Chitral Times

فروغ سیاحت کا منصوبہ…………… محمد شریف شکیب

Posted on
خیبر پختونخوا حکومت نے اپنی آئینی مدت پوری ہونے سے چند ماہ قبل وہ فیصلہ کیا ہے جو اسے پانچ سال قبل کرنا چاہئے تھا۔ صوبائی حکومت نے سیاحت کے فروغ کے لئے عالمی بینک سے پانچ ارب 80کروڑ روپے کا قرضہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ صوبائی حکومت نے چھ ارب اسی کروڑ روپے مانگے تھے اور یہ درخواست بھی کی تھی کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن صوبے کا کردار ادا کرنے والے خیبر پختونخوا کی مالی حالت بہتر بنانے کے لئے یہ رقم قرض کے بجائے مالی امداد کے طور پر فراہم کی جائے۔تاہم عالمی بینک پانچ ارب اسی کروڑ روپے کی فراہمی پر رضامندی کا اظہار کیا ہے۔ صوبائی حکومت کا پروگرام ہے کہ اگر عالمی بینک سے امدادی رقم مل جاتی ہے تو اس میں سے چار ارب دس کروڑ روپے ملاکنڈ، گلیات، کاغان اور ناران کے سیاحتی مقامات تک سڑکوں کی تعمیراور ہوٹلوں کی مرمت پر خرچ کئے جائیں گے۔ ان علاقوں میں موجود سو سال سے زائد پرانی عمارتوں کو اصلی حالت میں بحال کیا جائے گا۔ جن پر ایک ارب دس کروڑ روپے خرچ ہونے کا تحمینہ ہے۔جبکہ سیاحتی مقامات پر رہنے والے لوگوں کو اپنا کاروبار شروع کرنے کے لئے ایک ارب دس کروڑ روپے کے بلاسود قرضے دیئے جائیں گے۔ فروغ سیاحت پروگرام کے تحت حجروں کی قدیم روایت کو زندہ کیا جائے گا۔ تاکہ سیاحوں کو ہوٹلوں میں ٹھہرانے کے بجائے ان حجروں میں رہائش فراہم کی جائے اور حجروں کے ساتھ خطے کے عوام کی مہمان نوازی کی روایت سے بھی سیاح لطف اندوز ہوں۔فروغ سیاحت کے پروگرام کی نگرانی کے لئے ملاکنڈ ، گلیات اور کاغان میں اتھارٹیاں بھی قائم کی جائیں گی۔قدرت نے خیبر پختونخوا کو جنگلات، معدنیات، آبی ذخائر کے ساتھ قدرتی حسن سے نہایت فیاضی سے نواز ا ہے۔ نتھیاگلی، ڈونگا گلی، بیرن گلی، ایوبیہ، کاغان، ناران، ٹھنڈیانی سے لے کر بٹگرام، تورغر، شانگلہ اور کوہستان تک ہر طرف دلکش قدرتی مناظر سیاحوں کا دل موہ لینے کے لئے کافی ہیں۔ اگر ملاکنڈ ڈویژن میں جائیں توبونیر، مینگورہ،سیدو شریف، مرغزار، مٹہ ، مالم جبہ، بحرین، کالام، کمراٹ، شرینگل، لواری ٹاپ، مدک لشٹ، برموغ لشٹ، قاق لشٹ، شندور ، تریچ میر اور حسن فطرت سے مالامال وادی کیلاش اپنی مثال آپ ہیں۔ خیبر پختونخوا کے سیاحتی مقامات کا مجموعی رقبہ نیپال کے رقبے سے زیادہ ہے۔ نیپال کی پوری معیشت کا انحصار ماونٹ ایورسٹ دیکھنے کے لئے آنے والے سیاحوں سے حاصل ہونے والی آمدنی پر ہے۔ اگر خیبر پختونخوا کے سیاحتی مقامات تک رسائی آسان بنانے کے لئے کشادہ سڑکیں بنائی جائیں۔ سیاحوں کی رہائش، سیکورٹی اور دیگر ضروریات کا مناسب خیال رکھنے کا بندوبست کیا جائے تو یہ صوبہ بجلی کی پیداوار، معدنیات اور زرعی پیداوار کی مجموعی آمدن سے زیادہ سیاحت کے ذریعے حاصل کرسکتا ہے۔ ساتھ ہی ہزاروں افراد کو روزگار کے مواقع مل سکتے ہیں اور ان کا معیار زندگی بہتر ہوسکتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت کی مدت 28مئی کو پوری ہورہی ہے۔ کیا عالمی بینک رواں مہینے یا اپریل تک مطلوبہ قرضہ فراہم کرپائے گا۔ اور اگر رقم فوری طور پر مل بھی جاتی ہے تو کیا حکومت فروغ سیاحت کے لئے وضع کردہ اپنے پروگرام کو عملی جامہ پہنانے کا آغاز کرسکے گی۔ ہم نے چار سال پہلے بھی انہی سطور میں یہ تجویز پیش کی تھی کہ حکومت تعلیم، صحت اور دیگر سرکاری شعبوں میں اصلاحات کا عمل جاری رکھے ۔ لیکن وسائل کے متبادل ذرائع تلاش کرے تاکہ اسے کلی طور پر وفاق پر انحصار کرنے کی ضرورت نہ پڑے۔ کیونکہ یہ افسوس ناک حقیقت ریکارڈ پر ہے کہ وفاق اور خیبر پختونخوا میں الگ الگ پارٹیوں کی حکومت ہو۔ تو ان کی پوری مدت باہمی محاذ آرائی میں گذر جاتی ہے۔ وفاق میں برسراقتدار پارٹی کی حکومت بھی صوبے میں قائم ہو۔ تو سیاسی پارٹیاں اپنے مفادات کے تحت خیبر پختونخوا کو اپنی ترجیحات میں سب سے پیچھے رکھتی ہیں۔خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقوں کے پہاڑ معدنیات سے بھرے پڑے ہیں۔لیکن روڈ انفراسٹرکچر نہ ہونے اور وسائل کی کمی کے باعث پانچ فیصدمعدنی دولت سے بھی اب تک استفادہ نہیں کیا جاسکا۔ اسی طرح سیاحت کو باقاعدہ صنعت کا درجہ نہ دینے کی وجہ سے ہمارا صوبہ غربت سے نجات حاصل نہیں کرسکا۔حکومت نے سیاحت کو ترقی دے کر صوبے کی معیشت کا قبلہ درست کرنے کا اچھا منصوبہ بنایا ہے۔ تاہم مختصر عرصے میں اس جامع منصوبے پر عملدرآمد ممکن نہیں۔ یہ کام آنے والی حکومت پر ہی چھوڑ دینا ہوگا تاکہ عجلت میں وسائل کو ضائع کرنے کے بجائے فروغ سیاحت کے نام پر حاصل ہونے والے قرضے کی پائی پائی اس مردہ صنعت میں جان ڈالنے پر خرچ کی جاسکے۔
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
6956

عوامی منصوبوں کا مستقبل …………..محمد شریف شکیب

Posted on

خیبر پختونخوا حکومت نے ساٹھ سال یا زائد عمر کے شہریوں کو محکمہ سماجی بہبود کے ساتھ اپنی رجسٹریشن کرانے کی ہدایت کی ہے تاکہ وہ سینئر سٹیزن ایکٹ مجریہ 2014کے تحت حاصل مراعات سے مستفید ہوسکیں۔رجسٹریشن کرنے والے بزرگ شہریوں کو صحت کارڈز جاری کئے جائیں گے ۔اسپتالوں میں ان کے لئے الگ کاونٹراور وارڈ قائم کیا جائے گا۔ بیماری کی تشخیص، میڈیکل ٹیسٹوں ، آپریشنز اور ادویات کی خریداری میں بھی ان کے ساتھ خصوصی رعایت کی جائے گی۔ایکٹ کے تحت بزرگ شہریوں کی فلاح و بہبود کے لئے لائحہ عمل مرتب کرنے کے لئے چودہ رکنی کمیٹی قائم کی گئی ہے۔وزیرسماجی بہبود کی سربراہی میں اس کمیٹی میں مختلف محکموں کے انتظامی سیکرٹری، محکمہ سماجی بہبود کے افسران ، بزرگ شہریوں اور غیرسرکاری تنظیموں کے نمائندے شامل ہیں۔بزرگ شہریوں کو قانون کے تحت بہت سی مراعات دی جائیں گی عجائب گھروں، لائبریریوں، پارکوں اور تفریحی مقامات پر ان کا داخلہ مفت ہوگا۔نادار بزرگ شہریوں کے لئے وظائف مقرر کئے جائیں گے۔بزرگ شہریوں کے لئے مختلف شہروں میں کلب قائم کئے جائیں گے جہاں اخبارات و رسائل اور بزرگ شہریوں کی تفریح کا دیگر سامان مہیا کیا جائے گا۔ پیرانہ سالی کی زندگی بہتر طریقے سے گذارنے کے لئے انہیں تربیت دی جائے گی۔انہیں بزرگ شہریوں سے روابط قائم کرنے کے لئے پلیٹ فارم بھی فراہم کیا جائیگا۔ادب و ثقافت سے تعلق رکھنے والے افراد اورمساجد کے آئمہ کرام کے لئے وظائف مقرر کرنے کے علاوہ دینی مدارس کو انفراسٹرکچر بہتر بنانے کے لئے مالی معاونت کی فراہمی اور بزرگ شہریوں کی فلاح و بہبود کے اقدامات حکومت کے مستحسن فیصلے ہیں۔تاہم یہ سارے اچھے اقدامات اس وقت شروع کئے گئے جب حکومت کی آئینی مدت پوری ہونے میں صرف تین ماہ کا عرصہ رہ گیا۔وزراء نے الوداعی ملاقاتیں شروع کردی ہیں اور نگران حکومت کے قیام کے لئے صلاح مشورے جاری ہیں۔ عوامی فلاح و بہبود کے یہ منصوبے دو تین سال پہلے شروع کئے جاتے تو اب تک یہ اداروں کی بنیادیں مستحکم ہوچکی ہوتیں۔تاہم دیر آید ، درست آید کے مصداق عام شہریوں کی فلاح کے لئے شروع کئے گئے اقدامات قابل تقلید ہیں۔ ان اقدامات سے فلاحی معاشرے کے قیام میں مدد ملے گی۔اور قومی وسائل سے معاشرے کے پسماندہ طبقے بھی مستفید ہوسکیں گے جو اب تک حکمرانوں اور افسر شاہی کے لئے ہی مختص تھے۔خدشہ ہے کہ عوامی فلاح کے ان منصوبوں سے جن حلقوں کو ذاتی فوائد نہیں مل رہے۔ وہ انہیں التواء میں ڈالنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ کیونکہ اب تک یہی کچھ ہوتا رہا ہے۔ صوبائی حکومت اگر اپنے عوامی منصوبوں سے سیاسی فائدہ اٹھانا چاہتی ہے تو اسے افسر شاہی پر تکیہ کرنے کے بجائے ان منصوبوں کی نگرانی کا کام خود سنبھالنا ہوگا۔ تاکہ عوام تک بروقت ان کے ثمرات پہنچ سکیں۔اپنی حکومت کے آخری دنوں میں حکومت نے بہت سی ایسی سکیمیں شروع کی ہیں جن کے نتائج عام انتخابات سے قبل دکھائی دینے کے بہت کم ہی امکانات ہیں۔حکومت لامحالہ ان کا کریڈٹ لینے کی کوشش کرے گا۔ لیکن رائے دہندگان صرف ان منصوبوں کو کریڈٹ میں شمار کرتے ہیں جن کی نشانیاں زمین پر نظر آجائیں۔ارباب اختیار اگر چاہتے ہیں کہ سیاسی تبدیلی کے باوجود ان کے فلاحی منصوبے جاری رہیں تو اس کے لئے جامع قانون سازی ناگزیر ہے۔ مشاہدے میں آیا ہے کہ حکومت اپنے سیاسی مفاد کی خاطر کروڑوں کی لاگت کے منصوبے شروع کرتی ہے۔ حکومت بدلنے کی وجہ سے یہ ادھورے منصوبے ترک کئے جاتے ہیں اور قوم کے کروڑوں کے وسائل ضائع ہوجاتے ہیں۔ گذشتہ تیس چالیس سال کے دوران صوبے کے طول و عرض میں ایسے ادھورے منصوبوں کی تعداد سینکڑوں میں نہیں۔ بلکہ ہزاروں میں ہے۔ کہیں سکول کا ڈھانچہ بنا ہے۔ کہیں ڈسپنسری، بی ایچ یو یا آر ایچ سی پر آدھاکام ہوا ہے اور فنڈز کی بندش کے باعث بقیہ کام ادھورا چھوڑ دیا گیا۔ ترقیاتی منصوبے عوام کی فلاح و بہبود کے لئے شروع کئے جاتے ہیں۔ اور ہر حکومت کی بنیادی ذمہ داری عوامی بہبود ہے تو قومی وسائل سے شروع کئے گئے منصوبے سیاسی عناد کی بھینٹ کیوں چڑھ جاتے ہیں۔ ان کا بھی حساب کتاب ہونا چاہئے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
6873

انتخابی سرگرمیوں کی بہار ……………محمد شریف شکیب

Posted on

ملک میں عام انتخابات کا سیزن شروع ہونے کے ساتھ سیاسی سرگرمیوں میں بھی تیزی آگئی ہے۔ مختلف مقامات پر شمولیتی جلسے ہورہے ہیں۔ اور اس قسم کے اکثر جلسوں میں دیگر جماعتوں کو مرغوب کرنے کے لئے اپنے ہی کارکنوں کو ٹوپیاں پہنا کر پارٹی میں شامل کرنے کے اعلانات کئے جاتے ہیں اور پارٹی قیادت کی طرف سے بیانات جاری کئے جاتے ہیں کہ فلاں لیڈر کی شمولیت سے ان کی پارٹی میں نئی جان پڑ گئی ہے اور آئندہ انتخابات میں کامیابی یقینی ہوگئی ہے۔ بعض پارٹیوں کی طرف سے یہ دعوے بھی سامنے آرہے ہیں کہ عوام دیگر تمام جماعتوں سے مایوس ہوکر ان کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔کیونکہ عوامی مینڈیٹ سے اقتدار میں آنے والوں نے اپنے ووٹروں کو مایوسی کے سوا کچھ نہیں دیا۔مزے کی بات یہ ہے کہ حکومت پر لعن طعن کے تیر برسانے والے خود بھی حکومت کا حصہ رہے ہیں۔مخلوط حکومت میں نیکی اور بدی کی ذمہ داری اقتدار میں شریک تمام پارٹیوں پر مساوی طور پر عائد ہوتی ہے۔میرا اشارہ خیبر پختونخوا حکومت میں شامل چاروں اتحادی جماعتوں کی طرف ہے۔جہاں 2013سے اب تک تحریک انصاف کے ساتھ جماعت اسلامی، عوامی جمہوری اتحاد اور قومی وطن پارٹی اقتدار میں شریک رہی ہیں۔ حکومتی اتحاد میں شامل بڑی مذہبی جماعت نے جب اپنا وزن مذہبی پارٹیوں کے اتحاد ایم ایم اے کے پلڑے میں ڈالا ۔ تو عوام کو یہ نوید سنانے لگی ۔ کہ خالص سیاسی پارٹیوں نے عوام کو مایوس کیا تھا۔ تاہم دینی جماعتوں کا اتحاد امید کی نئی کرن بن کر افق پر جگمگانے لگا ہے۔ آئندہ حکومت ان ہی کی ہوگی اور وہ عوام کو مایوسیوں کے گرداب سے نکال کر ترقی کی شاہراہ پر گامزن کریں گے۔ کیونکہ ان کے پاس جو روڈ میپ ہے وہ کسی کے پاس نہیں۔اتحادی جماعت کے بدلتے تیور دیکھ کر تحریک انصاف نے بھی قومی سطح پر ہم خیال جماعتوں اور شخصیات سے رابطے شروع کردیئے ہیں۔ عمران خان نے مسلم لیگ ن کے ناراض رہنما اور سابق وزیرداخلہ چوہدری نثار کو پی ٹی آئی میں شامل ہونے کی دعوت دی ہے ۔لیکن ہمیں چوہدری صاحب کی دال یہاں گلتی نظر نہیں آرہی۔کیونکہ چوہدری صاحب ضرورت سے زیادہ سچ بولتے ہیں اور سیاست میں حد سے زیادہ سچ بولنا خطرناک گردانا جاتا ہے۔خان صاحب پیپلز پارٹی کو اپنا ہم خیال سمجھتے ہیں۔ لیکن پی پی پی اور پی ٹی آئی میں سیاسی اتحاد کی راہ میں زرداری سب سے بڑی رکاوٹ نظر آتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے قائد شریف برادران کو منطقی انجام تک پہنچانے کے بعد زرداریوں سے نمٹنے کا اعلان پہلے ہی کرچکے ہیں۔اس لئے قومی سطح پر دوسری اور تیسری بڑی سیاسی قوت شمار کی جانے والی ان پارٹیوں کی جوڑی بنتی نظر نہیں آرہی۔کہتے ہیں کہ سیاست میں کوئی بات حرف آخر نہیں ہوتی۔ کل کے دوست آج کے حریف بنتے ہیں۔ اور آج کے حلیف کل خم ٹھونک کر مد مقابل آجائیں تو لوگ انگشت بدندان رہ جاتے ہیں اور سیاست دان کہتے ہیں کہ یہی تو جمہوریت کا اصل حسن ہے۔ سیاسی پارٹیوں کی طرف سے انتخابی اتحاد اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے صلاح مشورے بھی ہورہے ہیں۔اور اس سیاسی جوڑ توڑ کو ملک و قوم کی ضرورت اور جمہوری کی بقاء سے تعبیر کیا جاتا ہے۔انتخابی سال کا ایک فائدہ تو یہ ہے کہ انتخابی مہم کے سلسلے میں ان کے منتخب نمائندے طویل روپوشی کے بعد منظر عام پر آجاتے ہیں۔ لوگوں کی غمی خوشی میں شرکت کرتے ہیں ۔ نماز جنازہ میں اگلی صف پر یہی سیاسی لیڈر اب نظر آنے لگے ہیں۔ سال دوسال پرانی فوتگیوں پر بھی فاتحے پڑھے جاتے ہیں۔ اور جہاں موقع ملے تو اپنی جیب سے دو چار ہزار روپے خرچ کرنے سے بھی نہیں ہچکچاتے۔ لیکن لوگ بھی بڑے چالاک ہوگئے ہیں۔وہ سیاست دانوں سے حتی الوسع مالی فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ موصوف کونسا اپنی جیب سے خرچ کر رہا ہے۔ یہ عوام کا مال ہی ہے جسے وہ پانچ سال تک جمع کرتا رہا۔ ہمارے سیاست دان سیدھے سادے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ عوام کے نجات دہندہ ہیں۔حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ عوام کسی سیاسی پارٹی کی طرف آس لگائے بیٹھے ہیں نہ کسی سیاسی ومذہبی اتحاد سے انہیں بھلے کی امید ہے۔ کیونکہ سیاسی اکھاڑے میں موجود ہر جماعت کو حکومت، سیاست اور خدمت کرنے کا موقع ملتا رہا ہے۔ کوئی بھی عوام کے اعتماد پر پورا نہیں اتر سکا۔جو لوگ پیسے لے کر سیاسی جلسوں میں شرکت کرتے ہیں۔ وہ دراصل سیاست دانوں سے انتقام لے رہے ہوتے ہیں۔ اس لئے بڑے جلسوں کو انتخابات میں کامیابی کی ضمانت قرار نہیں دیا جاسکتا۔ہمارے لیڈروں کو اب یقین کرلینا چاہئے کہ ان کے رائے دہندگان اب سیاسی طور پر کافی عاقل بالغ ہوچکے ہیں۔ انہیں شیشے میں اتار کر بوتل میں بند کرنا اب آسان نہیں رہا۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
6337

عام آدمی کی خبرگیری ………..محمد شریف شکیب

Posted on

خیبر پختونخوا حکومت نے جاتے جاتے کچھ کام ایسے شروع کئے ہیں جن سے اکثریتی آبادی سے تعلق رکھنے والے ان لوگوں کو فائدہ ہوگا جسے پاکستان کی سیاسی زبان میں عام آدمی کہا جاتا ہے۔ جس کی آبادی ہمارے ملک کی مجموعی آبادی کا نصف سے زیادہ ہے۔ اور معاشیات کی زبان میں اگر ان کا تعارف کرایا جائے تو انہیں غربت کی لکیر سے نیچے کی سطح پر زندگی گذارنے والے لوگ کہا جاسکتا ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں جب بھی بجٹ پیش کرتی ہیں تو یہ دعویٰ ضرور کرتی ہیں کہ حکومت نے آمدنی بڑھانے کے لئے جو ٹیکس لگائے ہیں اس سے ’’ عام آدمی‘‘ متاثر نہیں ہوگا اور ترقیاتی بجٹ کی بدولت عام آدمی کا معیار زندگی بہتر ہوگا۔ لیکن ہر بجٹ کا فائدہ ہمیشہ بڑے جاگیر داروں، سرمایہ داروں، صنعت کاروں ، تاجروں، برآمدکنندگان ، بینکاروں ، بڑے ٹرانسپورٹروں اور موٹی موٹی تنخواہیں لینے والے لوگوں کو ہی پہنچا ہے۔ بدقسمت عام آدمی 1947میں بھی عام تھا۔آج 2018میں بھی اس کا مقام، حیثیت اور معیار زندگی تبدیل نہیں ہوا۔ہر بجٹ میں محنت کشوں کے لئے کم سے کم اجرت کا تعین کیا جاتا ہے لیکن اس قانون پر کس حد تک عمل درآمد ہوتا ہے اس کا جائزہ لینے اور فیصلوں پر عمل درآمد کرانے کی کسی حکومت کو توفیق نہیں ہوئی۔ خیبر پختونخوا حکومت نے بھی وفاق کی تقلید کرتے ہوئے مزدور کی کم سے کم اجرت پندرہ ہزار روپے ماہوار مقرر کی تھی۔ لیکن کارخانے داروں، بھٹہ خشت مالکان، جاگیر داروں اور سرمایہ داروں سے اس قانون پر عمل درآمد کرانے کی ضرورت ماضی میں کبھی محسوس نہیں کی گئی۔ اس بار صوبائی حکومت نے اپنے قول کو سچ ثابت کرنے کی ٹھان لی ہے۔محکمہ محنت نے کم سے کم اجرت کے قانون پر عمل درآمد کے لئے چار ہزار کے قریب یونٹوں کا معائنہ کیا۔ جن میں فیکٹریاں، بھٹے، بیکریاں ، سٹورز ، تندور، نجی میڈیکل سینٹرز، سیکورٹی ایجنسیاں، موبائل کمپنیاں وغیرہ شامل ہیں۔ اور چھ سو سے زیادہ یونٹوں کے خلاف قانون کی خلاف ورزی پر مقدمات درج کئے گئے۔تاہم کچھ ادارے اب بھی حکومت کی توجہ حاصل نہیں کرسکے۔ یا کسی مصلحت کے تحت ان پر ہاتھ نہیں ڈالا جارہا۔ ایسے ہی اداروں میں میڈیا ہاوسز اورپرائیویٹ سکولز بھی شامل ہیں۔ جن میں کام کرنے والے محنت کشوں کو کم سے کم اجرت بھی نہیں ملتی۔ وہ برسوں سے کنٹریکٹ پر کام کرتے ہیں۔ سرکاری سکولوں کے میٹرک یا ایف سے پاس پرائمری ٹیچرز کو کم سے کم تیس ہزار روپے تنخواہ دی جاتی ہے اس کے باوجود وہ آئے روز احتجاج اور ہڑتالیں کرتے ہیں جبکہ پرائیویٹ سکولوں کی ڈبل ایم اے ، ایم ایس سی پاس اساتذہ کو آٹھ سے دس ہزار روپے اجرت دی جاتی ہے اور انہیں احتجاج کرنے کا حق بھی حاصل نہیں۔تاہم محکمہ صنعت نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ مالی سال کے اختتام سے پہلے پورے صوبے میں کم سے کم اجرت کے قانون پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے گا۔صوبائی حکومت نے جامع مساجد کے آئمہ کرام کے لئے ماہانہ دس ہزار روپے وظیفے کی منظوری دی ہے جس سے دین کی خدمت کرنے والے ہزاروں افراد مستفید ہوں گے۔ اس پروگرام پر سالانہ تین ارب روپے سے زیادہ خرچ ہوں گے۔ جس میں سے ایک روپیہ بھی کمیشن میں نہیں جائے گا۔ براہ راست عوام مستفید ہوں گے۔ صوبائی حکومت نے ادیبوں، شاعروں، ہنرمندوں، لوگ فن کاروں اور قلم کاروں کے لئے بھی ماہانہ وظائف کا اجراء کیا ہے۔ صوبہ بھر میں پانچ سو افراد کو ماہانہ تیس ہزار روپے کے حساب سے اعزازیہ دیا جائے گا۔ یہ بھی قومی وسائل میں عام لوگوں کو حصہ دینےکی مستحسن کوشش ہے ۔ پشاور بس ٹرانزٹ کوبھی عوامی فلاح و بہبود کا میگا پراجیکٹ کہا جاسکتاہے جس سے بسوں، ویگنوں اور سوزوکیوں میں سفر کرنے والے غریب اور متوسط طبقے کے لوگوں کو فائدہ ہوگا۔ اور انہیں پبلک ٹرانسپورٹ کی کھٹارہ گاڑیوں میں غیر انسانی سلوک سے نجات مل جائے گی اور بہترین سفری سہولیات میسر آئیں گی۔ منصوبے پر 56ارب روپے کی لاگت کا تحمینہ ہے۔تین ارب روپے سے شاہراہوں کے ساتھ بنائے گئے فلاور بیڈز ، پھول، پودے، گھاس اور سجاوٹی سامان بی آر ٹی کی وجہ سے بیکار ہوگئے اور باب پشاور کے نام سے فیز تھری چوک میں جو فلائی اوورپانچ چھ ارب روپے کی لاگت سے بنایا گیا تھا وہ بھی بی آر ٹی فنکشنل ہونے کے بعد بیکار ہوگا اس طرح منصوبے پراصل لاگت 65ارب روپے بھی تجاوز کرجائے گی۔ تاہم یہ بات قابل اطمینان ہے۔ کہ یہ منصوبہ عام آدمی کی فلاح و بہبود کے لئے شروع کیا گیا ہے۔ہمارے حکمران عوام کو گروی رکھ کر اربوں ڈالر کا قرضہ مختلف ممالک اور مالیاتی اداروں سے بھاری کمیشن کے عوض لے چکے ہیں۔ اور یہ قرضہ عوام بھاری شرح سود کے ساتھ ناقابل برداشت ٹیکسوں کی صورت میں ادا کر رہے ہیں۔ اس کے باوجود پاکستان کا ہر شہری مقروض ہے۔ اور ستم ظریفی یہ ہے کہ ان قرضوں سے عام آدمی کو سہولت پہنچانے کا کوئی منصوبہ نہیں بنایاگیا۔اب حکومت قرضہ لے کر عوام پر خرچ کر رہی ہے تو اس کی ستائش تو بنتی ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
4600

قومی ترقی کی منصوبہ بندی ………. محمد شریف شکیب

Posted on

مشہور مفکر تھامس مالتھس کہتے ہیں کہ اگر روئے زمین پر انسانی آبادی کابوجھ بڑھ جائے اور زمین کے وسائل اس آبادی کے لئے کم پڑنے لگیں تو آبادی کی شرح افزائش میں کمی کے لئے منصوبہ بندی ناگزیر ہوتی ہے۔ اگر انسان خود اپنی تعداد محدود رکھنے کا نہیں سوچیں گے تو قدرت کی طرف سے آفات کے ذریعے زمین پر انسانوں کا بوجھ کم کرنے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ زلزلے آتے ہیں جس میں سینکڑوں ہزاروں لوگ مارے جاتے ہیں۔ سیلاب اور سمندری طوفان آتے ہیں جس میں بڑی تعداد میں ہلاکتیں ہوتی ہیں یا پھر قوموں کے درمیان جنگیں چھڑ جاتی ہیں جس سے بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہوجاتی ہیں اور زمین پر بوجھ کم ہوتا ہے۔ضروری نہیں کہ ہم تھامس مالتھس کے اس نظریے کو پتھر کی لکیر سمجھ کر اسے درست تسلیم کریں۔ لیکن یہ نظریہ عقلی دلائل کی بنیاد پر قائم کیا گیا ہے۔ اس لئے اس نظریئے سے سرمنہ انحراف بھی نہیں کیا جاسکتا۔قیام پاکستان اور آج کے دور میں ملکی آبادی کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی سمیت ز ندگی کے کسی دوسرے شعبے میں ہم نے اگر غیرمعمولی ترقی نہ بھی کی ہو۔ لیکن آبادی بڑھانے میں ہم نے سب کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ 1947میں مشرقی اور مغربی پاکستان کی مجموعی آبادی سات کروڑ تھی۔ جس میں موجودہ پاکستان کا حصہ ساڑھے تین کروڑ تھا۔ 1971میں ہماری آبادی چھ کروڑ اور مشرقی پاکستان کی سات کروڑ ہوگئی تھی۔ آج پاکستان کی آبادی سات گنا اضافے کے ساتھ 22کروڑ تک جاپہنچی ہے۔ جبکہ دو سے چار اور چار سے آٹھ کی شرح سے بڑھتی ہوئی آبادی کے مقابلے میں ہمارے وسائل میں بہت معمولی اضافہ ہوا ہے۔ ترقیافتہ قومیں باقاعدگی منصوبہ بندی کے تحت آگے بڑھتی ہیں۔ وہاں ہر آٹھ سے دس سال بعد مردم شماری ہوتی ہے۔ جس سے انہیں انسانی وسائل کا اندازہ ہوتا ہے اسی اندازے کو بنیاد بناکر پانچ سالہ ، دس سالہ اور بیس سالہ ترقیاتی منصوبے بنائے جاتے ہیں۔ قومی ترقی کے لئے جو بھی لائحہ عمل تیار کیاجائے۔ اس میں کوئی سیاسی مداخلت نہیں ہوتی۔ ہر حکومت اسی لائحہ عمل کی پیروی کو اپنی ترجیحات میں سرفہرست رکھتی ہے۔اگر ترقیاتی پروگرام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے قرضے بھی لئے جاتے ہیں۔ تو اس کی پائی پائی ترقی پر خرچ ہوتی ہے اور اس قرضے کو واپس کرنے کا شیڈول بنایا جاتا ہے۔جاپان، چین، تائیوان، جنوبی کوریا اور دیگر ممالک کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ یہ ممالک انیس سو ساٹھ کے عشرے میں پاکستان سے بھی امداد لیتے تھے۔ تاہم جامع منصوبہ بندی اور اس پر مخلصانہ عمل درآمد کی بدولت آج وہ ترقیافتہ ممالک کی صف میں کھڑے ہیں۔ جبکہ ہم ترقی معکوس کی جانب رواں دواں ہیں۔ جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم نے قومو ں کے ساتھ قدم ملاکر چلنے کی منصوبہ بندی ہی نہیں کی۔ سکول، اسپتال، سڑکیں، پل اور دیگر منصوبے عوامی ضرورت کے بجائے سیاسی فائدے کو سامنے رکھ کر بنائے جاتے ہیں۔ عوام کو روزگار کی فراہمی میں بھی سیاسی مفادات کو مقدم رکھا جاتا ہے۔ ہر سیاسی حکومت نے قومی اداروں میں اپنے سیاسی مفاد کے لئے تھوک کے حساب سے بھرتیاں کیں۔ پہلے اپنے عزیزوں، رشتہ داروں اور جاننے والوں کو کھپایا۔ پھر ان لوگوں کو بھرتی کیاجن سے سیاسی مفادات وابستہ ہوسکتے تھے۔ آج پاکستان ریلوے، پی آئی اے، سٹیل مل اور دیگر کئی منافع بخش ادارے ملازمین کی فوج ظفر موج کی وجہ سے خسارے میں جارہے ہیں اور قومی خزانے پر ناقابل برداشت بوجھ بن چکے ہیں۔انیس سال کے طویل وقفے کے بعد 2017میں ملک میں مردم شماری ہوئی ہے۔ جس سے یہ اعدادوشمار تو واضح ہوگئے ہیں کہ پاکستان میں کتنے شہریوں کو ایک ڈاکٹر، نرس، استاد، انجینئرکی خدمات میسر ہیں۔ اور بین الاقوامی معیار کیا ہے۔ بائیس کروڑ کی آبادی کو کتنے اسپتالوں، سکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں، فنی تربیت کے اداروں کی ضرورت ہے۔ کتنی آبادی کو بجلی، گیس، صاف پانی، تعلیم اور صحت کی مناسب سہولیات دستیاب ہیں۔قانون ساز اداروں میں آبادی کے تناسب سے کتنے منتخب ارکان ہونے چاہئیں۔ اگرچہ حالیہ مردم شماری کے نتائج پر بھی لوگوں کو تحفظات ہیں۔ تاہم کچھ ٹھوس معلومات اور اعدادوشمار اس مردم شماری کے طفیل حاصل ہوئے ہیں۔ اگر پاکستان کو ترقی کی راہ پر آگے لے جانا ہے تو مردم شماری کے نتائج کی بنیاد پر قومی منصوبہ بندی کرنی ہوگی۔قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد بڑھانی ہوگی ۔ شہری اور دیہی علاقوں میں حلقہ بندیاں آبادی کے ساتھ رقبے ، جغرافیائی پوزیشن اور عوامی ضرورت کے مطابق ہونی چاہیں۔زمینی حقائق کو ماضی کی طرح نظر انداز کرکے سیاسی فائدے کو پیش نظر رکھ کر منصوبہ بندی کی گئی تو ہم آگے بڑھنے کے بجائے مزید پسماندگی کا شکار ہوجائیں گے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
4562

شعبہ صحت میں مزید اصلاحات کی ضرورت ………. محمد شریف شکیب

Posted on

محکمہ صحت خیبر پختونخوا کی طرف سے فراہم کردہ فہرست پر چیف سیکرٹری نے صوبے بھر کے سرکاری اسپتالوں میں تعینات ایک ہزار ایک سو دس ڈاکٹروں کوسالانہ کارکردگی رپورٹ جمع نہ کرانے پر اظہار وجوہ کے نوٹس جاری کئے ہیں۔اور انہیں تنبیہ کی ہے کہ فوری طور پر اے سی آر جمع نہیں کرائے گئے تو انہیں نوکریوں سے برطرف کیا جاسکتا ہے۔ محکمہ صحت کے مطابق ان میں سے بہت سے ڈاکٹر ڈیوٹیوں سے غیر حاضر ہیں۔ بہت سے ڈاکٹر ایسے ہیں جنہوں نے شہری علاقوں میں کلینک کھول رکھے ہیں اور خوب کمارہے ہیں۔ انہوں نے سرکاری ملازمت کو محض ضمانت کے طور پر رکھا ہوا ہے۔ وہ ترقی نہیں لینا چاہتے تاکہ انہیں اپنا اسٹیشن چھوڑ کر دور دراز علاقوں میں نہ جانا پڑے۔ ڈاکٹروں کی تنظیم نے محکمہ صحت کی طرف سے فراہم کئے گئے اعدادوشمار کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہیلتھ ڈائریکٹوریٹ میں افسروں اور ملازمین کی فوج ظفر موج کے باوجود ڈاکٹروں کی فائلیں طاق نیسان میں پڑی ہوئی ہیں۔ جن ڈاکٹروں کے نام اے سی آر جمع نہ کرانے والوں میں شامل کیا گیا ہے ان میں سے سینکڑوں ڈاکٹرز ترقی کرچکے ہیں۔ کئی ڈاکٹر چھٹی لے کر یا ملازمت چھوڑ کر بیرون ملک چلے گئے ہیں اور کئی ڈاکٹر وفات پاچکے ہیں۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ گذشتہ آٹھ دس سالوں سے ڈاکٹروں کی فہرست کی تجدید ہی نہیں ہوئی۔محکمہ صحت نے بھی اپنی غلطی تسلیم کرلی ہے۔ اور اسے کلریکل غلطی قرار دے کر ڈاکٹروں کو اے سی آر جمع کرانے کے لئے مزیدایک مہینے کی مہلت دیدی ہے۔صحت ڈائریکٹوریٹ کی طرف سے پرانی اور غلط فہرستوں کی فراہمی کاجرم ڈاکٹروں کی طرف سے اے سی آر جمع نہ کرانے سے زیادہ بڑا اور سنگین ہے۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ محکمہ صحت میں اصلاحات کے اثرات صرف اسپتالوں، ڈاکٹروں، نرسوں اور پیرامیڈیکس تک محدود ہیں محکمہ صحت کے دیگر اداروں تک ان اصلاحات کے اثرات اب تک نہیں پہنچے۔صوبائی وزیرصحت شہرام ترکئی اور چیف سیکرٹری اعظم خان شعبہ صحت میں اصلاحات کے اثرات کی جانچ پڑتال کریں تو اب بھی بہت سے گھپلوں، بے قاعدگیوں اور بدعنوانیوں کا کھوج لگایا جاسکتا ہے۔اصلاحات کا عمل گذشتہ تین سالوں سے جاری ہے تاہم اب بھی صوبے کے دور دراز علاقوں میں قائم بنیادی صحت مراکز، دیہی صحت مراکز اور ڈسپنسریوں میں ہوکاعالم ہے۔ کوئی ڈاکٹر، نرس، ڈسپنسر ، ابتدائی طبی امداد کی سہولیات وہاں دستیاب نہیں۔ ان صحت مراکز کا اردلی یا چوکیدار ہی ڈاکٹر، نرس اور ڈسپنسر کی ڈیوٹی دے رہا ہوتا ہے۔ حکومت ان طبی مراکز کے لئے کروڑوں روپے کی ادویات خریدتی ہے مگر یہ ادویات دور دراز علاقوں کے صحت مراکز تک پہنچنے سے پہلے راستے میں ہی غائب ہوجاتی ہیں بازاروں میں سرکاری ادویات اسانی سے دستیاب ہیں۔ اس صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عطائیوں نے علاج کا کاروبار شروع کر رکھا ہے۔ لوگوں کی مجبوری ہے کہ غربت، تنگ دستی اور راستے کی تکالیف کے باعث بڑے اسپتالوں تک نہیں پہنچ پاتے اور انہی عطائیوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔حکومت نے عوام کو ان کے گھر کے قریب علاج معالجے کی سہولیات فراہم کرنے کے لئے ہزاروں کی تعداد میں ڈاکٹروں، نرسوں ، ڈسپنسروں اور پیرامیڈیکس کی تقرریاں کی ہیں اور ان کی تنخواہوں میں دو سو سے پانچ سو فیصد تک اضافہ بھی کیا ہے۔ اس کے باوجود جو لوگ اپنے پیشے کے تقدس کا خیال نہیں رکھتے۔ ان کی خبر لینا ضروری ہے تاکہ اصلاحات کے ثمرات صوبے کے دور افتادہ علاقوں کے غریب عوام تک پہنچ سکیں۔صحت مراکز میں طبی عملے کی حاضری یقینی بنانے کے لئے بائیو میٹرک سسٹم کی تنصیب ناگزیر ہے تاکہ ہیلتھ ڈائریکٹوریٹ یا محکمہ صحت کے ڈویژنل اور ضلعی دفاتر سے ملی بھگت کے ذریعے جو لوگ ڈیوٹی دیئے بغیر تنخواہیں لے رہے ہیں۔ اور خود اپنے کلینکوں، پرائیویٹ اسپتالوں میں بیٹھ کر موج اڑا رہے ہیں ان کا محاسبہ کیا جاسکے۔ وزیرصحت اور چیف سیکرٹری کو اسپتالوں کے لئے خریدی جانے والی ادویات کی بازاروں میں فروخت اور کمیشن کی خاطر طبی مراکز کے لئے غیر معیاری اور ناقص ادویات کی خریداری کے گھناونے کاروبار کا بھی نوٹس لینا چاہئے۔ تاکہ سرکاری اسپتالوں میں قیمتی انسانی جانوں کی بے توقیری کا تدارک کیا جاسکے۔ اور طب جیسے مقدس پیشے پر عوام کا اعتماد بحال کیا جاسکے۔ جو چند مفاد پرستوں کی وجہ سے متاثر ہوا ہے۔محکمہ صحت نے جن سرکاری طبی اداروں کو بہترین سہولیات کی فراہمی کی خاطر نجی اداروں کے حوالے کیا ہے ان سے بھی ماہوار بنیادوں پر کارکردگی رپورٹ طلب کرنے کے ساتھ ان کا آڈٹ کرنا ضروری ہے تاکہ عوام کو ان کے گھروں کے قریب علاج معالجے کی بہتر سہولیات کی فراہمی کے مقاصد پورے کئے جاسکیں۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
4525

سیاست کا غیر جمہوری انداز……….. محمد شریف شکیب

Posted on

پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف نے اعتراف کیا ہے کہ ملکی قیادت نے علامہ اقبال اور قائد اعظم کے پاکستان کے لئے جذباتی تقریروں کے سوا کچھ نہیں کیا۔ آج بھی غریب آدمی بنیادی شہری حقوق سے محروم ہے۔ آج بھی تھانوں میں عام لوگوں کی شنوائی نہیں ہوتی۔ ان کے ساتھ انصاف نہیں کیا جاتا۔ لاہور میں کڈنی ٹرانسپلانٹ سینٹر کی افتتاحی تقریب سے خطاب میں شہباز شریف نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ ظلم، ناانصافی، کرپشن اوروعدہ خلافیوں کا یہ سلسلہ جاری رہا۔ تو ملک میں خونی انقلاب آسکتا ہے۔شہباز شریف کی یہ حق گوئی پارٹی میں ان کے لئے مسئلہ کھڑا کرسکتا ہے۔ ان کی سرزنش ہوسکتی ہے۔ کیونکہ گذشتہ تین عشروں سے ان کا خاندان وفاق اور ملک کے سب سے بڑے صوبے میں برسراقتدار رہا ہے۔ اس کے باوجود اگر وہ عوام کو انصاف مہیا نہیں کرسکے۔ بنیادی شہری سہولیات نہیں دے سکے۔ کرپشن کو نہیں روک سکے۔ تو یہ مسند نشین وزیراعلیٰ کا اعتراف جرم ہے۔ لیکن اس بیان کو سیاسی تناظر میں دیکھنے کے بجائے حقائق کی بنیاد پر پرکھنا چاہئے۔ اور ٹھنڈے دل سے غور کرنا چاہئے کہ آزادی کے 70سال گذرنے کے باوجود اسلامی جمہوریہ پاکستان کے شہری انصاف، مساویانہ سلوک اور بنیادی حقوق کے لئے کیوں ترس رہے ہیں۔ سب لوگ نظام کی خرابی کا رونا رو رہے ہیں۔اس فرسودہ نظام کو درست کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی جارہی۔ملکی وسائل سے چند خاندانوں کی پرورش کیوں ہورہی ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح کا کہنا تھا کہ ہم ایک آزاد ملک اس لئے حاصل کرنا چاہتے ہیں کہ وہاں اپنے دین کی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر کر سکیں۔ لیکن اسلام کے نام پر قائم ہونے والے ملک میں اسلامی نظام اب تک نافذ نہیں کیا جاسکا۔ ہم نے مغربی جمہوریت کو ہی اسلام کے سانچے میں ڈھال کر اختیار کرنے کی کوشش کی ۔پہلے صدارتی اور وحدانی نظام قائم کیا۔ اسے اپنے مزاج سے ناموافق قرار دے کر پارلیمانی اور وفاقی نظام کو اپنایا مگر نصف صدی اس نظام کے تحت گذارنے کے باوجود ترقی و استحکام کی منزل سے کوسوں دور ہیں۔ برطانیہ سمیت دنیا کے درجنوں ملکوں میں پارلیمانی جمہوریت کا نظام کامیابی سے چل رہا ہے۔ہمارے ہاں اس نظام کو بار بار بریک لگتے ہیں جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم نے نظام تو جمہوری اپنایا ہے لیکن ہمارا طرز عمل غیر جمہوری ہے۔ ایک آدھ پارٹی کے سوا تمام سیاسی پارٹیاں شخصیات کے گرد گھومتی ہیں۔ چند خاندان اس ملک میں سیاہ وسفید کے مالک بن بیٹھے ہیں۔ان سیاسی جماعتوں میں خفیہ بیلٹ کے زریعے قیادت کے انتخاب کا کوئی تصور نہیں۔جب جمہوری نظام کی بنیادیں ہی کھوکھلی ہوں تو ان ناقص بنیادوں پر عالی شان عمارت کیسے تعمیر ہوسکتی ہے۔ قومی دھارے میں شامل سیاسی پارٹیوں پر طائرانہ نظر دوڑائیں تو بات واضح ہوجاتی ہے۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن، ایم کیو ایم، عوامی نیشنل پارٹی، قومی وطن پارٹی، مسلم لیگ ق، جمعیت علمائے اسلام ف اور س، جے یو پی اور پی ٹی آئی سمیت تمام پارٹیاں مخصوص شخصیات کی مرہون منت ہیں۔ ان میں سے کوئی پارٹی اقتدار میں آتی ہے تو کابینہ سمیت تمام اہم عہدوں پر ایک ہی خاندان کا قبضہ ہوتا ہے۔ جبکہ دیگر جمہوری ملکوں برطانیہ، امریکہ، جرمنی، فرانس، ہالینڈ، سوئزرلینڈ وغیرہ میں موروثی سیاست کا تصور بھی نہیں۔ جارج بش، بل کلنٹن، بارک اوبامہ، رونالڈ ریگن، مارگریٹ تھیچر، گورڈن براون اور فرانسوان متران اقتدار کی مدت ختم ہونے کے بعد کہاں گئے۔ کسی کو پتہ ہی نہیں۔ کیونکہ جمہوریت کے یہ علمبردار سیاست کو پیشہ نہیں سمجھتے۔ بلکہ خدمت کا ذریعہ بناتے ہیں۔ اپنی باری کی خدمت انجام دینے کے بعد منظر سے ہٹ جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں جو اٹھارہ بیس سال کی عمر میں حادثاتی طور پرسیاست میں آئے ۔تو آخری سانسوں تک اسے اپنا پیشہ بناکر رکھتا ہے۔ بدقسمتی سے مفاد پرست سیاسی ٹولے کی وجہ سے آج ہمارے ہاں سیاست گالی بن چکی ہے۔ٹٹ پونجے قسم کے لوگ سیاست کے ذریعے کروڑ پتی ارب پتی بن چکے ہیں۔اسے باقاعدہ صنعت اور کاروبار کا درجہ دیا جاچکا ہے۔ جب تک اس موروثی، جاگیردارانہ، سرمایہ دارانہ طرز جمہوریت کو حقیقی جمہوریت میں تبدیل نہیں کیا جاتا۔ عوام کے مسائل حل ہوں گے نہ ہی انہیں انصاف ملے گا۔ کرپشن اور اقرباپروری کا خاتمہ ہوگا نہ ہی میرٹ، آئین اور قانون کی بالادستی کا خواب شرمندہ تعبیر ہوگا۔ اور اس کا لازمی نتیجہ شہباز شریف کے بقول خونی انقلاب کی صورت میں سامنے آسکتا ہے۔ کیونکہ لوگ کب تک ظلم برداشت کریں گے ۔کبھی نہ کبھی تو انہیں ظلم و زیادتی کے خلاف اٹھنا ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
3689

وزیرخارجہ کا معصومانہ مشورہ …….. محمد شریف شکیب

Posted on

ہمارے وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف نے سماجی رابطوں کی ویپ سائٹ ٹوئیٹر پر امریکہ کو مشورہ دیا ہے کہ وہ پاکستان کو دھمکانے کے بجائے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہمارے تجربے سے استفادہ کرنے کی کوشش کرے تاکہ اس لامتناہی جنگ کو منطقی انجام تک پہنچایا جاسکے۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے بھی امریکی نائب صدر کے بیان پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہماری امن پسندی اور شرافت کو کمزوری سے تعبیر نہ کیا جائے۔ انہوں نے امریکی حکومت کو یہ باور بھی کرانے کی کوشش کی کہ پاکستان کا جوہری پروگرام محفوظ اور ملک کا دفاع مضبوط ہاتھوں میں ہے۔ اس دوران امریکہ میں تعینات پاکستان کے سفیراعزاز چوہدری نے واشنگٹن میں پاکستانی سفارتخانے میں شہدائے اے پی ایس کی یاد میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان نے دہشت گردوں کے خلاف تیرہ فوجی آپریشن کئے ہیں۔ اب تک اس جنگ میں چھ ہزار آٹھ سو سیکورٹی اہلکاروں سمیت اکیس ہزار شہری لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ دہشت گردی کے خلاف ہماری نہیں تھی بلکہ ہم پر مسلط کی گئی۔ دوسروں کی جنگ میں اتنی قربانیاں دینے کے باوجود ان کا اعتراف نہ ہونا افسوس ناک ہے۔ دوسری جانب کابل کے دورے پر آئے ہوئے امریکی نائب وزیرخارجہ نے پاکستان کو خبردار کیا ہے کہ اگر دہشت گردوں کو پناہ دینے کا سلسلہ بند نہ ہوا۔ تو پاکستان کو بہت کچھ کھونا پڑے گا۔حیرت کی بات ہے کہ امریکی جب بھی افغانستان کے دورے پر آتے ہیں تو بھارت کی زبان بولنے لگتے ہیں۔ حالانکہ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ پاکستان پانامہ، یمن، لبنان، چیک رپبلک یا تبت جیساکوئی چھوٹا موٹا ملک نہیں۔ بلکہ بیس کروڑ کی آبادی اور جوہری طاقت رکھنے والا مضبوط اسلامی ملک ہے۔ پاکستان نے ہی سوویت یونین کو افغان سرزمین پر شکست دینے میں بنیادی کردار ادا کیا تھا۔ اور اس امریکی جنگ کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے چالیس لاکھ افغانیوں کو 38سالوں سے پال رکھا ہے۔جس کی مثال دنیا کا کوئی ملک نہیں دے سکتا۔ نائن الیون کے پراسرار واقعے کی آڑ میں جب امریکہ نے افغانستان میں طالبان حکومت پر یلغار کی ۔توامریکی صدر جارج بش نے یہ اعلان کیا کہ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں جو امریکہ کا اتحادی نہیں بنے گا۔اسے دہشت گردوں کا ساتھی تصور کیا جائے گا۔ امریکہ کے شر سے بچنے کے لئے جب تمام بڑے ممالک نے اتحاد میں شامل ہونے کا اعلان کیا تو پاکستان کو بھی بہ امر مجبوری حامی بھرنی پڑی۔ گذشتہ سولہ سالوں سے جاری اس لامتناہی جنگ میں پاکستان نے فرنٹ لائن اسٹیٹ کا کردار ادا کیا۔ اور سب سے زیادہ جانی و مالی نقصان اٹھایا۔اس کے باوجود جارج بش اور بارک اوبامہ سے لے کر ڈونلڈ ٹرمپ تک سب ہی پاکستان سے ڈومور کا تقاضا کرتے رہے۔لیکن اب بات تقاضے سے بڑھ کر دھمکیوں تک پہنچ گئی ہے۔ جس کا ٹھوس اور ترکی بہ ترکی جواب دینے کا وقت آگیا ہے۔ امریکہ کی معاندانہ اور ناقابل قبول پالیسی کے پیش نظر اب پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ سے اپنے پاوں نکالنے ہوں گے۔امریکہ کی دوغلی پالیسی کی وجہ سے نہ صرف برادر ہمسایہ ملک افغانستان ہمارے خلاف ہوگیا ہے بلکہ امریکہ نے دانستہ طور پر بھارت کو افغانستان میں مرکزی کردار دے رکھا ہے ۔مختلف افغان صوبوں میں قائم بھارتی قونصل خانے پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے تربیتی مراکز بن چکے ہیں۔ اگر امریکہ کو اپنے دفاع کے لئے سات سمندر پار آکر اٖفغانستان میں فوجی کاروائی کا اختیار حاصل ہے تو ایک ایٹمی قوت رکھنے والے ملک پاکستان کو بھی اپنے دفاع میں کسی بھی ملک میں دہشت گردوں کے ٹھکانے تباہ کرنے کا حق حاصل ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہمارے تجربے سے سیکھنے کا امریکہ کو مشورہ دینا بچگانہ حرکت ہے۔ بدقسمتی سے ہماری قیادت اپنے سیاسی مفادات اور اقتدار کی خاطر امریکہ کو خوش رکھنے پر مجبور ہے۔ لیکن پاکستان کے بیس کروڑ عوام کو امریکی خوشنودی کی ضرورت نہیں۔ ہم امریکی امداد کے بغیر بھی زندہ رہ سکتے ہیں۔ امریکی امداد سے پاکستانی عوام کو نہیں ۔صرف مفاد پرست ٹولے کو فائدہ ہے۔ اور قومی سلامتی کی قیمت پر قوم اس ٹولے کی غیر ملکی امداد پر مزید عیاشیاں برداشت کرنے کی متحمل نہیں ہوسکتی۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
3618

عالمی تنہائی کا حکومتی اعتراف………. محمد شریف شکیب

Posted on

قومی سلامتی سے متعلق وزیراعظم کے مشیر ناصر جنجوعہ نے اعتراف کیا ہے کہ عالمی برادری دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کو قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھتی۔امریکہ نے کشمیر پر بھارت سے گٹھ جوڑ کر رکھا ہے۔ اور پاکستان کے جوہری پروگرام کو خطرہ قرار دے کر اسے ختم کرنے کے لئے دباو ڈالا جارہا ہے۔ مشیرقومی سلامتی کا یہ بھی کہنا تھا کہ امریکہ افغانستان میں طالبان کے ہاتھوں اپنی شکست کا بدلہ پاکستان سے لینا چاہتا ہے۔ دوسری جانب امریکہ کی شہ پر بھارت مسلسل پاکستان کو روایتی جنگ کی دھمکیاں دے رہا ہے جس سے جنوبی ایشیاء میں جوہری تصادم کا خطرہ ہے۔ قومی سلامتی کے مشیر کا یہ بیان حکومتی پالیسی کی ناکامی کا اعتراف ہے ۔ اس وقت پاکستان نہ صرف اندرونی طور پر بدامنی، دہشت گردی، مہنگائی، بے روزگاری ، غربت کی شرح میں اضافے ، بجٹ خسارے اور افراط زر جیسے مسائل سے دوچار ہے بلکہ اس کے روایتی حلیف ممالک بھی حریفوں کی صف میں جارہے ہیں۔ پڑوسی اسلامی ملک افغانستان کے ساتھ ہمارے تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں جبکہ دوسری جانب سب سے پہلے پاکستان کو تسلیم کرنے والا پڑوسی اسلامی ملک ایران بھی بھارت کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھا رہا ہے۔ اور چاربہا بندرگارہ سے بھارت کو تجارت کی سہولیات مہیا کرنا اس کا تازہ ترین ثبوت ہے۔ مشرق وسطیٰ کے اسلامی ممالک بھی امریکی اثرورسوخ کی وجہ سے پاکستان کے ساتھ سردمہری کا برتاو کر رہے ہیں۔ خلیجی ممالک نے ہمارے ہزاروں محنت کشوں کو مالی بحران کا بہانہ بناکر واپس کردیا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی جنگ میں غیر مشروط طور پر شامل ہونے کے باوجود واشنگٹن بھی ہمیں گھاس نہیں ڈال رہا۔ اور امریکی صدر ، ایوان نمائندگان، سینٹ اور وزیر خارجہ تک سب ہی پاکستان سے ڈومور کا تقاضا کر رہے ہیں ۔ انہوں نے حقانی نیٹ ورک ختم نہ کرنے اور طالبان کی حمایت جاری رکھنے کی صورت میں پاکستان کی مالی امداد بند کرنے کی بھی دھمکی دی ہے۔صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے حالیہ بیان میں صاف کہہ دیا ہے کہ امریکہ ہر سال پاکستان کو بھاری امداد دیتا ہے جس کے بدلے میں ہمیں پاکستان سے کیا ملا ہے؟یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ امریکی جنگ میں حلیف اور مددگار بننے کے جرم میں پاکستان کو جانی اور مالی لحاظ سے ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ ہمارے پچاس ہزار سے زیادہ افسران، جوان، خواتین اور بچے اس بے نتیجہ جنگ کی نذر ہوگئے۔ اربوں ڈالر کا مالی نقصان برداشت کرنا پڑا۔ اس جنگ میں امریکہ سمیت کسی اتحادی نے پاکستان جتنی قربانی نہیں دی۔ لیکن بدقسمتی سے ہم عالمی برادری کو باور نہیں کراسکے۔ ساڑھے چار سال تک جس ملک کا وزیرخارجہ ہی نہ ہوا۔ اس کو قوموں کی برادری میں تنہائی کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے۔ہم نے عارضی مالی فائدے کو ہی اپنا قومی مفاد قرار دیا ہے۔ یہ درست ہے کہ جس ریاست کی مالی پوزیشن کمزور ہو۔ اعلیٰ تربیت یافتہ فوج اور بہترین ہتھیار بھی اس کی بقاء اور سلامتی کی ضمانت نہیں بن سکتے۔ سابق سوویت یونین کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت نے امریکہ اور عالمی مالیاتی اداروں کی طرف سے بچھائے گئے قرضوں کے جال سے نکلنے اور خود انحصاری کی منزل تک پہنچنے کے لئے گذشتہ ایک عشرے میں کیا کیا ہے؟زرخیز زمین اور وافر مقدار میں آبی ذخائر ہونے کے باوجود ہم اشیائے خوردونوش یہاں تک کہ آلو، ٹماٹر اور پیاز تک بھارت سے درآمد کرتے ہیں۔اور جب وہ سپلائی روک دیتے ہیں تو ہمارے قیمتیں آسمان تک پہنچ جاتی ہیں۔زرعی، صنعتی، تعلیمی اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی اور استحکام کے لئے کونسے بڑے منصوبے شروع کئے گئے؟سیاست دان اپنے کمیشن کے لئے بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے قرضے ہی لیتے رہے ۔خود تو بیرون ملک بینک بیلنس، اثاثے اور آف شور کمپنیاں بنائیں۔لیکن غریب قوم کا بال بال بیرونی قرضوں میں جکڑا ہوا ہے۔ موجودہ حکومت چار سالوں میں ملکی تاریخ میں سب سے زیادہ قرضے لئے ہیں۔ایک مقروض قوم کی آواز کوئی نہیں سنتا۔ اپنے ملازمین کو تنخواہیں دینے کے لئے جب باہر سے قرضے لینے پڑیں تو ہم سراٹھاکر کسی سے بات کیسے کرسکتے ہیں ؟اور ہماری بات کا کون اعتبار کرے گا؟اور قوم جب تک سیاسی مداریوں کے نرغے میں رہے گی اور اپنے ضمیر کے فیصلے پر ووٹ کا حق استعمال نہیں کرے گی۔اصلاح احوال کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
3362