Chitraltimes Banner

یادیں یہ کس کی ساتھ ہیں بارات کی طرح………..عبد الکریم کریمی

کل یوں ہی دِل میں تیری کھوئی ہوئی یاد آئی۔ جیسے بہار کی شرارتی ہوا ہرے بھرے درختوں میں سما جائے اور اُس کے پتوں میں کھلبلی سی مچ جائے۔ اُس یاد نے جب میرے اکھڑتے ہوئے سانسوں پر اپنا نرم ہاتھ رکھا تو مجھے قرار سا آگیا لیکن میں جانتا تھاکہ یہ قرار عارضی ہے۔ جُدائی کا درد ناقابلِ بیان ہے۔ تنہائی کسی عفریت کی مانند میرے سامنے منہ کھولے کھڑی ہے اور میں سب کچھ جانتے ہوئے بھی اُس کھائی میں گرتا جارہا ہوں جس کا نچلا حصہ دلدل ہے۔

پہلی بار میں نے آفس کی سیڑھیوں پر تمہیں دیکھا۔ اُس وقت تم زرد رنگ کے لباس میں ملبوس سرسوں کا کھیت معلوم ہو رہی تھیں۔ انٹرویو سے قبل تم کافی گھبرائی ہوئی تھیں اور دورانِ انٹرویو تم نے بال پین مضبوطی سے ہاتھ میں تھام رکھا تھا۔ انٹرویو کامیاب رہا اور یوں تم ہمارے دفتر کا حصہ بن گئیں۔ پھر میں روز تمہیں آفس کی سیڑھیوں پر چڑھتے ہوئے دیکھنے لگا۔ جب پہلی بار میں نے تمہیں لنچ کی پیش کش کی تو تم نے فوراً ہی انکار کر دیا۔ مگر میں نے ہمت نہیں ہاری۔ مجھے یاد ہے اُس پیش کش کو ٹھکرانے کے چند دن بعد تک تم مجھ سے نظریں چراتی رہی تھیں۔

مجھے یاد ہے کہ جب پہلی بار ہم لنچ کر رہے تھے تو میری تمام توجہ تم پر مرکوز تھی۔ جب میں نے خاموشی سے تمہاری اُنگلی پکڑی تو تم نے گھبرا کر کہا: ’’میرا ہاتھ چھوڑیں۔‘‘
میں نے ہنستے ہوئے کہا تھا: ’’پاگل! میں نے ہاتھ نہیں، تمہاری اُنگلی پکڑی ہے۔‘‘
یہ سن کر تم ہنس پڑیں۔ بے ساختگی اور لا اُبالی پن کا ایک ریلا آیا اور مجھے بہا کر لے گیا۔ دوستی سے انسیت اور انسیت سے محبت تک کے اُس سفر میں تم خاموش رہیں اور میں بولتا رہا۔ برات والے دن جب تم اسٹیج پر دُلہن بنیں میرے پہلو میں بیٹھی تھیں۔ اُس وقت میں نے آہستگی سے کہنی مار کر کہا تھا: ’’کیا آپ میرے ساتھ لنچ کرنے چلیں گی؟‘‘
اُس وقت تم اپنی ہنسی نہیں روک پائیں۔ اسی وقت کیمرے کی فلیش چمکی اور وہ پُرمسرت لمحہ تصویر کی صورت میں قید ہوگیا۔ مجھے یاد ہے تمہاری والدہ نے اُس وقت تمہیں غصے سے گھورا تھا۔ پہلی بار جب میں تمہارے ساتھ تمہارے میکے اور اپنے سسرال پہنچا تو مجھے خصوصی پروٹوکول دیا گیا۔ جب تمہاری بہن نازلی نے میرا جوتا چھپا کر مجھ سے پانچ ہزار روپے مانگے تو تم فوراً بول اُٹھی تھیں: ’’پانچ ہزار کیوں؟ صرف پانچ سو روپے ملیں گے۔‘‘
یہ سن کر نازلی نے حیران ہو کر تمہیں دیکھا اور بولی: ’’آپی! اتنی جلدی بدل گئیں!‘‘
تم ہنس دیں اور میں تمہیں دیکھتا رہا۔

شادی کے بعد تم نے ملازمت کے خیال کو اُٹھا کر کھڑکی سے باہر پھینک دیا اور کیچن میں جا کھڑی ہوئیں۔ پہلی بار تم نے جو کھیر پکائی تھیں۔ سچ بتاؤں! وہ جلی ہوئی تھی لیکن میں نے کبھی اس بات کا تمہارے سامنے ذکر نہیں کیا۔ ہم بہت خوش تھے اور وقت کو جیسے پر سے لگ گئے تھے۔ شادی کے چند سال بعد جب ہمارے گھر میں ننھے قدموں کی چاپ سنائی دے رہی تھی تو نہ جانے کیا ہوا کہ پورا ملک ہی مالی بحران کی زد میں آگیا۔ گرانی تھی کہ بڑھتی ہی جا رہی تھی اور دوسری جانب انہی دنوں تمہارے دِل میں ’’اپنے گھر‘‘ کی خواہش انگڑائیاں لینے لگی تھی۔ مجھے تمہاری خواہش کا احترام تھا۔ ہم نے کچھ نہ کچھ بچت کر کے شہر سے دور ایک نئی آبادی میں زمین خریدی۔ اُس وقت تمہاری آنکھوں کی چمک قابل دید تھی۔

وقت گزرتا گیا اور تمہارے بیٹے کا قد تم سے اونچا ہوگیا۔ جب ہم اپنے چھوٹے سے خاندان کے ساتھ اپنے نئے گھر میں داخل ہوئے تو مجھے یوں لگا تھا جیسے تم خوشی سے بے ہوش ہو جاؤگی۔ دوسرے دن جب میں آفس سے لوٹا تو تم اپنے صاحبزادے کے ساتھ گھر سجا چکی تھیں۔ گرد میں اٹی اپنی محبت کو دیکھ کر میں ہنس دیا۔ جب تم نے آئینے میں اپنی صورت دیکھی تو خود بھی بے ساختہ ایک قہقہہ لگایا۔ وہ قہقہہ محبت اور ممتا سے لبریز تھا۔

اپنے بیٹے کی شادی کے موقع پر تم ہر معاملے میں پیش پیش تھیں۔ جوڑا کس رنگ کا ہونا چاہیے، پھول کدھر رکھیں، شادی کا سامان کب پہنچانا ہے، دُلہن کا میک اپ کہاں سے کرانا ہے۔ تم مسلسل مصروف تھیں۔ میں مسکراتا ہوا تمہیں دیکھتا رہا۔ اسٹیج پر جب میرے اور تمہارے بیٹے فیضی نے اپنے باپ کی طرح اپنی شریکِ حیات کو کہنی ماری تو میں حیران رہ گیا۔ تب پہلی بار مجھے احساس ہوا کہ میں بوڑھا ہوگیا ہوں اور میرے آدھے بال سفید ہو گئے ہیں۔ اسی پل مجھے پہلی بار تمہارے چہرے کی جھریاں بھی واضح دکھائی دیں۔ اس خیال نے مجھے دُنیا و مافیہا سے بے نیاز کر دیا۔ شادی، مہمان اور شور! سب کہیں ماضی میں چلا گیا۔ بس تم اور میں رہ گئے۔
’’کتنے سال بیت گئے عروج؟‘‘ تمام ہنگاموں سے آزاد ہونے کے بعد میں نے تمہیں مخاطب کیا تو تم مسکرادیں۔ تقدس میں ڈوبی وہ مسکراہٹ میرے ذہن پر نقش ہوگئی۔ مجھے یاد ہے۔ ہماری بہو نے بھی تمہاری طرح پہلی بار جو کھیر پکائی تھی وہ جل گئی تھی لیکن فیضی مزے سے اسے کھاتا رہا۔ اس پل مجھے یقین ہوگیا کہ ہم دونوں بوڑھے ہوگئے ہیں۔

پھر تم بیمار رہنے لگیں۔ اُس رات سخت سردی تھی۔ میں چھت پر بیٹھا موم پھلی چھیل رہا تھا اور تم بادلوں میں چھپے چاند کو تک رہی تھیں۔ کچھ ہی دیر میں تم پر کپکپی طاری ہوئی تو میں نے سردی سے بچانے کے لئے تمہیں چادر اوڑھادی۔ میں نے خود تمہارے لئے چائے بنالی(میں تم سے اچھی چائے بناتا ہوں) جسے پیتے ہوئے تم کسی گہری سوچ میں غرق ہوگئیں۔
’’آپ اب بوڑھی ہوگئی ہیں محترمہ!‘‘ میرے اس جملے سے تمہارے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی لیکن اس مسکراہٹ میں وہ چمک اور خوشی کی لہر نہیں تھی جس کا میں عادی تھا۔ میں خوف زدہ ہوگیا۔ مجھے لگا کہ کوئی شے تمہیں مجھ سے دور کھینچ رہی ہے۔ میرا یہ خوف حقیقت ہی تھا۔ اپنے پوتے کی پیدائش تک تو تم چاق و چوبند رہیں لیکن پھر…………!!

اسپتال کی عمارت میں مکمل سناٹا تھا اور راہ داریوں میں ہوا کے گزرنے سے بڑی خوفناک آواز پیدا ہو رہی تھی۔ پہلے میں بھی سردیوں کے موسم سے لطف اندوز ہوتا تھا لیکن اس بار یہ موسم مجھ پر بھاری گزرا۔ میں اپنے ہاتھ بغلوں میں دبائے تمہیں مسلسل دیکھے جا رہا تھا۔ اور تم اپنے بستر پر خاموش اور لا تعلق سی لیٹی تھیں۔ پھر میں ماضی میں کھو گیا۔ مجھے وہ رشتہ یاد آیا جس میں بندھنے سے قبل ہم نے دوستی سے انسیت اور انسیت سے محبت کا سفر طے کیا تھا۔ میں نے شرارتی لہجے میں تمہیں مخاطب کیا: ’’کیا آپ میرے ساتھ لنچ کریں گی؟‘‘
پہلے تم حیران ہوئیں اور پھر مسکرا دیں۔ میں اسپتال کے کینٹین سے کولڈڈرنک اور بریانی لے آیا۔ اگرچہ ڈاکٹر نے تمہیں اس قسم کی چیزیں کھانے سے منع کیا تھا لیکن تم نے میری خوشی کی خاطر پرواہ نہیں کی۔ اُس رات چاند اسپتال کی کھڑکی سے جھانکتا رہا اور چاندنی میں نہائے اُس کمرے میں ہمارے ہلکے ہلکے قہقہے گونجتے رہے۔

دوسرے دن تمہاری طبیعت بگڑ گئی۔ فیضی اور بہو نے کمرے کے ڈسٹ بن میں پڑے کولڈڈرنک کے کین دیکھ لئے تھے۔ وہ دونوں بھی مجھ پر غصہ ہو رہے تھے اور تم اُنہیں سمجھا رہی تھیں کہ یہ سب میں نے تمہارے اصرار ہی پر کیا تھا۔ اُس وقت تمہیں دیکھتے ہوئے میں خیالوں میں کھو گیا۔ تم بہت خوبصورت لگ رہی تھیں۔ تمہاری آنکھوں میں پیار کی شبنم تھی اور سانسوں میں گلابوں کی مہک! اسپتال، ڈاکٹر اور بہو! ہر شے ہر منظر پس منظر میں چلا گیا۔ صرف تم اور میں رہ گئے۔

تم اسپتال سے واپس توآگئیں لیکن تمہاری طبیعت نہیں سنبھلی۔ وقت گزرتا گیا اور تم کمزور ہوتی گئیں۔ تمہاری بے ساختہ مسکراہٹ بھی کہیں غائب ہوگئی۔ آخری بار تم اُس وقت مسکرائیں جب ہمارا چھے سالہ پوتا جیمی اپنی رپورٹ کارڑ لئے بھاگتا ہوا آیا اور تمہارے بستر پر چڑھ گیا۔
’’دادو! میں فرسٹ آیا ہوں۔‘‘ اس نے جوش سے کہا تو تمہاری آنکھوں کی خوشی ناقابلِ بیان تھی جو نمی کی صورت باہر آنے کی منتظر تھی۔ تم نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔
وہ کہنے لگا: ’’دادو! میرے گفٹ؟‘‘
تم ہنس دیں اور جیمی تمہارا پرس کھول کر اپنا گفٹ تلاش کرنے لگا۔
پُرنم آنکھوں کے ساتھ جب ہم تمہیں قبر میں اُتار رہے تھے تو جیمی میرا ہاتھ تھامے حیران کھڑا تھا۔ ’’دادو کہاں جارہی ہیں بابا؟‘‘ اس نے اپنے باپ سے سوال کیا۔

’’کہیں نہیں۔‘‘ فیضی نے آہستگی سے جواب دیا جیسے اُس کے حلق میں کچھ پھنس سا گیا ہو۔
شروع میں تو مجھے یقین ہی نہیں آیا کہ تم چلی گئی ہو لیکن پھر وقت نے مجھے احساس دلایا کہ اب میں تنہا رہ گیا ہوں اور مجھے تنہا رہنے کی عادت ڈالنی ہوگی۔

آج جب میں تمہاری قبر کے سرہانے کھڑا ہوتا ہوں تو یوں ہی کوئی کھوئی ہوئی یاد میرے دِل میں سما جاتی ہے اور قبرستان میں لگے درختوں کے پتوں میں کھلبلی سی مچ جاتی ہے۔ تمہاری یاد جب میری اکھڑتے ہوئے سانسوں پر اپنا نرم ہاتھ رکھتی ہے تو مجھے قرار سا آجاتا ہے لیکن میں جانتا ہوں یہ قرار عارضی ہے اور یہ کھوئی ہوئی یاد ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , , ,
4598

پاکستان دوہزار پچاس میں انشاء اللہ!………عبد الکریم کریمی

پروفیسر شہناز نصیر صاحبہ جتنی اچھی شخصیت رکھتی ہیں اس سے کئی گنا زیادہ اچھے خیالات بھی رکھتی ہیں۔ ہماری اچھی دوست ہیں۔ بزمِ اساتذہ سندھ کی سیکریٹری اطلاعات ہیں۔ ہم جب بھی شہر قائد میں خیمہ زن ہوتے ہیں محترمہ اپنی بزم کی محفلوں میں ہمیں بطور مہمان مدعو کرنا نہیں بھولتیں۔ پروفیسر ڈاکٹر عرفان شاہ، پروفیسر فرزانہ خان اور پروفیسر شہناز نصیر کے دم قدم سے ہی بزمِ اساتذہ سندھ آباد ہے۔ شہناز نصیر صاحبہ نے آج صبح میرے وٹس ایب پہ ایک میسیج بھیجا۔ میسیج ’’پاکستان دوہزار پچاس میں انشاء اللہ!‘‘ کے عنوان سے تھا۔ جس کو پڑھ کر حقیقت نہ سہی خوش فہمی کی دُنیا میں سہی دل باغ باغ ضرور ہوا اور دل کی عمیق گہرائیوں سے یہ دُعا نکلی کہ اللہ کرے ایسا ہی ہو۔ اس میسیج میں دو امریکی باشندوں میں ایک دلچسپ مکالمہ ہے۔ جوزف اور مارک ترقی یافتہ پاکستان کیوں آنا چاہتے ہیں؟ مناسب سمجھا کہ وہ مکالمہ آپ کے ساتھ شیئر کروں۔

Pakitani Passport
’’جوزف: ہیلو مارک! کل تم آفس نہیں آئے تھے؟ خیریت؟

مارک: ہاں یار۔ میں پاکستانی ایمبیسی گیا تھا۔ ویزہ لینے۔

جوزف: اچھا واقعی؟ پھر کیا ہوا؟ میں نے سنا ہے آج کل انہوں نے بہت سختیاں کردی ہیں۔

مارک: ہاں! لیکن میں نے پھر بھی کسی نہ کسی طرح لے ہی لیا۔

جوزف: بہت اچھے یار۔ مبارک ہو۔ یہ بتاؤ کہ ویزہ پراسیس میں کتنا وقت لگا؟

مارک: بس کچھ مت پوچھو یار۔ تقریباً مہینہ بھر لگ گیا۔ پہلی بار جب میں پاکستان ایمبیسی گیا تھا تو صبح چار بجکر تیس منٹ پر وہاں پہنچا۔ پھر بھی مجھ سےپہلے دس لوگ کھڑے تھے۔ لمبی قطار۔ اور ہاں مجھ سے کچھ آگے بل گیٹ بھی اپنا پاسپورٹ اور بنک سٹیٹمنٹ ہاتھ میں لیا لائن میں کھڑا تھا۔

جوزف: اچھا۔ بل گیٹ کو ویزہ مل گیا۔

مارک: نہیں۔ انہوں نے خطرہ ظاہر کیا ہے کہ بل گیٹ پاکستان جانے کے بعد وہاں سلپ ہوجائے گا اور امریکہ واپس نہیں آئے گا۔

جوزف: یار۔ پاکستانی ایمبیسی کو ایسا نہیں کرنا چاہیئے۔ اسلام آباد میں ہماری امریکن ایمبیسی تو پاکستانیوں کو ایک گھنٹے میں ویزہ دے دیتی ہے۔ پھر یہ کیوں ایسا کرتے ہیں؟

مارک: ارے یار۔ تمھیں تو پتہ ہے پاکستان اس وقت دنیا کی سپر پاور ہے۔ اس کا ویزہ لینا گویا مریخ کا ویزہ لینے کے برابر ہے۔ اور پھر قصور ہمارا امریکیوں کا بھی ہے۔ ہم بھی وہاں وزٹ ویزہ پر جاکر واپس نہیں آتے نا۔

جوزف: اچھا یہ بتاؤ۔ تمھیں ویزہ کیسے مل گیا؟

مارک: میں نے وہاں کی مشہور فرم ‘پھالیہ شوگر ملز لمیٹیڈ’ سے بزنس وزٹ کا انویٹیشن منگوایا تھا۔ بس اسی بنیاد پر کام بن گیا۔

جوزف: ایک بار پھر مبارک ہو۔ یہ بتاؤ کب جا رہے ہو پاکستان؟

مارک: جیسے ہی ٹکٹ ملا۔ دراصل میں نے دنیا کی مشہور ترین اور اعلی کلاس کی ائیر لائن میں ٹکٹ کے لیے درخواست دی ہے۔ میرا بچپن سے خواب تھا کہ کسی دن پاکستان انٹرنیشنل ایر لائنز (پی آئی اے) میں سفر کر سکوں۔ اگر ٹکٹ مل گیا تو میرا دیرینہ خواب پورا ہوجائے گا۔

جوزف: پاکستان میں کتنا عرصہ رکو گے؟

مارک: کتنا عرصہ؟ کیا مطلب؟ مجھے کسی پاگل کتے نے کاٹا ہے جو پاکستان چھوڑ کر واپس امریکہ آنے کی سوچوں گا۔ حقیقت یہ ہے کہ میں نے انٹرنیٹ پر چیٹ کے ذریعے پاکستان کے دوسرے بڑے شہر لاہور کے مضافات میں ایک صحت افزا مقام ‘کامونکی’ کی ایک لڑکی سیٹ کر لی ہے۔ میں اس سے شادی کرکے گرین پاسپورٹ اپلائی کردوں گا اور وہیں سیٹ ہوجاؤں گا۔

جوزف: یار تم بہت خوش قسمت ہو۔ لیکن تمھارے ماں باپ کا کیا ہوگا۔

مارک: پاکستانی گرین پاسپورٹ مل جانے کے بعد میں ماما-پاپا کو بھی وہیں بلا لوں گا۔

جوزف: کس شہر میں رہنا پسند کرو گے؟

مارک: کامونکی والی لڑکی نے مجھے کہا ہے کہ پنجاب سٹیٹ صحت و صفائی کے اعلی معیار کی وجہ سے ویسے تو دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔ لیکن ہم کراچی سیٹل ہوں گے۔ وہاں آپرچیونٹیز بہت ہیں۔ پتہ ہے نا؟ کراچی اس وقت دنیا میں ٹریڈ اور ٹیکنالوجی کے لحاظ سے اول نمبر کا شہر ہے۔ اور وہاں کا چھ سو ساٹھ منزلہ حبیب بنک پلازہ دیکھنا بھی میری زندگی کی بہت بڑی خواہش ہے۔ سنا ہے اس کی اوپرکی دو سو منزلیں بادلوں میں ڈھکی رہتی ہیں۔ واؤؤؤؤؤؤؤؤؤؤو واٹ آ ڈریم یار۔

جوزف: اچھا یہ بتاؤ اپنے ساتھ کتنے ڈالرز لے کر جاؤ گے؟

مارک: ڈالرز؟ وہاں کون پوچھتا ہے۔ تمھیں پتہ ہے ایک پاک روپے کے مقابلے میں آجکل دو سو دس ڈالرز بنتے ہیں۔ یعنی میری اگر وہاں دس ہزار پاکستانی بھی تنخواہ نکل آئی تو امریکہ میں چند مہینوں میں لاکھ پتی بن جاؤں گا۔

جوزف: میں نے سنا ہے پاکستان کا لائف سٹینڈرڈ بہت اعلی ہے۔

لکژری کار پچیس ہزار پاک روپے میں ، جبکہ مرسٹڈیز بی ایم ڈبلیو بتیس ہزار میں مل جاتی ہے۔ لیکن میں تو سوزوکی یا چنگچی لوں گا۔ خالصتاً پاکستانی میڈ آٹوز ہیں۔ کچھ مہنگی ہیں لیکن بہت اعلی کلاس کی ہیں۔

البتہ کراچی میں فلیٹ بہت مہنگے ہیں۔ اور کوئی بھی بلڈنگ سو فلور سے کم تو ہے ہی نہیں۔ انسان ہر وقت خود کو فضاؤں میں اڑتا محسوس کرتا ہے۔

جوزف: اچھا یہ بتاؤ کہ وہاں کام کیا کرو گے۔

مارک: میں نے معلومات کی ہیں۔ وہاں پر آئی ٹی میں بہت سکوپ ہے۔ لیکن تم تو جانتے ہو وہ ہمارے ملک کے تعلیمی معیار کو اپنے برابر نہیں سمجھتے اس لیے مجھے شروع میں وہاں کسی کسان کے گدھے وغیرہ نہلانے پڑیں گے۔ یا پھر ہوسکتا ہے کسی مشہور پارک کے دروازے پر جوتے پالش کا کھوکھا ہی کھول لوں۔ کچھ نہ ہوا تو ٹیکسی کا لائسنس کرلوں گا۔ امریکہ سے تو پھر بھی کئی گنا بہتر کما لوں گا۔ اور ہاں اگر میں وہاں کا گرین پاسپورٹ ہولڈر ہوگیا تو پھر ساری زندگی حکومت مجھے بےروزگاری الاؤنس اور میڈیکل سہولیات فری فراہم کرے گی اور گرین پاسپورٹ کی بنا پر مجھے دنیا کے اسی فیصد ممالک میں بغیر ویزے کے وزٹ کرنے کی سہولت مل جائے گی۔

جوزف: بہت خوب۔ یہ بتاؤ۔ تمھیں ان کی زبان کیسے آئے گی؟

مارک: اوہ بھائی۔ میں پچھلے دس سال سے اردو لینگوئج سیکھ رہا ہوں۔ کالج میں آپشنل سبجیکٹ بھی اے گریڈ میں پاس کیا ہے۔ اور ہاں میں بھی کیا ہے۔

جوزف: یار یہ TOUFL کیا ہے؟

مارک: Test Of Urdu as a Foreign Language

جوزف: تم بہت خوش قسمت ہو یار۔ کاش میں تمھاری جگہ ہوتا۔

سنا ہے وہاں پر ٹرین سسٹم بہت اچھا ہے۔

مارک: ہاں۔ کراچی سے لاہور اور وہاں سے پشاور اور کوئٹہ کے لیے دنیا کی تیز ترین اور آرام دہ ترین ٹرین ’’تیز گام‘‘ چلتی ہے۔ اس میں سفر کا بھی اپنا ہی مزہ ہے۔ اور لاہور میں ہی دنیا کا مشہور فلم سٹوڈیو لالی وڈ بھی ہے۔ جہاں پر میں دنیا کے عظیم اداکاروں سلطان راہی، شفقت چیمہ اور ریما کے مجسمے دیکھوں گا۔ سنا ہے آج کل ان کے بچے بھی فلم انڈسٹری میں ہیں۔

اور راولپنڈی میں دنیا کی سب سے بڑی اور گہری جھیل ’’راول ڈیم‘‘ بھی ہے۔ اس میں بوٹنگ کرنا بھی مجھے ہمیشہ سے ہی خواب لگتا ہے۔ لیکن اب یہ خواب بھی حقیقت بن جائے گا۔

جوزف: سنا ہے ہمارا صدر اگلے مہینہ امداد لینے پاکستان بھی جائے گا؟

مارک: ہاں! ایسا ہی ہے۔ اور قرضے بھی ری شیڈول کروانے ہیں۔ پچھلے دنوں پاکستان کے محکمہ نسواریات کا منسٹر پختون خان، وہائٹ ہاؤس آیا تھا تو دس لاکھ روپے کا ڈونیشن تو صرف یہاں چلنے والے ایک منشیات کے ادارے کو دے گیا تھا۔ تاکہ ہماری نوجوان نسل کو زیادہ سے زیادہ منشیات باآسانی مہیا ہوسکیں۔

جوزف: اچھا تمھیں یاد ہے ہمارا پرائمری سکول کا کلاس فیلو ’’پیٹر‘‘۔ وہ بھی تو کہیں پاکستان میں سیٹ ہے۔

مارک: ہاں! وہ کوئٹہ کے قریب ایک وادی ’’پوستان‘‘ میں سیٹ ہے۔ سنا ہے پوسٹ کے کھیت سے پوست اکٹھی کرنے کا کام ہے اس کا۔ ایک ہی سیزن میں اتنا کما لیتا ہے کہ باقی چھ ماہ بیٹھ کر کھاتا رہتا ہے۔ عیش ہے اس کی تو۔

جوزف: یار میں بھی پاکستانی ویزہ کے لیے اپلائی کرنا چاہتا ہوں۔ مجھے کچھ انسٹرکشن تو دو؟

مارک: پاکستانی ایمبیسی میں ہمیشہ شلوار قمیض پہن کر جانا۔ وہ لوگ اپنے قومی لباس کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔ اور کوشش کرنا کہ ویزہ کی درخواست انگریزی کی بجائے اردو میں پُر کرنا۔ اس سے بھی اچھا تاثر ملے گا۔

اور ایمبیسی میں داخل ہوتے ہی ’’السلام علیکم! جناب کیا حال ہے؟‘‘ کہنا مت بھولنا۔

اس سے پتہ چلے گا کہ آپ کتنے مہذب ہو۔

جوزف: تھینک یو یار۔

مارک: تھینک یو نہیں شکریہ۔ اب میں پاکستانی ویزہ ہولڈر ہوں۔ مجھے شکریہ کہنے میں فخر ہے۔۔۔۔۔۔‘‘

ہائے ہائے یہ مکالمہ پڑھ کر ہمیں فیض احمد فیض رہ یاد آگئے۔ انہوں نے اپنی غزل کے ایک شعر میں کہا تھا؎

دل نا اُمید تو نہیں ناکام ہی تو ہے

لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے

بلکہ پوری غزل سنیئے؎

ہم پر تمہاری چاہ کا الزام ہی تو ہے

دشنام تو نہیں ہے، یہ اکرام ہی تو ہے

کرتے ہیں جس پہ طعن کوئی جرم تو نہیں

شوقِ فضول و الفتِ ناکام ہی تو ہے

دل مدّعی کے حرفِ ملامت سے شاد ہے

اے جانِ جاں یہ حرف ترا نام ہی تو ہے

دل نا امید تو نہیں، ناکام ہی تو ہے

لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے

دستِ فلک میں گردشِ تقدیر تو نہیں

دستِ فلک میں گردشِ ایّام ہی تو ہے

آخر تو ایک روز کرے گی نظر وفا

وہ یارِ خوش خصال سرِ بام ہی تو ہے

بھیگی ہے رات فیض غزل ابتدا کرو

وقتِ سرود، درد کا ہنگام ہی تو ہے

یار زندہ۔ صحبت باقی۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
3489

بندہ کمائے گا نہیں تو کھائے گا کہاں سے؟؟؟………..عبد الکریم کریمی

Posted on

بندہ کمائے گا نہیں تو کیا کھائے گا

آج فجر کی نماز سے واپسی پر ناشتے کے انتظار میں بیٹھا ایک عبرت ناک کہانی بینائیوں کی نذر ہوئی۔ اس کے مطالعے کے بعد اللہ پاک کی ذات پر یقین مزید پختہ ہوگیا اور یہ حقیقت بھی کہ جہاں کچھ لوگ فجر کے وقت تکیے پر سر رکھ کر سوتے ہیں تو وہاں کچھ لوگ مصلے پر سر رکھ کر روتے بھی ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ سونے والے خوبصورت خواب دیکھتے ہیں اور رونے والے خوبصورت تعبیر پاتے ہیں۔

اللہ پاک کی ذات پر جس کو یقین ہو وہ کبھی محتاج نہیں ہوتا۔ وہ رب دوجہاں تو غاروں کے اندر پڑے ہوئے کیڑوں کو بھی رزق دیتا ہے تو اشرف المخلوقات حضرتِ انسان کو کیسے بھول پاتے ہیں۔ یہ جو ہم کہتے ہیں نا کہ بندہ کمائے گا نہیں تو کھائے گا کہاں سے؟ خیالِ زرق ہے رازق کا کچھ خیال نہیں۔ ارے بھیا! یہی کچھ تو اس کہانی میں بیاں ہوا ہے۔ کہا جاتا ہے:

’’ستر کی دہائی تھی، کوئی آج کل والا پاکستان تو تھا نہیں، اُس نے کراچی میں موجود امریکی لائبریری میں قدم رکھا اور پڑھنا شروع کردیا۔ وہ پیاسا تھا اور علم پیتا چلا گیا، کچھ ہی سالوں میں انجینئرنگ میں ٹاپ کیا اور امریکہ چلا آیا۔ کام، کام اور بس کام۔ وہ اپنے خاندان میں واحد گریجویٹ تھا، اکیلا خوش نصیب جسے ملک سے باہر کام ملا اور واحد کفیل۔

کام کے دوران اُس کی ایک وائٹ امریکی مارگریٹ سے شادی ہوگئی۔ ترقی پر ترقی، اپنا گھر، اپنی گاڑی، بینک بیلنس، وہ منزلوں پر منزلیں طے کرتا چلا گیا۔

کافی سالوں بعد وہ آج اپنی بیوی کے ساتھ پاکستان لوٹا۔ سن تیراسی کا زمانہ تھا۔ سب لوگ خوب خوش ہوئے مگر ایک ضروری کام سے کمپنی نے واپس بلا لیا۔ بیوی کو پاکستان چھوڑ کر ایک ہفتے کے بعد واپس آنے کا کہہ کر وہ امریکہ روانہ ہوگیا۔

چھبیس گھنٹوں کے طویل سفر کے بعد اُس نے رات کی تاریکی میں نیویارک میں موجود اپنے گھر کا دروازہ کھولا اور بستر پر آکر اوندھے منہ لیٹ گیا کہ صبح کام پر پہنچنا تھا۔ اُس نے بمشکل تمام چھ بجے کا الارم لگایا۔

صبح اُس کی آنکھ گیارہ بجے کھلی، وہ کافی دیر تک حیران و پریشان گھڑی کو دیکھتا رہا، اُس نے چھلانگ مار کر بستر سے اٹھنے کی کوشش کی مگر یہ کیا، وہ تو اپنے آپ کو ایک انچ بھی نہ ہِلا پایا۔ اُس نے گھبراہٹ میں چیخنا چاہا مگر کوئی آواز نہ نکل سکی۔

رات کے کسی پہر جب وہ خوابوں میں دنیا فتح کررہا تھا تو قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ اُسے فالج کا اٹیک ہوا اور صبح تک اُس کا جسم، اُس کا چہرہ اور تمام عضلات کسی بھی قسم کی حرکت سے معذور ہوچکے تھے۔ اُس کا دماغ کچھ کچھ کام کر رہا تھا مگر اُسے بڑی مشکل پیش آرہی تھی۔ یہ سوچتے ہوئے کہ وہ کون ہے؟ اُس کا نام کیا ہے؟ بیوی بچے، ماں باپ کون ہیں؟ وہ سب کچھ بھولتا چلا جارہا تھا۔ یاد داشت کا کھونا بالکل ایسا ہی ہے جیسے کوئی قسطوں میں خودکشی کرے۔ ہلکے ہلکے، رفتہ رفتہ، مدھم مدھم وہ تمام لوگ جن کے ہونے کو ہم زندگی کہتے ہیں دماغ سے رخصت ہوتے چلے جاتے ہیں۔ دل میں رہتے ہیں مگر دل تو احساسات کا مجموعہ ہے۔ شکل کو نام اور صفات تو دماغ دیتا ہے۔

مسٹر صدیقی کو بستر پر پڑے پڑے آج تیسرا روز تھا۔ موبائل فون تو اُس دور میں ہوتے نہیں تھے اور اگر ہوتے بھی تو وہ کون سے اِس قابل تھے کہ وہ ہاتھ ہِلا سکتے۔ گھر میں موجود فون بجتا رہا، کبھی آفس والے کال کرتے تو کبھی پاکستان میں گھر والے۔

اتنی بے بسی تو شاید مُردوں کو بھی نہ ہوئی ہوگی کہ انہیں کم از کم اِس بات کا تو سکون ہوتا ہوگا کہ وہ مرچکے ہیں۔ مرنا کتنی بڑی نعمت ہے انہیں آج سمجھ آرہا تھا۔

چوتھا دن، پانچواں دن اور آج چھٹا دن، غلطی سے آج ڈاکیا دروازہ کھلا دیکھ کر مسٹر صدیقی کو ہیلو ہائے کرنے آگیا کہ اُن کے اخلاق اچھے تھے اور وہ ہمیشہ ڈاکیے کو دیکھتے تو حال احوال پوچھتے۔

ڈاکیے نے کھلی آنکھوں مگر ساکت جسم کو دیکھا تو نائین ون ون پر ایمرجنسی کال کردی۔ وہ آئے اور اٹھا کر لے گئے۔ اگلے نو ماہ صدیقی صاحب کومے میں رہے۔ وہاں سے ہوش آیا تو کینٹکی کے ایک ہاس پائس ری ہیبیلی ٹیشن سنیٹر میں منتقل کردیا گیا۔ یہاں ایسے لوگوں کو رکھا جاتا تھا جن کا واحد علاج خود موت ہوتی تھی۔ دن، ہفتے، مہینے اور سال گزرتے چلے گئے۔

بیوی نے سمجھا کہ ’کسی اور‘ کے ساتھ گھر بسالیا اور اسے بھول گئے، اُس نے بھی کہیں اور شادی کرلی۔

بہن بھائیوں اور رشتہ داروں نے سمجھا کہ پیسے کی ہوس نے تمام رشتے ناطے توڑنے پر مجبور کردیا۔

باپ نے سمجھا کہ بیٹا امریکی زندگی میں مصروف ہوگیا اور گھر والوں کی خیریت لینے کا وقت نہیں ہے، وہ ناراض ہوگیا اور اُسی ناراضگی میں کچھ سالوں بعد باپ کا انتقال ہوگیا۔

ماں پھر ماں ہوتی ہے، وہ آخری وقت تک انتظار کرتی رہی کہ ایک دن اُس کا بیٹا ضرور واپس آئے گا۔ اُس نے مرتے وقت بھی وصیت کردی کہ جب بیٹا آئے تو اُس کی قبر پر ضرور لے آئیں۔

آج اِس واقعے کو تینتیس سال اور چار ماہ ہونے کو آئے ہیں۔ مسٹر صدیقی (کوئی اُن کا پورا نام نہیں جانتا) آج بھی بولنے کی سکت نہیں رکھتے مگر تھوڑا بہت کھا پی سکتے ہیں۔ پچھلے چند ماہ سے اِس سینٹر میں ایک پاکستانی آتا ہے، اُس کا نام شاہد ہے۔ شاہد انہیں دیکھتا تو اسے شک گزرتا کہ یہ پاکستانی ہیں مگر ایک کلین شیو بوڑھے کو دیکھ کر اندازہ لگانا مشکل تھا۔ بول تو وہ سکتے نہیں تھے۔

آج مسٹر شاہد کو ایک ترکیب سوجھی، وہ گھر سے پاکستانی چکن بریانی لے گئے اور مسٹر صدیقی کے سامنے رکھ دی۔

مسٹر صدیقی کے پورے جسم میں صرف آنکھیں بولتی تھیں، آج تو جیسے وہ ابل پڑیں۔ نرس چمچ سے بریانی آہستہ آہستہ منہ میں ڈالتی جاتی مگر اتنے آنسو اس میں مل جاتے کہ اندازہ کرنا مشکل ہوجاتا کہ چمچ میں چاول کی مقدار زیادہ ہے یا آنسوؤں کی۔

یہ آنسو اِس بات کا ثبوت تھے کہ بندہ یا تو پاکستانی ہے یا انڈین۔ شاہد نے مریض کو گلے لگالیا اور دونوں نجانے کتنی دیر تک روتے رہے۔

اگلے چھ ماہ میں شاہد نے سب پتہ لگالیا کہ یہ شخص کون ہے مگر اب تینتیس سالوں بعد فیملی کی تلاش ایک بڑا مسئلہ تھا۔

اُس نے اُن کی تصاویر کھینچ کر فیس بک پر لگادیں۔ دو ہی ہفتوں میں اُن کا مسٹر صدیقی کی گزشتہ بیوی اور بہن سے رابطہ ہوگیا۔

اِس ہفتے مسٹر صدیقی اپنی بہن سے امریکہ کے ایک اسپتال میں ملے۔ نہ کچھ بول سکے اور نہ ہاتھ ہلا سکے، ہاں مگر آنسو تو کم بخت ہیں فالج میں بھی نکل آتے ہیں۔

آج رات شاہد سوچ رہا تھا کہ آدمی غرور و تکبر کس بات کا کرے؟ چلتے ہوئے نظام میں سے قدرت نے ایک آدمی کو بِناء موت کے تینتیس سال کے لیے نکال کر باہر رکھ دیا۔ وہ جو سمجھتا تھا کہ اگر وہ کام نہ کرے تو کھائے گا کہاں سے؟ اُسے بھی بٹھا کر، بلکہ لٹا کر تینتیس سال کھلاتے رہے۔ صرف بندہ اپنے آپ کو دیکھ لے۔ اُن تمام بیماریوں کا اندازہ کرلے جو اپنے جسم میں ساتھ لے کر چلتا ہے اور اُن میں سے کوئی نکل پڑی تو وہ کہیں کا نہیں رہے گا تو غرور و تکبر آنسو بن کر بہہ جاتے ہیں۔‘‘

آخری بات۔۔۔۔۔۔

اس کا مطلب ہرگز ایسا نہیں کہ انسان محنت نہ کرے لیکن ایسی محنت نہ ہو جو آپ کو اللہ سے دُور کردے اور غرور کی طرف لے جائے اور یہ کہنے پہ مجبور کردے کہ جو کچھ آپ کما رہے ہیں وہ آپ کی محنت اور قابلیت کی وجہ سے ہے۔میں جب بھی کسی دُنیا دار آدمی سے ملتا ہوں جو یہ کہتا ہے کہ بندہ کمائے گا نہیں تو کھائے گا کہاں سے؟ تو یقین جانئیے مجھے مسٹر صدیقی رہ رہ کے یاد آجاتے ہیں۔ بس جاتے جاتے ایک ہی گزارش ہے کہ اللہ پاک کی نوازشات کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اس ذاتِ اقدس پر یقینِ کامل اور اُمید کے ساتھ زندگی گزار لیجئیے گا۔ کیونکہ بزرگوں کا کہنا ہے کہ اُمید انسان کو سکون دیتی ہے جبکہ نااُمیدی کفر ہے۔

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستانTagged ,
3347

وسعت اللہ خان کی وسعتیں !!!…………عبد الکریم کریمی

Wosghatullah khan

بی بی سی کے مایۂ ناز صحافی اور مشہورِ زمانہ کالم نگار جناب وسعت اللہ خان کی علمی وسعتوں کا ایک زمانہ معترف ہے۔ اپنی ادبی، علمی اور تاریخی بے لاگ تحریروں کی وجہ سے وہ اپنی ایک انفرادیت رکھتے ہیں۔ زیر نظر تحریر بھی اس سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ پڑھئیے، سوچئیے، تاریخ کا سفر کیجیے اور مثبت سوچوں کو تقویت دیجئیے۔ وسعت اللہ خان لکھتے ہیں:

نویں تا تیرہویں صدی کے چار سو برس منطقی علوم میں مسلمانوں کی فتوحات کا سنہری دور کہلاتے ہیں۔ دسویں صدی کے آغاز سے بارہویں صدی کے خاتمے سے ذرا پہلے تک فاطمی سلطنت تیونس تا یمن اور یمن تا شام پھیلی ہوئی ہے۔ علم و حکمت کا مرکز بغداد دورِ زوال میں داخل ہے اور قاہرہ کے نئے شہر کی بنیاد رکھی جا چکی ہے اور اس میں مشرق کی پہلی جدید یونیورسٹی جامعۃ الازہر مسلمان دنیا کے کونے کونے سے اہلِ تخلیق کو اپنی جانب کھینچ رہی ہے۔ انھی میں ابن الہیثم جیسا ماہرِ فلکیات و طبیعات و ریاضی دان بھی ہے جس نے دوربین کا عدسہ بنا کے روشنی کی رفتار ماپ کر زمین کا دیگر سیاروں سے فاصلہ ماپ لیا ہے۔ اب فاطمی خلیفہ امام الحکیم کی خواہش ہے کہ ابن الہیثم دریائے نیل میں پانی کے سالانہ اخراج کو بھی ماپ دے تا کہ نئی زمینوں کی آبادکاری کی آبی منصوبہ بندی ہو سکے۔

اسی قاہرہ سے بہت دور نصیر الدین طوسی نے ایک ایرانی قصبے مرغہ میں ایسی رصدگاہ بنا لی ہے جہاں چین تک سے سائنسی طلبا نظامِ شمسی کی نپائی کا ہنر سیکھنے آ رہے ہیں۔ نصیر الدین طوسی کی نگرانی میں ان طلبا کے تیار کردہ فلکیاتی شماریاتی چارٹوں میں سے کچھ ہزاروں کلو میٹر پرے اندلس پہنچتے ہیں اور وہیں سے ایک یہودی عالم ابراہام زکوٹو ان کی نقول پرتگال کے شاہ جان دوم کے دربار میں لے جاتا ہے۔ ان شماریاتی چارٹوں کی مدد سے اصطرلاب (قطب نما) ایجاد ہوتا ہے اور اسی اصطرلابی مدد سے واسکوڈی گاما ہندوستان دریافت کر لیتا ہے۔ یوں مشرق کا دروازہ مغرب کے نوآبادیاتی عزائم کے لیے کھل جاتا ہے۔ امریکی خلائی ادارے ناسا نے چاند پر ساٹھ کلومیٹر قطر کے ایک گڑھے کا نام نصیر الدین یونہی نہیں رکھا۔

اور اسی دور میں بلخ میں ابو علی سینا پیدا ہوتا ہے جو جدید طب اور طبیعات کا باپ ہے کہ جس کے ساڑھے چار سو میں سے دو سو ساٹھ مقالات طب و فلسفے اور منطق پر ہیں۔ باقی کام ریاضی، فلکیات، کیمیا، جغرافیہ، ارضیات، نفسیات، فقہہ اور شاعری پر ہے۔ ابنِ سینا وہ دروازہ ہے کہ جس میں سے دورِ تاریک کا یورپ چھلانگ لگا کر دورِ جدیدیت کی جادوئی دنیا میں آن گرتا ہے۔

اور کہیں آس پاس ہی ابو عبداللہ جعفر ابنِ محمد بھی شعر لکھ رہا ہے۔ دنیا اسے رودکی کے نام سے جانتی ہے۔ اس پیدائشی نابینا نے جدید فارسی اور شاعری کی بنیاد رکھی۔ ایک لاکھ سے زائد شعر کہے اور غربت میں مر گیا۔

اور یہیں کہیں عظیم سیاح، فلسفی اور ادیب ناصر خسرو بھی انیس ہزار کلومیٹر کے سفر پر روانہ ہے۔ ہر کوس کا تجربہ اپنی ڈائری میں لکھ رہا ہے۔ (ذرا تصور کیجیے گیارہ سو برس پہلے مشرقِ وسطی کا انیس ہزار کلومیٹر کا سفری دائرہ پا پیادہ۔ ۔ ۔ )۔

اور سائنسی و منطقی سوچ کے انقلابی چلن میں مگن مشرقِ وسطی سے دور ملتان نامی دور دراز علاقے میں کوئی شمس الدین سبزواری دعوت و تبلیغ کا کام کر رہا ہے۔ ابھی بت شکن محمود غزنوی کا ظہور نہیں ہوا۔ ابھی منگولوں کے پاس مسلمان عقلیت پسندی کو گھوڑوں کی ٹاپوں تلے کچلنے میں کچھ وقت ہے اور ابھی اسپین سے بھی مسلمانوں کو بیک بینی دوگوش نکالا جانا ہے اور ابھی جاہل صلیبی غول در غول بچا کھچا مسلمانی علم و حکمت تہہ و بالا کرنے کے بارے میں بس سوچ رہے ہیں۔
آئیے ماضی کو فاسٹ فارورڈ کرتے ہیں۔

بیسویں صدی کے پہلے عشرے میں ابراہیم رحیم ٹلا بمبئی میونسپلٹی کے صدر، دوسرے عشرے میں بمبئی لیجسلیٹو کونسل کے صدر اور تیسرے عشرے میں برٹش انڈیا کی مرکزی لیجسلیٹو کونسل کے صدر بنتے ہیں اور چوتھے عشرے میں دوسری دنیا کے لیے روانہ ہو جاتے ہیں۔ گوکھلے، اینی بیسنٹ اور جناح صاحب کی طرح ابراہیم رحیم ٹلا بھی ہندو مسلم اتحاد کے سفیر شمار ہوئے۔
اور پھر اسی بیسویں صدی کے چوتھے عشرے میں پاکستان بننے سے ایک ماہ پہلے ایک صنعت کار امیر علی فینسی مشرقی افریقہ میں اپنے سارے اثاثے فروخت کر کے پاکستان پہنچتا ہے اور پہلی سرمایہ کاری اسٹیل کے شعبے میں کرتا ہے اور اسی پاکستان کے بائیس امیر صنعتی خاندانوں میں شامل ہوتا ہے اور پھر غروب ہو جاتا ہے۔

اور اسی پاکستان کے بنتے ہی غلام علی الانہ نامی ایک صاحب مسلم لیگ کے فنانس سیکریٹری بنائے جاتے ہیں۔ پھر وہ کراچی کے مئیر کی کرسی پر بیٹھ جاتے ہیں۔ پھر وہ پہلے اسلامک چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی بنیاد رکھتے ہیں۔ پھر اقوامِ متحدہ والے انھیں لے جاتے ہیں اور ان کے ذمے انسانی حقوق کی عالمی نگرانی لگا دیتے ہیں۔ جہاں بھی جاتے ہیں وہاں کی مقامی حکومت انھیں شہر کی طلائی چابی پیش کر دیتی ہے۔ ان شہروں میں سان فرانسسکو، فلاڈیلفیا، بفلو، پیٹرسن، پیرس، روم، جنیوا اور پراگ بھی شامل ہیں۔ اتنی مصروف زندگی میں بھی غلام علی الانہ نے اچھی خاصی انگریزی شاعری کر لی اور درجن بھر کتابیں بھی لکھ ڈالیں اور سن پچاسی میں رخصت بھی ہو گئے۔

اسی دور میں ایک صدر الدین بھی گزرے جو انیس سو چھیاسٹھ سے اٹھتر تک ( بارہ برس ) اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے فلاحِ مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کے سربراہ رہے اور کروڑوں مہاجرین کی دیکھ بھال کے فن کو ایک جدید شکل دی جس کے سبب انیس سو اکہتر میں مشرقی پاکستان کے اندرونی و بیرونی مہاجروں اور بے وطن بہاریوں کو بھی اچھا خاصا سہارا ملا اور پھر یہ تجربہ لاکھوں افغان مہاجرین کی دیکھ بھال کے بھی کام آیا۔ یہ وہی صدرالدین ہیں کہ جن کے بھائی علی خان سن اٹھاون تا ساٹھ اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے سفیر رہے۔ اور اسی اقوامِ متحدہ کے ایک ذیلی ادارے یونیسکو کے پیرس ہیڈ کوارٹر میں اسماعیل گل جی کی بھی پینٹنگ لگی ہوئی ہے۔ گل جی پہلے پاکستانی پینٹر تھے جنھیں حکومتِ پاکستان نے ہلالِ امتیاز کے قابل جانا۔
اور اب تذکرہ کچھ شمالیوں کا۔

یکم نومبر انیس سو سینتالیس کو گلگت بلتستان کو مٹھی بھر سپاہیوں نے پھٹیچر اسلحے کے بل بوتے پر آزاد کروایا۔ ان بے خوفوں کی قیادت کرنل حسن خان اور کیپٹن راجہ بابر خان تو کر ہی رہے تھے مگر ان کے دیگر ساتھیوں میں کیپٹن شاہ خان اور صوبیدار صفی اللہ بیگ بھی شانہ بشانہ تھے۔ باون برس بعد انھی کے نقشِ قدم کو حوالدار لالک جان نے کرگل کے پہاڑوں میں اتنا گہرا کر دیا کہ اپنے ساتھیوں کی جان بچاتے ہوئے شہید ہوگئے اور نشانِ حیدر کی صف میں جگہ پا گئے۔

پہاڑ ہوں اور کسی گلگتی و بلتستانی کا دل نہ مچلے کیسے ممکن ہے۔ اشرف امان کا دل مچلا تو وہ انیس سو ستتر میں کے ٹو کی چوٹی سر کرنے والے پہلے پاکستانی بن گئے۔ اس کارنامے کے تئیس برس بعد نذیر صابر نے پہلے کے ٹو سر کی اور پھر دنیا کی سب سے اونچی چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ پر پہلا پاکستانی جھنڈا گاڑ دیا۔ اس کارنامے کے تیرہ برس بعد ثمینہ بیگ پہلی پاکستانی لڑکی بن گئی جو ماؤنٹ ایورسٹ پر جا پہنچی۔
(ثمینہ کے ساتھ دو بھارتی لڑکیاں تاشی اور ننگاشی ملک بھی تھیں۔ یوں بھارتی ترنگا اور پاکستانی سبزہ پہلی بار ایک ساتھ ماؤنٹ ایورسٹ پر ایک عام جنوبی ایشیائی انسان کی دو طرفہ خواہشِ امن کا مشترکہ استعارہ ہو گیا)۔

بھارت کا تذکرہ آیا تو لگے ہاتھوں بھارت کے سب سے امیر مسلمان، سب سے بڑے سافٹ وئیر ساز اور مخیر عظیم پریم جی کی بھی بات ہو جائے کہ جس نے اپنے پندرہ ارب ڈالر کے اثاثے کا بیشتر حصہ فلاحِ عام کے لیے وقف کر دیا۔

مگر ان سب شخصیات میں قدرِ مشترک کیا ہے۔ یہ بھان متی کا کنبہ میں کیوں جوڑ رہا ہوں۔ بات بس اتنی سی ہے کہ یہ سب اسماعیلی ہیں۔
(کچھ اور نابغہِ روزگار بھی اس مضمون کا حصہ ہونے چاہئیں۔ مگر اس وقت مجھے ان کے ناموں سے زیادہ ان کی جان عزیز ہے)۔

اور یاد آیا کہ ایک اسماعیلی آغا خان سوم بھی تو تھے جو مسلم لیگ کے بانیوں میں شمار ہوتے ہیں اور جنہوں نے وہ تمام سونا اور جواہرات تعلیم پر لٹا دیے کہ جس میں انھیں دنیا کے مختلف علاقوں میں بارہا تولا گیا تھا۔ اس کرامت کا زندہ پھل شمالی علاقہ جات ہیں جہاں عمومی خواندگی پچھتر فیصد اور اسی علاقے کی سابق ریاست ہنزہ میں پچانوے فیصد تک ہے۔ اور انھی آغا خان سوم کے پوتے نے پچھلے ستاون برس سے ایشیا تا افریقہ اور یورپ تا امریکا تعلیم، صحت اور مسلم فنِ تعمیر کے احیا کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔

ہاں ایک اور اسماعیلی بھی تو تھے جو بعد میں اثنا عشری ہو گئے اور پھر کئی علما نے انھیں ایک علیحدہ مسلمان ریاست کے قیام کی جدو جہد کے عین عروج کے دوران کافرِ اعظم بنا ڈالا اور پھر یہی علما اور ان کے وارث اسی ’’غیر شرعی‘‘ ملک کے مامے بن گئے۔

(ان میں سے شاید کسی نے سن دو ہزار پانچ کے اعلانِ نامہِ عمان کا تذکرہ سنا ہو۔ یہ اعلان نامہ اردن کے شاہ عبداللہ بن حسین کی دعوت پر پچاس مسلمان ممالک کے لگ بھگ ڈھائی سو علما اور اسکالرز نے تین دن کے بحث مباحثے کے بعد تیار کیا۔ اس اعلان نامے میں جن فقہی اسکولوں کو تسلیم کیا گیا جن کے ماننے والے دائرہِ اسلام سے خارج نہیں ہو سکتے۔ ان فقہی اسکولوں میں جعفریہ اور زیدیہ فقہ بھی شامل ہیں۔ پرنس کریم آغا خان نے اس موقع پر وضاحت کی کہ ان کا فرقہ جعفریہ فقہہ کا حصہ ہے اور دیگر تمام فقہوں کی صوفیانہ تعلیمات و روایات کو بھی تسلیم کرتا ہے)۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
3206

گرل فرینڈ کی جینز اور بیوی کا دوپٹہ………کریمی

’’پسند تو آپ کو جینز والی ماڈرن لڑکی بھی ہے تو کیوں اپنی بیوی سے نہیں کہتے کہ وہ آپ کی پسند کی خاطر جینز پہنا کرے وہی لائف سٹائل اپنائے جسے آپ باہر سراہتے پھر رہے ہیں، مگر آپ ایسا کریں گے تو آپ کی وہ غیرت جو بیوی کے دوپٹے کے ساتھ جڑی ہے اس کا کیا ہو گا؟ ‘‘ثنا نقوی کی یہ تحریر ایک تلخ حقیقت کی ترجمانی  ہے۔  پڑھئیے اور مثبت سوچوں کو تقویت دیجئیے گا۔  وہ  لکھتی ہیں:

’’کسی ادیب نے خوب کہا ہے کہ مرد کو عورت کی صفات سے کوئی غرض نہیں اسے تو بس اس کا سراپا متاثر کرتا ہے وہ بیچاری خود کو سنوارتی نہ پھرے تو اور کیا کرے۔ بات تو بڑی پتے کی ہے اور روپ سنگھار اتارا بھی عورت کے لئے گیا اس کا حق بھی ہے مگر بات کریں مرد کی پسند نا پسند کی تو اس کا معیار یا پسند نا پسند کا پیمانہ گھر کی عورت اور باہر کی عورت کے لئے ہمیشہ مختلف ہی ہوتا ہے۔

Dopata

مغربی حلیے میں کھلے بالوں کے ساتھ کوئی برانڈڈ سن گلاسس لگائے سڑکوں پر تیز رفتار گاڑی دوڑاتی عور ت مرد کو بہت متاثر کرتی ہے بشرطیکہ وہ اس کے گھر کی عورت نہ ہو۔ گرل فرینڈ اگر فون پر بات کرنے، باہر ملنے سے کترائے تو وقتی لبرل مرد جو آزاد سوچ کو گھر کی دہلیز سے باہر چھوڑ کرآتا ہے اسے قائل کرنے کے لئے طرح طرح کے دلائل پیش کرتا ہے کہ اس میں غلط ہی کیا ہے؟ آج کل تو یہ باتیں عام ہیں، باہر ملنے، کھانا کھانے میں کوئی مضائقہ نہیں اور اگر غلطی سے گھر کی کوئی لڑکی کسی ایسے کام میں شریک پائی جائے تو موسمی لبرل مردوں کی غیرت ابال کھانے لگتی ہے۔

اگر آپ کو لگتا ہے کہ عورت کی مردوں کے ساتھ دوستی باہر گھومنا پھرنا سب غلط ہے تو یہ ان عورتوں کے لئے غلط کیوں نہیں جن کو آپ آزاد سوچ، آزادی اور ان کے بنیادی حقوق کا لیکچردے رہے ہوتے ہیں؟ کیا آپ نے کبھی ان کویہ باتیں سمجھانے کی کوشش کی کہ آپ کی وجہ سے ان کے ماں باپ کی عزت داؤ پر لگی ہے۔ آپ روز ان کو پک اینڈ ڈراپ کریں گے کسی نے دیکھ لیا تو کیا کہے گا؟ ان کا کردار مشکوک ہو جائے گا، ان سے شادی کون کرے گا؟ نہیں نہیں، ان سے آپ یہ سب باتیں کیوں کہیں گے؟

یہ سب باتیں تو ان خواتین سے کہنے کی ہیں نا جو آپ کے گھر میں موجود آپ کی سوچ کے آگے سر خم تسلیم کرنے پر مجبور ہیں۔ جن کے خواب آپ کی غیرت کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں اور وہ آپ کے گھر عورت تھوڑی ہے، ہاں آپ نے اس کو گھر کی عورت بنانے کے خواب ضرور دکھائے ہوں گے، مگر المیہ تو یہ ہے کہ وہ عورت جو آپ کی وقتی محبت میں جلد گرفتار ہو جاتی وہ جانتی نہیں کہ شادی تو آپ اس سے کریں گے جسے آپ غیرت کا شوپیس بنا کر گھر کے کسی کونے میں سجا سکیں جسے ہر آنے جانے والا سراہتا رہے۔

پسند تو آپ کو جینز والی ماڈرن لڑکی بھی ہے تو کیوں اپنی بیوی سے نہیں کہتے کہ وہ آپ کی پسند کی خاطر جینز پہنا کرے وہی لائف سٹائل اپنائے جسے آپ باہر سراہتے پھر رہے ہیں، مگر آپ ایسا کریں گے تو آپ کی وہ غیرت جو بیوی کے دوپٹے کے ساتھ جڑی ہے اس کا کیا ہو گا؟

آخر یہ دوہرا معیار کیوں؟ عورت تو عورت ہے آپ کے گھر کی نہ سہی کسی کے گھر کی تو ہے اور وہ جن سے آپ اپنی عورتوں کومحفوظ رکھنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہوتے ہیں وہ آپ خود ہی تو ہیں یہی سوچ یہی دوہرا معیار ہی تو ہے۔‘‘

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
1595

کپاس کے پھول……….…کریمی

’’معصوم سات سالہ رجو اپنے ماں باپ کی لاڈلی، گھر بھر کو اپنی پیاری باتوں سے خوش رکھتی۔ وہ اپنی ماں کے ساتھ کھیتوں میں سے گزرتے ہوئے بے تحاشہ سوال کرتی، ماں یہ ٹیوب ویل سے پانی کیسے آتا ہے؟ یہ پودے اتنی جلدی کیسے بڑے ہوتے ہیں؟ درختوں پر پھل کیسے لگتے ہیں؟ پرندے کیسے اڑتے ہیں؟ ماں اس پر پیار بھری نظر ڈال کر خوش ہوتی اور کہتی یہ رب سوہنے کا کرم ہے۔ اس کا غریب باپ کسان تھا زمیندار کے کھیتوں میں کام کرتا اور جیسے تیسے گھر کا خرچ چلاتا اکثر تو ایک وقت کا کا کھانا ہی ملتا لیکن پھر بھی خدا کا شکر ادا کرکے دوسرے دن کام پر نکل جاتا۔

اماں میرا کرتا جگہ جگہ پھٹ گیا ہے تو کب بنا کر دے گی۔ اماں کہتی ابا کپڑا لا کر دے گا تو سی دوں گی۔ ماں سے بڑے بھولے پن سے کہتی اماں کپڑا کہاں سے آتا ہے ماں کہتی کپڑا کپاس سے بنتا ہے اب سیزن شروع ہونے والا ہے ہم کپاس چننے جائیں گے پھر یہ صاف ہو کر دھاگہ بنے گا پھر کپڑا تیار ہوگا۔ ننھی رجو بہت خوش ہوئی کیونکہ وہ کپڑے کا راز جان گئی تھی۔

Shahana javed

اس دن وہ چپکے سے ماں کی نظر بچا کر زمیندار کے کپاس کے کھیتوں کی طرف نکل گئی آج اس نے سوچ لیا تھا کہ وہ کپاس کے پھول توڑ کر لائے گی اور اپنے کرتے کے لیے کپڑا بنائے گی، ننھی سی بچی اتنی بڑی سوچ کے ساتھ کھیت میں چپکے سے داخل ہوئی چاروں طرف سناٹا تھا اس نے اپنی میلی سی چنری کو پھیلا کر اس میں کپاس کے چند پھول توڑ کر ڈالے اور سوچنے لگی اماں نے یہ تو بتایا ہی نہیں کتنے کپاس کے پھول میرے کرتے کے کپڑے کے لیے چاہیے ہیں ابھی وہ اپنی معصوم سوچوں سے لڑہی رہی تھی کہ اس پر چاروں طرف سے کتوں نے حملہ کردیا، ہش ٹامی پکڑ چور لڑکی ہے پکڑ زمیندار کی آواز اس کے کانوں میں آئی وہ چیخنے لگی نہیں میں چور نہیں میں کپڑا بناؤں گی لیکن کتوں نے اسے بھنبھوڑنا شروع کردیا اور زمیندار کے قہقہے گونجنے لگے، معصوم بچی کی چیخیں آسمان سے باتیں کررہی تھیں اور خبیث زمیندار اپنے کتوں کو شاباش دے رہا تھا، گاؤں والے جمع ہو گئے سب رحم کی اپیل کررہے تھے، زمیندار صاحب چھوڑ دو معصوم بچی ہے رحم کرو، زمیندار دہاڑا ان کمیوں کی یہی سزا ہے کپاس چوری کرتی ہے۔ زخمی بچی خون میں نہا کر بے ہوش ہو چکی تھی ارے آپ اتنے غور سے پڑھ رہے ہیں کیا! آپ سمجھے کوئی افسانہ ہے یا میں کہانی بیان کررہی ہوں نہیں جناب یہ ہمارے ملک پاکستان میں جنوبی پنجاب کے شہر مظفر گڑھ کا واقعہ ہے، حیرت نہ کریں۔

مقامی اخبار کے مطابق کپاس چوری کے شبے میں مظفر گڑھ با اثر زمیندار نے درندگی کی انتہا کردی۔ بچی نے صرف کپاس کے چند پھول توڑے تھے، زمیندار نے سات سالہ بچی پر کتے چھوڑ دیے خونخوار کتے بچی کو نوچتے رہے بے رحم زمیندار کو ذرا بھی ترس نہیں آیا، مرصوم بچی چیخیں مار مار کر رحم کی اپیل کرتی رہی تاہم بھیڑیا نما انسان تماشہ دیکھتا رہا۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق حالت نازک ہونے پر مقامی لوگوں نے ننھی کلی کو سول ہسپتال منتقل کیا جہاں اس کا علاج جاری ہے جرم صرف کپاس کے چند پھول توڑنا تھا۔

ظلم کی انتہاء سات سالہ بچی پر کتے چھوڑنے پر ذرا رحم نہ آیا، یہ کیا ہو رہا ہے کو ئی اس طرح ظلم کرنے والوں کو پوچھتا کیوں نہیں انھیں سزا کیوں نہیں دیتا۔ وحشت اور درندگی کی مثال قائم کردی زمیندار نے لیکن کون روکے یہ تو بہت چھوٹا واقعہ ہے یہاں تو اس طرح کے واقعات تو روز ہوتے رہتے ہیں جو رونگٹے کھڑے کردیتے ہیں۔ آپ سوچیں سات سال کی معصوم بچی کپاس کے چند پھول توڑنے پر معتوب ٹہری اور ہسپتال میں موت وزندگی کی کشمکش سے گزر رہی ہےمر بھی گئی تو کون پوچھنے والا ہے۔

یہ ظلم نہ روکے گئے تو یہ بڑھتے بڑھتے ہمارے دامن تک بھی پہنچ جائیں گے۔ قانون کے محافظ کہاں ہیں، اس ملک میں ایسے جرائم کے لیے کوئی پکڑ ہے کوئی قانون ہے یا نہیں۔ انسانی حقوق ہیں یا وہ بھی ختم ہو گئے ہیں۔ اس واقعہ کو انسانی حقوق کی تنظیم اچھالے گی یا اس کا سدباب کا سوچے گی تو قانون کے محافظ اسے پاکستان کی بےعزتی قرار دین گے، حالانکہ جب وہ کچھ کرنے کے قابل نہیں تو انسانی حقوق کی تنظیمیں ایسے واقعات کو ہوا دیں گی۔ براہ مہربانی قانون کی حکمرانی قائم کیجئے اور بے بسوں بے کسوں کو انصاف فراہم کیجئے ورنہ مملکت خداداد پاکستان میں خدا کی لاٹھی کب تک بے آواز رہے گی اور جب خدا حساب لے گا تو قہر خداوندی نازل ہوگا اور سب کچھ ختم ہو جائے گا سدھر جاؤ اس سے پہلے کہ؎

سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا

جب لاد چلے گا بنجارہ‘‘

کبھی کبھی کچھ تحریریں ایسی ہوتی ہیں کہ جن کو پڑھ کر دھاڑیں مارکر رونے کو دل کرتا ہے۔ احساس کے جھروکوں سے جھانکتی ہوئی شاہانہ جاوید صاحبہ کی یہ تحریر بھی اسی زمرے میں آتی ہے۔ شاہانہ صاحبہ بہت داد، بہت تحسین۔ ہم تو صرف اتنا کہہ سکتے ہیں؎

’’اللہ کرے حُسنِ بیاں اور زیادہ‘‘

اس دُعا کے ساتھ اجازت کہ اللہ پاک ظالموں کو نشانِ عبرت بنائے۔ آمین!

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
1558

صحنِ کریمی کے پھول اور خدا بخش سے مکالمہ………. کریمی

کبھی کبھی انسان کئی کتابیں پڑھنے کے بعد بھی کچھ حقیقتوں کو سمجھنے سے قاصر رہتا ہے یہی کل کی بات ہے میں نے فجر کی نماز سے واپسی پر خدا بخش انکل (ایک وفادار ملازم) کو صحنِ میں موجود پایا جو پودوں کو پانی دے رہا تھا۔ موسم ابرآلود تھا ہلکی ہلکی بوندیں بدن کو گدگدا رہی تھیں۔ ماحول میں ایک سرشاری تھی۔ ایک کِھلا کِھلا احساس تھا۔ پھولوں کی مہک سے ایک عجیب سرشاری طاری ہو رہی تھی۔ نظر کے سامنے صحنِ کریمی کے پھول اور سبزہ ایک نئی تازگی کا احساس دلا رہے تھے۔ میں خدا بخش سے بے نیاز ایک پھول کو قریب سے سونکھنے میں مصروف تھا۔ خدا بخش قریب آئے سلام کے بعد کہنے لگے۔ ’’سر! آپ کو پھول بہت پسند ہیں نا؟ کیونکہ کِھلتے ہوئے پھولوں کو دیکھ کر انسان خود پوری طرح کِھل جاتا ہے، سارے دُکھ، ساری تکلیفوں کے باوجود اپنی منزل تک پہنچنے کی اس کی تمنا دُگنی ہوجاتی ہے۔‘‘ میں نے کہا ’’خدا بخش! ہاں ایک زمانہ تھا کہ پھول مجھے بہت پسند تھےاور ان کتابی باتوں پر میں بھی آپ کی طرح یقین کرتا تھا، شاید تب تک زندگی نے مجھے کچھ سکھایا ہی نہیں تھا، پر اب میں جان گیا ہوں کہ پھول جتنے بھی خوبصورت کیوں نہ ہوں، انہیں مرجھانا ہی پڑتا ہے۔‘‘ مگر سر! خدا بخش نے میری بات کاٹتے ہوئے کہا ’’مرجھانے سے پہلے وہ اپنی خوشبو دوسروں کو دے جاتے ہیں۔ آپ بھی سوچئے سر! اگر مُرجھانے کے ڈر سے پھول کھلنا بند کر دے تو شاید یہ دُنیا اتنی خوبصورت نہیں ہوتی۔‘‘

میں حیرت میں ڈوبے خدا بخش کو دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ خدا بخش جو انگوٹھا چھاپ ہیں بھلا اتنی بڑی فلسفیانہ بات کیسے کہہ گئے۔ مجھے تو خود پہ ناز تھا کتابیں پڑھنے کا اور لکھنے کا۔ لیکن میں سمجھ نہیں رہا تھا آج خدا بخش کے اس ایک جملے نے گویا مجھے بہت کچھ سمجھا دیا تھا کہ اگر مُرجھانے کے ڈر سے پھول کھلنا بند کر دے تو شاید یہ دُنیا اتنی خوبصورت نہیں ہوتی۔

باکل زندگی کی نعمتوں کے حوالے سے ہمارا رویہ ایسا ہے جو ہمارے پاس ہے اس کا شکر نہیں کرتے جو نہیں ہے اس کے لیے روتے رہتے ہیں۔ ہمیں ڈر لگتا ہے کہ ہم سوسائٹی میں اپنا رکھ رکھاؤ کیسے برقرار رکھے۔ اس لیے ہم ٹینشن کا شکار ہوتے ہیں کچھ حاصل کرنے کے لیے ہر جائز نا جائز طریقہ ڈھونڈ لیتے ہیں۔ جب وہ چیز حاصل ہوتی ہے تو پھر کسی اور چیز کے لیے دوڑ دھوپ۔۔۔۔۔۔ ارے میاں! غالب نے سچ ہی کہا تھا؎

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے

بہت نکلے میرے ارمان پھر بھی کم نکلے

ہمیں شاید قانون نمبر ننانوے کا نہیں پتہ۔ آئیے ایک واقعہ آپ کو سناتے ہیں۔ گئے وقتوں کی بات ہے۔ کہتے ہیں بادشاہِ وقت نے اپنے وزیرِ خاص سے پوچھا ’’یہ میرے نوکر مجھ سے زیادہ کیسے خوش باش پھرتے ہیں۔ جبکہ ان کے پاس کچھ نہیں اور میرے پاس کمی کسی چیز کی نہیں۔ پھر بھی میں خوش نہیں ہوں۔‘‘ وزیر نے کہا ’’بادشاہ سلامت! اپنے کسی خادم پر قانون نمبر ننانوے کا استعمال کرکے دیکھیئے۔‘‘ بادشاہ نے پوچھا ’’اچھا، یہ قانون نمبر ننانوے کیا ہوتا ہے؟‘‘ وزیر نے کہا ’’بادشاہ سلامت، ایک صراحی میں ننانوے درہم ڈال کر، صراحی پر لکھیئے اس میں تمہارے لیے سو درہم ہدیہ ہے، رات کو کسی خادم کے گھر کے دروازے کے سامنے رکھ کر دروازہ کھٹکھٹا کر اِدھر اُدھر چُھپ جائیے اور تماشہ دیکھ لیجیئے۔‘‘ بادشاہ نے، جیسے وزیر نے سمجھایا تھا، ویسے کیا، صراحی رکھنے والے نے دروازہ کھٹکھٹایا اور چُھپ کر تماشہ دیکھنا شروع کر دیا۔ اندر سے خادم نکلا، صراحی اٹھائی اور گھر چلا گیا۔ درہم گنے تو ننانوے نکلے، جبکہ صراحی پر لکھا سو درہم تھا۔ سوچا یقیناً ایک درہم کہیں باہر گر پڑا ہوگا۔ خادم اور اس کے سارے گھر والے باہر نکلے اور درہم کی تلاش شروع کر دی۔ ان کی ساری رات اسی تلاش میں گزر گئی۔ خادم کا غصہ دیدنی تھا، کچھ رات صبر اور باقی کی رات بک بک اور جھک جھک میں گزری۔ خادم نے اپنے بیوی بچوں کو سست بھی کہا کیونکہ وہ درہم تلاش کرنے میں ناکام جو ٹھہرے تھے۔ دوسرے دن یہ ملازم محل میں کام کرنے کے لیے گیا تو اس کا مزاج مکدر، آنکھوں سے جگراتے، کام سے جھنجھلاہٹ، شکل پر افسردگی عیاں تھی۔ بادشاہ سمجھ گیا کہ ننانوے کا قانون کیا ہوا کرتا ہے۔ کیونکہ یہ ملازم ننانوے نعمتوں پر خوش ہونے کے بجائے ایک نعمت کی کمی پر پریشان تھا۔

لوگ ان ننانوے نعمتوں کو بھول جاتے ہیں جو الله تبارک و تعالیٰ نے انہیں عطا فرمائی ہوتی ہیں اور ساری زندگی اس ایک نعمت کے حصول میں سر گرداں رہ کر گزار دیتے ہیں جو انہیں نہیں ملی ہوتی۔ اور یہ والی رہ گئی نعمت بھی الله کی کسی حکمت کی وجہ سے رُکی ہوئی ہوتی ہے جسے عطا کر دینا الله کے لیے بڑا کام نہیں ہوا کرتا۔ لوگ اپنی اسی ایک مفقود نعمت کے لیے سرگرداں رہ کر اپنے پاس موجود ننانوے نعمتوں کی لذتوں سے محروم مزاجوں کو مکدر کرکے جیتے ہیں۔ اپنی ننانوے مل چکی نعمتوں پر الله تبارک و تعالٰی کا احسان مانیئے اور ان سے مستفید ہو کر شکرگزار بندے بن کر رہیئے تو زندگی بہت خوبصورت گزرے گی۔

خدا بخش سے اگر مکالمہ نہ ہوتا تو شاید یہ ساری باتیں نہ ہوتیں۔ خدا بخش تمہارا شکریہ۔

Karimi

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
1052

میری جاں! آج پھر بائیس اکتوبر ہے………..عبد الکریم کریمی

میری جاں! آج پھر بائیس اکتوبر ہے

(شادی کی چوتھی سالگرہ پرسوسن کے ساتھ کچھ یاتیں، کچھ یادیں)

کبھی کبھی مذاق مستی میں کہی گئی باتیں بھی بارگاہِ ایزدی میں قبول ہوتی ہیں۔ شاید وہ وقت قبولیت کا ہوتا ہے۔ گئے وقتوں کی بات ہےمیں اکثر اپنے دوستوں کی محفل میں کہا کرتا تھا کہ آخر بیوی ایسی ہونی چاہئیے کہ آپ گھر سے دفتر کی طرف نکلے تو وہ باہر گیٹ تک آکے پُرنم آنکھوں سے آپ کو رخصت کرے، پھر واپسی پر گیٹ پہ آپ کی منتظر ہو، آپ کا لیپ ٹاپ اٹھائے آپ کے ساتھ چلتے ہوئے ڈائننگ ہال تک آئے، آپ کی جرابیں اُتاریں، فوراً آپ کو پانی کا گلاس پیش کرے اور پوچھے ’’زندگی! آفس میں دن کیسا گزرا؟ مجھے تو آپ کے بغیر ایک ایک لمحہ کاٹنا مشکل ہورہاتھا۔‘‘ پھر آپ کو فریش ہونے کا کہہ کر خود کیچن کی طرف جائے تاکہ آپ کے لیے کھانے پینے کا بندوبست کرسکیں۔ آخر ہوم منسٹر جو ٹھہری۔ میری یہ باتیں سن کر دوست زبردست قہقہے لگاتے اور طنزیہ کہتے ’’اسکالر صاحب! لوگ رات کو خواب دیکھا کرتے ہیں آپ دن کو جاگتی آنکھوں کے ساتھ خواب دیکھتے ہیں۔ کم از کم آپ کے اس خواب کی تعبیر اس زمانے میں ممکن نہیں۔ موم بتی مافیا اور خصوصاً خواتین کے حقوق کی نام نہاد تنظیمیں اس خواب کی تعبیر میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ آج ہر پڑھی لکھی لڑکی کو یہ کہہ کر اُس سے اُس کی نسوانیت چھینی جاتی ہے کہ آپ مرد سے کسی بھی طرح کم نہیں ہیں۔ اپنے حقوق کے لیے آخری حد تک لڑو چاہے اس کا انجام شوہر سے علیحدگی ہی کیوں نہ ہو۔‘‘ میں ایک دم ان کی بات کاٹ دیتا اور کہتا آپ کی ہر بات معقول لیکن ہر لڑکی ایسی نہیں ہوتی۔ ہم کیوں جرنیلائز کرتے ہیں۔ جس طرح سارے مرد ایک جیسے نہیں اسی طرح ساری عورتیں بھی ایک جیسی نہیں ہوتیں۔ بات صرف خاندانی تربیت کی ہوتی ہے اعلیٰ خاندانوں کی خواتین ہوں یا مرد، ان کو موم بتی مافیا اور نام نہاد تنظیموں سے نہیں گھر سے تربیت ملتی ہے کہ گھر والوں کے کیا حقوق ہوتے ہیں۔ اس لیے ان کی زندگی خوشیوں سے بھرپور ہوتی ہے۔ جبکہ جن کو گھروں سے تربیت نہیں ملتی وہ لڑکے ہوں یا لڑکیاں موم بتی مافیا کا شکار ہوتے ہیں پھر یہ سوشل میڈیا پر طوفان برپا کردیتے ہیں اور جہاں لڑکیاں مردوں کو درندے ثابت کرنے کی تگ و دو کرتی ہیں تو وہاں لڑکے بھی گھر سے باہر نکلی ہوئی ہر لڑکی کو شمعِ محفل، بدکردار اور پتہ نہیں کن کن القابات سے نوازتے ہیں۔ یہ بات تو طے ہے کہ ہر کوئی اپنے تجربے کی بنیاد پر بات کرتا ہے۔ میں ایسی بہت ساری خواتین کو جانتا ہوں جن کے شوہر اچھے نہیں ہیں اور بہت سے ایسے مردوں کو جانتا ہوں جن کی بیویاں اچھی نہیں ہیں۔ اب آپ ان افیکٹٹ خواتین سے مردوں کے بارے میں پوچھے تو ان کی نظر میں پوری دُنیا کے مرد درندے ہیں اور ان مردوں سے پوچھے تو ان کی نظر میں دُنیا کی ساری عورتیں بدچلن ہیں۔ اب ان عقل کے اندھوں کو کون سمجھائے کہ آپ کی بیوی یا آپ کا شوہر اچھا نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ دُنیا کی ساری خواتین اور سارے مرد اچھے نہیں ہیں اور آپ کو کس نے یہ ٹھیکہ دیا ہے کہ آپ اپنے گھر کے ماحول کو سامنے رکھ کر پوری دُنیا کے لیے رائے قائم کریں۔ آپ کے گھر میں مسلہ ہے تو آپ اپنا گھر ٹھیک کریں ٹھیکیداری چھوڑ دیں۔ سو، مسلہ دونوں طرف ہے۔ اس کی وجہ خاندانی تربیت اور دینی اقدار سے دُوری ہے۔ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جہاں خواتین کو مخاطب کرکے فرمایا ’’اگر سجدہ خدا کے علاوہ کسی کو جائز ہوتا تو میں عورت سے کہتا کہ وہ اپنے مجازی خدا (شوہر) کو سجدہ کرے۔‘‘ تو وہاں مردوں کو بھی نہیں بخشا۔ آپؐ نے فرمایا ’’اپنی بیویوں کے ساتھ صلہ رحمی کا معاملہ رکھو اور ان کے حقوق کا خیال رکھو۔‘‘

ایسی دلچسپ بحث دوستوں کے ساتھ ہوتی رہتی تھی۔ خیر وقت کی دُھول میں زندگی گزرتی رہی۔ اس دوران کئی لوگ زندگی میں آئے اور گئے۔ میرا ایک زیرِ طبع ناول ’’رانی سے کہانی تک‘‘ تک انہی یادوں کے گرد گھومتا ہے کہ جس کو آپ اپنی زندگی کی رانی بنانا چاہتے ہوں اور وہ اس قدر موم بتی مافیا کا شکار ہوجاتی ہے کہ وہ آپ کی زندگی کی رانی تو نہیں بن سکتی لیکن آپ کے ساتھ بیتی ہوئی یادوں کی ایک دلچسپ کہانی ضرور بنتی ہے۔

یہ بات جملۂ معترضہ کے طور پر آئی۔ آمد برسرِمطلب۔ آج بائیس اکتوبر ہے۔ ہاں یہی کوئی چار سال پہلے کی بات ہے یہی بائیس اکتوبر کا دن ہی تھا جب میں اور سوزی (میں سوسن کو سوزی کے نام سے پکارتا ہوں۔) ایک ہوئے تھے۔ شادی کے کچھ دن بعد مذکورہ بالا دوستوں سے ایک دفعہ پھر آمنا سامنا ہوا تو بڑی دلچسپ بحث ہوئی تھی۔ جلے کٹے لہجے میں پوچھا گیا تھا ’’اسکالر صاحب! خواب کی تعبیر کیسی رہی؟ یقیناً تعبیر اُلٹ رہی ہوگی۔ آخر بھابھی ایم اے انگلش اور ہنزہ جیسی ماڈرن علاقے کی دُختر نیک اختر بھلا آپ کی جرابیں کیسے اُتارے گی۔ گیٹ تک الوداع کرنے کیسے آئے گی اور وہ بھی پُرنم آنکھوں کے ساتھ؟ بھائی جان! خواب، خواب ہی اچھے لگتے ہیں تعبیر پہ پریشان مت ہوئیے گا۔‘‘

جس پر میں بہت ہنسا تھا۔ دوستوں کی ان جلی کٹی باتوں کے جواب میں میری ہنسی خلافِ توقع تھی۔ میں نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ میں پہلے بھی کہا کرتا تھا کہ ہم جرنیلائز کرتے ہیں۔ سب کو ایک نظر سے دیکھتے ہیں۔ میں نے جو سوچا تھا سوزی تو میری سوچ سےبھی کئی گنا بڑھ کے نکلی تھی۔ میری تو خواہش تھی کہ میری شریکۂ حیات گیٹ تک آکے مجھے الواداع کہہ دے سوزی تو گیٹ سے بھی باہر آکے جب تک مجھے گاڑی میں نہیں بٹھاتی، چین سے نہیں بیٹھی۔ ابھی جبکہ سوزی دُلہن سوٹ میں ملبوس تھی، مہندی کا کلر بھی پھیکا نہیں پڑ گیا تھا اورکھنکتی چوڑیوں اور پائل کے ساتھ اس کو گھر میں آئے ہوئے مہمانوں کے ساتھ بیٹھنا چاہئیے تھا لیکن ان کو مہمانوں کی کیا پروا، جونہی آفس میں میری چھٹی کا ٹائم ہوتا ان کی کئی کالیں آتی ہیں کہ کہاں پہنچے؟ وہ گیٹ تک نہیں کھنکتی چوڑیوں اور پائل کے ساتھ گیٹ کے باہر آکے میرا بیگ اٹھاتی ہے۔ وہ صرف میرے کھانے پینے کا انتظام نہیں کرتی بلکہ جب تک میں گھر نہ پہنچوں وہ خود بھی کھانا نہیں کھاتی ہے۔ سوزی کا کہنا ہے کہ آخر مجازی خدا کے بغیر کھانے کا لقمہ حلق سے کیسے اُتارے۔

یہ تو تب کی بات ہے جب وہ نئی نئی دُلہن بنی تھی۔ نیا ارمان، نئی خواہشات اور کچھ نیا کرنے کی جستجو۔ بھیا! اب تو چار سال گزر گئے ہیں۔ دو بچوں کے پالنے کی ذمہ داری آسان تھوڑی ہے۔ محبت میں کمی آنی چاہئیے تھی لیکن نہیں۔ سوزی نے کچھ دن پہلے فون پہ بتایا کہ’’زندگی! (وہ مجھے اکثر زندگی کہہ کے پکارتی ہے۔) کچھ یاد ہے بائیس اکتوبر کو ہماری شادی کی سالگرہ ہے۔ آؤگے نا؟ میں نے کہا سوزی یہ کیا بات ہوئی میں کیسے بھول سکتا ہوں۔ میں ضرور آجاؤں گا۔ اور پتہ ہے کل شام گاہکوچ میں اپنی ہزار مصروفیات کو پسِ پشت ڈال کر میں سوئے گلگت روانہ ہوا تھا۔ گلگت بازار سے سوزی کے لیے گفٹ اور سالگرہ کا کیک لے کر جب میں سونیکوٹ پہنچا تو سوزی آشا اور اذین کا ہاتھ تھامے گیٹ پہ میری راہ تک رہی تھی۔

اب بھی جب میں ویک اینڈ پہ گلگت جاتا ہوں تو واپسی پر ان کی بڑی بڑی آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو رقص کرتے ہیں گویا میں گاہکوچ آفس نہیں آرہا سیاچن محاذ پہ جنگ لڑنے جا رہا ہوں اور دوبارہ ملاقات شاید ممکن نہ ہو۔ ایسے میں مجھے مجبوراً کہنا پڑتا ہے ’’سوزی! بس بھی کرو، حد کر دی۔‘‘

کل اکیس اکتوبر کی شام کو ہم نے اپنی شادی کی چوتھی سالگرہ منائی۔ ہمیں بائیس کو منانی چاہئیے تھی لیکن بائیس کو کسی کانفرنس میں مجھےشرکت کرنی تھی۔ سو ہم نےاکیس کی شام کو بچوں کے ساتھ کیک کاٹا۔ بچے تو بچے ہوتے ہیں کیک کھا کے اور کچھ شرارتوں کے بعد نیند کی آغوش میں چلے گئے۔ اب میں اور سوزی رہ گئے تھے۔ کوئی اور تھا تو بس سونیکوٹ کی رات تھی۔ رات بارہ بج چکے تھے ہمیں جاگ کے اپنی سالگرہ کا استقبال کرنا تھا۔ سوزی کے ہاتھوں کی بنی ادرک والی چائے ایک دفعہ پھر میرے ہونٹوں کو حلاوت بخش رہی تھی۔ میں نے سوزی کو مخاطب کیا تھا ’’سوزی ایک پڑھی لکھی لڑکی ہونے کی حیثیت سے مرد کو کس نظر سے دیکھتی ہیں؟‘‘ سوزی نے مختصر جواب دیا تھا ’’مجھے اچھا لگتا ہے۔‘‘ میں نے فوراً کہا تھا کیا اچھا لگتا ہے؟ پھر گویا سوزی نے ایک داستان گو کا روپ دھار لیا تھا۔ کہنے لگیں۔ ’’مجھے اچھا لگتا ہے مرد سے مقابلہ نہ کرنا اور اس سے ایک درجہ کمزور رہنا۔ مجھے اچھا لگتا ہے جب کہیں باہر جاتے ہوئے میرا مجازی خدا مجھ سے کہتا ہے رکو! میں تمہیں لے جاتا ہوں یا میں بھی تمہارے ساتھ چلتا ہوں۔ مجھے اچھا لگتا ہے جب وہ مجھ سے ایک قدم آگے چلتا ہے۔ غیر محفوظ اور خطرناک راستے پر اس کے پیچھے پیچھے اس کے چھوڑے ہوئے قدموں کے نشان پر چلتے ہوئے احساس ہوتا ہے اس نے میرے خیال سے قدرے ہموار راستے کا انتخاب کیا۔ مجھے اچھا لگتا ہے جب گہرائی سے اوپر چڑھتے اور اونچائی سے ڈھلان کی طرف جاتے ہوئے وہ مڑ مڑ کر مجھے چڑھنے اور اُترنے میں مدد دینے کے لیے بار بار اپنا ہاتھ بڑھاتا ہے۔ مجھے بہت اچھا لگتا ہے جب رات کی خنکی میں میرے ساتھ آسمان پر تارے گنتے ہوئے وہ مجھے ٹھنڈ لگ جانے کے ڈر سے اپنا کوٹ اُتار کر میرے شانوں پر ڈال دیتا ہے۔ مجھے اچھا لگتا ہے جب وہ مجھے میرے سارے غم آنسوؤں میں بہانے کے لیے اپنا مضبوط کاندھا پیش کرتا ہے اور ہر قدم پر اپنے ساتھ ہونے کا یقین دلاتا ہے۔ مجھے اچھا لگتا ہے جب وہ بدترین حالات میں مجھے اپنی متاعِ حیات مان کر تحفظ دینے کے لیے میرے آگے ڈھال کی طرح کھڑا ہوجاتا ہے اور کہتا ہے۔ ڈرو مت میں تمہیں کچھ نہیں ہونے دوں گا۔ مجھے اچھا لگتا ہے جب وہ مجھے غیر نظروں سے محفوظ رہنے کے لیے نصیحت کرتا ہے اور اپنا حق جتاتے ہوئے کہتا ہے کہ تم صرف میری ہو۔ لیکن افسوس اکثر لڑکیاں ان تمام خوشگوار احساسات کو محض مرد سے برابری کا مقابلہ کرنے کی وجہ سے کھو دیتی ہیں۔‘‘

سوزی کی آخری بات بڑے پتے کی تھی۔ کہنے لگیں ’’جب مرد یہ مان لیتا ہے کہ عورت اس سے کم نہیں تب وہ اس کی مدد کے لیے ہاتھ بڑھانا چھوڑ دیتا ہے۔ تب ایسے خوبصورت لمحات ایک ایک کرکے زندگی سے نفی ہوتے چلے جاتے ہیں اور پھر زندگی بے رنگ اور بدمزہ ہوکر اپنا توازن کھو دیتی ہے۔ مقابلہ بازی کی اس دوڑ سے نکل کر اپنی زندگی کے ایسے لطیف لمحات کا اثاثہ محفوظ کرنا اعلیٰ خاندانوں کی اچھی عورتوں کا متاعِ زیست ہوتا ہے۔ اور مجھے فخر ہے کہ میں اس سلسلے میں خوش نصیب واقع ہوئی ہوں۔‘‘

میں نے کہا ’’سوزی شکریہ۔‘‘ تو سوزی یک دم کہنے لگیں ’’زندگی! اپنوں کو شکریہ نہیں کہتے۔‘‘ میں نے کہا ’’نہیں جان! لوگ کہتے ہیں رشتوں میں شکریہ اور معذرت نہیں لیکن درحقیقت یہی دو الفاظ رشتوں کو بچاتے ہیں۔‘‘

آخری بات۔۔۔

اس پوری تفصیل کا حاصل یہی ہے کہ خواتین اگر چاہتی ہیں کہ اُن کے شوہر فرشتہ صفت ہوں تو پہلے گھر کو جنت بنائیں فرشتے دوزخ میں نہیں رہ سکتے۔ اگر مرد چاہتے ہیں کہ اُن کو حوریں بطورِ بیوی ملیں تو پہلے خود کو انسان بنائیں حوریں شیطانوں کو نہیں ملا کرتیں۔

دلچسپ گفتگو جاری تھی۔ رات بیتی جارہی تھی۔ چراغ حسن حسرت کا شعریاد آرہا تھا؎

رات کی بات کا مذکور ہی کیا

چھوڑیئے رات گئی بات گئی

Karimi and Suzi

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
892

بابا! تم نے آشا کو مالا! ……عبد الکریم کریمی

بابا! تم نے آشا کو مالا!
(لڑکیوں کا عالمی دن، کچھ بے ربط خیالات)

Asha

ننھی آشا جب کبھی مجھے بہت ڈسٹرب کرتی ہے۔ میری اسٹیڈی میں مخل ہوتی ہے۔ کاندھوں پر سوار ہوکے ضد کرتی ہے بابا گھوڑا بنو ناں۔ ایک حد تک تو ان کی معصوم خواہشوں کو پورا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ لیکن کبھی وہ حد سے گزرتی ہے تو ایک ہلکا سا تھپڑ مارنا ہی پڑتا ہے۔ تو پتہ ہے ایک دم ان کی سرمہ بھری آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں اور اپنی توتلی زبان میں کہتی ہے: ’’بابا! تم نے آشا کو مالا؟‘‘ یعنی بابا! آپ نے آشا کو مارا؟ یہ کہتے ہوئے وہ مجھ سے لپٹ جاتی ہے۔ مجھے مجبوراً کتاب چھوڑ کے آشا کی دلجوئی کرنی پڑتی ہے۔ کاندھوں پر اٹھا کر پورے باغ کی سیر کرنا پڑتی ہے۔ تب کہیں جاکے ننھی آشا اور بابا کے درمیان ناراضگی دور ہوجاتی ہے۔ پھر وہی ضد، وہی شرارتیں اور وہی معصوم خواہشیں کہ ’’بابا! گھوڑا بنو ناں۔‘‘ اس دن تو آشا نے حد کردی۔ آدھی رات کو جاگ کے کہنے لگی۔ ’’بابا! مجھے شکول (سکول) نہیں جانا۔‘‘ میں نے پوچھا ’’کیوں نہیں جاؤگی؟‘‘ کہنے لگی۔ ’’ٹیچل (ٹیچر) نے مجھے آج شٹال (سٹار) نہیں دیا۔‘‘ میں نے کہا ’’بابا جانی میں ٹیچر کو کہوں گا کل وہ تمہیں بہت سارے سٹارز دینگے۔‘‘ تب کہیں جاکے وہ نیند کی آغوش میں چلی گئی۔

کبھی کبھی میں سوچ کے پریشان ہوجاتا ہوں کہ جس گھر میں بچے نہ ہوں اور خصوصاً بیٹیاں نہ ہوں وہ گھر کتنا ویراں لگتا ہوگا۔ اور جس گھر میں بیٹیاں تو ہوں لیکن ان کے قدرداں نہ ہوں اس گھر کو سنساں ہوتے ہوئے دیر نہیں لگتی۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں وہاں بیٹی کی نہیں بیٹے کی قدر ہے۔ گھر میں جو اچھی چیز پکتی ہے وہ بیٹے کے لیے دی جاتی ہے۔ جس سے اپنے گھر میں ہی بیٹی ناانصافی کا شکار ہونے کی عادت اپنالیتی ہے۔ پھر ایک سلسلہ چلتا ہے اچھی خوراک، اچھا لباس اور اچھی تعلیم سب بیٹے کے نام۔ اکثر والدین کا کہنا ہے بیٹی پڑھ لکھ کے کیا کرے گی۔ اس کو تو پیا گھر سدھارنا ہے۔ گھر داری اور بچوں کی دیکھ بھال کرنا ہے۔ بیٹی اسی سوچ و ناانصافی کے سہارے میکے سے سسرال تک کا سفر کرتی ہے۔ بیٹی بن کے محبت و عزت نہ پانے والی اب بہو بن کے کیا کرسکتی ہے۔ ذرا سوچئے جس بیٹی کو اپنے والدین کے گھر میں عزت و محبت نہ ملے وہ سسرال میں کیا خاک عزت و محبت کی توقع رکھے گی۔ رہی سہی کسر غربت نکال دیتی ہے۔ میرے دوست خوشی محمد طارق نے خوبصورت شعر کہا ہے؎

کسی مجبور کے گھر میں جواں ہونا قیامت ہے
جو پیدا ہی نہ ہوں وہ بیٹیاں خوش بخت ہوتی ہیں

حیرت تو اس وقت ہوتی ہے جب اپنی بہن یا بیٹی کو تعلیم نہ دینے والے اپنی بیوی کی چیک اپ کے لیے لیڈی ڈاکٹرز ڈھونڈنے کے لیے ہسپتالوں اور بازاروں کی خاک چھانتے ہیں۔

سرسلطان محمد شاہ آغا خان (سوئم) نے بہت پہلے اپنے ایک فرمان میں فرمایا تھا:

’’آپ کے اگر دو بچے (ایک بیٹا اور ایک بیٹی) ہوں اور آپ ان میں سے کسی ایک کو تعلیم دینے کی صلاحیت رکھتے ہوں تو آپ بیٹی کو تعلیم دلائیں۔ اگر آپ بیٹے کو تعلیم دینگے تو صرف ایک فرد کی تعلیم ہوگی اگر بیٹی کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرینگے تو گویا آپ پورے خاندان کو تعلیم دے رہے ہوتے ہیں۔‘‘

آج لڑکیوں کا بین الاقوامی دن ہے۔ آئیں اس دن ہم یہ عہد کریں کہ جتنی اہمیت ہم بیٹے کو دیتے ہیں اس سے کئی گنا زیادہ اہمیت ہمیں اپنی بیٹیوں کو دینا ہوگا۔ تاکہ بیس پچیس سالوں بعد آنے والی ہماری نسل تعلیم یافتہ ہو اور ہم دُنیا کے نقشے پر ایک باعزت قوم کی حیثیت سے جانے اور پہچانے جاسکے۔

کسی مفکر نے کہا تھا:

’’آپ مجھے اچھی مائیں دیں میں آپ کو بہترین قوم دوں گا۔‘‘

بیٹیوں کے نام لکھے گئے کیفی اعظمی کے ان اشعار اور ننھی آشا اور تمام بیٹیوں کے لیے ڈھیروں پیار کے ساتھ اجازت چاہوں گا۔

قدر اب تک تیری تاریخ نے جانی ہی نہیں
تجھ میں شعلے بھی ہیں، بس اشک فشانی ہی نہیں
تو حقیقت بھی ہے، دلچسپ کہانی ہی نہیں
تیری ہستی بھی ہے ایک چیز، جوانی ہی نہیں
اپنی تاریخ کا عنوان بدلنا ہے تجھے
اٹھ میری جان! میرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
182