Chitral Times

Apr 19, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

سرزمین حجاز پر حملے ناقابل برداشت!! …….پیامبر……. قادر خان یوسف زئی

Posted on
شیئر کریں:

یمن میں موجود حوثی باغیوں کی جانب سے سعودی عرب کی آئل تنصیبات پر ڈرون حملوں نے کشیدگی میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ گزشتہ ہفتے آئل تنصیبات پر حملے کے بعد حوثی باغیوں کی جانب سے جدہ اور شہر مکہ پر بھی حوثی باغیوں نے میزائل حملے کئے، جنہیں سعودیہ نے فضا میں ہی مار گرائے۔ یہ سنگین صورتحال ہے۔ سرزمین حجاز پر حوثی حملے امت مسلمہ کے جذبات کو ٹھیس پہنچا رہے ہیں۔ رمضان المبارک کے مہینے میں سر زمین حجاز میں زائرین لاکھوں کی تعداد میں آتے ہیں اور رمضان میں خصوصی طور پر عبادات میں مشغول رہتے ہیں۔ ان حالات میں حوثی باغیوں کی جانب سے میزائل حملے صورتحال کو مزید بگاڑ رہے ہیں۔ عرب ایران تنازع میں خطے میں کئی برسوں سے حالات کشیدہ ہیں اور اس صورتحال سے عرب ممالک و ایران کی کشیدگی میں تواتر سے اضافہ ہورہا ہے۔ امریکا اور ایران کے درمیان کشیدگی کی وجہ سے بھی عرب ممالک میں غیر متوقع جنگ کے سائے چھائے ہوئے ہیں۔ امریکا نے مشرق وسطی کی جنگی صورتحال کے تناظر میں 1500امریکی فوجیوں کو بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔امریکی وزارت دفاع ‘پینٹا گون’ نے کہا ہے کہ امریکا مشرق وسطیٰ میں ایران کی طرف سے لاحق خطرات کے تدارک کے لیے مزید 900 فوجی بھیجے جائیں گے۔ اس کے علاوہ خطے میں پہلے سے موجود 600 فوجیوں کے قیام کی مدت میں توسیع کی جائے گی۔ اس طرح مشرق وسطیٰ میں ہنگامی بنیادوں پر تعینات کیے جانے والے امریکی فوجیوں کی تعداد 1500 ہو جائے گی۔ پینٹاگون کا کہنا ہے کہ اضافی فوجی عملے میں پیٹریاٹ میزائلوں کی بیٹریوں کو آپریٹ کرنے، سراغ رساں طیاروں کے ماہرین اور انجینیئر شامل ہوں گے تاہم ایران کی طرف سے لاحق خطرات سے بچاؤ کے لیے عراق اور شام میں اضافی فوج تعینات نہیں کی جائے گی۔ اس سے قبل شام میں داعش کو شکست کے دعویٰ کے بعد امریکی صدر ٹرمپ نے اپنی فوجیوں کے انخلا کا اعلان کیا تھا لیکن اب لگتا ہے کہ مشرق وسطی میں امریکی موجودگی کی مدت میں مزید اضافہ ہورہا ہے۔ ان حالات میں مشرق وسطی میں امن کے لئے کی جانے والی کوششیں دم توڑتی جا رہی ہیں۔موجودہ صورتحال میں عرب ممالک کو اپنی مملکتوں کی حفاظت کے لئے جنگی ساز و سامان کی ضروریات بڑھتی جا رہی ہیں۔ ایران نے مشرق وسطی میں مزید امریکی فوجیوں کو بھیجنے کی مخالفت کی ہے اور بین الاقوامی امن کے لئے خطرہ قرار دیا ہے۔

امریکی کانگریس نے سعودی عرب کو امریکی جنگی سازو سامان فروخت کرنے پر پابندی عاید کی تھی۔ کانگریس نے یہ پابندی یمن میں اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کردہ رپورٹوں میں عام شہریوں اور بچوں کی ہلاکتوں اور بالخصوص سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد عاید کی تھی۔ تھا تاہم امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے ساتھ جاری کشیدگی کے تناظر میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور اردن کونگریس کی منظوری کے بغیر اپنے خصوصی اختیارات استعمال کرتے ہوئے عرب ممالک کو 8 ارب ڈالر کا اسلحہ فروخت کرنے کا اعلان کیا ہے۔صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ایران کے ساتھ کشیدگی کے باعث خلیج میں امریکہ کے اتحادی سعودی عرب کو خطرہ لاحق ہے جس کے پیشِ نظر یہ معاہدہ ضروری ہے۔فرانس کی وزیردفاع فلورینس پارلی نے کہا ہے کہ ان کا ملک سعودی عرب اورمتحدہ عرب امارات کو اسلحہ کی فروخت جاری رکھے گا پیرس ان دونوں ملکوں کے ساتھ دفاعی تعاون سے بے نیاز نہیں رہ سکتا۔ انہوں نے متنازع اسلحہ ڈیل کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ پیرس اس ڈیل سے بے نیازنہیں رہ سکتا۔ فرانس کو اپنی دفاعی صنعت کے دوام اور تسلسل کے لیے اس طرح کے معاہدے کرنا پڑیں گے۔ مسز پارلی کا کہنا تھا کہ میں یہ نہیں کہتی کی اقتصادی دلایل کوئی بڑا فیصلہ کرنے کا جوازفراہم نہیں کرتے۔ علاوہ ازیں جرمنی نے بھی سعودی عرب کو اسلحہ کی فروخت بحال کر تے ہوئے سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد سعودی عرب کو اسلحہ کی فروخت میں رکاوٹ کو ختم کر دیا ہے۔ جرمن سلامتی کونسل نے خلیجی ممالک کو فوجی سازو سامان اور ٹیکنالوجی کی فروخت کے بل کی منظوری دے دی ہے۔جرمنی میں تیار کردہ عسکری سامان اور سافٹ ویئرز کو اولین طور پر فرانس اور پھر وہاں سے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو بھیجا جائیگا۔فرانس اور جرمنی کی جانب سے تیار کردہ” کوبرا ریڈار“ کے بعض پارچہ جات اور سافٹ ویئر اپ ڈیٹس کی متحدہ عرب امارات کو برآمدات کی بھی کونسل نے منظوری دے دی ہے۔یاد رہے کہ یورپی اتحادی ممالک فرانس اور برطانیہ نے جرمنی کی جانب سے اسلحہ کی برآمدات کو روکنے کے فیصلے پرمشترکہ دفاعی پالیسیوں کو نقصان پہنچانے کے جواز میں نکتہ چینی کی تھی۔

امریکی طیارہ بردار جنگی جہاز ”ابراہم لنکن” نے بحر عرب میں مشقوں کا آغاز کر چکے ہیں، جب کہ سوشل میڈیا پر ایرانی حلقوں کی جانب سے پوسٹ کیے جانے والے وڈیو کلپوں میں ایرانی پاسداران انقلاب کی جانب سے فضائی دفاعی میزائل سسٹمS-300 کی بیٹریز کو خلیج عربی کے کنارے واقع علاقوں میں منتقل کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ مبینہ وڈیو کلپوں میں میزائلوں اور فوجی ساز و سامان سے بھرے عسکری ٹرک اتوار کے روز بوشہر صوبے کے علاقے عسلویہ جاتے ہوئے دکھائی گئے ہیں۔ یہ علاقہ ایران کے جنوب میں خلیج عربی کے مقابل واقع ہے۔ایرانی فضائیہ کے سربراہ امریکی دھمکی کے جواب میں بمباری اور عرب آئل تنصیبات کو نشانہ بنانے کی عندیہ دے چکے ہیں۔ حوثی باغیوں کی کی جانب سے سعودی تنصیبات اور بغداد میں امریکی سفارت خانے کو نشانہ بنانے کی کوشش کی اطلاعات عالمی ذرائع ابلاغ میں آئی ہیں۔حوثی باغیوں کی جانب سے سعودی شہروں پر بلاسٹ میزائلوں حملوں میں مکہ کو نشانہ بنانے کی تردید کی گئی ہے۔

سعودی عرب کے ساتھ مسلم امہ کی خصوصی والہانہ عقیدت کی بنیادی وجہ خانہ کعبہ، مدینہ منورہ سمیت سر زمین حجاز میں مقدس مقامات ہیں۔ ان مقدس مقامات کی حفاظت کے لئے سعودی عرب اپنے وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے بڑے بھاری پیمانے پر جنگی ساز و سامان خریدنے پر مجبور ہے کیونکہ مقدس مقامات کی حفاظت اور مملکت کی دفاع جدید ساز وسامان کے بغیر ممکن نہیں ہے۔یزید بن معاویہ نے اپنے عہد حکومت میں اللہ کے مقدس گھر کعبہ پر منجنیقوں سے پتھر برسائے جس سے کعبہ کی دیواریں منہدم ہو گئیں، روئی اور گندھک کے بڑے بڑے گولوں میں آگ لگا کر بیت اللہ میں پھینکے گئے، اس حرکت کی وجہ سے غلاف کعبہ میں آگ لگ گئی، کعبہ کی دیواریں جل کر سیاہ اور شکستہ ہو گئیں اور چھت گر گئی۔یہ واقعہ 64 ہجری کا ہے۔ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ نے کعبہ کی دوبارہ تعمیر کرائی۔ بنو امیہ کے عہد میں خانہ کعبہ پر دوبارہ حملہ کیا گیا، جس سے نہ صرف کعبہ کو نقصان پہنچایا گیا بلکہ حدود حرم میں بھی قتل و غارت گری کی گئی۔ 72 ہجری میں جب حجاز مقدس میں عبداللہ بن زبیرؓ کی حکومت تھی، ایک لشکر حجاج بن یوسف کی قیادت میں مکہ میں حملہ آور ہوا، سنگ باری کی گئی جس سے کعبہ کی چھت گر گئی۔ عبد اللہ بن زبیرؓ اور ان کے ساتھی شہید ہوئے، ایک روایت کے مطابق عبد اللہ بن زبیرؓ کا سر کاٹ کر کعبہ کے پر نالے میں لٹکا دیا گیا اور لاش کو سولی پر لٹکا دیا۔ یہ شہادت کا واقعہ 73 ہجری میں پیش آیا۔تاریخ اسلام میں ایک ایسے فرقے کا ذکر ملتا ہے جو ابن الحنفیہ کو نعوذ باللہ رسول مانتا تھا، اس فرقے کے لوگ صبح و شام دو وقت کی نماز پڑھتے تھے اور سال میں دو دن کے روزے رکھتے تھے، انھوں نے اپنا قبلہ کعبہ کے بجائے بیت المقدس کو قرار دے رکھا تھا، اس فرقہ کو قرامطہ کہا جاتا ہے، ایک زمانے میں ان کا اثر اس قدر بڑھ گیا تھا کہ حاجیوں کے ساتھ مارپیٹ کر کے ان کا سامان لوٹ لیتے تھے۔انھوں نے کعبہ کے اندر حاجیوں کو قتل کر کے ان کی لاشیں زمزم کے کنویں میں ڈال دیں اور کعبہ کی عمارت کو توڑ ڈالا، اس کے سردار طاہر نے حجر اسود کو گرز مار کر توڑ ڈالا اور یمن لے گیا، جہاں اس کی حکومت قائم ہو گئی تھی۔ وہ یہ بھی اعلان کرتا گیا کہ آیندہ حج مکہ میں نہیں یمن میں ہوا کرے گا، بیس سال تک حجر اسود کعبہ سے دور رہا، یہ وقعہ 318 ہجری کا ہے، جب کہ بنو عباس کی خلافت کا زمانہ تھا اور مقتدر باللہ خلیفہ تھا، اسی کے ساتھ مصر میں فاطمی سلطنت کا بھی آغاز ہو چکا تھا۔خانہ کعبہ پر ہاتھی کی فوج لے کر حملہ آور ہونے والے ابرہہ کا تعلق بھی یمن سے تھا اور قرامطہ کا تعلق بھی یمن سے تھا، دونوں خانہ کعبہ کی حرمت اور اس کے تقدس سے حسد کرتے تھے اور چاہتے تھے کہ کعبہ کا تقدس ختم ہو جائے۔بیس سال تک حجر اسود یمن میں رہا لیکن کسی بھی مسلم ملک نے حجر اسود کو واپس لانے کے لیے کوئی عمل نہیں کیا۔ اب دوبارہ یمن میں ایک حوثی باغیوں کی بغاوت نے سر اٹھایا ہے، داعش بھی حجاز مقدس تک رسائی چاہتا ہے اور اس کے ارادے بھی وہی ہیں کہ جس طرح مقدس اسلامی استعاروں کی بے حرمتی کی اسلام کے نام پر حجاز مقدس میں اپنا مذموم ارادہ کامیاب کرے۔ ان حالات میں امت مسلمہ کو سر زمین حجاز کی حفاظت کرنا واجب ہوجاتا ہے کہ اللہ کے گھر خانہ کعبہ اور حضرت محمد ﷺ کے روضہ مبارک سمیت سر زمین حجاز پر حملوں کے خلاف مذمت کریں اور سر زمین حجاز کی حفاظت کے لئے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائیں۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
22782