Chitral Times

May 2, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

پاکستانی متنازعہ انتخابی نتائج اور عدالتوں کا امتحان – ڈاکٹر زین اللہ خٹک

Posted on
شیئر کریں:

پاکستانی متنازعہ انتخابی نتائج اور عدالتوں کا امتحان – ڈاکٹر زین اللہ خٹک

8فروری کو ہونے والے انتخابات پاکستان کی سیاسی تاریخ میں سب سے زیادہ متنازعہ ترین انتخابات تھے۔ تمام مشکلات کو برداشت کرتے ہوئے ووٹرز ریکارڈ تعداد میں نکلے۔ انہوں نے بلند آواز میں اور واضح طور پر ووٹ ڈالے اور اپنا جمہوری اور قانونی فیصلہ دیا ہے۔ یہ امید اور جمہوریت کے لیے ووٹ تھا۔ لیکن عوام کا مینڈیٹ ایک بار پھر چوری ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ انتخابات سے پہلے ہونے والے واقعات نے انتخابات کی شفافیت پر سوالیہ نشان چھوڑا تھا کیونکہ جس طرح انتخابات سے پہلے ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے خلاف ریاستی مشینری کا استعمال کیا گیا جس طریقے سے تحریک انصاف سے انتخابی نشان تک کو واپس لیا گیا ۔ جس طرح پاکستان تحریک انصاف کو عوامی جلسوں اور جلوسوں سے دور رکھا گیا ۔ لیکن پاکستان تحریک انصاف نے نئی جدت ڈیجیٹل کمپئین کا استعمال کیا جس کے زریعے کم لاگت سے عوام تک آواز پہنچائی گئی ۔

 

8 فروری کو عوام خوف کی دیواریں توڑتے ہوئے اور ووٹ کی طاقت سے تبدیلی لانے کی امید لیے باہر نکل آئے۔ نوجوانوں اور خواتین ووٹرز کے بڑے پیمانے پر ٹرن آؤٹ نے کافی فرق ڈالا ۔یہ سیاسی جبر اور جمود کے خلاف احتجاجی ووٹ تھا۔ اسٹیبلشمنٹ مخالف جذبات کافی واضح تھے۔ پنجاب اور کے پی سے ووٹنگ کے رجحان اور ابتدائی رائے شماری کے نتائج نے واضح کیا کہ عوام نے پاکستان کی مضبوط ترین فوج کے خلاف ووٹ کا استعمال کیا ۔ لوگوں نے بڑی تعداد میں پاکستان تحریک انصاف کو ووٹ دیا ۔اہم حلقوں میں پی ٹی آئی کے امیدواروں نے برتری حاصل کر لی ۔ فارم 45 کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کو قومی اسمبلی کی 180 نشستوں پر کامیابی حاصل ہے ۔لیکن ملک کی مضبوط فوج نے راتوں رات نتائج تبدیل کیے اور صبح ناقابل یقین مختلف نتیجہ دکھایا۔ ن لیگ کے بہت سے ہیوی ویٹ جو رات گئے تک پی ٹی آئی سے وابستہ امیدواروں سے بہت پیچھے تھے اگلی صبح فاتح قرار دے دیے گئے۔ یہ حیرت انگیز تبدیلی کیسے ہوئی کسی کو اندازہ ہے۔تاہم کے پی میں یہ ایک الگ کہانی تھی، جہاں زیادہ تر نتائج تبدیل نہ ہوسکے ۔ کیونکہ پی ٹی آئی نے اپنے مرکزی گڑھ خیبرپختونخوا میں اپنی گراؤنڈ سنبھال رکھی تھی۔ لیکن پھر بھی پشاور میں 9 حلقوں پر تحریک انصاف کے نتائج کو تبدیل کیا گیا ۔بڑے پیمانے پر انتخابی نتائج میں بے قاعدگیوں پر بین الاقوامی سطح پر شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔

 

امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین نے الگ الگ پاکستان کے انتخابی عمل پر تحفظات کا اظہار کیا ہے اور انتخابی بے ضابطگیوں کی تحقیقات پر زور دیا ہے۔ لیکن انتخابات پر سب سے زیادہ تباہ کن بیان اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی طرف سے آیا، جس نے پاکستانی حکام اور سیاسی رہنماؤں سے مطالبہ کیا کہ وہ انتخابات سے متعلق مسائل کو “قائم قانونی فریم ورک کے ذریعے” حل کریں اور کسی بھی ایسے اقدام سے گریز کریں جس سے کشیدگی میں اضافہ ہو۔ کیونکہ پاکستانی فوج پاکستان تحریک انصاف کو سیاسی حقوق دینے سے گریزاں ہے ۔ پاکستان تحریک انصاف کے ورکر پرامن احتجاج تک نہیں کرسکتے ہیں ۔ لہذا اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری کا بیان مضبوط فوج کے لیے پیغام ہے ۔ کہ وہ سیاسی ورکروں پر تشدد نہ کریں اور پُرامن حل نکالے ۔اقوام متحدہ کی طرف سے یہ بیان نہایت اہمیت کا حامل ہے ۔

 

انتخابی بے ضابطگیوں کے باوجود، پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ ‘آزاد’ اگلی قومی اسمبلی میں واحد سب سے بڑا گروپ بن کر ابھرے ہیں۔ لیکن چونکہ پی ٹی آئی کو پارلیمانی پارٹی کے طور پر تسلیم نہیں کیا جاتا، اس لیے وہ خواتین اور مذہبی اقلیتوں کے لیے 70 مخصوص نشستوں میں سے اپنا حصہ حاصل نہیں کر سکتی۔ اس لیے پارٹی مرکز میں حکومت بنانے کے لیے سادہ اکثریت بھی حاصل نہیں کر سکتی۔ مزید برآں، گروپ کے لیے سیکورٹی ایجنسیوں کی دھمکیوں اور ہارس ٹریڈنگ کے سامنے اپنا اتحاد برقرار رکھنا انتہائی مشکل ہوگا۔ جس طرح پنجاب میں پاکستان تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی کے ساتھ ہورہا ہے ۔ ان کو مختلف مقدمات میں ملوث کیا جارہا ہے ۔ ان کو نتائج نہیں دیے جارہے ہے ۔دریں اثنا، تمام جمہوری اصولوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک نیا پاور پلے شروع ہو گیا ہے۔

 

غیر قانونی اور غیر جمہوری عمل کا آغاز ہوچکا ہے ۔ عوامی مینڈیٹ کو چوری کرنے کے لیے ہر حربے کو استعمال کیا جارہا ہے یہ سب پاکستان تحریک انصاف کو مقابلے سے نکالنے اور اپنے پسندیدہ نواز شریف کو نوازنے کے لیے کیا جارہا ہے ۔ لیکن پاکستانی عوام اس فیصلے کو قبول کرنے کو تیار نہیں کیونکہ یہ ملکی قوانین کے ساتھ کھلواڑ ہےایک ایسے وقت میں جب ملک بھر میں انتخابی نتائج پر شدید تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے ۔ جب ملک بھر میں ہنگامے شروع ہیں ۔ جب ملک بھر میں تشویش پائی جاتی ہے ۔ ایک ایسے وقت میں آرمی چیف کے لیے ایسا سیاسی بیان دینا شاذ و نادر ہی ہے۔ سیاسی قیادت کو بتانا عسکری قیادت کا مینڈیٹ نہیں کہ وہاں کیسی حکومت ہونی چاہیے۔ یہ نہایت حیران کن بات ہے۔متنازعہ انتخابی عمل کا سیاسی نتیجہ آسانی سے حل نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ پاکستان تحریک انصاف کے پاس تمام حلقوں کے فارم 45 موجود ہیں ۔ جن کی بنیاد پر وہ اپنے سیٹوں کو واپس لے سکتے ہیں ۔ اب یہ پاکستانی عدالتوں کے لیے امتحان ہے کہ کیا وہ عوام کو ان کا جمہوری اور قانونی حق دلاسکتے ہیں ۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامین
85377