Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

بھارت انتخابات تہلکہ خیز اسکینڈل کی زد میں …..پیامبر……قادر خان یوسف زئی

Posted on
شیئر کریں:

بھارت لوک سبھا (ایوان زریں) کے دو مرحلے مکمل ہوچکے ہیں۔ انتخابات کے دوسرے مرحلے میں کی پولنگ میں 11 ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام ایک علاقہ پڈوچیری کی مجموعی طورپر 95 سیٹوں کے لیے ووٹ ڈالے گئے ہیں۔ 1596 امیدواروں کو تقریباً 16 کروڑ ووٹر ز دینا تھے جس میں 61فیصد ووٹر نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ پولنگ کے لیے ایک لاکھ 81ہزار سے زائد مراکز بنائے گئے۔پہلے مرحلے میں پرتشدد واقعات کو دیکھتے ہوئے دوسرے مرحلے میں پولنگ کے لیے سکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے تھے لیکن اس کے باوجود پرتشدد واقعات اور پولنگ اسٹیشنوں پر ہنگامہ آرائی سمیت الیکڑونک ووٹنگ مشینوں کو جلائے جانے کے واقعات رونما ہوئے۔ دوسرے مرحلے میں 13 ریاستوں کی 97 لوک سبھا سیٹوں پر پولنگ ہونا تھی لیکن تامل ناڈو کے علاقے ویلور میں انکم ٹیکس چھاپے میں گیارہ کروڑ روپے سے زیادہ نقدی برآمد ہونے پر پولنگ منسوخ کردی گئی۔ اس کے علاوہ تریپورا میں سکیورٹی انتظامات کے مدنظر مشرقی تریپورا کے حلقے میں الیکشن ملتوی کردیا گیا۔ دوسرے مرحلے میں اہم سیاسی رہنماؤں میں سابق وزیر اعظم ایچ ڈی دیوے گوڑا، مشہور فلم اداکارہ اور بی جے پی کی رکن پارلیمان ہیمامالنی، فلم اداکار کانگریسی امیدوار راج ببر، جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلٰی ڈاکٹر فاروق عبداللہ، سابق وزیر داخلہ سشیل کمارشنڈے، وفاقی وزیر ڈاکٹر جتندر سنگھ، مہاراشٹر کے سابق وزیر اعلٰی اشوک چوان اور ڈی ایم کے پارٹی کی رہنما کنی موئی شامل ہیں۔
بھارت میں لوک سبھا کے انتخابات کے مراحل میں عدم برداشت کا رویہ بڑی تیزی کے ساتھ بھارتی الیکشن میں حاوی ہوتا جارہا ہے۔ تو دوسری جانب اپوزیشن جماعتوں کیجانب سے مودی سرکاری کے خلاف الزام تراشیوں اور مختلف اسکینڈل منظر عام پر آرہے ہیں۔حالیہ انتخابات میں مودی سرکا ر کے خلاف خفیہ کیمروں سے بنائی گئی ایک ویڈیو اسیکنڈل نے تہلکہ مچا دیا ہے۔ بھارت کی اپوزیشن جماعت کانگریس کے رہنما کپیل سبل نے انکشاف کیا ہے کہ ”مودی دور میں ریزرو بینک کے ذریعے ایک مہم چلائی گئی جس میں را کے لوگ بھی شامل تھے۔انہوں نے مزید کہا کہ”نوٹ بندی ہندوستان کی تاریخ کا سب سے بڑا اسکینڈل ہے۔ بی جے پی کے صدر امیت شاہ کا ساتھ اور مودی کا وکاس آپ نے دیکھ لیا۔مودی نے ایجنسیوں کو اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کیا، را کے آدمی راہول نے بتایا کیسے بھارت میں کوئی بھی وفادار نہیں رہ سکتا، ایک لاکھ کروڑ کے جعلی کرنسی نوٹ بیرون ملک چھاپے گئے“۔کپیل سبل کا مزید کہنا تھا کہ ”بھارتی فضائیہ کے ٹرانسپورٹ طیاروں میں جعلی کرنسی ہندن ایئر بیس لائی گئی، اس سب کام کے لیے لاجسٹکس سپورٹ امیت شاہ نے فراہم کی، ایکسچینج ٹرانزیکشن ریٹ پہلے 15فیصد بعد میں 40 فیصد کردیا گیا، معاملے کے لیے وزیر اعظم آفس میں علیحدہ شعبہ تھا۔ایکسچینج کے کام کو دیکھنے کے لیے مختلف محکموں سے 26 لوگوں کو بھرتی کیاگیا، 26 افراد مختلف دفتروں میں تعینات کیے گئے، امیت شاہ کو رپورٹ دیتے تھے۔ٹرانزیکشنز کے وقت کوئی محکمہ دخل اندازی نہیں کرسکتا تھا،کیوں کہ دخل اندازی کرنے والوں کو دہلی سے باس کا فون آجاتا، انہیں جگہ چھوڑنی پڑتی“۔رہنما کانگریس نے انکشاف کیا کہ ”فراڈ کا جو پول کھولنا چاہتا اسے انتہائی سفاکی سے ختم کر دیا جاتا، بھارتی میڈیا بھی یہ نہیں دکھائے گا، دکھائے گا تو اوپر سے کال آجائے گی“۔
بھارت لوک سبھا انتخابات کے دوسرے مرحلے میں مودی سرکار کو ناراض ووٹرز کا سامنا رہا۔ بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے مودی سرکار کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے دعوی کیا کہ مودی کا بنگال سے جیتنے کا خواب کبھی پورا نہیں ہوگا۔ 2016میں مودی نے اقتدار میں آنے کے لئے بڑے بڑے دعوے کئے تھے لیکن اس پر مودی سرکار عمل درآمد نہیں کرسکی۔ جس بنیاد پر ممتا بنرجی مودی سرکار کو چیلنج دی چکی ہیں کہ مودی کو بنگال سے صرف ”صفر“ رس گلہ ملے گا۔ مودی سرکار پر تنقید کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ایک پریس کانفرنس میں بی جے پی کے جنرل سکریٹری اور ترجمان پر جوتا پھینکا گیا جبکہ کانگریس کے رہنما کو جلسے میں تھپڑ پڑگیا۔لوک سبھا انتخابات کے دوسرے مرحلے میں 12 ریاستوں کی 95 سیٹوں پر 61 فیصد پولنگ ہوئی، ان میں سب سے زیادہ پولنگ مغربی بنگال میں 75 فیصد اور سب سے کم جموں کشمیر میں پولنگ ہوئی۔الیکشن کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق، دوسرے مرحلے میں ووٹنگ والے ریاستوں میں صبح سات بجے شروع ہوئے ووٹنگ کے دوران شام ساڑے پانچ بجے تک 61.12 فیصد ووٹرز نے اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیا اس کے مطابق مغربی بنگال کے علاوہ پوڈوچیری، شمالی مشرقی ریاست منی پور، آسام، اترپردیش کی آٹھ سیٹوں پر اور بہار کی چار سیٹوں ووٹنگ ہوچکی تھی، دوسرے مرحلے میں تاملناڈو کی سبھی 39 سیٹوں پر 61.52 فیصد ووٹنگ ہوئی-چھتیس گڑھ کی تین سیٹوں پر 68.70 فیصد اور کرناٹک کی 14 سیٹوں پر 61.80 فیصد، مہاراشٹرا کی دس سیٹوں پر 55.37 فیصد ووٹنگ ہوئی-مودی سرکار نے بھارت کی دیگر ریاستوں میں پاکستان مخالف بیانیہ جاری رکھا لیکن اپوزیشن جماعتوں نے مودی سرکار کی پالیسیوں کو آڑے ہاتھوں رکھا۔ 17اپریل کو اپنے آبائی شہر گجرات میں جلسے کے خطاب کے دوران پاکستان کی جانب سے امن کی خواہش کو کمزوری قرار دیتے ہوئے بالاکوٹ حملے کا دوبارہ ذکر کیا۔ تاہم وزیر خارجہ سشماسوراج کی جانب سے اس اقرار کے بعد کہ پاکستان کے کسی بھی فوجی یا ایک شہری کو نقصان نہیں پہنچا۔ بی جے پی اتحاد کو سبکی کا سامنا ہوا ہے۔ ٹائمز آف انڈیا کے مطابق بھارتی وزیر خارجہ نے احمد آباد میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ”بالاکوٹ فضائی حملے میں کوئی پاکستانی فوجی اور شہری جاں بحق نہیں ہوا“۔جس کے بعد ڈی جے آئی ایس پی آر نے اپنی ایک ٹویٹ میں ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ”بھارتی وزیر خارجہ نے زمینی حقائق سے مجبور ہو کر آخرکاربالاکوٹ فضائی حملے سے متعلق سچائی بیان کر دی ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ ”2016ء میں سرجیکل سٹرائیک کے جھوٹے بھارتی دعوے، پاک فضائیہ کی جانب سے دو بھارتی جنگی جہازوں کو مار گرانے سے انکار اور پاک فضائیہ کے ایف 16 کو مار گرانے کا دعویٰ بھی بے نقاب ہو گا“۔
نریندر مودی نے بھارتی انتخابات میں ایک پھر مودی سرکار کا نعرہ لگاتے ہوئے اپنی متعصبانہ بیانات کی توپوں کا رخ پاکستان کے خلاف کر رکھا ہے۔ لیکن پاکستان کے بروقت اقدامات کی وجہ سے بھارتی سرکار کے مذموم منصوبے کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ خود بھارت میں مودی سرکار کے خلاف عوامی ردعمل دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ عوام میں مودی کی پذئرائی میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ تاہم کانگریس اور دیگر اتحادی گروپ مودی اتحاد کے خلاف اہم پالیسیوں کو لے کر انتخابات لڑرہے ہیں۔ کانگریس کو بھرپور پزیرائی تو نہیں ملی ہے لیکن اس وقت کانگریس کے ساتھ مشتمل اتحاد مودی کے انتخابی اتحاد کے خلاف موثر انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چونکہ موجودہ عام انتخابات میں حکمراں بی جے پی اور وزیر اعظم نریندر مودی ترقی کے اپنے دعووں سے رائے دہندگان کومتاثر کرنے میں کامیاب نہیں ہو پارہے ہیں، اس لئے انہوں نے ہندو ووٹروں کو اپنی جانب راغب کرنے کے لئے پہلے قوم پرستی اور اب شدت پسند ہندو ازم یعنی ’ہندوتوا‘ کارڈ کھیل دیا ہے۔اس کا ایک مذموم مظاہرہ بابری مسجد کے انہدام میں حصہ لینے والی مالیگاؤں بم دھماکوں کی ملزم سادھوی پرگیا ٹھاکر کو اپنا امیدوار نامزد کرتے ہوئے اس کی حمایت میں کھل کر بیان دیئے۔ عام انتخابات میں حکمراں ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی طرف سے مالیگاوں بم دھماکہ کی ملزم سادھوی پرگیا سنگھ ٹھاکر کو اپنا امیدوار بنانے کے بعد سے ہی ان کے متنازعہ بیانات سے بھارتی سیاست میں شدت پائی جاتی ہے۔سادھوی پرگیا سنگھ ٹھاکر نے اپنے تازہ ترین بیان میں بابری مسجد کے انہدام میں اپنی شمولیت پر کہا”میں اسے توڑنے گئی تھی۔ میں نے ڈھانچہ(مسجد) پر چڑھ کراسے توڑا۔ مجھے انتہائی گرو(فخر) ہے۔
بھارتی انتخابات کے دو مرحلے مکمل ہونے پر سیاسی مبصروں کا کہنا ہے کہ مودی سرکار کو انتخابی مطلوبہ نتائج نہ ملنے کا سامنا ہے۔ تاحال جن علاقوں میں انتخابات ہوئے ہیں وہ مودی سرکار کے مخالف حلقے بھی شمار کئے جاتے ہیں۔ دوسری جانب انتخابات میں کامیابی کے لئے دوسرے مرحلے میں انتخابی عمل پر نگاہ رکھنے والی غیر حکومتی تنظیم ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک رائٹس (اے ڈی آر) نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ دوسرے مرحلے کے انتخاب میں حصہ لینے والے امیدواروں میں سے 23 فیصد مجرمانہ ریکارڈ کے حامل ہیں۔ اے ڈی آر کے کنوینر انیل شرما نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا، ”امیدواروں نے کاغذات نامزدگی کے ساتھ جو حلف نامے داخل کیے ہیں ان کے جائزہ سے پتہ چلتا ہے کہ 23 فیصد امیدوار مجرمانہ پس منظر کے حامل ہیں۔ ان میں سے 17 فیصد کے خلاف سنگین جرائم کے مقدمات درج ہیں۔ انفرادی طورپر سب سے زیادہ 41 مقدمات اوڈیشہ کے سندر گڑھ پارلیمانی حلقہ سے کانگریس کے امیدوار جارج ٹرکی کے خلاف درج ہیں۔“ اترپردیش میں سب سے زیادہ 28 مقدمات بلند شہر سے بی جے پی کے امیدوار یوگیش ورما کے خلاف درج ہیں۔ راج ببر کے خلاف جعلسازی سمیت چار مجرمانہ معاملات درج ہیں۔اے ڈی آر کی رپورٹ کے مطابق سنگین جرائم کے معاملے میں سب سے زیادہ 38 فیصد مقدمات بھارتیہ جنتا پارٹی کے امیدواروں کے خلاف درج ہیں۔ اس کے بعد بہوجن سماج پارٹی کے امیدواروں کے خلاف 33 فیصد اور کانگریس کے امیدواروں کے خلاف 25 فیصد مقدمات درج ہیں۔ بھارت میں مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والے ٹکٹ ہولڈرز کی تعداد نئی بات نہیں ہے۔ بھارت کی تقریباََ ہر جماعت اپنی نشست کو کامیاب بنانے کے لئے مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والوں کی مدد حاصل کرتی ہے اور انہیں مختلف حلقوں میں سپورٹ کرنے کے عوض ٹکٹ بھی دیئے جاتے ہیں۔ بھارتی عوام کے نزدیک بھارتی پارلیمنٹ میں مجرمانہ عناصر کی بہتات بھارت کے مسائل کے حل میں سب سے بڑی رکاؤٹ ہے۔


شیئر کریں: