Chitral Times

نوائے سُرود – تقدیر – شہزادی کوثر

نوائے سُرود – تقدیر – شہزادیکوثر

لغت کے اعتبار سے تقدیر کا مطلب بخت ،بھاگ، قسمت،قدر ،فیصلہ ،مقدر،مشیت اور نصیب کے ہیں،جبکہ شرعی اصطلاح میں یہ اللہ پاک کا وہ علم ہے جو اس کائنات اور مخلوقات کے بارے میں اس کے وجود میں آنے سے پہلے طے کیا جا چکا ہوتا ہے۔وہ اندازہ قدرت و فطرت جو اللہ نے ہر چیز کے مادے میں رکھ دیا ہے۔ تقدیر کے محور میں ہر چیز محو گردش ہے ۔اسی چکر میں ہی عمر بیت جاتی ہے ۔حضرت علی مرتضیٰ کا قول ہے کہ تقدیر وہ سمندر ہے جس کی گہرائی کی کوئی انتہا نہں ۔۔ انسان کا ہر عمل اسی محور میں گھومتے ہوئے انجام پاتا ہے،لیکن انسان اس معاملے میں لا چار ہرگز نہیں اس کی تقدیر کا آدھا حصہ اس کے اپنے ہاتھ میں ہے۔( یہاں میری مراد تقدیر معلق سے ہے۔) وہ ذرائع،وسائل، مواقع اور حالات کا موافق استعمال کر کے تقدیر بدل سکتا ہے۔ ہر فرد کواللہ پاک کامیابی کا موقع دیتا ہے ۔کچھ لوگ اپنی عقل وشعور سے کام لے کر بلندیوں تک پہنچتے ہیں جبکہ بعض لوگ موقع سرمایہ/ وسائل دونوں کو ضائع کرکے اپنی تیرہ بختی کا رونا روتے ہیں ۔ایسے میں دلبرداشتہ ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ بھی تو کہا جاتا ہے کہ                         تقدیر بدلتی ہے دعاوں کے اثر سے       

مطلب یہ کہ انسان کے پاس تقدیر بدلنے کے دو ذرائع ہیں  ۔۔  دعا اور دوا/ تدبیر ،یعنی اللہ سے مضبوط ربط اور عظم ویقین کے ساتھ بھرپور کوشش۔۔ ان سے ہی قسمت  بدلی جا سکتی ہے۔ بدلنے کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ موت و زندگی پر قدرت حاصل ہوبلکہ اپنی کوشش سے بہت سی مشکلات کا حل نکالنے میں کامیابی مل سکتی  ہے ۔ کچھ لوگ یہ کہہ کے بیٹھ جاتے ہیں کہ جو قسمت میں ہو گا وہ ہوکرہی رہے گا اور ہاتھ پرہاتھ دھرے پوری عمر گزار دیتے ہیں ۔ نہ خود کی زندگی میں کوئی بہتری لاتے ہیں اورنہ دوسروں کے لئے ہی کچھ کر جاتے ہیں ۔بعض ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنے ساتھ انسانیت کے دکھوں کا مداوا بھی کر جاتے ہیں۔  انسان جتنی کوشش کرتا ہے اس کے بدلے میں بلندیوں کی طرف جاتا ہے ۔اس سے مراد اقتدار حاصل کرکے دوسروں کے حق پہ ڈاکہ ڈالنا نہیں نہ اپنی جہالت چھپانے کے لئے دولت کی نمائش ہے۔ نہ دوسروں کو حقیر تصور کر کے برہنہ گفتاری کا مظاہرہ کیا جائے نہ اپنی علمیت پر مغرور ہو کر ایسا رویہ اپنایا جائے کہ دوسرے ہیچ نظر ائیں ۔کچھ لوگ تقدیر کے دھنی ہوتے ہیں جس کام میں ہاتھ ڈالیں اس میں ناکامی کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ،ایسے لوگوں کے ہاتھ میں مٹی بھی سونا بن جاتی ہے ۔ایسوں کو حالات کا مقابلہ کرنے کی بھی نوبت نہیں آتی لیکن اکثریت کو اپنی قسمت بنانے کے لئے جتن کرنا پڑتا ہے جو کہ دعا اور دوا / تدبیر سے ہی ممکن ہے۔ کسی دانا کا قول ہے کہ  خود کوشش اور محنت نہ کر کے اللہ سے مانگنا بے وقوفی اور صرف اپنی محنت پر یقین کر کے اللہ سے نہ مانگنا غرور ہے۔۔۔ 

  گویا تقدیر کو اپنی مرضی کے مطابق بنانے کے لئے پہلے بھرپورمحنت کی جائےاور اللہ کی رحمت پر کامل یقین ہو اس یقین کے ساتھ اس سے مانگا جائے تب ہی کامیابی ممکن ہے۔ اگر انسان کو مقدر کے سامنے بے بس بنانا ہوتا تو اسے عقل وشعور کبھی نہ دیا جاتا۔ عقل کی بدولت دنیاوی افعال انجام پاتے ہیں  ۔ان افعال کے لئے ارادہ الہی یعنی مشیت ہو گی تو فعل وجود میں آئے گا اس فعل کو وجود میں لانے کے لئے انسان کا کام کرنا بھی ضروری ہے یہ کام وہ اپنے اس اختیار کی وجہ سے کر پاتا ہے جو عقل اور شعور کی صورت میں اچھے برے کی تمیز میں معاون ہوتا ہے ۔ شعور کے ساتھ ضابطہ حیات کلام پاک کی صورت میں نازل ہوا تا کہ انسان اس سے رہنمائی حاصل کرے اور اپنی عقل کا درست استعمال کر کے اپنی اور دوسروں کی زندگی سدھارنے کا سبب بنے ۔اگر انسان کو عقل کی دولت سے سرفراز نہ کیا جاتا تو وہ روز حشر بھی جواب دہ نہ ہوتا۔ قرآن کے احکامات کو عملی طور پر اپنانے کا بڑا ذریعہ ہی عقل ہے اس سے تخلیق آدم اورتخلیق کون ومکاں کی ضرورت واضح ہو جاتی ہے ۔انسان نہ اتنا بے بس اور مجبور پے کہ اپنی مرضی سے حرکت بھی نہیں کر سکتا اور نہ اتنا خود مختار ہے کہ اسے کسی برتر ہستی کو ماننے کی ضرورت نہیں رہتی ،انسانی فعل اور مشیت الہی سے ہی تقدیر بنتی ہے ۔انسان کو اتنا اختیار ملا ہے کہ وہ ایک ہی وقت میں زمین سے ایک ہی پیر اٹھا سکتا ہے دوسرا پیر نہ اٹھا پانے کا احساس ہی اس کے انسان ہونے اور احکام الہی کا پابند ہونے کا ثبوت ہے ۔ایمان یہ نہیں کہ ایک ہستی کے “ہونے ” کو مانا جائے بلکہ ایمان یہ ہے کہ انسان کے افعال اور کوششوں کے باوجود کسی کام کی انجام دہی ممکن نہ ہو تو اسے تقدیر کا فیصلہ اور مشیت الہی سمجھ کر صدق دل سے قبول کر لیا جائے۔۔۔۔                                  

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
58451

سردار عبدالرب نشرؒ – ایک دین داراور جرات مند راہنما-از:ڈاکٹر ساجد خاکوانی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ایک دین داراور جرات مند راہنما

(14فروری،یوم وفات کے موقع پر خصوصی تحریر)

از:ڈاکٹر ساجد خاکوانی(اسلام آباد،پاکستان)

                سردارعبدالرب نشترؒتحریک پاکستان کے مایہ ناز قائد،کاروان آزادی کا سنگ بنیادرکھنے والے اور قائداعظم ؒکے دست راست تھے۔ہندوستان کے شمال مغربی خطہ ارضی میں تحریک پاکستان انہیں کی مرہون منت رہی۔انہوں نے آزادی سے قبل بھی انتخابات میں حصہ لیا اور 1937اور1943کی صوبائی پارلیمان میں رکن اسمبلی رہے۔ان انتخابات کے بعد جب شمال مغربی سرحدی صوبے میں جب سردار اورنگ زیب نے مسلم لیگ کی صوبائی حکومت تشکیل دی تو سردارعبدالرب نشترؒان کی کابینہ میں وزیرمالیات(خزانہ)جیسی اہم ذمہ داری پر تعینات رہے۔1946میں ہندوستان کی مرکزی قانون ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور عبوری حکومت میں وزارت مواصلات کاقلمدان بھی آپ کے پاس رہا۔پاکستان بننے کے بعد وہ نوزائدہ اسلامی ریاست،مملکت خدادادپاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی کے رکن رہے،پاکستان میں بھی ان کے سابقہ تجربے کی بنیادپر وزارت مواصلات کا قلمدان انہیں کے سپرد رہا۔دیانت داری اور اخلاص کے باعث مرکزی وزیرصنعت بھی رہے اورپنجاب جیسے صوبے کاگورنررہنابھی ان کی سیاسی زندگی کاایک روشن باب ہے۔حکومت سے کنارہ کشی کے بعد آخری عمر میں مسلم لیگ کے صدر کی حیثیت سے قوم کی سیاسی قیادت کرتے رہے۔

                سردارعبدالرب نشترؒبنیادی طورپر ”کاکڑ“قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔13جون1899ء کوپشاور میں پیداہوئے۔یہ ایک خالصتاََدینی و مذہبی اورعلاقائی رسوم ورواج کاامین اور اپنے علاقے کاقائدگھرانہ تھا۔ابتدائی تعلیم مشن اسکول پشاور اورسنتان دھرم ہائی اسکول پشاورسے حاصل کی۔والد کی خواہش تھی کہ خاندانی کاروبارسے وابسطہ ہو جائیں،چنانچہ پرائیویٹ امیدوارکی حیثیت سے فارسی کاامتحان پاس کیا۔اس کے بعدپنجاب یونیورسٹی لاہورسے 1923میں بی اے کی ڈگری حاصل کی۔اس زمانے میں کسی مسلمان نوجوان کا بی اے کر لینا بہت بڑااعزازسمجھاجاتاتھا۔پس اس اعزازکے دفاع کے لیے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سدھارگئے اور دوسالوں میں ایل ایل بی کاامتحان بھی اعزازی نمبروں کے ساتھ پاس کیا۔علی گڑھ یونیورسٹی میں مولانا محمدعلی جوہرسے بہت قربت رہی،بعد ازاں یہ قربت دوستی اور پھر یہ دوستی سردارعبدالرب نشترؒکی زندگی کاایک بہت بڑاموڑ ثابت ہو گئی۔دوستی اورگھریلوتربیت کے اثرات تھے کہ زمانہ طالب علمی میں تحریک خلافت سے وابسطہ رہے اور اس زمانے میں جب کہ شباب اپنے عروج پر تھا،اپنی نوجوان صلاحیتیں دینی حمیت کی اس تحریک کے سپرد کیے رکھیں۔اسی دوران سائمن کمشن کے خلاف مظاہروں میں بھی پیش پیش رہے۔کچھ عرصہ انڈین نیشنل کانگریس میں رہے لیکن ہندوکا متعصبانہ رویہ جزبہ ایمانی پر بوجھ ثابت ہوا۔تحریک خلافت کے موقع پر ان کے علاقے کی عوام دو حصوں میں تقسیم ہو گئے،نصف کانگریس اورنصف مسلم لیگ کے حامی بن گئے۔اس موقع پرسردارعبدالرب نشترؒنے ایک تاریخ ساز فیصلہ کیااوربہت جلد تحریک پاکستان کی روح رواں اور دوقومی نظریے کی نمائندہ تحریک ”آل انڈیامسلم لیگ“میں شمولیت اختیارکرلی۔پشاورواپسی پر وکالت کوپیشے کے طورپر اپنا لیا۔اس وقت کی بیدارمغزمسلمان قیادت نے بہت جلد اس نوجوان میں پوشیدہ صلاحیتوں کے خزانوں کوجانچ لیااورنوجوان عمری میں ہی آل انڈیامسلم لیگ کونسل کے رکن بن گئے۔1929ء میں پہلی بار بلدیاتی انتخابات میں حصہ لیااور میونسپل کمیٹی پشاور کے رکن کی حیثیت سے اپنی پارلیمانی سیاسی زندگی کاآغاز کیا،کئی سالوں تک اس بلدیاتی منصب پر آپ کو عوام کی اکثریت کااعتماد حاصل رہا۔

                قیام پاکستان کے بعد آپ کو خان لیاقت علی خان کی کابینہ میں وزیرمواصلات کاقلمدان تھمادیاگیا۔سردارعبدالرب نشترؒنے دوسال کے مختصرعرصہ میں لٹاپھٹاریلوے کانظام بحال کردیااور وقت کی پابندی کے ساتھ ریل گاڑیاں ملک کی لائینوں پر دوڑنے لگیں۔تقسیم ہند کے وقت پنجاب میں ایک انگریزافسرگورنر کے عہدے پر تعینات تھا۔دوسال گزرجانے کے باوجود پنجاب کے حالات قابو سے باہر تھے،مہاجرین کی آمد سمیت بہت سے دیگرگھمبیرمسائیل کا مسلسل سامنا تھااورصوبائی حکومت کے اعصاب شل ہو چکے تھے۔ چنانچہ ان خراب حالات کی اصلاح کے لیے قیادت کی نظر انتخاب سردارعبدالرب نشترؒپر آکررک گئی اور اس وقت کے گورنرجنرل نے پنجاب کی حکومت کو معزول کر کے گورنرراج نافذ کیاتو آپ کو گونرپنجاب تعینات کردیاگیا۔اس طرح آپ پنجاب کے پہلے پاکستانی گورنربنے۔آپ نے اپنی بصیرت اور قابلیت سے بہت جلد حالات پر قابو پالیا۔سردارعبدالرب نشترؒنے گورنربن کرلوگوں سے میل جول بڑھادیا،ان کی غمی خوشی میں شریک ہوئے اورعوام اورحکمرانوں کے درمیان فاصلے کم کیے۔گورنر کے اس مثبت رویے سے نوآبادیاتی نظام کے سابقہ انگریزگورنر کے قائم کیے ہوئے تاثر سے بھی عوام کو نجات میسرآگئی،اوریوں دورغلامی کاایک نازیباشعائرختم ہوا۔آپ نے صحافیوں کواخلاق کاپابندبنایا اور سرکاری ملازمین کی بھی سیاست میں مداخلت پرپابندی عائد کردی۔مری میں قیام کے دوران آپ مال روڈ پر چہل قدمی کرتے اور لوگوں سے میل ملاقات بھی کرتے۔پشاور میں ایک حاجی بابا جان تھے جو عصر سے مغرب تک اپنے گھرکے باہر چارپائی پر بیٹے رہتے اور بڑے بڑے لوگ ان سے ملنے آتے اور سردارصاحب بھی جب کبھی پشاورجاتے توان حاجی بابا سے ضرور ملاقات کرتے تھے۔آپ گورنرراج کے حق میں نہ تھے اور بہت جلد اگلے انتخابات کرانا چاہتے تھے تاکہ ایک منتخب قیادت صوبے کانظم و نسق اپنے ہاتھوں میں لے لے۔بحیثیت گورنرپنجاب آپ کی بھرپور کوشش تھی کہ ملک میں ایک اور میڈیکل کالج کھل جائے۔آپ کی یہ خواہش ملتان میں پوری ہوئی اور اس کانام بھی آپ کے نام پر ”نشترمیڈیکل کالج“رکھاگیا۔

                خان لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد ملک کی باگ دوڑ غیرسنجیدہ ہاتھوں میں چلی گئی،اور غلام محمدنامی ایک سرکاری ملازم گورنرجنرل بن بیٹھااور اس نے ملک کی آئین ساز اسمبلی توٹ کر حکومت کو چلتاکردیا۔سردارعبدالرب نشترؒکو ان حالات میں مرکزمیں وزیربننے کی پیشکش کی گئی لیکن ان لوگوں کے ساتھ چلنا سردارصاحب کے لیے ممکن نہ تھاجس کی وجہ سے آپ نے معذرت کرلی۔اعلی سطح کے کچھ ذمہ داران نے وزیراعظم کے لیے سردارعبدالرب نشترؒکانام بھی پیش کیا،لیکن نااہل سیکولرقیادت نے اس تجویزسے صرف اس لیے اتفاق نہیں کیاکہ سردارعبدالرب نشترؒایک مذہبی شخصیت کے مالک تھے۔خاص طورپر سکندرمرزاجیسے لبرل شخص نے سردارعبدالرب نشترؒکی ڈٹ کر مخالفت کی اور اپنے جواز میں صرف دینی وابستگی کوموردالزام ٹہرایا۔قیام پاکستان کے فوراََبعد ان منافقین نے ریاست کے ساتھ جو سلوک کیااس کاخمیازہ آج تک کی نسلیں بھکت رہی ہیں۔اس وقت اگر مذہبی قیادت کو آگے آنے دیاجاتاتو مملکت کویہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔سیکولراورلبرل لوگوں کی یہ کارستانیاں تھیں کہ ملک دولخت ہوااورعوام اپنے مقصد زندگی سے دورترہوتے چلے گئے۔سردارعبدالرب نشترؒکی دورس نظر ان حالات کابغور مشاہدہ کررہی تھی،ان کے لیے ایک راستہ تھااور انہوں نے بہت جلدحزب اختلاف کے خیمہ میں پناہ حاصل کرلی۔پاکستان بنانے والے حزب اقتدارسے حزب اختلاف میں آن بیٹھے اور آج تک بیٹھے ہیں اور غلامی زدہ، بدعنوان،مفادپرست اورنااہل لوگ اقتدارکے جھولے میں حکومت کی لونڈی سے بغل گیرہیں۔اقتدارکے ایوانوں میں کھچڑی پکناشروع ہوئی تو تحریک پاکستان کایہ مرد مجاہد14فروری1958ء کو داعی اجل کو لبیک کہہ گیا۔انہیں قائداعظم محمد علی جناح کے مزارکے ساتھ ہی دفن کیاگیا۔سردارعبدالرب نشترؒبہت اچھے سیاستدان ہونے کے ساتھ ساتھ شاعر بھی تھے،کراچی میں ان کے نام ایک پارک”نشترپارک“اوران کے نام کی ایک سڑک”نشترروڈ“بھی موجود ہے۔

                سردارعبدالرب نشترؒایک سچے اورکھرے انسان تھے۔اپنے مذہب پرسختی سے کاربندرہناان کاطرۃ امتیازتھا۔گول میزکانفرنس میں شرکت کے لیے مہاتماگاندھی اپنے ساتھ منہنی سی بکری لایاتوسردارعبدالرب نشترؒایک تگڑاسابکرالے آئے،انگریزکے سامنے معاملہ پہنچایوانگریزنے دونوں جانوروں کے لے جانے پر پابندی لگادی۔ایک میٹنگ میں نماز کے لیے باربار کے وقفے پر سردارپٹیل نے اعتراض کیاتو سردارعبدالرب نشترؒنے اس کے منہ پرایک زوردار جھانپڑرسیدکردیا۔لیکن افسوس کہ ملک کی منافق اور دوغلی سیکولرقیادت نے ان کے راستے مسدودکردیے اور پاکستان کی اصل خالق قیادت کو اگلی صفوں سے پس پشت دھکیل دیاگیا۔مصنوعی طورپر آگے لائی قیادت کے اب پاؤں اکھڑ چکے ہیں،قوم نے ان سیکولراورلبرل دھوکے بازمنافقوں کو پہچان لیاہے۔پاکستان اپنے قیام سے آج تک اور تاقیامت اسلامی نظریہ حیات کا امین ملک ہے،اس ملک میں حق قیادت صرف دیندار لوگوں کو حاصل ہے  جودوقومی نظریے پرایمان رکھتے ہوں اور غاصبوں کاانجام سرپرآن پہنچاہے۔مشرق و مغرب کے طاغوت اب گرنے کوہیں اوران کی مقروض قیادت کے دن بھی گنے گئے ہیں۔اس ملک کوپوری دنیامیں قیادت کافریضہ سرانجام دیناہے اور سردارعبدالرب نشترؒکی ہم فکرقیادت بہت جلد اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ماتھے کاجھومر بنے گی،انشااللہ تعالی۔

[email protected]

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
58425

ہراسانی کی تعریف اور سزائیں ۔ محمد شریف شکیب

ہراسانی کی تعریف اور سزائیں ۔ محمد شریف شکیب

جنسی طور پر ہراساں کرنے کی روک تھام کے لئے تعینات وفاقی محتسب کشمالہ طارق نے انکشاف کیا ہے کہ خواتین کو خوبصورت کہنا،گڈ مارننگ کا ایس ایم ایس بھیجنا، ذومغنی شعر یا گڈ نائٹ کے پیغامات ارسال کرنا بھی ہراساں کرنے کے زمرے میں آتا ہے۔وویمن پراپرٹی رائٹس کا قانون آ گیا ہے،خواتین کو اگر پدری جائیداد میں حصہ نہیں مل رہا تو وہ قانون کی مدد حاصل کرسکتی ہیں۔ وفاقی محتسب ساٹھ دنوں کے اندر جائیداد میں خواتین کے حقوق سے متعلق کیس کا فیصلہ کرے گا۔ان کا کہنا تھا کہ اکثر خواتین کو یہ نہیں پتہ کہ ان کے حقوق کیا ہیں اس لئے وہ قانون کا سہارا نہیں لیتیں۔ وفاقی محتسب دو ماہ کے اندر جنسی طور پر ہراساں کئے جانے کے مقدمات کا بھی فیصلہ کرے گا۔

خواتین وکیل کے بغیر آن لائن بھی درخواست دے سکتی ہیں،خواتین کو انصاف تبھی ملے گا جب وہ اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی سے متعلق رپورٹ کریں گی۔وفاقی محتسب کا کہنا تھا کہ تمام اداروں کے اندر جنسی ہراسیت کے تدارک کی کمیٹی بنانا ضروری ہے،دریں اثنائسعودی ماہر سائبرکرائم اور انسداد جعلسازی کمیٹی کے رکن معتز کتبی کا کہنا ہے کہ کسی کوواٹس اپ پر سرخ دل کا علامتی نشان بھیجنا سائبرکرائم کے زمرے میں آتا ہے جس پر دوسال تک قید اور ایک لاکھ ریال جرمانہ ہوسکتا ہے۔ان کا کہناتھا کہ سوشل میڈیا پرسرخ دل یا پھول اور اس نوعیت کی دیگرعلامتیں ارسال کرنے میں احتیاط برتنی چاہئے۔خواہ یہ علامات کسی مرد کی جانب سے ارسال کی گئی ہوں یا خاتون کی۔

ایسی علامات وصول کرنے والے کو ان سے کسی قسم کی ایذا پہنچے تو یہ قانونی مسئلہ اختیار کرسکتی ہے۔ہراساں محض جسمانی طور پر ہی نہیں بلکہ الفاظ، عبارت یا غیرمناسب رویے کا اظہار کرنا بھی ہے جوقابل دست اندازی پولیس جرم ہے۔اب تک ہم یہی سنتے آرہے تھے کہ تعریف کرنا خواتین کی پیدائشی کمزوری ہے اگر کوئی خاتون واقعی خوبصورت ہو۔تو اس کی تعریف بنتی ہے۔تاہم کسی بدصورت، بدی،حد سے زیادہ موٹی یا ہڈیوں کا ڈھانچہ نظر آنے والی عورت کو خوش کرکے اپنا مطلب نکالنے کے لئے اسے خوبصورت کہنا واقعی جرم ہے۔ ایسے بدزوق لوگوں کو واقعی سزا ملنی چاہئے۔مشہور ماہر نفسیات ڈیل کارنیگی کا کہنا ہے کہ لوگوں سے کام نکالنے کے لئے ان کے چھوٹے چھوٹے کاموں کی تعریف کرنا ضروری ہے۔کسی کا دل رکھنے کے لئے اسے گڈ مارننگ، گڈ نائٹ،ٹیک کیئر، ہیو اے نائس ڈے اورآئی لو یو کے الفاظ یا علامات پر مبنی پیغام بھی کوئی نہ بھیجے تو معاشرے کے کام کیسے انجام پائیں گے۔دنیا میں کوئی بے حس اور بدذوق عورت بھی اپنی تعریف پر ناراض نہیں ہوتی۔

جب پیغام وصول کرنے والی کو محبت بھرے پیغامات سے تھوڑی دیر کے لئے راحت ملتی ہے تو غیر متعلقہ لوگوں کے پیٹ میں کیوں مروڑ اٹھتے ہیں۔وفاقی محتسب نے شکوہ کرنے کے انداز میں کہا ہے کہ خواتین ہراساں ہونے کی شکایت ہی نہیں کرتیں تو کوئی ان کی مدد کیوں کرے۔ہراسانی کی تعریف میں عصری تقاضوں کے مطابق ترامیم کی ضرورت ہے۔ ویلنٹائن ڈے پر اپنے کسی پیارے کو سرخ گلاب کا پھول نہ دیں تو لوگ کنجوس قرار دیتے ہیں پیسے خرچ کرکے پھول لے لو۔تو عاشق مزاج ٹھہرایاجاتا ہے۔ہماری فلموں اور ڈراموں میں کسی کا دل جیتنے کے لئے ہیرو کو پہاڑوں پر چڑھتے، دریاؤں میں اترتے، پہاڑ کاٹ کر دودھ کی نہریں بہاتے، چاند تارے توڑ کر محبوب کا دامن بھرنے، اس کے ایک ہاتھ پر چاند اور دوسرے ہاتھ پر سورج رکھنے کے دعوے کرتے دکھایاجاتا ہے ان پر کبھی ہراسانی کا مقدمہ نہیں ہوا۔ پھول اور دل کی تصویر بھیجنے کوقابل تعزیر جرم ہی کیوں نہ قرار دیا جائے۔دل والے یہ جرم کرتے رہیں گے۔ آخر دل لگی، کسی کے لئے نیک جذبات رکھنا،رات کی پرسکون نیند اور دن کے خوشگوار اجالے کی تمنا بھری دعائیں کرنا ہماری تہذیب و ثقافت کا جزولاینفک ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
58423

انقلاب آفریں اور آہنی قیادت-شیر خدا حضرت علی کرم اللہ وجہ ۔ ڈاکٹر ساجد خاکوانی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

انقلاب آفریں اور آہنی قیادت

شیر خدا حضرت علی کرم اللہ وجہ

(13 رجب یوم پیدائش کے حوالے سے خصوصی تحریر)

ڈاکٹر ساجد خاکوانی(اسلام آ باد،پاکستان)

                شیر خداحضر ت علی کرم اللہ وجہ اسلام لانے والے اولین لوگوں میں سے ہیں،آپ کی عمر مبارک نو سال کی تھی جب محسن انسانیت ﷺ کے دست مبارک پر مشرف بہ ایمان ہوئے۔مکی زندگی کے نشیب و فراز میں آپ دم بہ دم نبی اکرم ﷺ کے ہمراہ رہے۔مدینہ میں داماد نبی ﷺ کا شرف حاصل ہوا،متعدد معرکوں میں داد شجاعت کے باعث ”شیر خدا“ کا لقب پایا۔خیبر کی فتح اللہ تعالی نے آپ کے ہاتھ پر عطا کی۔خلفائے راشدین کے دست راست رہے اور امت کے چوتھے خلیفہ کے طور پر قیامت تک مسلمان آپ کو یاد کرتے رہیں گے۔شیر خداحضر ت علی کرم اللہ وجہ کی ولادت باسعادت 603ء بمطابق 13رجب32میلادی کو حرم کعبہ میں ہوئی،یہ مدت ہجرت مدینہ سے کم و بیش اکیس سال بیشتر بنتی ہے۔”علی“نام رکھا گیا ”ابوالحسن“ اور ”ابوتراب“کنیتیں تھیں۔والدہ”حیدر(شیر)“کہ کر پکارتی تھیں ”مرتضی“اور ”اسداللہ“کے القابات اللہ تعالی اور اسکے رسولﷺ کی طرف سے عطا ہوئے جبکہ امت آپ کو ”امیرالمومنین“کے خطاب سے یاد کرتی ہے۔شیر خداحضر ت علی کرم اللہ وجہ نجیب الطرفین قریشی وہاشمی تھے۔آپ ﷺ کے سگے چچا زاد تھے۔آپ کی پرورش ونگہداشت وتربیت براہ راست نبی ﷺ کی زیر نگرانی ہوئی۔آپ کے والدابوطالب بن عبدالمطلب کثیر العیال اور معاشی طور پر مفلوک الحال تھے،چنانچہ آپ ﷺ نے حضرت عباس کو مشورہ دیا کہ جعفر طیارؓ کی پرورش آپ کریں اور علیؓ کی کفالت میں ﷺ کرتا ہوں،اس وقت شیر خداحضر ت علی کرم اللہ وجہ  کی عمر مبارک تین سال تھی۔اس طرح آپ کا دامن صحبت نبوی ﷺ کے باعث بچپن ہی سے جہالت و مفسدات کی آلودگیوں سے پاک رہا۔ٍ

                بڑے ہوئے تو سفر و حضر میں آپ ﷺ کے ساتھ رہنے لگے،گھر کے جملہ معاملات میں ہاتھ بٹاتے اور اپنی عمر کے اعتبار سے ذمہ داریوں کی ادائگی میں بھی معاونت کرتے۔اسی وجہ سے آپ کے اخلاق و عادات پر اخلاق نبوی ﷺ کی گہری چھاپ تھی۔بعثت کے بعد جب رشتہ داروں کو دعوت دینے کا حکم ہوا تو آپ ﷺ نے سب آل بنی ہاشم کو کھانے پر بلایا اور انہیں اپنی نبوت پر ایمان لانے کا کہا تواس وقت شیر خداحضر ت علی کرم اللہ وجہ نے فرمایا ”گو میں عمر میں چھوٹا ہوں،میری ٹانگیں کمزور ہیں اور آشوب چشم میں مبتلا ہوں مگر میں آپ کا مددگار بنوں گا“۔اس وقت آپ کی عمر مبارک صرف آٹھ سال تھی۔مکی زندگی کے پر آشوب دور میں آپ نبی پاک ﷺ کے ساتھ ساتھ رہے،خود فرماتے ہیں کہ ”میں محسن انسانیت ﷺ کے پیچھے پیچھے ایسے چلتا تھا جیسے اونٹنی کا بچہ اس کے پیچھے چلتا ہے“تبلیغی اسفار میں باالعموم آپ ہی رفیق نبویﷺ ہوتے۔تین سالہ شعب ابی طالب کے جاں گسل دورمیں بھی نبی ﷺ کے ہم رکاب رہے۔ہجرت کے موقع پر آخری رات آپ ہی بسترنبویﷺ پرمحو استراحت ہوئے یہ گویا موت کا بستر تھا اور آپ نے حکم نبویﷺ کے سامنے جان کی پروا بھی نہ کی۔اگلے دن امانتیں لوٹا کر عازم مدینہ ہوئے۔آپ ﷺ ابھی قبا کے مقام پر ہی قیام پزیر تھے کہ حضرت علی اس حال میں آپ سے ملے کہ دونوں پاؤں آبلوں سے بھرے تھے۔مواخات کے موقع پر آپ ﷺ نے اپنے آپ کو انصار میں شامل فرماکرتومہاجرین میں سے شیر خداحضر ت علی کرم اللہ وجہ کو اپنا مواخاتی بھائی قرار دیااور فرمایا تم دنیاوآخرت میں میرے بھائی ہو۔جب آپ کی عمر مبارک23,24سال کی ہوئی تو آپ ﷺ نے اپنی سب سے چھوٹی اور لاڈلی بیٹی خاتون جنت حضرت فاطمہ الزہرا کا نکاح آپ سے فرمادیا اس طرح آپ داماد نبیﷺ بن کرعز و شرف میں پہلے سے اور آگے نکل گئے۔یہ2ہجری کا واقعہ ہے۔

                مدنی زندگی کے تمام غزوات میں شیر خداحضر ت علی کرم اللہ وجہ نبی ﷺ کے دست راست رہے۔بدر،احد اور خندق کے معرکوں میں آپ نے عزم و ہمت اور شجاعت و جوانمردی کی عظیم الشان تاریخ رقم کی،صلح حدیبیہ کا معاہدہ آپ ہی نے تحریر کیا۔معرکہ خیبر میں تو مرحب جیسے بدمعاش پہلوان سے نپٹنا صرف آپ کا ہی خاصہ تھا،آپ نے اسکے وار کے جواب میں ایسا وار کیا کہ جبڑوں تک اسکا سر پھٹتا چلاگیا۔آخری قلعہ کا دروازہ آپ نے اپنے دست ایمانی سے اکھاڑ پھینکا تھا۔مکہ پر چڑھائی کے وقت جاسوسی کا خط لے جانے والی عورت کو بھی آپ نے پکڑاتھااور اس سے خط برآمد کیا۔شیر خداحضر ت علی کرم اللہ وجہ صرف غزوہ تبوک میں شامل نہ ہوئے تھے کیونکہ آپﷺ نے بطور جانشین آپ کو مدینہ رہنے کا حکم فرمایا تھا۔حجۃ الوداع سے واپسی پر غدیدخم نامی ایک جگہ آپ ﷺنے قیام فرمایااور وہاں موجود مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے حضرت علی کرم اللہ وجہ کے فضائل و مناقب بیان فرمائے۔آپ ﷺ نے ایک موقع پرفرمایاکہ ”میں علم کاشہرہوں اور علی ؓاس کادروازہ ہیں“۔وصال نبوی ﷺ کے وقت آپ نے ہی آپﷺ کوغسل اور آپ ﷺ کی تجہیز و تکفین کا کام سرانجام دیا۔یہ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ کاحجرہ مبارک تھا جس میں حضرت علی  نے چند دیگر اصحاب رسول ﷺ کے ساتھ مل کر آپ ﷺ  کی آخری رسومات ادا کیں۔وصال نبوی ﷺ اہل بیت کے لیے کسی سانحے سے کم نہ تھا لیکن شیر خداحضر ت علی کرم اللہ وجہ نے بڑے حوصلے،صبر اور ہمت سے اس مرحلے خود کواور اہل بیت نبوی کو بخوبی نکالا۔آل بنی ہاشم،خلافت کو اپنا حق سمجھتے تھے لیکن حضرت علی کی دوراندیشی ہمیشہ کام آئی۔ابوسفیان اور دیگر اکابرین قریش اکثر حضرت علی کو خلافت پر قابض ہونے کا مشورہ دیتے لیکن حرص حکومت و حوص اقتدار کسی مومن کو عام طور پر اور شیر خداحضر ت علی کرم اللہ وجہ کو خاص طور پر زیب نہیں دیتا۔تاہم آپ خلفائے ثلثہ یعنی حضرت ابوبکر،حضرت عمر اور حضرت عثمان کے زمانوں میں انکے دست راست رہے۔ایران پر چڑھائی کے موقع پر یہ شیر خداحضر ت علی کرم اللہ وجہ ہی تھے جنہوں نے حضرت عمر کو کسی طور بھی مرکزخلافت,مدینہ منورہ, نہ چھوڑنے کا صائب مشورہ دیا تھا۔ایک موقع پر آپ نے خود اس کا اعتراف کیا جب ایک شخص نے سابق خلفاء کے دور میں پرامن حالات اورآپ کے دور خلافت میں  حالات کی خرابی اورکاشکوہ کیاتو آپ نے فرمایا ہمیں مشورہ دینے والے تم ہو اور انہیں مشورہ دینے والے ہم تھے۔

                خلیفہ دوئم حضرت عمر کی قائم کردہ کمیٹی جو حضرت عثمانؓ،حضرت علیؓ،حضرت طلحہؓ،حضرت زبیرؓ،حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ اور حضرت سعدبن ابی وقاص پرمشتنل تھی،اس کمیٹی نے اپنے فیصلے میں جو ترتیب مقرر کی تھی اس میں حضرت عثمان کے بعددوسرا نمبر آپ حجرت علی کرم اللہ وجہ ؓ کا ہی تھا۔چنانچہ شہادت عثمان کے بعد تین دن تک منصب خلافت خالی رہا۔مدینہ پر بلوائیوں کا قبضہ تھا اور کوئی بھی نامور شخصیت بار خلافت اٹھانے کو تیار نہ تھی۔ان حالات میں انصار و مہاجرین کے بزرگ جمع ہو کر حضرت علی کے پاس تشریف لائے اور انہیں اس منصب کے قبول کرنے کی دعوت دی،ابتداََ آپ نے انکار کیا اور فرمایا کہ مجھے امیر کی نسبت وزیر بننا پسند ہے۔لیکن حالات کے بگاڑ کا حل اور امت کا اجماع دونوں امور آپ کی ذات پر ہی جمع ہو رہے تھے تب آپ کی ہمت عالیہ تھی جس نے اس نازک اور کڑے وقت میں 24ذوالحجہ35ھجری کو امت کی باگ دوڑ سنبھالنے کا فیصلہ کیا۔ شیر خداحضر ت علی کرم اللہ وجہ نے عنان اقتدار سنبھالتے ہی گزشتہ خلفائے راشدین کی سنت کے مطابق اجتماع مسلمین کے سامنے ایک خطبہ دیا،آپ نے فرمایا”اللہ تبارک وتعالی نے انسانوں کی ہدایت و راہنمائی کے لیے قرآن مجید نازل فرمایا ہے،اس میں خیر وشر سب کھول کھول کر بیان کر دیا گیا ہے۔تم اللہ تعالی کے عائد کردہ فرائض اداکرو،تمہیں جنت ملے گی۔اللہ تعالی نے حرم پاک کو محترم ٹہرایا ہے۔مسلمانوں کی جان کو ہر چیز سے زیادہ قیمتی قرار دیاہے اور مسلمانوں کو خلوص واتحاد کی تلقین کی ہے۔مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں ماسوائے جس کسی پر کوئی حد شرعی واجب ہو۔خدا کے بندوں سے معاملہ کرتے ہوئے خدا سے ڈرو،قیامت کے روز زمینوں اور مویشیوں کی بابت تم سے باز پرس ہو گی۔اللہ تعالی کی اطاعت کرو اور اسکے احکامات کی خلاف ورزی سے بچو۔جہاں کہیں بھلائی کی بات دیکھو اسے قبول کرواور جہاں بدی نظر آئے اس سے پرہیزکرو“۔

                عنان اقتدار سنبھالتے ہی سب سے پہلے جو مسئلہ درپیش ہوا وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا قصاص تھا۔تمام بزرگوں کا اورامت کا مطالبہ تھا کہ قاتلوں کو فی الفور سزا دی جائے، شیر خداحضر ت علی کرم اللہ وجہ پرجیسے جیسے دباؤ بڑھتا گیا آپ کی مشکلات میں اضافہ ہوتا گیا کیونکہ خلیفہ ثالث ایک بلوے میں شہید کیے گئے تھے اور بلوے میں اصل قاتل کی تلاش کوئی آسان کام نہیں ہوتااور خاص طور پر جب سب بلوائی ایکہ کر لیں تو یہ ناممکن ہوجاتا ہے۔حضرت علی کا کہنا تھا کہ امن و امان قائم ہونے پراور حالات معمول پرآنے تک ہی قاتلین عثمانؓ سے قصاص لینا ممکن ہوسکے گا، جبکہ دوسری طرف مدینہ بری طرح بدامنی کاشکار تھا۔ شیر خداحضر ت علی کرم اللہ وجہ کے باربار کہنے کے باوجود بلوائی مدینہ طیبہ چھوڑنے پر تیار نہ تھے۔ان حالات میں شام کے گورنرحضرت امیرمعاویہ نے جو حضرت عثمانؓ کے قبیلے سے تعلق رکھتے تھے،شیر خداحضر ت علی کرم اللہ وجہ کی بیعت کرنے سے انکار کر دیااور قاتلین عثمانؓ کو انکے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا۔امیرالمومنین حضر ت علی کرم اللہ وجہ نے مفاہمت کی بہت کوشش کی لیکن امیر معاویہ نے قصاص عثمان کو سیاسی رنگ دے کر اس کے ذریعے امیرالمومنین کے خلاف عوام الناس کو بھڑکانا شروع کر دیا اور انکے قاصد نے مدینہ آکرواضع طور پر انصار و مہاجرین کے بزرگوں کے سامنے کہا کہ ہم قتل عثمانؓ کا بدلہ شیر خداحضر ت علی کرم اللہ وجہ سے لینا چاہتے ہیں۔حالات بڑی تیزی سے جنگ کی طرف جارہے تھے۔

                شیر خداحضر ت علی کرم اللہ وجہ ابھی امیر معاویہ سے معاملہ کرنے کی کوشش میں تھے کہ دوسری طرف ام المومنین حضرت عائشہ نے قصاص کانعرہ بلند کر کے توبصرہ پر قبضہ کر لیا۔حضرت علی نے اپنی سپاہ کے ساتھ بصرہ کا رخ کیا مصالحت کی کوششیں کئی دنوں تک چلتی رہیں اور دونوں لشکر آمنے سامنے خیمہ زن رہے۔ایک رات گئے صلح جوئی کی کوششیں بارآور ثابت ہوئیں تمام شرائط طے پا گئیں اور فیصلہ ہوا کہ چونکہ رات بہت بیت چکی ہے اس لیے صبح کو معاہدہ لکھ لیا جائے گا اور افواج اپنے اپنے علاقوں کو لوٹ جائیں گی۔قاتلین عثمانؓ جو دراصل دونوں طرف کی افواج میں پھیلے ہوئے تھے انہیں یہ صلح کسی طور بھی راس نہیں تھی کیونکہ جس دن امن قائم ہوتا اسی دن سے انکی گرفتاری اور قصاص کا عمل شروع ہو جاتا۔چنانچہ ایک طے شدہ پروگرام کے تحت اگلے دن دونوں طرف کے بلوائیوں نے جنگ شروع کر دی۔قائدین سمجھتے رہے کہ فریق مخالف نے رات کے معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے لیکن حقیقت بہت مختلف تھی۔ام المومنین حضرت عائشہ اونٹ پر سوار تھیں اسی لیے اس جنگ کو جنگ جمل کہتے ہیں۔شیر خداحضر ت علی کرم اللہ وجہ نے اپنی افواج کو حکم دیا کہ اونٹ کی ٹانگیں کاٹ دی جائیں،اونٹ کے بیٹھتے ہی بصری افواج تتر بتر ہو گئیں،انکا پیچھا کرنے،قتل کرنے اور گرفتار کرنے سے شیر خداحضر ت علی کرم اللہ وجہ نے منع کر دیا اور بصرہ کی چالیس بزرگ خواتین کے ساتھ ام المومنین کو مدینہ منورہ روانہ کر دیا۔

                جنگ جمل کے بعد شیر خداحضر ت علی کرم اللہ وجہ نے کوفہ کو اپنا دارالحکومت بنایا اور امیرمعاویہ کو اطاعت کی دعوت دی اور نہ ماننے پرجنگ کی دھمکی بھی دی۔امیرمعاویہ کی مسلسل ہٹ دھرمی کے باعث مسلمان 36ھجری میں آمنے سامنے صف آرا ہو گئے۔یہ لڑائی جنگ صفین کہلاتی ہے ایک طویل اور تھکا دینے والی جنگ جس کے دوران گاہے گاہے صلح کی کوششیں بھی جاری رہیں لیکن بے سود۔جب شامی افواج شکست سے دوچار ہونے لگیں تو انہوں نے نیزوں پر قرآن اٹھا لیے کہ ہمارا تمہارا فیصلہ کتاب اللہ کرے گی،اس پر علوی افواج نے لڑنے سے ہاتھ کھینچ لیا۔دونوں طرف سے دو ثالث مقرر ہوئے دونوں نے فیصلہ کیا کہ شیر خداحضر ت علی کرم اللہ وجہ اور حضرت امیرمعاویہ،دونوں کو معزول کر کے تو امت کے لیے نیا خلیفہ مقرر کیا جائے۔اعلان کے وقت حضرت علی کے ثالث ابو موسی اشعری نے  طے شدہ فیصلے کا اعلان کیا لیکن ہزاروں مسلمانوں کے سامنے جامع مسجد میں امیرمعاویہ کا ثالث عمرو بن العاص اپنے معاہدے سے روگردانی کر گئے اور امیرمعاویہ کو مسلمانوں کا خلیفہ قرار دے دیا۔اس موقع پر پھر بزرگان امت درمیان میں آگئے اور طے کیا کہ دونوں اپنے اپنے علاقوں پر حکومت کریں کوئی دوسرے کے معاملے میں دخل نہ دے۔چنانچہ دونوں افواج واپس چلی گئیں۔امیرمعاویہ اس کے بعدبھی شیر خداحضر ت علی کرم اللہ وجہ کے علاقوں پر فوج کشی کرتے رہے کبھی کامیابی اور کبھی ناکامی ان کا مقدر بنتی رہیں۔یہ کشمکش ابھی جاری تھی کہ خوارج نے خروج کر دیااور شیر خداحضر ت علی کرم اللہ وجہ کے لیے ایک نیا محاذ کھل گیا۔خارجی بہت دلیر اور مضبوط عقیدے کے مالک تھے اورجنگ سے ٹلتے نہ تھے۔انکی یہی خو ئے شجاعت ہی شہادت حضرت علی ؓکا باعث بنی اورایک خارجی نے آپ پر فجر کی نماز میں حملہ کیا۔وار کاری ثابت ہوا اور21رمضان المبارک40ھجری کو آپ شہادت سے ہم آغوش ہوئے۔امام حسن بن علیؓ نے جنازہ پڑھایا اور لاش کی بے حرمتی کے خوف سے نامعلوم مقام پر دفن کیا۔اس وقت آپ کی عمر مبارک63برس تھی اور مدت خلافت 4سال اور9ماہ ہے۔

                آپ نے نظام خلافت کی اصلاح کی اور اسے اسلامی تصور جمہوریت کے قریب تر کیا،عمال کے محاسبے کا فاروقی نظام بحال کیا،رات کو شہروں کا گشت اپنا معمول بنایااور بہت سی فوجی اصلاحات بھی کیں۔لیکن چونکہ آپ کا سارا دور سورشوں اور بغاوتوں سے بھرا ہواتھا اس لیے آپ کو کھل کر اپنی صلاحیتیں استعمال کرنے کا موقع نہ ملا۔علم و فضل،امانت و دیانت اور زہدوتقوی آپ کی پہچان نہیں بلکہ آپ ان سب صفات جمیلہ کی پہچان ہیں۔امت مسلمہ ہمیشہ آپ کی گرویدہ رہی ہے اور کل امت خلیفہ راشد کی حیثیت سے آپ کی پیروکار ہے۔متعدد کتب آپ سے منسوب ہیں،”کتاب جامعہ“یا”کتاب علی“ایک مجموعہ ہے جس میں آپﷺ کی مرویات اور متعدد احکام و مسائل جن کی املاء خود آپﷺ نے دی تھی جمع ہیں۔”صحیفہ امام علی“میں بھی آپﷺ کی زبان مبارک سے سنے ہوئے الفاظ جمع کیے ہیں۔”کتاب جفرواشعار“میں حضرت علی کرم اللہ وجہ کامنظوم کلام درج کیاگیاہے۔”نہج البلاغہ“میں حضرت علی کے خطبات جمع کیے گئے ہیں جوانہوں نے متعددمواقع پر ارشادفرمائے اوراس کے علاوہ آپ کے اقوال و ارشادات کااورنجی و سرکاری خطوط واحکامات کوبہت سی کتب میں جمع کردیاگیاہے۔عربی علماء کے مطابق صرف و نحوکے علم کے بانی حضرت علی کرم اللہ وجہ ہی ہیں،شروع میں یہ ایک ہی علم تھااور حضرت علی کرم اللہ وجہ نے سب سے پہلے اس علم کی مبادیات کاتعین کیاتھا۔حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہ کے ہوتے ہوئے حضرت علی نے مزیدکوئی شادی نہیں کی تھی،بی بی صاحبہ کے بعد پھرآپ نے متعدد نکاح کیے۔آپ کی کل اولاد کی تعدادباختلاف 27تک پہنچتی ہے،حضرت بی بی پاک کے بطن سے چلنے والی نسل ”فاطمی“اولاد کہلاتی ہے جب کہ دیگر زوجات والے ”علوی“کہلاتے ہیں۔آپ کی نسل سے بعض نے حکومت بھی کی لیکن زیادہ تر اپنے اجدادسے کسب کرتے ہوئے فقیرانہ زندگی پر قانع رہے چنانچہ تصوف کے کم و بیش تمام سلسلے اولاد علی سے ہوتے ہوئے حضرت علی ؓپر ہی ختم ہوجاتے ہیں اور یہ حضرت کااصل فیض ہے جو تاقیامت جاری رہے گا۔واقعہ کربلامیں آپ کی اولاد مبارکہ ایک بہت بڑے سانحے سے دوچارہوئی لیکن اہلبیت کی یہ قربانیاں دین کی حیات ابدی کاباعث ہیں۔

[email protected]

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
58389

ہندو ، ہندو کب ہوا ؟ – قادر خان یوسف زئی کے قلم سے

ہندو ، ہندو کب ہوا ؟ – قادر خان یوسف زئی کے قلم سے

یہ سوال اس وقت بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ انتہا پسند کونسا ’ہندو توا‘ چاہتے ہیں، جب کہ یہ لفظ خود بیرونی قوموں کی جانب سے دیا گیا اور ایک الگ مفہوم رکھتا ہے۔”ہندو توا “ سنگھ پریوار  کاایک ایسا نعرہ، نظریہ اور پالیسی کے طور پر جانا جاتا ہے جس میں حکمت عملی کا محور ’نفرت کے ماحول‘ کو مذہبی اکائیوں کے خلاف ابھارنا ہے۔ ہندو بذات خود فارسی زبان کا لفظ ہے، ایرانی، عربی، ترکی اور افغانی وغیرہ بھارتیوں کو ”ہندو“ کہا کرتے تھے۔ لغت میں لفظ  ’ہندو‘ کا مطلب غلام، ان پڑھ، چور، لیٹرا وغیرہ ہے۔ مہاراشٹر حکومت کی شائع کردہ اردو مراٹھی لغت صفحہ 476 میں ہندو کا یہی مطلب لکھا ہوا ہے۔ تاہم وقت کے ساتھ ساتھ ہندو لفظ مذہب سے جڑ گیا کہ جیسے مذہب کے ساتھ وجود میں آیا ہو۔ حالاں کہ مذہب کا نام (ہندو) سنسکرت یا مقامی کسی بھی زبان میں ہونا چاہے تھا لیکن یہ لفظ اس قدر مستعمل ہوگیا کہ اس کے اصلی معنی کو بھلا دیا گیا۔ واضح رہے کہ دیگر لغات میں ہندو  لفظ کے معنی (شاذ) چور، ڈاکو نیز غلام، زنگی، حبشی، شیدی، سیاہ رنگ کا آدمی، کالا آدمی نیز سیاہ، کالا رنگ، سیاہ گیسو، چہرے کا کالا تل اور ویدک دھرم کا پیروکار اور پھر ہندو مذہب کا پیروکار بتایا گیاہے۔

خیال رہے کہ ہزاروں برس قبل ایران کی طرف سے ایک قوم کی شاخیں مغربی دروں کو عبور کر کے ہندوستان میں داخل ہوئی جسے تاریخ میں آریہ ورت کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ ہندوستان کے قدیم قبائلی باشندوں کے مقابلے میں آریہ قوم میں طاقت و قوت زیادہ تھی، آریہ (معزز، بلند مرتبہ) نے بزور طاقت مقامی لوگ جنہیں یہ داس (غلام) یا تشا (حقیر) اور پشیا جی (کچا گوشت کھانے والے) کہتے تھے، انہیں جنگلوں اور پہاڑوں کی جانب دھکیل دیا اور باقیوں کو اپنی خدمت کے لئے غلامی کی زنجیروں میں جکڑ لیا، طبقاتی تفریق کے طور پر انہیں شودر یا اچھوت کا درجہ دے کر معاشرے میں پست ترین مقام دیا۔آریہ کے بعد متعدد اقوام ہندستان میں حملہ آور کی حیثیت سے آئے اور بیشتر نے اپنی حکومت بھی قائم کیں، تاریخی طور پر تجزیہ کیا جائے تو جو حملہ آور آتا اس کا اپناایک قومی تشخص تھا،

اپنا جداگانہ نسلی امتیاز، اپنی زبان، اپنی ثقافت اور اپنا مذہب بھی تھا، ہندوستان میں جداگانہ تشخص کا تصور نہیں تھا بلکہ حملہ آوروں کے بس جانے کے بعد ان میں ان امتیازات میں سے کوئی بھی باقی نہ رہا اور پھر یہ سب کے سب ”ہندو“ کہلائے جانے لگے۔ درحقیقت ہندو لفظ کا قدیم استعمال جغرافیائی اصطلاح کے طور پر تھا، تاریخ کے مطابق اس علاقہ کو یہ نام قدیم زمانے میں ایرانیوں نے دیا تھا، یہ لفظ سندھ سے بنا ہے، فارسی میں س کو ”ہ” سے بدلنے کا رواج ہے۔ اس لئے انھوں نے سندھ کو ہند کردیا۔ وہیں سے رواج پاکر یہ لفظ ہندو بن گیا۔  یہ حقیقت ہے کہ ہندو کا لفظ فارسی زبان سے نکلا ہوا ہے اور اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ  وقت کے ساتھ ہندو کے معنی تبدیل ہوتے رہے مثلاََ جو دریائے سندھ کے اس پار بستے ہیں۔ (قدیم) ہندوستان کا رہنے والا۔ اب چونکہ ہندو لفظ کے اصلیت کو بھلا یاجاچکا ہے اس لئے لفظ ہندو کو ایک ہندو مت کے پیروکاروں سے ہی شناخت دی جاتی ہے اور ہندو لفظ سے مراد بھی یہی  ہوگی  نتہا پسندی کوکسی ایک قوم یا مذہب سے نہیں جوڑا جاسکتا،

1875 میں انتہا پسندی کے تصورات پر مبنی سماجی خدمات کے روپ میں آریہ سماج تحریک کی بنیاد رکھی گئی۔ گیئو رکھشا تحریک 1882 میں دیا نند نے قائم کی،1920میں دیا نند کے شاگرد شردھا نند نے مسلمانوں اور دیگر مذہبی اکائیوں کو جبراََ ہندو بنانے کے لئے شدھی تحریک کا قیام عمل لا کر نعرہ لگایا گیا کہ ”ہندوستان میں رہنا ہے تو ہندو بن کر رہو“۔ 1925میں انتہا پسند ڈاکٹر کیشو بلی رام نے راشٹریا سیوک کی بنیاد رکھی، جو اب آر ایس ایس کے نام سے جانا جاتا ہے۔ مسلم دشمنی میں نوجوانوں کی برین واشنگ اور تشدد پر مبنی نفرت انگیز رویہ ہی وہ ہندو توا ہے جو اب مودی سرکار کی حکومت بی جے پی (سیاسی ونگ) اور آرایس ایس(ہندو انتہا پسند تنظیم) کی چھتری تلے بڑھ چڑھ کر انسانی حقوق کی پامالی کا سبب بنا ہوا ہے۔ آر ایس ایس کے بطن سے سنگھ پریوار، بجرنگ دل اور شیو سینا انتہا پسند تنظیموں نے مسلمانوں کا جینا حرام کیا ہوا اور مذہبی اقلیتوں کے خلاف مذموم کاروائیوں نے تعصب اور نفرت کی آگ کو بھڑکا کر مخصوص مفادات کا حصول جاری رکھا ہوا ہے

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
58381

انسانیت کا لباس: شرم و حیا-از:ڈاکٹر ساجد خاکوانی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

انسانیت کا لباس: شرم و حیا

(14فروری،یوم شرم و حیا کے موقع پر خصوصی تحریر)

از:ڈاکٹر ساجد خاکوانی

[email protected]

                محسن انسانیت ﷺنے فرمایا کہ ”ایمان کی ساٹھ سے زیادہ شاخیں ہیں اور حیا بھی ایمان کی ایک شاخ ہے“۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓفرماتے ہیں ایک موقع پر محسن انسانیت ﷺ ایک انصاری مسلمان کے پاس سے گزرے جواپنے بھائی کو بہت زیادہ شرم و حیا کے بارے میں نصیحت کررہاتھاتب آپ ﷺ نے فرمایا کہ”اسے اس کے حال پر چھوڑ دو کیونکہ حیادراصل ایمان کاایک حصہ ہے“۔ایک اور صحابی عمران بن حصین ؓنے بتایاکہ ایک موقع پر محسن انسانیت ﷺ نے فرمایا کہ ”شرم و حیا صرف بھلائی کاباعث بنتی ہے“۔محسن انسانیت ﷺنے دوسرے ادیان کاذکرتے ہوئے فرمایا کہ ہر دین کی ایک پہچان ہوتی ہے اور ہمارے دین کی جداگانہ پہچان ”شرم وحیا“ہے۔ایک بار محسن انسانیت ﷺ نے حیا کی غیرموجودگی کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ ”جب تجھ میں حیا نہ رہے تو جو چاہے کرتارہ“۔اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ کسی بھی برے کام سے روکنے کا جوواحد سبب ہے وہ شرم و حیاہے اور جب کسی میں شرم کافقدان ہو جائے اور حیاباقی نہ رہے تو اب اس کا جو جی چاہے گا وہی کرے گااورجب انسان اپنی مرضی کا غلام بن جاتاہے تو تباہی اس کا یقینی انجام بن جاتی ہے،اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے محسن انسانیت ﷺنے فرمایا کہ”جب اللہ تعالی کسی بندے کو ہلاک کرنا چاہے تواس سے شرم و حیا چھین لیتاہے“۔

                ایک طویل حدیث مبارکہ میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓروایت کرتے ہیں کہ ایک موقع پر محسن انسانیت ﷺنے لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ”اللہ تعالی سے ایسی حیا کرو جیسی کہ اس سے کرنی چاہیے،لوگوں نے عرض کیاکہ الحمدللہ ہم اللہ تعالی سے حیاکرتے ہیں،محسن انسانیت ﷺنے فرمایا نہیں،حیاکامفہوم اتنا محدود نہیں جتنا تم سمجھ رہے ہو بلکہ اللہ تعالی سے حیاکرنے کا حق یہ ہے کہ سراورسر میں جو افکاروخیالات ہیں ان سب کی نگرانی کرو اور پیٹ کی اور جو کچھ پیٹ میں بھراہے اس سب کی نگرانی کرو،اور موت کواورموت کے بعد جوکچھ ہونے والا ہے اس کو یاد کرو،پس جس نے ایسا کیا سمجھو اس نے اللہ تعالی سے حیاکرنے کاحق ادا کر دیا“۔اس حدیث مبارکہ میں فکرو عمل سے موت و حیات تک کے تمام امور میں حیاکادرس دیا گیا ہے۔حقیقت یہی ہے کہ حیاکی سب سے زیادہ حق دار اللہ تعالی کی ذات ہے،اور چونکہ اللہ تعالی سے کچھ بھی پوشیدہ نہیں ہے اس لیے کھلے چھپے ہرحال میں اللہ تعالی سے حیاکی جائے اور اللہ تعالی سے حیاکا مطلب اللہ تعالی کاتقوی اختیارکیاجائے اور جلوت ہو یا خلوت برائیوں سے بچنا اور نیکیوں میں سبقت اختیار کرنا ہی تقوی ہے۔حضرت ابن حیدہ سے روایت ہے کہ محسن انسانیت ﷺنے فرمایا”اپنی شرم گاہ محفوظ رکھو(کسی کے سامنے نہ کھولو)سوائے اپنی بیوی اور باندی کے،میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺکیا تنہائی میں بھی؟؟(شرم گاہ نہ کھولی جائے)محسن انسانیت ﷺنے جواباََارشاد فرمایا اللہ تعالی اس بات کا زیادہ حق دار ہے کہ اس سے شرم کی جائے“۔

                حضرت ابو سعید خذری ؓبیان کرتے ہیں کہ محسن انسانیت ﷺکنواری پردہ نشین عورت سے بھی کہیں زیادہ حیادار تھے۔اسی لیے ہر قبیح قول وفعل اور اخلاق سے گری ہوئی ہر طرح کی حرکات و سکنات سے آپ کا دامن عفت و عصمت تاحیات پاک رہا۔ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓفرماتی ہیں کہ محسن انسانیت ﷺنہ فحش کلام تھے،نہ بیہودہ گوئی کرتے تھے اور نہ ہی بازاروں میں شور کیاکرتے تھے،برائی کابدلہ کبھی برائی سے نہ دیتے تھے بلکہ معاف فرما دیتے تھے یہاں تک کہ زوجہ محترمہ ہوتے ہوئے بھی بی بی پاک نے کبھی آپ ﷺکوبرہنہ نہ دیکھاتھا۔محسن انسانیت ﷺکے بچپن کے اوائل عمری میں جب آپ بہت چھوٹی عمر میں تھے اور اپنے چچاؤں کی گود میں کھیلا کرتے تھے تو ایک بار پاجامہ مبارک تھوڑاسا نیچے کو سرک گیا تو مارے حیا کے بے ہوش گئے تب پانی کے چھینٹوں سے ہوش دلایا گیا۔چنانچہ بعدازبعثت حضرت جرہد ابن خویلدسے روایت ہے کہ محسن انسانیت ﷺنے فرمایا ”کیاتمہیں یہ معلوم نہیں کہ ران(بھی)ستر میں شامل ہے“۔حضرت علی کرم اللہ وجہ سے روایت ہے کہ محسن انسانیت ﷺنے فرمایا ”اے علی اپنی ران نہ کھولو اور کسی زندہ یامردہ آدمی کی ران کی طرف نظر بھی نہ کرو“۔حضرت ابوسعید خزری فرماتے ہیں کہ محسن انسانیت ﷺکاارشاد مبارک ہے کہ ”مرد دوسرے مرد کے ستر کی طرف اور عورت دوسری عورت کے ستر کی طرف نگاہ نہ کرے“۔ عبداللہ بن عمر سے تو یہاں تک روایت ہے کہ محسن انسانیت ﷺنے فرمایا”لوگو (تنہائی کی حالت میں بھی)برہنگی سے پرہیز کرو(یعنی ستر نہ کھولو)کیونکہ تمہارے ساتھ فرشتے ہروقت موجود ہوتے ہیں اور کسی بھی وقت جدا نہیں ہوتے لہذاان کی شرم کرو اور ان کا احترام کرو“۔چنانچہ فقہا لکھتے ہیں کہ سوائے قضائے حاجت اور وظیفہ زوجیت کے اپنا ستر کھولنا جائز نہیں اور بالکل الف ننگاہو کر غسل کرنا بھی خلاف سنت ہے پس دوران غسل بھی کسی کپڑے سے ستر یا ننگ کا ڈھکاہونا ضروری ہے۔

                حضرت عبداللہ بن مسعود ؓسے مروی ہے کہ محسن انسانیت ﷺنے فرمایا ”عورت گویا ستر (چھپی ہوئی)ہے،جب وہ باہر نکلتی ہے تو شیاطین اس کو تاکتے ہیں اور اپنی نظروں کا نشانہ بناتے ہیں“۔حضرت حسن بصری نے فرمایا کہ مجھ تک یہ قول رسول ﷺ پہنچاہے کہ ”اللہ تعالی کی لعنت ہو دیکھنے والے پر اور جس کو دیکھاجائے“۔چنانچہ جب اچانک نظر پڑ جانے کے بارے میں دریافت کیاگیاتومحسن انسانیت ﷺنے فرمایا”ادھرسے اپنی نگاہ پھیر لو“۔حضرت بریدہؓفرماتے ہیں کہ محسن انسانیت ﷺنے حضرت علی کرم اللہ وجہ کونصیحت کرتے ہوئے فرما یا”اے علیؓ؛(اگرکسی نامحرم پر تمہاری نظر پڑ جائے تو)دوبارہ نظر نہ کرو،تمہارے لیے(بلاارادہ) پہلی نظر توجائز ہے مگردوسری نظر جائز نہیں“ ۔مولانا ابوالاعلی مودودی ؒاس کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اچانک نظر کی گنجائش ہے لیکن”نظارہ“کی کوئی گنجائش نہیں۔حضرت ابو امامہ ؓنے رویات کیاہے کہ محسن انسانیت ﷺنے فرمایا”جس مرد مومن کی کسی عورت کے حسن و جمال پر نظر پڑ جائے پھر وہ اپنی نگاہ نیچی کر لے تو اللہ تعالی اس کو ایسی عبادت نصیب فرمائے گا جس کی لذت و حلاوت اس مرد مومن کو محسوس ہو گی“۔امیرالمومنین حضرت عمر بن خطاب ؓسے روایت ہے کہ محسن انسانیت ﷺنے فرمایا ”ایسا ہرگزنہیں ہو سکتاکہ کوئی (نامحرم)آدمی کسی عورت سے تنہائی میں ملے اور وہاں تیسرا شیطان موجود نہ ہو“۔ایک موقع پر حضرت عقبہ بن عامرؓ بیان کرتے ہیں محسن انسانیت ﷺنے فرمایا ”تم (نامحرم)عورتوں کے پاس جانے سے بچو(اور اس معاملے میں بہت احتیاط کرو)“۔حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ محسن انسانیت ﷺنے نصیحت کرتے ہوئے ارشادفرمایا کہ ”تم ان عورتوں کے گھروں میں مت جایا کروجن کے شوہر باہر گئے ہوئے ہوں کیونکہ شیطان انسان کی رگوں میں خون کی طرح دوڑتاہے“۔

                حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ محسن انسانیت ﷺنے فریا”آنکھوں کا زنا (نامحرم عورت کی طرف)دیکھنا ہے،کانوں کا زنا (حرام آوازکا)سنناہے،زبان کا زنا(ناجائز)کلام کرنا ہے،ہاتھ کا زنا (ناجائز)پکڑنا ہے اور پیرکا زنا(حرام کی طرف)چل کرجانا ہے اور دل خواہش کرتاہے اور آرزوکرتاہے اور شرم گاہ اس کی تصدیق یا تکذیب کر دیتی ہے“۔حضرت ام سلمہ ؓبیان کرتی ہیں کہ میں اور حضرت میمونہ ؓمحسن انسانیت ﷺکے پاس بیٹھی تھیں کہ ایک نابینا صحابی ابن ام مکتوم ؓحاضر خدمت اقدس ہوئے تو ہمیں حکم ہوا کہ ”تم (دونوں)ان سے پردہ کرو“،ہم نے عرض کی یارسول اللہ ﷺکیا وہ تو نابینا نہیں ہیں؟؟پس محسن انسانیت ﷺنے فرمایا ”کیا تم (دونوں)بھی نابینا ہو؟؟کیا تم (دونوں)انہیں نہیں دیکھتیں؟؟“۔حضرت عبداللہ بن عباس ؓنے فریایاکہ محسن انسانیت ﷺنے عورتوں والا حلیہ اختیار کرنے والے مردوں پر اور مردانہ انداز اختیار کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے،اسی مضمون کو حضرت ابوہریرہ ؓنے بھی یوں بیان کیا کہ ”محسن انسانیت ﷺنے اس آدمی پر لعنت فرمائی ہے جو عورتوں کاسا لباس پہنتاہے اور اس عورت پر بھی لعنت فرمائی ہے جو مردوں کاسا لباس پہنتی ہے۔

                شرم و حیا بعض اوقات بوجھ تصور ہوتے ہیں اوربہت کچھ معاشرتی تقریبات میں تکلیف کاباعث بھی شاید سمجھے جاتے ہوں،جیسے  مردوں اورعورتوں کے لیے قیام و طعام اور نشست و برخواست کا جداجداانتظام کرنااور زنانے میں مردوں کے داخلے پر جزوی پابندی،مردحضرات کے لیے غص بصر(نظریں نیچی رکھنے)کاحکم اور خواتین کے لیے حجاب اوراوڑھنیوں کاقانون اوربازاروں میں اورمیلوں ٹھیلوں اورکھیل تماشوں میں خواتین کی حتی الامکان حوصلہ شکنی وغیرہ لیکن ان معمولی بارگراں جیسے انتظامات کے نتیجے میں ایک بہت بڑا ثمرآورمعاشرہ وجودمیں آتاہے جہاں نسلوں کے نسب مکمل طورپر محفوظ ہوتے ہیں اور آنکھوں میں شرم و حیاکے باعث سینوں میں ایمان بھی سلامت رہتاہے۔یہ انتظامات اگرچہ بعض اوقات معمولی کوفت کاباعث بھی بن جاتے ہیں لیکن حساب کے عملی قاعدے کے مطابق آمدن اور خرچ کے تقابل کے بعد نفع یانقصان کا تعین کیاجاتاہے۔چنانچہ اس معمولی سی تکلیف کے بعدعالم انسانیت کو اگر ایمانی و روحانی و جسمانی صحت بھی میسر آجائے تو سودا نہ صرف یہ مہنگانہیں بلکہ انتہائی سود مند اور بارآور ہے۔اس کے برعکس مخلوط میں محافل میں سب سے پہلے آنکھوں کی حفاظت مطلقاََناممکن ہوتی ہے۔ آنکھوں کے راستے دل کی آلودگی شروع ہوجاتی ہے کیونکہ آپﷺ کے ایک ارشادمبارک کامفہوم ہے کہ”نظر دل کی طرف تیروں میں سے ایک تیر ہے“۔نظر بازی سے ناجائزآشنائیوں کے راستے کھلتے ہیں اور پھرانسانی معاشرہ بلآخرتباہی کے اس گڑھے میں جاگرتاہے جس سے بچانے کے انبیاء علیھم السلام کو مبعوث کیاگیاتھا۔ہرمیدان عمل کی طرح جب حیااور شرم کے میدان میں بھی آسمانی تعلیمات سے منہ موڑ کر روگردانی کی جائے اور احکامات ربانیہ کوپس پشت ڈال کر شادمیانیوں کے گل چھڑے اڑائے جائیں گے تو تباہی و بربادی انسان کا مقدر ٹہرے گی۔

                بے حیائی کا منطقی وتاریخی نتائج میں سے ایک بہت بہت بھیانک نتیجہ خاندانی نظام کی تباہی ہے۔شرم و حیاکاایک نتیجہ نکاح کے ادارے کی مضبوطی و پختگی اوردوام بھی ہے۔مرد کو جب دوسری عورتیں نظرہی نہیں آئیں گی یا لپٹی،سمٹی اورڈھکی ہوئی نظر آئیں گی تو چاہتے  ہوئے یانہ چاہتے ہوئے بھی اس کی تمام تر توجہ اپنی ہی زوجہ کی طرف رہے گی۔اسی طرح جب عورت کاچاہنے والا صرف ایک ہی ہوگااس کااپناشوہر تو اس کامرکزالتفات کبھی منتشرنہیں ہوگا،اور خاندانی نظام مضبوط سے مضبوط ترہوتاچلاجائے گا جس کا نتیجہ سوائے خیر کے کچھ بھی برآمد نہیں ہوگا۔اگرتصویر کا دوسرارخ مشاہدہ کیاجائے تو دنیامیں اس قبیل کے بھی بے شمار معاشرے نظر آئیں گے۔ایسے معاشرے معاشقوں کی بھینٹ چڑھ کر زندہ انسانوں کا قبرستان بن چکے ہیں،بے روح انسانوں کے اجسام کاجم غفیرہے جوایک دوسرے سے بیزارحرص و حوس کی دوڑ میں چندسکوں کے عوض باہم جھنجھوڑنے،بھنبھوڑنے اورنوچنے،چاٹنے،سونگھنے اورچکھنے کے بعد اگلے شکار کی تلاش میں کسی دوسرے بے روح جسم سے کفن کوتارتارکرنے کی تگ و دومیں مصروف عمل ہوجاتاہے۔شرم و حیا کے قحط نے وہاں کے انسانوں کی روحوں کو بے آب و گیاہ ریگستان کی مانند تپتے ہوئے پیاسے صحراکی مثال بنادیاہے جہاں ہر سوسراب ہی سراب ہیں۔رحم کے رشتے ہوں یانسبی و صحری تعلقات ہوں،شرم و حیاء کی قلت وتعدیم نے ہرنوع کے دامن عصمت کوورق ورق کردیاہے۔ اوراس کا وہی مذکورہ نتیجہ برآمد ہوہے کہ عریانی و فحاشی کے خونخوارہاتھوں سے خاندانی نظام درہم برہم ہوکررہ گیاہے۔

                لومڑی گڑھے میں پھنسی تھی،باربارچھلانگیں لگانے کے باوجود نکل نہیں پارہی تھی۔گدھے نے دیکھاتو لومڑی نے فوراََگڑھے کی دیواروں کو سونگھ کر آنکھیں اس طرح بندکیں کہ جیسے بہت لذت وسرورآرہاہو۔گدھے نے پوچھاتولومڑی نے گڑھے کے قصیدے پڑھنے شروع کر دیے کہ گویا یہ گڑھاقطعہ بہشت بریں ہے۔گدھے نے آؤدیکھانہ تاؤ چھلانگ لگادی۔لومڑی نے گدھے کی کمر پراپنے پاؤں ٹکائے اور چھلانگ لگاکر گڑھے سے باہر آگئی۔دشمن اپنے پورے وسائل،قوت و طاقت اور ذہنی وفکری صلاحیتوں اورتحریری و تقریری موادسے سے امت مسلمہ کے سامنے عریانی و فحاشی و مے خواری و بدکاری و لذت گناہ اوگناہ بے لذت کے اس مکروہ اوربدبودارومکروہ گڑھے کو جنت بناکردکھانے میں پوری طرح مصروف ہے۔جب کہ غداران ملت ہمیشہ کی طرح اس باربھی گدھے کاکرداراداکرکے اپنی وہ قیمت وصول کررہے ہیں کہ جس کاخمیازہ صدیوں تک نسلوں کوبھکتناپڑے گا۔ایسے لوگوں کے بارے قرآن مجیدنے واضع طورپر کہاہے کہ ”اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَۃَ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ وَ اللّٰہُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۴۲:۹۱)“۔ترجمہ:”جولوگ چاہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں کے گروہ میں فحش پھیلے وہ دنیااورآخرت میں دردناک عذاب کے مستحق ہیں،اللہ تعالی جانتاہے اورتم نہیں جانتے“۔دشمن ہمیں اس گڑھے میں دانستہ طورپر گرانا چاہتاہے جہاں سے نکلنے میں وہ خودبری طرح ناکام ہے،لیکن وہ گڑھے میں پھنسنے کے بھیانک انجام سے ہمیں اس لیے آگاہ نہیں کرتاکہ ہم اس کے جال میں بآسانی شکارہو جائیں۔لیکن اللہ تعالی اور اس کے رسولﷺکی تعلیمات  ہمارے لیے بہت کافی ہیں،الحمدللہ۔

                گزشتہ اقوام کی تبای ایک سبب یہ بھی تھا کہ وہ گناہ کے کام مل کر اجتماعی طورپرکیاکرتے تھے۔اللہ تعالی کا ہر عذاب اگرچہ بڑا عذاب ہے لیکن سب سے سخت ترین عذاب قوم لوط پر آیا جو اجتماعی عذاب بھی تھا اور انفرادی عذاب بھی۔اس قوم کے جرائم میں ایک جرم یہ بھی تھا کہ وہ شرم و حیا سے عاری ہو چکی تھی اور بے حیائی کے کام بھری محفلوں میں سرعام کیا کرتے تھے۔قوم لوط کے لوگوں کی گفتگو ئیں،ان کی حرکات و سکنات،اشارات و کنایات اور ان کے محلے اور بازارسب کے سب عریانی و فحاشی اور برائی و بے حیائی کا مرقع تھے،تب وہ غضب خداوندی کے مستحق ٹہرے۔آج کی سیکولر تہذیب نے بھی انسانیت کوحیاکے لبادے سے ناآشنا کر دیا ہے اور انسان کوثقافت کی آڑ میں اپنے خالق و مالک سے دور کر کے توتباہی و بربادی کے دہانے پر لاکھڑاکیاہے۔پس جو بھی اس بے ہودگی و ہوس نفس کی ماری پر کشش اورفریب زدہ سیکولرتہذیب میں داخل ہو گاوہ ان الانسان لفی خسر کی عملی تصویر بنتے ہوئے ممکن ہے کہ قوم لوط میں شمار ہوکہ یہ سیکولر فکر خالصتاََابلیس اور اس کے پیروکاروں کا راستہ ہے جس کا انجام بھڑکتی ہوئی آگ کی وادیاں ہیں،اور جو اس نقصان سے بچنا چاہے اس کے لیے کل انبیاء علیھم السلام کا طریقہ حیات موجود ہے جسے بسہولت حیات حیاداری کا نام دیا جاسکتاہے،کہ اس دنیامیں انسانوں سے حیا اور روز محشراللہ تعالی بزرگ و برترکے سامنے پیش ہونے کا خوف و حیا۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
58362

زکواۃ فنڈ اور ”مستحق’ ایب ۔ تحریر ساجد خان

زکواۃ فنڈ اور ”مستحق’ ایب ۔ تحریر ساجد خان اسسٹنٹ انفارمیشن آفیسر محکمہ اطلاعات وتعلقات عامہ خیبر پختونخوا


خیبر پختونخوا حکومت زکوٰۃ فنڈز کو حقداران تک پہچانے کیلئے شفاف اور منصفانہ طریقہ کار وضع کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات اٹھارہی ہے تاکہ حکومت کی طرف سے ملنے والی زکوٰۃ کی رقم محکمہ زکوٰۃ وعشر کے ذریعے مستحقین تک باآسانی پہنچ سکے اور معاشرے کا پسماندہ طبقہ حقیقی معنوں میں زکوۃ فنڈز سے مستفید ہوسکے۔ اس سلسلے میں موجودہ صوبائی حکومت نے ایک انقلابی قدم اٹھایا ہے چند ماہ پہلے محکمہ زکوۃ وعشر نے خیبر پختونخوا انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ کے اشتراک سے ”مستحق” (MUSTAHIQ) کے نام سے ایک ایپ متعارف کروائی ہے جسکا باقاعدہ افتتاح صوبائی وزیر زکوۃ وعشرسماجی بہبود وخصوصی تعلیم اورترقی خواتین انورزیب خان نے کیا۔ خیبر پختونخوا پاکستان کا وہ واحد صوبہ بن گیا ہے جہاں پر مستحق ایپلی کیشن کے ِذریعے صوبے کے مستحق لوگوں کو زکوۃ کی مختلف سکیموں کے بارے میں تفصیلی معلومات فراہم کی گئی ہیں

یہ ایپلیکیشن ایک معلوماتی پلیٹ فارم ہے جہاں پر لوگوں کو زکوٰۃ کی سکیموں کے حوالے سے تمام معلومات تین زبانوں اردو، انگریزی اور مقامی زبان پشتو میں دی گئی ہیں اس کی ساتھ ساتھ مستحق ایپ میں صوبے کے ان 26سرکاری اور نجی ہسپتالوں، ٹرسٹ، ویلفئیر آرگنائزیشن اور فاؤنڈیشن کے نام، ان کے فوکل پرسن کے نام اور انکے رابطہ نمبرز بھی دئیے گئے ہیں جو محکمہ زکوٰۃ وعشر کے ساتھ منسلک ہیں۔ ان ہسپتالوں میں عبدالصمد میموریل ٹرسٹ پشاور، الشفاء ٹرسٹ آئی ہسپتال کوہاٹ، باچاخان میڈیکل کمپلیکس صوابی، مردان میڈیکل کمپلیکس مردان، ژوندون ویلفئیر آرگنائزیشن پشاور، ایمز ذیابیطس ہسپتال اور ریسرچ سنٹر، الخدمت ہسپتال نشتر آباد پشاور، ایوب ٹیچنگ ہسپتال ایبٹ آباد، بنوں انٹسیٹیوٹ آف نیو کلئیرمیڈیسن انکولوجی اور ریڈیو تھراپی، ڈیرہ اسماعیل خان انٹسیٹیوٹ آف نیو کلئیرمیڈیسن اینڈ ریڈیو تھراپی، فاطمید فاؤنڈیشن بلڈبینک پشاور، حمزہ فاؤنڈیشن اینڈ بلڈ ٹرانسفیوژن پشاور، حیات آباد میڈیکل کمپلیکس، انٹسیٹیوٹ آف نیو کلئیرمیڈیسن انکولوجی اور ریڈیو تھراپی ایبٹ آباد، خیبر آنکھ فاؤنڈیشن ہسپتال پشاور، خیبر ٹیچنگ ہسپتال پشاور، کویت ٹیچنگ ہسپتال پشاور، لیڈی ریڈنگ ہسپتال (کارڈیالوجی) پشاور، لیڈی ریڈنگ ہسپتال (جنرل) پشاور، سرحد جیل ہسپتال برائے نفسیاتی امراض پشاور، خلیفہ گل نواز ہسپتال بنوں،فرنٹیئر فاؤنڈیشن اینڈبلد ٹرانسفیوژن پشاور،ارنم ہسپتال پشاور، شوکت خانم ہسپتال پشاور اور انسٹیٹیوٹ آف نیو کلئیر میڈیسن، آنکولوجی اورریڈیولوجی سوات شامل ہیں جہاں پر مستحقین زکوٰۃ کے فنڈ سے اپنا علاج مفت کرواسکتے ہیں ان ہسپتالوں کی لوکیشن معلوم کرنے کیلئے ایپ میں گوگل میپ کا آپشن بھی دیا گیا ہے جس کے ذریعے متعلقہ ہسپتال کو پہنچنے میں بہت آسانی ہوتی ہے

مز ید یہ کہ اس ایپلیکیشن میں ضلعی زکوٰۃ دفاتر کی تفصیلات، ضلعی زکوٰۃ افسر اور چئیرمین کے نام بمع رابطہ نمبرز، مقامی زکوٰۃکمیٹیوں کی تعداد بمع مقامی زکوٰۃ چئیرمین کے نام و فون نمبر بھی تفصیل کے ساتھ موجود ہیں۔زکوٰۃ فنڈز جو (ZMIS) سسٹم کے ِذریعے زکوٰۃ کی مختلف سکیموں میں تقسیم کیا جاتا ہے ان میں گزارا الاؤنس، شادی الاؤنس یعنی جہیز فنڈ، تعلیمی و ظائف، دینی مدارس اور صحت کی دیکھ بھال شامل ہیں ان سکیموں کی مکمل معلومات، درخواست دینے کا طریقہ کار، سکیم کیلئے درخواست دینے والے کی اہلیت مذکورہ ایپلیکیشن میں تفصیل کے ساتھ دی گئی ہیں۔گزارا الاؤنس کُل زکوۃ فنڈ بجٹ کا 68فیصد رکھا گیا ہے یہ ایک ماہانہ عطیہ ہے جو دائمی غریبوں کیلئے مختص کیا گیا ہے جسکا مقصد انہیں بھوک وافلاس سے بچانا ہے جوکہ انتہائی غربت کا سبب اور مظہر ہے اسکی موجودہ ماہانہ شرح ایک ہزار روپے ہے اور مستحق شخص کو مقامی زکوٰۃ کمیٹی کے ذریعہ اسکی ادائیگی کی جاتی ہے گزارا الاؤنس کیلیے مستحق کی اہلیت کا تعین مقامی زکوٰۃ کمیٹی کرتی ہے

اس سکیم کے تحت وہ بالغ مسلمان جو غربت کے نچلے طبقے سے ہو، بیروزگار ہو اور عادتاً بھکاری نہ ہو مستفید ہو سکتا ہے جبکہ بیواؤں اور معذوروں کو برتری دی جاتی ہے۔ جہیز فنڈ کیلئے زکوٰۃ کے کل بجٹ کا12فیصد رکھا گیا ہے۔جہیز فنڈ کا مقصد غیر شادی شدہ خواتین کو مالی امداد فراہم کرنا ہے جو ان کی شادی کے اخراجات پورے کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔شادی الاؤنس کی موجودہ شرح 30ہزار روپے ہے۔ جہیز فنڈ کیلئے کوئی بھی غریب، مسکین اور مستحق عورت یا اس کے والدین یا سرپرست، اس عطیہ کیلئے مقامی زکوٰۃ کمیٹی کو درخواست دے سکتے ہیں۔مقامی زکوٰۃ کمیٹی استحقاق کا تعین کرتی ہے اور ضلعی زکوٰۃ کمیٹی قانونی کارروائی کے بعد متعلقہ مقامی زکوٰۃ کمیٹی کو فنڈز جاری کرتی ہے۔صحت کی دیکھ بال کیلئے زکوٰۃ کے کل بجٹ کا 4فیصد رکھا گیا ہے یہ حکومت خیبر پختونخوا کی طرف سے غریب مریضوں کی صحت کی دیکھ بال کیلئے مختص شدہ فنڈ ہے جو صوبائی حکومت ضلعی سطح پر ضلعی ہیڈکوارٹر ہسپتالوں اور تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتالوں کو فنڈ جاری کرتی ہے اور اس فنڈ سے غریب لوگوں کا مفت علاج کیا جاتا ہے

استحقاق کا تعین مریض کے مستقل رہائشی علاقے کی مقامی زکوٰۃ کمیٹی کرتی ہے۔تعلیمی و ظائف کیلئے زکوٰۃ کے کل بجٹ کا 8فیصد رکھا گیاہے جوصوبے کے مستحق طلباء وطالبات کے تعلیمی اخراجات کے لئے استعمال ہوتا ہے تاکہ مستحق طلباء اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں۔سکول لیول پر ماہانہ وظیفہ00 5 روپے ہے ایف اے/ایف ایس سی لیول پر ماہانہ 1500 روپے ہے گریجویشن/ بی ایس سطح پر 2000روپے ماہانہ جبکہ ایم فل اور پی ایچ ڈی سطح پر 5000روپے ماہانہ دیاجاتاہے۔اسی طرح رجسٹرڈ دینی مدارس کیلئے زکوٰۃ کے کل بجٹ کا 8 فیصد دیا جاتاہے اور مستحق طالبعلموں کو 1000 اور 1500 روپے ماہانہ وظیفہ ملتا ہے،مستقبل میں اس ایپلیکیشن کے اندر زکوٰۃ کے تمام فیلڈ کلرکس کے نام بھی ڈالے جائینگے اور تمام ہسپتالوں کے زکوٰۃ فنڈز کی دستیابی کے بارے میں معلومات بھی مہیا کی جائیں گی اس کے ساتھ ایپ میں یہ بھی معلومات فراہم کی جائینگی کہ زکوٰۃ سکیموں کیلئے درخواست دینے والوں کی درخواست کونسے مرحلے میں ہے درخواست گزار کے فارم پر کارروائی ہورہی ہے یا اسکا نام سکیم کیلئے منتخب ہوا ہے یا پھر مسترد ہوا ہے یہ معلومات شناختی کارڈ نمبر کے ذریعے میسر ہوگی زکوٰۃ فنڈز کی تقسیم میں شفافیت لانے کیلئے محکمہ زکوٰۃ وعشر نے ای زکوٰۃ سسٹم کی طرف اقدام اٹھاتے ہوئے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام، پاکستان بیت المال، اکاؤنٹنٹ جنرل خیبر پختونخوا اور محکمہ ایکسائز کے ساتھ مفاہمتی یاداشت پردستخط بھی کئے تاکہ غیر مستحق لوگوں کا تدارک ہوسکے، خیبر پختونخوا زکوٰۃ عشر کونسل کے ایکٹ میں ترامیم کے بعد مفاہمتی یاداشت پر عملی کام شروع کیا جائیگا۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
58350

مصر میں احیائے اسلام کے بانی: امام حسن البنا شہیدؒ – ڈاکٹر ساجد خاکوانی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

مصر میں احیائے اسلام کے بانی:امام حسن البنا شہیدؒ

(12فروری،یوم شہادت کے موقع پر خصوصی تحریر)

ڈاکٹر ساجد خاکوانی(اسلام آباد،پاکستان)

[email protected]

مسلمانوں کے ایک ہزارسالہ دوراقتدار کے بعد تین سو سال تک کم و بیش پوری امت مسلمہ پر غلامی مسلط رہی۔گزشتہ صدی کے نصف اول میں جب پوری امت میں بیداری کی تحریکیں شروع ہوئیں اور غلامی کی زنجیریں ٹوٹنے لگیں توفکری و نظریاتی قیادت نے امت کی سیادت سنبھال لی۔تجدیددین کا یہ عمل مشرق سے مغرب تک پوری امت مسلمہ میں شروع ہوا۔سیداحمدشہیدؒ،شاہ اسمئیل شہیدؒ،علامہ اقبالؒ،قائداعظم محمدعلی جناح، مولانا مودودیؒ،سیدجمال الدین افغانی ؒ اورامام خمینی ؒاسی باب کاعنوان تھے۔عرب اقوام میں اس دینی و ملی شعور کی تحریک کا آغازکرنے والے امام حسن البنا شہیدؒ تھے۔ان لوگوں کی بیدار مغزقیادت نے امت کو مغرب کی ذہنی غلامی سے آزاد کیااور مسلمان نوجوانوں میں دورغلامی کے احساس کمتری کو اعتماد نفسی سے بدل دیا۔انہیں لوگوں کی کاوشوں کے نتیجے میں مسلمان آج اس قابل ہوئے ہیں کہ اپنے دوست اور دشمن کی پہچان کرسکیں۔امت مسلمہ میں جہاد جیسے ادارے کی تجدید کا سہرا بھی اسی قیادت کے سر ہے۔

امام حسن البنا شہیدؒنے1906میں مصر کی بستی محمودیہ کے ایک علم دوست گھرانے میں آنکھ کھولی۔امام صاحب کے والدپیشہ کے اعتبار سے اگرچہ گھڑی ساز تھے لیکن وقت کے بہت بڑے عالم دین اوربنیادی طور پرمحدث تھے۔انہوں نے مسند امام احمد بن حنبلؒکو فقہی ابواب کے تحت ترتیب دیااور اسکی شرح بھی لکھی،اسکے علاوہ بھی متعدد کتب حدیث پر آپ کی قابل قدر کاشیں موجود ہیں،گویاامام حسن البناؒ کو والدکی طرف سے دینی تعلیم کاواضع اورشفاف تصور گھر میں ہی میسرآگیا۔سولہ سال کی عمر میں امام حسن البناؒنے قاہرہ کے دارالعلوم میں داخلہ لیااور1927ء میں گریجوئیشن تک کی تعلیم وہاں پر مکمل کی۔آپ کی شاندار تعلیمی کارکردگی کی بناپر آپ کواسمائیلیہ کے ”مدرسہ امیریہ“میں مدرس تعینات کر دیاگیا،یہ سرکاری ملازمت تھی۔یہ دور امت پر فکری زوال کادور تھااور امام حسن البناؒامت کی اس حالت پر صبح و شام گہری سوچ میں غلطاں رہاکرتے تھے۔مسلسل غوروفکر کے بعد اور بہت قریبی ساتھیوں کے مشورے سے مارچ1928میں آپ نے ”اخوان المسلون“کی بناڈالی۔1933ء میں انکاتبادلہ کر دیاگیااور وہ قاہرہ آگئے اور اخوان کا مرکزی دفتر بھی قاہرہ میں منتقل ہوگیا۔”اخوان المسلمون“بہت جلد مصر سمیت تمام ممالک عرب کے مسلمانوں کی عام طور پر اور مسلمان نوجوانوں کی خاص طور پر دلوں کی دھڑکن بن گئی۔اخوان کی اس تیزی سے بڑھتی ہوئی مقبولیت کے ساتھ ساتھ اسکی ذمہ داریوں میں بھی اضافہ ہوتا گیاجس کا نتیجہ یہ نکلا کہ امام حسن البناؒکے لیے تدریس و تنظیم میں مطابقت پیداکرنا مشکل ہوگیا۔آپ نے راہ عزیمت کا انتخاب کیا اور 1946ء میں سرکاری ملازمت جیسی نعمت سے استعفی دے کر تواخوان المسلمون کے لیے اپنے آپ کو تاحیات وقف کردیا۔آپ نے مصر کی بستی بستی اور قریہ قریہ میں اخوان کی شاخیں کھولیں انکے ذمہ داروں کا تقررکیا اور لٹریچر کی ترسیل وسیع پیمانے پر جاری و ساری کی۔یہ ساراکام بڑی خاموشی سے مسجدوں اور گھروں کی بیٹھکوں میں وعظ و تزکیر اور چھوٹے چھوٹے اجتماعات کے ذریعے تکمیل پزیر ہوتا رہا۔گویا گھاس کے اندر ہی اندر پورا دریا بڑی خاموشی سے بہتاچلاجاہاتھا۔

اخوان کے مقاصد باالکل وہی تھے جو انبیاء علیھم السلام کی تحریکات کے مقاصد ہوا کرتے تھے۔1938ء میں ایک بار ”اخوان المسلمون“کی غرض و غایت اور مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے امام حسن البناؒنے طویل تقریر کی آپ نے فرمایا”ہمارا عقیدہ ہے کہ اسلام کی تعلیمات و احکام واضع وجامع ہیں،جولوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ اسلامی تعلیمات صرف عبادات و روحانیات پرہی مشتمل ہیں وہ غلط فہمی کاشکار ہیں۔اس لیے کہ اسلام نظریہ حیات عقائدوعبادات،وطنیت و شہریت اور کتاب و تلوار سمیت زندگی کے تمام پہلؤں کاحاطہ کرتا ہے۔اب اگر امت چاہتی ہے کہ وہ اسلام کے لحاظ سے صحیح مسلمان بنے تو اس پر واجب ہے کہ اسلامی تعلیمات کو زندگی کے تمام امور پر نافذ کرے،اللہ تعالی کے رنگ میں اپنے آپ کو رنگ لے اور اسکے احکامات کی فرمانبرداری کرے“۔اسلام کے اس جامع تصور کی وضاحت کے بعد امام حسن البنا شہیدؒ نے اخوان المسلمون کی غرض و غایت بیان کی”اخوان المسلمون کا مقصد صحیح اسلامی تعلیمات پر ایمان رکھنے والی ایسی نئی نسل کی تشکیل ہے جوامت کی زندگی کے تمام پہلؤں کو مکمل طور پر اسلامی رنگ میں رنگ دے۔جس اسلام پر  اخوان المسلمون کایقین وایمان ہے اس کے ارکان میں ایک اہم رکن حکومت بھی ہے۔ہم چاہتے ہیں کہ اسلامی وطن ہر غیرملکی اقتدارسے آزادہو اور پھر اس آزاد وطن میں خودمختار اسلامی حکومت قائم ہو جواسلامی احکام کے تحت کام کرے اوراس کے معاشرتی نظام کو نافذ کرے ۔اس منزل کو پختہ یقین،باریک بینی سے تشکیل و تدوین اور مسلسل جدوجہد سے ہم حاصل کر سکتے ہیں“۔

امام حسن البنا شہیدؒ نے اخوان المسلمون کو ایک مضبوط تنظیمی ڈھانچہ فراہم کیا۔اخوان کے دستورکے مطابق انکا مرکزی سربراہ”مرشدعام“کہلاتاہے جسے اخوان المسلمون کی مشاورتی اسمبلی کثرت رائے سے منتخب کرتی ہے۔مرشدعام کی معاونت کے لیے بنیادی کمیٹی ہوتی ہے جو پورے ملک سے اخوان کے متحرک لوگوں کے انتخاب سے وجود میں آتی ہے۔مرشدعام اگرچہ اخوان المسلمون کاسربراہ ہوتا ہے لیکن بنیادی کمیٹی کے اختیارات مرشدعام سے زیادہ ہوتے ہیں۔اخوان کا ایک سیکرٹری جنرل بھی ہوتاہے جس کاانتخاب مرشدعام کے مشورے سے بنیادی کمیٹی کرتی ہے۔مرکزی دفاتر کامجموعہ جنرل ہیڈ کوارٹر کہلاتاہے جس میں متعدد شعبے پورے ملک کے کام کا جائزہ لیتے ہیں اور مستقبل کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔امام حسن البنا شہیدؒ نے ملک کے ہر طبقے کے لوگوں کواخوان المسلمون میں شامل کیا1933ء میں اخوان کی خواتین ونگ کا قاہرہ میں افتتاح کیاگیا جو کے بعد سے آج تک خواتین میں تیزی سے متحرک ہے۔امام حسن البنا شہیدؒ تجدیدواصلاح کے داعی تھے اوراسلامی شریعت کو معاشرے میں جاری و ساری ہوتا دیکھناچاہتے تھے۔یہ خواہش اگرچہ ہر مسلمان کے سینے میں ہوتی ہے لیکن امام حسن البنا شہیدؒ نے جس انداز سے عربوں میں اپنی فکرکوتحریک کی شکل دی اس سے سامراج گھبراگیا اور انگریزوں نے اخوان المسلمون کے بڑھتے ہوئے اثرات پر پابندی لگانے کافیصلہ کیا۔پہلے اخوان کے رسالہ کو بند کیاگیا پھر انکی قیادت کو امام حسن البنا شہیدؒ سمیت شہر بدر کیاجس پر مصر کی پارلیمنٹ نے بھرپور احتجاج کیا اورحکومت کو اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا۔1946میں اخوان المسلمون نے اپنا روزنامہ نکالنا شروع کیا جس کی اشاعت میں روزبروزاضافہ اور بے حد مقبولیت نے سامراج کی نیندیں اڑا دیں۔انگریزوں نے جب اخوان المسلمون پر حالات تنگ کیے تو اخوان کے لوگوں کا انگریزوں سے براہ راست تصادم بھی ہوا۔ابھی یہ کشمکش جاری تھی فلسطین میں اسرائیل کے قیام کااعلان ہو گیا۔1946 ء میں ہی جب لندن جاتے ہوئے قائداعظم ؒ نے قاہرہ میں مختصر قیام کیاتو اخوان کے سرکردہ راہنماؤں نے انکا پرجوش استقبال کیا،ان کی میزبانی کی اور پھر اگلی فلائٹ پر انہیں رخصت کیا۔1948ء میں جب اسرائیل کے خلاف جہاد کا اعلان ہوا تو اخوان المسلمون نے  اپنے رضاکار جوک درجوک بھیجے۔اخوان المسلمون کے سرفروشوں نے باربار جنگ کے پانسے پلٹے اور دادشجاعت دیتے ہوئے دور صحابہ کرام کی مثالیں تازہ کر دیں۔اخوان المسلمون کے جانبازوں کی کاروائیاں یہودی پریس میں بھی شائع ہوئیں اور یہودونصاری کو سمجھ نہیں آتی تھی آخر ان لوگوں کاکیا علاج ممکن ہے۔

یہ سب باتیں سامراج کے لیے ناقابل برداشت تھیں۔وائے قسمت کہ دشمن کو ہمیشہ سے امت مسلہ کے اندر غداروں کی ایک کھیپ میسررہتی ہے۔مدینۃ النبیﷺ کا رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی اپنے کردار میں شاید تاقیامت زندہ رہے گا۔مصری وزیراعظم نے بیرونی دباؤمیں آکراور اپنے آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے بالآخر8دسمبر 1948ء کو مارشل لاء آرڈیننس نمبر63کے ذریعے اخوان المسلمون کو خلاف قانون قرار دے دیا۔اسلامی دنیا میں یہ پہلی دفعہ ضرور تھا لیکن آخری دفعہ نہیں تھا۔سامراج نے اس طریقے کو بعد میں پاکستان اور ترکی سمیت کئی اسلامی ممالک میں بھی آزمایا۔صد افسوس کہ اپنے پیش رؤں کاانجام دیکھنے کے باوجود  امت کے حکمران آج تک دوست اور دشمن کی پہچان سے نابلد ہیں۔اخوان المسلمون پر پابندی تو محض ایک بہانہ تھاحقیقت میں تو اس تحریک کو ختم کرنا ہی مقصود تھا۔چنانچہ پورے ملک میں پکڑ دھکڑ شروع ہوئی۔اخوان کے لوگ جیلوں میں ٹھونسے گئے اور ان پر تشدد کے لیے استعمال کیے جانے والے آلات سامراج نے فراہم کیے اور برطانیہ سے انہیں درآمد کیاگیا۔عورتوں بوڑھوں اور بچوں تک کو معاف نہ کیاگیا۔جیلوں میں طرح طرح کے تشدد کے ایسے طریقے اخوان پر روا رکھے گئے کہ انہیں پڑھ کر ہی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں لیکن آفرین ہے اخوان المسلمون پر کہ ان کے پائے استقامت میں بال برابر بھی جنبش نہ آئی۔جیلوں میں جانے والوں کے بچوں اور ان کے گھروں کی نگہداشت باہر رہ جانے والوں نے اس تندہی کے ساتھ کی کہ انصار مدینہ کی یاد تازہ ہو گئی۔

امام حسن البنا شہیدؒ کو حکومت براہ راست تو کچھ نہ کہ سکی لیکن انکی مسلسل نگرانی کی جانے لگی اور بالآخر12فروری 1949ء کو خفیہ پولیس اہلکاروں نے اس وقت امام کو گولی کا نشانہ بنایاجب وہ اخوان المسلمون کے شعبہ نوجوانان”شبان المسلمون“کے دفتر سے باہر نکل رہے تھے۔امام حسن البنا شہیدؒ اپنے رب سے جاملے اور ہمیشہ زندہ رہنے کے منصب پر سرفراز ہو گئے۔سلام ہو اس تنظیم پر اور اسکی قیادت پر کہ جس نے اپنے خون سے امت مسلمہ کے شجر سایہ دار کی آبیاری کی۔اللہ تعالی امام حسن البنا شہیدؒ سمیت امت کے کل شہدا کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے،آمین۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
58348

آغا خان ہائر سیکنڈری سکول کوراغ کا ایک اور کا میا بیوں سے بھرا سال – تحریر: عبداللہ خان

آغا خان ہائر سیکنڈری سکول کوراغ کا ایک اور کامیابیوں سے بھرا سال – تحریر: عبداللہ خان

کسی بھی تعلیمی ادارے کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی اعزاز نہیں کہ اس ادارے میں پڑھنے والے کامیابی کی سڑھیاں چڑھیں۔
کچھ ایسا آغا خان ہائر سیکنڈری سکول کے اس سال میں ہوا کہ ایک سال میں ادارہ ہذا سے 12 طالبات میڈیکل سیٹ میں،8 طالبات BSCN کے ٹسٹ میں ،2 طالبات بیرونی ہونیورسٹیز کی سیٹ میں جبکہ 1 طالبہ LUMS میں داخلہ لینے میں کامیاب ہوئی ہے۔


یہ ایک صوبائی ریکارڈ بن گیا ہے کہ ایک کلینڈر سال میں میڈیکل سیٹ میں ایک اردے سے 12 طالبات کامیاب ہوئی ہیں۔ تفصیلات کے مطابق سال 2021 کے بیچ میں 8 طالبات صوبائی میڈیکل سیٹ کے اوپن میرٹ میں کامیاب ہوئی ہیں/جبکہ 4 طالبات ملک کی سب سے بڑی یونیورسٹی آغا خان میڈیکل یونیورسٹی میں ایم ایم سیٹ سنھبالی ہیں اسی طرح MDCAT کے ٹسٹ میں کامیاب ہونے والوں میں کوغذی سےلائیبہ نور، انارہ تانیہ حسین پرکوسپ، عالیہ فرح غفارآوی، کائنات قبادمستوج، رخسار عامر چرون، مرورید افسرکوراغ، رخسانہ تسنیم لاسپوراور ثوبانہ رحمان ریشن شامل ہیں ۔ اس طرح اے کے یو میں الوینہ محمد خان بونی ، نازیہ مہوش بریپ، افسانہ پری لٹکوہ اور شازیہ ولی لاسپورشامل ہیں۔UCA کے ٹسٹ میں ماہین علی میر بونی اور سدرہ عالم کامیاب ہوئی ہیں۔ پاکستان کی سب بڑی یونیورسٹی LUMS میں سو فیصد سکالرشپ پر بھی ایک طالبہ مہک عالم بونی داخلہ لینے میں کامیاب ہوئی ہے۔ اس طرح اسی سال کے ہی 8 طالبات اے کے یو میں BSCN پروگرام میں داخلہ لینے میں کامیاب ہوئی ہیں۔ اور یاد رہے MDCAT کے ریزو سیٹ کے رزلٹ کا آنا باقی ہے جس میں 4 اور طالبات ویٹنگ لسٹ میں موجود ہیں۔ صوبہ خیبر پوختونخواہ کے اندر پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ ایک سال میں ایک ادارہ اتنی کامیابیاں سمیٹی ہو۔


ان سب کی کامیابی پر آغا خان ہائرسیکنڈری سکول کوراغ کی پرنسپل سلطانہ برہان الدین نے اپنے ایک پیغام میں اس کامیابی کو طالبات اور اساتذہ کی محنت اور ٹیم ورک کا نتیجہ قرار دیا ہے اور شاباشی دیتے ہوئے کہا کہ آئندہ بھی اس طرح کی کامیابی کے لیے پُرامید ہیں۔اس سلسلے میں سکول ہذا کو چترال کے ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے افراد کے تحسینی پیغامات موصول ہورہے ہیں جس کے لیے ہم شکرگزار ہیں۔ الغرض یہ سال بہت سے چلینجز کے باوجود سکول کے لیے ایک کامیاب سال رہا ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
58336

پاکستان کو بھارت میں مدغم ہونے سے بچائے ; قادر خان یوسف زئی کے قلم سے

پاکستان کو بھارت میں مدغم ہونے سے بچائے ; قادر خان یوسف زئی کے قلم سے

الم انگیز ہونے پر کیا دلچسپ ہوتا ہےچراغ انجمن کا ذکر، پروانے کا فسانہ


سرسید نے آج سے قریب  ایک سوپچاس برس پہلے، اپنے انگریز کلکٹر سے کہا تھا کہ آپ لوگ اسں غلط فہمی میں نہ رہیں، کہ ہندوستان میں ایک قوم بستی ہے۔ یہاں دو الگ الگ قومیں بستی ہیں، اگر آج کوئی اس حقیقت سے اغماض برتتا ہے تو آنے والا زمانہ اس سے اس حقیقت کو خود منوا لے گا۔ سر سید نے یہ اعلان، جنگ آزادی1857 سے چند برس بعد کیا تھا، جب حالت یہ تھی کہ انگریز اور ہندو کی متحدہ سازش، بھارت سے مسلمانوں کا نام و نشان تک مٹانے کے لئے برسرِ کار تھی۔ سر سید کے اس انقلابی اعلان سے ان کے کان کھڑے ہوئے اور انہوں نے متحدہ قومیت کا جالبننے کے لئے گہری تدبیریں سوچنی شروع کردیں۔ 1880میں کانگریس کا قیام اسی سازش کی ایک کڑی تھا، سر سید نے مسلمانوں کو متنبہ کیا کہ وہ ہندو اور انگریز کے تیار کردہ اس دام ہمرنگ ِ ز میں نہ پھنسیں اور اُس کانگریس میں قطعاََ شامل نہ ہو جو بھارت کے تمام باشندوں کو ایک قوم کے افراد قرار دے کر، اپنے آپ کو”نیشنل“ کہتی ہے۔اس کے بعد جب بھارت کو شریک ِ حکومت کرنے کی اصلاحات کا پہلا قدم اٹھایا گیا تو سر سید نے انگریز سے بر ملا کہہ دیا کہ جب تک مسلمانوں کو جداگانہ نیابت نہیں دی جائے گی، ہم اس میں شرکت نہیں کرینگے۔ سر سید کے بعد اقبال بھی اسی پیغام کو دہراتا رہا کہبنا ہمارے حصار ِ ملت کے اتحاد ِ وطن نہیں ہے


 اور ہندو، اس کے خلاف متحدہ قومیت کا راگ الاپتا رہا، تآنکہ 1930میں اقبال نے اس نظری تصور کو عملی پیکر میں تبدیل کرنے کے لئے، مسلمانوں کی جداگانہ قوم کے لئے ایک جداگانہ خطہ  زمین کے مطالبہ کی بنیاد رکھی۔ بات آگے بڑھتے چلی گئی تآنکہ ہندو اور انگریز دونوں کو، مسلمانوں کے اس متحدہ مطالبہ کے سامنے جُھکنا پڑا، اور1947میں مسلمانوں کے لئے خطہ  زمین کو الگ کردیا گیا اور اس طرح ہندوستان کے تقسیم عمل میں آگئی۔ یوں تو یہ تقسیم انگریز، ہندو اور مسلمانوں کے مشترکہ معاہدہ کی رُو سے عمل میں آئی تھی، لیکن ہندو اور انگریز دونوں کے دل پر کیا گذری تھی، اس کا اندازہ اس اعلانات سے لگائیے، جس سے انہوں نے اس معاہدہ کی رسم افتتاحیہ ادا کی تھی۔یہ معاہدہ مسلم لیگ اور کانگریس کے مابین ہوا تھا۔ 3 جون1947 کو اس پر دستخط ہوئے اور آل انڈیا کانگریس کمیٹی نے  14جون کو حسب ِ ذیل قرار داد پاس کی۔” آل انڈیا کانگریس کمیٹی کو پورا پورا یقین ہے کہ جب موجودہ جذبات کی شدت میں کمی آجائے گی تو ہندوستا ن کے مسئلہ کا حل صحیح پس منظر میں دریافت کرلیا جائے گا اور ہندوؤں اور مسلمانوں کے دو الگ الگ قومیں ہونے کا باطل نظریہ مردود قرار پاجائے گا۔

“پنڈت جواہر لعل نہرو ایک طرف اس معاہدہ پر دستخط کررہا تھا اور دوسری طرف قوم سے کہہ رہا تھا کہ۔۔” ہماری اسکیم یہ ہے کہ ہم اِس وقت جناحؔ کو پاکستان بنا لینے دیں اور اس کے بعد معاشی طور پر اور دیگر انداز سے ‘ ایسے حالات پیدا کرتے جائیں جن سے مجبور ہو کر مسلمان گھٹنے کے بل جھک کر ہم سے درخواست کرے کہ ہمیں پھر سے ہندوستان میں مدغم کرلیجئے۔“یہ قوم پرستوں کے نیتاؔ تھے۔ ہندو مہا سبھا کے سرپنچ، ڈاکٹر شیاما پرشاد مکر جی، اپنی جاتیؔ کو یہ تلقین کررہے تھے کہ۔۔”ہمارا نصب العین یہ ہونا چاہیے کہ پاکستان کو پھر سے ہندوستان کا حصہ بنالیا جائے، اس حقیقت سے متعلق میرے دل میں ذرا سا بھی شبہ نہیں کہ ایسا ہو کر رہے گا، خواہ یہ معاشی دباؤ سے ہو یا سیاسی دباؤ سے، یا اس کے لئے دیگر ذرائع استعمال کرنے پڑیں۔“گو کہ پاکستان کا قیام ماضی کی تاریخ سے مستقبل کی جانب گامزن ہے، لیکن سوچنا یہ ہے کہ کیا بھارت واسیو کے دل میں پاکستان سے نفرت کو بھڑکنا والے، اس آگ کو کبھی بجھنے بھی دیں گے کہ نہیں، یا یہ آتش فشاں ہر وقت پھٹتا رہے گا۔پاکستان کے سرخیلوں نے ماضی سے نکل کر مستقبل کے لئے اب کیا سوچا ہے، اس پر نوجوان نسل نے کبھی غور کیا کہ نہیں یا، باریاں کی آنیاں اور جانیاں لگی رہے گی۔ ذرا نہیں پورا سوچو، لیکن ایک بار صرف نوجوان کے مستقبل کے لئے، پاکستان کے لئے۔۔ پاکستان کو بھارت میں مدغم ہونے سے بچائے۔ کیونکہ مملکت واقعی نازک دُور سے گذر رہی ہے۔معاشی اور سیاسی تباہ حالی کے پل صراط سے۔۔

Posted in تازہ ترین, مضامین
58315

آزادکشمیر متحدہ اپوزیشن محاذ – پروفیسر عبد الشکور شاہ

آزادکشمیر متحدہ اپوزیشن محاذ – پروفیسر عبد الشکور شاہ

الیکشن 2021 میں آزادکشمیر کے تمام اضلاع میں سب سے زیادہ آزادامیدوار ضلع نیلم سے دیکھنے کو ملے۔بس صرف دیکھنے کو ملے کیونکہ 99% الیکشن کے دن سے پہلے اپنی ساکھ،نظریہ،بلندوبالا نعرے،نام نہاد انقلابی سوچ، اعلی تعلیمی ڈگریاں وغیرہ وغیرہ سب روائیتی سیاستدانوں کی جھولیوں میں بطور نظرانہ پیش کر چکے تھے۔جو ایک فیصد رہ گئے تھے ان کی داستان غم بیٹھ جانے والوں سے بھی دردناک ہے۔بس یوں سمجھ لیں جب سب بیٹھ گئے تو ان کے بیٹھنے کی جگہ ہی نہ بچی لحاظ انہوں نے کھڑے رہنے میں ہی عافیت سمجھی۔آزادکشمیر کے سبھی اضلاع میں یہی ماجرا پیش آیا۔جیسے ہی الیکشن نتائج کا اعلان ہوا تو رت ہی بدل گئ۔ پی پی کو ووٹ دینے والے ن لیگ کے جیتنے والے امیدوار کو مبارکباد دینے پہنچ گئے اور ن لیگ کو ووٹ دینے والے پی پی کے جیتنےوالے امیدوار کو مبارکباد دینے پہنچ گئے۔پی ٹی آئ کو مبارکباد دینے کے لیے نسونس،پہجو پہج،چمڑوچمڑ،پہلچو پہلچ تے ترپوترپ جیسی صورت حال تھی۔

چھوٹی جماعتیں اور آزادامیدوار خرامے خرامے واپس پنڈی،اسلام آباد،لاہور اور کراچی کی طرف کھسکنے لگے۔یوں الیکشن سے پہلے اپوزیشن کی باتیں کرنے والے کانوں میں روئ ٹھونس کر رفوچکر ہوگئے۔نیلم میں جناب شاہ اور میاں صاحب نے آپس میں مک مکا کر کے الحاج سرکار کو اکھاڑے سے باہر کردیا۔مسلم کانفرنس نے ہر ممکن مفاد حاصل کرنے کی سہی کی مگر کچھ ہاتھ نہ آیا۔مسلم کانفرنس نےچند بکروں کے بدلے ٹکٹ تقسیم کیے تو آخر میں مینگڑاں ای ملیاں۔ہمارے میاں صاحب بھی دیرینہ رفاقت کو چھوڑ کر ن لیگ میں شامل ہوگئے شائد کچھ بھانجے بھتیجے لگوانے کی امید باقی ہو آج تک عوام علاقہ کے ووٹوں کے نام پر اپنی جیبیں بھری ہیں اور اپنے رشتہ دار ہی لگائے ہیں۔نیلم ڈویلپمنٹ بورڈ اور کشمیر کونسل کی نشستوں کے وعدوں پر ایم فل پرائمری پاس کے چرنوں میں جاگرےمگر کوئ امید بر نہ آئ۔واحد حل جماعت اسلامی والے تو اب واٹسپ گروپس اور سوشل میڈیا سے بھی غائب ہوچکے ہیں۔جماعت اپنی ماضی کی روش پر چل رہی جس کا ممبرومحراب چپ رہ کر عہدے اور مفادات حاصل کرنا ہے۔

تحریک لبیک مذہبی چورن کے نام پر جماعت اسلامی سے بہتر ووٹ لینے میں کامیاب تو ہوئ مگر الیکشن کے بعد چپ سادھ لی ہے۔چند دن پہلے ان کے گم شدہ کارکنان اپنے سربراہ کے ولیمے کے لیے وئبریشن کرتے دکھائ دیے اور پھر سائلینٹ موڈ پر لگ گئے ہیں۔لبریشن لیگ کے امیدواران تو کیا ان کا صدر آزاد امیدوار کے برابر بھی ووٹ نہ لے سکا۔اب اپوزیشن کرنے کے لیے نہ کوئ فرزندکشمیر ہے،نہ فخرکشمیر،نہ سپوت کشمیر،نہ محافظ کشمیر،نہ شان کشمیر، نہ کوئ کمانڈر اورمجاہد کشمیر۔میراکشمیر جوں کی توں ہے اور یہ سیاسی ہفتہ باز سبزباغ دکھا کر رفوچکر ہوچکےہیں۔لاٹری تو ان لوگوں کی نکلی جن کی حکومت نہیں بنی۔یہ سیاسی شہید بن چکے ہیں۔نہ کام کے نہ کاج کے دشمن قومی اناج کے۔5سال تک ہمارے ٹیکسوں سے تنخواہ،مراعات،سہولیات اور ایم ایل اے فنڈز لیکر کہنا ہماری حکومت ہی نہیں ہم کیا کریں۔سابقہ سپیکر آزادکشمیر تو برسراقتدار ہوتے ہوئے یہ کہتے تھے میری ڈی سی نہیں سنتا، اب تو شائد چپڑاسی بھی نہ سنتا ہو۔رہے میاں صاحب اب موبائل بھی مہنگے والے ہیں اب موبائل توڑنے والا کام بھی مشکل ہے۔سب نے اپنی دکانداری چمکا لی ہے بس بیچاری عوام وہیں کی وہیں ہے۔

غریب کے نام پہ ووٹ لینے والے امیر ہوگئے اور غریب کو دووقت کا کھانا بھی نصیب نہیں ہوتا۔الیکشن سے پہلے سب بڑی سیاسی پارٹیوں کی اجارہ داری کے خلاف تھے مگر متحدہ کشمیر/ نیلم محاذ بناکر الیکشن تو نہ لڑ سکے کم از کم متحدہ اپوزیشن محاذ کشمیر بنا کر اپوزیشن تو کرسکتے ہیں۔مگر یہ ایسا کبھی نہیں کریں گے کیونکہ ان کا مقصد کشمیر نہیں نوکریاں،تبادلے،سکیمیں،ٹھیکے اور اپنی دیہاڑی لگانا ہے۔جماعت اسلامی ہویا لبیک،لبریشن لیگ ہویا مسلم کانفرنس،ن لیگ ہو یا پی ٹی آی،آزاد امیدوار ہوں،دیگر پارٹیاں ہوں یا پی پی سب کھا پی کے چکروں میں ہیں۔سیاسی پارٹیوں کے حکومتی پارٹی کے ساتھ ماضی کے الحاق اس بات کا واضع ثبوت ہیں یہ مفادات کے لیے اپنا نظریہ تک بیچ دیتےہیں۔رہے آزادامیدوار تو وہ بیچارے معصوم ہیں ان کو تو خود نہیں پتہ تھا وہ الیکشن کیوں لڑرہے تھے۔کچھ نوکری کے لیے لڑ رہے تھے،کچھ انا کی تسکین،کچھ شہرت،کچھ ضد،کچھ بیٹھنے کے لیے،کچھ لیٹنے کے لیے،کچھ سیاسی کاروبار کے لیے،کچھ سیاسی ایڈجسٹمنٹ کے لیے،کچھ سیاسی پارٹیوں کے کہنے پر اور کچھ دیگر مفادات کے لیے میدان میں اترے تھے۔

ہم خیال گروپ ایسا شڑپ ہوا کہ کیا کہوں۔ہم خیال کے امیدوار نے کلمہ پڑھ کر کہا بیٹھوں گا نہیں وہ بیٹھاواقعی نہیں لیٹ گیاہے۔مقامی سیاسی چیلوں کو نہ تو کسی پارٹی سے سروکار ہے اور نہ ہی کسی شخصیت سے۔ان کا مقصد ٹھیکوں اور سکیموں کے زریعےمال بٹورناہے۔عام ووٹر ابھی بھی کسم پرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔کچھ بڑے مقامی سیاسی چیلے پہلے نوجوانوں کو نشے پہ لگواتے ہیں پھر ان سے چوریاں کرواتے ہیں۔مال خود کھاجاتے اور چوروں کو یاتو بچا دیتے یا بھگا دیتے۔ان نقب زن گروہوں میں کچھ مقامی سیاستدانوں اور آستانہ نشینوں کے بچے بھی شامل ہیں۔پورے کشمیر کا کوئ پرسان حال نہیں ہے۔اگر ہم سیاسی پارٹیوں سے پیوستہ رہ کر بہتری یا اپوزیشن کی امید لگائے رکھیں گے تو یہ عبس ہے۔سیاسی پارٹیاں اور افراد اپوزیشن نہیں اپنی پوزیشن کے بارے فکر مند رہتے۔اب یہ ذمہ داری کشمیر کے پڑھے لکھے،باشعور اور غیورنوجوانوں کے کندھوں پر ہے کہ وہ اپنے حقوق کے لیے اپوزیشن کا کردار ادا کریں۔اس الیکشن میں اکثر اعلی تعلیم یافتہ  نے اپنی ڈگریاں،قابلیت،اہلیت،جدوجہد، نظریہ سب کچھ پرائمری پاس کے چرنوں میں ڈال کر بھی خوار ہو رہے۔ یہ پڑھے لکھے نوجوانوں کے لیے نصیحت ہے کہ وہ سیاسی بتی کے پیچھے لگنے کےبجائے اپنی تعلیم،قابلیت،اہلیت اورمیرٹ پر یقین رکھیں۔اپنی خوداری،عزت نفس اور وقار کسی صورت مجروح نہ ہونے دیں۔جو اسمبلی ایم ایل اے کے لیے پرائمری اور چپڑاسی کے لیے میٹرک پاس ضروری قرار دے وہاں کیا امید کی جاسکتی ہے۔درد دل رکھنے والے احباب کشمیر متحدہ اپوزیشن محاذ بنا کر اپنے حقوق کی جدوجہد کا آغاز کریں۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
58313

دھڑکنوں کی زبان – “سوات موٹر وے” – محمد جاوید حیات

دھڑکنوں کی زبان – “سوات موٹر وے” – محمد جاوید حیات

آج پہلی بار سوات موٹر وے سے سفر کیا۔سفر خوشگوار ٹھرا ۔۔تمرگرہ سے آگے کوسٹر میں بیٹھا ۔۔ایک بزرگ استاد گاڑی چلا رہا تھا ۔میں نے بڑے ادب سے ان کے کان میں کہا استاد ۔۔کتنے سالوں سے اس طرح راہ نورد ہو ۔۔کہا عمر پنساٹھ سال ہے اس میں سے بیس نکالو میں بیس سال کی عمر میں گاڑی لے کے روڈ وں کی خاک چھاننے لگا تھا ۔میں نے کہا تو ڈرایونگ کی عمر پنتالیس سال ہوگئ ہاں بیٹا ۔۔اسم شریف استاد جی ۔۔۔محمد اسلم ۔۔


سفر خوشگوار تھا دورویہ سڑک ۔۔کشادہ اور سیدھا ۔استاد جی سٹیرنگ گماتا تک نہیں تھا ۔ میں نے کہا موٹر وے پہ سفر کیسا لگتا ہے ۔۔۔اس نے مسکرا کر کہا پھر سے جوان ہوگیا ہوں اللہ بنانے والوں کا بھلا کرے ۔۔ایک بار پھر ملک خداداد پہ پیار آگیا ۔شیر شاہ سوری نے پشاور تا بنگال دورویا سڑک بنایا حالی نے تڑپ کر ان کا ذکر کیا تاریخ میں امر ہوگیا ۔۔اس دو دن کی زندگی میں جس کو اقتدار ملا ہے کچھ کر کے گیے ہیں تو تاریخ کے دامن میں امر ہیں ۔کسی نے نہر کھود دی نہر زبیدہ ۔۔کسی نے تاج محل بنایا ۔کسی نے یونیورسٹی بنائی ملک خداداد میں کسی نے ڈیم بنایا یہ اس کا کارنامہ ہے کسی نے اٹم بم کا تصور دیا ہاتھ خود بخود دعا کو اٹھتے ہیں ۔کسی نے موٹر وے بنایا ہزار اختلاف سہی شاباش کہنے کو دل کرتا ہے ۔لیکن جس نے کچھ نہیں بنایا اقتدار کے نشے میں وقت گنوا دیا ان کے نام و نشان مٹ گئے ۔شاید تاریخ رٹنے والوں کو بھی وہ یاد نہ رہیں ۔۔


سوات موٹر وے بھی ایک یاد گار ہے مجھے وزیر اعلی محمود خان پر بہت پیار آیا اس کامقام و احترام دل میں جاگزین ہوا ۔تین سوال اٹھے ۔تین خواب دل میں سر اٹھایے ۔۔پہلا سوال یہ کہ اگر بندہ کچھ کرنے کا عزم کرے تو دو سالوں کی مختصر مدت میں سحرا کو گلزار ،پہاڑ کو سونا اور ویرانے کو جنت بنادے ۔۔سوات موٹر وے اس کی زندہ مثال ہے محمود خان میں پٹھانوں کی روایتی غیرت جاگ اٹھی تھی شاید ۔ ناممکن کو ممکن بنانے کا عزم ۔۔۔دوسرا سوال اگر ٹرخانا لولی پاپ کھلانا سبز باغ دکھانا ہو تو اپر چترال میں بونی تورکھو روڈ اس کی مثال ہے ۔۔تیس کلو میٹر ۔بس پندرہ فٹ چوڑی لیپ ٹاپنگ ۔۔دس سال ہوگئے ایک کلو میٹر بھی پورا نہیں بنی ۔

تیسرا سوال یہ ملک ہمارا ہے یہ قوم ہماری ہے اس کا مستقبل ہمارا ہے یہ پیسے اس قوم کے ہیں ۔حکمران اس کی فکر کیوں نہیں کرتے ۔۔سوات موٹر وے بنتا ہے اس پر حکمران کی توجہ تھی محمود خان قوم کے محسن ہیں ۔اس محسن سے ایک خواب جڑا ہوا ہےیہ کہ یہ موٹرے وے آگے چترال شندور گلگت تک جایے گا ۔اس سے ایک خواب جڑا یے کہ قوم کے ہیسے درست ہاتھوں میں اس طرح استعمال ہوں گے ۔اس سے ایک خواب جڑا ہے کہ اس ملک کی تعمیر ممکن ہے اگر غیرت والے حکمران مل جائیں ۔۔ملک کی ترقی اس وقت ممکن ہے کہ کڑی نگرانی ، کڑا قانون اور مخلص لیڈرشپ ہو ۔۔مجھ جیسے عام مسافروں کو بہت فخر محسوس ہوتا ہے ہمیں سیاست سے کوئی تعلق نہیں ۔ہم کام کو دیکھ کر دعا دیتے ہیں ۔ترقی دیکھ کر فخر محسوس کرتے ہیں ۔خلوص دیکھ کر خوش ہوتےہیں ۔۔


ہارا ملک شادو آباد رہے۔۔۔

sawat motorway chakdara chawk 1
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
58295

دُختر کشی – قادر خان یوسف زئی کے قلم سے

دُختر کشی – قادر خان یوسف زئی کے قلم سے

اولاد نرینہ کی خواہش انسان کی نفسانی کمزوری ہے۔ حقیقی معنوں میں ایسے بہت کم لوگ ہوں گے، جنہیں اولاد نرینہ کی آرزو نہ ہو۔ ایک دل خراش واقعے نے دل دہلا کر رکھ دیا۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق پشاور میں ایک جعلی پیر نے اولاد نرینہ کی آرزو مند خاتون کے سر میں مبینہ طور پرکیل ٹھونک دی تاکہ ان کے ہاں بیٹا پیدا ہو جائے۔تفصیلات کے مطابق لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور (ایل آر ایچ) میں خاتون مریضہ آئی جس کے سر میں ایک پیر نے کیل ٹھونک دی تھی۔وجہ پوچھنے پر خاتون مریضہ نے بتایا کہ ان کی نرینہ اولاد نہیں ہو رہی تھی جس وجہ سے وہ ایک پیر کے پاس گئی جن کے پاس اولاد نرینہ کی آرزو مند بہت ساری خواتین جاتی ہیں۔ خاتون مریضہ کا کہنا تھا کہ پیر نے انہیں کیل کا بتایا اور کہا کہ سر میں کیل ٹھوکنے سے اس کی نرینہ اولاد پیدا ہو جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ وہ کیل کے لیے راضی ہو گئی تاکہ ان کے ہاں بیٹا پیدا ہو جائے۔ 

دوسری جانب خاتون کے شوہرنے بیان دیا کہ یہ نفسیاری مریضہ ہے، سر میں کیل جنات نے ٹھونکی ۔دختر کشی کی ان گنت مثالیں تاریخ انسانی میں ملیں گی۔ اگر دیکھا جائے کہ کیا لڑکیوں کو پیدا ہوتے ہی مار دینا خود کو ذلت اور رسوائی سے بچانا مقصود تھا تو پھر ایسے معاشرے میں اتنی کثرت سے بیویاں کہاں سے آجاتی تھی کہ ایک مرد کے گھر میں دس دس بارہ بارہ بیویاں ہوتی تھی۔ بامعنی دیگر لڑکی کا پیدا ہونا اور اسے زندہ درگور کرنے سے مراد میں فکر اور اخلاقی طور پر مار ڈالنا بھی تصور کیا جاسکتا ہے کہ اس کو وہ حقوق اور آزادی ہی نہ ملے جو اس کا بنیادی اور انسانی حق ہے۔ دختر کشی کے جرم کا ارتکاب کرنے والے فقر و فاقہ کے اندیشے کی وجہ سے اولاد نرینہ کی زیادہ خواہش رکھتے ہیں۔ قرآن کریم میں رب کائنات نے واضح طور پر فرمایا کہ ’اور اپنی اولاد کو تنگ دستی کے ڈر سے قتل نہ کرو، ہم انہیں بھی رزق دیتے ہیں اور تمہیں بھی، بے شک ان کا قتل کرنا بڑا گناہ ہے۔‘

 پشاور میں رونما ہونے والا  دل سوزواقعہ اولا نرینہ کی خواہش میں کی جانے والی شدت پسندی کا پہلا واقعہ نہیں بلکہ چشم فلک روز ایسے تماشے دیکھتا ہے کہ اولاد کی پیدائش یا بیٹے کی خواہش کے لئے حد سے بھی بڑھ کر وہ کچھ کرلیا اور کرایا جاتا ہے جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ہمارے معاشرے میں دختر کشی کی مختلف صورتیں، قبیح مثالوں میں ملتی ہیں۔ فکری، نظری اور اخلاقی طور پر بھی لڑکیوں کو مارڈالا جاتا ہے۔ اس طرح بچیوں کو مار ڈالنا بھی کوئی کم جرم نہیں، اس سے پوری انسانیت تباہ ہوجاتی ہے، معاشرے میں چند بچے ایسے پیدا ہوجائیں کہ وہ پورے معاشرے کے لئے وبال جان بھی بن جاتے ہیں۔

پوری نئی پود،ان کے اعمال سے متاثر ہوتی ہے۔ اولاد میں جنس کی تخصیص کے بغیر صحیح تربیت دینا والدین کا فرض ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ آپ اپنے بچوں کو کتنی ہی صحیح تربیت دیں لیکن محلہ میں چند شریر او ر بد اخلاق بچے بھی موجود ہیں  تو آپ کی صحیح تربیت آپ کے بچوں پر وہ اثر نہیں کرسکے گی جو محلہ کے ان چند بچوں کے اثرات کام کرجائیں گے۔ یہ انفرادی جرم نہیں بلکہ آہستہ آہستہ اجتماعی جرم بن جاتا ہے۔ مثل مشہور ہے کہ خربوزہ کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پلٹتا ہے، خربوزوں کے متعلق یہ بات صحیح ہو یا نہ ہو مگر بچوں کے متعلق یہ احوال حرف بحرف صحیح ہے۔ اس لئے یہ سوچ لینا کہ صرف لڑکی ذلت و رسوائی کا سبب بن سکتی ہے تو اسے زمانہ جاہلیت کی فرسودہ سوچ ہی کہا جاسکتا ہے۔ درحقیقت اولاد کی درست تربیت نہیں کرپاتے تو اتنا ہی نہیں کہ آپ اپنے بچوں کی زندگی خراب کرتے ہیں بلکہ بالواسطہ پورے معاشرے کے بچوں کی زندگیاں تباہ و برباد کردیتے ہیں۔ دختر کشی کی مذموم سوچ کے سہارے نام نہاد زندگی گزارنے والے دراصل جھوٹے نفس کے غلام اور من گھڑت دلیلوں کے سہارے جیتے ہیں۔اللہ تعالی نے اولاد کو اپنی نعمت، رحمت اور حیات دنیوی کی زینت قرار دیا ہے، اولاد میں لڑکے بھی شامل ہیں اور لڑکیاں بھی۔ ؒ

لڑکے پیدا ہونے پر خوشی منانا اور لڑکی پیدا ہونے پر سوگ من جانا یہ وہ جاہلیت ہے جس کا اسلام سے ہی بلکہ انسانیت سے بھی کوئی تعلق نہیں۔ یہ جاہلانہ تعلیمات اور رسم و رواج کا وہ ناسور ہے، جس میں خود عورت کو اپنے عورت ہونے کا دکھ اٹھانا پڑتا ہے، ایک عورت خود ایک عورت پر اولاد نرینہ کے لئے دباؤ ڈالتی ہے تو لڑکیوں کی پیدائش پر زندگی کو اجیرن کردیتی ہے۔ معاشرے میں سمجھانے کے لئے آگاہی اور شعور پیدا کرنا سب کا فرض ہے کہ عورت اور مرد دونوں اپنی اپنی جگہ ہی اپنی اہمیت رکھتے ہیں، زندگی کی گاڑی نہ مرد تنہا کھینچ سکتا ہے،نہ عورت۔ زندگی کے تقاضے کچھ اس قسم کے ہیں کہ نہ تنہا مرد ان کو پورا کرسکتا ہے نہ تنہا عورت انہیں پورا کرسکتی ہے۔

یہ دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے عورت اور مرد کو ایک دوسرے کا لباس قرار دیا۔جدید سائنس اب اس گتھی کو سلجھا اور انسانوں کو سمجھا چکی کہ وہ کیا قانون فطرت ہے کہ کسی کو لڑکے ہی لڑکے ملتے ہیں اور کسی کو لڑکیاں ہی لڑکیاں ملتی ہیں۔ کچھ ایسے ہوتے ہیں جن کے ہاں لڑکے اور لڑکیاں دونوں ہوتے ہیں اور کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ ان کے ہاں نہ لڑکے پیدا ہوتے ہیں اور نہ لڑکیاں ہوتی ہیں۔اس میں کچھ انسان کی اپنی ہنر مندی کا کوئی دخل نہیں، اس لئے اگر کسی کے ہاں لڑکے ہی لڑکے پیدا ہوتے ہیں تو اس پر اسے گھمنڈ کرنے کا کوئی حق نہیں، اگر کسی کے ہاں لڑکیاں ہی لڑلیا ں پیدا ہوتی ہیں تو اسے قطعاََ کبیدہ خاطر ہونے کی شرم اور عار محسوس کرنے کی ضرورت نہیں، اگر کسی کے ہاں اولاد ہی نہیں تو اس میں بھی شرمانے یا رنجیدہ رہنے کی کوئی بات نہیں، دکھ تکلیف کی اصل کیفیت تب ہوتی ہے کہ کسی کی دختر اپنے کوکھ سے پیدا ہونے والی اولاد میں حمل کے دوران سر میں کیل ٹھونک کر اولاد نرینہ کی خواہش میں حد سے بڑھ یا مجبور ہو جاتی ہے۔ یاد رکھیں اور سمجھنا چاہے کہ نہ لڑکے کچھ زیادہ فضلیت کے مالک ہوتے ہیں اور نہ لڑکیاں کچھ کوتاہ دست ہوتی ہیں، کتنے سنگ دل اور شقی طلب بہروپہئے اور بد بخت لوگ ہوتے ہیں جو ماں باپ کو، جو محض ایک رسمی عار سے بچانے کے لئے ان کی زندگیاں خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
58281

ایران: اسلامی انقلابات کی سرزمین – ڈاکٹر ساجد خاکوانی

بسم اللہ الرحمن الرحیم


(11فروری ایران کے قومی دن کے موقع پر خصوصی تحریر)

                ایران کی سرزمین جنوب مغربی ایشیائی قدیم تہذیبوں کے ساتھ ساتھ قدیم مذاہب کی بھی آماجگاہ رہی ہے،اس خطہ ارضی کو ”فارس“بھی کہتے تھے اور یہاں بولی جانے والی زبان اب بھی فارسی کہلاتی ہے۔”فارس“ کی وجہ تسمیہ 1000سال قبل مسیح اس علاقے میں ہجرت کر کے آنے والے قبائل ہیں جو ”پارسا“کے نام سے تاریخ میں محفوظ ہیں ان کا یہ نام بعد میں جزوی تبدیلی کے ساتھ اس علاقے کی پہچا ن بن گیا۔گزشتہ صدی کے آغاز تک اس علاقے کو ”فارس“ہی کہتے تھے تاآنکہ 1935ء میں ایرانی حکومت نے پوری دنیا سے اپیل کی اب سے انہیں ایران کے نام لکھااورپکارا جائے۔”ایران“کامطلب ”آریاؤں کاوطن“ہے۔ایران کی تاریخ شخصی و خاندانی طرزحکمرانی سے بھری پڑی ہے۔وسطی و جنوبی ایشیا اور عرب اقوام کے درمیان واقع ہونے کے باوجود اس خطے نے ان دونوں علاقوں سے بہت کم اثر لیااور ہمیشہ اپنی مقامی تہذیب کی پرورش ہی اس خطے کا طرہ امتیاز رہی ہے۔ایران جنوب مغربی ایشیاکی اسلامی ریاست ہے جس کابہت بڑا حصہ سطح مرتفع پر مشتمل ہے اور چاروں طرف بلندوبالا پہاڑی سلسلے ہیں جن کے دروں سے گزر کر اس سرزمین میں داخل ہونا پڑتاہے۔آبادی کی اکثریت اسی طرح کے بے آب و گیاہ علاقے میں رہتی ہے۔

اس کا دارالحکومت ”تہران“ہے،اصفہان اور شیرازسمیت اس مملکت کے متعدد شہر بہت بڑی تاریخی اہمیت اور عظیم ثقافتی و ادبی ورثے کے حامل ہیں۔ان شہروں کی سرزمین اور اس پر بنی عمارتوں میں صدیوں کی تاریخی یادداشتیں دفن ہیں اور یہ علاقے تاریخ کے کتنے ہی عروج و زوال کی داستانیں لیے نہ صرف یہ کہ خاموش کھڑے ہیں بلکہ اس سے زیادہ تاریخی اسرارورموزکو محفوظ کرنے کے منتظر ہیں۔ایران کی قدیم تاریخ کو تین ادوار میں تقسیم کیاجاتا ہے،قبل از تاریخ کادور کم و بیش ایک لاکھ سال قبل مسیح کاہے جب یہاں پر انسانی قدموں کی چاپ پہلی دفعہ سنائی دینے لگی،اخامنشی دورکاسورج طلوع ہونے پر دوسرے دور کااختتام ہوتاہے اور خود اخامنشی دور ایرانی قدیمی تاریخ کاآخری دور ہے جو چھٹی صدی قبل مسیح سے شروع ہو کر چوتھی صدی قبل مسیح تک جاری رہتاہے۔ایرانی قدیم تاریخ کایہ آخری دور علم و آگہی کادور کہلاتا ہے جب ایران میں تعلیم و تعلم کا آغاز ہوا اور ایران کی تاریخ لکھی جانے لگی۔اس دور میں ایرانی حکمرانوں کی قلمرو میں بھی اضافہ ہوا اور وسطی ایشیائی ریاستوں تک ایران کی حدود پہنچنے لگیں۔ایرانی قدیم ادوار کی تاریخ کاماخذزیادہ تر قدیم تاریخی عمارات ہی ہیں لیکن اخامنشی دور کی تاریخ کے مکمل تحریری شہادتیں میسر ہیں۔

                کم و بیش 600قبل مسیح میں ”زرتشت“نامی معلم اخلاق نے شمال مشرقی ایران میں اپنی تعلیمات کے پرچار کا آغاز کیا،یہ اخامنشی دور اقتدارتھا۔اس نے سچ بولنے اور جھوٹ سے بچنے کی تعلیم دی۔”اہورمزدا“نامی خدا کی پوجا اسکی تعلیمات میں شامل ہے لیکن بنیادی طور پر اسکا مذہب اخلاقیات کاہی مرقع ہے۔اس سے پہلے بھی ایرانیوں کے ہاں ایک مذہب کے خدوخال پائے جاتے تھے ”زرتشت“نے پرانے مذہبی عقائدومعاشرتی رسومات کی اصلاح کاکام بھی کیا۔اس نے جانوروں کی قربانی سے منع کیااوراپنے ماننے والوں کے دلوں میں ”آگ“کی اہمیت اجاگر کی۔”زرتشت“نے ”آگ“کی پوجاتونہیں کی لیکن اسکے ہاں ”آگ“ سب سے بڑا اور اعلی درجے کاسچائی کا مظہر ہے۔اخامنشی حکمرانوں نے زرتشت کے مذہب کو جزوی طور پر قبول کیا اور اسکے کیلنڈر کو مملکت میں رائج کیا۔”زرتشت“کے ماننے والے آج تک دنیامیں باقی ہیں اور آگ کی پوجایعنی آتش پرستی کے حوالے سے دنیاکے مذاہب میں پہچانے جاتے ہیں۔330قبل مسیح میں اسکندراعظم نے اخامنشیوں کو شکست دے کر توایران کی فتح مکمل کی اور اس طرح مغربی ایشیامیں یونانی تہذیب نے اپنے پنجے گاڑنے کا آغاز کیا۔سکندراعظم کی فوج کے بہت سے یونانی سپاہی ایران میں مستقل طور پر آباد ہوئے اور ان یونانی باشندوں نے یہاں شادیاں کر کے اپنی نسل پروان چڑھائی اوراپنے ساتھ لائی ہوئی تہذیب کی پرورش کی۔اسکندر نے یہاں اپنا سیاسی نظام رائج کیا اور اخامنشی دور کی باقیات میں سے بھی کچھ کو باقی رکھا۔تسخیرایران کے بعدبہت جلد سکندر اعظم اس دارفانی سے کوچ کرگیااور ایران میں چوتھی صدی قبل مسیح کے ختم ہوتے ہوتے یونانیوں کا سورج بھی غروب ہو چکاتھااور ساسانیوں نے یونانی مقبوضات پر اپنا تسلط جمالیاتھا۔

                ایران میں مسلمانوں کی آمد تک ساسانی نام کے حکمران اقتدار میں رہے۔انہوں نے ایران میں ایک شاندار تہذیب کی بنیاد رکھی اور اسکی اقدارکوپروان چڑھایا۔”زرتشت“مذہب کی جدیدشکل بھی انہی کے دور میں تیارکی گئی اورتاریخی اہمیت کے آتش دان تعمیرکیے گئے تاکہ آگ کی پوجا وسیع پیمانے پر کی اور کرائی جا سکے۔سلطنت روما کے ساتھ ساسانیوں کی جنگیں تاریخ کے طالب علم کے لیے بہت دلچسپی کاسامان رکھتی ہیں۔انہیں کے دور میں مذہب عیسائیت بھی ایران میں پہنچااگرچہ کچھ لوگ اس مذہب سے متاثرہوئے لیکن عیسائیت آج تک ایران میں کوئی اہم مقام حاصل نہ کر سکی اس کے برعکس ایران کے پڑوسی ممالک میں اس مذہب کے ماننے والوں کی ایک کثیر تعداد ہمیشہ موجود رہی ہے۔اس دور کا ایک اور قابل ذکرامر”مانی“نامی (216-274ء)فلسفی کی آمد ہے،یہ پارتھیوں کی اولاد میں سے تھااوربیبیلونیاکا رہنے والا تھا۔اسکی تعلیمات زیادہ تر روحانی نظریات اور بہت گہرے فلسفوں پر مبنی تھیں۔مانی نے اپنے لیے دعوی کیا کہ وہ حضرت موسی اورحضرت عیسی علیھما السلام کی تعلیمات کی تکمیل کے لیے آیا ہے۔اس نے ”زرتشت“اور بائبل کی تعلیمات کو یکجا کر کے تو ایک نیامذہب بنانے کی کوشش بھی کی۔ہندوستان سے واپسی پر اس نے پہلے ایک معلم اخلاق کی حیثیت سے اپنے کام کا آغاز کیا لیکن بہت جلداسے اپنے ماننے والوں کی ایک کثیر تعداد میسر آگئی یہاں تک کہ بادشاہ ”شاپور“نے بھی اسے مان لیا اور اسے ایک نبی کامقام میسر آگیا۔اس نے بادشاہ کو اپنی تعلیمات پر مبنی ایک کتاب ”شہبرگان“بھی پیش کی،لیکن اسکی تعلیمات کو قبول عام حاصل نہ ہوسکااور اسکا فلسفہ کتابوں میں دفن ہوکررہ گیا۔

                طلوع اسلام کے وقت ساسانی حکمران ایران کے تخت پر جلوہ گرتھے۔صلح حدیبیہ کے بعد جب محسن انسانیتﷺ نے دیگربادشاہوں کی طرح ایران کے بادشاہ کسری پرویزکوبھی دعوتی خط لکھاتووہ خط کے اوپر اپنے نام کی بجائے اللہ تعالی کانام دیکھ کرسیخ پاہوااور خط کو چاک کردیا۔اس نے اپنے یمنی گورنر”باذان“کو حکم بھیجاکہ اس نبیﷺکو گرفتار کر کے اسکے دربار میں پیش کیاجائے۔”باذان“مدینہ پہنچااور مسلمان ہوگیا،اسے محسن انسانیتﷺ نے خبر دی کہ آج رات تمہارابادشاہ قتل ہوگیاہے،اس نے بعد میں اس سچی خبر کی تصدیق بھی کرلی۔محسن انسانیتﷺنے پیشین گوئی کی کہ جس طرح پرویزنے میراخط چاک کیا ہے اسی طرح اسکی سلطنت بھی ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے گی۔اس سے پہلے بھی غزوہ خندق کے موقع پر آپ ﷺ نے فرمایاتھا کہ مجھے قیصروکسری کی کنجیاں دی گئی ہیں۔امیرالمومنین حضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ کے دور میں ایران اسلامی ریاست کاحصہ بنااورسچے نبیﷺ کی یہ سچی پیشین گوئی کی صداقت تاریخ نے ثابت کردی۔ حضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ چاہتے تھے کسی طرح ایران سے ٹکر نہ ہواوراکثر فرمایاکرتے تھے کہ کاش ہمارے اور ایران کے درمیان آگ کا پہاڑ ہوتا۔لیکن عراق کے جوعلاقے ایرانی سلطنت سے مسلمانوں نے چھین لیے تھے.

شاہ  یزدگر،ایرانی بادشاہ،انکے حصول کے لیے مسلسل تگ و دو کرتارہااورمسلمان افواج اس سے ہمیشہ برسرپیکار رہیں۔اس مسئلے کے مستقل حل کے لیے اکابرصحابہ و اہل بیت مطہرین نے حضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ کوایران پر لشکرکشی کامشورہ دیا،حضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ خوداس بڑی کاروائی کی قیادت کرنا چاہتے تھے لیکن حضرت علی کرم اللہ وجہ نے انہیں مرکزچھوڑنے سے منع کردیا۔تمام محاذوں سے افواج اسلامی کو ایران کی سرحدوں پر جمع ہونے کاحکم ہوااور21ھ کو ایک طویل معرکے کے بعد ایرانی فوج نے منہ کی کھائی اور اسکے بعد بچے کھچے علاقے بھی فتح کر لیے گئے۔مدینہ جب فتح کی خبر پہنچی توحضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ نے مسجد نبوی میں مسلمانوں کو جمع کر کے خطاب کیااور کہا کہ ”آج مجوسیوں کی سلطنت تباہ ہوگئی ہے۔ان کے عظیم الشان ملک کی ایک چپہ زمین بھی آج ان کے قبضے میں نہیں۔اللہ تعالی نے انکی زمین اور انکی دولت کا تمہیں وارث بنایا ہے تاکہ تمہیں آزمائے۔تم اپنی حالت نہ بدلو ورنہ خدا تمہاری جگہ دوسری قوم کو دے دے گا“۔ایران کی فتح کے بعد اتنی دولت مدینہ پہنچی کی حضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ دیکھ کر رونے لگے اور انہیں دور نبوت کے فاقہ زدہ اوقات یاد آگئے۔ایران کے آخری فیصلہ کن معرکے میں کامیابی کے بعدمیدان جنگ میں فاتح مسلمانوں نے شکرانے کے آٹھ نوافل ایک ہی سلام کے ساتھ باجماعت ادا کیے تھے۔

                تب سے اب تک ایران امت مسلمہ کاایک اہم حصہ رہاہے اور ہر دور میں ایران اور ایرانی مسلمانوں نے اسلامی شعائرکی ترویج اور اسلامی لٹریچرکی اشاعت میں اپناقابل قدر حصہ ڈالا۔1979کے اسلامی انقلاب کے بعد ایران کانام آئینی طور”اسلامی جمہوریہ ایران“رکھ دیاگیااور اسکے جھنڈے میں بھی اللہ تعالی کام شامل کیاگیا،انقلاب کے بعد سے خلاف اسلام قوانین بناناممنوع ہے،انقلابی قیادت نے تعلیم اور معیشیت سمیت تمام شعبوں میں اسلامی اصلاحات کی ہیں۔

[email protected]

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
58250

چے گویرا اوربلوچستان – تحریر : راجہ منیب

پاکستان میں  دوبارہ دہشت گردی کے واقعات میں جس  تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے ، اس سے عام پاکستانی گہری سوچ میں گرفتار ہورہا ہے کہ آخر اس دہشت گردی کا کوئی تدارک تو ہو گا۔ اس وقت بلوچستان اور کے پی کے میں گزشتہ ایک ہفتے  میں پنجگور، نوشکی اور بلوچستان کے دوسرے علاقوں میں دہشت گردی کے واقعات میں کچھ زیادہ تیزی دیکھنے میں آرہی ہے ۔بلوچستان میں دہشت گردی کی حالیہ لہر نے معصوم شہریوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے اور لوگوں کی پرامن زندگیوں کو نقصان پہنچایا ہے۔معدنیات سے مالا مال صوبے میں دہشت گردی نے سر اٹھایا ہے کیونکہ حالیہ مہینوں میں پورے خطے میں گھات لگا کر کیے گئے حملوں، جھڑپوں اور بم دھماکوں میں درجنوں سیکورٹی اہلکار اور دہشت گرد ہلاک ہو چکے ہیں۔ کالعدم بلوچ لبریشن آرمی نے پاکستان میں حالیہ حملوں کی ذمہ داری قبول کی۔کل تو افغانستان کے بارڈر سے حملہ ہوا ہے اور پانچ پاکستانی سکیورٹی اہلکار شہیدہو گئے ہیں جس سے ہماری افغان پالیسی پر سوال اٹھنا شروع ہو گئے ہیں کہ آخر کب تک ہم دہشت گردی کا شکار ہوتے رہیں گے ۔

اس حوالے سے وزیر داخلہ کا یہ کہنا کہ یہ انڈیا کی ،را، ایجنسی کی کاروائی ہے جس میں امریکی اسلحہ برآمد ہوا ہے۔ پڑوسی ملک افغانستان کی غیر مستحکم صورتحال اور دہشت گردوں کو غیر ملکی حمایت صوبہ بلوچستان میں تشدد اور دہشت گرد گروہوں کے دوبارہ منظم ہونے کےاہم عوامل ہیں۔ آخر ہم برادر ملک افغانستان کو مطمئن کیوں نہیں کر پا رہے کہ کبھی تو ٹی ٹی پی اندرون ملک اور خصوصی طور پر پچھلے کچھ عرصہ سے سی پیک پر کام کرنے والے چینیز دوستوں کو بھی نشانی بنایا گیا اور اب جبکہ ہمارے ہاں آسٹریلیاء کی  کرکٹ ٹیم کی چوبیس سال بعدآمد کی خبرہےاور ان تمام واقعات کے باوجود پی ایس ایل کے میچ کامیابی سے جاری ہیں، ہمیں دہشت گردی کے ان واقعات کا انتہائی سنجیدگی سے جائزہ لینا ہو گااور اس کے سد باب کی پوری طرح کو ششیں کرنا ہوں گی۔سیکیورٹی چیک پوسٹوں پر حملوں اور صوبہ بلوچستان کے کئی حصوں میں دہشت گردوں کے ساتھ جھڑپوں میں کم از کم 20 فوجی شہید ہوئے جو کہ اربوں ڈالر کے چین پاکستان اقتصادی راہداری کا ایک اہم روٹ ہے۔بلوچستان کے حالات گذشتہ کچھ عرصے سے سیاسی سرگرمیوں کیلئے حد درجہ نا موافق رہے ہیں۔

میں ہمیشہ ہی بلوچستان کی تاریخ و ترقی پر بات کرتا رہا ہوں مگر آج    ذکر کر دوں کہ کہانی کہاں سے بگڑی ۔بلوچستان پاکستان کے ان حصوں میں سے ہے جہاں محرومی کا احساس بہت شدت سے پایا جاتا ہے ۔ بلوچ عوام کے حقوق اور بلوچستان کی ترقی کے لیے اعلانات تو کئی بار کیے گئے ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اس سلسلے میں ہونے والی پیش رفتوں کی تعداد بہت کم اور رفتار بہت سست ہے۔ اس صورتحال کا فائدہ بلوچستان میں موجود علیحدگی پسند عناصر بھی اٹھاتے ہیں اور بھارت سمیت کئی ممالک بھی اس سلسلے میں اپنا منفی کردار بھرپور طریقے سے ادا کرتے ہیں۔1948ء میں قلات ریاست کے پاکستان سے الحاق کے وقت ہونے والی پہلی شورش سے لے کر اب سے تقریباً دو دہائیاں قبل شروع ہونے والی پانچویں شورش تک یہ واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ کس طرح پاکستان کے اندر اور باہر موجود ملک دشمن عناصر نے بلوچ عوام کی محرومی اور بلوچستان کی پسماندگی کے نام پر عام لوگوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہوئے اس صوبے میں انتشار پھیلا کر پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی کوششیں کیں۔27مارچ 1948کو خان آف قلات کو کراچی گئے جہاں 28مارچ کو ریاست قلات کے پاکستان سے الحاق کا اعلان کردیا گیا اور الحاق کی دستاویز پر گورنر جنرل محمد علی جناح نے 31مارچ کو دستخط کردیے۔14اکتوبر 1955کو جب ون یونٹ بنا تو بلوچستان کے تمام علاقے اس میں ضم کردیے گئے   ۔   عام انتخابات کے نتیجے میں 30مارچ 1970کو بلوچستان میں پہلی منتخب صوبائی اسمبلی وجود میں آئی         ۔ 

1973کا متفقہ آئین منظور کیا گیا لیکن 1974میں عطاء اللہ مینگل کی حکومت سے علیحدگی اختیار کر لی اور حالات خراب ہوئے۔جنرل ضیاء الحق کے دور میں بلوچ قوم پرستوں کے لیے عام معافی کا اعلان کردیا گیا ۔ جنوری 2005میں ڈاکٹر شازیہ کا کیس سامنے آیا۔  پھر 26اگست 2006کو نواب اکبر بگٹی نے مزاحمت کرتے ہوئے اپنی جان گنوائ دی۔بلوچ سرداروں کے کردار بدلتے رہے اور وہ جاگیر دارانہ تسلط کے تقاضوں کے تحت آمرانہ قوتوں کا آلہ کار بنتے رہے۔اب  براہمداخ بگٹی بلوچستان ریپبلکن آرمی سے دہشت گردی کروا رہے ہیں ۔جبکہ  حر بیار مری بلوچستان لبریشن آرمی کے ناخدا بنے ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر اللہ نذر جیسے دہشت گرد ہیں جو بلوچستان لبریشن فرنٹ میں بلوچی جوانوں کا دماغ خراب کر رہے ہیں۔پنجگور، نوشکی اور کیچ میں گزشتہ دنوں جو حملے ہوئے ہیں، وہ ایسے وقت میں انڈیا نے کروائے جب وزیراعظم نہایت اہم دورے پر چین گئے تھے۔بی ایل اے والے بلوچستان کی آزادی کی تحریک کا جو جواز عام عوام کو توڑ موڑ کر پیش کرتے ہیں اور اپنی اس دہشت گردی کو فریڈم فائٹ کہتے ہیں۔ماضی میں امریکہ نواز افغان حکومتیں بلوچ علیحدگی پسندوں کو پناہ اور امداد دیتی رہیں اور اس میں بھارت اور را ہمیشہ سے  متحرک ہیں۔مگربلوچستان کے مسئلے پر کوئی بھی ملک کل کر سرمچاروں / پرچار کا ساتھ نہیں دے سکتا بلکہ چند ممالک امریکہ اور انگلینڈ نے ان کو دہشت گرد قرار دے رکھا ہے ۔ان دہشت گردوں نے لندن سے قطر اور وہاں سے دبئی اور پھر وہاں سے بلوچستان تک غیر ملکی فنڈنگ کی پوری چین چل رہی ہے۔

ویسے بھی بلوچستان ہر ملک کے جاسوسوں کے لیے میزبان رہا ہے۔ انڈیا ہمارے  اندرونی خلفشار کو اپنے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتا ہے ۔ بلوچ ناراضگی، بیگانگی اور مزاحمت انڈیا کی پیدا کردہ ہے اور کلبھوشن اس کی زندہ مثال ہے۔ حالانکہ اسے اپنے اندرونی مسائل پر توجہ دینی چاہیے۔ بھارت علاقائی امن کے لیے خطرہ ہے جس سے ظاہر ہے کہ ماما قدیر نے بھارت سے کھل کر مدد مانگی ۔ا  سی انڈیا نے ہمارے مشرقی بازو ، مشرقی پاکستان کو ہم سے جدا کیا اور آج وہ کھلے عام ہمیں بلوچستان میں للکار رہا ہے اور یہ واضع ہے کہ بلوچستان میں تمام دہشت گردی کے پیچھے  پندرہ اگست کو  اپنے یوم آزادی پر شاہی قلعہ سے مو دی کا سرعام یہ بیان ہے کہ ہم پاکستان میں بلوچستان میں مداخلت کر یں گے۔ کیا یہ ثبوت انڈیاکو دہشت گرد ملک قرار دینے کے لئے کافی نہیں ۔افغانستان سے اس کے پڑوسی ممالک میں سب سے طویل 2600 کلو میٹر سے زائد کی سرحد پاکستان کے ساتھ ہے اور اس میں سے 1468 کلومیٹر طویل سرحد پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ساتھ ہے۔صوبہ بلوچستان کے ساتھ اس طویل بارڈر پر افغانستان کے چار صوبے لگتے ہیں جن میں ہلمند، قندھار، نمروز اور زابل شامل ہیں۔ ایسے میں کچھ عرصہ سے سیاسی اور دفاعی پنڈت ماضی کی طرح اس مرتبہ بھی افغانستان کی صورتِ حال کا براہ راست اثر بلوچستان پر پڑنے کا خدشہ ظاہر کر رہے تھے اورویسا  وہی ہو رہا ہے۔

خیر یہ ذکرکرتا ہوں کہ یہ سب شروع کہاں سے اور کیسے ہوا ۔اور یہ شرپسند لوگ کون ہیں اور کیوں ہیں ۔ اصل میں  یہ لوگ چے گویرا کو  اپنا روحانی رہنما مانتے ہیں۔ جبکہ جون 1928ء کو ارجنٹینا کے شہر روزایورن میں پیدا ہونیوالے چے گویرا کو آج کے نوجوان مزاحمت کی علامت سمجھتے ہیں,چے گویرا کا اصل نام ارنسٹو گویرا لاسیرنا تھا جو پانچ بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے جس کی پیدائش ایک متوسط گھرانے میں ہوا۔چے گویرا مارکسی نظریے کے حامل ایک جہدکار تھے اس نے طب کی تعلیم حاصل کی تھی اور اسی عرصے میں جنوبی اور وسطی امریکا کے کئی ممالک کا سفر کیا اس دوران چے گویرا نے کئی ممالک میں غربت اور ظلم و جبر کو محسوس کیا اور انہیں لگا کہ غربت اور ظلم کو روکنے کا واحد حل مزاحمتی جدوجہد یا بندوق ہے مگر اس وقت وہ زمینی اور معروضی حقائق سے بالکل نابلد تھے اسلئے مارکسی نظریہ وقت کے ساتھ ساتھ دم تھوڑتی گئی اور جو ممالک معاشی طور پر مستحکم ہوئے وہ ممالک ترقی سے ہمکنار ہوتے چلے گئے اور جن ممالک نے مارکسی نظریے کو اپنایا وہ ممالک مزید پسماندگی کی طرف چلتے گئے۔

چے گویرا مارکسی نظریے سے اس قدر متاثر ہوچکے تھے انہیں لگا کہ جنوبی اور وسطی امریکا کے مسائل کا واحد حل مسلح جدوجہد کرنا ہے یا مارکسی نظریے کے تحت  نوجوانوں کی زہن سازی کرکے ریاست کے خلاف بندوق اٹھاکر جدوجہد کرنا ہے۔بلوچ سیاست کی بنیاد بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن سے ہوتی ہے جو ایک مارکسی نظریے پر یقین رکھنے والی طلبا تنظیم ہے جس کے اسٹڈی سرکلز میں ہمیشہ مذاحمتی سیاست پر بحث و مباحثہ ہوتا ہے اور بی ایس او کے پلیٹ فارم سے نوجوانوں کی زہن سازی کی جاتی رہی ہے کہ بلوچستان کے تمام مسائل کا حل مزاحمت ہے اور ریاست کے خلاف بندوق اٹھا کر مرنا اور مارنا ہے۔ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی مزاحمتی سیاست کے پلیٹ فارم سے متاثر ہوکر زمانہ طالب علمی میں کئی نوجوان بھٹک گئے اور انہیں لگا کہ بلوچستان کے سیاسی, معاشی اور سماجی مسائل کا حل پہاڑوں میں بیٹھ کر ریاست کے خلاف لڑنا ہے اور یوں مزاحمتی سیاست کی آڑ میں کئی نوجوان ریاست اور اپنے ہی اقوام کے خلاف بندوق اٹھانے لگے جس سے بلوچستان کے سیاسی, معاشی اور سماجی مسائل سلجھنے کے بجائے مزید الجھتے گئے۔

بی ایس او کے فلیٹ فارم سے  بلوچستان کے جن طلبا کی زہن سازی کی گئی انہیں اس بات کا علم نہیں تھا کہ چے گویرا جس مارکسی نظریے پر قائل تھے بعد میں ان کے اپنے ہی قریبی ساتھی ان کا ساتھ چھوڑ دینگے،ساتھ چھوڑنے والوں میں انکا اہم ساتھی فیڈرل کاسترو شامل تھے جو بعد میں ان سے الگ ہوگئے۔ چے گویرا کی ناکام مزاحمتی جدوجہد سے بیزار ہوکر بہت سے ممالک نے چے گویرا کو اپنے ملک سے بے دخل کردیا کیونکہ ان ممالک کو اس بات کا بخوبی علم تھا کہ چے گویرا کی مزاحمتی سیاست ان کے ملک میں خونریزی کے علاوہ اور کچھ فائدہ نہیں دیگی۔بلوچستان کے وہ لیڈرز جو ستر اور اسی کی دہائی میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے فلیٹ فارم سے مارکسی نظریے کی جدوجہد کررہے تھے بعد میں انہیں بھی مارکسی نظریے کی ناکامی کا علم ہوا اور انہوں نے بلوچستان کے عوام کے مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے پارلیمانی سیاست کا آغاز کیا اور بلوچستان کی خوشحالی اور ترقی کیلئے جدوجہد شروع کردی۔

جو لیڈرز مرنے اور مارنے والی سیاست پر یقین رکھتے تھے وہ بلوچستان کو مزید پسماندگی کی طرف دھکیلتے گئے۔بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن جو چے گویرا کو اپنا مزاحمتی ہیرو سمجھتا تھا اپنے اسٹڈی سرکلز میں نوجوانوں کی زہن سازی کرکے انہیں چے گویرا کی مثالیں دیتا تھا کہ کس طرح چے گویرا اپنی مزاحمتی زندگی میں مصائب اور تکالیف کا سامنا کرتے تھے اور چے گویرا نے اپنی پرآسائش زندگی ترک کرکے پہاڑوں کا رُخ کرلیا۔ “چے گویرا کی ڈائری” باقاعدہ بی ایس او کے اسٹڈی سرکلز کا حصہ ہوا کرتی تھی اور ہر اتوار کے دن بلوچستان بھر کے تمام کالجز اور جامعات میں بی ایس او کے لیکچر سیشن ہوتے تھے جہاں ایک منظم طریقے سے بلوچستان کے نوجوانوں کی زہن سازی ہوا کرتی تھی۔بلوچستان میں غیر ملکی مداخلت کا آغاز ستر کی دہائی میں ہی ہوا تھا۔ بعض بلوچ قوم پرست افغانستان میں کھلے عام تربیتی کیمپ چلاتے رہے اور یہ سلسلہ1980 تک جاری رہا۔ یہی وہ بنیادی سبب تھا جس کو کاؤنٹر کرنے کے لئے اسی عرصے کے دوران پاکستان نے بعض جہادی افغان کمانڈروں کی معاونت اور سرپرستی کا آغاز کیا۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد ماحول میں تبدیلی آگئی۔ تاہم وہ بھارت‘ برطانیہ‘ افغانستان اور بعض دوست ممالک سے مدد لیتے رہے اور اس کا کھلے عام اعتراف کرتے آئے ہیں۔ایک بلوچ لیڈر برہمداغ بگٹی نے 2008 میں پاکستانی چینل پر کھلے عام کہا کہ وہ بھارت‘ ایران‘ افغانستان اور برطانیہ سے مدد لیتا آیا ہے اور لیتا رہے گا۔

سال2010 میں مری قبائل کے ایک کمانڈر نے بھی ایک انٹرویو میں کہا کہ ان کی تحریک مزاحمت کو عالمی قوتوں اور علاقائی پڑوسیوں کی معاونت حاصل ہے۔ ذرائع کے مطابق کچھ عرصہ قبل تک برہمداغ بگٹی کے پاس کابل میں تین گھر تھے۔ وہاں ان کو مکمل آزادی رہی۔ سال 2012 کے آخرمیں افغان صدر حامد کرزئی نے سلیم صافی کو دیئے گئے انٹر ویو میں خود اعتراف کیا کہ وہ پاکستان کی ’’مداخلت‘‘ کی پالیسی کے ردعمل میں ان عناصر کی حمایت کررہے ہیں جو پاکستان پر دباؤ بڑھا رہے ہیں۔اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان  اپنے معاملات میں بھی کسی قیمت پر کسی کو مداخلت کرنے نہ دے اور ان قوتوں کا خاتمہ کیا جائے جو پاکستان کے حقیقی چہرے اور معاشرے کو مسخ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ ستر سے لیکر نوے تک کی دہائی میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے اسٹڈی سرکلز میں ایسے سیاستدان بھی نوجوانوں کی زہن سازی کیا کرتے تھے جو آج پارلیمانی سیاست کے اہم لیڈرز ہیں جنہوں نے سویت یونین کے انقلاب کے وقت بیرونی امداد لیکر بلوچستان کے نوجوانوں کو نام نہاد آزادی کا نعرہ لگانے پر مجبور کردیا اور بہت سے نوجوانوں کو نام نہاد آزادی کا جھانسہ دیکر ہمیشہ کیلئے ریاست مخالف کردیا جو آج پہاڑوں میں بیٹھ کر بلوچستان کے مستقبل کو خونی کرنا چاہتے ہیں۔بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن اگر چے گویرا کی ناکام مارکسی اور مزاحمتی سیاست کے بجائے بلوچستان پر اصولی سیاست کرتی, بلوچستان کے اصل مسائل کی نشاندہی کرتی اور بلوچستان کے سیاسی, معاشی اور سماجی مسائل کو اجاگر کرتی اور انکے تصفیہ کرنے کا حل پارلیمنٹ میں رہ کر ڈھونڈتی تو شاید آج بلوچستان پاکستان کا سب سے خوشحال ترین صوبہ ہوتا۔ بلوچستان کی خوشحالی پاکستان کی خوشحالی سے وابستہ ہے۔

حکومت بلوچستان کو ترقی کے حوالے سے ملک کے دیگر حصوں کے برابر لانے کے لیے بھرپور کوششیں کر رہی ہے۔ ریاستِ پاکستان جو گزشتہ ڈیڑھ دہائی سے دہشت گردی کے عفریت سے نبردآزما ہے آج الحمدﷲ وہ اس پر نہ صرف کافی حد تک قابو پانے میں کامیاب ہو چکی ہے بلکہ پاکستان کے مجموعی حالات بھی انتہائی پُرامن ہو چکے ہیں۔ عوام الناس کے دلوں سے دہشت گردی اور دہشت گردوں کے خوف کے سائے چھٹ رہے ہیں اور وہ اعتماد اور حوصلے سے قومی ترقی میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔انشاءاللہ جلد ہی پورا پاکستان پرامن ہوگا ۔کیوں کہ بلوچستان کے امن پر اب کوئی سمجھوتا نہیں ہونا چاہیے ۔بحیثیت قوم ان چند غیر ملکی دہشت گردوں اور باغیوں کے خلاف سخت کاروائی کا فیصلہ کرنا ہو گا تاکہ پاکستان جاسوسوں اور شرپسندوں سے پاک ہو ۔دہشت گردی ایک نا سور ہے ۔اور اس کے خلاف سخت بڑا آپریشن ہونا چاہیے تاکہ  بلوچستان پرامن  و خوشحال ہو سکے ۔ہمیں دشمنوں کے اس وار کو سمجھنا ہوگا۔ دشمن ہمیں کئی فرنٹ پر اندرونی لڑائیوں میں الجھانا چاہتا ہے۔ حب الوطنی اور دور اندیشی کا تقاضہ ہے کہ دشمن کی اِن چالوں کو سمجھا جائے اور ان کا مقابلہ کیا جائے۔بعض قوتیں بدلتے بہتر حالات کو پھر سے خراب کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہوگئی ہیں۔

اقلیتی بلوچ علیٰحدگی پسندوں‘ بھارتی وزراء‘ امریکی حکام اور عالمی میڈیا کے اعتراضات کے بعد یہ حقیقت سب پر واضح ہوگئی ہے کہ بلوچستان کی محرومیوں کی آڑ میں بعض پڑوسی بلوچستان میں کھلی مداخلت پر اُتر آئے ہیں اور وہ مزید مداخلت کی اعلیٰ سطحی دھمکیاں بھی دے رہے ہیں۔ ایسے میں مزید ثبوتوں اور مباحث کی کوئی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جو لوگ اور گروپ ریاست اور معاشرے کے لئے ناسور بنے ہوئے ہیں ان کے خلاف بلاامتیاز کارروائیاں کی جائیں‘ صوبوں کے حقوق کا تحفظ کیا جائے‘ سیاسی نظام کو مضبوط کیاجائے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہر قیمت پر شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔بلوچستان کی ترقی اور وہاں امن و امان کا قیام پورے ملک کی خوشحالی کی ضمانت ہے۔ اس سلسلے میں معاشی سفارتکاری کے بین الاقوامی اصولوں کو سامنے رکھتے ہوئے بلوچستان میں موجود اور وہاں سے تعلق رکھنے والے ایسے تمام عناصر کی ناراضی دور کی جانی چاہیے جو پاکستان کی فلاح و بہبود اور استحکام میں کردار ادا کرنے کے خواہاں ہیں۔

بلوچستان میں حالات کو بہتر بنانے کے لیے جہاں بعض پالیسی اقدامات کی ضرورت ہے وہیں صوبے کے نوجوانوں کو مواقع اور ان کا رجحان مثبت سرگرمیوں کی جانب مائل کرنے کی ضرورت ہے۔ جس کے لیے چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے منصوبوں کو جلد پایۂ تکمیل تک پہنچایا جانا ضروری ہے۔ پاکستانی قوم اور اس کی افواج عزم اور جانفشانی کی علامت ہیں کہ ان کی قربانیاں اور کامیابیاں اظہرمن الشمس ہیں۔ اب دنیا اس کانسپریسی تھیوری کو ماننے کے لئے چنداں تیار نہیں جس کی رو سے پاکستان کو دنیا کا امن پامال کرنے کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے ۔ اب پاکستان اپنی کارکردگی کی بدولت اس مقام پر کھڑا ہے جہاں وہ پورے اعتماد کے ساتھ اپنا مؤقف واضح کرنے کا حوصلہ رکھتا ہے۔ آج پاکستان کا شمار باوقار اور مضبوط اقوام میں ہوتا ہے جس کے لئے پاکستانی قوم اور اس کی افواج کی بے مثال کارکردگی کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ ہماری عزت، وقار اور عظمت پاکستان ہی کے دم سے ہے۔ پاکستان ہے تو ہم ہیں۔ پاکستان پائندہ باد

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
58248

دین اسلام نے بین المذاہب میں بقائے باہم کے لئے درخشاں اصول دیئےعالمی بین المذاہب ہم آہنگی- قادر خان یوسف زئی

اقوام متحدہ  ہر سال فروری میں عالمی بین المذاہب ہم آہنگی کا ہفتہ مناتا ہے۔ عالمی بین المذاہب ہم آہنگی ہفتہ  کا تصور اردن کے شاہ عبداللہ دوم نے پیش کیا تھا جسے جنرل اسمبلی کی قرارداد کے تحت منظور کرلیا گیا۔  جنرل اسمبلی کی نشاندہی پر کہ باہمی افہام و تفہیم اور بین المذاہب مکالمہ امن کے لئے ثقافت کی اہم جہتیں رکھتا ہے۔ عالمی سطح پر بین المذاہب ہم آہنگی منانے کا مقصد بلا امتیاز رنگ و نسل اور عقیدہ ہم آہنگی کو فروغ دیئے جانا ہے۔ اقوام متحدہ لوگوں کے درمیان باہمی افہام و تفہیم، ہم آہنگی اور تعاون بڑھانے کے لئے مختلف عقائد اور مذاہب کے درمیان مکالمے کی ناگزیر ضرورت کو تسلیم کرتے ہوئے جنرل اسمبلی کے تمام ممالک کو دنیا بھر میں موجود گرجا گروں، مساجد، عبادت گاہوں، مندروں اور دیگر مقامات پر بین المذاہب ہم آہنگی اور خیر سگالی کے پیغام پھیلانے کی ترغیب دیتا ہے۔

 2019کے لیے بین المذاہب ہم آہنگی کے ہفتہ کے انعقاد کا تھیم، ”بین المذاہب ہم آہنگی کے ذریعے پائیدار ترقی” تھا۔جس کا پیغام تھا کہ ” تمام عقیدے کے نظاموں اور روایات کا مرکز یہ تسلیم کرنا ہے کہ ہم سب اس میں ایک ساتھ ہیں اور ہمیں ماحولیاتی طور پر پائیدار دنیا میں ہم آہنگی اور امن کے ساتھ رہنے کے لیے ایک دوسرے سے محبت اور تعاون کرنے کی ضرورت ہے۔ ہماری دنیا پناہ گزینوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور ان کے ارد گرد ایک مخالف اور ناپسندیدہ دنیا میں اندرونی طور پر بے گھر ہونے کے ساتھ تنازعات اور عدم برداشت سے دوچار ہے۔ ہم بدقسمتی سے لوگوں کے درمیان نفرت پھیلانے کے پیغامات بھی دیکھ رہے ہیں۔ روحانی رہنمائی کی ضرورت اس سے زیادہ کبھی نہیں تھی۔

یہ ضروری ہے کہ ہم اپنی مشترکہ انسانیت کی بنیاد پر اچھی ہمسائیگی کے پیغام کو پھیلانے کے لیے اپنی کوششوں کو دوگنا کریں، یہ پیغام تمام مذہبی روایات کا مشترکہ پیغام ہے“کوویڈ 19نے دو برسو ں میں پوری دنیا کا نظام حیات تبدیل کرکے رکھ دیا اور خدشات ظاہر کئے گئے کہ کرونا کا جلد خاتمہ ممکن نہیں ہوگا۔ کرونا کی نئی اشکال دنیا میں نئے چیلنجز کے ساتھ نمودار ہوتی ہیں اور کرونا سے متاثرہ ممالک و عوام کو ایک بار پھر سنگین مسائل کا سامنا کرنا پڑجاتا ہے۔ کرونا نے جب انسانوں کو نشانہ بنانا شروع کیا تو اس نے کسی خاص مذہب یا نسل کو منتخب نہیں کیا تھا بلکہ اس کی زد میں قریباََ پوری دنیا آئی عالمی وبا کے شکار کروڑوں انسانوں میں یہ تفریق نہیں کی جاسکتی کہ کس مذہب، رنگ و نسل کے ماننے والوں کو زیادہ متاثر کیا اور کس کو کم۔ عالمی وبا نے حیات زندگی کو جس طرح تبدیل کیا تو انسانوں کے مذہبی عبادتوں کو بھی متاثر کیا اور اجتماعی طور پر مسلم امہ کے عالمگیر اجتماع حج و عمرہ سمیت مساجد میں نماز کی ادائیگیوں کے لئے بھی سماجی پابندیوں نے اثر ڈالا۔

اسی طرح مندروں اور گرجا گھروں سمیت تمام مذاہب کے ماننے والوں کی عبادت گاہیں کرونا کی زد میں آئیں۔ کرونا نے انہیں بھی متاثر کیا جن کا تعلق کسی بھی مذہب سے تھا تو وہ بھی ان کی زد میں آئے جو کسی بھی مذہب کو نہیں مانتے تھے، لیکن عقائد و نظریات سے لاتعلق کرونا وبا نے جہاں ہم آہنگی کے لئے عالمی سطح پر ایک دوسرے کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا تو روحانی طور پر اس امر کی ضرورت محسوس کی گئی کہ احتیاطی تدابیر اختیار کرکے منتشر طرز حیات کو بحال کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ 2019کا برس کرونا وبا کے حوالے سے اس قدر شدت پذیر تھا کہ انتہا پسندی کا استعمال کیا گیا تو دوسری جانب عالمی سطح پر تنگ نظری نے بھی ہم آہنگی کو نقصان پہنچایا۔ بھارت میں مسلمانوں کے خلاف کرونا وبا کو لے کر انتہائی نفرت انگیز مہم چلائی گئی، بھارت اپنی انتہا پسند ہندو توا کی وجہ سے دن بدن شدت پسندی کا خطرناک گڑھ بنتا جارہا ہے تو ان حالات میں آر ایس ایس کے مسلم کشی کے مخصوص نظریہ کے تحت کرونا کے پھیلاؤ میں مسلمانوں کے خلاف ایسی کاروائی کیں گئی جس میں مودی سرکار اور انتہا پسند ہندوؤں کا کھلا کردار سامنے آیا۔ریاست ہائے متحدہ امریکہ محکہ خارجہ۔ بیورو آف ڈیموکریسی، ہیومین رائٹس، اینڈ لیبر بین االقوامی مذہبی آزای(2007 تا2020) کی ہر سالانہ رپورٹ میں بتا چکے کہ بھارتی حکام گائے کے حوالے سے ہونے والے تشدد کرنے والوں کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں کرتے۔

ایسا تشدد زیادہ تر مسلمان افراد کے خلاف کیا  جاتا ہے جن کے بارے میں شبہ تھا کہ انہوں نے گائے کو زبح کیا یا گائیوں کو غیر قانونی طور پر ایک جگہ سے دوسرے جگہ پہنچایا پھر گائے کا گوشت فروخت کیا یا کھایا۔موجودہ حکومت کے تحت مذہبی اقلیتی گروپوں کو قوم پرست ہندوؤں سے زیادہ خطرات لاحق جو غیر ہندو افراد اور عبادت گاہوں کو تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔ مذہبی اقلیتی برادریوں کا کہنا تھا کہ اگرچہ قومی حکومت نے بعض اوقات تشدد کے واقعات کے خلاف بات کی، مقامی سیاسی لیڈروں ُ نے اکثر اوقات ایسا نہیں کیا ا نہوں نے کھل عام ایسے بیان دئیے جن سے تشددمیں اضافہ ہوا‘۔ مسلم کشی کے واقعات کی حمایت بھی کھلے عام کی جاتی ہے جس میں انتہا پسند ہندو تنظیم ہوں یا حکومتی وزرا ء یا اراکین۔ مذہبی وجوہ پر ہونے والے تشدد اور ہنگاموں سے متعلقہ طویل عرصے سے جاری قانونی مقدمات میں پیش رفت مسلسل سست روی کا شکار رہتی۔جادب پور یونیورسٹی، کلکتہ یونیورسٹی، سینٹ زیویئرس کالج اورمغربی بنگال کے دیگر مایہ نازتعلیمی اداروں سے تعلق رکھنے والے ماہرین تعلیم، اساتذہ کرام، صحافیوں اور صاحبان عقل و دانش پر مشتمل اس ادارہ نے ’بین المذاہب اور بین الثقافتی مکالمہ‘ کا آغاز کیا اور یہ تجویز رکھی کہ”اگر امتیازو تعصب اور مخالفت و منافرت کی یہ فضا ختم کرنی ہے توہمیں محاذآرائی نہیں بلکہ مکالمہ آرائی کی راہ اپنانی ہوگی۔ پرامن بقائے باہمی کا


ہدف حاصل کرنے کیلئے نظریاتی اختلاف کے باوجود ایک دوسرے کے مابین گفتگو اور مکالمہ ہی واحد حل ہے“۔ دنیا میں مسلمانوں کیخلاف تعصب بڑھ رہا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کی سالانہ رپورٹ کے مطابق یورپ اور ایشیا میں اسلام مخالف جذبات بڑھ گئے ہیں۔ توہین مذاہب کو ذاتی دشمنی کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ مذہبی آزادی پیدائشی حق ہے۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے مطابق اس سلسلے میں امریکہ کا اپنا ریکارڈ بھی مثالی نہیں۔  امریکی محکمہ خارجہ کی سالانہ رپورٹ2021میں برما، چین، اریٹیریا  بھارت، ایران، نائیجیریا،شمالی کوریا، پاکستان، روس، سعودی عرب، شام، تاجکستان، ترکمانستان،  ویتنام پر مذہبی آزادی کی خلاف ورزیوں پر تشویش کا اظہار کیا گیا اور خاص  ممالک کی نگراں فہرست  میں افغانستان،  الجزائر، آذربائیجان، کیوبا، مصر، انڈونیشیا، عراق، قازقستان، ملائیشیا، نکاراگوا، ترکی، ازبکستان کو شامل کرتے ہوئے بھارت کو فہرست سے خارج کردیا۔ محکمہ خارجہ کی رپورٹ میں امریکہ میں نسل کشی کے کے ساتھ مذہبی منافرت کے بھی متعدد واقعات جب کہ برطانیہ اور یورپی ممالک میں مذہبی آزادی مخالف رویہ اور اسلام فوبیا کی وجہ سے ہونے والے واقعات پر گریز کیا گیا۔

امریکی محکمہ خارجہ کی رپورٹ کو غیر جانب دارانہ نہیں سمجھا جاسکتا کیونکہ اس میں زیادہ تر مسلم اورامریکہ مخالف ممالک پر توجہ مرکوز کی گئی۔ اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ محکمہ خارجہ کی رپورٹ کے برعکس خود امریکی کانگریسی رکن لہان عمر نے ایک بل پیش کیا، جس کا نام  ‘بین الاقوامی اسلاموفوبیا کا مقابلہ’ ہے۔ بل کو کانگریس سمیت وائٹ ہاؤس نے بھی منظور کیا۔  جس کا مقصد ہے کہ امریکی محکمہ خارجہ کے تحت ایک خصوصی نمائندے کا تعین کیا جائے جو دنیا بھر میں اسلاموفوبیا کے واقعات کو رپورٹ کر کے امریکی محکمہ خارجہ کے علم میں لائے۔ واضح رہے کہ ایسا ہی ایک نمائندہ پہلے ہی امریکی محکمہ خارجہ میں موجود ہے جس کا کام عالمی سطح پر یہود مخالف واقعات کو رپورٹ کرنا ہے۔ویسے تو یہ بل گذشتہ کئی مہینوں سے ایوانِ نمائندگان کی اُمورِ خارجہ کمیٹی میں موجود تھا مگر  تواتر سے پیش آنے والے واقعات نے اس بل  کی منظوری میں اہم کردار ادا کیا اور اسے منظور کر لیا گیا۔لہان عمر نے کہا کہ ایوانِ نمائندگان میں اس بل کی منظوری دنیا بھر میں مسلمانوں کے لیے ایک بہت بڑا سنگِ میل ہے اور ایک مضبوط اشارہ ہے کہ اسلاموفوبیا کو کہیں بھی برداشت نہیں کیا جا سکتا۔

اُنھوں نے مزید کہا کہ ’نفرت کے خلاف کھڑے ہونے سے آپ حملوں کا نشانہ بن سکتے ہیں مگر ہمیں ڈرنا نہیں چاہیے۔ مضبوطی سے کھڑے رہیں۔ بر ما،برطانیہ، یورپ بالخصوص فرانس جرمنی، امریکہ سمیت کئی مغربی ممالک میں نسل پرستی کے عفریت کے ساتھ مسلم دشمنی کے واقعات کے اقوام متحدہ کے سامنے بھی یہ سوال رکھا کہ اسلام فوبیا کے خلاف وہ کیا کردار ادا کرسکتا ہے تاکہ عالمی سطح پر بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ مل سکے۔ وزیراعظم عمران خان نے اسلام فوبیا کے خلاف بین الاقوامی سطح پر اقوام متحدہ سے عالمی دن منانے کا مطالبہ کیا ہوا ہے، لیکن اس حوالے سے اہم پیش رفت سامنے نہیں آئی تاہم پہلی مرتبہ روس نے اسلام فوبیا کے خلاف اعلیٰ سطح پر حمایت کرکے پہل کی اور اسے اظہار رائے کی آزادی کے برخلاف قرار دیا۔ روسی صدر کا کہناکہ شان رسالت ﷺ میں گستاخی لوگوں کو ناراض کرنے اور اشتعال دلانے کا باعث بنتی ہے اور پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ کی شان میں گستاخی آزادی اظہار رائے نہیں۔

ان کا کہنا تھاکہ شان رسالت ﷺ میں گستاخی مذہبی آزادی کے خلاف ہے اور مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنا ہے اور روسی صدر کے بعد کینیڈا کے وزیراعظم کی جانب سے اسلاموفوبیا سے نمٹنے کے لیے خصوصی نمائندہ مقرر  کئے جانا اسلامو فوبیا کا مقابلہ اب کینیڈین حکومت کی حکمت عملی کا ایک اہم حصہ بن گیا ہے۔ جب کہ  امریکی بل ”بین الاقوامی اسلاموفوبیا کا مقابلہ“ امریکی کانگریس نے منظور کیا۔دنیا بھر میں بین المذاہب ہم آہنگی کے لئے ایک متفقہ قابل قبول لائحہ عمل ضروری ہے۔ پاکستان میں مختلف عقائد سے وابستہ افراد کے لئے اقدامات کئے جاتے ہیں۔ دسمبر2020میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے پاکستان کی جانب سے بین المذاہب اور بین الثقافتی مذاکرات کے فروغ سے متعلق پیش کی جانے والی قرارداد کو بھاری اکثریت سے منظورکیاگیا تھا۔دفتر خارجہ سے جاری بیان کے مطابق فلپائن کے اشتراک سے پیش کی گئی قرارداد بین المذاہب ہم آہنگی، رواداری، ایک دوسرے کے مذاہب اور اقدار کے لیے احترام اور پرامن بقائے باہمی کے فروغ کے لیے پاکستان کی عالمی کوششوں کا حصہ ہے۔قرارداد میں پاکستان کی طرف سے کرتارپور اقدام کا خیر مقدم کیا گیا اور اسے امن کے لیے بین المذاہب اور بین الثقافتی تعاون کے لیے ایک تاریخی اقدام قرار دیا گیا۔

دین اسلام نے نظام حیات اور بنی نوع انسان کے لئے قرآن کریم کی صورت میں ایک ایسا استدالی اور مدلل ضابطہ ئ حیات نازل اورتاقیامت محفوظ کیا، جوبلا امتیاز رنگ و نسل یکساں کو مکمل رہنمائی کرتا ہے۔ دین اسلام نے بین المذاہب میں بقائے باہم کے لئے درخشاں اصول دیئے، قرآن کریم میں اللہ تعالی نے فرمایا کہ زبردستی نہیں ہے دین کے معاملہ میں بے شک جدا ہوچکی ہے ہدایت گمراہی سے اب جب کوئی نہ مانے گمراہ کرنے والوں کو اور یقین لائے اللہ پر تو اس نے پکڑلیا حلقہ مضبوط جو ٹوٹنے والا نہیں اور اللہ سب کچھ جانتا اور سنتا ہے۔(سورہ البقرۃ ۲۵۶)کیا تو زبردستی کرے گا لوگوں پرکہ ہوجائیں با ایمان۔ (یونس ۹۹).اور تم لوگ برا نہ کہو ان کو جن کی یہ پرستش کرتے ہیں اللہ کے سوا بس وہ برا کہنے لگیں گے بربنائے دشمنی بغیر جانے۔دین اسلام میں اللہ تعالی اور نبی آخری الزماں حضرت محمد ﷺ کی سنت اسوہ حسنہ تمام مسلمانوں کے لئے مشعل راہ ہے کہ دین میں کوئی جبر نہیں، اسلام نے حدود و اصول متعین کردیئے ہیں کہ کسی کو یہ حق نہیں دیا گیا کہ وہ اپنی خواہشات کے نام پر، ایسے اقدامات کرے، جس سے دین اسلام کا تشخص متاثر ہو۔ دین اسلام، قرآن ے توسط سے حق و باطل کے امتیاز کو واضح کرتا ہے،

ضلالت و گمراہی اور نجات و فلاح کے راستے سے لوگوں کو روشناس کراتا ہے، دین و مذہب کی ترویج و اشاعت کے لئے دعوت و تبلغ ارشاد و تلقین کا راستہ اختیار کرنے اور غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔ کسی مذہب کے پیروکاروں کو جبر و کراہ کے ذریعے اسلام کے فلسفے کی نفی کرنے والوں کو سختی سے ممانعت کرتا ہے۔ اسلام کبھی بھی بزور شمشیر نہیں پھیلا۔اسلام نے اپنی خوبی او ر محاسن سے تمام طبقات میں امن و سلامتی کا پیغام دیا، تاریخ اسلام میں اس کی ان گنت مثالیں ہیں۔ایک فعہ حضرت عمرو بن عاص ولی مصر کے بیٹے نے ایک غیرمسلم کو ناحق سزا دی۔ خلیفہ وقت امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس جب اس کی شکایت ہوئی تو انھوں نے سرعام گورنرمصر کے بیٹے کو اس غیرمسلم مصری سے سزادلوائی اور ساتھ ہی فرمایا تم نے کب سے لوگوں کو اپنا غلام سمجھ لیا ہے حالانکہ ان کی ماؤں نے انہیں آزاد جنا تھا۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے بیت المقدس کے کلیسا کے ایک گوشے میں نماز پڑھی پھر خیال آیا کہ کہیں مسلمان میری نماز کو حجت قرار دے کر عیسائیوں کو نکال نہ دیں اس لئے ایک خاص عہد نامہ لکھواکر بطریق (پادری) کو دیا۔ جس کی رو سے کلیسا کو عیسائیوں کیلئے مخصوص کردیاگیا اور یہ پابندی لگادی گئی کہ ایک ہی مسلمان کلیسا میں داخل ہوسکتا ہے اس سے زیادہ نہیں۔ (اسلامی ریاست، امین احسن اصلاحی،ص:۲۹)۔ اقوام متحدہ نے تو صرف چند برسوں سے عالمی بین المذاہب ہم آہنگی منانے کا اعلان کیا لیکن دین اسلام سینکڑوں برسوں سے اس کا درس دیتا آرہا ہے۔ کسی شخص یا خود ساختہ مذہب کے ٹھیکیداروں کی وجہ سے اسلام کی زریں تعلیمات کا فیصلہ نہیں کرنا چاہے کہ جس سے اسلام فوبیا کو بڑھاوا ملے۔ اسلام نام ہی امن و سلامتی کا ہے۔ اسلام کے اس پہلو کو دیکھنا چاہے جو اللہ تعالی نے قرآن کریم او ر سنت رسول ﷺ کی صورت میں دنیا کو دیا۔  عالمی بین المذاہب ہم آہنگی کے لئے دین اسلام اور قرآم کریم کی حقیقی تعلیمات کو اپنانے سے ہی دنیا کو درپیش مسائل کا حل نکل سکتا ہے اور منافرت، عصبیت، نسل پرستی، بنیادپرستی، شدت پسندی اور دہشت گردی کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
58239

داد بیداد ۔ بازیچہ اطفال ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

وطن عزیز پا کستان میں حزب اقتدار حکومت کر تی ہے حزب اختلا ف حکومت سے با ہر انتظا ر نہیں کر تی انتخا بات کے دوسرے دن سڑ کوں پر آکر حکومت کو گرا نے کا دعویٰ کر تی ہے دنیا بھر کے پرنٹ، الیکڑا نک اور سو شل میڈیا میں ہماری قومی سیا ست کا مذاق اڑا یا جا تا ہے مرزا اسد اللہ خا ن غا لب نے شا ید اسی منظر نا مے کے لئے پیش گو ئی کے انداز میں کہا تھا ؎
بازیچۂ اطفال ہے دنیا میرے آگے
ہو تا ہے شب روز تما شا میرے آگے


زیا دہ دور جا کر گڑھے مر دے اکھا ڑ نے کی ضرورت نہیں 1990سے 1999ء تک ہونے والی آنکھ مچو لی کو دہرا کر منہ کا ذائقہ برباد کرنے کی چنداں حا جب نہیں 2013میں قو می انتخا بات ہو ئے ایک سال بعد 2014ء میں حزب اختلا ف سڑ کوں پر آگئی اور حکومت سے مسعفی ہو نے کے مطا لبے کر نے لگی 2018ء میں پھر انتخا بات ہو ئے انتخا بات کے بعد حزب اختلا ف پھر سڑ کوں پر آگئی وہی دیرینہ مطا لبہ دہرا یا گیا کہ حکومت مستعفی ہو جا ئے مگر کیوں اور کس خو شی میں مستعفی ہو؟

اس سوال کو کسی نے اہمیت نہیں دی جس طرح بچوں کے بارے میں مقولہ ہے آج کے بچے کل کے باپ، اسی طرح حزب اختلا ف کے بارے میں بھی ایک مقولہ ہے آج کے حزب اختلا ف کل کے حکمران 2014ء میں جو لو گ حزب اختلا ف میں تھے وہ حکومت میں آگئے تو اُس وقت کی حکومت کے لو گ حزب اختلا ف بن گئے مشکل یہ ہے کہ 2014ء میں جو لو گ منتخب حکومت سے استعفیٰ دینے کا مطا لبہ کر ہرے تھے وہ لوگ 2018ء والے حزب اختلاف کو سڑ کوں پر ہڑ بونگ سے منع نہیں کر سکتے کل جو کچھ بو یا گیا تھا آج اس کی فصل پک گئی ہے یہ فصل کاٹنے کا مو سم ہے آج کے حزب اختلا ف کو خدا نخواستہ 2023میں حکومت مل گئی تو آنے والے دور کے حزب اختلا ف کو یہ لو گ سڑ کوں پر آنے سے نہیں روک سکینگے یوں سیا ست کی جگہ شورش، انتشار، ہڑ بونگ اور ہلہ گلہ کا سلسلہ اسی طرح جا ری رہے گا .

فیلڈ ما رشل ایوب خا ن نے کہا تھا جمہوریت یورپ اور امریکہ کے سرد ملکوں میں پھلتا پھو لتا ہے پنجاب اور سندھ کے گرم علا قوں کا مو سم جمہوریت کو راس نہیں آتا یہاں جمہوریت فروغ نہیں پا سکتا 1988ء سے اب تک 33بر سوں میں ہم نے جمہوریت کے جو تما شے دیکھے ان تما شوں کے ہو تے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ فیلڈ مارشل ایوب خا ن نے قوم کی نبض پر ہاتھ رکھ کر درست نتیجہ اخذ کیا تھا اس ملک کی آب و ہوا جمہوریت کے پودے کو راس نہیں آتی ور نہ کیا وجہ ہے کہ امریکہ بر طا نیہ، فرانس اور جرمنی سے لیکر تر کی اور ایران تک ہر جمہوری ملک میں حزب اختلا ف اگلے انتخا بات کا انتظا ر کر تی ہمارے پڑوس میں ایسے مما لک ہیں جہاں مقررہ مدت پوری ہونے پر انتخا بات ہوتے ہیں.

اگلے انتخا بات تک حزب اختلا ف انتظار کرتی ہے حکومت سے مستعفی ہونے کا مطا لبہ نہیں کر تی سڑ کوں پر آکر دھر نے نہیں دیتی، راستوں کو بلا ک نہیں کر تی چپ چاپ اگلے انتخا بات کے لئے اپنی پارٹی کی صفوں میں طا قت پیدا کر تی ہے اگلے انتخا بات میں جیت کر حکومت بنا نے کی تیا ری کر تی ہے جمہور ی ملکوں میں اسمبلیاں اس لئے ہوتی ہیں کہ حزب اختلا ف کو قا نو ن سازی کے حوالے سے اپنا نقطہ نظر بیان کرنے کا موقع ملے امریکی کا نگریس اور بر طا نوی دار لعوام میں کوئی قا نونی بل لا یا جا تا ہے تو حزب اختلا ف صحت مند مبا حثے میں حصہ لیتی ہے یہ حزب اختلا ف کا آئینی حق ہے ہمارے ہاں یہ روا یت نہیں بنی، حزب اختلا ف اگر حکومت سے ہمدردی نہیں کر تی بیشک نہ کرے اگلے انتخا بات کے بعد آنے والی اپنی ہی حکومت کا خیال کر کے مو جو دہ حکومت کو آئینی مدت پوری کر نے دے ملکی سیا ست کو با زیچہ اطفال نہ بنا ئے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
58235

دھڑکنوں کی زبان – “سیاست – سیاسی دنگل “- محمد جاوید حیات


چاہیے تھا کہ انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پہ ہوتے ۔۔کوئی دوستی ،رشتہ ناطہ ،تعلق تعارف کام آتا ۔۔اب نمایندوں کو جماعتوں پہ تکیہ ہے ۔جماعتیں کسی کی کیا سپورٹ کریں وہ اہلیت کہاں دیکھتی ہیں ان کے اکاونٹ میں پیسے جمع کرنا ہے ۔۔لوگ سیاست کو کھیل کہتے تھے ہمارا تلخ تجربہ ہے کہ سیاست گھناونا کھیل بن گئی ہے ۔۔بس پیسہ پھینک تماشا دیکھ ۔۔۔بہت کم ڈھنگ کے نمایندے پارلیمان میں ملتے ہیں ۔یہاں تک کہ محکموں کے وزرا کو ان محکموں کے بارے میں کچھ پتہ نہیں ہوتا ۔ایک غیر متعلقہ بندے کو قلمدان پکڑایا جاتا ہے ۔یہ لو اتنے فیس بھرو تعلیم کا قلمدان لے لو ۔۔یہ لو سائنس کا قلمدان تمہارا خواہ تم سائنس کی شد بد جانتے ہو کہ نہیں ۔یہ لو وزیر خارجہ بنو تمہیں دنیا سے متعلق کچھ معلومات ہوں کہ نہ ہوں ۔۔اس سمندر میں ہیروں کا نام و نشان نہیں ملتا ۔اب کی بار بلدیاتی انتخابات اگر غیر جماعتی ہوتے تو شاید کوئی”صلاحیت” سامنے آتی ۔۔کوئی جذبہ کوئی محنت کوئی خلوص میدان میں اترتا ۔یہ اس کی ذات کا امتحان ہوتا ۔لو گ ان کو پرکھتے ان کو تولتے ۔۔سیاست بھول جاتے ۔۔۔پھر آگے ان کو موقع ملتا ۔۔ان سے کام کرایا جاتا ۔ایسا نہیں ہوتا ۔۔دنگل سجتا ہے وہی آزمایے ہویے ہیں ۔۔


نہ خنجر اٹھے گی نہ تلوار ان سے
یہ بازو میرے آزمایے ہویے ہیں


جس نمایندے سے ملو اس کے پاس کسی سوال کا کوئی جواب نہیں ہوتا ۔ایک کھسیانی ہنسی ہوتی ہے۔۔میں نے ایک نیے سیاسی نمایندے سے پوچھا بھائی سیاست میں نیے ہو کوئی “ہوم ورک” کیا ہے اس نے قہقہا لگا کر کہا ۔۔یار میں کوئی سکول میں ہوں کہ ہوم ورک کروں ۔اور نہ کرنے پر استاد میرے ہاتھ پہ ڈنڈا مار کر مجھے سزا دے ۔اس کے ساتھی میری کمایگی اور ان کے نزدیک میری ناسمجھی پہ خوب ہنسے ۔۔اگر ایک بندے کو یہ بھی پتہ نہ ہو کہ وہ معاشرے میں سماجی خدمات کی بنیاد پر اپنا تعارف کراتا ہے ۔بےلوث خدمت گار ہوتا ہے اس کو سیاسی”ہوم ورک ” کہتے ہیں ۔۔اب اس سمے پارٹی آنکھیں بند کرکے کسی کو سپورٹ کرے تو وہ کیا نمایندگی کرے گا ۔بڑے نمایندگی کے لیے انھوں نے پیسہ خرچ کیا ہے یہ واپس لینے ہیں ۔خواہ عوام کی خدمت ہو یا نہ ہو جایدادیں بنانی ہیں ۔عوام کی نمایندگی کے صدقے وہ ارب پتی بن جاتے ہیں ۔

اب جوڑ توڑ شروع ہے ۔۔نمایندوں کی اہلیت ترجیح نہیں ۔پارٹی سیاست ترجیح ہے ۔جیت جائیں ۔۔جیت کی ڈفینیشن کسی کو نہیں آتی ۔جیت اس وقت ہوتی ہے جب نمایندگی کا حق ادا کیا جایے ۔خالی سیٹ جیت نہیں کہلاتی ۔بلدیاتی الیکشن میں صرف یہ فایدہ ہے کہ یہ الیکشن ترازو اور معیار ہیں پارٹی کی بنیادیں ان سے وابستہ ہوتی ہیں ۔دنیا کی جمہوری ملکوں میں یہ معیار ہے لیکن ہمارے ہاں کیا معیار ہے ۔۔ان کے نتائج خدمت نہیں ۔یہ نمایندے پارٹی کی جڑیں اور عوام کا چہرہ نہیں نہ ان کے پاس ایسا موقع ہے ۔لہذا یہ انتخابات غیر سیاسی ہوں۔۔ کہیں سے کوئی کام کا بندہ اٹھے اور آگے کوئی سیاسی پارٹی اس کو چرا لے ۔ خرید لے۔کم از کم ایک فگر کا اضافہ تو ہوگا ایک اہل کے آنے سے ایک نااہل کم ہوگا ۔ سیاست نا اہلوں کے ہاتھ میں جایے تو یہ بچوں کا کھیل بن جاتی ہے ۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
58237

کمرشل اراضیات اور غذر ایکسپریس وے – تحریر: شمس الحق نوازش غذری

کمرشل اراضیات اور غذر ایکسپریس وے – تحریر: شمس الحق نوازش غذری

ماہرین اقتصادیات نے تجارتی اراضیات(Commercial Land) کی مختلف تعریف بیان کی ہیں:
”تجارتی اراضی کوئی بھی پلاٹ یا زمین کا حصہ ہو سکتا ہے جو تجارتی مقاصد کے لئے استعمال ہو اور اس کا مقصد منافع کمانا ہو۔اس کا مطلب یہ کہ وہ زمین جو دکانوں، ہوٹلوں، ورکشاپس، میڈیکل اسٹورز، گوداموں، پارکنگ لاٹس، مالز، دفتری عمارتوں اور طبی مراکز کی میزبانی کرتی ہے“ یا
”تجارتی مقامات (کمرشل ایریاز) سے مراد وہ مقامات ہیں جو کاروباری سرگرمیوں کے لئے استعمال ہوتی ہیں اور تجارتی املاک سے مراد عام طور پر وہ عمارتیں ہوتی ہیں جن میں کاروبار ہوتا ہے اور ایسی زمین کا حوالہ بھی ممکن ہے جس میں کاروباری یا تجارتی سرگرمیوں کی بدولت منافع کمایا جاتا ہے“
ڈی سی غذر کے دفتر سے جاری نوٹیفکیشن نمبرNo.DK-1(14)/2019کے مطابق 24جولائی 2019؁ء کو کمشنر گلگت ڈویژن کی ہدایات کی روشنی میں ضلع غذر کے تمام تحصیلوں کے اراضیات کا ریٹ مقرر ہوا ہے یعنی 2019کی ری وائیسڈ ریٹ کے مطابق ضلع غذر کی اراضیات کو ان کی افادیت و اہمیت اور حیثیت کے اعتبار سے سے تین حصوں میں بٹوارا گیا ہے۔ان تین حصو ں کو لغت اردو میں مزروعہ، غیر مزروعہ اور تجارتی زمین کا نام دیا گیا ہے جبکہ یہی اراضیات انگریزی میں Cultivated, Un Cultivatedاور Commercialنام سے موسوم ہیں۔ غذر کے ضلعی ہیڈ کوارٹر سے 17اکتوبر 2019کو ری وائیسڈ ریٹ کے عنوان سے جو نوٹیفکیشن جاری ہوا ہے اس نوٹیفکیشن میں غذر کے اراضیات کی مذکورہ تین اقسام درج ہیں لیکن اس نوٹیفکیشن میں غذر کے کسی بھی ڈویژن میں ”اراضی سکنی“ ”اراضی شاملات“ اراضی شور“اور ”اراضی وقف“ کا کوئی تذکرہ ہی نہیں ہے۔ایسے اراضیات ہر ڈویژن، ہر تحصیل اور ہر یونین میں موجود ہیں۔ ایسے اراضیات کی نشاندہی یا تذکرہ نہ ہونے سے اس خدشے کو تقویت ملتی ہے کہ ضلعی انتظامیہ کی کارکردگی میں ہر کام کی طرح اپنی نوعیت کے اس اہم کام میں بھی خامیوں کی بھرمار ہے۔


ڈسٹرکٹ غذر کے تمام ڈویژنز میں زمین کی جن اقسام کا ذکر ہے ان میں مزروعہ(Cultivated) غیر مزروعہ(Un Cultivated) اور تجارتی زمینیں (Commercial) شامل ہیں۔ مزروعہ اور غیر مزروعہ ارضیات ہر ڈویژن، ہر تحصیل اور ہر یونین میں موجود ہیں جبکہ کمرشل زمینیں جہاں جہاں موجود ہیں ان میں سیلپی پائین میں گورنمنٹ بوائز پرائمری سکول سے۔۔۔ ڈی جے سکول (شمالی جانب) مین روڈ تک۔۔۔۔۔ گلو داس میں۔۔۔۔ اے کلاس ڈسپنسری سے گلو داس مین (Main) چینل کے آخری کلوٹ تک۔۔۔۔۔ گلمتی تھنگ داس میں۔۔۔ ہاشوان فلور مل (Hashwan Floor Mill) سے گلمتی پٹرول پمپ تک۔۔۔۔ اور (اسی ایریا میں ہی) میر عزیز کارخانہ سے ”شیر ہاؤس“ تک۔۔۔۔۔لنک روڈ پاور ہاؤس سے تھنگ داس جماعت خانہ تک۔۔۔۔ سنگل میں سول سپلائی ڈپو سے سنگل آر سی سی پل تک۔۔۔۔ گچ میں مرتبان شاہ جنرل سٹور سے فضل ہاؤس تک۔۔۔۔۔گوہر آباد میں نیت جعفر ہاؤس تا پناہ ہوٹل تک۔۔۔۔ شیر قلعہ میں ہائی سکول لنک روڈ سے شیر افضل ہاؤس تک۔۔۔۔۔ بیارچی میں بیارچی سے پرائمری سکول بیارچی تک۔۔۔۔۔۔

گلاپور دلناٹی میں وٹرنری ہسپتال گلاپور سے گورنمنٹ پرائمری سکول راجی داس ((Rajidaars تک روڈ کے دونوں اطراف اراضیات (سو فٹ تک) تجارتی مقامات یا کمرشل ایریاز کہلائیں گے۔ انتہائی تعجب اور حیرت آفرین بات یہ ہے۔ گوپس بلتم (Gupis Baltam) سے شندور تک 105 کلومیٹر کے طویل ترین حصے میں ضلعی انتظامیہ غذر کو خوردبین میں بھی کہیں ”کمرشل ایریا“ نظر نہیں آیا ہے۔ ضلعی انتظامیہ کے مطابق روڈ کے اس حصے میں اراضیات یا تو قابل کاشت ہیں یا بالکل لق و دق صحرا۔۔۔۔ سوال کا انتہائی اہم پہلو یہ ہے متوقع گلگت چترال ایکسپریس وے کے اطراف گوپس تا شندور جہاں تیس تیس،چالیس چالیس اور کہیں سینکڑوں دُکانیں موجود ہیں اُن دُکانوں کو کون سا نام دیں گے؟کمرشل ایریاز میں تجارتی سرگرمیوں کیلئے جو عمارتیں ہوتی ہیں۔ اُن عمارتوں کو بازار، دُکانیں، مارکیٹ، منڈی، شاپنگ سینٹر اور ہٹی کانام دیا جاتا ہے۔روڈ کے اطراف جن جن اراضیات میں دُکانیں، ہوٹلز اور ریسٹورنٹس موجود ہیں جن کا وجوداُن کے ثبوت کی سب سے بڑی اور مظبوط دلیل ہے۔اب دُکانوں اور ہوٹلوں کے اندر کاشت کاری تو ہو نہیں سکتی لہٰذا وہ مزروعہ کہلانے سے تو رہ گئے۔جب مزروعہ نہیں کہلائیں گے تو ڈی سی غذر کی نوٹیفیکشن کے مطابق ہوٹلوں اور دُکانوں کے مقامات غیر مزروعہ کے زُمرے میں آجائیں گے۔ ”غیر مزروعہ“ (Un Cultivated) کسی بھی خطے کا وہ حصہ ہوتا ہے جہاں کھیتی باڑی نہیں ہوتی ہے یعنی وہ زمین جوتی ہوئی نہیں ہوتی۔۔۔۔۔ اُس قسم کی زمین کو عام لفظوں میں ”بنجر زمین“ کہتے ہیں اور وہی زمین انگریزی میں ”بیرین لینڈ“ کہلاتی ہے۔بیرین لینڈ اور صحرا میں کوئی فرق نہیں۔ اُردو لُغت کے ماہیرین وسیع رقبے پر پھیلی ہوئی بنجر زمین کو ہی صحر ا کہتے ہیں۔تو مختصر رقبے پر مشتمل بنجراَراضی کو ”صغیر صحرا“ کہنے میں کیا قباحت ہے۔صحرا چھوٹا ہو یا بڑا، اُس کے رہائشی صحرائی کہلاتے ہیں۔ صحرائی کا مطلب جنگلی اور بیابانی ہے۔ جنگلی اور صحرائی انسانوں کے ساتھ ازل سے سرکار کا رویہ انوکھا رہا ہے۔


اس نوٹیفیکشن کی رُو سے یہاں کے دُکانوں، بازاروں اور ہوٹلوں کے مقامات کو چارو ناچار غیر مزروعہ اراضی یا بیرین لینڈ کہنا ہی پڑے گا۔ دُکانوں اور ہوٹلوں کے مقامات جب بیرین لینڈ (بنجر اراضی) ظاہر ہوں گے۔تو پھر تجارتی اصطلاح میں سرکار کاروباری عمارتوں کے مقامات کیلئے کون سی نام تجویز کرے گی۔یہ اور اس قسم کی بے شمار سوالات ایسے ہیں جن کے خوف سے اب تک ضلعی انتظامیہ عوام کیلئے کُھلی کچہری کا انعقاد کر سکا اور نہ ہی آگہی سیشن منعقد ہو سکا۔این ایچ اے کے ذمہ دار اہلکار بھی عوام کے رُوبرو بیٹھ سکے اور نہ ہی دُو بدو گفتگو کر سکے ہیں۔اور تو اور اس حلقے کا منتخب نمائندہ اور اسمبلی میں ڈپٹی سپیکر کے عہدے میں متمکن شخص کو پھنڈر آئس فیسٹول کے اجتماع سے جب خطاب کی دعوت ملی تو موصوف بلی کی پاخانہ چھپانے کے طرز میں حقائق کو تلے برف خِفا رکھنے کی تگ و دو میں بد ترین خِفت سے دو چار ہوا۔

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
58199

 شہید آزادی کشمیر؛ ڈاکٹرافضل گروشہیدؒ – ڈاکٹر ساجد خاکوانی اسلام آباد،پاکستان

 شہید آزادی کشمیر؛ ڈاکٹرافضل گروشہیدؒ – ڈاکٹر ساجد خاکوانی اسلام آباد،پاکستان

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 شہید آزادی کشمیر؛ڈاکٹرافضل گروشہیدؒ

(9فروری، یوم شہادت پرخصوصی تحریر(

ڈاکٹر ساجد خاکوانی(اسلام آباد،پاکستان(

                حضرت سمیہ بنت خیاط رضی اللہ تعالی عنھا،سرزمین مکہ مکرمہ کی پہلی شہید خاتون ہیں جنہوں نے فافلہ سخت جاں میں شامل ہو کر حیات جاوداں پائی۔ان کے بعدتادم تحریر حضرات وخواتین کی لمبی،طویل اور نہ ختم ہونے والی ایک فہرست ہے جنہوں نے جام شہادت نوش جان کیا۔جوار کعبہ سے چلنے والا یہ کاروان شہداء اسلام جو بدرواحدسے ہوتاہواروم اور ایران کی سرحدوں پرمیدان قتال فی سبیل اللہ گرم کرتاہواکربلا کی سنگلاخ وادیوں میں پہنچااور حرمت و تقدیس کے بلندوبالا میناربھی اس قافلہ میں شامل ہوئے۔قرون اولی سے دورعروج اور پھر غلامی کی مہیب غار سے نکل کرتحریکوں کے راستے آزادیوں کی طرف رواں دواں اس امت کی کوکھ نے شہداکی فصلوں کوہمیشہ سرسبزوشاداب رکھاہے۔امت مسلمہ بلا شبہ شہداکی پرورش کرنے والی امت ہے اورتاج شہادت کواس امت کے نوجوانان نے بخوشی و شادمانی اور بحسرت وآرزواپنے سروں پر سجایاہے۔دشمن یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ آخریہ لوگ زندگی کی نسبت موت سے کیوں پیارکرتے ہیں،اپنے سینوں پر بم باندھ کر دشمن کے ٹینکوں سے کیوں جاٹکراتے ہیں،جن معرکوں میں بچ جانے کا ایک فیصدبھی امکان نہیں ہوتا وہاں شمولیت کے لیے کرہ اندازی کیوں کرنی پڑتی ہے اورمائیں خود اپنے ہاتھوں سے کیوں شہداکو گھروں سے تیارکرکے روانہ کرتی ہیں۔دشمن کوکون سمجھائے کہ نورتوحیدکے یہ پروانے اللہ تعالی سے ملاقات کو اس دنیاپر فوقیت دیتے ہیں اوران کے ساتھ اللہ تعالی نے بغیرحساب کتاب کے جنت میں داخلے کاوعدہ کررکھاہے،اور اللہ تعالی سے بڑھ کراور کون ہے جواپناوعدہ سچ کردکھائے۔

                ڈاکٹرافضل گروشہیدبھی اس قافلے کے وہ شریک ہیں جو غزوہ ہندمیں معرکہ آزادی کشمیرکے محاذکے مجاہد تھے اوربرہمن کی اسلام دشمنی کاشکارہوئے۔ڈاکٹرافضل گروشہیدمقبوضہ جموں و کشمیر کے”دوآباغ“ نامی گاؤں میں جو سوپورکے قریب ضلع بارہ مولامیں واقع ہے میں 1969ء میں پیداہوئے۔یہ حبیب اللہ نامی خوش قسمت باپ کا گھرانہ تھا۔حبیب اللہ لکڑیوں کے ایک چھوٹے سے کاروبارکامالک تھا۔باپ کاسایہ بچپن میں سے سر سے اٹھ گیالیکن پھر بھی بیوہ ماں نے ڈاکٹرافضل گروشہیدکی تعلیمی سرگرمیوں میں تعطل نہ آنے دیا۔گورنمنٹ اسکول سوپور سے اپنی ابتدائی تعلیم مکمل کی۔1986ء میں تعلیم کے دس سال مکمل کیے اوراس کے بعدثانوی تعلیمی سندکی تکمیل کے بعد”جہلم ویلی میڈیکل کالج“میں داخلہ لے لیا۔شباب کے ساتھ ساتھ ایمان بھی جوان ہوتاگیااور ظلم کے خلاف جنگ اور جہادکاجذبہ ڈاکٹرافضل گروشہیدکے سینے میں موجزن ہونے لگا۔اپنے علاقے میں پھلوں کی تجارت سے وابسطہ طارق نامی ایک نوجوان نے تحریک شہدائے کشمیر سے وابسطہ کردیا۔”اللہ تعالی ان لوگوں سے محبت کرتاہے جواس کی راہ میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند صف بندہوکرلڑتے ہیں“اوراس طرح کی دیگرآیات قرآنی ڈاکٹرافضل گروشہیدکو تیزی سے جنت کی وادیوں کی طرف کھینچتی چلی جارہی تھیں۔اپنی دینی تربیت کے دوران 1993-94میں دہلی یونیورسٹی سے گریجوئیشن بھی مکمل کرلی۔1996تک دہلی میں ملازمت بھی کرتے رہے اوردہلی میں ایک دواسازکمپنی کے علاقائی افسربھی تعینات رہے بعدازاں طبی سازوسامان کی فراہمی سے بھی متعلق رہے اوراس دوران سری نگراوردہلی کے درمیان مسلسل حالت سفر میں رہتے تھے۔ان مزکورہ امور کے باعث گھریلودباؤ پر تحریک تکمیل پاکستان کی سرگرمیاں جزوی طورپر معطل بھی رہیں۔1998ء میں ”تبسم“نامی لڑکی آپ کی شریکہ حیات بنیں،لیکن کسے معلوم تھا ایک شہید کی آغوش اس بنت حواکامقدر بننے والا ہے۔

                13دسمبر2001کو دہلی میں بھارتی پارلیمان پر حملہ ہوا،کم و بیش نصف گھنٹہ فائرنگ کاتبادلہ چلتارہا،حملہ آورجان کی بازی ہارگئے،ایک مالی اورآٹھ سیکورٹی اہلکارکام آئے،سولہ افراد زخمی بھی ہوگئے۔حسب معمول بھارتی قیادت نے زخمی بلی کھمبانوچے کے مصداق پاکستان کو اس حملے کاذمہ دارقراردے دیا۔دونوں ملکوں کے درمیان ایک بار پھرتناؤپیداہوگیااوربڑھتاچلاگیا۔امریکی صدرنے مداخلت کی اور دونوں ملکوں کی قیادت سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے کہاکہ پارلیمان کے حملے کوجنگ کابہانہ نہ بناؤ۔15دسمبر2001کودہلی کی پولیس نے ڈاکٹرافضل گروشہیدکو گرفتارکرلیااور ان کے ساتھ کچھ اور مردوخواتین کو بھی سری نگرسے ان کے گھروں سے اٹھالیاجن میں دہلی یونیورسٹی کے ایک پروفیسرصاحب بھی شامل تھے۔”پوٹا“نامی بدنام زمانہ قانون کی آہنی زنجیریں ان گرفتارشدگان کالباس بنیں اور جنگ،قتل،دہشت گردی اور ریاست کے خلاف سازشوں کے ناجائزوخودساختہ الزامات ان پردھردیے گئے۔پولیس اور انتظامیہ نے افسران بالا کی سرزنش سے بچنے کے لیے جو بھی ہتھے چڑھااسی کواپنے انتقام کی بھینٹ چڑھادیا۔29دسمبر 2001ء کو ڈاکٹرافضل گروشہیددس دنوں کے لیے پولیس کے حوالے کر دیے گئے تاکہ وہ جسمانی ریمانڈ لے سکے۔بھارتی پولیس کاجسمانی ریمانڈ کوئی راز نہیں ہے،ایک زمانہ جانتاہے کہ صحیح و سالم لوگ ذہنی و جسمانی معذورہوکر باہر آتے ہیں اور کچھ کو تو تابوت میں بندکرکے لایاجاتاہے اور باقی ماندہ کی مسخ شدہ لاشیں کسی ندی کے کنارے پڑی ملتی ہیں،یہ ہیں سیکولربھارت کی انسان دشمنی کااصل چہرہ۔عدالت نے ایک وکیل مقررکیاتاکہ ڈاکٹرافضل گروشہیدکی قانونی مددہوسکے لیکن چند دنوں بعد اس وکیل نے بھی اپنی مصروفیات کے باعث علیدگی اختیارکر لی۔اب ڈاکٹرافضل گروشہیدکلیۃََ سیکولرازم کے ننگ انسانیت شکنجے میں کسے جاچکے تھے۔جون2002ء میں تمام الزامات ثابت ہوگئے یادوسرے الفاظ میں ثابت کردیے گئے،کیونکہ وہاں کاقانون توسیکولرازم ہے جس سے کسی خیراوربھلائی توقع عبث ہے تب عدل و انصاف کی امید توکلیۃ لاحاصل ہے۔پولیس نے عدالت میں ڈاکٹرافضل گروشہیدکااقراری بیان پیش کیا،لیکن انہوں نے اس بیان کی صداقت سے انکارکردیا۔اس سے اندازہ کیاجاسکتاہے کہ پولیس نے اقراری بیان پر کس طرح دستخط کرائے ہوں گے۔2006میں ڈاکٹرافضل گروشہیدنے اپنے وکیل کوبتایاتھا کہ کس طرح ان کے گھروالے زیرعتاب ہیں اور ایک صحافی نے ڈاکٹرافضل گروشہیدکے حوالے سے پولیس تشددکی تفصیلات بھی بتائی تھیں کہ کس طرح نازک اعضاء تک کوبجلی کے جھٹکوں سے نشانہ بنایاگیا۔

                8جولائی 2002کو مقدمہ کی سماعت شروع ہوئی اور روزانہ کی بنیادپر اس مقدمے کو سناجاتارہا۔یادرہے کہ یہ ایک ”پوٹا“عدالت تھی۔یہ سماعت چھ ماہ تک چلتی رہی اور18دسمبر2002کو خصوصی عدالت نے پھانسی کی سزاسنادی۔ہائی کورٹ میں اپیل دائرکی گئی لیکن وہاں بھی انصاف کی توقع عبث تھی اور اپیل خاج ہو گئی۔4اگست 2005کو سپریم کورٹ نے بھی ماتحت عدالت کی یہ سزابرقراررکھی۔نظرثانی کی اپیل بھی خارج۔ان تمام حقائق سے بخوبی اندازہ کیاجاسکتاہے کہ بھارتی عدالتیں کس قدر اپنی حکومتی پالیسیوں کے تابع ہیں۔یہ سیکولرازم کے اصل کردارہیں،دنیاکی آنکھوں میں دھول جھونکی جاتی ہے اور اصل میں حکومتی ارادوں کو عدالتی فیصلوں کی شکل میں تھونپ دیاجاتاہے۔اکتوبر2006میں ڈاکٹرافضل گروشہیدکی بیوی”تبسم“نے صدر مملکت کو رحم کی اپیل کی۔اس نظام میں صدربھی تو اسی نظام کا سب سے بڑانمائندہ تھا، سو اس نے بھی توقع کے عین مطابق یہ اپیل مسترد کردی۔سپریم کورٹ میں ایک بارپھر بھی کوشش کی گئی لیکن جون2007میں پھرناکامی کامنہ ہی دیکھناپڑااور سپریم کورٹ نے کہ دیاکہ اس درخواست میں کوئی جان نہیں۔جنوری2013تک بھارتی وزارت داخلہ پھانسی کافیصلہ کرچکی تھی۔9فروری کو 8بجے جب جیل انتظامیہ نے پھانسی کی اطلاع دی توڈاکٹرافضل گروشہیدبہت مطمئن اور پرسکون تھے۔انہوں نے بیوی کے نام خط لکھا،اس سے قبل وہ فجرکی نمازاورقرآن مجید کے کچھ اوراق کی تلاوت کرچکے تھے۔جیل میں ہی جنازہ پڑھاگیااورانہیں دفنادیاگیا۔اس ساری مہم کو”آپریشن تھری اسٹار“کانام دیاگیاتھا۔

                سیکولرازم کے بھارتی برانڈمیں یہ ریاستی اداروں کے ہاتھوں نہ ہی پہلا قتل ہے اورجب تک سیکولرازم کے اقتدارکی بھیانک رات جاری رہے گی،نہ یہ آخری قتل ہے۔اس وقت بھارت کی ریاست اپنے شرق تاغرب انسانوں کی قتل گاہ بنی ہوئی ہے،کہیں ریاست اور حکومت کے ہاتھوں انسان اور انسانیت تہہ تیغ ہورہے ہیں تو کہیں برہمن کے تعصب کاآسیب نہ صرف دیگرہندؤں کو بلکہ دیگرمذاہب کے ماننے والوں کو بھی نگلے جارہاہے اوررہی سہی کسرانتہا پسند تنظیموں نے پوری کررکھی ہے جو پوری سرکاری سرپرستی میں انسانوں کی بستیوں کی بستیاں نذرآتش کرنے کو عین مذہبی فریضہ گردانتے ہیں۔انگلیوں پر گنے چنے چندبھارتی علاقے ہیں جہاں کے دو چار فیصد حالات اخبارات کی زینت بن کردنیاکے سامنے پہنچ جاتے ہیں،وگرنہ دوردرازکی وادیوں اور جزیروں اور سرحدی علاقوں میں بسنے والے قبائل تو بیسویں صدی کی دہلیز پر ننگ انسانیت حالات سے دوچار ہیں اور وہاں کھلم کھلا جنگل کاقانون نافذ ہے۔لیکن شہداکے قافلے میں روزافزوں ہونے والا اضافہ بلآخراس خطے کی تقدیر بدلا چاہتاہے اور اللہ تعالی نے چاہا تو بہت جلد شہیدوں کاخون رنگ لائے گااورآسمانوں تک پہنچنے والی ا  نسانیت کی چینخیں عرش خداوندی کو جھنجھوڑ دیں گی اور کشمیرسمیت یہ خطہ سرزمین برصغیراس برہمن کے خونین چنگل سے ضرور آزادہو کر کلمہ توحید کے سائے تلے سکون آشنا ہو گا،انشااللہ تعالی۔

[email protected]

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
58158

سوہان روح بنا عدم سیاسی استحکام – قادر خان یوسف زئی کے قلم سے

سوہان روح بنا عدم سیاسی استحکام – قادر خان یوسف زئی کے قلم سے


ایک طرف بد قسمتی کہ ہماری قوم بڑی جذباتی واقع ہوئی ہے اور دوسری طرف ایسے تخریب کار عناصر موجود ہیں جنہوں نے پاکستا ن کے وجود کو ابھی تک دل سے قبول نہیں کیا۔ یہ لوگ عوام کی جذبات پرستی کا بڑا ناجائز فائدہ  اٹھانے کی کوشش میں رہتے ہیں۔ملک میں جب بھی سیاسی بحران اٹھتا ہے تو بعض حلقوں کی جانب سے اشاروں کنایوں میں یہ باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اس کے پس پردہ مخصوص لابی ہے، یہ حلقے بڑے تواتر سے ایسی افوائیں اور قیاس آرائیاں بھی پھیلاتے ہیں جس سے عوام میں ابہام کا سونامی امڈ آئے۔ ایسی شر انگیزی کا مقصود کیا ہے، بتانے کی ضرورت نہیں، ان وجوہ سے حکومت بھی آگاہ ہے  اور فہمیدہ حلقے بھی بخوبی جانتے ہیں۔حکومت اور سیاسی جماعتیں مکمل واقف ہیں کہ مقاصد کیا ہیں اور باہمی معاملات کو طے کس طرح کئے جانا چاہے، ضرورت ہے کہ ہر وہ قول و فعل جو فتنہ انتشار کو پھیلانے اور نفرت کی فضا کو  پیدا کرنے کی غرض سے کہا یا کیا گیا ہو اس کو سختی سے دبا دیا جائے۔ موجودہ نازک دور میں صوبائی تعصب اور منافرت و انتشار کو ہوا دینے کا عمل ختم ہونا چاہے۔


حزب اقتدار و اختلاف کے درمیان جامع مذاکرات کا نہ ہونا، جمہوری عمل کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ اس سے معمول کے تعلقات کی بحالی میں رکاؤٹیں پیدا ہو رہی ہیں۔ پارلیمان کے پلیٹ فارم سے باہمی تعلقات اور نئی جہتوں کی تلاش میں مدد مل سکتی تھی لیکن روایتی طور پر بھی سرد مہری اور سیاسی چپقلش بڑھنے سے عوام میں مایوسی کے بادل گہرے ہوتے جارہے ہیں،

ان حالات میں کہ معاشی چینلجز نے مملکت کو چہار اطراف سے گھیر رکھا ہو ا،  دہشت گردی، انتہا پسندی کے کاروبار کو فروغ حاصل ہورہا  ہو، یہ تمام لعنتیں آج ہمارے سماج کی بنیادوں کے لئے خطرہ بن گئی ہیں۔  مخدوش حالات میں دیکھنے میں یہی آرہا ہے کہ ریاست کو درپیش مسائل کے مرض کی علامات ظاہر ہونے کے باوجود ختم کرنے کی سنجیدہ کوشش نظر نہیں آتی۔ بدقسمتی سے افغانستان کی صورت حال اب بھی مسلسل متاثر کررہی ہے، ان حالات میں کہ سیکورٹی فورسز اور ملک کی سلامتی و بقا کو خطرات لاحق ہیں، سیاسی جماعتیں بھی ایک صفحے پر نہیں۔ ملک جس بھنور میں جس کی بھی وجہ سے پھنسا ہے، اس سے نکلنے کے لئے مربوط اور اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں اور اداروں کو ادارک کرنا چاہے کہ ملکی سیاسی و معاشی بحالی اور خطے میں ترقی اور جمہوریت کی بقا کو مضبوط بنانے پر یقین رکھنے والوں کو سنجیدگی کے مثبت راستے پر آنا ہوگا۔غربت، دہشت گردی، ناخواندگی کے خلاف اجتماعی ٹھوس کوششوں کے بجائے دیکھنے میں آرہا ہے کہ سیاسی فروعی مفادات کے لئے ایک ایسا طریق اختیار کیا گیا ہے جس میں مکمل نقصان صرف عوام کو ہو رہاہے۔ مدت اقتدار کو مکمل یا ختم کرانے کے لئے کی جانے والی کوششیں وقت گذاری کے لئے نہیں بلکہ مسائل کے جامع حل کے مقصد سے کی جانے کی ضرورت پہلے سے زیادہ بڑھ جاتی ہے۔

بلوچستان اور شمالی مغربی سرحدوں سے ایسی اطلاعات تواتر سے آرہی ہیں جس میں ملک دشمن عناصر اتحاد کرکے سیکورٹی فورسز کو مسلسل نشانہ بنا رہے ہیں۔ دہشت گردوں کامذموم اتحاد ایک تشویش ناک اور پریشان کن خبر ہے کیونکہ اس سے دہشت گردوں کا صفایا کرنے کے مشن کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ عوام دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے اور ملک و قوم کو اس عفریت سے مکمل نجات دلانے کے خواہش مند ہیں لیکن پڑوسی ممالک کی جانب سے عسکریت پسندی کے خاتمے میں تعاون نہ ملنے کے باعث ریاست کو مشکلات کا سامنا ہے۔ ریاست کو ملک وقوم کو مشکلات سے نکالنے کے لئے عوام کو اپنے اعتماد میں لینا ہوگاتاکہ ان تمام چیلنجزکا مقابلہ کرنے کے لئے منظم ہونے والے عناصر اور حکومت کی رٹ کو چیلنج کرنے والوں سے نمٹ سکے۔سیاسی استحکام ہی حکومت کو احسن انداز سے کام کرنے کا موقع فراہم کرسکتی ہے، عدم استحکام کرانے کی تمام سازشوں کا واحد مقصد پاکستان  کی بقا و سلامتی کو نقصان پہنچانا مقصود ہے۔ مملکت جس نہج پر پہنچ چکی ہے اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اس کے خطرناک نتائج سے ملک وقوم  پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔

جب تک ملک میں ریاست مضبوط نہیں ہوگی، اس وقت تک زمینی و نظریاتی سرحدوں کی حفاظت پر بھی سوالیہ نشان اٹھتے رہیں گے۔ پاک فوج کی جانب سے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمہ کے سلسلے میں اب تک کی گئی کوششیں اور حاصل کی گئی کامیابیاں یقیناََ قوم کے لئے حوصلہ افزا ء ہیں تاہم حالات کا تقاضے میں سیاسی جماعتوں کو حکومت اور اپوزیشن کی سطح پر ایک صفحے پر آنے کی اشد ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔ملک آج تک نازک دور سے باہر نہیں نکل سکا، ایک عرصے سے ملک وقوم کے لئے سوہان روح بننے والا عدم سیاسی استحکام کی وجہ سے ملکی معیشت بھی بحران کا شکار ہے بلکہ عالمی برداری میں پاکستان کا امیج اور ساکھ بھی متاثر ہو رہی ہے، جب تک تمام سٹیک ہولڈرزیکجا ہوکر ایک نقطے پر متفق نہیں ہوتے تو یہ ایک ایسی دلدل ہوگی جس میں ملک دھنستا چلا جائے گا۔

 کسی حکومت کا مدت اقتدار پورا کرنا جتنا ضروری ہے اس سے کہیں زیادہ سسٹم کو چلانے کے لئے برداشت، رواداری اور سیاسی مینڈیٹ کو تسلیم کرنا بھی اہمیت رکھتا ہے۔ باہمی اتحاد سے ہی ملک کے مستقبل کے بارے میں سوال اٹھانے والوں کی زبانیں بند کی جاسکتی ہیں، اب ضرورت اس امر کی ہے کہ سات دہائیوں سے سبق حاصل کرنے کا ہی نہیں بلکہ سب کو ایک صفحے پر آنا ہی مکمل طور پر ملکی ترقی اور کامیابی کی حقیقی منزلوں کی جانب گامزن کیا جاسکتا ہے۔ سیاسی پنڈتوں کے مطابق مفاہمت کی کوشش میں تاخیر کی گئی تو سب کچھ بے سود ہوسکتا ہے۔دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہزاروں قیمتی جانوں کا نقصان ہوا، لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے، جائیداد تباہ و برباد ہوگئی۔ لیکن سیاسی عدم برداشت کی وجہ سے جتنا نقصان ہورہا ہے اس کا تخمینہ بھی نہیں لگایا جاسکتا، ان حالات میں ملک بچانے کے لئے کڑوے فیصلے ارباب حل و عقد کو کرنا ہوں گے۔کوئی سیاسی لیڈر یا ریاستی اداروں کے سربراہ جنہیں مدبر کہا جاتا ہے، وہ ایسا عمل بالکل نہیں کرنا چاہیں گے جس سے عوام کی صحیح رہنمائی اور درست سمت بتانا بالکل مشکل ہوجائے۔ تدبر سے کام نہ لینے کی وجہ سے تباہی و بربادی کا ذمہ دار کس کو قرار دیا جائے گا اس کا فیصلہ تاریخ ہی کرے گی۔

Posted in تازہ ترین, مضامین
58155

داد بیداد ۔ مُشیر اور ما ہرین ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

داد بیداد ۔ مُشیر اور ما ہرین ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

آج کل دنیا کا نصف سے زیا دہ کا م مشیراور ما ہرین کے حوالے کیا گیا ہے انگریز ی میں مشیر یا ما ہرین کے لئے کنسلٹنٹ کا جا مع اور با معنی لفظ استعمال ہو تا ہے عالمی ادارے، قو می حکومتیں اور بڑی بڑی تجارتی کمپنیاں مشیروں اور ما ہرین کی اراء پر انحصار کر تی ہیں کوئی بھی اہم مسئلہ درپیش ہو اس کا اہتما م و انتظام مشیر یا ما ہرین کے حوا لے کیا جا تا ہے، خصو صاً غریب، غیر ترقی یا فتہ،آفت زدہ اور جنگ کی تبا ہ کاریوں کا شکار ہونے والے مما لک میں مُشیروں کی فو ج ظفر مو ج ڈیرے ڈال دیتی ہے ان کے مشورے بہت مہنگے ہو تے60صفحات کی ایک رپورٹ اگر مقا می مشیر تحریر کر ے تو اس کو ایک ہزار ڈالر ملتے ہیں یہی رپورٹ اگر غیر ملکی مشیر لکھے تو اس کو 20ہزار ڈالر ادا کئے جا تے ہیں.

دلچسپ بات یہ ہے کہ ان رپورٹوں کو ہر کوئی پڑ ھتا ہے ہر کوئی ان پر عمل کرتا ہے اس کے مضمرات اور نتا ئج کا جا ئزہ لینے کے لئے پھر مشیر کا تقرر ہو تا ہے اس مشیر کی سفارشات کو عملی جا مہ پہنا نے کے لئے پھر ایک مشیر کی خد مات حا صل کی جا تی ہیں العرض مشیر ایک کمبل ہے جس کو آپ چھوڑ بھی دیں مگر کمبل آپ کو نہیں چھوڑ تا سما جی شعبے کی ترقی سے وا بستہ ما ہرین کے ہاں ایک مقولہ مشہور ہے وہ کہتے ہیں کہ مشیر و ہ شخص ہے جو آپ کی گھڑی دیکھ کر آپ کو وقت بتا تا ہے اور معاوضہ کے طور پر آپ کی گھڑی ہتھیا لیتا ہے عراق، شام، صو ما لیہ، سوڈان، یمن اور افغا نستا ن میں مشیروں نے بڑا پیسہ کما یا

وطن عزیز پا کستان بھی مشیروں کے لئے بہت زرخیز ملک ہے گزشتہ 30سالوں سے ہمارے ہاں نجکا ری کا دَور چل رہا ہے اس عمل میں ہزاروں مشیروں نے اربوں ڈالر وصول کئیے، لاکھوں صفحا ت پر مشتمل رپورٹیں جمع کی گئیں ان رپورٹوں کا جا ئزہ لینے کے لئے مزید مشیروں کا تقرر ہوا 800کے قریب قومی اثا ثوں کو نجی ملکیت میں دینے کی سفارشات تیار کی گئیں مگر پا کستان ٹیلی کمیو نی کیشن لمیٹڈ کے سوا کسی بھی قو می اثا ثے کی نجکا ری نہیں ہو ئی ایک ستم ظریف نے نجکا ری کمیشن کو رپورٹوں کا قبرستان قرار دیا ہے اس کے باوجو د دھڑا دھڑ مشیروں کی تقرری ہو رہی ہے کا لا باغ ڈیم کے بارے میں سب کو پتہ ہے کہ کیا تھا اور کیا ہوا؟ مگر یہ بات بہت کم لو گ جا نتے ہیں کہ ڈیم پر ایک پا ئی خر چ نہیں ہو ئی ڈیم کے سروے، ڈیزائن اور رپورٹوں کے لئے مشیروں کو ار بوں کے حساب سے ڈالروں میں معا وضے ادا کئے گئے

کنسلٹنٹ کا معا وضہ ہمارے لئے ”نیکی کر دیا میں ڈال“ کے زمرے میں آتا ہے ہم اس کا معا وضہ نہ روک سکتے ہیں نہ واپس لے سکتے ہیں مشیر، ما ہریا کنسلٹنٹ بننے کا اہل کون ہوتا ہے؟ یہ سو ملین ڈالر کا سوال ہے، کنسلٹنٹ وہ مخلوق ہے جس کو کسی بھی شعبے میں اچھا کام نہیں ملا یا وہ کسی بھی بھی شعبے میں جم کر کا م ہی نہیں کر سکا اس کو بین لاقوامی تنظیمیں مشیر کے طور پر اپنے پرو گرام میں شامل کر کے بھاری معا وضہ ادا کر تی ہیں وہ گھوم پھر کر چند الٹے سیدھے سوالات کے جوا بات ڈھونڈ نکا لتا ہے اور ان جوابات کو رپورٹ کی شکل دے کر جمع کر کے اپنا معا وضہ وصول کرتا ہے کہتے ہیں ایک چرواہا اپنی بھیڑوں کے ریوڑ کے ساتھ پہا ڑی چراگا ہ سے آرہا تھا ایک آدمی نے جیب روک کر چرواہے سے کہا اگر میں تمہا ری بھیڑوں کو دیکھ کر بتادوں کہ کتنے بیمار اور کتنے تندرست ہیں تو مجھے کیا دو گے؟ چرواہے نے کہا ایک بھیڑ دے دونگا تھوڑی دیر بعد وہ شخص حساب کر کے آیا اور کہا ایک بھیڑ دے دو، چرواہے نے کہا خود لے لو، اُس شخص نے ایک جا نور کو پکڑا اور جیب میں ڈال کر جا نے لگا تو چرواہے نے پو چھا کیا تم کنسلٹنٹ ہو اُس نے کہا ہاں مگر تمہیں کیسے پتہ چلا، چرواہے نے کہا جو جا نور تم نے اٹھا یا وہ کتا ہے اس واقعے سے کنسلٹنٹ کی قا بلیت کا پتہ چلتا

ہے فارغ بخا ری نے سچ کہا ہے ؎


امیر شہر کا سکہ ہے کھو ٹا
مگر شہر میں چلتا بہت ہے

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
58114

دھڑکنوں کی زبان ۔ “کیا ہم ریاست کے نوکر نہیں ہیں ۔محمد جاوید حیات”


گاوں میں ایک جگہ فوتگی ہوئی تھی غمزدہ خاندان کے ساتھ ہمدردی کی بنیاد پر سارے گاوٴں والے اس گھر میں جمع تھے تعزیت کے لیے آنے والوں کا استقبال اور ان کو رخصت کر رہے تھے ۔بھانت بھانت کے لوگ تھے ۔بوڑھے جوان، امیر غریب، سیاسی لوگ ،عام عوام ، ریٹائرڈ فوجی صوبےدار ،پولیس آفیسرز ،محکمہ صحت کے اہلکار ،محکمہ جنگلات کے لوگ ،پٹواری ، کونسا محکمہ نہ تھا کہ اس کا کوئی نہ کوئی اہلکار وہاں موجود نہ تھا ایک استاد بھی ایک کونے میں کرسی پہ دب کے بیٹھا تھا ۔۔مختلف موضوعات پر بحثیں ہورہی تھیں۔دلایل دیے جاتے ۔باتوں باتوں میں ایک بانکے دیہاتی نے کہا کہ چوہتر سالوں میں ہمیں کسی سے کوئی خاص فایدہ نہیں ہوا ۔۔اتنے میں ایک ریٹایرڈ صوبےدار کا پارہ چھڑا ۔۔گرجدار آواز میں کہا خاموش ہوجاو اگر فوج نہ ہوگی تو تمہارا نام و نشان مٹ جائےگا ۔

انھوں نے 1948ء65, 71, کارگل ،ضرب عضب ،رد الفساد وغیرہ گن کر کہا کہ ان معرکوں میں تمہارے پرخچے اڑ جاتے تمہارا وجود ختم ہوجاتا ۔۔یہ قوم بڑا نمک حرام ہے یہ احسان نہیں جانتی ۔۔صوبیدار کی تقریر ختم ہوئی تو ڈی ایس پی نے مونچھوں کو تاو دیا ۔اگر پولیس نہ ہو تو چور اچکے، دہشت گرد ، ڈاکو لٹیرے ظالم سماج تمہارا جینا حرام کر دیتے ۔تمہاری دھائی کو سنتا تمہاری دادرسی کہاں سے ہوتی ۔۔اتنے میں محکمہ صحت گویا ہوا ۔تمہاری جان پہ بنتی ہے تو ڈاکٹر تمہاری آہ کائنات سے ٹکرا کر واپس آتی ہے تو ڈاکٹر تمہیں نئی زندگی دینے والے ڈاکٹر ۔۔کسی انجنیر کی آواز گونجی ۔۔یہ تعمیر یہ عمارتیں ، یہ سڑکیں یہ ڈیم یہ ٹریفک یہ کہاں سے ممکن ہوتی ۔باری باری سارے محکمے کے لوگوں نے اپنے احسانات جتایے گویا کہ یہ نہ ہوں تو ریاست بے دست و پا ہو جایے ۔۔استاد سر جھکایے خاموش تھا ۔حاضریں کا جوش قدرے کم ہوا تو ایک بزرگ نے استاد کو مخاطب کیا ۔۔استاد بھائی تم کیوں خاموش ہو۔۔۔ کچھ بولو ! استاد نے سر اٹھا کر کہا ۔۔صاحب میں کچھ نہیں بول سکتا کیونکہ میرا کسی پر کوئ احسان نہیں ۔۔ہاں اس ریاست کا مجھ پر احسان ہے ۔۔بھائی میں استاد ہوں میں نے کبھی بھی ایک کلاس بھی مفت نہیں لیا ۔مجھے پڑھانے کی تنخواہ ملتی ہے ۔۔

مہینہ پورا ہوجایے تو ریاست میرا معاوضہ سکول لا کر میرے ہاتھ میں رکھتی ہے ۔۔میرے اکاونٹ میں میرا معاوضہ جمع ہوتا ہے ۔میں اگر ٹیچر نہ بنتا تو کوئی اور بنتا ۔۔میں کوئی کمال نہیں کر رہا اس لیے خاموش ہوں ۔۔یہ بد قسمت ریاست ہے اس لیے سب اس پہ احسان جتاتے ہیں ۔صوبیدار صاحب نے بڑی دھواں دار تقریر کی کوئی اس سے پوچھے کہ اس کے ذمہ قوم اورملک کی حفاظت تھی کیا اس نے بلاعوض یہ سب کچھ کیا ۔۔کیا اس کو تنخواہ نہیں ملتی تھی۔۔ کیا اس کو رہایش کنونس مراعات اور پنشن نہیں ملتا ۔۔کیا اس کا کوئی جنرل مراعات سے اور پرتعیش زندگی سے محروم ہے کیا ریاست نے اس کی سہولیات میں کوئی کوتاہی کی ۔ڈاکٹر سے پوچھیں کہ اس نے مفت کتنے دن ڈیوٹی کی۔۔ کتنے مریض مفت میں چیک کیا ۔انجینر سے پوچھیں کہ وہ کس سہولت سے محروم ہے ۔عوامی نمایندہ قوم کا خادم ہوتا ہے لیکن یہ کیسا خادم ہے اگر کسی کو اقتدار مل گیا تو سڑک بنا کے کہتا ہے میں نے کیا سکول کی تعمیر کرکے کہتا ہے میں نے کیا ۔اس سے کوئی پوچھے وہ ریاست کے پیسے کدھر گیے اس دولت کا کیا ہوا ۔اس کے پاس کوئی جواب نہیں ہوگا ۔اسرائیل نے اٹم بم بنایا اس سے پوچھے کس نے بنایا جواب ہوگا ریاست نے ۔۔ہمارے ہاں اٹم بم بنا ۔۔

آگے کریڈٹ کی جنگ ہے کہ کس نے بنایا ۔۔بنانے والا حبس بے جا میں تھا اس جہان کو سدھارا ۔سڑک بنتی ہے بس چلاتے ہیں آگے کریڈٹ کی جنگ چلتی ہے ۔احسان جتاتے ہیں ۔ریاست کا وجود درمیان سے غائب ہے ۔بابا میں خاموش کیوں نہ ہوں۔۔ اگر کسی ریاست کے ملازم اس کا شکر گزار ہونے کی بجائے اس پر احسان جتائیں تو تباہی آیے گی ۔میں استاد ہوں میں کہوں کہ اگر میں نہ ہوں تو قوم ان پڑھ ہوجایے گی اگر پولیس کہے کہ وہ اگر وہ نہ ہو تو قوم کی جان و مال محفوظ نہ ہو اگر فوج کہے کہ اگر وہ نہ ہو تو ریاست کی سرحدیں محفوظ نہ ہوں اگر ڈاکٹر کہے کہ اگر وہ نہ ہو تو عوام ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جائیں گے ۔تو ریاست کیا کرے ۔۔

ان سے پوچھنے والا کون ہوگا کہ تم کس درد کی دوا ہو ۔۔تم ان خدمات کے معاوضہ لیتے ہو تم کس پر احسان کر رہے ہو تمہارے اوقات کیا ہیں ۔تمہیں اس ریاست کا احسان مند ہونا چاہیے کہ یہ تمہاری ماں ہے یہ تمہارے جینے کا سامان تمہیں مہیا کرتی ہے ۔چچا مجھے اس ریاست پہ ترس آتا ہے۔۔اسی کے باشندے اس کو چیرپھاڑ کھاتے ہیں پھر اس پر احسان جتاتے ہیں ۔ان کو اپنی کارکردگی کا کوئی پتہ نہیں ۔زندہ قومیں اپنی ریاست کا وفادار ہوتی ہیں ۔ریاست کے کارکن اس کےعوام کی خدمت کرکے فخر محسوس کرتے ہیں ۔افسوس چچا یہ سب لوگ جو اس محفل میں بیٹھے ہیں یہ کس پر احسان کر رہے ہیں چچا یہ شکر کیوں نہیں کرتے ۔۔کیا یہ ریاست کے نوکر نہیں ۔۔۔چچا کو استاد کی باتیں بہت پسند آئیں۔۔۔
آس نے دبے الفاظ میں کہا
شیخ مکتب ہے اک عمارت گر
جس کی صنعت ہے روح انسانی

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
58110

مختصرسی جھلک – زندگی کی مہارتیں – فریدہ سلطانہ فّریّ

پہلا حصہ

کہتے ہیں کہ زندگی توزندہ دلی کا نام ہےمردہ دل کیا خاک جیا کرتے ہیں۔ اب سوال یہ ہےکہ انسان اپنےاندرزندہ دلی کیسےاورکسطرح پیدا کریں اوراِس کے لئے انسان کو کب اورکس طرح کا عمل اختیار کرنا ہوگا۔اس بات سے توکوئی بھی انکارنہیں کرسکتاکہ انسانی زندگی میں خوشیوں کے ساتھ ساتھ مسائل بھی اتے ہیں اورانہی مسائل و مشکلا ت کے ساتھ خود کوایڈجسٹ کرکے یا خود کومقابلےکا اہل بنا کے زندگی کوڈھنگ سے جی لینےکا نام زندگی دلی ہے۔اورڈھنگ سےجینے کے لئے انسان کے پاس کچھ ایسی مخصوص خصوصیات یا مہارتیں ہونی چاہیےجوایسے مشکل موقعوں میں انسان کی ڈھال بن سکیں۔ خاص کربیٹیاں اللہ پاک کی وہ معصوم مخلوق ہیں جن کی زندگی میں ایک وقت ایسا اتا ہے کہ انہیں ایک دم سے اپنا انگن چھوڑکرمکمل طورپرنئے ماحول میں خود کوڈھالنا ہوتا ہےاورایسے ماحول سے خود کو شناسا کرنےاورزندگی کی درپیش دوسری چیلنجیزکا سینہ تان کرمقابلہ کرنے کے لئے ان کے پاس کچھ ایسی مخصوص مہارتوں کا ہونا بےحد ضروری ہے جن کا میں باری باری مختلف اقساط میں تذکرہ کروںگی۔

فیصلہ سازی کی مہارت

خود اعتمادی

مسائل کوحل کرنے کی مہارت

تخلیقی سوچ

موثرمواصلات کی مہارت

باہمی تعلقات کی مہارت

خود اگاہی

ہمدردی

تناوسے نمٹنے کی مہارت

جذبات سے مقابلے کی مہارت

یہ تمام وہ مہارتیں ہیں جوبچیوں کوایک کامیا ب اورپرسکون زندگی کی طرف گامزان کرنےمیں ریڑھ کے ہڈی کی حثیت رکھتی ہیں۔

فیصلہ سازی کی مہارت:

اس بات سے توکوئی بھی انکارنہیں کرسکتا کہ زندگی کے ہرحصےاورہرمعاملے میں درست فیصلے کی شدید اہمیت ہے نہ صرف پیشہ وارانہ و تعملیمی معاملات میں بلکہ ہرفرد کوروزمرہ زندگی میں ہرعمراورموقع پرفیصلہ کرنا پڑتا ہے اورایسے موقعوں پردرست فیصلے صرف وہی لوگ ہی کرسکتے ہیں جن کو بچپن سے ہی اپنی زندگی سے متعلق چھوٹے چھوٹے فیصلے کرنے کا موقع دیا گیا ہواوروہ فیصلہ سازی کےعادی ہو۔مگر بدقسمتی سے نہ ہمارے تعلیمی اداروں میں اورنہی والدین گھروں میں اس بات پرتوجہ دیتے ہیں کہ بچوں خصوصآ بچیوں کواپنی سرپرستی میں کم عمری میں ہی ان کی زندگی سے متعلق چھوٹے چھوٹے فیصلے کرنے کا عادی بنایا جائے تاکہ والدین کی غیرموجودگی میں اگے جاکران کواپنی زندگی سے متعلق صیح ودرست فیصلے کرنے میں اسانی ہواوروہ کسی کشکمش کا شکار نہ ہوسکیں۔

اج بھی زیادہ تروالدین اپنے بچوں کے تمام تر فیصلے خود ہی کرتے ہیں یہاں تک کہ شادی اورکیریرجیسے اہم معاملات میں بھی بچوں خصوصا بچیوں کی مرضی اورفیصلے کو بلکل ہی اہمیت نہیں دیتے ہیں بعد میں جس کے بہت ہی سنگین نتائج برامد ہوتے ہیں۔ جن بچوں کوبچپن میں چھوٹے چھوٹے فیصلے کرنے کے مواقعے نہیں دیے جاتے ہیں وہ بچے یا بچیاں اگے جاکرعملی زندگی میں کسی کام کے اہل نہیں ہوتے ہیں اوران کو اپنی جاب و گھریلو زمہ داریوں کو نبھاتے اور ان کے حوالے سے فیصلہ کرنے میں بہت سی دوشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہےاوروہ  کسی بھی قسم کا فیصلہ لیتے وقت ہمیشہ ایک کشمکش کا شکار رہتے ہیں اس کے برعکس جن بچوں یا بچیوں کو بچپن سے ہی فیصلہ سازی کا تصوردیکران کواس عمل کا عادی بنایا جاتا ہے تووہ بچے یا بچیاں نہ صرف اگے جاکر اپنی زندگی کے تمام فیصلے پراعتمادی سے کرتے ہیں بلکہ وہ لوگ ہمیشہ اپنی پیشہ وارانہ زندگی سے لیکرگھریلو زندگی تک کے تمام مرحلوں میں کامیابی سے ہمکنار ہوتے ہیں۔۔ (جاری

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
58106

منشیات فری گلگت بلتستان خاطرات :امیرجان حقانی

منشیات فری گلگت بلتستان خاطرات :امیرجان حقانی


 سماجی ایشوز اور مسائل میرے پسندیدہ موضوعات ہیں. اسلامی تعلیمات بھی  اخلاقیات اور سماجیات کا واضح درس دیتی ہیں. سماج کی اصلاح و تزکیہ تمام شرائع کا مشترک درد ہے. مقصد دین ہی تزکیہ فرد و معاشرہ ہے. سزا و جزا اور قوانین شریعت بھی دراصل تزکیہ فرد و سماج کے لیے ہیں. گزشتہ کافی عرصے سے بغور جائزہ لے رہا ہوں، گلگت بلتستان میں پولیس ڈیپارٹمنٹ نے اپنی بساط کے مطابق منشیات فروشوں کے خلاف کریک ڈاؤن کر رکھا ہے.نیچلی سطح پر یہ کریک ڈاؤن انتہائی ناکافی ہے.

سابق حکومت نے “تمباکو کنٹرول ایکٹ 2020” کے نام سے قانون بنایا ہے. اس ایکٹ کے مندرجات پڑھنے کا اتفاق نہ ہوسکا، کیونکہ دستیاب نہیں ہے تاہم امید کرسکتا ہوں کہ اس تازہ ترین ایکٹ میں منشیات فری کے حوالے سے جملہ قوانین و ضوابط اور ریکگنائزڈ اداروں کے متعلق مکمل ہدایات موجود ہونگی.جی بی کی پولیس جگہ جگہ چھوٹے چھوٹے منشیات فروشوں اور نشئیوں کو پکڑ کر سوشل میڈیا کا زینت بنارہی ہے. کچھ نہ ہونے سے اتنا کچھ بھی کافی ہے تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ جملہ منشیات فروشوں، بالخصوص بڑے بیوپاریوں اور  بااثر افراد و اہم شخصیات کی اولاد و متعلقین جو کسی بھی طرح منشیات میں ملوث ہیں کو کیفرکردار تک پہنچانے کی ضرورت ہے. اس کے لیے حکومت سمیت عوام کو بھی متعلقہ اداروں بالخصوص کریک ڈاؤن پر پولیس کے ساتھ اخلاقی اور اطلاقی تعاون کرنا ہوگا.


سب سے اہم بات یہ ہے کہ منشیات کے مضر اثرات پر ترجیحی بنیادوں پر آگاہی سیمنارز، ورکشاپس اور تربیتی پروگرام کا آغاز کرنا ہوگا. تعلیمی اداروں سمیت ہر مسجد، امام باڑہ، جماعت خانہ اور مکاتب و مدارس میں آگاہی و تربیتی سلسلے شروع ہونے چاہیے. سوشل ویلفیئر کا ڈیپارٹمنٹ موجود ہے مگر اس کی ایکٹیویٹز جو ضروری ہیں دیکھنے کو نہیں ملتی ہیں.انہیں بھی زبانی جمع خرچ سے باہر نکل کر فعال کردار ادا کرنا ہوگا. این جی اوز کی بڑی تعداد بھی منشیات کے حوالے کوئی قابل قدر کام کرنے سے قاصر ہے. چھوٹے چھوٹے ہوٹلوں پر اپنے من پسند چند افراد کو کھانے پر مدعو کرکے ملٹی میڈیا پر چند سلائیڈ چلانے سے منشیات پر آگاہی نہیں دی جا سکتی ہے اور نہ ہی عالمی اداروں سے فنڈنگ کے  لیے غیر مصدقہ و محقق رپورٹس بنانے اور پبلش کرنے سے یہ مسئلہ حل ہوگا.اس کے لیے گروانڈ ریالٹیز کے مطابق دو ٹوک اسٹریٹجی بناکر آگاہی اقدام کرنے ہونگے.

سرکار کا متعلقہ ڈیپارٹمنٹ، این جی اوز، علماء کرام، اساتذہ عظام، سماجی لیڈر،، سوشل ورکرز، ابلاغی ادارے غرض شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے تمام افراد کی معاونت و شرکت سے ” منشیات فری گلگت بلتستان” کے لئے عملی اقدام اٹھانے ہونگے، آگاہی کیساتھ سزا وجزا کو نظام بھی بروقت، شفاف اور عدل پر مبنی ہونا چاہیے.ورنا اس دن پچتھانا فضول ہوگا جس دن گلگت بلتستان اسلام آباد اور لاہور کا منظر پیش کرے گا. راتوں کو نوجوان لڑکے لڑکیاں نشے میں دھت ہوکر روڈ کنارے مردہ پائے جاوے یا ہسپتالوں کے ایمرجنسی وارڈ نشئیوں سے بھر جائے.اس صورت حال سے پہلے سب کو جاگنا ہوگا. قانون کو بھی حرکت میں آنا ہوگا. نوجوان نسل بری طرح متاثر ہورہی ہے. اس کا تدارک بہت ضروری ہے. اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو. 

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
58073

نیوزی لینڈ : پولی نیشیاکاسب سے بڑا ملک-ڈاکٹر ساجد خاکوانی(اسلام آباد،پاکستان)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

نیوزی لینڈ:پولی نیشیاکاسب سے بڑا ملک

(6فروری:قومی دن کے موقع پر خصوصی تحریر)

ڈاکٹر ساجد خاکوانی(اسلام آباد،پاکستان)

                ”نیوزی لینڈ“جنوبی بحرالکاہل میں پولی نیشیا کی سب سے بڑی ریاست ہے۔آسٹریلیا کے جنوب مشرق میں واقع یہ ریاست بہت بڑی اور پھیلی ہوئی کھلی زمینوں پر مشتمل بہت سے جزائر کامجموعہ ہے۔اس کے دوبڑے بڑے حصے شمالی اور جنوبی جزیرے ہیں جنہیں بحرالکاہل کی مختصر سی پٹی باہم جدا کرتی ہے اور ان کے علاوہ چھوٹے بڑے جزائرکی ایک بہت بڑی تعدادہے جن میں سے بعض اصل نیوزی لینڈ سے سینکڑوں میل کے فاصلے پر واقع ہونے کے باوجوداس ریاست کا حصہ ہیں۔”ولنگٹن“یہاں کا دارالحکومت ہے۔چاروں طرف سمندر ہونے کے باعث معتدل آب و ہواکا مالک نیوزی لینڈ لمبائی کے رخ کی مملکت ہے جو کم و بیش ایک ہزارمیل لمبی اور 280میل چوڑی جزائری پٹی پر مشتمل ہے۔یہاں کی اکثریت عیسائی مذہب کی پیروکار ہے تاہم دوسرے مذہب کی ایک تعدادبھی موجود ہے جبکہ ایک چوتھائی آبادی کو کسی مذہب سے کوئی سروکار نہیں۔انگریزی اور ”ماوری“دوزبانوں کو دفتری زبان ہونے کا درجہ حاصل ہے۔”پولی نیشیا“یونانی زبان کاایک مرکب ہے ”پولی“کا مطلب ”بہت سے“اور ”نیشیا“کا مطلب ”جزائر“ہے۔اس لفظ سے وہ اقوام مراد لی جاتی ہیں جو سمندر میں بکھرے ہوئے جزائر میں سکونت پزیر ہیں۔نیوزی لینڈ کے قدیم باشندے مشرقی پولینیشین تھے جن کے بارے میں غالب گمان ہے کہ وہ سرزمین فرانس سے 800ء کے لگ بھگ یااس سے قبل یہاں نئی زمینوں کی تلاش میں آئے تھے۔یہاں آکرصدیوں کی گرد میں وہ اپنے ماضی کو بھلا بیٹھے تاآنکہ یورپی سیاحوں اور ملاحوں نے انہیں دوبارہ دریافت کرلیا۔یہ1642ء کی بات ہے جب ایک ڈچ شہری یہاں پہچاتواس وقت نیوزی لینڈ میں آباد لوگوں کی تعداد بمشکل ایک لاکھ سے دو لاکھ کے درمیان تھی،اس وقت تک اس سرزمین اور اس میں بسنے والے قبائل کا کوئی نام نہ تھا،بس”ماوری“کالفظ وہ اپنے لیے بولتے تھے جو بعد میں انکی بولی جانے والی زبان کے لیے مختص ہوگیا۔

                یورپی اقوام کو یہ علاقہ پسند آیا اور وہاں دھڑادھڑآباد ہونے لگے،یہاں تک کہ 1840ء میں برطانیہ نے اس سرزمین کا انتظامی کنٹرول سنبھال لیااوراسے ”کراؤن کالونی“قرار دے دیاگیا۔ تاریخ نے وہ دن بھی دیکھے کہ جب یہاں کی مقامی آبادی کم اور یورپ سے آئے ہوئے لوگ تعداد میں بڑھ گئے۔1890کی دھائی میں نیوزی لینڈ کے مقامی باشندوں نے اپنی تنظیم”نیوزی لینڈ نیٹوزایسوسی ایشن(نیوزی لینڈ کے مقامی باشندوں کی تنظیم)“کی بنا ڈالی اور26ستمبر1907کو یہ ملک برطانوی تسلط سے جزوی طور پر آزاد ہوا۔1920ء سے نیوزی لینڈ اپنی داخلہ اورخارجہ پالیسیوں میں کافی حد تک آزاد تھاتاہم آزادی کی تکمیل 1947میں ہی جاکر ہوئی۔ نیوزی لینڈ نے دونوں عالمی جنگوں میں بڑا بھرپور کردار ادا کیا اور عالمی معاملات سمیت اقوام متحدہ میں نیوزی لینڈ اب دنیاکاایک اہم ملک سمجھاجاتاہے۔نیوزی لینڈقدرت کا شاہکار اور کرہ ارضی کا خوبصورت ملک ہے۔یہاں بہت سی غاریں،چھوٹے بڑے پہاڑی سلسلے،ندی،نالے،آبشاریں اور خوبصورت جھیلیں ہیں۔صرف جنوبی حصے میں 360گلیشئرزہیں،سب سے بڑا گلیشئر18میل لمبااور ڈیڑھ میل چوڑا ہے۔یہاں بہت سے دریا ہیں جو ایک دوسرے میں ضم ہوتے ہوئے بہت خوبصورت نظار ہ پیش کرتے ہیں۔نیوزی لینڈکی جغرافیائی صورتحال کے پیش نظر دریاؤں کے بہاؤ نے بہت سی خوبصورت جھیلیں بنا دی ہیں،اکثر جھیلوں سے بجلی کی پیداوار کاکام بھی لیا جاتا ہے اور بعض شہروں کے باہر بجلی کی پیداوار کے لیے مصنوعی جھیلیں بھی بنائی گئی ہیں۔ملک کی بڑی بڑی چراگاہیں ان سب پر مستزاد ہیں۔یہاں زلزلے بھی بہت آتے ہیں۔

                یہاں کی اوسط عمرمردوں میں 76سال اورعورتوں میں 81سال ہے،اتنی لمبی عمر شہریوں کی خوشحالی کا پتہ دیتی ہے۔آبادی میں اضافے کی شرح 1%سے بھی کم ہے جبکہ اموات کی زیادہ تر وجہ کینسر اور سانس کی تکلیف ہے۔زراعت،جنگلات اورمچھلی بانی یہاں کی مشہور صنعتیں ہیں۔چراگاہوں کے باعث جانوروں کی افزائش قدرتی طور پر آسان ہے چنانچہ بھیڑ اور گائے کی نسلیں یہاں تیزی سے پروان چڑھتی ہیں یہی وجہ ہے کہ گوشت،دوددھ،مکھن اور پنیرکی فراہمی میں نیوزی لینڈ دنیامیں صف اول کے ممالک میں شمار ہوتا ہے۔لکڑی،کوئلہ،سونا،لوہا اور گیس کے ذخائر بھی اس سرزمین کی تہوں میں پوشیدہ ہیں۔سیاحت کوبھی نیوزی لینڈکی معیشیت میں ایک اہم مقام حاصل ہے۔نیوزی لینڈمیں برطانوی طرز کاپارلیمانی سیاسی نظام رائج ہے۔یہاں کی پارلیمنٹ تین سالوں کے لیے منتخب ہوتی ہے۔نیشنل پارٹی اور لیبر پارٹی،دو ہی پارٹیاں ہیں جو زیادہ نشستیں جیت جاتی ہے وہی حکومت بناتی ہے۔حکومت کا سربراہ وزیراعظم کہلاتاہے اوراسکی معاونت کے لیے اسکی کابینہ کے اراکین اسکے یمین و یسار موجود ہوتے ہیں۔برطانوی فرمانروا یہاں کا اعزازی حکمران ہوتاہے،جو مقامی حکومت کے مشورے سے پانچ سالوں کے لیے محدوداختیارات کااپنا گورنرجنرل یہاں تعینات کرتاہے۔چھوٹے شہروں اور قصبوں  دیہاتوں میں مقامی حکومتوں کانظام قائم ہے جو بہت حد تک مرکزی حکومت پر ہی دارومدارکرتی ہیں تاہم مقامی طور پر انہیں کافی اختیارات میسر ہوتے ہیں۔دوسرے ملکوں کی طرح یہاں بھی حکومت کے بہت ساے ذیلی ادارے ہیں جو کاروبار ریاست میں حکومت کے ممدومعاون ہیں۔

                6سے سولہ سال کی عمر تک تعلیم لازمی ہے اور مفت ہے۔ایک منتخب ادارہ مدارس کے نظام کا ذمہ دارہوتاہے۔اکثر نجی ادارے اور مذہبی ادارے بھی اپنے اپنے تعلیمی و تربیتی اداروں کا نظام چلاتے ہیں اور حکومت وقت انہیں مالی مددبھی فراہم کرتی ہے۔ابتدائی تعلیمی اداروں میں اگرچہ بچے اور بچیاں اکٹھے پڑھتے ہیں لیکن اکثرثانوی تعلیمی ادارے لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے علیحدہ علیحدہ ہیں۔21سال کی عمر کے بعد وہاں یونیورسٹیوں میں داخلہ ممکن ہوتا ہے۔ان کے علاوہ فنی تعلیم کے بھی بہت سے ادارے موجود ہیں۔ دوردراز کے علاقوں کے رہنے والوں کے لیے فاصلاتی نظام تعلیم کے تحت کام کرنے والے تعلیمی ادارے بھی موجود ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اس ملک میں شرح خواندگی 99% ہے۔نیوزی لینڈکی ثقافت پر مغربیت غالب ہے،اسکی وجہ وہاں پر مغربی اقوام کی غالب اکثریت ہے۔جبکہ وہاں کے مقامی ”ماوری“قوم کے لوگ اپنا الگ ثقافتی پس منظر رکھتے ہیں،خاص نیوزی لینڈمیں انہیں اگرچہ اپنی تہذیب کو بچانے میں کافی دقت ہے لیکن دوردرازکے جزائر میں انکی مقامی روایات آج بھی دیکھی جاسکتی ہیں۔کوئین ایلزبتھ ٹوآرٹس کونسل وہاں پر مغربی برطانوی تہذیب کے پرچار کے لیے بہت بھاری رقوم بھی فراہم کرتی ہے۔یہاں کی مقامی تہذیب کے تحفظ کے لیے بہت سارے عجائب گھر بھی بنائے گئے ہیں۔

                نیوزی لینڈ میں اولین مسلمانوں کی آمد کا سراغ 1870میں ملتاہے،یہ مسلمان چینی نژاد تھے اور سونے کی کانوں میں سے سونا نکالنے کاکام کرتے تھے۔1900میں تین مسلمان خاندان اس سرزمین پر وارد ہوئے جوہندوستانی گجرات سے تعلق رکھتے تھے۔1950میں نیوزی لینڈ مسلم ایسوسی ایشن(MZMA)کے نام سے مسلمانوں کی اجتماعیت وجود میں آئی،1951میں مشرقی یورپ سے ساٹھ کی تعدادمیں کچھ مہاجرمسلمان یہاں پہنچے۔ان گجراتی اوریورپی مسلمانوں نے مل کر1959میں ایک مکان خریدااور یوں مسلمانوں کے پہلے اسلامی مرکزکی داغ بیل پڑی۔اب”انٹرنیشنل مسلم ایسوسی ایشن آف نیوزی لینڈ“کے نام سے مسلمانوں کی تنظیم وہاں متحرک ہے۔1967میں اس تنظیم کی بنیاد پر کام شروع ہوا،1968میں اسکا آئین تیار ہوا اوراس تنظیم کو 1969ء کو مقامی قانون کے مطابق رجسٹرڈ کرایاگیا۔اس تنظیم کے ارکان اسکولوں،کالجوں اور بعض اوقات پولیس اسٹیشنوں میں بھی درس و تدریس کاکام کرتے ہیں۔کچھ اراکین مستقل طور پر اس تنظیم کے ساتھ ہیں اور کچھ کو وقتی طور پر ضرورت پڑنے پہ بلا لیاجاتا ہے۔وہاں کے مسلمانوں نے ایک طویل جدوجہد کے بعدبہت سے ادروں کے اجازت نامے سے کچھ عرصہ قبل ایک اسلامک سنٹر بھی بنایا ہے جو تبلیغی مقاصد کے لیے اورمسلمانوں کے اجتماعی معاملات کے لیے مرکزیے کی حیثیت رکھتاہے۔2006ء کی مردم شماری کے مطابق یہاں مسلمانوں کی تعداد چھتیس ہزار سے متجاوز ہے اور تب سے گزشتہ پانچ سالوں میں یہ اضافہ 52.6%زیادہ ہے اس طرح فی الوقت یہ تعدادساٹھ ہزار کے لگ بھگ ہے اور اسلام یہاں کا تیسرا بڑا مذہب ہے اور بعض شہروں میں مسلمانوں کی کثیر تعداد کے باعث یہ شرح دوسرے بڑے مذہب تک پہنچ جاتی ہے۔،یہاں کے تمام بڑے شہروں میں گیارہ مساجد قائم ہیں اورمسلمانوں کے دو بڑے بڑے تعلیمی ادارے،”المدینہ“اور ”زید کالج برائے طالبات“سمیت کل بیس اسلامی مراکزبھی کام کررہے ہیں۔نیوزی لینڈ میں مسلمان نوجوانوں نے بھی اپنی تنظیم بنارکھی ہے جس میں کلیات وجامعات کے طلبہ شامل ہیں اور تدریسی و تعلیمی اشغال کے علاوہ کھیلوں اور نوجوانوں کے دیگرامور بھی اس تنظیم نے اپنے ذمہ لے رکھے ہیں۔”ڈونیڈن“نامی شہر میں ”مسجد الہدی“اس پورے جغرافیائی خطے کا سب سے بڑا مرکز اسلام ہے۔رمضان اور عیدین کے مواقع پرتمام مسلمان مل کر اپنی دینی تقریبات منعقد کرتے ہیں اور تب یہ تعداد بعض اوقات دس ہزار سے بھی متجاوز ہوتی ہے۔

  [email protected]

Posted in تازہ ترین, مضامین
58043

سوات یونیورسٹی کانوکیشن – تحریر : زار ولی زاہد

سوات یونیورسٹی کانوکیشن – تحریر : زار ولی زاہد

chitraltimes swat university

نو قائم شدہ سوات یونیورسٹی کے دوسرے کانووکیشن کی رنگا رنگ تقریب گزشتہ روز منعقد ہوئی جس کے مہمان خصوصی وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان تھے۔ مقامی منتخب عوامی نمائندوں کے علاوہ معززین علاقہ، ڈویژنل اور ضلعی انتظامیہ کے اعلیٰ حکام ، فیکلٹی ممبران، والدین، طلبہ اور میڈیا کے نمائندوں کی ایک کثیر تعداد نے کانووکیشن میں شرکت کی۔ کانووکیشن میں مختلف شعبوں میں بی ایس، ایم ایس، ایم اے ، ایم ایس سی، ایم فل اور پی ایچ ڈی کے کل 220 طلبہ میں ڈگریاں جبکہ 105 طلبہ میں گولڈ میڈلز تقسیم کئے گئے۔ فیکلٹی آف لائف سائنسز کے 77 طلبہ میںسے 27، فیکلٹی آف فیزیکل اینڈ نیو میریکل سائنسز کے 35 میں سے 17، فیکلٹی آف منیجمنٹ اینڈ سوشل سائنسز کے 49 میں سے 25، فیکلٹی آف ریلیجیس اینڈ لیگل سائنسز کے 17 میں سے 5، فیکلٹی آف کیمیکل سائنسز کے 18 میں سے 10جبکہ اینول سسٹم کے 24 میں سے 24 طلبہ نے گولڈ میڈیلز حاصل کئے۔

chitraltimes swat university convocation cm chief guest5

کانووکیشن سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ محمود خان نے نوزائیدہ یونیورسٹی کے دوسرے کانووکیشن کے کامیاب انعقاد پر یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور پوری انتظامیہ کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ موجودہ انتظامیہ کی قیادت میں یونیورسٹی نے کم عرصے میں بہت زیادہ کامیابیاں حاصل کی ہیں اور امید ہے کہ ادارے کی کامیابیوں کا یہ سفر مزید بہتر انداز میں جاری رہے گا اور بہت جلد یہ نوزائیدہ یونیورسٹی نہ صرف صوبائی بلکہ قومی سطح پر بھی اپنا ایک منفرد مقام بنائے گی جس کے لئے یونیورسٹی انتظامیہ اور فیکلٹی ممبران کو مزید لگن کے ساتھ کام کرنا ہوگا۔ انہوں نے یقین دلایا کہ صوبائی حکومت یونیورسٹی کو اعلیٰ معیار کا ایک تعلیمی ادارہ بنانے میں ہر ممکن مدد فراہم کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ سوات یونیورسٹی کو اپنے پاو¿ں پر کھڑا کرنا ان کی دلی خواہش تھی جو بہت حد تک پوری ہو چکی ہے، یونیورسٹی کے تعمیراتی کام کا پہلا مرحلہ مکمل ہوچکا ہے اوراس وقت طلبہ کی کافی تعدادکرائے کی عمارت کی بجائے یونیورسٹی کی اپنی عمارت میں تعلیم حاصل کرنے کے قابل بن گئی ہے۔

chitraltimes swat university convocation cm chief guest4

یونیورسٹی کے تعمیراتی کام کے دوسرے مرحلے پر بھی بہت جلد کام کا آغاز کیا جائیگا۔ اعلیٰ تعلیم کے شعبے کی ترقی کو اپنی حکومت کی ترجیحات کااہم حصہ قرار دیتے ہوئے محمود خان نے کہا کہ صوبائی حکومت ضم اضلاع سمیت تمام اضلاع میں اعلیٰ تعلیمی اداروں کا قیام عمل میں لارہی ہے جبکہ پہلے سے موجود تعلیمی اداروں کو مستحکم بنانے کے لئے بھی بھر پور اقدامات اٹھا ئے جارہے ہیں۔ وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ ان کے دور حکومت سے پہلے سوات میں صرف ایک یونیورسٹی کا قیام عمل میں لایاگیا تھا جبکہ اس وقت مزید چار یونیورسٹیوں کے قیام پر پیشرفت جاری ہے جن میں صوبے کی پہلی ویٹرنری یونیورسٹی ، ویمن یونیورسٹی، زرعی یونیورسٹی، انجنیئرنگ یونیورسٹی کیمپسز شامل ہیں۔ ان اعلیٰ تعلیمی اداروں کے قیام سے پورا ملاکنڈ ڈویژن تعلیمی سرگرمیوں کا مرکز بن جائے گا اور کوشش ہوگی کہ اسی دور حکومت میں ان یونیورسٹیوں کا قیام عمل میں لایا جاسکے۔

chitraltimes swat university convocation cm chief guest7


فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ اور ان کے والدین کو مبارکباد دیتے ہوئے محمود خان نے کہا کہ آج کا دن فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ کی زندگی میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ آج ان کا تعلیمی سفر کامیابی سے مکمل ہوگیا اور وہ عملی زندگی میں قدم رکھنے جارہے ہیں جو پہلے سے زیادہ لگن اور محنت کا تقاضا کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ سے نہ صرف ان کے والدین بلکہ پوری قوم کی امیدیں وابستہ ہیں اور ان امیدوں پر پورا اترنے کے لئے انہیں عملی زندگی میں کچھ غیر معمولی کردکھانا ہوگا۔ انہوں نے طلبہ پر زور دیا کہ وہ اس سوچ کو لیکر عملی میدان میں قدم رکھیں کہ وہ اس ملک اور معاشرے کو کیا دے سکتے ہیں اور ملکی تعمیر و ترقی میں کیا کردار ادا کرسکتے ہیں۔

chitraltimes swat university convocation cm chief guest3


وزیراعلیٰ نے یونیورسٹی انتظامیہ اور اساتذہ پر زور دیا کہ وہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے مو¿ثر استعمال کے ذریعے یونیورسٹی کی استعداد اور معیار کو بڑھانے، جدید سائنسی تحقیق کو فروغ دینے اور یونیورسٹی کے شعبہ جات کا مقامی صنعتوں کے ساتھ ربط قائم کرنے پر خصوصی توجہ دیں۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ سوات یونیورسٹی کی انتظامیہ اور اساتذہ دانشوروں اور محققین کی تیاری کے ساتھ ساتھ اعلیٰ اخلاقی اقدار کی حامل افرادی قوت کی تیار ی میں بھی بھر پورکردار ادا کریں گے۔ قبل ازیں کانووکیشن سے خطاب کرتے ہوئے یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر حسن شیر نے یونیورسٹی کی نصابی و غیر نصابی سرگرمیوں، کامیابیوں، مستقبل کے لائحہ عمل اور درپیش چیلنجز پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے سوات یونیورسٹی کو اپنے پاو¿ں پر کھڑا کرنے اور اس کی تعمیر و ترقی میں ذاتی دلچسپی لینے پر وزیراعلیٰ کاشکریہ ادا کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ وہ یونیورسٹی کی سرپرستی کا سلسلہ آئندہ بھی جاری رکھیں گے۔

chitraltimes swat university convocation cm chief guest2


سال 2010 میں کرائے کی عمارت میں قائم کی جانے والی سوات یونیورسٹی آج کافی حد تک اپنی عمارت میں منتقل ہو چکی ہے۔ گزشتہ دور حکومت میں سوات یونیورسٹی کے لئے زمین کی خریداری کے باوجود تعمیراتی کام بعض تکنیکی وجوہات کی بناءپر تاخیر کا شکار تھا تاہم موجودہ دور حکومت میں وزیراعلیٰ محمود خان کی ذاتی دلچسپی کی بدولت یونیورسٹی کے تعمیراتی کام کا پہلا مرحلہ مکمل کیا جاچکا ہے۔ سوات کے خوبصورت علاقہ چار باغ میں 1114کنال رقبے پر محیط اس یونیورسٹی کے تعمیراتی کام کے پہلے مرحلے میں مین گیٹ اور باو¿نڈری وال، ایڈمنسٹریشن بلاک، ایگزامنیشن بلاک ، مین لائبریری، گرلز ہاسٹل، کیفٹیریا ، اسٹوڈنٹس سروسز سنٹر، انفارمیشن سنٹر، پلے گراونڈ، مسجد ، ڈائریکٹوریٹ آف ورکس، پبلک ہیلتھ انجنیئرنگ ورکس، چھ رہائشی گھروں، ایک عدد رہائشی فلیٹ کے علاوہ رابط اور اندرونی سڑکوں کی تعمیر کا کام مکمل کیا گیا ہے جبکہ باقی تعمیراتی منصوبوں پر کام زور و شور سے جاری ہے۔

chitraltimes swat university convocation cm chief guest

صوبائی حکومت نے سوات یونیورسٹی کے انفراسٹرکچر کی تعمیر کے لئے 1.8 ارب روپے کے خطیر فنڈز فراہم کئے ہےں۔ سوات یونیورسٹی اس وقت چھ مختلف فیکلٹیز کے تحت 23 مختلف شعبوں میں طلبہ کو اعلیٰ تعلیم کی سہولت فراہم کر رہی ہے ان فیکلٹیزمیں فیکلٹی آف کیمیکل سائنسز، فیکلٹی آف لینگویج اینڈ لٹریچر، فیکلٹی آف لائف سائنسز، فیکلٹی آف منیجمنٹ اینڈ سوشل سائنسز، فیکلٹی آف فیزیکل اینڈ نیو میڈیکل سائنسز اور فیکلٹی آف ریلیجئس اینڈ لیگل اسٹیڈیز شامل ہیں۔ اس وقت سوات یونیورسٹی کے تین کیمپسز میں مجموعی طور پر 7,665طلبہ زیر تعلیم ہیں جن میں سے مین کیمپس میں 6,500 ، شانگلہ کیمپس میں ,550 جبکہ ویمن کیمپس میں 615 طلبہ شامل ہیں۔ اب تک یونیورسٹی سے 6,859 طلبہ مختلف شعبوں میں بی ایس ، ماسٹر، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کر چکے ہیں جبکہ یونیورسٹی سے الحاق شدہ کالجوں کی تعداد 24ہےں جہاں پر ساڑھے آٹھ ہزار سے زائد طلبہ زیر تعلیم ہیں۔

chitraltimes swat university convocation cm chief guest1
chitraltimes swat university 6
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
58046

داد بیداد ۔ نیا تعلیمی سال ۔ ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی

خیبر پختونخوا کی حکومت نے اعلا ن کیا ہے کہ نیا تعلیمی سال یکم اگست 2022سے شروع ہوگا اور 30اپریل 2023ء کو اس کا اختتام م ہوگا اب تک ہمارا تعلیم سال یکم اپریل سے شروع ہوتا تھا اگلے سال 31مارچ کو اس کا اختتام ہوتا تھا ہمارے تعلیمی سال 234میں حا ضریاں ہوا کر تی تھیں ان میں سے 75فیصد حا ضری لا زم قرار دی گئی تھی نئے تعلیمی سال کی ضرورت اس لئے پڑی کہ کورونا وبا کی وجہ سے تعلیمی ادارے کئی مہینوں تک بند رہے، تعلیمی سال متا ثر ہوا چنا نچہ یکم اگست سے 30اپریل تک 108حا ضریاں کم ہو جا ئینگی کم از کم حا ضریوں کی شرح میں اس تنا سب سے کمی آئیگی.

صو با ئی وزرائے تعلیم کی آن لا ئن کا نفرنس میں نصاب کو مختصر کرنے کا فیصلہ ہوا ہے چنا نچہ نئے تعلیمی سال کا نصاب بھی مختصر ہو گا امتحا نات بھی مختصر نصا ب سے لئے جا ئینگے یہ اسا تذہ اور طلبہ کے لئے ایک ازما ئش ہے دونوں کو نئے تعلیمی سال میں نئے نصاب کے مطا بق اپنے اسبا ق کا منصو بہ عمل بنا کر اس پر عمل پیرا ہونا پڑے گا اگر کورونا ختم نہ ہوا تو بعید نہیں کہ اگلے سال بھی یہی طریقہ رائج رہے گا.

اس مر حلے پر محکمہ تعلیم اور تعلیمی اداروں کے سر براہوں کے سامنے ایک چیلنج آتا ہے چیلنج یہ ہے کہ اب تک ہمارے ہاں نصاب کی جگہ نصا بی کتا بوں سے پڑھنے پڑ ھا نے کادستور رہا ہے ہمارے تعلیمی اداروں میں نصاب کو سامنے رکھ کر تدریسی عمل میں نصاب سے کا م لینے کا دستور نہیں ہے اگر چہ او لیول، اے لیول یا آغا خا ن یو نیورسٹی ایجو کیشن بورڈ سے ملحقہ اداروں میں نصاب کے مطا بق تدریسی عمل آگے بڑھتا ہے تا ہم ان اداروں کا دائرہ بہت محدود ہے شا ید 5فیصد سے بھی کم ہو گا 95فیصد سے زیا دہ پر نصابی کتابوں کا را ج قائم ہے اگر حکومت نے نصاب میں 30فیصد کٹو تی کا حکم دیا تو نصا بی کتا بوں سے کٹو تی کرنے کی کوئی تُک نہیں بنتی.

نصاب سے رجو ع کرنا ہو گا ہر تعلیمی ادارے کے سر براہ کو نصاب اپنے سامنے رکھ کر سر کاری ہدایات کی روشنی میں 70فیصد یا اس سے کچھ کم یا زیا دہ پڑھا نا ہو گا اگر نصاب کو سامنے نہیں رکھا گیا تو کمی یا بیشی کا حساب نصا بی کتا بوں میں نہیں ہو سکیگا نصاب ایک شا ہراہ ہے جس پر سفر کرتے ہوئے استاد کتابوں سے مدد لیتا ہے نصاب میں اس بات کا اشارہ ملتا ہے کہ اردو زبان کے قوا عد اور گرامر کس جما عت میں پڑھا ئے جا ئینگے؟ اردو ادب کس جما عت سے شروع ہو گا؟ ادب میں حمد، نعت، قومی نظمیں کس جما عت میں پڑ ھا ئی جا ئینگی، غزل، مثنوی مراثی اور دیگر نظمیں یا نثر میں نا ول، افسانہ، تنقید کس جما عت میں پڑھا ئے جائینگے؟

ہر مضمون کے لئے نصاب میں ہر جماعت کا ایک اشارہ دیا جا تا ہے اس اشارے کی مدد سے نصا بی کتا بیں تیار کی جا تی ہیں اب نصابی کتا بوں کو چھوڑ کر براہ راست نصاب سے مدد لینا تعلیمی اداروں کے سر براہوں کے لئے ایک چیلنج، آزما ئش یا امتحا ن ہے آنے والے 5مہینوں میں نصاب پر کام کر کے نصاب کی روشنی میں طلبہ کے لئے نمو نہ اسباق تیار کرنے پر دل جمعی کے ساتھ کا م کرنے کی ضرورت ہو گی ایسا نہ کیا گیا تو تعلیمی سال کا ضیا ع ہو گا۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
58041

کشمیریوں کاقتل عام، ایک عالمی انسانی مسئلہ-ڈاکٹر ساجد خاکوانی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

کشمیریوں کاقتل عام،ایک عالمی انسانی مسئلہ

 (5فروری یوم یکجہتی کشمیرکے موقع پر خصوصی تحریر(

ڈاکٹر ساجد خاکوانی

                کیاانسان نے ترقی کر لی ہے؟؟؟ ہر نومولودکے ذہن میں پیداہونے والا بنیادی یہ بنیادی سوال ہے۔انسان اورحیوان میں بہت سے فرق ہیں،ان میں سے ایک بنیادی فرق یہ بھی ہے کہ انسان ارتقاء پزیر ہیں جب کہ جانور صدیوں پرانی بودوباش کے حامل ہیں اور ان میں ارتقاء ناپید ہے۔انسان کاہر گزرتاہوالمحہ گزشتہ سے متغیرہے۔صدیوں پہلے کے انسان سے آج کے انسان کافرق توبہت بڑافرق ہے جب کہ چنددن یا چندہفتے یاچندمہینوں پہلے کے انسان میں اور آج کے انسان میں تغیرکو واضع طورپر محسوس کیاجاسکتاہے۔یہ تغیرہی فیصلہ کرے گاکہ انسان نے ترقی کی ہے یاابھی بھی تنزلی اور شکست و ریخت کاشکارہے۔ماضی میں انسان مفتوحہ علاقوں پر قبضہ کرنے کے بعد قتل وغارت گری،لوٹ ماراور من مرضی کے فیصلے مسلط کرتاتھا،آج کاسیکولرازم بھی ماضی کی یادتازہ کررہاہے بلکہ غیرمہذب دورسے سے بھی قبل کے انسان سے زیادہ ماردھارقتل وغارت گری اور تباہی و بربادی دیکھنے کو مل رہی ہے۔فرق اتناہے کہ ماضی میں فرد واحدیاخاندان یا کسی فوج کاکماندار اپنے حکم سے یہ فیصلے نافذکرتاتھااور اب حکومتی ایوانوں میں انسانوں پر بم برساکرانہیں کرہ ارض سے نیست و نابود کرنے کے فیصلے کر لیے جاتے ہیں اور اقوام متحدہ سے ان فیصلوں کی تصدیق بھی کروالی جاتی ہے۔ماضی میں مفتوح اقوام کے افرادکو لونڈی غلام بنالیاجاتاتھااور انسانی منڈیوں میں ان انسانوں کی خریدوفروخت کی جاتی تھی جب کہ آج کاسکیولرازم بھی مفتوح اقوام کوبحیثیت قوم کے اپنا غلام بنالیتاہے اور افرادکی بجائے اقوام کو غلامی کی اندھی غارمیں دھکیل دیاجاتاہے۔سیکولرازم اپنی انسان دشمنی میں ماضی کے غیرمہذب انسان سے بھی چندہاتھ آگے نکل چکاہے کہ عالمی مالیاتی اداروں میں قوموں اور ملکوں کی بولیاں لگتی ہیں اور ان مفتوح ممالک کے اثاثے اونے پونے داموں خریدکر انہیں کسی قابل استعمال شکل میں لاکر انہیں قوموں کو ”بڑھتے چڑھتے سود“کے عوض اس طرح فروخت کردیاجاتاہے ان کاہر پیداہونے والا بچہ اپنی گردن میں سودی غلامی،تہذیبی غلامی،تعلیمی غلامی،دفاعی غلامی،ثقافتی غلامی اور ان سب پر مستزاد ذہنی غلامی کے طوق اپنی گردن میں ڈالے اس دنیامیں وارد ہوتاہے۔

                بھارت کاسیکولرازم تو دنیابھر کے ظلم و ستم سے بھی کہیں آگے نکل کر جنگل کی یادتازہ کررہاہے۔جنگل میں بھی شاید کوئی قانون پیش نظررکھاجاتاہوکہ ایک ہی نسل کے جانور کم ازکم اپنی نوع کو تودرندگی و سفاکیت سے محفوظ رکھتے ہیں،بھارت میں تو کل ریاست کے اندر عام طورپراور کشمیرمیں خاص طورپر برہمن راج نے کل عوام پر ظلم و جور،زورزبردستی اور ننگ انسانیت مظالم کے وہ باب رقم کیے ہیں جنگلی درندوں کو بھی اس پر شرم آئے۔مسلمان اور دیگرمذاہب کے پیروکار جہاں براہ راست برہمن کی چیرہ دستیوں کاشکارہیں وہاں ان کے ہم مذہب چھوٹی ذاتوں کے ہندوبھی ان کے نسلی تعصب کابدترین شکارہیں۔کل ریاست میں برہمن راج نے ایک اندھیرنگری مچارکھی ہے،جس نوجوان کو چاہے گھروں سے اٹھاکر غائب کردیاجاتاہے،انہیں سالہاسال تک عقوبت خانوں زیرحراست رکھ کر بدترین حیوانی تشددکیاجاتاہے،ایساتشددکہ جس سے اونٹ اور ہاتھی بھی بلک اٹھیں۔ان نوجوانوں کے لواحقین قبرکی دہلیزتک اپنے پیاروں کاانتظارکرتے کرتے ہمیشہ کی نیندسوجاتے ہیں لیکن ریاست کاکوئی ادارہ ان کی دادرسی کرنے کو تیارنہیں ہوتا۔بہت خوش قسمت نوجوان ہوتے ہیں جن کے کٹے پھٹے اور ستم رسیدہ لاشے ان کے ورثاکو مل جاتے ہیں اور انہیں یک گونہ تسکین میسرآجاتی ہے اور کم از کم گومگوکی کیفیت سے ان کی جاں خلاصی ہو جاتی ہے۔ماضی کی دل دہلالینے والے مظالم کی کہانیوں سے کم از کم صنف نازک تومحفوظ تھی لیکن بھارتی سیکولرازم نے تو اہل پردہ کو بھی اپنی سنگینوں کی نوک پر لارکھاہے اور کشمیرمیں خاص طورپرخواتین پر بھی بے پناہ تشددکرکے انہیں ہلاک کردیاجاتاہے یا سربازارانہیں ربڑکی گومیوں کانشانہ بناکرتاحیات معذوری کی زندگی گزارنے پرمجبورکردیاجاتاہے۔کشمیرسے تو کچھ بچی کھچی خبریں عالمی ذرائع ابلاغ تک پہنچ ہی جاتی ہیں لیکن بھارت کے دوردرازعلاقوں میں ہونے والی ریاستی دہشت گردی کی تو کوئی اطلاع بھی باہر نہیں نکل پاتی،تب وہاں برہمن ذہنیت نے ظلم کے کیاکیاپہاڑ توڑے ہوں گے،سوچ کرہی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔

                اگست 1947سے تادم تحریر کشمیریوں کی تیسری نسل ہے جو برہمن کی چکی میں پستی چلی آرہی ہے۔کشمیریوں کی تحریک آزادی کوکچلنے کے لیے طاقت کاہراندازاپناچکے،اندھی قوت جھونکنے کے تمام تجربات ہوچکے،جھوٹ فریب اور دغابازی کی ساری کاروائیاں بھی کھیلی جاچکیں لیکن سلام ہے ان مجاہدین آزادی کشمیر کو جنہوں نے آزادی کی قیمت پر کسی لالچ میں نہیں آئے۔کم و بیش تمام عالمی اداروں تک کشمیریوں کی صدائے آزادی پہنچی یاپہنچائی گئی لیکن بھارت کے ہم مسلک عالمی ادارے بھی چونکہ سیکولرازم کے پیروکار ہیں اس لیے ان اداروں کی قیادت اور دیگرعالمی امن کے ٹھیکیداروں کواسلامی دنیامیں فرضی ہتھیاروں کی بنیادپر متوقع انسانی حقوق کی پامالیاں تواس قدرکھٹکتی ہیں کہ انسانیت کادردان کی فوجوں کو عراق،شام،بوسینیا،شیشان،افغانستان اورمشرقی تیمور پرتوچڑھالے گیا۔لیکن کشمیرمیں انسانی خون کی ندیاں بھارت کے خلاف ان کی زبان سے ایک بیان تک دلانے میں ناکام رہیں۔حقیقت یہ ہے کہ دنیاکی سیکولرقیادت قوم شعیب کے لوگ ہیں،جن کے اپنے لیے پیمانے اور دوسروں کے لیے پیمانوں میں بعدالشرقین ہے۔ان کے ملکوں میں ایک جانوربھی کہیں جان کی بازی ہارتاہوامحسوس ہوتوساری ریاستی قوت اس کو بچانے میں مصروف عمل ہوجاتی ہے،لیکن ان کے زیرتسلط دنیامیں کسی انسانی بستیوں کی چینخ و پکارآسمان تک پہنچ کر عرش کے پائے توہلاسکتی ہے لیکن ان کے کانوں تک اس کی رسائی ناممکنات عالم میں سے ہے۔یہ اندھے،بہرے اورگونگے لوگ ہیں،ان کی آنکھوں پر سیکولرازم نے پردے ڈال رکھے ہیں اور ان کے دلوں پر مہرلگ چکی ہے یہ کبھی پلٹنے والے نہیں ہیں۔کشمیری اقوام اللہ تعالی کے اس حکم کی مسلسل فرمانبرداری میں لگے ہیں کہ کفرکے ان اماموں کو قتل کردو۔

                کشمیری قیادت اورکشمیری عوام نے ہر موقع پر بھارت سے برملا برات کاظہارکیاہے۔بھارتی یوم جمہوریہ ہویا بھارتی یوم آزادی ہویاکوئی اور بھارتی حکومت کے خاص ایام میں سے کوئی دن ہو،کشمیریوں نے وہ دن سڑکوں پر گزاراہے اور مردوں کے شانہ بشانہ عورتوں اور بچوں نے بھی بھارتی افواج کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کران کامقابلہ کیاہے اور ظالم حکمران کے سامنے کلمہ آزادی کانعرہ تکبیربلندکیاہے۔بھارت سے کشمیریوں کی نفرت کایہ عالم ہے کہ بھارتی آئین کے تحت ہونے والے انتخابات والے دن کشمیری آبادیوں میں ویرانیاں رپورٹ ہوتی ہیں اوربھارتی حکومتی دسترس سے بچ کر وہاں پہنچ سکنے والا خوش قسمت کیمرہ ان گلیوں اور سڑکوں کو دکھارہاہوتاہے کہ ایک فیصدکشمیری بھی گھروں سے باہر نکل کر اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے سے گریزاں ہوتے ہیں۔کشمیرسے گرفتارکیے گئے نوجوانوں کو کشمیرکی بجائے دوسرے علاقوں کے قیدخانوں میں صرف اس لیے رکھاجاتاہے ان کے رشتہ داروں کو ذہنی و جسمانی اذیت پہنچائی جاسکے کہ انہیں مقدمات کی پیروائی اور ملاقاتوں کے لیے لمبے لمبے سفرکرنے پڑیں۔حتی کہ آسمان نے وہ دن بھی دیکھے کہ ظالم برہمن کے انسان دشمن سیکولرازم نے جیل میں کشمیریوں کو تختہ دارپر لٹکاکر ان کی شکل تک رشتہ داروں کو دیکھنے نہ دی۔کشمیریوں کے اندربھارت کے خلاف نفرین کاایک آتش فشاں ہے جو پکے چلے جارہاہے اورنوجوان نسل نے سوشل میڈیاپر سیکولرطاغوت کے خلاف ایک بھرپورجنگ کااعلان کررکھاہے،چنانچہ حکومت جن مظالم پرپردہ ڈالنے کے لیے عالمی خبررساں اداروں کوجہاں تک رسائی نہیں دیتی،کشمیرکے نوجوان وہاں کی ریاستی دہشت گردی کو چشم زدن میں پوری دنیاتک پہنچادیتے ہیں اور اب تک کئی عالمی اداروں میں بھارتی نمائندوں کو ان اطلاعات پر صرف شرمندگی و ندامت کے سواکچھ حاصل نہیں ہوپایا۔

                ”پاکستان کامطلب کیالاالہ الااللہ محمدالرسول اللہ“سے شروع ہونی والی تحریک پاکستان آج ”پاکستان سے رشتہ کیا لاالہ الاللہ“کی گونج میں کشمیرکی وادیوں کے اندر سرگرم ہے۔کشمیر کی آزادی کایہ قافلہ سخت جاں منزل بہ منزل اور کہیں آبشاروں کی شکل میں شورمچاتاہواتوکہیں گھاس کے اندر انتہائی غیرمحسوس اندازمیں خاموشی سے چلتاہوابڑی تیزی سے اپنی منزل کی طرف گامزن ہے۔قیام پاکستان سے شہداحق کے جس قافلے نے رخت سفرباندھاتھاکشمیرکی وادیوں میں تکمیل پاکستان کی منزل تک اس قافلے کی تجدید دن بدن جاری ہے اورسرخ خون سے امت کی آبیاری مکہ و طائف سے ہوتی ہوئی،بدروحنین اور کربلاکے صدیوں بعدتک آج بھی تائیدایزدی کے تیقن کے ساتھ حیات جاودانی کی طرف روبہ منزل ہے۔شہدائے کشمیرآج بھی صدابلب ہیں کہ کیاپاکستان کامقصدحصول تکمیل پزیرہوا؟؟؟کیاعلامہ اقبال کا خواب شرمندہ تعبیرہوا؟؟؟اورکیاقائداعظم ؒکے منشاء ومرضی کے مطابق کتاب اللہ کواس خدادامملک اسلامیہ میں قانون وآئین کادرجہ حاصل ہے؟؟؟ان سوالوں کاجواب نوشتہ دیوارہے جوچاہے پڑھ لے۔پاکستانی قوم آج بھی ایک اچھی،دیانتداراورجرات مند قیادت کی منتظر ہے جوکشمیرکے الحاق پاکستان کی ضامن ہواورظلم کواپنے آہنی ایٹمی ہاتھوں سے روک دینے کاجذبہ و جرات رکھتی ہو۔پھرصرف کشمیرہی کیا برما،شیشان اور افریقہ سمیت کل امت مسلمہ کی نجات دہندہ ”اسلام آباد“سے ابھرنے والی قیادت ہوگی جو کل انسانیت کو سیکولرازم کے مکروفریب سے نجات دلائے گی،انشااللہ تعالی۔

[email protected]

Posted in تازہ ترین, مضامین
58039

کشمیر کی آزادی، بھارت کی ہٹ دھرمی – کریم علی غذری

آزادی ایک لازوال نعمت ہے۔ جب اللہ رب الکرہم اپنے بندے پر خاص نعمتوں کا کرم کرتا ہے تو آزادی جیسی علیشان نعمت سے اس کو نوازتا ہے۔
اگر کسی قوم کو آزادی ورثے میں میسر آتی ہے وہ اس کی قدرومنزلت کو کبھی نہیں جانچ سکتا۔ اقوام عالم میں دنیا کے نقشے پر اس وقت ایسے مملک بھی شامل ہیں جو حصول آزادی کے لیے دن رات جدوجہد کررہے ہیں، یا ان پر کسی دوسرے ملک کا قانون مسلط ہے یہ ممالک مذہبی، نسلی، سماجی اور ثقافتی حقوق کے لیے علیٰحدگی کی تحریکیں چلا رہے ہیں۔


ان ممالک میں اکثریتی جماعت اور اقلیتی جماعت کے درمیان تنازعے اور فسادات یا اپنے حقوق کے حصول کی جنگ رہتی ہیں۔
جب حکومت اپنے رعایا کو بنیادی حقوق اور سہولیات مہیا کرنے میں ناکام ہوجائے، جب کوئی بھی ملک یا خطہ دہشتگردوں کی گرفت میں آجائے اور وہ اپنا قانون ان پر زبردستی مسلط کریں، جب کسی مخصوص خطے یا علاقے کی خصوصی حیثیت کو تبدیل یا منسوخ کی جائے، جب کسی بھی قوم کو اپنی عقیدے یا نظریے کے مطابق زندگی گزارنے سے روکا جائے تو خانہ جنگی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔


ان ممالک میں ازربائیجان، چین کے کچھ مخصوص حصے، جورجیا، انڈونیشیا، فلسطین، پاکستان وغیرہ شامل ہیں۔
اگر اپ سوچ رہے ہیں کہ پاکستان کس طرح ان ممالک میں شامل ہے کیونکہ ہم وطن عزیز میں آزاد فضا میں سانس لے رہے ہیں یہ بات درست ہے کہ ہم جغرافیائی طور پر دنیا کے نقشے پر ایک ازاد ریاست میں زندگی بسر کر رہے ہیں، لیکن پاکستان کے اندر کچھ ایسے خطے علاقے اب بھی موجود ہیں جو سات دہائیوں سے آزادی کے خواب آنکھوں میں جمائے ھوئے ہیں۔ جو 74 سال سے اپنی حقوق اور شناخت کی جنگ لڑرہے ہیں۔
جن کی سیاحت، قدرتی خوبصورتی، انکم جنریٹ کرنے میں کوئی ثانی نہیں لیکن ملک کے وسائل اور دیگر معاملات میں ان کو ہمیشہ نظراندز کیا جارہا ہیں۔ جس کی وجہ سے ملک بھر میں اندرونی تحریکیں جنم لیتی ہیں اور ملک انتشار کی دیلیز پر پہنچ جاتا ہے۔ جس طرح بلوچستان کے گوشے گوشے سے علیحدہ بلوچستان کے صدائے بلند ہوتی ہیں جو اصل میں احساسِ محرومی اور بنیادی حقوق اور فقدان کی وجہ سے ہیں۔ اور بی-ایل-پی
بی-ایل-اے جیسی تنظیمں جنم لیتی ہیں جو نوجوان نسل کو ملک مخالف سرگرمیوں میں الجھا لیتی ہیں جس سے لسانی، سماجی، اور جغرافیائی تفرقات پروان چھڑتے ہیں۔


وطن عزیز سے منسلک ایک ایسا خطہ جو دنیا میں قدرتی حسن وجمال کی دولت سے مالامال ہے، سات دہائیوں سے آزادی اور حقِ خودارادیت کے لیے جدوجہد کر رہی ہے یہ خطہ جس طرح بیرونی دنیا کے لیے جنت کی مانند ہے مگر وہاں کے باشندوں کے لیے کسی ایسا کچھ نہیں یہ خطہ وادی کشمیر ہے۔
یہاں پر جس طرح ندیاں اور چشمے بہتے ہیں اسی طرح بے گناہ اور معصوم کشمیریوں کا لہو بھی بہایا جاتا ہے۔
ہولی ہو یا عید، دیوالی ہو یا کرسمس یہ سب تہواریں ان پر قہر بن کر پڑتے ہیں۔ نام نہاد اور دنیا میں سب سے بڑی جمہوریت کے دعویدار بھارتی حکومت 74 سال سے ان پر جبر اور ستم کے پہاڑ ڈھائے ہوئے ہیں۔ سرچ اپریشن، چاردیواری کی تقدس کی پامالی، اور جعلی انکونٹر سرینگر، پلوامہ، کلگام میں معمول کا کھیل بن گیا ہے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ ان سب کے باوجود انصاف کے تخت و تاج پر براجمان منصفین اور اقوام عالم کے بڑے علمبردار ادارے خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔


21 اپریل 1948 کو یونائٹیڈ نیشن نے ایک قراداد پاس کیا جو کشمیر میں تنازعے کی چنگاری کو کم کرنے کی غرض سے جاری ہوا تھا۔ جس میں پاکستان اور بھارت کے دلائل سننے کے بعد ایک کمشن تشکیل دی گئی اور قراداد 39 کے ممبران کے دائرہ کار کو وسیع کیا گیا اور برصغیر میں جاکر پاکستان بھارت کے تنازیات کو ختم کیا جانا تھا۔ اس کمیشن نے مسلے کے حل کی خاطر تین تجاویز زیر غور لایا؛
1۔ پاکستان ان تمام متحرک تنظیموں کو کشمیر سے بیدخل کرے جو جنگ کے ماحول کو پروان چڑھاتے ہیں۔
2- بھارت اپنی موجودہ فوج کی تعداد کو اس حد تک کم کریں کہ کشمیر میں امن اور قانون کی بالادستی کو برقرار رکھا جاسکے۔
3- یو-این کا مقررہ ایڈمنسٹریشن کمیٹی سلف ڈٹرمینشن کے لیے ایک صاف اور غیر جانبدار نظام کا انتظام کرسکے۔
دونوں ممالک نے برصغیر کی آزادی کی طرح اپنے تحفظات اور اعتراضات واضح کردیے کیونکہ ان سب پیش کش میں کہیں نا کہیں خسارہ بھی موجود تھا۔
لیکن یو-این کی ثالثی پیشکش کو سراہا گیا اسی طرح 1949 میں سیز فائر معاہدہ طے پایا گیا۔ اس کے بعد دو اور قراداد جاری ہوئے لیکن کوئی خاطرخواہ نتائج برامد نہ ہوسکا۔


یو- این آخرکار اس نتیجے پر پہنچا کہ کشمیریوں کی قسمت کا فیصلہ خود وہاں کے باشندے کریں گے جسے سلف ڈٹرمینشن کہا جاتا ہے لیکن بھارت کی ہٹ دھرمی اس میں برقرار رہی۔ 25 لاکھ کی آبادی پر 9 لاکھ کی بڑی تعداد میں فوج کو مسلط کرنا اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ بھارت ہر صورت کشمیریوں کے منہ سے نکلنے والی آزادی کی آواز کو دبانا چاہتا ہے۔ لیکن 74 سال کی طویل جبروبربریت کے باوجود وہ جذبہ خودارادیت کی آواز کو نہ دباسکا بلکہ یہ تحریک آئے روز مضبوط اور توانا ہوتی جارہی ہے۔


جب بھارت کے یہ سارے ہتھکنڈے بیسود ثابت ہوئے تو انڈین آئین سے ارٹیکل 35A اور 70 کو ختم کیا جو کشمیر کو خصوصی حیثیت اور نوآبادیاتی نظام کو روکنے کے لیے تھا۔ جس کی منسوخی کی وجہ سے کشمیر کی خصوصی حیثیت مجروح ہوئی ہے اور آبادیاتی تبدیلی کی نئی لہر کشمیر کو اپنی لپیٹ میں لے رکھی ہے۔


آزادی کا یہ ناتھمنے والا ولولہ انگیز سفر پورے زور سے جاری ہے۔ ظالم چاہے جتنا بھی طاقتور ہو وہ حق کی آواز کو کبھی نہیں دباسکتی۔ انشااللہ کشمیر میں آزادی کا سورج جلد طلوع ہوگا۔ اور جموں وکشمیر سمیت گلگت بلتستان کے محروم باشندوں کو بنیادی انسانی اور سیاسی حقوق کا حصول ممکن ہوسکے گا۔

Posted in تازہ ترین, مضامین
58035

تبصرہ کتاب”قیدی نمبر100“-(بحوالہ 5فروری یوم یکجہتی کشمیر) – ڈاکٹر ساجد خاکوانی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

تبصرہ کتاب”قیدی نمبر100“

مصنفہ:انجم زمرد حبیب(مقبوضہ کشمیر(

(بحوالہ 5فروری یوم یکجہتی کشمیر(

بھارتی عقوبت خانوں میں سسکتی انسانیت کی دلسوز داستانیں  اور

عظیم اقداراسلامی کی حامل نسوانیت

ڈاکٹر ساجد خاکوانی(اسلام آباد،پاکستان(

                قیدوبند کی صعوبتیں دراصل راہ وفا کے لازمی سنگ ہائے میل ہیں۔سونے کو جب تک بھٹی میں سینکانہ جائے اس کا کھوٹ اس سے جدا نہیں ہو پاتا۔اخلاص کا سکہ اس کرہ ارض پر سب سے زیادہ چلت کاحامل سکہ ہے،اور یہ سکہ آزمائشوں کے بعد اپنی قیمت ومالیت میں اضافہ کرتا چلا جاتاہے۔پس قیدوبنداور قربانیوں کی داستانوں سے خلوص کی منزل کاحصول انسانی تاریخ کا خاصہ ہے۔وقت کی عدالت میں کرسی اختیارپرموجودسامراج نے کبھی بھی کوئی تاریخ ساز کردار ادانہیں کیا،اس اہم تر کرسی کی بجائے عدالت کے کٹہرے میں کھڑے آہنی زیورسے آراستہ عظمت کے میناروں نے انسانیت کے بھٹکے ہوئے قافلوں کو درست راستوں کی طرف صحیح راہنمائی کی ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ قانون کی گرفت نے ہی ہمیشہ قانون کے ساتھ سنگین مذاق کیاہے،یہ گرفت جن پر مضبوط ہونی چاہیے تھی انہیں کادست اقتداراس گرفت پر مضبوط رہااور قانون کے شکنجے قانون شکنوں کے لیے ریشم و مخمل کی طرح نرم و گدازاورحاملین عظمت انسانیت کے لیے یہ آہنی شکنجے سخت سے سخت تر ہوتے رہے۔یہ سب حقائق دراصل تفسیر ہیں کلام الہی کی اس آیت کی ”ان الانسان لفی خسرO“زمانے کی قسم انسان نقصان میں ہے۔

                تاریخ کا مسافر مشرق سے مغرب تک چلے یا آدم تا ایں دم،کہیں کسی عدالت پر نمرود بیٹھاہے توکٹہرے میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کھڑے ہیں،کہیں کرسی اقتدارپرفرعون براجمان ہیں تو فرد جرم حضرت موسی علیہ السلام پر لگائی جا رہی ہے اورتاریخ کا مسافرکبھی نہیں بھولے گاکہ جب شباب یوسف علیہ السلام نذردیوارزنداں ہوگیا۔اور پھرسورج نے ان ایام کا بھی تو مشاہدہ کیا جب عالمی جہالت نے شعب ابی طالب میں آفاقی نورانیت کوپابندسلاسل کیاہواتھا۔اوریزیدجیسے کے لیے تخت اقتدارتھاجبکہ فرزنداہل بیت کے لیے تختہ دار۔کیاقصور تھا ان سورج چاندستاروں کا؟؟؟اورکیااستحقاق تھاان طاغوتی طاقتوں کاجنہوں نے عظمت وبزرگی اورطہارت و نفاست کے ان آفاقی سلسلوں کواپنی آلودگیوں وگندگیوں سے گہناناچاہاتھا۔تاریخ کادھاراپھربھی اپنی رفتارسے چلتارہتاہے اورپہاڑجیسے کردارتواس کا رخ موڑ سکتے ہیں اورموڑ دیتے ہیں،اگرچہ ان کی گردنوں پر چھریاں چلائی جائیں یاوہ آگ کے گڑہوں میں ہی ڈال دیے جائیں تاہم خش و خاشاک کے طوفان ہوں یا سمندر کی جھاگ جیسے پوپلے وکھوکھلے لوگ،بڑے بڑے سابقوں ولاحقوں اورالقابات و خطابات اورجبوں قبوں ودستاروں وخلعتوں کے باوجود تاریخ کے گندے نالے میں سے ہوتے ہوئے اس گڑھے میں جاگرتے ہیں جوزمانے بھرکے فضلوں سے عنوان ہوتاہے۔

                ”قیدی نمبر100“تاریخ کی کوئی نئی کتاب نہیں ہے اورنہ ہی کسی نئی روایت کی تاسیس ہے،ہاں البتہ انجم زمرد حبیب قافلہ سخت جاں میں ایک حسین اضافہ ضرور ہیں۔خاتون ہوتے ہوئے بھی پہاڑ جیسی استقامت اور عزم و ہمت میں قرون اولی کی زندہ مثال اگرکسی نے دیکھنی ہوتواس کتاب کے مندرجات میں بآسانی مشاہدہ کی جاسکتی ہے۔بظاہر سادہ سی کتاب اپنے اندرپس دیوارزنداں کی خونچگاں داستاں لیے ہوئے  ایک طوفان بلاخیز رکھتی ہے،ایک ایک جملہ آتش فشاں سے کم نہیں خاص طور واقعات کے بعدجونقدوتبصرے کیے گئے ہیں وہ بہت قابل غور ہیں۔کہیں کہیں تو محسوس ہوتاہے کہ صرف ظالم کی تلوار ہی خون آلود نہیں ہے بلکہ مصنفہ بھی اپنا قلم روشنائی کی بجائے خون میں ڈبوکے تاریخ کے اوراق میں خون آلود تحریر رقم کرتی چلی جارہی ہے،بس فرق صرف اتنا ہے کہ ظالم کی تلوار کسی دوسرے کی رگ جاں سے رنگین ہوئی ہے جب کہ مصنفہ،انجم زمرد حبیب،نے اپنے ہی لہو سے کشمیر کی داستان کورنگین کیاہے۔رات کتنی ہی طویل ہو،نورسحرکاآنا بحرحال ایک یقینی امر ہے۔

                کتاب کے مندرجات سے صاف طورپر محسوس کیاجاسکتاہے کہ تیسری نسل پر ننگ انسانیت جبرمسلسل کی بھارتی مساعی کے باوجود یاسیت نام کو نہیں ہے۔اللہ تعالی کی رسی کوپکڑنے والے مایوسیت کو گناہ کبیرہ گردانتے ہیں۔یہ کیسے ممکن ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام،حضرت یوسف علیہ السلام،حضرت موسی اور حضرت عیسی علیھم السلام اور ختمی مرتبت ﷺکے ماننے والے ناامیدی کاشکارہوجائیں۔اللہ اکبرکی صداؤں کے ساتھ بدروحنین کی وادیوں کو زندہ کرنے والے رسم شبیری کے وارث کل انسانیت کے لیے امید کی کرن نہیں بلکہ یوم امید کا طلوع ہوتاہوا سورج ہیں۔بھارتی افواج اوردیگر بدنام زمانہ بھارتی سامراجی اداروں نے جو کچھ بھی ظلم کے پہاڑ توڑنے تھے اس زیرنظرکتاب کے مطابق وہ اپنی انتہاکی آخری حدتک توڑ لیے گئے ہیں لیکن کشمیری مجاہدین کا لاالہ الاللہ کے ناطے پاکستان سے جڑنے والا رشتہ یک موئے کے برابربھی سست نہیں پڑ سکا۔بلکہ کتاب کے آخری صفحات سے یہ بات مترشح ہے کہ ہر گزرتاہوا لمحہ اور بھارتی زیادتیوں میں ہونے والا ہر اضافہ کشمیریوں کی پاکستان اور پاکستانیوں کے قریب تر لانے میں بہت اہم کردار اداکرتاچلا جارہاہے۔”قیدی نمبر100“کی مصنفہ تیسری نسل کی نمائندہ ادیبہ ہیں اور اگرچہ تحریک آزادی کشمیر اپنے آغازسے پاکستان کے ساتھ جذباتی وابستگی رکھتی ہے لیکن نسل در نسل اس لگاؤ میں اضافہ اس کتاب سے چھلک چھلک کر امڈتاچلا آرہاہے۔

                اس کتاب کاقاری عمومی طورپر سیکولرازم کی حقیقت سے اور خصوصی طور پر بھارت کے سیکولرازم سے آشنائی حاصل کرسکتاہے۔بھارت نے سیکولرازم کی حقیقت کو دنیاکے سامنے طشت ازبام کیاہے۔اہل مغرب کی بعض خوبی نماجھوٹی صفات نے سیکولرازم کے کذب و نفاق کی پردو پوشی کی تھی لیکن آفرین معکوس ہے برہمن راج کو جس نے اس مکروہ نظریے کی حقیقت سے پردہ فاش کردیاہے۔انسانی حقوق،آزادی نسواں،بااختیارعدلیہ،غیرجانبدارانتظامیہ،بے لاگ قانون سازی اور سب سے بڑافریب عالمی ”جمہوری تماشا“،سیکولرازم کے ان نعروں کی قلعی بھارت کی حکومت نے خوب خوب کھول دی ہے۔آج کے ہندوستان میں مشرق تا مغرب ایک بے چیبی کی لہرہے جسے دنیاکے دوسرے کونوں تک میں محسوس کیاجارہاہے اور سب سے زیادہ مشق ستم کشمیریوں پرجاری ہے کہ ان کا گناہ دوآتشہ ہے،فرزندان توحیدہونا اور اسلامی ریاست پاکستان سے عقیدت و محبت اور الحاق کی خواہش وتمناویقین کامل۔

                ”قیدی نمبر100“انجم زمرد حبیب،ماضی سے حال اور حال سے مستقبل کاایک مسلسل سفرہے۔احدکے میدانوں سے تجدیدسفرکرنے والاتاریخ کایہ نسوانی کردار ماضی کی طرح آج کے فراعین مصرکی دھرتی پر بھی زندہ ہے،اس کردارکوانسانیت کے سیکولرٹھیکیدار امریکہ کے عقوبت خانوں میں بھی دیکھاجاسکتاہے،گزشتہ صدی کے نصف آخرسے فلسطین کی سرزمین سرخ پر بھی اس کردارنے اپنی عزم و ہمت کی کتنی ہی داستانیں رقم کرچھوڑیں ہیں اورسلام ہواس پیکرعفت وحریم پرکہ شہداکوجنم دینے والے اس کردارنے امت کی کوکھ کوکبھی بنجرنہیں ہونے دیا۔جنت کی حواسے زمانے کی ہواتک اورتاقیامت،جب تک قافلہ حجازمیں فاطمہ بنت عبداللہ کاکردارزندہ ہے،یہ امت زندہ پائندہ رہے گی،انشاء اللہ تعالی۔اور سلام ہے دخترکشمیرانجم حبیب زمردکو کہ جنہوں نے اس کتاب کی بابت دنیاکویہ باورکرایاکہ نسوانیت کے پیمانے سیکولزازم کے بازارمیں بکنے والے لبرل ازم کے شاخصانے نہیں ہیں اور نہ ہی نسائیت کی پیمائش کو پردہ سکرین پرجنبش کرتے ہوئے مجموعہ ہائے عکس سے ناپاجاسکتاہے بلکہ اصل میں تو انسانی جذبات کی بہترین عکاس عورت کے جذبات ہیں جنہیں زیرنظرکتاب میں ایک خاتون کے مقدس قلم سے کس خوبصورتی وذہانت سے سپرد قرطاس کیاگیاہے۔کتنافرق ہے سیکولرازم اوراسلام کے نسوانی کردارمیں۔

                وہ قومیں بہت خوش قسمت ہیں جن کی ماؤں کی گودمیں پرورش پانے والی نسل ان کی اپنی میراث کی حامل ہو۔اور بہت بدقسمت ہے وہ قوم جو اپنے تعلیمی اداروں میں غلامی کے شعائراور بدیسی زبان کی تعلیم پر فخور ہو۔مقبوضہ وادی کی ماں نے اپنے بطن میں شہداکی نسل کو پرورش کیاہے اور اپنے دودھ میں انہیں جہاد کی لوریاں پلائی ہیں،پس جس قوم کے نوجوان اک ہاتھ میں الکتاب اور دوسرے ہاتھ میں تلوار تھامے ہوں اسے دنیاکی کوئی قوت نابود نہیں کرسکتی۔بلکہ تاریخ نے کتنے ہی ایسی اقوام کامشاہدہ کیااور آسمان گواہ ہے ایسے لوگوں سے ٹکرانے والی بڑی بڑی قوتیں پاش پاش ہو کر ماضی کا عبرت انگیز باب بن گئیں۔اورتاریخ نے کتنی ہی ایسی کئی اقوام کو کتابوں میں دفن کررکھاہے جنہوں نے اہل حق سے ٹکرانے کی ناکام کوشش کی۔کشمیرکامستقبل بلآخر لاالہ الااللہ محمدالرسول اللہ سے ہی وابسطہ ہے اور یہی پاکستان کا مطلب ہے،پاکستان اور کشمیر لازم و ملزوم ہیں کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور شہ رگ ہی رگ حیات ہوتی ہے۔پاکستان کشمیر کے بغیر نامکمل ہے اور کشمیر پاکستان کے بغیرنامکمل ہے۔اللہ تعالی نے چاہاتو”قیدی نمر100“بھارتی قیدخانوں کاآخری قیدی ہوگا اور پھر نوید صبح ہے،انشااللہ تعالی۔

[email protected]

Posted in تازہ ترین, مضامین
58037

دا دبیداد ۔ ممتاز سیا سی کار کن ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

دا دبیداد ۔ ممتاز سیا سی کار کن ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

انتخا بات بلدیا تی ہو ں یا قو می اور صو با ئی اسمبلی کے الیکشن کا مر حلہ آجا ئے یا سینیٹ کے الیکشن کا مو سم آئے ممتاز سیا سی کا رکنوں کا بار بار ذکر ہوتا ہے اس ذکر میں خد مات کو سامنے لا یا جا تا ہے نظر یا تی کا رکن کا نعرہ لگا یا جا تا ہے اور یہ نعرہ بہت چلتا ہے بڑے بڑے شہر کے پریس کلب میں ممتاز سیا سی کا رکن کا ذکر آیا تو کئی اہم باتیں سامنے آگئیں سب سے بڑی بات یہ تھی کہ ہمارے ہاں شعور کی کمی ہے اس لئے تھو ک کے حساب سے سیا سی کا رکن پایے جا تے ہیں تر قی یا فتہ ملکوں میں ایسا نہیں ہوتا ترقی کے ساتھ شعور بھی آجا تا ہے اور با شعور لوگ سیا سی کار کن نہیں بنتے، وہ کا میا ب تا جر، کامیاب زمیندار، کامیاب کسان، کامیاب وکیل، کامیاب ڈاکٹر، کا میاب عالم اور کا میاب لیڈر بن جا تے ہیں آپ امریکہ، جا پا ن، روس، چین اور فرانس یا بر طا نیہ کے لو گوں سے ملیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ سیا ست پر گفتگو کرنا پسند نہیں کر تے کون صدر یا وزیر اعظم ہے؟ کون قائد حزب اختلا ف ہے؟ کس نے کیا بیان دیا ہے؟ کس کا کونسا سکینڈل اخبارات میں آیا ہے؟

ان سوالات سے وہ آگا ہ نہیں ہو تے ایسے سوالات مین وہ دلچسپی ہی نہیں لیتے ہر شخص اپنے کا م سے کا م رکھتا ہے اور اپنے کا م کے دائرے میں سو چتا ہے اُس کے لئے کا م سب سے اہم ہے ووٹ کے دن چپکے سے جا کر ووٹ دے دیتا ہے یہ دن چار یا پا نچ سال بعد آتا ہے تر قی یا فتہ قو موں میں جلسوں اور جلو سوں کا میلہ نہیں لگتا، زندہ باد اور مر دہ باد کے مقا بلے نہیں ہوتے، ہمار ا شیر، ہمار افخر کا کوئی نعرہ سننے کو نہیں ملتا کیونکہ ان کے پاس ایسے معا ملا ت کے لئے وقت نہیں ہوتا اس لئے وہاں ممتاز سیا سی کار کن خال خال نظر آتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں ایک اینٹ اُٹھا ئیں تو چار،چار ممتاز سیا سی کار کن بر آمد ہوتے ہیں اور یہی ہماراسب سے بڑ االمیہ ہے پریس کلب کی گپ شپ آگے بڑھی تو سینئر صحا فی نے اپنے تجربات کی پوٹلی کھول کر ممتاز سما جی کا رکنوں کی سائنسی بنیاد پر درجہ بندی کی انہوں نے تمہید کے طور پر ایک اصو لی بات کہی کہ ہمارے ہاں سر کاری دفاتر میں قاعدہ اور قا نون کے تحت کوئی کا م نہیں ہوتا اس لئے ہر دفتر میں عام آد می کا مسئلہ سا لوں تک لٹکا رہتا ہے .

جو سیا سی کار کن اپنے اثر رسوخ سے کا م لیکر لو گوں کے کا م نکا لتا ہے مسا ئل حل کر تا ہے وہ ممتاز سیا سی کار کن کہلا تا ہے اور یہاں سے سیا سی کار کن کا سفر شروع ہو تا ہے اس کا پہلا در جہ عوامی مسا ئل کے حل میں مدد دینے کا در جہ ہے دوسرا در جہ یہ ہے کہ گلی، محلے میں خوشی یا غم پیش آئے سیا سی کار کن آگے بڑھ کر ہر گھر انے اور کنبے کی مدد کرتا ہے اس میں زلزلہ، بارش، طوفان اور دیگر قدرتی آفات کی صورت میں سما جی خدمت، خو شی کی مبارک باد، بیما ر کی تیمار داری اور غم کے لمحات میں فاتحہ، دلا سہ وغیرہ کو شامل کیا جاتا ہے جو سیا سی کار کن ان سر گر میوں میں پیش پیش ہو تا ہے لو گ اس کو نہیں بھو لتے، تیسرا در جہ وہ ہو تا ہے جب سیا سی کار کن ایک لیڈر کا انتخا ب کرتا ہے، اس کی خو شا مد میں وقت، جا ن اور ما ل لگا تا ہے ہر جگہ لیڈر کے ساتھ ہو تا ہے تصویر کھینچوا کر اخبارات اور سوشل میڈیا کو دیتا ہے اور لیڈر سے وفا دار کا خطاب پا تا ہے، یو رپ، امریکہ اور مشرق بعید کے تر قی یا فتہ ملکوں میں لو گوں کے مسا ئل قاعدہ اور قا نون کے تحت خود بخود حل ہوتے ہیں وہاں غم اور خو شی پر مدد کی ضرورت نہیں پڑ تی لیڈروں کو خو شامدی کی ضرورت نہیں ہو تی اس لئے وہاں ممتاز سیا سی کار کن نہیں پا ئیے جا تے۔

Posted in تازہ ترین, مضامین
57995

چترال ۔ تورکھو۔ تاجکستان روڈ – عنایت جلیل قاضی

چترال ۔ تورکھو۔ تاجکستان روڈ – عنایت جلیل قاضی


چترال 14850 مربع کلو میٹر تک پھیلا ہوا ، رقبے کے لحاظ سے خیبر پختونخواہ کا پچھلے سال تک سب سے بڑا ضلع تھا جو اب دو اضلاع میں بٹ چکا ہے ۔ تین ممالک کی سرحدوں کو چھونے کی وجہ دفاعی اور اقتصادی لحاظ سے یہ علاقہ غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے ۔ آبی ذخائر ، جنگلی حیات اور قیمتی معدنیات قدم قدم پر بکھری پڑی ہیں ۔ دلکش نظاروں ، منفرد ثقافت اور مثالی امن کی وجہ سے یہاں سیاحت کے مواقع بے شمار ہیں لیکن رسائی نہ ہونے کی وجہ سے آنکھوں سے اوجھل ہیں ۔ منصوبہ بندی کے فقدان کی وجہ سے یہ عطیاتِ خداوندی ضائع ہو رہی ہیں اور ہم کفران نعمت کے مرتکب ہوتے جارہے ہیں ۔کاش کہ ہم ان پوشیدہ ذخائر سے فائدہ  ا ٹھاسکتےگذشتہ کئی مہینوں سے چترال میں” روڈ ہمارا حق” کی صدائے بازگشت سنائی دے رہی ہے لیکن مفاد پرست سیاسی عناصر اور ٹال مٹول کرنے والی بیوروکریسی ، حیلے بہانے اور کاہل پن سے، اس آواز کو صدا بہ صحرا بنانے کی ناکام کوشش کر رہی ہے لیکن یہ آواز اب دبنے والی نہیں ہے۔ اسی پس منظر میں، یہ کالم ،مستقبل میں کسی منصوبہ سازی میں مددگار ہوسکتا ہے اس لیے اس کالم میں، ہم مقامی تاریخ اور جدید ساینس سے چند ثبوت پیش کرنے کی کوشش کریں گے تا کہ ہم اپنا دعویٰ دلیلوں سے ثابت کرسکیں۔واشچ تورکہو کا ایک تاریخی گاوں ہے ۔

دریائے تورکہو کے بائیں جانب واقع یہ گاوں ندی ،نالوں ،خوبصورت چشموں ، خوش ذائقہ پھلوں ، معطر پھولوں ،جنگلی حیات اور شکار گاہوں کی وجہ سے پورے چترال میں مشہور ہے۔ واشچ کی بالائی چراگاہ “ویزمچ ” مشہور شکارگاہ  زیوارگول کے اندر بے حد حسین میدانی علاقہ ہے ۔اس وادی کے اندر ایک گرم چشمہ (آب شفاٰ )،گنگناتی ندیاں ، پھوٹتے  اُبلتے چشمے ، برف سے ڈھکےسفید پوش پہاڑ ، ہرن ہرنیاں ، برفانی چیتے ، تیتر، چکور اور موسمی فاختے قدرت کی فیاضی کی نشانیاں ہیں ۔جولائی کے مہینے جب جنگلی نرگس کھِلتی ہے ، تو پوری وادی معطر ہوجاتی ہے ۔شاید ان خوبصورت مناظر کی وجہ سے پریوں کی شہزادیوں میں سے ایک، یہاں ر ہتی ہے جس کا محل ویزمچ جاتے ہوئے، بول بوہتو ٹیک کے بالکل سامنے، پہاڑ کے ٹاپ پر، سرخی مائل غار کی صورت میں نظر آتا ہے ۔ اس وادی کے آخری حصے میں گلیشئیر سے دریائے تورکہو کے بننے کا منظر دیکھنے سے تعلق رکھتا ہےاور قدرتی مناظر کی شیدائیوں کے لئے انتہائی پرکشش مقام ہے ۔کہتے ہیں کہ زمانہ قدیم میں ایک بڑھیا، گاوں کے  مال مویشیوں کے ساتھ موسم گرما میں یہاں رہا کرتی تھی ۔ مال مویشیوں کی دیکھ بال ، ان کے دودھ سے بنی چیزیں ، گوشت اورکھال، مالکوں تک پہنچانے کے ساتھ ساتھ، واخان ۔تاجکستان سے آنے والے حملہ اوروں کے بارے میں اطلاع دینا بھی ان کی زمہ دای تھی۔ ان زمہ داریوں کو نبھانے کے لئے ان کے پاس ایک کتا “گرائے” اور گدھا ” شخائے ہوا کرتے تھے ۔ گدھا، جس جگہ گر کر مرا ہے اس جگہے کا نام “شخائے بوغدو ” یعنی( شخائے کی جائے مرگ) اب بھی موجود ہے ۔ گرائے کا کام چوکیداری ، اطلاع  رسانی اور شخائے کا کام بار برداری تھا ۔ ایک دن بڑھیا اپنی جھونپڑی میں کسی کام میں مصروف تھی کہ اچانک شور شرابہ ہوا۔

بڑھیانے دیکھاکہ تاجک اور واخی حملہ اور، ان کی جھونپڑی تک پہنچ چکے ہیں ۔ بڑھیا، بڑی ہوشیاری سے ان کی خاطر مدارت کرکے تھکے ہوئے حملہ اوروں کو سلاکر،گراے کومخصوص نشان کے ساتھ اطلاع دینے کے لئے گاوں کی طرف  دوڑادیتی ہے، پھر دودھ سے کٹھی بنا کر ان کی بندوقوں کی نالیوں اور تلواروں کےنیاموں میں ڈالکر سب کو منجمد کرکے ناکارہ بنا دیتی ہے ۔ گاوں والے اطلاع پاتے ہی ویز مچ غاری کی طرف چل پڑتے ہیں ۔صبح سویرے،بول بوہتو ٹیک پہنچ کر پوزیشن سنبھال لیتے ہیں ، تھوڑی دیر بعد بیرونی حملہ اور بھی اس مقام پرپہنچ جاتے ہیں۔ تاک میں بیٹھے، گاوں والے، ان پر اچانک حملہ کردیتے ہیں۔ چونکہ بڑھیا، تمام ہتھیار پہلے ہی منجمد کر چکی تھی ، سوائے دو آدمیوں کے تمام حملہ اور مارے جاتے ہیں۔ زندہ بچ جانے والوں میں ایک کی ناک اور دوسرے کا کان کاٹ کر واپس بھیج دیا جاتا ہے، تاکہ یہ لوگ نشان عبرت بن کر اپنے علاقوں میں واپس جائیں اور دوبارہ یہاں آنے کی غلطی نہ کریں ۔ مرنےوالوں کی بیسیوں قبریں آج بھی بول بوہتو ٹیک میں، اس معرکے کی یاد دلانے کے لئے موجود ہیں۔ ( یہ مقام تحقیق کرنے والوں کے لئے ایک دلچسپ سائٹ ہو سکتا ہے)واشچ میں کچھ مخصوص مقامات کو “باغیریا بار لکھینی “کہا جاتا ہے ۔  لوک روایات کے مطابق قدیم زمانے میں واخی اور تاجک جب حملہ کرتے تھے تواس علاقے کے لوگ اپنے سازو سامان کے ساتھ، ان مقامات پر پناہ لیتے تھے۔ میرے گاوں کے ساتھ ہی پنجیان ٹیک میں یہ گھاٹی موجود ہے ۔ تاریخ سے ایک اور ثبوت یہاں کے پولو گراونڈز اور ان سے جُڑی کہانیاں ہیں ۔

برت خان اور مرت خان اس علاقے کے مکین  تھے ۔ مرت کا شوتار اور برت  کے گھوڑے کی قبر ، اب بھی ان کے ناموں موسوم،تاریخی ثبوت ہیں ۔مرت اور برت پولو کے مشہور کھلاڑی تھے ۔ دونوں پولو کھیلنے موڑکہو کے علاقے مژگول یا واخان جایا کرتے تھے یا اُن جگہوں سے کھلاڑی زیوار گول آیا کرتے تھے ۔ایک اور ثبوت واخان سرحد سے  متصل ایک قدیم گاوں “گرام ” کے نام سے ہے ۔ اس علاقے میں “خاش بدخشان ” سے آئے ہوئے لوگ آباد تھے ۔ بعد میں شدید برفباری کی وجہ سے ان میں سے اکثر ہلاک ہوگئے  اور زندہ بچ جانے والے،دوسرے علاقوں کی طرف ہجرت کر گئے ۔ یہ لوگ پورے چترال میں مختلف مقامات کے علاوہ سوات کالام میں بھی آباد ہیں ۔واشچ اور سوروھت کے ما بین شاہ گرام کے سامنے ایک وسیع میدان تاژیان لشت یعنی تاجک لوگوں کا پڑاو کہلاتا ہے ۔ یاد رہے وادی ِ چترال میں تاجک اور فارسی نژاد افغانیوں کو تاژی اور پشتو بولنے والوں کو اڑغانی کہا جاتا ہے ۔ یہ واخی اور تاجک لوگ تاجر ، مہاجر یا حملہ آورکی صورت میں زیوار گول واشچ ،موغولنگ ریچ اورروش گول تیرچ سے ہوکر آیاکرتے تھے اور اِس مقام پر پڑاو ڈالتے تھے ۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ا س مقام پر اُن کے ساتھ کوئی  بڑی جنگ ہوئی ہو اور اسی مناسبت سے اس مقام کا نام تاژیان لشت پڑگیا ہو۔ایک اور اہم ثبوت اِس علاقے میں موجود قدیم مقاماتِ اطلاع رسانی ہیں جن کو مقامی زبان میں “پھوم براش” کہا جاتا ہے ۔ قدیم زمانے میں جب واخان اور تاجکستان سے حملہ اور آتے تھے تو مقامی لوگ ان اونچے  مقامات پر آگ لگایاکرتےتھے ۔

اسی طرح ایک گھنٹے کے اندر اندر دشمن کی نقل حمل کی خبر مرکز میں مہتر چترال تک پہنچ جاتی تھی۔ واشچ کے بالکل سامنے پھوم براش موجود ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ تاجک اور واخی جنگجو یہاں آتے رہے ہیں ۔ یہ لوگ گھوڑوں اور خچروں پر سواری کرکے آتے جاتے ہوں گے ۔گھوڑے اور خچر اُ ڑ نہیں سکتے ،تنگ راستوں پر چل نہیں سکتے، لہٰذا یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ کوئی اچھا خاصہ راستہ موجود تھا، جس کو اب  ڈھونڈ کر چترال – تاجکستان روڈ بنایا جاسکتا ہے ۔3 اکتوبر 1987 کو دو روسی ساختہ ہیلی کاپٹر زیوار گول کے اندر “مرتو شوتار” میں اتر گئے۔ 4 اکتوبر کو، عملے کے 6 ارکان گرفتار ہونے کے بعداس علاقے کے ایکگھر میں ایک رات کے لئے مہمان ٹھہرے ۔ عملے کی گرفتاری تک سارا دن روسی جہاز آتے جاتے رہے اور ان کے زیوار گول سے تاجکستان کا سفر زیادہ سے زیادہ  پانج سے سات منٹ کا ہوتا تھا ۔ رات کو اچانک عملے کے ایک رکن نےمزبان سے چترال- واخان کے درمیان کسی درّے کا زکر کیا  لیکن میزبان لاعلم تھا ۔ شایدروسی اس علاقے میں کسی درے کے بارے میں جانتے تھے ۔ان تاریخی شواہد کے بعد اب ہم کچھ سائینسی بنیادوں پر اس منصوبے کے قابل عمل ہونے کے حوالے سے بحث کریں گے ۔

چند منٹ کے لئے گوگل ارتھ کھولیئے اور زیوار گول تک کرسر لے جائیے اور یہاں سے واخان تک گوگل کریں ۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ واشچ سے واخان تک کا کل فاصلہ کوئی 53 کلو میٹر کے لگ بھگ بنتا ہے اور خاص چترال سے واخان تک  فاصلہ 230  کلو میٹر ہے ۔ واشچ سے واخان تک 53 کلومیٹر میں سے 26 کلو میٹر دشوار گزار اور 27 کلو میٹر میدانی علاقہ ہے  دشوار گزار علاقے میں 18 کلو میٹر سڑک اور 9 کلو میٹر ٹنل بنایا جاسکتا ہے  ۔ دو جگہوں پر برفانی تودوں کا خطرہ ہے جن کو ٹنل بنا کر دور کیا جا سکتا ہے ۔اِسی طرح بڑی اسانی سے واشچ کو واخان کے گاوں یامت، خاندود یا پگش سے ملایا جا سکتا ہے ۔ہماری طرف علاقہ میدانی ہے خاص کر چترال سے واشچ تک پکی سڑک کی منظوری ہوچکی ہے ۔ اور اس پہ کام جاری ہے ۔ یہاں سے براستہ ڈوکشار ، ویزمچ ، گرام سے ہوتے ہوئے زیوار زوم تک پہنچا جا سکتا ہے جس کے پیچھے ایک قدیم گزرگاہ،جس کا نام ” ووخیکان پون ” یعنی واخی لوگوں کا راستہ موجود ہے ۔ آپ گوگل پہ یہ راستہ دیکھ سکتے ہیں ۔

تورکہو سے واخان تک دوسرا راستہ اوشنو گول سے ہے  ۔ یہ راستہ بھی آگے چل کر زیوار گول سے جا ملتا ہے ۔ تیسرا راستہ شاہ جنالی ، موغولونگ علاقہ ریچ تورکہو سے ہے ۔ یہ راستہ قدیم ُالآیام سے استعمال ہوتا رہا ہے ۔ ایک راستہ یارخون بروغل سے واخان تک جاتا ہے ۔ لیکن اس کا فاصلہ بہت زیادہ ہے اور شدید برفباری کی وجہ سال میں چھ مہینے بند رہتا ہے ۔ لونکوہ گول اور روش گول تیرچ اور بدخشان کے درمیان بھی ایک درّہ موجود ہے۔ روش گول تیرچ سے بھی تاجک اور واخی لوگوں کی آنے جانے کی کہانیاں زبان زد عام ہیں۔ان تمام تقابلی جائزوں سے زیوار گول_ واخان روڈ زیادہ اہم ، مختصر اور آل سیزن راستہ معلوم ہوتا ہے ۔ بونی ۔ تورکھو۔تاجکستان روڈ سے اپر اور لوور چترال، دونوں کو  فایدہ ہو گا چترال۔تورکہوتا۔جکستان روڈ سے اپر چترال کے قدرتی وسائل تک رسائی ممکن ہوگی۔بالائی چترال کی کئی حسین وادیاں اب تک بیرونی دنیا کی نظرون سے اوجھل ہیں ۔ یہ روڈ بننے کی صورت میں ان علاقوں میں سیاحت کو فروغ ملےگا ۔ جس سے علاقے میں خوشحالی آئےگی ۔  اس روڈ کے بننے کی  صورت میں علاقے کے آبی ذخائر سے فائدہ اُٹھایا جا سکتا ہے اور توانائی کے سستے زرائع آسانی سے دستیاب ہوں گے ۔ اس روڈ کے بننے سے چترال بالا میں موجود معدنی ذخائر تک رسائی ہوگی ۔ اور پورے ملک کو فائدہ ہوگا ۔

Posted in تازہ ترین, مضامین
57986

کشمیرہم شرمندہ ہیں – قادر خان یوسف زئی کے قلم سے

مقبوضہ کشمیر کا مسئلہ ایسا نہیں کہ جو کچھ ہوتا چلا آرہا ہے، اسے عوام فراموش کردے گی۔ بھارت تو چاہتا ہے کہ جونا گڑھ اور حیدرآبادد کن کی طرح ہتھیا لے اورمقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کرنے کے بعد اس عرصہ میں حیلہ تراشیاں اور بہانہ سازیاں اسی مقصد کے حصول کے لئے تھیں۔ اقوام متحدہ میں پیش کردہ قرار داد، استصواب رائے، سلامتی کونسل، باہمی مذاکرات سے معاملہ کا تصفیہ، تقسیم کرنے کی تجویز وغیرہ وغیرہ، سب خواب آور دوائیاں ہیں جو وہ یکے بعد دیگر ے دنیا کو کھلاتا چلا گیا لیکن اس کے یہ عزائم ایسے گہرے اور دبیز پردوں میں چھپے پڑے ہوئے نہیں تھے جو دیکھنے والوں کو نظر نہ آسکتے، وہ جو کچھ کرتا رہا  اسے اندھے بھی دیکھ سکتے اور بہرے بھی سن سکتے تھے۔ اس لئے کہ ارباب حل و عقد ظاہرانہ فریب کاری میں آگئے اور بادی ئ النظر معلوم نہ ہوسکا کے اصل ارادے کیا رہے۔


مقبو ضہ جموں و کشمیر میں جو کچھ ہوا اور اس باب میں مودی سرکار کے عزائم کیا تھے اور وہ کس طرح فریب کاری اور چالاکیوں سے اپنی تقویت کا سامان بہم پہنچاتا چلا جارہا ہے، اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ وہ اس کے اس بہروپ کو نہیں جانتا تھا تو اس قسم کی سطحی نگاہ رکھنے والے کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ زمام ِ اقتدار اپنے ہاتھ میں لے کر ملک کو اپنی معصوم حماقت اور طفلانہ سادہ لوحی کی بھینٹ چڑھا دے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایسے عقدوں کی کشودکے لئے جس قسم کی مومنانہ فراست اور قلندرانہ جرأت درکار ہوتی ہے، اس کا ہمارے ہاں فقدان تھا لیکن اس کے کھلے کھلے اعتراف کی بجائے ذمہ دارن میں سے ہر ایک کی کوشش یہ رہی کہ کسی نہ کسی طرح بات ٹلتی رہے تاکہ یہ قضیہ اُس کے وقت میں نہ اٹھے، کسی اور کے زمانہ میں ابھرے،، نتیجہ اس کا یہ کہ ہم آج اس مقام پر لاکر کھڑے کردیئے گئے ہیں، جہاں ’جائے ماندن نہ پائے رفتن‘ کا روح فرسا منظر نکھر کر سامنے آگیا ہے۔
مسئلہ کشمیر کی اہمیت ایسا موضوع نہیں جس پر تفصیل سے کچھ لکھنے ضرورت ہو۔ علاوہ اس کے کہ کشمیر پاکستان کے لئے رگ ِ جان کی حیثیت رکھتا ہے، اس خطہ زمین کی85فیصد آبادی (مسلمانوں) کو حق خود اختیاری سے بنوک ِ شمشیر محروم رکھا، دنیا  ئ اخلاق و تہذیب کا اتنا بڑا جرم ہے کہ عالمی ضمیر کو بیدار کرنے کے لئے خون کا آخری قطرہ تک بہا دینا چاہے،مودی سرکار کو یہ زعم کہ پاکستان کے مقابلے میں بھارت کے پاس سامان ِ حرب و ضرب، اسباب رسل ور سائل، وسائل پیداوار، ذرائع معیشت، آلات ِ صنعت و حرفت، رقبہ، دولت سب کچھ زیادہ ہے،یہاں تک تو درست لیکن بھارت سمیت دنیا کو باور کرانا ہوگا کہ یہاں تک تو ظاہراََ ٹھیک ہے لیکن اخلاقی طور پر پاکستان کا موقف اتنا قوی ہے کہ بھارت کی ساری مادی قوتیں اس کا مقابلہ نہیں کرسکتیں۔ در حقیقت ہم نے بھی، ابھی تک اس کا کماحقہ احساس نہیں کیا کہ کسی معاملہ میں اخلاقی طور پر حق بجانب ہونے میں کتنی بڑی قوتیں پوشیدہ ہوتی ہیں لیکن بدقسمتی سے ہم اور ارباب اختیار خود میں اخلاقی قوت کی بیداری اور نمود کے لئے بھی کچھ نہ کرسکے، حالاں کہ یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں کہہمارے عوام میں اس قسم کی صلاحیتیں (انتہا پسند) ہندوؤں کے مقابلے میں کہیں زیادہ اور بہتر ہیں، لیکن اصل امر یہ ہے کہ ہمارے ہاں پارٹی بازی ایسی شدت اختیار کرگئی کہ ہمارے ارباب حل و عقد کا سارا وقت جوڑ توڑ کی نذر ہوجاتا ہے اور مثبت کاموں کے لئے انہیں فرصت ہی نہیں ملتی۔


ہمیں اس امر کا بلا تامل اعتراف کرلینا چاہے کہ اس وقت ہم اپنے صحیح خارجی تعلقات استوار کرنے میں بری طرح ناکام ہیں، سب سے پہلے تو دیکھئے کہ ہمارے دائیں بائیں اس قدر وسیع و عریض مسلم اکثریتی ممالک پر محیط خطہ تو دوسری جانب غور کیجئے کہ تمام مسلم اکثریتی ممالک میں کتنے ایسے ہیں جن کی درستداری پر ہم بھروسہ کرسکتے ہیں، برطانیہ، امریکہ اور یورپی ممالک سمیت بیشتر مسلم اکثریتی ممالک کو بھی دیکھ لیجئے کہ کیا وہ بھارت کے مقابلہ میں دل سے ہمارے طرف دار ہیں یا روس ہو یا امریکہ کی طرح بھارت کے چرنوں میں سب بیٹھے نظر آتے ہیں،  ہم نے امریکہ سے فوجی امداد کا فیصلہ جب کیا تو اس فیصلے کو درست سمجھا گیا لیکن امریکہ نے صرف اپنے فروعی مفادات کے لئے پاکستان کو استعمال کیا، جب کبھی مملکت کے خلاف، افغان و بھارتی شر انگیزیاں اور مقبوضہ کشمیر کا تصادم کا معاملہ ہوا تو اس نے ہمارا ساتھ نہیں دیا۔ خواہ ہم کتنے ہی حق بجانب کیوں نہ ہوں۔ روس کی رفاقت کو اشتراکت کے اثرات سے محفوظ رہنے سے مشروط کرکے ایک ایسے مخصوص بلاک کا ایک ایسا حصہ بن گئے، جو آج آنکھیں موندے منہ پھیرا ہوا ہے۔ چین اور روس کے ساتھ آبرو مندانہ سیاسی اتحاد پہلے بھی وقت کی ضرورت تھا اور آج بھی اس کی اہمیت زیادہ ہے۔ وقت نے ثابت کیا کہ چین کے ساتھ سیاسی اور سٹریجک اتحاد نے بڑے دور رس نتائج دیئے۔


افغانستان کی نزاعی گتھی کو سلجھانے کی آج ہمیں پہلے سے زیادہ توجہ کی ضرورت ہے کہ انہیں جس قدر غلط فہمیوں مبتلا رکھا گیا اور اس کی اب بھی بڑے شد و مد کے ساتھ سازش کی جا رہی ہے، اس کے باوجود کوشش کی جاسکتی ہے کہ اُن حقائق کو اِن کے اصلی رنگ میں وہ دیکھ سکیں جو ان سے چھپایا گیا۔ مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے سب سے پہلے اور زیادہ ضروری یہ ہے کہ ملک کے معاشی اور معاشرتی حالات جو دن بدن خراب سے خراب تر ہوتے چلے جارہے ہیں انہیں کس طرح سدھارا جائے، جہاں تک ہمارے معاشرتی حالات کاتعلق ہے، زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہیں، جس میں ناسور نہ پڑ چکے ہوں، باقی رہا ہمارا معاشی نظام اس کی حالت اور بھی زبوں ہے،آپ نے شیخ چلی کا وہ قصہ سنا ہوگا کہ اس نے اپنے آپ کو کمرے میں بند کرلیا، اندر سے کنڈے لگالی اور پھر خود ہی رونے لگ گیا کہ میں باہر کیسے نکلوں، شیخ چلی کسی خاص زمانے میں، خاص مقام میں پیدا نہیں ہوا تھا، یہ ہر زمانے میں ہر جگہ موجود ہوتے ہیں، کہیں زیادہ، کہیں کم،لیکن پاکستان میں با افراط پائے جاتے ہیں۔ 

Posted in تازہ ترین, مضامین
57984

لیڈرشپ کوالٹیز کو مستقبل کے معماروں میں پیدا کرنا ۔ تحریر:اشتیاق چترالی

لیڈرشپ کوالٹیز کو مستقبل کے معماروں میں پیدا کرنا اور اس میں جدت اور وسعت پیدا کرنا ہیلپنگ ہینڈ کا بنیادی مشن ہے۔ تحریر:اشتیاق چترالی

مملکت خداداد پاکستان کو اللّٰہ رب العزت نے ایسے افراد سے نوازا ہے جن کے دلوں میں خدمت انسانی سے سرشار جذبات کوٹ کوٹ کے بھرے ہوئے ہیں اور ان ہی جذبات کی بدولت وہ دونوں جہانوں میں رب کے حضور سرخرو ٹھیرتے ہیں۔
عالمی سطح پہ خدمت انسانی، ریلیف اور ان ترقیاتی کاموں کے ذریعے ایمرجنسی اور قدرتی آفات میں خدمات انجام دینے والے افراد ہیلپنگ ہینڈ کے چھتری تلے ہر جگہ پھیلے ہوئے ہیں جنھوں نے اپنی زندگی ہی خدمت انسانی کے لئے وقف کیا ہوا ہوتا ہے۔
ہیلپنگ ہینڈ جہاں پسے ہوئے طبقات میں امداد نقد رقوم کی شکل میں،غریب نادار،یتیم اور غریب لوگوں کی خدمت میں سرگردان ہے وہیں پہ محدود پیمانے پہ بلا سود قرضہ اور پھر معماران قوم(طلباء) کو علم کے فروغ اور ان طلبہ کو معاشرے کا ایک ذمہ دار اور فرض شناس شہری بنانے میں بھی اپنا کرداد ادا کر رہی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ طالب علموں میں آگے بڑھنے اور مقابلہ جات میں حصہ لے کر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے کا موقع بھی فراہم کرتی ہے۔
اس ضمن میں مختلف کلاسز کے طالب علموں میں مقابلہ جات کروائے جاتے ہیں اور پھر اس مقابلے میں پوزیشن ہولڈرز طلبہ میں قیمتی انعامات(سائیکل،آئی پیڈ اور دوسرے قیمتی اشیاء) کی تقسیم بھی اس پروگرام کا حصہ ہوتا ہے۔


لٹل سٹارز،شائننگ سٹارز اور رائزنگ سٹارز جیسے ناموں سے ان طلبہ کو مخاطب کیا جاتا ہے اور پھر ان کو مکمل فنانشل سپورٹ،چائلڈ ڈویلپمنٹ پروگرام اور پھر ہیلتھ کی تمام سہولیات ان طلبہ کو میسر آتے ہیں ۔اپنے ان سٹارز کے درمیان جمہوری روایات کو پروان چڑھانے اور لیڈر شپ کوالٹیز کو مزید مہمیز دینے کیلئے سال بھر کیلئے ان طلبہ کے درمیان ایک لیڈر کا انتخاب کر دیا جاتا ہے(جس کا انتخاب یہی سٹارز اپنے ووٹ کے ذریعے کرتے ہیں) جو اپنی ٹیم بنا کے ان سٹارز کے دمیان وقتاًفوقتاً مختلف پروگرامات کا انعقاد کرتی ہے اور ان کے درمیان چھپی ہوئی صلاحیتوں کو آشکار اور منظر عام پر لاکر اپنے آپ کو منوانے کا موقع بھی فراہم کرتی ہے تاکہ یہ اہم ذمہ دار شہری کے طور پر ابھر سکیں اور ملک و قوم کی وہ خدمت کرتے ہیں جو کسی بھی دوسرے ادارے اور معاشرے کے کسی اور طبقے سے تعلق رکھنے والے طالب علم سے آنے والے چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کا فن اچھی طرح جانتے ہوتے ہیں اور ان کے لئے ذہنی،جسمانی اوع دماغی طور پر ہو دم تیار ہوتے ہیں۔


اس ادارے کے ذمہ داران خصوصآً ضلعی کواڈنیٹر محمد شجاع الحق،عرفان عزیز اور ان کی پوری ٹیم جس جوانمردی اور جانفشانی سے مستقبل کے ان ہیروں اور نگینوں کو مزید تراش کے سونا بنانے میں اپنی صلاحیتیں بروئے کار لارہے ہیں ان کے ساتھ قدم قدم اور کندھے سے کندھا ملا کے چلنے کی ضرورت ہے تاکہ اس کار خیر میں ہر ذی شعور اپنا حصہ ڈال سکے۔


الغرض یہی ادارے ہمارے آنکھ کا تارا ہوتے ہیں اور ان اداروں کی نگرانی اور دست شفقت تلے پروان چڑھنے والے بچے ہی اس قوم کے مستقبل ہیں اور ان اداروں اور ان کی منتظمین کو جہاں جہاں خدمت انسانی کیلئے افرادی قوت درکار ہوجائے ہم میں سے ہر کوئی اپنے آپ کو پیش کرے تاکہ ملت اسلامیہ اور مملکت خداداد پاکستان کو اس کیااصلی روح اور اس کے قیام کی راہیں اور منزلیں آسان ہو سکیں۔۔

Posted in تازہ ترین, مضامین
57979

سری لنکا : جنوبی ایشیائی تہذیب کا مرکز۔ ڈاکٹر ساجد خاکوانی(اسلام آباد،پاکستان)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سری لنکا:جنوبی ایشیائی تہذیب کا مرکز

)4فروری، سری لنکا کے قومی دن کے موقع پر خصوصی تحریر(

ڈاکٹر ساجد خاکوانی(اسلام آباد،پاکستان)

                ”سری لنکا“ جنوبی ایشیا کی قدیم تہذیب کاامانت دار اپنی نوعیت کی واحد مملکت ہے۔1972سے قبل تک اس علاقے کو جزیرہ سیلون بھی کہتے تھے جوبحرہند کے کنارے واقع ہے۔سری لنکا اور ہندوستانی تہذیب کے درمیان ہمیشہ سے گہرے مراسم رہے ہیں بلکہ مورخین تو یہاں تک کہتے ہیں کہ سری نکاکی تہذیب میں قدیم یونانی ثقافت کے اثرات بھی پائے جاتے ہیں۔ چھ سوسال قبل مسیح کے بدھ مذہب کی جنم بھونی ہونا سری لنکا کی تاریخی و تہذیبی ومذہبی پہچان ہے۔1948میں سری لنکا برطانوی تسلط سے آزاد ہوا اور آزادی کے سات سال بعد اقوام متحدہ کا رکن بنا۔کولمبوجو برطانوی راج میں دارالسلطنت تھا آج بھی سری لنکاکادارالحکومت ہے۔ ملک کو انتظامی طور پر 9صوبوں اور 25ضلعوں میں تقسیم کیا گیاہے۔اس ملک کی اکثریت دیہاتی علاقوں کی باسی ہے اور انکی زندگی کادارومدار قدرتی وسائل پر ہے۔سری لنکاکی آبادی بہت سے لسانی و علاقائی گروہوں پر مشتمل ہے۔شہریوں کی بڑی تعدادہندودھرم اور بدھ مت سے تعلق رکھتی ہے۔جغرافیائی لحاظ سے اگرچہ سری لنکابرصغیرسے الگ ہے لیکن تاریخی طور پراسے ہندوستان سے علیحدہ نہیں کیا جاسکتا۔قدیم تاریخ میں سری لنکامشرق اور مغرب کے درمیان ہونے والی سمندری تجارت میں چوراہے کامقام رکھتاتھا۔روم،یونان اور عرب وفارس سے آنے والے بحری جہازاس ملک کی بندرگاہوں پر لنگرانداز ہوتے تھے۔اس سرزمین میں واردہونے والے ابتدائی لوگ جنوبی ہندوستان سے ہجرت کر کے آنے والے پہاڑی قبائل تھے جوبعد میں پانچویں صدی مسیحی میں ہندوستانی آرینز سے مل کر ان میں گڈمڈ ہوگئے اور اب”سنہالس“کہلاتے ہیں۔تامل قوم کے قبائل سری لنکاکی آبادی کا دوسرابڑا حصہ ہیں جوتیسری صدی قبل مسیح میں ہندوستان سے سری لنکامیں ہجرت کرکے داخل ہوئے۔ان کے بارے میں قرین قیاس ہے کہ یہ دراوڑی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔

                تیسری صدی قبل مسیح میں ”اشوکا“نامی تاریخی اہمیت کے حامل بادشاہ نے اپنے بیٹے ””ماہندہ“کو بدھ مت کی تبلیغ کے لیے سرزمین سری لنکاپر بھیجا،شہزادہ  اس مملکت کے دارالحکومت سے آٹھ میل دور رک گیا اور اس نے بادشاہ کو مزاکرات کی دعوت دی،گفتگوکے دوران شہزادے نے اپنے مذہب کی تبلیغ کی اور مد مقابل کو بدھ مت میں داخل ہونے کی دعوت پیش کر دی۔بادشاہ نے جس کانام”طسہ“تھا اس نے فوراََ اس مذہب کی حقانیت کو قبول کیااور شہزادے کے ساتھ آئے ہوئے مبلغین کو اپنی ریاست میں ساتھ لے آیا۔ان مبلغین نے پہلے شاہی خاندان میں اور پھر عوام میں بدھ مت کی خوب خوب تشہیرکی۔بادشاہ نے عوامی پزیرائی کے سبب شہر کا ایک وسطی مقام اس مذہب کے لیے وقف کر دیا۔یہاں سری مہاتماگوتم بدھ،جن کے بارے میں سچے نبی ہونے کاظن وقیاس بھی موجودہے،ان کے اس درخت کی ایک شاخ بھی زمین میں بو کر اگا دی گئی جس درخت کے نیچے بیٹھ کر انہوں نے نروان(تقوی) کی تعلیم دی تھی۔بہت جلد سری لنکا میں بدھ مت کے بہت سے معبد قائم ہو گئے اور بہت ہی مختصر عرصے میں یہ علاقہ بدھ مت کے لیے مرکزیت کا حامل بن گیا۔اسکے بعد صدیوں سے قرنوں تک اس ملک پر زبردست قسم کا بادشاہی نظام مسلط رہااور خاندان کے خاندان یہاں نسلوں تک حکومت کرتے رہے،جنگ و جدال کے بعددوسرے خاندانوں کی باری بھی آجاتی اور بعض اوقات جنوبی ہند کی غالب قوتوں نے بھی یہاں کی حکومت پر زورآزمائی کی۔سری لنکاکابادشاہ بیک وقت سیاسی اور مذہبی دونوں سیادتوں کا مالک ہوتا،بدھ مت کے مذہبی ادارے بھی بادشاہ کو اپنا سرپرست گردانتے تھے اس طرح سیاسی و مذہبی نظام متوازی چلتارہا۔اسکی ایک وجہ شاید یہ بھی ہے کہ بادشاہت و قیادت کے مقام تک ہمیشہ برہمن ہی پہنچتے رہے اور دنیا کے ہر خطہ ارضی و دورانیہ تاریخی کے دوران کی طرح مذہب و سیاست یہاں بھی باہم مل کر اقتدار کی سیج میں حکومت کی خوبصورت لونڈی سے بغل گیررہے۔  بدھ مت میں بہت سی ہندورسوم و عقائد کااشتراک دراصل برہمنوں کے حکومتی عمل دخل کا ہی ثمرہ ہے۔

                1505ء میں ایک پرتگالی جہازغیرموافق ہوا کے باعث سری لنکاکے ساحل پر اتفاقاََآن پہنچا۔یہاں کے بادشاہ نے اس جہاز کے کماندار کے ساتھ بہت اچھا سلوک کیاجبکہ کماندار کو بھی اس جگہ کی تجارتی اہمیت بہت پسند آئی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پرتگالیوں نے سری لنکاکے ساتھ کاروباری تعلقات استوارکر لیے اور 1518میں انہیں کولمبومیں تجارتی مقاصد کے لیے اپنا قلعہ تعمیر کرنے کی اجازت مل گئی۔اس سرزمین پر پرتگالیوں کا یہ پہلا دخول تھا۔پرتگالیوں نے شاہی خاندان میں اختلافات کا سیاسی فائدہ اٹھانا شروع کر دیا اور بہت جلد انہوں نے سازشوں کے ذریعے اہل اقتدار میں مذہب عیسائیت بھی داخل کردیا۔ایک صدی گزرنے کے بعد تک پرتگالی چند وسطی علاقوں کو چھوڑ کر پورے سری لنکا پر قابض ہو چکے تھے اور وہ مذہب عیسائیت کے پرچار کے لیے رومن کیتھولک عیسائی مبلغین کی ایک کثیر تعداد بھی ساتھ لائے جس کے اثرات آج تک باقی ہیں۔1658ء میں ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی نے ایک مختصر مقابلے کے بعد پرتگالیوں سے سری لنکاخالی کرالیااور1665ء تک وہ اس خطے کے بیشتر حصے پر اپنا تسلط جمانے میں کامیاب ہو چکے تھے۔انہوں نے کولمبو کو اپنا دالحکومت بنایااورنئے بدیسی گورے سامراج نے یہاں اپنا سیاسی و عدالتی نظام رائج کیااور ملک کی نئے سرے سے انتظامی تقسیم کی۔مذہباََ ڈچ اقوام مسیحی پروٹسٹنٹ فرقے سے تعلق رکھتی تھیں چنانچہ انہوں نے پرتگالیوں کے قائم کردہ رومن کیتھولک فرقے پر پابندی لگادی،انکے چرچ بندکردیے اور انکے مشنریوں کو ملک بدر کر دیا اور نئے فرقے کے عقائد کی تبلیغ و اشاعت کاکام تیزی سے جاری و ساری کر دیا۔

                انقلاب فرانس کے دوران برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی نے 1796ء میں ہندوستان سے پے در پے حملے کر کے تو سری لنکا کو اپنی قلمرو میں شامل کر لیا۔ ”مدراس“سے اس ملک کی باگیں ہلائی جاتی رہیں اور سری لنکا کے تمام انتظامی امور یہیں سے نمٹائے جانے لگے۔1802میں فرانس کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت برطانیہ کو یہاں پر تسلط کا پورا حق دے دیا گیا اور سری لنکا”کراؤن کالونی“بن گیا۔کم و بیش ایک صدی کے بعد بدھ مت اور ہندودھرم کی مذہبی تحریکوں نے سر اٹھانا شروع کیا اور انگریز کے سیاسی و مذہبی اقتدار کے خلاف آوازیں سنائی دینے لگیں۔ تحریک کا مقصدبدھوں اور ہندؤں کے لیے ایسے تعلیمی ادارے بنانا تھاجن میں انکی نئی نسل عصری علوم حاصل کر سکے۔بہت جلدیہ علمی بیداری سیاسی شکل اختیارکر گئی اور سری لنکامیں بھی آئین کی باتیں ہونے لگیں۔حالات بہت تیزی سے آگے بڑھتے رہے اوربیسویں صدی کے آغاز میں سول نافرمانیاں شروع ہو گئیں،استعمار نے مقامی راہنماؤں کو گرفتار کرنا شروع کیاجس کا فطری نتیجہ یہ نکلا کہ بکھرے ہوئے مختلف گروہ باہم جمع ہو گئے اور1919ء میں نیشنل سیکلون گانگریس کا عمل وجود میں آگیا۔کانگریس نے آئینی اصلاحات،قانون ساز اسمبلی میں نمائندگی،بجٹ کی تیاری اورانتظامی معاملات میں شراکت کے مطالبات پیش کر دیے۔آئین بنا اور بہت سے دیگر مطالبات منظور بھی ہوئے رد بھی ہوئے اور حکمرانوں اور عوام کے درمیان نصف صدی کی طویل کشمکش نے بالآخرتحریک آزادی کا روپ دھار لیااور 4فروری1948وہ خوش قسمت دن ہے جب سری لنکا کی آزادی کا سورج طلوع ہو گیا۔یہ دن یوم آزادی کے طور پر سری لنکامیں خوب جوش و خروش کے ساتھ منایا جاتا ہے۔

                سری لنکا کی اسلامی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنا کہ خود اسلام،کیونکہ اس سرزمین کے ساتھ عربوں کے قدیم تجارتی تعلقات قائم تھے اور ہندوستان کی فتح سے قبل ہی بحری عرب تجار یہاں پراسلام کو روشناس کرا چکے تھے۔تاہم باقائدہ مسلمان کی تاریخ یہاں اس وقت شروع ہوتی ہے جب جنوبی ہندوستان کے راستے نوراسلام کی کرنیں یہاں پہنچنا شروع ہوئیں۔یہاں کی تامل زبان بھی اس زمانے میں عربی حروف ابجد میں لکھی جانے لگی تھی۔سری لنکا کے بادشاہ مسلمانوں کی قدر کیا کرتے تھے کیونکہ مسلمان وہاں کا تجارتی سرمایاتھے جن کے باعث عرب دنیا سے اس جزیرے کے قیمتی تعلقات قائم رہتے تھے۔سری لنکا میں مسلمانوں نے طب کے میدان میں بہت نام پایا،اکثر بادشاہوں کے شاہی طبیب مسلمان ہی تھے اور ڈچ حکمرانوں نے بھی اپنے اکثراسپتال مسلمان طبیبوں کے سپرد ہی کیے ہوئے تھے۔آج سری لنکاکے مسلمان پورے ملک میں پھیلے ہیں،تجارت،کھیتی باڑی اور مچھلی بانی کے پیشوں سے وابسطہ اس ملک کے مسلمانوں کی معاشی حالت کوئی بہت اچھی نہیں۔آزادی کے بعد کئی دفعہ انہیں ان کے گھروں سے بے دخل کیا گیا اور وہ ہجرت پر مجبور ہوئے،اسکی وجہ شاید وہاں کی تامل بغاوت ہے اور مسلمانوں کی اکثریت اسی قبیلے سے تعلق رکھتی ہے۔تامل انتہاپسندوں کی الگ وطن حاصل کرنے والی تیس سالہ پرتشددتحریک آزادی میں مسلمان حزب اللہ نے حکومت کاساتھ دیاتھا۔لیکن تامل ناڈوکی شکست کے بعد حکومتی رویہ مسلمانوں کے خلاف ہوگیا۔ہندواوربدھ مذہبی انتہاپسندوں نے مسلمانوں کی مساجداوربستیوں کونقصان پہنچایااور ان کی دکانوں سے لین دین بندکرنے کی تحریک چلائی۔اس وقت مسلمانوں کی قابل قدرتعدارپس دیوارزنداں ہے اورایمنسٹی انٹرنیشنل متعددبار اس امرکو عالمی پیش نامے پر لاچکی ہے۔ایک اندازے کے مطابق مسلمان وہاں کی آبادی کا دس فیصد ہیں یہ ایک بہت بڑی اقلیتی تعداد ہے لیکن ہندو ذہنیت کا روایتی تعصب بھارت کی طرح وہاں بھی نظر آتا ہے۔ہم سری لنکا کی حکومت سے امید کرتے ہیں کہ وہ وہاں کے مسلمانوں سمیت تمام اقلیتوں کو جینوامعاہدے کے تحت جائز حقوق دے گی اورانہیں قیدخانوں سے باعزت اپنے گھروں کو بھیج دے گی۔

[email protected]

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57971

پھنڈر ونٹر سپورٹس فیسٹول – کریم علی غذری

پھنڈر ونٹر سپورٹس فیسٹول – کریم علی غذری

کہتے ہیں کہ خالی دماغ شیطان کا گھر ہوتا ہے۔ جذبات، احساسات، خیالات اور اردگرد کے ماحول میں رُونما ہونے والی تبدیلیاں کچھ ایسے عناصر ہیں جو انسان کے جسم اور ذہن کو مصروف رکھتے ہیں اس طرح ذہن کو مختلف زاویہ سے سوچنے کی صلاحیت بخشتے ہیں، اس سوچ کے مطابق اس کا عمل ہوتا ہے اور اس کے نتيجے میں ردعمل ظاہر ہوتا ہیں۔ کھیل ایک ایسی چیز ہے جس میں مداحوں اور کھلاڑی کے جذبات ایک ساتھ دھڑکتے ہیں۔دنیا بھر میں مختلف قسم کے کھیل وہاں کی ثقافت، آب و ہوا، رہن سہن کے مطابق کھیلے جاتے ہیں۔ جن میں فٹ بال، کرکٹ، ہاکی، ٹینس،  بیڈمنٹن تیراکی، رگبی، والی بال، پولو وغیرہ شامل ہیں_ ان سرگرمیوں کی وجہ سے ان ممالک کی سیاحت، ثقافت، معیشت اور ریوینو میں خاطر خواہ اضافہ ہوجاتا ہے۔

برطانیہ اپنی انگلش پریمئر لیگ کی وجہ سے سالانہ اربوں ڈالر کما کر امدنی میں اضافہ کرتا ہے’ برازیل، ارجنٹینا، فرانس چلی وغیرہ اپنی لیگس کی بدولت دنیا بھر میں توجہ کا مرکز بنتے ہیں۔ لیکن ہمارے ملک میں یہ سب دلچسپ سرگرمیاں کسی نہ کسی طرح اندرونی اور بین الاقوامی سیاست کی نذر ہوجاتی ہیں۔ اگر کھیلوں کے میدانواں کو آباد کرنے کی کوشش کی جائے تو یہ انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کے نشانے میں آتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ملک تنزلی کے دلدل میں دھنستا چلا جاتا ہے۔ نوجوان طبقہ غیر ضروری رجحانات کا شکار ہوتا ہے۔ جس سےملک میں انتشار، بے روزگاری، ڈکیتی، اور احساسِ محرومی کی ہوا جنم لیتی ہے۔ لیکن حالیہ چند سالوں میں پی_ایس_ایل کے 4 ایڈیشن پاکستان میں منقعد ہونے سے امید کی ایک کرن روشن ہوئی ہے۔تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان سب سرگرمیوں سے شہر میں بسنے والے ہی مستفید ہو جائے؟  یہی لوگ اپنی صلاحیتوں کے جوہر دنیا کے سامنے ظاہر کرے؟کیا دوردراز علاقوں میں بسنے والے باشندے ان صحت مند مشغلوں سے محروم ہی رہے؟

کیا پہاڑوں میں رہنے والا نوجوان اپنی صلاحیتوں کو گاوں کی مٹی میں دفن کرے؟ کیونکہ اُس صلاحیت کو نکھرانے کا کوئی ذریعہ ہی نہیں! زندہ قوموں کی ایک خاص بات یہ ہوتی ہے کہ وہ ہر کام کی تکمیل کے لیے حکومت کی دہلیز پر نظر نہیں جمائے رکھتے۔ وہ خود مشکل حالات کو مواقعوں میں تبدیل کرکے کوئی ہموار راستہ بنالتے ہیں۔ پھر ایسی قومیں کامیابیوں کے ان گنت راستے طے کرتےہیں۔ گزشتہ روز حکومت گلگت بلتستان اور دیگر معتبر اداروں نے غذر خلتی جھیل ونٹر سپورٹس فیسٹیول جو غذر سرمائی موسم میں لوگوں کے لیے تفریح کا باعث بنتا تھا چند نامعلوم  وجوہات کی وجہ سے منسوخ کردیا۔ جس میں جمی ھوئی برف کی تہ کو وجہ قرار دیا گیا۔ لیکن اسی دوران ہنزہ گوجال اور سکردو میں آئس ہاکی ٹورنامنٹ کو بھر پور طریقے سے منعقد کیا گیا۔ یہ بھی ایک خوش آئند بات ہے کہ گلگت بلتستان کے دوردراز علاقوں میں ان کھیلوں کی وجہ سے سیاحت، مقامی کاروبار، ثقافت اور لوگوں کو تفریح کے دن میسر آ گئے۔

اگر ان علاقوں میں جنوری کے آخر میں منفی 6 ڈگری سینٹی گریڈ میں آئس کی تہ موزوں ہوسکتی ہے تو خلتی میں منفی 10 دس ڈگری سینٹی گریڈ میں جمی ہوئی برف کی تہ کیسے ایونٹ کے لیے غیر موزوں تھی؟ یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔ مگر جس قوم اور یوتھ میں ولوالہ انگیزجذبہ ہو وہ کسی بھی ناممکن کو ممکن میں بدل سکتی ہیں۔  حکومت سے مایوس غذر خاص کر پھنڈر اور یاسین کے مقامی یوتھ اور کمیونٹی نے اپنی مدد اپ کے تحت ونٹر سپورٹس فسٹیول کا انعقاد کیا۔ یاسین میں یہ فیسٹول اپنے پورے اب وتاب کے ساتھ اختتام پذیر ہوا، جس میں شائقین کی بڑی تعداد ان منفرد مقابلوں سے محظوظ ہوئی۔یاسین میں کامیاب ایونٹ کے بعد پھنڈر کی یوتھ اور مقامی کمیونٹی نے پھنڈر ونٹر سپورٹس فیسٹول کرنےکے لیے کمر کس لی ہے۔ سٹوڈنٹس یوتھ کی انتھک جدوجہد کے بعد یہ ایونٹ 4-5 فروری کو منقعد ھوگا۔آئس سکیٹنگ، ہاکی کے علاوہ دیگر روایتی کھیلوں کا میلا لگے گا۔ اس ایونٹ کو کامیاب بنانے کے لیے یوتھ سٹوڈنٹس کا کلیدی کردار رہا،

جنہوں نے دن رات کی محنت کے بعد گراونڈ کی تیاری سے لیکر دیگر انتظامات مکمل کرلیے۔ پھنڈر کو سیاحوں کی جنت بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں کے بلندوبالا پہاڑ نظر اور سوچ کو محو کر دیتے ہیں۔ دامن کوہ سے بہنے والے پانی کے چشمے اور روح کو ٹھنڈک پہنچانے والے جھیل اور دریا یہاں سیر کرنے والے پر حیرت طاری کردیتے ہیں۔ اس علاقے سے گزر کر انسان قدرت کے حسن وجمال کی گرفت میں آجاتا ہے اور زبان سے اللہ تعالیٰ کی ذات پر حمدوثناء کے کلمات بے ساختہ نکلتے ہیں۔ گویا کہ انسان دنیا میں ہی جنت کی سیر کو نکلا ہے یہاں پر ملک کے گوشے گوشے سے سیاح آتے ہیں اور پھنڈر سرزمین کے قرب جمال کی اغوش میں محو ہوئے چلے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی فنِ کاریگری ہر چیز میں پنہاں ہے لیکن تصور کی نگاہ ہی ان کو نکھار سکتی ہے۔آنے والے دنوں میں مزید نئی سرگرمیوں سے اس علاقے کے حسن کو نکھارا جائے گا۔

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
57967

داد بیداد ۔ مستقبل کی ایک جھلک ۔ ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی

داد بیداد ۔ مستقبل کی ایک جھلک ۔ ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی

مستقبل یا آنے والے کل کو دنیا کے تر قی یا فتہ ملکوں میں با قاعدہ تحقیق اور تدریس کا مضمون بنا یا گیا ہے، جب مزدور وں کی ضرورت نہیں رہے گی جب پا نی کی شدید قلت ہو گی، جب بچے الگ ہونگے ماں باپ الگ ہونگے، جب بہن بھا ئی ایک دوسرے کو نہیں پہنچا نینگے، جب تعلیم یا فتہ لو گ قلم کا غذ لیکر خط یا رسید نہیں لکھ سکینگے اس کا آغا ز ہمارے جیتے جی ہو چکا ہے نصف صدی پہلے ان پڑ ھ اور نا خوا ندہ لو گ کا غذ پر دستخط نہیں کر سکتے تھے ان کی انگلی کا نشا ن کا غذ پر لگا یا جا تا تھا جس کو ”انگوٹھا چھا پ“ کہتے تھے آج کل ڈاکٹر، وکیل، انجینئر اور پرو فیسر کا بینک میں کوئی ضرور ی کا م ہو تو اس کا دستخط نہیں دیکھا جا تا اس کا ”انگو ٹھا چھا پ“ دیکھا جا تا ہے جو ہمارے بچپن میں نا خواندہ ہونے کی نشا نی ہو تی تھی کسی شاعر کا مصر عہ ہے ”دوڑ پیچھے کی جا نب اے گردش ایام تو“ مستقبل کی طرف نظر دوڑا ئیں تو مشترکہ خا ندانی نظام کا خا تمہ ایک حقیقت کی طرح سا منے آتا ہے یہ بھی نظر آتا ہے کہ آنے والا دور خا ندان کی جگہ فرد اور کنبے کی جگہ شخصی شنا خت کا دور ہو گا

جس کنبے میں نصف صدی پہلے 60افراد ایک مشترکہ گھر میں رہتے تھے آج وہ کنبہ 20الگ الگ گھروں میں بٹ چکا ہے آنے والے دور میں آج کے 20کنبوں کو مزید تقسیم کے عمل سے گذارا جا ئے گا فلمی گیت کا مصرعہ ہے ”ایک دل کے ٹکڑے ہزار ہوئے کوئی یہاں گرا کوئی وہاں گرا“ کوہستان، بٹگرام، میران شاہ یا چترال کا ایک کنبہ 100ٹکڑوں میں تقسیم ہوگاکوئی امریکہ، کوئی بر طا نیہ، کوئی سنگا پور، کوئی ملا ئشیا، کوئی جا پا ن، کوئی چین اور کوئی روس میں جا بسے گا بیٹوں کے ساتھ بیٹیاں بھی پوری دنیا میں پھیل جا ئینگی پا کستان کے مختلف شہروں میں رہنے والے بہن بھا ئی 10سالوں میں بھی ایک دوسرے سے نہیں مل پا ئینگے، امریکہ، کینڈا، جا پا ن اور روس کے مختلف شہروں میں بسنے والے بہن بھا ئی عمر بھر نہیں مل سکینگے،

ما ں باپ کی زند گی میں ملا قات نہیں ہو گی مر نے کے بعد قبر کی زیا رت کا خیال کسی کو نہیں ہو گاآج ہمارے بچے بچیاں یا پو تے پو تیاں، نواسے نواسیاں قلم اور کا غذ سے دور ہو تی جا رہی ہیں مستقبل میں کا لج اور یو نیور سٹی میں پڑھنے والے نو جواں اور نو نہال خط لکھنے سے معذور ی کا اظہار کرینگے، ایک ہا ئی سکول کے نئے ہیڈ ما سٹر نے تین مہینوں تک ایک مخصوص کمرہ جما عت سے آنے والی چھٹی کی درخواستوں کا جا ئزہ لیا ایک ہی لڑ کا سب کے لئے درخواست لکھ رہا تھا اُس نے تفتیش کی تو معلوم ہوا دوسرے لڑ کے نہیں لکھ سکتے یہ لڑ کا دینی مدرسہ سے آیا ہے وہاں افغا ن مہا جر استاد ہے وہ بچوں کو خوش خطی کی تعلیم دیتا ہے خط، درخواست اور مضمون لکھنے کی مشق کراتا ہے اس وجہ سے یہ لڑ کا درخواست لکھتا ہے .

مستقبل میں بچوں کا سارا کا م کمپیوٹر پر ہو گا، ہاتھ سے کوئی طا لب علم اپنا نا م یا اپنے باپ کا نا م نہیں لکھ سکیگا امتحا نا ت کا ایک نظا م آیا ہے جس میں طا لب علم دائرے کا نشا ن لگا کر ہر سوال کا جواب دیتا ہے، اپنے نا م کی جگہ کوئی ہندسہ لکھتا ہے یا چند ہندسے لکھتا ہے آگے کچھ نہیں لکھتا اور پا س ہو جا تا ہے ایسے امتحا نا ت بھی آگئے ہیں کہ طا لب علم کمپیو ٹر پر آن لا ئن سوالوں کے جواب دیتا جا تا ہے ایک مقام پر پہنچ کر کمپیو ٹر کہتا ہے ”سوری“ اور بند ہو جا تا ہے گو یا طا لب علم فیل ہو گیا مستقبل کا منظر نا مہ ایسا ہی ہے اب ہمیں اس منظر نا مے کو قبول کرنا ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57965

خلتی جھیل، خاطرخواہ پذیرائی نہ ملنے کا ذمہ دار کون؟ ۔جان نظاری گلگت

خلتی جھیل، خاطرخواہ پذیرائی نہ ملنے کا ذمہ دار کون؟ ۔جان نظاری گلگت

حالیہ دنوں گلگت کی ایک مقامی اخبار پڑھنے کا موقع ملا، عین فرنٹ پیج پے جب میری نظر پڑی تو، خلتی جھیل کے حوالے سے تحصیل گوپس کے عوام کا تاثرات کسی نے قلم بند کرایا تھا۔ سب سے پہلے وہ پڑھنے کو ضروری سمجھا۔ عوامی تاثرات کچھ یوں تھے۔ حکومت کی نااہلی کیوجہ سے اس سونے کی کان جیسی جھیل کو وجود میں آئیں اتنا عرصہ گزر جانے کے باوجود بھی دنیا میں کوئی خاطر خواہ پذیرائی نہ مل سکی۔ یقیناً قارئین یہ تاثرات پڑھ کے ایک دفعہ ضرور سوچ چکے ہوں گے، مقامی افراد خود کو کتنی چالاکی سے بَرِی الذِّمَّہ سمجھ کے سارا ملبہ حکومت پے ڈال رہیں ہیں۔ اس ردعمل کو سمجھانے کے لئے یہاں پے امریکہ کے اپنے دور کا مشہور صدر مسٹر جون کینیڈی کے اس تاریخی تقریر کا ذکر ضروری سمجھتا ہوں، جو وہ صدارت کا حلف لینے کے فَوراً بعد عوام سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا تھا۔ ان کے وہ تاریخی جملے کچھ یوں تھے۔


"Ask not what your country can do for you, ask what you can do for your country." It was a very clear & transparent call to action for the public to do what is right for the greater good of the state.


اور اپنے دیس میں الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ یہاں پے عوام کا ماننا ہے، وہ اپنے جگہوں سے ہلے تک نہیں اور سرکار چل کے گھر آئیں اور ان کا مسائل گھر کے دہلیز پے حل کر کے چلی جائے۔ یہ خواب کی حد تک تو ٹھیک ہے، اس کا حقیقت سے دور دور تک کا تعلق نہیں۔ یہاں پے ایک نظر خلتی جھیل کی تاریخ اور اس کے چند چیدہ چیدہ خصوصیات کی طرف دوڑاتے ہیں۔ 26 جولائی 1980 کو ایک موسلا دھار بارش ہوتی ہے، جس کے نتیجے میں جنڈروٹ نالے سے پانی کا بہاو سیلاب کا شکل اختیار کر جاتا ہے اور یوں یہ سیلاب دریا غذر جو خلتی اور گمیس کے درمیان سے ہوکے نیچے بہتا تھا، کا آخری حصہ مکمل بند کرتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ بہتا دریا جھیل کی شکل اختیار کرتی ہے۔ اس دن سے یہ جھیل اپنی نوعیت کا انتہائی منفرد اور نایاب ہونے کے باوجود بھی بین الاقوامی یا ملکی سطح پے تو کیا علاقائی سطح پے بھی کوئی خاطر خواہ پذیرائی حاصل کرنے سے قاصر ہے۔ اس جھیل کی حدود عنقریب 90 ایکڑ کے لگ بھگ ہیں۔ گہرائی لگ بھگ 35 میٹر کے قریب ہیں۔ لمبائی 2500 اور چوڑائی 500 میٹر کے آس پاس ہیں۔ اس جھیل کی وجہ شہرت مذکورہ خصوصیات کے ساتھ ساتھ یہ بھی ہے، یہ پورے گلگت بلتستان میں وہ واحد جھیل ہے، جہاں پے دنیا کی نایاب ترین مچھلی کی نسل یعنی ٹروٹ فش وافر مقدار میں پائی جاتی ہے۔ اس کے مقابلے میں اگر ہم عطا آباد جھیل کو دیکھے تو یہ ان تمام خصوصیات سے قاصر شاید آج سے کوئی محض گیارہ سال قبل وجود میں آئی ہے اور اس کی پذیرائی کا اندازہ اس جھیل میں ہونے والے سرگرمیوں سے لگایا جا سکتا ہے۔ جس سطح پے اس جھیل کو پذیرائی ملی ہے، یہ صرف اور صرف ایک باشعور اور بصیرت والی قوم ہی کے لئے ممکن ہے. ورنہ یہ بھی تحصیل گوپس کے عوامی حلقے کیطرح گورنمنٹ یا آسمانی مدد کے انتظار میں رہتے تو شاید وہاں پے بھی دور جدید کی کشتیاں تو کیا دیسی ساختہ جالا بھی میسر نہ ہوتی۔ یہ سب ان کی ایک زندہ، باشعور اور محنت کش قوم ہونے کا منہ بولتا ثبوت ہے۔


اللہ تعالٰی نے بھی قرآن مجید میں بڑی واضح انداز میں فرماتے ہیں۔
اِنَّ اللّٰہَ لاَ یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِہِمْ: (الرعد: 11)


ترجمہ: یقینا اللہ کسی قوم کے حالات نہیں بدلتا، جب تک کہ وہ خود نہیں بدل دیتے اُس (کیفیت) کو جو اُن کے دلوں میں ہے۔
اس آیت سے ہمیں واضح سبق ملتا ہے۔ جب تک ہم اپنی باطنی کیفیت کو بدلیں گے نہیں، اس کے لیے محنت نہیں کریں گے، تو اللہ کی طرف سے بھی ہمارے حالات بدلنے میں غیبی مدد میسر نہیں آئیں گی اور ہم انفرادی و اجتماعی طور پہ ترقی نہیں کر پائیں گے، زندگی کے معاملات میں آگے نہیں بڑھ پائیں گے اور یوں مشکلات آسانی کی شکل اختیار نہیں کر سکیں گے۔ مولانا ظفر علی خان نے بھی اس آیت کی ترجمانی اپنے اس خوبصورت شعر کے ذریعے کچھ اسطرح سے کی ہے۔
“خدا نے آج  تک  اُس  قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا”


قرآن مجید کے اس جامع آیت اور مولانا ظفر علی خان کے اس انتہائی خوبصورت شاعری کو پڑھنے اور جاننے کے بعد بھی اگر ہم خود کو بدلنے پے غور نہیں کر پاتے ہیں، تو غلامی اور ناکامی کو ہمارا مقدر بننے سے دنیا کی کوئی بھی طاقت نہیں روک سکتی۔ دنیا کی تاریخ ایسے مثالوں سے بھری پڑی ہے، جسمیں سرفہرست پاکستانی قوم ہی ہمارے سامنے ایک ناقابل تردید مثال کی شکل میں موجود ہے۔ اگر آج ہم چائنہ اور پاکستان کے آزادی کی تاریخ اور ترقی کا موازنہ کریں تو اس آیت کے واضح ثبوت موجود ہیں۔ حالیہ دنوں خلتی جھیل میں ونٹر سپورٹس فیسٹیول کا انعقاد ہونا تھا، یہ پچھلے سال وزیراعلٰی گلگت بلتستان جناب خالد خورشید کے موجودگی میں ان کے کہنے پے صوبائی سطح پے کلینڈر ایونٹ اعلان ہوا تھا۔ اس سال کچھ عوامل کیوجہ سے، جس میں عوام اور لوکل ایڈمنسٹریشن کی ناکامی سرفہرست ہے، اس ایونٹ کا انعقاد نہیں ہو پایا۔ ایونٹ کے منتظمین اور نوجوان طبقے میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ پچھلے 48 دنوں سے تیاری کرنے کے باوجود ایونٹ منسوخ ہوا اور اس فیسٹیول سے متعلقہ تیاریاں رائیگاں چلی گئی۔ جس میں انتظامی تیاریوں سمیت مالی نقصان شامل ہیں۔ جب تک ہم مذہب، فرقہ پرستی، سیاسی وابستگی، علاقہ پرستی، قومیت اور ذاتی اختلافات سے مکمل بالاتر ہوکے ایک خاندان کے مانند معاشرتی ناانصافی اور علاقائی بہبودی کے لئے اجتماعی طور پے ہم آواز ہو کے اپنا اپنا مثبت کردار ادا نہیں کرتے ہیں، اس تسلسل کو روکنا مشکل تو کیا ناممکن ہے۔ اس حوالے سے امریکی ایڈمرل ویلیم ایچ میکراوین کا ایک مشہور قول ہے۔


If you want to change the world, start off by making your bed.
یہ اب وقت کی اشد ضرورت ہے، ہمیں سرکار یا دوسرے متوقع اتھارٹی کو قصوروار ٹھہرانے یا اپنے مسائل کی حل کے لئے ان کیطرف دیکھنے کے بجائے اپنے مسائل کی ذمہ داری خود قبول کریں اور ان کے مناسب حل خود سے تلاش کرنے کی عادت اپنائیں۔ جس دن ہم اس پالیسی کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں گے، ہماری ترقی کی راہ میں حائل رکاوٹیں خود سے راہ فرار اختیار کریں گے۔ ہم تب جاکے اپنے مسائل حل کرنے میں کامیابی حاصل کر سکیں گے اور متعلقہ اداروں کو بھی باور کراسکے گے کہ وہ ہماری مدد کے لئے آگے بڑھے۔ اس لئے میرا اپنے عوامی حلقوں سے گزارش ہے، تبدیلی کی شروعات اپنے گھر کے دہلیز سے کریں نہ کہ اس کار خیر کے لئے سرکار کے انتظار میں وقت ضائع کریں۔ اگر خلتی جھیل بیش بَہا خصوصیات کو اپنی آغوش میں سمیٹنے کے باوجود بھی دنیا کی نظر سے آج بھی اوجھل ہے، تو اس کا ذمہ دار کوئی اور نہیں وہاں کے باسی ہیں۔ جب تک ہم اپنے مسائل کا حل اپنے محدود وسائل کے اندر رہتے ہوئے نہیں ڈھونڈتے، جب تک اس مقصد کی حصول کے لئے ہم وقت کی قربانی نہیں دیتے، کوئی بھی فرد واحد یا سرکار ہماری مدد کے لئے آگے نہیں آئیں گی۔ اب بھی وقت ہے ہمیں پچھلے غلطیوں سے سبق حاصل کرتے ہوئے، اس جھیل کو اس ریجن میں چاروں موسموں کے لئے سیاحت کا مرکز بنانے میں اپنا مثبت کردار ادا کریں۔ خلتی جھیل پورے گلگت بلتستان میں سرمائی کھیلوں کے لئے محض موزوں ہی نہیں بلکہ ایک حقیقت بن چکی ہے۔ مجھے امید ہے اگلے سال عوامی حلقہ سمیت مقامی انتظامیہ اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں کنجوسی نہیں کرے گی۔

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
57941

عدالتی مراعات اور کارکردگی – پروفیسرعبدالشکورشاہ

عدالتی مراعات اور کارکردگی – پروفیسرعبدالشکورشاہ

افلاطون کے مطابق نام نہاد انصاف بدترین انصاف ہے۔ افلاطون کا یہ قول ہمارے عدالتی نظام کی بھر پور عکاسی کر تا ہے۔ کمیشن برائے قانون و انصاف پاکستان کے مطابق ملک بھر میں زیر التواء مقدمات کی تعداد2.15ملین سے تجاوز کر چکی ہے اور ان میں سے 390,713مقدمات اعلی عدالتوں میں زیر التواء ہیں۔ انصاف کی فراہمی میں دیر کا مطلب انصاف مہیا کرنے سے انکار کے مترادف ہے۔ ہم نام نہاد انصاف کے نام پر معصوموں کوپھانسی کے پھندے پر لٹکا دیتے، جیلوں میں بند کر دیتے اور مجرمین کو بری کر دیتے۔ملک میں انصاف کی عدم دستیابی کے برعکس سپریم اور ہائی کورٹ کے تقریبا134جج صاحبان عوامی ٹیکسوں سے ماہانہ159ملین روپے تنخواہوں کی مد میں وصول کر تے ہیں۔ اس کے علاوہ شیفر کاریں،500لیٹر پٹرول65,000سے زائد رہائشی کرایہ، تعلیم مفت، علاج مفت، سفر مفت، بلوں کی ادائیگی سے استثی،فون مفت، پروٹوکول کے نام پر درجنوں گاڑیاں، یومیہ الاونس، مہنگائی الاونس، مہمان الاونس اور دیگر مراعات تنخواہ کے علاوہ ہیں۔ یہ سب پیسہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے غریبوں کی خون پسینے کی کمائی سے جاتا ہے اورغریب انصاف کے لیے ترستاہے۔

سپریم کورٹ کا ہر جج ماہانہ 799,699سے زیادہ رقم تنخواہ کے طور پر وصول کر تا ہے، 370,597سپریئر جوڈیشل الاونس اور قیام گاہ کے کرائے کی مد میں وصول کر تا ہے۔ اس طرح ہر جج1.7ملین روپے وصول کر تا ہے اور اس میں رہائش کا کرایہ شامل نہیں ہے۔ اعلی عدلیہ کے ججوں کی کل تنخواہ اور جوڈیشل الاونسز ملا کر رقم17.5ملین ماہانہ سے تجاوز کر جاتی ہے۔ اگر اس رقم میں چیف جسٹس کی تنخواہ شامل کر لی جائے تو یہ رقم18.71ملین سے تجاوز کر جاتی ہے۔ پاکستان میں اعلی عدلیہ کے ججزتنخواہوں کی مد میں سالانہ8.9ملین روپے وصول کر تے ہیں۔ ان بھاری تنخواہوں کے علاوہ 15%میڈیکل الاونس، دو شیفر کاریں،600 لیٹر پٹرول،5000سے زیادہ یومیہ الاونس، ٹکٹوں پر رعایت، تمام بلات سے خلاصی، تعلیم، فون اور دیگر مراعات اور سہولیات شامل ہیں۔

پنجاب کے اعلی ججزعوامی ٹیکسوں سے ماہانہ1.05ملین روپے وصول کر تے ہیں۔ چیف جسٹس ہائی کورٹ784,608سے زیادہ ماہانہ تنخواہ،296,477روپے سپریم جوڈیشل الاونس، 65,000رہائشی کرایہ کے علاوہ دیگر متذکرہ مراعات اور سہولیات سے بھی مستفید ہوتے ہیں۔ پاکستان کے پانچ چیف جسٹس صاحبان اور گلگت بلتستان کے چیف جسٹس ماہانہ 6.48ملین روپے وصول کر تے ہیں۔اسی طرح ہائی کورٹس کے ججز754,432روپے ماہانہ تنخواہ جبکہ296,477روپے سپریم جوڈیشل الاونس کی مد میں وصول کرنے کے علاہ رہائشی کرائے کی مد میں بھاری رقم وصول کر تے ہیں۔

ملک بھر میں ہائی کورٹ کے تقریبا128 ججز ہیں او ر ان کی مجموعی ماہانہ تنخواہ کا حجم134ملین سے تجاوز کر جاتا ہے۔غریب پیٹ پہ پتھر باندھ کر انصاف کی فراہمی کے لیے یہ بھاری رقوم ٹیکسوں کی مد میں دیتا ہے مگر ہمارا عدالتی نظام اتنا خراب ہو چکا ہے کہ ہم عدالت سے انصاف کی امید لگانے کے بجائے روز محشر حساب لینے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ہمارے ملک میں موجود عدالتی نظام ظالمانہ اور استحصالی ہے۔ سرکاری اور سول بیورکریسی اس عدالتی بدانتظامی کی ذمہ دار ہے۔یہ وقت کی عین ضرورت ہے کہ غریب کا استحصال ختم کیا جائے۔ ایک ایسا ملک جہاں 25.3%سے زیادہ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارتے ہوں، جن کی ماہانہ آمدن3030روپے ہواور وہ انصاف کے لیے اتنی بھاری رقوم ادا کرنے کے باوجود انصاف سے محروم رہیں تو اس سے بڑا المیہ کوئی اور نہیں ہو سکتا۔ پاکستان کی سول سروس میں گریڈ 22کا افسرماہانہ تقریبا300,000بنیادی تنخواہ، الاونسز اور دیگر مراعات لیتا ہے جو عام آدمی کی ماہانہ اوسط آمدن 16400سے کئی گناہ زیادہ ہے۔

ہائی کورٹ او ر سپریم کورٹ کے ایک جج کی کل ماہانہ تنخواہ، الاونسسز اور مراعات عام آدمی کی ماہانہ آمدن سے 80سے 100گنا زیادہ ہے۔اگر ہم پاکستان کا موازنہ امریکہ کے سپریم کورٹس کے ججز سے کریں توامریکی سپریم کورٹ کا جج244000امریکی ڈالر وصول کر تا ہے جو عام امریکی کی ماہانہ آمدنے سے محض4 گنا زیادہ ہے اور مغربی ممالک میں لوگ انصاف کے لیے روز محشر کے بجائے عدالت سے لینے کی بات کر تے ہیں۔ پاکستان میں اشرافیہ غریبوں کے پیسوں پر اپنے آپ کو امیر سے امیر تر کرتی جا رہی ہے جبکہ غریب روز بروز غریب سے غریب تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ملک کے پوش علاقوں میں قومی ملکیتی زمینیں اونے پونے داموں اشرافیہ میں تقسیم کی جاتی ہیں اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے یہ اشرافیہ کس بے دردی سے قومی اثاثہ جات کی بندر بانٹ میں مگن ہے۔

ریاست مدینہ میں توغریبوں کی ضروریات پوری کی جاتی تھیں جبکہ یہاں غریب کو امیر کی قربان گاہ پر ذبح کیا جا رہا ہے۔ قومی اراضی سے ملک کے پوش علاقے میں ایک کنال کا پلاٹ اشرافیہ اور بیوروکریسی کو الاٹ کرنے کا مطلب ہے غریب آدمی کی جیب سے تقریبا 20ملین ہتھیا لیے گئے ہوں۔ قانون کی من پسند چھتری کے نیچے ان غیر قانونی اقدامات کو قانونی تحفظ مہیا کیا گیا ہے۔منتخب کردہ یا غیر منتخب کر دہ حکومتیں اس ناسور کو ختم کرنے میں بری طرح ناکام ہو چکی ہیں بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا اس کی آبیاری بھی انہی نے اپنے ذاتی مفادات کے حصول کی خاطر کی ہے۔ کوئی بھی دلیل ناانصافی کودرست ثابت نہیں کر سکتی۔ یوں محسوس ہوتا ہے اس ملک میں انصاف زبانی جمع خرچ اور دعووں تک محدود ہے۔ مقتدرہ کو چاہیے کے وہ عدالتی ریفارمز کے لیے ٹھوس اقدامات کرے تاکہ لوگوں کا عدالتوں پر اعتماد بحال ہو اور عام آدمی کے خون پسینے کی کمائی کے ٹیکسوں کے پیسوں کے بدلے انصاف ملے اور لوگ اپنا حق لینے کے لیے قیامت کا انتظار نہ کریں۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57934