Chitral Times

Apr 26, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

ہاتھی کے کان میں سویا کمانڈر……….. محمد شریف شکیب

شیئر کریں:

بھارتی فوج کے کمانڈرپین روات نے پاکستان کو مشورہ دیا ہے کہ آپ ہماری طرح بن جائیں پھر آپ سے مذاکرات ہوسکتے ہیں۔ پین راوت کا دعویٰ ہے کہ بھارت ایک سیکولر ریاست ہے وہ پاکستان جیسے اسلامی ملک سے کیسے بات چیت کرسکتا ہے۔ کرتارپور راہداری منصوبے کی افتتاحی تقریب سے خطاب کے دوران ہمارے وزیراعظم عمران خان نے بھارتی حکومت کو پیش کش کی تھی کہ کشمیر سمیت تمام تنازعات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کے لئے پاکستان تیار ہے۔ بھارت دو قدم آگے بڑھائے تو ہم چار قدم آگے بڑھیں گے۔ اصولی طور پر پاکستان کی اس پیش کش کا جواب وزیراعظم نریندر مودی کو دینا چاہئے تھا۔اگر واقعی بھارت میں نمائندہ جمہوری حکومت ہے تو بھارتی آرمی چیف کو سیاسی پیش کش کا جواب دینا کا اختیار کس نے دیا؟ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کشمیر سمیت پاک بھارت تنازعات پر بھارتی فوج خود کو اتھارٹی سمجھتی ہے۔ اس اب تک جتنے مذاکرات ہوئے ہیں ان کی ناکامی کی ذمہ داری بھی بھارتی فوج پر ہی عائد ہوتی ہے۔ جہاں تک پاکستان کا بھارت کی طرح بننے کا سوال ہے۔ تو شاید پین راوت نے برصغیر کی تاریخ پڑھی ہی نہیں۔ اگر ان کی طرح بننا ہمیں گوارا ہوتا تو تحریک پاکستان چلانے اور لاکھوں جانوں کا نذرانہ دینے کی کیا ضرورت تھی۔ بھارتی آرمی چیف کو شاید دو قومی نظریئے کے بارے میں کوئی خاص معلومات نہیں۔ یہ نظریہ سب سے پہلے سر سید احمد خان نے پیش کیا تھا۔ علامہ اقبال نے 1930کے عشرے میں اس نظریئے کی تائید کی ۔اور پھر قائد اعظم محمد علی جناح نے اسے مزید واضح کیا کہ ہندوستان میں آباد مسلمان اور ہندو دو الگ الگ قومیں ہیں۔ ان کی تاریخ ایک دوسرے سے مختلف، مذہب، رسومات ، رہن سہن ،نام و نصب الگ ہیں وہ آپس میں رشتے نہیں کرسکتے اور نہ ہی ایک دسترخوان پر بیٹھ کر کھانا کھا سکتے ہیں یہاں تک کہ ہندو گائے کی پوجا کرتا ہے اور مسلمان اسے ذبح کرکے کھاتا ہے۔ اگر فرنگی بھی ہندووں کے کہنے پر مسلمانوں اور ہندووں کو ایک ہی قوم سمجھتا ہے تو وہ فاش غلطی پر ہے۔اگر بھارتی آرمی چیف کو اس خطے میں بسنے والے لوگوں کے پس منظر کے بارے میں تھوڑی بہت معلومات ہوتیں تو وہ اس قسم کے بے سروپا بیانات دینے سے پہلے بار بار سوچتے۔ بھارت کو یہ عالمگیر صداقت تسلیم کرنی ہوگی کہ وہ سب کو اپنی طرح نہیں بناسکتا۔اسے جو پڑوسی ملے ہیں ان کے ساتھ پرامن بقائے باہمی کے اصول کے تحت رہنا ہوگا۔ صرف پاکستان ہی نہیں، سری لنکا، بنگلہ دیش، بھوٹان، برما اور نیپال بھی اسے خطے میں ر ہتے ہیں ان میں سے کسی ملک کی طرف سے بھارت کو کوئی مسئلہ نہیں۔ لیکن بھارت کی طرف سے سارک تنظیم کے تمام ممالک کو مسائل درپیش ہیں۔ پین راوت شاید ہاتھی کے کان میں سوئے ہوئے اٹھے ہیں۔ وہ کیسے دعویٰ کرسکتے ہیں کہ بھارت سیکولر ملک ہے۔ وہاں تو درجن بھر ہندو انتہاپسند تنظیموں کی حکمرانی ہے۔ راشٹریہ سیوک ، وشوا ہندوپریشد، شیو سینا اور خود حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی بھارتی سرزمین پر ہندووں کے علاوہ کسی کو برداشت نہیں کرتیں۔ وہاں مسلمانوں ہی نہیں ، عیسائیوں، سکھوں، تاملوں اور سنہالیوں کی زندگی بھی اجیرن ہے۔ خود حکمران جماعت بی جے پی انتہا پسند جماعت آر ایس ایس کی سیاسی ونگ رہی ہے اور اس نے 1984میں بابری مسجد کو دو لاکھ کارکنوں کی مدد سے شہید کرکے وہاں رام مندر تعمیر کرنے کی کوشش کی تھی۔ ان کا یہ قول ہے کہ ہندوستان میں رہنے والے سب لوگ ہندو نسل کے ہیں۔ مسلمان ، سکھ اور عیسائی ہندومذہب اختیار کریں یا ہندوستان چھوڑ دیں۔شاید پین روات کو یہ بھی معلوم نہیں کہ موہن داس کرم چند ، اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی کو کس نے قتل کیا تھا۔ بھارتی آرمی چیف کی یہ بات بھی ان کی لاعلمی کا مظہر ہے کہ پاکستان اسلامی ریاست ہے۔ اسلامی ریاست میں قرآن و سنت کا قانون نافذ ہوتا ہے۔وہی ملک اسلامی ریاست کہلاتی ہے۔ دنیا کے 60مسلم ممالک میں سے کسی میں بھی اسلامی نظام رائج نہیں۔ ہمارے ہاں1973کا آئین نافذ ہے اور وفاقی طرز کی پارلیمانی جمہوریت ہے۔ یہ مسلمانوں کی ریاست ہے ۔اسلامی ریاست نہیں۔ بھارت بے شک ہمارے ساتھ بات چیت نہ کرے۔ لیکن اس کی خوشی کی خاطر ہم اس جیسا بننے کے لئے تیار نہیں۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
16350