Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

پاکستان میں افغان مہاجرین کی سرگرمیا ں اور دہشت گردی کے خطرات – تحریر: قاضی شعیب خان

Posted on
شیئر کریں:

پاکستان میں افغان مہاجرین کی سرگرمیا ں اور دہشت گردی کے خطرات – تحریر: قاضی شعیب خان

افغانستان میں امریکہ کی اتحادی افواج کے انخلاء کے بعد 2021میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد افغان مہاجرین کی ایک بڑی تعداد پاکستان سے سمیت دنیا کے دیگرممالک میں پناہ لینے پر مجبو ر ہوئے جن کو جنیوا کنونشن کے تحت قانونی اور معاشی تحفظ بھی دیا گیا۔ پاکستان میں 30 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین اپنے کیمپوں کے ساتھ ساتھ پشاور، اسلام آباد، راولپنڈی، کراچی، کوئٹہ اور دوسرے شہروں میں بھی آباد ہوئے۔ افغان مہاجرین میں وہ بھی شامل ہیں جو روس کی جنگ کے دوران ہجرت کر کے پاکستان میں آئے تھے۔ حکومت پاکستان کی پالیسی کے تحت ان کو افغان نیشنل کے شناختی کارڈز بھی جاری کیے گئے جن کو پاکستان میں کاروبار اور کام کرنے کی بھی سہولت دی گئی۔ پاکستان میں افغان مہاجرین کی آمد کے بعد دہشت گردی، سٹریٹ کرائمز، منشیات سمگلنگ جیسے سنگین جرائم کی شرح میں بھی خطرناک حد تک اضافہ ہوا۔گزشتہ دنوں پشاور پولیس لائیز کی مسجد میں نماز کے دوران بم دھماکے میں افغانی ملوث تھا۔ جس نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی پشت پنائی میں لاکھوں روپے کی لالچ میں معصوم شہریوں کی قیمتی جانوں کا سودا کیا۔ میڈیا اطلاعات کے مطابق بعض افراد نے مبینہ طور پر جعلی شناختی کارڈ، جعلی ووٹ کا اندراج اور پاسپورٹ بھی حاصل کر رکھے ہیں۔ رئیل اسٹیٹ بزنس، نان کسٹم پیڈ گاڑیوں اور سود کے غیرقانونی کاروبار میں بھی ملوث ہیں۔ جن کی تحقیقات جاری ہیں۔

 

افغانستان میں امریکہ کی اتحادی افواج کے انخلاء کے بعد افغانستان میں دعش تنظیم بھی دوبارہ منظم ہور ہی ہے جو خطے میں متحرک ہو کر امن و امان کی صورتحال خراب کر سکتے ہیں۔ امریکی صدر جو بائیڈن کی خارجہ اور سلامتی امور کے حوالے سے افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء پرعوام میں مختلف رائے پائی جاتی ہے۔ سینٹر فارپبلک افیئرز کی تحقیقی سروے رپورٹ میں 47فیصد نے جوبائیڈن کی داخلی امور اور 52فیصد نے بین القوامی امور پر ان کی قابلیت پراپنی رائے کا اظہار کیا۔ جنگ کے بعد افغانستان میں پیدا ہونے والے انسانی بحران پر صدر جوبائیڈن کو واشنگٹن میں ریپبلک اور ڈیموکریٹک دونوں جانب سے سخت ردعمل کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ اس کے باوجود امریکی صدر اپنے فیصلے پر قائم ہیں۔ وائس آف امریکہ کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ کی دس ریاستوں کے گورنروں نے اعلان کیا تھاکہ وہ اپنی ریاست میں ان 22ہزار افغان مہاجرین کو خوش آمدید کہیں گے جھنوں نے افغانستان مشن کے دوران امریکہ کی اتحادی افواج کی مدد کی تھی۔ پاکستان اور افغانستان کے سرحدی صوبے خیبر پختونخوا کے صوبائی دارالخلافہ پشاور میں 30 جنوری2023 کو پولیس لائنز کی مسجد میں خودکش بم دھماکے نتجے میں سیکیورٹی ادارواں کے اہلکاروں سمیت ظہر کی نماز کے دوران 102 نمازی شہید اور 60 فراد شدید زخمی ہونے کی خبر پر پورے ملک میں خوف و ہراس کے ساتھ ساتھ عوام میں سوگ پایا جاتا ہے۔

 

ایک روز قبل وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی جانب سے پٹرولیم کی مصنوعات کی قیمتوں میں اچانک 35روپے کے بم کے اثرات میں پوری قوم ڈوبی ہوئی تھی کہ اس اثناء میں پشاور کی مسجد میں بم دھماکے کی خبر پر پاکستانی قوم نوعہ کناں ہے گئی ہے۔ جس کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے قبول کر لی ہے۔ انسپکٹرجنرل کے پی کے پولیس معظم جاہ انصاری نے وزیر اعظم میاں شہباز شریف کے ابتدائی تحقیقات کے حوالے سے بتایا کہ دہشتگرد مسجدمیں پہلے سے موجود ہو سکتاہے۔ ایک نجی ٹی وی کے پروگرام میں وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل اور بھارت کی مساجدمیں بھی دہشت گردی کے واقعات نہیں ہوتے۔ کوئی مسلمان مسجد کے نمازیوں پر حملہ نہیں کرسکتا۔ انھوں نے کہا کہ معاہدے کے باوجود افغانستا ن کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے۔ پاکستان کا شہر پشاور حالت جنگ میں ہے۔ دہشت گردی کے اس حملے کے فوری بعد پورے ملک کی عبادت گاہوں کی سیکیورٹی کے انتظامات مذید سخت کر دئیے گئے۔ جبکہ کے سیکیورٹی اداروں نے کومنگ سرچ آپریشن شروع کر دیاہے۔ جس کے بعد دہشتگردوں کا نیٹ ورک کچلا جائے گا۔ گزشتہ دنوں پشاور کے ایک تھانے پر دہشتگردوں کے حملے کے دورران پولیس کے ڈی ایس پی سمیت تین افراد شہید ہوتے تھے۔ جس کے بعد پورے صوبے میں دہشتگردوں کے خلاف بھرپور آپریشن جاری تھی۔

 

اس دوران 30جنوری2023 کی صبح ضلع صوابی پولیس نے مزاحمت پر دودہشتگرد مار ے اور ایک دہشتگرد گرفتار کر کے نامعلوم مقام پر منتقل کیا۔ قبل ازیں افغانستان کی سرحد کے قریب پاکستان کے صوبہ خیبر پختون خواہ کے ضلع بنوں میں 18دسمبر2022 کو دہشت گردوں نے اپنے زیرحراست ساتھیوں کو چھڑانے کے لیے انسداد دہشت گردی کے دفتر پر حملے کے دوران سی ٹی ڈی کمپلیکس کے تمام اہلکاروں کو اسلحے کی نوک پر یرغمال بنالیا جواپنے ساتھیوں کے ساتھ افغانستان جانے کے لیے محفوظ راستہ دینے کا مطالبہ کر رہے تھے۔تمام حملہ آور دہشت گردوں کا تعلق کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان سے بتایا جاتا ہے۔ جن میں ٹی ٹی پی کا ایک مقامی کمانڈر ضرار بھی تھا۔ 20دسمبر 2022کی رات ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل احمد شریف چوہدری نے میڈیا کو بتایا کہ 35 شدت پسندوں نے یہ صورت حال پیدا کی تھی جس میں سے 25سیکورٹی فورسز کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے کے دوران ہلاک ہوئے سات نے ہتھیار ڈال دیئے اوران کے تین ساتھی فرار ہونے کی کوشش میں گرفتار کر لیے گئے۔ اس موقع پر سیکورٹی فورسز کے ایک جونیئرکمیشن آفیسر اور دو سپاہی شہید ہوئے جبکہ دس اہلکار اور تین آفیسر بھی زخمی ہوئے۔ 22دسمبر 2022 کوآئی ایس پی آر کے مطابق سی ایم ایچ راولپنڈی میں زیر علاج بنوں کے سی ٹی ڈی کمپلکس میں دہشتگردی کے خلاف آپر یشن کے دوران شدید زخمی سپاہی علیم خان بھی شہید ہو گیا تھا۔

 

بنوں میں شدت پسندوں کے اس حملے کے بعد صوبہ خیبر پختون خواہ سمیت پورے ملک کے عوام میں عدم تحفظ، خوف و ہراس پیدا ہو گیا۔ یوں لگا جیسے موجودہ حکومت کی رٹ ختم ہو گئی تھی۔ پاکستان کا صوبہ خیبر پختون خواہ کے عوام دہشت گردی کے سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ ایک سال کے دوران اس صوبے میں دہشت گردی کے 700 حملے رپورٹ ہوئے جس میں 300 افراد جان بحق ہوئے۔ لیکن حیران کن امر ہے کے دہشت گردی کو روکنے کے والے سرکاری محکمہ انسداد دہشت گردی کے پاس وسائل کی شدید کمی ہے۔ قومی سلامتی کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق صوبہ خیبر پختون خواہ کے محکمہ انسداد دہشت گردی کا ٹوٹل بجٹ صوبہ پنجاب سے نصف سے بھی کم ہے۔ جس میں سے 96 فیصد اہلکاروں کی تنخواہوں میں ادا ہو جاتا ہے۔ جبکہ چار فیصد دہشت گردی کے خلاف سرکاری فرائض پر خرچ ہوتاہے۔ واضح رہے کہ امریکہ کے اتحادی ممالک پرمشتمل نیٹو افواج نے افغانستان میں دہشتگردی اور مذہبی انتہاپسندی کے خاتمے کے لیے طالبان سے جنگ کا آغاز کیا توصدر جنرل مشرف نے امریکی صدر کے دباؤ پر پاکستان سے ہوائی اڈوں سمیت دیگر فوجی امداد کا اعلان کیا تو دہشتگردی کی آگ پاکستان تک پھیل گئی۔ جس کا خمیازہ پوری قوم بھگت رہی ہے۔

 

سرحد پار افغانستان میں شدد پسند پاکستان کی حدود میں دراندازی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ 2 دسمبر 2022 کوکابل میں افغان وزیر خارجہ نے پاکستانی ہیڈ آف مشن پر دھشت گردی کے واقعہ میں ملوث ذمہ داروں کو فوری گرفتار کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ حالیہ چند دنو ں میں پاکستان افغانستا ن کے سرحدی علاقوں جنوبی وزیرستان، چمن باب دوستی پر لیویز کے اہلکاروں کو طالبان کی سرحد پار فائرنگ کے نیتجے میں شہید کیا گیا۔ گزشتہ روزبلوچستان میں ہونے والے دہشتگردی کے ایک بڑے حملے کی ذمہ داری کلعدم تحریک طالبان پاکستان نے قبول کرکے اپنے معاہدے کی خود نفی کر دی ہے۔ جس کے بعد پورے ملک میں دہشتگردی کے حملوں میں تیزی آتی جا رہی ہے۔ ستمبر 2022 کے بعد سے طالبان کے جانب سے 130 سے زائد دہشتگردی کے حملے کیے گئے جن میں سے زیادہ تر طالبان نے ذمہ داری قبول کی ہے۔ ان حملوں کے دوران پولیس اور سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں کی ٹارگٹ کیا گیا۔ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے ایک بیان میں وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ کعدم تحریک طلبان پاکستان کے مختلف دھڑے پاکستان میں سرگرم عمل ہیں جن کے ساتھ ابھی تک دہشتگردی کے خلاف جنگ بندی کے حوالے سے کوئی باضابطہ معاہدہ طے نہیں ہوا۔ اس سلسلے میں سوات کے علاقوں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے طالبان کو غیر مسلح کرنے کے لیے آپریشن شروع کیا ہوا ہے۔

 

میڈیا اطلاعات کے مطابق صدر پاکستان عارف علوی نے عمران خان کے دور حکومت میں طالبان کے دو انتہائی خطرناک دہشتگردوں مسلم خان اور محمود خان کی موت کی سزاؤں کی معافی کے بعد حکو مت نے انھیں پاکستانی جیلوں سے رہا کر دیا ہے۔ جو پاکستان کی حدود میں موجود ہیں۔ خیبر پختون خواہ کے علاقے سوات، ہنگو میں موجود کعدم تحریک طالبان پاکستان کے عہدیداران نے سابق وزیر اعلی محمود خان، صوبائی وزارء سمیت ملک کی دیگر اہم حکومتی شخصیات سے بھتہ لینے کے لیے پرچیاں موصول ہوئی ہیں۔ جس کے نتیجے میں پاکستان کی بیوروکریسی کے سا تھ ساتھ عوامی، تجارتی اور سیاسی حلقوں میں شدید عدم تحفظ اور غیر یقینی کے خدشات پائے جاتے ہیں۔ پاکستان کے سفارتی حلقے وزیرمملکت برائے امور خارجہ حنا ربانی کھر کے افغانستان کے ایک روزہ دورے سے واپسی کو بہت اہمیت دے رہے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے طالبان کے ساتھ تعلقات اور خطے میں کے بدلتی صورتحال کے حوالے سے ان کا دورہ اہم ہے۔ وزیرمملکت برائے امور خارجہ حنا ربانی کھرنے طالبان حکومت کے نائب وزیر اعظم عبدالسلام حنفی اور وزیر خارجہ امیر خان متقی سمیت دیگر اعلی حکام سے مذاکرات کیے۔ افغان طالبان کا موقف ہے کہ پاکستان کی حکومت انھیں تسلیم کرنے کے لیے مختلف فورم اور ممالک کے ساتھ لابی کرے۔ جس کے لئے ٹی ٹی پی نے فائر بندی کے خاتمے کا اعلان کیا ہے۔ لیکن پاکستان کی جانب سے افغان طالبان کی حکومت کی تسلیم کرنے کے حوالے سے خاموشی ہے۔

 

طالبان حکومت کی جانب سے عالمی برادری کے تحفظات دور نہیں کیے گئے۔طالبان قیادت عالمی برادری کے بعض تحفظات دور کرنے سے قاصر ہیں جس کا مقامی طالبان اتحاد کو نقصان پہچنے کا خدشہ ہے۔ سفارتی حلقوں کے مطابق پاکستان حکومت اپنے طور پر افغانستان میں طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کا فیصلہ نہیں کرے گا بلکہ پوری دنیا کے ساتھ مل کر فیصلہ کرے گا۔پاکستان عالمی برادری کو افغانستا ن کے ساتھ رابطے بحال رکھنے کے ساتھ ساتھ ان کی مالی، اخلاقی امداد جاری رکھنے پربھی زور دیتا ہے۔ تاکہ افغانستان کے عوام کودرپیش کوئی اقتصادی مشکلات کی وجہ سے کوئی شدید انسانی بحران کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ سابق وزیر اعظم عمران خان کے دور حکومت میں افغانستان وزیر دفاع سراج الدین کی ثالثی میں کلعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ جنگ بندی کے لیے مذاکرات شروع ہوئے۔ ان مذاکرات کے سلسلے میں سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل(ر) فیض حمیدطالبان حکومت کے اعلی حکام سے ملاقات کے لیے افغانستان بھی گئے تھے۔میڈیا میں طالبان حکومت کے حکام کے ساتھ اس ملاقات کی تصاویر چھپنے پر ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں گہری تشویش کا اظہار کیا گیا۔ اسکے بعد قبائلی عمائدین اور علماء پر مشتمل 45 رکنی جرگہ بھی افغانستان کی طالبان حکومت سے مذاکرات کے لیے گیا تھا۔

 

اس دوران افغانستان میں ان مذاکرات کے مخالف گروپ کے سرکردہ لیڈر عمر خالد خراسانی کو ان کے ساتھیوں سمیت قتل کر دیاگیا جس کے بعدامن مذاکرات میں تعطل پیدا ہو گیا۔ مسلم لیگ(ن) کی اتحادی حکومت کے برسراقتددار آنے کے بعد سے آج تک ٹی ٹی پی کے ساتھ امن مذاکرات کے حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔تحریک طالبان کے مطابق ان کے شعبہ دفاع تحریک نے تمام راہنماؤں کو احکامات جاری کیے ہیں کہ ضلع لکی مروت سمیت مختلف علاقوں میں طالبان کے خلاف اداروں کی جانب سے خفیہ آپریشن جار ی ہیں۔ جن کے دفاع میں طالبان بھی اپنی مزاحمت جاری رکھیں۔ پاکستان میں فوجی چیف اور پشاور میں کور کمانڈر کی تبدیلی کے بعد کا لعدم طالبان تحریک حکومت پاکستان سے مذاکرات جاری رکھنے کے لیے منتظر ہے۔ لیکن بنوں میں انسداد دہشت گردی دفتر پر حالیہ دہشت گردی کے شدید حملے کے بعد ٹی ٹی پی کالعدم تنظیم سے مذکرات کا عمل بھی بری طرح متاثر ہوا ہے۔ جس پر اب مذید پیش رفت ناممکن نظر آ رہی ہے۔

 

واشنگٹن میں پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے گزشتہ روز ایک نیوز کانفرنس کے دوران اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے افغانستان طالبان حکومت کو خبر دار کیا کہ وہ افغانستان سے شدت پسندوں کو پاکستان پر دہشتگردی کے حملوں سے سختی سے روکے ورنہ دونوں ممالک کے تعلقات خراب بھی ہو سکتے ہیں۔ وزیر خارجہ کے اس بیان پر افغان حکومت کی جانب سے تاحال کوئی وضاحت نہیں آئی۔ عوامی و سماجی حلقوں کے مطابق پاکستان میں پناہ گزین افغان مہاجرین کو کیمپوں تک محدود کیا جائے اور مرحلہ وار افغانستان منتقل کرنے کے لیے حکومتی سطع پر ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔


شیئر کریں: