Chitral Times

Apr 24, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

ڈاکٹر یو نس خالد کی نئی کتاب……. تحریر: شہزادہ تنویرالملک ایڈوکیٹ

شیئر کریں:

”ریاست ِچترال کی تاریخ اورطرزحکمرانی“کے نامکمل مسودے پرنظرپڑی تھی۔سرسری مطالعے سے ہی کتاب کی خوبیاں مجھ پر اشکارہوئی تھیں اورمیں نے بے تحاشا آفرین اورشاباش کی صدائیں بلندکی تھیں۔آج اس مسودے کومکمل کتابی صورت میں سامنے دیکھ کردل باغ باغ ہوگیااوریک گونہ مسرت ہوئی کہ ؎ ذرانم ہوتو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
چترال کی تاریخ کے حوالے سے مختلف موضوعات پر روزروزنئی کتابیں سامنے آرہی ہیں اورہرکتاب اپنے موضوع کے حوالے سے اہمیت وافادیت کی حامل ہے لیکن زیرنظر کتاب اپنے اندازِ تحریر،طرزبیان اوراسلوب کے اعتبارسے ان سب سے ہٹ کرہے۔اس کتاب کی سب سے بڑی خوبی اختصارہے مصنف نے وقت کی قدروقیمت کے پیش ایسا سائیٹفک اوردلکش اندازِ تحریراختیارکیاہے کہ اس کتاب کوپڑھتے ہوئے قاری غیرضروری تفصیلات میں الجھے بغیر نہایت مختصر وقت میں اہم واقعات اور قیمتی معلومات کے موتی سمیٹتے اور تاریخ کاسفرکرتے ہوئے اختتام کی طرف بڑھتاہے۔
اس کتاب کی دوسری بڑی خوبی جو میں نے محسوس کی غیرجانبداری ہے۔مصنف نے شعوری طور پر حتی المقدوراس بات کی کوشش کی ہے کہ ان کی تحریرکسی بھی قسم کی نسلی،قومی،گروہی،علاقائی اورمذہبی الودگی سے پاک ہو اوروہ بالکل غیرجانبدرانہ انداز میں تاریخ کے حوالے سے اپنامطمع نظرپیش کرسکیں۔میری رائے میں مصنف اس کوشش میں بڑی حدتک کامیاب رہے ہیں۔

کتاب کی تیسری بڑی خوبی سلاست ِزبان ہے۔ مصنف کو قومی زبان ا ُردو پر عبورحاصل ہے جس کااظہاران کی کتاب ”ریاست ِ چترال کی تاریخ اورطرزحکمرانی“ میں ہرصفحے پرنظرآتی ہے۔ سلیس ا ُردو زبان کے استعمال کی وجہ سے مطالعے کا لطف دوبالا ہونے کے ساتھ ساتھ کتاب کی وقعت میں بھی بدرجہااضافہ ہوتاہے۔

کتاب کی ایک اوربڑی خوبی موضوعات کاانتخاب ہے اپنی اہمیت وافادیت کے اعتبارسے ہرموضوع خصوصی اہمیت کاحامل ہے یوں محسوس ہوتاہے کہ جیسے اس مختصرکتاب میں گویا ایک جہاں سمودیاگیا ہے۔۴۴۲ صفحات پرمشتمل اس کتاب کو تین ابواب میں تقسیم کیاگیاہے پہلے باب میں چترال کامختصر تعارف،اسلام کی آمدسے پہلے کے مذاہب اور ادوارکامختصرتذکرہ پھر اسلام کی آمدکے بعدمسلم حکمرانوں رئیس اورکٹور خاندان کاتذکرہ وتعارف مختصرالفاظ میں پیش کیاگیاہے اورغیرضروری تفصیل اور لفاظی سے احترازبرتے ہوئے ہرحکمران کاصرف نام اورعرصہ اقتدارلکھاگیاجس سے قاری کواس حکمران کے نام اوردور حکومت کاپتہ چل جاتا ہے اور وہ غیرضروری تفاصیل کا بوجھ ذہن پر اٹھائے بغیر تاریخ کے اس سفرمیں آگے بڑھتا چلا جاتاہے۔اس باب میں ریاست ِ چترال میں مذہب کی تاریخ کے عنوان سے یہاں پائے جانے والے مذاہب اور ان کی چترال میں ورود اوران مذاہب کے مبلغین کامختصرتعارف پیش کیاگیاہے جوتاریخ کے طالب علموں کے لیے خاصے کی چیزہے۔

دوسرے باب میں ریاست چترال کی طرزحکمرانی کے عنوان کے تحت یہاں کے سماجی طبقات پربحث کی گئی ہے اوراس سلسلے میں یہاں کی تاریخ پرلکھی گئی کتابوں سے استفادہ کیاگیاہے۔اس باب میں ریاست چترال کے انتظامی ڈھانچے پربحث کے علاوہ چندایک ریاستی عہدیداروں کا تعارف بھی پیش کیاگیا ہے جوآج کل کے لوگوں خصوصاََ نوجوان نسل کے لیے نئی چیزہے کیونکہ چترال کی تاریخ کے حوالے سے لکھی جانے والی نئی کتابوں میں ان چیزوں کاتذکرہ نہیں ہوتااورتاریخ چترال کی پرانی کتب نایاب ہیں اس لیے ان باتوں سے نئی نسل ناواقف ہے۔اس باب میں ریاست کے مالیاتی نظام کے حوالے سے بھی معلومات فراہم کی گئی ہیں، بہت کم لوگوں کوعلم ہوگاکہ اس دور میں نظام ِ حکومت چلانے کے لیے آمدن کے ذرائع کیاتھے۔اس کے علاوہ ریاست کے نظام اراضی پربحث کی گئی ہے کہ ریاستی جائداد اورذاتی جائدادمیں کیافرق تھا۔رایت دوری کسے کہاجاتاتھا شیرموژ گاڑوکیاہوتاتھا وغیرہ۔اس دورسے وابستہ یہ سب چیزیں بھلائی جاچکی ہیں اور آج کل کے لوگوں کے لیے نئی ہیں جنھیں فاضل مصنف نے اپنے زورِ قلم سے زندہ کیا ہے۔اسی طرح مہتر اورشاہی قلعہ کی سرگرمیاں کے عنوان کے تحت مختلف موضوعات پرقلم اٹھایاہے جو اپنی جگہ کتاب کی دلکشی و دلچسپی کاباعث اورمعلومات آفزا ہیں۔ریاست کے نظام عدل،عوامی خدمت کے اداروں اورریاست کے دفاعی نظام کے حوالے سے قابل قدرمعلومات فراہم کی گئی ہیں۔

اس کتاب کا آخری باب’’ اکیسویں صدی کاچترال ‘‘موضوع کی اہمیت کے اعتبارسے گزشتہ ابواب پربھاری ہے کیونکہ ریاستی دور کی تاریخ کے حوالے سے یہاں انیسویں صدی کی ابتدا سے سے آج تک مسلسل کام ہورہا ہے ۔ مرزاسیار، مرزاغفران ہزہائنس سر ناصرالملک ،شہزادہ محمدحسام الملک، لیفٹنٹ غلام مرتضی ،منشی عزیزالدین ،شیرمحمدکابلی اوریوروپی مصنف نے کے علاوہ عہد ِ حاضر کے مقامی لکھاریوں نے بھی اپنے اپنے اندازاورترجیحات کے مطابق یہاں کے ریاستی دورکی تاریخ پرکام کیا ہےلیکن چندایک لکھاریوں کے مختصرمضامین کے علاوہ ریاستی دورکے بعدکے حالات وواقعات کے حوالے سے اس طرح کی کوئی تفصیلی تحریرمیری نظرسےنہیں گذری جس میں 1956ء میں ریاستی نظام کے خاتمے اور الحاق پاکستان کے بعدیہاں وقوع پذیرہونے والے اہم واقعات کا تفصیلی جائزہ پیش کیا گیا ہو۔

فاضل مصنف نے اپنی کتاب کے اس آخری باب میں الحاق ِ پاکستان کے بعدچترال کے حالا ت اوریہاں منعقد ہونے والے انتخابات ، مغربی پاکستان کی صوبائی اسمبلیوں اوریہاں کے منتخب نمائندوں کی فہرست ،چترال میں این جی اوزکی تاریخ اورکارکردگی اور دوسرے بہت سے اہم موضوعات کوزیربحث لایااہے ۔ جس سے قاری کوالحاق پاکستان کے بعدکے دور کے اہم واقعات کے حوالے سے بھی قابل قدر معلومات فراہم ہوجاتی ہیں.

کتاب کے آخرمیں کتابیات کے عنوان کے تحت جن کتب اوردستاویزات کا حوالہ بطور ماخذد یاگیاہے وہ سب چترال کی تاریخ کے حوالے سے بنیادی اہمیت کے حامل اورسندکادرجہ رکھتے ہیں. کتاب میں موجودبعض باتوں سے اگرچہ اختلاف کی گنجائش موجودہے تاہم وہ معمولی نوعیت کےہیں. اسلیے یہ کہنا بے جا نہ ہوگاکہ ڈاکٹرمحمدیونس خالد کی کتاب ’’ریاست ِ چترال کی تاریخ اورطرزحکمرانی‘‘ یہاں کی تاریخ نویسی کے باب میں ایک خوبصورت اورمستند اضافہ ہے اورہم فاضل مصنف سے بجاطور پر یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ چترالیات خصوصاََ تاریخ کے دیگر موضوعات پر کام کرکے قارئیں کومستفید کرتے رہیں گے ۔ شکریہ


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
21592