Chitral Times

Apr 27, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

داد بیداد ۔ بڑی ازمائش ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

Posted on
شیئر کریں:

داد بیداد ۔ بڑی ازمائش ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

انتخا بات کے بعد وفاق اور صو بوں میں مختلف پارٹیوں کی مخلوط اور اکیلی حکومتیں بن چکی ہیں شخصیات کے ٹکراؤ کو چھوڑ کر پا لیسی اور اصول پر بات کرنے والے کہتے ہیں کہ حکومت میں آنے والی چھوٹی یا بڑی جما عتوں کے سامنے بڑی ازمائش کی گھڑی آگئی ہے یہ گھڑی محشر کی ہے تو عرصہ محشر میں ہے پیش کر غا فل عمل کوئی اگر کوئی دفتر میں ہے اگر چہ مخلوط حکومتوں میں کئی جما عتیں اقتدار میں آچکی ہیں حکومتی کار کر دگی کا اصل مقا بلہ مسلم لیگ نون، پا کستان پیپلز پارٹی اور سنی اتحا د کونسل کے پر دے میں چھپے ہوئے پا کستان تحریک انصاف کے درمیان ہے کار کر دگی کو پا نچ محا ذوں پر جانچا جا رہا ہے پہلا محاذ قانون کی حکمرانی دوبارہ بحا ل کرنے کا ہے، دوسرا محاذ مہنگائی کی چکی میں پسنے والے عوام کو سہو لیات فراہم کرنے کا ہے تیسرا محاذ پرو ٹو کول اور مفت پٹرول، مفت گیس، مفت بجلی کی عیا شیا ں ختم کرکے سرکار کے غیر ضروری اخرا جات بچانے کا ہے چوتھا محا ذ قرضوں میں کمی لا نے کا ہے،

 

پا نچواں محاذ سب سے اہم ہے اور یہ محاذ بے جامحا ذ ارائی کو ختم کر کے سیا سی روا داری، برداشت اور بردباری کی جمہوری سیا ست کے احیاء کا محاذ ہے یہ بہت نا زک حساس اور اہم محاذ ہے بڑی ازمائش یہ ہے کہ ان محاذوں پر کس جما عت کو سر خر وئی اور کامیابی ملتی ہے اور کون حسب سابق نا کام و نا مراد لوٹتا ہے یہاں مہنگا ئی سے پہلے قانون کی حکمرانی کا ذکر آیا تو بہت سے لو گ حیرت کا اظہار کر ینگے مگر حقیقت یہ ہے عدالتی نظام میں بگاڑ آنے کے بعد قانون کی حکمرانی ختم ہو چکی ہے اس وجہ سے آڑھت دھڑت، کمیشن ایجنٹ اور دوسرے شرکائے کار مل کر غذائی اجناس کی بلیک مارکیٹنگ کر تے ہیں ملزم کو پکڑ نے اور جرم ثابت ہونے پر سزا دینے کا کوئی سسٹم مو جو د نہیں ہے جیسا کہ کہا وت ہے مچھلی جب سڑ تی ہے تو اوپر سے سڑ نا شروع ہو تی ہے قانون کی حکمرانی کا سسٹم بھی اوپر سے برباد ہو چکا ہے اور یہ تبا ہی نچلی سطح تک سرایت کر چکی ہے حکمران اپنے حلف کی روسے اپنا ذاتی مفاد قربان کر کے قانون کو کام کرنے دینگے تو ملک میں قانون نظر آئیگا

 

اس طرح مہنگائی، غر بت اور بے روز گاری سے عوام کو نجا ت دلا نا ہر حکومت کی تر جیحات میں شامل ہو تی ہے اس کا دارو مدار بھی حکمرانوں کے طرز عمل پر ہوتا ہے اگر حکمران اپنے ذاتی مفادات، کا روباری اور گروہی مفا دات کو پس پشت ڈال کر عوام کی خد مت کو مقدم قرار دینگے تو عوام کو ریلیف ملے گا، ملک میں بجلی، گیس، تیل، گندم، گھی، پھلوں اور سبزیوں کی کوئی کمی یا قلت نہیں ہے، سر کاری، نیم سرکاری اور غیر سرکاری مارکیٹ میں شیطانی چکر چلتا ہے اس چکر میں 200یو نت بجلی کا 25ہزار روپے بل آتا ہے گیس اور تیل کا یہی حال ہوتا ہے منڈیوں میں سستی چیزوں پر بھتہ لگنے سے وہ مہنگی ہوجا تی ہیں بڑی آزمائش یہ ہے کہ کونسی حکومت عوامی مفاد میں اس شیطانی چکر کو ختم کر کے آڑھتیوں اور کمیشن ایجنٹوں کو لگا دیتی ہے اور کس کی حکومت میں عوام کو ریلیف ملتا ہے؟

 

اسی طرح پروٹو کول کے اخرا جات، مفت بجلی، مفت پٹرول، مفت گیس اور دیگر مرا عات کا یکسر اور فوری خا تمہ بھی بڑی آزمائش ہے اور یہ بھی نظر آنے والی آزمائش ہے، قرض کی معیشت ملک اور صو بوں کے لئے زہر قاتل ہے اور گذشتہ 10سالوں میں وفاق اور صوبوں کی حکومتوں نے قرضوں میں کمی کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھا یا بلکہ اعداد و شمار یہ ظا ہر کرتے ہیں کہ ہر حکومت نے مزید قرضہ لیا یہاں تک کہ نگران حکومتوں نے بھی قرضوں میں اضا فہ کیا، مو جود ہ حا لات اس بات کا تقا ضا کر تے ہیں کہ ہماری نئی حکومتیں پرانے قرضوں میں کمی لا نے کی حکمت عملی تیار کریں اور اگلے 5سالوں کے لئے قرض لینے پر پا بندی لگائیں کوئی نیا قرض نہ لیں، آنے والے ما لی سال کا بجٹ بھی قرض کے بغیر تیار کریں یہ بھی بڑی آزمائش ہے آخری ازمائش سیا سی سوچ، سیا سی فکر اور سیا سی اسلوب کی ہے، سیا ست اور جمہوریت میں اختلا ف رائے کو دشمنی کا نا م نہیں دیا جا تا، برداشت، رواداری اور مفا ہمت سے سیا سی راستے ہموار ہو تے ہیں اور جمہوریت کو پھلنے پھولنے کا موقع ملتا ہے سب سے کڑی آزما ئش یہ ہے کہ حزب اختلاف کے ساتھ کون ہاتھ ملا تا ہے اور اختلاف رائے کون برداشت کر تا ہے؟


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامین
86206