Chitral Times

انسان اور انسانی حقوق………ڈاکٹر ساجد خاکوانی

Posted on
Human Rights Day
(10دسمبر:اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پرخصوصی تحریر)
ڈاکٹر ساجد خاکوانی
[email protected]
انسان کا جوہر اصلی انسانیت ہے،انسانیت اگر موجود ہے تو وہ انسان اصل میں انسان ہی ہے لیکن اگر کسی میں انسانیت ہی سرے سے موجود نہیںیااس کاگلاگھونٹ رکھاہے تو اس نے گویاانسان کا محض لبادہ اوڑھ رکھاہے اندر سے وہ کیاہے؟؟یہ اس کی فطرت ہی بتاسکتی ہے۔یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے سورج میں تپش ،حدت اور شعاع باقی نہ رہے تو اپنے جوہر اصلی سے محروم ہو جائے گااور اسے کوئی سورج ماننے پر تیار نہیں ہوگااورجنگلی جانوروں کے اندر سے حیوانیت نکال دی جائے تو وہ حیوان کہلانے کے حق دار نہیں رہیں گے۔شیر ایک خونخوار درندہ ہے لیکن اسکے پنجوں اور دانتوں سے اسے محروم کر دیا جائے تو اسدیت اسکے ہاں سے رخصت ہو جائے گی اور وہ ان تمام خصوصیات سے محروم ہو جائے گا جو اسے شیر بنانے پر قدرت رکھتی تھیں اگرچہ اسکی شکل و شباہت اور ہیئت و جسامت شیر جیسی ہی ہو گی۔اطباء حضرات جڑی بوٹیوں سے عرق نکال لیتے ہیں ،اس عمل سے پہلے وہ بوٹیاں بہت قیمتی تصور کی جاتی ہیں،ان کے دام وصول کیے جاتے ہیں اور انہیں پوری حزم و احتیاط سے ایک جگہ سے ووسری جگہ منتقل کیاجاتاہے اور پورے مراحل سے گزار کر ان کا جوہر اصلی ان سے کشید کر لیاجاتاہے لیکن جب وہ بہت قیمتی بوٹیاں اپنے اثاثہ اصلی سے محروم کر دی جاتی ہیں تو تھوڑی ہی دیر بعدکوڑے کاڈھیرانکامقدر بن جاتاہے اوروہ فاضل مادہ تصور کیاجاتاہے ۔
انسانیت کیا ہے؟؟اس کے متعددجواب دیے جاچکے ہیں اورسب جواب ہی قابل اعتماد ہیں لیکن ان سب کا خلاصہ یہ ہے کہ دوسرے انسان کو اپنی مانندسمجھنااور اس سے بھی ایسا سلوک کرنا جیساسلوک اپنے ساتھ کیے جانے کی انسان توقع رکھتاہے محض چند مستسنیات کے ساتھ اس جذبے کو انسانیت کہاجاسکتاہے۔محسن انسانیت ﷺ نے بہت خوبصورت الفاظ میں انسانیت کے اس خاصے کوچنیدہ الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ جو اپنے لیے پسند کرتے ہو وہی اپنے بھائی کے لیے بھی پسند کرو۔دوسروں کے دکھ درد میں شریک ہونا،ان کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھنا،ان کی خوشی کو اپنی خوشی تصور کرنا،اپنی حاجات کی تکمیل سے پہلے دوسروں کی خبر گیری کرنا،دوسروں کی تقدیس و تحریم کواپنے سے کم تر نہ سمجھنا،اچھے اخلاق کا مرقع ہونااوربرے اخلاق سے اپنی طرح دوسروں کو بھی محفوظ رکھناوغیرہ یہ سب انسانیت کے اعلی درجات ہیں۔انسان بننے کے لیے صرف انسانوں کے ہاں پیداہوجانا ہی کافی نہیں ہے بلکہ اس کے اندر انسانیت کا جوہر ہونا بھی ضروری ہے ۔ماہرین لغات کہتے ہیں کہ لفظ’’انسان‘‘کااصل مادہ یا مصدر’’انس‘‘ہے جس کا مطلب محبت ،پیار،الفت اور چاہت سے مستعارہے ۔پس جس کے اندر ’’انس‘‘ہوگاوہ انسان کہلانے کا حق دار بھی ہوگااور جس کااندرون ’’انس‘‘سے خالی ہوگا اسے کوئی حق نہیں کہ وہ اپنے آپ کو انسان کہلوائے۔
انسانیت و حیوانیت دو متضادالفاظ کے طورپر کثرت سے استعمال ہوتے ہیں ۔حیوان اپنے آپ کو دوسرے پر فوقیت دیتاہے ،اپنا پیٹ بھرنے کے لیے دوسرے کو شکارکرتاہے اورحلال و حرام کی تمیز کے بغیراپناآتش دوزخ بھرتاہے اوراپنی ہوس نفس مٹانے کے لیے دوسرے کواستعمال کرتاہے۔جانور کو ضبط نفس کا ملکہ میسر نہیں ہوتااسی لیے اس کے اندر برداشت کا مادہ بھی نہیں ہوتااور نہ ہی وہ اپنی فطرت کے خلاف حالات سے سمجھوتاکر پاتا ہے۔گھرمیں پالاہوا پالتوجانورہویاجنگل میں بڑھاپلاہوا جنگلی جانورصدیوں سے ان کے ہاں کوئی ارتقاء نہیں،وہ ہزاروں سال پہلے جس طرح رہتے تھے آج بھی اسی بودوباش اورخوردونوشت کے مالک ہیں ۔ جانوروں کی ایک اور صفت یہ ہے کہ ان میں شرم و حیا اس طرح نہیں ہوتی جس طرح انسانوں کے اعلی اخلاق میں پائی جاتی ہے،قدرت نے ان کے ننگ ڈھانکنے کا انتظام خود سے کر دیاہے اور باہمی تعلقات میں چونکہ رشتہ داری کے حرم و احترامیات سے جنگل کاقانون خالی ہے اس لیے جانوروں کے تعلقات سے یہ صنف بھی عنقاہے۔جانور وں کا طبقہ طہارت کے بھی اس جامع تصور سے خالی ہے جوانسانی معاشروں کا جزولاینفک سمجھاجاتاہے۔بعض مفکرین کا خیال ہے پیدائشی طورپر انسان حیوانیت کے جذبے سے ہی بھراہوتاہے بعد میں تعلیم،ماحول اور عقل و خرد اسے انسانیت کی طرف لے آتے ہیں۔
قبیلہ بنی آدم میں انسانیت کاآغاز کرنے والے اور اولین معلمین انسانیت وہ منتخب لوگ تھے جنہیں اﷲ تعالی نے اس دنیامیں مبعوث فرمایااور انہیں انبیاء علیھم السلام کے نام سے موسوم فرمایا،اگر انبیاء علیھم السلام انسانوں کے درمیان وارد نہ ہوتے تو جنگل کا خونخوار درندہ شیر ، چیتااور بھیڑیا نہ ہوتے بلکہ حضرت انسان ہی اس روح فرسا کام کو انجام دے رہا ہوتابلکہ کچھ بعید نہیں کہ ان درندوں نے اپنی نسل کو تو باقی رکھا جبکہ انسانوں کے ہاتھوں تو ان کی اپنی نسل ہی اس صفحہ ہستی سے مٹ چکی ہوتی۔آج بھی چکاچوند روشنیوں کے اس عہد میں وہ قومیں جو علم و حکمت اور تہذیب و تمدن میں اپنا ثانی نہیں رکھتیں اور جن کی راتیں ان کے دنوں سے زیادہ روشن ہیں لیکن انبیاء علیھم السلام کی تعلیمات سے دوری کے باعث انہوں نے افغانستان،عراق،بوسنیا،چیچنیااورکشمیر سمیت پوری دنیامیں اور انسانی تاریخ میں ظلم و بربریت کی وہ داستانیں رقم کی ہیں کہ جنگل کے درندے بھی ان پر شرم سے پانی پانی ہو جائیں۔علمی دنیاکی ایک خوبصورت ریت ہے کہ کسی عمل کے آغاکرنے والے سے اس عمل کی تدریس کا آغاز کیاجاتاہے،جیسے بوہر نے سب سے پہلے ’’ایٹم‘‘کاتصور دیااور کہاکہ مادے کا سب سے چھوٹا ذرہ ایٹم ہے اب اگرچہ اسکایہ نظریہ غلط ثابت ہوچکاہے اور ایٹم کے متعددمزید چھوٹے ذرات دریافت ہو چکے ہیں لیکن پھر بھی ایٹم کا سبق بوہر کے ذکرکے بغیر ہمیشہ نامکمل رہے گا۔تب کتنے دکھ کی بات ہے کہ آج انسانیت کاتصور دینے والے ان اولین مدرسین انسانیت کو فراموش کر دیتے ہیں اور ان کا نام ہی نہیں لیتے۔کیایہ ایک علمی و عملی بددیانتی نہیں ہے کہ دوسرے کے تصورات کو اپنے نام سے پیش کر دیا جائے ؟؟۔
انبیاء علیھم السلام نے انسانیت کو سب سے پہلے توحیدکادرس دیاجس کے بغیرانسانیت تو کیاخود حضرت انسان کاوجودہی نامکمل ہے ،انبیاء علیھم السلام نے نکاح کاعمل اس قبیلہ بنی آدم میں شروع کیاحقیقت یہ ہے کہ نکاح کے عمل سے خاندان کا ادارہ وجود میںآیاجودراصل انسانیت کابنیادی تاسیسی ادارہ ہے۔اس خاندان کے ادارے سے بچے کو اپنی تہذیبی شناخت میسرآتی ہے ،یہی ادارہ انسان کوانسانیت کی معرفت عطاکرتاہے ،اسی ادارے کے سبب انسان کے دل و دماغ میں اسکی رشتہ داریوں سے متعلق پیارومحبت پروان چڑھتاہے ،یہی ادارہ انسان کے بچپن کاامین ،اسکے حسن شباب کاضامن اوراسکے بڑھاپے کا محافظ ہوتاہے اور اس سے بڑھ کر اورکیابات ہوسکتی ہے انسانی نسل کاتسلسل اسی خاندانی ادارے کے استحکام سے ہی وابستہ ہے ۔انبیاء علیھم السلام انسانیت کے موجد ہی نہیں بلکہ انسانیت کے محسن بھی ہیں کہ انہوں نے خاندان جیسی ٹھنڈی چھاؤں انسانوں کو عطاکی جہاں سے انسانیت کی فکر اس کرہ ارض کی مخلوقات کو میسر آئی۔اس کے متضاد کے طور پر عمل زناہے جس سے خاندان کا نظام بری طرح تباہ و برباد ہو کر رہ جاتاہے ۔لمحہ فکریہ ہے کہ ایک جوڑااس نیت سے ملتاہے کہ اس نے کل زندگی اکٹھے گزارنی ہے،ایک نسل اور پھرخاندان کی پرورش کرنی ہے،ایک دوسرے کے دکھ دردمیں سانجھی ہوناہے اور موت کے بعد بھی باہم وارث بنناہے اور اس کے نتیجے میں ایک بچہ پیداہوتاہے جسے ’’حلالی‘‘کہاجاتاہے جبکہ ایک جوڑامحض چند لمحوں کے لیے ملتاہے ہوس نفس ،جنسیت،خودغرضی اورحیوانی تسکین کی خاطر ایک دوسرے کو وہ جھنجھوڑتے ہیں،بھنبھوڑتے ہیں اورآتش نفس مٹانے کے لیے ایک دوسرے کا جنسی استحصال کرتے ہیں اوراسکے نتیجے میں بھی ایک بچہ پیداہوتاہے کیا یہ دونوں بچے اپنی فطرت،اپنی نفسیات اور اپنی فکروعمل کی پہنچ میں برابرہوسکتے ہیں؟؟لازمی طور پر ایک بچہ جونکاح کا نتیجہ ہوگااور ایک خاندان میں پرورش پائے گاوہ انسانیت کا مرقع ومنبہ ہوگا اور دوسراسکے بالکل برعکس انسانیت سے عاری اور حیوانیت سے بھراہوگا۔
سیکولر مغربی تہذیب نے ’’آزادیوں‘‘کے نام پر جس ثقافت کو پروان چڑھایاہے ان آزادیوں نے انسانوں سے انکاخاندان چھین سالیاہے،پوری دنیا کثرت زناکے نتیجے میں انسانیت کے مقدس جذبے سے محروم ہوتی چلا جارہی ہے۔آج انسانیت کا راگ الاپنے والے انسانیت سے عاری ہوچکے ہیں،نسلی،علاقائی،لسانی اور مذہبی تعصب نے دوسرے انسانوں کو انسان ہی تصور کرنے سے انکار کر چھوڑاہے،ہوس دولت اور سودی نظام نے انسانوں کے اندر سے ہمدردی،پیارمحبت اورانسان شناسی کے عمل کو گہنادیاہے،مضبوط حکومتوں اور بڑی قوموں کی وسعت پسندی کی خاطر دریاؤں میں پانی کی بجائے انسانی خون بہہ رہاہے اور عالمی امن کے ادرے بھی انہیں کے ہاتھوں کھلونا بن چکے ہیں اورگویاایک آگ ہے جس میں مشرق سے مغرب تک کی انسانیت جھلستی چلی جارہی ہے۔کم و بیش اسی طرح کے حالات ہواکرتے تھے جب اﷲ تعالی انسانوں کے درمیان انبیاء علیھم السلام کومبعوث فرماتاتھاآج بھی آخری نبی ﷺکی تعلیمات ہی انسانوں کوانسانیت سے آشناکرسکتی ہیں اور جینوااکارڈکی ناکامی آج سرچڑھ کر بول رہی ہے اور انسانیت کا سبق آج بھی محض خطبہ حجۃ الوداع میں ہی پوشیدہ ہے جو اس دنیامیں نافذہوگاتب ہی انسانیت عود کر آئے گی انشاء اﷲ تعالی۔
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , , ,
3004

تھائی لینڈ…………ڈاکٹر ساجد خاکوانی

Posted on

تھائی لینڈ
(Thailand)
(5دسمبر:قومی دن کے موقع پر خصوصی تحریر)
ڈاکٹر ساجد خاکوانی
[email protected]

تھائی لینڈ جنوب مشرقی ایشیا کا ملک ہے،اسکے مغرب اور شمال مغرب میں برما کی ریاست ہے،شمال مشرق اور مشرق میں ’’لائس‘‘اور کمبوڈیاکے ممالک ہیں اورجنوب میں سمندری خلیج ہے جسے ’’خلیج تھائی لینڈ‘کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔خلیج تھائی لینڈ کے ساتھ ہی جنوبی چین کے سمندر اور پھرجزیرہ نما ملائشیا بھی واقع ہیں۔تھائی لینڈ کا کل رقبہ دولاکھ مربع میل سے کچھ کم ہے اور یہ سارا ملک اپنی خلیج کے گرد ایک مدار کی صورت میں واقع ہے۔جغرافیائی طورپرتھائی لینڈ دوہزار میل طویل ساحلی پٹی کا مالک ملک ہے جس کے ایک طرف بحیرہ اندمان ہے اور دوسری طرف خلیج تھائی لینڈ کے ساحل ہیں۔’’بنکاک‘‘اس ملک کا دارالحکومت ہے ،نہروں کے جال نے جہاں اس شہر کاقدرتی حسن دوبالا کیاہے وہاں تیرتے ہوئے بازاروں نے یہاں کی کاروباری زندگی میں بھی اہم کرداراداکیے ہیں۔

 

تھائی لینڈ کا علاقہ اس لحاظ سے تاریخی اہمیت کا حامل ہے کہ یہاں کے لوگوں نے پہلی دفعہ کانسی کے اوزاروہتھیار استعمال کیے ۔اس سے پہلے انسانوں کے ہاں پتھرکے ہتھیار استعمال ہوتے تھے،پتھرسے کانسی اور پھر کانسی کے بعد ہتھیاروں نے لوہے کالبادہ اوڑھا۔تھائی لینڈ کی تہذیب میں بہت پہلے سے پالتوجانوروں کا رواج رہاہے ،یہاں کے لوگوں نے قبل از تاریخ مچھلیاں پکڑنے اور درختوں کی چھال اور ریشہ دار درختوں سے کپڑا بننے اور چاول کی فصل اگانے کا انتظام کیا۔تھائی لینڈ کے ابتدائی باسیوں نے یہاں ابتدائی طرز کی ریاستیں بھی بنائیں اور دوردورکے فاصلے پر انسانی نفوس کی بستیاں آباد کیں ،خاص طور پر چھٹی سے نویں صدی عیسوی کے دوران میں یہاں کے تہذیب و تمدن نے بہت ترقی کی۔تھائی لینڈ ایشیاکاواحد ملک ہے جس نے غیرملکی غلامی کبھی قبول نہیں کی اور یہاں پر فاتحین تو داخل ہوئے لیکن ’’آقا‘‘کبھی داخل نہ ہو سکے۔1782سے 1932تک یہاں طویل ترین بادشاہت کا دور رہا،تب کے بعد سے سول و فوجی حکمران یہاں کی کرسی اقتدار پر براجمان رہے۔اس دوران ایک مختصر وقت تک اس ملک کا نام ’’سیام‘‘بھی رہا لیکن اسے قبول عام نہ ہونے باعث پھر سے اسے تھائی لینڈ ہی کہا جانے لگا۔تھائی لینڈاپنی تاریخ کے ابتدائی ایام سے آج دن تک کوئی بہت بڑی آبادی کا علاقہ نہیں رہا،ایک سیاح نے ہندوستانی بادشاہ کو تھائی لینڈ کے علاقے کے بارے میں بتایاکہ وہ انسانوں کی بجائے جنگلات اور مچھروں کا بادشاہ ہے۔

 

تھائی لینڈ میں آبادی کا بتیس فیصد شہروں میں مقیم ہے اور ان میں سے بھی دس فیصد صرف بنکاک شہر کی رونق ہے جس کے باعث ملک یہ سب سے بڑا شہر شہری آبادیوں کے گوناں گوں مسائل میں گھراہے۔دوسری جنگ عظیم کے بعد سے بہترمعاشی مواقع کاحصول دیہاتی آبادی کے بہت بڑے حصے کو شہروں کی طرف کھینچ لایاتھااوربہت سے لوگ تو مستقل طور پر یاعارضی طور ملک چھوڑ کر سمندرپارکی دوسری دنیاؤں میں آباد ہو گئے تھے۔تھائی لینڈ کی چالیس فیصد آبادی ’’تھائی‘‘زبان بولتی ہے اور یہی یہاں کی سرکاری زبان بھی ہے۔یہ زبان تھائی حروف ابجد میں لکھی جاتی ہے اور اس زبان کے ادب کا معلوم تاریخ میں تیرہویں صدی مسیحی سے باقائدہ آغاز ہوتا ہے لیکن اس کے ڈانڈے اس سے قدیم تر ہیں۔تھائی لینڈ میں پڑھے لکھے لوگوں میں انگریزی کا رواج بھی ہے لیکن بہت کم ،انگریزی سے زیادہ چینی زبان یہاں پر مروج ہے جبکہ انگریزی،چینی اور جاپانی زبانیں عام طور پر کاروباری طبقوں میں خط و کتابت کے ذریعے کے طور پر بکثرت استعمال کی جاتی ہیں۔
تھائی لینڈکے لوگوں کی اکثریت بدھ مذہب کی پیروکارہے ،بدھ مت کے اثرات جو سری لنکاکے راستے یہاں تک پہنچے ،تھائی لینڈ کی اکثریت نے انہیں کوقبول کیا ہے ،قیاس ہے کہ بدھ مت کے اس مکتب فکرکو تیرہویں صدی مسیحی میں یہاں قبول عام حاصل ہوا۔اس مکتب فکرکے فلسفوں میں مقامی تمام مذاہب کی نمائندگی شامل ہے یہاں تک کہ ہندومت اور عیسائیت کے کچھ تصورات بھی اس کا حصہ ہیں۔ جبکہ ایک قلیل تعداددیگرمقامی مذاہب

 

کے ماننے والوں کی بھی ہے جن مین سب سے بڑی اقلیت چینی آبادی اور انکے مذہب کے ماننے والوں کی ہے۔چین سے آئے ہوئے لوگ یہاں کم و بیش چودہ فیصد کی شرح سے آباد ہیں اور انکی تہذیب کے خاطر خواہ اثرات یہاں پر پائے جاتے ہیں۔مسلمانوں کی شرح سات فیصد کے لگ بھگ ہے اور وہ مملکت کے جنوبی صوبوں میں اکثریت سمیت ملک بھر میں تقریباََ ہر جگہ آباد ہیں۔تھائی لینڈ کی چھیانوے فیصد آبادی خواندہ ہے ،حکومت کی طرف سے عوام الناس کے بچوں کے لیے اگرچہ مفت تعلیم کا انتظام ہے لیکن پھر بھی نجی تعلیمی ادارے بھی بکثرت موجود ہیں اوربعض بین الاقوامی اداروں نے بھی یہاں پر اپنے تعلیمی منصوبے شروع کررکھے ہیں۔

 

تھائی لینڈ کی معیشیت میں زراعت کی حیثیت ریڑھ کی ہڈی کی سی ہے۔1980کے بعد سے صنعتی ترقی نے زراعت کو بھی اپنے ہم رکاب لے کر ملکی پیداوارکو چارچاند لگادیے۔تاہم ایک امرقابل ذکر ہے کہ زراعت کی ترقی کی نسبت صنعتی ترقی نے قومی پیداوارکے اضافے میں برترکرداراداکیاہے۔سب سے اہم اورنقدآور فصل تو چاول ہی ہے لیکن اس کے علاوہ گنا،مکئی،ربر،سویابین،کھوپرااور دیگر مختلف انواع کے پھل بھی یہاں کی پیداواری فصلیں ہیں۔صنعتی ترقی سے پہلے چاول کی فصل یہاں سے دوسرے ملکوں کو فروخت کی جاتی تھی اور یہ ملکی زرمبادلہ کے حصول کا سب سے بڑا ذریعہ تھا۔اب بھی اگرچہ چاول بہت بڑی مقدار میں برآمد کیاجاتاہے لیکن بہت سی دیگر زرعی مصنوعات بھی بیرونی آمدنی کا ذریعہ بن چکی ہیں۔یہاں کے جنگلوں میں بہت سے قیمتی جانور بھی ملتے ہیں،ہاتھی ایک زمانے سے یہاں کی سرزمین پر باربرداری کے لیے استعمال ہوتا ہے اورجنگلوں میں بھی پایاجاتاہے،گینڈا،چیتا،جنگلی بیل،دریائی گھوڑااور لمبے لمبے ہاتھوں والے بندر بھی یہاں کے جنگلات کی خوبصورت آبادیاں ہیں۔پچاس سے زائد نسلوں کے سانپ اور گہرے پانیوں میں مگرمچھ بھی ملتے ہیں۔

 

تھائی لینڈ کا بادشاہ یہاں کا آئینی حکمران ہے اور افواج کا نگران اعلی بھی۔اس کے باوجود بادشاہ اپنے اختیارار کم ہی استعمال کرتا ہے اوراسکی حیثیت مشاورتی یا اخلاقی دباؤ کی سی ہوتی ہے۔وزیراعظم یہاں کا جمہوری حکمران ہے،انتخابات جیتنے والی سیاسی جماعت ایوان نمائندگان میں سے اپنے کسی رکن کو اس منصب کے لیے نامزد کرتی ہے اور بادشاہ اس کا تقرری کی دستاویزجاری کر کے اس جمہوری فیصلے کی گویا توثیق کر دیتاہے۔وزیراعظم کے اختیارات میں وزراکی کابینہ کی صدارت کرنا شامل ہے جس کی تعداد پنتیس سے زائد نہیں ہوتی۔2007ء کے دستور کے مطابق وزیراعظم چارچارسالوں کی زیادہ سے زیادہ دو مدتوں تک ہی منتخب ہو سکتاہے۔قانون سازی کے لیے جمہوری پارلیمانی ملکوں کی طرح دو ایوان ہیں ،ایوان نمائندگان اور ایوان بالا۔ایوان بالاکے منتخب ارکان چھ سال کی مدت پوری کرتے ہیں جبکہ نامزدارکان صرف تین سالوں کے لیے ہی اپنے فرائض سرانجام دے پاتے ہیں۔ملک کے سب صوبوں کاایک ایک نمائندہ بھی سینٹ میں بیٹھتا ہے جبکہ کچھ بڑے صوبوں کے دو دو نمائبدے بھی سینٹ میں نشست حاصل کرتے ہیں۔

 

ایک اندازے کے مطابق تھائی لینڈ میں آبادی کاکم و بیش8% مسلمان ہیں اوردن بدن ان میں اضافہ دیکھنے میں آرہاہے،مسلمانوں کی زیادہ اکثریت جنوبی تین صوبوں میں پائی جاتی ہے۔یہاں کے مسلمانوں کی اکثریت ’’ملائی ‘‘نسل سے تعلق رکھتی ہے اور یہی زبان ہی بولتی ہے۔اس کی وجہ ملائشیاکاپڑوس ہونے کے ساتھ ساتھ ملائیشیاکے حکمران خاندانوں کااس علاقے پر اقتداربھی ہے۔تھائی لینڈ میں مسلمانوں کی ایک مخصوص تعداد چینی مسلمانوں کی بھی اضافت ہے خاص طورپرجوعلاقے چین سے قریب ہیں وہاں یہ اثرات بہت زیادہ ہیں۔تھائی لینڈ میں اس وقت تقریباََ ساڑھے تین ہزار مساجد ہیں۔’’نیشنل کونسل فارمسلمز‘‘کے پانچ نامزدارکان حکومت کی وزارت تعلیم اور وزارت داخلہ کومسلمانوں کے جملہ معاملات سے آگاہ رکھتے ہیں۔بادشاہ وقت اس کونسل کے سربراہ کابذات خود تقررکرتاہے ۔اسی طرح اس کونسل کی صوبائی شاخیں صوبائی حکومتوں میں مسلمانوں کی نمائندگی کرتی ہیں،حکومت وقت مسلمانوں کے تعلیمی اداروں ،بڑی مساجد کی تعمیراور حج پرجانے والوں کے اخراجات میں بھی تعاون کرتی ہے۔وہاں کی حکومت نے مسلمان بچوں کے لیے سینکڑوں تعلیمی ادارے ،دکانیں اورایک بنک بھی بنارکھاہے۔تھائی لینڈکے مسلمانوں کو اپنی حکومت سے کچھ شکایات بھی رہتی ہیں،مذکورہ تینوں صوبوں کے مسلمانوں میں ایک عرصے سے احساس محرومی پنپ رہاہے جواب کسی حد تک علیحدگی پسندی کی صورت میں ایک تحریک کی شکل میں بھی ابھررہاہے۔سرکاری فوج نے کچھ عرصہ پہلے کچھ مسلمانوں کاقتل عام بھی کیاتھاجس کے نتیجے میں عالمی سامراج اب اس کوشش میں ہے کہ یہاں بھی ابھرنے والی اسلامی بیداری کی تحریک کونام نہاد’’دہشت گردی‘‘قرار دیاجائے۔’’جماعۃ الالامیہ‘‘یہاں کے مسلمانوں کاایک مشترکہ اور اتفاقی پلیٹ فارم ہے جومسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرتاہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , , ,
2763

سقوط اسرائیل کے بعد مشرق وسطی کانقشہ ………..ڈاکٹر ساجد خاکوانی

Posted on

(29نومبر، فلسطینیوں کے ساتھ عالمی یوم یکجہتی کے موقع پرخصوصی تحریر)

[email protected]
ایک مستند امریکی جریدے (Foreign Policy Journal)کے مطابق امریکہ کے سولہ خفیہ اداروں نے بیاسی صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ حکومت کو پیش کی ہے جس کاعنوان’’بعدازاسرائیل ، مشرق وسطی کی تیاری(147Preparing for a Post Israel Middle East.148 )‘‘ہے۔ان خفیہ اداروں میں بدنام زمانہ CIA،DEA،NSAاورFBIبھی شامل ہیں۔اس رپورٹ کا لب لباب یہ ہے کہ اسرائیل کی صہیونی ریاست اب امریکی سلامتی اور امریکی معیشیت کے لیے دنیامیں سب سے بڑا خطرہ بن چکی ہے۔اس رپورٹ پر امریکہ کے اعلی ترین جمہوری و انتظامی و دفاعی ادارے غوروہوض کررہے ہیں۔رپورٹ میں مشرق وسطی کی علاقائی سیاسی اور معاشی حالات کا تفصیلی تجزیہ کرچکنے کے بعد مذکورہ نتائج اخذ کیے گئے ہیں۔اسرائیل سے بڑھ کراس تاریخی حقیقت کو اورکون جانتا ہوگا کہ ہر فرعون اپنے موسی کی پرورش خود کرتاہے۔رپورٹ میں بتایا گیاہے کہ اسرائیل کی طرف سے مسلسل امریکی سلامتی کے خلاف ایسے اقدامات کیے جارہے ہیں جن پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیاجاسکتا۔رپورٹ مرتب کرنے والے خفیہ اداروں نے پوری کرہ ارض پر موجود کل اقوا م عالم کے حوالے سے لکھاہے کہ پوری دنیااسرائیل کی ریاست کودہشت گرداور خونی وقاتل ریاست سمجھتی ہے۔خفیہ اداروں کی اس رپورٹ میں یہ بھی کہاگیاہے کہ تمام ممالک کے لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ اسرائیل نے فلسطینیوں کی سرزمین پر ناجائز اور غاصبانہ قبضہ جما رکھاہے اوراسرائیل کواس کا کوئی اخلاقی و قانونی جواز حاصل نہیں ہے۔رپورٹ میں امریکی قیادت کو متنبہ کیاگیاہے کہ ان حالات میں اسرائیل کے لیے امریکی فوجی و معاشی وسیاسی امداداور اس کے مقابلے میں اسرائیلی جنگیں اوراسرائیلی ناجائزتصرفاتی اقدامات ،ا،مریکی مفادات سے شدید ٹکراؤرکھتے ہیں۔رپورٹ میں مثال کے طورپر اسرائیل روزبروز بڑھتے ہوئے ایٹمی اسلحے کی تعداداورفلسطینی شہری آبادی پر بے پناہ بمباری کے ذریعے انسانی حقوق اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی کو بھی پیش کیاگیاہے۔المختصریہ کہ سولہ امریکی خفیہ اداروں کی متفقہ رپورٹ میں اسرائیل کو’’بدمعاش اور مجرم ریاست(rogue, criminal state)‘‘ثابت کردیاگیاہے۔

امریکہ میں اسرائیلی اورصہیونی گروہ کس قدر منظم،متحرک اورموثرہے،اس کا اندازہ توکیاجاسکتاہے لیکن اس کاادراک کرنا قطعاََبھی ناممکن ہے۔امریکہ کا جوچہرہ دنیاکے سامنے ہے وہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ (USA)ہے جبکہ یہ دکھانے کے دانت ہیں اور اصل چبانے کے دانت ’’کارپوریٹ امریکہ ‘‘ہے،اور یہ امریکہ کی اصل حقیقت ہے جو دنیاپر حکمران ہے۔’’کارپوریٹ امریکہ‘‘دنیاکے سامنے ’’یونائٹڈاسٹیٹس آف امریکہ‘‘کو تگنی کاناچ نچاتاہے ۔اس ’’کارپوریٹ امریکہ ‘‘کی رگ جاں پنجہ یہود میں ہے۔اس حقیقت کو مزکورہ رپورٹ میں بھی جگہ دی گئی ہے کہ ساٹھ سے زائد تنظیمیں ہیں جو امریکہ جیسی سرزمین پر خود امریکہ کے خلاف اسرائیل کے لیے کام کررہی ہیں اور ان تنظیموں نے ساڑھے سات ہزار امریکی اعلی عہدیداران اورافسران کی خدمات کو خرید رکھاہے۔چنانچہ اس خفیہ رپورٹ کی نقول فوراََ سے پیشتر اسرائیل میں پہنچا دی گئیں اور اس کام میں امریکہ کے اندر صہیونی لابی کے متحرک ترین افرادامریکی سینیٹرزچارلس اسکومر(Charles Schumer)اورجان ایم سی کین(John McCain)سرفہرست ہیں،ان کے بعدامریکی کانگریس کے ارکان ایرک کانٹر(Eric Cantor)اورخاتون رکن علینا روزلیتھنن (Ileana Ros-Lehtinen)بھی اس ملک دشمن سازش میں ملوث ہیں۔اسرائیل میں اس رپورٹ کے پہنچنے پر متوقع ردعمل کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے ،ظاہر ہے سچ تو کڑواہی ہوتاہے۔چنانچہ اسرائیلی وزیراعظم اس رپورٹ پر بہت سیخ پاہوئے اور انہوں نے کہاامریکہ میں صہیونی ایجنٹ اس رپورٹ کے مرتب کرنے والوں سے شدید انتقام لیں گے۔انہوں نے خاص طورپر امریکی افواج کے سربراہ اورامریکی صدرکوبھی اپنی شدید ترین تنقید کا نشانہ بنایا۔اس پراسرائیلی پارلیمان کے سربراہ نے کہاکہ آخرامریکی صدر ہماری مخالفت کیسے کر سکتاہے جب کہ ہم یہودیوں نے اس کے لیے سب کچھ کیاتھا۔

یہودیوں کی دوہزارسالہ تاریخ ہجرت سے ہولوکاسٹ تک اورسیکولرازم کی ریت سے چنی گئی کی ناتمام بنیادوں پر قیام اسرائیل سے مستقبل قریب میں سقوط اسرائیل تک کے حالات کتاب زندہ میں اس آیت کی اظہرمن الشمس تفسیر ہیں کہ ’’ ضُرِبَتْ عَلَیْہِمُ الذِّلَّۃُ أَیْنَ مَا ثُقِفُوْا اِلاَّ بِحَبْلٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ حَبْلٍ مِّنَ النَّاسِ وَ بَآءُ وْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ ضُرِبَتْ عَلَیْہِمُ الْمَسْکَنَۃُ ذٰلِکَ بِأَنَّہُمْ کَانُوْا یَکْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَ یَقْتُلُوْنَ الْاَنْبِیَآءَ بِغَیْرِ حَقٍّ ذٰلِکَ بَمَا عَصَوْا وَّ کَانَوا یَعْتَدُوْنَ Oترجمہ’’یہ(یہود)جہاں کہیں بھی پائے گئے ان پر ذلت کی مار پڑی ،کہیں اﷲتعالی کے ذمہ یا انسانوں کے ذمے پناہ مل گئی تویہ اور بات ہے۔یہ اﷲ تعالی کے غضب میں گھر چکے ہیں،ان پر محتاجی و مغلوبی مسلط کر دی گئی ہے،اور یہ سب کچھ صرف اس وجہ سے ہوا کہ یہ اﷲ تعالی کی آیات سے کفرکرتے رہے اور انہوں نے پیغمبروں کوناحق قتل کیا،یہ ان کی نافرمانیوں اور زیادتیوں کا انجام ہے‘‘(سورۃ آل عمران،آیت212)۔آج یہ نوشتہ دیوار ہے کہ سلطنت اسرائیل کی عمارت منہدم ہونے کو ہے۔’’ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے‘‘کے مصداق جہاں اہل نظر امریکہ کی کشتی سے چھلانگیں لگاتے ہوئے چوہوں کو دیکھ رہے ہیں وہاں اسرائیل کا قائم رہنا چہ معنی دارد؟؟؟امریکہ کی کئی ریاستوں میں علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں اور امریکی معیشیت اپنی تاریخ کے بدترین بحران سے دوچار ہے ،ان حالات میں وہ اسرائیل کو کیونکرسہارادے سکتاہے؟؟؟۔

مشرق وسطی کے نقشے میں اسرائیل کی ریاست کھجورکی ایک گٹھلی کی مانندہے جس کی چوڑائی بعض مقامات پراکیلے ہندسوں جتنے کلومیٹرکے برابر رہ جاتی ہے۔قیام اسرائیل کے بعد سے سیکولرازم نے فلسطین کے یہاں ڈیرے ڈالے رکھے اور سیکولراورکیمونسٹ نظریات رکھنے والی قیادت نے فلسطینی مسلمانوں کے بندبھاؤلگائے اور انہیں اپنی ذاتی مفادات کی خاطر عالمی منڈیوں میں ساہوکاروں کے ہاتھ فروخت کیااوردولت ورشہرت کی بلندیوں کو چھوتے رہے ۔لیکن آفرین اس قوم پر جس نے بہت جلد اپنے رب کو اورخود اپنی حقیقت کو پہچان لیااور دیندار،جرات منداور صالح قیادت کاانتخاب کیا۔اس انتخاب کے بعد سے اسرائیل کے دن گنے جانے لگے اوراب نوبت یہاں تک پہنچی ہے کہ اسرائیل کے علاقے کے علاقے نفوس انسانی سے خالی ہوتے جارہے ہیں ۔وہ اسرائیل جو ایک مدت پہلے تک اپنے شہریوں کے لیے نئی بستیاں بسانے کے لیے فلسطینیوں کی زمینوں پر غاصبانہ فکر میں تھاآج قانون سازی کے ذریعے اپنے شہریوں کو نقل مکانی سے روکنے پر مجبور ہے۔اسرائیل اپنے قیام کے بعد سے مسلسل سکڑتاچلا جارہا ہے،تاریخ کے تھپیڑے فلسطینی مسلمانوں کے جذبہ قتال کی شکل میں اسرائیل کی ریاست کو ہر طرف سے کاٹ کاٹ فلسطین میں دریابرد کرتے رہے اور آج کا اسرائیل 1948ء کے اسرائیل کے سامنے کٹا پھٹااورپانچ چھ گناچھوٹااسرائیل ہے۔کہانی کایہ تسلسل بہت جلد اسرائیل کو نابود کر دے گا،انشاء اﷲ تعالی۔

اسرائیل کا قیام دورغلامی کا نقطہ عروج(کلائیمکس)تھا،خلافت عثمانیہ کے خاتمے سے شرپسندوں کے حوصلے اس تک بڑھے کہ امت مسلمہ کے سینے پریہ ناسور مسلط ہوا۔دورغلامی اگر چہ بیت چکااور امت مسلمہ نے آزادی کا سانس لیالیکن امت کاحکمران طبقہ ابھی بھی اپنی بادشاہتوں اورجرنیلیوں کے لیے سامراجی طاغوت کا مرہون منت ہے۔مغربی استعماراور ظالمانہ وسرمایادارانہ نظام کی بدترین گرفت نے ابھی بھی امت کے ہاتھ ان بادشاہوں اورجرنیلوں کی ہتھکڑیوں سے باندھ رکھے ہیں،لیکن آخر کب تک؟؟؟۔اسرائیل جن ممالک کے حکمرانوں کی آشیرباد سے فلسطینی مسلمانوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑتاہے ،آج ان ممالک کے حکمران اپناعرصہ اقتدارتنگ ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔مصر میں تو لولی لنگڑی اوراندھی بہری جمہوریت کے باوجود راسخ العقیدہ مسلمان برسراقتدارآگئے تھے،شاید نہیں یقیناََانہیں کے ہاتھوں چونکہ اسرائیل کے تابوت پر آخری کیل پیوست ہونی تھی اس لیے شکست خوردہ افواج کے ذہنی پسماندہ اوریورپی غلامی کے مارے ہوئے اخلاق باختہ سیکولرجرنیل اس ملک پر مسلط کر دیے گئے ۔ترکی نے ایک طویل جدوجہد کے بعد سیکولرجرنیلوں سے نجات حاصل کر لی ہے،اسرائیل کے بالکل جوار میں تیزآگ کی بھٹی بھڑک چکی ہے اور مسلمانوں کو شیعہ اور سنی میں تقسیم کرنے والے اسرائیل کی سرحدوں پرشیعہ اور سنی مل کر اس فسطائی ریاست کی اینٹ سے اینٹ بجانے میں مصروف قتال ہیں۔مشرق وسطی سے ملحق افریقی علاقوں کا مسلمان بھی جاگ چکاہے ،گویا ایک عرصے تک مایوسیوں کی فضاؤں کواب باد صبا کے ٹھنڈے ٹھنڈے جھوکوں نے معطر کر دیاہے۔مشرق و مغرب میں امریکہ اور نیٹو کے پاؤں اکھڑتے ہی اسرائیل ہوامیں بھک کیے اڑ جائے گا اور یہ وقت کوئی بہت زیادہ دور نہیں ہے اور پھر مسلمانوں کے غدار حکمرانوں کے ساتھ وہی سلوک ہوگاجو غزوہ احزاب کے بعد بنی قریظہ کا ہوا تھا۔امت مسلمہ ایک بارپھر متحد ہوگی بقول امام خمینی کے اسلامی ملکوں کی سرحدیں شیطان کی لگائی گئی حد بندیاں ہیں ،امت مسلمہ کے موجودہ حکمران ان سرحدوں کے ساتھ ماضی کی کتب میں عبرت کانشان بن جائیں گے اورغزہ کے مسلمانوں پر جب پوری دنیارو رہی ہے سوائے مسلمان بادشاہوں اورجرنیلوں کے جنہیں موت جیسی خاموشی نے گھیر لیاہے ،جب ان حکمرانوں پرموت کاسکوت طاری ہوگاتو کل امت کے چہرے کھل اٹھیں گے، فَاعْتَبِرُوْا یٰٓاُوْلِی الْاَبْصَارِ(۵۹:۲)(پس عبرت حاصل کرو اے نظر والو)۔فلسطینی مسلمانوں کاخون بہت جلد رنگ لائے گااور انبیاء علیھم السلام کی شاندارتاریخ کاحامل یہ علاقہ ایک شانداراسلامی مستقبل کاحامل ہوگا،انشااﷲتعالی۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
2574

عالمی یوم برداشت……ڈاکٹرساجد خاکوانی

Posted on

عالمی یوم برداشت
(International Day for Tolerance)
(16نومبرعالمی یوم برداشت کے موقع پر خصوصی تحریر)
ڈاکٹرساجد خاکوانی
[email protected]

’’برداشت‘‘یعنی ’’حلم‘‘اﷲتعالی کی ایک عالی شان صفت ہے جس کا کہ اﷲ تعالی نے قرآن مجیدمیں متعدد مقامات پر ذکر کیاہے۔ایک مقام پر اﷲ تعالی نے اپنے غفور ہونے کے ساتھ اپنی برداشت کا یوں ذکر کیاکہ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ(۳:۱۵۵)ترجمہ:بے شک اﷲ تعالی بخشنے والا اور برداشت کرنے والاہے،ایک اور مقام پر اﷲ تعالی نے اپنی صفت علم کے ساتھ اپنی برداشت کاذکر کیا وَ اللّٰہُ عَلِیْمٌ حَلِیْمٌ(۴:۱۲) ترجمہ:اور اﷲتعالی بہت زیادہ علم والا اور برداشت والاہے۔ایک اور آیت میں اﷲ نے اپنی بے نیازی کے ساتھ اپنی برداشت کا ذکر کیا وَ اللّٰہُ غَنِیٌّ حَلِیْمٌ (۲:۲۶۳) ترجمہ:اور اﷲ تعالی بے نیاز اور صاحب برداشت ہے۔قرآن مجید نے اﷲ تعالی کی صفت قدردانی کے ساتھ بھی برداشت الہی کاذکرکیاہےْ وَ اللّٰہُ شَکُوْرٌ حَلِیْمٌ(۶۴:۱۷)ترجمہ:اور اﷲ تعالی بہت قدردان اور برداشت سے کام لینے والا ہے۔ان آیات کی تفسیر میں وادر ہوئی متعدد روایات میں بھی اﷲ تعالی کی صفت برداشت کاکثرت سے ذکر ہے۔حقیقت یہی ہے عالم انسانیت کی بداعمالیوں اور طاغوتی طاقتوں کے ظلم و تعدی کے باوجود اس کرہ ارض پررزق کی کثرت،رحمت کی بارشوں کا نزول اور امن عافیت کی فراوانی کی وجہ محض ،خالق کائنات کی صفت برداشت ہی ہے۔وہ اپنی مخلوق سے بے حد پیارکرتاہے اور یہی وجہ ہے کہ انسانوں کے گناہ جب اتنے بڑھ جاتے ہیں کہ زمین بھی چینخ اٹھتی ہے کہ اے بارالہ مجھے اجازت دے کہ میں پھٹ جاؤں اور اس باغی اور سرکش فردیاقوم کو اپنے اندر سمو لوں تو بھی اﷲتعالی کی برداشت آڑے آجاتی ہے اورحلم خداوندی کے باعث رسی مزید ڈھیلی کردی جاتی ہے تاکہ موت سے پہلے پہلے توبہ کے دروازے میں داخل ہونے کے امکانات باقی رہیں۔
قرآن مجید میں صفت حلم یعنی برداشت کی صلاحیت کاذکر متعدد انبیاء علیھم السلام کے ساتھ بھی کیاہے۔ وَ مَا کَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرَاہِیْمَ لِاَبِیْہِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَۃٍ وَّعَدَہآ اِیَّاہُ فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہ‘ٓ اَنَّہ‘ عَدُوٌّ لِّلّٰہِ تَبَرَّاَ مِنْہُ اِنَّ اِبْرَاہِیْمَ لَاَوَّاہٌ حَلِیْمٌ(۹:۱۱۴)ترجمہ:’’حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے والدبزرگوار کے لیے جو دعائے مغفرت کی تھی وہ تو اس وعدے کی وجہ سے تھی جواس نے اپنے والد بزرگوارسے کیاتھا،مگر جب ان پر یہ بات کھل گئی کہ اس کاباپ خداکادشمن ہے تووہ اس سے بیزار ہوگئے،حق یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام بڑے خداترس اور صاحب برداشت آدمی تھے‘‘۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یہی صفت برداشت کاایک اور مقام پر بھی قرآن نے ذکر کیا اِنَّ اِبْرَاہِیْمَ لَحَلِیْمٌ اَوَّاہٌ مُّنِیْبٌ(۱۱:۷۵) ترجمہ:بے شک حضرت ابراہیم علیہ السلام بڑے نرم دل،ا ﷲتعالی طرف رجوع کرنے والے اور صاحب برداشت انسان تھے‘‘۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب اﷲتعالی نے ایک بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی خوش خبری دی تو ساتھ کہا کہ وہ صاحب برداشت بیٹاہوگا وَ قَالَ اِنِّی ذَاہِبٌ اِلٰیَ ربِّیْ سَیَہْدِیْنِ(۳۷:۹۹) رَبِّ ہَبْ لِیْ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ(۳۷:۱۰۰) فَبَشَّرْنٰہُ بِغُلٰمٍ حَلِیْمٍ(۳۷:۱۰۱) ترجمہ:حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا کہ میں اپنے رب کی طرف جاتاہوں ،وہی میری راہنمائی کرے گا،اے پروردگارمجھے ایک بیٹاعطاکر جو صالحین میں سے ہو(اس دعاکے جواب میں)ہم نے اس کو ایک صاحب برداشت لڑکے کی خوش خبری دی‘‘۔حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم بھی انہیں برداشت والا کہاکرتی تھی قَالُوْا یٰشُعَیْبُ اَصَلٰوتُکَ تَاْمُرُکَ اَنْ نَّتْرُکَ مَا یَعْبُدُ اٰبٰآؤُنَآ اَوْ اَنْ نَّفْعَلْ فِیْٓ اَمْوَالِنَا مَا نَشآؤُا اِنَّکَ لَاَ نْتَ الْحَلِیْمُ الرَّشِیْدُ(۱۱:۸۷)ترجمہ:ان کی قوم نے کہااے شعیب علیہ السلام کیاتیری نماز تجھے یہ سکھاتی ہے کہ ہم ان سارے معبودوں کو چھوڑ دیں جن کی پرستش ہمارے باپ داداکرتے تھے ،یایہ کہ ہم کو اپنے مال میں سے اپنی مرضی کے مطابق خرچ کرنے کا اختیار نہ ہو،بس تو ہی ایک نیک اور صاحب برداشت آدمی بچ گیاہے۔‘‘

 

اورجملہ انبیاء علیھم السلام کی طرح خاتم النبیین ﷺکی تو کل حیاۃ طیبہ برداشت سے ہی عبارت ہے۔یتیمی سے شروع ہونے والی برداشت کی زندگی ،بس برداشت کی کٹھن سے کٹھن تروادیوں سے ہی ہو کر گزرتی رہی،کہیں رشتہ داروں کو برداشت کیاتو کہیں اہل قبیلہ کو،کہیں ابولہب جیسے پڑوسی کو برداشت کیاتوکہیں ابوجہل جیسے بدتمیزترین سردارکو برداشت کیااورطائف کی وادیوں میں تو برداشت کے سارے پیمانے ہی تنگ پڑگئے اور برداشت بذات خود اپنے ظرف کی وسعت لینے خدمت اقدس ﷺمیں حاضر ہوگئی۔محسن انسانیتﷺ کے مقدس ساتھیوں نے برداشت کو جس طرح اپنی ایمان افروز زندگیوں میں زندہ جاوید رکھااس سے سیرۃ و تاریخ کی کتب بھری پڑی ہیں،مکی زندگی میں کتنی ہی بار نوجوان اصحاب رسول خدمت اقدس ﷺمیں حاضر ہوئے کہ انہیں استعمارسے ٹکراکرلڑنے مرنے کی اجازر مرحمت فرمائی جائے ،لیکن ہربار برداشت کے دروس سے آگاہی کے ساتھ لوٹادیے گئے۔حضرت بلال رضی اﷲتعالی عنہ سے پوچھاجائے کہ امیہ بن خلف کو کیسے برداشت کیاجاتاہے اورآل یاسر سے کوئی تو دریافت کرے کہ ابوجہل کو برداشت کرنے کاکیامطلب ہوتاہے۔مدینہ طیبہ کی اسلامی ریاست میں رئیس المنافقین عبداﷲبن ابی کوجس طرح برداشت کیاگیااس کی مثال شاید کل تاریخ انسانی میں نہ ملے ،اس سے بڑھ کر اور کیاہوسکتاہے کہ دیگرصحابہ کرام کے ساتھ ساتھ اس غدارملت کا سگابیٹابھی ایک بار تو اپنے باپ کے قتل اجازت لینے پہنچ گیالیکن یہاں پھر ’’حلم نبویﷺ‘‘یعنی محسن انسانیت ﷺکی قوت برداشت نے اپنا کام دکھایااورمزیدمہلت مل گئی۔

 

برداشت ،علم نفسیات کا ایک اہم موضوع ہے۔ماہرین نفسیات کے مطابق اس دنیامیں وارد ہونے والا ہر فرد بالکل جدارویوں اور جداجداجذبات و احساسات و خیالات کا مالک ہوتاہے،اپنے جیسا ایک انسان سمجھتے ہوئے اسے اسکاجائزمقام دینا ’’برداشت‘‘کہلاتاہے۔اس تعریف کی تشریح میں یہ بات کھل کرکہی جاتی ہے کہ دوسرے کے مذہب،اسکی تہذیب اور اسکی شخصی وجمہوری آزادی کومانتے ہوئے اس کے ساتھ عزت و احترام سے پیش آنا ’’برداشت‘‘ کے ذیلی موضوعات ہیں۔دیگرماہرین نفسیات نے ’’برداشت ‘‘کی ایک اورتعریف بھی کی ہے،ان کے مطابق’’دوسرے انسان کے اعمال،عقائد،اس کی جسمانی ظواہر،اسی قومیت اور تہذیب و تمدن کو تسلیم کرلینا برداشت کہلاتی ہے‘‘۔برداشت کی بہت سی اقسام ہیں،ماہرین تعلیم برداشت کو تعلیم کا اہم موضوع سمجھتے ہیں،ماہرین طب برداشت کو میدان طب و علاج کا بہت بڑا تقاضاسمجھتے ہیں،اہل مذہب کے نزدیک برداشت ہی تمام آسمانی تعلیمات کا خلاصہ ہے جسے آفاقی صحیفوں میں ’’صبر‘‘سے موسوم کیاگیاہے اورماہرین بشریات کے نزدیک برداشت انسانی جذبات کے پیمائش کا بہترین اور قدرتی وفطری پیمانہ ہے۔ابتدامیں ’’برداشت‘‘کو سمجھنے کے لیے جانوروں پر تجربات کیے جاتے تھے اور پہلے انفرادی طور پر اور پھر جانوروں کے مختلف گروہ بناکران کی برداشت کے امتحانات لیے جاتے تھے ۔بعد میں اسی نوعیت کے تجربات مدارس کے طلبہ و طالبات پر کیے جانے لگے اور پھر بالغ انسانوں پر بھی اس نوعیت کے تجربات کیے گئے لیکن غیر محسوس طور پر۔ان تجربات کے نتیجوں میں ’’برداشت‘‘کے مختلف پیمانے میسرآئے اور جذباتی اعتبار سے انسانوں کی تقسیم کی گئی ۔نتیجے کے طور ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ ماحول کے اثرات کے طورپر انسانوں میں برداشت کامادہ پروان چڑھتاہے،وطنیت کا تعصب رکھنے والا اپنے وطن کے بارے کم تر برداشت کامالک ہوگالیکن اپنے حسب و نسب پرتنقیدوتنقیص برداشت کرلے گاجبکہ قومیت کے فخرمیں بھرے ہوئے شخص کی برداشت کا پیمانہ اس سے کلیۃ متضادہوگا۔

 

اس وقت سیکولرازم کے ہاتھوں انسانیت بدترین عدم برداشت کا شکار ہے۔صنعتی انقلاب کے بعد سے سیکولرازم نے پاؤں کی ٹھوکروں سے مذہب کو ریاستی واجتماعی ومعاشرتی اداروں سے دیس نکالادیااور جیسے جیسے مذہب سے انسانی بستیاں خالی ہوتی گئیں توگویا برداشت کامادہ بھی انسانوں کے ہاں سے رخصت ہوتاچلاگیااور انقلابات کے عنوان سے لاکھوں انسانوں کی قتل وغارت گری کے بعد سیکولرازم نے انسانیت کو دوایسی عالمی جنگوں میں جھونک ڈالاجس کاخونین مشاہدہ اس سے پہلے کے مورخ نے کبھی نہیں کیاتھا۔صد افسوس کہ عالمی جنگوں میں آبشاروں کی طرح بہنے والا انسانی خون بھی سیکولرازم کی پیاس نہ بجھاسکااورپردہ اسکرین پر ابھرنے والے عکسی کھیلوں کے نام پر ’’ماردھاڑ سسپنس اور ایکشن سے بھرپور‘‘کہانیاں اور برداشت سے کلیۃ عاری کردار’’ہیرو‘‘بناکرسیکولرممالک سے دوسری اور تیسری دنیاؤں میں برآمدکیے گئے۔ننگ نسوانیت و ننگ انسانیت سیکولرازم کا عدم برداشت کا شرمناک کھیل آج فلمی دنیاسے نکل کر نام نہاد مہذب ترین ممالک کے ایوان ہائے اقتدارمیں نظر آرہا ہے جہاں حرص و حوس کے سیکولرپجاری سرمایادارانہ سودی معیشیت کے تحفظ کے لیے ذرائع ابلاغ پر کذب و نفاق کے سہارے فصلوں اور نسلوں کی قتل و غارت گری کے عالمی منصوبے بناتے ہیں اورسمجھتے ہیں کہ دنیاکی آنکھوں میں قیام امن وحقوق انسانی نام پر دھول جھونک کر اپنی عدم برداشت کو برداشت کے جھوٹے پہناوے پہنا سکیں گے۔حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ صدی کے اختتام سے قبل ہی امت مسلمہ کے مایہ ناز سپوتوں کی قلم سے سیکولرمغربی تہذیب علمی میدان میں پسپائی سے دوچار ہوچکی تھی اور اب دنیابھرمیں وحشت و درندگی کا خون آشام کھیل کھیلنے والی سیکولرافواج اپنے نظریے کو ہمیشہ کی نیند سلانے کے لیے بڑی تندہی سے سرگرم عمل ہیں اور کرہ ارض کے کل باسیوں کا مستقبل بلآخر آفاقی نوشتوں سے ہی وابسطہ ہے،انشاء اﷲ تعالی۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
1855