبدیلی کا ثمر ہے جو صدیوں پر محیط ہے ۔  چترال اور  اس زمین میں رہائش پذیر لوگوں کو ایک قرار دینا حقیقی اعتبار سے درست نہیں۔ ہاں شندور سے شروع ہوکر ارندو تک جو جغرافیائی علاقہ ہے یہ چترال کہلاتا ہے جو اب دو ضلعے پر محیط ہے۔  

 حقیقت یہ ہے کہ چترال میں مذہب اور مسلک کے حوالے سے تنوع ہے اسی طرح جغرافیائی علاقہ اور ایک خاص قبیلہ [یا نسل] سے تعلق رکھنے کی وجہ سے لوگوں میں کئی ایک چیزیں مشترک ہیں تو کئی غیر مشترک۔زبان کے تناظر میں دیکھا جائے  چترال میں چودہ مقامی مان بولی اور زبانین بولی جاتی ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے بلکہ چترال میں مقیم لوگ اپنے آباواجداد کو اس علاقے سے متصل علاقوں سے آنے کی بھی توثیق کرتے ہیں۔ اگر ایک شخص افعانستان سے آیا ہے تو  دوسرا خاندان ایران سے آنے کی بات کرتا ہے۔ اگر ایک فرد وسطی ایشیائ سے آنے کی تاریخ ہے تو دوسرا شمالی علاقہ جات سے اپنا تعلق بتا دیتا ہے۔ اگر ایک شخص کے آباواجداد پختون ہیں تو دوسرے کی رشتہ داری پنجاب میں ہے۔

چترال اپنے گوناگونی کے اعتبار سے بہت وسیع ہے۔ یہان بسنے والے لوگوں کو ایک فریم میں ڈال کر ایک تصویر تیار کرنے کی کوشش حقیقت کو چھپانے اور نطر انداز کرنے کے مترادف ہے۔

چترال میں گونا گونی کی حقیقت کو  دوسرے تناظر میں لینے کے بجائے یہ حقیقت ہمیں تسلیم کرنا ہوگا۔یہ قابل تحسیں ہے اور اسی وجہ سے چترال دوسرے علاقوں کی نسبت منفرد ہو جاتی ہے۔ وسیع گونا گونی کے باوجود  یہاں کے لوگ متحد، امن پسند اور ایک دوسرے کی قدر اور خیال رکھتے ہیں۔ ہمیں یک گونہ اور یک سنگی سوچ اور ذہنیت کی سطحی بناوٹ کو تقویت دینے کے بجائے چترال میں گونا گونی کو تسلیم کرکے اسے بنائے رکھنا ہے۔ اور اس رنگا رنگی کو چترال میں اکثریت جانتی اور سمجھتی ہے۔اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ  ایک مقامی شاعر، مُلا  یا سیاست دان وغیرہ کی رائے ، سوچ اور بات کو اُس شخص تک محدود رکھنا ہوگا کیونکہ اسے اجتماعی رائے عامہ تسلیم کرنے کا کوئی جواز نہ موجود ہے اور نہ ہوسکتا ہے۔ 

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
53813

عشق محمدﷺ کا حقیقی تقاضا ! -قادر خان یوسف زئی کے قلم سے

رب کائنات نے خاتم النبین و رسل حضرت محمدﷺ کے توسط سے نوع انسانی کو ایسا غیر مبتدل اور تا قیامت محفوظ قرآن کریم نازل فرمایا،جس میں انسانی آزادی، حقوق اور نظام معیشت کا وہ انقلابی منشور ہے، جس کی نظیر دنیا کاکوئی نظام نہیں دے سکتا۔ دور جدید میں انسانی فکر کو غلام اور محکوم بنانے کی کوششیں جاری ہیں لیکن ان کے سامنے رسول اکرم ﷺ  کاا سوہ حسنہ  چیلنج ہے جس نے محکمومی کے استبداد سے تنگ آنے والوں کے لئے، اپنی سیرت اور سنت ﷺ سے انسانی محکومیت سے نجات کے خواہش مندوں کو روشن تدابیر سے روشناس کرایا۔ پیارے نبی خاتم النبین ﷺ نے شخصی حکومت کی لعنت سے چھٹکار ا حاصل کرنے والے یک ایسے طبقے کو حقیقی نظام دیا،جو آمرانہ نظام سے تنگ ہاتھ پاؤں مار رہے تھے۔ نبی اکرم حضرت مصطفی ﷺ نے تھیا کریسی (مذہبی پیشوائیت) کی پھیلائی ہوئی گمرائیوں کے پر فریب جال کو سب سے پہلے توڑا۔انسانوں کو انسان کی محکومی سے نجات دلانے کے لئے آقائے دو جہاں ﷺ نے ایسے نظام کو بھی مسترد کیا جس میں ایک شخص (آمر) کی محکومی کے بجائے انسانوں کے ایک گروہ (اکثریت) کی محکومی  کی جاتی ہے، یہ وہ نظام ہے جس میں انسانوں کو تولا نہیں بلکہ گنا کرتے ہیں۔

دنیا میں رائج تمام انسانی نظام میں ایسے گروہ، دوسرے انسانوں سے اپنی اطاعت ”ذاتی حکم“ کی رو سے کرانے پر یقین رکھتا ہے او اپنے وضع کردہ قوانین کا فیصلہ ذاتی بنیادوں و مفادات کے لئے اپنے اس گروہ سے کراتا ہے جو عوام پرپنی خواہشات کے لئے قانون کا نام دے کر مسلط کردیتے ہیں۔ رحمت اللعالمین ﷺ نے اپنی سیرت و سنت سے ثابت کیا کہ کوئی انسان، دوسرے انسانوں کو محکومی کی زنجیروں میں جکڑنے کے لئے رستگاری حاصل نہیں کرسکتا، اس لعنت سے  خلاصی حاصل کرنے کا واحد قرآن کریم میں رب کائنات نے بیان فرما دیا۔  انسانوں پر قانون سازی اپنے مفادات کے لئے کرنے کا حق کسی گروہ  (جماعت یا تنظیم)کو حاصل نہیں، یہ حق صرف اللہ تعالی (قرآن کریم) کو حاصل ہے، ایسی کو اللہ تعالی کا ’حق حکومت کہا گیا  ہے۔ سورۃ  یوسف کی آیت نمبر 40 میں رب کائنات نے فرمایا کہ”حکومت، اللہ کے سوا کسی کی نہیں، اس نے حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت اختیار نہ کرو، یہی سیدھا راستہہے، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے“۔  سیرت نبی ﷺ کو ا پنائے و سمجھے بغیر ہم حق حکومت  کو اللہ تعالی کے دیے گئے احکامات کے مطابق ادا نہیں کرسکتے۔ اللہ تعالی کی اطاعت اور محکومیت اختیار کرنے کے لئے رب ذوالجلال نے کائنات کے آخری نبی حضرت محمد ﷺ  کو نبی نوع انسان کے لئے عطا کردہ ضابطہ قوانین (کتاب اللہ) کی رو سے کرنے کے احکامات جاری فرمائے۔


قرآن کریم ایک ایسے اجتماعی نظام کا حکم دیتا ہے جس میں ہر انسان کا عمل انفرادی طور پر از خود آجاتا ہے۔ دین اسلام کی عملی شکل کو حضرت فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں دیکھا جاسکتا ہے کہ شاہکار رسالت ﷺ نے کس طرح ایک ایسا سیاسی نظام متعارف کرایا، جو آج بھی دنیا کے لئے مثال ہے اور دنیا کے دانشور، مذہبی اسکالر اور فلاحی حکومت بنانے والے خلافت راشدہ کا مطالعہ کرتے ہیں، اسلام ایک زندہ نظام (یعنی دین) کی حیثیت صرف اپنی ایک ایسی آزاد مملکت ہے، جس میں غیر مسلموں اور مسلمانوں کو تمام حقوق مل جاتے ہیں۔ اس وقت پوری دنیا میں کہیں بھی اسلامی حکومت قائم نہیں، رحمت انسانیت ﷺ نے ایک ایسی حکومت کی بنیاد رکھی تھی جس میں حاکمیت صرف اللہ تعالی (قرآن کریم) کی ہو، لیکن بد قسمتی سے اسلام کے نام لیواؤں نے آج رسمی طور پر ایسا نظام مسلم اکثریتی ممالک میں قائم کررکھا ہے، جو حقیقی اسلامی روح سے کوسوں دور ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم امہ قرآن و سنت ﷺ کو چھوڑنے پر غیر وں کی غلامی اختیار کرچکی اور اپنی مملکت کی عوام کو جبر اور شخصی طاقت کے بل پر دباتے رہتے ہیں۔


پاکستان کا قیام جب عمل میں لایا جارہا تھا تو تحریک پاکستان کی مخالفت کرنے والی جماعت خوب زور و شور سے کہہ رہی تھی کہ آزاد ہندوستان میں بے شک حکومت اکثریت (یعنی ہندوؤں) کی ہوگی، لیکن وہ ہمیں ’مذہبی آزادی کی ضمانت دیتے ہیں تو پھر مسلمانوں کے لئے الگ مملکت کا مطالبہ کیا معنی رکھتا ہے، اس کے جواب میں علامہ اقبال ؓ نے کیا خوب جواب دیا جو آج بھی تمام مسلم اکثریتی ممالک پر صادق آتا ہے کہ
ہے زندہ فقط وحدتِ افکار سے ملّت
وحدت ہو فنا جس سے وہ الہام بھی الحاد
وحدت کی حفاظت نہیں بے قُوّتِ بازو
آتی نہیں کچھ کام یہاں عقلِ خدا داد
اے مردِ خدا! تجھ کو وہ قُوّت نہیں حاصل
جا بیٹھ کسی غار میں اللہ کو کر یاد
مسکینی و محکومی و نومیدیِ جاوید
جس کا یہ تصّوف ہو وہ اسلام کر ایجاد
مُلّا کو جو ہے ہِند میں سجدے کی اجازت
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد!


اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں واضح فرمایا کہ جس نے رسول ﷺ کی اطاعت کی اس نے درحقیقت اللہ کی اطاعت کی اور چونکہ اطاعت خداوندی، یعنی اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے اس لئے آخری رسول ﷺ سے کہاگیا کہ تم ان میں کتاب اللہ کے مطابق فیصلے کرو۔ حضرت محمد ﷺ  کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد ہمارے سامنے قرآن، اسوہ حسنہ ﷺ اور عملی شکل میں خلافت راشدہ موجود ہے، اس لئے مسلم اکثریتی ممالک کے حکمرانوں اور مسلم امہ کو عشق محمد ﷺ کے حقیقی عاشق ہونے کے لئے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات پر چلنا ہوگا۔ کیونکہ ہی غیر متبدل ضابطہ حیات اور عشق محمدﷺ کا حقیقی تقاضا ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
53801

انااعطینک الکوثر – (ماہ ربیع الاول کے حوالے سے) – ڈاکٹر ساجد خاکوانی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

                 اللہ تعالی نے نبی آخرالزماں ﷺکو تسلی دیتے ہوئے قرآن مجید کی سورۃ کوثر میں یہ آیت نازل کی کہ”اے نبیﷺہم نے آپ کو کوثر عطا کردیا“۔کوثر سے مرادخیرکثیر یعنی کثرت ہے۔قرآن مجید کی یہ آیت اپنے اندر معانی و مفاہیم کا بے عمیق سمندر لیے ہوئے ہے۔قرآن مجید کاایک اسلوب بیان ہے کہ وہ عام اور خاص سے بحث کرتاہے،یعنی عام حکم بیان کر اس میں کچھ مستثنیات کو علیحدہ کردیتاہے۔مثلاََپہلے یہ عام حکم دیا گیاکہ ”لا الہ“یعنی کوئی بھی معبود نہیں ہے،پھراس حکم میں سے خاص کو الگ کردیا کہ ”الا اللہ“یعنی سوائے اللہ تعالی کے،اسی طرح ایک جگہ عام حکم لگا دیا کہ ”ان الانسان لفی خسر“کہ سب کے سب انسان،خواہ ایمان اورعلم و عمل کے کسی بھی درجے سے متعلق ہوں نقصان میں ہیں،بعد میں اس حکم میں تخصیص کر دی کہ نہیں ان چار خواص کے حامل انسان اس نقصان سے بچ جائیں گے۔جب کہ سورۃ کوثرکی اس آیت میں اللہ تعالی نے اپنے نبی علیہ السلام کو دی گئی خیرکثیرمیں کوئی تخصیس نہیں کی،پس کل دنیا بلکہ کائنات بے کنارکی معلوم و نامعلوم کل دنیاؤں کی کل کثرتیں،خالق مطلق کی طرف سے گویا آپ ﷺ کی خدمت اقدس میں بغیر کسی تخصیص و تحدیدکے پیش کر دی گئی ہیں۔

                اس آیت کو اگر آپ ﷺکی ذات بابرکات سے منسلک کردیاجائے تو سیرۃ طیبہ کاایک لمحہ اپنی کل کثرتوں کے ساتھ آج تک موجودومحفوظ ہے۔جتنی کثرت سے آپ ﷺ کے معمولات زندگی کوقلمبندکیاگیاہے اس کی مثال انسانوں کی کل تاریخ عالم میں ناپید ہے۔آپ ﷺ کو قرآن مجید نے ”سراجاََمنیرا“(چمکتاہواسورج)کہاہے اور ذات نبویﷺکے آفتاب کی کرنیں آج بھی اسی کثرت و برکت کے ساتھ انسانوں پر ضوفشاں ہیں جس طرح حیات طیبہ کے زمانے میں تھیں بلکہ صدیوں کی تحقیق و جستجواور علوم معارف اس پر مستزاد ہیں اوراس کثرت میں تاقیامت اضافہ ہی ہوتا رہے گاکہ قادرمطلق نے اس کثرت کی کوئی تحدیدوتخصیص نہیں کی۔ایک انسانﷺکی حیات طیبہ کے معمولات کومحفوظ و مامون کرنے کے لیے کم و بیش ساڑھے پانچ لاکھ افراد،جنہوں نے ان احادیث کی روایات میں کوئی بھی کرداراداکیاہو،ان سب کی کل حیات پرمشتمل جملہ معلومات آج تک کتابوں میں درج ہیں بلکہ اب کمپیوٹر کے حافظہ میں بھی منتقل کی جاچکیں ہیں۔ایک انسان ﷺکی خاطر اتنی کثرت سے انسانوں کا ایک عظیم کام میں جت جانا کسی بھی اور مثال سے خالی ہے۔اور تب سے اب تک اور اب سے قیامت تک ان گنت تعدادمیں انسانوں کی کثرت قال قال رسول اللہ ﷺسے وابسطہ ہے،اورنعت گوشاعر،نعتیہ مجموعے اورنعت خوان حضرات و خواتین کی کثرت کی تو کوئی انتہا ہی نہیں ہے۔

                اس آیت کو اگر آپ ﷺکی آل و ذریت کی کثرت سے منسلک کردیاتو بھی جوکثرت و برکت آل رسولﷺمیں نظر آتی ہے اس سے دنیابھراور کل انسانی تاریخ کا کوئی بھی اور قبیلہ و خاندان عاری ہے۔اگرچہ دیگرانبیاء علیھم السلام کی ذریت میں بھی پھیلاؤ دیکھنے میں آیالیکن تاریخ کے طالب علم نے جس سرعت سے عترت ختمی مرتبتﷺکی وسعت کو مشاہدہ و روایت کیاہے وہ سواہے۔کربلا کامیدان آل رسول کو ختم کرنے کی ایک ناپاک کوشش تھی لیکن جس آل محمدﷺکی کثرت کا فیصلہ اللہ رب العزت نے کیا ہواسے دنیا کے یزیدکہاں مٹاسکتے ہیں۔محض دو نواسوں،حسنین،کریمین،شفیقین سے چلنے والی نسل نبیﷺآج دنیاکے ہر کونے میں موجود ہے،ہر خطے میں اور ہر زبان بولنے والوں میں موجود اہل بیت کی نسل مقدس،سے وقت کے فرزندان اسلام فیض ہدایت حاصل کرتے رہے ہیں،کررہے ہیں اورکرتے رہیں گے،انشاء اللہ تعالی۔اس بڑی کربلا کے بعد بھی آل رسول پربہت سی کربلائیں اپنی شدت و قوت کے ساتھ ٹوٹیں لیکن تاریخ کے یزید ہمیشہ مٹتے رہے جبکہ کثرت کا خدائی فیصلہ ہمہشہ جاری و ساری رہا۔اسی طرح آپ ﷺ کے امتی بھی جس کثرت سے موجود ہیں وہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے۔اگرچہ فی زمانہ مسیحی دنیا اپنی کثرت کا دعوی کرتی ہے لیکن یہ محض کذب بیانی ہے کیونکہ مغرب کی اکثریت اپنے آپ کو سیکولرگردانتی ہے اورحضرت عیسی علیہ السلام سے ان کاعلامتی و واجبی تعلق 25دسمبر رات بارہ بجے شروع ہوتاہے اور اگلی رات بارہ بجے ختم ہوجاتاہے۔اس کے مقابلے میں بہت گیاگزرامسلمان بھی ختم نبوت کے عقیدہ پر کسی طرح کی مفاہمت یاسمجھوتے کے لیے تیارنہیں ہوتا۔

                اس آیت مبارکہ کے مطابق اعلی انسانی اقدارکی وہ عددیات جو قلت کی وجہ سے باعث تفاخر ہیں،ان کی کثرت بھی محسن انسانیت ﷺکی حیات طیبہ میں ہی میسر ہے۔مثلاََدنیابھر میں اور کل تاریخ عالم میں جتنے بھی انقلابات روپزیر ہوئے ان میں سب سے کم ترین تعداد میں جوانسان کام آئے وہ انقلاب نبویﷺ ہے،اور اس کے مقابلے میں دنیامیں تمام انقلابات میں دوررس کثرت اثرات کاحامل بھی آپﷺ کا ہی لایا ہوا انقلاب ہے۔ریاست مدینہ کے دورنبویﷺ میں جتنے علاقے فتح ہوئے اور اس کے لیے جتنی جنگیں لڑی گئیں اور ان جنگوں میں مسلمان اور کافر ہردوقسم کے جتنے انسان مارے گئے وہ دنیاکے کسی بھی اور مفتوحات میں کم ترین تعدادہے۔بادی النظرمیں وہ تعداد مبالغہ یا مضحکہ لگتی ہے یعنی کم و بیش دس لاکھ مربع میل کے علاقے کی فتح میں کل ایک ہزار چوبیس افراد لقمہ اجل بنے۔جبکہ گزشتہ صدی میں سیکولرازم کی دو بڑی عالمی جنگوں،انقلاب فرانس،روسی انقلاب اورتقسیم ہند سمیت ہر تاریخی موڑپر کروڑہا انسانوں کاخون رائگاں گیااور سوائے تباہی و بربادی کے کچھ حاصل وصول نہ ہوا۔اتنی کم ترین افرادکی لاگت سے اتنے کثیرترین نتائج کی برآمدگی اس کثرت فیض کا نتیجہ ہے جو بارگاہ ایزدی سے جناب رسالت ماب ﷺ کو”کوثر“کی صورت میں مرحمت کیاگیا۔

                قرآن مجید جیسا زندہ معجزہ بھی اسی ”کوثر“کااعجاز ہے۔یہ کتاب جتنی کثرت سے پڑھی جاتی ہے،جتنی کثرت سے سنی جاتی ہے،جتنی کثرت سے لکھی جاتی ہے اورجتنی کثرت سے شائع کی جاتی ہے وہ اس ”کوثر“کاایک اور تابندہ پہلو ہے۔یہ پہلو تو بہت ہی کم حد تک لیکن پھر بھی دوسری کتب کے ساتھ موجود تو ہیں جبکہ قرآن مجید کی کثرت حفظ تو ایسا وحدانی معجزہ ہے کہ اس کی کوئی مثال ہی اس آسمان کی چھت کے نیچے اور زمین کے سینے پر موجود ہی نہیں۔سات آٹھ سال کاایک بچہ مدرسے جاتاہے اور دوتین سالوں میں کل قرآن مجیدحلق سے نیچے اتارکر واپس آجاتاہے۔اس ایک کتاب کی جتنی کثرت تفاسیرلکھی گئیں اس کی بھی کوئی مثال عنقاہے۔صدیوں کے بعد جنم لینے والے بڑے بھاری بھرکم دماغ،مسلمان یاغیرمسلم،اس کتاب پر قلم اٹھانے کی جسارت کرتے ہیں۔یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے ذہن میں قبل از تاریخ سے بعد ازتاریخ کی کل انسانیت محفوظ ہوتی ہے لیکن اس سب کے باوجود قرآن مجید کی ہرہرآیت ہرہرنئے لکھنے والے کے سامنے اپنے نئے نئے رازوں سے پردے ہٹاتی چلی چلی جاتی ہے،اوریوں کثرت مطالب و کثرت مفاہیم کا سمندر ہے جو اس کتاب کے طالب علم کے سامنے امڈتا چلاآتاہے اور جو اس کتاب میں ڈوبتے ہیں نہ جانے کیسے کیسے قیمتی یاقوت ومرجان سے بھی عمدہ تر ہیرے جواہرات لے کر نکلتے ہیں۔”کوثر“کاایک اوررنگ قرآن مجیدکی قرات میں نظر آتاہے،دنیابھرمیں اور قرآن مجید کی شروع دن کی تاریخ سے آج تک،کیافرشتے،کیاجنات،کیامقدس روحیں اور کیسے کیسے انسان کن آوازوں میں اورکن کن طریقوں سے اورکسی کیسی عقیدتوں سے اورانفرادی و اجتماعی طورپر اس کتاب کی خوش الحانی سے اس حد تک کثرت تلاوت و قرات کرتے ہیں اہل ایمان کی روحیں وجد میں آجاتی ہیں۔

                المختصریہ کہ اللہ تعالی نے اس کائنات کو”احدیت“سے ”اکثریت“کی طرف وجود بخشا،یعنی پہلے اللہ تعالی اکیلایکہ وتنہاتھا،کچھ بھی نہ تھا بجزذات باری تعالی کے،پھر قدرت خداوندی نے عدم سے اس کائنات کو وجود بخشااور کیا شان کہ کثرت وجود بخشا،ستاروں کی کثرت،سیاروں کی کثرت،اجرام فلکی کی کثرت،فرشتوں کی کثرت،جنات اور انسانوں کی کثرت اور اس زمین پر حشرات الارض کی کثرت،پرندوں اور جانوروں کی کثرت،درختوں،پودوں اور ان پر پھلوں اور پتوں کی کثرت،سمندری مخلوق کی کثرت،پانی کے قطروں کی کثرت،ریت اور مٹی کے ذرات کی کثرت غرض کہ کرہ ارض کے کل درخت قلمیں بن جائیں اور کل سمندروں کاپانی سیاہی بن جائے تب بھی اس کثرت مخلوق کا احاطہ تحریر ممکن نہیں ہے  اور ان کی گنتی انسانی قدرت سے کہیں باہر ہے۔اور یہ سب کثرت کے بارے میں اس کثرت کے خالق نے کہا کہ ”انا اعطینک الکوثر“کہ یہ سب کثرت ہم نے آپ ﷺ کو عطا کردی ہے۔ماں باپ کتنی محبت کرتے ہیں لیکن اللہ تعالی نے اپنے ماں باپ نہیں بنائے،بہن بھائی کتنے عزیز ہوتے ہیں لیکن ذات خداوندی کے بہن بھائی بھی نہیں ہیں،اولاد آنکھوں کانور ہوتی ہے لیکن خالق کائنات نے اپنے لیے اولاد کو بھی پسند نہیں فرمایا جبکہ ”محبوب“کی ذات ایسی ہے جس کے بغیر خدائی بھی نامکمل ہے۔محبوب کو بنایا اور کیاخوب بنایاکہ بقول حسان بن ثابتؓ ”کانک قد خلقت کما تشاء“محبوب کو ایسا بنایا جیسا کہ محبوب خود چاہتاتھا۔محبوب سے محبت کو اپنی سنت بنایا اور کل انسانوں کو حکم دیاکہ میری سنت کے مطابق میرے محبوب سے ہی محبت کرواوراس کے طریقے کے مطابق زندگی گزارکرآؤگے تو عذاب دوزخ سے نجات اور جنت میں داخلہ ملے گا۔

                                کی محمدﷺسے وفاتونے تو ہم تیرے ہیں                                              یہ جہاں چیزہے کیالوح و قلم تیرے ہیں

[email protected]

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
53742

مشرقی اُفق ۔ ہمارے پیارے پیغمبر حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم عظیم تر ہیں۔ میرافسر امان

”اے محمد ؐ!کہو کہ اے انسانو!میں تم سب کی طرف اُس خدا کا پیغمبرؐ ہوں جو زمین اور آسمانوں کی بادشاہی کا مالک ہے“(الا عراف۸۵۱) ”درحقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسول ؐ میں ایک بہترین نمونہ ہے،ہر اس شخص کے لیے جو اللہ اور یوم آخر کا امیدوارہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے“(الاحزاب۱۲) مسلم کی حدیث ہے کہ ایک دفعہ چند صحابہ ؓ نے حضرت عائشہ ؓام المومنین سے عرض کیا کہ آپ نبی اکرم ؐ کے کچھ حالات زندگی ہم کو بتائیں عائشہ صدیقہ ؓ نے تعجب سے دریافت کیا آپ نے قرآن نہیں پڑھا جو مجھ سے خلق نبی ؐ کے متعلق سوال کرتے ہو؟(مسلم)یعنی آپ ؐ کی ساری زندگی قرآن تھی۔۹ربیع لاول مطابق۰۲/اپریل۱۷۵ ء( الر حیق المختوم) کی صبح مکہ کے ایک معزز قبیلہ قریش(بنی ہاشم) میں عبداللہ بن عبدالمطلب کے گھر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے۔


دارالرقم میں دعوت کے پہلے ۳ سال:۔ نبوت کے پہلے ۳ سال خفیہ طریقے سے خاص خاص لوگو ں کو اللہ کی دعوت پہنچاتے رہے۔ مرکز حضرت ارقم ؓ کے گھر کو بنایا۔ شروع دنوں میں حضرت خدیجہ ؓ،حضرت علی ؓ،حضرت ابوبکر ؓ حضرت زید ؓ یہ سب پہلے ہی دن مسلمان ہوگئے تھے۔


دعوت عام: ۔پھر اس زمانے کے رواج کے مطابق پہاڑ صفا کی چوٹی پر چڑھ کر اعلان کیا، یاصباحا.یاصباحا، یعنی صبح کا خطرہ صبح کا خطرہ۔ قریش کے لوگوں کو پکارا لوگ جمع ہو گئے۔ٗ آپ ؐنے فرمایا اگر میں آپ لوگوں سے کہوں کہ پہاڑ کی دوسری طرف سے دشمن حملہ کرنے والا ہے تو آپ لوگ میری بات پر یقین کریں گے۔ سب نے کہا یک زبان ہو کر کہا آپ ؐ سچے، صادق، امین اوراور نیک آدمی ہیں ہم ضرور یقین کریں گے۔ آپ ؐ نے فرمایا لوگومیں اللہ کا پیغمبرؐ ہوں اور تمہیں ا للہ واحد کی طرف بلاتا ہوں۔ بتوں کی پوجا سے بچاتا ہوں۔ یہ زندگی چند روزہ ہے۔سب نے اللہ کے سامنے حاضر ہونا ہے اور اپنے اعمال کا حساب دینا ہے۔جو لوگ چند منٹ پہلے آپ ؐ کوصاد اور امین کہہ رہے تھے آپؐ کی بات نہیں مانی اور برا بھلا کہہ کر واپس چلے گئے۔


ابو طالب کو دھمکی:۔قریش نے دھمکی کے لیے اپنے چند آدمی ابو طالب کے پاس بھیجے انہوں نے کہا تمہارے بھتیجے نے ہمارے خداؤں کو برا بھلا کہا ہے۔ لہذا آپ یا تو اس کو روک دیں یا درمیان سے ہٹ جائیں ہم اس کے لیے کافی ہیں۔ ابو طالب نے اس کا ذکر رسول ؐ اللہ سے کیا۔مگر رسول ؐنے فرمایایہ لوگ میرے ایک ہاتھ پر سورج اور دوسرے ہاتھ پر چاند رکھ دیں تب بھی میں یہ کام نہیں چھوڑوں گا۔
عتبہ کی سفارت:۔ حضرت حمزہ ؓاور حضرت عمر ؓ کے اسلام لانے کے بعد قریش نے ایک نمایندہ عتبہ بن ربیعہ کو رسول ؐ کے پاس بھیجا۔خانہ کعبہ کے اندر عتبہ نے رسول ؐ اللہ سے ملاقات کی اور آپ ؐ کے سامنے قریش سے منظور شدہ گفتگو رکھی۔کہا ہماری قوم کے اندر آپ ؐ کا مرتبہ اور مقام ہے۔ اب آپؐ ایک بڑا معاملہ لے کر آئے ہو۔ جس سے قوم میں تفرقہ پڑھ گیا ہے۔ آپ ؐ نے کہا میری سنو آپ ؐ نے سورۃ حم السجدہ تلاوت فرمائی۔ عتبہ سنتا گیا اٹھا اور سیدھا ساتھیوں کے پاس گیا۔ ان سے کہا جو کچھ وہلایا ہے اگر لوگوں نے مان لیا تو تمھاری ہی فتح ہو گی۔


بنو عاشم اور بنو مطلب کی میٹنگ:۔ ابو طالب کو مقابلے کی دھمکی، ابوجہل کا رسول ؐ اللہ کے سر پر بھاری پتھر رکھنے،عتبہ بن ابی معیط کا چادر لپیٹ کر گلا گھونٹنے، یہ سب باتیں سنگین خطرہ محسوس ہو رہی تھیں۔ اس لیے ابو طالب نے جدِاعلیٰ عبدِمناف کے دونوں صاحبزادوں ہاشم اور مطلب سے وجود میں آنے والے خاندان کو جمع کیا اور کہا اب رسول ؐ اللہ کی سب حفاظت کریں۔ ابو طالب کی یہ بات عربی حمیت کے پیش نظر ان دونوں خاندانوں کے سارے مسلم اور کافر افراد نے قبول کی۔ البتہ صرف ابو لہب جو رسولؐ اللہ کا سکاچچا تھا مشرکین سے جا ملا۔


ولید کی سفارت:۔ ایک دفعہ خانہ کعبہ میں سرداران قریش موجود تھے۔ رسول ؐاللہ بھی ایک کونے میں تشریف فرما تھے۔ ان ہی دنوں حج کا موسم تھا۔ قریش کو فکر ہوئی کہ رسول ؐاللہ آنے والے حاجیوں میں اپنے دین کو پھیلائے گا۔ لہذا کو ئی تدبیر کرنی چاہیے۔ کافی سوچ بچار کے بعد ولید نے مشورہ دیا ہم کہیں گے جادوگر ہے۔ اس بات کے بعد سب پھیل گئے اور آنے والے حاجیوں میں وہ پروپیگنڈا شروع کر دیا۔ اس سے لوگوں میں مشہور ہوگیا کہ آپ ؐاللہ نے دعویٰ نبوت کیا ہے۔ ان کی اس حرکت سے دیار عرب میں آپ ؐ کا
چرچا پہلے سے زیادہ ہوگیا۔


تکالیف:۔مکہ کے ۳۱/ سال میں آپ ؐاور صحابہ ؓ کو بہت ستایا گیا۔ رسول ؐاللہ نے کہا دین کے معاملے میں جتنا مجھے ستایا گیا ہے کوئی اور پیغمبر ؑ نہیں ستایا گیا۔ بازار کے اندر آپ ؐ لوگوں کودعوت دیتے پیچھے ابو لہب لوگوں کو کہتا یہ میرا بھتیجا ہے یہ جھوٹ کہتا ہے، خانہ کعبہ میں سجدے کی حالت میں سر پر اونٹ کی اوجھ ڈالی گئی، گردن میں چادر ڈال کرختم کر دینے کی کوشش کی گئی، دو بیٹیوں رقیہ ؓاور ام کلثوم ؓ کوچچا ابولہب کے بیٹوں نے طلاق دی،طائف میں لہو لہان کیا گیا، رسول ؐ اللہ کا بیٹا عبداللہ فوت ہوا تو ابولہب خوش ہوا دوستوں کو خوشخبری دی کہ محمد ؐ ابتر ہو گیا ہے،ابو لہب کی بیوی جو ابو سفیان کی بہن تھی رسول ؐاللہ کے راستے میں کانٹے ڈالتی تھی،آپ ؐ کے کافر پڑوسی جب آپ ؐ گھر میں نماز پڑھ رہے ہوتے تو وہ آپ کے سرپر بکری کی بچہ دانی ڈال دیتے،چولھے پر ہانڈی چڑھائی جاتی تو بچہ دانی اس طرح پھینکتے کہ سیدھے ہانڈی میں جا گرتی،امیہ بن خلف کا وطیرہ تھا جب رسول ؐ کو دیکھتا تو لعن طعن کرتا، ۳ سال تک شعب ابوطا لب میں محصور رکھا گیا،قتل کرنے کی اور ملک بدر کرنے کی سازش کی گئی۔صحابہ ؓ کو اتنا پریشان کیا گیا کہ وہ دو دفع حبشہ ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے۔


قریش کی آخری سفارت:۔جب ابو طلب بیمار ہوئے تو قریش کو فکر ہوئی کہ ان کی زندگی میں ہی کچھ معاملہ ہو جانا چا ہیے۔ چنا نچے قریش ایک بڑا وفد جس میں عتبہ بن ر بیعہ،شیبہ بن ر بیعہ،ابو جہل بن ہشام، امیہ بن خلف، ابو سفیان بن حرب اور دیگر تقریباً ۵۲/ افراد آئے۔ رسول ؐ اللہ نے ان کی باتیں سن کر کہا آپ لوگوں کو میں ایک ایسا کلمہ نہ بتاؤں جس کو اگر آپ مان لیں تو آپ عرب کے بادشاہ بن جائیں اور عجم آپ کے زیر نگیں آ جائیں۔ تو آپ کی کیارائے ہو گی۔ قریش یہ سن کر حیران تھے آخر ابو جہل نے کہا اچھا بتاو ہم ایسی دس باتیں ماننے کے لیےٗ تیار ہیں۔ آپ ؐ نے فرمایا”آپ لوگ”لا الٰہ الا اللہ“ کہیں اور اللہ کے سوا جو کچھ پوجتے ہیں اسے چھوڑ دیں۔ اس پر انہوں نے ہاتھ پیٹ پیٹ کر کہا ”محمد ؐ!تم یہ چاہتے ہو کہ سارے خداؤں کی جگہ بس ایک ہی خدا بنا ڈالیں؟
طا ئف کا سفر:۔ ۰۱ ؁ نبوت میں رسول ؐاللہ طائف دعوت کی غرض سے تشریف لے گئے۔ مگر انہوں نے شریر لڑکے آپ کے پیچھے لگا دیے۔ آپ پر پتھروں کی بارش کی گئی آپ لہو لہان ہو گئے۔ پہاڑوں کے فرشتے نے آکر کہا مجھے اللہ نے بھیجا ہے آپ ؐ کہیں تو ان کو دو پہاڑوں کے درمیان ان کو پیس دوں، مگر پھر بھی آپ ؐ نے ان کے ایمان لانے کی دعاء کی۔


معراج:۔اس کے بعد اللہ نے اپنے رسول ؐ کو معراج کرائی، دوسری باتوں کے علاوہ پانچ وقتہ نماز فرض کی گئی۔دوسرے پیغمبروں ؑسے ملاقات کرائی،جنت دوزخ کا مشاہدہ کرایا،پھر اسی رات بیت المقدس سے مکہ تشریف لے آئے۔ لوگوں نے حضرت ابوکرؓ کو طنزاً کہا کہ تمھارا دوست ایسے کہتا ہے۔ حضڑت ابوبکرؓ کہا صحیح کہتا ہے وہ اللہ کا پیغمبرؐ ہے۔
بیعت عقبہ:۔ رسول ؐ طائف سے واپس آئے اس کے بعد بیعت عقبہ ہوئی انصارِ مدینہ نے رسول ؐاللہ کو مدینے آنے کی دعوت دی گئی۔ ان حضرات نے آپ ؐکو ایک معاہدے کے تحت رسولؐ اللہ کو اللہ کا پیغمبرؐ مان کے مدینے میں بلایا۔


ہجرت:۔ دو شنبہ ۸ ربیع الاول ۴۱؁نبوت یعنی ۱ ؁ ہجری مطابق ۳۲ ستمبر ۲۲۶ ؁ ء کو رسولؐاللہ قباء میں دارد ہوئے۔ مسلمانانِ مدینہ رسولؐ ؐاللہ کے انتظار میں تھے۔آپ ؐ کے دیدار کے لیے سارا مدینہ امنڈ آیا۔یہ ایک تاریخی دن تھا جس کی نظیر سر زمین ِمدینہ نے کبھی نہ دیکھی تھی۔ اسی دوران مسجد قباء کی بنیاد رکھی اور نماز ادا کی اس کے بعد رسول ؐاللہ مدینہ کی طرف روانہ ہوئے۔
مدینے میں مشکلات:۔رسول ؐ کو مدینے میں بھی آرام سے اللہ کے دین کوپھیلانے کے لیے نہ چھوڑا گیا۔ طرح طرح سے رکاوٹیں ڈالی گئیں۔ بدر، احد اور خندق کی جنگ ہوئیں۔جنگ خندق کے موقعے پرتمام عرب کے مشرکوں نے مدینے کا محاصرہ کیا مگر اُنہیں شکست ہوئی۔
فتح مکہ:۔۔ رسول ؐ نے ۰۱ رمضان ۸ ؁ ھ ۰۱ ہزار صحابہ ؓ کے ساتھ مکہ کا رخ کیا اللہ نے فتح عطا کی۔ فتح مکہ کے بعد آپؐ نے عام معافی کا اعلان کیا خانہ کعبہ میں داخل ہو کر سب بتوں کو توڑ ڈالا۔


خطبہ حجۃ الوداع:۔رسول ؐ نے پہلے اللہ کی کبریائی بیان کی پھرفرمایا جاہلیت کے تمام دستور میرے پاؤں کے نیچے ہیں،عربی کو عجمی سفید کو سیاہ پر کوئی فضلیت نہیں مگر تقویٰ،مسلمان بھائی بھائی ہیں،جو خود کھاؤ، وہی غلاموں کو کھلاؤ،جاہلیت کے تمام خون معاف،سود پر پابندی،عورتوں کے حقوق،ایک دوسرے کا خون اور مال حرام،کتاب اللہ کو مضبوطی سے پکڑنے کی تاکید،حقدار کو حق،لڑکا اس کا جس کے بستر پر پیدا ہوا، اس کے بعد ایک لاکھ چالیس ہزار انسانوں کے سمندر کو آپ ؐنے فرمایا میر ے بعد کوئی بنیؑ نہیں ہے۔ اللہ کی عبادت کرنا پانچ وقت کی نماز رمضان کے روزے زکوۃ اللہ کے گھر کا حج اور اپنے حکمرانوں کی اطاعت کرنا جنت میں داخل ہو گے۔تم سے میرے متعلق پوچھا جانے والا ہے صحابہ ؓ

نے کہا آپ نے تبلیغ کر دی، پیغام پہنچا دیا اور حق ادا کر دیا۔یہ سن کر شہادت کی انگلی کو آسمان کی طرف اٹھایا اور کہا اے اللہ آپ بھی گواہ رہیے۔


دین یعنی دستور عمل مکمل ہو گیا:۔اس خطبے کے بعد یہ آیات نازل ہوئیں ”آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو بحیثیت دین پسند کر لیا“ (المائدہ۳)اب رہتی دنیا تک یہ ہی دین غالب رہے گا۔حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے آخری پیغمبرؐ ہیں اور یہ دین آخری دین ہے۔ قیامت تک نہ کوئی نیا نبیؑ آئے گا۔ نہ نیا دین آئے گا۔ اب اس دین کو دوسری قوموں تک پہنچانے کا کام امت محمدی ؐ کرے گی۔ لہذا ہمارے لیے سبق ہے کہ ہم اپنے اعمال ٹھیک کریں۔اسلام کے دستور میں جتنی بھی انسانوں کی خواہشات داخل کر دی گئیں ہیں انہیں ایک ایک کر کے اپنے دستو ر عمل سے نکال دیں۔ اپنے ملک میں اسلامی نظام، نظام مصطفےٰ، حکومت الہیہ(جو بھی نام ہو) اس کو قائم کریں۔ پھر اس دستور کو دنیا کے تمام انسانوں تک پہنچائیں جنت کے حق دار بنیں اور جہنم کی آگ سے نجات پائیں جو کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔ اپنی آخری منزل جنت میں داخل ہوں۔ جہاں ہمیشہ رہنا ہے۔ جہاں نہ موت ہو گی نہ تکلیف ہو گی۔ اللہ مومنوں سے راضی ہو گا، یہی کامیابی ہے۔ ہی ربیع الاول کا پیغام ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامین
53733

بزمِ درویش ۔ پیغام مصطفی ﷺ۔ تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

ماہ ِ ربیع الاول کو پو ری کا ئنات اور بالخصوص عالم اسلام میں مقدس اور خاص مہینہ سمجھا جاتا ہے کیونکہ اِسی ماہ میں نسل ِ انسانی کے سب سے بڑے انسان سرتاج الانبیا محبوب خدا ﷺ نے جنم لیا سرور دو عالم ﷺ جنہوں نے دنیا میں موجود با طل نظاموں اور با دشاہت کے درباروں محلات میں دراڑیں ڈال دیں صدیوں سے انسان کو انسان کی غلامی کے شکنجے سے نکال کر استحصالی قوتوں کو پاش پاش کر دیا ہزاروں سالوں سے سسکتی تڑپتی مرض الموت میں مبتلا انسانیت کو خوشگوار حقیقی انقلاب کی نوید سنا ئی آقائے دو جہاں ﷺ نے انسانی حقوق کا ایسا چارٹر پیش کیا جس کے سامنے مغرب کا نام نہاد مصنوعی میگنا کا رٹا کچھ بھی معنی نہیں رکھتا اقوام متحدہ کا منشور جس پر آج کی نام نہاد مہذب دنیا بہت فخر کر تی ہے جو آقا کریم ﷺ کی نبوت کے چودہ سو سال بعد مرتب ہوا.

اس جا معیت سے آج بھی خالی ہے جس کا اعلا ن سردار الانبیا ﷺ نے قصو ی نامی اونٹنی پر بیٹھ کر ڈیڑھ لاکھ کے مجسمے کے سامنے کیا تھا سرور دو جہاں ﷺ کا پیغام روشنی کی کرن بن کر سینہ شب میں اترتا چلا گیا سرور کائنات ﷺ نے اللہ تعالی کے پیغام کو پہنچانے کے لیے کسی رکاوٹ کا بھی خیال نہیں کیا کوئی مشکل کو مصیبت کو آزمائش کسی قسم کا لالچ آپ ﷺ کا راستہ نہ روک سکا نہ شعب ابی طالب کے فاقے نہ طائف کی سنگ با ری نہ ہی قریش ِ مکہ کی پر کشش پیشکش مالک دو جہاں نے سب سے پہلے خو د کو مثالی کردار کے طور پر پیش کیا پیغام حق کو پہلے اپنی ذات پر نافذ کیا پھر لوگوں کے سامنے اللہ کا کلام رکھا کلام الہی کا عملی نمونہ بھی پیار محبت ایثار قربانی غم گساری اور ہمدردی آپ ﷺ کی تبلیغ کے بنیا دی اجزا تھے

قریش مکہ کے مظالم جب حدوں سے گزر گئے تو خالقِ ارض و سما کے حکم پر ہجرت کا راستہ اختیار کیا لیکن جب کفار نے آپ ﷺ کو مدینہ منورہ میں چین سے نہ رہنے دیا اور معرکہ آرائی اور تلوار زنی پر تل گئے اور اونٹوں گھوڑوں تلواروں نیزوں اور اسلحہ سے لیس لشکر جرار لے کر حملہ آور ہو ئے تو آپ ﷺ نے علم جہاد بلند کیا اور پھر تاریخ انسانی کی تا ریخ بدل دی اور بدر سے حنین تک داستان جہاد کی نو عیت صرف اپنا دفاع اور پیغام حق کی سر بلندی تھی۔ شہنشاہِ دو عالم ﷺ جب مکہ میں تشریف لا ئے تو اس وقت انسانیت مرض الموت میں مبتلا اپنے مسیحا کے انتظار میں تھی زندگی اپنے شباب کے انتظا ر میں تھی یو نان جیسی عظیم تہذیب کھنڈر میں تبدیل ہو چکی تھی اہل یو نان اپنے علم کے زعم کے با وجود کرا ہ رہے تھے.

یو نانی حکما نے اپنے علم و دانش اور فلسفہ کے زور پر ہر مسئلہ حل کر نا چاہا ایک سے بڑھ کر ایک یو نانی فلسفی آچکے تھے۔ اقلیدس، بطلیحوس، سقراط، بقرالط، ارسطو، افلاطون، جدھر نظر اٹھی فلسفوں کی قطاریں نظر آئیں اِن تمام فلسفیوں کے دماغوں نے بھی کا ئنات کے اندھیرے دو ر کر نے کی بجا ئے ان کو اور زیادہ تا ریک کر دیا یو نانی اکیڈمیوں نے اندھیرا کم کر نے کی بجائے اسے اور گہرا کر دیا کر ہ ارض اجا لے سے نور سے روشن ہو ئی تو غارِ حرا کے گو شے سے طلوع ہو نے آفتاب نبوت سے قیصر فارس کی حکومتیں بھی انسانیت کی پیٹھ پر بو جھ میں اضافے کا ہی با عث بنیں انسانیت کو بو جھ اور دکھوں سے کسی نے آکر نجات دی تو یتیم مکہ نے دکھی انسانیت کو اماں ملی تو کالی کملی والے ﷺ کی آغوش میں با دشاہوں کی وسیع و عریض سلنطیں اپنے با شندوں کے لیے آہنی شکنجے بن چکیں تھیں جبکہ یتیم مکہ کی چھوٹی سے کو ٹھڑی دنیا بھر کے بے بسوں مجبوروں مظلوموں کے اپنے اندر اخلاقی وسعتیں رکھتی تھی دنیا کے چپے چپے میں مظلوم کا لی کملی والے ﷺ کی ممتا جی آغوش میں سماتے گئے۔

حبش سے آنے والے روم سے آنے والے فارس سے آنے والے اور بخد سے آنے والے آتے گئے سما تے گئے کالی کملی والے ﷺ کی ممتا جی آغوش میں بحر بر سمٹ گئے بلا شبہ موجودہ دور سائنسی ایجادات کا دور ہے انسان نے اپنے آرا م کے لیے بے شمار مشینیں ایجاد کر لی ہیں زندگی کو بہت پر تعیش بنا لیا ہے لیکن پھر بھی ہر آن پھیلتی ہو ئی کا ئنات میں تنگی کا احساس بڑھتا جا رہا ہے سائنس کی بے پنا ہ ترقی کے با وجود دم گھٹنے لگا ہے آسمانی وسعتوں مشتری و مریخ کو سر کر نے کے زعم میں حضرت انسان اپنے نفس کی غلامی سے آج تک آزاد نہ ہو سکا انسان انسانیت سے دور اور جانور کے قریب ہو تا جا رہا ہے انسان کو اِس کر ہ ارض پر سب سے زیا دہ خو ف اگر ہے تو انسان سے ہی دنیا بھی میں لا کھوں لوگ اگر موت کے گھاٹ اتا رے جا تے ہیں تو با ہمی نفرتوں میں ایک دوسرے کو زیر کر نے میں دوسروں کو غلام بنا نے میں اپنی انا اور طا قت کا اظہار کر نے میں انسان جیسے جیسے محمد عربی ﷺ کے پیغام سے دور ہو تا جا ئے گا وہ اپنی اصل کو بھی کھو یا جا ئے گا مولانا احمد رضا بریلوی نے کیا خو ب کہا ہے۔


ٹھو کریں کھا تے پھر و گے ان کے در پر پڑے رہو
قافلہ تو اے رضا اول گیا آخر گیا


آج اگر اہل اسلام بھی حقیقی خو شیوں سے ہمکنار نہیں تو اس کی وجہ بھی آقا کریم ﷺ کی تعلیمات سے دوری ہے اور مغرب نوا زی کا شوق ہم یہ بھو ل جا تے ہیں کہ جس کلمہ اور کتاب نے اوس اور خزاج جیسے خو ن کے پیا سے قبیلوں کو محبت کی سنہری زنجیر میں با ندھ دیا تھا اس کلمہ اور قرآن پر ایمان رکھنے وا لے آج ایک دوسرے کو اسلام علیکم کہنے کے روا دارنہیں ہر ایک نے اپنے ہا تھ میں ترازو پکڑ رکھا ہے اور دوسرے کو کا فر کہنے کا لا ئسنس لے رکھا ہے ایک فرقے کا امام دوسرے فرقے کے امام کے پیچھے نماز پڑھنا درست نہیں سمجھتا سالوں سے نفرت کی بو ئی ہو ئی یہ فصل اب جوان ہو چکی ہے نفرت اِس حد تک بڑھ چکی ہے کہ مخا لف فرقے کی مسجد اور نمازیوں پر اس وقت گو لیوں کی برسات کر دی جب وہ لوگ خدا ئے بزرگ و برتر کے سامنے ہا تھ باندھے نماز پڑھ رہے تھے

پچھلے کئی سالوں سے ایسے بے شمار ہو لناک واقعات ہو چکے ہیں جب سجدہ گا ہوں کو خون ساجدین سے سرخ کر دیا گیا۔ آخر ہم کب تک خو ن کی ہو لی کھیلتے رہیں گے کب تک دوسروں کا مذہب کے نام پر قتل عام کر تے رہیں گے ہما رے آقا کریم ﷺ کا فرمان ہے کہ ایک مومن کا قتل پو ری انسانیت کا قتل ہے اور ہم تو یہاں پر ہزاروں لاکھوں انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار چکے ہیں اگر عالم اسلام اور اہل دنیا حقیقی امن اور بھائی چارہ چاہتے ہیں تو محمد عربی ﷺ کے پیغام حق کی طرف آنا ہو گا کیونکہ وہ کون سا نظام ہے جو دنیا نے آزما کر نہیں دیکھا وہ کون سا طرز حیات ہے جو کامیاب ہو اہے اِن تمام نظاموں کو اپنا نے کے بعد اہل دنیا کو ملا کیا انسانیت کے بے قدری ایک دوسرے سے نفرت برہمی ظلم و جبر دوسروں کو غلام بنا نے کی خوا ہش انسانی دنیا اگر اِس کر ہ ارض پر حقیقی امن اور بھا ئی چارہ چاہتی ہے تا کہ وہ مزید ٹھوکروں سے بچ جا ئے تو اسے غلامی رسول ﷺ میں آنا ہی ہو گا محمد عربی ﷺ کے پیغام کو اپنا نا ہی ہو گا کیونکہ آقا کریم ﷺ کی غلامی کی گلی میں بستر لگا نے والے بھی شان قصری رکھتے ہیں آقا کریم ﷺ انسانیت کی آبرو بڑھاتے آئے ہیں انسان کو اس کا اصل مقام اور آبرو اسی وقت ملے گی جب وہ محمد عربی ﷺ کے پیغام کو حقیقی معنوں میں اپنا لے گا۔

Posted in تازہ ترین, مضامین
53731

مشرقی اُفق – افغانستان – میرافسر امان

افغانستان اپنی قدیم سرحدوں کے ساتھ موجود ہے۔کسی زمانے میں اس میں پاکستان کا خیبر خواہ صوبہ بھی شامل تھا۔ افغانستان میں دریائے آمو کے شمال میں وسط ایشیا کی مسلمان ریاستیں ہیں جو روس نے عثمانی ترکوں سے چھینی ہے۔ جو روس کی شکست کے بعد آزاد ہوگئیں۔ ان ہی میں سے ایک چیجینیا بھی ہے جہاں امام شامل نے روس کے ساتھ ساٹھ سال تک مذاحمت کی تھی۔بعد میں بھی اس کے پوتے جنرل دادوئف نے بھی اسی سنت پر عمل کیا اور روس سے چیچینیا کو آزاد کرنے کے لیے روس سے لڑتا رہا۔روس اورامریکا نے مشترکہ کاروائی کرتے ہوئے سازش سے ایک ٹیلیفونک پریس کانفریس میں میزائیل مارکر شہید کیا تھا۔انتہائی شمال میں داکھان چین روس اور ریاست جموں کشمیر ہے۔مشرق اور جنوب میں پاکستان ہے۔مغرب میں ایران واقع ہے۔


افغانستان میں زرتشت، سکندر اعظم، اشوک کنشک اور بدھ تہذیب کے اثرات پائے جاتے ہیں۔افغانستان میں اسلام ساتویں عیسوی میں پہنچ چکا تھا۔ اسلام کے علاوہ کوئی دوسرا مذہب افغانستان میں جڑیں نہیں پکڑ سکا۔ 1965 ء تک افغانستان میں اسلامی شریعت ہی سرکاری قانون تھا۔ حکومے نے قانون بدلہ مگر عوام اپنے فیصلے شریعت کے تحت کرتے رہے۔ افغانستان کا رقبہ 6/ لاکھ 57/ ہزارکلو میٹر ہے۔افغانستان کو چاروں صرف سے خشک زمین اور سنگلاخ پہاڑوں نے گھیرے ہوا ہے۔ یہ ملک سطع سمندر سے چار ہزار فٹ بلندی پر واقع ہے۔افغانستان کی آبادی ڈھائی کروڑ سے زاہد ہے۔ کابل،قندار، جلال آباد اور مزار شریف مشہور شہر ہیں۔افغانستان میں پشتون، ازبک، تاجک،ہزارہ اور دیگر نسلیں ہیں۔پشتون ساٹھ فی صد ہیں۔پشتواوردری زبان زیادہ بولیں جاتیں ہیں۔ایک کروڑ چالیس ہزار ہیکڑ زمین قابل کاشت ہے۔85/فی صد آبادی کاشتکاری اور زراعت سے وابستہ ہے۔معدنی وسائل تانبا،سیسا، قدرتی گیس، کوئلہ،جست، لوہا، سونا اور چاندی کے ذخائر ہیں۔


جہاں تک ہندوستان کا ذکر تو محمود غزنوی کی فتوحات نے ہی ہندوستان میں مسلمان تہذیب کو ہندو تہذیب میں تحلیل ہونے سے بچایاتھا۔ افغانستان کے قوم پرست سوشلٹ حکمران کبھی بھی پاکستان کے دوست نہیں رہے۔ نادر شاہ کے زمانے کا افغانستان اسلامی کا نمونہ تھا۔ حکیم الامت ڈاکٹر شیخ علامہ محمد اقبال ؒ جب نادر شاہ سے ملنے افغانستان گئے تو نادشاہ نے نماز پڑھانے کا کہا تھا۔ تو علامہ اقبالؒ نے نادر شاہ کو امامت کے آگے کیا اور کہا تھا کہ مسلمانوں کے ایک عادل حکمران کے پیچھے نماز پڑھا فخر محسوس کرتا ہوں۔ اپنی ایک فارسی شعری مجموعی کا نام بھی نادر شاہ کے نام کیا تھا۔


برطانیہ نے تین جنگوں میں شکست کے بعد۲۱ /نومبر1893ء افغانستان کے بادشاہ امیرعبدالرحمان کے ساتھ معاہدہ”ڈیورنڈ“ کیا۔ اس قبل افغانیوں نے برطانیہ کہ جس کی کو سخت قسم کی شکست سے دو چار کیا۔ مشہور ہے کہ سای فوج کو ختم کر کے ایک ڈاکٹر کو زندہ چھوڑاتھا تاکہ وہ ہندوستان کی انگریز حکومت کو حالات سے آگاہ کرے۔ڈیورنڈ معاہدے نے افغانستان کے اس حق کوتسلیم کیا وہ دنیا سے تجارت اور سیاسی تعلقات قائم کرے۔ روس وسط ایشیا کی اسلامی ریاستیں ترک عثمانیوں سے ہتھیانے کے بعد دریائے آمو تک پہنچا۔ روس افغانستان کو چالیس سال تک کیمونسٹ بنانے میں لگا رہا مگر افغانیوں کے دلوں سے اسلام کی محبت نہیں نکال سکا۔ افغانیوں نے روس کی اسلامی دشمنی کو پسند نہیں کیا۔ بلا ٓخر روس نے اپنے پٹھو ببرک کارمل کو ٹینکوں پر بیٹھا کر افغانستان سے سارے معاہدے ایک طرف رکھتے ہوئے قبضہ کر لیا۔ دس سال خاک چھاٹنے کے بعد رسوا ہو کر نکلا۔ کیمونسٹ مشرقی یورپ اور وسط ایشیا کی مسلم ریاستیں جو ترکی سے چین تک پھیلی ہوئی تھیں، چھ اسلامی ریاستوں کی شکل میں آزاد ہوئیں۔


روس اور بھارت ہمیشہ اسلامی پاکستان کے مخالف رہے ہیں۔ روس اور بھارت کی سازش سے 1949ء۔1950ء میں پاکستان میں ناکام کیمونسٹ بغاوت ہوئی۔ اس میں مشہور کیمونسٹ سجاد ظہیر اور فیض احمد فیض شریک تھے۔سجاد ظہیر بعد میں ازاں بھارت فرار ہو گئے۔روس نے یہ خدمات بجا لانے پر فیض احمد فیض کو ”لینن انعام“ دیا تھا۔پاکستان کے پہلے وزیر اعظم نواب زادہ لیاقت علی خان کو شہید کرنے والا اکبر افغانی تھا۔بیان کیا جاتا ہے کہ وہ ببرک کارمل کا رشتہ دار تھا۔ببرک کارمل اسے ملنے ایبٹ آبادگیا تھا۔1949ء میں کشمیر میں پاکستان بھارت جنگ میں افغانستان میں بھارت کے لیے لڑنے کے لیے فوجی بھرتی کر نے کی اجازت دی۔ روس نے پاکستان میں 1949ء میں کراچی میں بین الاقوامی اسلامی کانفرنس کے انعقاد کو سامراجی کیمپ کے قیام کی کوشش قرار دیا۔ روس اور افغانستان نے بھارت کی طرف سے کشمیر، جونا گڑھ،منادور، اورحیدر آباد پر قبضہ کے خلاف

خاموشی اختیار کی۔بھارت اور افغانستان جنوری 1950ء میں دوستی کا معاہدہ طے پایا۔ روس اور بھارت نے پشتونستان کے شوشے کی حمایت کی۔افغانستان کی حکومت نے بین الالقوامی طور پر تسلیم شدہ ڈیورنڈ معاہدہ 1953ء میں یک طرفہ طور پر منسوخ کیا تھا۔پیپلز پارٹی کے ذوالفقار علی بھٹو کے پاکستان میں پھانسی پر دہشت گرد تنظیم اہل ذوالفقار بنی تو افغانستان نے اس کے پزیرائی کی۔بھارت، افغانستان اور روس کی اور کون کون سی سازشیں بیان کی جائیں؟


اللہ کا کرناکہ روس کی شکست کے بعد افغان طالبان کا اسلامی افغانستان وجود میں آیا۔ افغان طالبان نے نادر شاہ کے زمانے کی طرف لوٹ کر امارت اسلامیہ افغانستان کی بنیاد رکھی۔ ملک میں امن امان قائم کیا۔پوسٹ کی کاشت ختم کی۔ مگر صلیبیوں کو یہ منظور نہیں تھا۔ 2001ء میں محسن امت شیخ اسامہ بن لادن کو نائین الیون کا ماسٹر مائنڈ بنا کر امیر المومنین ملا عمر کو ؒ امریکا کے حوالے کرنے کا کہا۔ ملا عمرؒ اپنے اسلاف کی سنت پر عمل کرتے ہوئے وقت کے فرعون امریکا سے ثبوت مانگا اور کہا ہم اسامہ پر افغانستان میں مقدمہ چلائیں گے۔ امریکا کو بہانہ چاہیے تھا۔ اس نے 2001ء میں اپنے 48 نیٹو صلیبی اتحادیوں کے افغانستان پر حملہ کر دیا۔

دشمن ملت ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے امریکا کی ایک کال پر اس کے سارے مطالبات منظور کرتے ہوئے پاکستان کے بحری، بری اور فضائی راستے لاجسٹک سپورٹ کے نام پر دے دیے۔ اس پر وہ بھی پڑوسی مسلمان ملک افغانستان کی تباہی میں برابر کا شریک ہوا۔ امریکا نے بیس سال تک اپنے سارے جدیدہتھیار استعمال کر لیے۔ مگر بیس سال تک فاقہ مست افغان طالبان نے تن تنہا صلیبی اتحادیوں کو شکست فاش دی۔آج افغانستان آزاد ہے۔ امارت اسلامیہ افغانستان قائم کر دی گئی۔ اب انشاء اللہ فرعون جدید پھر اپنے اتحادی صلیبی طاقتوں کے ساتھ کبھی بھی کسی اسلامی مملکت پر حملہ آور نہیں ہو گا۔ اب مسلمان صلیبیوں پر حملہ آور ہوں گا۔ یہ ایسا ہی سین کہ جب مدینہ پر جنگ خندق کے موقعہ پر مکہ کے قریش عرب کے سارے سرداروں اور مدینہ کے یہودیوں کی اتحادی فوجوں نے مدینہ منورہ کو حصار میں لے لیا تھا۔ مگر اللہ نے ان اتحادی فوجوں کو شکست دی۔ امام مجائدین حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے کہا تھا کہ اب کفار تم پر حملہ آور نہیں ہو سکیں بے بلکہ تم ان پر حملہ آور ہوگا۔ پھر فتح مکہ ہوا۔ ابھی غزوہ ہند ہونا باقی ہے۔کشمیر،فلسطین اور دنیا کے مظلوم مسلمان کی اللہ سنے گا۔ اللہ مسلمانوں کی مدد فرمائے گا اور تاریخ اپنے آپ کو دھرائے گی۔ ان شاء اللہ

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
53687

سراجاََ منیرا-(ماہ ربیع الاول کے حوالے سے خصوصی تحریر)-ڈاکٹر ساجد خاکوانی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سراجاََ منیرا

(ماہ ربیع الاول کے حوالے سے خصوصی تحریر)

ڈاکٹر ساجد خاکوانی

                اللہ تعالی نے اپنی کتاب عظیم میں اپنے پیارے نبی ﷺ کو بہت سے ناموں سے پکاراہے۔ان میں ایک نام ”سراجاََ منیرا“ بھی ہے۔اس نام کا لفظی مطلب ”چمکتاہواسورج“ہے اور اس سے مراد ذات نبوی ﷺ ہے۔سورج جب چمکتاہے تو اسکی ہر چیز ظاہرہوتی ہے اور وہ اتنی بلندی پر ہوتا ہے کہ ہر کس و ناکس اسے دیکھ سکتا ہے اور اسکی روشنی سے فائدہ حاصل کرسکتاہے۔سورج کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ جہاں کہیں اسکی کرنیں براہ راست نہ بھی پہنچ سکیں تو بھی اسکی روشنی وہاں ضرور پہنچ پاتی ہے،سورج کی آمد سے قبل ہی اجالے اسکی آمد کا پتہ دیتے ہیں اور اسکے چلے جانے کے بعد بھی تادیر اسکی روشنی افق پر باقی رہتی ہے اوراگلے دن کی آمد تک سورج کے اثرات بہت حد تک ابھی باقی ہوتے ہیں۔چمکتے ہوئے سورج کی اوراہم خاصیت یہ بھی ہے کہ زمین کے جس حصے پرسورج طلوع نہیں ہوتا یا بہت کم طلوع ہوتا ہے وہاں انسانی زندگی تقریباََ ناممکن ہے یا پھر بہت مشکل اورانسانی فطرت سے بہت دور ہے۔

                قرآن مجید نے نبی آخرالزماں کو ”چمکتاہواسورج“قرار دے کر پوری انسانیت کو گویا انکی کرنوں سے روشنی کا طلبگاربنادیاہے۔اب یہ ایک مذہبی یا دینی نہیں بلکہ بہت بڑی تاریخی حقیقت بن گئی ہے کہ محسن انسانیت ﷺ کی زندگی کا ایک ایک پل آسمانی ہدایت کی چمکتی ہوئی کرنیں ہیں،آپ ﷺ کی زندگی کاایک ایک لمحہ انسانیت کے لیے حصول آسودگی کا بہت بڑا ذریعہ ہے اور آپ ﷺ کی حیات طیبہ کا ایک ایک ثانیہ عالم انسانیت کے اوپرآسمان رحمت بن کر سایہ فگن ہے۔آپ ﷺ کو ”سراجاََمنیرا“کہنے کا ایک پہلویہ بھی ہے کہ زندگی مبارک کی ایک ایک ساعت آج تک محفوظ و مامون ہے،چمکتے ہوئے سورج کی طرح نبی ﷺ کی زندگی بھی سب کے سامنے کھلی کتاب کی مانند ہے،جو چاہے پڑھے،جہاں سے چاہے پڑھے اور جس جس کو روشنی و راہنمائی چاہیے وہ اس سورج کی کرنوں سے فیض یاب ہو۔

                تاریخ میں جس احتیاط اور جس تفصیل سے آپ ﷺ کے حالات زندگی کو قلمبندکرکے تو محفوظ کردیاگیاہے اس کی مثال پوری انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔آج صدیاں گزرجانے کے باوجود آپ ﷺ کی نشست و برخواست،خوراک و لباس،طعام و قیام،پسندوناپسند،صلح و جنگ اور بودوباش سمیت آپ ﷺ کی نجی زندگی تک کی ایک ایک تفصیل اپنی جزیات سمیت مکمل طور موجود ہے۔حتی کہ آپ کے جانوروں کے بارے میں بھی ساری معلومات موجود ہیں،صدیاں گزرجانے کے باوجودآج بھی بتایاجاسکتا ہے کہ آپ ﷺ کی اونٹنی”قصوی“کے کتنے بہن بھائی تھے،اسکے کتنے بیٹے بیٹیاں تھے،اسکے نواسے نواسیاں اور پوتے پوتےٓن کتنے کتنے تھے،کس کس قبیلے کے کس کس فرد کے پاس کب کب تک رہے،کس کس جنگ میں استعمال ہوئے اور کہاں کہاں ذبح ہوئے۔

                ”سراجاََمنیرا“کہ کر قرآن نے آپﷺ کی زندگی کے سارے پہلوؤں کو روشن کردیاہے۔آج اس دور میں جب کہ ایک ایک چیز کومحفوظ رکھنے کے بیسیوں طریقے ہیں تب بھی کسی راہنما کے بارے اس حد تک معلومات میسر نہیں ہیں جتنی کہ صدیاں پہلے آپ ﷺ کے بارے میں معلومات جمع کر لی گئیں۔آپ ﷺ کی جد پشت کے تمام انساب آج تک معلوم ومحفوظ ہیں،شاید کسی اور کے بارے میں اس حد تک قطعاََ بھی معلوم نہ ہوں گے۔آپ ﷺ کے بارے میں اتنی سی بات بھی معلوم ہے کھانا کھا چکنے کے بعد اپنے دندان مبارک میں سے کھانے کا جو ذرہ زبان سے نکالتے تھے اسے نگل لیتے تھے  لیکن جو ذرہ ہاتھوں سے نکالتے تھے اسے نکال کر پھینک دیتے تھے۔آپ کی زوجات محترمات جو کل امت کی مائیں ہیں آپ ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ میرے اور اپنے تعلقات امت تک پہنچاؤ،چنانچہ ایک انسان کی انتہائی نجی زندگی جو وہ کبھی نہیں چاہتا کہ کسی کو پتہ چلے حتی کہ اسکی اولاد کو بھی،لیکن ”سراجاََ منیرا“ﷺکی اس زندگی کے بارے میں بھی تمام تفصیلات کتب سیرت میں تحریر ہیں۔ایک طالب حق کس طرح وظیفہ زوجیت پوراکرے،ہادی بر حق یہاں بھی اسکے لیے چمکتاہوا سورج ہیں۔

                آپ ﷺ پوری زندگی میں چار دفعہ اتنا ہنسے کہ پورے دندان مبارک دیکھے گئے،لیکن اس دوران بھی ہنستے ہوئے دہن مبارک سے آواز نہیں نکلی،آپ ﷺ کے پاس ایک زمانے میں ہاتھی دانت کی کنگھی بھی ہوا کرتی تھی،آپ ﷺ کے حجرہ مبارک میں تین مٹی کے پیالے تھے،ایک میں پانی،ایک میں جو اور ایک میں غالباََ کھجوریا کوئی دیگر جنس پڑی رہتی تھی۔آپ ﷺ کے گدے میں کھجور کے پتے بھرے رہتے تھے،بڑھاپے میں آرام دہ ہونے کی غرض سے ایک بار حضرت عائشہ ؓنے اسے دہرا کر دیا،اگلے دن آپ ﷺ نے حکم دیا کہ اسے اسی طرح کردوکیونکہ گزشتہ شب اٹھنے میں تاخیر ہوگئی۔ایک بار حضرت عمرؓآپ ﷺ کے حجرہ مبارک میں تشریف لائے،آپﷺ اپنی چٹائی سے اٹھ کر بیٹھ گئے اور کمر مبارک پر چٹائی کے نشانات چھپ سے گئے تھے،حضرت عمر ؓیہ کیفیت دیکھ کر روہانسے ہو گئے اور عرض کی روم و ایران کے بادشاہوں کے لیے تو ریشم اور مخمل کے بستر ہوں اور محسن انسانیت ﷺ کے لیے یہ چٹائی؟؟آپ ﷺ نے فرمایاعمر!کیا تم نہیں چاہتے کہ ان کے لیے دنیاکی نعمتیں ہوں اور ہمارے لیے آخرت کی۔

                آپ ﷺ کی گفتگوانتہائی مختصرہوتی تھی لیکن اتنی جامع کہ دریا کیا گویا سمندرکو کوزے میں بند کردیاگیاہوآواز بہت بلند بھی نہ تھی اور بہت پست بھی نہ ہوتی تھی،آپ جب گفتگو فرماتے تو محفل میں موجود ہر شخص آپ کو بخوبی سن پاتاتھا۔زندگی بھر میں ایک شعر بھی آپﷺ سے منسوب ہے جب ایک جنگ کے موقع پر آپﷺ نے ارشاد فرمایا”انا النبی لا کذبٍ             انا ابن عبدالمطلب“ممکن ہے یہ اتفاقیہ الفاظ ہوں جو اپنے وزن میں شعر کاروپ دھار گئے تاہم آپ ﷺ کو اشعار کا سننا بہت پسند تھا،اچھی خطابت کی بھی تعریف فرمایا کرتے تھے،حضرت حسان بن ثابت سے اپنے نعتیہ اشعار سنا کرتے تھے اور انہیں دعادیاکرتے تھے۔آپ ﷺکے خطبات بھی بہت طویل نہ ہوتے تھے،سب سے طویل ترین خطبہ جو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا وہ خطبہ حجۃ الوداع ہے،جس کوپڑھنے میں آدھ گھنٹے سے بھی کم وقت لگتا ہے اور ظاہر اس خطبے کے ارشاد میں اس سے بھی کم وقت لگاہوگا۔

                آپ ﷺ کا لبا س بہت سادہ ہوتاتھا،عموماََسبزعمامہ پہنتے تھے اورکوئی خاص موقع ہوتاتوسیاہ عمامہ سر پر اوڑھ لیتے۔بہت زیادہ تکلفات آپ ﷺکی زندگی سے خارج تھے اورسادگی سے ساری زندگی عبارت تھی،مدنی زندگی کے آغاز میں آپ ﷺ اپنے اصحاب کے درمیان ہی بیٹھاکرتے تھے جس سے نئے آنے والوں کوپہچاننے میں دقت ہوتی تھی تب صحابہ کے بے حد اصرارپر آپ ﷺکے لیے ایک نسبتاََ بلندجگہ بنادی گئی لیکن اس کے باوجود آپ ﷺ کو محفل کے امتیازات قطعاََ پسند نہ تھے اور مساوات،برابری اور اعتدال ہی آپ ﷺ کی عادات مبارکہ کا خاصہ رہا۔آپﷺ کا اخلاق اتنا بلند تھا کہ حسب موقع خاموشی کوہی انکار یا رضاسمجھاجاتاتھا،جب محفل میں تشریف فرماہوتے تو ایسے لگتا کہ ستاروں کے جھرمٹ میں چاند جلوہ گر ہے۔آپﷺ کا قد مبارک بہت میانہ تھا لیکن یہ معجزہ مبارک تھاکہ لمبے سے لمبے قد والا آدمی بھی دیکھنے میں آپ ﷺ سے پستہ لگتاتھا۔

                آپ ﷺجب بیت الخلا میں تشریف لے جاتے تو پہلے بایاقدم اند جماتے اور نکلتے ہوئے پہلے دایاں  قدم نکالتے،کپڑے جوتے،موزے چڑھاتے ہوئے پہلے دائیں عضوپر اور اتارتے ہوئے پہلے بائیں عضوسے اتارتے تھے۔مسجد میں پہلے دایاں قدم رکھتے اور نکلتے ہوئے پہلے بایاں قدم باہر نکالتے۔کوئی ہاتھ بڑھاتا تو مصافحہ کرتے بازو پھیلاتا تو معانقہ کرتے اور اس وقت تک نہ چھوڑتے جب تک کہ آنے والا خود نہ چھوڑ دیتا،ہر کسی کو مسکرا کر ملتے تھے۔سب سے بہترین سلوک اہل خانہ کے ساتھ تھا،ان کے ساتھ کم و بیش ہر کام میں ہاتھ بٹاتے تھے،ایک بار حبشیوں نے کوئی تماشاکیا،ام المومنین حضرت عائشہؓ جو عمر میں ابھی کم سن تھیں عرض کیا کہ مجھے بھی تماشا دیکھنا ہے،پرے حکم چونکہ نازل ہو چکاتھا اس لیے وہ سب سے بڑے انسان ﷺاپنی چھوٹی سی بیوی کی اس خواہش کو پورا کرنے کے لیے چوکھٹ میں کھڑے ہوگئے اور پشت سے حضرت عائشہؓ تماشا دیکھنے لگیں۔کافی دیر بعدآپ ﷺ نے پوچھا  عائشہ تماشادیکھ لیا؟؟عرض کیا کہ نہیں ابھی اور بھی دیکھنا ہے۔جب تک بیوی کادل نہ بھر گیاآپ ﷺ وہیں کھڑے ہوئے اسے تماشا دکھاتے رہے۔

                ”سراجاََمنیراﷺ“اس خالق کائنات کا چمکایاہوا سورج ہے،جو تاقیامت اور اسکے بعد بھی ہمیشہ روشن و تابندہ رہے گا،حقیقت یہ ہے اس نظام شمسی کے سورج سمیت کل کائنات کی روشنیاں اسی ”سراجامنیراﷺ“کی روشنی کے خراج سے مستعارہیں،اگر آپ ﷺ کو غصہ آجائے تو یہ دہکتاہوااور آگ برساتاہواسورج بھی کسی سائے میں پناہ ڈھونڈتا پھرے،اوراگر چاند کوآداب محبت اور برودت  سیکھنے ہوں توچشم بینا رکھنے والے  اسے یثرب کی گلیوں میں لوٹ پوٹ ہوتاہوا دیکھنے لگیں۔دنیا کی آسودگیاں اور آخرت کی راحتیں سب کچھ اسی ایک ذات نبوی ﷺ کی روشنی سے پھوٹنی والی کرنوں سے ہی ممکن ہے جس کے روضہ مبار ک پر صبح سے شام تک ستر ہزار فرشتے دور پڑھتے ہیں اور شام سے صبح تک اگلے ستر ہزار فرشتے اسی مقصد کے لیے آ جاتے ہیں اور جو فرشتہ ایک بار آگیا ہے پھر تاقیامت اسکی باری نہیں آئے گی۔

[email protected]

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
53685

داد بیداد ۔ کا بل کا منظر نا مہ ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

بین الاقوامی تعلقات کے علم میں دارلحکومت کا نا م لیکر ملک مراد لیا جا تا ہے یہ اصطلا ح اردو ادب میں مجاز مر سل کہلا تی ہے چنا نچہ کا بل سے مراد افغا نستا ن ہے اگر چہ اس کا نام ”نیا افغانستان“ نہیں رکھا گیا تا ہم افغا نستان میں تبدیلی آگئی ہے امارت اسلا می نے اقتدار سنبھال لیا ہے ملک میں ظاہر شاہ کے وقت کا دستور نا فذ کیا گیا ہے لیکن دو مہینے گذر نے کے با جود کسی ملک نے افغا نستا ن کی نئی حکومت کو تسلیم نہیں کیا اسلا می کا نفرنس کی تنظیم کے 57ممبر ممالک امارت اسلا می افغا نستان کی حکومت کو تسلیم کرنے کے لئے امریکہ کے حکم کے منتظر ہیں.

ہم ایسے دور سے گذر رہے ہیں جب جا بر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنے سے پہلے جا بر سلطان سے اجا زت لینے کی ضرورت پڑتی ہے اور جب تک جا بر سلطان اجا زت نہ دے کلمہ حق کو موخر کیا جا تا ہے امارت اسلا می افغا نستان کی حکومت جا بر سلطان کی حکومت کے ملبے پر قائم ہو ئی ہے اس لئے جا بر سلطان کبھی اس کو تسلیم کرنے کی اجا زت نہیں دے گا ایک بڑی یو نیور سٹی کے اڈیٹو ریم میں ایک دانشور کا لیکچر تھا دانشور بین الاقوامی تعلقات کے اخلا قی اقدار پر گفتگو کر رہے تھے ان کی گفتگو کا خلا صہ یہ تھا کہ بین لا قوامی تعلقات میں قو موں کے ساتھ بر تاؤ کے کڑے اصول ہیں کوئی قوم ان سے انخراف نہیں کر سکتی.

گفتگو کے اختتام پر ایک طا لب علم نے سوال کیا سر! کیا وجہ ہے 2002میں مشرقی تیمور آزاد ہوا وہاں عیسائی حکومت قائم ہوئی تو ایک ہفتے کے اندر امریکہ اور بر طا نیہ سمیت 60ممالک نے اس کو تسلیم کیا، افغا نستان میں امارت اسلا می کی حکومت کو دو مہینے گذر گئے کسی ایک ملک نے بھی اس کو تسلیم نہیں کیا آخر کیوں؟بین لاقوامی تعلقات کے اخلا قی اقدار کا تقا ضا کیا ہے؟ سوال سن کر دانشور تھوڑا سا سٹپٹا گیا اس نے اپنی پیشا نی سے پسینہ پونچھ لیا پا نی کا گلا س ہونٹوں سے لگا یاپا نی پی کر بولا بات کہنے کی نہیں مگر بعض اوقات اس کا ذکر بھی کر نا پڑتا ہے ہماری دنیا مذہبی گروہوں میں بٹ چکی ہے.

مشرقی تیمور کے عسائیوں نے انڈو نیشیا کے مسلما نوں سے آزادی کا مطا لبہ کیا عیسائی مما لک نے ان کا ساتھ دیا، اقوام متحدہ نے جھٹ پٹ رائے شما ری کرائی اور مشرقی تیمور کی آزادی کے بعد عیسائی حکومت بنی تو عیسا ئی مما لک نے فوراً اس کو تسلیم کیا اس کے بعد تما م مما لک نے تسلیم کیا مشرقی تیمور میں علٰحیدگی پسند جنگجووں کو ہیرو تسلیم کیا گیا کار لوس بیلو اور سنا نہ گُسماؤ کو امن کا نو بل انعام دیا گیا فلسطین اور کشمیر میں مسلما ن آزادی کا مطا لبہ کرے تو اس کو دہشت گر د قرار دیا جا تا ہے دانشور نے ان کہی بات بڑے سلیقے سے کہہ دی کا بل سے آنے والی خبروں کے مطا بق اما رت اسلا می کو چار بڑے مسائل کا سامنا ہے بینکو ں کا نظام معطل ہے جو تجا رت پراثر انداز ہورہا ہے،

خوراک اور ادویات کی شدید قلت ہے،ترقیا تی کام بند ہیں مزدوری نہیں ہے، غر بت اور بے روز گاری میں روز بروز اضا فہ ہو رہا ہے مذہبی منا فرت پھیل رہی ہے انسا نی المیہ جنم لینے والا ہے امریکہ، یو رپی یونین اور اقوام متحدہ نے امدادی سر گر میوں پر پا بند ی لگا ئی ہے عالمی طاقتوں کے چند شرائط ہیں جن کو ما ننے کے لئے اما رت اسلا می کی قیا دت اما دہ نہیں گزشتہ دو ہفتوں میں ایک مخصوص فرقے کی مسجدوں پر خو د کش حملے ہوئے ہیں نما ز جمعہ کے دوران ہو نے والے حملوں میں ڈیڑھ سو نما زی شہید اور دو سو سے زیا دہ زخمی یا معذور ہوئے اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو فرقہ ورانہ کشید گی پیدا ہو گی بعید نہیں کہ نسلی منا فرت کی آگ بھی بھڑک اُٹھے ان مسا ئل سے نمٹنے کے لئے 57اسلا می ملکوں کے تعاون کی ضرورت ہے اسلا می ملکوں نے تسلیم کیا تو پوری دنیا امارتاسلا می افغا نستان کو تسلیم کریگی کا بل کا منظر نا مہ گو مگو کی کیفیت سے دو چار ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
53683

دھڑکنوں کی زبان -”احتساب کی فکر“- محمد جاوید حیات


سیانوں نے کہا ہے کہ انسان جب رات کو سونے کے لیے سر تکیے سے لگائے تو اس دن پر غور کرے جو ابھی گزرا ہے۔سوچے کہ اس سے کیا کیا حرکتیں سرزد ہوئیں۔۔اس کی زبان اس کے ہاتھ اس کے جوارح جو اللہ کے حکم سے حرکت میں ہیں اور یہ ان کے لیے مکلف ہے سے کیا کیا کام سر انجام ہوئے۔اللہ کے احکامات کی کتنی پاسداری ہوئی رسول ؐ کے دین پر کتنا عمل ہوا۔عہدہ دار نے اپنے عہدے سے کتنا انصاف کیا حکمران نے اپنی رعایا کا کتنا خیال رکھا یہ سب انسان ہیں.

کیا حکمران کیا رعایا کیا ماتحت کیا آقا کیا امیر کیا غریب اس لیے سب کو اپنے بارے میں یوں سوچنا ہوتا ہے کہ”دنیا“یعنی بقول شکسپیر سٹیچ اس ڈرامے یعنی ”زندگی“نام کے ناٹک میں اس کی اداکاری کیسی ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ کوئی اس پر سوچتا نہیں سب کو اپنے آپ کو بھولنے کی عادت ہے اپنا performance کیا یادکریں گے۔اللہ نے فرمایا کہ تم اپنے آپ کو بھول جاتے ہو۔لیکن بے حسی کی حد یہ ہے کہ ہمیں اپنا آپ نظر نہیں آتا۔

ایک آفیسر اپنی سیٹ پہ بیٹھا ہے اسی کے قلم سے اسی کی میز پر اسی کے دفتر میں کرپشن ہوتی ہے لیکن اس کو احساس تک نہیں ہوتا۔اس عارضی دنیا میں رب نے مہلت دی ہے اس کو آزمائش گاہ بنایا ہے۔ہر چیز عارضی ہے عارضی چیز سے دل لگانے والا ویسے بھی بیوقوف ہے لیکن دل ایسا لگاتا ہے کہ اپنے آپ کوبھول جاتا ہے۔فکر آخرت اس لیے ضروری ہے کہ انسان شتر بے مہار نہ ہو۔۔۔ہمارے ہاں احتساب پر تقریر کرنے والوں سے اگر کوئی پوچھے کہ تو نے کبھی انجناب یعنی”اپنے بارے میں“ سوچا ہے تو شاید جواب نفی میں ہو۔

مجھے ایک بار ٹیکسی میں سفر کا مرحلہ پیش آیا مسافروں میں ایک متشرع آدمی بیٹھا تھا وہ معاشرے کی بُرایاں بتا رہا تھا حکمرانوں کو لیڈروں کو آفیسروں کو ذمہ داروں کو اساتذہ کو اڑے ہاتھوں لے رہا تھا ہم سب اس کو سن رہے تھے اس کے فرشتہ ہونے میں کوئی شک نہیں رہا تھا اب اس کی منزل آگئی اس نے پچاس روپے کا نوٹ نکالا اور کہا کہ ٹوٹے پیسے نہیں ہیں ڈرائیور نے کچھ نہیں کہا جب ہم کچھ آگے گئے تو ڈرائیور نے خود کلامی میں کہا ہمارا دماغ خراب کرنے سے بہتر نہیں تھا کہ اپنا کرایہ پورا ادا کرتے یعنی 150 روپیہ۔۔۔۔میں نے پوچھا یہ فرشتہ صفت کون تھا ڈرائیور نے کہا چھوڑو صاحب ہمیں صرف دوسروں کی غلطیاں نظر آتی ہیں اپنی نہیں۔

معاشرہ اس وقت جنگل بن جاتا ہے جب ہم احتساب کی فکر ہی چھوڑ دیں۔۔اگر کوئی قانون اگر کوئی سسٹم اگر کوئی آئین مجرم کے لیے پناہ گاہ بن جائے اگر انصاف کے ہاتھ باندھ دیے جائیں۔اگر کوئی کسی احتساب کو اپنے اوپر لاگو نہ کرے۔ تو اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔ہمیں ہزار احتساب عدالتیں قائم کرنے سے بہتر ہے کہ اس فکر کو فروغ دیں۔خود احتسابی کا یہ احساس پیدا کریں۔یہ احساس نچلے طبقے سے اوپر نہیں چھڑتا اوپر سے نیچے کی طرف سفر کرتا ہے۔

آقاسچا کھرا ہو تو نوکر خود بخود اسی رنگ میں رنگ جاتا ہے۔حکمران سچا کھراہو تو رعایا اسی رنگ میں رنگ جاتا ہے۔ہمارے وجود میں خیر و شر دونوں موجود ہوتے ہیں ہمیں مفادات سے لڑنا ہوتا ہے۔ہمیں خواہشات سے لڑنا ہوتا ہے ہمیں حق کے مقابلے میں باطل سے لڑنا ہے۔ہمیں بے انصافی کے مقابلے انصاف کا ساتھ دینا ہے تب جاکے احتساب کی فکر پیدا ہوگی اگر یہ پیدا ہوگی تو کمال ہوگا۔۔۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
53667

اسوہ نبیﷺ کی روشنی میں پرامن بقائے باہمی کا تصوراور  تہذیبوں کے درمیان مفاہمت کا فروغ- ڈاکٹر ساجد

ابسم اللہ الرحمن الرحیم

اسوہ نبیﷺ کی روشنی میں پرامن بقائے باہمی کا تصور

 اور

 تہذیبوں کے درمیان مفاہمت کا فروغ

(ماہ ربیع الاول کے حوالے سے خصوصی تحریر(

ڈاکٹر ساجد خاکوانی

                سیرت النبی ﷺکادرس اولین ہی دراصل پرامن بقائے باہمی ہے،محسن انسانیت ﷺنے اپنی مکی زندگی کے تیرہ سال اس انتہائی کوشش میں صرف کر دیے کہ پرامن انقلاب کا راستہ ہموار ہو سکے اور کشت و خون کی نوبت نہ آئے،آپ ﷺکے جانثاروں نے بارہا تقاضا کیا کہ مکی زندگی کی صعوبتوں سے نبردآاماہونے کے لیے انہیں مقابلے کی اجازت دی جائے لیکن محسن انسانیت ﷺکی پرامن طبیعت اس پر آمادہ نہ ہوتی تھی اور اصحاب رسول ﷺ کو مکی زندگی میں کشمکش کی اجازت مرحمت نہ ہوسکی۔آپ ﷺ اس وقت تک مکہ میں قیام پزیر رہے کہ جب تک مکہ مکرمہ کی سرزمین آپ ﷺ کے تنگ نہ کر دی گئی اور اس کے باسیوں نے آپ ﷺ کو وہاں سے نکلنے پر مجبور نہ کر دیا۔بادی النظر میں دیکھنے سے واضع طور پر محسوس کیاجاسکتاہے کہ یہ پرامن طبیعت نبوی کا شاہکار تھا کہ قتل کی آخری کوشش تک مکہ میں قیام رہا اور اہل مکہ کے گماشتے اس طرح محاصرہ کر کے گھرکے باہر صف آراہوگئے کہ موقع پاتے ہی نعوذباللہ من ذالک زندگی کا چراغ گل کر دیاجائے تب آپ ﷺنے وہاں سے رخت سفر باندھا۔

                مدنی زندگی کی شروعات ہی میثاق مدینہ سے ہوتی ہیں جو پرامن بقائے باہمی اور تہذیبوں کے درمیان مفاہمت کی آج دن تک ایک شاندار مایہ ناز اورتاریخ ساز دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔اس میثاق کے بعد دنیاکے نقشے پر اور اس آسمان کی چھتری تلے پہلی دفعہ ایک کثیرالمذہبی معاشرے نے جنم لیا۔ایک نبی علیہ السلام کی سربراہی میں قائم ہونے والے اس کثیرالمذہبی پرامن معاشرے میں ہر مذہب کے ماننے والوں کو انکی مذہبی آزادی کی ضمانت فراہم کی گئی تھی اورجملہ اختلافی امور باہمی گفتگوسے طے کرنا منظور پائے تھے اور کسی بھی تنازع کا حتمی فیصلہ ختمی مرتبت ﷺکے دست مبارک سے ہوناضبط تحریرمیں لایاگیاتھا۔اس زمین کے سینے پریہ پہلاتحریری دستورتھاجو ایک ریاست کی بنیادبناحالانکہ اس سے پہلے کتنی ہی پڑھی لکھی ریاستیں اور حکومتیں وجود میں آ چکی تھیں لیکن،مقتدرطبقہ کی خواہش اقتداراور حوس ملک گیری کے سامنے کوئی تحریر اپنادم خم نہ دکھاسکی اورانسانی کھوپڑیوں کے میناراور مخالف تہذیب و مذہب کی عصبیت نے ہمیشہ اخلاقیات کے دروس کا مذاق ہی اڑایااور انسانیت کے سارے اسباق منہ دیکھتے ہی رہ گئے۔اس کے برعکس محسن انسانیت ﷺنے اپنی ریاست کی تاسیسی بنیادیں ہی میثاقیات کی پختہ اینٹوں پر استوار کیں۔

                محسن انسانیت ﷺنے انسانی تاریخ میں پہلی بار جنگی قیدیوں کی آزادی کا تصور دیاغزوہ بدر سے پہلے اس بات کا تصور ہی نہ تھا کہ جنگی قیدی کو آزاد بھی کیاجاسکتاجاہے؟؟،اس وقت تک کی بڑی بڑی تہذیبیں جن کی گونج آج کے ایوانوں میں بھی سنائی دیتی ہے ان کے کارپرداران بھی جنگی قیدی کو حق زندگی دینے پر تیار نہ تھے لیکن یہ خاتم النبیینﷺ نے پہلی بار دشمن کے قیدیوں کو زندہ رہنے اور آزادی سے زندہ رہنے کاانسانی حق عطاکیااور پرامن بقائے باہمی کی عظیم اور شاندار عمارت کی تعمیر کرتے ہوئے اس کی بنیادوں میں اپنے دست مبارک سے ان مقدس روایات کی مضبوط سلیں رکھیں۔اس سے بڑھ کریہ کہ پوری تاریخ انسانی میں ایساکبھی نہ ہواتھاکہ فاتح قوم اپنی مفتوح قوم کو برابری کی بنیادپر بٹھاکر تو اس سے مزاکرات کے ذریعے مسائل کو حل کرے۔روایت تو یہ تھی مفتوح اقوام کے مردوں اور عورتوں کو لونڈی غلام بنالیاجاتاتھا،انکی املاک کو لوٹ لیاجاتاتھا،ان کی فصلیں نذرآتش کردی جاتی تھیں اور انکے جانوروں اور جائدادوں کو فاتحین آپس میں بانٹ لیتے تھے۔لیکن یہاں تاریخ کاطالب علم عجیب ہی نقشہ دیکھ رہا ہے اور انگشت بدنداں ہے کہ خیبرکافاتح پرامن بقائے باہمی اور تہذیبوں اور مذاہب کے درمیان ہم آہنگی کی تاریخ کا ایک نیاباب رقم کرنے چلاہے۔یہاں فاتح اور مفتوح آمنے سامنے بیٹھ کر مزاکرات کر رہے ہیں اور اس سے بھی زیادہ کتنی عجیب بات ہے فاتح بھی نصف پر اکتفاکررہاہے،حالانکہ وہ تلوار کے زور پر کل پر بھی تصرف حاصل کرناچاہے تو کوئی امر مانع نہیں ہے۔

                حقیقت تو یہ ہے کہ اسوۃ نبی  ﷺ کی پرامن بقائے باہمی اور بین المذاہب ہم آہنگی کے سامنے  صرف قدیم ہی نہیں دورحاضر کی یورپی سیکولر تہذیب بھی ننگ شرمسار ہے۔انسانیت کے نام پر انسانوں کا قتل اور آج مشرق سے مغرب تک دریاؤں میں بہتاہواخون اس یورپی سیکولر تہذیب کے منہ پر زوردارتمانچہ ہے۔محسن انسانیت ﷺنے تو دشموں کو بھی معاف کر کے پرامن بقائے بامی کی ایک تاریخ ساز روایت قائم کی تھی جبکہ اس سیکولر تہذیب نے تواپنوں کو بھی معاف نہیں کیا ایک وقت میں دوست بناکر قرطاس طہارت کی مانندخوب خوب استعمال کر کے تو اگلے وقت میں موت کی نیند سلادینے کی ان گنت مثالیں اس سیکولرتہذیب کے سیاہ چہرے پر مکروہ داغ کی طرح واضع ہیں۔محسن انسانیت ﷺنے تو ایک زبردست قسم کی دینی و مذہبی ریاست میں غیر مذہب والوں کے حقوق کا بے پناہ تحفظ کر کے انہیں اپنے دامن رحمت میں سایہ عاطفت عطا کیا جب کہ اس سیکولرتہذیب نے تو لادین ریاستوں کے اندر مذہبی منافرت کی وہ داستانیں رقم کی ہیں ہولوکاسٹ سے نائن الیون کی بعد کی تاریخ تک سیکولرازم کا ورق ورق انسانی خون سے رنگین،جنسیت سے شرمساراوروحشت و بربریت کی داستانوں سے اپنے آغاز سے اختتام بھرادھراہے۔

                قرآن مجید نے سورۃ بقرہ کی آیت نمبر62میں ارشادفرمایا کہ”یقین جانو کہ نبی عربیﷺ کے ماننے والے ہوں یایہودی،مسیحی ہوں یا صابی،جو بھی اللہ تعالی اورروزآخرپرایمان لائے گااور نیک عمل کرے گااس کااجر اس کے رب کے پاس ہے اوراس کے لیے کسی خوف اوررنج کاموقع نہیں“۔بعینہ یہی مضمون سورہ المائدہ کی آیت نمبر69میں بھی اللہ تعالی نے دہرایاہے۔پس محسن انسانیتﷺ کی تعلیمات میں ہرمذہب کے ماننے والوں کے لیے دروازے کھلے ہیں۔قرآن مجید کی انہیں تعلیمات کے نتیجے میں اولین مفسرقرآنﷺنے ایک کثیرالمذہبی اور کثیرالقومی معاشرہ تشکیل دیاجس میں سب مذاہب باہمی اشتراک حیات کی بنیادپر یقین رکھتے تھے۔اس دنیاپر مسلمانوں نے کم و بیش ایک ہزارسالوں تک حکمرانی کی اور مشرق سے مغرب تک مسلمانوں کی افواج اور اسلام کے پرچم لہراتے تھے اور ان ایک ہزارسالوں میں کہیں مذہبی فسادات رونمانہیں ہوئے،اپنے دوراقتدارمیں مسلمان اکثریت میں بھی رہے اور اسپین سمیت متعدد علاقوں میں اقلیت میں ہونے کے باوجود مسلمان حکومت کرتے رہے لیکن ان ہر دوصورتوں میں کہ غیرمسلم اکثریت تھی یا غیرمسلم اقلیت،بحیثیت مجموعی غیرمسلموں نے مسلمانوں کے اس کل دور اقتدارمیں مکمل امن و آشتی کے ساتھ اپنی مدت حیات پوری کی۔خاص طورپریہودیوں نے اپنی ہزاروں سالہ تاتریخ میں سب سے پرامن وپرمسرت وقت مسلمانوں کے دوراقتدارمیں گزارا،ان ایک ہزارسالوں میں کوئی ہولوکاسٹ نہیں ہوااور نہ ہی یہودیوں سمیت کسی مذہب کے ماننے والوں کی اجتماعی ہجرت کے جاں گسل واقعات رونماہوئے اور نہ ہی ہتھیاروں کی دوڑ اور عالمی جنگیں وقوع پزیرہوئیں۔یہ امت مسلمہ کا مجموعی کردارمفاہمت تھااور آج بھی کل دنیامیں جہاں مسلمان آبادیاں سیکولرافواج کے ہاتھوں گاجرمولی کی طرح کٹ رہی ہیں کسی مسلمان معاشرے میں غیرمسلم غیرمحفوظ نہیں ہیں۔

                انسانی تجربے سے اب یہ بات خوب تر آشکارہوچکی ہے کہ کوئی جنواایکارڈ اور کوئی اقوام متحدہ اور کسی طرح کے انسانیت کے دعوے دار پرامن بقائے باہمی اورتہذیبوں کے درمیان مفاہمت کے فروغ کاباعث نہیں بن سکتے۔اسلام کے سوا ہر مذہب اور ہر تہذیب نے دوسروں کا استحصال کیاہے اور کررہے ہیں اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے،صرف انبیاء علیھم السلام کی تعلیمات ہی پرامن بقائے باہمی اور اقوام و ملل کے درمیان مفاہمت کے فروغ کاباعث بن سکتی ہیں،اور تاریخ شاہد ہے کہ یہ تعلیمات نقلی طور پر بھی صرف مسلمانوں کے پاس محفوظ و مامون ہیں اور عملی طور پر بھی مسلمانوں کااقتدارہی ان کاضامن ہو سکتاہے۔انسانیت صرف ایک درس کی پیاسی ہے اور وہی درس خطبہ حجۃ الوداع ہی انسانوں کے درمیان انسانیت کے فروغ کاباعث بن سکتاہے۔فی زمانہ سود کے نام پر معاشی استحصال،جمہوریت کے نام پر اقوام کی گردنوں میں طوق غلامی،آزادی نسواں کے نام پر اس بازارمیں بنت حواکی ارزانی،عالمی امن کے نام پر توسیع پسندی اور فوجوں کی ماردھاڑاور یلغاراور تعلیم،صحت اور ابلاغ کے نام پر کمرشل ازم کے بدبودار،مکروہ،مکروفریب سے بھرے اور کذب و نفاق سے آلودہ تجربات سے سسکتی انسانیت اب تھک چکی ہے۔اہل نظر اب مشرق سے ابھرتے ہوئے اس سورج کو بنظرغائر دیکھ رہے ہیں جس کی کرنیں اقراکے نور سے منور ہوں گی اور وہ دن دور نہیں جب سیرۃﷺ کے چشمہ فیض سے انسانیت کو آسودگی میسر آنے والی ہے۔

                                                                                خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوہ دانش فرنگ

                                                                                سرمہ ہے میری آنکھ کا خاک مدینہ و نجف

[email protected]

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
53662

داد بیداد ۔ غیر ضروری مبا حثے۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

تبدیلی، تقرری، معزولی، تو سیع، عدم تو سیع ایسے مبا حثے ہیں جنکی ضرورت نہیں اسی طرح اعتما د، عدم اعتما د بھی غیر ضروری مبا حثے ہیں انگریزی میں ایسی باتوں کو نا ن ایشو کہا جا تا ہے جس ملک میں کوئی مسئلہ نہ ہو وہاں ”نا ن ایشو ز“پر بات کی جا تی ہے جس ملک میں چاروں طرف مسا ئل ہوں وہاں مسا ئل پر بحث ہوتی ہے ”نا ن ایشوز“ کو نہیں چھیڑا جا تا ہمارے دوست شا ہ جی کہتے ہیں کہ نا ن ایشوز یا غیر ضروری مبا حثے ہماری تہذیبی روا یا ت میں شا مل ہیں، بچہ اگر چا قو، چُھری، قینچی یا کسی اور نوک دار چیز کو ہاتھ لگا نے کی ضد کرے تو یہ مسئلہ بن جا تا ہے ایشو بن جا تا ہے.

ما ں باپ اگر بچے کو منع کریں تو وہ روتا ہے پورا گھر سر پر اٹھا لیتا ہے اس لئے ماں باپ ”نا ن ایشو“ کی طرف رخ کر تے ہیں بچے سے کہتے ہیں وہ دیکھو کتنا پیا را چو ہا ہے ابھی اپنے بِل سے نکل آئے گا وہ دیکھو سبز اور سرخ رنگ کا چو ہا نکلا ہی چا ہتا ہے بچہ چوہے کو ڈھونڈ نے لگتا ہے بل پر نظریں جما تا ہے اتنے میں ماں باپ سامان سمیٹ لیتے ہیں چاقوچھریاں وغیرہ چھپا لیتے ہیں ہماری تہذیبی روایت میں نا ن ایشو سے اور بہت سے کا م لئے جا تے ہیں جب اصل مسئلہ کا حل نہ ہو تو نا ن ایشو کے ذریعے اصل مسئلے کو دبا یا جا تا ہے چوہا، پرندہ، بھو ت پریت وغیرہ ایسے وقت پر کا م آتے ہیں سر کارکو بھی عوام کے لئے ما ں باپ کا درجہ حاصل ہے

عوام جب بے چینی کا اظہار کریں، بے قراری دکھا ئیں سرکار کو تنگ کریں تو سر کار اصل مسا ئل کو چاقو اور چھری کی طرح چھپا نے کے لئے نا ن ایشوز کا سہا را لیتی ہے عوام نا ن ایشو میں کھو جاتی ہے سرکار کی سردردی میں افا قہ ہوتا ہے پھر کوئی مسئلہ پیش ہو نے لگے تو پھر کسی نا ن ایشو سے کا م لیا جا تا ہے ان دنوں ہمارے ہاں ملا زمین کی تبدیلیوں اور تقرریوں کا غیر ضروری مبا حثہ زوروں پر ہے حالا نکہ سرکار ی ملا زم کی تقرری یا تبدیلی کوئی مسئلہ ہی نہیں.

اخبارات میں یا ٹیلی وژن پر یا سو شل میڈیا کے ذریعے سرکاری ملا زمین کی تقرری یا تبدیلی کا واویلا با لکل فضول ہے یہ کو ئی قو می یا بین الاقوامی مسئلہ نہیں عوام کو در پیش گھمیبر مسائل سے اس کا کوئی تعلق نہیں ملا زمین کی تقرری یا تبدیلی سے تیل ارزاں نہیں ہو گا آٹے کے نر خ میں کمی نہیں آئے گی، گھی اور دالیں سستی نہیں ہو نگی سی این جی، ایل این جی اور ایل پی جی کے مسائل حل نہیں ہو نگے ایک پہاڑی مقام پر 85سال کی عمر میں ایک بڑھیا اماں ٹیلی وژن پر تبدیلی، تقرری، اعتماد، عدم اعتماد والی خبریں سن رہی تھی ان کے پو تے نے کہا نا نی اماں آپ یہ خبریں اتنی دلچسپی کے ساتھ کیوں سنتی ہیں؟ نا نی اماں نے کہا بیٹا! میں نے گاوں میں یہ باتیں بہت دیکھی ہیں اس لئے مجھے ان باتوں میں دلچسپی ہے ہمارے پڑوس میں جب کسی گھر میں نئی بہو آتی ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ بہو کیسی ہے؟

اگر گھر کو نئی چیزوں سے سجا ئے، نئے نئے پکوان لے آئے، نئے نئے کپڑے سی کر دے دے تو کہتے ہیں اچھے گھر کی بیٹی ہے سلیقہ مند ہے لا ئق اور فائق ہے اگر نئی بہو پرانے بر تنوں کو ادھر ادھر پھینکنا شروع کرے پرانے بر تنوں کو آپس میں ٹکرا کر شور برپا کرے تو کہتے ہیں کہ اچھے گھر کی بیٹی نہیں سلیقہ شعار نہیں نا لا ئق اور نکمی ہے ملک میں نئی حکومت بھی نئی بہو کی طرح ہو تی ہے اس لئے میں خبروں میں دلچسپی لیتی ہو ں یہ تبدیلی، تقرری کے شوشے مجھے ایک آنکھ نہیں بھا تے اعتماد عدم اعتماد مجھے با لکل پسند نہیں مہنگا ئی کی بات کرو غر بت اور بے روز گاری کی بات کرو پوتے نے نا نی اماں کو سمجھا یا تبدیلی اور تقرری کے کھیل میں پیسہ ہے جوا ہے اعتماد اور عدم اعتما د بھی سر ما یہ کاری ہے ایک مہینے میں 10ارب روپے کا سو دا ہوا ہے مزید دو چار ارب روپے لگا نے کے بعد کھیل انجام کو پہنچیگا نا نی اماں کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی وہ غربت، بے روز گاری اور مہنگا ئی کو اصل مسئلہ سمجھتی ہے باقی ساری باتیں اس کو غیر ضروری مبا حثے لگتے ہیں اسی طرح ہو تا ہے شب و روز تما شا میرے آگے۔

Posted in تازہ ترین, مضامین
53660

المیہ – تحریر اشتیاق احمد


زندہ قومیں ہمیشہ اپنے محسنوں کو یاد کرتے ہیں اور ان محسنوں کو اپنی زندگی میں ایسا مقام دلواتے ہیں کہ دنیا دنگ رہ جاتی ہے پھران کے دنیا سے جانے کے بعد بھی ان کا کردار اور ان کی خدمات تا ابد دلوں میں زندہ رہ جاتے ہیں۔


ایسے ہی ایک شخصیت حالیہ کچھ دنوں میں اس دار فانی سے رخصت ہونے والے ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہیں۔( اس کے علاوہ ان گنت مثالیں اس ملک کے اندرموجود ہیں ایسے افراد جنھوں نے اپنی زندگی تک اس ملک و قوم کے لئے وقف کی تھیں خواہ وہ سیاست دان، جنرلز ،ججز بیروکریٹس،اساتذہ کرام،ایسے گمنام سپاہی جو بظاہر تو نظر نہیں آتے لیکن کسی بھی ملک کی بقااور سالمیت کے ضامن ہوتے ہیں اس کے علاوہ کسی بھی شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد) ان کو وہ مقام ومرتبہ ہم بحیثیت قوم دے نہیں پاتے ہیں کہ جن کے وہ اصل حقدار ہوتے ہیں۔اس کی دنیا میں کئی ایک مثالیں ہیں کہ انھوں نے اہنے محسنوں کو وہ مقام و مرتبہ عطا کیا ،ان کو ملک کے ایوانوں تک لے آئے اور کچھ ممالک میں تو ان کو بحیثیت سربراہ مملکت تک کی اہم ذمہ داریاں سونپ دیں پھرانھوں نے ملک و قوم کی سربراہی کا حق ادا کر دیا اور آج دنیا ان کی مثالیں دینے پر مصر ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب نے مملکت خداداد کی سالمیت کو نا قابل تسخیر بنانے میں اہم کردار ادا کیا،پاکستان کودنیا کے خطے پر پہلا اسلامی ایٹمی ملک بنانے اوردنیا کی ساتوںں ایٹمی قوت بنا کے اور بھی اہمیت کے حامل بنا دیا، ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ہم ان کو اپنے سر کا تاج کہ کے ان کو وہ مقام و مرتبہ عطا کرتے کہ جس کا وہ واقعی حقدار تھے کیا بحیثیت قوم ہم نے ان کو وہ مقام دیا؟


ڈاکٹر صاحب نے 2012 میں جذبہ حب الوطنی کے پیش نظر ایک سیاسی جماعت کی بنیاد رکھ دی ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ہم ان کو اس منصب پہ براجمان کرتے اور زمام کار بھی ان کے حوالے کرتے تاکہ وہ اس ملک کو اس رخ پہ چلاتے اور پاکستان کے وجود کو اوع بھی نا قابل تسخیر بناکے دنیا کے دیگرترقی یافتہ ممالک کے صفوں میں شامل کرتے اپنی دیانت داری اور راست گوئی اور منا سب پلاننگ کے تحت لیکن ہم نے اس کے برعکس ایسا کردار ادا کیا کہ ڈاکٹر صاحب اپنی زندگی میں ہی دل برداشتہ ہو گئے اور اپنی نوزائیدہ پارٹی کو چند ماہ بعد ہی تحلیل کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ کہیں پہ بھی پاکستان کے کسی علاقے میں بھی ان کو پذیرائی نہیں ملی اور کچھ علاقوں میں تو ان کی پارٹی ٹکٹ لینے کے لئے کوئی تیار نہیں تھا۔


ڈاکٹر صاحب نے تحریک تحفظ پاکستان کے نام سے جس پارٹی کی بنیاد رکھی تھی وہ اس نظرئے کی بنیاد پہ تھی کہ اس مملکت خداداد کی سالمیت پہ آنچ نہ آئے اور اس کی ہر طرح سے حفاظت کی جائے لیکن ہم نے پورے پاکستان سے ان کو ایک سیٹ بھی نہیں دلوائی اور ان کے لوگوں کی ضمانتیں تک ضبط ہو گئیں یہی کچھ حال ہم نے عبدالستار ایدھی کی پارٹی کے ساتھ بھی کیا تھا (حالانکہ وہ بھی درد دل رکھنے والے سچے پاکستانی تھے،ان کی خدمات بھی کسی سے ڈکھی چھپی نہیں ہیں ) ان کے لوگوں کی بھی ضمانتیں ضبط ہو گئیں تھیں اور یہی حال ہر جگہ اور ہر علاقے میں درد دل اور ملک و قوم کی خدمت سے سرشار لوگوں کے ساتھ ہوتا رہا ہے۔
من حیث القوم ہمیں اس جانب توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم اپنے محسنوں کو پہچانیں اور ان کو دنیا میں وہ مقام و مرتبہ عطا کریں کہ جن کے وہ واقعی حقدار ہوتے ہیں،زمام کار ایسے افراد کے ہاتھ میں تھما دیا جائے تو اس ملک کو دنیا کے دیگر معاشی اور ہر حوالے سے مضبوط طاقتور ممالک کی صفوں میں لا کھڑا کر سکیں پھر اس کی دیکھا دیکھی قوم کے مستقبل کے معماران کے جذبات کو اور مہمیز ملے اور وہ دل لگا کے اس ملک کو آگے لے جانے میں مدد کر سکیں اس کے لئے وہ اپنی صلاحیتیں بروئے کار لاتے ہوئے دن دگنی رات چگنی محنت کر سکیں کہ یہ قوم اپنے محسنوں کی کاوشوں کو کبھی نہیں بلاتی اور کو زندگی کے ہر شعبے میں کامیابیوں کے زینے چڑھا دیتی ہے اور اگر ایسا نہ ہوا تو خاکم بداہن نوجوان بد دلی اور مایوسی کا شکار ہو جائیں اور یہ نہ کہیں کہ یہ قوم تو اپنے محسنوں کے ساتھ کوئی اچھا برتائو نہیں کرتے اور اگر ہم بھی ایسی خدمت کریں ملک و قوم کی تو ہمارے ساتھ بھی ویسے ہی سلوک ، رویہ برتاءو رکھا جائے گا تو یہ قوم کے معماران فرسٹیشن کا شکار ہونگے اور ایسا نہ ہو کہ ملک و قوم کی مفاد میں سوچنے اور پلاننگ کرنے کے بجائے ہم اپنے من کے پجاری بنتے جائیں ۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
53656

معجزات نبوی ﷺ –  (ماہ ربیع الاول کے حوالے سے خصوصی تحریر)- ڈاکٹر ساجد خاکوانی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

معجزات نبوی ﷺ

 (ماہ ربیع الاول کے حوالے سے خصوصی تحریر(

ڈاکٹر ساجد خاکوانی

                لفظ”معجزہ“کا مطلب عاجزکردینا یعنی مجبور کردیناہے۔نبی کے ہاتھ سے صادرہونے والا ایسا کام جو دوسرے کو لاجواب کردے اور اسکاکوئی توڑ پیش نہ کیاجاسکے اور نہ ہی اسکا کوئی جواب دیاجاسکے،معجزہ کہلاتاہے۔اصطلاح میں ”خرق عادت“ کومعجزہ کہاجاتاہے جو صرف انبیاء علیھم السلام سے ہی ممکن ہوسکتاہے۔”خرق عادت“سے مرادایسا امر جو عام معمول سے ہٹ کر ہو۔مثلاََ عام حالات میں ڈنڈا زمین پر پھینک دینے سے ڈنڈا ہی رہتاہے لیکن اللہ تعالی کے نبی حضرت موسی علیہ السلام جب اپنا ڈنڈا یعنی عصا زمین پر پھینکتے تو وہ اژدہا بن جاتا،عام آدمی کو آگ میں پھینکنے سے وہ جل جاتا ہے لیکن اللہ تعالی کے نبی حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں پھینکاگیاتو وہ صاف بچ کر آ گئے اورپیٹ میں جو چیز بھی جائے وہ ہضم ہوجاتی ہے لیکن اللہ تعالی کے نبی حضرت یونس علیہ السلام چالس دنوں تک مچھلی کے پیٹ میں رہے لیکن زندہ باہر نکل آئے وغیرہ یہ سب معجزے تھے۔

                محسن انسانیت ﷺ نے بھی اپنی حقانیت کے ثبوت میں متعدد معجزے پیش کیے۔آپ ﷺ کا سب بڑا معجزہ قرآن مجید ہے،یہ ایک زندہ کتاب ہی نہیں بلکہ زند ہ معجزہ ہے جو تاقیامت زندہ رہے گا۔اس کتاب کی زبان کازندہ رہنا کسی معجزے سے کم نہیں۔دنیامیں کسی زبان کی عمرساٹھ ستر سالوں سے زیادہ نہیں ہوتی،اس مدت کے بعد وہ زبان تبدیل ہوجاتی ہے یا پھر کچھ عرصہ مزید گزرنے کے بعدمتروک ہی ہوجاتی ہے جب کہ قرآن مجید کی زبان گزشتہ کئی صدیوں سے اسی طرح محفوظ و مامون چلی آرہی ہے۔قرآن کی پیشین گوئیاں آج تک سچ ثابت ہوتی چلی آرہی ہیں اوراس کتاب کے سربستہ راز کھلتے ہی چلے جارہے ہیں۔صدیوں کے بعد پیداہونے والے انسانی قبیلے کے اعلی ترین دماغ اس کتاب پر قلم اٹھاتے ہیں لیکن ہر آیت ان کواپنی نئی نئی اطلاعات سے آگاہ کرتی چلی جاتی ہے۔اس کتاب کامعجزہ ہے کہ اسے من و عن حفظ کرلیاجاتاہے۔کوئی کتنی اچھی غزل،ہو،گانا ہو،ناول ہو یا فلم وغیرہ ہو اس سے کتنی دفعہ کوئی التفات کرتا ہے پھر تھک جاتاہے لیکن صدیوں سے انسانیت اس کتاب کو پڑھتی چلی آرہی ہے،سنتی چلی آرہی ہے اور سناتی چلی آرہی لیکن کبھی کسی نے اکتاہٹ کا اظہار نہیں کیا۔

                محسن انسانیت ﷺ کا یہ معجزہ تھا کہ دائی حلیمہ سعدیہ جب مکے آرہی تھیں تو انکا گدھا سب سے مریل چال چل رہاتھا،سب قافلے والے رک رک کر انکا انتظار کرتے،دائی حلیمہ کے شوہر کو ڈانٹتے کہ گدھا تیزچلاؤ،وہ ساتھ آ ملتے تو پھر قافلہ چلتا۔جب یہ قافلہ واپس آ رہاتھا اور محسن انسانیت ﷺ دائی حلیمہ کی گود میں تھے تویہی مریل گدھا سب سے آگے بھاگتا تھا اور قافلے والے اسکوآہستہ چلنے کاکہتے تھے۔بنواسد میں جب یہ مبارک بچہ پہنچ گیا تو اس قبیلے کے جانوروں کے تھن ایسے ہوگئے جیسے جاگ گئے ہوں،برتن بھربھرکر دودھ جیسے امڈنے لگا۔دوسرے قبائل کے لوگ اپنے لڑکوں کو ڈانٹتے تھے کہ تم بھی وہیں جانورچراؤجہاں اس گھرانے کے بچے چراتے ہیں،وہ لڑکے کہتے کہ وہیں تو چراتے ہیں لیکن دودھ اتنا نہیں نکلتا۔انہیں کیا معلوم یہ کسی گھاس یا خوراک کی وجہ سے دودھ نہیں نکل رہا بلکہ یہ تو معجزہ نبوی ﷺ ہے۔

                اہل مکہ میں سے ایک بار کسی نے تقاضاکیاکہ چاندکودوٹکڑے کر کے دکھاؤ،آپﷺ نے اپنی انگلی مبارک سے اشارہ کیاتو چانددوٹکڑے ہوگیاایک ٹکڑا ایک سمت میں دوسرا دوسری سمت میں اس حد تک گرے کہ نظروں سے چھپ گئے اور پھر دونوں آن کر باہم مل گئے۔قرآن نے اس معجزے کی تصدیق کی ہے اورچاندپر جانے والوں نے چاند کے عین وسط میں ایک ایسی دراڑ کامشاہدہ کیاہے جو پورے چاند پر نظر آتی ہے۔معراج شریف کا سفر آپ ﷺکا ایک شاندار معجزہ ہے۔آپ ﷺ براق پرتشریف فرماہوئے اور بیت المقدس پہنچے وہاں سب انبیاء علیھم السلام کی امامت کرائی،پھر ساتوں آسمانوں کی سیر اوراللہ تعالی سے ملاقات کے بعد زمین پر تشریف لے آئے۔لوگوں نے پوچھافلاں قافلہ جو مکہ اور بیت المقدس کے درمیان میں ہے کس جگہ تھا؟؟آپ ﷺ نے جومقام بتایا قافلے نے واپسی پر اسی رات کو اس مقام پر قیام کی تصدیق کر دی۔

                محسن انسانیت ﷺ کا ایک معجزہ یہ بھی ہے کہ آپ کی پیشین گوئیاں سچ ثابت ہوئیں اور آج تک سچ ہی ثابت ہوتی چلی آرہی ہیں۔ایک بار آپﷺ کعبۃاللہ سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے کہ ایک مسلمان نے اپنی کمر دکھائی جو کافروں کے تشدد کے باعث بری طرح جھلس کر زخمی ہو چکی تھی اس نے  عرض کیا کہ ان کے لیے بددعا کیجئے۔آپ ﷺ سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالی کی قسم ایک وقت آئے گا کہ صنعا سے حضرموت(عرب کے دو کونے)تک سونے سے لدی پھندی ایک نوجوان عورت تن تنہا سفر کرے گی اور اسے سوائے خدا کے کسی کا خوف نہ ہوگا۔حضرت سلیمان منصور پوری نے اپنی کتاب ”رحمۃ اللعالمین“میں ایسی کئی روایات کونقل کیا ہے جن میں کسی نوجوان خاتون کا ذکر کیاگیا ہے جو ایک شتر پر سوار ہو کر تن تنہا صنعا سے حضرموت تک گئی اور اسکے جسم پر سونے کے زیورات گویا لدے ہوئے تھے۔

                ہجرت مدینہ کے سفر میں جب سراقہ بن مالک نے آپ ﷺ کوآن گھیراتوآپ ﷺ نے فرمایاسراقہ کیا حال ہوگا جب قیصروقصری کے کنگن تجھے پہنائے جائیں گے۔دورفاروقی میں جب  ایران فتح ہوا تو اس وقت کے بادشاہ لوگ اپنے ہاتھوں میں قیمتی دھاتوں کے کنگن پہنا کرتے تھے،اسی طرح کے کنگن ایران سے مدینہ لائے گئے تو حضرت عمر نے سراقہ بن مالک کو بلوا بھیجااس کے آنے پر اسے بادشاہ کے کنگن پہنائے گئے اور اسکے دونوں بازو کندھوں تک ان قیمتی کنگنوں سے بھر گئے۔اسی سفر کے دوران جب آپ ام معبد کے خیمے میں پہنچے تو آپ ﷺ سمیت پورے قافلے کوشدید بھوک لاحق تھی،اس خاتون کے ہاں ایک مریل بکری بندھی تھی۔آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ہمیں کچھ کھانے کو دو تو اس نے عرض کی کچھ میسر ہوتاتو مانگنے کی نوبت نہ آتی،اس بکری کے بارے میں استفسار ہواتوام معبد میں کہا اس میں دودھ کاکیاسوال یہ تو چلنے کے قابل ہی نہیں کہ ریوڑ کے ساتھ جاتی۔آپ ﷺ نے اس بکری کی کمرپر اپنا دست مبارک پھیرا اور اس خیمے کاسب سے بڑابرتن لا کراس میں دودھ دوہنا شروع کیاگیا۔مریل بکری جو چلنے سے قاصر تھی دست نبوی ﷺکے معجزے کے باعث اسکے تھنوں سے نکلنے والے دودھ سے وہ سب سے بڑا برتن لبالب بھرگیا۔

                غزوہ احزاب جسے جنگ خندق بھی کہتے ہیں،اس جنگ سے قبل جب خندق کھودی جارہی تھی توایک بہت بڑا اور سخت پتھرحائل ہوگیا،بہت زور لگایاگیالیکن نہ ٹوٹا۔تب آپ ﷺ کو اطلاع کی گئی،آپ ﷺ تشریف لائے اورکدال سے ایک ضرب لگائی،چنگاریاں نکلیں اور آپ ﷺ نے فرمایا روم فتح ہوگیا،پھر دوسری ضرب لگائی چنگاریاں نکلیں اور آپ ﷺ نے فرمایا ایران فتح ہوگیاپھر تیسری ضرب لگائی اور چنگاریاں نکلیں اور آپ ﷺ نے فرمایا خدا کی قسم بحرین کے سرخ محلات میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہاہوں۔بعد میں آنے والے دنوں میں روم اور ایران تو بہت جلد فتح ہوگئے اور روم کے بھی متعدد علاقے زیراسلام آگئے صرف قسطسطنیہ کا شہر باقی رہ گیا۔اس شہر کو فتح کرنے کے لیے اور نبی علیہ السلام کی پیشین گوئی پوری کرنے کے لیے کم و بیش چودہ بادشاہوں نے لشکر کشی کی اور آٹھ سو سال بعد قسطنطنیہ کا یہ شہر بھی اسلام کا زیرنگیں آ گیااور سچے نبی کی پیشین گوئی پوری ہو گئی۔

                غزوہ خندق کے موقع پر جنب سب نے پیٹ پر پتھرباندھ رکھے تھے تو ایک صحابی اپنے گھر گیااور بکری کابچہ ذبح کیااور ساتھ ہی گھروالوں کومیسر آٹے سے روٹیاں پکانے کا کہ کر آپ ﷺ کے پاس حاضرہوااورکان مبارک میں عرض کی کہ سات آٹھ افراد کاکھانا تیار ہے تشریف لے آئیے،آپ ﷺ ساٹھ ستر افراد کے ساتھ پہنچ گئے۔اس صحابی کے چہرے پرپریشانی کے آثار ہویدادیکھ کر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایاتھالی ہٹائے بغیرسالن نکالتے رہو اور اوپرسے رومال ہٹائے بغیرروٹیاں نکالتے رہواسی طرح اس سات آٹھ افرادکے کھانے کو ساٹھ ستر افراد نے سیرہوکرتناول کیااور مہمانوں کے چلے جانے پر پہلے جتنا کھاناپھر بھی باقی دھراتھا۔

                آپ ﷺ کے دست مبارک میں شفا تھی،غزوہ خیبر کے موقع پرجب حضرت علی آنکھوں کی تکلیف میں مبتلا تھے تو آپ ﷺ نے اپنا لعاب دہن ان آنکھوں میں لگادیااسکے بعد تاحیات حضرت علی آں کھوں کی تکلیف سے محفوظ رہے،ایک بار دودھ کے بھرے چھوٹے سے کٹورے میں آپ نے اپنی انگلیاں ڈالیں اور اس پیالے سے منہ لگاکرسب اصحاب صفہ نے دودھ پیااور پھر بھی اس پیالے میں اتنا ہی دودھ باقی تھا۔آپ ﷺ نے خود فرمایاکہ ایک پتھر مجھے سلام کیا کرتا تھاحتی کہ جانوروں کی زبان سمجھ لینا بھی آپ ﷺ کا ایک معجزہ تھا،جب کچھ لوگ شرف ملاقات کے لیے حاضر خدمت ہوئے تو انکے اونٹ نے اپناسر لمبا کرکے تو قدمین شریفین پر رکھ دیااور اپنی زبان میں ڈکارا،آپﷺ نے فرمایا یہ مجھ سے شکایت کررہاہے کہ تم اس سے کام بہت لیتے ہو کھانے کو کم دیتے ہو اور تشدد بھی کرتے ہو۔وہ لوگ کم و بیش دوماہ بعد اس اونٹ کو پھرلائے اور خدمت اقدسﷺ میں پیش کرکے عرض کی اس دوران ہم نے اس سے کوئی کام نہیں لیااور صرف کھلایاپلایا ہے،آپ ﷺ اس کی صحت دیکھ لیں اور اجازت ہو تو ہم اس سے کام لینا شروع کر دیں۔

[email protected]

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
53634

بزمِ درویش – آمد مصطفی ﷺ ۔ تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

آج سے تقریبا سوا چودہ سو سال قبل تمام دنیا پر ظلم و جبر اور جہالت کی تاریکی چھائی ہوئی تھی اہل فارس آگ کی پوجا اور ماں کے ساتھ وطی کرنے میں مصروف تھے ترک شب و روز انسانی بستیوں کو تباہ برباد کر رہے تھے بندگان ِ خدا شدید اذیت میں مبتلا تھے اِن کا دین بتوں کی پوجا اورکمزور بے بس انسانوں پر ظلم کرنا تھا۔ ہندوستان کے لوگ بتوں کی پوجا اور خود کو آگ میں جلانے کے سوا کچھ نہیں جانتے تھے نیوگ جیسی انتہائی پست رسم کو جائز سمجھتے تھے یہ عالمگیر ظلمت اِس امر کی متقاضی تھی کہ ایک مسیحا ِاعظم اور ہادی تمام دنیا کے لیے مبعوث ہو اِس کے لیے خالقِ کائنات نے عرب کی سر زمین کو چنا اس وقت سر زمین عرب تمام برائیوں کی آماجگاہ بنی ہوئی تھی۔اہل عرب میں ہر طرح کی برائی موجود تھی عرب میں زیادہ تر لوگ خانہ بدوشوں کی زندگی گزارتے تھے ایک جگہ سے دوسری جگہ حرکت کرتے رہتے جہاں پانی اور سبزہ نظر آتا وہیں ڈیرہ جما لیتے چارہ ختم ہوتا تو خیمے سمیٹ کر آگے چل دیتے تھے

یہی وہ بنیادی وجہ تھی کہ منظم شہر اور دیہات بہت کم تھے لوگوں کا آپس میں میل جول نہ ہونے کے برابر تھا اور نہ ہی کوئی با قاعدہ مضبوط حکومت تھی۔اِن حالات میں طاقت ور کا راج تھا مظلوم کی داد رسی کرنے والا کوئی نہ تھا طاقت ور اپنی طاقت کے زور پر اپنی مر ضی کرتا اور کمزور طبقہ طاقتورو ں کی غلامی پر مجبور تھا۔ زیادہ تر قبائلی سسٹم تھا ہر قبیلے کا ایک سردار ہوتا چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑائی جھگڑا شروع ہو تا جو برسو ں تک چلتا لڑائیوں میں بے شمار لوگ مارے جاتے غالب قبیلہ مغلوب قبیلے کی عورتوں اور بچوں کو غلام بنا لیتا۔شراب اور جوا کی لت عام تھی شراب پی کی سرِ عام فحش باتیں کی جاتیں۔ خود پسندی، تکبر و غرور اتنا زیادہ تھاکہ کسی کو بھی خاطر میں نہ لاتے عرب بہت زبان آور تھے ان میں کئی بڑے شاعر بھی تھے لیکن ان کی یہ خوبی بھی برائی میں کام آرہی تھی بے ہودہ اشعار کہے جاتے عورتوں کا نام لے کر فحش شاعری اور کہانیاں بیان کی جاتیں اگر کسی کے گھر بیٹا پیدا ہو تا تو خوب خوشیاں منائی جاتیں۔

لیکن اگر کسی کے گھر بیٹی پیدا ہوتی تو اس کو زندہ دفن کر دیا جاتا بیٹی کا سوگ منا یا جاتا جس کے گھر بیٹی پیدا ہوتی وہ اپنا منہ چھپا تا پھرتا۔ آپس کی لڑائیوں میں دشمنوں کو زندہ جلا دیا جاتا۔ عورتوں کے پیٹ چاک کر دیے جاتے بچوں کو خنجروں اور تلواروں سے بے رحمی کے ساتھ قتل کر دیا جاتا۔ غرض کسی کی عزت و آبرو محفوظ نہ تھی معاشرے کا سب سے مظلوم طبقہ عورتیں تھیں عورتوں کی حالتِ زار بہت ہی قابل ِ رحم تھی عورتوں کے ساتھ حیوانوں جیسا سلوک کیا جاتا۔ جانوروں کی طرح عورتوں کو سر عام منڈیوں میں نیلام کیا جاتا۔ لڑکیوں کو اِس خیال سے کہ جب بڑی ہونگی تو اِن کی شادی کرنا پڑے گی پیدا ہوتے ہی بچیوں کو مار دیا جاتا اکثر میاں بیوی میں نکاح کے وقت ہی یہ معاہدہ طے پا جاتا کہ اگر لڑکی ہوئی تو اس کو زندہ دفن کر دیا جا ئے گا مرد و عو رت کے اختلاط کی انتہائی گھٹیا صورتیں تھیں۔ جنہیں بد کاری و بے حیائی، فحش کاری اور زنا کاری کے سوا کوئی اور نام نہیں دیا جا سکتا تھا۔ نکاح کی چار مختلف صورتیں تھیں۔ ایک صور ت تو آج جیسی تھی جبکہ باقی تین صورتیں صرف فحاشی اور زنا کاری پر مشتمل تھیں دو سگی بہنوں سے نکاح کرنے کی رسم عام تھی باپ کے وفات پانے پر بیٹا اپنی ماں کے علاوہ باقی سوتیلی ماں سے نکاح کر لیتا اقتصاص طور پر عرب پورے دنیا سے پیچھے تھے تجارت ہی ان کے نزدیک ضروریات ِ زندگی حاصل کرنے کا سب سے اہم ذریعہ تھی۔

کیونکہ زیادہ تر وقت آپس میں لڑائی جھگڑوں میں صرف ہوتا اِس لیے اقتصادی حالت بھی اچھی نہ تھی مردار کھانے کی عادت عام تھی عرب میں زیادہ تر لوگ حضرت اسماعیل کی دعوت و تبلیغ کے نتیجے میں دین ابراھیمی کے پیروکار تھے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے خدائی درس و نصیحت کا بڑا حصہ بھلا دیا ایک دفعہ اِن کے ایک سردار عمر و بن لحی نے شام کا سفر کیا تو وہاں پر بتوں کی پوجا کو دیکھا تو متاثر ہو کر واپسی پر اپنے ساتھ ہبل نامی بت بھی لے آیا اور لا کر اسے خانہ کعبہ میں نصب کر دیا۔ عرب میں بت پرستی کا بانی یہی شخص تھا اِس نے اہلِ مکہ کو بت پرستی کی دعوت دی جس پر اہلِ مکہ نے لبیک کہا اِس طرح عرب میں بت پرستی کا آغاز ہوا اِس بعد طائف میں لات نامی بت وجود میں آیا پھر وادی نخلہ میں عزی نامی بت رکھا گیا یہ تینوں عرب کے سب سے بڑے بت تھے۔اِس کے بعد عرب کے ہر خطے میں بتوں کی بھر ما ر ہو گئی جدہ میں بہت سارے مدفون بت نکالے گئے اور جب حج کا زمانہ آیا تو ان بتوں کو مختلف قبائل میں تقسیم کر دیا گیا

اِس طرح ہر قبیلے اور پھر ہر ہر گھر میں ایک ایک بت رکھ دیا گیا مشرکین نے خانہ کعبہ کو بھی بتوں سے بھر دیا گیا۔ بیت اللہ کے گردا گرد تین سو ساٹھ بت تھے۔ غرض شرک اور بت پرستی اہل ِ جاہلیت کے دین کا سب سے برا مظہر بن گئی۔ مشرکین بتوں کے پاس مجاور بن کر بیٹھتے انہیں زور زور سے پکارتے۔ مشرکین عرب کا ہنوں اور نجومیوں کی باتوں پر ایمان رکھتے مختلف ہڈیاں گھروں میں لٹکاتے۔ بعض دنوں، مہینوں میں جانوروں گھروں اور عورتوں کو منحوس سمجھتے بیماریوں اور چھوت کے بہت زیادہ قائل تھے۔ روح کے الو بن جانے کا عقیدہ رکھتے تھے بڑے درختوں کی پوجا کرتے تھے۔ بیماری کا علاج جادو منتر ٹونے ٹوٹکوں سے کرتے۔ ہر طرف بد اخلاقی، بے انصافی قتل و غارت کا دور دورہ تھا گویا عرب اور پوری کائنات اندھیر نگری بن چکی تھی بندگان خدا کے حقوق بری طرح پا مال ہو رہے تھے۔ خالقِ کائنات کا ہمیشہ سے یہ اصول رہا ہے کہ جب بھی انسانوں کی حالت زار آخری حدوں تک پہنچ جاتی ہے تو وہ کسی مسیحا کو بھیج دیتا ہے اور پھر کرہ ارض کی سب سے قیمتی ساعت طلوع ہوئی رب کعبہ نے ایک ایسا مسیحا اِعظم بھیجا جس کی ایک جنبش چشم سے صدیوں سے بیمار اور پیاسی روحوں کو سیرابی ملنے والی تھی وہ مسیحا کہ روز اول سے قیامت تک پیدا ہو نے والے انسانوں میں ایک بھی ایسا نہیں جو اِس مسیحا کے پیروں سے اٹھنے والی خاک کو بھی چھو سکے۔

جذبوں کا حکمران، جسموں اور روحوں پر حکومت کرنے والا قیامت تک آنے والی اندھی اور کثیف روحوں کو روشن کرنے والا، مردہ دلوں کو اپنے سوز ِ دل سے زندگی کی حرارت بخشنے، سنگلاخ زمینوں کی طرح بنجر روحوں کو روشن کرنے والا ایک ایسا مسیحا جس کے قدموں سے اٹھنے والے غبار کا ایک ذرہ جس پر بھی پڑا وہ سونے کے ڈھیر میں تبدیل ہو گیا۔صدیوں سے سسکتی تڑپتی انسانیت کی پیاس بجھانے کے لیے حضرت آمنہ کے لال 9یا 12ربیع الاول کو دو شنبہ کے دن فجر کے وقت رحمت دو عالم دنیا میں تشریف لائے آپؓ کا چہرہ چودھویں رات کے چاند کی طرح نورانی اور آنکھیں قدرت الہی سے سر مگیں۔آپ کا نام محمد ؓ رکھا گیا۔ حضرت آمنہ فرماتی ہیں جب آپ کی ولادت ہوئی تو میرے پورے جسم سے ایک نور نکلا جس سے ملک شام کے محل روشن ہو گئے بعض روایتوں میں بتایا گیا ہے کہ ولادت کے وقت ایوان ِ کسری کے چودہ کنگورے گر گئے۔ فارس کا ہزاروں سال سے جلتا آتش کدہ بجھ گیا۔ عرب کے سارے بت منہ کے بل گرے اور سر بسجود ہو گئے بحیرہ سا وہ خشک ہو گیا اس کے گرجے منہدم ہو گئے۔ حضرت آمنہ کے لال کے نور سے ساری کائنات جگمگا اٹھی اور آپ کی خوشبو سار اعالم معطر ہو گیا۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
53589

اسوہ نبیﷺ کی روشنی میں پرامن بقائے باہمی کا تصور- ڈاکٹر ساجد خاکوانی

ابسم اللہ الرحمن الرحیم

اسوہ نبیﷺ کی روشنی میں پرامن بقائے باہمی کا تصور  اور  تہذیبوں کے درمیان مفاہمت کا فروغ

(ماہ ربیع الاول کے حوالے سے خصوصی تحریر)

ڈاکٹر ساجد خاکوانی

                سیرت النبی ﷺکادرس اولین ہی دراصل پرامن بقائے باہمی ہے،محسن انسانیت ﷺنے اپنی مکی زندگی کے تیرہ سال اس انتہائی کوشش میں صرف کر دیے کہ پرامن انقلاب کا راستہ ہموار ہو سکے اور کشت و خون کی نوبت نہ آئے،آپ ﷺکے جانثاروں نے بارہا تقاضا کیا کہ مکی زندگی کی صعوبتوں سے نبردآاماہونے کے لیے انہیں مقابلے کی اجازت دی جائے لیکن محسن انسانیت ﷺکی پرامن طبیعت اس پر آمادہ نہ ہوتی تھی اور اصحاب رسول ﷺ کو مکی زندگی میں کشمکش کی اجازت مرحمت نہ ہوسکی۔آپ ﷺ اس وقت تک مکہ میں قیام پزیر رہے کہ جب تک مکہ مکرمہ کی سرزمین آپ ﷺ کے تنگ نہ کر دی گئی اور اس کے باسیوں نے آپ ﷺ کو وہاں سے نکلنے پر مجبور نہ کر دیا۔بادی النظر میں دیکھنے سے واضع طور پر محسوس کیاجاسکتاہے کہ یہ پرامن طبیعت نبوی کا شاہکار تھا کہ قتل کی آخری کوشش تک مکہ میں قیام رہا اور اہل مکہ کے گماشتے اس طرح محاصرہ کر کے گھرکے باہر صف آراہوگئے کہ موقع پاتے ہی نعوذباللہ من ذالک زندگی کا چراغ گل کر دیاجائے تب آپ ﷺنے وہاں سے رخت سفر باندھا۔

                مدنی زندگی کی شروعات ہی میثاق مدینہ سے ہوتی ہیں جو پرامن بقائے باہمی اور تہذیبوں کے درمیان مفاہمت کی آج دن تک ایک شاندار مایہ ناز اورتاریخ ساز دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔اس میثاق کے بعد دنیاکے نقشے پر اور اس آسمان کی چھتری تلے پہلی دفعہ ایک کثیرالمذہبی معاشرے نے جنم لیا۔ایک نبی علیہ السلام کی سربراہی میں قائم ہونے والے اس کثیرالمذہبی پرامن معاشرے میں ہر مذہب کے ماننے والوں کو انکی مذہبی آزادی کی ضمانت فراہم کی گئی تھی اورجملہ اختلافی امور باہمی گفتگوسے طے کرنا منظور پائے تھے اور کسی بھی تنازع کا حتمی فیصلہ ختمی مرتبت ﷺکے دست مبارک سے ہوناضبط تحریرمیں لایاگیاتھا۔اس زمین کے سینے پریہ پہلاتحریری دستورتھاجو ایک ریاست کی بنیادبناحالانکہ اس سے پہلے کتنی ہی پڑھی لکھی ریاستیں اور حکومتیں وجود میں آ چکی تھیں لیکن،مقتدرطبقہ کی خواہش اقتداراور حوس ملک گیری کے سامنے کوئی تحریر اپنادم خم نہ دکھاسکی اورانسانی کھوپڑیوں کے میناراور مخالف تہذیب و مذہب کی عصبیت نے ہمیشہ اخلاقیات کے دروس کا مذاق ہی اڑایااور انسانیت کے سارے اسباق منہ دیکھتے ہی رہ گئے۔اس کے برعکس محسن انسانیت ﷺنے اپنی ریاست کی تاسیسی بنیادیں ہی میثاقیات کی پختہ اینٹوں پر استوار کیں۔

                محسن انسانیت ﷺنے انسانی تاریخ میں پہلی بار جنگی قیدیوں کی آزادی کا تصور دیاغزوہ بدر سے پہلے اس بات کا تصور ہی نہ تھا کہ جنگی قیدی کو آزاد بھی کیاجاسکتاجاہے؟؟،اس وقت تک کی بڑی بڑی تہذیبیں جن کی گونج آج کے ایوانوں میں بھی سنائی دیتی ہے ان کے کارپرداران بھی جنگی قیدی کو حق زندگی دینے پر تیار نہ تھے لیکن یہ خاتم النبیینﷺ نے پہلی بار دشمن کے قیدیوں کو زندہ رہنے اور آزادی سے زندہ رہنے کاانسانی حق عطاکیااور پرامن بقائے باہمی کی عظیم اور شاندار عمارت کی تعمیر کرتے ہوئے اس کی بنیادوں میں اپنے دست مبارک سے ان مقدس روایات کی مضبوط سلیں رکھیں۔اس سے بڑھ کریہ کہ پوری تاریخ انسانی میں ایساکبھی نہ ہواتھاکہ فاتح قوم اپنی مفتوح قوم کو برابری کی بنیادپر بٹھاکر تو اس سے مزاکرات کے ذریعے مسائل کو حل کرے۔روایت تو یہ تھی مفتوح اقوام کے مردوں اور عورتوں کو لونڈی غلام بنالیاجاتاتھا،انکی املاک کو لوٹ لیاجاتاتھا،ان کی فصلیں نذرآتش کردی جاتی تھیں اور انکے جانوروں اور جائدادوں کو فاتحین آپس میں بانٹ لیتے تھے۔لیکن یہاں تاریخ کاطالب علم عجیب ہی نقشہ دیکھ رہا ہے اور انگشت بدنداں ہے کہ خیبرکافاتح پرامن بقائے باہمی اور تہذیبوں اور مذاہب کے درمیان ہم آہنگی کی تاریخ کا ایک نیاباب رقم کرنے چلاہے۔یہاں فاتح اور مفتوح آمنے سامنے بیٹھ کر مزاکرات کر رہے ہیں اور اس سے بھی زیادہ کتنی عجیب بات ہے فاتح بھی نصف پر اکتفاکررہاہے،حالانکہ وہ تلوار کے زور پر کل پر بھی تصرف حاصل کرناچاہے تو کوئی امر مانع نہیں ہے۔

                حقیقت تو یہ ہے کہ اسوۃ نبی  ﷺ کی پرامن بقائے باہمی اور بین المذاہب ہم آہنگی کے سامنے  صرف قدیم ہی نہیں دورحاضر کی یورپی سیکولر تہذیب بھی ننگ شرمسار ہے۔انسانیت کے نام پر انسانوں کا قتل اور آج مشرق سے مغرب تک دریاؤں میں بہتاہواخون اس یورپی سیکولر تہذیب کے منہ پر زوردارتمانچہ ہے۔محسن انسانیت ﷺنے تو دشموں کو بھی معاف کر کے پرامن بقائے بامی کی ایک تاریخ ساز روایت قائم کی تھی جبکہ اس سیکولر تہذیب نے تواپنوں کو بھی معاف نہیں کیا ایک وقت میں دوست بناکر قرطاس طہارت کی مانندخوب خوب استعمال کر کے تو اگلے وقت میں موت کی نیند سلادینے کی ان گنت مثالیں اس سیکولرتہذیب کے سیاہ چہرے پر مکروہ داغ کی طرح واضع ہیں۔محسن انسانیت ﷺنے تو ایک زبردست قسم کی دینی و مذہبی ریاست میں غیر مذہب والوں کے حقوق کا بے پناہ تحفظ کر کے انہیں اپنے دامن رحمت میں سایہ عاطفت عطا کیا جب کہ اس سیکولرتہذیب نے تو لادین ریاستوں کے اندر مذہبی منافرت کی وہ داستانیں رقم کی ہیں ہولوکاسٹ سے نائن الیون کی بعد کی تاریخ تک سیکولرازم کا ورق ورق انسانی خون سے رنگین،جنسیت سے شرمساراوروحشت و بربریت کی داستانوں سے اپنے آغاز سے اختتام بھرادھراہے۔

                قرآن مجید نے سورۃ بقرہ کی آیت نمبر62میں ارشادفرمایا کہ”یقین جانو کہ نبی عربیﷺ کے ماننے والے ہوں یایہودی،مسیحی ہوں یا صابی،جو بھی اللہ تعالی اورروزآخرپرایمان لائے گااور نیک عمل کرے گااس کااجر اس کے رب کے پاس ہے اوراس کے لیے کسی خوف اوررنج کاموقع نہیں“۔بعینہ یہی مضمون سورہ المائدہ کی آیت نمبر69میں بھی اللہ تعالی نے دہرایاہے۔پس محسن انسانیتﷺ کی تعلیمات میں ہرمذہب کے ماننے والوں کے لیے دروازے کھلے ہیں۔قرآن مجید کی انہیں تعلیمات کے نتیجے میں اولین مفسرقرآنﷺنے ایک کثیرالمذہبی اور کثیرالقومی معاشرہ تشکیل دیاجس میں سب مذاہب باہمی اشتراک حیات کی بنیادپر یقین رکھتے تھے۔اس دنیاپر مسلمانوں نے کم و بیش ایک ہزارسالوں تک حکمرانی کی اور مشرق سے مغرب تک مسلمانوں کی افواج اور اسلام کے پرچم لہراتے تھے اور ان ایک ہزارسالوں میں کہیں مذہبی فسادات رونمانہیں ہوئے،اپنے دوراقتدارمیں مسلمان اکثریت میں بھی رہے اور اسپین سمیت متعدد علاقوں میں اقلیت میں ہونے کے باوجود مسلمان حکومت کرتے رہے لیکن ان ہر دوصورتوں میں کہ غیرمسلم اکثریت تھی یا غیرمسلم اقلیت،بحیثیت مجموعی غیرمسلموں نے مسلمانوں کے اس کل دور اقتدارمیں مکمل امن و آشتی کے ساتھ اپنی مدت حیات پوری کی۔خاص طورپریہودیوں نے اپنی ہزاروں سالہ تاتریخ میں سب سے پرامن وپرمسرت وقت مسلمانوں کے دوراقتدارمیں گزارا،ان ایک ہزارسالوں میں کوئی ہولوکاسٹ نہیں ہوااور نہ ہی یہودیوں سمیت کسی مذہب کے ماننے والوں کی اجتماعی ہجرت کے جاں گسل واقعات رونماہوئے اور نہ ہی ہتھیاروں کی دوڑ اور عالمی جنگیں وقوع پزیرہوئیں۔یہ امت مسلمہ کا مجموعی کردارمفاہمت تھااور آج بھی کل دنیامیں جہاں مسلمان آبادیاں سیکولرافواج کے ہاتھوں گاجرمولی کی طرح کٹ رہی ہیں کسی مسلمان معاشرے میں غیرمسلم غیرمحفوظ نہیں ہیں۔

                انسانی تجربے سے اب یہ بات خوب تر آشکارہوچکی ہے کہ کوئی جنواایکارڈ اور کوئی اقوام متحدہ اور کسی طرح کے انسانیت کے دعوے دار پرامن بقائے باہمی اورتہذیبوں کے درمیان مفاہمت کے فروغ کاباعث نہیں بن سکتے۔اسلام کے سوا ہر مذہب اور ہر تہذیب نے دوسروں کا استحصال کیاہے اور کررہے ہیں اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے،صرف انبیاء علیھم السلام کی تعلیمات ہی پرامن بقائے باہمی اور اقوام و ملل کے درمیان مفاہمت کے فروغ کاباعث بن سکتی ہیں،اور تاریخ شاہد ہے کہ یہ تعلیمات نقلی طور پر بھی صرف مسلمانوں کے پاس محفوظ و مامون ہیں اور عملی طور پر بھی مسلمانوں کااقتدارہی ان کاضامن ہو سکتاہے۔انسانیت صرف ایک درس کی پیاسی ہے اور وہی درس خطبہ حجۃ الوداع ہی انسانوں کے درمیان انسانیت کے فروغ کاباعث بن سکتاہے۔فی زمانہ سود کے نام پر معاشی استحصال،جمہوریت کے نام پر اقوام کی گردنوں میں طوق غلامی،آزادی نسواں کے نام پر اس بازارمیں بنت حواکی ارزانی،عالمی امن کے نام پر توسیع پسندی اور فوجوں کی ماردھاڑاور یلغاراور تعلیم،صحت اور ابلاغ کے نام پر کمرشل ازم کے بدبودار،مکروہ،مکروفریب سے بھرے اور کذب و نفاق سے آلودہ تجربات سے سسکتی انسانیت اب تھک چکی ہے۔اہل نظر اب مشرق سے ابھرتے ہوئے اس سورج کو بنظرغائر دیکھ رہے ہیں جس کی کرنیں اقراکے نور سے منور ہوں گی اور وہ دن دور نہیں جب سیرۃﷺ کے چشمہ فیض سے انسانیت کو آسودگی میسر آنے والی ہے۔

                                                                                خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوہ دانش فرنگ

                                                                                سرمہ ہے میری آنکھ کا خاک مدینہ و نجف

[email protected]

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
53587

سی پیک میں افغانستان کی شمولیت ناگزیر – قادر خان یوسف زئی

جغرافیائی، تجارتی اور صنعتی لحاظ سے باہمی اعتماد کے گہرے تعاون کو فروغ حاصل ہوگا

اسلام آباد میں 600 کے وی مٹیاری تا لاہور ٹرانسمیشن لائن کی افتتاحی تقریب سے خطاب میں وزیراعظم کا کہنا تھا کہ کورونا کے باعث سی پیک میں کچھ مسئلے آئے لیکن اب سی پیک پرتیزی سے کام جاری ہے۔ عمران خان کا مزید کہنا تھا  کہ ملک میں پیسہ آئے گا تو قرض دینے کے قابل ہوسکیں گے، مہنگائی میں کمی آئے گی، سی پیک کی رفتار انشا اللہ تیز ہوگی۔ چین پاکستان اقتصادی راہدری (سی پیک) منصوبہ خطے سمیت پوری دنیا میں اکنامک گیم چینجر کے اہم منصوبے کی بنیاد ہے۔ چین کے عظیم منصوبے ون بیلٹ ون روڈ کی تکمیل کے لئے پاکستان کی جانب سے تعاون کو اُن ممالک نے متنازع بنانے کی کوشش کی جو ملک کو معاشی طور پر اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی کوششوں کو مسلسل ناکام بنانے کی سازشوں و منصوبہ بندیوں میں مصروف ہیں۔  پاکستان میں چین کے تعاون سے اس وقت 27ارب 30کروڑ ڈالرز مالیت کے 71منصوبوں پر کام کیا جارہا ہے، جس میں انرجی پلانٹس، ڈیمز، سڑکوں کی تعمیر اور صنعتی زونز کے قیام شامل ہیں۔


مئی2013  میں چینی وزیراعظم لی کے چیانگ نے دورہئ پاکستان میں سی پیک منصوبے کی باقاعدہ تجویز رکھی گئی جس کو حکومت نے مثبت ردعمل کے ساتھ قبول کرنے ساتھ اہمیت کا حامل قرار دیا، جلد ہی جولائی2013میں سابق وزیراعظم نواز شریف کے دورہئ چین کے موقع پر ایک مفاہمتی یادداشت پر دستخط ہونے کے بعد، کچھ سیاسی رکاؤٹوں کے باوجود اب تک اہم منصوبوں پر کام جاری ہے۔ سی پیک کو دونوں ممالک کے درمیان بڑا سٹریٹیجک شراکت داری اور دو طرفہ تعلقات میں کلیدی کردار کا حامل منصوبہ سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان اور چین نے سی پیک منصوبے میں شراکت کے لئے اپنے پڑوسی ممالک کو بھی دعوت دی تاکہ عالمی سطح کے اس عظیم معاشی منصوبے پر کسی رکاؤٹ کے بغیر تیزی سے کام کیا جاسکے اور خطے کے عوام کو اس کے ثمرات بھی ملنا شروع ہوجائیں۔ سی پیک منصوبہ کو 2030تک مکمل کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی اور خصوصی اقتصادی زون  ”4+1“ کے خاکے کے طور پر گوادر بندرگاہ، توانائی، نقل و حمل کا حامل ڈھانچہ اور اکنامک زون سمیت چار مختلف اہم شعبے جات کو بھی اہمیت دی گئی ہے۔منصوبے میں مالیاتی خدمات، سائنس ٹیکنالوجی، سیاحت، تعلیم اور غربت کے خاتمے اور شہری منصوبہ بندی  کے تحت دائرے کو بڑھانے پر اتفاق رائے موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے افغانستان میں خانہ جنگی کے خاتمے اور امن کی بہتر ہوتی صورت حال ے تناظر میں نئی افغان حکومت امارات اسلامی افغانستان کو سی پیک منصوبے میں شرکت کی دعوت دی ہے۔


افغانستان کے لیے پاکستانی سفیر منصور احمد خان  کے مطابق پاکستان نے افغان طالبان حکومت کو سی پیک میں شرکت کی دعوت دی ہے۔ منصور علی خان کا کہنا ہے  کہ اقتصادی راہداری منصوبے (سی پیک) اور افغانستان کی مالی حالت بہتر بنانے کیلئے دیگر طریقوں پر افغان طالبان قیادت سے بات چیت کا دور ہوا ہے۔غیر ملکی خبر رساں ادارے کو انٹرویو میں افغانستان میں تعینات پاکستانی سفیر کا کہنا تھا کہ افغانستان سے ساتھ معاشی روابط کا فروغ افغان طالبان قیادت کیساتھ بات چیت کا اہم عنصر ہیں۔ پاکستان چاہتا ہے کہ ناصرف پڑوسی ممالک جن میں وسطی ایشیا کے ملک، چین اور ایران شامل ہیں بلکہ افغانستان کیساتھ معاشی واقتصادی رابطوں کے فروغ میں بھی گہری دلچسپی لے رہا ہے۔واضح رہے کہ چین پاکستان اکنامک کوریڈور‘ یا سی پیک بیجنگ حکومت کے وسیع تر ‘بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹوو‘ کا حصہ ہے۔ اس منصوبے کے تحت چین پاکستان میں ساٹھ بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کا ارادہ رکھتا ہے۔ پاکستان کی جانب سے اہم منصوبے پر شراکت کے حوالے سے باقاعدہ بات چیت کا آغاز 3  ستمبر کو افغان طالبان کے ترجمان نے پاک۔افغان یوتھ فورم میں خطا ب میں پالیسی بیان دینے کے بعد ہوا کہ’پاک۔ چین اقتصادی راہداری (سی پیک) افغانستان کے لئے اہم ہے، افغان عوام پاکستان کے ساتھ ہیں ہماری جانب سے پاکستان کے لئے کوئی مشکلات نہیں ہوں گی۔‘  توقع کی جا رہی ہے کہ افغانستان کے پالیسی بیان کے بعد پاکستان کی جانب سے منصوبے میں شرکت سے تینوں ممالک کے درمیان جغرافیائی، تجارتی اور صنعتی لحاظ سے باہمی اعتماد کے گہرے تعاون بھی بڑھے گا، سب سے اہم پہلو یہ بھی ہے کہ افغانستان کو اس وقت بیرونی امداد کی اشد ضرورت ہے تاکہ  چار دہائیوں سے تباہ شدہ معیشت اور انفراسٹرکچر کو بحال کرانے اور تعمیر نو کی نئے سفر پر گامزن ہوسکے۔ چین کا ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ یقینا افغانستان کی عوام کے لئے صحرا میں نخلستان کا درجہ رکھتا ہے کہ اگر چین اور پاکستان  کے ساتھ اہم اقتصادی منصوبے میں نئی افغان حکومت شامل ہوجاتی ہیتو اس سے اُن مسائل کو حل کرنے میں مدد مل سکتی ہے جو امریکہ و مغربی ممالک کی وجہ سے پیداہوئے۔ تاہم سی پیک منصوبے  میں شراکت سے قبل اس وقت نئی افغان حکومت کو عالمی سطح پر باقاعدہ تسلیم کئے جانے کا مرحلہ حائل ہے۔


چین کی جانب سے ترقی پذیر ممالک کے ساتھ تجارتی نوعیت پر تعلقات و قرضوں کے ساتھ امداد کی فراہمی امریکہ سمیت مغربی ممالک کے لئے پریشان کن صورت حال کی صورت میں ایک چیلنج بنا ہوا ہے۔ چین  نے18برسوں کے دوران 165ممالک کے 13427انفراسٹریکچر منصوبوں کے لئے843ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی مد میں قرض دیئے،جن کا بیشتر حصہ چین کے صدر شی جن پنگ کے عظیم معاشی منصوبے ون بیلٹ ون روڈ سے تعلق رکھتا ہے۔  چین کے تجارتی منصوبے اور اس کے لئے قرض و امداد کی شکل میں دی گئی رقوم و منصوبہ بندی پر نظر رکھنے والے ایڈ ڈیٹا کے براڈ پارکس کا کہنا ہے کہ ایک اوسط سال کے دوران چین بین الاقوامی ترقیاتی منصوبوں کے تحت تقریباً 85 ارب ڈالرز کی اعانت کرتا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں امریکہ ایک سال کے دوران کسی بھی بین الاقوامی ترقیاتی منصوبوں کے لیے 37 ارب ڈالرز تک امداد کی حامی بھرتا ہے۔’ایڈ ڈیٹا کا کہنا ہے کہ چین نے ترقیاتی منصوبوں کو فنڈ کرنے میں تمام ممالک کو واضح طور پر پیچھے چھوڑ دیا ہے لیکن جس رفتار سے بیجنگ نے اس کو حاصل کیا ہے وہ ‘غیر معمولی’ ہے۔


امریکہ اور دیگر معاشی قوتوں نے چین کے تجارتی مقاصد کے منصوبے کے مقابلے میں تاخیر سے ایک منصوبے پر کام شروع کرنے کا ارادہ اُس وقت ظاہر کیا جب برطانیہ میں ہونے والے جی سیون اجلاس میں امریکہ نے سی پیک کا توڑ کرنے کے لئے متبادل منصوبہ بلڈ بیک بیٹر ورلڈ لانچ کیا تھا۔ امریکا کی خواہش رہی ہے کہ’چین کی اقتصادی ترقی کا راستہ روکا جائے‘  جی سیون گروپ میں امریکا‘ برطانیہ‘ فرانس‘ جرمنی‘ اٹلی‘ کینیڈا‘ چین اور جاپان شامل ہیں،حالاں کہ چین نے اپنے ون بیلٹ ون روڈ  میں جی سیون میں شامل ممالک بھی ہیں۔ برطانیہ جرمنی فرانس اوراٹلی چین کے ساتھ اتفاق رائے بھی رکھتے تھے، تاہم بدلتی صورت حال کے بعد امریکہ کے منصوبے  ’بلڈ بیک بیٹر ورلڈ‘ اور ن بیلٹ ون روڈ پر ان ممالک نے کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیامگر چین نے جی سیون اجلاس میں امریکہ کے متبادل پلان پر کڑی تنقید  کا نشانہ بنایا تھا۔ افغانستان کے سی پیک منصوبے میں باقاعدہ شمولیت کے بعد یہ اہم منصوبہ سینٹرل ایشیا کو جوڑتا ہوا یورپ اور دنیا کے اہم ممالک کو آپس میں ایک لڑی کی طرح پرو سکتا ہے۔

ون یلٹ ون روڈ منصوبے کو مختلف طریقوں سے سست روئی اور تنقید کا نشانہ بنانے کا سلسلہ بھی تیزی جاری ہے اور مفروضوں کی بنیاد پر غیر یقینی کی صورت حال پیدا کی جا رہی ہے جس کی وجہ سے ایسے ترقی پذیر ممالک پر دیگر معاشی قوتوں دباؤ بڑھ رہا ہے کہ وہ چین کے منصوبے کو کامیابی کے راستے میں ڈالنے کے بجائے نقصان و جمود کا شکار کریں۔ وزیراعظم عمران خان یقینی طور پر اُن خامیوں کو دور کرنے کی کوشش کریں گے جس بابت اُن کی حکومت پر نکتہ چینی بھی جاتی ہے کیونکہ یہ منصوبہ کسی فرد واحد کا نہیں بلکہ ممللکت کا منصوبہ ہے جو ترقی سے محروم علاقوں و عوام میں خوشحالی لا سکتا ہے۔ بلوچستان  و خیبر پختونخواہ جیسے اہم صوبوں میں احساس محرومی اور بیرونی عناصر کی مداخلت کا خاتمہ حکومت کی بنیادی ترجیح ہونا چاہے۔ سی پیک منصوبے پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لئے چین کے تعاون کے ساتھ علاقائی و عالمی سطح پر پھیلائی غلط فہمیاں دو ر کرنا خطے کے تمام ممالک کے حق میں بہتر ہوگا۔

Posted in تازہ ترین, مضامین
53581

طالبان سے ڈومور کا تقاضا ۔ محمد شریف شکیب

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے طالبان حکومت پرزوردیا ہے کہ خواتین کوکابینہ میں نمائندگی دینے اور لڑکیوں کی تعلیم سے متعلق اپنے وعدے پورے کرے۔ عالمی انسانی حقوق اور قوانین کے تحت اپنی ذمہ داریاں پوری کرنا افغان حکومت پر لازم ہے۔ جب تک وعدے پورے نہیں ہوتے۔عالمی برادری کی طرف سے طالبان سے تقاضے جاری رہیں گے۔افغان معیشت میں خواتین کا نمایاں کردار ہے ان کی شرکت کے بغیر معیشت کی بحالی ناممکن ہے۔اقوام متحدہ کے سربراہ نے عالمی برادری سے بھی اپیل کی کہ افغانستان کو معاشی تباہی سے بچانے کے لیے مزید رقم عطیہ کریں کیونکہ افغانستان کے بیرون ملک اثاثے منجمد اور ترقیاتی امداد معطل ہے۔

سیکرٹری جنرل کے بیان کے جواب میں افغان عبوری وزیر خارجہ امیر متقی نے کہا ہے کہ ہم دنیا کے ساتھ اچھے تعلقات کے خواہش مند ہیں تاہم لڑکیوں کے اسکول کھولنے کے لیے طالبان حکومت کوتھوڑی سی مہلت دی جائے۔ ہمیں اقتدار میں آئے ابھی دو ماہ بھی نہیں ہوئے ہیں اور عالمی قوتیں ہم سے کارِ مملکت میں سدھار کی وہ توقعات وابستہ نہ کریں جو وہ مالی وسائل اور مضبوط سہاروں کے باوجود 20 سالہ اقتدار میں خود نہ کرسکے تھے۔15اگست کوافغانستان میں اقتدار سنبھالنے کے بعد تاحال کسی ملک نے طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ عالمی قوتوں کا کہنا ہے کہ طالبان کے اقدامات بالخصوص خواتین کے حوالے سے رویے اس بات کا تعین کریں گے کہ ان کی حکومت کو تسلیم کیا جائے یا نہیں۔

افغانستان کے معروضی حقائق کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو وزیرخارجہ امیرمتقی کا موقف بالکل درست معلوم ہوتاہے۔ طالبان نے ایک ایسے ملک میں عنان اقتدار سنبھالا ہے جس کی معیشت مصنوعی سہاروں پر زندہ ہے۔ انفراسٹریکچر تباہ ہوچکا ہے۔سرکاری ادارے برائے نام ہیں۔ سیکورٹی صورتحال انتہائی مخدوش ہے۔ شدت پسند تنظیمیں سرگرم عمل ہیں۔افغان نیشنل آرمی کا کوئی وجود باقی نہیں رہا۔ طالبان چند ہزار رضاکاروں کی مدد سے امور مملکت چلارہے ہیں۔ بیرون ملک افغانستان کے اربوں ڈالر کے اثاثے منجمد کئے گئے ہیں جبکہ بیرونی امداد بھی نہیں مل رہی۔

طالبان کے اقتدار میں آنے کی وجہ سے لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کی نقل مکانی کا جو خدشہ ظاہر کیاجارہا تھا۔ اس صورتحال کو بھی طالبان نے خوش اسلوبی سے کنٹرول کرلیا ہے۔ عالمی برادری کو افغانستان کی معاشی بحالی کے لئے فوری امداد فراہم کرنی چاہئے اور طالبان کو کم از کم چھ ماہ کی مہلت دینی چاہئے کہ وہ دوحہ امن معاہدے کے تحت اپنے وعدوں کو عملی جامہ پہنائے۔ طالبان نے اقتدار میں آتے ہی اعلان کیاتھا کہ وہ لڑکیوں کی تعلیم اور انہیں روزگارکی فراہمی کا وعدہ نبھانے کا مصمم ارادہ رکھتے ہیں تاہم خواتین کی سیکورٹی کے لئے انہیں الگ انفراسٹریکچر بناکردینا چاہتے ہیں خواتین کے سکول، کالج اور یونیورسٹیاں الگ ہوں گی اور وہاں خواتین اساتذہ ہی مقرر ہوں گی۔

مالی وسائل کے بغیر یہ کام ممکن نہیں ہے۔ دہشت گردی سے نمٹنے، حکومتی رٹ قائم کرنے اور ملک کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کے لئے ایک منظم اور تربیت یافتہ فوج کی ضرورت ہے یہ کام بھی مالی وسائل کے بغیر انجام نہیں دیا جاسکتا۔دوحہ میں امریکہ کے ساتھ جاری مذاکرات میں بھی افغان وفد نے اپنے یہ مطالبات دہرائے ہیں۔ایک پرامن اور خوشحال افغانستان نہ صرف اس خطے بلکہ پوری دنیا کے مفاد میں ہے۔

پنتالیس سال تک بیرونی جارحیت، اندرونی خلفشار اورخانہ جنگی کا شکار ملک میں امن کا قیام اولین ضرورت ہے تاکہ دہشت گرد دوبارہ افغانستان کو اپنی محفوظ پناہ گاہ نہ بناسکیں۔دنیا نے دیکھ لیا کہ افغانستان میں بدامنی اور انتشار نے پوری دنیا کو متاثر کیا ہے اس ملک کو محفوظ بنانا اور ترقی کی راہ پر واپس لانا بھی عالمی برادری کی ذمہ داری ہے۔اقوام عالم اپنی ذمہ داری پہلے پوری کریں اس کے بعد طالبان حکومت سے اپنے وعدے نبھانے کا تقاضا کریں تو زیادہ مناسب ہوگا۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
53574

ہماری نجات کا زریعہ رحمت للعالمین کی سیرت طیبہ ہے – محمد آمین

آپ ﷺ کے حوالے سے قرآن مجید نے فرمایا ہے،،اور ہم نے اپ کو سارے جہانون کے لیئے رحمت بنا کر بیھجا ہے(سورہ انبیاء 107).
تاریخ مذاہب کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے جب بھی برگذیدہ رسول دنیا میں بیھجے تھے سب کی پاکی اور فضلیت کا اعلان ا ن کے اوپر نازل شدہ اسمانی کتابوں اور صحیفوں میں کیا ہے لیکن جس ٹائٹل سے اللہ نے میرے محمد (ص) کا تذکرہ ہے وہ سب سے نمایان ہے یعنی آپ تمام جہانوں کے لیئے رحمت ہے۔آپ سراپا رحمت کا سر چشمہ ہے اور کیوں نہیں ہو سکتا کہ آپ اخری رسول ہے اور آپ کے بعد تا قیامت کوئی وحی پروردگار کی طرف سے نہیں ائے گا۔اللہ نے دین اسلام کو مکمل دین قرار دیا ہے اور آپ ﷺ کی امت کو بہترین امت قرار دی گئی ہے۔بات یہاں تک نہیں رکتی بلکہ یوم محشر صرف ہمارے نبی کے پاس سفارش کا حق موجودہے۔


آپ صلی اللہ علیہ والسلام بارہ ربیع الاوال 570 ؁ء کو مکہ مکرمہ میں بنی ہاشم کے معزز خاندان میں تشریف لایا۔آپ ﷺ پاک والدین جناب عبداللہ اور جناب آمنہ کے چشم و چراغ تھے۔آپ کے والد محترم جناب اپ کی تولد سے چھ مہینے قبل اس دنیا سے رخصت فرمایا تھا،لیکن شفق دادا جناب عبدالمطالب نے اپ کی پرورش میں کوئی کسر نہیں چھوڑا اور اس طرح دادا کے انتقال کے بعد آپ صلی اللہ علیہ والسلام کی تربیت و پرورش کا ذمہ اپ کے چچا جان جناب حضرت آبو طالب نے سنبھال لیا اور بے پناہ شفقت کے ساتھ جناب ابو طالب اپ (ص) کے لیئے ڈھال بن گیا اور اپنی حیات تک کسی کو بھی آپ صلی اللہ علیہ والسلام کی طرف میلی انکھوں سے دیکھنا کا موقع ہی نہیں دیا۔اور دین اسلام کے خاطر بنی ہاشم کے سارے افراد کو لیکر شیبہ ابی طالب میں تین سال انتہائی تکالیف کے دن گذارے کیونکہ کفار مکہ نے اپ کے خاندان کے ساتھ سماجی بائیکات کر چکے تھے۔پچیس سا ل کی عمر میں آپ (ص) کی شادی مکہ کے ایک دولتمند اور باعزت خاتوں جناب خدیجہ کبریٰ سے ہوئی،جس نے اپنی ساری دولت اسلام کے راہ میں لٹادی۔


جن دنوں آپ صلی اللہ علیہ والسلام اس دنیا میں تشریف لائے ساری دنیا جہالت اور ناچاقی میں ڈوبا ہوا تھا اور اللہ کے توحید کے نام لینے والے گنے چنے کے تھے۔یہودی اپنے مذہب میں رد بدل کیئے تھے اور حضرت عزیرؑ کو اللہ کا بیٹا مانتے تھے اور عیسائی (Trinity) تینوں کے فلسفے یعنی اللہ،مریم ؑ اور حضرت عیسیٰ ؑ پر عمل پیرا تھے۔ایسے میں جزیرہ عرب کا ماحول سب سے خراب تھا۔خانہ خدا میں 360چھوٹے بڑے بت رکھے گئے تھے جن میں لات،منات اور عزا سب سے بڑے بت تھے اس کے علاوہ ہر قبیلے کے اپنے اپنے بت ہوتے تھے،اور ان میں سے بعض قبیلے فرشتوں کو اللہ کے بیٹے تصور کرتے تھے۔ہر جگہ شرک اورکفر کے اواز گنج رہے تھے اور ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے مخلوق نے خالق کایئنات کو بھول چکے ہیں۔اور یہ وہی لمحات تھے کہ خدا کی رحمت جوش میں ائی اور اپ کو رحمت اللعالمین اور مسیحا بنا کر اس جہاں میں بیھجا تاکہ آپ بھٹکتے لوگوں کو اللہ کے راستے کی نشاندہی کریں اور گمرائیوں سے نکال کر توحید کے دائرے میں داخل کریں۔تاکہ ان کو پتا چلیں کہ تخلیق کائینات کا اصل راز کیا ہے؟


مذہبی زوال کے علاوہ عرب کے لوگ سماجی،ثقافتی اور سیاسی طور پر بھی تزازل کا شکار تھے۔معاشی برائیاں اپنے عروج کو پہنچ چکے تھے،عزت اور غربت کے مارے بچیوں کو ذندہ درگور کرتے تھے۔مرد اپنی مرضی سے جیتنے چاہتے شادیاں کرتے۔فحاشی کے اڈے ہر جگہ گرم تھے اور بعض خواتیں اپنے گھروں کے سامنے جھنڈے اویزان کرتے تاکہ مردوں کو پتہ چل سکیں۔شراب،قتل و غارت اور جواء عام تھے۔خواتیں کو معاشرے کا سب سے کمترطبقہ سمجھتے تھے اور میراث میں ان کا کوئی حق نہیں تھا بیوہ عورت کے پاس یہ حق نہیں تھا کہ شوہر کے وفات کے بعد اپنی مرضی سے شادی کریں۔سیاسی طور پر سارا جزیرہ چھوٹی گروپوں میں منقسم تھا،کوئی منظم حکومت نیہں تھا اور طاقتورہمیشہ قانوں بناتے تھے اور اپنی مرضی سے قانوں کا استعما ل کرتے تھے اور قانوں ہمیشہ کمزوروں پر مسلط ہوتا تھا۔المختصر معاشرے میں ہر قسم کی نا انصافی،سیاسی عدم استحکام،توہم پرستی،فحاشی اور ظلم و ستم کا راج تھااس دورکو مورخین اورمفسرین ایام جہالیت کا نام دیتے ہیں۔


آپ ﷺنے تاریکی میں ڈوبے ہوئے معاشرے کو تیس سال کی مختصر عرصے میں دنیا کا ایک اعظیم قوم بنادیا جس نے دنیا کو علم و حکمت سے روشناس کیا۔اپ نے ریاست مدینہ میں ایک ایسا دستور قائم کیا جس پر عمل پیرا ہوکر انسان دین و دنیا دونوں میں کامیابی حاصل کرتا ہے۔آپ نے خواتین کو پہلی دفعہ حقوق عطا کیا۔جناب خدیجہ سلام اللہ علیہ ایک کامیاب کاروباری خاتوں تھی سے شادی کرکے رحمت اللعالمین نے یہ ثابت کیا کہ خواتین بھی تجارت کر سکتے ہیں،وراثت میں ان کو حق دیا۔آپ نے یہ ارشاد فرما کر،، کہ علم حاصل کرو چاہیے اس کے لیئے چین جانا کیوں نہ ہو،،مسلمانوں کو تلقین کیا کہ میعاری تعلیم حاصل کرنا ہر مرد اور عورت دونوں پر فرض ہے۔مذید آپ نے عدل و انصاف کے بارے میں یہ کہہ کراسے آمر کیاکہ اگر میرے جگر کا ٹکڑا فاطمہ ؑ بھی چوری کریں تو اس کے ہاتھ بھی کاٹ دی جائے گی۔ریاست مدینہ میں تمام شہریوں کو بلا تفرق کے مساوی حقوق حاصل تھے اور اس کی بنیاد حقوق وفرائض پر مبنی تھے۔


جب ہم عید میلاد نبیﷺ مناتے ہیں تو اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ہمیں نبی پاک کی اسوہ حسنہ کو اپنی ذندگی کا حصہ بنائیں اور آپ کی دی ہوئی اصولوں پر عمل کریں۔یہ مہینہ نہایت تقدس کا ہے اس میں مسلمان عبادات کرتے ہیں،مجالس منعقد ہو تے ہیں جن میں انحضرت (ص) ذندگی کے اصولوں اور سیرت پر تفصیل سے روشنی ڈالی جاتی ہے اور خاص کر مسلمان نوجوانوں کے لیئے یہ پیغام جاتا ہے کہ وہ اپنی انفرادی اور اجتماعی ذندگیوں کو کس طرح سیرت نبوی کے مطابق بسر کر سکیں۔یہ دن انتہائی خوشی اور مسرت کا ہوتا ہے جہاں میلاد پروگرام ہوتے ہیں غریبوں کو کھانا اور کپڑے وغیرہ مہیا کیا جاتا ہے اور ہر طرف خوشی کا سمان ہو تاہے۔
حال ہی میں وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خان صاحب کی جانب سے رحمت اللعالمین اٹھارٹی کی قیام کا اعلان ایک خوش ائیند قدم ہے جس میں دنیا بھر سے اسکالر اور دانشور شامل ہونگے اور اسلام کے اصل تعلیمات اور چہرے دنیا کو پیش کریں گے اور رسالت معاب ﷺ کے سیرت کو صیح معنوں میں بیاں کریں گے تاکہ ہمارے نوجوان نسل مغرب کے اخلاقیات سے فقدان اقدار کا شکار نہ بنے۔

وہ جو نہ تھے تو کچھ نہ تھا وہ جو نہ ہوں تو کچھ نہ ہو
جان ہیں وہ جہان کی جان ہے تو جہان ہے

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
53542

تبدیلی کے تین سال – فکروخیال ۔ فرہاد خان

تبدیلی کے تین سال – فکروخیال ۔ فرہاد خان


بائیس سال کی جہدوجہد ،جلسے جلوسون، بلند بانگ تقاریر اور دعووں کے بعد بلاآخر خان صاحب سادہ اکثریت کے ساتھ انتخابات جیت کر وزیراعظم کے عہدے پر براجمان ہوچکے تھے ۔اسمبلی سے اپنی پہلی تقریر میں حکومت کے نوے دن کے پلان کا اعلان کرتے ہوئے پوری کابینہ کو اس مشن کی کامیابی کا ٹاسک دے دیا تھا اور خود بھی کام پر لگ گئے تھے۔معاملات آگے بڑھ رہے تھے اور یہ نوے دن نہیں بلکہ پورے تین سال بعد کے ایک خوبصورت دن کا آغاز تھا ۔چونکہ سوئس بینک میں پڑے زرداری کے اربون ڈالر وزیراعظم کے ایک کال پر دوسرے ہی دن پاکستان پہنچ چکے تھے،

نواز شریف ،شہباز شریف اور دوسرے ملزمان سے اربون ڈالر کی مالیت کے رقوم کی نیب کے زریعے ریکوری عمل میں لائی گئی تھی اس لئے ائی۔ایم۔ایف کا کشکول بقایاجات سمیت واپس کرنے فواد چودھری امریکہ یاترا پر تھے۔ جبکہ لٹیرون ،چورون اور بدعنوان افراد کو شہر شہر اور گلی گلی لٹکایا گیا تھا ۔ شہر شہر قریہ قریہ لوگ ان کے عبرتناک مناظر پر کان پکڑ کر توبہ کررہے تھے۔ ملکی خزانہ وصول کئے جانے والے رقوم سے بھرا پڑا تھا۔پٹرول کی قیمت بڑھانے والے ملک دشمن عناصر سے چھٹکارا مل گیا تھا،زخیرہ اندوزی کرنے والے افراد معافی مانگنے کے بعد سدھر گئے تھے۔چونکہ خان کے پاس معاشی ماہرین کی قابل ترین ٹیم موجود تھی اس لئے انہوں نے تین سال کے قلیل عرصے میں برسون سے ملکی زمیں بوس معیشت کو آسمان پر اُٹھا لیا اور یون ملکی معیشت تاریخ کی مستحکم ترین معشت بن گئی۔

نتیجتا اشیا خوردنی کی قیمتین انتہائی کم ہوگئیں۔ پٹرول کی قیمت وزیراعظم کی تقاریر کے مطابق چالیس روپے مقرر کی گئی تھی اور ملک خوشحالی کی جانب گامزن تھا۔اسی اثنا لندن میں ایون فیلڈ کے بنگلے ،متحدہ عرب امارات میں موجود لیگی و پیپلزپارٹی کے سیاستدانون کے گھر،پنجاب اور سندھ میں بلاول ہاوسز،جاتی امرا اور رائیونڈ میں نواز شہہاز کے قلعہ نما گھر جائیداد بھی نیلام کردیئے گئے۔ اسلام اباد میں موجود وزیراعظم ہاوس کو جدید یونیورسٹی میں بدل دیا گیا تھا اور صوبائی دارالحکومتون میں قائم گورنر ہاوسز بھی پبلک مقامات بن چُکے تھے اس لئے شہریون کی خوشی دیدنی تھی۔

ہر طرف انصانی حکومت کی شہرت کے شادیانے بج رہے تھے ۔ ملکی خزانہ بھر جانے کی وجہ سے چونکہ ترقی کا آغاز ہوچکا تھا اس لئے بیرون ملک کام کرنے والے ہمارے سارے پاکستانی بھائی وہان کی نوکری چھوڑ کر پاکستان پہنچنا شروغ ہوگئے تھے۔ ایک کروڑ لوگون کو ملک میں ہی نوکریان ملک گئی تھیں ۔زرعی و صنعتی انقلابی اقدامات کی وجہ سے ملک زرعی و صنعتی لحاظ سے خود کفیل ہونے کے ساتھ ساتھ درامدات و برامدات میں توازن کی وجہ سے پاکستانی روپے کی قدر میں حیران کن طور پر اضافہ جبکہ امریکی ڈالر اپنی قدر کھونے کے ساتھ ساتھ ملک چھوڑ کر جانے کا سوچ رہا تھا اور ائی ایم ایف و عالمی بینک والے ہمارے انقلابی اقدامات سے حیران تھے۔ہمارے وزیراعظم کی اصول پسندی اور موروثی سیاست سے نفرت کا عالم یہ تھا کہ پائے کے سیاستدان جن میں شیخ رشید سرفہرست تھے کو چپڑاسی کی نوکری بھی نہیں مل رہی تھی ۔اور اس جسیے بہت سے جید سیاستدان بیروزگار پھررہےتھے۔

پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو چوہدری پرویزالٰہی اپنے بڑے بھائی چوہدری شجاعت و اہل و عیال سمیت جیل میں مقیم تھے۔ جبکہ انصاف کا یہ عالم تھا کہ عدالتون میں زیرالتوا لاکھون غریبون کے مقدمات میں انہیں انصاف ملنا شروغ ہوچکا تھا اور ظلم و جبر پیسے اور طاقت کے بل بوتے پر عدالت پر اثرانداز ہونے والون کو نشان عبرت بنایا جارہا تھا۔ قانون کی پاسداری کا عالم یہ تھا کہ تین بار ملک کے وزیراعظم رہنے والے نواز شریف کی علاج واسطے لندن جانے کی درخواست و التجا یکسر مسترد ہونے پر وہ اڈیالہ جیل میں عام قیدیون جیسی زندگی گزارنے پر مجبور تھا۔ملک میں قاتم فرسودہ پنچائیت کے فیصلون پر مکمل پابندی کے ساتھ ساتھ وڈیرون،چوہدریون ،نوابون اور خانون کے ظلم سے عام لوگون کو خلاصی مل چکی تھی۔

بھٹو بینظیر زرداری و بلاول ، نواز شہباز ،مریم ،حمزہ یہ سارے نام قصہ پارینہ بن چکے تھے اور انہیں جلسون کے لئے عوام تو کیا اپنے کارکن بھی نہیں مل رہے تھے۔جبکہ اپنا پاکستان کے تحت پچاس لاکھ گھر بنا کر غریبون میں تقسیم کرکے غربت کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکنے کی شروعات ہوچکی تھی۔یون ریاست مدینہ کی طرح کا ایک بہترین ریاست پروان چڑھ رہا تھا جس کی گواہی ملک کے تقریبا سبھی میڈیا چینلز، اخبارات ، اور سوشل میڈیا کے صارفین دے رہے تھے جبکہ غیرملکی میڈیا میں بھی ہمارے کپتان اور اس کے قابل ترین وزرا و مشیران کی بہترین کارکردگی کا چرچا تھا اور ہر ملک میں ان کی مثالیں دی جانے لگی تھیں ۔دل بہت خوش تھا۔باغ باغ تھا ۔کسی قسم کی کوئی پریشانی نہیں تھی۔ پیرس و سوئزرلینڈ کی طرح ملک ترقی کی منزلیں طے کررہاتھا اور ہم خان کے گُن گانے میں مصروف تھے کہ اتنے میں کان کے قریب کسی نے آواز دی کہ پاپا اُٹھئیے گا صبح ہوگئی ہے آپ نے آفس نہیں جانا ؟۔ میں چونک کر اُٹھا تو بیٹی سرہانے پر کھڑی پکار رہی تھی اور یہ سب کچھ خواب تھا ایسا سنہرا خواب جس کے بارے ہم خان کے کنٹینر میں جلسے جلوسون میں سنتے سنتے اتنے عادی ہوچکے تھےکہ دماغ میں سرایت کرگئی تھی۔

سر پکڑ کر گھر میں داخل ہوا تو ایک چینل پر سرکار کے قابل ترین وزرا و مشیران قوم کو شہاز شریف کی کرپشن کے قصے سنارہے تھے اور ساتھ ہی ساتھ یہ امید دلارہے تھے کہ جلد نواز و شہباز ،زرداری و دیگر بد عنوان لوگون کی چوری قوم کے سامنے لائی جائیگی اور بہت جلد یہ جیل میں ہونگے۔جبکہ دوسرے چینل پر پٹرولیم مصنوعات میں مذید اضافے کی خوشخبری کے ساتھ ساتھ اشیاخوردنی کے دام بڑھ جانے کی نوید سنائی جارہی تھی جبکہ ہم سہانے خواب سے جگانے پر بہت نالان تھے ۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
53540

داد بیداد ۔والنٹیر اور کاروباری قرضہ ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

صحا فیوں اور کا لم نویسوں کو ہر روز کسی نہ کسی کی ایسی کا ل آتی ہے جس میں و النٹیر کی تنخوا کے بارے میں شکا یت ہوتی ہے نو جوا ن کا باپ، چچا یا بھا ئی شکا یت کر تا ہے کہ نو جوان نے ڈبل ایم اے کیا ہے بی ایڈ اور ایم ایڈ بھی ہے چا ر مہینوں سے والنٹیر بھر تی ہوا ہے انٹر ویو میں فر سٹ آیا تھا اب تک ایک بھی تنخوا نہیں ملی ہم پریشان ہیں تنخوا کب ملیگی؟ نو کری کب پکی ہو گی؟ کا لم نویس جواب دیتا ہے اس جوان سے پو چھیں والنٹیرکس کو کہتے ہیں اگر معنی نہیں آتے تو انگریزی سے اردو میں ترجمہ والی کوئی لغت کھول کر دیکھیں نو جوان کو معلوم ہوگا کہ والنٹیر مفت کا م کر نے والے کو کہتے ہیں اس کا اردو مترا دف رضا کار ہے رضا کار وہ جوان ہوتا ہے جو اپنی خو شی سے مفت کا م کرنے کے لئے آگے بڑھتا ہے اور راضی ہو کر مفت کا م کر تا ہے یہ کا م مستقل ہے مگر تنخوا ہ کے بغیر ہے .

اگر کسی افیسر نے نو جوان کا انٹر ویو لیا اور نمبر دیدیے تو اس نے غلطی کی ہے رضا کار کا کوئی انٹر ویو نہیں ہوتا وہ رضا کار ہے اور بس لیکن یہ بات کسی ایک کی سمجھ میں بھی نہیں آتی اگر دو چار بندے ما یوس ہو کر فون کر نا چھوڑ دیتے ہیں تو دو چار ایسے بندے فو ن کر تے ہیں جو ما یو س نہیں ہوئے پہاڑی علا قے سے تعلق رکھنے والا ایک شہری کہتا ہے کہ میں نے اپنی بیٹی کو دو بچوں کے ساتھ گاڑی میں بٹھا کر 80کلو میٹر کے فاصلے سے انٹر ویو کے لئے لا یا تھا سکول میں پڑھا نے کے لئے روز انہ 4کلو میٹر سفر کر تی ہے ہم بڑے خو ش تھے کہ والنٹیربھر تی ہو گئی اب تنخوا ہ کے بغیر کیسے ڈیو ٹی کر یگی؟ ہم نے معزز شہری کو سمجھا یا کہ آپ کو انگریزی زبان کی وجہ سے مغا لطہ ہو ا ہے آپ کی بیٹی کو پتہ ہے کہ والنٹیر مفت کا م کر تی ہے مفت کا م کے لئے 80کلو میٹر پہاڑی راستوں پر سفر کرکے انٹر ویو دینا بھی غلط تھا روزانہ 4کلو میٹر سفر کر کے سکول جا نا بھی دا نش مندی نہیں مگر کس کس کو یہ بات سمجھا ئی جا ئے اور کیسے سمجھا ئی جا ئے دو سال پہلے ٹائیگر کی بات آگئی تھی.

جو انوں نے جو ق در جوق ٹائیگر بننا قبول کیا والدین کو مبا رک باد کے پیغا مات مو صو ل ہوئے بعض نے دوستوں کو مٹھا ئی بھی کھلا ئی بعض نو جوانوں کے رشتے اس بنیا د پر طے ہوئے کہ ٹائیگر فوس میں بھر تی ہوا ہے نکا ح اور رخصتی کے بعد معلوم ہوا کہ ٹائیگر فورس کی کوئی تنخوا ہ، الا ونس، وغیرہ نہیں ہے اب اس کے والدین خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس بہا نے سے بیٹے کی شادی ہو گئی روزی دینا اللہ تعا لیٰ کا کا م ہے ویسے بھی دے دیگا یہاں بھی انگریزی زبان آڑے آگئی تھی دیہا تیوں کو پتہ نہیں تھا کہ ٹائیگر فورس رضا کار تنظیم ہے، مجا ہد فورس یا فرنٹیر فورس یا رینجر فورس کی طرح تنخوا ہ اور پنشن والی نو کری نہیں یہی حال ”سٹارٹ اپ“ کا ہے نو جوانوں کو کاروبار اور روزگار کے لئے آسان شرائط پر حکومت جو قرضے دے رہی ہے اس کا نا م ”سٹارٹ اپ“ رکھا گیا ہے

دیہاتی لو گوں کو پتہ ہی نہیں کہ سٹارٹ اپ کیا ہے یہی حال اکنا مک زون اور ما ربل سٹی کا ہے حکومت کہتی ہے اکنا مک زون بنے گا، ما ربل سٹی بنے گی عوام حیران ہیں کہ یہ کس جا نور کے نا م ہیں؟ پلا ٹ لینے کے لئے کرا چی اور ملتا ن سے لو گ آتے ہیں مقا می لو گ پلا ٹوں سے بے خبر ہیں سوال یہ ہے کہ حکومت جا ن بوجھ کر بے چا رے عوام پر انگریزی کا بوجھ ڈال رہی ہے یا حکومت کو اس بات کا علم نہیں کہ ہمارے دیہات میں والنٹیر کو ملا زم سمجھا جا تا ہے ٹائیگر فورس کو فو جی ملا زمت قرار دیا جا تا ہے اگر حکومت کے علم میں یہ بات لا ئی گئی تو عوام کے مفاد میں انگریزی نا موں کے اردو تر جمے رائج کریگی اردو نا موں کو لوگ پہچانینگے رضا کار تنخوا نہیں ما نگے گا ٹائیگر فورس والا پہلی فرصت میں روز گار تلا ش کرے گا اور سٹارٹ اپ کی جگہ اردو میں کاروباری قرضہ لکھا گیا تو نو جوانوں کی بڑی تعداد اس سہو لت سے فائدہ اٹھائیگی۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
53538

معمولات نبویﷺ ۔ ( ماہ ربیع الاول کے حوالے سے خصوصی تحریر ) ۔ ڈاکٹر ساجد خاکوانی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

معمولات نبوی ﷺ

 (ماہ ربیع الاول کے حوالے سے خصوصی تحریر)

ڈاکٹر ساجد خاکوانی

                محسن انسانیت ﷺ کا معمول مبارک تھا کہ رات گئے بیدارہوتے تھے،وضو فرماتے اور پھر تہجد کی نماز کے لیے کھڑے ہوجاتے۔آپ ﷺ کی تہجد کی نماز بہت طویل ہوا کرتی تھی۔قیام کی حالت میں بہت لمبی تلاوت فرماتے تھے اور رکوع و سجود بھی بہت طویل ہواکرتے تھے۔کچھ صحابہ کرام نے آپ ﷺ کے ساتھ تہجد کی نماز میں شریک ہونے کی کوشش کی لیکن ان کے لیے ممکن نہ رہا۔حضرت عائشہ ؓ  فرماتی ہیں کہ آپ ﷺ اتنا طویل قیام فرماتے تھے کہ پاؤں مبارک سوج جاتے اور پنڈلیوں میں ورم آجاتا۔جب سجدہ کرنا مقصود ہوتا تو حجرہ مبارک میں اتنی جگہ نہ ہوتی کہ سجدہ کر سکتے۔حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ سجدہ کرنے کے لیے آپ ﷺ میری ٹانگوں پر اپنا ہاتھ مارتے میں اپنے پاؤں اکٹھے کرتی تو اس جگہ پر آپ ﷺ سجدہ فرماتے تھے۔اس بات سے حجرہ مبارک کی لمبائی چوڑائی کااندازہ کیا جاسکتا ہے جبکہ اونچائی اتنی تھی کہ لمبے قد کاآدمی کھڑاہوجائے تو کھجورکے پتوں سے لیپی ہوئی چھت سے اسکاسرٹکراجائے۔تہجد کی نمازمکمل ہونے پر حضرت بلالؓ کی آذان بلند ہوجاتی،تب آپ ﷺ فجر کی دورکعتیں اداکرتے جنہیں امت فجر کی سنتوں کے نام سے جانتی ہے،پہلی رکعت میں سورۃ کافرون اور دوسری میں سورۃ اخلاص تلاوت فرماتے،یہ مختصررکعتیں ہوتی تھیں۔اسکے بعد آپ ﷺ تہجد کی تھکاوٹ کے باعث سستانے کے لیے لیٹ جاتے  اور مسلمان بھی اتنی دیر میں مسجد میں جمع ہوچکتے۔تب آپ ﷺ نمازپڑھانے کے لیے مسجد میں تشریف لے جاتے اور فجر کی طویل قرات والے دو فرائض پڑھاتے اور پھر مسلمانوں کی طرف چہرہ انور کر کے بیٹھ جاتے۔کوئی خواب دیکھاہوتا تومسلمانوں کو سناتے اور اگر مسلمانوں میں سے کسی نے خواب دیکھاہوتا تو سن کر اسکی تعبیر دیتے۔بعض اوقات فجر کے بعد دیگر امور پر بھی گفتگو فرماتے اورانہیں جملہ ہدایات دیتے  اس بہانے مسلمانوں کی تعلیم کاانتظام بھی ہوجاتاجبکہ خواتین بھی موجود ہوتی تھیں۔

                فجر کے بعد سوناآپ ﷺ کو بے حد ناپسند تھا۔یہ بہت برکت والاوقت ہوتا ہے جسے ذکروفکرمیں گزارناچاہیے۔قرآن مجید نے بھی فجرکے وقت  تلاوت کی ترغیب دی ہے۔عشراق اور چاشت کے نوافل بھی آپ ﷺکے معمولات کاحصہ تھے لیکن یہ نوافل بہت چھوٹے چھوٹے ہوتے تھے۔آپ ﷺ کی عادت مبارکہ تھی کہ رات کے نوافل لمبے لمبے اداکرتے اور دن کے نوافل کو بہت مختصر کر کے تو ختم کردیتے۔فجرسے ظہر تک کاوقت زیادہ تر مسجد کے باہر گزارتے تھے جبکہ آپ ﷺکے صحابہ کرام نے اپنی تعداد کے دو حصے کیے ہوتے تھے،ایک حصہ فجر سے ظہر تک آپ ﷺ کے ساتھ رہتا اور دوسرا حصہ کاروبار دنیا میں مشغول ہوتاجبکہ ظہر بعد پہلا حصہ دنیامیں مشغول ہوجاتااور دوسرے حصے کے اصحاب صحبت نبوی ﷺ سے فیض یاب ہوتے تھے۔اس دوران بعض اوقات بازارتشریف لے جاتے اور معاملات کی نگرانی کرتے۔ایک بار ایک دکان کے باہر غلے کے ڈھیر میں آپ نے ہاتھ ڈالا تو وہ باہر سے خشک اور اندر سے گیلا تھا۔آپ ﷺ نے دکاندار سے پوچھایہ کیاہے؟؟اس نے جواب دیا رات کو بارش کی پھنوارکے باعث گندم گیلی ہوگئی۔آپﷺ نے اسکو سخت ناپسندفرمایاکہ اوپراوراندر میں فرق ہے تب آپ ﷺنے فرمایاکہ”جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں“۔بازرارمیں ایک بار آپ ﷺ کو بہت پرانا شناسا دکھائی دیا،آپﷺ نے فرط محبت میں پیچھے سے اسکی آنکھوں پر ہاتھ دیے،یہ اشارہ تھا کہ مجھے پہچانو!،ابتداََتو اسے اندازہ نہ ہوا لیکن جب پتہ چل گیا تو اس نے اپنی کمر آپ ﷺ کے سینے سے خوب خوب مس کی کیونکہ نبی کے جسم سے جو چیزمس ہوجائے اس پر آگ اثر نہیں کرتی۔بعض اوقات خاص طورپر خواتین سے ملاقات کے لیے تشریف لے جاتے جبکہ مرد حضرا ت اپنے اپنے کاموں پرگئے ہوتے تھے،ایک بار آپ ایک بندمحلے میں تشریف لے گئے اورزورسے فرمایا کہ ”السلام علیکم“کوئی جواب نہ آیا،پھرفرمایاتو بھی جواب نہ آیا،تیسری دفعہ سلام کیاتو بھی کوئی جواب نہ آیا،آپ ﷺ واپس مڑنے لگے تو ہر گھرسے خواتین کی آوازبلندہوئی کہ ”وعلیکم السلام یا ایھاالنبی“،آپ ﷺ نے پوچھا پہلے کیوں جواب نہ دیاتو عرب کی ذہین عورتوں نے جواب دیا کہ ہم چاہتی تھیں کہ لسان نبویﷺ سے زیادہ زیادہ سلامتیاں ہم تک پہنچیں،کیونکہ پہلی دفعہ جواب دے دیاجاتا توباقی دونوں دفعہ کے دعایہ سلام سے محروم رہ جاتیں۔سوموارکادن عورتوں کے لیے مخصوص تھاجبکہ عمرعزیزکے آخری ایام میں ہفتہ بھرمیں دو دن خواتین کے لیے مخصوص کر لیے گئے تھے۔

                بعض اوقات اچھاکھانا کھائے بہت دن گزرجاتے تو آپ ﷺ کسی امیر مسلمان کے تشریف لے جاتے۔اسی طرح ایک دن آپ ایک انصاری صحابی کے باغ میں تشریف لے گئے اور اس سے بے تکلفی سے فرمایا کہ ہمیں کھانا کھلاؤ،اس کے دروازے پر تو گویا دنیاوآخرت کی خوش بختیاں پہنچ گئی تھیں۔اس نے فوراََ ہی کھجور کے کچے پکے پھلوں کی ایک ڈالی بطور سلاد کے خدمت اقدس ﷺمیں پیش کی اور گھروالوں کو روٹیاں پکانے کا کہ کر خود ایک بکری ذبح کرنے میں مشغول ہو گیااور تھوڑی دیر بعدایک تھال میں بھنا ہواگوشت اور ایک رومال میں پکی ہوئی روٹیاں دسترخوان پر چن دی گئیں۔آپﷺ نے کھانا تناول کرنے سے پہلے چار روٹیوں میں کچھ سالن کی بوٹیاں رکھ کر حضرت ابوہریرہ ؓکو دیں کہ جاؤفاطمہؓکو دے آؤ اس نے اتنے دنوں سے کھانا نہیں کھایا۔بعض اوقات آپﷺ دوستوں کے ساتھ شہر سے باہر تشریف لے جاتے اور انکے ساتھ اچھاوقت گزارتے۔ایک بار آپﷺقریب کی جھیل میں گئے اور دودوکی جوڑیاں بناکر تیراکی کی مشق کی اور مقابلے کیے۔آپ ﷺ کے ساتھ جوڑے میں حضرت ابوبکرصدیق ؓشامل تھے۔بعض اوقات جنات کو ملنے کے لیے بھی پہاڑوں پر تشریف لے جاتے تھے اور ایک خاص مقام پر پہنچ کر صحابہ کرام کو آگے آنے سے روک دیتے اور خود آگے بڑھ کر جنات کے قبائل میں تبلیغ فرماتے۔جب سفردرپیش ہوتاتوگھرسے دو نفل پڑھ کر سفر شروع کرتے اورواپسی پرپہلے مسجد میں دو نفل اداکرتے تب گھرمیں وارد ہوتے۔

                آپ ﷺ بہت کم بولتے تھے اور مجلس میں کافی کافی دیر تک خاموشی رہتی۔سوال کرنا سخت ناپسند تھا،ایک بار آپ ﷺ نے فرمایا کہ ”حج فرض ہے“،ایک مسلمان نے سوال داغ دیا کہ کیا ہرسال؟؟اس پر آپ ﷺ کا چہرہ غصے سے سرخ ہوگیااور آپ ﷺ خاموش ہوگئے۔غصہ تحلیل ہونے پر فرمایا مجھ سے سوال کیوں کرتے ہو؟؟اگر میں ہاں کہ دیتاتو پھر۔قرآن مجید نے بھی مسلمانوں کو منع کیا کہ بنی اسرائیل نے جس طرح حضرت موسی علیہ السلام سے سوال کیے تھے تم اپنے نبی سے اس طرح سوال نہ کرو۔تاہم کسی اہم سوال کا جواب دیابھی کرتے تھے مثلاََ محفل میں خوشبو پھیل جانے پر مسلمانوں کو اندازہ ہوجاتا تھا کہ جبریل آ گئے ہیں،ایک بار مسلمانوں نے پوچھا کہ جبریل ہمیشہ اس طرف والی گلی سے کیوں آتے ہیں؟؟تب آپ ﷺ نے فرمایا اس لیے کہ اس گلی میں حضرت حسان بن ثابت ؓکا گھر ہے جو نعت گو شاعر رسولﷺ تھے۔نعت شوق سے سنتے تھے اور نعت گو شاعر کے لیے دعابھی فرماتے تھے۔جب کسی سے خوش ہوتے تھے تو اس کے سامنے محبت کااظہارکرتے تھے اور جب کسی سے ناراض ہوتے تو خاموشی اختیارکرلیتے تھے اور بہت زیادہ ناراضگی ہوتی تو چہرہ انور اس سے پھیر لیتے تھے،ایک صحابی کی داڑھی میں ایک ہی بال تھا آپ ﷺ اسے دیکھتے تھے اور مسکراتے تھے اس صحابی ایک بارنے وضوکے دوران وہ بال توڑ دیا،آپ ﷺ نے دیکھا تو ناراضگی سے چہرہ انور پھیرلیا،اس صحابی نے عرض کی یارسول اللہ ﷺایک ہی تو بال تھاتو سرزنش فرماتے ہوئے جواب دیا کہ خواہ ایک بال تھا تب بھی میری سنت تو تھی،تم نے اسے بھی توڑ دیا؟؟؟

                ظہر سے قبل آپ ﷺ اپنے حجرہ مبارک میں تشریف لے آتے اور تھوڑی دیر کے لیے قیلولہ فرماتے تھے۔آپﷺ کا ارشادمبارک ہے کہ رات کو اٹھنے (تہجدپڑھنے)کے لیے دوپہر کے سونے سے مدد لو۔اس دوران کوئی ملنے گھر پر آجاتا تو طبیعت اقدس پر سخت ناگوار گزرتاتھا،لیکن آپ کااخلاق اتنا بلند تھا کہ آپﷺ نے کبھی اپنی ناگواری کا اظہار نہیں فرمایاتھا،اس پر اللہ تبارک وتعالی نے سورۃ حجرات میں مسلمانوں کو حکم دیا کہ نبی ﷺجب اپنے گھر میں استراحت فرمارہے ہوں توانکو آوازیں نہ دیاکرو بلکہ مسجد میں بیٹھ کر انکا انتظار کیاکرو۔قیلولہ کے بعد آپ ﷺ ظہر کے لیے نکلتے اور مسلمانوں کو ظہر کی نماز پڑھاتے تھے،اگرکوئی منتظر ہوتاتو نماز مختصر کر لیتے اورکسی بچے کی رونے کی آواز آجاتی تو بہت جلد نماز ختم کردیاکرتے تھے۔ظہرکے بعد کا وقت زیادہ تر مسجد میں گزارتے تھے،شایداس کی وجہ نمازوں کے مسلسل اوقات تھے۔اس دوران  باہر سے آنے والے مہمانوں سے بھی ملاقات کرتے تھے،بعض اوقات مقدمات کا فیصلہ کرتے تھے اورتحفے و ہدیے بھی قبول فرماتے تھے۔ایک بار ایک مسلمان روزے کی حالت میں بیوی ے پاس جانے کی شکایت لے کرآگیا،فرمایا ساٹھ روے رکھو،عرض کی ایک روزے کاحال سن لیا ساٹھ کیسے رکھ پاؤں گا؟؟؟فرمایا ساٹھ مسکینوں کو کھاناکھلاؤ،عرض کی استطاعت نہیں ہے۔وہ مسلمان مجلس میں بیٹھ گیاکہ اسی اثنامیں ایک شخص کھجوروں کاٹوکرالایااورخدمت اقدسﷺ میں پیش کردیا،فرمایاوہ مسلمان کہاں ہے جس کاروزہ ٹوٹ گیاتھا؟؟؟جی میں ہوں،فرمایایہ کھجوریں غریبوں میں تقسیم کردو تمہاراکفارہ اداہوجائے گا۔اس نے عرض کی اے للہ کے رسولﷺاس شہر مدینہ کے دو پتھروں کے درمیان مجھ سے زیادہ غریب اور کوئی نہیں،اس بے ساختہ جواب پرچہرہ انورخوشی سے اس حد تک کھل اٹھاکہ اصحاب خوش بخت نے دندان مبارکہ کی زیارت بھی کر لی تب فرمایا جاؤخود کھاؤ اپنے گھروالوں کو کھلاؤیہی تمہارے روزےکاکفارہ ہے۔

                کھانے میں آپ ﷺ کو کدوشریف پسند تھا،بکری کی اگلی ٹانگ،دستی،شوق سے تناول فرماتے تھے،سفید لباس خوش ہو کر پہنتے تھے،زندگی بھر میں ایک دفعہ آپ ﷺنے سرخ دھاری دار کپڑے بھی زیب تن کیے تھے۔ایک بار آپ ﷺ یمنی چادر اوڑھ کر بیٹھے تھے اور مسلمانوں کے درمیان بیٹھے ایسے لگ رہے تھے جیسے ستاروں میں چاند جگمگارہاہو،سب مسلمان آپﷺ کو شوق سے دیکھ رہے تھے کہ ایک نے وہ چادرآپ ﷺ سے مانگ لی،عادت مبارکہ تھی کہ مانگنے والے کو انکار نہیں کیاکرتے تھے،اس کو چادردے دی تو سب مسلمان اس آدمی سے ناراض ہوگئے اس پر اس آدمی نے کہا کہ میں اس سے اپنا کفن بناؤں گا اور دوزخ کی آگ سے محفوظ و مامون ہوجاؤں گا۔آپ ﷺ کو خوشبو بہت پسند تھی،خوشبو کا تحفہ لیاکرتے تھے اور دیا بھی کرتے تھے۔جانوروں میں بلی سے بہت پیارتھاکبھی غصہ آتا تو کپاس کا گولہ بلی کو دے مارتے تھے۔بچے بہت اچھے لگتے تھے خاص طور پر یتیم بچوں کو اپنی اولاد پر بھی فوقیت دیتے تھے ایک بار بی بی پاک فاطمہ الزہرانے خدمت گار کا تقاضاکیاتو فرمایا کہ ابھی بدر کے یتیم باقی ہیں۔کپڑے،جوتے،جرابیں پہنتے ہوئے پہلے دائیں عضومیں چڑھاتے تھے اور اتارتے ہوئے پہلے بائیں عضوسے اتارتے تھے،بیت الخلامیں پہلے بایاں قدم مبارک دھرتے تھے اور نکلتے ہوئے پہلے دایاں قدم مبارک باہر نکالتے تھے،جبکہ مسجد میں اس کا الٹ۔جب بھوک ہوتی تو کھاناتناول فرماتے اور تھوڑی بھوک باقی ہوتی تو ہاتھ کھینچ لیتے تھے،کھانا خلاف مزاج ہوتا تو نقص نہ نکالتے تھے بلکہ دسترخوان سے اٹھ جاتے تھے۔مسلمانوں کو نمازکی بہت تاکیدکرتے تھے اورجب بھی کوئی مشکل وقت ہوتا توخود بھی نماز میں کھڑے ہوجاتے۔دعائیں اور مناجات بہت کثرت سے کرتے تھے اور مسلمانوں کو بھی اسکی تلقین کرتے تھے۔

                ”گوہ“ایک حلال جانور ہے جوخرگوش سے چھوٹااور چوہے سے بڑاہوتاہے لیکن آپﷺ کو کھانے میں پسند نہ تھا،پیاز بھی طبع نبوی پر گراں تھا،بدبو سے بہت نفرت تھی اسی لیے کثرت سے مسواک کرتے تھے سوکر اٹھنے پر مسواک کرتے،وضومیں مسواک کرتے اور اگلی نماز میں گزشتہ وضو برقرارہوتاتب بھی نماز شروع کرنے سے قبل مسواک دانتوں پر پھیراکرتے تھے اورکافی دیرگزرجاتی تو بھی مسواک کرلیتے تھے،آپﷺ نے حکم دیا کہ جب اپنی بیویوں کے پاس جاؤ تو دانت صاف کرکے جاؤیعنی اس دوران منہ سے بو نہیں آنی چاہیے۔بکھرے بال اور میلے کچیلے کپڑے سخت ناپسند تھے،کوئی اس حالت میں پیش ہوتا تو براہ راست تنقید کی بجائے دوسروں کی طرف رخ انور کرکے تنبیہ فرماتے تھے،جب کبھی گیسوئے مبارکہ دراز ہوجاتے تو جیب میں ایک کنگھی رکھاکرتے تھے،ایک زمانے میں آپ ﷺ کے پاس ہاتھی دانت کی بنی کنگھی بھی رہی۔فجر کے بعد سونااور عشاء کے بعد محفلیں جمانا بہت ناپسند تھا،راستوں میں بیٹھنے سے بھی آ ُپ ﷺ نے منع فرمایا۔ایک صحابی پرندوں کے بچے اٹھالایا تو آپ نے سخت ناپسند فرمایا اور اسے حکم دیا واپس چھوڑ آو۔سادگی،فقراور درویشی سے آپﷺ کی زندگی عبارت تھی،ایک بارحضرت عمر بن خطاب آپ ﷺ کے حجرہ مبارک میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ کھجور کی بنی فرشی چٹائی پر سونے کے باعث کمراقدس پر چٹائی کے نشان کنداں ہیں اور کمرے میں کل تین مٹی کے برتن رکھے ہیں،حضرت عمر آبدیدہ ہو گئے عرض کی روم و ایران کے بادشاہوں کے لیے ریشم اورمخمل کے بچھونے ہوں اور سرکاردوجہاں کے لیے کھجورکی یہ چٹائی؟؟؟فرمایاعمرکیاتم نہیں چاہتے کہ ان کے لیے صرف دنیاکی نعمتیں ہوں اور ہمارے لیے آخرت کی،لیکن اس حالت میں بھی کمرے کی دیوار سے نو (9)تلواریں لٹکی تھیں۔سخاوت کی عادت مزاج مبارک کا لازمی حصہ تھا،باغات کی آمدن سے مسجد نبوی کا صحن بھرجاتاتھا اور کل مال تقسیم فرمادیتے اور گھرجاکر پوچھتے کچھ کھانے کو ہے؟؟ توجواب میں انکارملتاتھااور بھوکے پیٹ سو جاتے تھے۔ مردوں کے لیے سونا،ریشم اورمخمل سے بھی آپﷺ نے منع فرمایا۔رات عشاء کے بعد جلد سوجانے کے عادی تھے اور سونے سے پہلے قرآن مجید کی کچھ آیات کی تلاوت کر کے سوتے تھے جن میں چاروں قل اور آیت الکرسی کی روایات بہت ملتی ہیں۔اللہ تعالی ہمیں بھی معمولات نبوی عطا فرمائے،آمین۔

[email protected]

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
53515

آہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان – تحریر:اشتیاق احمد

ڈاکٹر عبدالقدیر خان آج سے 85 سال قبل 1936 کو متحدہ ہندوستان کے شہر بھوپال میں پیدا ہوئے۔ان کا تعلق پشتون قبیلے اورکزئی سے تھا،ان کے بہن بھائی قیام پاکستان کے وقت ہی یہاں ہجرت کرکے منتقل ہو گئے اور وہ خود خاندان کے باقی افراد کے ہمراہ 1954 میں یہاں آکے سکونت اختیار کی۔ ابتدائی طور پرکراچی کے میٹروپولیٹن کارپوریشن میں ملازمت اختیار کرتے ہیں پھر اسکالر شپ کے تحت اعلٰی تعلیم کے حصول کیلئے ہالینڈ اور جرمنی سے میٹیریل ٹیکنالوجی میں ایم ایس سی اور بعد آزان بیلجیئم سے اسی شعبے میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی.

۔1972 میں جب انڈیا نے ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ میں شامل ہونے کیلئے ایٹمی تجربات کئے تو ہالینڈ میں مقیم حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے دل میں اپنے ملک کو نا قابل تسخیر ایٹمی قوت بنانے کی خواہش پیدا ہو جاتی ہے اور اس کو عملی جامہ پہنانے کیلئے اپنی خدمات پیش کئے اور اس سلسلے میں حکومت پاکستان کو خطوط ارسال کئے۔اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو انھوں نے دو خطوط ارسال کئے جس کے بعد ان کو پاکستان بلوایا گیا اور اس حوالے سے ان کے ساتھ سیر حاصل گفتگو ہوئی اور انھوں نے باقاعدہ حکومت کو اپنی خدمات پیش کیں۔اس ملاقات کے بعد ڈاکٹر صاحب دو سال تک ہالینڈ میں مقیم رہے اور پھر 1976 میں اس منصوبے پر عملی کام کا آغاز ہوا اور انجینئرنگ ریسرچ اکیڈمی کی بنیاد رکھ دی گئی اور بعد آزاں اس ادارے کا نام اس وقت کے سربراہ مملکت جنرل ضیاء الحق نے تبدیل کرکے ان کے اپنے نام “ڈاکٹر عبدالقدیر خان ریسرچ لیبارٹریز؛رکھ دیا۔

اس بات پہ کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ ایٹمی پروگرام کا سنگ بنیاد اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے رکھی اور حکومتی سطح پر اس کی سرپرستی کی اور بعد نیں آنے والے حکمرانوں نے اسے آگے بڑھایا اور اس بات کا اعتراف ڈاکٹر صاحب نے جابجا اپنی تقاریر میں کئے۔پاکستان کے جوہری پروگرام کے حوالے سے ڈاکٹر صاحب کا نام اور ان کی خدمات کلیدی اہمیت کے حامل ہیں اور طویل عرصے تک وہ اس کے سربراہ بھی رہے اور آخر کار وہ وقت بھی آیا جب پاکستان نے تمام تر بیرونی دباءو کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ایٹمی دھماکے کرنے اور پہلا اسلامی ایٹمی قوت بننے کے لئے دھماکے کئے اور اپنی خودمختاری اور سالمیت پہ مہر ثبت کر دئے اور بلوچستان کے علاقے چاغی میں کامیاب جوہری تجربات کئے۔ہالینڈ کی حکومت نے اہم معلومات کی منتقلی پر ان پر مقدمات بھی کئے لیکن بعد آزاں ہالینڈ، بیلجیئم، جرمنی اور برطانیہ کےپروفیسرز پر مشتمل ٹیم نے ان الزامات کا جائزہ لینے کے بعد یہ کہ دیا کہ یہ ساری معلومات کتابوں میں موجود ہیں اس لئے ڈاکٹر صاحب اس کیس سے باعزت بری ہو گئے۔

ڈاکٹر صاحب نے اپنے اوپر لگے الزامات ملکی وقار، اور سالمیت کے لئے برداشت کئے اور ملکی خودمختاری پر آنچ نہیں آنے دی۔ڈاکٹر صاحب مختلف سربراہان مملکت کےساتھ بطور مشیر خدمات انجام دئے جس میں سر فہرست سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کو ان کی خدمات کے اعتراف میں 1989 میں ہلال امتیاز اور 1996 میں نشان امتیاز سے بھی نوازا گیا ۔سال 1998 میں جوہری ہتھیاروں کے کامیاب تجربے کے بعد ،1999 میں ایک بار پھر نشان امتیاز سے نوازا گیا۔

ڈاکٹر صاحب ایک سچے مسلمان ،محب وطن پاکستانی ہونے کے ساتھ ساتھ انسانوں کی خدمت کے جذبے سے سرشار مخلص پاکستانی بھی تھے اور خدمت کے کاموں میں بھی پیش پیش ریے۔ڈاکٹر صاحب نے 2012 میں ایک سیاسی جماعت :تحریک تحفظ پاکستان؛ کی بھی بنیاد رکھی لیکن کوئی خاطر خواہ کامیابی نہ ملنے کی وجہ سے بعد میں اس کو تحلیل کر دیا۔ڈاکٹر صاحب نے ساری زندگی جہد مسلسل ، حب الوطنی اور خدمت خلق کے جذبے سے سرشار رہے تعلیم سے بھی محبت ان کے رگ رگ میں رچی بسی ہوئی تھی اور اپنے نام سے تعلیمی ادارے بھی قائم کئے جہاں ان کی وفات کے بعد بھی معماران قوم کو مستقبل کے درپیش چیلینجز سے نمٹنے کیلئے کوشان ہیں۔

پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے اور اس کی سالمیت کو نا قابل تسخیر بنانے والے مرد حر آخر کار 10 اکتوبر کو ہزاروں اشکبار آنکھوں کے سامنے مٹی تلے ہمیشہ کیلئے دفن ہو گئے اور اپنے پیچھے ساری قوم کے علاوہ (بیوہ ہنری قدیر خان اور دو بیٹیوں ) کو چھوڑ دئے اور خود رب کے سامنے حاضر ہو گئے اور انشاء اللّٰہ رب کے سامنے بھی سرخرو ٹھیریں گے۔ڈاکٹر صاحب کی ساری زندگی خدمت اور اس مملکت خداداد کو نا قابل تسخیر بنانے کی جدوجہد سے عبارت ہے اور اپنے جانے کے بعد بھی اپنے چاہنے والوں کو یہ سبق دے گئے کہ حالات جیسے بھی ہوں حب الوطنی کے جذبے کو ہاتھ سے چھوٹنے نہیں دینا ہے اوع مسلسل آگے بڑھنا ہے اور اس مملکت خداداد کو اس مقام تک پہنچانا ہے کہ دنیا رشک کرے اور وہ وقت انشاء اللّٰہ آکر رہے گا۔

ڈاکٹر صاحب نے اس ملک کو ایٹمی قوت بنانے کیلئے جو جدوجہد اور سعی کی اللّٰہ رب العزت اس پر ان کروٹ کروٹ آخرت کے مراحل میں کامیابی عطا فرمائے اور اپنے انعام یافتہ بندوں میں ان شمار کرے ان کے درجات بلند کرے اور ان کو جنت الفردوس میں جگہ عنایت فرمائے اور ہم سب کو ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس عظیم مملکت کو اور بھی نا قابل تسخیر بنانے کی جدوجہد میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔۔آمین

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
53494

محسن ملک و ملت الوداع ۔ محمد شریف شکیب

یکم اپریل 1936کو بھارت کے شہر بھوپال کے پٹھان خاندان میں پیدا ہونے والے بچے عبدالقدیر خان کے لئے پاکستان کی آزادی کا دن بہت یادگار تھا۔1951میں وہ اپنا گھر بار چھوڑکر ماں باپ اور بہن بھائیوں کے ساتھ پاکستان ہجرت کرلی۔ پندرہ سالہ عبدالقدیرخان جب امرتسر پہنچا تو ایک سکھ سپاہی نے ان کی تلاشی کے دوران جیب میں رکھا ان کا پسندیدہ پارکر قلم مانگ لیا۔اور کہا کہ آپ ایک آزاد ملک جارہے ہیں وہاں اچھی تعلیم حاصل کرو گے بڑا افسر بنو گے اپنے لئے اس سے زیادہ قیمتی قلم لے سکتے ہو۔سکھ سپاہی کی پیش گوئی سچ ثابت ہوئی۔ عبدالقدیر خان بہت بڑے آدمی بن گئے۔اگر یہ کہاجائے تو مبالغہ نہیں ہوگا کہ قائد اعظم محمد علی جناح کے بعد ڈاکٹر قدیر ہی قوم کے واحد اورغیر متنازعہ ہیرو رہے۔

وہ شاید واحد پاکستانی تھے جس سے بائیس کروڑ عوام محبت کرتے تھے۔ 1999میں جلال بابا اڈیٹوریم ایبٹ آباد میں مجھے محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا انٹرویو کرنے کی سعادت ملی۔ جس میں انہوں نے پہلی بار میڈیا میں پاکستان کے جوہری پروگرام کے حوالے سے تفصیلی گفتگو کی۔ڈاکٹر عبدالقدیر نے بتایا کہ 1974میں جب بھارت نے اپنا پہلا ایٹمی دھماکہ کیا۔اس وقت وہ ہالینڈ کی نیوکلیئر لیبارٹری میں کام کر رہے تھے۔

اے کیوخان کا کہنا تھا کہ بھارت کے جوہری دھماکوں کے بعد چار دن تک اس نے کھانا نہیں کھایااور مسلسل روتے رہے، ایک ہفتے تک اسے نیند نہیں آئی۔ بہت سوچ بچار کے بعد انہوں نے پاکستان میں جوہری پروگرام شروع کرنے کے حوالے سے وزیراعظم پاکستان کو خط لکھا۔انہیں توقع نہیں تھی کہ ان کا خط وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو تک پہنچ پائے گا۔ دو ہفتے بعد جب اسے وزیراعظم پاکستان کا جوابی خط میں ملا تو اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ وزیراعظم نے پیش کش کی تھی کہ وہ جس طرح کی سہولیات چاہتے ہیں حکومت ان کی مدد کے لئے تیار ہے۔ خط کے جواب میں انہوں نے وزیراعظم کو دوسرا خط لکھ بھیجا کہ وہ فوری طور پر اگر پاکستان آگئے تو مشکوک ٹھہریں گے۔ چھٹیوں میں پاکستان آکر وزیراعظم نے اس معاملے پر تفصیلی بات چیت کریں گے۔

chitraltimes dr qadir khan pride of pakistan

جب پاکستان پہنچا تو وہ وزیراعظم سے ملنے اور ذوالفقار علی بھٹو ان سے ملنے کے لئے بے تاب تھے۔ ملاقات میں جوہری پروگرام کی تیاریوں کو حتمی شکل دیدی گئی۔ کہوٹہ میں کے آر ایل کے نام سے لیبارٹری قائم کردی وہی لیبارٹری ہمارا دفتر بھی تھا اور بیڈ روم بھی تھا۔ کام سے تھک کر وہیں فرش پر پڑے فوم پر دراز ہوجاتے اور نیند سے بیدار ہوکر پھر کام شروع کردیتے۔وزیراعظم نے اس وقت کے گورنر سٹیٹ بینک غلام اسحاق خان کو یہ ذمہ داری سونپ دی کہ کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز کو جس چیز کی ضرورت ہو۔ فوری طور پر مہیا کی جائے۔رات کو دو بجے بھی ضرورت پڑنے پر غلام اسحاق خان کو فون کرلیتے اور وہ بلاتاخیر سلیپنگ سوٹ میں ملبوس حاضر ہوجاتے۔

ڈاکٹر اے کیوخان کا کہنا تھا کہ انہوں نے غلام اسحاق خان جیسا محب وطن نہیں دیکھا۔ساری دنیا میں پاکستان کی ایٹمی تیاریوں کے چرچے شروع ہوگئے۔ طویل محنت اور جدوجہد کے بعد جب قدیرخان ریسرچ لیبارٹری نے کولڈ ٹیسٹ کی تیاری مکمل کرلی تو اس وقت کے صدر ضیاء الحق نے لیبارٹری کا دورہ کیا۔جب انہیں بتایاگیا کہ پاکستان اب اپنے جوہری پروگرام کے کولڈ ٹیسٹ کے لئے تیار ہے تو صدر ضیاء الحق حیرانگی سے دیکھنے لگے اور ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے پھر کہنے لگے کہ جبھی تو ساری دنیا میں پاکستان کے جوہری پروگرام پر شور مچایاجارہا ہے۔ 1974سے لے کر چوبیس سالوں تک کی شبانہ روز محنت کے بعد پاکستان نے 28مئی1998کو اپنا پہلا ایٹمی دھماکہ کیا اور پاکستان عالم اسلام کا پہلا اور دنیا کا ساتواں جوہری صلاحیت رکھنے والا ملک بن گیا۔

تب سے دشمن کو پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرات نہیں ہوئی۔ صرف جوہری تجربے پر اکتفا نہیں کیاگیا۔پاکستان نے غزنوی، غوری اور شاہین جیسے بیلاسٹک میزائل بھی تیار کئے جو ساڑھے تین ہزار کلو میٹر تک جوہری ہتھیار لے جانے اور دشمن کے عزائم خاک میں ملانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔حکومت پاکستان نے ملک کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے پر ڈاکٹر عبدالقدیر خان کوتین مرتبہ تمغہ حسن کارکردگی، ہلال امتیاز اور نشان امتیاز کے اعزازات سے نوازا۔

میرا ماننا یہ ہے کہ ڈاکٹر قدیر خان کے سینے پر سجنے کے بعد ان اعزازات کی قدر اور اہمیت بڑھ گئی ہے۔ پاکستانی قوم پر ڈاکٹر قدیر کا صرف ایک یہ احسان نہیں کہ انہوں نے ملک کو ایٹمی صلاحیت کے قابل بنایا۔جب پاکستان پر ایران، لیبیا اور جنوبی کوریا کو جوہری مواد فراہم کرنے کے الزام میں پابندیاں لگنے والی تھیں اس وقت ملک پر آنے والے تمام الزامات اپنے سر لے کر انہوں نے ملک کو بچایا۔یہ اس قوم پر اے کیوخان کا ایک اور احسان تھا۔

انہوں نے ملک میں دس ہزار جوہری سائنسدان بنائے یہ اے کیوخان کا قوم پر ایک اور بڑا احسان ہے۔85سال کی عمر میں جب ان کا انتقال ہوگیا تو ان کے اندرون و بیرون ملک کوئی جائیداد، آف شور کمپنیاں، کارخانے نہیں تھے۔ البتہ چندے جمع کرکے مختلف شہروں میں تعلیمی ادارے اور ہسپتال بنادیئے جو اس قوم پر ان کا ایک اور احسان ہے۔ آج وہ محسن ملک و ملت ہم میں نہیں رہے۔ لیکن پاکستان کو دفاعی لحاظ سے ہمیشہ کے لئے ناقابل تسخیر بنادیا۔ قوم تاقیامت ان کی احسان مند رہے گی۔وہ قوم کے دلوں اور تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ زندہ جاوید رہیں گے۔

chitraltimes dr qadir khan pride of pakistan2
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
53451