Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

داد بیداد ۔ سنسربورڈ کی یا دیں ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

شیئر کریں:

ایک زما نے میں فلم سینما گھروں میں دکھا ئی جا تی تھی 12کروڑ کی آبا دی میں بمشکل دو لا کھ شہری سینما گھروں میں جا کر فلم دیکھتے تھے جن میں 90فیصد سے زیا دہ تما شا ئی با لغ اور سنجیدہ لو گ ہوتے تھے اس کے با و جو د ملک میں فلم سنسر بور ڈ ہوا کر تا تھا جو فلم آجا تی وہ پہلے سنسر بورڈ کے ارا کین کو دکھا تی جا تی اس میں اگر اخلا ق سے گری ہوئی کوئی حرکت ہو تی تو اُس کو فلم سے نکا ل کر فلم کی منظوری دی جا تی تھی 1964کے بعد پا کستان ٹیلی وژن کے ڈرا موں کے لئے بھی اس طرح کی پا لیسی نا فذ تھی ٹیلی وژن حکام، پرو ڈیو سر اور ڈائریکٹر کو اس پا لیسی کا پا بند بنا دیتے تھے کوئی قابل اعتراض منظر ہوا کے دوش پر نا ظرین کو نظر نہیں آتا تھا پھر ایسا ہوا کہ پرائیویٹ چینل آگئے پھر یوں ہوا کہ غیر ملکی فلموں کی اردو، پشتو اور پنجا بی ڈبنگز (Dubbings) آگئیں مگر فلم سنسر بورڈ کا نا م سننے میں نہیں آیا کوئی فلم سنسر بورڈ کو نہیں دکھائی گئی کسی فلم کے بارے میں یہ نہیں دیکھا گیا کہ یہ گھر کے افراد کے ہمراہ دیکھنے یا بچوں کو دکھا نے کے قا بل ہے یا نہیں؟ آج کل کے دور میں فلم گھروں میں آگئی ہے قسط وار دکھا ئی جا تی ہے اس کو عرف عام میں ڈرامہ کا نا م دکھا یا گیا ہے .

اس میں اخلا ق سے گر ی ہوئی ہر وہ بات ہو تی ہے جو نا با لغ بچوں سے دور رکھنی چاہئیے مگر ہماری مو جو دہ 22کروڑ کی آبا دی میں 8کروڑ نا با لغ بچے ان فلموں کو بلا روک ٹو ک دیکھتے ہیں اس کے تین نتیجے ہمارے اخبارات میں رپورٹ ہوتے ہیں، لڑ کیوں کا اغوا، بچوں کے ساتھ زیا دتی کے واقعات، خواتین کو ہرا ساں کرنے کے وا قعات ہر روز خبروں میں آتے ہیں دہشت گر دی، خو د کشی اور شر انگیز ی کے واقعات خبروں میں جتنے آتے ہیں ان سے زیا دہ دیہات اور شہروں میں زبا ن زد عام ہو تے ہیں کسی بھی گاوں اور شہر کے پرائمیری سکول میں جا کر اساتذہ کا حال پوچھیں تو پتہ لگتا ہے کہ اساتذہ کا زیا دہ وقت بچوں اور بچیوں کو لا قا نو نیت اور دہشت گر دی سے روکنے میں صرف ہو تا ہے ہر روز ہر جما عت کے کمرے میں دس بارہ بچوں کے پا س کوئی نہ کوئی آلہ قتل ہو تا ہے چا ہے لکڑی اور ربڑ کا ہی کیوں نہ ہو لکڑی کی تلوار، لکڑی کی چُھری، لکڑی کا چا قو، ربڑ کے تیر کمان، پلا سٹک کے کلا شنکوف اور پستول بچوں اور بچیوں کے پا س ہوتے ہیں.

اسا تذہ اس بات پر شکر بجا لا تے ہیں کہ با ر بار کی تنبیہہ کے بعد لو ہے کے آلا ت جنگ لیکر سکول نہیں آتے دیہات میں ایسے کئی واقعات ہوئے ہیں جن میں سکول یا مدرسہ سے گھر آتے وقت ایک بچہ غا ئب ہوا، رات کو پتہ لگا کہ ساتھیوں نے اس کو جنگل میں درخت سے با ندھ دیا تھا کیونکہ فلم میں ایسا ہوتا ہے، گھر کے صحن میں کھیلتے ہوئے پا نج بچوں میں دو زمین پر گر کر بے سُد ھہ ہو جا تے ہیں پو چھنے پر معلوم ہو تا ہے کہ دشمن کو مار نے کا ڈرامہ ہو رہا تھا لا ہور کی نواحی بستی میں ایک 14سالہ لڑکے نے اپنی ماں، بہن اور بھا ئی کو قتل کر دیا پو چھنے پر معلوم ہوا کہ کمپیوٹر کے کھیل پب جی (PubG) میں مر نے والا زندہ ہو تا ہے، بچے کا خیال تھا کہ میری ماں بھی زندہ ہو جا ئیگی بہن بھا ئی بھی جلدی جی اُٹھینگے یہ لا قا نو نیت اس وجہ سے ہو رہی ہے کہ ”فلم سنسر بورڈ“ نہیں رہا قوم کے نو نہا لوں کو بد تمیز، بد اخلا ق اور بد کردار کہا نیوں کے حوالے کیا گیا ہے، ان کہانیوں کو بچے گھر میں بھی دہرا تے ہیں سکول میں بھی، اس وجہ سے آج کل فلم سنسر بورڈ کی یا د آتی ہے۔


شیئر کریں: