Chitral Times

May 19, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

مجاہد ملت مولاناعبدالستار خان نیازی کی یاد میں – میری بات:روہیل اکبر

Posted on
شیئر کریں:

مجاہد ملت مولاناعبدالستار خان نیازی کی یاد میں – میری بات:روہیل اکبر

بزرگ سیاستدان اور سیاسی دروویش سید منظور علی گیلانی جب سے لاہور سے اسلام آباد شفٹ ہوئے ہیں تب سے لاہور ہائیکورٹ بار کی وہ مجلسیں بھی ختم ہوگئی ہیں جو وہ یاد رفتگان کے نام سے کروایا کرتے تھے گذشتہ روز وہ لاہور آئے تو انکی آمد کو غنیمت جان کرمتحدہ جمیعت علماء پاکستان کے سربراہ علامہ قاری پیر غلام شبیر قادری نے مجاہد ملت مولانا عبدالستار خان نیازی کی یاد میں لاہور ہائیکورٹ میں ایک نشت کا اہتمام کیا جس میں پاکستان پیپلز موومنٹ کے سنیئر وائس چیئرمین پیر نوبہار شاہ،سیکریٹری جنرل ڈاکٹر نور محمد شجرا سمیت دیگر شرکاء نے بھی مولانا عبدالستار خان نیازی کے ساتھ گذرے ہوئے وقت کو بڑے ہی خوبصورت انداز میں بیان کیا میں سمجھتا ہوں ہوں لاہور ہائیکورٹ بار میں تو یہ ایک اچھا سلسلہ شروع ہوا ہے جسے رکنا نہیں چاہیے اسکے ساتھ ساتھ اس سلسلہ کو سکولوں،کالجوں اور یونیورسٹی کی سطح تک بھی لایا جائے یہ وہ لاگ ہے جوتعبیر وطن سے تعمیر قوم تک سر فہرصت رہے

 

قیام پاکستان کی جدوجہد میں انکا کردار ناقابل فراموش رہا ہے اور پھر جب پاکستان بن گیا تو پھر انہوں قوم کی تربیت کا بیڑہ بھی اٹھایا مولانا عبدالستار خان نیازی یکم اکتوبر 1915 کو عیسیٰ خیل ضلع میانوالی پنجاب برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے ابتدائی تعلیم کے بعد انہوں نے لاہور میں مذہبی تعلیم حاصل کی اور 1940 میں اسلامیہ کالج لاہور سے ماسٹر کی ڈگری حاصل کی مولانا عبدالستار خان نیازی 1947 تک اسلامک اسٹڈیز کے ڈین بنے اور پھر فعال سیاست میں شامل ہوئے۔ مولانا عبدالستار خان نیازی نے قیام پاکستان اور تحریک پاکستان کی سیاسی جدوجہد میں بھرپور حصہ لیا اور 1938 میں پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے صدر بنے اس کے بعد انہوں نے 1947 میں قیام پاکستان تک صوبائی (پنجاب) مسلم لیگ کے صدر کے عہدے پر خدمات انجام دیں مولانا عبدالستار خان نیازی کوعلامہ محمد اقبال اورقائد اعظم محمد علی جناح دونوں کے معتبر ساتھیوں میں شمار کیا جاتا تھا احمدیوں کے خلاف 1953 کے لاہور فسادات کو مبینہ طور پر اکسانے کے الزام میں ابوالاعلیٰ مودودی کے ساتھ مولانا عبدالستار خان نیازی کو بھی گرفتار کر لیاجس کے بعدمولانا مودودی اور مولانا عبدالستار خان نیازی دونوں کو فوجی عدالت نے موت کی سزا سنائی لیکن بعد میں رہا کر دیا گیا

 

دونوں رہنماؤں کی پھانسی کی سزا معطل ہونا ایک اچھا فیصلہ تھا کیونکہ اس ملک میں ان دونوں رہنماؤں کے حق میں احتجا کی تحریک زور پکڑ چکی تھی اس لیے یہ سوچا جارہا تھا کہ اگر مولانا مودودی اور مولانا عبدالستار نیازی کو فوج کی طرف سے سزائے موت سنائی گئی تو کیا ہوہو گا لیکن ان کی رہائی کے بعد ملک کا سیاسی ماحول بھی سرد ہونا شروع ہوگیا جو اس وقت شدید گرم ہو چکا تھا مولانا عبدالستار خان نیازی نے 1973 سے 1989 تک سنی بریلوی سیاسی جماعت مرکزی جمعیت علمائے پاکستان کے سیکرٹری جنرل کے طور پر کام کیا اور 1989 میں مرکزی جمعیت علمائے پاکستان کے صدر منتخب ہوئے مولانا عبدالستار خان نیازی ضلع میانوالی کے ایک قابل احترام رہنما اور طاقتور سیاستدان تھے جنوں نے دن رات قومی خدمت کی اور پھر عوام نے انہیں مجاہد ملت کا خطاب بھی دیامولاناعبدالستار خان نیازی 1947 سے 1949 تک پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے رکن رہے اسکے بعد وہ 1988 اور 1990 میں دو بار پاکستان کی قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے مولاناعبدالستار خان نیازی 1994 میں چھ سال کی مدت کے لیے سینیٹ آف پاکستان کے لیے منتخب ہوئے مولانا عبدالستار خان نیازی کا انتقال 2001 میں ہوا مولاناعبدالستار خان نیازی نے عمر بھر شادی نہیں کی مولاناعبدالستار خان نیازی تحریک پاکستان کے وہ ہیرو ہیں کہ جنکی خدمات پر قائداعظم نے بھی اعتراف کرتے ہوئے کہا تھا کہ جس قوم کے پاس عبدالستار خان نیازی جیسے نوجوان ہوں اسے پاکستان حاصل کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا مولاناعبدالستار خان نیازی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے پیروکار تھے اور تحریک ختم نبوت میں ان کی خدمات کو سنہری الفاظ سے لکھا جائے گا

 

مولانا نے اپنی پوری زندگی اسلام دشمن قوتوں کے خلاف لڑنے میں وقف کردی۔نہ صرف مولاناعبدالستار خان نیازی بلکہ ان جیسے دوسرے بہادر سپوتوں کی یاد میں ایسے سیمینارز ہوتے رہنے چاہیے جن کی محنتوں اور کوششوں سے ہم آج آزاد پاکستان میں بیٹھے سکون کی سانس لے رہے ہیں ان جیسے لیڈروں کو آگے لایا جائے تاکہ پاکستان مزید ترقی کرسکے نہ کہ مفاد پرستوں کو گھسیٹ کر ایوان اقتدار پر بٹھایا جائے جو لوگ کچھ عرصہ پہلے ایک دوسرے پر کرشن اور چور بازاری کے الزامات لگاتے نہیں تھکتے تھے آج وہ ایک دوسرے کے گلے کا ہار بنے ہوئے ہیں اس سے بڑی بدقسمتی اس قوم کی اور کیا ہوسکتی ہے کہ ایک دوسرے کا پیٹ پھاڑ کر لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کے سارے دعوے اور پھر سڑکوں پر گھسیٹنے کے سارے وعدے بس ایک پھونک میں آڑ گئے ہمارے سیاستدانوں کو چاہیے کہ ایسی باتیں نہ کیا کریں جو حقیقت کے قریب تر بھی نہ ہو اور نہ ہی ایک دوسرے کو بدنام کرنے کے لیے ایسے جھوٹے الزامات لگائے جائیں سبھی سیاست دانوں پر عوام کا عتماد ہے

 

عوام بھی وہ جو اپنا پیٹ کاٹ کر انہیں ایوان صدارت سے لیکر تمام ایوانوں تک خرچہ اپنے خون پسینے کی کمائی سے فراہم کرتے ہیں لیکن شائد بابار کے اقتدار کے مزے نے ہمارے حکمرانوں عوام کے دکھوں سے آزاد کردیا ہے ایسا لگتا ہے کہ یہ صرف اپنے اقتدار کو طویل کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتے اس دور میں ہمارے کسان اپنی ہی لگائی ہوئی گندم سے پریشان ہیں کیونکہ اسے حکومت خرید نہیں رہی اور نہ ہی ان لوگوں کے پاس کوئی پالیسی ہے پاکستان ایک زرعی ملک ہونے کے بوجود ہم گندم باہر سے منگوا لیتے اور اپنے کسانوں کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ اپنی گندم کو بطور احتجاج سڑکوں پر بھینک دیں چاہیے تو یہ تھا کہ ہم کسانوں سے ایک ایک دانہ گندم خرید کر اسے باہر ایکسپورٹ کرتے تاکہ ہمارا کسان بھی خوشحال ہوتا اور ملک بھی لیکن ایسا کام وہی لوگ اور سیاستدان کرتے ہیں جنہیں ملک کا احساس، عوام کا دکھ اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہو اگر اقتدار انہیں سونپ ہی دیا گیا ہے تو یہ لوگ پاکستان سے زراعت کے حوالہ سے اپنے لیے کوئی اچھے مشیر ہی رکھ لیتے جو انہیں اس حوالہ سے قیمتی مشوروں سے نوازتے جس کی بدولت ملک ترقی کرتا اور کسان برباد ہونے سے بچ جاتا۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامین
88461