Chitral Times

خوشخبری، 16ستمبر بروز اتوار ٹاون ہال چترال میں ذہنی مریضوں کیلئے فری میڈیکل کیمپ لگانے کا اہتمام

Posted on

چترال (چترال ٹائمز رپورٹ ) ذہنی صحت کے شعبے میں کام کرنے والے فلاحی ادارے ہورائزن نے ضلعی انتظامیہ اور ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کے تعاون سے16 ستمبر بروز اتوار ٹاون ہال چترال میں فری میڈیکل کیمپ لگانے کا اہتمام کیا ہے۔ دماغی امراض کے ممتاز ماہر استاد الاساتذہ محترم پروفیسر ڈاکٹر خالد مفتی کی سربراہی میں ذہنی امراض کے ماہرین مریضوں کا مفت علاج کریں گے۔ اسی روز چترال کے ڈاکٹروں، شعبہ طب سے منسلک افراد اور سینئر اساتذہ کودماغی صحت سے متعلق ڈاکٹر خالد مفتی لیکچر بھی دیں گے۔ چترال بھر سے دماغی امراض میں مبتلا افراد اس نادر موقع سے ضرور فائدہ اٹھائیں۔ڈپٹی کمشنر چترال خورشید عالم، ضلع ناظم حاجی معفرت شاہ، پریس کلب چترال کے صدر اور معزز اراکین ، سیاسی رہنما اور معززین بھی میڈیکل کیمپ کے انتظامات میں تعاون کر رہے ہیں۔ یادرہے کہ چترال میں آئے روز خودکشیوں کے واقعات کا خصوصی نوٹس لیتے ہوئے معروف ڈاکٹر خالد مفتی بذاد خود چترال تشریف لارہے ہیں لہذا اس نادر موقع سے فائدہ اُٹھانا ہوگا۔

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
13482

دریائے غذر کے پہلو بہ پہلو………… فکرونظر: عبدالکریم کریمی

Posted on

گوپس کے شروع میں گاؤت گاؤں کے نشیب میں دریائے غذر یا دریائے سندھ کی خوبصورتی دیکھنے لائق ہے۔ یہاں دریا جس طرح تیزی سے نیشب کی طرف بہتا ہے وہاں ہاکس گاؤں کے سامنے دریا کا پاٹ جہاں وسیع ہوتا ہے وہاں لگتا ہے کہ یہ دریا باسیانِ غذر کی طرح اپنے مہمانوں کا دل کھول کر استقبال کر رہا ہے۔ خلوص و محبت سے لبریز ان موجوں سے بغلگیر ہونے کو دل کرتا ہے۔ وہ کسی دل جلے نے خوب ہی کہا ہے؎

خلوصِ دل سے اگر موج بھی پکارے مجھے
قسم خدا کی کنارے سے لوٹ آؤں گا
Ghzr river and karimi

لیکن ڈر بھی لگتا ہے کہ غذر ویسے بھی خودکشیوں کے حوالے سے بدنام ہے۔ المیہ تو یہ ہے کہ یہاں لوگ نمونیہ ہوکر بھی کیوں نہ مرے اس کو خودکشی کا نام دیا جاتا ہے۔ حالانکہ فطرت سے محبت کرنے والوں کو خودکشی کا نام دینا کہاں کا انصاف ہے۔ ویسے فطرت سے محبت کی پاداش میں آج ہمارا دل بھی بہت چاہ رہا تھا کہ ان موجوں سے بغلگیر ہوجائے پھر ہمیں ہمارے کچھ ستم ظریف دوست یاد آگئے کہ ہمارے اس طرح ان موجوں کی نذر ہونے سے ہمارے دوست اپنی جگرپاش اور کاٹ دار تحریروں میں ایک دفعہ پھر یہ کہتے ہوئے نمودار ہوں گے کہ غذر میں اسلامی تعلیمات کی کمی کی وجہ سے ایک نوجوان عالم دین دریائے غذر کی لہروں کی نذر ہوگئے اور خودکشی کی۔ ہاہاہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حالانکہ یہ خودکشی نہیں فطرت سے پیار کی ایک نشانی بھی ہوسکتی تھی لیکن ان دوستوں کو سمجھائے کون۔ ہم تو ان موجوں کے ساتھ بہت دور جا چکے ہوں گے۔ خیر یہ بات از راہِ تفنن بیج میں آگئی۔

ویسے یہ غذر ہو، سکرود ہو یا گلگت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے کئی بار دریائے سندھ کے ٹھنڈے ٹھار پانی میں پاؤں بھگو کر سرشار ہونے، دریا سے باتیں کرنے اور ان کی اچھلتی کودتی لہروں میں اپنی یادیں بہانے کا موقع ملا ہے۔

یوں تو دریا کا استعمال کلسیکی شاعری اور ادب میں کم کم ہے لیکن جہاں جہاں ہے بے مثال ہے۔ دریائے چناب نہ ہوتا تو شاید ہیر رانجھا کی کہانی بھی نہ ہوتی۔ اسی طرح چار سو برس پہلے کے ہندوستان میں دور دراز بخارا سے ایک قافلہ آیا اور چاروں طرف گھومتا گھامتا دریائے چناب کے کنارے پہنچ گیا جہاں گجرات کا خوبصورت شہر بسا ہوا ہے۔ چناب کی لہروں نے پیار کے گیت گائے، گجرات کے شہر نے اپنی محبت بھری بانہیں پھیلائیں اور قافلہ شہر پہنچ گیا۔ میرزا عزت بیگ یوں تو ایک سوداگر ہے لیکن ان کے سینے میں ایک عاشق کا دل ہے۔ جب وہ گلی کے نکڑ پر پہنچا تو انہوں نے ایک میٹھی اور محبت بھری آواز سنی۔ یہ آواز سوہنی کی تھی۔ سوہنی اور میرزا عزت بیگ جو سوہنی کے عشق میں مہیوال کا روپ دھارا چکے تھے۔ دریائے چناب کے کنارے پنپنے والی ان کی کہانی ایک داستانِ الم سناتی ہے۔ اس لیے جب جب ہیر رانجھا کی محبت کا تذکرہ ہوگا اور سوہنی مہیوال کا ذکر چھڑے گا دریائے چناب کے کناروں اور ان کی بے رحم موجوں کا بھی تذکرہ ہوگا۔ اسی طرح دریائے سندھ بھی اپنے سینے میں یہاں کی تاریخ کا ایک خزانہ رکھتی ہے۔

سکردو کے ہمارے دوست ڈاکٹر انجم نے ایک کتاب لکھی ہے جس کا دیباچہ میں نے لکھا ہے۔ جس میں انہوں نے دریائے سندھ کی آپ بیتی لکھی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ کھرپوچو قلعہ کے نشیب میں بہتا دریا کہتا ہے کہ میں نے تو وہ وقت بھی دیکھا ہے جب ڈوگروں نے اس قلعے پر قبضہ کیا تو مسلمان شہزادیاں ڈوگرہ فوج کے ظلم و ستم سے بچنے اور اپی عزت بچانے کے لیے دریائے سندھ میں کود کر ہماری آغوش میں ابدی نید سو گئیں تھیں پھر جب مسلمان انیس سو اڑتالیس کی جنگ آزادی کی صورت میں دوبارہ اس قلعے پر قابض ہوئے تو پھر ڈوگرہ راج کی شہزادیوں نے مسلمان فوج کے خوف سے دریائے سندھ میں چھلانگ لگائی تھییں۔ دریائے سندھ کرب سے کہتا ہے ’’سمجھ نہیں آتا ہر ظلم و ستم کا نشانہ ایک عورت ہی کیوں بنتی ہے۔‘‘ بس دریا کی زبان سمجھنے کی بات ہے۔ جو ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ بشیر بدر نے خوب ہی کہا ہے؎

اگر فرصت ملے پانی کی تحریروں کو پڑھ لینا
ہر اک دریا ہزاروں سال کا افسانہ لکھتا ہے

ہمیں دریا سے محبت شاید اس لیے بھی ہے کہ بقول فرحت احساس ہمیں اپنے محبوب کا چہرہ دریا کے پانی میں نظر آتا ہے؎

چاند بھی حیران، دریا بھی پریشانی میں ہے
عکس کس کا ہے کہ اتنی روشنی پانی میں ہے

بے خیالی میں بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ کھڑے تھے دریائے گوپس کے کنارے اور اشہبِ خیال نہ جانے کہاں کہاں بھٹکتا رہا۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ کہنا کیا ہے اور ہم کہہ کیا جاتے ہیں۔ احمد فراز کی طرح بھولنے کی عادت چھٹتی نہیں۔ وہ بھی تو کتابوں میں پھول رکھ کر بھول جایا کرتے تھے۔ کہہ گئے؎

اب کے بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملے
جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملے

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
13479

محرم الحرام کا چاند نظر آنے کی صورت میں یکم محرم الحرام کوعام تعطیل کا اعلان

Posted on

پشاور (چترال ٹائمز رپورٹ ) حکومت خیبر پختونخوا نے محرم الحرام کا چاند نظر آنے کی صورت میں یکم محرم الحرام 1440ہجری کو عام تعطیل کا اعلان کر دیا ہے۔اس امر کا اعلان ایڈمنسٹریشن ڈیپارٹمنٹ حکومت خیبر پختونخوا کی جانب سے جاری کردہ ایک اعلامیے میں کیا گیا۔

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
13475

ریچ میں ایک اور شادی شدہ خاتون کی مبینہ خودکشی ، خاتون گزشتہ رات سے لاپتہ

Posted on

چترال (نمائندہ چترال ٹائمز) چترال سے 100کلومیٹر انتہائی شمال میں واقع گاؤں ریچ میں ایک شادی شدہ خاتون گزشتہ رات سے لاپتہ ہے ۔ موصولہ اطلاعات کے مطابق خاتون نے مبینہ طور پر دریا میں چھلانگ لگاکر اپنی زندگی کا خاتمہ کردیا۔ پولیس اسٹیشن تورکھو کے ایس ایچ او شیر نواز بیگ نے بتایاکہ سکینہ بی بی دختر شیر بیرش خان کی شادی تین سال قبل زار احمد خان سے ہوئی تھی جس کے ایک ماہ بعد وہ سعودی عرب جانے کے بعد گزشتہ مئی کو واپس آئے تھے۔ انہوں نے مزید بتایاکہ سکینہ کی عمر 17سال کی لگ بھگ تھی اوردونوں کانوں سے بہری تھی اور ان کا سسروالوں سے معمولی نوعیت کا لڑائی جھگڑا رہتا تھا کیونکہ کوئی بھی آپس میں بات کرتے تو ان کو شک پڑجاتی تھی ۔ گزشتہ رات وہ گھر سے غائب ہوئی تو ان کی تلاش شروع ہوئی اور ان کے موبائل ٹیلی فون سیٹ اور دوسرے سامان دریا کے کنارے پر پتھر کے اوپر رکھے ہوئے ملے اور صبح ہونے پر ان کی لاش کی تلاش جاری ہے مگر تاحال کامیابی نہیں ہوئی ہے ۔ ایس ایچ او کا کہنا تھاکہ تلاش کے کام میں پولیس کے جوان بھی گاؤں کے باشندوں کی مدد کررہے ہیں۔ پولیس نے ضابطہ فوجداری کے دفعہ 156کے تحت مقدمہ درج کرکے انکوائر ی کا آعاز کردیا ہے۔

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged , , , , , , , , , , , ,
13429

فیڈرل بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اسلام آبادکے زیرانتظام امتحان دینے والے گلگت کے طلباو طالبات مایوسی کا شکار

Posted on

گلگت (چترال ٹائمز رپورٹ )فیڈرل بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سکینڈری ایجوکیشن اسلام آباد میں سال 2018 ؁ء کے فرسٹ ائیر کے امتحان دینے والے گلگت بلتستان کے طلبا و طالبات انتہائی مایوسی کا شکار اور فیڈرل بورڈ اسلام آباد کے ایگزامنیشن برانچ پر عدم اعتماد کا اظہار اکثر ہونہا ر اسٹوڈنٹس جن کے میٹرک میں 80% سے زیادہ نمبرات تھے بورڈ کی غلطی کے باعث کئی مضامین میں فیل ہوچکے ہیں ۔فیل ہونے والے اسٹوڈنٹس میں بعض کا تعلق ایسے گھرانوں سے جو اپنی فارم پُر کرنے کے فیس بھی ادا نہیں کرسکتے ہیں ۔کلاس فرسٹ ائیر کے ایک ہونہا ر اسٹوڈنٹ محمد اویس نے اپنے اخباری بیان میں کہا کہ میرا میٹر ک میں 81% رزلٹ آیا تھا اور اب فرسٹ ائیر میں 90% کی توقع کررہا تھا لیکن اتنی محنت کرنے کے باوجود میرے چار مضامین میں انتہائی کم نمبرات ہیں جس کی وجہ سے میری percentage گرچکی ہے اور میں کسی بھی پروفیشنل کالج میں داخلہ کا اہل نہیں رہا ہوں ۔ لہٰذا بورڈ کے اعلیٰ حکام سے ملتمس ہوں کہ مجھے میرے محنت کا صلہ ملناچاہیے ۔

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستانTagged
13408

’’یتیمی سے اعتمادی تک‘‘ کامرانیوں کا سفر………….. فکرونظر: عبدالکریم کریمی

Posted on

یہ پچھلے سال ۲۰۱۷ء ؁ کی بات ہے میں اپنی دُختر نیک اختر آشا کے علاج کے سلسلے میں کراچی میں تھا اور کچھ وقت کے لیے میری سروسز بھی ہیڈ آفس سے منسلک کر دی گئی تھیں۔ ایک دن میں اپنے آفس میں بیٹھا کسی کام میں مصروف تھا۔ آفس بوائے نے آکر کہا کہ ’’سر! آپ کو ڈاکٹر عزیز اللہ نجیبؔ صاحب یاد فر ما رہے ہیں۔‘‘ استاد عزیز اللہ کا دفتر ساتھ ہی تھا۔ میں حاضر خدمت ہوا۔ استاد نے چائے منگوائی، میری بیٹی کی صحت کا پوچھا۔ پھر فرمانے لگے ’’کریمی! کل موکھی فدا علی میرے پاس آئے تھے۔ انہوں نے اپنی سرگزشت لکھی ہے۔ جس پر انہوں نے مجھ سے کہا تھا کہ میں کچھ لکھوں۔ آپ تو بہتر جانتے ہیں ہم غارِ یار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ کتاب میں میرا تذکرہ زیادہ ہے۔ یہ تو وہی بات ہوئی من ترا قاضی بگوئم تو مرا حاجی بگو۔ اس لیے میں نے مناسب نہیں سمجھا کہ میں کچھ لکھوں۔ میرے ذہن میں آپ کا نام آیا۔ آپ تو ہم دونوں کو ایک عرصے سے جانتے ہیں۔ آپ سے بہتر کون لکھ سکتا ہے۔ آپ اگر لکھنا چاہے تو میں موکھی صاحب کو آپ کا نام دوں گا۔‘‘ میں نے کہا ’’سر! آپ اور استاد فدا علی کے لیے تعارف یا تقریظ کی کیا ضرورت ہے۔ تعارف یا تقریظ کی ضرورت تو کسی نوآموز کی کتاب کے لیے ہوتی ہے۔ پھر بھی آپ ضروری سمجھتے ہیں تو اس سے بڑی بات میرے لیے اور کیا ہوگی کہ مجھے اپنے استاد کی کتاب کا تعارف لکھنے کا موقع ملے۔ لیکن سینئر واعظین ہیں۔ استاد ان میں سے کسی سے لکھوائے تو زیادہ بہتر ہے۔‘‘ استاد عزیز اللہ کا اپنا ایک منفرد انداز ہے کہنے لگے ’’کریمی میری جان! دیکھو آپ کے سینئر واعظین………… رہنے دے۔‘‘ پھر میرے کاندھے پر ہاتھ رکھ کے فرمایا ’’آپ سے لکھنے کو کہا ہے تو اس کی ایک وجہ ہے۔‘‘ میں نے استاد کا اس عزت افزائی پہ شکریہ ادا کیا اور اپنے دفتر آیا۔ پھر وقت کی دُھول میں زندگی گزرتی رہی۔ استاد عزیز اللہ نے استاد فدا علی کو میرا نام دیا تھا یا نہیں مجھے نہیں معلوم۔ اس کے بعد استاد فدا علی کا بھی پتہ نہیں چلا۔ ہوسکتا ہے وہ تشریف لائے ہوں اور میں سیٹ پر موجود نہ ہوں ایک دفعہ آفس بوائے نے کہا بھی تھا کہ گلگت کے موکھی فدا علی آئے تھے اور آپ کا پوچھ رہے تھے کیونکہ ان دنوں مجھے اپنی بیٹی کے علاج کے سلسلے میں ہفتے میں دو چار دفعہ آغا خان ہسپتال کا چکر لگانا پڑتا تھا۔ شاید استاد ان دنوں آیا ہو۔ بہرحال جو بھی ہوا میں پیشگی استاد سے معذرت خواہ ہوں کہ ممکن ہے میری غیر حاضری آڑے آئی ہو۔ کیونکہ بعض دفعہ دوریاں، مجبوریاں اور ساتھ میں بیماریاں بھی ہوں تو انسان کہیں کا نہیں رہ جاتا۔
Fida Ali Ustad and karimi
میں تو اس واقعہ کو بھلا پایا تھا کہ دو دن پہلے استاد نے ایک خوبصورت کتاب مجھے تھماتے ہوئے اور یہ کہتے ہوئے ’’یہ میری سرگزشت کی اعزازی کاپی ہے‘‘ یقیناًمجھے حیرت میں ڈال دیا تھا۔ میں نے استاد کا شکریہ ادا کیا۔ اس اعزازی کاپی پر استاد کا لکھا ہوا یہ خوبصورت جملہ اپنے اندر معنی و مفہوم کا ایک خزانہ لیے ہوئے تھا:
’’برگ سبز است تحفۂ درویش بہت ہی عزیز و محترم الواعظ عبدالکریم کریمی کے لیے نیک تمناؤں کے ساتھ۔
خیراندیش، فدا علی ایثارؔ
دارالایثار سلطان آباد دنیور‘‘
برگ سبز است سے مجھے شیخ سعدیؒ یاد آئے تھے۔ انہوں نے بھی تو درخت کے ایک سبز پتے کے حوالے سے بڑے پتے کی بات کی تھی ؂
برگِ درختان سبز در نظر ہوشیار
ہر ورقش دفتریست معرفتِ کردگار
ہوشیار اور عاقل لوگوں کے لیے درخت کا ایک سبز پتہ بھی معرفتِ حق کو سمجھنے کے لیے دفتر کا درجہ رکھتا ہے۔ میرے پاس تو اب استاد کی زندگی کا دفتر کتاب کی صورت میں موجود تھا۔ استاد نے جب مجھے کتاب تھمایا تھا وہ چھٹی کا وقت تھا۔ اس لیے میں صرف کتاب کے صوری حسن دیکھ سکا تھا اور اب کتاب بیگ میں ڈال کے گھر کی طرف نکلا تھا۔ گھر پہنچ کے میں گویا کتاب میں کھو گیا تھا۔ شام کب رات میں ڈھل چکی تھی مجھے نہیں معلوم۔ ایک عرصے کے بعد جب نگاہیں کتاب سے اٹھیں تو رات کا پچھلا پہر تھا اور ہماری حالت اس شعر کی طرح تھی ؂
دن کٹا جس طرح کٹا لیکن
رات کٹتی نظر نہیں آتی
کتاب پر استاد ڈاکٹر عزیز دینار کے خوبصورت تبصرے کو دیکھ کر استاد فدا علی کے نظر انتخاب کو داد دئیے بنا نہیں رہ سکا۔ مجھے جس چیز نے متاثر کیا وہ کتاب کا تصویروں والا حصہ تھا۔ کسی دل جلے نے بڑا حسبِ حال شعر کہا ہے ؂؂
ایک لمحے میں کٹا ہے مدتوں کا فاصلہ
میں ابھی آیا ہوں تصویریں پرانی دیکھ کر
یہی وجہ تھی کہ ان تصویروں کو دیکھتے ہوئے آنکھیں بے اختیار نم ہوگئیں۔ عجیب اتفاق تھا استاد فدا علی کی تصویروں کو دیکھتے ہوئے دوست محترم فدا ناشادؔ کے یہ اشعار یاد آرہے تھے۔ جہاں ایک فدا اپنی تصویروں کے آئینے میں نظر نواز تھے تو وہاں دوسرے فدا اپنے شعروں میں وقت کے ہاتھوں مجبور و بے بس اپنی ہی تصویروں میں اپنے آپ کو ڈھونڈ رہے تھے، خود کو پہچاننے کی کوشش کر رہے تھے اور پریشان ہو رہے تھے۔ فدا ناشادؔ اس پریشانی کے عالم میں کہتے ہیں ؂
رنگ بدلتی دُنیا میں ہم پھنسے ہوئے تقدیروں میں
اپنا دامن بچا رہے ہیں، خار سے دامن گیروں میں
وقت نے کیا کیا رنگ اُتارے، کیا کیا رنگ چڑھائے ہیں
اپنے آپ کو ڈھونڈ رہے ہیں، اپنی ہی تصویروں میں
کہتے ہیں وقت نہیں رُکتا، کہیں نہ کہیں ہم رُک جاتے ہیں۔ اپنی لائبریری میں یا اپنے دفتر میں سامنے ٹیبل پر دھری کتابیں اور کاغذات میں کھو کر یا کسی چھت پر لیٹے تارے گنتے ہمیں پتہ ہی نہیں چلتا کہ کب لمحے ہمیں قید کر لیتے ہیں۔اس لیے غالباً مستنصر حسین تارڑؔ نے کہا تھا ’’وقت نہیں گزرتا وہ وہی رہ جاتا ہے شاید ہم گزر جاتے ہیں۔‘‘ یہ تصویریں یہی کہانی بیان کرتی ہیں۔
میں نے دو نشستوں میں کتاب پڑھ لی تھی۔ ’’یتیمی سے اعتمادی تک‘‘ کا مطالعہ کرتے ہوئے اور استاد کی مہماتی زندگی کے نشیب و فراز کے قصے پڑھتے ہوئے ایسا لگاکہ گویا استاد، ڈاکٹر محمد رفیق کے ان اشعار کے آئینے میں ہم سے مخاطب ہیں اور فرماتے ہیں ؂
رنگیں نوادرات میری زندگی میں ہیں
دو چار حادثات میری زندگی میں ہیں
حالات دِگرگوں ہیں مگر اس کے باوجود
مثبت توقعات میری زندگی میں ہیں
یہی مثبت توقعات ہی ہیں جو استاد کو کہیں ٹریکٹر پر بٹھاتی ہیں تو کہیں پہ ٹرک پر۔ اور دونوں دفعہ ان کو اپنی تعلیم کی غرض سے یہ سفر طے کرنا پڑتا ہے۔ وہ اپنی کتاب کے صفحہ ۳۴؍ پر انہی حالات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اگلے سال (۱۹۶۶ء ؁) ہم نے امتحانی فارم بذریعہ ڈاک منگوا لیے، اب فارم کے ساتھ تصویر کی ضرورت تھی۔ اس وقت ہنزہ بھر میں فوٹو گرافی کی کوئی دُکان موجود نہیں تھی۔ نتیجتاً فوٹو کھینچوانے کے لیے ہمیں گلگت تک سفر اختیار کرنا پڑا۔ گلگت تک یک طرفہ کرایہ کا کہیں سے انتظام کرلیا۔ مگر واپسی پر پیدل آنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں تھا۔ چنانچہ گلگت تک استاد مومن (بمبڈی) کی جیب میں یک طرفہ سفر کیا۔‘‘
واپسی کے سفر کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’فوٹو گرافر امان اللہ مرحوم سے ہم نے فوٹو کھینچوائی اور تصاویر لے کر ہنزہ واپسی کا پروگرام بنایا۔ اتفاق سے وزیر حفظ اللہ بیگ مرحوم ٹریکٹر لے کر نلتر جا رہے تھے۔ وہ نلتر سے زیر تعمیر ہاسٹل (شاہ کریم ہاسٹل) کے لیے عمارتی لکڑی کی ڈھلائی کروا رہے تھے۔ ان کے ساتھ گلگت سے نومل تک کچی روڈ پر ٹریکٹر ہی پر سفر کیا۔‘‘
اسی طرح فاضل فارسی کا امتحان دینے کے لیے ۱۹۷۰ء ؁ کے ایک سفر، جس میں اپنے دو یاروں ڈاکٹر عزیز اللہ نجیبؔ اور غلام مرتضیٰ جن کو استاد ’’یارِ دبستان‘‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ امتحان دینے کے لیے لاہور روانہ ہوتے ہیں۔ گلگت سے چلاس تک جیپٹر گاڑی میں طبیعت خراب ہونے اور وہاں سے آگے کس طرح ٹرک میں بیٹھ کے پنڈی تک کا سفر کرتے ہیں وہ بجائے خود علم کی راہ میں ایک جہاد سے کم نہیں۔
استاد نے زندگی اور زندگی کی تلخیوں کو نہ صرف قریب سے دیکھا ہے بلکہ محسوس بھی کیا ہے۔ یتیمی میں پل بڑھنا کتنا مشکل ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر مشکل کے بعد آسانی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی تو یتیم تھے۔ اس لیے یتیمی کو سنت پیغمبری کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ جب یتیمی میں انسان ہر طرف سے مایوس ہوجاتا ہے اور تھک جاتا ہے تو اس وقت نبی پاکؐ کی زندگی ہی ہے جو اس کو حوصلہ دیتی ہے بلکہ حیاتِ مبارکہ اس کے لیے مشعلِ راہ ہوتی ہے۔ پھر وہ شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ اقبالؒ کے اس شعر کے مصداق زندگی کی حقیقت سے آشنا ہوکر ہر مشکل کے لیے تیار ہوتا ہے۔ بقول اقبالؒ ؂
زندگانی کی حقیقت کوہکن کے دِل سے پوچھ
جوئے شیر و تیشہ و سنگِ گراں ہے زندگی
ہمیں استاد کی زیر نظر کتاب میں یہی جذبہ کارفرما نظر آتا ہے۔ آپ اپنی کتاب میں ایک جگہ اپنی طبیعت کی ناسازی کے باوجود امام اور امام کی جماعت کی خدمت کے لیے کابل سے بدخشان کے لیے زمینی سفر اختیار کرتے ہوئے یہ ثابت کرتے ہیں کہ پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے سامنے صحت کی ناسازی کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ دورِ حاضر میں کسی فرد کا اپنے پیشے سے اتنی مخلصانہ محبت ہمیں خال خال ہی نظر آتی ہے۔ ایسی ہی بے لوث محبت کا اشارہ ہمیں ساغرؔ صدیقی کے اس شعر میں ملتا ہے ؂
ہائے آدابِ محبت کے تقاضے ساغرؔ
لب ہلے اور شکایات نے دم توڑ دیا
یہ آدابِ محبت درِ امام اور جماعت امام کے لیے ہمیشہ آپ کو بے چین کیے رکھتے ہیں۔
استاد کے مطابق اسماعیلی ایسوسی ایشن (اب طریقہ بورڈ) کا قیام یکم؍ جون ۱۹۷۲ء ؁ کو شمالی علاقہ جات (موجودہ گلگت بلتستان) میں ہوا۔ جس میں چار واعظین فدا علی ایثار، عزیز اللہ نجیب، شاہ ولی اور فدا علی سلمان شامل تھے جبکہ ان کا انچارج علامہ نصیر الدین تھے۔ مصنف کے مطابق اس وقت خالص تبلیغی جذبے کے ساتھ کام ہو رہا تھا لیکن ۱۹۷۳ء ؁ کو علامہ مرحوم کی غلطی کی وجہ سے یہ پروفیشنل ٹیم ایک کمیٹی کی زیر نگرانی کام کرنے لگی۔ استاد اپنی کتاب کے صفحہ ۹۰؍ میں رقم طراز ہیں:
’’جوں ہی برانچ کا قیام عمل میں آیا۔ اس کی حیثیت ایک پروفیشنل کمیٹی کی تھی۔ جو آئی اے پی (اسماعیلیہ ایسوسی ایشن پاکستان) مرکز کراچی کی زیر نگرانی کام کرنے والی تھی۔ مگر علامہ صاحب (نصیر الدین) نے ہنزہ، گلگت سب ڈویژن اور غذر سطح پر تین کمیٹیاں اپنے سپورٹ کے لیے تشکیل دیں اور ان کمیٹیوں کو برائے منظوری ہیڈ کوارٹر کراچی بھیجا۔ ہیڈ کوارٹر کراچی نے اس لسٹ کو آنریری سیٹ اپ میں تبدیل کرکے سرکار مولانا حاضر امامؑ کے حضور بھیج دیا۔ پروفیسر موسیٰ بیگ مرحوم نے جو علامہ صاحب کا آفس اسسٹنٹ تھا اس حوالے سے علامہ صاحب سے اختلاف کیا کہ آپ اپنی طرف سے اس طرح کی کمیٹیاں تشکیل نہ دیں۔ یہ برانچ صرف ہیڈ کوارٹر کی زیر نگرانی کام کرنے کا مجاز ہے۔ غیر پروفیشنلز پر مشتمل کمیٹی بنائی جائے گی تو کل کلاں برانچ کا کام متاثر ہوگا۔ مگر علامہ صاحب کا موقف یہ تھا کہ کمیٹیوں کی ضرورت اس لیے ہے کہ وہ عملاً برانچ کو تقویت پہنچائیں گی۔ یہاں یہ نکتہ قابلِ توجہ ہے کہ ایریا کمیٹیوں کے قیام سے قبل برانچ سے متعلق تمام امور کی نگرانی علامہ صاحب خود کر رہے تھے۔ مگر اب ایریا کمیٹیوں کے قیام کے بعد یہ تمام اختیارات کمیٹیوں کو منتقل ہوگئے۔ یہاں تک کہ بحیثیت انچارج علامہ صاحب کو چٹھی لینے کے لیے درخواست چئیرمین ایریا کمیٹی کے نام دینا پڑی۔‘‘
ستم ظریفی تو دیکھئے جہاں اختیارات پروفیشنلز سے اٹھائے گئے تو وہاں اسکالرز کو بھی غیر پروفیشنلز کے رحم و کرم پر چھوڑا گیا۔ غیر پروفیشنلز کے معیار کا اندازہ آپ کتاب کے صفحہ ۹۱؍ میں دیکھ سکتے ہیں۔ استاد لکھتے ہیں:
’’یہاں میں یہ بات بتاتا چلوں کہ ابتدائی سطح پر گلگت بلتستان میں تین ایریا کمیٹیاں قائم ہوئیں۔ ہنزہ ایریا کمیٹی کا چیئرمین نائب صوبیدار (ر) میر ہزار مرحوم، گلگت سب ڈویژن ایریا کمیٹی کا چیئرمین ایکس حولدار امیر حیات غندلو مرحوم جبکہ ضلع غذر کے لیے ایکس حولدار احمد خان چیئرمین ایریا کمیٹی بنے ہوئے تھے۔‘‘
کمیٹیوں کی اس مداخلت سے اختیارات کی کھینچا تانی ضرور ہوئی، اسٹاف میں بھی اضافہ ہوا لیکن بدقسمتی سے اسکالرز پیدا نہیں ہوئے۔ ’’خود کردہ را علاج نیست‘‘ شاید یہی وجہ تھی کہ اس کمیٹی کو بنے جمعہ جمعہ آٹھ دن بھی پورے نہیں ہوئے تھے کہ علامہ صاحب کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور وہ اسماعیلی ایسوسی ایشن سے الگ ہوئے۔ ’’آ بیل مجھے مار‘‘ کا محاورہ یہاں کافی جچتا ہے۔
استاد فدا علی اپنی کتاب میں کراچی کے اپنے پہلے سفر کے بارے میں لکھتے ہیں کہ جب گرمیوں کی تعطیلات ہوئیں تو وہ اور استاد عزیز اللہ کراچی کا سفر کرتے ہیں۔ جب وہ کراچی پہنچتے ہیں تو اسماعیلی ایسوسی ایشن میں انہیں باضابطہ طور پر بحیثیت واعظین ان کا تقرر نامہ دیا جاتا ہے جبکہ اس وقت کے تعلیمی بورڈ کے آنریری سیکریٹری ان کے خلاف کراچی لیٹر لکھتا ہے جس کا ذکر استاد فدا علی نے اپنی کتاب کے صفحہ ۶۶؍ میں کیا ہے:
’’ہمارے کراچی جانے کے بعد افتخار حسین مرحوم آنریری سیکریٹری تعلیمی بورڈ گلگت نے صدر آئی اے پی کے نام ایک لیٹر لکھا کہ یہ دونوں (ڈاکٹر نجیب اور راقم) شاہ کریم ہاسٹل کے ملازم ہیں۔ جو بغیر اجازت کے بھاگ کر کراچی آئے ہوئے ہیں۔ انہیں آئی اے پی میں سروس نہ دیا جائے۔ جبکہ ہمارے کراچی پہنچنے سے قبل ہی ہمارے نام لیٹر جاری ہوچکا تھا۔‘‘
واعظ دشمنی کا ایک واقعہ استاد عزیز اللہ نے بھی مجھے سنایا تھا۔ جب میں ہیڈ آفس کراچی میں ’’قندیل‘‘ کا ایڈیٹر تھا۔ استاد عزیز اللہ نے ’’قندیل‘‘ کے لیے اپنے ایک انٹرویو میں اس زمانے کی لیڈرشپ کی بات کرکے مجھے حیرت میں ڈالا تھا۔ استاد کا کہنا تھا ’’جب میں نے ایم اے فلسفہ میں ٹاپ کیا تو ڈیلی ’’ڈان‘‘ میں وہ خبر میری تصویر کے ساتھ شائع ہوئی۔ پھر کیا تھا۔ اس وقت کے آنریری سیکریٹری نے میری جواب طلبی کی اور کہا کہ ہم سے اجازت لیے بغیر آپ کو کس نے کہا تھا کہ امتحان میں شامل ہو جائے۔‘‘
جبکہ واعظین کے عہدے کی اہمیت اور ان کے کام کے حوالے سے سرکار مولانا حاضر امامؑ جو باقی دُنیا کے لیے ہزہائی نس دی آغا خان ہیں، ان کا یہ فرمان کافی ہے جو استاد فدا علی کی کتاب کے صفحہ ۱۲۱؍ میں بطورِ حوالہ موجود ہے۔ جس میں مولانا حاضر امامؑ نے ۱۹۸۳ء ؁ کو واعظین ٹریننگ سے فارغ التحصیل واعظین کے نام فرمایا تھا:
“I hope the graduating Wa’ezeen will do honour to the association and the Jamat as a whole and substantially the numerous and complex problems of Northern Areas and be pillars of faith.”
یہی وجہ ہے کہ اس مقدس پیشے سے منسلک رہ کر بلکہ مخلص رہ کر استاد فدا علی نے یتیمی سے اعتمادی کا سفر طے کیا ہے۔ آپ کو ستانے والے اور آپ کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے والوں کی ہڈیاں بھی شاید خاک ہوئی ہوں گی لیکن اعتمادی فدا علی ایثارؔ جس کو ایک دُنیا جانتی ہے۔ ایک ’’لے مین‘‘ اور ایک عالم میں یہی تو فرق ہوتا ہے۔ وقت وقت کی بات ہوتی ہے کہ کہاں وہ یتیم بچہ کہ ہنزہ سے گلگت اور گلگت سے واپسی کا سفر ٹریکٹر پر، کہاں چلاس سے پنڈی ٹرک کی سواری اور کہاں اب کے اعتمادی کہ وہ کبھی عالمی کانفرنسز میں شرکت کے لیے ایران و افغانستان میں ہوتے ہیں تو کبھی انسٹیٹیوٹ آف اسماعیلی اسٹیڈیز لندن کی دعوت پر دبئی اور کینیڈا کی کانفرنسز میں شریک ہوکر ان کانفرنسز کی عزت و توقیر میں اضافہ کرتے ہیں۔ کہاں وہ آنریری سیکریٹری کا غیر مہذب رویہ اور کہاں سرکار مولانا حاضر امامؑ کا موکھی فدا علی کو گلگت ائیر پورٹ پر یہ فرمانا کہ “My Exellent Mukhi!” واقعی یتیمی سے اعتمادی تک کا سفر محبتوں، کامیابیوں اور کامرانیوں کا سفر ہے۔ جس پر ہم سب کو بجا طور پر ناز ہے۔ زندگی کے فلسفے کو سمجھنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ حیدر علی جعفری کا کہنا ہے ؂
آئے ٹھہرے اور روانہ ہوگئے
زندگی کیا ہے، سفر کی بات ہے
لیکن استاد فدا علی نے زندگی کے اس مختصر سے سفر کو وسیلۂ ظفر بنا دیا ہے۔ وہ آئے ٹھہرے اور روانہ نہیں ہوئے بلکہ کیوں آئے، کیوں ٹھہرے، روانہ ہونے سے پہلے کیا کرنا چاہئے، زندگی کیا ہے اور زادِ سفر کیا ہونا چاہئے۔ یہ سوالات ان کی زندگی کو بندگیِ ربِ کائنات سے جوڑتے ہیں۔ پھر کامیابیاں اور کامرانیاں آپ کے سامنے سجدہ ریز رہتی ہیں۔
اللہ پاک سے دُعا ہے کہ وہ استاد کو لمبی عمر دے اور وہ اس پاکیزہ سفر میں ہمیں بھی شامل کرے۔ آمین!

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
13341

وادی اشکومن میں یوم دفاع پاکستان انتہائی جوش و جذبے سے منا یا گیا

Posted on

اشکومن(کریم رانجھا) ؔ وادی اشکومن میں یوم دفاع انتہائی جوش وجذبے کے ساتھ منایا گیا،علاقے بھر کی سرکاری سکولوں میں تقاریب کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں شہداء کی لازوال قربانیوں پر روشنی ڈالی گئی،سول سوسائٹی کے افراد نے شہداء کے مزارات پر حاضری دی ،پھول چڑھائے اور فاتحہ خوانی کی۔مرکزی تقریب ہائی سکول چٹورکھنڈ میں منعقد ہوئی ،اساتذہ اور طلبہ کی بڑی تعداد نے صبح سویرے شہداء کے مزاروں پر حاضری دی پھول چڑھائے اور فاتحہ خوانی کی بعد ازاں سکول کے ہال میں اس دن کی مناسبت سے تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں اساتذہ ،طلبہ کے علاوہ ریٹائرڈ فوجی حضرات اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔
گورنمنٹ ہائی سکول پکورہ (اشکومن) ،اشکومن پراپر،ایمت کے علاوہ دیگر مقامات پر بھی تقاریب منعقد ہوئیں جن میں مقررین نے یوم دفاع کی اہمیت اور شہداء کی قربانیوں کا تفصیلی ذکر کیا۔طلبہ وطالبات نے اس سلسلے میں خصوصی پروگرامز پیش کئے ،ملی نغموں کے علاوہ بچوں نے ٹیبلوز کے ذریعے اس دن کی اہمیت کو اجاگر کیا۔آئیڈیل سوسائٹی ڈویلپمنٹ نیٹ ورک (ISDN)نے سول سوسائٹی کے ساتھ مل کر شہداء کے مزارات پر حاضری دی ،پھول چڑھائے اور فاتحہ خوانی کی جبکہ شہداء کے لواحقین سے بھی ملے اور ان کے پیاروں کی قوم کے لئے لازاوال قربانی پر انہیں خراج عقیدت پیش کیا۔
iskoman defence day2

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستانTagged
13338

چترال میں یوم دفاع پاکستان اور یوم شہداء انتہائی جوش وخروش اور عقیدت سے منایا گیا

Posted on

چترال (نمائندہ چترال ٹائمز )چترال میں یوم دفاع پاکستان اور یوم شہداء انتہائی جوش وخروش اور عقیدت سے منایا گیا اور ضلع بھر میں مختلف مقامات پر تقریبات منعقد ہوئے جس میں اس عہد کی تجدید کی گئی کہ اس وطن کو جب بھی قربانی کی ضرورت پڑی تو وطن کی مٹی پر جان نچھاور کرنے والوں کی کوئی کمی نہیں ہوگی ۔ ضلع چترال میں یوم دفاع کے سلسلے کی سب سے بڑی تقریب پاک آرمی اور چترال سکاوٹس کے زیر اہتمام سکاوٹس گراونڈ میں منعقد ہوئی جس میں چترال سکاوٹس اور پولیس کے علاوہ سکاوٹس سکول کے طلباء کا چاق وچوبند دستوں نے مارچ پاسٹ کیا جبکہ مقامی سکولوں کے طلباء وطالبات نے تقریروں، خاکوں اور ملی نغموں کے ذریعے اس دن کی اہمیت اجاگر کی۔ قومی پرچم تھامے ہوئے پیراگلائیڈر ز نے فری فال کا مظاہرہ کیا اور پولو میچ سے بھی پروگرام میں رنگارنگی پیدا ہوئی ۔ چترال ٹاسک فورس کے کمانڈنٹ کرنل معین الدین مہمان خصوصی تھے جس نے چترال سے تعلق رکھنے والے پاک آرمی اور چترال سکاوٹس کے شہیدوں کے ورثاء میں سوینئر اور تخائف تقسیم کئے۔ ڈسٹرکٹ ناظم چترال مغفرت شاہ ، ڈپٹی کمشنر خورشید عالم محسود اور ایم پی اے مولانا ہدایت الرحمن بھی موجود تھے۔ کرنل معین الدین نے اپنے خطاب میں کہاکہ 6ستمبر تجدید عہد کا دن ہے اور ہم نے ثابت کرنا ہے کہ ہم انڈیا کی عددی برتری سے کسی طور پر خائف نہیں اور ہم آج بھی اسی جذبے سے سرشار ہیں جس جذبے سے ہم ان کے ناپاک ارادے خاک میں ملادئیے تھے۔ انہوں نے کہاکہ ہمیں اپنے شہیدوں کو اس دن خصوصی طور پر یا د رکھنا ہے جنہوں نے اپناآج ہمارے کل پر قربان کردی اور بہادری وجرات کی ایک داستان رقم کی جوکہ رہتی دنیا تک یاد رہے گی۔ اس موقع پر پاک آرمی، چترال سکاوٹس اور پولیس فورس کی طرف سے مختلف اسٹالز لگائے گئے تھے جن میں مختلف ہتھیار اور اوزار نمائش کے لئے رکھے گئے تھے جن میں عوام نے نہایت دلچسپی کا مظاہرہ کیا۔

defence day program chitral scouts gorund 1
defence day program chitral scouts gorund 2

defence day program chitral scouts gorund 9

defence day program chitral scouts gorund 10

defence day program chitral scouts gorund 11

defence day program chitral scouts gorund 12

defence day program chitral scouts gorund 13
defence day program chitral scouts gorund 8

defence day program chitral scouts gorund 7

defence day program chitral scouts gorund 6

defence day program chitral scouts gorund 4

defence day program chitral scouts gorund 3

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
13254

ناشادؔ صاحب کا ’’جادۂ نور‘‘……… فکرونظر: عبدالکریم کریمی

Posted on

دوستِ محترم الحاج فدا محمد ناشادؔ صاحب کا سفرنامۂ ایران بنام ’’جادۂ نور‘‘ میرے زیر مطالعہ ہے۔ یہ ۲۰۱۲ء ؁ کی بات ہے۔ کسی ادبی کانفرنس میں شرکت کی غرض سے مجھے کچھ دن سکردو میں خیمہ زن رہنا پڑا۔ ایک دن پروفیسر کمالؔ الہامی صاحب کے ساتھ ناشادؔ صاحب سے ملاقات ہوئی۔ ناشادؔ صاحب کی زیر نظر کتاب اُن دنوں تازہ تازہ منصہ شہود پر آئی تھی۔ ناشادؔ صاحب نے کہا ’’دل کو دل سے راہ ہوتی ہے کل سے میں آپ کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ آپ تک کتاب کیسے پہنچائی جائے اور آج آپ حاضر ہوئے۔‘‘ میں نے کہا ’’محترم! آپ کی محبت ہے آپ یاد کرے اور ہم حاضر نہ ہوں یہ کیسے ہوسکتا ہے۔‘‘ خیر! انہوں نے اپنی تازہ کتاب کی اعزازی کاپی عنایت فرمائی۔ بڑی اچھی نشست رہی۔ گلگت بلتستان میں ادب اور ادبی رویوں پر سیر حاصل گفتگو ہوئی۔ اُن دنوں سہ ماہی ’’فکرونظر‘‘ تسلسل سے شائع ہو رہا تھا۔ ناشادؔ صاحب سے ملاقات کی ایک وجہ رسالے کے لیے اُن سے مضمون لینا بھی تھی۔ یہ اُن کا بڑا پن ہے کہ انہوں نے ہمیشہ تعاون کیا اور رسالے کے لیے نہ صرف اپنے تحقیقی مضامین بھیجتے رہے بلکہ اپنی شاعری سے بھی نوازتے رہے۔ میں سوچ کے حیران ہوں کہ سیاست کی بھول بھلیوں میں آخر ناشادؔ صاحب لکھت پڑھت کے لیے اتنا سارا وقت کہاں سے لاتے ہیں۔ بہرحال ایسی شخصیات معاشرے کے لیے فیض کا باعث ہوتی ہیں۔
karimi with nashad gilgit
گزشتہ دنوں پھر مجھے اپنی دفتری مصروفیات کی وجہ سے سکردو جانا پڑا۔ ناشادؔ صاحب کی محبت ہے کہ میری آمد کا سن کر وہ میرے پاس ہوٹل تشریف لائے۔ ایک دفعہ پھر پرانی یادیں تازہ ہوئیں۔ نئی ادبی سرگرمیوں کے حوالے سے بات ہوئی۔ میں نے اپنی دونوں تازہ کتابیں کلیاتِ کریمی کی جلد دوم اور سوم ’’سسکیاں‘‘ اور ’’تلخیاں‘‘ کی اعزازی کاپیاں ناشادؔ صاحب کو پیش کیں۔ انہوں نے اپنی دو نئی تالیفات کا ذکر کیا اور کہا کہ گلگت آکر آپ کو دونوں کتابوں کی اعزازی کاپیاں بھیج دوں گا۔ میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور کہا ’’محترم! میں پہلے ہی آپ کی محبت کا مقروض ہوں۔ آپ کی پہلی کتاب پر تبصرہ میرے اوپر قرض ہے۔‘‘ ہاں ان کی پہلی کتاب ’’جادۂ نور‘‘ ایک دفعہ پھر زیر بحث تھی۔
ناشادؔ صاحب کی کتاب ’’جادۂ نور‘‘ کی اعزازی کاپی تو مجھے چھ سال پہلے ملی تھی۔ لیکن مصروفیت اور اپنی بے جا مصروفیت کی وجہ سے میں پڑھ نہیں سکا تھا۔ آج کی ملاقات نے مجھے شرمندہ بھی کیا۔ سکردو سے واپسی پر میرا پہلا کام ’’جادۂ نور‘‘ کا مطالعہ اور اس پر اظہارِ نظر لکھنا تھا۔ سو، مجھے اپنی ذاتی لائبریری میں تلاشِ بسیار کے بعد ناشاد صاحب کی مذکورہ کتاب ملی۔ میں نے دو نشستوں میں اس کتاب کا مطالعہ کیا۔ کتاب دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ چھپی ہے۔ کتاب کے بیک ٹائٹل پر ملک عزیز کے نامور ادیب اور مقتدرہ قومی زبان کے صدر نشین جناب افتخار عارف کے تأثرات درج ہیں۔ انہوں نے ناشادؔ صاحب کی کتاب کو اہلِ بیت سے محبت کرنے والوں کے لیے بہترین تحفہ قرار دیا ہے۔ کتاب کے اندرونی پہلے صفحات پر بلتستان کے نامور محقق جناب یوسف حسین آبادی نے بڑے خوبصورت پیرائے میں مصنف کا تعارف لکھا ہے۔ بعد ازاں دوستِ محترم پروفیسر کمالؔ الہامی صاحب نے ناشاد صاحب کو اس علمی کاوش پر منظوم خراج تحسین پیش کیا ہے۔ ’’قطعۂ تاریخ‘‘ میں موجود پروفیسر صاحب کا یہ شعر ناشادؔ صاحب کے سفرنامے کو اُٹھان دینے کے لیے کافی ہے۔ پروفیسر کمالؔ الہامی صاحب نے خوب کہا ہے کہ ؂
ذوق و شوق و محنت و کاوش، عقیدت، عشق سے
یہ سفرنامہ لکھا ناشادؔ نے کیا شاندار
کتاب کے پہلے صفحے پرمیرے نام ناشادؔ صاحب کے ہاتھوں سے لکھا ہوا محبت نامہ برائے اعزازی کاپی سے ہی آپ ان کے ادبی قد کاٹھ کا پتہ لگا سکتے ہیں۔ بڑی محبت سے لکھا ہے:
’’برادر گرامی قدر
عبدالکریم کریمی صاحب کی خدمت میں ؂
تحفۂ ناشادؔ ناچیزے بکف
’’گر قبول افتد زہے عزو شرف‘‘
فدا محمد ناشادؔ
حسین آباد سکردو
۱۲؍ شعبان ۱۴۳۳ھ بمطابق ۳؍ جولائی ۲۰۱۲ء ؁‘‘
کتاب کے شروع میں سورۃ الشوریٰ کی آیت ۲۳؍ سے استفادہ کیا گیا ہے جس میں ربِ کائنات اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
مفہوم: ’’کہہ دیجئے میں اس (تبلیغ رسالت) پر تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا سوائے قریبی رشتہ داروں (اہل بیت) کی محبت کے۔‘‘
ناشادؔ صاحب کا پورا سفرنامہ اس آیۂ مبارکہ کے گرد گھومتا ہے۔ کیوں نہ ہو کہ مولائے کائنات حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا فرمان مبارک ہے کہ
مفہوم: ’’ہم خدا اور خدا کے بندوں کے درمیان رابطے اور وسیلے ہیں۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ اہلِ بیت کی محبت آپ کو سکردو کی پہاڑیوں سے ایران کی زیارتوں تک پہنچاتے ہیں۔ وہ جہاں ان پاک و پاکیزہ ہستیوں کی زیارتوں پر سجدہ ریز ہوکر اپنی محبت و عقیدت کا خراج پیش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں تو وہاں اپنے اس سفر محبت میں تمام احباب کو بھی اپنی دُعاؤں میں یاد کرنا نہیں بھولتے۔ کتاب میں شریکِ سفر تمام افراد کا تذکرہ، ایران کے چبے چبے کا قصہ، وہاں کی تاریخ، سیاست کے نشیب و فراز، وہاں کے مقدس مقامات، ائمہ علہیم السلام کی زیارتوں، اہالیانِ ایران کی روایتی مہمان نوازی اور ایرانی چائے کی چسکیاں………… کیا کیا اس سفرنامے میں پڑھنے کو نہیں ملتا۔ پھر بھی بقول باقیؔ صدیقی، ناشادؔ صاحب کا کہنا ہے کہ ؂
ہر ایک بات زبان پر نہ آسکی باقیؔ
کہیں کہیں سے سنائے ہیں ہم نے افسانے
ناشادؔ صاحب بہت ہی نفیس انسان ہیں۔ ہر ایک کا احترام کرنا ان کی خاندانی تربیت کی رہینِ منت نظر آتا ہے۔ کتاب کے دیباچے میں وہ لکھتے ہیں:
’’دورانِ تحریر جن دوستوں کا تذکرہ ہوا ہے۔ مجھے ان میں سے ہر ایک سے بھرپور محبت بلکہ اُلفت ہے۔ اگر کسی کے بارے کوئی غیر ارادی جسارت میرے قلم کی زبان سے نکل چکی ہو، تو میں معذرت چاہتا ہوں۔ میں کسی کی دل آزاری کا قطعاً سوچ بھی نہیں سکتا۔ بلکہ میں تو کانٹوں بھری جھاڑیوں میں بھی صرف کلیوں اور پھولوں کو تلاش کرکے ان کی مہک اور شگفتگی سے محظوظ ہونے کا عادی ہوں۔‘‘
دوست تو دوست ہوتے ہیں۔ آپ اپنے ڈرائیور کے جذبات کا کتنا خیال رکھتے ہیں۔ ذرا ملاحظہ فرمائیے کہ اپنی کتاب کے صفحہ ۶۳؍ پر مشہد شہر کی ایک زیارت سے واپسی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ہمیں وہاں سے لوٹنے کی جلدی نہیں تھی، لیکن ہمارے ڈرائیور کو ہم سے زیادہ جلدی تھی۔ اس لیے ہم نے اس کا دل دُکھانے کی بجائے واپسی کی ٹھان لی۔‘‘
یہی وہ چیز ہے جو ایک انسان کو آدمیوں سے الگ کرکے ممتاز مقام دیتی ہے ورنہ آدمیوں کی اس دُنیا میں انسانیت کی بات کرنا دیوانے کا خواب لگتا ہے۔
دوست بھی تو ناشادؔ صاحب کے اتنے قدردان ہیں کہ ان کی قدردانی کی مثال دئیے بغیر وہ نہیں رہ سکے۔ خرم شہر میں دریائے کے کنارے چہل قدمی کا تذکرہ کرتے ہوئے اپنے دوستوں کی قدردانی کا ذکر کچھ یوں کرتے ہیں:
’’چند سیگریٹ نوشی کے شائقین دریا کے کنارے دُھواں اُڑا رہے تھے۔ مجھے آتے دیکھ کر ایک دو ساتھیوں نے سیگریٹ پیچھے کی طرف پھینک دی۔ وہ اکثر یہ شوق مجھ سے چھپا چھپا کر ہی پورا کیا کرتے تھے۔ میں ان کے اس احترام کا بہت شکر گزار ہوں۔‘‘
ناشادؔ صاحب اپنے سفرنامے میں جہاں ایک ایک منظر کی منظرکشی کرتے نظر آتے ہیں وہاں وہ ہمیں وہاں کے کتب خانوں کی سیر کرتے ہوئے مطالعے میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ ایران کے بارے میں اکثر میں سوچتا رہتا تھا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ آج ایران بڑی بڑی طاقتوں سے آنکھیں ملاکے باتیں کرتا ہے۔ تو اس کا راز بھی مجھے ناشادؔ صاحب کی کتاب میں ملا۔ وہ مشہد میں موجود ایک کتب خانے کا ذکر کرتے ہوئے اپنی کتاب کے صفحہ ۴۵؍ میں لکھتے ہیں:
’’آستان قدسِ رضوی کا کتب خانہ ۲۸؍ ہزار مربع میٹر کے رقبے پر محیط ہے۔ اس کی عمارت اسلامی طرزِ تعمیر کا ایک منفرد شاہکار ہے۔ جس میں ۵؍ لاکھ نادر و نایاب کتابوں کے نسخے موجود اور محفوظ ہیں۔ اس میں ایک شعبہ ایسا بھی ہے کہ آپ اپنے نام کے ساتھ کسی بھی کتاب اور مصنف کا نام لکھ کر ایک برقی مشین کی جھولی میں ڈال دیں تو چند منٹوں کے اندر وہ مشین آپ تک اسی جھولی میں کتاب اٹھائے پہنچا دے گی۔ اس کتاب خانہ میں طلبا، اساتذہ اور صاحبانِ علم و تحقیق کی سہولت کے لیے ۱۸؍ بڑے بڑے ہال موجود ہیں جن میں سے ۹؍ مردوں کے لیے اور ۹؍ عورتوں کے لیے مخصوص ہیں۔ ان میں بحیثیت مجموعی ۲؍ ہزار افراد بیک وقت مصروفِ مطالعہ رہ سکتے ہیں۔‘‘
پھر کتاب کے صفحہ ۵۷؍میں لکھتے ہیں:
’’مشہد ہی کی کیا بات ایران کے جس شہر میں بھی آپ جائیں کتب خانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے یہاں پرنٹنگ اور پبلشنگ کا کام انتہائی سستے داموں ہوجاتا ہے۔ کتابوں کے خریدار بھی علمی ملک ہونے کے باعث یہاں بہت زیادہ ہیں۔ یہاں کتابیں لوگوں میں بطور تحفہ دینے، دوستوں اور عزیزوں کو پیش کرنے کا بھی بہت رواج ہے۔ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ جب بھی مجھے ایران جانے کا موقع ملا دوستوں کی جانب سے کتابوں کے اتنے تحفے ملے کہ میں کوئی اور سامان کبھی ساتھ نہ لاسکا۔ کوئی ایرانی گھر شاید ایسا ہو جس میں دو چار درجن مذہبی، ثقافتی، تاریخی اور مختلف موضوعات کی کتابیں موجود نہ ہوں۔‘‘
ناشادؔ صاحب اپنی کتاب کے صفحہ ۱۳۹؍ میں عالمی اسلامی لائبریری کے عنوان سے جس لائبریری کا ذکر کرچکے ہیں۔ وہ ساتویں اور تیرھویں صدی عیسوی میں فاطمی ائمہ علہیم السلام نے قائم کی تھی جوکہ دُنیا کی سب سے بڑی لائبریری تھی۔ جس میں اس دور میں ۴؍ لاکھ کتابیں موجود تھیں۔ لیکن سقوط بغداد کی صورت میں جہاں مسلمانوں کے خون ندیوں کی صورت میں بہے وہاں دریائے فرات ان کتابوں کی سیاہی سے سیاہ ہوگیا تھا اور یہی سے مسلم امہ کا زوال شروع ہوا۔ جس پر ناشادؔ صاحب نے بھی تفصیل سے لکھا ہے لیکن نہ جانے فاطمی ائمہ علیہم السلام کا تذکرہ کرنا کیوں بھول گئے ہیں۔
ایرانیوں کی کتاب دوستی اور وہاں کے کتب خانوں کا ذکر کرتے ہوئے ناشادؔ صاحب نے پاکستان کی علمی حالت پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ صفحہ ۱۴۰؍ میں لکھتے ہیں:
’’پاکستان کی سب سے بڑی لائبریری نیشنل لائبریری آف پاکستان اسلام آباد ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس میں ۳؍ لاکھ کتابیں موجود ہیں اور مزید ۷؍ لاکھ کتابوں کی گنجائش موجود ہے۔ لیکن اگر آپ اس لائبریری میں بھی جاکر جائزہ لیں گے تو کتب بینوں کی تعداد روزانہ درجنوں سے زیادہ نہ ہو۔‘‘
یہی چیزیں تو ایران کی کامیابی کا راز ہیں۔ خود ناشادؔ صاحب کے ذوق اور ان کی کتاب دوستی کا حال تو دیکھئے کہ جہاں بس رکی یا گاڑی نے بریک لگائی یہ موصوف وہاں موجود کتب خانے میں داخل ہوئے اور علمی پیاس بجھانے کی کوشش کی۔ یقین نہیں آتا تو ان کی کتاب کو دیکھئے جگہ جگہ کتب اور کتب خانوں کا ذکر آپ کو ملے گا۔ جیسے تہران ریوے اسٹیشن پہنچتے ہی وہ باقی ساتھیوں کے انتظار میں ویسے نہیں بیٹھتے بلکہ ایک کتب خانے میں داخل ہوکر مطالعے کا شوق پورا کرتے ہیں۔ اسی طرح شہر نیشاپور کے دورے کے دوران وہ جہاں زیارتوں سے فیضیاب ہوتے ہیں تو وہاں معروف رباعی گو شاعر اور ریاضی دان خیام نیشاپوری کی تصنیف ’’رباعیاتِ عمر خیام‘‘ کی تلاش میں نکلتے ہیں اور جب تک ان کو کتاب نہیں ملتی ان کو چین نہیں آتا۔ پھر بھی دل نہیں بھرتا تو ایران کی ریلوں میں کتب بینی کی سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ وہ اپنی کتاب کے صفحہ ۱۳۳؍ میں لکھتے ہیں:
’’ایران کی ریلوں میں ایک اور سہولت یہ بھی تھی کہ اگر دورانِ سفر کوئی مسافر مطالعہ کرنا چاہے تو اس کی لائبریری سے کتاب کی قیمت ضمانت رکھ کر آپ برائے مطالعہ اپنی پسند کی کتاب لے سکتے ہیں۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ ہمیں ناشادؔ صاحب کی شخصیت میں نرمی، ٹھہراؤ، ملنساری، ادب اور قدردانی کا عنصر غالب نظر آتا ہے۔ وہ سیاست کے بھی شہسوار ہیں۔ ڈسٹرکٹ کونسل سکردو سے اپنے سیاسی کیرئیر کا آغاز کرنے والے ناشادؔ صاحب شمالی علاقہ جات کے ڈپٹی چیف ایگزیکٹیو کے پرکشش کرسی تک بھی پہنچے اور اب گلگت بلتستان اسمبلی کے اسپیکر ہیں لیکن مجال ہے کہ آپ کے طرزِ انسان دوستی اور ادب نوازی میں ذرا بھر بھی فرق آیا ہو۔ ورنہ تو سیاست میں اس قبیل کے لوگ بلکہ چھوٹے چھوٹے وزیروں کے سر میں بھی غرور و تکبر کا ایسا سریا ہوتا ہے کہ وہ کسی کو انسان تک نہیں سمجھتے۔ لیکن ناشادؔ صاحب سراپا محبت ہیں۔ اور اس محبت و مروّت کے پیچھے کتاب بینی اور ادبِ عالیہ کا گہرا مطالعہ ہے۔ جو ہر کس و ناکس کے حصے میں کہاں۔ کیونکہ بقول کسے ؂
ایں سعادت بزور بازو نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ
ناشادؔ صاحب کے پیش نظر غالباً فرحت ندیم ہمایوں کا یہ شعر ہے ؂
نہیں ہوتی ہے راہِ عشق میں آسان منزل
سفر میں بھی تو صدیوں کی مسافت چاہئے ہے
حیدر علی جعفری نے کہا تھا ؂
آئے ٹھہرے اور روانہ ہوگئے
زندگی کیا ہے سفر کی بات ہے
لیکن ناشادؔ صاحب اس شعر کے برعکس زندگی کو عبادت سمجھ کر گزارتے ہیں اور سفر بھی ایسا کہ صرف آئے ٹھہرے اور روانہ ہوئے، نہیں بلکہ کیوں آئے، کیوں ٹھہرے اور روانہ ہونے کی وجہ کیا ہے وہ یہ سب چیزیں لکھتے جاتے ہیں، داستاں لے کے آتے ہیں وہ حبیب جالب کی طرح نہیں کہ ؂
جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے
المختصر ’’جادۂ نور‘‘ محبت و عقیدت کی سیاہی سے لکھا گیا ایک دلچسپ سفرنامہ ہے جو گھر بیٹھے آپ کو ایران و عراق کی سیر کرائے گا۔ دُعا ہے کہ ربِ کائنات دوستِ محترم ناشادؔ صاحب کی توفیقات میں مزید اضافہ فرمائے۔ آمین!

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
13224

اشکومن ، جنگ آزادی کے ہیرو ریٹائرڈ صوبیدار مراد خان بانوے سال کی عمر میں انتقال کرگئے

Posted on

اشکومن(کریم رانجھا) ؔ جنگ آزادی کے ہیرونائب صوبیدار (ریٹائرڈ)مراد خان بانوے سال کی عمر میں انتقال کرگئے،مرحوم نے 1948,1965اور71 کی جنگوں میں حصہ لیا،65کی جنگ میں غیر معمولی شجاعت اور بہادری کی تاریخ رقم کی،مرحوم کو آبائی قبرستان واقع دائین میں سینکڑوں اشکبار سوگواران کی موجوددگی میں سپرد خاک کیا گیا۔نائب صوبیدار(ریٹائرڈ) مراد خان جنوری 1948کو ناردرن سکاؤٹس میں بھرتی ہوئے،اور اسی سال نومبر کے مہینے میں گلگت بلتستان کی جنگ آزادی میں شریک ہوئے ،میدان جنگ میں داد شجاعت دیتے ہوئے غازی ٹھہرے،بعد ازاں 1965کی جنگ میں بحثیت جے سی او شریک ہوئے اور بہادری کے لازوال داستانیں رقم کیں۔اس دوران اپنے ساتھیوں کی شہادت کے بعد تین دنوں تک مسلسل اکیلے ہی دشمن کا حملہ پسپا کرتے رہے،چوتھے روز مزید کمک پہنچائی گئی،بعد ازاں دشمن کے فارورڈ پوسٹ پر انہوں نے ساتھیوں کے ہمراہ شدید حملہ کیا ،دشمن اپنے پانچ لاشوں اور اسلحہ کی بڑی کھیپ چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور ہوا۔جنگ کے اختتام پر انہیں لازوال بہادری کے صلے میں اس وقت کے کمانڈر انچیف یحیےٰ خان نے اعزازی سند سے نوازا۔مرحوم 1969کو نائب صوبیدار کی حثیت سے ریٹائر ہوئے اور1971کی پاک بھارت جنگ میں بحثیت رضاکار شریک ہوئے اور اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔مرحوم مراد خان جنگ آزادی سمیت دیگرجنگوں میں حصہ لینے والے وادی اشکومن کے آخری غازی تھے۔مرحوم نے پسماندگان میں تین بیٹے اور تین بیٹیاں سوگوار چھوڑی ہیں۔

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستانTagged
13199

ملاکنڈ ڈویژن کی پہلی خاتون پولیس افیسر۔۔۔۔دلشاد پری

Posted on

صنف نازک کی کمزور ی کا احاطہ کرتے ہوئے ویلئیم شیکسپئر نے اپنے مشہور ڈرامہ ہیملٹ میں کہا تھا frailty, thy name is womanلیکن چترال پولیس کی خاتون پولیس افیسر دلشاد پری کو ان کی پیشہ ورانہ ڈیوٹی میں کوئی منہمک دیکھے تو اسے معلوم ہوگا کہ اکیسویں صدی عیسوی کی اس صنف نازک نے کس طرح اس تاریخی جملے کو غلط ثابت کردیا اور ساتھ ہی یہ ثابت کردیا کہ خود اعتمادی کی دولت اور اپنے پیشے سے عشق ہو تو کس طرح بڑے بڑے پہاڑ رائی کے دانوں کی طرح راستے سے ہٹ جاتے ہیں۔ پولیس کی وردی میں اس چٹان کو دیکھ کر شاعرمشرق ؒ کا مردکوہستانی یاد آجاتے ہیں جس کی نسوانیت میں عزم ، دیانت ، ولولہ اور خود اعتمادی نمایان ہے جوکہ انسان کو کامیابی کی اوج ثریا تک پہنچانے والے اوصاف ہیں۔ ملاکنڈ ڈویژ ن میں سب سے پہلی خاتون پولیس افسیر کا اعزاز حاصل کرنے والی دلشاد پری یقیناًایک قابل تقلید کردار ہیں جس کے جہد مسلسل سے چترال کی بیٹیاں بہت کچھ سیکھ سکتی ہیں۔ چترال ٹائمز ڈاٹ کام نے اس حقیقت کے پیش نظر دلشاد پری کا ایک مفصل انٹرویو کیا جوکہ اپنی قارئیں کے لئے حاضر ہے:

dilshad pari asi chitral 4

چترال ٹائمز: آ پ کا تعارف
دلشاد پری ، دختر سید عزیز ولی شاہ ، ساکنہ بونی چیرانٹک

چترال ٹائمز: آپ کی تاریخ پیدائش اور تعلیمی قابلیت؟
دلشاد پری : میں 5نومبر1989ء میں بونی کے چیرانٹک گاؤں میں سیدعزیز ولی شاہ کے گھر پیدا ہوئی۔ میں نے کیمسٹری میں ایم ۔ایس سی کے علاوہ ایل ایل۔ بی،اور بی ۔ایڈ کی ڈگریاں بھی حاصل کی ہے۔ جبکہ فزیکل ایجوکیشن میں بھی ڈپلومہ کیا ہوا ہے ۔

dilshad pari asi chitral 24
چترال ٹائمز: اپنی تعلیمی کیریر کے بارے میں بتائیے اور دوسرے خواتین کے برعکس اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے باوجود پولیس سروس جوائن کی وجہ کیا تھی؟
دلشاد پری: مجھے ڈاکٹر بنانے کا والدین اور بہن کو بہت ہی شوق تھا جس طرح ہر ایک قابل بیٹی کے ساتھ یہ توقع وابستہ کیا جاتا ہے کہ وہ ڈاکٹر ہی بنے گی کیونکہ چترال میں لیڈی ڈاکٹر کو بہت ہی عزت واحترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ خود مجھے بچپن سے ہی پولیس اور وکیل بننے کا بہت شوق تھا کیونکہ میرے ابو بھی پولیس میں تھا جوپچیس سال سروس کرنے کے بعد سبکدوش ہوئے تھے۔ اپنے شوق کو پس پشت ڈال کر گھر والوں کی مرضی کے مطابق میڈیکل کالج میں داخلے کے لئے انٹری ٹیسٹ کی تیاری کررہی تھی اور ایف ایس سی امتیازی نمبروں سے پاس کرنے کے بعد یہ تیاری عروج پر تھا کہ اچانک والد صاحب کی وفات کی وجہ سے ذہنی صدمے کے باعث میڈیکل کیلئے صحیح تیاری نہ کرپائی۔جب اس غم کی شدت سے سنبھل پائی ، تو سوات ڈگری کالج میں فرسٹ میرٹ لسٹ پر داخلہ ہوگئی ۔میں اپنے گاوں چیرانٹک کی سب سے پہلی لڑکی تھی جس نے لواری ٹاپ سے باہر پڑھائی کیلئے قدم رکھ لی تھی۔ میرے بعد تو تمام لڑکیاں چترال سے باہر پڑھنے کیلئے جانے لگے ۔ بی ایس سی میں داخلے کے بعد جب کلاس شروع ہونے لگے توجو حالات دیکھنے کو ملے جس کا میں تصور بھی نہیں کرسکتی تھی۔ یہ اُس وقت کی بات ہے جب سوات میں طالبان اور آرمی کے درمیان جھڑپ ہوئی تھی۔ وہاں دھماکوں کی آواز میں ہم لوگ کلاسیں لینے جاتے تھے۔ وہ جو میں چترال میں کبھی نہیں دیکھی تھی اور دھماکوں کی آواز میں گھر سے دور سٹڈی میں مگن ہوگئی ۔ بی ایس سی کا امتحان بھی میں فسٹ ڈویژن سے پاس کرلی ۔ بی ایس سی کا امتحان دے کر فارع ہوئی تھی تو اچانک سہیلی کے مشورے پر ان کے ساتھ ملکر پولیس میں بھرتی کے لئے درخواست دے دی ۔ یہ جذباتی فیصلہ تھا یا میراجنون یا دونوں کہ میں نے پولیس جوائن کرلی۔ اس بعد میں نے اپنی لگن اور محنت سے آگے جانے کے لئے راستہ بناتی گئی کیونکہ محنت کے آگے کوئی چیز رکاوٹ نہیں بن سکتی۔
dilshad pari asi chitral 14

چترال ٹائمز: کیا آپ کے پولیس سروس جوائن پر گھر والوں یا رشتہ داروں نے آپ کے فیصلے سے ناخوش ہوکر آپ سے پولیس سروس چھوڑ نے کا مطالبہ نہیں کیا؟
دلشاد پری: میرا تعلق چونکہ سید خاندان سے ہے ۔ اسلئے گھر والے اور کچھ رشتہ دار میرے پولیس جوائن کرنے سے ناخوش تھے لیکن انہوں نے میری شوق اور جذبے کے سامنے سر تسلیم خم کرلیا۔ ا ن کو معلوم تھا کہ میں جب کسی بات اور کام کا پکا ارادہ کرتی ہوں تو کسی کی بھی نہیں سنتی ۔ مجھے کسی کے باتوں کی پرواہ نہیں ہوتی ۔ ہمت کرکے آگے بڑھتی رہی اور ساتھ ہی تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھا ۔

dilshad pari asi chitral 10

چترال ٹائمز: آپ کالج اور یونیورسٹی میں پڑھتی رہی ہیں ۔ پولیس سروس میں آنے کے بعد ان دونوں ماحولوں میں کیا فرق محسوس کرتی ہیں؟
دلشاد پری: اس ماحول میں آنے کے بعد مجھے کالج اور اس ماحول میں آسمان اور زمین کا فرق محسوس ہوا ، سوچ ، زھن اور ماحول بالکل الگ پایا ۔

چترال ٹائمز: کیا آپ کو سروس کے شروع میں مختلف النوع مسائل کو سامنا رہا؟
دلشاد پری: میرے سامنے بہت سے چیلنجز تھے۔ بہت سے کٹھن مراحل مگریہ اس جاب کا تقاضا تھا کہ میں برداشت کرتی رہی ۔

dilshad pari asi chitral 9

چترال ٹائمز: آپ کو اپنی زندگی کے مختلف مراحل میں کن کن سے سپورٹ ملی اور آ پ کن کے احسانات کو فراموش نہیں کرسکیں گی؟
آج میں فخر سے کہ سکتی ہوں کہ زندگی میں اپنے والد کی وفات کے بعد کسی کا بھی مجھ پر احسان نہیں ۔ ایک میر ی عظیم ماں اور میر اعظیم نانا سیدکبیر سلطان شاہ کے ہاں مجھے ذہنی سپورٹ کرنے میں میری ماں کے بعد میرے اساتذہ کرام کا بہت اہم کردار رہا ہے جن میں سر فہرست شیر محسن الملک انسپکٹر لیگل پولیس کے محکمے میں ، یونیورسٹی میں سر شہزادہ الرحمن چکدرہ ، سر احمد شاہ پی ٹی سی ہنگو میں میرے انسٹرکٹر ضمیر عباس اور وکالت کی دنیا میں ایک عظیم خاندانی رہنما مسٹر صاحب نادر خان ۔جبکہ رشتہ داروں میں چچا سید یوسف علی شاہ بھی شامل ہیں ۔

dilshad pari asi chitral 15
چترال ٹائمز: سروس کے دوران عام لوگوں کے روئیے کے بارے میں کچھ بتائیے۔
دلشاد پری: میں جب بھی لوگوں کی کڑوی باتین سن کے پریشان ہوتی یا ہمت ہارتی تو ان اساتذہ کرام کی راہنمائی حاصل کرتی ۔ لوگوں کی منطق کی سمجھ مجھے آج بھی بالکل نہیں آئی ۔ جب کسی کے ساتھ سلام دُعا کرو فری مائنڈ کا خطاب دیا جاتا ہے اور جب ریزرو رہو تو مغرور ۔ یہ القابات اکثر مجھے سننے میں آتے ہیں ۔ خیر ان چیزوں پر دھیان دینے والے کبھی آگے نہیں جاتے اسیلئے ہم اپنے منزل کی فکر اور جستجو ہے اور ان باتوں کی بالکل پرواہ نہیں ۔
dilshad pari asi chitral 17

چترال ٹائمز: آپ نے جس رفتار سے پولیس سروس میں ترقی کے مراحل طے کی ہیں، وہ آپ کی اعلیٰ کاکردگی کا مظہر ہے ۔ پولیس میں اپنی کیریر کے بارے میں تفصیل سے بتائیے۔
دلشاد پری: 2012ء میں ریکروٹ کورس کیلئے بھیج دی گئی ، پولیس ٹریننگ کالج ہنگو تو 9ماہ کی کورس کے اختتام پر ایگزام دینے کے بعد کے پی کے کے تمام اضلاع کے لیڈیز پولیس کے مقابلے میں بطور چترالی کیڈٹ ڈیکلیئر ہوئی ۔ یہ میرے لئے اعزاز کی بات تھی کہ وہاں All round Bestکیڈٹ 2012کے بورڈ پر میرا نام اور میرے ابو کا نام بھی بلکہ ضلع چترال کا نام بھی لکھا ہو ا تھا۔ فخر سے آنکھوں میں آنسو آگئی کہ پی ٹی سی (پولیس ٹریننگ کالج ) ٹریننگ کالج ہنگو میں واحد چترالی جس کا نام ٹاپر بورڈ پر لکھا ہوا ہے ۔ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ پولیس جاب آسان ہے ۔ وہ یہ سوچنا چھوڑ دے کیونکہ ٹریننگ کے دوران نہ ایم ایس سی کام آتی ہے نہ ایل ایل بی صرف وہاں پولیس لاء کی 12کتابیں ، پریڈ ، پی ٹی اور فائرنگ ۔ سکول ، کالج میں ہر سبجیکٹ میں مقابلہ ہوتا تھا اور وہ گنے چنے کلاس فیلوز کے ساتھ مگر پولیس ٹریننگ کالج میں اول پوزیشن لینے کیلئے تمام ٹریننگ فرسٹ آنا ہوتا ہے ۔ اور یہ مقابلہ کے پی کے کے تمام اضلاع کے ٹرینیز جس میں پریڈ، پی ٹی ، ویپن ہنڈلنگ ، فائرنگ اور پولیس کی تربیتی کتابیں شامل ہوتی ہیں۔ جو بندہ ان تمام پر عبور حاصل کرتا ہے اسکو کیڈٹ ڈیکلےئر کیا جاتا ہے ۔ اور الحمد اللہ میں 2012ء کی ٹریننگ کی کیڈٹ لڑکی سلیکٹ ہوگئی ۔ اور بہت ہی کم عرصے میں ضلع چترال کی طرف سے واحد لڑکی تھی جو ایک سال پریڈ کیڈٹ کے گزارنے کے فوراََ بعد بنا A-1اور B-1کے ڈائریکٹ حوالدار کورس کیلئے سیلکٹ ہوگئی ۔ اور لوئر کورس میں بھی کے پی کے کے 800لڑکوں اور لڑکیوں میں ٹاپ 5میں سیلکٹ ہوگئی اور یوں ایک بار پھر ڈبل کیٹ بننے کا اعزاز حاصل کیا۔ اور ڈائریکٹ حوالدار کے عہدے میں ترقی پائی ۔ اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اسی سال اے ایس آئی کے کمیشن کا ایگزام دیا اور اوپن میرٹ میں سلیکٹ ہوگئی ۔ 29ویکنسی میں سے 27خالی رہ گئے اور ایک ویکنسی میں نے اور ایک پشاور کی ایک لڑکی نے لے لی۔ باقی کوئی پاس نہ کرسکے ۔ اور یوں ملاکنڈ رینج کی پہلی خاتون ASIہونے کا اعزاز بھی حاصل کیا ۔ یہ میرے لئے فخر کی بات تھی کہ اپنے ابوجان جو ہمیشہ سے میرا آئیڈیل رہا ہے، اسکی ڈیپارٹمنٹ میں ڈبل کیڈٹ اور ASI بن گئی۔میں نے این او سی لیکر تعلیمی سفر بھی جاری رکھا۔ اور آئندہ بھی جاری رکھنے کا شوق ہے ۔ انشاء اللہ ایل ایل ایم بھی کرلونگی اور ریٹائرمنٹ کے بعد وکالت کرونگی ۔
dilshad pari asi chitral 18

چترال ٹائمز: فارغ اوقات میں کیا کرتی ہیں؟
دلشاد پری: فارع اوقات میں کتابوں کا سہارا لیتی ہوں تو کبھی اخبار کیلئے کوئی کالم لکھتی ہوں ۔کیونکہ مجھے صحافی بننے کا بھی بہت شوق تھا ۔ ایک وکیل اور صحافی کے قلم میں بڑی طاقت ہوتی ہے ۔

dilshad pari asi chitral 19
چترال ٹائمز: آپ کو کس قسم کے لوگوں سے نفرت ہے؟
دلشاد پری: مجھے اس وقت بہت تکلیف ہوتی ہے جب لوگوں کو منافقت کرتے دیکھتی ہوں ۔ مجھے ان لوگوں سے شدید نفرت ہے جس کا ظاہر اور باطن ایک نہیں جو اوپر سے کچھ اور اندر سے کچھ اور ہیں۔ مجھے ان لوگوں سے سخت نفرت ہے ،۔ جو جھوٹ بولتے ہیں ۔ اور مجھے اس وقت بہت غصہ آتا ہے جب لوگ کہتے ہیں کہ اتنی قابل اور تعلیم یافتہ ہونے کیوں پولیس جوائن کیا ۔ حالانکہ پولیس میں بھرتیاں خالص میرٹ کی بنیاد پر ہوتی ہیں۔
dilshad pari asi chitral 23 1

چترال ٹائمز: کیا آپ اپنی سروس سے مطمئن ہیں؟
دلشاد پری: میں اپنے محکمے سے بہت مطمعین ہوں ۔اچھے اور برے لوگ تو ہر جگہ ہوتے ہیں ۔اور جو عزت ، تحفظ ہمیں پولیس ڈیپارٹمنٹ میں ملتی ہے کسی ڈیپارٹمنٹ میں بھی ایسی سکیورٹی نہیں۔ جو لوگ پولیس ڈیپارٹمنٹ اور پولیس لیڈیز کی برائیاں کرتے ہیں تووہ ضرور یاد رکھیں کہ ہم لوگوں کو جو ٹریننگ دی جاتی ہے ۔ اس سے ہم نہ صرف دوسرے لوگوں کی حفاظت کرتے ہیں بلکہ دشمنوں سے نمٹنے کیلئے بھی ہمیشہ تیار رہتے ہیں ۔

چترال ٹائمز: مستقبل کے حوالے سے آپ کے ارادے کیا ہیں؟
دلشاد پری: مستقل میں مذیدمحنت سے آگے جانے اور مذید کامیابیوں کیلئے کوشش کرونگی ۔انشاء اللہ تعالیٰ

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
13162

چترال کے قابل فخر فرزند اصفر حسین کا اعزاز، پیسپی بیٹل آف دی بینڈ کا ٹائٹل اپنے نام کرلیا

bayan2
asfar hussain chitrali33
چترال (نمائندہ چترال ٹائمز )‌چترال کے ایک اور قابل فخرفرزند نے ملکی سطح‌پرمقابلہ جیت کر چترال کا نام روشن کردیا ہے. گزشتہ چھ مہینوں‌سے جاری پیپسی بیٹل آف دی بینڈ (Pepsi Battle of the Band) کےنیشنل مقابلے میں‌”بیان نامی ” بینڈ نے فائنل جیت کر ٹائٹل اپنے نام کرلیا ہے . بیان بینڈ کی قیادت چترال سے تعلق رکھنے والے اصفر حسین کررہے تھے. یہ مقابلے گزشتہ چھ مہینوں‌سے جاری تھے. جس میں‌چار سو سے زیادہ بینڈز نے حصہ لیا تھا. جن میں‌سے شروع میں صرف بیس بینڈ گروپ کو شارٹ لسٹ کیا گیا تھا . اور ان میں مقابلے کے بعد صرف بارہ بینڈ گروپ رہ گئے تھے. جن میں‌مقابلے کے بعد ہر ہفتے ایک گروپ آوٹ ہوتا تھا . اسی طرح طرح گزشتہ دن اخری دو گروپوں‌”بیان” اور”ضرب” کے درمیان مقابلہ ہوا جس میں‌بیان گروپ نے کامیابی حاصل کرکے ٹائٹل اپنے نام کرلیا. اور پچاس لاکھ روپے انعام کے بھی حقدار ٹھیرے.

یادرہے کہ اصفر حسین “ووکلسٹ” کا تعلق چترال کے نواحی گاوں‌سین لشٹ سے ہے . وہ چترال کے معروف شاعر و ادیب کریم اللہ ثآقب کے فرزند ارجمند ہیں.
اصفر حسین ابتدائی تعلیم کمیونٹی بیسڈ سکول دولوموچ سے حاصل کیا جس کے بعد لینگ لینڈ سکول اینڈ کالج سے ایف ایس سی جبکہ نینشل کالج آف آرٹس لاہور سے میوزیکالوجی میں‌بی ایس کی ڈگری حآصل کی ہے . شروع میں انھوں نے نیس کیفے بیسمنٹ پراجیکٹ کا حصہ رہے اور مقابلوں‌میں‌حصہ لیتے رہے . جس کے بعد چند اور دوستوں‌کے ساتھ ملکر اپنا گروپ تشکیل دیا . اوراسکا نام “بیان” Bayan گروپ رکھا گیا . گروپ کے دیگر ممبران میں لاہور سے تعلق رکھنے والے حیدر عباس، مقید شہزاد، شاہ رخ، سلیم اور منصور لاشاری شامل ہیں .
asfar hussain bayan chitrali
دریں اثنا چترال کے مختلف مکاتب فکر نے اصفر حسین کو مبارکباددیتے ہوئے کہا ہے کہ انھوں‌نے قومی سطح پر مقابلہ جیت کر ثابت کردیا ہے کہ چترال میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں‌، کمی اگرہے تو وہ مواقع کی ہے . انھوں نے مذید کہا کہ چترال کے دوسرے فنکاروں‌کو بھی ان سے سبق حاصل کرنا چاہیے کہ چترال کے تہذیب و تمدن کو برقرار رکھتے ہوئے بھی مقام حاصل کیا جاسکتا ہے .

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
13135

آغا خان ہائیر سیکنڈری سکول گلگت میں سر سبز پاکستان کی شجر کا ری

Posted on

گلگت ( ارچنڈ جنید سے ) آغاخان ہائیر سیکنڈری سکول گلگت میں گرین پاکستان شجر کاری مہم ، سکول ہذا کے ماحول دوست کلب کی سر گرمی ،اعلی حکام کی شرکت اور پاکستان کو سرسبز ملک بنا کر کرہ ارض کو ماحولیاتی الودگی سے بچانے کی مسسلسل کوششوں کا مصمم ارادہ ۔
تفصیلات کے مطابق پاکستان کے دوسرے شہروں کی طرح گلگت بلتستان میں بھی بڑے پیمانے پر گرین پاکستان شجر کاری مہم چلائی گئی ۔ گلگت بلتسان کے مشہور تعلیمی ادررہ آغا خان ہائی سیکنڈری سکول کے ماحول دوست کلب نے محکمہ جنگلات گلگت کے تعاون سے سکول کے احاطے میں ایک ہزار پودوں کی شجر کاری کی ۔ مہم کا افتتاح اسماعیلی ریجنل کونسل گلگت کے پریزیڈنٹ نعیم خان اور انریری سیکریٹری جناب شمشیر خان صاحب نے دیودارکے درخت لگا کر کیا ۔ اس موقعے پر سکرٹری جنگلات ، کنزرویٹر اور ڈی ایف او گلگت کے علاوہ آغا خان ایجوکیشن سروس کے اعلی حکام میں جنرل منیجر بہادر علی ، سنیر منیجر شاہ اعظم اور سکول ہذا کے پرنسپل شمس الحق کے علاوہ مختلف سلکولوں کے طلبہ ، پاکستان سکاوٹس اور سرکاری و غیر سرکاری اداروں کے نمائیندوں نے کثیر تعداد میں شکرکت کی ۔ اس موقعے پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے ادارے کے پرنسپل نے کررہ ارض کو درپیش مسائل پر سنجیدگی سے غور کرنے پر حکومت پا کستان اور خصوصی طور پر محکمہ جنگلات گلگت بلتسان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے یقین دلایا کہ ماحول کو بہتر اور پاکستان کو سر سبز و شاداب بنانے میں آغا خان ہائیر سیکنڈری سکو ل ماحول دوست ادروں کے شانہ بشانہ کام کرنے کا تہیہ کرتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ سکول ہذا میں مختلف کلب اور سوسائٹیاں مصروف عمل ہیں جو طلبہ کو پاکستان کے بہترین شہری بنانے کے ضمن میں اپنا کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ آج کی اس شجر کاری مہم میں ہم اس بات کا اعادہ کرتے ہیں کہ یہ پودے ہمارے طلبا کے ناموں کے ساتھ منسوب ہوں گے اور وہ طلبا ان نونہالوں کی پرورش کا بار گراں اپنے شانوں پر اُٹھائیں گے کیوں کہ یہ سرگرمی ہمارے سیکھنے اور سکھانے کے مخصوص علمی مقاصد میں سے ایک ہے ۔ انہوں نے درختوں کی اہمیت کے حوالے سے سر آٖغا خان کا حوالہ دیتے ہوئے وضاحت کہ کہا جاتا ہے کہ ایک بڑے ادرے کی تعمیر کے موقعے پر نقشے کے اندر جب ایک درخت پایا گیا تو انجنیرز نے اُس درخت کو کاٹنے کا فیصلہ کیا لیکن سر آغا خان نے بجائے درخت کو کاٹنے کے پورے ادارے کا نقشہ از سر نو بنانے کا حکم دیا۔
اس پر وقار تقریب کے اختتام پر اے کے ای ایس پی کے جنرل منیجر بہادر علی نے شجر کاری مہم کے لئے آغا خان ہائیر سیکنڈری کے انتخاب پر حکومت پاکتسان اور خصوصی طور پر سکریٹری جنگلا ت گلگت بلتسان اور محکمے کے تمام عملوں کا شکریہ ادا کیا اور یوں یہ تقریب اپنے اختتام کو پہنچی ۔
akhss gilgit shajar kari mohim2

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستانTagged
13119

ہالینڈ میں گستاخانہ خاکوں کے مقابلے کے خلاف دروش میں زبردست احتجاجی مظاہرہ

دروش(نمائندہ چترال ٹائمز) نیدر لینڈ (ہالینڈ ) میں نبی آخرالزمان ﷺ کے شان اقدس میں گستاخی کے خلاف جمعہ کے روز بعد از نماز جمعہ دروش میں ایک زبردست احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ معروف مذہبی شخصیت قاری جمال عبدالناصر کی قیادت میں ہونے والے اس احتجاجی مظاہرے میں کثیر تعداد میں لوگوں نے شرکت کیں ۔ تفصیلا ت کے مطابق نیدر لینڈ میں پیغمبر اسلام ؐ کے گستاخانہ خاکوں کے مقابلے کے انعقاد کے خلاف مسلمانان عالم کے ساتھ اظہار یک جہتی کے طور دروش میں بھی ایک پر جوش جلسہ منعقد کیاگیا۔ جلسے سے قاری جمال عبدالناصر ، مولانا مشرف خان ، قاضی نذیراللہ ومولانا خان شیرین و دیگر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ رسول اللہ (ﷺ) سے عقیدت اور محبت ایک مسلمان کے لئے ہر شے سے بڑھ کر ہے اور اس میں کوئی رو رعایت برداشت نہیں کی جائیگی۔ انہوں نے کہا مغربی ممالک میں اکثر اس طرح کے توہین آمیز اور اشتعال انگیز واقعات منعقد کراکے نہ صرف مسلمانوں کی دل آزاری کی جاتی ہے بلکہ دنیا کے امن و تہہ و بالا کرنے کی دانستہ کوشش کیجاتی ہے لہذا یہ صرف مسلمانوں کا مسئلہ نہیں بلکہ عالمی سطح پر امن وامان، باہمی تعلقات کیلئے بھی یہ خطرناک ہیں اسلئے اقوام متحدہ کو چاہئے کہ پیغمبر اسلام ؐ اور دیگر انبیاء کرام ؑ کی شان میں گستاخی کے اقدامات کو روکنے کے لئے موثر قانون سازی کرے تاکہ آزادی اظہار رائے کا نام دے برگزیدہ ہستیوں کی توہین کا سلسلہ روکا جا سکے۔انہوں نے کہا کہ گو کہ فی الوقت نیدر لینڈ میں ملعون شخص نے اس مقابلے کو منسوخ کیا ہے مگر مستقبل میں ایسے حرکتوں کی روک تھام کیلئے اقوام متحدہ اور دیگر عالمی تنظیموں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ انہوں نے اس سلسلے میں حکومت پاکستان کی طرف اپنائے گئے موقف اور اقدامات کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ حکومت پاکستان نے اس سلسلے میں مضبوط موقف اپنا یا ہے ۔مقررین نے مطالبہ کیا کہ نیدر لینڈ (ہالینڈ ) سمیت گستاخی میں ملوث دیگر ممالک کے ساتھ ہر قسم کے تعلقات ختم کئے جائیں۔
Drosh Jalsa

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged ,
13098

پیراشوٹ کے ذریعے کسی بھی شخص کو گلگت بلتستان کا گورنر بننے نہیں دیں گے ۔

Posted on

گلگت ( چترال ٹائمز رپورٹ )اُمیدوار قانون ساز اسمبلی گلگت بلتستان ضلع غذر حلقہ نمبر1، سینئر وائس پریذیڈنٹ پاکستان تحریک انصاف ضلع غذر سید صداقت علی شاہ نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ افضل شگری (سابق آئی جی سندھ) کو گورنر نہیں بنارہے ہیں بلکہ تعلقات کی بنیاد پر میڈیامیں اپنا نام خود چلار ہے ہیں جس کی ہم بھرپور مذمت کرتے ہیں۔ گورنر گلگت بلتستان کا انتخاب پارٹی کے سینئر رہنماؤں سے باہمی مشاورت کے بعد ہی کردی جائے گی اگر خدانخواستہ پیراشوٹ کے ذریعے کسی شخص کو گورنر بنایا گیا تو احتجا ج ہی نہیں بلکہ دھرنا بھی دیں گے ۔ ” ن” لیگ کی حکومت میں ہم نے 126 دن رات اسلام آباد ڈی چوک میں دھرنا دی ، آنسو گیس اور شیلنگ کا سامنا کرکے بہت کچھ سیکھ چکے ہیں۔ گلگت میں الیکٹرانک میڈیاکی رسائی نہیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ گورنر گلگت بلتستان کے لیے ایک ایسے شخص کا نام لیا جارہا ہے جس کو پی ٹی آئی کے ورکر تو دور کی بات عوام گلگت بلتستان بھی صحیح طرح نہیں جانتے ہیں ۔ میڈیا میں ایسے شخص کانام دیکر کارکنان کی پریشانی بڑھ گئی ہے ہم وزیر اعظم عمران خان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ گلگت بلتستان میں پارٹی کے لیے کام کرنے والے کسی بھی شخص کو گورنر بنایا جائے ہم تسلیم کریں گے ۔ پارٹی کے اندر بہت سارے سینئر کارکنان اورگورنر شپ کے لیے اہل قیادت موجود ہیں جن کے انتخاب سے نہ صرف پی ٹی آئی کارکنان بلکہ عوام گلگت بلتستان کے حوصلے بھی بلند ہوں گے۔ اُنہوں نے مذید کہا کہ پی ٹی آئی کارکنان گلگت بلتستان اور عوام کی خواہش ہے کہ جلد از جلد گورنر شپ کا انتخاب کرکے نیا گلگت بلتستان کا آغاز کیا جائے ۔ آئینی حقوق سے محروم عوام کی عمران خان سے بڑی اُمیدیں وابستہ ہیں ۔ انشااللہ قابل اور اہلیت کے حامل گورنر شپ کی تعیناتی گلگت بلتستان میں تبدیلی کی پہلی کرن ثابت ہوگی ۔

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستانTagged
13031

کلچرل ونگ گلگت بلتستان کے کابینہ کی تشکیل نو، سینئر صحافی و شاعر شراف الدین فریاد صدر منتخب

Posted on

گلگت ( چترال ٹائمز رپورٹ ) وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمٰن کی خصوصی ہدایت پر ڈپٹی سپیکر گلگت بلتستان اسمبلی جعفر اللہ خان نے پاکستان مسلم لیگ “ن” کلچرل ونگ گلگت بلتستان کی کابینہ تشکیل دے دیا ہے ۔ پیر کے روز جعفراللہ خان جو کہ پاکستان مسلم لیگ “ن” گلگت بلتستان کے ڈپٹی سکریٹری جنرل بھی ہیں کی صدارت میں فنکاروں کا ایک اہم اجلاس ہوا جس میں تمام فنکاروں کی باہمی مشاور ت سے سینئر صحافی و شاعر شراف الدین فریاد ؔ کو مذکورہ کلچرل ونگ کا صدر جبکہ صدیق مغل کو سکریٹری جنرل منتخب کرلیا گیا ۔ اس کے علاوہ معراج عالم معراج کو سینئر نائب صدر ، اویس شہزل ؔ نائب صدر اول ، ذوالفقار علی فوجی نائب صدر دوئم اور راشد اقبال راشدؔ کو پروگرام آرگنائزر منتخب کرلیا گیا ہے جبکہ طارق اعظم ڈپٹی جنرل سکریٹری ، فیاض الرحمٰن فلکؔ سکریٹری مالیات ، داود احمد داودی ؔ آفس سکریٹری اور شفیق الرحمٰن ساؤنڈ آپریٹر چن لیے گئے ہیں ۔ گلگت بلتستان کے تمام آرٹس کونسلوں کے سینئر شعرا و فنکاروں پر مشتمل 14 رکنی مشاورتی کونسل کا قیام بھی عمل میں لایا گیا جس کے مطابق شاہ زمان شاہ ، سردار حسین جمالیؔ ، غلام نبی ہمرازؔ ، اقبال حسین اقبال ؔ ، رحمٰن شاہ ساغرؔ ، آصف علی ، مجید احمد ، محمد عدنان ناز ، جہانگیر عالم بدرؔ ، اختر حسین راجہ ، سجاد الرحمٰن سجادؔ ، ابراہیم مخلص ؔ ، مبارک علی ساون ؔ اور جہانگیر شاکرؔ مذکورہ کلچرل ونگ کے مشاورتی کونسل کے ممبران ہوں گے ۔ اس موقع پر اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ڈپٹی سپیکر جعفر اللہ خان نے کہا کہ زبان اور ثقافت کسی بھی قوم کی پہچان ہوتی ہے اور جو قومیں اپنی زبان اور ثقافت کی قدر نہیں کرتے ان کاشمار مردہ قوموں میں ہوتا ہے ۔ گلگت بلتستان میں پی ایم ایل”ن” کلچرل ونگ کا قیام عمل میں آنا نیک شگون ہے۔ اب انشااللہ فنکاروں میں پائی جانے والی برسوں کی احساس محرومی دورہوگی اور گلگت بلتستان کی حکومت انہیں مکمل سپورٹ فراہم کرے گی ۔ اُنہوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمٰن نے وعدہ کیا ہے کہ مقامی فنکاروں کے مسائل کے ازالے کے لیے سنجیدہ اقدامات اُٹھائے جائیں گے ۔ اور فنکاروں کا دیرینہ مطالبہ ” کلچرل آڈیٹوریم ” بہت جلد فنکاروں کے سپرد کیا جائے گا اور فنکاروں کی معیاری ریکارڈنگ کے لیے قومی اسٹوڈیو بھی بنایا جائے گا جس کے لیے مذکورہ کلچرل ونگ کی ایگزیکٹیو ٹیم تیار کریں ۔ جعفراللہ خان نے مذید کہا کہ نلتر کے مقام پر سیاحت کے فروغ کے حوالے سے ثقافتی پروگرام بھی منعقدہوگا جس میں کلچرل ونگ کی نومنتخب کابینہ سے وزیراعلیٰ حلف بھی لیں گے ۔ اس کے لیے وہ پروگرام اپنے اسلام آباد دورے سے واپسی پر دیں گے ، اُنہوں نے تمام نومنتخب عہدیداروں او رمشاورتی کونسل کے ممبران کو مبارک باد بھی پیش کی اور کہا کہ اُمید ہے کہ نومنتخب عہدیداران پارٹی قیادت کی اُمیدوں پر پورا اُتریں گے ۔

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستانTagged
13008

انجمن ترقی کھوار کے زیر اہتمام محمد چنگیزخان طریقی ؔ مرحوم کے کھوار مجموعہ کلام کی تقریب رونمائی

Posted on

چترال(نمائندہ چترال ٹائمز)انجمن ترقی کھوار چترال کے زیر اہتمام سب دویژن مستوج کے انقلابی شاعرمحمدچنگیزخان طریقی ؔ مرحوم کے کھوار مجموعہ کلام ’’بلائیدوگمبوری‘‘ کی تقریب رونمائی ضلع کونسل ہال میں منعقد ہوئی جس میں مہمان خصوصی ایڈیشنل ڈپٹی کمشنرچترال منہاس الدین صدرمحفل ممتازماہرتعلیم سابق ای ڈی او مکرم شاہ تھے۔اقرارالدین خسرو،محمدذکرزخمی،مولانگاہ نگاہ،ہیڈماسٹرامان اللہ،ممتازشاعرادیب محمدعرفان عرفان،سابق صدرانجمن ترقی کہوارحلقہ پشاورسیداحمدسید،عنایت اللہ اسیر،حمیداللہ اوردیگرنے مرحوم شاعرمحمدچنگیزخان طریقی کے انقلابی شاعری تھے انہوں نے خوبصورت ادبی تخلیقات اپنے قلم کی زینت بناتے ہوئے کھوار ادب کے فروغ کے لئے ہر ممکن کوشش کی ہے۔ مجموعہ کلام میں حمد، نعت ، صوفیانہ کلام ، اصلاحی نظمیں اور غزلیات شامل ہیں ۔مہمان خصوصی ایڈیشنل ڈپٹی کمشنرچترال منہاس الدین اورصدرمحفل مکرم شاہ نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ چنگیرخان طریقی مرحوم اپنے اندازِ فکر میں کہیں معاشرے سے نالاں اور کہیں فرسودہ روایات پر تنقید کرتے نظر آتے ہیں اور بحیثیت مجموعی اِ ن کا مزاج اصلاحی اور اِن کی سوچ بدلتے زمانے سے ہم آہنگ ہے۔ انہوں نے جدید موضوعات کو بڑی خوبصورتی سے پیش کیا ہے اور اس انداز کو برتنے میں ان کے پاس تشبیہات اور استعاروں کی کوئی کمی محسوس نہیں ہوتی۔ اِن کے مصرعے جدید رنگ کے مطابق فضا قائم کرتے ہیں۔طریقی مرحوم نے اپنی شاعری میں سادہ باتیں بیان کرتے ہیں الفاظ کی تراش خراش کے ساتھ ساتھ ردیف و قافیوں کو ہم آہنگی سے سمونے کا ہنر ان کو یکتا کرتا ہے۔انہوں نے کہاکہ چنگیزخان طریقی مرحوم کاپہلا شعری مجموعہ ہے جس میں عشق حقیقی و مجازی کو موضوع بنایا گیا ہے اس کتاب کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ اس میں الفاظ کا چناؤ بہت ہی سادہ اور آسان ہے جو پڑھنے والوں کو اپنی جانب متوجہ کرلیتا ہے۔انجمن ترقی کھوار کے مرکزی صدر شہزادہ تنویر الملک نے کتاب اور صاحبِ کتاب کا تعارف کراتے ہوئے اکیڈیمی ادبیات پاکستان کا شکریہ ادا کیا جس کی مالی تعاون سے ادبی کتابوں کی اشاعت ممکن ہوئی ہے۔انہوں نے کہاکہ مرکزی انجمن ترقی کہوارضلع چترال نے اپنے محدود وسائل کے اندر رہتے ہوئے جنوری 2018سے اب تک چارشعری مجموعہ اورکھوارافسانہ چھپائی کرکے منظرعام پرلائی ہے اورکئی مجموعوں پرکام جاری ہے اور عنقریب اُن کوبھی منظرعام پرلایاجائے گا۔اس موقع پر انجمن ترقی کہوارحلقہ ریشن کے صدرمحمداسلم شیروانی اشورژانگ اور نوجوان فنکار انصار الٰہی نعمانی نے شہزادہ عزیزالرحمن بیغش کی ایک غزل کو مخصوص دھن میں پیش کر کے حاضریں سے داد حاصل کی۔

Anjuman taraqia khowar chitral tanveerul mulk
Anjuman taraqia khowar chitral 10

Anjuman taraqia khowar chitral zakir zakhmi

Anjuman taraqia khowar chitral 13

Anjuman taraqia khowar chitral said ahmad
Anjuman taraqia khowar chitral Mola nigah

Anjuman taraqia khowar chitral irfan

Anjuman taraqia khowar chitral 7

Anjuman taraqia khowar chitral 9

Anjuman taraqia khowar chitral inayatullah aseer

Anjuman taraqia khowar chitral 4

Anjuman taraqia khowar chitral 8

 

Posted in تازہ ترین, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
12881 12875

نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی خودکشی کے واقعات، سول سوسائٹی کو متحرک کرنا ہوگا…مقرریں

Posted on

چترال ( نمائندہ چترال ٹائمز ) چترال کے نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی خودکشی کے واقعات کے بارے میں چترال پریس کلب کے زیر اہتمام ‘مہراکہ’ پروگرام میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ ان اندوہناک واقعات کی موثر تدارک کے لئے سول سوسائٹی کو متحرک اور فعال بنانے اور اس سے پہلے مکمل اگہی پھیلانے اور اس انتہائی قدم کے پیچھے ان محرکات کو سامنے لانے کی ضرورت ہے جوآخر کار اس کا سبب بنتے ہیں۔ چترال یونیورسٹی کے پراجیکٹ ڈائرکٹر پروفیسر ڈاکٹر بادشاہ منیر بخاری، آغا خان ایجوکیشن سروس پاکستان کے جنرل منیجر بریگیڈیر (ریٹائرڈ ) خوش محمد خان اور اسی ادارے کے اکیڈیمک کاونسلر جلال الدین شامل نے اپنے مقالہ جات میں چترال کے حوالے سے خودکشی کے سوشل اور نفسیاتی پہلوؤں پر روشنی ڈالی اور ممکنہ تجاویز بھی پیش کئے ۔ پروفیسر ڈاکٹر بادشاہ منیر بخاری نے کہاکہ معیشت ، سوشل اسٹیٹس یا عزت نفس اور ذہنی ڈپریشن خود کشی کے تین بنیادی وجوہات ہیں جبکہ چترال میں رونما ہونے والی خودکشیوں کی اکثریت کی وجہ ذہنی ڈپریشن ہی ہے اوراس کے پیچھے کئی محرکات کارفرما ہیں جن میں معاشرے کے تمام افراد کو اپنے اپنے حصے کی کردار ادا نہ کرنا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ ماہرین بشریات (anthropologist)کے مطابق معاشرے میں موجود اور رائج روایات سے ہٹ جانے کے نتیجے میں بہت ذیادہ اور سنگین قسم کی برائیاں جنم لیتی ہیں اور یہی حال چترال میں ہے جہاں مستحکم روایات اپنی جگہ سے ہٹ رہے ہیں اور آنے والی تبدیلیوں کے ساتھ معاشرے کو ہم آہنگ (synchronize)نہ ہونے کی وجہ سے پیچیدہ مسائل جنم لے رہی ہیں۔ پروفیسر بخاری نے کہاکہ سکولوں اور کالجوں میں زیر تعلیم طلباء وطالبات کی مستقل اور مربوط بنیادوں پر کونسلنگ کا نظام موجود نہیں اور انہیں معاشرے ہم آہنگ بننے میں کوئی ان پٹ نہیں ملتی اور سب سے قابل افسوس بات یہ ہے کہ والدیں اور بچوں میں ایک خلا پیدا ہوگئی ہے اور بچوں کو ضرورت کے مطابق وقت نہیں ملتی جس کے نتیجے میں وہ تنہائی پسند ہوجاتے ہیں جو انہیں منفی ذہنیت کے دلدل میں پہنچادیتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ خودکشی کا فیصلہ اچانک انسان کے ذہن میں نہیں آتا بلکہ یہ ایک طویل المدت عمل ہے جس میں متاثرہ شخص کے ذہن میں منفی رجحانات جنم لیتی ہیں اور اس انجام کو پہنچاتے ہیں اور چترال میں نئی اور پرانی نسل کے درمیاں پیدا ہونے والی خلا نے اس منفی سوچ کا بیج کئی سال پہلے بودیا تھااور اب بھی وقت ہے کہ اس کے پودے کو ہم جڑوں سے اکھاڑ پھینک دیں۔ انہوں نے کہاکہ چترال میں پسند کے خلاف شادی کے لئے بچوں اور بچیوں کو مجبور کرنا بھی اسی زمرے میں آتا ہے اور کئی ایک نے سمجھوتہ کرنے کی بجائے اپنی زندگی کا ہی خاتمہ کربیٹھے۔ چترال کے حوالے سے انہوں نے مزید کہاکہ معاشرے میں ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی قوت میں کمی اور افواہ سازی کا بازار گرم کرنااور سوشل میڈیا میں بے سروپا باتوں کا چرچا کرنا بھی منفی رجحانات کو جنم دیتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ نمک کے ذیادہ استعمال نے نروس سسٹم کو متاثر کرتی ہے اور چترال میں یہ مسئلہ موجود ہے جہاں نمک کا ضرورت سے ذیادہ استعمال جاری ہے اور اس طرح ہیموگلوبین کی مطلوبہ لیول سے کم پائے جانا بھی طبی وجوہات میں سے ایک وجہ ہے۔ جلال الدین شامل نے اپنے مقالے میں نفسیاتی پہلوؤں کا احاطہ کرتے ہوئے کہاکہ جذباتی مسائل کو خودکشیوں کا سب سے بڑا محرک قرار دیا اور کہاکہ وقوعہ کے وقت حالات وواقعات دراصل triggerکا کام دیتے ہیں جبکہ اس منفی سوچ کا عمل بہت پہلے پیدا ہوا تھا اور یہ نفسیاتی پہلو کو معاشرتی پہلو سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے کہاکہ ڈپریشن کی سب سے بڑی وجہ مایوسی کی اندونی کیفیت ہے جوکہ دماغ پہ چھاجاتی ہے۔ انہوں نے نوجوانوں میں اس منفی رجحان کو کم کرنے کے سلسلے میں رات کو وقت پہ سونے ، صبح باقاعدہ ورزش کرنے، متوازن عذا کے استعمال اور معاشرے میں افراد کے درمیان بہتر تعلق قائم رکھنے کو ضروری قرار دیا جن سے ڈپریشن پر قابوپایاجاسکے گا۔ درسگاہوں کے کردار کے حوالے سے ان کا کہنا تھاکہ سوچ کی تبدیلی میں دنیا کو نئی زاوئیے سے دیکھنے کے قابل بنانے ، معاشرے میں صرف چند ایک پیشوں کو قابل عزت قرار دینے سے گریز کرنے پر زور دیا کیونکہ جب ایک بچہ کسی خاص پیشے کی طرف میلان رکھنے کے باوجود اسے اختیار نہ کرنے پر ڈپریشن میں مبتلا ہوجاتا ہے اور والدین کا بچوں کے ساتھ بے جا توقعات وابستہ کرنے کو بھی ڈپریشن کا ذمہ دار دیا جبکہ گھر کے اندر والدین کا بچوں کے ساتھ روایتی اندازمیں سلوک کی بجائے اور دوستانہ انداز اختیار کرنے پر زور دیا۔ جلال الدین شامل نے زور دے کرکہاکہ اسلامی اقدار کے بار ے میں درس دینے کے ساتھ روحانی روشنی کی تلاش کے لئے اسلامی تصوف سے بھی بچوں کوروشناس کرانے پر بھی زور دیا۔ انہوں نے سکولوں میں ٹائم منیجمنٹ کے ساتھ ساتھemotion/behaviourمنیجمنٹ کی تربیت پر زور دیا۔ بریگیڈیر (ریٹائرڈ ) خوش محمد خان نے مقالہ جات اور حاضرین کے طرف سے پیش کردہ تجاویز کی تلخیص پیش کرتے ہوئے کہاکہ اسلام میں خودکشی کو حرام اور گناہ کبیرہ قرار دیا گیا ہے اوراسے امانت میں خیانت کہا گیا ہے کیونکہ یہ زندگی ایک عظیم الشان ذات کی طرف سے امانت ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ایک خاص ذہنی کیفیت اس کا ذمہ دار ہے جوکہ ڈپریشن کو جنم دے کر خود کشی کی طرف لے جاتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق خودکشی کے رجحان کی تدارک عین ممکن ہے کیونکہ جن ممالک میں کوششیں ہوئیں ، وہاں اس کے تعداد میں نمایان کمی لائی گئی اور منظم کوششوں کے بہتر نتائج برامد ہوئے۔ انہوں نے کہاکہ چترال کے تناظر میں اسلامی تعلیمات پر اس کے اصل روح کے مطابق عمل ہوں تونوجوانوں کی جدیدیت کو integrateکرنے میں مدد ملے گی اور مادیت پرستی کی بیخ کنی ہوگی جوکہ امتحانات میں نمبروں کی کمی ، عشق ومحبت میں ناکامی، کسی خاص پیشے سے وابستگی میں ناکامی سب مادیت پرستی کی مختلف صورتیں ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ ماڈرن ٹیکنالوجی کے غیر دانشمندانہ استعمال سے معاشرتی ٹوٹ پھوٹ کا عمل شروع ہوگیا ہے اور ٹی۔ وی کے غیر حقیقی ڈرامے اور موبائل فونز معاشرے میں بے راہ روی پھیلا نے کا موجب بنتے ہیں۔ انہوں نے خاندانی نظام کے احیاء کی ضرورت پر زور دیا جس کے کمزور پڑنے سے منفی رحجانات کا بند ٹوٹ جاتا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ چترال میں خودکشی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے وجوہات کا کھوج لگانا کسی عام ریسرچ کے اسکوپ سے باہر ہے جس کے ایکسپرٹ گروپ کی ضرورت ہے جس میں ہر شعبے کے ماہریں شامل ہوں جوکہ علماء کرام، سوشل ورکر، اساتذہ، وکیل، صحافی اور دوسرے شامل ہیں۔ اس سے قبل شیر عظیم(مداک لشٹ ) ، محکم الدین (صحافی)، جہانگیر جگر (صحافی)، عنایت اللہ اسیر (ایون)، پروفیسر شفیق احمد اور پروفیسر فدا (گورنمنٹ کالج چترال ) نے تجاویز پیش کی اور چترال میں دارلامان کے قیام، قانونی مدد کی فراہمی، معاشرے میں بچیوں کو بچوں کے برابر عزت اور مقام دینے، موبائل فون کے بے جا استعمال، امتحانات میں نقل کا موثر روک تھام ، والدین کا بچوں کو ذیادہ سے ذیادہ توجہ دینے اور پولیس کی طرف سے خود کشی کے ہر کے ایک واقعے کی مکمل انکوائری کی تجاویز پیش کی۔ اس موقع پر چترال پریس کلب کے صدر ظہیر الدین نے تمام مقالہ نگاروں سمیت شرکاء کاشکریہ ادا کیا۔ انہوں نے ڈاکٹر بادشاہ منیر بخاری کی طرف سے پیش کردہ ایک تجویز سے اتفاق کرتے ہوئے کہاکہ عیدالاضحٰی کے بعد خودکشی کے بارے میں ہفتہ آگہی منائی جائے گی جس میں پریس کلب دوسرے تمام اداروں بشمول چترال یونیورسٹی کی مدد اور معاونت حاصل کی جائے گی۔

chitral press club program on suicide22
chitral press club program on suicide2

 

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
12856

مبارک ہو! اہالیانِ دیامر کا ترقی کی جانب پہلا قدم……. فکرونظر: عبدالکریم کریمی

Posted on

سب سے پہلے میں دیامر جرگہ کے اکابرین، محبِ وطن اہالیانِ دیامر اور وہاں کے روشن خیال علمائے دین کو ہدیہ تبریک پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے اسلحہ اور دہشت گردوں سے پاک دیامر کے سفر کا آغاز کرکے کئی دہشت گردوں کو خود پکڑ کے جس طرح حکومت کے حوالے کر دیا ہے۔ وہ جہاں انتہائی قابلِ تحسین و صد آفرین اقدام ہے تو وہاں یقیناً یہ اقدام اس امر کی طرف بھی اشارہ ہے کہ اب دیامر کو ترقی کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ ترقی کی جانب یہ پہلا قدم بارش کے پہلے قطرے کی طرح اس علاقے کو علمی طور پر سیراب کرے گا۔ انشااللہ العزیز۔
دیامر سے قلبی لگاؤ کو ایک عرصہ ہو رہا ہے۔ یہ پندرہ سولہ سال پہلے کی بات ہے جب میں ’’بادشمال‘‘ اور روزنامہ ’’پاکستان‘‘ میں مستقل لکھا کرتا تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے پبلک سکول چلاس سے مہتاب نام کے ایک طالب علم نے مجھے فون کرکے اپنے سکول میں سائنس ٹیچر کی کمی کا اظہار کیا تھا۔ جس پر میں نے نو نومبر دوہزار نو کے ’’بادشمال‘‘ میں تفصیلی کالم لکھا تھا۔ پھر اس کے چند دن بعد ہی چلاس کے ایک گورنمنٹ سکول سے طالب علم عمر نے کال کرکے تعلیمی پسماندگی کا رونا رویا تھا۔ جس پر ’’چلاس سے ایک اور ٹیلی فونک پیغام‘‘ کے عنوان سے بائیس نومبر دوہزار نو کو ’’بادشمال‘‘ میں ہی میرا دوسرا کالم چھپا تھا۔ یہ دونوں مضامیں میری نئی کتاب ’’سسکیاں‘‘ میں چھپے بھی ہیں۔ یہی میرا چلاس سے پہلا غائبانہ تعارف تھا۔ مجھے حیرت ہو رہی تھی جس خطے کو لوگ پسماندہ سمجھ رہے ہیں یا تعلیمی لحاظ سے پیچھے سمجھ رہے ہیں وہاں کی نئی پود کتنی ذمہ داری سے اپنے تعلیمی عمل میں آگے بڑھ رہی ہے۔
پھر مختلف ادبی و علمی کانفرنسز میں وہاں کی علمی شخصیات سے ملاقات اور دوستی، اور خصوصاً ان کا اخلاق میرے لیے قابلِ دید ہی نہیں قابلِ تقلید بھی تھا۔ یہی وجہ ہے کہ میری پہلی کتاب ’’شاید پھر نہ ملیں ہم‘‘ کا فلیپ چلاس کے میرے محترم دوست جناب عنایت اللہ شمالی نے لکھا تھا۔ ان کا سیاسی مرتبہ اپنی جگہ لیکن موصوف علمی و ادبی کاوشوں کے حوالے سے بھی اپنا ایک مقام رکھتے ہیں۔ پھر چلاس سے ادبی رشتہ ایسا جڑا کہ کبھی نہیں ٹوٹا۔ میں جب بھی چلاس کے بارے میں سوچتا ہوں میرے ذہن میں عنایت اللہ شمالی، امیر جان حقانی، حلیم فیاضی، مجیب الرحمن، عزیزم شاہد اقبال اور کئی دیگر دوستوں کا خاکہ آتا ہے۔ ان کی دوستی کی اس سے بڑی مثال اور کیا دی جاسکتی ہے کہ کئی سال پہلے ہزاروں میل دور چلاس سے عنایت اللہ شمالی صاحب اپنی ہزار مصروفیات چھوڑ کے میری شادی میں شرکت کرنے غذر کے دور افتادہ گاؤں بارجنگل پہنچے تھے۔ یہ ان کی محبت تھی ورنہ من آنم کہ من دانم!
پچھلے سال مجھے فلائیٹ نہ ملنے کی وجہ سے اپنی فیملی اور بچوں کے ساتھ اسلام آباد سے رینٹ کار میں گلگت کی طرف نکلنا پڑا تو یقین کیجئیے چلاس سے عزیزم شاہد اقبال اور کئی دیگر دوستوں نے کئی دفعہ فون کرکے پوچھا تھا ’’سر! آپ کہاں تک آئے ہیں اور کب چلاس پہنچیں گے۔ کھانا ہمارے ساتھ کھا کے جائے یا ہمارے گھر میں رہ کر صبح سفر جاری رکھے۔‘‘ وہ تو ہم اسلام آباد سے دیر سے نکلے تھے اس لیے رات کے اندھیروں میں چلاس سے گزر گئے ورنہ شاہد اقبال اور دیگر دوستوں کے خلوص اور چلاس کی روایتی شاندار مہمان نوازی سے لطف اٹھاتے۔ شاہد اقبال اور ان دوستوں کی یہ محبت اور ان کا یہ خلوص بتا رہا تھا کہ چلاس والے کس حد تک مہمان نواز اور انسانی ہمدردی رکھنے والے لوگ ہیں۔
پھر دوہزار گیارہ بارہ میں جب حالات خراب ہوئے۔ کچھ شر پسندوں نے اس کا غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے دیامر کی سرزمین کو خوب بدنام کیا۔ نہ جانے ان مٹھی بھر دہشت گردوں کا مقصد کیا تھا۔ گزشتہ دنوں ایک دفعہ پھر دہشت گرد منظر عام پہ آئے اور لڑکیوں کے کئی سکول جلائے۔ دیامر ایک دفعہ پھر طنز و ملامت کے گیرے میں آیا۔ پھر پولیس اور فوجی آپریشن ہوا۔ جوکہ تا حال جاری ہے۔ جس پر میرے بعض دوست نالاں ہیں ان کا کہنا ہے کہ دیامر کو سوات بنایا جا رہا ہے۔
اس حوالے سے جہاں ہمارے دوست محمد الکوہستانی پریشان ہیں وہاں امیر جان حقانی اور حلیم فیاضی بھی آپریشن سے خوش نہیں۔ تینوں کا تعلق اسی سرزمین سے ہے۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ محمد الکوہستانی (مفتی نذیر) کو دعویٰ ہے کہ اس کی جنم بھومی غذر ہے اور غذر میں خودکشیوں کے حوالے سے موصوف کا دل جلتا بھی ہے۔ لیکن یہ بات ہم کیسے مانے وہ کوہستانی ہی ٹھیک ہیں۔ اپنے نام کے ساتھ کوہستانی لکھ کے غذر کے بارے میں رونا اور یہ دعویٰ کرنا کہ غذر سے ان کا تعلق ہے کم سے کم میرے لیے حیرت کی بات ہے۔ آخر یہ کیوں ضروری ہے کہ ہم اپنے نام کے ساتھ اپنے علاقے کا نام لکھیں۔ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ علاقے سے ہماری پہچان نہ ہو بلکہ ہم کچھ ایسا کر گزرے کہ ہم سے ہمارے علاقے کی پہچان ہو۔ ہاں پھر بھی اگر نام کے ساتھ علاقے کا نام لکھنا ضروری ہے تو ہمیں انتظار رہے گا جس دن مفتی صاحب اپنے نام کے ساتھ محمد الکوہستانی کی جگہ محمد الغذری لکھیں گے اس دن ہمیں یقین ہوگا کہ موصوف کو واقعی اپنے علاقے کے بارے میں فکر ہے۔ فی الحال کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ مفتی صاحب بڑے ہوشیار اور لفظوں سے کھیلنے والے آدمی ہیں وہ ضرور اس کے جواب میں یہ کہیں گے کہ ان کے آباؤاجداد کوہستان سے تعلق رکھتے تھے اس لیے وہ ایسا لکھتے ہیں۔ ایسا ہے تو جناب مجھے اپنے نام کے ساتھ ایرانی یا شیرازی لکھنا چاہئیے کہ میرا پردادا شیخ سعدیؒ شیزاری ایران سے تعلق رکھتے تھے۔ بات پرداد یا آباؤ اجداد کی نہیں بات آپ کی ہے کہ آپ کہاں پیدا ہوئے اور کس زمین سے رزق کھا رہے ہیں۔ بس اتنی سی بات سمجھنے کی ہے۔ امید ہے ہمارے مفتی دوست اس پہ فتویٰ دینے سے پہلے ایک لمحے کے لیے سوچے گا ضرور۔ خیر بات ہو رہی تھی کہ تینوں فرزندانِ دیامر کا کہ یہ آپریشن سے کیوں خوش نہیں ہیں؟
حقانی صاحب نے تو حد کردی۔ انہوں نے یہ سارا الزام آغا خان فاؤنڈیشن پر ڈالا کہ ان کی بے رخی کی وجہ سے دیامر میں پسماندگی ہے۔ میں نے ان کے پوسٹ پہ یہی کمنٹ کیا تھا کہ تبدیلی ہمیشہ اندر سے آتی ہے باہر سے نہیں۔ جس علاقے میں گورنمنٹ سکولوں کی بقا خطرے میں ہو وہاں آغا خان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک کے سکولوں کو کیسے برداشت کیا جائے گا۔ آغا خان فاؤنڈیشن کو چند دہشت گرد وہاں یہودیوں کے ایجنٹ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ انیس سو اسی میں آغا خان رورل سپورٹ پروگرام کے جنرل منیجر شعیب سلطان (جو بزات خود اہلِ سنت تھے) نے چلاس میں کام شروع کیا تو اس کے ردِ عمل میں چلاس میں کچھ شر پسندوں نے اسماعیلی مسلمانوں کا جماعت خانہ جلایا۔ ہمیں پتہ ہے شر پسندوں کی تعداد مٹھی بھر ہے۔ اہالیانِ دیامر کی بڑی تعداد پرامن اور علم دوست ہے۔ لیکن ان سے گلہ ضرور ہے کہ اتنے اچھے لوگ ان مٹھی بھر شرپسندوں کو سنھبال نہیں سکے۔ کاش! وہ اس وقت آغا خان فاؤنڈیشن کا ساتھ دیتے تو اس وقت دیامر کا نقشہ کچھ اور ہوتا۔ تبدیلی ہمیشہ اندر سے ہوتی ہے باہر سے نہیں۔ کسی نے بڑے پتے کی بات کی ہے:
“If an egg is broken by an outside force, life ends. If broken by an inside force, life begins. Great things always begin from the inside.”
اس لیے پہلے وہاں کے لوگوں کو خود تبدیلی کی طرف قدم بڑھانا ہوگا۔ ورنہ باہر سے کچھ نہیں ہوگا۔ تبدیلی مثبت رویے سے آتی ہے تعلیمی ایمرجنسی سے نہیں آتی۔ لہذا گزارش یہ ہے کہ وہاں پہلے اسلامی تعلیمات کا فروغ ہو، مٹھی بھر دہشت گردوں کا صفایا ہو، اسلحہ سے پاک دیامر کے لیے ہر سطح پر کوششیں کی جائیں، اچھے علمائے دین کی خدمات حاصل کی جائے، تبدیلی شعور سے آتی ہے سکول سے یا تعلیمی ایمرجنسی سے نہیں اور شعور دینا علمائے دین کا کام ہے۔
مفتی صاحب کا کہنا تھا کہ یہ ایک عالمی سازش ہے۔ میری سمجھ میں یہ تو آتا ہے کہ سکول جلانے اور لوگوں کو بسوں سے اتار کر تہ تیغ کرنے میں تو عالمی سازش ہوسکتی ہے اور یہ گریٹ گیم کا حصہ ہوسکتا ہے اس سے کس کم بخت کو انکار ہے۔ لیکن نالوں سے مویشیاں چرانے، غریب لوگوں کی بیٹیاں اغوا کرنے میں بھلا عالمی سازش کیونکر ہوسکتی ہے۔ دوستو! کچھ چیزوں میں ہمیں علاقائیت اور مذہب سے باہر نکل کر سوچنا ہوگا۔ یہ بات ہم سب کو سمجھنا چاہئیے کہ چور، ڈاکو، قاتل اور دہشت گردوں کا کوئی علاقہ نہیں ہوتا، ان کا کوئی مذہب نہیں ہوتا وہ کوڑیوں کے دام بک جاتے ہیں۔ پھر ایسے لوگوں کے خلاف آپریشن کے حوالے سے یہ احباب پریشان کیوں ہیں۔ کیا یہ ان دہشت گردوں کو اپنا سمجھتے ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔ ایسے لوگ صرف دیامر میں نہیں، کم یا زیادہ تعداد میں ہر جگہ موجود ہوتے ہیں۔ ایسے میں کسی بھی خطے سے ان کا صفایا وہاں کے عوام اور عمائدین کی اہم ذمہ داری بنتی ہے۔ جوکہ دیامر جرگہ کے اکابریں اور وہاں کے سنجیدہ لوگوں نے کرکے دکھایا ہے۔ جس کے لیے یقیناً وہ ہمارے مبارک باد کے مستحق ہیں۔
باقی اس مشکل وقت میں دیامر کے ساتھ ہم سب کا دل جلتا ہے۔ کون کم بخت ہوگا جو اس مشکل وقت میں بھی دیامر پہ طنز کرتا ہو۔ لیکن پہلی بات آپ تبدیلی چاہتے ہیں اور واقعی آپ کا دل چاہتا ہے کہ دیامر ترقی کرے تو بخدا سیکیورٹی اداروں کا ساتھ دے۔ علاقے کو اسحلہ سے پاک کرنے میں مزید تعاون کریں، اپنے بچوں اور بچیوں کے ہاتھوں سے پستول اٹھاکر قلم اور کاغذ تھمائے کہ آج کے زمانے کا سب سے بڑا ہتھیار یہی قلم کاغذ ہی تو ہے اور ہاں ایک لڑکے کی تعلیم فردِ واحد کی تعلیم ہے جبکہ ایک لڑکی کی تعلیم ایک خاندان اور پورے معاشرے کی تعلیم ہوتی ہے اس لیے دخترانِ دیامر کو تعلیم دینے میں اپنا کردار ادا کرے، اسلحہ سے پاک دیامر کی تعمیر میں اپنا حصہ ڈالے اور اس کام میں ہم آپ سب کو حکومت کا ساتھ دینا ہوگا اور جس دن دیامر اسحلہ سے پاک ہوگا وہ دن دیامر کی زوال کا آخری اور ترقی کا پہلا دن ہوگا۔ یہ کام کافی مشکل ہے وہاں کے بعض یخ بستہ دلوں کو پگھلانا اور تلخ لہجوں کو نرمی میں بدلنا آسان نہیں۔ جس کی ایک جھلک میرے دوست شمالی صاحب نے اپنے ان اشعار میں بھی کیا ہے؎
دیامر گرچہ خوں آشام ہے تندخو بھی ہے
دامنِ پربت کے دامن میں مگر خوشبو بھی ہے
تلخ لہجوں کی زمیں پر دوستو! بس خال خال
مضطرب کچھ دل ہیں جن میں مصلحانہ خو بھی ہے
یہ بات تو سچ ہے کہ تلخ لہجوں کی زمین پر یہ مضطرب دل خال خال ہی سہی لیکن وہاں کی تقدیر بدلنے میں یہی لوگ اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اللہ پاک ہمارے جنت نظر خطے کو ارضی سماوی آفات سے محفوظ رکھے اور ہم سب کا حامی و ناصر ہوں۔ آمین!
’’این دُعا از من و از جملہ جہاں آمین باد‘‘
chilas river diamir

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
12841

عید الاضحیٰ کے سلسلے میں 21سے 23اگست تک عام تعطیل ہوگی..وزارت داخلہ

Posted on

اسلام آباد(چترال ٹائمز رپورٹ) وزارت داخلہ اسلام آباد کی طرف سے جاری ایک پریس ریلیز کے عید الاضحیٰ کے سلسلے میں 21اگست سے
23اگست 2018 (منگل سے جمعرات) تک عام تعطیل ہوگی . تمام سرکاری ونیم سرکاری ادارے بند رہینگے.

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
12758

وائلڈلائف ڈیپارٹمنٹ نے گندمی عقاب کو چترال گول کے احاطے میں آزاد کردیا

Posted on

چترال (نمائندہ چترال ٹائمز) وائلڈ لائف سب ڈویژن چترال کے ایس ڈی ایف او الطاف علی شاہ نے بدھ کے روز اپنے عملے کے ہمراہ گندمی عقاب (Tawny Eagle)نامی باز کو چترال گول کے احاطے میں آزاد کردیا جسے گزشتہ روز چترال شہر کے نواحی گاؤں بوختولی اونگوش میں ایک شخص عبادت شاہ نے غیر قانونی طور پر پکڑنے کے بعد اپنے گھرمیں رکھا تھا۔ الطاف علی شاہ نے عقاب کو آزاد کرنے کے وقت موجود میڈیا کو بتایاکہ عقاب کو چترال گول نیشنل پارک کے علاقے میں آزادکرنے کی وجہ یہ تھی کہ یہ اس کا مسکن ہے کیونکہ اس پارک میں مختلف اقسام کے عقاب کثیر تعداد میں پائے جاتے ہیں جن میں گندمی عقاب بھی شامل ہے ۔انہوں نے کہاکہ انہوں نے ایک پیشگی اطلاع پر محکمے کے ڈپٹی رینجر نصیر احمداور واچر جمشید عالم اور دوسروں پر مشتمل ایک ٹیم تشکیل دی جس نے ملزم سے عقاب برآمد کرکے اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔ ان کا کہنا تھاکہ آزاد کردہ عقاب اب غیر قانونی شکاریوں کے ہاتھوں دوبارہ پکڑے جانے کے خطرے سے آزاد ہے۔ انہوں نے کہاکہ ملزم کے خلاف وائلڈ لائف ایکٹ 2015ء کے تحت پرچہ کاٹ دیا گیا ہے۔
wildlife chitral iltaf husain sdfo

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
12755

گلگت بلتستان کے خلاف سازشی تھیوریاں……..تحریر:ممتاز گوہر

Posted on

پاکستان میں جس تیزی سے میڈیا چینلوں میں اضافہ ہو رہا ہے اسی حساب سے ان چنیلوں میں مخصوص “کردار” بھی سامنے آتے رہتے ہیں جو اپنی غلط اندازوں، لغویات اور بے تکی تبصروں سے عام لوگوں کو ذہنی اضطراب میں ڈالنے کا کام بخوبی انجام دے رہے ہیں. یہ اکثر ایسے موضوعات پر لب کشائی کرتے ہیں جس بارے انھوں نے کبھی تحقیق گوارہ کی ہے نہ ہی اس بارے ضروری معلومات رکھتے ہیں. ایسے میں یہ “کردار” اپنے خیال اور اندازوں کا سہارا لے کر ایسی بھونڈی قسم کی معلومات سامنے لے آتے ہیں جس کا حقیقت سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں ہوتا.

گزشتہ دنوں ایک پاکستانی چینل میں ایسے ہی کچھ نام نہاد صحافی اور تجزیہ نگار اپنی کم علمی اور موضوع پر معلومات نہ ہونے کا رونا رونے کے بجائے یکطرفہ طور پر غیر ضروری معلومات فخریہ انداز میں پیش کر رہے تھے. سابق ایم ڈی پی ٹی وی عبدالمالک، جو پاکستان کے ان مخصوص صحافیوں کی فہرست میں شامل رہے ہیں جو صحافتی اقدار کو پاؤں تلے روندتے ہوۓ ذاتی فائدہ پہنچانے والے مواقعوں کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے. اس پروگرام میں ایک اور کردار لیفٹنٹ جنرل (ر) امجد شعیب بھی موجود تھے. ان دونوں صاحبان نے اپنی مختصر سی گفتگو میں اپنے اندر کی گند و غلاظت کو باہر نکالا. ساتھ رضا رومی یہ تماشا دیکھتے رہے اور منیب فاروق نے آخر میں پہلے دونوں صاحبان کے ہاں میں ہاں ملا کر اپنا حق ادا کر دیا.عجیب بات ہے آج کل جو گلگت بلتستان کا نام صحیح طرح نہیں لے پاتے اور کبھی اس علاقے کو دیکھا بھی نہیں ہو مگر اس خطے کے بارے میں ایسے من گھڑت تجزیات کرتے ہیں جس سے نہ صرف ایک منفی تاثر پھیلتا ہے بلکہ یہاں کے لاکھوں عوام کی دل آزاری بھی ہو جاتی ہے.

گلگت بلتستان کی احساس محرومی اور حالات کی خرابی میں بھی ایسے ہی کرداروں کا ہاتھ رہا ہے جنھوں نے کبھی گلگت بلتستان آنے کی زحمت نہیں کی مگر اسلام آباد میں بیٹھ کر یہاں کے عوام کی قسمت کے فیصلے لکھتے رہے ہیں. جنرل صاحب اپنی گفتگو میں پشتون تحفظ موومنٹ کو بھی گلگت بلتستان سے جوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں. میرے پیارے امجد شعیب صاحب آپ ذرا ہر دوسرے بندے پر شک کرنے کی پالیسی سے باہر نکل کر دیکھیں تو حقائق بالکل ایسے نہیں ہے. پشتون تحفظ موومنٹ اور بلوچ علیحدگی پسند تحریکیں جنم لے رہی ہیں تو یہ بھی آپ جیسے کرداروں کی وجہ سے ہو رہی ہیں. آپ جیسوں کی غلط اندازوں، پالیسیوں اور تجزیوں کی وجہ سے ہو رہی ہیں. ورنہ یہاں کے لوگ کل بھی محب وطن تھے اور آج بھی.

امجد صاحب! آپ کو تو معلوم ہوگا دیامر بھاشا ڈیم کا نام پہلے صرف بھاشا تھا. جب کہ آدھا دیامر ڈوب رہا تھا. عوامی احتجاج کے بعد دیامر کا نام تو لگا مگر دیامر ڈیم کے متاثرین اب تک اپنے جائز حقوق کے لئے چیخ رہے ہیں. کبھی اس پر بھی بات کرو نا.

امجد صاحب! آپ خود کہہ رہے کہ گلگت بلتستان سی پیک کا انٹری پوائنٹ ہے اس میں گلگت بلتستان کو کتنا حصہ مل رہا ہے ذرا آپ ہی اس پر بات کریں نا. اس پر گلگت بلتستان والے اگر بات کریں تو آپ کے جیسے اور کردار بیٹھے ہوۓ ہیں جو ایک دم غدار اور دشمن ممالک سے پیسے لینے کے بلاجواز الزامات لگا کر زبان بند کر وا دیتے ہیں.

امجد صاحب! آپ کو تو گلگت بلتستان کے بارے میں بڑی معلومات ہیں تو آپ یہ بھی جانتے ہی ہوں گے کہ کس طرح گلگت بلتستان آرڈر 2018 کو عوامی امنگوں کے برعکس خفیہ طور یہاں مسلط کیا گیا. آپ کو اگر غداری کے سرٹیفکیٹس تقسیم کرنے سے موقع ملے تو ایسے کسی ٹی وی چینل میں اس پر بھی بات کیجئے گا. یہاں کے عوام آپ کے ممنون ہوں گے.

امجد صاحب! میں بطور صحافی گزشتہ دنوں اپوزیشن اتحاد کی جانب سے اسلام آباد ریڈ زون میں الیکشن کمیشن کے باہر احتجاج کی کوریج کے لیے گیا ہوا تھا. اس احتجاج کے آخر میں میرے کانوں نے جس طرح کے نعرے سنے مجھے اب تک ان پر اعتبار نہیں آرہا. لیکن دوسری طرف گلگت بلتستان میں صورت حال یہ ہے کہ سوشل میڈیا میں سٹیٹس اپ ڈیٹ کریں اور کسی کو پسند نہ آ جائے تو ان پر ایکشن پلان کا ڈنڈا چل جاتا ہے یا پھر شیڈول فور نامی دوا جو اب گلگت بلتستان کے باسیوں کے لیے پیراسٹامول کی ٹیبلٹ کی طرح دستیاب ہو چکی ہے. زبردستی کھلا دی جاتی ہے. ہم امید کرتے ہیں کہ آپ اس موضوع کو بھی ضرور زیر بحث لائیں گے.

امجد صاحب! آپ تو 1947 سے مکمل پاکستانی ہیں. اور گلگت بلتستان والے اسی وقت سے آدھے پاکستانی. آپ تھوڑی سی غیرت دکھا کر ان کو پورے پاکستانی بنانے کی بات ضرور کیجئے گا. آپ کے حلقے سے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں نمائندے جاتے ہیں جب کہ گلگت بلتستان والوں نے ان اداروں کا نام ہی سنا ہے. آج تک یہاں پیدا ہونے والا بندہ اس قانون ساز ادارے میں نہیں گیا. البتہ یہاں جو پالیسیاں ان کی مرضی و منشا کے بغیر بنتی رہی ہیں ان کو نہ چاہتے ہوۓ بھی منظور کرتا رہا ہے. تو ایک اور گزارش یہ ہے کہ ذرا اخلاقی جرات دکھا کر اس علاقے کو آئینی دائرہ کار میں لانے اور جائز حقوق دینے کی بات بھی کریں نا. ہم آپ کے احسان مند رہیں گے. ایوان بالا اور زیریں کے دروازے ہمارے لیے بند، باقی گلگت بلتستان کے حوالے سے ٹی وی پروگراموں میں بھی آپ جیسے لوگوں کا قبضہ ہے. سوشل میڈیا میں آواز اٹھانے والوں کے گلے شیڈول فور کی ہار ڈال دی جاتی ہے تو آپ ہی بتا دیں یہ لوگ آخر کریں تو بھی کیا کریں.

جناب عبدالمالک صاحب اور امجد شعیب صاحب! آپ دونوں جس قسم کی واہیات گفتگو اور اپنے غلیظ ذہن سے غلیظ الزامات لگا رہے ہو ان کا بہترین جواب گلگت بلتستان کے کونے کونے میں موجود شہدا کی وہ مزاریں ہیں جن کے اوپر لہراتا ہوا سبز ہلالی پرچم یہاں کے باسیوں کی اس ملک سے محبت اور وفاداری کا اظہار کر رہا ہے. وادی شہدا کے سپوت، فخر گلگت بلتستان لالک جان اور ایسے ہزاروں شہدا کی روحیں آج تم جیسے لوگوں پر لعنت بیج رہی ہوں گی. جو اس دھرتی کو غداری اور باہر سے پیسے لینے والوں کی لسٹ میں شامل کرتے ہو. امجد شعیب صاحب آپ سے گزارش ہے کہ آپ اپنی لغو تجزیوں کو اپنے جیب میں رکھیں. اپنی ایسی نام نہاد تجزیوں سے پاک آرمی کا نام بھی خراب نہ کریں. اور محب وطن لوگوں کی دل آزاری سے بھی گریز کریں. رہی بات عبدالمالک کی تو ایسے مفاد پرست صحافی ہر دور میں موجود ہوتے ہیں جو موقعے کو دیکھ کر ہر کسی کی گود میں بیٹھ جاتے ہیں.

گلگت بلتستان کے کچھ سادے لوگ اس نفرت انگیز اور دل آزاری پر مبنی پروگرام کے بعد پیمرا سے ایکشن لینے کی اپیل کرتے ہیں. ان لوگوں کو بھلا کون سمجھائے کہ تمھاری آواز جو چنار باغ میں موجود چنار کے درختوں سے باہر نہیں نکلتی تو پیمرا جیسا ادارہ کیوں کر سنے. ایک طرف تم گلگت بلتستان سے، دوسری طرف آدھے پاکستانی اور تیسری طرف امجد شعیب جیسے محب وطن لوگوں کی نظر میں غدار. ایسے میں کیونکر کوئی تمہاری بات سنے اور اس پر ایکشن لے. یہ سہانے خواب دیکھنا بند ہی کرو تو بہتر ہے.

اس پروگرام میں امجد صاحب کہتے ہیں کہ ملک سے باہر کام کرنے والے خاص طور پر بلتی لوگ حالات خراب کرنے میں ملوث ہیں. امجد صاحب کے بقول انہیں انڈیا بھی لے کر گئے ہیں برین واش کیا گیا ہے. یہ سہولت کار بھی ہو سکتے ہیں اور خود بھی ایسے کاموں میں ملوث ہو سکتے ہیں. ان کا خیال ہے ایسے زیادہ تر لوگ مڈل ایسٹ اور گلف ممالک میں مقیم ہیں.

اب یہاں دو باتیں ہیں. پہلی بات یہ کہ امجد صاحب نے جس طرح سے ایک پورے قوم اور خطے پر الزام لگایا اسے ثابت کریں. ملک دشمن عناصر کے نام سامنے لے آئیں. انڈیا جانے اور رقوم حاصل کرنے والوں کی فہرست دے دیں. ایسے لوگ نہ صرف پاکستان کے بلکہ اس خطے کے بھی دشمن ہیں جو بیرون ممالک بیٹھ کر اس ملک اور علاقے کے خلاف گھناؤنی سازشیں کر رہے ہیں. یہ سب کے مشترکہ دشمن ہیں. سب مل کر ان کے خلاف ایکشن لیں گے.

دوسری بات یہ کہ اگر آپ ان تمام الزامات کو ثابت نہیں کر سکتے تو دوبارہ اسی ٹی وی کے پروگرام میں جائیں اور اسی نام نہاد صحافی کے ساتھ مل کر یہاں کے پورے عوام سے معافی مانگ لیں. آپ کو اس حوالے سے اخلاقی جرات کا مظاہرہ کرنا ہوگا.

اب جب آپ ان دونوں صورتوں میں سے کسی پر بھی پورا نہیں اترتے تو یہاں کے لوگ نہ صرف آپ پر بلکہ آپ کی سوچ اور خیالات پر بھی لعنت بھیجنے کے مجاز ہوں گے. اب فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے.

اور ہاں آخر میں یہ نام نہاد صحافی کا خیال ہے کہ گلگت بلتستان کو آغا خان اسٹیٹ بنانے کا بھی الزام ہے. اس بات سے ہی ان کی کم فہمی اور شخصیت کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے. مجھے تو شرم اس بات پر آتی ہے جن کو اپنے ملک کے عام معروضی حالات اور جغرافیے کا صحیح علم نہیں وہ کیسے کسی عالمی ایشو پر بہتر تفصیلات دے سکتے ہیں. عمران خان کی ایک بات مجھے اچھی لگی کہ احتساب اوپر سے ہونا چاہئے بالکل اسی طرح پرائیویٹ اداروں میں احتساب اوپر سے ہونا چاہئے اور سب سے پہلے دل آزاری پر مبنی اور غلط معلومات پھیلانے والے ایسے “کرداروں” کو اداروں سے باہر نکال دینا چاہیے. میں یہ ڈیمانڈ اس بات کو سمجھ کر بھی کر رہا ہوں کہ میڈیا بھی مافیا کی شکل اختیار کر چکا ہے. ایسا مشکل تو ضرور ہے پر نا ممکن نہیں.

مذہب اور مسلک کے نام پر اسٹیٹس بنانے کے مشورے دینے اور الزامات لگانے والو! یہ بات سمجھ لو دنیا مذہب اور مسلک سے بہت آگے نکل چکی ہے. تمھارے پاس اور ہے بھی کیا بس یہی چورن سازشی تھیوریاں بھیجتے رہو. اس کے خریدار بھی اچھے خاصے ہیں.

ﻭﮬﯽ ﺑﮯ ﺍﺻﻮﻝ ﻣﺒﺎﺣﺜﮯ، ﻭﮬﯽ ﺑﮯ ﺟﻮﺍﺯ ﻣﻨﺎﻗﺸﮯ

ﻭﮬﯽ ﺣﺎﻝ ﺯﺍﺭ ﮬﮯ ﮬﺮ ﻃﺮﻑ، ﺟﻮ ﺭﻭﺵ ﺗﮭﯽ ﮐﻞ ﻭﮬﯽ ﺁﺝ ﮬﮯ

ﻭﮬﯽ ﺍﮨﻞِ ﺣﮑﻢ ﮐﯽ ﺳﺎﺯﺷﯿﮟ، ﻭﮬﯽ ﻧﻔﺮﺗﻮﮞ ﮐﯽ ﺳﯿﺎﺳﺘﯿﮟ

ﻧﮩﯿﮟ ﺑﺪﻻ ﻃﺮﺯِ ﻣﻨﺎﻓﻘﺖ، ﻭﮬﯽ ﻣﺼﻠﺤﺖ ﮐﺎ ﺭﻭﺍﺝ ﮬﮯ

ﮐﺒﮭﯽ ﭼﮩﺮﮦ ﭘﻮﺵ ﻧﺪﺍﻣﺘﯿﮟ، ﮐﺒﮭﯽ ﺳﯿﻨﮧ ﺯﻭﺭ ﺑﻐﺎﻭﺗﯿﮟ

ﺍﮎ ﺍﺗﺮﺗﮯ ﭼﮍﮬﺘﮯ ﻓﺸﺎﺭِ ﺩﻡ ﮐﮯ ﺍﺛﺮ ﻣﯿﮟ ﺳﺎﺭﺍ ﺳﻤﺎﺝ ﮬﮯ

ﮐﻮﺋﯽ ﺩﺭﺩ ﮬﻮ ﮐﻮﺋﯽ ﺯﺧﻢ ﮬﻮ، ﻭﮬﯽ ﻣﯿﭩﮭﮯ ﺯﮬﺮ ﮐﯽ ﮔﻮﻟﯿﺎﮞ

ﮐﻮﺋﯽ ﻋﺎﺭﺿﮧ ﮬﻮ ﮐﮧ ﺳﺎﻧﺤﮧ، ﺑﺲ ﺍﮎ ﻋﺎﺭﺿﯽ ﺳﺎ ﻋﻼﺝ ﮬﮯ

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
12710

یوم آزادی کے حوالے سے جی ایچ ایس چٹور کھنڈ میں یوم آزادی تقریب

Posted on

اشکومن(کریم رانجھا) ؔ آزادی عظیم نعمت ہے،اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ملک کی خاطر کسی بھی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے،اسلام کے سنہرے اصولوں پر کاربند رہتے ہوئے ملکی ترقی کے لئے ہر شہری اپنا کردار ادا کرے،طلبہ سخت جدوجہد اور محنت کو اپنا شعار بنائیں اسی میں ترقی کا راز مضمر ہے۔گورنمنٹ ہائی سکول چٹورکھنڈ میں یوم آزادی کے مناسبت سے پروقار تقریب کا اہتمام کیا گیا تھاجس کے مہمان خصوصی تحصیلدار اشکومن جان عالم تھے جبکہ صدارت پی ٹی اے کے چئیرمین صوبیدار(ریٹائرڈ) ایوب نے کی،اس موقع پر جنگ آزادی میں حصہ لینے والے قومی ہیروز بھی موجود تھے ۔تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ ہمارے آباؤاجداد نے بے سروسامانی کے عالم میں صرف جذبہ ایمانی کے بل بوتے پر الگ مملکت کا قیام عمل میں لایا جس کا مقصد ایک اسلامی فلاحی ریاست کا قیام تھا۔اب یہ نئی نسل کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس مملکت خداداد کی حفاظت کریں اور اس کی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں اور یہ صرف اس صورت میں ممکن ہے جب نئی نسل سخت محنت کو اپنا شعار بنائیں گے۔مقررین نے مزید کہا کہ قدرت نے مملکت پاکستان کو ہر قسم کی آسائشوں سے مالا مال کیا ہے،ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشرے کا ہر فرد اپنے پیشے سے مخلص ہو ،ہر کام ایمانداری سے کیا جائے ،خدمت خلق کا جذبہ دلوں میں موجزن ہو تو ہر قسم کی مشکلوں کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔دشمن مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعے ہمیں تقسیم کرنے میں لگا ہوا ہے لہذٰا ہمیں اتحادویگانگت کا مظاہرہ کرکے دشمن کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملانا ہوگا۔تقریب سے مہمان خصوصی تحصیلدار جان عالم،صدر محمد ایوب،اے ای او سرور خان،ہیڈ ماسٹر سید محبت علی شاہ،عباس علی،صوبیدار( ریٹائرڈ)حسین امان ودیگر نے خطاب کیا۔

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستانTagged
12650

فاطمہ جناح ویمن ڈگری کالج گلگت میں یوم آزادی کے حوالے سے شاندار تقریب

Posted on

گلگت(خصوصی رپورٹ : امیرجان حقانیؔ ) فاطمہ جناح ویمن ڈگری کالج گلگت میں یوم آزادی کے حوالے سے ایک بہت بڑے پروگرام کا انعقاد کیا گیا۔یوم آزادی کے حوالے سے ڈائریکٹریٹ آف کالجز نے تقریری اور تحریری مقابلوں کا انعقاد کیا جس میں جی بی کے تین ڈویژونوں کے کالجز میں مقابلہ ہوا اور تینوں ڈویژن کے کالجز کے طلبہ وطالبات نے حصہ لیا۔تقریب کے مہمان خصوصی ڈپٹی اسپیکر قانون ساز اسمبلی جعفراللہ تھے جبکہ میر محفل سابق سیکرٹری ایجوکیشن پروفیسر مہرداد تھے۔ یوم آزادی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ڈپٹی اسپیکر نے کہا کہ جب قومیں آپس میں دست و گریباں ہوں تو خوشیاں ناخوش ہوتی ہیں۔ہمیں آپس میں الجھ کر برباد ہونے کے بجائے ہر فرد کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرکے اپنے حصے کا شمع جلانا چاہیے۔ترقی یافتہ ممالک نے ایک قوم بن کر اپنے ملکوں میں خوب ترقی کی جبکہ ہم نے یکجہتی اور تکثیریت کے بجائے ناچاکی اور تعصب کے ذریعے تنزلی کا راستہ چن لیا جو بہت ہی غلط اور خوفناک ہے۔ہم یکجہتی اور تعمیر کے بجائے لسانیت، عصبیت اور فرقہ واریت کا درس دیتے ہیں۔ ڈپٹی اسپیکر نے مفکرین پاکستان اور بانیان پاکستان کی کوششوں کو خوب سراہا اور ان کے نقش قدم پر چلنے کی تلقین کی۔ حکومت گلگت بلتستان کی طرف سے پوری قوم کو مبارک باد دیا۔انہوں نے مزید کہا کہ کچھ شرپسندوں نے دیامر میں شرپسند ی کا مظاہرہ کیا ،اسکول جلائے،لیکن دیامر کی پوری قوم مبارک باد کے مستحق ہے کہ انہوں نے یک زبان ہوکر ان دہشت گردوں کا بائیکاٹ کیا اور حکومت پاکستان اور ریاست پاکستان کے ساتھ دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ 2018ء کے آرڈر میں وہ تمام اختیار ات دیے گئے ہیں جو دیگر صوبوں کو حاصل ہیں۔ ہم دیامر میں تعلیمی ایمرجنسی نافذ کر کے تعلیم دشمنوں کو یہ پیغام دینا چاہیے ہیں کہ ہم کسی صورت دہشت گردوں اور تعلیم دشمنوں کو پنپنے نہیں دیں گے ، دیامر کے عمائدین، علماء کرام اور عوام کے ساتھ مل کر ان دہشت گردوں کا قلع قمع کردیں گے۔ ڈپٹی اسپیکرنے شہید ہونے والے پولیس کے جوانوں کو بھی خراج تحسین پیش کیااور قومی اداروں کے خلاف مہم چلانے اور غلط زبان استعمال کرنے والوں کی بھی مذمت کی اور پاک آرمی کی ملک و ملت کے لیے دی جانے والی قربانیوں کو بھی تحسین کیا۔۔ تقریب کے میر محفل پروفیسر مہرداد نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمیشہ دوسروں کے احساسات و جذبات کا خیال رکھ کر کام کیا جائے تو قومیں بہت جلد ترقی کرتی ہیں۔دنیا کا جدید نظریہ ہے کہ ہمیشہ دوسروں سے سیکھنا ہے لہذا بحیثیت استاد و طلبہ ہمیں سیکھنے کے عمل کو مسلسل جاری رکھنا چاہیے۔سیکرٹری ایجوکیشن خادم حسین سلیم نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم میں سے ہر ایک نے یہ سوچنا ہے کہ ہم نے وطن کے لیے کیا کرنا ہے۔ ہم نے بحیثت شہری،بحیثیت ایک استاد، آفسیر، وزیرا اور طالب علم اس مملکت پاکستان کی کیا خدمت کرنی ہے اس کا تعین کرنا ازحد ضروری ہے۔ اس کے بغیر نہ ترقی ممکن ہے نہ ہی تبدیلی ممکن ہے لہذا اپنا کردار باحسن و خوبی نمٹانا ہوگا۔ڈائریکٹر ایجوکیشن کالجز پروفیسر منطور کریم نے یوم آزادی کی تقریب کے حوالے سے خصوصی ٹیمیں تشکیل دی تھی۔ڈائریکٹر ایجوکیشن نے نمائندہ خصوصی اور میڈیا کمیٹی کے ممبر امیرجان حقانی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے حتی المقدور کوشش کی ہے کہ پروگرام جتنا بہتر ہو، کامیاب بنایا جاسکے۔ ایجوکیشن ڈائریکٹریٹ ، تمام کمیٹیوں کے ذمہ داران اور کالجز کے پرنسپل صاحبان اور پروفیسروں نے بھرپور تعاون کیا جس کی وجہ سے بہترین پروگرام کے انعقادمیں آسانی ہوئی۔ اور طلبہ میں تقریر و تحریر کے مقابلے کا انعقاد کیا تھا۔ تقریری مقابلوں میں ڈگری کالج مناور گلگت کے طالب علم حسنین قاسمی نے پہلی پوزیشن، گورنمنٹ ڈگری کالج برائے طالبات گاہکوچ کی طالبہ بی بی عطیہ نے دوسری پوزیشن جبکہ گورنمنٹ ڈگری کالج فار ویمن گلگت کی طالبہ طوبی بہرام نے تیسری پوزیشن حاصل کی۔تحریری مقابلے میں پہلی پوزیشن ڈگری کالج گلگت فار ویمن کی طالبہ فاطمہ جبیں نے حاصل کی جبکہ دوسری پوزیشن گورنمنٹ انٹرکالج بسین کے طالب علم کامران اللہ طیب نے اور تیسری پوزیشن ثمانہ خاتون طالبہ ڈگری کالج برائے طالبات اسکردو نے حاصل کی۔پروفیسر موسی کلیم، پروفیسر عبدالعزیز اور ڈپٹی ڈائریکٹر ایجوکیشن عنایت اللہ نے تقریری مقابلے میں ججز کے فرائض انجام دیے۔ پروفیسر موسی کلیم نے نتائج کا اعلان کیا۔تلاوت کلام الہی انٹرکالج بسین کے طالب علم امداداللہ،فاطمہ جناح کی طالبہ عنبر زہراء نے نعت نبی اور ارم فاطمہ نے ملی نغمہ پیش کیا جبکہ گورنمنٹ ڈگری کالج غذر کی الشبہ اینڈ گروپ اور الینہ اینڈ گروپ نے مختلف ملی نغمے پیش کرکے سامعین کے دل جیت لیے ۔ محمود آباد کالج کے طالب علم مظاہرحسین نے بھی ملی نغمہ پیش کیا۔اس تقریب میں ریڈیوپاکستان گلگت کے ڈائریکٹر جاوید باجوہ اور اس کی ٹیم، سیکرٹری اطلاعات فداحسین، سیکرٹری قانون رحیم گل، سیکرٹری لوکل گورنمنٹ ثناء اللہ اور سیکرٹری ہیلتھ سعید اللہ نیازی نے خصوصی شرکت کی۔ اشتیاق احمد یاد اور میڈم حسن آراء نے اسٹیج سیکریٹری کے فرائض انجام دیے جبکہ امیرجان حقانی نے میڈیا کمیونکیشن کے فرائض بخوبی نبھائے،پروفیسراعجاز احمد نے صدر مملکت ممنون حسین کی طرف سے منطور کردہ پیغام کا خلاصہ پیش کیا اور پیغام پاکستان کو وقت کی اہم ضرورت قراردیا۔اشتیاق احمد یاد نے محکمہ ایجوکیشن،سیکرٹری ایجوکیشن، ڈائریکٹریٹ اور کالجز کی طرف سے تمام طلبہ و طالبات، سیکرٹریز، صحافی برادری، معززمہمانان گرامی ، سیکورٹی عملہ اور دیگر ذمہ داروں کاخصوصی شکریہ ادا کیا

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستانTagged
12648

چترال کے گلیشئروں کو بگھلنے سے بچانے کیلئے جنگلات کی کٹائی فوری روک دی جائے۔۔سرتاج احمد

Posted on

چترال (نمائندہ چترال ٹائمز) چترال کمیونٹی ڈیویلپمنٹ نیٹ ورک(سی سی ڈی این )کے چیرمین سرتاج احمد خان نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے پرزور مطالبہ کیا ہے کہ گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں چترال کے گلیشیر وں کو پگھل کر ختم ہونے اور یہاں پانی کا بدتریں بحران رونما ہونے سے بچانے کے لئے سوختنی لکڑی کے حصول کے لئے جنگلات کی کٹائی فی الفور روک دی جائے جس کے لئے گولین گول ہائیڈرو پاؤر پراجیکٹ سے اہالیان چترال کو فی یونٹ پیدوار پر آنے والی خرچ کے مطابق بجلی فراہم کی جائے جوکہ ایک روپے بنتی ہے ۔ پیر کے روز چترال چیمبر آف کامرس کے صدر اتالیق حیدر علی شاہ، ضلع نائب ناظم مولانا عبدالشکوراور سول سوسائٹی کے نمائندوں رحمت غفور بیگ، عبدالناصر خان، حیات الرحمن، سبحانودین، عنایت اللہ اسیر، فاروق احمد، عیسیٰ علی اور دوسروں کی معیت میں چترال پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے خبردار کیاکہ اگر سوختنی لکڑی کے حصول کے لئے جنگلات کی کٹائی کا مسئلہ سنگین صورت اختیار کرتا جارہا ہے جس پر قابو نہ پانے کی صورت میں ضلعے میں موجود گلیشیرز کا ذخیرہ ختم ہونے والا ہے جن میں ٹوٹ پھوٹ کا سلسلہ پہلے ہی شروع ہوچکا ہے او ر سنوغر، بریپ، گوہکیر سمیت کئی دیہات اس کے زد میں آچکے ہیں ۔ انہوں نے سرکاری طور پر حاصل شدہ اعدادوشمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ ہر سال چترال کی مقامی مارکیٹ میں مجموعی طور پر 26ہزار ٹن سے ذیادہ سوختنی لکڑی فروخت ہوتی ہے جبکہ اس کے برابرمقدارمیں لکڑی مارکیٹ آئے بغیر استعمال ہوتی ہے اور اتنی بھاری مقدار میں لکڑی کی کٹائی کا براہ راست بوجھ گلیشیروں پر پڑرہا ہے ۔ سرتاج احمد خان کا کہناتھا کہ کئی سال پہلے انہوں نے “چترال بچاؤ، پاکستان بچاؤ”تحریک کا آغاز کیا تھا جس کے ذریعے ا س خطرے سے ایوان اقتدار میں اور سول سوسائٹی میں لوگوں کو اس خطرے سے آگاہ کرنا تھا ۔ انہوں نے کہاکہ اگر سوختنی لکڑی کے لئے درختوں کی کٹائی کا سلسلہ ہم فوری طور پر نہ روک سکے تو وقت ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گا اور چترال میں دریائے چترال کے خشک ہونے پر پانی ناپید ہوگا اور دریائے کابل کا منبع ختم ہوگا جس سے پاکستان کے وسیع وعریض میدان بنجر ہوں گے اور ملک کی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان لاحق ہوگا۔انہوں نے کہا کہ اس مسئلے کا فوری حل یہی ہے کہ گولین گول ہائیڈرو پاؤر پراجیکٹ سے ایک روپے فی یونٹ بجلی سبسڈائزڈ ریٹ پر فراہم کیا جائے ۔

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
12632

وطن کی مٹی گواہ رہنا…….تحریر: مفتی ثناء اللہ انقلابی نمبردار چکرکوٹ

Posted on

دنیا کی چھت گلگت بلتستان کو بلامبالغہ سیاحوں کی جنت کہنا درست ہے اسلئے کہ جنت کی سب سے اہم چیز دائمی امن اور دائمی خوشی ہے۔یوں تو جنت کی خوشیاں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ہوتی ہیں مگر جنت کا یہ ٹکڑا گلگت بلتستان جغرافیائی نقشے میں دنیا کی چھت قرار پائی ہے۔اسلئے دنیا ہی کا حصہ ہونے کے ناطے یہاں کی خوشیاں اور مسرتیں عارضی ثابت ہوتی ہیں۔گزشتہ دس سال سے پاکستان جس کرب میں مبتلا ہے الحمدللہ اب پاک فوج اورآرمڈ فورسس کی قربانیوں کی بدولت پورے ملک میں امن لوٹ آیا مگر گلگت بلتستان گزشتہ کئی سالوں سے سوفیصد امن ایریا قرار دیا گیا ہے جسکی وجہ سے ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کی اس جنت نظیر میں آمدورفت اپنے عروج پر تھی۔ایسے میں ملک کے ازلی دشمن انڈیا کے پروپردہ ایجنٹ حرکت میں آئے اور پے درپے دیامر اور کارگاہ کے واقعات دلخراش پیش آئے۔مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ پھولوں آبشاروں خوشبوؤں فلک بوس پہاڑوں کے ٹو اور ننگا پربت کی حسین چھاؤں میں ایسی پاکیزہ قابل رشک غیرت مند مائیں ہیں جنہوں نے ایسے دھرتی کے سپوت جنم دیئے ہیں کہ تا صبح قیامت اُن ماؤں کی عظمت کو سرخ سلام ہو کہ جن کی گود میں ایسی ہستیوں نے پرورش پائی جنہوں نے وطن عزیز کے چپے چپے اور پتے پتے کی حفاطت کے لئے دشمن کا تعاقب کیا اور اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے پوری قوم کا سرفخر سے بلند کردیا۔
پاتے ہیں کچھ گلاب پہاڑوں میں پرورش
آتی ہے پتھروں سے بھی خوشبو کبھی کبھی
حالیہ واقعات و حادثات کے علاوہ کارگل جنگ ہو یا وادئ گیاری سیکٹر گلگت بلتستان کی ماؤں کے لخت جگر داد شجاعت دے گئے۔ مثال کے طور پر کارگل جنگ میں علاقہ چکرکوٹ سئی کے ایک سپوت این ایل آئی کے اورنگزیب ولد عزیز اللہ کے جسم کے اتنے ٹکڑے ہوئے کہ آج تک وہ ٹکڑے کارگل کے پہاڑوں میں کوؤں کی خوراک بن چکے ہیں کوئی نعش تک موصول نہ ہوسکی میری دھرتی کے شہید نوجوانو اور ماؤں کی عظمت کو سرخ سلام ہو بالخصوص حالیہ ملک دشمن سفاک دہشت گردوں کا مردانہ وار مقابلہ میں شہداء و کارگاہ پولیس کی شہادت کو سرخ سلام ہو۔یقیناًشہدائے کارگاہ پولیس کے بہارد جوانوں کی قربانیاں پورے ملک کیلئے ہیں یہ حملہ صرف ایک چوکی پر نہیں بلکہ پوری غیور قوم کے سینے پر حملہ تھا جسکو روک کر یقیناًپوری قوم کو بزبان حال پولیس شہداء کرام نے یہ پیغام دیا ہے وطن کی مٹی گواہ رہنا جب بھی دشمن نے تیری طرف میلی آنکھ سے دیکھا تو تیرے وفادار بیٹے تیری عظمت کیلئے اپنا کل تیرے آج کیلئے قربان کرگئے۔اِنا للہ وانا للہ راجعون
وہ لوگ جنہوں نے خون دیکر پھولوں کو رنگت بخشی ہے
دو چار سے دنیاء واقف ہے گم نام نہ جانے کتنے ہیں
دیامر کے شہید پولیس اہلکار سمیت شہدائے کارگاہ کو بھاری انعامات سے نوازا جائے تاکہ آئندہ کیلئے ہمارے نوجوان مزید جذبے سے سرشار ملک قوم اور وطن کی حفاظت کرسکیں۔اللہ تعالیٰ شہدائے کارگاہ کے درجات بلند فرمائے۔پسماندگان کو صبر جمیل عطافرمائے یقیناًدکھ کی ان گھڑیوں میں تمام پشتنی باشندگان گلگت بلتستان نمبرداران جی بی وکلاء برادری علمائے کرام مشائخ عظام مبلغین و واعظین اہل قلم اہل علم و ادب شعرء فن لواحقین کے ساتھ ہیں اور فخر محسوس کرتے ہیں کہ اپنے سپوتوں پر جنہوں نے وطن کی مٹی گواہ بنا کر دشمن کو مٹی میں ملایا ور خود بھی وطن اور قوم کی خاطر 14اگست کی آزادی سے قبل دنیا کی جھنجٹ سے آزاد ہوکر ہمیشہ کیلئے ہم سے جدا ہوگئے۔
یہ پھول اپنی لطافت کی داد پا نہ سکے
کھلے ضرور مگر کھل کر مسکرا نہ نہ سکے

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
12626

بالائی اورزرین چترال میں بارش،متعدد مقامات پرسیلا ب سے فصلوں، سڑکوں اورباغات کو نقصان ،سڑکیں بند

شاگرام، پرواک، دروش (نمائندگان چترال ٹائمز) بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب چترال کے پہاڑی علاقوں میں موسم کی پہلی موسلا دھار بارش کے نتیجے میں شیشی کوہ ، مداک لشٹ ، پرواک، میراگرام نمبر دو، یارخون ڈیزگ، کھوتان لشٹ، اجنوگول اور شاگرام میں سیلابی ریلے نے گندم کی تیار فصلوں، باغات اور سڑکوں کونقصان پہنچایا اور شاگرام پل بھی دریامیں بہہ گئی اور کئی ایریگیشن چینل بھی متاثر ہوگئے ۔ موسلا دھار بارش کا ضلعے کے جنوبی حصے سے داخل ہونے کے بعدشیشی کوہ وادی میں کئی گھنٹوں تک شدید بارش کا سلسلہ جاری رہا اور ندی میں شدید طغیانی کا سبب بنا جس سے کڑاس کے مقام پر دروش مداک لشٹ روڈ بند ہوگئی ۔ اسی طرح یارخون وادی کے ڈیزگ کے مقام پر سیلابی ریلے نے سڑک کو کئی سو میٹر تک بہا لے گئی ہے جس سے اپر یارخون اور بروغل کارابطہ منقطع ہوگئی جبکہ سینکروں گھرانوں کے گندم کی فصل کو بہالے گئی جس کی ابھی کٹائی ہوئی تھی ۔ ادھر پرواک گاؤں میں نیصر گول میں اونچے دریا کی سیلابی ریلے نے قریبی زمینات اور سڑک کو بہالے گئی جبکہ پرواک کے دیگر حصوں میں پہاڑوں سے بھی سیلابی ریلے نے تقریباً دو سو گھرانوں کو متاثر کیا اور فصلوں اور پھلوں کے باغات کو نقصان پہنچادیا۔ موسلادھار بارش کا سلسلہ تورکھو وادی میں بھی جاپہنچا جہاں شاگرام گاؤں میں سیلابی ریلے نے کھیتوں اور باغات کو زبردست نقصان پہنچادیا اور شاگرام پل دریا میں بہہ جانے کی وجہ سے کھوت، ریچ اور اجنو گاؤں کے ساتھ رابطہ منقطع ہوگئی ۔ ضلعی انتظامیہ کے مطابق ابھی تک کسی جگہ مکانات کے سیلاب میں بہہ جانے یا جانی نقصان کی اطلاعات موصول نہیں ہوئی ہیں ۔ متاثرہ علاقوں میں عوام فوری امداد کے منتظر ہیں ۔ خصوصی طور پر ٹریفک کو دوبارہ بحال کرنے کیلئے فوری اقدامات کا مطالبہ کررہے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ چترال ٹاون و ملحقہ علاقوں میں بارش نہیں ہوئی ۔
brep flood chitral 2

brep flood chitral 3

brep flood chitral 1
torkhow selab 4

parwak

parwak flood
torkhow selab 1

torkhow selab 2

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
12547

خبردار ہوشیار، چترالی نوجوانوں کو نوکری کا جھانسہ دے کر لوٹنے والا گروہ سرگرم

Posted on

چترال (‌چترال ٹائمز رپورٹ) ملک کے دوسرے حصوں‌میں‌نوسربازوں‌کی سرگرمیوں‌سے سب واقف ہی تھے.جو بینظیر انکم سپورٹ پروگرام، آرمی ویرفیکشن ، قرعہ اندازی و دیگرناموں‌سے لوگوں‌کو لوٹ رہے تھے. مگرگزشتہ کچھ عرصے سے چترال کے طول وعرض میں بھی مختلف گروہ سرگرم عمل ہیں جو سادہ لوح نوجوانوں کو نوکری کا جھانسہ دے کر لوٹ رہے ہیں۔ حال ہی میں متعدد نوجوانوں‌کو لوٹا گیا ہے. جن کے مطابق گروہ کا سرغنہ کا تعلق اپر چترال سے ہے، ذرائع کے مطابق انھوں نے ان متاثرین سے لاکھوں روپے واپڈا میں نوکری کا وعدہ کرکے ہتھیا لیا ہے۔وہ خود کو واپڈا میں ایک اعلیٰ عہدے پر فائز افیسر بتاتا ہے لیکن نو ماہ سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باجود ان نوجوان کو نوکری ملی اور نہ ہی وہ لاکھوں روپے واپس کیے گیے۔ تقریباََ سولہ لاکھ روپے ہتھیانے کے بعد اب ان متاثرین سے بھاگتا پھر رہا ہے۔ مگر متاثرین بہت جلد ان کے خلاف مختلف تھانوں‌میں ایف آئی اردرج کررہے ہیں.

اسی طرح چترال کی ایک اوربیرون ملک مقیم فرزند بھی لوگوں‌کو بیرون ملک نوکریوں‌کا جھانسہ دیکر لاکھوں‌روپے ہتھیا لیا ہے.جبکہ ان کے گروپ میں‌دوسرے علاقوں‌سے تعلق رکھنے والے نوسربازبھی شامل ہیں. جس کے خلاف متاثرین ایف آئی آر درج کرنے کی کوشش کررہے ہیں‌تاہم وہ خود چترال میں‌شاید موجود نہ ہونے کی وجہ سے کاروائی میں تاخیر ہورہی ہے . ذرائع کے مطابق ان دونوں‌ مبینہ نوسربازوں‌کا تعلق اپر چترال سے بتایا جارہا ہے. بیرون ملک مقیم اس شخص نے سوشل میڈیا کے مختلف ذرائع سے آڈیو پیغام بھیج کر لوگوں‌کو اپنی جال میں‌پھنسا کر رقم بٹورنے کے بعد غائب ہے . تاہم متاثرین نے ان کے پاسپورٹ ودیگرکوائف جمع کرکے کاروائی شروع کی ہے .

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
12538

خودکشی ……ذمہ دار کون؟………..نیک بانو

Posted on

میرے عزیز احباب ،رشتہ دار اور اقارب کچھ دنوں پہلے سو شل میڈیا پر میری نظر ایک خبر پر رک گئی۔ جو کچھ یوں تھی ۔کہ ہنزہ کی سر زمین پر ایک اور نوجوان خوبرو نونہال بچے نے پھرخود کشی کی۔یقین جانئے ۔کئی راتوں کی نیند کوسوں دور ھوگئی ۔اور کئی راتوں کی چین مجھ سے روٹھ گیا۔ایک ایسا بچہ جسے اللہ نے ہر نعمت سے نوازا ہو۔ایک خوبصورت گھر ،خوبصورت۔فیملی۔خوبصورت ماحول،یعنی کہ دنیا کی ہر نعمت سے مالامال ہو۔ کسی چیز کی کمی نہیں ۔پھر کیوں اس نے اس رب کی دی ہوئی اس خوبصورت زندگی کا خاتمہ کیا۔آخر کیوں؟۔
میرے پیارے روحانی بھائی آخر کیوں آپ نے اپنی ماں کو اتنی بڑی سزا دی۔
میرے عزیز دوست و احباب ،ایک احساس ایک ذمہ داری ہے جومجھے اندر سے جھنجھوڈ رہی ہے کہ جس مقصد کے لئے رب نے ہمیں اس جہاں میں بھیجا تھا کیا اس مقصد کو ہم سب نے پایہءتکمیل تک پہنچایا ہے کہ نہیں۔
میں یقینا ہراس بندے سے پوچھنا چاہونگی جو اس بچے سے منسلک ہے۔
کیا کوئی اسکادوست نہیں تھا جو بعض اوقات والدین سے بھی زیادہ قریب ہوتے ہیں کیا انہوں نے جاننے کی کوشش نہیں کی ؟ کیا اسے گائیڈ نہیں کر سکا؟۔کیا کوئی بھائی نہیں تھا ۔آپ نے کبھی نہں پوچھا کہ وہ کیوں اداس ہے۔؟
اس کے رشتہ دارں سے ہمسایوں سے۔اقارب سے پوچھنا چاہونگی کہ کیا اسے آپ نے کبھی اداس نہیں دیکھا؟۔
سکول کے ٹیچرز سے پوچھنا چاہونگی۔کہ کس حد تک آپ نے اسے والدین جیسا پیار دیا۔کیا کبھی آپ نے اس کے احساسات اور جذبات کو جاننے کی کوشش کی؟۔کبھی موقع دیا کہ وہ اپنی شخصیت کا اظہار کر سکے اساتذہ جو کہ نہ صرف درس و تدریس کے ذمہ دار ہیں بلکہ بچوں کی اخلاقی اور روحانی نشوونما کے بھی ذمہ دار ہوتے ہیں۔انہوں نے بچوں کی تربیت میں کوئی کوتاہی تو نہیں برتی ۔والدین سے پوچھنا چاہونگی جو کہ دنیا میں لانے کا سبب بنتے ہیں کیا انہوں نے گھر کا ماحول دوستانہ اور پیارو محبت والا بنایا جس میں بچہ بلا جھجک اپنے جذبات کا اظہار کر سکے۔کیا آپ نے کبھی اسے موقع دیا کہ وہ آپ سے اپنے احساسات کو شیر کرسکے۔
اس بچے سے جڑا ہوا ہر بندہ کہ رہا ہے۔کہ نہہیں معلوم کہ اس نے خود کشی کیوں کی۔
یاد رکھیں انسان کی شخصیت تب متاثر ہوتی ہے۔جب اسے مناسب ماحول نہ ملے اور اسلام اور اسلامی تعلیمات سے دور رکھا جائے
والدین کبھی کبھار بچوں کو سکول بھیج کر بے خبر ہوتے ہیں ان کا بچہ کس ماحول میں ہے ۔کن کی صحبت میں ہے۔کبھی جاننے کی کوشش نہیں کرتے۔
ٹیچرز کبھی یہ زحمت نہیں کرتے کہ بچے کس کی صحبت میں ہے۔۔صرف کتاب پڑھانا یا کلاس ورک،ہوم ورک دینا ایک ٹیچرکی ذمہ داری نہیں بلکہ بچے کی Holistic Development بھی اس کی ذمہ داری میں شامل ہے۔
کہ نفسیاتی لحاظ سے بچہ کیسے جا رہا ہے،اخلاقی لحاظ سے بچے میں کہاں Improvement کی ضرورت ہے معاشی، معاشرتی ،سماجی ہرایریامیں بچے کی پرورش کی ضرورت ہوتی ہے۔کیونکہ بچے کی مکمل شخصیت تب بنتی ہے جب اس کی تربیت میں کوئی کمی نہ ہو۔
15 سال سے زائد عرصہ میں نے یوتھ کی counselling کے ساتھ گزارا تب یہ بات میرے مشاہدے میں آئی کہ بچہ سوشل میڈیا میں گم ہے۔والدین اس سے بے خبر ہیں۔اور بچے جانے انجانے میں کسی بھی سماجی مسلےء کا شکار ہوجاتے ہےمذہبی عبادات اور رسومات کو فرسودہ سمجھتے ہیں اکثر ایسے بچے بھی ہیں جو مذہبی عبادت گاہ کی طرف رخ ہی نہیں کرتے۔خاص طور پر ہوسٹل میں رہائش پزیر طلبہ و طالبات اپنا قیمتی وقت سوشل میڈیا پر صرف کرتے ہیں اور غیر ضروری سرگرمیوں میں شامل رہتے ہیں
۔اس وجہ سے وہ نہ صرف اپنی پڑھائی سے دور ہوتے ہیں بلکہ مذہب سے دور ہوتے ہوے ان رسومات کو فرسودہ سمجھتے ہیں۔ بعد میں بچے والدین اور استاد کے ڈر کی وجہ سے کسی سے شیر نہیں کرتے۔اور اندر ہی اندر وہ کھوکھلے ہوتے جاتے ہیں۔
ان تمام مسائل کے ذمہ دار وہ تمام والدین ہیں جنکو اپنے گھریلو کاموں سے فرصت نہیں اور بچوں کو ہاسٹل میں چھوڑنے کے بعد پلٹ کے انکی کارکردگی کے بارے میں جانچ پڑتال نہیں رکھتے اور ہاسٹل کی انتظامیہ کی بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ ان مستقبل کے معماروں کی تربیت میں اپنا کردار ادا کریں۔ صرف ماہانہ فیس وصول کرکے خود کو بری الذمہ نہ ٹھہرائے۔
اب بھی ہمارے پاس وقت ہے کل کو پچھتانے کی بجائے اگر ہم آج ہی صحیح اقدامات اٹھائے تو ہم اپنی آنےوالی نسلوں کو معاشرے کا ایک اہم فرد بنا سکتے ہیں۔
گاﺅں سطح پہ تعلیم یافتہ لوگ کمیٹیز بناےء اور ان بچوں کیcounselling کریں۔ایسے activities Healthy رکھے جس میں بچے شامل ہوسکے۔والدین کے لئے ایسے sessions رکھیں جو بچوں کی تربیت کے حوالے سے ہو۔ ان کواسلامی تعلیمات سے آگا کریں اللہ پر بھروسہ کرنا سکھائے
کیونکہ خود کشی کی مختلف وجوہات میں مثلا گھرےیلوجھگڑے،قرضے،پسند کی شادی کا نہ ہونا،اور امتحان میں ناکامی،غیرضروری سرگرمیوں میں شامل ہونا۔جنسی اور نشہ جیسی مہلک سرگرمیاں،ذہنی دباو کا شکار ہونا وغیرہ
ان تمام کو مدنظر رکھتے ہوے ہمیں ان بچوں کو گائیڈ کرنے کی ضر ورت ہے)
سورہ النساء
ارشاد ربانی ہے کہ اے ایمان والو آپس میں ایک دوسرے کا مال نا حق نہ کھاو مگر یہ کہ کوئی سودا تمھاری باہمی رضامندی کا ہو اور اپنی جانیں قتل نہ کرو بے شک اللہ تعالی تم پر مہربان ہےاور جو ظلم اور ذیادتی سے ایسا کرے گا تو عنقریب ہم اسے آگ میں داخل کریں گےاور یہ اللہ کے لئے آسان ہے

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, گلگت بلتستان, مضامینTagged
12512

ایف ایس سی نتائج ، چوبیس گھنٹوں کے اندر تین طالب علموں کی خودکشی ، وجہ امتحان میں کم نمبر یا فیل

Posted on

چترال ( آن لائن ) ایف اے ایف ایس سی کے نتائج میں کم نمبر آنے پر چترال میں چوبیس گھنٹوں کے اندر خودکشی کے تین واقعات رونما ہوئے جن میں دو طالبات دریا میں چھلانگ لگاکر لاپتہ ہیں جبکہ ایک طالب علم شدید زخمی ہے ۔ تینوں کی عمریں 17سے آٹھارہ سال کے درمیان بتائی جارہی ہے ۔ تفصیلات کے مطابق بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن پشاور کے حالیہ ایچ ایس ایس سی کے نتائج گزشتہ دن آوٹ ہوتے ہی دلبرداشتہ ہوکر چترال میں چوبیس گھنٹوں کے اندر تین طالب علموں نے خودکشی کی ۔خودکشی کا پہلا واقعہ ریچ تورکہو میں گزشتہ دن پیش آیا تھا۔ جبکہ دوسرا واقعہ گرم چشمہ بلپھوک کے مقام پر پیش آیا جہاں ایک پرائیویٹ کالج کی طالبہ صفورہ دختر روزی من خان ساکنہ موغ نے ایف ایس سی میں دو مضامین میں فیل ہونے کی وجہ سے دلبرداشتہ ہوکر دریائے چترال میں کود کر اپنی زندگی کا چراغ گل کردیا ہے ۔ لاش تاحال نہیں ملی ہے ۔ تیسرا واقعہ کریم آباد لٹکوہ میں پیش آیا ہے جہاں ربی الدین ولد حاجی نامی فسٹ ائیر کا طالب علم خود پر بارہ بور رائفل سے فائر کرکے خودکشی کی کوشش کی ہے ۔ وجہ فسٹ ائیر میں ایک مضمون میں فیل ہونابتایا جارہاہے۔ جس کو زخمی حالت میں مقامی ہسپتال پہنچاکر ابتدائی طبی امداد دینے کے بعد پشاور ریفر کیا گیا ہے ۔ پولیس تینوں واقعات میں انکوائری کررہی ہے ۔ یادرہے کہ واقعہ پہلا واقعہ تورکہو ریچ کے مقام پر پیش آیا جہاں فسٹ ائیر کی طالبہ نے مبینہ طور پر کم نمبر آنے پر دلبرداشتہ ہوکر دریائے چترال میں چھلانگ لگاکر خودکشی کی ہے جسکی لاش کی تلاش جاری ہے ۔
دریں اثنا ریسکیو1122 چترال کی ٹیم کی طرف سے چترال شہرکے مقام پر دریا میں لاشوں کی تلاش جاری ہے ۔
Rescue operation by 1122 chitral 5

Rescue operation by 1122 chitral 3

Rescue operation by 1122 chitral 2

Rescue operation by 1122 chitral 1

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged , ,
12493

یتیم بچیاں اور ان کے مسائل…………تحریر: شہناز حرمت

Posted on

پاکستان کے شمال میں واقع گلگت بلتستان قدرتی حسن سے مالا خطہ ہے ۔اس علاقے میں بسنے والے اکثر لوگ مزدوری کر کے اپنی بچوں کا پیٹ پالتے ہیں اور انہیں تعلیم کے زیور سے آراستہ کرتے ہے۔گلگت بلتستان میں شرح خواندگی دیگر صوبوں کی نسبت بہتر ہے ۔غربت کے باوجود یہاں کے لوگ محنت مزدوری کر کے بھی اپنے بچوں کو جدید تعلیم سے آراستہ کرتے ہیں ۔لیکن افسوس سے کہنا پڑ تا ہے کہ اس علاقے میں کچھ ایسے بھی بچیاں ہے جو کہ والدین کی شفقت اور سائے سے محروم ہے جس کی وجہ سے وہ بنیادی ضروریات کے ساتھ ساتھ تعلیم سے بھی محروم رہ جاتے ہیں ۔ایسے بہت سارے یتیم بچیاں موجود ہے جو کہ سرپرستی نہ ہونے کی وجہ سے چاہتے ہوئے بھی تعلیم حاصل کرنے سے قاصر ہے ۔سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر لڑکوں کیلئے یتیم خانے موجود ہے لیکن لڑکوں کیلئے حکومتی و غیر حکومتی سطح پر کوئی موثر یتیم خانہ موجود نہ ہونے کی وجہ سے یتیم بچیاں بنیادی ضروریات کے ساتھ ساتھ تعلیم جیسی نعمت سے بھی محروم ہے ۔گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں میں کئی یتیم بچیاں موجود ہیں جو کہ چاہتے ہوئے تعلیم سے محروم ہے اور ساتھ ساتھ ذہنی پریشانیوں میں مبتلا ہو چکے ہیں ۔یہی ذہنی پریشانیاں انہیں خود کشی یا اور غلط کاموں کی طرف دھکیلنے پر مجبور کر دیتی ہے ۔ گلگت بلتستان میں بہت کم ایسے ادارے ہیں جو کہ ایسے مستحق بچیوں کی دیکھ بال اور موجودہ زمانے کے تقاضوں کے مطابق تعلیم کے سہولیات فراہم کرتے ہیں ۔ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہم سب کو یتیموں کے حقوق کا خیال رکھنا چاہئے لیکن صد افسوس ہم اتنے خود غرض ہو چکے ہے کہ اپنے ذات کے علاوہ کسی کا نہیں سوچتے ۔ گلگت بلتستان میں کئی مخیر حضرات موجود ہے جو اگر اپنی ایک دن کی کمائی بھی ان غریب بچیوں کے تعلیم کیلئے مقرر کریں تو شائد اس ایک دن کا معاوضہ ان بچیوں کی زندگی سنوار دیں ۔
’’ اپنے لئے تو جیتے ہیں سب اس جہاں میں
ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا‘‘
گلگت میں حکومتی سطح پر یتیم بچوں کیلئے کوئی معیاری یتیم خانہ نہیں جہاں پر یتیموں کی پرورش اور ان کی تعلیم کا بندوبست ہو سکے ۔یہاں پر ایک پرائیوٹ یتیم خانہ ہے جہاں پر جگہ محدود سائل کی وجہ سے بچیوں کا داخلہ ممکن نہیں ۔حکومت کی طرف سے ایک سویٹ سوم کے نام سے یتیم خانہ ہے وہاں پر صر ف لڑکوں کو داخلہ دیا جا تا ہے لیکن بچیوں کیلئے کوئی انتظام نہیں۔غیر مناسب انتظامات کی وجہ سے یتیم بچیاں انتہائی مشکل حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور ان میں زیاد ہ لڑکیوں کی کمی عمری میں شادی کی جاتی ہے جو کہ ان کیلئے انتہائی خطرے کا باعث بن سکتا ہے ۔کم عمری میں زبردستی شادیوں کے باعث ان کی زندگی پر برے اثرات مرتب ہو جاتے ہیں ایسے کئی واقعات رونما بھی ہو چکے ہیں ۔نبی کریم ؐ کا فرمان ہے کہ’’ یتیموں کی کفالت کرنا عبادت ہیں ‘‘ یقیناًاسلام میں یتیموں کی مدد کو نیک اعمال میں شمال کیا جاتا ہے ۔مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہم سب پر فرض ہے کہ ہم یتیموں کے حقوق کا خاص رکھیں ۔نبی کریم ؐ کا ۔حضور ؐ نے فرمایا’’ یتیموں کی کفالت کرنے والا قیادت کے دن میرے ساتھ ایسے ہونگے جیسے ہاتھ کی دو انگلیاں‘‘ مجھے اُمید ہے کہ اس کالم کو پڑھنے والے ایک مرتبہ ضرورت ان یتیم بچیوں کے حوالے سوچنے پر مجبور ہونگے اور اپنے حصے کا کردار ادا کرینگے اور ارباب اختیار کوبھی ضرور ان یتیم بچوں کے حوالے سوچنا چاہئے۔اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے جتنے بھی یتیم بچے ہیں پر وردگار عالم ان کے مشکلات میں کمی واقع کرے اور ہم سب کو یتیموں کا حق ادا کرنے اور ان کی مدد کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو ۔پاکستان زندہ باد

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, گلگت بلتستان, مضامینTagged
12487

سیاحت کے فروغ کیلئے پرائیوٹ سیکٹرکی کوششیں بار آور ثابت ہونگی۔پیر کرم علی شاہ

Posted on

اشکومن(کریم رانجھا) سیاحت کے فروغ کے لئے ایک اور سنگ میل،سابق گورنر پیر کرم علی شاہ نے پرائیوٹ سیکٹر میں بننے والے’’ ہوٹل بام دنیا‘‘ کا باقاعدہ افتتاح کردیا،اس موقع پر خوبصورت تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں سابق گورنر کے علاوہ ڈپٹی کمشنر غذرشجاع عالم پیرزادہ،اسسٹنٹ کمشنر پونیال ،اشکومن کیپٹن(ریٹائرڈ) ثناء اللہ ،سابق اے سی گوپس صفت خان ،ڈپٹی ڈائریکٹر زراعت مظفر ولی سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے ہوٹل کے منیجنگ ڈائریکٹر شہزادہ حسین جان کا کہنا تھا کہ وادی اشکومن میں سیاحوں کے لئے اعلی معیار کے ہوٹل کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے اس پراجیکٹ کا آغاز کیا تھا اور ایک سال کی قلیل مدت میں ہوٹل کی تعمیر مکمل کی گئی ہے،علاقے میں رہائش کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے سیاحوں کو کافی مشکلات درپیش تھیں اور رات گزارنے کے لئے ٹوریسٹ کو گاہکوچ یا گلگت جانا پڑتا تھا،اب الحمدلاﷲاس ہوٹل کی تعمیر سے سیاحوں کو علاقے میں گھر جیسا ماحول ملے گا۔افتتاح کے کوقع پر پرتکلف ضیافت کا اہتمام کیا گیا تھا۔ضیافت کے اختتام پر سابق گورنر پیر کرم علی شاہ نے دعائے خیر کرائی اور امید ظاہر کیا کہ علاقے میں سیاحت کے فروغ کے لئے پرائیوٹ سیکٹر میں کی جانے والی کوششیں بار آور ثابت ہونگی۔
gazr pir karam ali shah

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستانTagged
12389

پاک آرمی، ضلع انتظامیہ اورآغاخان ایجنسی برائے ہیبیٹاٹ نے گاہکوچ کے متاثرین کو امداد فراہم کی

Posted on

گلگت( چترال ٹائمز رپورٹ ) بدسوات اور بلہانز میں GLOF سے تباہکاری کے بعد آغاخان ڈیولپمنٹ نیٹ ورک کی ایجنسیوں سمیت شجاء عالم ، ڈپٹی کمشنر ، غذر نے متاثرہ علاقہ کا دورہ کیا جہاں Aga Khan Agency for Habitat کے Emergency Department کی مدد سے ضرور ت کی اشیاء ، ادویات ، ٹینٹ ، کمبل وغیرہ ہنگامی بنیاد پر فراہم کیے۔ شجاع عالم نے متاثرین سے بات کرتے ہوئے کہا ، ’’ حکومت، پاکستان آرمی، آغاخان ڈیویلپمنٹ نیٹ ورک کی ایجنسیاں اور سول سوسائٹی ادارے مل کر متاثرین کی امداد کے لئے کام کر رہی ہیں ۔ پاکستان آرمی اور AKDN کے ہیلی کاپٹروں کی مدد سے سیلاب کے باعث منقطع علاقوں میں امداد فراہم کی جارہی ہے۔‘‘ 5000 کلو سے زائد کھانے کی اشیاء، کمبل ، ٹینٹ اور ادویات متاثرہ خاندانوں تک پہنچائی جا چکی ہے۔
ڈائمنڈ جوبلی اسکول بلہانز میں عارضی کیمپس بھی بنائے گئے ہیں جہاں آغاخان ہیلتھ سروس کے میڈیکل ماہرین 24گھنٹے متاثرین کی مدد میں مصروف عمل ہیں۔ Community Emergency Response Team (CERT) کے خطرے کی کمی سے متعلق بیداری کے عمل سے تقریباً 120 گھرانوں کو تباہ کاری سے قبل بچا لیا گیا۔ سیلا ب سے ان گھرانوں میں 40 گھر مکمل متاثر ہوئے مگر کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستانTagged
12372

آغاخان ہائیر سیکنڈری سکول کوراغ کے طالبات کی شاندار کارکردگی

Posted on

چترال (چترال ٹائمز رپورٹ )‌ آغاخان یونیور سٹی ایگزامینیشن بورڈ کراچی کے ایس ایس سی اور ایچ ایس ایس سی کے سالانہ امتحان منعقدہ 2018ء میں آغاخان ہائیر سکنڈری سکول کوراغ کی طالبات کی شاندار کارکردگی
آغاخان یونیورسٹی ایگزامینیشن بورڈ کراچی نے گزشتہ دن تعلیمی سال 18۔ 2017ء کے سالانہ امتحان کے نتائج کا اعلان کردیا۔ آغاخان یونیورسٹی ایگزامینیشن بورڈ کے زیر اہتمام منعقدہ مئی 2018ء کے ایس ایس سی اور ایچ ایس ایس سی کے امتحانات میں آغاخان ہائیر سکنڈری کوراغ کی ایس ایس سی کی اسی ایک سو انیس (119) جبکہ ایچ ایس ایس کی تہتر (73) طالبات شامل ہوئی تھیں ۔ امتحانات میں شامل ہونے والی ایس ایس سی پارٹ ۔Iکی ننانوے فیصد(٪99) اور ایس ایس سی کی سوفیصد(100%)طالبات نے کامیابی حاصل کی ۔ جبکہ ایچ ایچ ایس سی پارٹ ۔I اور پارٹ ۔IIکی سو فیصد100 %)) طالبات کامیاب رہیں۔ ایس ایس سی پارٹ I- کی اٹھتر (78) طالبات میں سے چونسٹھ(64)نےA+ اورA گریڈ میں پاس ہوئیں ۔ایس ایس سی پارٹ I-کی انارہ تانیہ حسین دختر گل حسین نےبانوے اشاریہ نو(92.9%)نمبرلے کر پہلی پوزیشن حاصل کی۔ انارہ تانیہ حسین بیالوجی کے پرچے میں سو فیصد نمبر لے کر آغاخان یونیورسٹی ایگزامینیشن بورڈ کے سبجیکٹ ہائی ایچیورس (Subject high achievers) میں بھی شامل ہوئی۔
الوینہ محمد خان دختر محمد خان(مرحوم )نےاکانوے اشاریہ آٹھ(٪91.8)نمبر لے کر دوسری جبکہ عالیہ فرح غفار دخترعبدالغفار نے اکانوے اشاریہ تین فیصد (91.3%)نمبر لے کر اپنی کلاس میں تیسری پوزیشن حاصل کی ۔ اس طرح جماعت نہم کے تعلیمی معیار کی اوسط شرح چھیاسی فیصد(٪86)رہی ۔ ایس ایس سی پارٹ II- کی اکتالیس(41) طالبات میں سےسینتیس (37) نے A+اور A گریڈ میں پاس ہوئیں۔ اس کلاس کی ناذیہ مہوش دختر حاجی خان نے اٹھاسی اشاریہ تین فیصد (88.3%) نمبرلے کر پہلی ، عجمہ صدیقی دختر صادق الرحمٰن نے اٹھاسی (٪88)فیصد نمبر لے کر دوسری جبکہ تحسین الرحمٰن دختر حمید الرحمٰن نےستاسی اشاریہ چھ فیصد(٪87.6)نمبر لے کر اپنی کلاس میں تیسری پوزیشن حاصل کی۔ جماعت دہم کے تعلیمی معیار کی اوسط شرح ااٹھاسی فیصد (٪88) رہی۔
ایچ ایس ایس سی پارٹ-Iکیاکتیس (31) طالبات میں سے پچیس (25) نے A+ اور A گریڈ میں پاس ہوئیں ۔ اسی کلاس کی بشیرہ سعید دختر سعیداللہ نے نواسی اشاریہ آٹھ فیصد(89.8%)نمبر لے کر پہلی ، حمیرہ رحیم دختر رحیم اللہ نے چھیاسی اشاریہ چھ فیصد(86.6%)نمبر لے کر دوسری جبکہ فریال نایاب دختر گل نایاب خان نے چھیاسی فیصد (٪86)نمبر لے کر اپنی کلاس میں تیسری پوزیشن حاصل کی ۔اس کلاس کے تعلیمی معیار کی اوسط شرح اسی فیصد (٪80) فیصد رہی۔
ایچ ایس ایس سی پارٹ ۔II کیبیالیس(42) طالبات میں تیس(30) نے A+ اور A گریڈ میں پاس ہوئیں ۔ اس کلاس حرا ناز دختر گل عجب خان اٹھاسی اشاریہ چار فیصد (88.4%)نمبر لے کر پہلی ، نصرت جہاں دختر عبدالمراد نےپچاسی فیصد (٪85)نمبر لے کر دوسری اور وسیمہ ناز دختر فرمان علی نےچوراسی اشاریہ چھ فیصد(84.6%)نمبر لے کر اپنی کلاس میں تیسری پوزیشن حاصل کی۔ اس کلاس کے تعلیمی معیار کی اوسط شرح تیراسی فیصد(٪83)رہی۔
آغاخان ہائیر سکنڈری سکول کوراغ کی پرنسپل سلطانہ برہان الدین اور اساتذہ نے طالبات کی شاندار کامیابی پر انھیں خراج تحسین پیش کیا اور کہا کہ طالبات معیاری تعلیم حاصل کرنے ساتھ شائستگی ،بردباری اور حلیمی کو اپنا شعار بنائیں کیونکہ اخلاقی اقدارکی پاسداری کے بناء ایک طالب علم کی شخصیت مکمل نہیں ہوتی۔

Posted in تازہ ترین, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
12369

چترال کے تین مقامات پر ٹورسٹ کیمپنگ سپاٹ تعمیر کئے جائنگے….مشتاق احمد

Posted on

چترال ( نمائندہ چترال ٹائمز ) منیجنگ ڈائریکٹر ٹورازم کارپوریشن خیبر پختونخوا مشتاق احمد نے کہا ہے کہ چترال میں سیاحت کی ترقی کیلئے پچاس کروڑ روپے خرچ کئے جارہے ہیں ۔ جس میں ٹورسٹ فسلٹیشن سنٹر قائم کرنے کے ساتھ تین مختلف مقامات پر ٹورسٹ کیمپنگ سپاٹ بنائے جائیں گے ۔ جن میں برموغ لشٹ، کالاش ویلی اور مستوج کے علاقے شامل ہیں۔ چترال کے مقامی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ تینوں مقامات کیلئے تیار کمرے درآمد کئے جارہے ہیں ۔ جس میں سیاحوں کیلئے تمام سہولیات میسر ہونگے ۔ جبکہ ان مقامات پر جیب ایبل ٹریکس ، کیمپنگ پارک و دیگر سہولیات بھی زیر غور ہیں ۔ انھوں نے مذید بتایا کہ جس طرح ناران، کالام ، نتھیا گلی، مالم جبہ وغیرہ میں ٹورزم کی ترقی کیلئے اقدامات اُٹھائے گئے ہیں اسی طرح چترال میں بھی سیاحت کو فروع دینے کیلئے مثبت کام کریں گے ۔ تاکہ یہاں پر سیاحت کی ترقی کے ساتھ روز گار کے مواقع بھی میسر آسکے۔ جبکہ چترال میں سیاحت کا مستقبل روشن اور درخشان ہے ۔ یہاں سیاحوں کو سہولیات میسر ہونے کی صورت میں مذید سیاح چترال کا رخ کریں گے ۔
شندور فیسٹول کے دوران آٹھ ممالک کے ایمبسڈر چترال آئے تھے ۔ اور بیرونی سیاحوں نے فیسٹول سے لطف اندوز ہوئے۔ انھوں نے زور دیکر کہا کہ سی پیک روٹ چترال سے گزر رہا ہے ۔ ہمیں اپنے اقدار کے اندر رہتے ہوئے ترقی کرنی ہے ۔ اور اپنے کلچر کو ہر صورت بچانا ہوگا۔

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
12349

لا سپور پولو ٹیم چترال کے دوسری ٹیموں کے ساتھ سوتیلی ما ں جیسا سلوک بند کیا جائے…سردار احمد

Posted on

جشن شندور کی تاریخ میں اس سال لاسپور اور غذر کے ٹیم مہما ں خصوصی نگران وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا جسٹس (ر) دوست محمد خان صاحب نے جیتنے والے ٹیم کو دس لاکھ کا انعام اعلان کیاتھا جو کہ پوری ضلعی انتظامیہ کی موجودگی میں ہوا تھا۔جس میں نہ چترال Aٹیم کا ذکر تھا نہ چترال B ٹیم کا ذکر کیا تھا۔مہمان خصوصی کے الفاظ ریکارڈ میں ہیں۔جس میں 7 جولائی کو کھیلے گئے ٹیموں کا ذکر ہیں،سب ڈویژں مستوج اور چترال D اس میں شامل ہیں۔ اب جبکہ ہمیشہ کی طرح لاسپور کی ٹیم کے ساتھ چترال کے دوسری ٹیموں کے ساتھ سوتیلی ماں کا سلوک کیا جا رہا ہے۔لاسپور ٹیم کی جائیز حق ان سے چھینے کی کوشش کی جا رہے ۔

جبکہ شندور میں ہر میچ اپنی نوعیت کا فائینل میچ ہوتا ہے ہر ٹیم چترال ہی کی نمایندگی کرتی ہے یہ شندور کی تاریخ میں ہمیشہ کی طرح اس بار بھی سازش ہو رہاہے کہ ایک ٹیم کی مہمان خصوصی کے اعلان کردہ انعامات کو بازورشمشیر دوسرے ٹیم کو دیا جا رہاہے جوکہ سراسر نہ انصافی حق تلفی کی انتہا ہے۔ اس سازش کو ہم ہر گز کامیاب ہونے نہیں دین گے ہمیں ہمارا جائیز حق ادا کیا جائے ، اگر لاسپور کی ٹیم کے ساتھ یہ رویہ جاری رہا تو ہم دوسری ٹیموں کے ساتھ عدلیہ کا روخ کرینگے اور ساتھ اگلے سال نہ لاسپور کی ٹیم جشن شندور میں شرکت کرے گی اور نہ غذر کے ٹیم شرکت کرے گی اور نہ ہم شندور میں دوسری ٹیموں کو کھیلنے دین گے۔لہذا ہم وقتی طور پر انتظامیہ کو اگاہ کرنا چاہتے ہیں۔اگر ان ٹیموں کو مطمین نہی کیاگیا تو اگلے سال حالات کی پوری ذمہ داری انتظامیہ پر ہو گی۔اگر اس ثقافتی و قومی کھیل کو بھی پیسہ بنانے کا ذریعہ بنایا گیا تو وہ دن دور نہی بہت جلد ہم اس کھیل کو کھو دین گے

سردار احمد خان یفتالیٰ
کپتان لاسپور پولو ٹیم

Posted in تازہ ترین, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
12340

اوپن یونیورسٹی کے خزان سمسٹر کے داخلے یکم اگست سے شروع ہونگے ..ڈائریکٹر

Posted on

Rafiullah
چترال( چترال ٹائمز رپورٹ ) علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے داخلے خزاں 2018سمسٹر یکم اگست2018سے سارے پاکستان اور ضلع چترال میں شروع ہونگے۔ یہ بات علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے ڈپٹی ریجنل ڈائیرکٹر رفیع اللہ خان کے دفتر سے جاری ایک پریس ریلیز میں‌کہا گیا ہے.۔داخلے میٹرک سے پی ایچ ڈی لیول تک ہونگے۔ضلع چترال کے تمام طلباء وطالبات کو مطلع کیا جاتا ہے کہ داخلہ لینے کے خواہشمندطلباء وطالبات بروقت اپنے داخلے کو یقینی بنائیں۔اس سمسٹرمیں پروفیشنل کورسز(اے ڈی ای، بی ایڈ نیواور ایم ایڈ )کے داخلے بھی ہونگے۔ داخلہ فارمز ریجنل آفس کے علاوہ دروش، بونی،گرم چشمہ ، مستوج، بریپ ، تورکہو، شاہگرام، او ر موڑ کہو کے سیل پوائینٹ میں بھی دستیاب ہونگے۔ اور داخلہ فارمز یونیورسٹی کے ویب سائٹ سے بھی ڈاؤں لوڈ کی جاسکتی ہے۔ مذید معلومات کے لئے ہماری ویب سائٹ www.aiou.edu.pk اور دفتری نمبروں پر رابطہ کر سکتے ہیں۔

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
12330

AKUایگزامینشن بورڈ نے ایس ایس سی اور ایچ ایس ایس سی کے سالانہ امتحانات کے نتائج کا اعلان کردیا ،

Posted on

AKU EB SSC HSSC High Achievers 2018
کراچی ( چترال ٹائمز رپورٹ ) آغا خان یونیورسٹی ایگزامینیشن بورڈ (اے کے یو۔ای بی) نے سال 2018 میں ہونے والے سیکنڈری اسکول سرٹیفیکیٹ (ایس ایس سی) اور ہائر سیکنڈری اسکول سرٹیفیکیٹ (ایچ ایس ایس سی) کے سالانہ امتحانات کے نتائج کا اعلان کر دیا۔ دونوں امتحانات میں اول دوم اور سوم پوزیشنز کے ساتھ طالبات نے برتری حاصل کی ہیں۔ایس ایس سی امتحانات میں کامیابی کی مجموعی شرح 95.1 فیصد رہی جس میں 73.8 فیصد طلبا نے B گریڈ یا اس سے بہتر گریڈ حاصل کیا۔ مریم صدیقہ گرلز ہائر سیکنڈری اسکول، پنجاب کی مایا احمد نے ایس ایس سی امتحانات میں شاندار انداز سے 1100 میں سے 1033 مارکس ( 94.27 فیصد ) حاصل کرتے ہوئے اول پوزیشن حاصل کی ہے۔ مایا احمد نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا، “آج کا دن میرے لیے بے پناہ خوشی اور مسرت کا حامل ہے۔ میں اس موقعے پر اپنے والدین، بہن، اسکول کی پرنسپل اور اساتذہ کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گی جنہوں نے میری بھرپور معاونت کی۔ میں اے کے یو۔ای بی کی بھی بے حد مشکور ہوں کہ انھوں نے مجھے ‘سمجھ اور فہم’ کے ساتھ ساتھ ‘علم کے حصول’ کے معانی سے آشنا کیا!”
پی ای سی ایچ ایس گرلز اسکول، کراچی کی یمنی خبیر نے ایس ایس سی امتحانات میں 1100 میں سے 1019 مارکس ( 92.64 فیصد) حاصل کر کے دوم پوزیشن حاصل کی جبکہ المرتضی اسکول، کراچی کی زہرہ عباس نے 1100 میں سے1010 مارکس ( 91.82 فیصد) حاصل کر کے دوم پوزیشن حاصل کی۔
ایچ ایس ایس سی امتحانات میں کامیابی کی مجموعی شرح 95.5 فیصد رہی جس میں 77.1 فیصد طلبا نے B گریڈ یا اس سے بہتر گریڈ حاصل کیا۔نصرت جہاں کالج، پنجاب کی مریم احسان نے ایچ ایس ایس سی امتحانات میں شاندار انداز سے 1100 میں سے 1018 مارکس ( 92.55 فیصد )حاصل کرتے ہوئے اول پوزیشن حاصل کی ہے۔ آغا خان ہائر سیکنڈری اسکول ، کراچی کی طالبات فریحہ ہاشمی اور علینہ فاطمہ نے 1100 میں سے بالترتیب 1013 اور 1010 مارکس حاصل کر کے دوم اور سوم پوزیشنز حاصل کیں۔ علینہ فاطمہ نے ایچ ایس ایس سی پری میڈیکل گروپ ہائی اچیورز میں 600 میں سے 570 مارکس حاصل کر کے سوم پوزیشن بھی حاصل کی۔

اے کے یو۔ای بی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر شہزاد جیوا نے تمام طلبا کو دل سے مبارکباد دیتے ہوئے کہا، “اے کے یو۔ ای بی ایک مقامی بورڈ ہے جو قومی تعلیمی معیار میں بہتری اور معیاری امتحانی جانچ کی فراہمی کے لیے مصروف عمل ہے۔ ہمارے طلبا کی کامیابی اس امر کی ضمانت ہے کہ ہم اپنے مشن میں کامیاب ہو رہے ہیں۔ میٹرک اور انٹر میڈیٹ کے لیے اے کے یو۔ای بی کے امتحانات پاکستان کے امتحانی نظام میں بہتری کی لیے اعتماد فراہم کرتے ہیں۔ اے کے یو۔ای بی کے ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر، اسیسمنٹ ڈاکٹر نوید یوسف نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ یہ نتائج کئی اعتبار سے ہماری کامیابی کامظہر ہیں۔ پاکستان بھر کے مختلف طلبا کے بہترین مارکس سے اس امر کی عکاسی ہوتی ہے کہ پاکستان بھر کے طلبا اپنے معیار کو بلند کررہے ہیں۔ کراچی کے ساحلوں سے لے کر گلگت۔بلتستان کے پہاڑوں تک کے طلبا، ان کے اساتذہ اور اداروں سے میں یہ کہنا چاہوں گا کہ آپ نے اپنا آپ ثابت کر دکھایا ہے۔

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
12320

پانچواں انٹرپرینیور خواتین تجارتی میلہ 7جولائی کو پشاور میں منعقد ہوگا، 8جولائی تک جاری رہیگا

Posted on

پشاور(چترال ٹائمز رپورٹ ) ٹورازم کارپوریشن خیبرپختونخوا کے تعاون اور ویمن چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری پشاور کے زیراہتمام 5واں انٹرپرینیور خواتین تجارتی میلہ 7اور 8 جولائی کو پالم مارکیو یونیورسٹی روڈ پر منعقد ہوگا جس میں خواتین کے ہاتھوں سے بنی اشیاء ، آرٹ اینڈ کرافٹ ، دستکاری ، کپڑے ، شال ، ثقافتی کھانے ، فوڈ، چارسدہ چپل ، پھلکاری کا کام ، موتیوں کا کام اور دیگر مختلف سمیت 50سے زائد سٹالزلگائے جائینگے ، تجارتی میلے میں خواتین اور فیمیلز کو شرکت کی اجازت ہو گی میلہ دو روز تک جاری رہے گا جس میں صبح 11سے رات 11تک خواتین اور فیمیلز لطف اندوز ہوسکیں گی ،5ویں انٹرپرینیور خواتین تجارتی میلے کے انعقاد کا مقصدصوبہ خیبرپختونخوا اور ملک بھر سے ہنر مند خواتین کو پلیٹ فارم مہیا کرنا ہے تاکہ وہ ہنر مند خواتین جو اپنے گھروں میں بیٹھ کر اپنے ہنر کو باہر نہیں لا سکتیں تو اس پلیٹ فارم کے ذریعے اپنے ہنر کوسامنے لائیں اور دنیا میں اپنا نام کما سکیں ، ان خواتین کے ہاتھوں کی بنی دستکاری اشیاء کی رونمائی وقت کی ضرورت ہے ، صوبہ خیبرپختونخوا سمیت کراچی ، فیصل آباد ،ملتان اور دیگر شہریوں سے خواتین اس تجارتی میلے میں شرکت کررہی ہیں جس میں خواتین سوات کی شالز، کراچی کے موتیوں کے کام والے کپڑے ، سوات کی شالز، دستکاری اشیاء، ہری پور کی پھلکاری اشیاء، مردان کے پیڑے ، فوڈ سٹالز، مختلف انڈسٹریز کے سٹالز، کارپوریشنز ، ٹورازم انفارمیشن سنٹر اور دیگر سٹالز توجہ کا مرکز ہونگے ، تجارتی میلے کے آخری روز موسیقی محفل کا بھی انعقاد کیا جائے گا جس میں ثقافتی موسیقی کی محفل منعقد ہو گی ۔

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
12319