وادی اویر…..جانے کس جرم کی پائی ہے سزا…….تحریر: ظہیر الدین
فوٹوز:عزیز
چترال کی ضلعی ہیڈ کوارٹرز سے ڈیڑھ گھنٹے بونی روڈ پر ڈرائیوکے بعد ایک خستہ حال پل سے گزر کر اویر گاؤں میں داخل ہونے کے بعد ساغر صدیقی یہ شعر گنگناتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ اہالیان اویر سے آخر کون سا جرم سرزد ہوا ہے جس کی بناپر سزائے مسلسل کاٹ رہے ہیں اور اکیسویں صدی عیسوی میں بھی وہ بنیادی سہولیات سے یکسر محروم ہیں۔ سڑک کے نام پر سرکس کا کھیل ‘موت کاکنواں’موجود ہیں اور تریچمیر کی چوٹی سے بلند عزم رکھنے والے اس کے باسی ابھی تک شکوے کے الفاظ اپنی لبوں میں نہیں لائے اور ہر لمحہ جان بکف ان پگڈنڈیوں پر سفر کرتے ہیں، علاج معالجے کے لئے ہسپتال کی عمارت کھنڈر میں بدل گئی ہے، خصوصا خواتین کی بڑی تعداد بچوں کی پیدائش کے دوران طبی امداد نہ ملنے اور دشوار گزار راستوں سے چترال کے ہسپتالوں تک پہنچانے سے پہلے ہی سے ہلاک ہو جاتی ہیں مگر صبر وشکر کے یہ خوگر کبھی بھی نازیبا الفاظ لبوں پر نہیں لائے،بارہ ہزار کی آبادی میں بچیوں کے لئے ایک بھی سکول نہیں،زندگی کی وہ کونسی سہولت ہے جو اس الگ تھلگ وادی میں رہنے والوں کو میسر ہیں۔ روز محشر میں اکیسویں صدی کی اویر کے لئے میں اپنے رب کے ہاں گواہی دوں گا کہ تو نے جس کو حکومت دے دی تھی ، انہوں نے ترے ان کم امیز اور دل اویز بندوں کے لئے کچھ نہیں کیاتھاجبکہ اپنے لئے کھربوں روپے مالیت کے اورینج لائن سے لے کر میٹرو بس تک بنائے تھے۔
چترال پریس کلب نے اس علاقے کے مسائل کو اجاگر کرنے کے لئے جب پریس فورم منعقد کرنے یہاں پہنچ گئے تو مسائل کا تریچمیر سامنے موجود پایا تو یہاں کے رہنے والوں پر ٹوٹ ٹوٹ کر ترس آیا ۔ سابق یونین ناظم اور اس وقت لوکل سپورٹ آرگنائزیشن کے چیرمین اسلام اکبر الدین کو گاؤں کے شروع میں اپنا منتظر پایا جس کے حکم پر ہم ریری پائین میں اپنے بھائیوں سے ملے جن کی نمائندگی کرتے ہوئے محی الدین نے کہاکہ چھنی روڈ کی تعمیر کی وجہ سے ملبہ مسلسل نالے میں گرجانے وجہ سے یہ علاقہ سیلاب کے خطرے میں ہے ۔ انہوں نے چھنی کے لئے ایریگیشن چینل کی تعمیر، پبلک ہیلتھ انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ کے ابنوشی کے منصوبے کی درستگی کا بھی مطالبہ کیا جس میں غیر ضروری دیہات کو شامل کئے جارہے ہیں جوکہ اس میں شامل ہی نہ تھے۔ ریری بالا میں بھی عوام کا ایک اجتماع ہمار امنتظر تھا ۔ چترال سکاوٹس کے ریٹائرڈ صوبیدار مطیع الرحمن نے کہا کہ ریری ایک زر خیز گاؤں ہے ۔ لیکن زیر زمین پانی کی وجہ سے گاؤں مسلسل سلائڈنگ کا شکار ہو رہا ہے ۔ اور علاقے کی تما م آبادی غیر محفوظ ہو چکی ہے ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ اس سلسلے میں ایک این جی او نے سروے بھی کیا ہے ۔ جس کے تحت اگر اس پانی کیلئے مناسب انتظام کیا جائے ۔ تو علاقے کو بچایا جا سکتا ہے ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ زیر زمیں پانی کے منبع کو دریافت کر لیا گیا ہے ۔ لیکن حکومتی سطح پر اس پر کام کئے بغیر مقامی لوگوں کے بس کی بات نہیں ، انہوں نے مطالبہ کیا ۔ کہ پانی کو زیر زمین جانے سے روک کر اگر زمین کے اوپر لایا جائے ۔ تو گاؤں میں پانی کی کمی بھی پوری ہو گی ۔ اور سلائڈنگ سے بھی گاؤں کو مستقل نجات مل جائے گی ۔ انہوں نے دون ائریگیشن چینل پر دوبارہ کام شروع کرنے کا مطالبہ کیا ۔ جس پر 75لاکھ روپے خرچ روپے پہلے خرچ ہو چکے ہیں ۔
بروم کے مقام پرپریس فورم میں اسلام اکبر الدین کے علاوہ سبحان الدین، ناصر علی شاہ، امیر خان، نذیر خان ، یحیٰ علی خان، حیات الرحمن،پختون غازی ایڈوکیٹ، حیدر علی خان، شمس الرحمن، عبدالمجید المعروف جان اور دوسروں نے مسائل بیان کیا ۔ انہوں نے ڈی سی کی طرف سے اویر کے مقام پر کھلی کچہری منعقد نہ کرنے پر افسوس کا اظہار کیاجبکہ دوسرے کئی علاقوں میں اس کا انعقاد ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھاکہ اویر اپنی قدرتی حسن اور جعرافیائی محل وقوع کی وجہ سے سیاحت کا گڑ ھ بن سکتا ہے جس کے لئے سڑک کا ہونا اولین شرط ہے ۔ شاہ برونز میں ڈسپنسری کی قابل رحم حالت زار کی طرف بھی توجہ دلائی گئی جبکہ70 لاکھ روپے کی لاگت سے پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کی واٹر سپلائی اسکیم کے بارے میں بھی شکایات سامنے آئے ۔ اسی طرح شاہ برونز کے سیل پوائنٹ میں گندم کی عدم دستیابی کا بھی ذکر ہوا۔ بروم میں ہائر سیکنڈری سکول کا گراونڈ 2015ء میں سیلاب برد ہونے کے بعد آدھے حصے سے محروم ہے اور نالے کے پانی کو پرانی جگہ divertکرکے اسے بحال کیا جاسکتا ہے۔ بروم سے آگے دیہات کی طرف جاتے ہوئے بیغ گاؤں کے مقام پر جیپ ایپل کی انتہائی خستہ حالی کا بھی نظارہ ہوئے جس کے شہتیر ٹوٹ چکے ہیں اور لوڈ بردار گاڑی کے نیچے کسی بھی وقت گرنے کا خدشہ موجود ہے۔ شاہ برونز میں قائم ڈسپنسری دکان کے ایک چھوٹے کمرے میں قائم ہے جبکہ دوسرے کمرے کا چھت گرگئی ہے۔
سطح سمندر سے 9500فٹ بلند شونگوش کے مقام پر پریس فورم کا چوتھا سیشن منعقد ہوا جس میں قاری لطیف اللہ ، حضرت عمر، ماسٹر نظام الدین، مولانا صاحب الدین، سردار الرحمن، حبیب الدین، حجیب الدین ، حبیب الاسلام اور دوسروں نے مسائل کا ذکر کیا۔ اس مقام پر اسلام اکبر الدین نے وادی کی زبون حالی کا ذکر مختصر الفاظ میں کرتے ہوئے کہاکہ دنیا میں وہ مصیبت، تکلیف اور مسئلہ جوکہ اویر میں نہیں ہے اور وہ سہولت ابھی تک پیدا نہیں ہوا جوکہ اویر میں بھی دستیاب ہے۔ اس موقع پر بی ایچ یو کے عمارت کی طرف توجہ دلائی گئی جوکہ 2015ء کے زلزلے میں زمین بوس ہوگئی ہے اور اب کھنڈر میں بدل گئی ہے اور ڈاکٹر نام سے اس وادی کے لوگ آشنا نہیں ہوئے اور اس ہسپتال کو صرف ایک میڈیکل ٹیکنیشن چلارہے ہیں۔ انہوں نے ہسپتال کے لئے ایمبولنس کی فراہمی کا مطالبہ کیا تاکہ شدید مریض یا زخمی کو چترال ہسپتال پہنچایا جاسکے۔ گورنمنٹ ہائی سکول شونگوش کا مڈل پورشن بلڈنگ زلزلے سے منہدم ہے جن کی بحالی کے لئے کوئی قدم اب تک محکمہ ایجوکیشن نے نہیں اٹھائی۔ انہوں نے موژین گاؤں میں بھی پبلک ہیلتھ انجینئنرنگ کے واٹر سپلائی اسکیم کے ناقص ہونے کی شکایت کی۔ پختوری گاؤں کے لئے 22ہزار فٹ طویل سائفن ایریگیشن اسکیم کا بھی مطالبہ سامنے آیا۔ اسی طرح علاقے میں ایل ایچ ڈبلیو کی کمی کو بھی پوراکرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ پاپولیشن ویلفیر سنٹر قائم ہونے کے باوجود یہاں اسٹاف کی مسلسل غیر حاضری کی شکایت بھی سامنے آئی۔ اسی طرح شونگوش اور پختوری گاؤں میں دو پلوں کی تعمیر اور ایک نئے مقام پر پل کی تعمیر کا مطالبہ کیا گیا۔
اویر کے چاروں مقامات پر جن مسائل پر سب سے ذیادہ زور دئیے گئے ، ان میں زنانہ ہائی سکول کا قیام، سڑک کی تعمیر، وادی کی مرکزی مقام پر ایک بیسک ہیلتھ یونٹ کا قیام، محکمہ خوراک کے گودام میں گندم کااسٹاک موجود نہ ہونا ، اویر وادی میں وٹرنری ڈسپنسری کاقیام ، محکمہ زراعت کے فیلڈ اسسٹنٹ کے دفترکا قیام، ٹیلی نار موبل فون سروس کو بہتر بنانا کے لئے اس کے ایک ٹاؤر کو چالو کرنا شامل تھے۔ چاروں مقامات پر علاقے کی مجموعی صورت حال کا خاکہ پیش کرتے ہوئے کہاگیاکہ قیام پاکستان سے لے کر آج تک علاقہ اویر حکومت کی نظروں سے اوجھل رہا ہے ۔ اور کوئی بھی سرکاری ذمہ دار آفیسر علاقے کے مسائل کا جائزہ لینے تاحال اویر نہیں آیا ۔ جس کی وجہ سے اویر وادی پوری دُنیا میں پسماندگی اور دور افتادگی کی مثال پیش کر رہا ہے ۔ اور اس تمام پسماندگی کی بنیادی وجہ خستہ حال اور پُر خطر سڑکیں ہیں ۔ جنہیں بار بار مطالبات کے باوجود بہتر بنانے پر توجہ نہیں دی جاتی ۔ انہوں نے کہا کہ عوامی نمایندگان اس علاقے سے ووٹ حاصل کرتے ہیں ۔ اور پھر مُڑ کر بھی اس کی طرف نہیں دیکھتے ۔ اور حکومتی آفیسران کی سرد مہری اس پر مزید کام کرتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ سڑکوں کی خراب حالت سے عیاں ہے ، کہ چترال شہر سے اویر کے بالائی دیہات تک 70کلومیٹر کے فاصلے پر 300سے 500روپے فی کس کرایہ وصول کیا جاتا ہے ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ علاقے میں خشک سالی کی وجہ سے فصلیں مکمل طور پر خراب ہوئی ہیں ۔ اس کے باوجود محکمہ فوڈ کی طرف سے گندم کی مختلف سیل پوائنٹ پر فراہمی تاحال نہیں ہوئی ۔ جبکہ سردیاں سر پر ہیں ۔ اور بارش و برفباری کے بعد گندم کی ترسیل ممکن نہیں ہو گی ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ یہ افسوس کا مقام ہے کہ پوری اویر وادی میں ایک بھی گرلز ہائی سکول نہیں ہے ۔ جبکہ مرادنہ ہائی سکول اور ہائر سکینڈری سکول میں طالبات کی تعداد طلباء سے زیادہ ہے ۔ اور لڑکیاں مخلوط تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں ۔ جبکہ مذہبی پہلوسے بھی مخلوط تعلیم مناسب نہیں ہے ۔ انہوں نے اویر میں بچیوں کیلئے ہائی سکول کی تعمیر کا مطالبہ کیا ۔ انہوں نے تریچ اویر روڈ اور چار پُلوں کی تعمیر کو سی پیک سے نکالنے اور این ایچ اے کی عدم دلچسپی پر انتہائی تشویش کا اظہار کیا ۔