Chitral Times

May 8, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

چترال کا کشمیر ۔ تحریر: تقدیرہ خان

شیئر کریں:

چترال کا کشمیر ۔ تحریر: تقدیرہ خان

نولکھی کوٹھی کا مصنف ایک انگریز سول سرونٹ ولیم کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر نظر ڈالتے ہوئے آزادی سے پہلے کے پنجاب، یہاں کی ثقافت اور طرز زندگی پر جس طرح کمنٹری کرتا ہے لگتا نہیں کہ وہ لکھ رہا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ناطق کی جگہ میر سبحانی بیٹھا ہمیں ایک ایسی داستان سنا رہا ہے جس کا ہم سب حصہ ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ سودھا سنگھ کی جگہ اب نودولیتے اور کرپٹ سیاستدان آ گئے ہیں جن میں کوئی بھی سر ذوالفقار ممدوٹ اورافتخار ممدوٹ جیسا حب الوطن نہیں۔ چوہدری غلام حیدرجیسا غیرت مند اور اپنی رعایا کے لئے جان لینے اور دینے والا بھی کوئی نہیں مگر بیورو کریسی پہلے سے بھی بدتر ہے۔ اسسٹنٹ کمشنر ولیم کا دادا او رباپ بھی ہندوستان میں بیورکریٹ تھے جنہوں نے تب اوکاڑہ میں ایک فارم ہاؤس بنایا اور نولاکھ روپے کی لاگت سے ایک عالیشان محل نما کوٹھی بھی تعمیر کی جونولکھی کوٹھی کے نام سے مشہور تھی۔ ولیم اگرچہ انگریز بیورو کریٹ تھا جسے تکبر، رعونت، اکھڑپن اور دیسی لوگوں سے نفرت کرنے کی تربیت دی گئی تھی مگروہ اس ساری تربیت کے باوجود کھبی کھبی انسان دوست بن جاتا اور لوگوں کی ویلفیئر کے کام کرتا۔


ولیم کی عوام دوستی کی وجہ سے اُس کی تحصیل میں کئی ایسے کام ہوئے جو عوام کے لئے خوشحالی اور ولیم کے لئے پریشانی کا باعث بنے۔ ولیم کی کوششوں سے ایک بڑی نہرنکالی گئی اور ساری بنجر اور بیکار زمینوں پر کھالوں اور راج واؤں کے ذریعے پانی کا انتظام ہوا۔ ساری تحصیل میں ہر سو ہریالی کا سماں پیدا ہو گیا۔ غلہ وافر مقدار میں پیدا ہونے لگا اور غربت کا خاتمہ ہو گیا۔ ولیم کی کوششوں سے رابطہ سٹرکیں اگرچہ کچی تھیں مگر تعمیر ہوئیں۔ سکولوں کی حالت بہتر کی گئی اور والدین کو احساس دلایا کہ وہ بچوں کو سکولوں میں داخل کروائیں۔ ولیم نے نئے استاد بھرتی کیے اور تحصیل میں امن و امان قائم کرنے کی بھر پور کوشش کی۔ ولیم کی انسان دوستی اور ترقیاتی کاموں میں دلچسپی کی سزا اُسے بھگتا پؤڑی اور چیف سیکرٹری نے اُس کا تبادلہ لاہور سیکریٹریٹ میں کر دیا۔ عرصہ تک بیکا رہنے کے بعد اسے ڈپٹی کمشنر تو بنا دیا گیا مگرکوئی ایسا ضلع نہ دیا گیا جہاں وہ دلجمعی سے عوام کی خدمت کرتا۔ تاہم وہ جہاں بھی رہا کچھ نہ کچھ کر تارہا اور زیر عتاب ہی رہا۔ تقسیم ہند کے بعد وہ پاکستان میں ہی رہا اور پنجاب کے چیف سیکرٹری کو درخواست دی کہ اسے پاکستان میں رہنے اور ڈپٹی کمشنر کے عہدے پر کام کرنے کی اجازت دی جائے۔ پنجاب حکومت نے اسے ملک بدر تو نہ کیا مگر اسے نہ نوکری اور نہ ہی ملک میں رہنے کی سرکاری اجازت دی۔ بعد میں اُس کی ساری زمین فوجی افسروں کو الاٹ کر دی گئی اور نولکھی کوٹھی بھی کسی پیر گیلانی نے ہتھیالی۔


ولیم کی کہانی ختم نہیں ہوئی بلکہ جاری ہے۔ہماری بیورو کریسی کی تربیت بھی ویسی ہی ہے جیسی کبھی تھی۔ عوام سے نفرت اور تکبر ورعونت کا لبادہ، کرپشن، بددیانتی اورکام چوری۔ ہمارے ہاں کئی غلام اسحاق خان، روئیداد خان، سرتاج عزیز، شوکت عزیز، شوکت ترین، اعظم اور عظیم آئے مگر ولیم جیسا کوئی نہ آیا۔ تقسیم سے پہلے روہتک، کا نگڑا اور راجستان کے کئی اضلاع پسماندہ اور غربت زدہ تھے تو تقسیم کے بعد چترال جیسے اضلاع کی حالت اُن سے بھی بد تر تھی۔ ڈوگرہ دور میں رابرٹ تھروپ نامی انگریز صحافی کشمیر، بلتستان اور گلگت سے ہوتا چترال آیا اور یہاں کے عوام کی زبو حالی پر مفصل رپورٹ انگلینڈ اور ہندوستان کے اخباروں میں شائع کروائی۔ بدلے میں ڈوگرہ حکومت نے رابرٹ تھروپ کو قتل کروا دیا۔
کرنل ڈیورنڈ اور لیفٹینٹ ینگ ہاسبنڈ نے بھی چترالی عوام کا خیال رکھا اور انہیں جنڈولی کے عمراخان اور افغانستان کے بادشاہوں کی دستدرازی سے بڑی حدتک محفوظ کیا۔


قیام پاکستان کے بعد بھی چترال کے عوام کی پریشانیاں اپنی جگہ برقرار رہیں۔ چترالی عوام کے دکھ درد سمجھنے والے بیورو کریٹ ناپیدرہے اور جو بھی اس ملک میں آیا انگریز کا نمائندہ اور وائسرائے بن کرآیا۔ شکیل درانی جیسے لوگ جو بعد میں چیف سیکرٹیری اور وفاقی سیکرٹیری بھی رہے چترال میں چھٹیاں گزارنے آئے اور چلے گئے۔ چترال کے لوگوں سے بیورو کریسی کا وہی رشتہ رہا جو کبھی مشرقی پاکستان کے عوام سے تھا۔
ایک وقت ایسا آیاکہ چترال سکاؤٹ میں کرنل نئیر مراد بحیثیت کمانڈنٹ پوسٹ ہوئے اور پھر یہاں کے ہی ہو گئے۔اپنی حیثیت اور عہدے سے بڑھ کر چترالی عوام کی خدمت کی اور اہل چترال نے بھی اُن کی عزت و تکریم میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی۔


ڈپٹی کمشنر اسامہ وارئچ سے کون واقف نہیں۔ پنجاب کا یہ سپوت اہل چترال کے دلوں میں بس گیا اور تا قیامت بسا رئیگا۔ اسامہ وارئچ نے مختصر عرصہ میں عوامی فلاح و بہبود کے اتنے کام کیے جتنے کبھی پچھلے ادوار میں نہیں ہوئے تھے۔ چترال کے اس محسن کو قدرت نے زیادہ وقت نہ دیا اور وہ ہوائی حادثے میں جان بحق ہو گیا۔

chitraltimes dc upper muhammad ali 2


ایسا ہی ایک ڈپٹی کمشنر آزادکشمیر کے ضلع نیلم میں پوسٹ ہوا تھا جسے اہل نیلم و مظفرآباد کبھی بھول نہ سکیں گئے۔ نوکر شاہی اور سیاسی جنتا ایک تھیلی کے چٹے بٹے نہ ہوں تو کرپشن کی سیاست اور مافیا کی حکومت چل ہی نہیں سکتی۔ چترالیوں کے مصائب و مشکلات سے کون واقف نہیں۔ لواری ٹاپ کا نام سنتے ہی اہالیان چترال پر خوف طاری ہو جاتا تھا۔ سردیوں میں لواری ٹاپ پر کھڑی گاڑیوں میں رُکے مسافر اور مریض جان کی بازی ہا ر جاتے اورجو بچ جاتے برف کے طوفانوں میں چل کر بمشکل چترال یا دیر تک پہنچتے۔ افغانستان میں کرزئی کی حکومت آئی تو افغانستان کے علاقے سے چترالیوں کا گزرنا مشکل ہو گیا۔ تیس سالوں تک چترالی عوام افغانوں کی مہمان نوازی کرتے رہے مگر افغانوں نے صلح میں ان کے علاقوں سے گزرنے والے چترالیوں کو اغوا کرنا شرو ع کر دیا۔ وہ بھول گئے کہ چترال کی سرحد سے ملحق تین اضلاع اور واخان سے سری کول تک کا علاقہ ریاست چترال کا ہی حصہ ہے۔
جنرل پرویز مشرف کا شمار بھی اہل چترال کے محسنوں میں ہوتا ہے۔لواری ٹنل پر بھٹو سے لیکر نواز شریف تک بیان بازی تو ہوتی رہی مگر عمل کسی نے نہ کیا۔ بیگم بھٹو اورجی آلانہ خاندان یہاں سے الیکشن لڑتے اور کامیاب ہوتے رہے مگر لواری ٹاپ کی مشکلات پر کسی نے توجہ نہ دی۔ جنرل پرویز مشرف نے ہی یہ مشکل آسان کی اور لواری ٹنل کی تعمیر کے بعد اب چترال جانا انتہائی آسان اور محفوظ ہے۔ جنرل پرویز مشرف کا یہ عظیم کارنامہ سنہری حروف میں لکھنے کے قابل ہے۔ چترال، دیراور سوات کے راستے میں مالا کنڈ کا پہاڑ ایک بڑی رکاوٹ تھی۔ درگئی سے چکدرہ تک پہنچنے میں اتنا ہی وقت لگتا تھا جتنا پشاور سے در گئی تک۔مسلسل چڑھائی، گاڑیوں کی سست رفتاری اور بریک ڈاؤن کی وجہ سے سٹرک بند ہونے سے گھنٹوں کا انتظار ایک مشکل مرحلہ تھا۔ سوات آپریشن کے بعد پاک فوج نے اس مشکل کو بھی آسان کر دیا۔ما لاکنڈ ٹنل جنرل راحیل شریف اور جنرل باجوہ کا عظیم کارنامہ ہے۔ اب اسلام آباد سے چکدرہ تک صرف دو گھنٹے کی مسافت ہے۔ چارگھنٹوں میں سوات اور آٹھ سے کم گھنٹوں میں چترال پہنچ سکتے ہیں۔ پاک فوج کا یہ عظیم کارنامہ ہماری تاریخ کا حصہ ہے جس کی وجہ سے ان علاقوں میں سیاحت اور ترقی کی رائیں کھل گئی ہیں۔

chitraltimes dc upper muhammad ali 1


اہالیان چترال کے محسنوں میں ایک نام ڈپٹی کمشنر محمد علی خان کا بھی ہے جس نے رعونت، تکبر او رنفرت کے بجھائے اہل چترال سے محبت، اخوت اور بھائی چارے کا رشتہ قائم کیا۔ محمد علی خان صاحب نے عوام کی خدمت، ترقی اور خوشحالی کے منصوبوں پر کام کیا اور مقامی لوگوں سے ملکر سیاحت کی صنعت کو فروغ دیا۔ امن وامان کے سلسلے میں حائل رکاوٹیں دورکیں اور لوگوں کے دلوں میں احساس ذمہ داری کا بیج بو یا۔ڈپٹی کمشنر محمدعلی خان نے جلدہی عوام کے دلوں میں اپنا مقام پیدا کر لیا اور ڈپٹی کمشنر کے دفتر اور گھر کے دروازے ہر حاجت مند اور ضرورت مند کے لیے کھول دیے۔
ولیم کی طرح ڈپٹی کمشنر محمد علی خان کی عوام دوستی سے نہ صرف اعلیٰ بیوروکریسی بیزار تھی بلکہ مقامی سیاسی مافیا اور ٹاؤٹ بھی نالاں تھے۔ کمیشن خوروں اور رشوت خوروں کی کمائی میں کمی واقع ہوئی تو سب نے ملکر ڈپٹی کمشنر کے گرد گھیرا تنگ کر دیا۔ جنا ب عمران خان نے الیکشن سے پہلے اور اپنے پارٹی منشور میں جو وعدے کیے تھے جناب محمد علی خان نے اُن پر بھر پور توجہ دی تو پی ٹی آئی کے مقامی عہدے داروں کو یہ بات پسند نہ آئی۔ جو لوگ اپنی چٹ چلانے اور کام رکوانے کی سیاست کے عادی تھے انہیں کام کرنیوالا ڈپٹی کمشنر ہر گز قبول نہ تھا۔ ولیم کی طرح محمد علی خان کو بھی صوبائی سیکرٹریٹ میں تبدیل کر دیا گیا تاکہ کام کرنے والا کوئی افسر فیلڈ میں نہ رہے۔


ڈپٹی کمشنر محمد علی خان کی انتھک محنت اور عوامی کاموں میں دلچسپی کے نتیجے میں بہت پرانے اوررکے ہوئے کام مکمل ہوئے اور درجنوں نئے پروجیکٹ جن پر کام ہونا تھا ان کی پوسنگ کی وجہ سے ادھورے رہ گئے۔

ڈی سی اپر چترال


استو رو پل کی تعمیر کا کام 2010سے رکا ہو اتھا جس کی تکمیل ڈپٹی کمشنر محمد علی خان کے دور میں ہوئی۔ اگر ڈپٹی کمشنر اس کام میں دلچسپی نہ لیتے تو یہ پل تاحال زیر تعمیر ہی ہوتا۔ پیرا گلائیڈنگ اور فری سٹائل پولو کو عالمی سطح پر متعارف کروانے کا کام بھی اسی ڈپٹی کمشنر نے کیا جسے نیشنل سروس نہ کہنا زیادتی ہو گی۔ سیاحوں اور شائقین کے لیے سہولیات اور عارضی کیمپوں کا انٹرنیشنل سٹنڈر کے مطابق قیام بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔کھیلوں کے دوران امن و امان قائم رکھنا اور صحت کی سہولیات فراہم کرنا بھی کوئی آسان کام نہیں ہوتا۔ ایسے تہواروں پر مقامی لوگوں کے علاوہ ملکی اور غیر ملکی کھلاڑیوں اور شائقین کے لیے جو سہولیات فراہم کی گئیں اُسے ہر سطح پر سراہا گیا مگر حاسدین کو یہ سب کچھ ہضم نہ ہوا۔
جناب محمد علی خان کے دورمیں ہی ریسکیو 1122کا قیام عمل میں آیا۔ اسی طرح 4.5میگاواٹ ریشون ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کا کام بھی ڈپٹی کمشنر کی ذاتی نگرانی میں پائیہ تکمیل کو پہنچا۔ ڈپٹی کمشنر محمدعلی جیسا افسر تمغہ حسن کارکردگی کا حقدار تھا مگر سیاسی ٹھیکیداروں اور کام نہ کرنے کی عاد ی بیورو کریسی کو ایسے لوگ ایک نظر نہیں بہاتے۔ بدقسمتی یہ کہ صوبے اور مرکز میں بیٹھے لوگ بھی سفارشیوں کے نرغے میں ہیں۔ اہلیان چترال کی بد قسمتی کہ اب موجودہ حکومت کے دور میں کوئی ایساشخص نہیں آئیگا جسے اس خطہ زمین کے لوگوں سے ہمدرد ی ہو۔ محمد علی خان چترال کی تاریخ میں تو نام لکھوا گئے مگر کئی سالوں تک شاید کوئی ایسا شخص نہ آئے جو عوام کی خدمت کے صلے میں اپنی نوکری خراب کرنے کی ہمت کرسکے۔

ڈپٹی کمشنر

شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
58518