انسان اور انسانی حقوق………ڈاکٹر ساجد خاکوانی
(10دسمبر:اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پرخصوصی تحریر)
ڈاکٹر ساجد خاکوانی
[email protected]
انسان کا جوہر اصلی انسانیت ہے،انسانیت اگر موجود ہے تو وہ انسان اصل میں انسان ہی ہے لیکن اگر کسی میں انسانیت ہی سرے سے موجود نہیںیااس کاگلاگھونٹ رکھاہے تو اس نے گویاانسان کا محض لبادہ اوڑھ رکھاہے اندر سے وہ کیاہے؟؟یہ اس کی فطرت ہی بتاسکتی ہے۔یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے سورج میں تپش ،حدت اور شعاع باقی نہ رہے تو اپنے جوہر اصلی سے محروم ہو جائے گااور اسے کوئی سورج ماننے پر تیار نہیں ہوگااورجنگلی جانوروں کے اندر سے حیوانیت نکال دی جائے تو وہ حیوان کہلانے کے حق دار نہیں رہیں گے۔شیر ایک خونخوار درندہ ہے لیکن اسکے پنجوں اور دانتوں سے اسے محروم کر دیا جائے تو اسدیت اسکے ہاں سے رخصت ہو جائے گی اور وہ ان تمام خصوصیات سے محروم ہو جائے گا جو اسے شیر بنانے پر قدرت رکھتی تھیں اگرچہ اسکی شکل و شباہت اور ہیئت و جسامت شیر جیسی ہی ہو گی۔اطباء حضرات جڑی بوٹیوں سے عرق نکال لیتے ہیں ،اس عمل سے پہلے وہ بوٹیاں بہت قیمتی تصور کی جاتی ہیں،ان کے دام وصول کیے جاتے ہیں اور انہیں پوری حزم و احتیاط سے ایک جگہ سے ووسری جگہ منتقل کیاجاتاہے اور پورے مراحل سے گزار کر ان کا جوہر اصلی ان سے کشید کر لیاجاتاہے لیکن جب وہ بہت قیمتی بوٹیاں اپنے اثاثہ اصلی سے محروم کر دی جاتی ہیں تو تھوڑی ہی دیر بعدکوڑے کاڈھیرانکامقدر بن جاتاہے اوروہ فاضل مادہ تصور کیاجاتاہے ۔
انسانیت و حیوانیت دو متضادالفاظ کے طورپر کثرت سے استعمال ہوتے ہیں ۔حیوان اپنے آپ کو دوسرے پر فوقیت دیتاہے ،اپنا پیٹ بھرنے کے لیے دوسرے کو شکارکرتاہے اورحلال و حرام کی تمیز کے بغیراپناآتش دوزخ بھرتاہے اوراپنی ہوس نفس مٹانے کے لیے دوسرے کواستعمال کرتاہے۔جانور کو ضبط نفس کا ملکہ میسر نہیں ہوتااسی لیے اس کے اندر برداشت کا مادہ بھی نہیں ہوتااور نہ ہی وہ اپنی فطرت کے خلاف حالات سے سمجھوتاکر پاتا ہے۔گھرمیں پالاہوا پالتوجانورہویاجنگل میں بڑھاپلاہوا جنگلی جانورصدیوں سے ان کے ہاں کوئی ارتقاء نہیں،وہ ہزاروں سال پہلے جس طرح رہتے تھے آج بھی اسی بودوباش اورخوردونوشت کے مالک ہیں ۔ جانوروں کی ایک اور صفت یہ ہے کہ ان میں شرم و حیا اس طرح نہیں ہوتی جس طرح انسانوں کے اعلی اخلاق میں پائی جاتی ہے،قدرت نے ان کے ننگ ڈھانکنے کا انتظام خود سے کر دیاہے اور باہمی تعلقات میں چونکہ رشتہ داری کے حرم و احترامیات سے جنگل کاقانون خالی ہے اس لیے جانوروں کے تعلقات سے یہ صنف بھی عنقاہے۔جانور وں کا طبقہ طہارت کے بھی اس جامع تصور سے خالی ہے جوانسانی معاشروں کا جزولاینفک سمجھاجاتاہے۔بعض مفکرین کا خیال ہے پیدائشی طورپر انسان حیوانیت کے جذبے سے ہی بھراہوتاہے بعد میں تعلیم،ماحول اور عقل و خرد اسے انسانیت کی طرف لے آتے ہیں۔
انبیاء علیھم السلام نے انسانیت کو سب سے پہلے توحیدکادرس دیاجس کے بغیرانسانیت تو کیاخود حضرت انسان کاوجودہی نامکمل ہے ،انبیاء علیھم السلام نے نکاح کاعمل اس قبیلہ بنی آدم میں شروع کیاحقیقت یہ ہے کہ نکاح کے عمل سے خاندان کا ادارہ وجود میںآیاجودراصل انسانیت کابنیادی تاسیسی ادارہ ہے۔اس خاندان کے ادارے سے بچے کو اپنی تہذیبی شناخت میسرآتی ہے ،یہی ادارہ انسان کوانسانیت کی معرفت عطاکرتاہے ،اسی ادارے کے سبب انسان کے دل و دماغ میں اسکی رشتہ داریوں سے متعلق پیارومحبت پروان چڑھتاہے ،یہی ادارہ انسان کے بچپن کاامین ،اسکے حسن شباب کاضامن اوراسکے بڑھاپے کا محافظ ہوتاہے اور اس سے بڑھ کر اورکیابات ہوسکتی ہے انسانی نسل کاتسلسل اسی خاندانی ادارے کے استحکام سے ہی وابستہ ہے ۔انبیاء علیھم السلام انسانیت کے موجد ہی نہیں بلکہ انسانیت کے محسن بھی ہیں کہ انہوں نے خاندان جیسی ٹھنڈی چھاؤں انسانوں کو عطاکی جہاں سے انسانیت کی فکر اس کرہ ارض کی مخلوقات کو میسر آئی۔اس کے متضاد کے طور پر عمل زناہے جس سے خاندان کا نظام بری طرح تباہ و برباد ہو کر رہ جاتاہے ۔لمحہ فکریہ ہے کہ ایک جوڑااس نیت سے ملتاہے کہ اس نے کل زندگی اکٹھے گزارنی ہے،ایک نسل اور پھرخاندان کی پرورش کرنی ہے،ایک دوسرے کے دکھ دردمیں سانجھی ہوناہے اور موت کے بعد بھی باہم وارث بنناہے اور اس کے نتیجے میں ایک بچہ پیداہوتاہے جسے ’’حلالی‘‘کہاجاتاہے جبکہ ایک جوڑامحض چند لمحوں کے لیے ملتاہے ہوس نفس ،جنسیت،خودغرضی اورحیوانی تسکین کی خاطر ایک دوسرے کو وہ جھنجھوڑتے ہیں،بھنبھوڑتے ہیں اورآتش نفس مٹانے کے لیے ایک دوسرے کا جنسی استحصال کرتے ہیں اوراسکے نتیجے میں بھی ایک بچہ پیداہوتاہے کیا یہ دونوں بچے اپنی فطرت،اپنی نفسیات اور اپنی فکروعمل کی پہنچ میں برابرہوسکتے ہیں؟؟لازمی طور پر ایک بچہ جونکاح کا نتیجہ ہوگااور ایک خاندان میں پرورش پائے گاوہ انسانیت کا مرقع ومنبہ ہوگا اور دوسراسکے بالکل برعکس انسانیت سے عاری اور حیوانیت سے بھراہوگا۔