Chitral Times

دیر اور چترال پڑوسی ہیں لیکن۔؟ ۔ تحریر: پروفیسر رحمت کریم بیگ

Posted on

دیر اور چترال پڑوسی ہیں لیکن۔؟ ۔ تحریر: پروفیسر رحمت کریم بیگ

دیر اور چترالی کی ہمسائیگی صدیوں پر محیط ہے اس میں بہت سارے تاریخی واقعات رونما ہوئے اور دوستیاں بھی ہوئیں، رشتے قائم کئے گئے اس سب کے باوجود اور اتنی زمینی قربت کے باوجود دونوں کی معاشی اور سماجی حالات میں اس وقت بے اندازہ فرق محسوس ہوتا ہے۔چونکہ چترال کا واحد راستہ دیر کے طول و عرض سے گذرتا ہے اس لئے آس پاس جو ترقیاتی تبدیلی نظر آتی ہے اس میں زمین اور آسمان کا فرق ہے۔

ٓ اس وقت دیر کے بھی دو ضلعے ہیں اور چترال کو بھی دو میں تقسیم کیا گیا ہے مگر دیر کے لوگ ترقی اور خوشحالی کے کس بلندی پر ہیں اور چترال والے کتنے پسماندہ ہیں مجھے کل کے سفر میں اس کا مشاہدہ کرنے اورجائزہ لینے کا موقع ملا۔ دیر کے لوگ محنتی اور انتہائی جفاکش ہیں کوئی بندہ بیکار نظر نہیں اتا، ہموار زمین چونکہ کم ہے اس لئے ان لوگوں نے کاروبار کی طرف خوب توجہ دی اور مقابلہ کا رجحان پیدا ہوا اور اس وقت دیر کی ایک بڑی آبادی ارب پتی ہے، کھرب پتی بھی ضرور ہوں گے، کروڑ پتی تو کسی زمرے میں ہے ہی نہیں۔ اس کے مقابلے میں چترال والے چند کروڑ پتی ہوسکتے ہیں وہ بھی گنتی کے چند۔۔ باقی ساری آبادی بہت غربت کی زندگی گذار رہی ہے، وسائل چترال میں بھی کافی ہیں لیکن ان سے فائدہ اٹھانے کی کسی میں ہمت نہیں، دماغ کاروباری نہیں اور یہ کہ کام سے یہ لوگ بھاگتے ہیں۔

دیر والے سارے پٹھان ہیں اور ہر پٹھان نسوار کی حد تک نشہ کرتا ہے اس سے آگے نہیں جاتا، چترال میں بھی نسوار ڈالنے کی عادت ہے مگر اس کے ساتھ چرس، ٹارا، افیون، انگور کا پانی اور نہ جانے کیا کیا بلائیں بھی زیر استعمال ہیں، قانون نافذ کرنے والے ادارے بس نام کو ہیں۔ چترال کے تمام دیہات میں چرس باسانی مل جاتی ہے اور یہاں لانے والے کون ہیں ان کی نشاندہی کی ضرورت نہیں۔ چترالی کاہل، سست اور بیکار قسم کی مخلوق ہے، کھیت میں کام کرنے سے کتراتا ہے اس کو کسر شان سمجھتا ہے، مزدوری کرتا ہے مگر کام چور ہے اس لئے اس کی معاشی حالت کے بہتر ہونے کے امکانات مستقبل قریب میں کم ہیں اور یہ زمین بیچنے اور اس رقم کو گاڑی خریدنے میں لگاتا ہے اور دو تین سال کے اندر یہ گاڑی کباڑ میں بک جاتی ہے، اس کے مقابلے میں دیر کا آدمی پیسے کو جوڑ جوڑ کر سنبھالتا ہے ان میں بچت کی عادت بدرجہء آتم موجود ہے وہ کسی بھی صورت اپنا پیسہ فضول کام میں نہیں لگاتا اس کو سختی سے سنبھال کر رکھتا ہے ہزار سے لاکھ، لاکھ سے کروڑ، کروڑ سے ارب اور ارب سے کھرب تک لیجانے کی نشہ کا شوقین ہے ایسی قوم کیوں ترقی نہ کرے

اس کے مقابلے میں جب ایک چترالی کاروبار شروع کرتاہے پہلے سال نصف سرمایہ قرض میں جاتی ہے دوسرے سال باقی بھی اور وہ دکان بند کرکے گھر بیٹھ جاتا
ہے۔ چترالیوں کو دیر والوں کو دیکھ کر بچت کی عادت اپنانی چاہئے ورنہ ان کا مستقبل تاریک ہے، چترالی میں اس وقت ایک بات اچھی ہے کہ یہاں تعلیم کی طرف خوب توجہ دی جارہی ہے شاید اس کی بدولت وہ ترقی کے دوڑ کے اس سلسلے میں کسی حد تک اپنی بقا کو مستحکم بنا سکتے ہیں

 

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
59089

خواتین کا عالمی دن اور  صنفی تعصب . تحریر: آمنہ نگار  بونی

Posted on

خواتین کا عالمی دن اور  صنفی تعصب . تحریر: آمنہ نگار  بونی

خواتین کا عالمی دن ہر سال  8 ماچ کو  پوری دنیا میں   منایا جاتا ہے  ۔ اس دن کو منانے کا    مقصد   خواتین کو  اُن  کے حقوق سے آگاہ کرنے کے علاوہ  اُن کی زندگی  گزانے کے راستوں  میں حائل  رُکاوٹوں   کا  ادراک  کرتے ہوئے    معاشرتی و سماجی حدود کی پاسداری کے ساتھ  اُن کا قلع  قمع کرنا ہے ۔اس سال  خواتین کے عالمی دن  کے موقعے پر   منعقد ہونے والے  تمام  پروگرام   خواتین کو در پیش مختلف مسائل   کا احاطہ  کرتے ہوئے   صنفی  تعصب  اور اُس کی تدارک وتدافع پر منتج ہوں گے ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ    پوری دنیا میں صنفی تعصب کو   اتنی دقیق نظر سے کیوں  دیکھا اور پرکھا جاتا ہے  ؟ اس  گتھی   کو  سلجھانے پر  بات کرنے سے پہلے  ہم یہ دیکھتے ہیں   کہ صنفی تعصب کو کن  معنوں میں  لیا  جاتا ہے۔

صنف کا مطلب نوع ، قسم یا جنس کے ہیں  اور تعصب طرف داری یا بے جا حمایت کو کہتے ہیں ( فیروزالغات،۲۰۰۰ )۔ صنفی تعصب کا مطلب جنس کے حوالے سے بے جا طرف داری ہے۔ صنفی تعصب  کا نام سن کر  مردانیت یا نسوانیت  کے الفاظ ذہن میں آتے ہیں جو کہ محض چند خصوصیات ، روّیوں اور کرداروں  کے مجموعے ہیں  جن کو  عام طور پر لڑکا یا لڑکی سے منسوب کیا جاتا ہے۔مردانیت یا نسوانیت کا یہ تصور ہم میں حیاتیاتی سے زیادہ سماجی  حیثیت رکھتاہے۔

اسلام مرد اور عورت کے حوالے سے توازن برقرار رکھنے پر زور دیتا ہے  یعنی کہ عدل و انصاف   اور حقوق میں مساوات   اسلام  کی تعلیمات کے بنیادی اراکین  میں سے ایک ہے ۔ البتہ  بعض مقامات پر عورتوں اور مردوں کے سلسلے میں احکام مختلف ہیں  بالکل اسی طرح، جس طرح عورت اور مرد کے مزاج مختلف ہوتے ہیں۔ لیکن  ہمارے معاشرے میں   مضبوط، ضدی، پراعتماد اور جارحانہ رہنما   ہونا ایک مثالی مرد کی نشانیاں ہیں جبکہ مطیع، شائستہ، حساس، نرم مزاج اور پیروکار  ہونا ایک مثالی عورت کی نشانیاں ہیں۔ یہاں اس بات کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ صنفی کردار  صنف کے ساتھ مخصوص نہیں  ہیں بلکہ یہ لوگوں کی پرورش کی عکاسی کرتے ہیں۔مختلف محققوں نے ثابت کیا ہے کہ معاشرے مختلف سماجی قاعدوں  سے آگے نکل چکے ہیں اور صنفی کرداراس کے مطابق ڈھل گئے ہیں لیکن کچھ تعصّبات ایسے  ہیں جو دونوں صنفوں کو اپنی صلاحیتوں کے بھرپور استعمال سے روکتے ہیں۔ ان تعصبات کو سمجھ کر ان کی تدارک کے لیے کوشش ہم سب پر فرض ہے تاکہ   ہم ایک  بہترین  اور متوازن معاشرہ  ترتیب  دے سکیں۔

صنفی  تعصب کی ابتدا اولاد کی پیدائش کے ساتھ ہی  ہوتی ہے  ۔ بیٹا اور بیٹی کی پیدائش میں تفریق  ثقافتی، معاشرتی اور معاشی  حالات کے ساتھ منسوب ہے۔  مثال کے طور پر بیٹے کی پیدائش پر اطمیناں کامظاہرہ اس لیے کیا جاتا ہے کہ اس کو  والدین  اپنےمستقبل کا محافظ سمجھتے ہیں ۔ اور بیٹی  اس اہمیت کی حامل نہیں ہوتی کیونکہ وہ پرائی سمجھی جاتی ہے اور والدین  اس کو اپنا محا فظ نہیں  سمجھتے   حالانکہ  کئی ایسی  بیٹیوں کی مثا لیں  موجود ہیں جو کہ بیٹوں سے زیادہ  اپنے والدین کی خدمت کی ہیں  اور ان کی زندگی کا سہارا بن چکے ہیں۔  یہاں پر  اس بات کو سمجھنا انتہائی ضروری ہے    کہ صنفی  تعصب کے حوالے سے ہماری سو چ اور اعمال کا ہما ری   اولاد کی تربیت  پر   کیا اثر ہو سکتا ہے ؟ اس کی بنیاد پر  اولاد کی پرورش کر کے ہم اپنے بچوں کے ساتھ نا انصافی تو نہیں کر رہے ہیں؟کیا یہ ممکن ہے کہ ہم اولاد کی تربیت میں حقوق ا ورانصاف کے توازن کو برقرا رکھیں جو کہ  ہمارے افکار، گفتار اور کردار سے واضح نظر آئے۔  اگر ہم ایسا کرنے کے قابل ہو جائیں   تب ہم اولاد کےکے درمیاں صنفی  تعصب کی تدارک کا دعویٰ کر سکتے ہیں۔

ایک زمانہ تھا جب  مرد جنگوں میں لڑتے ، شکار کرتے ، جسمانی مشقت سے عمارتیں کھڑی کرتے ، اور کھیتوں میں کا م کرتےتھے۔ جبکہ عورتیں  گھر کے اندر رہ کر  بچوں کی  پرورش ، کھانا  پکانا ، کپڑے دھونااور صفائی وغیرہ  کا کام کرتی تھیں ۔ عورت جسمانی لحاظ سے مرد کے برابر نہ تھی لہذا اس کو ہمیشہ کمزور اور کمتر تصور کیا گیا ۔ اب  حالات اس کے بر عکس ہیں مرد اب وہ مشقت  والے کام نہیں کرتے کیونکہ ان کی جگہ مشینوں نے لے رکھی ہیں۔ اب جسمانی مشقت کی جگہ ذہنی مشقت نے لے لی ہے۔اور اس میں عورتیں بھی برابر کی شریک ہیں ۔ وہ  زریعہ معاش کے ہر میدان میں مردوں کے شانہ بہ شانہ کام کرتی  ہیں ۔ لیکن ستم  بالائے  ستم یہ کہ ان کے کام  کے  معیار کو ہمیشہ ان کی ذات کی کسوٹی  پر  پرکھا جاتا ہے اور ان پر وہ اعتبار اور بھروسہ نہیں کیا جاتا جو ایک مرد پر کیا جاتا ہے۔  مزید بر اں، عورتیں گھر کے باہر جتنا مشکل کام کریں     گھریلو کام کاج کے زمہ دار  وہی ہو ں  گی  گو یا کہ  کمائی کے لیے باہر نکلنا ان کی اپنے  کو ئی تفریحی   کاموں میں شمار کیا جا تاہے۔ گھر کے باہر اور اندر کی ساری زمہ داریا ں خواتین پر ڈال کر  ان کی  تربیت اور کردار کی پیمائش اسکے حسن اخلاق اور اس کی سلیقہ مندی سے کیا جاتا ہے۔ اس کی پیشہ ورانہ زندگی میں  جتنی بھی پریشانیاں  اور مسائل  کیوں نہ ہوں ان کو گھر والوں کے ساتھ بانٹنے کی اجازت نہیں ہو گی اور نہ ہی اسے ایسے مواقع ملیں گے جو ان پریشانیوں کو کم کرنے میں معاؤن ہوں ۔ دوسری  جانب  مرد کو پورا پورا حق حاصل ہے کہ وہ ملازمت کے جتنے بھی مسائل ہیں  نہ صرف اُن کا کھلم کھلا اظہار کرے بلکہ   اپنی دفتری نا آسودگی        کو  بھی  گھریلو   معا ملات    پر منتج کرے  اور یوں  اپنے اضطراب کو   دور کرنے کے ہزار   ذرائع بھی ڈھونڈ نکالے  ۔  سوچنے والی بات یہ ہے کہ  کیا  اس تعصب  کا کوئی حل ہے ؟   دونوں  صنفوں کے  کاموں کی نوعیت کو اچھی  طرح سمجھ کر   ان میں توازن  کس طرح پیدا کیا جا سکتا ہے؟  ان سوالوں کے  اگر مثبت جواب دیے جائیں تو یقینا اس تعصب کو ختم کرنے کا کوئی راستہ نکل آئے گا اور برابری کی بنیاد پر ایک   صحت  مند معاشرہ  تشکیل دیا جا سکے گا۔

یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ عورتیں زندگی کے ہر شعبے میں اپنی خدمات   بخوبی انجام دیتی ہیں لیکن اپنی قابلیت اور  حتی المقدور  کوشش کے باوجود   بھی  انہیں بے شمار  مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ ان کے بارے میں وہ پرانی تصورات اب بھی موجود ہیں جن کے مطابق  عو رتیں فیصلہ سازی میں کمزور ہیں، حالات کا مقابلہ نہیں کر  سکتیں ، مسائل حل کرنے کی صلاحیت کم ہے اور اپنے کام میں ماہر نہیں ہیں  ، وغیرہ غیرہ ۔ حالانکہ ان تمام باتوں کو نفی کرنے کے لیے دلائل اور کئی    مثالیں بھی مو جود ہیں ۔ مگر ان کو ماننے والے بہت کم ہیں اور اکثر تو خواتین کے پیشہ ورانہ  کار کردگی کو ان کی ذاتی خصوصیات ،  ظاہری شکل  و صورت اور ملبوسات کے آیئنے میں دیکھا جاتا ہے ۔  اس تعصب کو کم کرنے کے لیے  اداروں  کو اپنے  پالیسز    پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے اور  علاقائی ، معاشرتی اور ثقافتی  ضروریات کی بنا پر عورتوں کے لیے ان میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے تبھی ہم عورتوں کو ایک بہترین پیشہ ور کی حیثیت سے دیکھ سکیں گے۔

عمومی طور پر  وہ خواتین  جو  گھروں کے اندر رہتی ہیں  ،اپنے آپ کو  دوسروں سے زیادہ  صنفی تعصب کا شکار سمجھتی ہیں  ۔ صبح سے شام تک روزمرہ کے ایک ہی قسم کے  کاموں میں مصروف رہ  کر وہ اپنی زندگی کو ایک قید کے سوا کچھ نہیں سمجھتیں اور اس میں کو ئی اعتراض والی بات بھی نہیں کیونکہ زندگی اگر ایک ہی  ڈگر پر چلتی رہے اور کوئی تبدیلی نظر نہ آئے تو انسان کی سوچ بھی محدود رہتی ہے ۔ گھر کے اندر رہنے والی خواتین  کے پاس پہلے زمانے کی خواتین  کے مقابلے میں وقت زیا دہ ہے کیونکہ جدید مشینوں کی ایجاد نے ان کی کاموں کے بوجھ کو کافی حد تک کم کیا ہے اور وہ اپنے وقت کو کسی پیداواری کام کے لیے استعمال کر سکتی  ہیں ۔لیکن اس کے لیے آگاہی، مواقع اور مہارت کی  ضرورت ہے   جس کی کمی ہے۔           اس کمی کو ختم کرنے لیے ایک طویل منصو بہ بندی کی ضرورت ہے۔      جو کہ گھر میں بچے کی تربیت اور  تعلیمی  نظام میں اس  کی تعلیم و تربیت  کی منصوبہ بندی پر مشتمل ہے۔ بیٹیوں  کی پرورش اور نشوونما اس طریقے سے ہو کہ وہ  پڑھائی کے ساتھ ساتھ زندگی کی بنیادی مہارتیں بھی سیکھیں تاکہ مستقبل میں   اپنی بہتر زندگی کا  خود ضامن ہوں۔تب جا کے صنفی تعصب کو ختم کیا جا سکتا ہے۔

درج بالا تحریر میں تعصبات  کے وجوہات میں  بنیادی آئینی و اسلامی اصولوں سے لاعلمی ،ہماری بیمار ذہنیت، اور عورتوں کا ان کے آئینی حقوق سے لاعلمی ہے۔ہمارے ہاں ایک طبقہ  وہ ہے جو عورت کو صرف اور صرف گھر کی زینت بنائے رکھنے کا قائل ہے، جبکہ دوسرا طبقہ اس کے برعکس تمام بنیادی معاشرتی حدود وقیود کو روند کر عورت کی آزادی کی بات کرتا ہے۔ تاہم ان دونوں گروہوں کے دلائل اپنی جگہ، ہمیں اعتدال کا راستہ اپنانا  ہو گا۔ برابری کا مطلب  جسمانی برابری نہیں بلکہ سماجی، معاشی اور سیاسی  اور معاشرتی  برابری ہے۔ عورت کی جسمانی ساخت، مذہب، سماجی روایات، سیاسی نظام، معیشت اور قانون کو عورت کے استحصال کے بجائے اس کی آزادی اور حقوق کی برابری کےلیے استعمال کرنا ضروری ہے۔ اس مقصد کے حصول کےلیے حکومتی سطح پر متعلقہ قوانین پر عمل درآمد جبکہ عوامی سطح پر اپنے سماجی رویوں کو فرد سے خاندان اور خاندان سے معاشرے تک تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سخت مر حلے سے گزرنے کے بعد ہی ہم ایک متوازن، خوشحال اور تعصبات سے پاک  معاشرہ کی توقع کر سکتے ہیں۔

 

 

 

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
59059

جمشید خان دکھی، کچھ یادیں کچھ باتیں – امیرجان حقانی

Posted on

جمشید خان دکھی، کچھ یادیں کچھ باتیں

خاطرات: امیرجان حقانی

اسسٹنٹ  پروفیسر: پوسٹ گریجویٹ کالج مناور گلگت

جمشید خان دکھی  5جون 1956ء کو محی الدین کے گھر پیدا ہوئے۔انیسویں صدی کے آخر میں ان کے دادا کشمیر سے گلگت آئے تھے ،یوں دکھی صاحب نسلاً کشمیری تھے۔ ان کی والدہ اخونزادہ فیملی گلگت سے تھی۔جمشید دکھی کے دادا  بہترین نجار تھے اوران کی نجاری کے کئی نمونے ایوم نگر اور ہنزہ نگر کے محلات میں اب بھی ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں۔گلگت میں جمشید دکھی کے ننھیال علوم بکھیر رہے تھے اور ددھیال فن تعمیر میں اپنا لوہا منوارہے تھے۔پروفیسر عثمان علی کے مطابق جمشید دکھی کے خاندان کا تعلق ترکھان مغل قبیلے سے ہے۔گریجویشن تک تعلیم حاصل کی، محکمہ جنگلات گلگت بلتستان میں طویل عرصہ خدمات انجام دیے۔دکھی صاحب کے علمی و قلمی مشاغل کو دیکھ کر محکمہ جنگلات نے ان کے لیے پبلک ریلیشن آفیسر کی خصوصی پوسٹ کریٹ کی یوں وہ 5جون 2016ء کو بطور پبلک ریلیشن آفیسر ریٹائٹرڈ ہوئے۔

جمشید خان دکھی

جمشید دکھی کی پوری زندگی کتاب، قلم، شاعری اور محبتِ انسان سے تعبیر تھی۔وہ مجسم محبت تھے۔وہ حلقہ ارباب ذوق گلگت بلتستان کے جنرل سیکریٹری  اور یوتھ ہاسٹل گلگت کے آنریری سیکریڑی رہے۔بلتستان یونیورسٹی نے دکھی  کواعزازی سفیر شعبہ ادب و ثقافت مقرر کیا تھا۔جمشید دکھی کی علمی و ادبی خدمات کا ایک طویل سلسلہ ہے۔ چند ایک کا مختصر ذکر کیے دیتا ہوں۔میرے نزدیک ان کا سب سے اہم کام ” انسائیکلوپیڈیا آف فوک لور (حصہ شنا)”ہے۔یہ علمی کاوش لوک ورثہ اسلام آباد کی نگرانی میں پایہ تکمیل کو پہنچی اوریہ تحقیقی کام  2005کو منصہ شہود پر آیا۔میں نے اپنے ریسرچ ورک میں اس سے خوب استفادہ کیا ہے۔اخبارات میں حلقہ ارباب ذوق کی روائیداد بھی خوب لکھا کرتے۔کئی علاقائی، قومی اور بین الاقوامی سمینارز میں مقالے اور شاعری سنائی،علامہ اقبال کا کلام شینا زبان میں منظوم کیا۔قائداعظم پاکستان زبانوں کے آئینے میں، قائداعظم شینا زبان و ادب کے آئینے میں جیسے درجنوں اہم عنوانات پر شاندار مقالے لکھے۔کالمز اور شاعری پر کئی کتب زیر طبع ہیں۔امید کی جاسکتی ہے کہ بہت جلد چھپ کر منصہ شہود پر آئیں گی۔کئی نامور لکھاریوں نے دکھی صاحب کی خدمات پر تفصیلی تحاریر لکھیں ہیں۔دکھی صاحب گلگت بلتستان کی علمی، ادبی، مذہبی اور روحانی مجالس کی جان ہوا کرتے تھے ۔جس محفل میں بھی جاتے محفل ،پروگرام اور سیمنار لوٹ ہی لیتے۔وہ سامعین کو مبہوت کرتے۔کلام سناتے سناتے ان پر وجدانی کیفیت طاری ہوتے اور سامعین پر بھی وجدان غالب آجاتا۔

 

میری خوش قسمتی یہ ہے کہ بالخصوص گلگت بلتستان کے اہل علم و قلم سے دوستی کے رشتے سے بندھ جاتا ہوں اور پھر یہ رشتہ تاحیات چلتا رہتا ہے۔ محترم جمشید خان دکھی بھی ان لوگوں میں سے ایک تھے جن سے میری دوستی کا آغاز 2010ء میں ہوچکا تھا۔اگرچہ دکھی صاحب کی کتب  اور ان کی شاعری  سے زمانہ طالب علمی میں ہی استفادہ ہوتا رہتا تھا مگر باقاعدہ بالمشافہ استفادہ  2010سے شروع ہوا۔حلقہ ارباب ذوق کی محفلوں میں شرکت کے لیے دکھی صاحب کا بلاوا ہمیشہ آجاتا لیکن میں کم ہی جایا کرتا ، وہاں شعراء لوگ اپنا کلام پیش کرتے اور ہمیں صرف” واہ واہ” کا موقع ملتا۔بدقسمتی سے میرا مزاج واہ واہ کا نہیں،بلکہ تنقیدی ہے۔ اس لیے حلقہ کی محفلوں میں تب جاتا جب کسی بڑی شخصیت پر مجھے مقالہ پیش کرنا ہوتا یا گفتگو کرنی ہوتی،یا کسی کتاب کی تقریب رونمائی ہوتی۔

گلگت بلتستان میں قیام امن اور سماجی ہم آہنگی پر اپنے تحقیقی پروجیکٹ پر کام کرتے ہوئے دکھی صاحب کے پاس حاضر ہونا پڑتا۔ان کی شاعری میری تحقیق کا حصہ ہے بلکہ حلقہ ارباب ذوق کی جملہ کاوشوں کا مختصر ذکر میرے مقالہ میں آگیا ہے۔ان محافل کا ذکر خصوصیت کے ساتھ کیا ہے جن میں  مذہبی رواداری،سماجی و  بین المسالک  ہم آہنگی او رقیام امن کے لیے مختلف مکاتب فکر کے علماء و شیوخ اور دانشوروں کو حلقہ ارباب ذوق نے مختلف ادوار میں مختلف محافل میں جمع کرکے مشاعرے کیے اور ان سے تقاریر کروائی۔یقینا گلگت بلتستان میں قیام امن اور سماجی ہم آہنگی کے لیے حلقہ ارباب ذوق کا بڑا کردار ہے۔ادب اور شاعری کے اس کردار کو کسی صورت نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔

اپنے تحقیقی پروجیکٹ کے حوالے سے سال 2020ء میں ان کے گھر خصوصی حاضری ہوئی۔انہوں نے حلقہ ارباب ذوق کا سارا ریکارڈ میرے سامنے رکھ دیا۔یہ تفصیلات دکھی صاحب نے اپنے ہاتھ سے قلمبند کی ہیں۔ میں اپنی ضرورت کی ایک ایک چیز نوٹ کرتا گیا۔ پھر دکھی صاحب نے اپنی شاعری کا غیر مطبوعہ مسودہ تھما دیا اور کہا کہ جو جو حصہ نوٹ کرنا ہے کرلیجیے۔قیام امن اور سماجی ہم آہنگی کے حوالے سے کہا گیا کلام کا ،موبائل سے سکین کرتا جاتا تھا۔ دکھی صاحب مسلسل اشیاء خورد و نوش سے تواضع فرماتے جاتے تھے اور میرے سوالات کے جوابات بھی دیے جارہے تھے۔ اچانک میں نے دکھی صاحب سے کہا”۔سر ان تمام مجموعوں کے کئی سیٹ بنا کر مختلف لائبیریریوں میں دے دیجیے۔ یہ جو آپ کے پاس ریکارڈ ہے یہ قوم کی امانت ہے۔زندگی موت کا کچھ پتہ نہیں”۔میری بات غور سے سننے کے بعد انہوں نے اک قہقہہ لگایا اور فرمایا ” حقانی بھائی ! میں اتنی جلدی کہاں مرنے والا”۔ یقین جانیں مجھے انتہائی شرمندگی ہوئی اور بہت پیشمان ہوا کہ میں نے لاشعوری میں کیا کہہ دیا۔ خیر پھر سے سوال وجواب کا سلسلہ شروع ہوا اور میں دکھی کے دسترخوان پر قلم پروری کے ساتھ شکم سیری بھی کرتا جاتا تھا۔

جمشید دکھی صاحب  اور عبدالخالق تاج کی دوستی بے مثال تھی۔ میں نے ایسے بوڑھے دوست کم دیکھے ہونگے جو دوستی کرتے کرتے بوڑھے ہوئے ہوں۔بہت دفعہ ہماری خصوصی بیٹھک ہوتی تھی۔ کبھی میرے غریب کدے میں کبھی دکھی صاحب کے دولت کدے میں اور کبھی کسی ہوٹل اور کبھی کسی مجلس اور بہت دفعہ  سرراہ ملاقات ہوجاتی۔ دکھی اور تاج کا یارانہ کمال کا ہوتا۔عموما تاج صاحب دکھی صاحب کو سناتے رہتے ۔تاج صاحب کا مزاج ہی ایسا ہے سامنے سامنے کہہ کرفارغ ہوجاتے ہیں۔ اپنے ہوں یا غیر، شرابی ہوں یا مولوی،پارسا ہوں یارسیا، تاج صاحب سے کوئی نہیں بچ سکتا۔دکھی صاحب کو جب سناتے تو وہ صفائی دیتے ہوئے کہتے ، تاج صاحب کو بڑھاپا لاحق ہے اس لیے مجھ بوڑھے کو بھی معاف نہیں کرتے۔یقینا دکھی صاحب کی وفات حسریات آیات پربہتوں کو دکھ ہوا، ان کی فیملی کو شدید تکلیف ہوئی۔ لیکن میری دانست  میں  سب سے زیادہ تاج صاحب کو تکلیف ہوئی ہے۔اب تاج صاحب کو ایسا یارغار کہاں سے ملے گا؟ یہ دوستی  دو چار سال نہیں پانچ عشروں پر مشتمل تھی۔مجھے یہ لکھتے ہوئے بھی ڈر سا لگ رہا ہے کہ کہیں تاج صاحب مجھے بھی سُنا نہ دیں۔ویسے تاج صاحب کونسا مجھے معاف کرتے ہیں۔ ہر وقت سُناتے ہی رہتے ہیں اور میں بھی منتظر رہتا کہ وہ کب سُنائے یعنی کھری کھری۔تاج صاحب صرف ان کو سُناتے ہیں جن سے محبت کرتے ہیں اور سب سے زیادہ محبت  ”ملا و شیخ ” سے کرتے ہیں اس لیے انہیں خوب سُنا کر ثواب دارین حاصل کرتے ہیں۔

جمشید دکھی کے ساتھ بڑی حسین یادیں وابستہ ہیں۔ ایک ایک کا ذکر کروں تو سینکڑوں صفحات ہونگے۔کئی دفعہ ایسا ہوتا کہ دور سے اہل علم مہمان آتے، انہیں دکھی صاحب سے ملنا ہوتا اور میں انہیں، لے کر دکھی صاحب کی ملاقات کے لیے ان کے گھر حاضری دیتا۔اور پھر مارخور کے گوشت سے لے کر چیری تک کھاکر ، خوب ہنسی مزاق اڑا کررخصت ہوجاتے۔ میرے مہمان دکھی صاحب کی منکسرالمزاجی، محبت، خلوص،رواداری اور مہمان نوازی دیکھ کر مزید ”عشق دکھی” میں پکے ہوجاتے۔میں نے دس سالہ قیام گلگت میں قاضی نثاراحمد اور جمشید دکھی سے بڑا مہمان نواز کسی کو نہیں دیکھا۔یہ دونوں ہر آنے والے مہمان کی گھر میں ضیافت انتہائی خوش دلی اور خندہ پیشانی سے کرتے تھے۔مہمان کو زبردستی کھلاتے اور مزید کھانے پر اصرار کرتے۔قاضی صاحب کے علاوہ دکھی صاحب ہی تھے جو مہمان کو کھلا پلا کربہت خوش ہوتے تھے۔مجھے درجنوں دفعہ اس کا تجربہ ہوا۔

ایک دفعہ مجھ سے بڑے دکھی انداز میں کہا: ” حقانی! ہم بھی صدیق اور عمر  رضی اللہ عنہم پر بار بار شاعری کرنا چاہتے ہیں، کلام سنانا چاہتے ہیں، ہمیں اس کے لیے پلیٹ فارم ہی مہیا نہیں کیا جاتا، اوپر سے کچھ ناہنجار طعنے بھی دیتے ہیں کہ ہم صرف اہل بیت پر شاعری اور مشاعرے کرتے ہیں، کوئی موقع تو دے پھر دیکھیں ہماری شاعری خلفائے راشدین  پر، کل قیامت کے دن اللہ نے پوچھا تو ہم شعراء  آپ مولویوں کو کھڑا کردیں گے کہ  یااللہ! انہوں نے ہمیں بلایا ہی نہیں اور نہ ہی ایسا پلیٹ فارم مہیا کیا ہے”۔یقین کریں دکھی صاحب کے اس درد کو مجھ سے بہتر کوئی نہیں سمجھ سکتا تھا۔میں نے اپنے بساط کی کوشش بھی کی۔ مگر بہرحال مجھے ناکامی ہوئی کہ شعراء کرام حضرات خلفائے راشدین  اور صحابہ کرام پر کلام لکھیں اور پڑھیں اور محفلیں سجیں۔

جمشید دکھی حقیقی معنوں میں بین المسالک ہم آہنگی کے علمبردار تھے۔ان سے بڑا مذہبی روادار گلگت بلتستان میں کوئی نہیں تھا۔ اگر کاغذ کے ان صفحات میں گنجائش ہوتی تو ان کی بین المسالک ہم آہنگی، مذہبی رواداری اور  سماجی صبر و تحمل پر کی جانے والے شاعری کے سینکڑوں حوالے پیش کروں مگر دکھی مرحوم کی شاعری میں جو وسعت ہے وہ کاغذ کے ان اوراق میں کہاں۔وہ جو بات محفل میں ، شاعری میں، اور اپنی تقاریر وتحاریر میں قیام امن اور سماجی ہم آہنگی و مذہبی رواداری پر کیا کرتے تھے وہی نجی محفل اور اپنے انتہائی چاہنے والے دوستوں کے پاس بھی کرتے۔ ورنا بہت سارے لوگوں کو دیکھا ہے کہ عوامی تقاریر و مجالس اور تحاریر و شاعری میں تو سماجی ہم آہنگی اور قیام امن کی بات کرتے ہیں لیکن جونہی اپنی نجی محفلوں میں ہوتے ہیں یا اپنے خاص لوگوں ، ہم مکتب و مسلک احباب کی محفل میں ہوتے ہیں تو دوسروں پر تبرا کیے بغیران کی محفل آگے نہیں بڑھتی۔یہ دل گردہ اللہ نے دکھی کو ہی دیا تھا جو ظاہر و باطن میں ایک ہی تھے۔

دکھی صاحب کے پاس کبھی کریمی کو لے کر حاضر ہوتا تو کبھی سلیمی کو لے کر پہنچ جاتا اور کبھی کسی نئے آنے والے مہمان کو۔بہت دفعہ جب پریشان ہوتا تو ان کو فون کرتا۔ وہ کہتے آجاو، یوتھ ہاسٹل میں ہوں دودھ پتی چائے پلاتا ہوں۔ کبھی ہم دونوں کسی ہوٹل میں بیٹھ کر دیر تک باتیں کرتے۔بہت سارے لوگ جانتے ہونگے کہ دکھی صاحب صرف نثر نگار یا شاعر نہیں تھے بلکہ صاحب دل انسان تھے۔ وظائف اور اذکار کے ان کے خاص معمولات تھے جن پر سخت پابندی کرتے تھے۔نماز کے انتہائی پابند تھے۔قرآن کریم کے عاشق تھے۔ ان کی شاعری میں قرآن کے سینکڑوں حوالے ہیں۔سورہ فاتحہ کااردو اور شینا زبان میں منظوم ترجمہ کیا ہے اور کیا خوب کیا ہے۔ بہت سارا کلام آیات قرانی کا ترجمہ ہوتا۔گزشتہ سال ” نسالو کڑاہی” کی تصاویر دیکھ کر،وہ چاہتے تھے کہ نسالو کے گوشت کی دعوت ہوجائے۔اس کا محرک تاج صاحب کی وہ تحریر بھی تھی جو انہوں نے راقم  کی  تیارہ کردہ ”نسالوکڑاہی” پر لکھی تھی۔اس سال پکا ارادہ کیا تھا کہ دکھی، تاج اور کچھ دیگر احباب کو ”نسالو کڑاہی” کھلائی جائے مگر بدقسمتی سے وہ بیماری کی وجہ سے اسلام آباد میں تھے پھر یوں ہوا کہ میں دکھی اور احباب کی مہمان داری سے محروم بلکہ دکھی صاحب سے ہی محروم ہوا، کیونکہ وہ مرحوم ہوئے۔ان کو مرحوم لکھتے ہوئے بھی ہاتھ کانپ رہے ہیں۔دکھی صاحب سے اتنی قربت تھی مگر ان کی بیماری کا اندازہ نہیں تھا۔ ہمیں کیا اندازہ ہوتا انہیں خود بھی اندازہ نہیں تھا۔ ہم اس جیتے جاگتے انسان کو بیمار بھی کیسے سمجھتے جو ایف سی روڈ سے کشروٹ تک ، کبھی سرینہ سے ہوتے ہوئے  واپس ایف سی روڈ تک کو واک کیا کرتے۔ان کی بیماری کی اطلاع تو تھی مگر وقفے وقفے سے اسلام آباد میں ان کی محافل کی تصاویر اور کبھی سنائی گئی شاعری کی ویڈیو وائرل ہوتی اور ہم سمجھتے کہ معمول کے امراض ہونگے لیکن ان کے انتقال سے تین دن پہلے  جب وہ گلگت میں تھے عیادت کے لیے گیا۔ واللہ دل بیٹھ گیا۔ ان کے بیٹے ان کی خدمت میں لگے ہوئے تھے۔میں نے بہت چاہا کہ تھوڑی دیر دکھی صاحب کے ہاتھ پیر دباوں، مگر پھر سوچا، معلوم نہیں شہری لوگ ہیں، میری اس حرکت کو کیا سمجھیں گے کیونکہ میں بعض معاملات میں کورا دیہاتی ہوں۔ ہمت نہ کرسکا۔اگلے دن نماز جمعہ کے بعد دکھی صاحب کے لیے اجتماعی دعا کروایا اور اپنے فیس بک احباب سے بھی دعا کی خصوصی درخواست کی۔ہماری دعائیں بھی رنگ نہیں لائی اور دکھی صاحب اللہ کو پیارے ہوگئے۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔

کبھی کبھی سوچتا ہوں تو دلبرداشتہ سا ہوجاتا ہوں۔ اب پیار محبت کی باتیں کس سے کروں،کس کے گھر شہتوت کھانے پہنچ جاوں، کون مجھے چیری کھلائے گا۔بہت سارے بزرگ اہل علم وقلم آنکھوں کے سامنے آجاتے ہیں لیکن وہ بھی بیماری کی حالت میں ہیں۔ان کے پاس اپنے دکھ بانٹنے کے لیے جانا بھی مشکل ہوجاتا ہے کیونکہ  انہیں بھی ضعیفی نے پکڑ رکھا ہے اور پھر وہ جمشید دکھی بھی تو نہیں۔سچ یہ ہے کہ جمشید دکھی کا نعم البدل نہیں ہے میرے لیے۔اللہ انہیں کروٹ کروٹ راحتیں نصیب کرے۔

اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین اور میرے انتہائی قابل قدر محسن ڈاکٹر قبلہ ایاز نے گزشتہ سال مجھے حکم فرمایا کہ ”ہم سوچ رہے ہیں کہ گلگت بلتستان سے نظریاتی کونسل میں نمائندگی ہو، اس کے لیے آپ نے اپنی تحاریر سے توجہ بھی دلائی ہے۔ اب آپ ایسے کچھ اشخاص کی سی وی ارسا ل کیجیے جن کا علمی و انتظامی تجربہ بھی ہو، کسی یونیورسٹی کا چانسلر،پروفیسر، محقق عالم دین،ریٹائرڈ جج یا بیوروکریٹ وغیرہ ہوں لیکن ان کا علمی، سماجی اور بین المسالک ہم آہنگی اور مذہبی رواداری کے لیے بہترین کام ہو، اور علاقے کے تمام لوگ ان کی خدمات کے معترف بھی ہوں”۔ یقین کیجیے، کئی دن ایسی صفات والی شخصیات پر غور و فکر کرتا رہا، بالآخر مجھے جمشید دکھی کے علاوہ کوئی نہیں ملا جس میں یہ جملہ صفات موجود ہوں۔ دکھی صاحب سے یہ ساری تفصیل شیئر کی اور انہیں سی وی تیار کرنے کی گزارش کی، انہوں نے ایک بہترین سی وی تیار کرکے  مجھے تھمادی اور میں نے ڈاکٹر قبلہ ایاز صاحب کو ارسال کر دی۔یقینا انہوں نے اپنے مشاورتی فورم میں رکھا ہوگا  اور وہ اقدام کرتے ہی ہونگے لیکن  دکھی صاحب رب کے حضور حاضر ہوئے۔

٢١ فروری ٢٠٢٢ ء کو ان کا انتقال ہوا۔ سٹی پارک میں ان کا نماز جنازہ ادا کیا گیا اور ان کے ابائی قبرستان کشروٹ میں تدفین کی گئی۔شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے ہزاروں لوگوں نے اور جملہ مسالک کے عوام و خواص نے دکھی کا غم منایا۔ ہرایک تعزیت کے لیے ان کے گھر حاضر ہوتا رہا۔یقینا یہ دکھی کا حق بھی تھا کہ ان کی تعزیت اور فاتحہ کے لیے ہر کوئی بلا رنگ و نسل اور مذہب و مسلک حاضر ہو۔سوشل میڈیا،ویب سائٹس اور اخبارات نے بھی دکھی صاحب کی رحلت پربھر پور خبریں شائع کی۔ریڈیو پاکستان گلگت نے بھی پہلے ہی دن مختلف اہل علم و قلم اور ذمہ دار لوگوں سے دکھی صاحب کی رحلت پر تعزیتی ریکارڈنگ کی اور نشر کیا۔میں نے بھی ریڈیو پاکستان کے احباب کو اپنی گزارشات ریکارڈ کروائی ۔دکھی کی موت پر ہر انسان دکھی تھا۔میری دانست میں پروفیسر عثمان کے بعد یہ اعزاز جمشید دکھی کو ملا کہ ہر ایک نے ان کا غم منایا۔اللہ سے دعا ہے دکھی صاحب کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا کرے اور ان کی اولاد کیساتھ عبدالخالق تاج و صبر جمیل بھی دے اور نعم البدل بھی عطا کرے۔آمین

 

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامین
59000

ہندوکش کے دامن سے چرواہے کی صدا-تبدیلی یا تباہی-تحریر عبدالباقی چترالی

2018 کے انتخابات میں جن لوگوں نے تبدیلی کے دل خوش کن نعروں اور جزباتی تقریروں سے متاثر ہو کر تحریک انصاف کو ووٹ دیا تھا ۔ وہ لوگ اس خوش فہمی میں مبتلا تھے کہ پی ٹی آئی کی حکومت ملک میں بڑے تبدیلی لانے میں کامیاب ہو جائے گا ۔جیسے بےروزگار نوجوانوں کو روزگار کے مواقع میسر آئیں گے ۔اور مہنگائی میں کمی لانے سے غریب عوام کی معاشی حالت بہتر ہو جائے گی ۔پی ٹی آئی کی قیادت اپنے انقلابی مہم کے دوران عوام سے جو وعدے کئے تھے ۔کہ پی ٹی آئی کی قیادت اقتدار میں آکر بےروزگار نوجوانوں کے لئے ایک کروڑ نوکریوں کا بندوبست کرےگا اور بے گھر افراد کے لئے پچاس لاکھ گھر تعمیر کرےگا۔پی ٹی آئی حکومت گزشتہ 4 سالوں میں اپنے ناقص حکمرانی کی وجہ سے اپنے ووٹروں سے کئے گئے کوئی وعدہ پورا کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔موجودہ حکومت کے تین سالہ کارکردگی سے پی ٹی آئی کے کارکنان اور ووٹرز ناامید اور مایوس ہو چکے ہیں۔اس کے واضح اثرات خیبر پختونخوا کے حالیہ بلدیاتی انتخابات میں عیاں ہو چکے ہیں۔ خیبر پختونخوا کے جن اضلاع میں پہلے مرحلے کے جو انتخابات ہو گئے ہیں وہ تحریک انصاف کے گڑھ سمجھے جاتے ہیں۔جہان سے تحریک انصاف کو قومی انتخابات میں پہلی بار کامیابی ملی تھی۔اور صوبائی حکومت بنانے میں کامیاب ہوئے تھے۔خیبر پختونخوا میں 8 سالہ حکمرانی کے باوجود بلدیاتی انتخابات میں بری طرح شکست سے دو چار ہونا پڑا،جو کہ حکمران جماعت کے لئے صور اسرافیل سے کم نہیں۔
حکمران جماعت اب بھی اپنے طرز حکمرانی میں تبدیلی لانے کے لئے عوامی مسائل کی طرف توجہ دینے کے بجائے عوام کو گھرانا نہیں کا نصیحت کررہا ہے۔جبکہ مہنگائی کی وجہ سے عوام کا چیخ وپکار حکمرانوں کو سنائی نہیں دے رہا ہے۔جب مہنگائی سے متاثر بھوکے اور پریشان حال عوام سڑکوں پر نکل آئیں گے۔تب حکمرانوں،وزیروں اور مشیروں کو مہنگائی نظر آجائے گا۔اور ان کو معلوم بھی ہو جائے گا کہ مہنگائی کیا چیز ہے اور اس کے اثرات کیا ہوتے ہیں۔مگر اس وقت پل کے اوپر سے پانی گزر چکا ہو گا۔2013 کے انتخابات میں ظاہر ہوئے۔پیپلزپارٹی کے پانچ سالہ حکمرانی کے بعد تین صوبوں سے ذلت آمیز شکست سے دو چار ہونا پڑا۔پیپلزپارٹی خود کو چاروں صوبوں کی نمائندہ تصور کرتی تھی۔بیڈ گورننس اور بد ترین مہنگائی کی وجہ سے تین صوبوں میں ان کے پارٹی کا مکمل صفایا ہوگیا،اور وہ صرف سندھی جماعت بن کر رہ گئے ۔موجودہ حکومت کی ناقض کارکردگی کی وجہ سے عوام پریشانی اور مصیبت کا سامنا کر رہا ہے ۔آگر تحریک انصاف کی حکومت اپنے موجودہ کارکردگی بہتر نہ بنایا اور مہنگائی کا سونا اس طرح جاری رہا تو پی ٹی آئی کا حشر بھی پیپلز پارٹی سے بدتر ہونے کا امکان ہے۔موجودہ حکومت اپنے پانچ سالہ اقتدار میں ملک میں  انتقامی سیاست شروع کیا ہوا ہے۔جو آنے والے وقتوں میں پی ٹی آئی کی قیادت کے لئے مصیبت اور پریشانی کا باعث بن سکتا ہے ۔جبکہ موجودہ حکمراں جماعت ملک سے لوٹ گئے۔دولت لانے کا وعدہ خاک میں مل گیا ہے۔چور ڈاکو لٹیرے کہ کر جن افراد کے خلاف کارروائی کی گئی تھی،ابھی تک ان ملکی خزانہ لوٹنے والوں سے ایک پائی بھی برآمد کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔موجودہ حکمران عوام کو سادہ زندگی گزارنے کی نصحیت کر رہے ہیں، خود محلات میں عیش وعشرت کے زندگی گزار رہے ہیں۔ان حکمرانوں کے کتے بھی جراثیم کش پانی پیتے ہیں اور ڈبل روٹی سے نشتے کرتے ہیں،جبکہ ملک کے غریب عوام کو دو وقت سکھی روٹی بھی میسر نہیں۔ریاست مدینہ کا درس دینے والوں کو شرم آنے چائیے کہ ملک میں غریب لوگ مہنگائی اور بےروزگاری کی وجہ سے خودکشیوں پر مجبور ہو چکے ہیں۔اور حکمران عیاشیوں میں مصروف ہیں۔کیا ریاست مدینہ میں ایسا ہوتا ہے؟
     (اشغار)
    ضمیر بیچ کر آئی ایم ایف کے سامنےجھولی پھلا دیتا ہے۔
قوم کے منہ سے نوالہ چھین کر ترقی کا نعرہ لگا لیتا ہے۔
دن رات چینی چور کا شور مچا لیتا ہے۔
اگلے ہی دن چینی چوروں کو سینے سے لگا لیتا ہے۔
Posted in تازہ ترین, مضامین
58999

مجھے شناخت چاہیے – مدثر خان

انسانوں کی بستی میں جب میری پیدائش ہوئی تو مجھے نہیں پتہ تھا کہ میں کون ہوں کس کا کیا لگتا ہوں۔۔میری ماں کون ہے باپ کون ہے۔ میں ایک عورت کی چھاتی سے دودھ پیتا ایک اور عورت مجھ سے محبت کرتی۔مجھے بہلاتی پھسلاتی بلایں لیتی اس شفیق عورت کے لیے میری ماں کی آنکھوں میں تشکر کے آنسو ہوتے۔اس بھرے پورے گھر میں، میں پرورش پاتا گیا انسانوں کی بستی میں انسانوں کے ہاتھوں میری تربیت ہوتی گئی۔ادھر ادھر سے لوگ میرا نام پکارنے لگے میرا نام مدثر رکھا گیا تھا میں ایک خدا ترس متمول اور معزز شخصیت شاہ عظمت کے گھر پرورش پا رہا تھا انھوں نے اور ان کی بیگم صاحبہ نے مجھے اپنی اولاد سے زیادہ لاڈ پیار میں رکھا تھا مجھے میرے بارے میں اور کچھ پتہ نہیں تھا البتہ اپنے ساتھی بچوں کو “ابو” کہتے ہوئے سن کر عجیب لگتا کیونکہ میری ماں نے ایک بار بھی نہیں کہا کہ کوئی شخص میرے بھی ” ابو” ہیں۔جب میں فہم و ادراک کی سرحد پہ پہنچا تو پتہ چلا کہ مسلہ میرے ساتھ کچھ اور ہے۔میری صرف ماں ہے اور درندوں کے معاشرے کا ایک فردجس کا مجھے بیٹا ہونے کی نسبت ہے قصور پنجاب میں رہتا ہے۔

قصہ یوں تھا کہ میرے نانا اور نانی شاہ عظمت صاحب کے گھر میں رہتے تھے ان کو اس گھر میں ایک خدمت گار اور نوکر کی حیثیت نہیں گھر کے فرد کی حیثیت حاصل تھی ایک مدت گزری تو انھوں نے یہ گھر چھوڑ کر اپنے لیے کرایے کا مکان لے لیا اور وہاں رہنے لگے۔۔میری ماں جوان تھی معاشرے کے درندوں میں سے ایک درندہ بکر آباد میں رہتا تھا اس کا نام محمور تھا وہ چترال کی معصوم عورتوں کا نیچے شہروں میں رشتہ کراتا ان کو بیجتا نیچے شہروں قصبوں اور دیہات سے لوگ رشتے کرنے آتے وہ ان کا رشتہ کراتا ان کی کارتوتوں کی بدولت چترال کی بے قصور لڑکیاں سستے داموں بیجی جاتیں اور چترال کا نام بد نام تھا کہ یہاں پر عورتیں اور لڑکیاں فروخت کی جاتی ہیں۔محمور نے کئ لڑکیوں کو تباہ کیا تھا حالانکہ چترال جیسے مہذب علاقے میں محمور کی کارتوتوں کا چترال پولیس کو انتظامیہ کو اورمعاشرے کے فرد فرد کو پتہ تھا تنظیم عضیمت چترال کو پتہ تھا اس کے وجود اس درندے کے شر سے کوئی محفوظ نہ تھا انھوں نے میری ماں کو قصور کے ایک شخص “کھڈی” نام کے ہاتھوں بیج دیا شادی ہوئی تو میری ماں سے اس شخص کی دو اولادیں ہوئیں۔ایک بیٹا ایک بیٹی۔۔تیسری اولاد یعنی میں اپنی ماں کے بدن میں پرورش پایا تھا کہ ان لوگوں نے میری ماں کو بکر آباد لا کر رات کے اندھیرے میں گاڑی سے اتار کر بھاگ گئے۔میری ماں بے یارو مددگار وہاں ایک گھر میں پناہ لی۔صبح اپنے پرانی محسن شاہ عظمت کے گھر آئی کیونکہ میرے نانی نانی جو کرایے کے مکان میں تھے فوت ہوچکے تھے اب ان کا کوئی ٹھکانہ بھی نہ تھا۔اس وقت میں اپنی ماں کے جسم میں دو مہینے کا تھا۔اس گھر میں میری پیدائش اور پرورش ہوئی۔

قصور والے شخص کا پتہ نہ چلا۔۔اب میری عمر سترا سال ہے۔میرا کوئی باپ نہیں۔مجھے زندہ رہنا ہے سکول جانا ہے شناختی کارڈ بنانا ہے اپنے پیارے پاکستان میں شہر شہر پھرنا ہے گھومنا ہے لیکن بغیر باپ کے میرا کارڈ نہیں بنتا۔میری ماں نے Dpoصاحبہ چترال سے رابطہ کیا۔۔Dpo صاحبہ ایک خاتون ہیں عورت کا اور اولاد کا درد خوب جانتی ہیں انھوں نے میری ماں کی مالی معاونت کی اور یقین دلایا کہ وہ قصور والے ان لوگوں کو بلائیگی اور مسلہ حل کرے گی۔پھر مسلسل پولیس سے رابطے کے باوجود کچھ نہیں ہوا۔محمور درندے سے پولیس نے رابطہ کیا تو وہ بہانے پہ بہانے بنا رہا ہے میں انسانوں کے ہجوم میں تنہا بے یارو مددگار کھڑا ہوں۔اس ملک میں بظاہر انتظامیہ مقننہ پولیس اور عدالتیں ہیں لیکن اگر کوئی فریاد کرنے پہ آجایے تو تنہا رہ جاتا ہے اور اس کی فریاد صدا بہ صحرا ہوتی ہے۔یہاں پہ تو محمور اور قصور والا کھڈی جیسے مجرموں کو کوئی لگام نہیں دیتا اور پھر ان کے ظلم کے شکار مظلوموں کی فریاد کوئی نہیں سنتا۔میں کہاں جاوں۔اگر ڈی پی او صاحبہ قصور کے ڈی پی اوکو ایک کال کرے تو وہ لوگ ایک ہی دن میں یہاں بھیج دیے جائنیگے مجھے اس بندے کا شناختی کارڈ چاہیے کہ میں اس کی اولاد کی حیثیت سے اپنا کارً ڈبنا سکوں۔ میں اور میری ماں اس تحریر کے زریعے اس ملک خداداد کے ہر فرد سے اپیل کرتے ہیں۔چترال کی پولیس, ڈی سی کمانڈانٹ سے اپیل کرتے ہیں۔چترال کی عدلیہ سے اپیل کرتے ہیں کہ میرے درد کو سمجھا جایے مجھے بے سہارا نہ چھوڑا جایے مجھے شناخت چاہیے ایک باپ کی شناخت۔۔اور محمور جیسے درندوں سے اس معاشرے کو پاک کرنے کی دھائی۔

مدثر خان۔زرگرندہ چترال

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
58976

امام شافعی رحمۃ اللہ تعالی علیہ-(29رجب یوم وفات کے موقع پر خصوصی تحریر)-ڈاکٹر ساجد خاکوانی

Posted on

بسم اللہ الرحمن الرحیم
امام شافعی رحمۃ اللہ تعالی علیہ
(29رجب یوم وفات کے موقع پر خصوصی تحریر)
ڈاکٹر ساجد خاکوانی(اسلام آباد،پاکستان)

ایک زمانہ میں امت مسلمہ کے اندر گیارہ یا اس سے بھی زیادہ مکاتب فکر کا رواج تھااور شرق و غرب میں اتنی ہی تعداد کے ائمہ کی پیروی کی جاتی تھی۔وقت کے ساتھ ساتھ کچھ مکاتب فکر معدوم ہوتے گئے اور تاریخ کا حصہ بن گئے،جیسے اندلس میں جب مسلمانوں نے قدم رکھا تو کم و بیش ایک یا ڈیڑھ صدی تک وہاں امام اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ کی فکر غالب رہی لیکن بعد میں فقہ مالکی نے اس کی جگہ لے لی۔یہی صورت حال پوری امت میں رہی کہ ایک جگہ پر کسی ایک فکر نے غلبہ پائے رکھا لیکن کچھ ہی عرصہ بعد اس فکر پر کوئی دیگر مدرسہ غالب آگیا۔اب صدیوں سے پوری امت کے اندر بالاجماع پانچ مکاتب فکر رائج ہیں جنہیں مذاہب خمسہ یا پانچ فقہی مسالک بھی کہتے ہیں۔یہ مسالک اگرچہ اپنے بانیان کے نام سے ہی موسوم ہیں جیسے امام نعمان بن ثابت ابو حنیفہ کا مسلک،فقہ حنفی،امام مالک بن انس کی فکر فقہ مالکی،امام احمد بن حنبل کی فقہ فقہ حنبلی،امام محمد بن ادریس شافعی کی فقہ فقہ شافعی اور امام جعفرصادق کی فقہ فقہ جعفری کہلاتی ہیں۔لیکن ان مسالک کی قانون سازی میں صدیوں سے بے شمار دیگر ماہرین قوانین اسلامیہ کی کاوشیں داخل رہی ہیں اور بعض اوقات تو انہیں مسالک کے قوانین اپنے بانیان کی رائے کے خلاف بھی مرتب ہوئے ہیں لیکن بہرحال تاریخ نے ان مدرسہ ہائے فکرکو ان کے بانیان سے ہی موسوم کر رکھا ہے۔

امام شافعی رحمۃ اللہ تعالی علیہ (150-204ھ)کااصل نام محمد بن ادریس تھا،آپ عربی النسل تھے،عبدمناف پر جاکرآپ کا شجرہ نسب محسن انسانیتﷺسے مل جاتاہے جبکہ آپ کا ننھیال یمنی قبائل میں سے تھا۔امام شافعی 150ھ بمطابق 768ء میں فلسطین کے مشہور مقام غزہ میں پیداہوئے۔آپ کے والد محترم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے تو غزہ میں آباد ہوئے تھے،آپ کے جد امجد کے بارے میں کہاجاتاہے کہ وہ جنگ بدرمیں بنوہاشم کی طرف سے علم بردارتھے،مسلمانوں کے ہاتھوں گرفتارہوئے اور رہائی پاکراسلام قبول کرلیا۔امام شافعی ؒ کی ولادت کے کچھ ہی عرصہ بعد والد کاانتقال ہوگیاتو والدہ نے واپس مکہ مکرمہ کاقصد کیااس وقت امام صاحب کی عمر مبارک فقط دوسال ہی تھی،چنانچہ امام شافعی کی ابتدائی زندگی اور تعلیم و تربیت مکہ مکرمہ کے مقدس وبابرکت ماحول میں ہی ہوئی۔مسلم بن خالد الزنجی جو مفتی مکہ تھے امام صاحب کے پہلے استاد مقررہوئے اور یوں علم کے منارے کا سفر معرفت شروع ہوا۔روایات کے مطابق سات سال کی مختصرعمر میں قرآن مجید کا حفظ مکمل کیا۔ابتداََعربی زبان و ادب کی طرف متوجہ ہوئے لیکن استادمحترم مسلم بن خالد زنجی نے بے پناہ قوت حافظہ کے باعث تعلیم فقہ کی طرف مائل کردیا۔چنانچہ اسی نیت سے آغاز شباب میں اسفارعلمیہ کی خاطر سب سے پہلا سفر مدینۃ النبیﷺکاکیااور وہاں امام مالک بن انس سے موطاکادرس لیا۔امام مالک ؒحیران تھے کہ یہ نوجوان کتنی جلدی سے اسباق کو یادکرلیتاہے کیونکہ دس سال کی مختصر عمر میں ”موطا امام مالک“آپ کو زبانی یاد تھی۔اس کے بعدمکہ مکرمہ اورپھر بغدادجیسے علمی شہر کی طرف سدھارگئے جہاں انہوں نے بہت سے جید علمائے حدیث و فقہ کے سامنے زانوے تلمذ تہ کیااور خاص طورپر امام محمد بن الحسن الشیبانی کی بھی شاگردی اختیار کی جو کہ امام ابوحنیفہ کے بہت مشہور طالب علم ہیں۔امام شافعی ؒ کے اساتذہ کی تعداد اکیاسی تک پہنچتی ہے جن میں امام سفیان بن عیینہ جیسی نابغہ روزگار ہستی بھی موجود ہیں۔امام نے بہت جلداہلیان علم میں اپنا مقام پیداکرلیااور پندرہ سال کی عمر میں فتوی کی اجازت حاصل کر لی، جس کے باعث عباسی خلیفہ ہارون الرشید نے انہیں نجران کا قاضی تعینات کردیا۔اپنی منصبی ذمہ داریوں کے دوران جب علویوں نے ملوکیت کے جبرواستبدادکے خلاف بغاوت کی تو امام شافعی نے ان کاساتھ دیاجس کے باعث شاہی افواج نے انہیں پابندسلاسل کردیااور ”رقہ“نامی شہر میں ہارون الرشیدکے سامنے پیش کیا۔اس وقت امام محمد الشیبانی قاضی القضاہ تھے جن کی سفارش پر بادشاہ نے آپ کی جان بخشی کردی لیکن منصب قضا سے ہاتھ دھونے پڑے۔یہ 187ھ کی بات ہے۔

امام شافعی ؒنے میدان عمل کے بعد ایک بار پھر مدرسہ علم میں قدم رکھااورابتداََبغدادکو اپنا مرکز بناکر فقہی فتاوی دینے لگے،یہ فتاوی فقہ حنفی اورفقہ مالکی کی روشنی میں اجتہادذاتی سے مرتب کیے گئے تھے۔آپ کے اس زمانے کے فیصلے ”المذہب القدیم للامام الشافعی“کہلاتے ہیں یعنی امام شافعی کے قدیم فیصلے۔امام شافعی چونکہ خود مجتہدتھے اس لیے ان کے بعض فتاوی احناف کے مخالفت میں آنے لگے توشہر بغدادجوکہ حنفیوں کا گڑھ تھاوہاں ان کی مخالفت شروع ہو گئی۔مخالفت کے نتیجے میں فتنے سے بچنے کے لیے امام شافعی نے 188ھ میں بغدادکو خیرآبادکہااورمکہ کی طرف سدھارگئے۔مکہ میں ایک لمباعرصہ گزارنے کے بعد ایک بار پھرامام کو بغدادکی صحبتیں یادآنے لگیں تو 197ھ میں باردیگر بغدادمیں قدم رنجہ فرمایا۔اب کی دفعہ ان کا پایہ علمی اس قدر بلندہوچکاتھا کہ خلیفہ وقت مامون الرشیدنے انہیں منصب قضا پیش کیا۔مومن ایک سوراخ سے دوبار نہیں ڈساجاتاکے مصداق امام نے اس منصب جلیلہ کی پیشکش ٹھکرادی کیونکہ بادشاہوں کے ہاں قاضی بننے کا مطلب ہے کہ فیصلہ بادشاہ کااور دستخط منصف کے۔دریامیں رہ کر چونکہ مگرمچھ سے بیر نہیں رکھاجاسکتااس لیے بادشاہ کوانکارکے بعد عافیت اسی میں تھی قیام بغدادکوترک کردیاجائے۔امام کی طبیعت نے دار موسی علیہ السلام کوپسندیدگی عطاکی اور قاہرہ کو مسکن بنایا۔یہاں انہوں نے اپنے شاگردوں کوکثرت سے املاء کروائی جس سے متعدد کتب وجود میں آئیں۔ان میں سے کئی کتب کاامام شافعیؒ نے لکھوانے کے بعد بغرض اصلاح دوبارہ سماع بھی کیاتاکہ لکھنے میں کی گئی غلطیوں کا تدارک کیاجاسکے۔ مورخین اس بات پرمتفق ہیں کہ امام شافعیؒ سے منسوب کم و بیش کل تحریری مواداسی دورمیں مرتب کیاگیا۔علوم اسلامیہ کا یہ منارہ نور 29رجب 204ھ کو 54سال کی عمر میں مصر کے شہر فسطاط میں دائی اجل کو لبیک کہ گیا۔

مزاج میں بہت سادگی تھی،آپ کی روٹی کبھی بھی آپ کے ہاتھ سے بڑی نہ ہوسکی اسی لیے ساری عمر پتلے دبلے جسم کے مالک ہی رہے۔سخاوت خاندانی ورثہ تھااورگفتگومیں ادبیت اور فصاحت و بلاغت غالب رہا کرتی تھی اورآپ کے سامعین میں ایک معقول تعدادصرف آپ کی زبان دانی سے محظوظ ہونے آتی تھی۔بعد میں آنے والے ماہرین عربی زبان جنہیں صرفی و نحوی عالم کہاجاتاہے،انہوں نے آپ کے اشعارکو عربی گرائمرکی بنیادقراردیا۔تعامل سنت نبویﷺ اثاثہ حیات رہا اس لیے امت نے آپ کو ”ناصر السنۃ“کا لقب بھی عطا کیاہے۔آپ اپنی رات کے تین حصے کرتے تھے،ایک حصہ تعلیم،دوسرا حصہ عبادت و ریاضت اور تیسرے حصے میں آرام فرماتے تھے۔گالوں پر گوشت بہت کم تھا،جب چہرے پر ہاتھ رکھتے تو ریش مبارک ہتھیلیوں میں چھپ جاتی تھی،گھنگریالے بالوں پر رنگ حناجماتے تھے۔طبیعت میں نفاست و نزاکت بہت زیادہ تھی اسی لیے عطریات کابہت اعلی ذوق پایاتھا حتی کہ مسجد کے جس ستون سے سہارالے کر درس ارشادفرماتے تھے وہ بھی معطر کیاجاتاتھا۔درازقد تھے اور خوش لباسی میں اپناثانی نہیں رکھتے تھے۔
امام شافعی ؒنے فقہ شافعی کی بنیاد رکھی اور اسلامی قوانین کو مرتب کرنے کے لیے قانون سازی کی۔اس مکتب فکر کے ماننے والے ”شوافع“کہلاتے ہیں۔امام شافعی کی کتب میں سب سے اہم کتاب ”الرسالہ“ہے جس میں انہوں نے اسلامی قانون سازی کے جملہ اصول مر تب کیے ہیں۔مجتہدین مطلق میں سے صرف امام شافعی واحد ایسے امام ہیں جنہوں نے اپنے اصول ہائے فقہ کو خود مرتب کیا،باقی ائمہ کے اصولوں کو ان کے بعد آنے والوں نے یاان کے شاگردوں نے مرتب کیا۔”کتاب الام“ بھی امام شافعیؒ کی مرتب کردہ کتاب ہے جو فقہ شافعی کی امہات الکتب میں شمار کی جاتی ہے۔امام شافعی ؒکی روایت کردہ حدیثوں کو ”مسند امام شافعی“کے نام سے جمع کیاگیاہے،ان کے علاوہ امام شافعی سے کئی عربی نظمیں اور اشعاربھی منسوب ہیں جو ادب کی کتب میں گاہے گاہے نظر آتے ہیں۔ان کی فقہ نے امت مسلمہ میں صدیوں طویل پزیرائی حاصل کی۔آج بھی انڈونیشیا،ملائشیا،سری لنکاکے مسلمان اور کچھ افریقی و عرب ممالک کے خطے کلی یا جزوی طورپر فقہ شافعی کے پیروکار ہیں۔صلاح الدین ایوبی ؒنے امام شافعی کے مزار پر ایک بہت بڑامدرسہ بھی بنوایا جہاں مسلمان نوجوانوں کو دینی تعلیم فراہم کی جاتی تھی۔امت مسلمہ کی تاریخ میں بعض بڑے بڑے نام فقہ شافعی کے پیروکار رہے ہیں،ان میں امام بیہقیؒ،حکیم النیشاپوریؒ،جلال الدین سیوطیؒ،امام الذہبیؒ،امام غزالیؒ،ابن حجرالعسقلانیؒ،یحیی بن شرف النووی ؒاور امام الماوردیؒکے اسما ء سرفہرست ہیں۔

فقہ شافعی میں اسلامی قانون کا سب سے بڑا ماخذکتاب اللہ کومانا گیاہے یعنی قانون سازی کرتے ہوئے سب سے پہلی ترجیح قرآن مجید ہوگا،پھر سنت رسول اللہ ﷺ کوجس میں محسن انسانیت ﷺ کے اقوال،افعال اور سکوت شامل ہیں،قانون سازی میں تیسری ترجیح اجماع امت ہے جس میں اولین مقام اجماع اصحاب رسولﷺکا ہے اور پھر بعد میں آنے والے علمائے حق کا اجماع۔دیگرمکاتب فکرمیں اجماع کے بعد قیاس کااعتبارکیاجاتاہے لیکن فقہ شافعی میں اجماع کے بعد کسی ایک صحابی کے فتوی کومعتبرجاناجاتاہے،یعنی قیاس سے پہلے دیکھاجائے گا کہ نوپیش آمدہ مسئلہ میں کسی صحابی کا قول ہے؟؟اگرقول میسر آگیاتو قیاس پر عمل نہیں کیاجائے گااورقول صحابی کو کسی بھی قیاس پر ترجیح حاصل ہو گی تب اس کے بعد قیاس شرعی کی باری آتی ہے۔دیگرمدرسہ ہائے فقہ کے معتبر ماخذاستحصان اوراستصلاح سے شوافع انکارکرتے ہیں اور ان کی شرعی حیثیت کو تسلیم نہیں کرتے۔ان دونوں ماخذوں میں انسانی سہولت کوپیش نظر رکھ کر احکام شریعت سے گنجائش نکالی جاتی ہے لیکن فقہائے شافعیہ اس قانون سازی کو ماننے کے لیے تیار نہیں۔اس فقہ کوتاریخ اسلام میں سلجوقیوں نے،ایوبیوں نے،مصر کے مملوکوں نے، شام کے حکمرانوں ”الزنکیہ“نے اور ماضی قریب میں شریف مکہ نے اپنی اپنی ریاستوں میں بطورسرکاری قانون کے نافذ کیا۔ابتدامیں عثمانی ترکوں نے بھی فقہ شافعی کو ہی ملکی قانون کے طورپر اپنی ریاست میں نافذکیاتھالیکن بعد میں بوجوہ فقہ حنفی کونافذ کردیاگیا۔فی زمانہ اس مسلک اسلامیہ کے پیروکارزیادہ تر مشرقی مصر،صومالیہ،اریتیریا،ایتھوپیا،جبوتی،یمن،فلسطین،لبنان،وسطی ایشیائی ریاستیں اورانڈونیشیا،ملائشیا،سری لنکا،مالدیپ،سنگاپور،برونائی فلپائین اورتھائی لینڈ میں پائے جاتے ہیں۔
[email protected]

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
58970

داد بیداد ۔ تعلیم اور کتب خا نہ ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

داد بیداد ۔ تعلیم اور کتب خا نہ ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

آج نویں یا دسویں جما عت کے طا لب علم سے مو با ئل فو ن لیکر کتاب اس کے ہاتھ میں دیدو وہ قبول نہیں کرے گا اگر باپ یا استاد ہونے کا واسطہ دے کر آپ نے بچے کو سمجھا نے کی کو شش کی تو الٹا وہ آپ کو سمجھا نے میں کا میاب ہو گا کہ آج کا دور کتاب کا دور نہیں یہ انٹر نیٹ اور سمارٹ فو ن کا زما نہ ہے تم دقیا نوس کے زما نے کی باتیں نہ کرومیرا سمارٹ فو ن واپس کر و ہمارے ہم جما عت دوست جب بھی ملتے ہیں 1966ء میں سکول کے کتب خا نے سے لیکر پڑھی ہوئی کتا بوں کا ذکر کرتے ہیں، ہم نے مو لا نا حا لی کی مسدس، نسیم حجا زی کے نا ول اور علا مہ اقبال کی با نگ درا سکول کے کتب خا نے سے لیکر پڑ ھی تھی ہم ہفتے میں ایک کتاب لیتے تھے.

اگلے ہفتے اُس کو واپس کر کے دوسری کتاب لا تے تھے ایک استاد سکول کے کتب خا نے کا ذمہ دار ہوا کر تا تھا لمبی چھٹیوں پر گھر جا تے وقت ہم اصرار کر تے تھے کہ استاد ہمیں ایک ساتھ 10کتا بیں دے دے اور چھٹیوں کے بعد جر ما نہ کے بغیر واپس لے لے استاد کہتا تھا ایک ہی دن دو قوا نین توڑ ے نہیں جا تے ہفتہ سے زیا دمدت کے لئے کتاب دینے کا قا نون نہیں ہے ہفتہ سے زیا دہ مدت گذرے تو جر ما نہ لگنا قانون ہے یہ نہیں ہو سکتا گذشتہ روز ہماری جما عت کے چار دوست اکھٹے ہوئے 56سال پرا نی یا دوں کو تا زہ کرنے کے لئے سکول گئے لا ئبریری کو تلا ش کیا تو لائبریری نہیں ملی، ہمیں بتا یا گیا کہ لائبریری ختم ہو چکی ہے ہمارے ساتھی کو یا د تھا لائبریری میں 2800کتا بیں تھیں، وقت کی رفتار کے حساب سے اب اس لائبریری میں کم از کم 10ہزار کتا بیں جمع ہو نی لا زمی تھی مگر وقت آگے نکل گیا.

سکول پیچھے رہ گیا، 1966ء میں معا ئنہ افیسر سکول کا معا ئنہ کر تا تو پورا دن لا ئبریری میں گذار تا تھا، وہ کتا بوں کی تعداد کے ساتھ ہر کتاب کے اوراق، اس کی جلد بندی وغیرہ کی حا لت کو بھی دیکھتا تھا اگلے سال کے لئے مزید بہتری کی سفارش کر تا تھا، 1966ء کا دور انگریز وں کی حکومت کا قریبی دور تھا، انگریزوں کے قواعد و ضوابط اور طور طریقے لو گوں کو یا د تھے انگریز افیسر کتا بوں کا حد درجہ شو قین ہو تا تھا وہ لا لٹین کی مدھم روشنی میں آدھی رات تک کتا ب پڑھتا تھا یا کتاب لکھتا تھا ہم کمرے میں چار چار ٹیو ب لا ئٹ لگا ئے ہیں 200واٹ کا بلب الگ جل رہا ہے لیکن کتا ب پڑھنے کو جی نہیں چاہتا، سکولوں میں نہ کتب خا نے ہیں نہ طلبہ کو کتب خا نے کا پیریڈ لائبریری آور دیا جا تا ہے سکول کے ٹا ئم ٹیبل سے کتب خا نے کا پیریڈ نکا ل دیا گیا ہے ہم نے آگے بڑھنے کے بجا ئے پیچھے مڑ نے اور واپسی کا سفر اختیار کرنے پر اپنی توا نا ئیاں صرف کی ہوئی ہے 1966ء میں ہم ساتویں جما عت میں پڑھتے تھے ہمارے کمرہ جما عت میں چار نقشے تھے،

دنیا کا نقشہ الگ تھا ایشیا کا نقشہ الگ تھا، پا کستان کانقشہ بھی تھا ہمارے ضلع کا نقشہ بھی تھا آج آپ 10سکو لوں کا دورہ کریں آپ کو کسی سکول کے کسی بھی کلا س روم میں کوئی نقشہ نہیں ملے گا کسی بھی سکول میں لائبریری نہیں ملے گی اگر پر انے زما نے کی لائبریری ملی تو اُس پر 50سالوں سے تا لا لگا ہوا ملیگا ہمارے بیٹے 1991ء میں جس نجی سکول میں پڑھتے تھے اُس نجی سکول کا پرنسپل مسٹر رچرڈ ایلیسن بر طا نوی شہری تھا لندن شائر کا با شندہ تھا اُس نے سکول میں ریسورس روم بنا یا ہوا تھا اُس کمرے میں کھلونے تھے، ڈرائنگ کا سامان تھا اور سینکڑوں کتابیں تھیں وہ چو تھی جماعت کے طا لب علموں کو 3دنوں کے لئے کہا نیوں کی کتا بیں دیتا تھا کہا نیوں کی ان کتا بوں نے بچوں کے اندر پڑھنے کا شوق پیدا کیا پھر یہ شوق بڑھتے بڑھتے عادت کا در جہ اختیار کر گیا رچرڈ ایلیسن کے شا گرد آج خود بھی کتا بیں پڑھتے ہیں دوسروں کو بھی کتا بوں کے تحفے بھیجتے ہیں، یہ رچرد ایلیسن کا کما ل ہے کہ اُس نے 3سا لوں میں بچوں کے اندر کتاب سے دوستی کا جذبہ اجا گر کیا، اگر کسی سُہا نی صبح یا چا ندنی رات کو تعلیم کے کسی وزیر سے اچا نک ملا قات نصیب ہو تو میں ایک ہی بات کہوں گا جناب عا لی! سکو لوں میں کتب خا نے کا رواج واپس لاؤ کبھی دفتر سے با ہر نکلنے کا موقع ملے تو کسی سکول میں جا کر لا ئبریری ڈھونڈ و، نا کام لوٹنے سے پہلے کسی ایک سکول میں لائبریری کھو لنے کا حکم دو، کیونکہ تعلیم کا کتب خا نے سے براہ راست تعلق ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
58933

رمضان کی تیاری کیسے کریں؟ – انعم توصیف، کراچی

رمضان المبارک کی آمد بس چند روز کی مسافت پر ہے۔ یہ اللہ پاک کا تحفہ ہے جو امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کیا گیا۔ ہم کہتے ہیں کہ یہ مہینہ مہمان ہے جو ہمارے گھر آتا ہے لیکن میں کہتی ہوں رمضان تو مہمان نہیں ہے۔ یہ تو ہر سال اللہ کے حکم سے آتا ہی رہے گا۔ جب تک دنیا قائم رہے گی یہ مہینہ آئے گا۔ مہمان تو ہم ہیں جو آج ہیں اور کل جانے ہم کہاں ہوں گے؟ بلکہ ہمیں اگلے پل کا ہی نہیں پتا کہ ہم سانس لے سکیں گے یا ہماری زندگی کی مدت تمام ہوجائے گی۔ گذشہ برس کتنے لوگ ہمارے ساتھ اس ماہ مبارک میں حیات تھے۔ جو اب رضائے الٰہی سے منوں مٹی تلے جا سوئے ہیں۔ کیا ان کے جانے سے یہ مہینہ اس سال نہیں آئے گا؟ کیا ان کی وجہ سے یہ مہینہ ہمارے گھروں کا راستہ نہیں دیکھے گا؟ ایسا نہیں ہے یہ ماہ مبارک اب بھی اللہ کی مرضی سے اپنی رحمتوں اور برکتوں کے ساتھ ہم پر انتیس یا تیس دنوں کے لیے سایہ فگن رہے گا۔

ہم اس کے لیے تیاری یہ سوچ کر کریں کہ اگر یہ ہماری زندگی کا آخری رمضان ہو تو ہم اس کو ویسے گزار لیں جیسے گزار کر ہمارا دل مطمئن ہو جائے کہ اب اگر مر بھی جائیں تو ہماری قبر کو اس رمضان میں کی گئی عبادتیں اور نیکیاں روشن و معطر کردیں گی۔ صفائی نصف ایمان ہے۔ پورا سال ہی ہمیں اپنے گھروں کو صاف ستھرا رکھنا چاہیے لیکن ہمارے ہاں رواج بھی ہے اور ضرورت بھی کہہ لیں کہ رمضان المبارک سے پہلے گھروں کو صاف کیا جاتا ہے۔ کیونکہ رمضان کا پورا مہینہ دیگر کاموں سے فرصت میسر نہیں اتی اور نہ ہی شدید گرمی کے روزوں میں اتنی ہمت ہوتی ہے کہ ہم گھر کی تفصیلی صفائی کرسکیں۔ اس لیے گھر کی ایسی صفائی کہ جالے جھاڑنا، الماریوں کے اندر کی صفائی، پیڑ پودوں کی کٹائی، پردوں کی دھلائی وغیرہ غرض ہر قسم کے کونے کھدروں کو صاف کیا جائے۔ یہ سب کام گھر کی عورتوں کی ہی ذمہ داری نہیں۔ مرد حضرات کے پاس بھی اگر وقت ہو تو وہ لازمی خواتین کی مدد کریں۔ گھر بناتی عورت ضرور ہے۔ اس کے لیے گھر سے باہر محنت مرد مزدوری مرد کرتا ہے لیکن رہتے وہ دونوں ہی ہیں۔ لہذا یہ کام دونوں کی ہی زمہ داری ہے۔ آپ پیار محبت سے یہ کام کریں گے تو آپ کے بچوں کو بھی اس سے بہت اچھا سبق ملے گا۔ 

رمضان المبارک میں ہمارے ہاں کھانے کے معمولات بالکل بدل جاتے ہیں۔ کوئی کتنا ہی سمجھالے لیکن جن لوازمات کے ہم عادی ہوچکے ہیں ان کو چھوڑنا مشکل بلکہ ناممکن سا ہے۔ پکوڑے سموسے یہ چیزیں عام طور پر ہر گھر میں کھائی جاتی ہیں۔ ان کے ساتھ چٹنیاں کھانا بھی فرض ہے۔ تو یہ ساری چٹنیاں جن کے بغیر ہمارا کھانا پورا نہیں ہوتا۔ ان کو پہلے سے ہی بنا کر محفوظ کرلیں۔ ان کو خراب ہونے سے بچانے کے لیے اس میں سرکہ کو بھی بطور جز شامل کرلیں۔ گھر میں ہی سموسے، رول اور کباب بنا کر فریز کرلیجیے تاکہ حفظان صحت کے اصولوں پر بھی با آسانی عمل کیا جاسکے۔ نیت یہ بھی کیجیے یہ سب ہم اکیلے نہیں کھائیں گے کسی نہ کسی ضرورت مند کو اپنے ساتھ کھانے میں ضرور شامل کریں گے۔ ان شاءاللہ نیت کریں گے تو رب برکت بھی دے گا۔ کھانے پینے سب اپنی جگہ لیکن رمضان کے مہینے کا مقصد تزکیہ نفس ہے۔ اب نفس پر اگر ہم ایک دم سے اتنی سختی کریں کہ ہم اس کو باور کرائیں کہ رمضان کا مہینہ آرہا ہے اس میں عبادت اتنی کرنی ہے کہ خود کو تھکا لینا ہے۔

ایک بات ذہن میں رکھیں ہم ایک دم سے اپنے نفس پہ اتنی مشقت ڈالیں گے تو رمضان کے بعد وہ تھک ہار کر دوبارہ اس ہی ڈگر پہ لوٹ آئے گا۔ اس کو تسکین پہلی روش اختیار کرکے ہی ملے گی۔ خود کو بدلنا ہوتا ہے تو آہستہ آہستہ خود میں تبدیلی لانی ہوگی۔ جو تبدیلی بتدریج آتی ہے وہ ہمیشہ رہتی ہے۔ کوئی بھی ایک بری عادت چھوڑنے کا تہیہ کرلیں۔ اس کو چھوڑنے کے لیے دعا بھی کریں۔ غصہ، غیبت، چغلی، ٹوہ میں رہنا، جھوٹ بولنا یا کوئی بھی ایسی عادت جو آپ کو لگتا ہے کہ آپ کو نقصان پہنچاتی ہے۔ آپ کے ارد گرد رہنے والوں خصوصا آپ کے گھر والوں کی تکلیف کا باعث بنتی ہو اس کو ترک کرنے کی کوشش کریں۔ نماز تو رمضان کے علاوہ بھی فرض ہے۔ رمضان میں ہر نیک عمل کا ثواب بڑھ جاتا ہے۔ اس ماہ یہ کوشش کریں کہ نماز وقت پہ ادا تو ہو لیکن ساتھ ہی نماز میں جو آپ پڑھ رہے ہیں اس کے معنی سمجھیے، یاد کیجیے۔

جو سورتیں آپ نماز میں پڑھتے ہیں ان کا ترجمہ اور تفسیر لازمی پڑھیے۔ ایک دم سے نہیں۔ آرام آرام سے اطمینان کے ساتھ۔ روزانہ بس آدھا گھنٹہ اس کام کے لیے وقف کیجیے۔ آدھا گھنٹہ نہیں تو بیس منٹ ہی نکال لیجیے۔ بیس دن میں آپ ان شاءاللہ نماز کو معنی کے ساتھ سمجھ کر پڑھنے لگیں گے۔رمضان المبارک کے مہینے سے قرآن پاک کو خصوصی نسبت ہے۔ کلام اللہ اس ہی مہینہ میں لوح محفوظ سے آسمانِ دنیا پر نازل کیا گیا۔ قرآن پاک کی تلاوت ہی نہیں اس کو سمجھنا ہم سب کے لیے ضروری ہے۔ اس کے سمجھنے میں سراسر ہمارا پی فائدہ ہے۔ جہاں اس کو سمجھنے سے اللہ پاک خوش ہوگا وہیں ہمیں زندگی کے ہر معاملے میں رہنمائی ملے گی۔ قرآن پاک کی جہاں آپ دس سورتیں ترجمے اور تفسیر کے ساتھ پڑھیں گے وہیں تھوڑی سی مزید ہمت بھی کیجیے گا۔ خود سے پڑھیں یا کسی استاد سے لیکن پڑھیے۔ اگر آپ تلاوت قرآن پاک کے عادی نہیں ہیں تو ہمت کیجیے دو صفحات، پاؤ پارہ جو بھی با آسانی پڑھ سکیں وہ پڑھیے اور پھر پڑھتے ہی جائیے یعنی رمضان ختم ہونے کے بعد بھی پڑھیے۔

یہ سب کام کرنے رمضان میں ہیں لیکن اپنی ذہن سازی رمضان سے پہلے کرنی ہے۔ اس لیے یہ سب چیزیں، یہ منصوبہ بندی رمضان کی تیاری میں ہی شمار ہوگی۔ نیت کرلیں کہ آپ کو روز کم از کم ایک نیکی کرنی ہے جس کا تعلق حقوق العباد سے ہو۔ ہر کام کے لیے وقت مقرر کریں۔ سوشل میڈیا سے تعلق رکھیں گے تو اس حد تک کہ آپ کے روزے پہ اس کا برا اثر نہ پڑے۔ ایسا ممکن نہیں کہ ہم بالکل ہی سب چھوڑ کر بیٹھ جائیں۔ کرنے والے ایسا کرتے بھی ہیں لیکن ہم عمومی بات کر رہے ہیں۔ اس ماہ میں لوگ نیکیوں کی طرف راغب ہوتے ہیں۔ کوشش کریں اگر آپ کوئی بات یا پیغام لوگوں تک پہنچانا چاہیں تو اس ماہ میں پہنچائیں لیکن بات مختصر اور پر اثر ہو۔ تاکہ لوگ توجہ دیں۔ واٹس ایپ اسٹیٹس پہ کوئی اچھی بات بات، کوئی نیک اور مختصر عمل کرنے کی ترغیب دے دیجیے۔  یہ چند باتیں ہیں جن کو کرنے کا ارادہ آپ ابھی سے کرلیجیے۔ ابھی سے نیت کریں گے تو ہی رمضان تک عمل کرسکیں گے۔ تمام امت مسلمہ کو دعاؤں میں یاد رکھیں۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
58927

آدمی نہیں ملتے ! – قادر خان یوسف زئی کے قلم سے

آدمی نہیں ملتے ! – قادر خان یوسف زئی کے قلم سے

حکیم جی ، رات بھر کھانسی اٹھتی ہے ، پسلیاں دُکھ جاری ہیں ، ایک منٹ کے لیے سونا نہیں ملتا ۔
” بڑے میاں ، یہ بڑھاپا ہے ۔“، حکیم جی نے کہا ۔ِ حکیم جی بھوک قطعاً بند ہے ، دو لقمے کھا لیتا ہوں تو چھاتی پر بوجھ بنے رہتے ہیں ۔” بڑے میاں ، یہ بڑھاپا ہے ۔“، مریض تو فہرست لیے بیٹھا تھا ، پھر کہا کہ بینائی کم ہو رہی ہے ۔ اب سنائی بھی اونچا دیتا ہے، اٹھتا ہوں تو پاﺅں لڑکھڑاتے ہیں۔” بڑے میاں ، یہ بڑھاپا ہے ۔“، یہ سنتے ہی مریض چراغ پا کہ تجھے کس پاجی نے حکیم بنا دیا ، گدھا کہیں کا ، میں جو کچھ کہتا ہوں ، کہہ دیتا ہے ، بڑھاپا ہے ؟۔” بڑے میاں ، یہ بڑھاپا ہے ۔“ ، حکیم نے مسکراتے ہوئے کہا۔بڑے میاں اور حکیم جی کا قصہ ، افسانہ ہو یا لطیفہ لیکن یہ حقیقت ہے کہ کسی کی بے قاعدگی پر بات کی جائے تو ایک ہی جواب سننے کو ملتا ہے کہ بہتری کہاں سے لائیں ، کیاکریں آدمی نہیں ملتے ۔ ہم کالم ، رپورٹس اور عوام شکایتیں و تجاویز لکھ لکھ کر تھک جاتے ہیں ،

دفاتر کے اتنے چکر لگانے پڑتے ہیں کہ گنتی تک بھول جاتے ہیں کہ کس دفتر میں جانے کے لیے کتنے زینے چڑھے اور پھولی سانس کے ساتھ کتنی سیڑھیاں سنبھل سنبھل کر نیچے اترے ،لیکن اس جواب کو کبھی اس لیے نہیں بھول پاتے کیوں کہ ایک ہی جواب ملتا ہے کہ ’ کیا کریں آدمی نہیں ملتے ؟ “ ۔ اہل دانش اور باشعور طبقہ اس امر کی ضرورت کو اجاگر کرتے کرتے بے حال ہوگئے کہ حکومت اور عوام میں رابطہ پیدا کیا جائے ، ملکی اجتماعی مفادات پر سیاسی مفاہمت ہو ، اختلاف کو ایک جانب رکھ عوام کا بھی باہمی اعتماد بڑھایا جائے ۔ تو رٹا رٹایا جواب ملتا ہے کہ ” کیا کریں ، آدمی نہیں ملتے “۔ تو کیا کریں ، اگر ایسا ہے تو آدمی پیدا کرنے میںکوئی سبیل کیجئے ، اس طرح کیسے کام چلے گا اور پھر سر پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں جب یہ جواب ملتا ہے کہ ، اس کے لیے بھی آدمیوں کی ضرورت ہے اور آدمی ملتے نہیں۔گھروں پہ نام تھے ناموں کے ساتھ عہدے تھےبہت تلاش کیا کوئی آدمی نہ ملاارباب بست و کشا یہ جواب دے کر مطمئن ہوجاتے ہوں گے کہ ان پر جو فرائض عائد ہوتے ہیں ، وہ ان سب سے سبکدوش ہوگئے لیکن یہ معاملہ ایسا نہیں جسے یہیں تک ختم کردیا جائے ، یہ ساری قوم کی زندگی اور موت کا سوال ہے ،

اگر یہ حقیقت ہے کہ کروڑ وںکی آبادی میں اتنے بھی آدمی نہیں یا ایسے بھی نہیں کہ ان کے ہاتھ میں زماّم ملت ، اعتماد اور بھروسہ سے سونپی جاسکے تو یہ مقام بڑے غور و فکر کا ہے ۔ کوئی حکومت اور نظام آدمیوں کے بغیر نہیں چل سکتا ، نہ کبھی چلا ہے اور نہ یہ چلے گالیکن میری ناقص رائے میں صورت حال ایسی مایوس کن بھی نہیں، جیسی بتائی جاتی ہے ، ہماری قوم ایسی بھی بانجھ نہیں کہ اس میں آدمی پیدا ہونا بند ہوچکے ہوں ۔ نوجوان طبقے میںیقیناً ایسے ہونہار دل و دماغ موجود ہیں جو تھوڑی سی حوصلہ افزائی اور ترتیب سے نہایت موزوں آدمی بن سکتے ہیں ، موجودہ ارباب ِ حکومت کو دیکھئے ، ان میں سے کون سا ہے جس نے حکومتی کاروبار کی ٹریننگ حاصل کی تھی ؟ اگر یہ حکومت چلا سکتے ہیں تو ان جیسے یا ان سے بہتر اس زر خیز زمین میں مزید رفقاءکار کیوں نہیںبن سکتے۔ جنہیں آدمیوں کی ضرورت ہوتی ہے وہ آدمی پیدا کرنے میں انتظام کیا کرتے ہیں۔

ہمارے معاشرے میں ہزاروں تعلیم یافتہ صحیح الدماغ اور صاحب قلب افراد موجود ہیں جو محض اس لیے آگے نہیں بڑھ سکتے کہ وہ جاگیر داروں کے بیٹے نہیں ، وہ معاشی طور پر آزاد نہیں ،۔ وہ ” آدمی“ بن سکتے ہیں بشرطیکہ کسی کو آدمیوں کی فی الواقعہ ضرورت ہو ۔سب سے پر امن واقعہ یہ ہےآدمی آدمی کو بھول گیابغور دیکھئے تو یہ حقیقت نکھر کر سامنے آجائے گی کہ ہمارے ہاں ارباب اقتدار و سیاست کا چلن بالکل مطلق العنان ہے ، جس قدر اقتدار اور اختیار کسی کے ہاتھ میں آگیا ، وہ اس میں کسی اور کو شریک اور سہیم نہیں بنانا چاہتا ، بلکہ چاہتا یہ ہے کہ اِدھر اُدھر سے اور اختیارات بھی اسی کے قبضہ میں آجائیں ۔ نتیجہ یہ کہ نظام سیاست خراب سے خراب تر ہوتا جارہا ہے اور ان سے جب بھی شکایت کیجئے حکیم جی کی طرح ایک ہی جواب مل جاتا ہے کہ ” آدمی نہیں ملتے“ ۔

اگر دل سے چاہتے ہیں کہ مملکت مضبوط اور دنیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر برابری کی سطح پر بات کرےں تو صوبائیت ، لسانیت ، نسل پرستی اور فرقہ واریت کو چھوڑ کر مملکت کو مرکزی نظام کے ماتحت لے آیئے ، اس سے ایسا طبقہ جو محض پارٹیوں کے زور پر بر سر اقتدار آجاتا ہے اور شجر حکومت پر اکاس بیل کی طرح، اس طریقے سے چھا جاتے ہیں کہ بیل تو تر و تازہ ہو رہی ہو اور درخت دن بدن سوکھتا جائے ۔ ارباب ِ حل و عقد اورعوام کو بھی شعور سے کام لے کر ایسے نمائندوں کا انتخاب کرنا چاہیے کہ معیار انتخاب یہ رجحان نہ قرار پائے کہ کس کے تعین سے کون سا طبقہ یا پارٹی خوش ہوگی ۔ فنی شعبوں کو سیاست کے نذر کرنے کے بجائے عوام سے ایسے صاحب درک لوگوں پرمشتمل طبقہ بنائیں جو تمام امور پر مشاورت کرنا ضروری سمجھتا ہو۔ یہ سمجھ لیجئے کہ زمانہ ¿ جنگ سے گزر رہے ہیں ، اس لیے کام کی رفتار اسی نہج سے مقرر کیجئے ۔ پارٹی بازیاں اس قدر شدید اور محکم صورت اختیار کرچکی ہیں کہ اگر کچھ وقت اور یہی صورت رہی تو نظام کی مشینری خود کار پرواز ِ نادان دوستوں کے ہاتھوں تہس نہس ہوجائے گی ۔ پاکستان کے تحفظ کے لیے اپنا سب کچھ قربان کردینے کے لیے تیار تو رہتے ہیں لیکن قوم کا اعتماد حاصل کرنے اور ان سے رابطہ پیدا کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش بھی شاید اس لیے نظر نہیں آتی کہ آدمی نہیں ملتے۔سفینہ ¿ برگ گل بنا لے گا قافلہ مور ناتواں کاہزار موجوں کی ہو کشاکش مگر یہ دریا سے پار ہوگا

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
58925

داد بیداد ۔ دنیا کا امن ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

دنیا کا امن فر عون، نمرود اور چنگیز خان کے زما نوں میں بھی خواب تھا آج خلا ئی ترقی اور انٹر نیٹ کے عجا ئبات کی چکا چوند میں بھی دنیا کا امن ایک خواب ہے یورپ کے دوسرے بڑے ملک یو کرین پر روس نے حملہ کیا، یو کرین کے ایک ہوا ئی اڈے پر کھڑا دنیا کا سب سے بڑا ہوا ئی جہاز تباہ ہوا کہتے ہیں کہ یہ جہا ز 5سالوں میں 3ارب ڈالر خر چ سے مر مت ہو سکیگا جو لو گ جنگ میں ما رے جا رہے ہیں ان کی تعداد ہزاروں میں ہے جو زخمی، معذور یا بے گھر ہو رہے ہیں وہ لا کھوں کی تعداد میں ہیں، غیر ملکی طا لب علموں کو نہ پنا ہ کی جگہ ملتی ہے نہ با ہر جا نے کا راستہ ملتا ہے ان المیوں کا کوئی حساب نہیں.

30سال پہلے یو کرین کے پا س ایٹمی طا قت تھی امریکہ اور یو رپ نے کہا ایٹمی پرو گرام ختم کرو، تمہارا دفاع ہم کرینگے تمہیں غم اور پروا کرنے کی ضرورت نہیں 25فروری کو روس نے پہلا حملہ کیا تو پتہ چلا کہ یو کرین کے دفاع کا کوئی سسٹم ہی نہیں ہے امریکہ اور یو رپ نے دو دن بعد سلا متی کونسل میں جنگ بندی کی قرار داد پیش کی، قرارداد کے حق میں 11ووٹ آئے روس نے قرارداد کو ویٹو کر دیا بات ختم ہو گئی امریکہ اور یورپ نے اپنا وعدہ پورا کیا، نیٹو نے اپنا زور دکھا یالیکن افسوس یہ ہے کہ جا رحیت کرنے والے ملک روس نے قرار داد کو ویٹو کردیا چنا نچہ جنگ بندی اگر کبھی ہوئی تو فریقین کی رضا مندی سے ہو گی سلا متی کونسل کی قرار داد جنگ بندی نہیں کر واسکے گی.

دنیا کو تین باتوں کا اندازہ پہلے سے تھا، پہلی بات یہ ہے کہ فلسطین اور کشمیر کے مظلوم مسلما نو ں کے حق میں سلا متی کونسل میں آنے والی ہر قرار داد کو امریکہ ویٹو کرے گا، دنیا کو اس بات بھی اندازہ تھا کہ افغا نستان کے بعد امریکہ کسی اور ملک میں جنگ کا میدان سجا ئے گا وہ ملک امریکہ سے ہزاروں کلو میٹر دور ہو گا لو گ وہاں مرینگے امریکہ کو اسلحہ کی فروخت سے بڑا فائدہ ہو گا، تیسری بات یہ ہے کہ جو قوم خود اپنا دفاع نہیں کر سکتی اس کا دفاع کوئی دوسرا نہیں کر سکتا البتہ دنیا کو اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ امریکہ کی نئی جنگ کسی عیسائی ابادی کے خلاف ہو گی یو کرین کی جنگ خلا ف توقع ہے یو کرین میں عیسا ئی ابادی کے خلاف چھیڑ ی گئی ہے اور جنگ روس نے نہیں چھیڑی امریکہ نے چھیڑی ہے تفصیل اس اجمال کی بہت سادہ اور مختصر ہے امریکہ کے پا س 28یورپی ملکوں کا گروپ ہے جس کو نیٹو کا اتحا د کہتے ہیں.

عراق، لیبیا، شام، یمن اور افغا نستا ن میں تباہ کن جنگیں اس اتحاد کے سیاہ کر توت ہیں، لا کھوں انسا نوں کا قتل اس اتحاد کا نا قا بل معا فی جر م ہے 2004سے 2022تک امریکہ نے یو کرین کو غیر مسلح کرنے پر محنت کی اس ملک کو غیر مسلح کرنے کے بعد روس، چین اور دیگر مشرقی اقوام پر حملوں کے لئے نیٹو کا میزائیل اٹیک سسٹم یو کرین میں نصب کرنے کا پرو گرام بنا یا جب یو کرین نے امریکہ کو مداخلت کی اجا زت دی تو روس نے انتباہ جا ری کیا، جب انتباہ سے کا م نہیں چلا تو روس نے امریکی عزائم کو خا ک میں ملا نے کے لئے اپنی دفاعی طاقت کا استعمال کیا امریکہ نے اپنے مفا دات کو بچا نے کے لئے جنگ بندی کی قرارداد پیش کی تو امریکہ کے اپنے ہتھیار ویٹو (Veto) سے روس نے اس قرار داد کو جلا کر خا ک کر دیا فلسطین، عراق، لیبیا، شام، ایران، یمن اور افغا نستا ن میں مسلما نوں کے خلا ف امریکی جا ر حیت اور نیٹو کے حملوں کو رکوا نے کے لئے جو بھی قرار داد آتی تھی امریکہ اس کو ویٹو کرتا تھا اب یو کرین پر روسی حملے کو رکوا نے کی قرار داد آئی تو روس نے ویٹو کر دیا لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا کسی دانشور کا قول ہے کہ انسان نے پر ندے کی طرح ہواووں میں اڑ نا سیکھا، مچھلیوں کی طرح سمندر وں میں تیر نا سیکھا مگر انسا ن بن کر زمین پر امن سے رہنا نہیں سیکھا یو کرین کی لڑا ئی بھی یو کرین کے عوام کی جنگ نہیں امریکہ اور روس کی جنگ ہے افغا نستا ن کی طرح اس جنگ میں یو کرین کے عوام غیروں کی لڑا ئی میں مر رہے ہیں دنیا کو چنگیز خان کے دور میں واپس جا نے سے روکنے کے لئے ویٹو کے قا نون کو ختم کرنا ضروری ہے ور نہ دنیا میں امن کا خواب مخص خواب ہی رہے گا۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
58883

بزمِ درویش ۔ معراج مصطفی ﷺ ۔ تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

ربِ ذولجلال جب کسی پر اپنا کرم ِخاص فرماتے ہیں تو وہ گمنامی کے اندھیروں سے نکل کر شہرت و عظمت کی ایسی بلندیوں اور رفعتوں سے ہمکنار ہو جاتا ہے قیامت تک اس کو ایسی لازوال شہرت ملتی ہے کہ جسے زمانے کی گرد یا دن رات کی کروٹیں بھی دھندلا نہیں پاتیں بلکہ گزرنے والا ہر لمحہ اس کی شہرت میں اضافہ کرتا چلا جاتا ہے۔لازوال عظمت و شہرت کی ایسی ہی رات براق کے حصے میں بھی آئی جب وہ قیامت تک کے لیے امر و زندہ جاوید ہو گیا۔رحمتِ دو جہاں محبوب خدا ﷺ کو اِس سنگ و خشت کی دنیا میں آئے ہوئے نصف صدی سے زیادہ عرصہ بیت چکا تھا کہ آسمانوں اور جنت کو دلہن کی طرح سجایا جا رہا تھا قدسی ملائکہ حیران تھے کہ کس کی آمد آمد ہے کہ رنگ و نور کا سیلاب آیا ہوا ہے ہر چیز کو پورے اہتمام سے سجایا جا رہا ہے۔ہجرت مدینہ سے ایک سال پہلے کی بات ہے جب محبوب خدا سرور کائنات ﷺ ایک رات خواب استراحت فرما رہے تھے کہ رب کعبہ نے جبرائیل امین کو مخاطب کیا اور حکم دیا کہ میں اپنے محبوب سے ملنے کا مشتاق ہوں جا جنت میں براق کو لو اور میرے محبوب ﷺکو عزت و احترام سے میرے پاس لے آ جبرائیل امین نے حکم کی تعمیل کی اور چشم زدن میں وہاں پہنچ گئے بہشت کے مرغزاروں میں چالیس ہزار براق چر رہے تھے ہر براق کی پیشانی پر محمد ﷺ کا نام مبارک چمک رہا تھا۔جبرائیل نے جب چاروں طرف نظر دوڑائی تو ایک ایسا براق نظر آیا جو سب سے الگ تھلگ غمگین افسردہ ایک کونے میں سر جھکائے آنسوں کے سمندر میں ڈوبا ہوا نظر آیا۔

اسے کھانے پینے سے کوئی رغبت نظر نہیں آرہی تھی۔ سید الملائکہ اس کے پاس گئے او ر دریافت فرمایا یہ کیا حال کیا ہوا ہے تو اداس براق نے عرض کی اے جبرائیل امین میں نے چالیس ہزار سال پہلے خدائے بزرگ و برتر کے محبوب محمد ﷺ کا نام سنا تھا۔ اس دن سے آج تک میں آپ ﷺ کے عشق میں مبتلا ہوں۔ شوق دیدار اتنا بڑھ گیا ہے کہ کھانے پینے کا بھی ہوش نہیں رہا۔ جبرائیل امین نے غمگین براق کی حالت زار دیکھی تو سرور دو جہاں ﷺکی سواری کے لیے اسے منتخب کیا کیونکہ اس میں عشق محمدی ﷺ بدر جداتم موجود تھا۔ حالانکہ وہاں پر موجود باقی براق بھی شافع محشر ﷺ کے عشق میں مبتلا تھے جبرائیل نے براق سے کہا چلو تو براق بولا کدھر تو جبرائیل امین بولے جن کی محبت و عشق میں تم ہزاروں سال سے گرفتار ہو۔ براق کو اپنی سماعت پر یقین نہ آیا کیونکہ اس کے تصور میں بھی یہ نہ تھا کہ اچانک ایک دن اپنے محبوب ﷺ کا قرب اور دیدار نصیب ہو گا۔لیکن فخرِ دو عالم محبوب خدا ﷺ کی محبت رنگ لے آئی اور دونوں جہانوں کی نعمتوں سے زیادہ اور بڑی نعمت محبوب ِ خدا ﷺ کا دیدار اور قرب کا موقع ملا براق کی ہزاروں سالوں کی خواہش پوری ہونے جارہی تھی وہ خوشی سے دیوانہ وار جھوم رہا تھا۔

ہفت املاک سے ماورا سدر المنتہی تک محبوب خدا ﷺ کو براق رفتاری سے لے جانے کے لیے جس سواری کی ضرورت تھی وہ براق ہی ہو سکتا تھا براق گدھے سے بڑا اور خچر سے چھوٹا ایک ایسا چمک دار جانور جو اپنا کھر اپنی نگاہ کے آخری مقام پر رکھتا ہے جبرائیل امین بمع براق جب بارگاہ ِ دو جہاں ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو شہنشاہِ دو عالم ﷺ آرام فرما رہے تھے۔فرستادہ ربانی نے محبوب خدا ﷺ کے پاں مبارک کو اپنے کافوری لبوں سے بوسا دیا تو ان کے لمس سے آپ ﷺ نے سرمگیں آنکھوں کو وا کیا تو سامنے سیدالملائکہ ادبا کھڑے تھے۔ آقا دو جہاں ﷺ کے بولنے سے پہلے ہی جبرائیل امین نے عرض کی اے مالک ِ دو جہاں ﷺ ربِ ودود کو آپ ﷺ سے ملاقات کا اشتیاق ہے۔ جب سرتاج الا نبیا ﷺ حضرت جبرائیل کے ہمراہ باہر تشریف تو سامنے دیوانہ مست براق کھڑا تھا۔ آپ شہنشاہِ دو عالم ﷺ کے عشق اور شوق دیدار میں وہ چالیس ہزار سال سے مثل ماہی بے آب تڑپ رہا تھا۔ محبوب خدا ﷺ کو دیکھ کر فرط جذبات عشق و محبت براق کی آنکھوں سے خوشی کے آنسوں ساون بھادوں کی طرح برسنے لگے۔ محبوب خدا ﷺ جب براق پر سوا ر ہو نے لگے تو براق نے ہلکی سی شوخی دکھائی تو جبرائیل امین نے سرزنش کی اور کہا۔

اے براق تو نہیں جانتا کہ تجھ پر کون سوار ہو رہا ہے اٹھارا ہزار عالم کے سردار تو براق نے عرض کیا اے وحی الہی کے امین اور جناب قدس کے ایلچی مجھے معاف فر مائیں میں حاجت مند ہوں اور محبوب خدا ﷺ سے ملتمس ہوں۔ شہنشاہِ دو جہاں نے جب براق کی التجا سنی تو لب لعلین مبارک کو جنبش دی اور فرمایا بتا تاکہ پورا کروں۔ اے محبوب خدا سرور کائنات سرتاج الا نبیا ﷺ آج رات میری زندگی کی عظیم ترین رات ہے۔ میرے جسم کا رواں رواں حالت وجد اور سرشاری میں ہے۔ یہ میری زندگی کا عظیم ترین ساعتیں ہیں جو میں آپ ﷺ کے ساتھ گزاروں گا۔کل روزِ محشر جب فلک پیما، عالم آرا برق آسا انگشت براق آپ ﷺ کی خدمت میں مامور ہوں گے تو ایسا نہ ہو کہ آپ ﷺ مجھ سے نظر فرما کر ان کی طرف متوجہ ہوں اور مجھے بیکار چھوڑ دیں۔ اے شہنشاہِ دو عالم ہادی کون و مکان، وجہ تخلیق کائنات، فخر دوعالم، ساقی کوثر ﷺ مجھ میں اِس بات کی طاقت نہیں میری التجا قبول فرمائیے اور میری رکاب میں قدم مبارک رکھیں۔ براق کا عشق اور فریاد سن کر مجسمِ رحمت ﷺگویا ہوئے مطمئن رہو روزِ قیامت تم پر ہی سواری کروں گا۔براق کی صدیوں کی خواہش پوری ہو ئی دل و دماغ میں عشق و محبت کی ٹھنڈی ہوائیں چلنے لگیں۔ فورا ادب سے جھک گیا پھر شافع دو جہاں ﷺ براق پر سوار ہو ئے۔ اور جبرائیل کی معیت میں بیت المقدس تشریف لائے اور جہاں پرانبیا اپنی سواریاں باندھتے تھے اس جگہ براق کو باندھا اور مسجد اقصی میں داخل ہو ئے یہاں پر دو رکعت نماز پڑھی اورانبیا کی امامت فر مائی یہاں پر حضرت جبرائیل آپ ﷺ کے بارگاہ مقدس میں تین برتن لائے ایک شراب کا دوسرا دودھ کا تیسرا شہدکا محبوب خدا ﷺ راحتِ انس و جاں ﷺ نے دودھ پسند فرمایا سیدالملائکہ نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ آپ ﷺ نے فطرت پائی آپ ﷺ کو ہدایت نصیب ہوئی اور آپ ﷺ کی امت کو بھی کیونکہ اگر آپ ﷺ نے شراب پسند فرمائی ہوتی تو آپ ﷺ کی امت گمراہ ہو جاتی اِس کے بعد مالک دو جہاں ﷺ کو بیت المقدس سے آسمان تک لے جایا گیا

حضرت جبرائیل نے دروازہ کھلوایا آپ ﷺ کے لیے دروازہ کھولا گیا۔سنن ابو داود میں حدیث پاک ہے۔سرور دو جہاں، سرور کائنات، رحمتِ مجسم، رحمت للعالمین، محبوب خدا، آمنہ کے لال، شہنشاہ ِ کائنات، یتیموں کے والی بے سہاروں کا آسرا شافع محشر، ساقی کوثر ﷺ فرماتے ہیں۔میرے لیے آسمان کا ایک دروازہ کھولا گیا تو میں نے ایک عظیم الشان نور دیکھا اور حجاب کے پار موتی اور یاقوت کی مسند دکھائی دی۔معراج کی رات انبیا نے حضور ﷺ کی اقتدار میں نماز ادا کی تو پھر آسمانی سفر کا آغاز ہوا پہلے آسمان پر پہنچ کر دستک دی گئی تو آواز آئی کون ہے؟ سید الملائکہ نے جواب دیا میں جبرائیل ہوں۔ آواز آئی آپ کے ساتھ کون ہیں تو جبرائیل امین نے جواب دیا یہ محمد ﷺ ہیں آج کی رات انہیں آسمانوں پر پذیرائی بخشی جائے گی۔ تو آسمان کا دروازہ کھول دیا گیا۔ دروازہ کھول نے والے نے محبوب خدا ﷺ کی خدمت میں عقیدت بھرا سلام عرض کرنے کی سعادت حاصل کی۔پہلے آسمان پر سرتاج الانبیا کی ملاقات اپنے جدِ امجد حضرت آدم سے ہوئی حضرت آدم کو بتایا گیا کہ یہ آپ کے جلیل القدر فرزند ہیں ختم المرسلین ہیں یہی حضرت محمد ﷺ اور تما م انبیا کے سردار ہیں۔ مالک ِ دو جہاں نے دادا جان کہہ کر سلا م کیا حضرت آدم نے سلام کا جواب دیا اور اپنے عظیم ترین فرزند کو اپنی دعاں سے نوازا۔ پھر آپ ﷺ کو دوسرے آسمان پر لے جایا گیا حضرت جبرائیل نے دروازہ کھلوایا یہاں نبی کریم ﷺ نے دو خالہ زاد بھائیوں حضرت یحی بن ذکریا اور حضرت عیسی بن مریم کو دیکھا اور انہیں سلام کیا دونوں نے مرحبا کہا اور آپ ﷺکی نبوت کا قرار کیا۔

یہاں کے ملکوتی مشاہدات کے بعد آپ ﷺ کو تیسرے آسمان کی طرف اٹھا یا گیا۔ یہاں پر حضور ﷺ کی ملاقات حضرت یوسف سے کرائی گئی جن کو آدھا حسن دیا گیا تھا آپ نے بھی سلا م کیا انہوں نے جواب دیا مرحبا کہا آپ ﷺ کی نبوت کا اقرار کیا۔ پھر نبی کریم ﷺ کو چوتھے آسمان پر لے جایا گیا وہاں پر حضرت ادریس کو دیکھا اور انہیں سلام کیا انہوں نے بھی جواب دیا مرحبا کہا اور آپ ﷺ کی نبوت کا اقرار کیا۔ پھر آپ ﷺ کو پانچویں آسمان پر لے جایا گیا وہاں حضرت ہارون کو دیکھا اور انہیں سلام کیا انہوں نے بھی سلام کا جواب دیا مرحبا کہا اور آپ ﷺ کی نبوت کا اقرار کیا یہاں سے آپ ﷺ کو چھٹے آسمان پر لے جایا گیا وہاں حضرت موسی سے ملاقات ہوئی حضرت موسی کی چشمان مبارک اشکبار ہو گئیں سرتاج الانبیا کی شان و شوکت دیکھ کر رشک سے آنسو چھلک پڑے اور بے اختیار زبان مبارک سے نکلا یہ خدائے بزرگ و برتر کے وہ برگذیدہ رسول ہیں جن کی امت کو میری امت پر شرف عطا کیا گیا جن کی امت کو میری امت کے مقابلے میں کثرت کے ساتھ جنت میں داخل کیا جائے گا۔اِس کے بعد آپ ﷺ کو ساتویں آسمان پر لے جایا گیا وہاں آپ ﷺ کی ملاقات حضرت ابراہیم سے ہوئی آپ ﷺ نے سلام انہیں سلام کیا انہوں نے محبت سے جواب دیا مرحبا کہا آپ ﷺ کی نبوت کا اقرا ر کیا حضرت ابراہیم اپنی پشت مبارک بیت المعمور سے لگائے ہوئے تھے

جس میں روزانہ ستر ہزار فرشتے داخل ہو تے ہیں اور دو بارہ ان کے پلٹنے کی باری نہیں آتی ساتوں آسمانوں کے نورانی جلووں کے بعد تاجدار کائنات کو سدر المنتہی کے مقام تک لے جایا گیا۔ یہ وہ حساس اور اعلی مقام کہ جہاں آکر ملائکہ اور انبیا و رسل کی بھی پرواز ختم ہو جاتی ہے یہاں مقرب فرشتوں کے بھی پر جلتے ہیں یہاں پر روح الامین جبرائیل کے بھی پر جلنے لگے اور وہ بے اختیار بول اٹھے کہ اگر میں یہاں سے ایک انگلی کی پور برابر بھی آگے بڑھا تو تجلیات الہی مجھے جلا کر خاکستر کر دیں گی۔ سید الملائکہ کی پرواز اور طاقت نے جہاں دم توڑا وہیں سے نسل انسانی کے سب سے بڑے انسان خیر البشر ﷺ عظمتوں اور رفعتوں کے لازوال سفر کا آغاز کیا۔سدر المنتہی کا مقام عالم مکان کی آخری حد اور لا مکان کا پہلا زینہ ہے۔تفسیر نیشا پوری میں ایک حدیث مبارکہ ہے۔ فرشتے اللہ رب العزت کی بارگا اقدس میں دعا مانگتے تھے کہ اے کائنات کے مالک جس محبوب ﷺ کی خاطر تو نے کائنات تخلیق فرمائی جس پر تو اپنی زبان قدرت سے ہمہ وقت درود پڑھتا ہے اور ہم بھی تیرے حکم کی تعمیل میں اس ہستی پر درود و سلام کا نذرانہ بھیجتے ہیں آج وہی مہمان ذی وقار تشریف لا رہے ہیں اے باری تعالی ہمیں اپنے رسول محتشم کا بے نقاب جلوہ عطا فرما۔ اللہ پاک نے مقرب ملائکہ کی دعا کو شرف قبولیت بخشا اور فرمایا کہ تم ساری کائنات آسمانی سے سمٹ کر اِس درخت سدر المنتہی پر بیٹھ جاو۔ فرشتے ہجوم در ہجوم امڈ پڑے فرشتوں کی اتنی زیادہ کثرت ہوئی کہ وہ درخت ان کے نور کے سائے میں آگیا۔قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے۔ ترجمہ جب سائے میں لے کر چھپا لیا سدرہ کو جس نے چھپا لیا (ملائکہ کی کثرت نے) النجم۔اِس عظیم مقام پر قدسیان فلک نے محبوب ِ خد ا ﷺ کے دیدار کا لازوال شرف حاصل کیا اور اپنی ہزاروں سالوں کی خواہش اور پیاس کو بجھایا رخِ مصطفے ﷺ ہے وہ آئینہ کہ اب ایسا دوسرا آئینہ نہ ہماری بزمِ خیال میں نہ دکان آئینہ ساز میں۔محبوب خدا ﷺ مہمان ِ عرش جب آگے بڑھنے لگے تو سیدالملائکہ رک گئے اور عرض کی اگر میں ایک چیونٹی برابر بھی آگے بڑھا تو (تجلیات الہی کے پر توسے) جل جاوں گا۔یہاں سے آگے جبرائیل امین اور براق آپ کے ساتھ نہ تھے۔

یہاں سے سرتاج الانبیا ﷺ اپنے رب کے اذن سے تنہا ہی روانہ ہوئے۔ خالق ِ ارض و سمانے محبوب ﷺ مہمان کے عرش کی سواری کے لیے ایک سبز ملکوتی اور رنگ نور سے سجا نورانی تخت بھیج دیا۔ اِس عظیم خوبصورت تخت کا نامزخرف تھا۔ اِسطرح رحمتِ دو جہاں ﷺ وجہ تخلیق کائنات محبوب خدا ﷺ کو عرش معلی تک پہنچا دیا گیا۔ جب سدر المنتہی کی منزل گزر گئی اور فرشتوں کے ہجوم بھی پیچھے رہ گئے تو آگے نور کا سمند ر تھا چاروں طرف نور ہی نور اور کچھ دکھائی نہ دے رہا تھا پھر محبوب خدا ﷺ کو اِس نور کے سمندر میں داخل کر دیا گیا۔ دیکھنے والی چشم آپ ﷺ کو دیکھنے سے قاصر تھی نور کیسا تھا آپ کہاں تھے اِس نور کے سمندر اور حصار ِ نور میں داخل ہونے کے بعد مہمان عرش نے عرش معلی کی سیر کی۔ عرش نے آپ ﷺ کے تلوووں کے بوسے لیے اِس کے بعد آپ ﷺ کو بہت عزت و احترام وقار کے ساتھ آگے لے جایا گیا یہاں سے سفر کا ایک نیا مرحلہ تھا جہاں نور خدا تھا اور محبوب خدا ﷺ یہ معراج کا سفر کا نقطہ عروج تھا ایک عالم ِ نور تھا انوار و تجلیات الہی پر فشاں تھے۔ خدائے بزرگ و برتر کی ذاتی اور صفاتی تجلیات کی برسات تھی عالم لا مکان کے جلوے ہر سو جلوہ ریز تھے۔ سردار الانبیا آمنہ کے لال ﷺ مہمان عرش کو تن تنہا اِن رنگ و نور کے جلووں میں داخل کر دیا گیا تھا اور اللہ تعالی کے اسما کے پردے ایک ایک کر کے گزرتے رہے۔ حضور ﷺعالم بیداری میں لہذا بوجہ بشریت معمولی سی وحشت ہوئی تو رب ذولجلال کی آواز آئی۔ پیارے محمد ﷺ رک جا بے شک تمھارا رب (استقبال کے لیے) قرب آرہا ہے۔سفر معراج کے اِس نازک مرحلہ پر محبوب خدا ﷺ مقام قاب قوسین پر پہنچ گئے ارشاد باری تعالی ہے۔

ترجمہ النجم۔ پھر (اس محبوب حقیقی سے) آپ ﷺ قریب ہوئے اور آگے بڑھے پھر (یہاں تک بڑھے کہ) صرف دو کمانوں کے برابر یا اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا۔معراج النبی ﷺ کو ہمارے ہاں مذہبی نوعیت کا واقعہ تہوار سمجھا جاتا ہے اور اِسی تناظر میں دیکھا جاتا ہے اسی وجہ سے مقدس مذہبی تہوار کی مناسبت سے ایک ادھ جلسہ منعقد کر کے شب دیدار کے فضائل بیان کیے جاتے ہیں۔نوافل پڑھ لیے شیرینی بانٹ دی ریڈیو TVچینل پر مقررتقریریں کر کے واہ واہ کا ماحول بنایا اور فارغ ہو جاتے ہیں۔ جبکہ اصل میں یہ واقعہ عروج آدم خاکی کا شاندار مظہر ہے۔ تسخیرِ کائنات کے سفر کا اہم سنگِ میل ہے۔ سفر معراج کے تین مراحل ہیں۔ پہلا مرحلہ مسجر الحرام سے مسجد اقصی تک یہ زمینی سفر۔ دوسرا مرحلہ مسجدِ اقصی سے سدر المنتہی تک ہے یہ کرہ ارض سے کہکشاوں کے اس پار واقع نورانی دنیا کا سفر ہے اور سب سے اہم تیسرا مرحلہ سدر المنتہی سے آگے قاب قوسین اور اس سے بھی آگے تک ہے۔یہ لازوال سفر محبت اور عظمت کا سفر ہے یہ سب دیدار محب اور محبوب کی انوکھی خاص ملاقات ہے لہذا اِس ملاقات کو زیادہ تر راز میں رکھا گیا سور النجم میں صرف اتنا فرمایا وہاں اللہ تعالی نے اپنے محبوب سے راز و محبت کی باتیں کرلیں۔ بے شک اِس مقام پر اللہ تعالی نے اپنے محبوب کا خوبصورت مکھڑا دیکھا اور اپنے محبوب کی میٹھی میٹھی زبان سے باتیں سنیں۔

یہی وہ مقام تھا جہاں فقط رسول کریم ﷺ ہی تھے جو اپنے رب تعالی کے حسن بے نقاب کے جلوے میں مشغول تھے اور اللہ تعالی کے ارشادات اور پیار بھری باتیں۔ یہی وہ مقام تھا جہاں سفر محبت و عظمت اپنے مقصود کو پانے والا تھا۔ اِس رات سر تاج الانبیا ﷺ کے ہر روحانی لطیفے کو قرب ِ الہی نصیب ہو ااور وہ دیدار خدا کی لازوال لذتِ دوام سے ہمکنار ہوا یہاں پر جب تمام مراحل طے پاگئے تو ساقی کو ثر اِس حال میں زمین پر لوٹے کہ ہر ہر لطیفے میں مالک ارض و سما کے قرب اور دیدار کی لذتیں سما چکی تھیں۔ معراج النبی ﷺ کا وقوع پذیر ہونا انسانی تاریخ کا ایک ایسا زرین اور درخشندہ باب ہے جس کا ایک ایک حرف عظمت و رفعت کی ہزار ہا داستانو ں کا امین اور عروج آدم خاکی کا ان گنت پہلوں کا مظہر ہے نقوش ِ کفِ پائے محمد ﷺ سے لوح افلاک پر شوکت انسانی کی جو دستاویز مرتب ہوئی وہ انسان کے اشرف المخلوقات ہونے کی دلیل ہی نہیں بلکہ ایسا مینارہ نور بھی ہے کہ جو تسخیرِ کائنات کے ہر مرحلے پر آنے والی نسل انسانی کے راستوں کو منور کرتا رہے گا اور آسمانوں کی حدود سے نکل کر اولادِ آدم کو مشاہدہ فطرت کی ترغیب دیتا رہے گا سفر معراج اصل میں سفر ارتقا ہے یہ آقائے دو جہاں کا وہ عظیم معجزہ ہے جس پر عقل انسانی آج بھی انگشت بد نداں ہے انتہائی کم وقت میں مسجدِ حرام سے بیت المقدس تک لمبا سفر طے ہو جاتا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے قسم ہے روشن ستارے (وجود محمدی ﷺ)کی جب وہ (شبِ معراج عرشِ بریں پر عروج فرما کر زمین کی طرف) اترا تمھارے آقا نہ (کبھی) گمراہ ہوئے اور نہ بے راہ چلے اور وہ اپنی خواہش سے کلام نہیں فرماتے۔ ان کافرمانا فقط وحی الہی ہی ہوتا ہے جو (انکی طرف) کی جاتی ہے۔

انہیں سکھایا سخت قوتوں والے بہت زبردست (اللہ) نے۔ پھر اس (اللہ) نے استوی فرمایا۔ اِس حال میں کہ وہ (محمد ﷺ) سب سے اونچے کنارے پر تھے پھر قریب ہوا (اللہ محمد ﷺسے) پھر زیادہ قریب ہوا۔ تو (محمد ﷺ اپنے رب سے) دو کمانوں کی مقدار (نزدیک) ہوئے بلکہ اس سے (بھی) زیادہ قریب۔ تو وحی فرمائی اپنے عبد مقدس کو جو وحی فرمائی۔ سور انجم ایک اور جگہ ارشاد باری تعالی ہے۔ وہ ذات (ہر نقص اور کمزوری سے)پاک ہے جو رات کے تھوڑے سے حصہ میں اپنے (محبوب اور مقرب) بندے کو مسجد حرام سے مسجد اقصی تک لے گئی جس کے گرد و نواح کو ہم نے با برکت بنا دیا تاکہ ہم اس (بندہ کامل) کو اپنی نشانیاں دکھائیں بیشک وہی خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے۔ سور بنی اسرائیل۔ حدیث مبارکہ میں یوں بیان ہے۔ یہاں تک کہ آپ سِدر المنتہی پر آگئے رب العزت اپنی شان کے لائق بہت ہی قریب ہوا یہاں تک کہ دو کمانوں کے برابر یا اِس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا۔ صحیح بخاری۔ رب کعبہ نے اپنی شان کے مطابق اپنے محبوب ﷺ کو خوش آمدید کہا اور اتنا قریب ہوا کہ اللہ تعالی اور اس کے محبوب کے درمیان بہت کم فاصلہ رہ گیا گویا کہ رحمتِ مجسم ﷺ پر پروردگار کے جلوں کی برسات خوب ہوئی بارگاہ خدا میں نبیوں کے سردار تاجدار کائنات ﷺسرتاپا صفات ربانی میں اسطرح رنگے گئے کہ آپ ﷺ کی ذات اللہ تعالی کی پیکراتم بن گئی۔

سرور کائنات ﷺ مقام بشریت کو بیت المقدس میں چھوڑ گئے اور مقامِ نورانیت کو عالم ملکیت میں چھوڑ کر آگے گزر گئے۔ حقیقت محمدی ﷺ ان دونوں مقامات کی انتہا سے بھی بالا تر ہے آپ ﷺکا اصلی گھر تو لامکاں تھا جہاں پر آپ ﷺ کو مدعو کیا گیا۔ سفر معراج کی شان دیکھئے رب ذولجلال جب چاہے دنیا کے اندازے اور قاعدے ضابطے قوانین وقت کے پیمانے پلٹ کر رکھ دے۔ معراج کے حوالے سے عبدالقدوس گنگوہی نے کیاخوب کہا ہے کہ۔ حضور ﷺ فلک افلاک پر پہنچے مگر واپس آگئے اگر میں وہاں پہنچ جاتا تو کبھی واپس نہ آتا۔ یہ بات ایک صوفی تو کر سکتا ہے کہ صوفی کا نقطہ کمال یہی ہے اگر وہ اس تک پہنچ گیا تو گویا اِس کی تمام عبادات ریاضتوں کا ثمر حاصل ہو گیا لیکن پیغمبر کا منصب مخلوق خدا کی ہدایت اور راہنمائی ہے کہ وہ عرش پر جا کر بھی اپنے منصب کی تکمیل کے لیے واپس فرش پر لوٹ آتا ہے۔شبِ معراج کا یہ معجزہ ہے کہ انسان بس ایک مشتِ خاک جسے ہوا کا ایک جھونکا اڑا اور بکھیر سکتا ہے۔ فرشتوں نے بھی حضرت انسان کی عظمت کو محض تسبیح و تقدس کے حوالے سے دیکھا اور بول اٹھا کہ ہم اِس سے زیادہ خدا کی پاکی اور حمد بیان کر نے والے ہیں لیکن معراج کی رات نبی کریم ﷺ ان انتہائی رفعتوں اور منزلوں سے ہو آئے جس کے پہلے زینے پر جبرائیل امین کے پر جلنے لگے وہ منظر کتنا خوب ہو گا جب محبوب خدا ﷺ خراماں خراماں ان رفعتوں کی طرف بڑھے جہاں فرشتوں کے پر جلتے تھے اس وقت ملائکہ کتنی حسرت سے دیکھتے ہوں گے اور رشک کرتے ہوں گے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
58864

چترال عوامی پارٹی اور حالیہ بلدیاتی انتخابات – شفیق الاسلام

 ۔            پاک سرزمین کے خطہ چترال میں گذشتہ سال سے منظر عام پر آنے والےنو تشکیل شدہ چترال عوامی پارٹی کے نوجوان مالی وسائل کی عدم دستیابی کے پیش نظر حالیہ انتخابات میں باقاعدہ امیدوار میدان میں نہ لا سکے تاہم بہبود چترال کی خاطر اپنے منشور،نظریہ اور اصول و ضوابط کی پاسداری کا خیال رکھ کر انتخابی مہم میں سرگرم تمام آزاد اراکین کی حمایت کو اپنے منشور کا لازمی جزو قرار دینے پر متفق ہوۓ ہیں کیونکہ یہی چترال عوامی پارٹی کا مشن اور منشور ہے کہ چترال بھر میں کسی صورت بہبود عامہ کو سیاسی ہونے سے بچایا جا سکے،یہی اندرونی سیاست ہی ہمارے نزدیک فلاح چترال کو تہس نہس کرنے کا اصل سبب ہے۔اس بنا چترال کی خدمت اور چترالی تہذیب و تمدن کی حفاظت و پاسداری کو نصب العین بنا کر غیرمشروط تمام آزاد اراکیں کی حمایت کو پارٹی پالیسی کا حصہ سمجھنا چترال عوامی پارٹی کی اولین ترجیحات میں شامل ہے، یوں ہم جنرل الیکشنز میں بھی ارض پاک کے اندر یک رکنی آزاد علاقائی پارٹی کے طور متحرک رہ کر صرف مملکت کی سالمیت اور چترال کی بہبودی کا علمبردار بن کر قومی و صوبائی اسمبلیوں میں قدم جمانے کی پالیسی پر گامزن ہیں۔اگر ایسی صورت حال بنتی ہے تو بغیر کسی سیاسی مزاحمت کے چترال کی صوابدیدی فنڈز سمیت چترال کی خاطر دور رس ترقیاتی منصوبوں پر مکمل عمل درآمد کو یقینی بناکر اکثر گذشتہ ادوار سے جمہوری دور میں محروم اور پیچھے رہنے والے اہم ترین جغرافیائی اہمیت کے حامل چترال کے باسیوں کو حقوق بہم پہچانے کے  تسلسل کو برقرار رکھا جا سکتا ہے۔


        چونکہ چترال کی پہچان سے متحرک پارٹی یقیناً فلاح چترال کو اپنا نصب العین قرار دینے کی  بنا اس بات کا ادراک رکھتی ہے کہ چترال کے جس جس گاؤں کے لوگ جن ذمہ داروں اور نمائندگاں سے مطمئن ہیں/ہونگے چترال عوامی پارٹی بھی چترال کے گوشے گوشے کے خوشحالی کی خاطر نہ صرف اس عوامی راۓ کو قدر کی نگاہوں سے دیکھے گی بلکہ ان اہل اور عوامی توقعات پر پورا اترنے والے عمائدین کی مکمل حمایت کیساتھ ساتھ ان کے شانہ بشانہ فلاح چترال کو اہمیت دیکر انھیں مزید مستحکم کرے گی۔اس مثال کی ثبوت کے طور پارٹی  پہلی بار چترال خاص کے ٹاؤن نمبر1کے اپنے بانی ممبر اور صدر لوئیرجناب مبشراحمد کی قربانی سے بھی دریغ نہیں کیا۔یہی چترال عوامی پارٹی کے ارکان کا چترال اور فلاح چترال کی خاطر تن من دہن قربان کرنے کے عزم مسلسل کا عملی ثبوت ہے۔واضح رہے چترال عوامی پارٹی احکامات الھیہ کی تکمیل کے بعد فلاح چترال کی فکر کو اپنا اولیں فریضہ اور عظیم عبادت سمجھتی ہے اس بنا اپنے نظریہ،منشور اور اصول و قواعد کی پاسداری کی خاطر حقوق کی فراہمی کے لحاظ سے مطمئن احباب کے حلقہ انتخاب کے علاؤہ دیگرچترال بھر میں آزاد امیدواروں کی حمایت ہمارا اخلاقی ذمہ داری ہے کیونکہ یہی عین ہمارے منشور کی عکاس ہے اور آنے والے دنوں میں ہمارے طرزفکر سے ہم آہنگ آزاد اراکین کو ساتھ لیکر ہی اپنے سوچ اور طرزفکر کو دوام بخشا جاسکتا ہے۔


       مملکت کی سلامتی کے بعد روایات کی پاسداری اور چترال کی بہبودی ہی کو چترال عوامی پارٹی اپنا شناخت قرار دینے کی بنا علاقائی یکجہتی پر ہم یقین رکھتے ہیں اور خطہ چترال کے تمام سیاسی زغماء سے بھی توقع رکھتے ہیں کہ چترال کے بھلائی کی خاطر اپنے اندرونی خلفشار کو بالاۓ طاق رکھ کر سب ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کے چترال کی بھلائی کا سوچیں گے۔ خاص کر آزاد امیدوار ہمارے نزدیک بہبود چترال کے ضامن تصور ہوتے ہیں کیونکہ ہمارے نزدیک واحد نشست والی چترال کی اندرونی سیاست ہر صورت چترال کی مفاد کے حق میں سودمند نہیں ہے۔
ارادے ہمارے ۔۔۔۔۔۔فیصلہ عوام کا

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
58862

معراج مصطفیﷺ- (27رجب،معراج مصطفیﷺ کے موقع پر خصوصی تحریر) – ڈاکٹر ساجد خاکوانی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

معراج مصطفی ﷺ

(27رجب،معراج مصطفیﷺ کے موقع پر خصوصی تحریر)

ڈاکٹر ساجد خاکوانی (اسلام آباد،پاکستان)

                قرآن مجید نے فرمایا کہ فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا(۴۹:۵) اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا(۴۹:۶) ترجمہ:”پس حقیقت یہ ہے کہ تنگی کے ساتھ فراخی بھی ہے بے شک تنگی کے ساتھ فراخی بھی ہے۔عام الحزن وہ سال تھاجو پہاڑ جیسا صبر رکھنے والی ہستیﷺ پر بھی غم واندوہ بن کر ٹوٹا۔عزیزترین چچا حضرت ابوطالب اور عزیزازجاں شریکہ حیات ام المومنین حضرت خدیجہ ؓدادمفارقت دے گئے اور زمانے کی تپتی دھوپ میں تن تنہاچھوڑ کر عازم سفرآخرت ہوئے۔اس سب پر مستزادیہ کہ طائف والے ان حدوں سے بھی آگے بڑھ گئے جن تک مکہ والے شاید ابھی رکے ہوئے تھے۔دل داغ داغ لیے جب آپﷺ واپس مکہ لوٹ رہے تھے تواس کیفیت کااندازہ کوئی کیسے کر سکتاہے کہ ایک ایک کرکے سب دنیاوی سہارے ساتھ چھوڑ چکے تھے،ہم نشینوں میں اکثریت غلاموں،لونڈیوں،غریبوں اور مفلوک الحال لوگوں کی تھی اوران میں سے بھی ایک قابل قدر تعدا دحالات سے تنگ آکردیارحبشہ کوسدھارگئی تھی۔گویا امید کی ساری کرنیں دم توڑ چکی تھیں،ٹھنڈی ہواکے جھوکوں کی امید بظاہر نظر نہ آتی تھی اور بادسموم نے چہروں کو مرجھاسادیاتھا۔حالات یہاں تک پہنچے تھے کہ آخری نبیﷺجیسی ہستی کو اپنے ہی شہر مکہ میں داخلہ لینے کے لیے کسی کی پناہ لینا پڑی تھی۔

                ان حالات میں ایک رات جبریل ؑآپ ﷺکے گھرمیں داخل ہوئے توحضورﷺکو محواسراحت پایا،ہاتھ میں بادشاہ کائنات کاشاہی فرمان ہونے کے باوجودآواز دے کر اٹھانے کی ہمت نہ ہوئی،قدم مبارک کے تلووں پر جبریلؑ نے اپنے ہونٹوں سے بوسہ دیا،جبریل ؑکے ہونٹوں کی حدت سے بیدارہوئے تو جبریل نے عرض کی اے اللہ کے محبوب،باہر سواری تیارہے اور اللہ تعالی مشتاق دیدارہے،تشریف لے چلئے۔پس منظر کے حالات کاجائزہ لینے سے صاف محسوس ہوتاہے کہ جتنے تنگ و ترش حالات تھے انہیں کی مناسبت سے تسلی و تشفی اور دلاسے کابھی اہتمام کیاگیا۔آپﷺ کی نظر جہاں جاتی اس ”براق“نامی سواری کے پاؤں وہاں پہنچ جاتے تھے۔بیت المقدس میں کل انبیاء علیھم السلام کی جماعت کرائی اور ”امام الانبیاء“ کالقب مبارک پایا۔آسمان کی طرف محوسفر ہوئے پہلے سے آخری آسمان تک انبیاء علیھم السلام سے ملاقاتیں ہوتی رہیں۔اللہ تعالی کے اتنے قریب ہوئے کہ جبریل علیہ السلام بھی پیچھے رہ گئے۔جنت اور دوزخ کی سیر کرائی گئی،آخرت کے مناظر کا بنظرخود مشاہدہ کیااورواپس تشریف لائے توبسترابھی گرم تھااوردروازے کی کنڈی متحرک تھی۔

                محسن انسانیت ﷺنے معراج پائی اورانسانیت کوبھی معراج آشنا کردیا۔آپﷺ نے نظم معیشت کو اس کی معراج تک پہنچادیا،حکم دیاکہ مزدورکواس کی مزدوری پسینہ خشک ہونے سے پہلے اداکردو۔اس کاایک تو مطلب وہی ہے جو سمجھ آگیاکہ مزدورکاکام ختم ہونے پر ہی اس کے ساتھ طے شدہ معاوضہ اداکردیناچاہیے۔اس حدیث مبارکہ کاایک اور پوشیدہ مطلب یہ بھی ہے کہ مزدورپرلازم ہے کہ وہ کام کرتے ہوئے پسینہ ضرورنکالے،یعنی اپنے کام کا حق اداکرے اورکوئی کسر باقی نہ چھوڑے۔اس حکم کے پوراکرنے کاباعث انسانی معاشی نظام اپنی معراج کو چھوسکتاہے۔اگرصرف اسی اصول کوہی انفرادی اوراجتماعی طورپر انسانی معاشروں میں نافذ کردیاجائے اور آجرواجیردونوں مل کراس اصول کو عملاََتسلیم کرلیں تو قبیلہ بنی نوع انسان میں معاشی مسائل کاانبوہ کثیر جنم ہی نہ لینے پائے اور انسانی نظم اقتصادیات اپنی معراج تک پہنچ جائے۔کم و بیش ڈیڑھ ہزارسال بیت گئے،انسانیت کے ہاں بڑے بڑے دانشور،ماہرین معاشیات اور مبلغین اخلاق نے جنم لیالیکن اس معیارمعراج معیشیت سے بڑھ کر کسی کے ہاں کوئی تصور جنم نہ لے سکا۔

                محسن انسانیت ﷺنے معاشرت کومساوات کادرس معراج دیااور محمودوایازکو ایک ہی صف میں کھڑاکردیا۔آپ ﷺنے جس معاشرت کاتصوردیااس میں معیارشرف وفضیلت تقوی کو قراردیا،اس معاشرے میں بڑے بڑے سرداران قوم نیچے بیٹھتے ہیں اور بلال حبشی خانہ کعبہ جیسی عمارت کی چھت پر چڑھ جاتے ہیں۔آج تک کتنے ہی معاشرے بنے اور اجڑ گئے،لیکن کسی نے رنگ اور نسل کو معیار برتری دیاتوکسی نے دولت کے پجاریوں کوممبرعزت عطاکردیاتو کہیں طاقت نے انسانوں سے اپنی برتری کالوہامنوایااورکہیں تو تاریخ نے انسانوں کے ساتھ عجیب و غریب مذاق کیے اور پرلے درجے کے فاسق و فاجر لوگوں کوعزت وشرف کے بڑے بڑے مقامات دے ڈالے۔محسن انسانیتﷺنے عزت و شرف کاوہ مقام متعارف کرایاجومعاشرے کے تمام طبقات کے تمام افرادکے لیے قابل حصول ہے،اور یہی انسانی معاشرے کی معراج معاشرت ہے۔

                محسن انسانیت ﷺ نے مذہب کو برداشت کی معراج عطا کی۔ماضی بعید سے آج دن تک مذہب کے نام پر جس عدم برداشت کاکھیل کھیلاگیاوہ کل انسانیت کے لیے باعث ننگ و عار ہے۔مذاہب کے نام پر جنگوں کاکشت و خون اور انسانوں کی نسلوں کو میدانوں میں جھونک دینااوراسے اپنے خداؤں کی آشیربادکا سبب سمجھناکب سے اب تک چلتارہا۔یہاں تک کہ ایک ہی مذہب کے پیروکاروں نے معمولی اختلاف بھی برداشت نہ کیااور دشمنی میں اتناآگے نکل گئے کہ مخالفین کی جان،مال،عزت،آبرواور اہل خانہ بھی ان کے شر سے محفوظ نہ رہے۔ایسے میں رحمۃ اللعالمین نے مذہب کو برداشت کادرس معراج عطا کیااور تاریخ انسانی میں سب سے پہلے ایسامعاشرہ تاسیس کیاجس میں متعدد مذاہب کے لوگ باہم شیروشکرہوکررہتے تھے اور ان سب مذاہب کے پیروکاروں نے مشترکہ دفاع کے معاہدے تک پر دستخط کیے۔اس سے قبل کہیں تاریخ میں ایسی مثال نہیں ملتی اور اس کے بعد بھی ایک ہزارسالہ مسلمانوں کے دوراقتدارمیں غیرمسلموں نے ہرطرح کا مذہبی و معاشرتی تحفظ پایا۔آپ ﷺکے بعد ڈیڑھ ہزاربرس گزرگئے،انسانوں نے کتنے ہی تجربے کئے لیکن سب میں منہ کی ہی کھائی اور محسن انسانیتﷺکے دیے ہوئے درس برداشت کی معراج میں سرموبھی اضافہ نہ کرسکے۔

                محسن انسانیت ﷺنے سیاست کو معیارقیادت ومشاورت کا درس معراج دیااور آخری خطبے میں برملا اظہارفرمایا کہ ایک نکٹاحبشی غلام بھی تمہارے اوپرحکمران بنادیاجائے اور وہ قرآن و سنت کے مطابق تمہیں لے کر چلے توتم پر اس کی اطاعت لازم ہے۔یہ محض قول ہی نہیں تھا،صرف تاریخ اسلام میں ہی ہندوستان میں خاندان غلاماں اور مصر میں مملوک خاندان نے حکومت کی ہے۔یعنی  خاتم النبیین ﷺکی تعلیمات کے مطابق اہلیت کی بنیادپراقتدارکی باگ دوڑ سونپی گئی اگر چہ وہ اہلیت کاحامل شخص کسی غلام خاندان سے ہی تعلق رکھتاہو۔اورتاریخ نے یہ ثابت کیاکہ ان غلاموں نے بھی تخت شاہی پر بیٹھ کرتاریخ کارخ موڑاجن غلاموں کو دوسری قومیں جانوروں سے بدترطریقوں سے ہانکتی تھیں۔آج پندرہ صدیاں گزرنے کوہیں کسی دوسری قوم یانظام یاکسی ازم نے اس طرح کاتصورتک پیش نہیں کیااور اقتدارکے ایوانوں تک وہ لوگ بھی پہنچے جنہیں انسان کہتے ہوئے بھی مورخین کو شرم آئی۔لیکن وہ حکمران اپنے خاندان،طاقت،دولت یاکسی اور ذریعے سے پہنچے تھے اورلیاقت قابلیت و مشاورت ان کے پاس سے بھی نہیں گزرے تھے۔تب ان حکمرانوں نے انسانوں کے ساتھ جو سلوک کیاوہ نوشتہ دیوار ہے۔

                محسن انسانیت ﷺنے عدالتوں کو عدل و انصاف کا درس معراج دیااور عملاََاس پر عمل بھی کرکے دکھایا۔آپ ﷺسے قبل قانون صرف غریبوں کے لیے تھااور دولت مندوں کے لیے،حکمرانوں کے لیے اورطاقت ور طبقوں کے لیے کوئی قانون نہیں تھابس ان کی مرضی اوران کاقول ہی قانون کادرجہ رکھتاتھا۔اس کے علاوہ مردوں کو اپنی عورتوں پر مکمل دسترس حاصل تھی اورقانون ان مردوں کاساتھی تھاجبکہ غلاموں کے لیے قانون توکیا بنیادی انسانی اخلاق بھی عنقا تھے۔ان حالات میں معاشرے کے تمام طبقات کے لیے حتی کہ خود کے لیے بھی ایک ہی قانون کا نفاذکرنا واقعی ایک قانونی معراج ہی تھی۔پھرآپﷺنے اللہ تعالی کی آخری عدالت کاجو تصورپیش کیااس کے سامنے انسانی عدالتوں کے تمام تر تصورات ہیچ ہیں۔انسانوں کی کتنی بڑی سے بڑی عدالت بن جائے اور سخت سے سخت قانون بھی نافذ ہوجائے تب بھی مجرم کابچ نکلناممکن ہے جب کہ اللہ تعالی کی آخری عدالت میں سے کسی کا بچ جانا ممکن ہی نہیں اور یہی انسانیت کی سب سے بڑی معراج ہے کہ اسے احساس جوابدہی دامن گیررہے۔

                محسن انسانیت ﷺنے نظام تعلیم کو معرفت رب کی معراج عطافرائی ”اقرا باسم ربک الذی خلق“یعنی اپنے رب کے نام سے پڑھ (پڑھنے کاآغازکر)“۔اس طرح تعلیم کو ہر طرح کے فسق و فجور،حوس نفس،حصول دولت اور مفادپرستی سے آزادکر کے خداشناسی،خدمت خلق،ترویج روایات اور اخلاص و تقوی کی اعلی ترین معراج سے آشناکیا۔آج صدیاں بیت چکی ہیں لیکن اس سے بڑھ کر نصب العین کسی دیگرنظام تعلیم نے پیش نہیں کیا۔بلکہ اس کے برعکس سیکولرنظام تعلیم نے اس مقدس شیوہ انبیاء علیھم السلام کو ایک خود غرض پیشے میں تبدیل کر دیا۔اسلامی تعلیمات نے نظام تعلیم کو تحریم کالباس پہناکراستادکوباپ اور شاگردکو بیٹے کی خلعت پہنائی تھی اور عمل تعلیم کو آخری کتاب کااولین درس بناکر معراج انسانیت کاتاج شہنشاہی اس کے سرپرسجادیاتھا۔سیکولرازم نے اس عمل تعلیم کو کاروبار بناکرمنافع بخش صنعت کے گڑھے میں دھکیل دیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ استاد دکاندار بن گیااور طالب علموں کو اس کے گاہکوں کامقام معکوس میسر آیا۔آج تعلیمی اداروں کے نام پر دکانداری چمکائی جارہی ہے،لوٹ مارکابازارگرم ہے،کتاب،نصاب اور ہم نصابی سرگرمیوں کوتوہین نسوانیت سے تارتارکردیاگیاہے اور نوبت یہاں تک پہنچی ہے کہ معرفت الہییہ کا ثمرہ دینے والے شجر تعلیم پر انکارخداکی آکاس بیل نے اپنے پنجے گاڑھ لیے ہیں۔

                محسن انسانیت ﷺنے عدلیہ کو فراہمی عدل و انصاف کادرس معراج عطا کیا۔آپﷺ کے ہاں سے مسلمان،غیرمسلم،رشتہ دار اور غیر اور اپنے اور پرائے سب ایک ہی ترازوسے تولے جاتے تھے۔یہ ایک انتہائی معراج عدل و انصاف تھا کہ ”میری بیٹی فاطمہؓ چوری کرتی تواس کے ہاتھ بھی کاٹ دیتا“۔ایسی معراج اس قبل و مابعد پھر کسی نظام،کسی ماہراخلاق،کسی فلسفسی،کسی حکومت اور کسی معاشرے میں نظر نہ آئی۔آج اکیسویں صدی کی دہلیز پر بھی بڑے سے بڑا دعوے دار بھی عدالتوں کے لیے عدل و انصاف کی بات ہی کرتاہے لیکن فرق یہ ہے کہ صاحب معراج ﷺنے عدل و انصاف کی عدالتیں قائم کی تھیں جب کہ ان کے علاوہ باقی نظام ہائے حیات نے قانون کی عدالتیں کھڑی کیں،محسن انسانیت ﷺکی عدالتوں میں آج بھی عدل وانصاف ملتاہے جب کہ اس کے علاوہ کی عدالتوں میں عدل و انصاف بکتاہے۔محسن انسانیتﷺ کے قائم کردہ اصول عدالت سے بڑھ کر کسی کو نئے اصول مرتب کرنے کی ہمت نہ ہو سکی،کیونکہ نبی علیہ السلام نے آج سے صدیوں پہلے ایک پہاڑی پر کھڑے ہو کر”یاایھاالناس“کہ کرقیامت تک کی پوری انسانیت سے خطاب کیا تھا،بعد میں آنے والی آج تک کی غیرمسلم قیادت اپنے ملک،اپنی قوم،اپنی نسل،اپنی زبان یا اپنے جغرافیے سے ذہنی طورپر باہر ہی نہیں نکل سکی تو وہ عالم انسانیت کو عدل و انصاف کہاں سے فراہم کرے۔یہ تو صاحب معراج ﷺکا درس معراج ہے کہ وہ کل عالم انسانیت کی طرف بھیجے گئے۔

                اس سے بڑھ کر اور کیامعراج ہوسکتی ہے کہ محسن انسانیتﷺنے میدان جنگ کو بھی معراج انسانیت عطاکردی۔آپﷺ نے ہاتھوں میں تلوار تھماکر قوت بازوکو خوف خدااوراحساس جواب دہی عطاکیا۔کل تاریخ انسانیت میں فتح سے بڑھ کر کوئی نشہ نہیں ملتا،اس نشہ میں مخموربدمست فاتحین کے انسان دشمن کرتوت آج بھی اسی طرح ہیں جس طرح ماضی بعیدمیں تھے یااس سے بھی دوچند ہیں۔لیکن آپ ﷺ نے ہر نشہ آورچیزحرام کردی اور میدان جنگ کو بھی اصول و ضوابط کی ہتھکڑیاں فراہم کر کے قتال فی سبیل اللہ کرنے والوں کے ہاتھ باندھ دیے۔بندوں کو مخلوق کی غلامی سے نکال کر خالق کی غلامی میں لانا مقصد جہادقرارپایااور اللہ تعالی کی زمین پر اللہ تعالی کے نظام کانفاذمنتہائے قتال قراردیاگویا نہ مال غنیمت نہ کشوررکشائی۔یہ صاحب معراج کی میدان جنگ کو عطائے معراج ہے۔آپﷺکے زمانے تک جنگی قیدیوں کو آزادکرنے کاکوئی تصورہی موجود نہیں تھا،صدیوں اور نسلوں کاماضی اس مبارک عمل سے کلیۃ نابلد تھا،قتل یا غلامی کے علاوہ جنگی قیدیوں کے لیے تیسرا کوئی راستہ مطلقاََ معدوم تھا۔اس آسمان نے تاریخ جنگ و جدال میں پہلی دفعہ دیکھاکہ جنگ بدر کے قیدی اپنابقیہ عرصہ حیات اور اپنی گزشتہ آزادی کے ساتھ اپنے مادروطن کو پلٹ رہے ہیں۔آج کے سیکولرازم نے معاشی جنگ،معاشرتی و تہذیبی جنگ،تعلیمی جنگ اور انتہائی خطرناک ترین مہلک ہتھیاروں کی دوڑ کی آڑمیں کل انسانیت کو بدترین غلامی میں جھونک رکھاہے۔جمہور کی آزادی کے نام پر جمہوراپنی ناک تک اس غلامی میں ڈوب چکے ہیں،آزادمعاشی سرگرمیوں (Free Market)کے نام پربدترین معاشی جبروتشدد سے پوری دنیاکی معیشیت کو سود کی ظالمانہ بیڑیوں سے غلام بنارکھاہے،انسانیت کے نام پر عالمی ادارے قائم کر کے ان اداروں کے ذریعے پوری انسانیت کو اپنے بین الاقوامی پیش نامے(ایجنڈے)کی تکمیل کامکروہ دھندا تھماکر مقامی حکومتوں کے ہاتھ پاؤں باندھ رکھے ہیں،عورت کی آزادی کے نام پر بدکاری کی آزادی کے ذریعے اس کو اپنی حوس نفسانی کا غلام بنانااور جانور سے بھی بدترسلوک روارکھ کر اپنی مردانہ انا کو تسکین فراہم کرناوغیرہ وہ ہتھکنڈے ہیں جن کے ذریعے آج کے فرعون نے صرف نام بدل کرکل انسانیت پر کرب ناک،اندھوناک اوراذیت ناک غلامی مسلط کررکھی ہے۔

                محسن انسانیت ﷺکایہ درس معراج ہے کہ آپﷺنے کل انسانی اخلاقیات و معاملات کوان کی معراج تک پہنچایا۔صدیاں گزرجانے کے بعد بھی اوربے شمارتجربے کرچکنے کے بعد بھی انسانوں کے اعلی ترین اذہان اس معراج مصطفیﷺمیں کوئی اضافہ نہیں کرسکے۔علوم معارف نے کتنی ترقی کرلی،سائنس اور ٹکنالوجی کے میدان انسان خوابوں سے بھی آگے نکل گئے،رابطوں کی ترقی نے کرۃ ارض سمیٹ دیالیکن اس سب کے باوجود جس جس معراج کا تعین رحمۃ اللعالمین نے کیااس میں کسی طرح کااضافہ ممکن نہیں ہوسکااورنہ قیامت تک ہو سکے گاکیونکہ آپﷺ معراج کی جن بلندیوں تک پہنچ گئے اس سے آگے کوئی مقام ہی نہیں ہے اوریہی ختم نبوت بھی ہے۔اب کل انسانیت اجتماعی طورپر اورانفرادی طورپر بھی اگر اپنی فلاح و کامرانی چاہتی ہے تواسے معراج مصطفی سے سبق حاصل کرتے ہوئے اطاعت وفرمانبرداری رسولﷺکرنی ہوگی۔انسان چاہے یانہ چاہے اسی راستے میں ہی اس کے لیے نجات کاانجام رکھ دیاگیاہے پس خوش قسمت اورکامیاب و کامران ہیں وہ لوگ جو نبیﷺکی پیروی اختیارکرتے ہیں۔

[email protected]

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
58845

 راشٹریہ سویم سیوک سنگھ(RSS)-( ہندودہشت گرد جتھہ)- ڈاکٹرساجدخاکوانی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 راشٹریہ سویم سیوک سنگھ(RSS)

( ہندودہشت گرد جتھہ)

ڈاکٹرساجدخاکوانی

                ”راشٹریہ سوائم سویک سنگھ (RSS)“ایک ہندوقوم پرست اورمذہبی انتہاپسندتنظیم ہے۔یہ تنظیم بھارت کی مشہور سیاسی جماعت ”بھارتیہ جنتاپارٹی(BJP)“کی جنم بھونی ہے۔”راشٹریہ سوائم سویک سنگھ (RSS)“کاقیام27ستمبر 1925ء میں عمل میں آیا۔اس کے قیام کااولین مقصد ہندؤں کو مذہبی تعلیمات کی بنیادپر تربیت دے کر ”ہندوراشٹریہ“یعنی ہندوملت بنانا مقصود تھا۔لیکن رفتہ رفتہ یہ ایک ہندوقوم پرست جتھہ بن گیاجس نے ہندؤں کی تمام جماعتوں،تنظیموں اور گروہوں کو اپنی نظریاتی آغوش میں بھرلیا۔”راشٹریہ سوائم سویک سنگھ (RSS)“نے ہندوستان کی سرزمین پر رفاہی ادارے،تعلیمی ادارے اور کلب بھی بنائے تاکہ ہندودھرم کی تبلیغ و اشاعت کرائی جاسکے۔اس تنظیم کابانی انگریزکی عدالت کاایک سزایافتہ قیدی ”کشوبالی رام ہجوار“تھاجس نے 1921ء کے دوران کسی جرم میں ایک سال کی جیل کاٹی تھی۔”ناگ پور“نامی مشہور شہر میں ”راشٹریہ سوائم سویک سنگھ (RSS)“کی تاسیس ہوئی۔اس جتھے کے بانی نے اگرچہ اصولی فیصلہ کیاکہ اس تنظیم کی کسی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں ہوگالیکن پھر بھی مذہبی تعصب ان کو کانگریس کی حمایت میں کھینچ گیا۔1931ء میں انگریز کی پولیس نے ایک بار پھر اس جتھے کے بانی کو گرفتارکیااور جیل میں ڈال دیا۔یہ دوسری بار تھاجب اس تنظیم کابانی قید خانے کامستحق گرداناگیا۔صرف بانی ہی نہیں اس جتھے کی نارواحرکتوں کے باعث انگریز کی حکومت نے اس جتھے پر پابندیاں بھی لگائیں۔دوسری جنگ عظیم میں اس ہندوجتھے نے کھل کرایڈوف ہٹلرکی حمایت کی اور اس کے نسل پرست رویے کو بہت سراہا۔23مارچ1940ء کوجب لاہومیں قائداعظم ؒکی قیادت میں مسلمانان ہندوستان فلسطین کے حق میں قراردادمنظورکررہے تھے تب ”راشٹریہ سوائم سویک سنگھ (RSS)“نے برملا اسرائیل کے قیام کی حمایت کی تھی اور یہودیوں کی نسل پرستی اور اپنی زبان کے تعصب کوتہنیتی نظروں سے دیکھاتھا۔ان اقدامات سے اس ہندوانتہاپسند جتھے کے عقائدوافکارکا بآسانی اندازہ لگایاجاسکتاہے۔خود ہندوستان میں یہ جتھہ اس قدرمتعصب تھا کہ مہاتماگاندھی جیسی شخصیت کی بھی مسلمان حمایت پالیسی انہیں زہرآلود لگتی تھی۔

                24جنوری1947ء کو پہلی مرتبہ ”راشٹریہ سوائم سویک سنگھ (RSS)“پر پابندی لگی اور اسے غیرقانونی جتھہ قراردے دیاگیا۔4فرروری1948ء کو دوسری باراس جتھے پر پابندی لگی جب اس کے ایک رکن ”نتھورام“نے مہاتماگاندھی کاخون کردیا۔بھارت کی آزادی کے بعد تو یہ جتھہ بھارتی شہریوں کے لیے بے نتھابیل ثابت ہوا۔بھارت میں ہر قتل و غارت گری اور تمام بڑے چھوٹے فسادات میں یہ جتھہ سرغنہ کی حیثیت سے شامل رہا۔1969کو احمدآباد فسادات،1971کو تشیری فساد،1979کو بہار کے جمشیدپور فرقہ ورانہ فسادات اورسمجھوتہ ایکسپریس سانحہ تو وہ بڑے بڑے واقعات ہیں جن پر پورے عالم کی انگلیاں دانتوں تلے چلی گئیں۔اس ہندو جتھے کاایک اور سیاہ ترین کارنامہ 6دسمبر1992کو بابری مسجد کی شہادت ہے جب ”راشٹریہ سوائم سویک سنگھ (RSS)“کے دہشت گردوں نے مسجد میں داخل ہو کر اس مقدس عبادت گاہ کومنہدم کردیا۔ان کے علاوہ بم دھماکے،دیگر مذہب کے ماننے والوں کی سرعام پٹائیاں اور گھروں میں گھس کر عزتوں کی پامالی اور لوٹ مار تویہ جتھہ عین مذہبی عبادت سمجھ کر باقائدگی سے ادا کرتارہتاہے۔مگرمچھ کے آنسؤں کے مصداق ہر بڑے واقعے کے بعدبھارتی حکومت نے تحقیقاتی کمیٹیاں،عدالتی کمشن اور انکوائری کے ڈرامے رچائے لیکن کچھ ہی عرصے بعد یہ جتھہ ان تمام جالوں سے ایسے نکل گیاجیسے مکھن سے بال نکلتاہے۔بھارتی سیکولرازم کے دکھانے کے دانت اور چبانے کے دانت کلیتاََمختلف ہیں۔دہلی سرکار کے کئی چہرے ہیں،عالمی دنیاکو دکھانے کے لیے سیکولرچہرہ ہے،اپنے ہی ملک کے دیگر مذہب کو دکھانے کے لیے لبرل چہرہ ہے،عرب ممالک سے تعلقات میں بھاتی حکومت اپنے ملک کے مسلمانوں کی پرنور داڑھیاں آگے کردیتی ہے،پڑوسی ممالک کے لیے بھارت نے ایٹمی ہتھیاروں کاچہرہ تیارکررکھاہے جبکہ بھارتی حکومت کااصل چہرہ جس پرسے ساری دنیاکے سامنے سے پردہ ہٹناچاہیے وہ ”راشٹریہ سوائم سویک سنگھ (RSS)“کامکروہ چہرہ ہے۔

                ”سرسنگھ چالک“اس جتھہ کا سب سے بڑاگروہوتاہے اوراس کاچناؤ نامزدگی سے عمل میں آتاہے۔اور ظاہر ہے ہندؤں میں برہمن ہی کے لیے یہ جگہ مقرر ہوسکتی ہے اور کسی چھوٹی ذات کا ہندویہاں پہنچنے کاسوچ بھی کیسے سکتاہے۔جب کہ اسلام کا پہلا موذن جس رنگ،علاقے اورقبیلے سے تھا اسے ساری دنیاجانتی ہے۔اب تک متعدد سرسنگھ چالک ہو گزرے ہیں جنہوں نے اپنے اپنے ادوار میں غیرہندواقوام اور نیچ ذات کے ہندؤں کے خلاف ایک دوسرے سے بڑھ کراپنے دھرم کازہر گھولااوران کی جان،مال،عزت اور آبرو پر سنگین وار کیے۔”راشٹریہ سوائم سویک سنگھ (RSS)“کی مقامی شاخ کو”شاخا“کہتے ہیں،جتھے کایہ سب سے چھوٹاحصہ ہوتاہے۔جوہندوبھی اس جتھے میں شامل ہوکر قتل و غارت گری اور لوٹ مارکرناچاہے وہ سب سے پہلے اپنے مقامی ”شاخا“میں داخل ہوتاہے۔”شاخا“اپنے اپنے علاقے میں کسی عوامی جگہ پر ایک گھنٹے کے لیے اکٹھے ہوتے ہیں جہاں انہیں ”یوگا“کی مشقیں کرائی جاتی ہیں جو ہندومت میں جسمانی عبادت کا درجہ رکھتی ہیں۔اگریہ جسمانی مشقیں کسی اسلامی مدرسے میں کرائی جائیں توانہیں عالمی برادری دہشت گردی کی تربیت کہتی ہے اور ان پر ہوائی جہازسے بم بھی برسائے جاتے ہیں۔اس کے علاوہ جسمانی صحت کے لیے ”شاخا“کے تحت کھیلوں کے مقابلے بھی کرائے جاتے ہیں۔ذہنی تربیت کے لیے انہیں وطن سے محبت،مذہبی شعائراور عقائد کی تعلیمات سے بھی روشناس کرایاجاتاہے۔اگریہی کام کسی مسلمان معاشرے میں ہواسے سیکولراورلبرل ”دانشور“برین واشنگ کے نام سے موسوم کرتے ہیں یعنی نوجوانوں کو ذہنی وفکری طورپر گمراہ کیاجاتاہے۔”راشٹریہ سوائم سویک سنگھ (RSS)“کی فکری پہنچ اس جتھے کے دوسرے سرسنکھ چالک جسے عرف عام میں ”شری گروجی“کہتے ہیں اور اس کااصل نام”ایم ایس گولوالکر“تھانے ان الفاظ میں بیان کی ہے(The non-Hindu people of Hindustan must either adopt Hindu culture and languages, must learn and respect and hold in reverence the Hindu religion, must entertain no idea but of those of glorification of the Hindu race and culture…in a word they must cease to be foreigners; Or may stay in the country, wholly subordinated to the Hindu nation, claiming nothing, deserving no privileges, far less any preferential treatment— not even citizens’ rights—M. S. Golwalkar)

”ہندوستان کے غیرہندؤں کو لازمی طورپر ہندوتہذیب اور ہندوزبان اختیارکرناہوگی،انہیں ہندومذہب کااحترام کرناہوگابلکہ اس کے اندر رہ کر زندگی گزارناہوگی۔غیرہندؤں کو جھک کررہناہوگااور انہیں ملکی ہوتے ہوئے بھی غیرملکی تصورکیاجائے گااوران کوکسی طرح کی مراعات حاصل نہ ہوں گی حتی کہ شہری حقوق بھی انہیں میسر نہیں ہوں گے“۔بحوالہ:(Guha, Ramachandra (2008). India After Gandhi: The History of the World’s Largest Democracy. Pan Macmillan. p. 19. ISBN 9780330396110.)

                ننگ انسانیت کردادوافکارکاحامل یہ جتھہ جس نے بھارت میں مخلوق خداکاجینادوبھرکیاہواہے پوری دنیاکی نظروں سے دانستہ اوجھل ہے،حتی کی وطن عزیزکے سیکولراورلبرل طبقے اور موم بتی مافیاکی آنٹیاں بھی اس جتھے سے مجرمانہ آنکھ چراکر دوقومی نظریے کاانکار کرتی ہیں۔بھارت کی تمام سیاسی جماعتیں اور حکومتیں اسی جتھے کی آشیربادسے حکومت کرپاتی ہیں اور بھارتی سیاستدان حزب اقتدارمیں ہوں یاحزب اختلاف میں،اس جتھے کی ناراضگی مول لینے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔بھارت میں مشرق سے مغرب تک ایک عام بے چینی کاماحول ہے اور ہندو انتہاپسند دہشت گرد تنظیمیں ہوٹلوں اورکلبوں سے عورتوں کو نکال نکال کر اس جرم کی سزادیتی ہیں کہ وہ کسی غیر مذہب کے ساتھ یا نیچ ذات کے ہندوکے ساتھ محورقص تھیں یاایک ہی برتن میں کھانا کھارہی تھیں۔لیکن افسوس کہ ”راشٹریہ سوائم سویک سنگھ (RSS)“کایہ چہرہ کسی فلم ساز کو نظر نہیں آتااور نہ اس پر بننے والی فلموں کوکوئی عالمی انعام دیاجاتاہے۔یہ تنظیمیں ببانگ دہل اعلان کرتی ہیں کہ کسی ادارے نے کسی غیرمذہب یانیچ ذات کے ہندوکوملازمت دی تو ان کی اینٹ سے اینٹ بجادی جائے گی اور نتیجہ یہ کہ بہترین تعلیمی نتائج کے حامل عام نوجوان سڑکوں پر دھکے کھاتے رہتے ہیں اور برہمن کانکمہ اورنالائق بیٹااپنی نسلی تفوق کی بنیادپر اونچے مناصب تک جاپہنچتاہے۔جب محروم طبقہ اگربغاوت پر آمادہ ہوتو بھارتی فوج گولڈن ٹمپل امرتسراورکشمیر کی تاریخ دہرانے بھارت کے کے ہر کونے میں جاپہچتی ہے۔ہندوستان میں جب سے مسلمانوں کااقتدارختم ہوا ہے بدیسی راج سے برہمن راج تک انسانیت سسک سسک کر جی رہی ہے۔لیکن حالات ہمیشہ ایک سے نہیں رہتے اور وقت بہت جلد کروٹیں بدلتاہے۔ اب تاریخ ایک بارپھر ہندوستان کوپانی پت کی تیسری جنگ کی طرف دھکیل رہی ہے جس کے بعد وارثان دہلی اپناحق وراثت ضرورحاصل کرپائیں گے،انشااللہ تعالی۔

[email protected]

Posted in تازہ ترین, مضامین
58843

ہندوکش کے دامن سے چرواہا کی صدا- گھبرانا نہیں- تحریر عبدالباقی چترالی

ہندوکش کے دامن سے چرواہا کی صدا- گھبرانا نہیں- تحریر عبدالباقی چترالی

گزشتہ تین سالوں سے ملک کا سربراہ ،مشیر اور وزیر مسلسل قوم کو تقریریں سنا رہے ہیں ۔اگر کوئی ملک دل خوش کن نعروں اور جزباتی تقریروں سے ترقی کرتا ہے تو اس وقت ہمارے ملک ترقیافتہ ملکوں کے صفوں میں شامل ہوتا۔ملک کے عوام موجودہ حکمرانوں کے خشک تقریروں اور جھوٹے وعدوں سے تنگ آ چکے ہیں ۔مہنگائی روز بروز بڑھتی جا رہی ہے ، حکمران مہنگائی کو قابو کرنے کے بجائے مزید مہنگائی کر رہے ہیں ۔جبکہ ملک کے غریب عوام پہلے سے مہنگائی کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہیں۔آنے والے وقتوں میں مزید مہنگائی ملک کے غریب عوام کے لئے ناقابل برداشت ہو گا۔اور عوام کے لئے گھروں میں رہنا مشکل ہو جائے گا۔مہنگائی سے پریشان حال عوام سڑکوں پر نکل آئیں گے تو حکمرانوں کے لئے ملک میں آمن آمان برقرار رکھنا دشوار ہو جائے گا ۔

موجودہ حکومت گزشتہ تین سالوں میں عوام سے کیے گئے ایسا کوئی وعدہ پورا کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی۔مہنگائی کی وجہ سے ملک کے غریب عوام کی چیخ و پکار حکمرانوں کو سنائی نہیں دے رہا ہے ۔ملک کے غریب عوام مہنگائی کے ہاتھوں اتنے بد حال ہو چکے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو دو وقت کا کھانا نہیں کھلا سکتے ۔بیمار ہونے کی صورت میں ادویات مہنگا ہونے کی وجہ سے اپنے بچوں کا علاج معالجہ نہیں کر سکتے ہیں ۔حکومت کے مشیر اور وزیر کہ دوسرے ملکوں کے مثال دیتے ہیں۔ان ملکوں کے مقابلے ہمارے ملک میں مہنگائی کم ہے کرایہ کے مشیر یہ سوچنے کی زحمت نہیں کرتے ان ملکوں میں لوگوں کی ماہانہ آمدنی کتنی ہے؟جبکہ ہمارے ملک میں ایک مزدور یا سرکاری ملازم کو ماہانہ کتنی تحنخواہ ملتی ہے؟ موجودہ بڑھتی ہوئی مہنگائی حکمرانوں کے غلط فیصلوں اور ناقص معاشی پالیسیوں کی وجہ سے پیدا ہوا ہے ۔

مستقبل میں مہنگائی میں مزید اضافہ ہونے کا امکان ہے۔کیونکہ آئی ایم ایف کی دباؤ کی وجہ سے پٹرول ، بجلی اور گیس کے نرخ مزید بڑھنے کا خدشہ ہے۔جبکہ حکومت مہنگائی کو قابو کرنے کے بجائے اپوزیشن جماعتوں کی مسلسل کردار کشی میں لگا ہوا ہے۔ موجودہ مہنگائی کو بھی اپوزیشن جماعتوں کی کارستانی قرار دے رہی ہے۔حکمران جماعت تین سال تقریروں اور جھوٹے وعدوں کے سہارے گزار دیا ہے۔اپ مہنگائی کے خلاف کوئی ٹھوس عملی اقدام اٹھانا چاہیے تاکہ ملک کے غریب عوام کو مہنگائی سے نجات مل سکے۔ملک اس وقت شدید معاشی بحران کا شکار ہو چکا ہے ۔موجودہ حکومت کے معاشی ٹیم میں اتنی اہلیت نہیں ہے کہ وہ ملک کے عوام کو بدترین مہنگائی سے نجات دلا سکے۔کیونکہ حکومت کے معاشی ٹیم میں اکثر کرایہ کے ماہرین موجود ہیں۔ان کا نہ ملک سے کوئی دلچسپی ہے اور نہ عوامی مسائل کا احساس ہے۔ان کو اپنی مفادات عزیز ہیں۔

جن لوگوں نے تبدیلی کے دلفریب نعروں اور جزباتی تقریروں سے متاثر ہو کر کپتان کو ووٹ دیا تھا۔اب وہ لوگ بچھتا رہے ہیں۔اب بچھتانے سے کیا فائدہ؟ تبدیلی آئی مہنگائی لائی ہے، عوام کو گھبرانا نہیں ، یہ مہنگائی نہیں مہنگائی آنے والی ہے، گھبرانا نہیں۔ موجودہ مہنگائی سے نجات حاصل کرنے کے لیے کراچی سے چترال تک تمام غریب عوام کو گھروں سے باہر آنا چاہیے۔ بے تحاشا مہنگائی اور بےروزگاری کی وجہ سے گھروں میں رہنا مشکل ہو چکا ہے ۔ اللّٰہ تعالیٰ بھی ان لوگوں کی مدد کرتا ہےجو اپنے مدد آپ کرتے ہیں۔اس وقت گھرانوں میں بھیٹہ کر مہنگائی کا رونا رونے سے نہ مہنگائی میں کمی آئے گی اور نہ ہی روزگار ملے گا ۔لہذا ملکی آئین اور قانون کے دائرے میں رہ کر ملک کے غریب عوام کو خود ہی متحد ہو کر اپنے حقوق کے لئے جہدوجہد کرنا پڑے گا۔اس وقت ملک میں جماعت اسلامی کے سوآ تمام اپوزیشن جماعتیں تماشائی بنے ہوئے ہیں ۔اور عوام کو دھوکے دے رہے ہیں ۔اس وقت جماعت اسلامی وہ واحد جماعت ہے جو مہنگائی کے خلاف غریب عوام کے ساتھ کھڑا ہے۔اس کا سیاسی اثر حلقہ محدود ہونے کی وجہ سے ابھی تک وہ مہنگائی کے خلاف کوئی بڑے تحریک چلانے میں کامیاب نہیں ہوا ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
58841

چترال میں زراعت – پروفیسر رحمت کریم بیگ

جس کھیت سے دھقان کو میسرنہیں روزی – اس کھیت کے ہر خوشہء گندم کو جلادو

چترال ایک پہاڑی ملک ہے،یہاں زراعت کے لئے کفالت کی حد تک زرعی زمین بہت کم لوگوں کے پاس ہے،چترال کے بیشمار پہاڑ اس کی اصل وجہ ہیں، جہاں جہاں ہموار زمین اور پانی دستیاب ہے وہاں چترال کے ہر فرد نے ان سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے، یہاں لوگ زرعی فصلوں کے ساتھ پھلدار پودے لگانے کے بہت شوقین ہیں ہر گھرانے کے آس پاس آ پ کو پھلد ار درخت دیکھائی دیں گے اور گرمی میں ہر قسم کے پھل بھی، لوگوں میں یہ شوق قدرتی ہے، بعض زیادہ زمین کے مالک لوگ تو اچھے اچھے باغات لگاتے ہیں جو گو رزین کہلاتا ہے جس میں طرح طرح کے پھلد ار درخت ہوتے ہیں یہ گورزین گھر کے ساتھ ملحق بنائے جاتے ہیں اور ان کا پھل دراندازوں سے محفوظ ہوجاتا ہے، ان کا پھل وقتی استعمال کے بعد خشک کرکے سردی کے مہینوں کے لئے اکھٹا کیا جاتا ہے، گورزین سے باہر پھلدار اور غیر پھلدار درخت لگانیکا رواج بھی ہے ایسے درختوں کے جھنڈ کو ؛،کوچ، کہا جاتا ہے اور وہاں سے سردیوں کے لئے جلانے کی لکڑی اکھٹی کی جاتی ہے اس طرح یہ لوگ اپنی زمینوں سے پھل اور کھانا پکانے کے لئے لکڑی جمع کر لیتے ہیں یہ زمانہء قدیم سے رواج پاکر آج تک قائم ہے مگر آج کل لوگ اس معاملے میں کمزور ہوگئے ہیں نوجوان اتنی محنت نہیں کرتے جتنا ہمارے باپ دادے کیا کرتے تھے اس لئے ہماری ثقافت کا یہ پہلو زوال پزیر ہے۔

چترال میں زراعت کی اس پہلو کے ساتھ لوگوں کی دلچسپی کو دیکھ کر زراعت کا محکمہ قائم کیا گیا اور اس محکمے نے پھلدار پودوں کی طرف زیادہ توجہ دی اس سلسلے میں جس شخص نے انقلابی قدم اٹھایا اس کا یہاں زکر نہ کرنا زیادتی ہوگی،یہ مخلص شخصیت چترال موردیر کے مرحوم سیف الملوک تھے جو یونیورسٹی سے زراعت کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد چترال میں زراعت کے محکمہ کے سربراہ بنائے گئے تھے اور ان کی انتھک کوششوں سے چترال اور بونی میں نرسریاں قائم کی گئیں جن سے لوگوں کو پودے تقسیم کئے جاتے تھے، چونکہ ان دنوں چترال میں جیپ ایبل روڈ نہیں تھے اس لئے یہ پودے قریبی دیہات کے لوگ ہی اٹھا کر لے جاتے تھے اور دور دراز کے لوگ اس کار خیر سے با خبر نہ تھے مگر اب سڑکوں کی وجہ سے دور مقامات کے لوگ بھی ان پودوں سے فائدہ اٹھانے لگے ہیں۔ان پودوں میں سیب، خوبانی، الوچے، بادام، چیری،اڑو وغیرہ نمایاں ہیں، چترال میں چیری کو محکمہ زراعت ہی نے ترقی دیکر شہرت بخشی ہے۔

محکمہ زراعت کی اس اقدام سے بعض لوگوں نے سبق حاصل کیا اور اپنی اپنی زمینوں پر نرسریاں بنانی شروع کی اور آج بازار میں بکنے والی ان پودوں میں بیشتر زاتی نرسریوں کے مالکان کے پودے بکثرت مل جاتے ہیں، میں نے شندور کے پار پھنڈ ار سے نیچے کے علاقوں میں بادام کے پودے اور بادام کی بڑی پیداوار کا مشاہدہ کیا ہے اور ان لوگوں کا بیاں ہے کہ بادام بہت نفع بخش پودا ہے اس لئے میری گزارش چترال والوں سے یہی ہے کہ یہاں اور وہاں کے موسمی حالات تقریبا یکسان ہے اس لئے چترال میں بھی بادام کی نرسریاں زیادہ مقدار میں لگاے جائیں تا کہ لوگوں کی نقد آ مدنی کا زریعہ بن سکیں اس کی اچھی قیمت مل جاتی ہے اور یہ نہایت پسندیدہ خشک میوہ ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
58822

تبدیلی سرکار اورشاہرائے نیلم کے نام کی تبدیلی-پروفیسرعبدالشکورشاہ

تبدیلی سرکار اورشاہرائے نیلم کے نام کی تبدیلی-پروفیسرعبدالشکورشاہ

سڑکیں ملکی معیشت کی شریانیں تصور کی جاتی ہیں جن کے سبب معاشی نبض رواں رہتی ہے۔دشوار گزار سڑک اکثر ایک خوبصورت منزل تک پہنچاتی ہے۔نیلم ویلی روڈ بھی اپنی کم کشادگی، دشوار گزاری،خطرنک موڑوں اور چڑھائیوں کے بعد ہمیں ارضی جنت کے ان حسین و جمیل نظاروں تک پہنچاتی ہے جنہیں دیکھ کر عقل دھنگ رہ جاتی ہے۔ ارضی جنت کشمیر میں وادی نیلم کی تاریخی اور واحد سڑک نیلم ویلی روڈقومی شناخت کی علامت ہے جس کا نام تبدیل کرنے کی مذموم کوشش کی جارہی ہے۔آج تک کشمیر میں تاریخ کشمیر پڑھانے کی توفیق تو نصیب نہیں ہوئی، کشمیری مقامی زبانوں کو لازمی تو درکنا ر اختیاری مضمون کا درجہ دینے کی ہمت تو نہیں ہوئی، آج تک مقامی صنعتوں کے فروغ اور مقامی جنگلات، نباتات، قیمتی جڑی بوٹیوں اور معدنیات کے تحفظ کی توفیق نہیں ہوئی بلکہ نیلم کے سیاحتی مقامات کی لیز ہو یا نیلم کی روڈ ان دونوں معاملوں میں ہم اتنی تیزی سے کام کرتے ہیں کہ عقل حیران رہ جاتی ہے۔ نیلم ویلی روڈ پورے ضلع کی شناخت کی علامت اور ہماری پہچان ہے۔ اہلیان نیلم اپنی اس شناخت کو مسخ کرنے کی کسی صورت اجازت نہیں دیں گے۔ ہمارے لیے جناب کے ایچ خورشید صاحب انتہائی قابل احترام ہیں۔

دکھ کی بات یہ ہے نیلم ویلی روڈ کا نام تبدیل کرکے کے ایچ خورشید روڈ رکھنے کی منصوبہ بندی بنیادی طور پر جناب کے ایچ خورشید مرحوم کی شخصیت کو متنازعہ بنانا ہے۔ بے شمار سرکاری سکولز، ہسپتال اور دیگر سرکاری عمارتیں اور پل موجود ہیں جنہیں جناب کے ایچ خورشید صاحب کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ان کے نام کیا جا سکتا ہے۔مگر اس کام کے لیے نیلم ویلی روڈ کا انتخاب کسی حیرت سے کم نہیں ہے۔ آخر ہر مہم کے لیے نیلم ویلی کا انتخاب ہی کیوں کیا جاتا ہے؟ پاکستان سے ایک فرد کو اٹھا کر نیلم ویلی میں الیکشن لڑوانا، نیلم ویلی کے سفید رقبہ جات کی لیز اور نیلامی، بیرونی افراد کے نام زمینوں کی منتقلی، گیسٹ ہاوسسزکی تعمیر اور انتظامیہ کی ملی بھگت سے وادی کے مختلف مقامات پر وزیروں مشیروں کے دوستوں کے لیے زمینوں کی خریداری وغیرہ سب ایسے عوامل ہیں جنہوں نے وادی نیلم کے لوگوں بالخصوص نوجوانوں کو محوحیرت میں ڈال دیا ہے۔مانا کے ایچ خورشید مرحوم نے نیلم ویلی روڈ کی تعمیر میں کردار ادا کیا مگر عوامی نوعیت کے اس منصوبے میں بہت سے دیگر افراد کا بھی حصہ ہے جنہیں نظر انداز کر کے صرف ایک فرد کے سر سہراباندھنا خیانت ہے۔

وزیر لوکل گورنمنٹ اگر جناب کے ایچ خورشید صاحب کو واقعی خراج تحسین پیش کرنے میں مخلص ہیں تو مظفرآباد سی ایم ایچ چوک کو اپنے والد گرامی کے نام کرنے کے بجائے جناب کے ایچ خورشید کے نام سے منسوب کر دیتے۔ میں حیران ہوں جناب نے نیلم ویلی کے لوگوں کو وہاں کے چند مفاد پرستوں کے کہنے پر اتنے بے بس سمجھ لیا کے نیلم کی عوام اور نیلم سے منتخب ایم ایل ایز علماء مشائخ کی سیٹ پر حکومتی ایم ایل اے، پارلیمانی سیکرٹری، امور نوجوانان اور جیل خانہ جات کی نشست پر براجمان جناب پیر مظہر سعید شاہ صاحب سے مشاورت کیے بغیر احکامات صادر فرما دیے۔ عزت مآب مانا کے آپ بر سر اقتدار ہیں اور اقتدار کے دن بہت تیزی سے گزر جاتے ہیں۔ عجب جمہوریت ہے جس عوام نے اپنے ووٹوں کے زریعے اپنے منتخب نمائندے اسمبلیوں تک اس لیے تو نہیں پہنچائے کے ایک وزیرنہ تو عوام کے جذبات، احساسات اور شناخت اور ان کے منتخب کردہ نمائندوں کو اعتماد میں لیے بغیر نیلم کی شناخت بدلنے کا پروانہ جاری کر دے۔

اس سے بھی بڑا تعجب اس بات پہ ہے کے ہمارے وادی نیلم سے اس وقت 3ایم ایل ایز اسمبلی میں موجود ہیں مگر کسی نے اس معاملے پر آواز بلند نہیں کی۔اگر ان منتخب کردہ نمائندوں کو اس عوام کی شناخت کھو جانے پر فرق نہیں پڑتا تو ایسے نمائندے غاصب، مفاد پرست، ان الوقت اور منافق ہیں جو الیکشن کے دوران عوام عوام کرتے نہیں تھکتے اور اسمبلیوں میں پینچ کر حکومت کے گن گاتے اور ان کے غلط اقدامات پر اپنے مفادات کی خاطر چپ سادھ لیتے ہیں۔ نیلم ویلی روڈ کے نام کی تبدیلی اہل نیلم کو کسی صورت قبول نہیں ہے۔ ہم ہر فورم پر بھر پور احتجاج کریں گے اور ضروت پڑنے پر عدالت جانے سے بھی گریز نہیں کریں گے۔ نیلم ویلی روڈ نام کی تبدیلی کی بہت سی وجوہات ہیں۔ ایک بظاہر وجہ یہ ہے کہ نیلم کی عوام نے ضلع نیلم کے دونوں حلقوں سے تختی سرکار کا صفایاکیا۔ اپر حلقے سے ن لیگ جبکہ لوئر حلقے سے پی پی جیتی۔ اب مہنگائی خان اور ان کی پارٹی ضلع نیلم کی عوام کے جمہوری فیصلے کا انتقام لینے کے لیے نیلم کی شناخت کے درپے ہے۔

چلیں یہ بھی مان لیتے ہیں جناب کے ایچ خورشید صاحب نے سڑک بنوائی تو کوئی بھی سربراہ ریاست یا وزیر سڑک اپنی جیب سے نہیں بنواتا بلکہ عوامی ٹیکسوں کے پیسوں سے بنواتا ہے اور یہ کوئی احسان نہیں ہے یہ عوام کا بنیادی حق ہے۔ یوں لگتا ہے نیازی سرکاری کشمیر کو عبوری صوبہ بنانے کے منصوبے کے لیے آزمائشی فائر کر رہی ہے تاکہ عوامی ردعمل چیک کیا جا سکے۔ کے ایچ خورشید صاحب نے سڑک بنوائی تو اس لیے ان کا حق ہے یہ سڑک ان کے نام کر دی جائے پھر تو ضلع نیلم کا نام ضلع مفتی منصور الرحمان، اپر اور لوئر حلقوں کو حلقہ شاہ غلام قادر، آزادجموں و کشمیر نیلم کیمپس کا نام میاں وحید کیمپس، الحاج گل خاندان انجینئرز اینڈ ڈاکٹرز، ترقیاتی ادارہ نیلم کا نام میاں غلام رسول ترقیاتی ادارہ رکھ لیا جائے۔ عوامی جذبات اور قومی شناخت کی پرواہ نہ کرنے والے کسی صورت بھی لیڈر کہلوانے کے قابل نہیں ہیں۔ گزشتہ چند سالوں کے دوران نیلم ویلی سیاحت کا مرکز بن چکی ہے۔ یہ وادی ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ سالانہ جنگلات، معدنیات، قیمتی جڑی بوٹیوں اور سیاحت کے زریعے ملکی معیشت کی چکی چلانے میں اول نمبر پر ہے۔ نیلم روڈ کے نام کی تبدیلی سے سیاحت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے اور سیاحوں کے لیے مشکلات پیدا ہوں گی کیونکہ ہر سال ہزاروں سیاح وادی نیلم سیر کے لیے آتے ہیں۔ سیاحت کی وجہ سے نیلم ویلی روڈ قومی شاخت کے ساتھ ساتھ وادی کی پہچان بن چکی ہے جس کے نام کی تبدیلی سے سیاسی، معاشی، سیاحتی، تاریخی، ثقافتی اور نفسیاتی نقصانات ہوں گے۔

سیاسی لحاظ سے عوامی غیظ و غضب حکومت کے لیے مشکلات پیدا کرے گاجو کہ فیڈرل گورنمنٹ کے سہارے چلنے والی اس حکومت کے لیے شدید نقصان کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔ اس اقدام سے حکومتی پارٹی ایک ضلع سے اپنی ساکھ مکمل طور پر کھو بیٹھے گی جہاں سے اسے پہلے ہی شکست فاش کا سامنا کرنا پڑا ہے وہاں مستقبل میں مزید بری کارکردگی ان کا مقدر ہو گی۔ اب انٹرنیٹ کا زمانہ ہے اور سیاح نیویگیشن کے زریعے راستہ تلاش کرتے ہیں۔ نیلم ویلی روڈ  نیوگیشن پر موجود ہے اور سیاح اس سے کافی آشنا ہیں۔نیلم ویلی روڈ نام خورشید الحسن خورشید کی نسبت زیادہ آسان اور عام فہم ہے۔کشن گھاٹی، دراوہ کی ارتقائی تبدیلیوں کی چکی میں پستے پستے نیلم کا نام پایا ہے جو آسان فہم، ذہن نشین، ادائیگی میں سہل اور اس کی لفظی ادائیگی بھی آسان ہے۔ نام کی تبدیلی نہ صرف مقامی افراد کے لیے لسانی مشکل کا باعث بنے گی بلکہ عزت مآب جناب کے ایچ خورشید صاحب کے نام کے بگڑاو کا سبب بھی بنے گی جس کی وجہ سے خراج تحسین تضحیک میں بدل جائے گا۔ دریائے نیلم، وادی نیلم اور شاہرائے نیلم میں ایک وزن، مماثلت، خوبصورتی، دلکشی اور یکجہتی جیسی خوبیان موجود ہیں۔ شاہرائے نیلم کو خورشید الحسن خورشید کے نام پر منسوب کرنے سے نہ صرف یہ وزن، مماثلت، خوبصورتی، دلکشی اور یکجہتی تیس نیس ہو جائے گی بلکہ وادی نیلم اور دریائے نیلم کی شناخت بھی خطرے میں پڑے جائے گی۔ کل کوئی حکومت وادی نیلم اور دریائے نیلم کا نام بھی تبدیل کرنے کا پروانہ جاری کر دے تو پوری وادی کی سالہا سال کی تاریخ، ثقافت اور شناخت معدوم ہو جائے گی۔

مشہور قومی سیاحتی مقامات مری، چترال، ناران کاغان، ہنزہ،سوات اور گلگت بلتستان کی طرح کشمیر میں وادی نیلم سب سے مشہور سیاحتی وادی ہے اور اس وادی کی واحد سڑک شاہرائے نیلم ہے۔ نیلم ایک معروف سیاحتی مرکز ہونے کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر اہمیت کا حامل ہے جس کا ثبوت مختلف رسائل، جرائد، سیاحتی پیجز، گائیڈز، مقالہ جات، تحقیقی نگارشات، تصانیف اور تواریخ میں درج ہے۔ شاہرئے نیلم کے نام کی تبدیلی تو ہمیں وادی نیلم میں تیزی سے پھلتی پھولتی سیاحت کے ساتھ ایک ضد اور عناد محسوس ہوتی ہے تاکہ سیاحوں کے لیے آسانی کے بجائے مشکلات پیدا کی جائیں۔ گوگل نیوگیٹر خورشید الحسن خورشید روڈ تلاش کرتے کرتے کہیں سیاحوں کو جنگلات میں گم نہ کر دے۔ شاہرائے نیلم کے نام کی تبدیلی کی وجہ سے سوشل میڈیا پر طوفان بدتمیزی برپا ہے ملکی سلامتی، بقاء،علاقائی بھائی چارے، سیاسی بردباری کو شدید خطرات درپیش ہیں۔ اگر اس عمل کو واپس نہ لیا گیا تو یہ کہنا بعید از قیاس نہیں ہو گا عوام میں غم و غصہ کے ساتھ حکومت مخالف جذبات جو مہنگائی اور دیگر مسائل کی وجہ سے جھلس رہے ہیں کسی شعلے کی صورت نہ اختیار کر لیں۔

جناب کے ایچ خورشید صاحب کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے پہلے ہی خورشید آباد سب ڈویژن، خورشید نیشنل لائبریری اور خورشید حال قائم ہو چکے ہیں۔ حکومت وقت دانشمندی کا مظاہرہ کر تے ہوئے جناب کے ایچ خورشید کے نام پر کوئی ادارہ، سکول، کالج، یونیورسٹی کیمپس یا ہسپتال منسو ب کرے جو ان کے شایان شان ہے۔اگرعلاقائی زبانی الفاظ کی ادائیکی کا تجزیہ کیا جائے تو مقامی افراد بہت کم نام درست تلفظ کے ساتھ ادا کر تے ہیں۔ یہ ایک لسانی المیہ ہے کہ وادی نیلم کے اکثر لوگ نام کو توڑمروڑ کر یا ردوبدل کے ساتھ استعمال کر تے ہیں جیسا کہ رشید کو رشیدہ، خورشید کو خورشیدہ یا کورشیدہ، حسن کو حسنا، جمیل کو جمیلہ وغیرہ۔مقامی سطح پر لسانی تجزیہ کی بنیاد پر محترم جناب کے ایچ خورشید صاحب کا نام بگاڑا جائے اور خورشید الحسن روڈ کو رشیدہ یا کورشید، رشیدو روڈ وغیرہ بولا جائے تو یہ بہت دکھ کی بات ہو گی۔نیلم ویلی روڑ اس قسم کی توڑ مروڑ کے امکانات کم ہیں اور کبھی کسی کو غلط انداز میں بولتے نہیں پایا گیا۔ حکومت وقت  غالب عوامی جذبات، احساسات، علاقائی تاریخ، وابستگی، ثقافت، شناخت اور متذکرہ بالا دیگر محرکات کو مد نظر رکھتے ہوئے نام کی تبدیلی کا فیصلہ واپس لیتے ہوئے اپنے آپ کو عوام امنگوں کی ترجمان ثابت کرے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
58820

داد بیداد ۔ سکول کھا نا پرو گرام ۔ ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی

داد بیداد ۔ سکول کھا نا پرو گرام ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

چیختی، چنگھا ڑ تی خبریں چاروں اطراف سے آرہی ہیں یو کرائن، ما سکو، واشنگٹن، لندن اور بر سلز کی خبروں سے زیا دہ پر کشش خبر یہ ہے کہ وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے اسلا م اباد کے 100منتخب سکولوں کے 25ہزار بچوں کے لئے سکول لنچ پرو گرام کا افتتاح کیا ہے یہ پرو گرام گزشتہ سال لا ہور کے 30سکولوں میں شروع کیا گیا تھا اس کا نا م سکول کھا نا پرو گرام رکھا گیا ہے ایک مخیر انجمن اللہ والا ٹرسٹ کی طرف سے سکول کے بچوں کو کھا نا فراہم کیا جا رہا ہے سکول کے اسا تذہ اور بچوں کے والدین کا کہنا یہ ہے کہ لا ہور میں سکول کھا نا پرو گرام شروع ہونے کے بعد بچوں کی حا ضری کی شرح سو فیصد ہوئی اور بچوں میں گھر کا کا م مکمل کرنے کا رجحا ن بھی بہتر ہوا، تعلیمی معیا ر میں بھی بہتری کے آثار دیکھے گئے فرانس میں ایک مقو لہ مشہور ہے کہ مزدور پیٹ سے سوچتا ہے

اگر اس مقو لے کو سکول کے بچوں پر چسپاں کیا جا ئے تو یوں کہا جا ئے گا کہ سکول کا طا لب علم پیٹ سے سو چتا ہے، پشتو میں ایک ضرب المثل بھی ہے جس کا تر جمہ کیا جا تا ہے کہ بھرا پیٹ فارسی بولتا ہے، سکول کھا نا پرو گرام تیسری دنیا کے غریب مما لک میں غر بت کی لکیر کے آس پا س رہنے والے گھر انوں کے بچوں کے لئے بہت بڑی تر غیب ہے تا ہم اس کا دائرہ غریبوں کی بستیوں یا غریب بچوں تک محدود نہیں دنیا بھر میں ایسے سکول ہیں جہاں لنچ کا با قاعدہ انتظام ہوتاہے طلبا اور طالبات سارا دن سکول میں گذار تے ہیں، ہوم ورک بھی سکول میں کر تے ہیں کھیل اور ور زش بھی سکول ہی میں کرتے ہیں شا م کو بسیں انہیں گھر چھوڑ آتی ہیں چین کے ہر سکول میں لنچ کا انتظام ہو تا ہے

نو مبر 2014میں خیبر پختونخوا سے ایک تعلیمی وفد نے تھا ئی لینڈ کا دورہ کیا، وفد میں ٹیکسٹ بک بورڈ کے پرو فیسر زبیر حسرت اور محکمہ نصاب و تر بیت اساتذہ (DCTE) کے ذولفقار احمد بھی شا مل تھے، وفد کے تین ارا کین کو بر ما کی سر حد پر چیا نگ ما ئی (Chiangmaie) کے ایک سکول کا دورہ کرا یا گیا، سکول میں 3ہزار طلبہ اور طا لبات کی تعدا د زیر تعلیم تھی ہم نے صبح کی اسمبلی سے لنچ کے وقت تک سکول میں مصرو ف دن گذارا، سکول کے کنٹین میں 14اقسام کے کھا نے پکتے تھے ہر طا لب علم کو مخصوص کھا نا دیا جا تا تھا اور یہ کسی ایک سکول کا معا ملہ نہیں تھا ہر سکول کا ایسا ہی طریقہ تھا، پا کستان کی حکومت نے لا ہور اور اسلا م اباد سے سکول کھا نا پرو گرام کے نا م سے جس کا م کا آغا ز کیا ہے اس کا دائرہ باقاعدہ منصو بہ بندی کے ساتھ پورے ملک تک بڑھا نا چا ہئے

اس کا م میں رضا کار تنظیمیں اور مخیر اصحاب حکومت کی مدد کر ینگے، پا کستان کے اندر سما جی بھلا ئی اور انسا نی ہمدردی پر اپنی دولت کا ایک حصہ خر چ کرنے کی شاندار روایت مو جو د ہے ہمارے ہاں دینی مدارس کا نظام دن بھر کی تعلیمی سر گر می کی واضح مثال ہے دینی مدارس میں طلباء اور طا لبات کو دن کا کھا نا بھی دیا جا تا ہے سارادن تعلیمی ما حول میں رکھا جا تا ہے اس کا مثبت اثر طلباء اور طا لبات کی تر بیت اور ان کے کر دار کے ساتھ تعلیمی استعداد میں بھی صاف نظر آتا ہے پا کستا نی قارئین کے لئے لا ہور اور اسلا م اباد کے 130سکولوں میں طلباء اور طا لبات کو دن کا کھا نا فراہم کرنے کے لئے سکول کا کھا نا پرو گرام اچھو تا اور نیا کا م لگے گا کیونکہ ہمارے سکو لوں میں یہ روایت نہیں رہی ہمارے سکولوں میں بچوں کو کھا نا دینے کی سہو لیا ت بھی نہیں اس مقصد کے لئے مخصوص جگہ بھی نہیں، اگر حکومت یہ منصو بہ آگے بڑ ھا نا چا ہتی ہے تو سکولوں میں کنٹین اور خا نسا ما ں کی سہو لیات بھی فرا ہم کرنی ہو نگی غا لب نے پیش گوئی کی تھی ؎
زما نہ عہد میں اس کے ہے محو ارائش
بنیں گے اور تارے اب آسمان کے لئے

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
58818

برقی جرائم کے تدارک کا قانون ۔ محمد شریف شکیب

برقی جرائم کے تدارک کا قانون ۔ محمد شریف شکیب

وفاقی حکومت نے پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ترمیمی آرڈیننس (پیکا)کا نفاذ کردیا ہے۔ پیکا آرڈیننس کے تحت کسی بھی شخص، کمپنی، ایسوسی ایشن، ادارہ یا اتھارٹی کے خلاف جعلی، من گھڑت اور جھوٹی خبر شائع،نشر اور ٹیلی کاسٹ کرکے کسی کے تشخص پر حملے کی سزا 3 سے بڑھا کر 5 سال کر دی گئی ہے۔ آرڈیننس کے مطابق شکایت درج کرانے والا خودمتاثرہ فریق، اس کا نمائندہ یا گارڈین ہوگا، جرم کو قابل دست اندازی پولیس قرار دیا گیا ہے جو ناقابل ضمانت ہو گا۔ ترمیمی آرڈیننس میں کہا گیا ہے کہ ٹرائل کورٹ 6 ماہ کے اندر کیس کا فیصلہ کرے گی اور ہر ماہ کیس کی تفصیلات ہائیکورٹ کو جمع کرائے گی، ہائیکورٹ کیس جلد نمٹانے میں حائل رکاوٹیں دور کرنے کے لئے وفاقی و صوبائی حکومتوں اور افسران کوہدایات جاری کرے گی۔

ہر ہائیکورٹ کا چیف جسٹس ایک جج اور افسران کو ان کیسوں کی سماعت کے لیے نامزد کرے گا۔حکومت مخالف سیاسی جماعتوں نے پیکا آرڈیننس کو آزادی اظہار رائے پر قدغن لگانے کے مترادف قرار دیتے ہوئے اسے عدالتوں میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔ وفاقی وزیرقانون نے پیکا آرڈیننس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ قانون جعلی اور من گھڑت خبروں کو روکنے کے لئے بنایاگیا ہے۔ اس سے میڈیا کی آزادی پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ معاشرے میں بے یقینی اور خوف و ہراس پھیلانے، شخصیات یا اداروں کو بدنام اور بے توقیر کرنے کی غرض سے جھوٹی خبریں، افواہیں اور فیک وڈیوز الیکٹرانک یا سوشل میڈیا پر چلانا آئینی، قانونی، اخلاقی اور مذہبی لحاظ سے مجرمانہ فعل ہے۔ جھوٹے پروپیگنڈے کی دین اسلام نے بھی سختی سے ممانعت کی ہے۔

اپنے سیاسی مخالفین کو بدنام کرنے، انہیں عوام کی نظروں سے گرانے اور راستے سے ہٹانے کے لئے فیک نیوز کا اجراء ہمارے معاشرے کے ماتھے پر ایک بدنما داغ ہے۔ کوئی بھی مہذب معاشرہ جعلی خبروں اور منفی پروپیگنڈے کی اجازت نہیں دیتا۔ اگر حکومت نے فیک نیوز کے تدارک کے لئے کوئی قدم اٹھایا ہے تو اس کی بھرپور حمایت کرنی چاہئے۔ہمارے ہاں ایک المیہ یہ ہے کہ کسی بات کو تحقیق اور تصدیق کے بغیر مزید مرچ مصالحے لگا کرآگے بڑھایاجاتا ہے بات کا بتنگڑ بنانا کوئی ہم سے سیکھے۔

کسی بھی خبر کی تصدیق کئے بغیر اسے من و عن دوسروں تک پہنچانے کی دین اسلام نے سختی سے ممانعت کی ہے۔ از راہ مذاق یا بدنیتی کی بنیاد پر پھیلائی گئی جھوٹی خبر کسی کی جان بھی لے سکتی ہے کسی کی عزت بھی خاک میں ملا سکتی ہے اور کسی کا کاروبار اور کیرئر بھی تباہ ہوسکتا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے ہاں قوانین کو اس کی تشریح کرنے والی اپنی پسند، مرضی اور فائدے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ الیکٹرانک جرائم کی روک تھام کے قانون کو بھی ذاتی مفادات کے لئے استعمال کئے جانے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔

سیاسی جماعتوں اور دیگر اداروں کو پیکا قانون کی مخالفت کے بجائے اس کے ممکنہ غلط استعمال کو روکنے کی تدبیر کرنی چاہئے۔ہمارا بنیادی مسئلہ قانون سازی نہیں، بلکہ مروجہ قوانین پر عمل درآمد کا فقدان ہے۔ دھوکے بازی، فراڈ، جعل سازی، ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی، گرانفروشی، بلیک میلنگ اور بلیک مارکیٹنگ کے خلاف قوانین موجود ہیں لیکن ان پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے یہ معاشرتی برائیاں اتنی پھیل گئی ہیں کہ ان کے تدارک کی کوئی سبیل نظر نہیں آتی۔ ریاست کو پارلیمنٹ میں نئی نئی قانون سازی اور آرڈیننسوں کے اجراء کے بجائے مروجہ قوانین پر ان کی روح کے مطابق عمل درآمد کے لئے کوئی لائحہ عمل اختیار کرنا چاہئے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
58765

آگے بڑھو یا پیچھو ہٹو – قادر خان یوسف زئی کے قلم سے

آگے بڑھو یا پیچھو ہٹو – قادر خان یوسف زئی کے قلم سے

جو کیفیت ایک فرد کی ہے، وہی حالت قوم کی ہے۔ آپ تاریخ انسانیت پر غور کیجئے۔ جن قوموں نے اپنے نظام تہذیب و تمدن کی بنیاد حق سچائی اور اعلیٰ اخلاقی اقدار پر نہ رکھی، وہ لامحدود قوت حاصل کرلینے کے باوجود تباہ و برباد ہوگئیں اس لئے کہ ایسا نظام تہذیب جس میں حق و صداقت کی کوئی متعین اصولوں پر کاربند نہیں رہا جاتا، مسلسل نظر انداز کئے جانے کی وجہ سے آخرالامر تباہ ہو کر رہ جاتا ہے۔ باطل اصول اور بد اخلاق معاشرے پر استوار عمارتیں اپنی کھوکھلی بنیادوں کی وجہ سے قائم دائم نہیں رہ سکتی۔ بنیادی کمزوریاں اور داخلی خارجی نظم و ضبط میں خامیوں پر شرمندگی کے بجائے ڈٹے رہنا اور اس کی ترویج  کا عمل ایک افسوس ناک المیہ ہے۔

روما کی سلطنت عام انسانوں کی لوٹ کھوسٹ میں سے ایک خاص جماعت کو متمول بنانے کا ذریعہ تھی، لیکن انہوں نے اس ”سودا گری‘ کو نہایت قابلیت اور تدبر، خلوص اور دیانت سے چلایا، لیکن حسن انتظام میں یہ تمام خوبیاں، بنیادی باطل کو اس کے فطری نتائج سے نہ بچا سکیں۔دوسری طرف وہ قومیں بھی تباہ و برباد ہوگئیں جنہوں نے کسی ایک مقام پر کھڑی اور زمانے کے بدلتے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے سے گریز کیا، آگے نہ بڑھیں، افریقہ کے حبشی،آسٹریلیاکے قدیم باشندے، امریکہ نیگرو، قطب شمال کے اسکیمو، کیا ہیں؟۔ انہی اقوام کے جامد و غیر متحرک مجسمے جنہوں نے اپنے مقام سے ہلنا پسند نہ کیا، جنہوں نے زمانے کے بدلتے تقاضوں کا ساتھ نہ دیا، جنہوں نے ماحول سے مطابقت کے فطری اصولوں کو ٹھکرا دیا، ان کی جھونپڑیاں اور کھالیں، ان کے تیر کمان، ان کے خورو نوش کے انداز، رہن سہن کے طور طریقے، حتیٰ کے ان کے نظریات و عقائد اور رسوم و رواج، سب ان مقامات کی نشان دہی کرتے ہیں، جہاں وہ رک کر کھڑے ہوگئے اور جہاں سے ان کے ہم عمر قبائل اور اقوام آگے بڑھ گئیں۔

ان کے متعلق شائد سطح بیں نگاہیں یہ کہہ دیں کہ انہوں نے کبھی ترقی ہی نہیں کی تھی، لیکن مصر، یونان، عراق، ہندوستان، (سابقہ) چین اور ترکستان کے اقوام کے متعلق کیا کہیں گے، جن کی سطوت و ثروت کی داستانیں زمانے کی چٹانوں پر منقوش ہیں لیکن بعد کی حالت، ان کے زمانہ  ئ ثروت کی بھیانک قبروں کے سوا کچھ نہیں۔ان کی یہ حالت کیوں ہوگئی؟ اس لئے کہ وہ ایک مقام پر رک گئیں، آگے نہ بڑھیں، انہوں نے تبدیلی کے فطری قانون سے آنکھیں بند کرلیں۔ یاد رکھئے ”فلسفہ معاشرت“ کی بنیاد اس حقیقت پر ہے کہ کوئی مکمل شے بھی جمود کی حالت میں مکمل نہیں رہ سکتی، یہ اصول قدرت و فطرت کی تمام جڑوں میں کارفرما ہے، انسان کے سامنے دو ہی راستے ہیں، آگے بڑھو یا پیچھو ہٹو۔ زندگی کے فرسودہ پیکروں کو گلے سے لگائے رکھنا، تنزل و تسفل ہے، ایسی زندگی دن تو پورے کرلیتی ہے لیکن کبھی پھل نہیں لاسکتی۔ کسی ایسے مقام کی طرح جہاں پانی رک جاتا ہو اور سرانڈ پیدا ہوجاتی ہو، ان اقوام کے لئے ”پس ماندہ‘ کی اصطلاح پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ ان کا جرم کیا تھا۔ یہی کہ وہ زمانے کے ساتھ دیتی ہوئی آگے نہ بڑھیں، پیچھے رہ گئیں اور زمانہ انہیں روندتا ہوا آگے بڑھ گیا،

زمانے کا ریلا تو اتنی بھی مہلت نہیں دیتا کہ کوئی راہ روپاؤں سے کانٹا نکالنے کے لئے کہیں بیٹھ جائے، جو بیٹھا وہ کچلا گیا، جو رُکا وہ پکڑا گیا، اس لئے کہ جہاں بازو سمٹتے ہیں وہیں صیاد ہوتا ہے۔کیسے ہوگی سرخ رو دنیا میں آخر ایسی قومجس نے احکام الٰہی کو بھلا کر رکھ دیاآپ کسی بچے کو دیکھیں اس کے بنائے ہوئے کھیل کود یا نقشوں میں ذرا سی بھی تبدیلی کردی جائے تو وہ رونے لگ جاتا ہے، وہ انہیں مقامات میں گھومتا پھرتا رہتا ہے جن سے وہ مانوس ہو، نامانوس مقامات میں جانے سے ڈر لگتا ہے، وہ اپنے لئے جو وضع کرتا ہے، وہ بھی اس کی اسی ذہنی کیفیت کا آئینہ دار تھا، رسوم و آداب، اخلاقیات، معاشرے میں روائج رویئے، غرض ان سب کو بعینہ انہیں پیکروں میں رکھنا ضروری سمجھتا ہے جن میں وہ اسلاف سے چلے آتے تھے، ان میں ذرا سی تبدیلی کے تصور سے اس کی روح کانپ اٹھتی، وہ ڈرنے اور لرزنے لگ جاتا ہے، اس لئے کہ اس کا ذہن انسانی کا تراشیدہ تصور، انسانی آزادی کے لئے کوئی گنجائش نہیں رکھتا تھا۔ اس سے انسانی زندگی ایک مستقل بوجھ کے نیچے دبی رہتی ہے۔

یہ نہیں کہ اس قسم کے جذبات صرف اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب کسی کو اس قسم کی پابندی پر مجبورکیا جائے، بلکہ اُس وقت بھی پیدا ہوتے ہیں جب یہ پابندیاں بطیب خاطر اختیار کی جائیں، اس قسم کی ”پولیس ڈسپلن“ سے انسانی سیرت میں بڑا گھناؤنا تنزل پیدا ہوجاتا ہے، تعمیر سیرت اختیار ی اعمال سے ہوتی ہے اس لئے جہاں انسان کے لئے اختیار اور انتخاب کا کوئی موقع ہی نہ ہو، وہاں کیا سیرت مرتب ہوگی؟۔ موجودہ حالات پر نظر دوڑائیں تو سمجھنے میں دشواری نہیں ہوگی کہ کس راستے پر رواں ہیں،تبدیلی کے اُس فسوں کا شکارجس سے طاقت ور قومیں اور قوتیں برباد ہوئیں اور دنیا کے لئے باعث عبرت بنا دی گئیں۔ جھوٹ اور منافقت کے لبادے میں آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر گریباں میں ضرور جھانکیں کہ بُرا کررہے ہیں یا کہ مخالف کو زک پہنچانا چاہتے ہیں، سیاسی، معاشرتی اور مذہبی افکار اور عمل میں زمین و آسماں برابر تفریق نے ہمیں سوچنے سمجھنے اور کہنے سے مفلوج کردیا ہے، ایسا کہ جیسے دلوں پر مہر لگا دی جاتی ہے۔ برائی کو اچھائی اور اچھائی کو برائی میں تبدیل کرانے کی تگ و دو نے چہروں کو مسخ کرنا شروع کردیا ہے۔  شناخت سے محروم ہوتے جارہے ہیں،  

شناخت کی کسوٹی خود ہمارے میزانیہ میں انحطاط کی جانب مائل ہیں۔ شائد کہ اب بھی وقت ہماری مٹھی میں ہے، کچھ لمحے ریت کی طرح بند مٹھی سے نکل گئے یا پیروں سے کسک رہی ہے۔ تاہم سب کو معاشرت کی تبدیلی کی درست سمت کو اپنانے کے لئے رویوں کو بدلنا ہوگا کیونکہ یہ قوم و ملت کے لئے ناگزیر ہے۔مجھ کو اس قوم کے شاہوں سے کوئی خوف نہیںمجھ کو اس قوم کے کردار سے ڈر لگتا ہے

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
58763

میری ڈائری کے اوراق سے – وہ صرف نام کی نہیں بلکہ کام کی بھی گلسمبر تھیں- تحریر: شمس الحق قمرؔ

میری ڈائری کے اوراق سے – وہ صرف نام کی نہیں بلکہ کام کی بھی گلسمبر تھیں- تحریر: شمس الحق قمرؔ

گلسمبر کائے سے میری پہلی ملاقات نومبر سن 1977 کی کسی ایک  تاریخ کو ہوئی تھی جب میری عمر 10 سال تھی ۔ اُس وقت آپ کراچی سے میڈیکل ٹریننگ حاصل کرنے کے بعد غالباً آغا خان سنٹر بریپ  میں اپنی خدمات انجام دے رہی تھیں ۔  یہی کوئی 20 سال کی  دوشیزہ ہوگی ۔ مجھے درست یاد نہیں کہ  بریپ سے  ریشن جاتے ہوئے  یا ریشن سے بریب جاتے ہوئے شام کے وقت دوتھان میں اُن کی گاڑی کوایک خوفناک حادثہ پیش آیا  تھا – اُس حادثے میں تین قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا تھا  ۔ جمعدار محمد عبدل عرف دول ریشن، مکرم شا ہ صاحب ہرچین اور ڈرائیور عطا چوئنج  نے  زخموں کا تاب نہ لاتے ہوئے داعی اجل کو لبیک  کہا تھا  ۔ اُس حادثے میں گلمسبر کائے معجزانہ طور پر  بچ گئی تھیں  لیکن حادثے کا  یہ قیامت خیز منظر اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے باوجود بھی  گاڑی میں سوار تمام مسافروں کی جانیں  بچانے کی کوشش  کرتی رہی ۔ اُن کے پاس ابتدائی طبی امداد کا باکس موجود تھا  جو کہ گاڑی گر جانے کے بعد اُنہوں نے اٹھائی تھی اور اپنا پیشہ وارانہ  امداد بہم پہنچانا شروع کیا تھا  کہ گاؤں کے لوگ بھی جائے حادثہ پر  پہنچ گئے   ۔  زخمیوں کو  بونی ہسپتال   پہنچایا   گیا چونکہ  گلسمبر کائے کو کوئی چوٹ نہیں آئی تھی لہذااُنہیں ہمارے گھر واقع ٹیک لشٹ بونی منتقل کیا گیا ۔ اُس وقت اُن کی ہمت اور حوصلہ قابل دید تھا۔ میرے والد  صاحب کے استفسار پر اپنے  بچ جانے کی وجہ  اور زخمیوں  کو   فوری طبی امداد  پہنچانے   کے حوالے سے بتاتے ہوئے اُن کی پرنم آنکھیں اُن کے چچا محمد عبد ل کی اپنی اولاد پر جان نچھاور کرنے کی غماز تھیں ۔ محمد عبدول عرف دول نے حادثے  کی نذر ہونے والی  گاڑی سے اپنی بچی  کو  دھکے سے  محفوظ  مقام  کی طرف   پھینکا تھا اور یوں خود کو بچانے کا وقت اُن  کے ہاتھ سے گزر گیا تھا  ۔ اُس دن سے ہمارا اُن کا تعلق چھوٹے بھائی اور بڑی بہن کا تھا ۔  اُن کی رحلت سے ٹھیک ایک سال پہلے بونی میں راہ چلتے ہوئے اُن سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا تو اُنہوں نے میری حالات زندگی پوچھی۔ میری شریک حیات   چونکہ  اُن کی شاگردوں میں سے ایک ہیں لہذا  اُن  کا  نام لیکر  اُن کی خیریت دریافت کی  اور میرے ٹوٹے پھوٹے الفاظ پر مبنی  اخبارات کو لکھے گیے مضامین کی تعریف کی  اور اس خیال کا اظہار کیا کہ ہمارے معاشرے میں بچیوں میں  لکھنے کا شوق بہت  کم ہے اور  اس خلا کو پرُ کرنے کےلیے ہمیں خواتیں کے لیے کوئی ایسا رسالہ  منظر عام پر لانا وقت  کی  اہم ضرورت  ہے کہ جس کے ذریعے ہماری بچیاں اظہار رائے کر سکیں ۔ ہم نے ہامی بھر لی اور آج کو کل اور کل کو آج پر چھوڑتے گیے اور پھر ۔۔۔۔دوبارہ  ملنا محال ہوا  جسکا قلق مجھے زندگی  بھر رہیگا ۔

chitraltimes gulsumbar ex deo chitral 1

 آج محترمہ کی وفات کا دن ہے تو مجھے اُن کی سوچ نے جھنجھوڑا اور میں قلم دوات لیکر اُن  کو یاد کرنے کی کوشش کر رہا ہوں اور اپنے بہن بھائیوں کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ایک عظیم  معمار قوم بننے کے لیے کتنی مشقت کرنی ہوتی ہے اور کتنی  صعوبتیں اُٹھانی پڑتی ہیں  ۔  آپ ذرا  آنکھیں موندھ کر  چترال کی سن 70 کی دہائی میں چلے جائیں  اور تصور کریں کہ جب تعلیم نسواں کو کفر کی کسوٹی پرکھا  جا رہا تھا تو بنیادی تعلیم حاصل کرنے کے بعد  بچیوں کا   مزید تعلیم کےلیے  ملک کےانتہائی جنوب  کا رخ کرناکتنا بھاری کام ہوگا ؟یہ وہ بچیاں تھیں جو آگے جاکر چترال کی ترقی کی ضامن بنیں  ۔ ان تاریخ رقم کرنے والی خواتیں   میں میڈم  گلسمبر بیگم ریشن ،    میڈم  جم شیلی بریپ ، میڈم   گلستان  عزیزریشن  اور  میڈم لعل زمرد  بونی  شامل ہیں  جنہوں نے سماج کیہر لعن طعن کو برداشت کرتے ہوئے  اپنی بے پناہ دور اندیشی سے چترال میں تعلیم نسواں کو عام کرنے کی نہ صرف کوششیں جاری رکھیں بلکہ واپس آکر صحت کے میدان میں  قوم کےلئے  شاندار خدمات بھی  انجام دیں ۔ گلسمبر کائے  کی زندگی کے حوالے سے ایک    گفتگو میں  ریشن کی گلستان کائے نے   کہا کہ یہ غالباً  1963 کا دور تھا جب یہ تمام بچیاں سکولوں میں   ساتویں تک پہنچی تھیں  کہ  اُنہیں     محمڈن گرز اکیڈمی  کراچی   بھیجا گیا  یہاں  سے انہوں نے   میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے کے  بعد    نرسنگ کی ٹریننگ لی    اور   چترال میں   آج بھی  اپنی   بے لوث خدمات کی وجہ سے  انتہائی  احترام اور عزت  کی نگاہ سے  دیکھی جاتی ہے ۔

chitraltimes gulsumbar ex deo chitral 3

            گلسمبر کائے نے 80 کی دہائی میں شعبہ تعلیم میں شمولیت اختیار کی یہ وہ زمانہ تھا جب طب کے میدان میں ڈاکٹر سلمٰی جیسی ہستی نے صحت کے میدان میں اپنی خدمات  سر انجام دینا شروع  کیا تھا ۔ گلسمبر کائے  نے کمیشن پاس کرکے پہلے پہل گورنمنٹ گرلز ہائی سکول  بونی  میں ہیڈ مسٹرس تعنیات ہوئیں ۔ ہم نے   آپ کی پیشہ وارانہ  زندگی کے حوالے سے  آپ کی شاگرد وں سے رابطہ کیا  اور ہمیں یہ جان کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ  آپ کی شخصیت کے کئی ایک پہلو ایسے تھے جو آپ  کو تعلیم کے میدان میں باقی تمام  پیشہ  وروں  سے  ممتاز کرتے ہیں ۔  آپ بیک  وقت رحمدل ماں  ،  راز دان   دوست  ،  بہترین مشیر اور صحیح معنوں میں  پیشہ ور ٹیچر تھیں۔  آپ کی شاگرد  آج بھی  بے حد  احترام سے  آپ   کا نام لیتی ہیں۔کہا جاتا ہے کہ جب  کائے  (مرحومہ)سکول میں ہیڈ مسٹرس تھیں تو  اُنہیں دو باتوں سے  سخت چڑ تھی   ،  شاگردوں کی کسی غیر ضروری حرکات و سکنات کی خبر  سننا اور  سکول کے نظم  نسق  میں جھول  دیکھنا جیسے معاملات پر جب آپ کو  غصہ  آتا  تو  اتنے   ملائم  اورساحرانہ  انداز سے سمجھاتیں   کہ معتوب    شرمندگی سے  پسینہ پسینہ  ہوتا  -تعجب خیز بات یہ ہے کہ اُنہوں نے  بھولے سے بھی اُونچی آواز سے  اپنے  غصے کا اظہار  زندگی میں کبھی  بھی نہیں کیا  ۔      میں نے اُن کی  اعلیٰ  ظرفی کی یہ کہانی  ایک دو لوگوں سے  سن رکھی تھی  لیکن آج بہت سوں سے رابطہ کیا   اور سبھی نے اس بات کی تائید کی ۔

chitraltimes gulsumbar ex deo chitral 2

  کہتے ہیں کہ   لباس کسی انسان  کی  شخصیت کا آئینہ دار ہوتا ہے   ۔ آپ کے لباس کے بارے میں آپ کی شاگردوں  کی رائے یہ ہے کہ  آپ  ہمیشہ  صاف ستھرے  لباس میں ملبوس ہوتی تھیں لیکن    ہر لباس    سے علاقہ اور تہذیب کا رنگ  ضرورنمایاں ہوتا نظر آتا تھا  ۔آپ کے حسن اخلاق  اور طالبات سے  حسن سلوک پر گفتگو کرتے ہوئے  آپ کی ایک شاگر د نے  ایک واقعے کا ذکر کیا   جو درس و تدریس سے  منسلک  تمام  استاتذہ  کےلئے مشغل راہ ہے ۔ اُنہوں نے کہا کہ  سکول میں  ڈریس کوڈ کے مطابق سکول کے    صرف   صاف اور سادہ  کپڑے  پہننے کے علاوہ  کسی اور بنا و سنگھار کی قطاً اجازت نہیں تھی   لیکن ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ   میں ابھی ابھی کسی دوسرے سکول سے آئی ہوئی تھی  اور   ناخنوں پر  سرخ رنگ سجا ہوا تھا  .۔آج   صبح کی اسمبلی میں مس  خود صفائی   دیکھ رہی تھی   ۔  مس  نے طالبات کی صفوں کا ایک ایک کر کے جائزہ لینا شروع کیا  مجھ  تک پہنچنے سے پہلے  میرے اوسان خطا ہوئے تھےاور میں نے سوچا تھا کہ  اب مس میرے ناخن دیکھے گی  اور مجھے سامنے لے جاکر  بھری محفل میں  میری  کلاس لے گی    لیکن  وہ بہت دور اندیش اور   سب سے الگ انسان تھی     ، وہ میرے پاس پہنچی اور محبت بھری  تبسم  سے  دھیمے  لہجے  میں   بولی (  مہ ژان چھوچھی  تان ہوستان صفا کوری گیے )      یعنی   پیاری  کل  اپنے ہاتھ صاف کرکے آنا ۔مجھے سمجھاتے ہوئے اُن کی آواز اتنی  دھیمی تھی کہ  میرے  آس پاس کھڑی  طلبات کو مطلقاً خبر نہ ہوئی  کہ مس نے مجھے کیا کہا ۔  کہتے ہیں کہ آپ  بچوں کو  عملی مثالوں سے سمجھایا کرتی تھیں ۔    اُن کی طالبات میں سے ایک نے مجھے  اپنی  ہیڈ مس کی  ایک خصوصیت  بتائی  جو کہ ہزاروں میں سے ایک  کی ہو سکتی ہے  اور وہی  ہزاروں میں سے ایک    ٹیچر ہی اصلی ٹیچر ہوتا ہے / ہوتی ہے   وہ یہ کہ   مس  گلسمبر نے اپنی کلاس کبھی مس نہیں کی  ۔حالات جیسے بھی ہوں ، مہمان کوئی بھی آئے    اور ایمرجنسی  جیسی بھی ہو   وقت پر کمرہ جماعت میں حاضر ہونا   اُن کی پیشہ وارانہ زندگی کا  خاصہ تھا ۔  50  طلبات کے   کمرہ جاعت میں      اُسی دھیما پن سے بولتی تھیں    جو کہ  اُن کی شخصیت کا ہمیشہ سے حصہ رہا ہے لیک   کمرہ جماعت کو     کچھ ایسے ماہرانہ حکمت  علمی سے  مٹھی میں  لے لیتیں   کہ   جب آپ  گفتگو   کا آغاز  فرماتیں تو   سکوت  اتنی چھا  جاتی کہ  آنسو ٹپکنے کی آواز  صاف سنائی  دیتی ۔  آج مس گلسمبر ہمارے درمیاں موجود نہیں لیکن اُن کے افکار   ، اُن کا لوگوں سے حسن سلوک ، اُن کا طالبات سے بہترین اخلاقی  رویہ   اور اُن کے کام  کو کام سمجھ کر نبھانے   کی اعلی ٰ تعلیمات   ہمارے  لیے  نشان منزل ہیں ۔  اللہ آپ کو  اُس دنیا میں بھی خوش رکھے ۔

ہم تجھ پہ مر رہے ہیں وہ ہے بات ہی کچھ اور

عالم میں تجھ                    سا  لاکھ          سہی        تو  مگر   کہاں

مجھے اُمید ہے  گلسمبر  کائے کے جاننے والے اور آپ کے رفقاء   کمنٹ باکس پر   گلسمبر  کائے کے ساتھ  اپنی  یادوں کا تذکرہ ضرور  فرمائیں گے ۔

Gulsambar begum ex deo f chitral
Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged ,
58744

ہندوکُش کے دامن سے چرواہے کی صدا ۔ چترال میں بلدیاتی انتخابات کا آغاز ۔ عبدالباقی چترالی

ہندوکُش کے دامن سے چرواہے کی صدا ۔ چترال میں بلدیاتی انتخابات کا آغاز ۔ عبدالباقی چترالی

چترال میں بلدیاتی انتخابات کا آغاز ہوگیا ہے۔لوئر اور اپر چترال میں سیاسی جماعتیں تحصیل کونسل اور ویلج کونسلوں کے لیے امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرادئیے۔ تحصیل کونسلوں اور ویلج کونسلوں میں بڑی تعداد میں آزاد امیدوار بھی حصہ لے رہے ہیں۔ گزشتہ بلدیاتی انتخابات میں مذہبی جماعتوں نے اتحاد کرکے بلدیاتی انتخابات جیتنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ موجودہ بلدیاتی انتخابات میں مذہبی جماعتیں اتحاد قائم کرنے میں بُری طرح ناکام ہوئے ہیں۔ موجودہ حالات میں مذہبی جماعتوں کے لیے اتحاد کے بغیر کامیابی ممکن دیکھائی نہیں دے رہی ہے۔ مذہبی جماعتوں کے نمائندوں کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے بلدیاتی انتخابات میں مذہبی جماعتوں کے امیدواروں کے لیے مشکلات پیش آرہے ہیں۔ ایم این اے اور ایم پی اے کی ناقص کارکردگی کا خمیازہ مذہبی جماعتوں کو بھگتنا پڑے گا۔موجودہ ایم پے اے چترال کی سیاسی تاریخ میں ناکام ترین ایم پی اے ثابت ہوئے ہیں۔

موجودہ ایم پی اے کی ناتجربہ کاری، نااہلی اور اقرباء پروری کی وجہ سے جے یو آئی کی قیادت، کارکنان اور ووٹر سب شرمندہ ہیں۔اپر چترال میں جے یو آئی کی طرف سے تحصیل موڑکھو کے چئیرمین کے لیے پارٹی کے نائب امیر جناب مولانا فتح الباری صاحب کو پارٹی ٹکٹ دیا گیا ہے۔ مولانا فتح الباری عرصہ دراز سے لوئر چترال کے علاقہ سنگور میں مستقل رہائش پذیر ہیں۔ ضلع سے بارہ رہائش پذیر شخص کو پارٹی ٹکٹ دینے پر جے یو آئی کے کارکنوں اور ووٹروں میں شدید ناراضگی اور مایوسی پھیلی ہوئی ہے اور پارٹی کے اندر اختلافات پیدا ہوئے ہیں۔ اس کا واضح ثبوت مولانا خادم الرحمن کا وائرل شدہ ویڈیو ہے۔ اس ویڈیو میں مولانا خادم الرحمن صاحب آنسو بہا کر پارٹی کی اعلیٰ قیادت سے ضلع سے باہر رہنے والے شخص کو پارٹی ٹکٹ دینے پر شدید احتجاج کرتا ہوا دیکھائی دے رہے ہیں۔ 2013 کے قومی انتخابات میں بھی جے یو آئی کی پارٹی قیادت نے زمینی حقائق اور ضلعی عہدیداروں کے مشوروں کو نظرانداز کرکے اسلام آباد میں رہائش پذیر شخص کو ٹکٹ دیا تھا۔

اس غلط فیصلے کی وجہ سے پارٹی میں شدید اختلافات پیدا ہوئے تھے جس کی وجہ سے صوبائی کا امیدوار بری طرح ناکام ہوکر تیسرے پوزیشن پر آئے تھے۔ مولانا فتح الباری صاحب ضلع سے باہر رہائش پذیر ہونے کی وجہ اپر چترال کے عوامی مسائل سے اچھی طرح واقف نہیں ہیں اور عوام کے مزاج سے بھی ناآشنا ہیں۔ ان وجوہات کو مدنظر رکھتے ہوئے جے یو آئی کے امیدوار کی کامیابی ممکن دیکھائی نہیں دے رہا ہے۔ اپر چترال میں تحصیل کونسل موڑکھو کے لیے جماعت اسلامی کے امیدوار مولانا جاوید حسین صاحب ہیں جوکہ جماعت اسلامی اپر چترال کے امیر بھی ہیں۔اگرچہ اپر چترال میں جماعت اسلامی کا ووٹ بنک نہ ہونے کے برابر ہے لیکن مولانا جاوید حسین صاحب اس سے پہلے ڈسٹرکٹ ممبر رہ چکا ہے۔ نوجوان ہردلعزیز شخصیت کا مالک ہے۔ جاوید حسین اپنے ذاتی تعلقات اور اثر و رسوخ کی وجہ سے تحصیل کونسل موڑکھو کے لیے مضبوط امیدوار خیال کیا جاتا ہے۔

برادری کا بھرپور تعاون بھی اسے حاصل ہے۔ 2015 میں موڑکھو میں جو تباہ کُن سیلاب آیا تھااُس وقت مولانا جاوید حسین بطور ڈسٹرکٹ ممبر سیلاب زدگان کی بھرپور خدمت انجام دیا تھا جس کی وجہ سے موڑکھو کے عوام میں اس کے لیے ہمدردی پائی جاتی ہے۔ تحصیل کونسل کی سیٹ جیتنے کا امکان موجود ہے۔ حکمران پارٹی پی ٹی آئی کا نامزد امیدوار جمشید صاحب کا تعلق تورکھو سے ہے۔ وہ پہلی بار کسی عوامی عہدے کے لیے منظر عام پر آئے ہیں۔نوجوان سماجی کارکن ہے، عوامی مسائل حل کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ حکمران پارٹی میں ہونے کی وجہ سے ووٹروں کو اپنی جانب راغب کرسکتے ہیں۔ لیکن پی ٹی آئی کی آٹھ سالہ دورِ حکومت میں اپر چترال کو مسلسل نظر انداز کردیا گیا ہے۔ اس کا واضح ثبوت چارسالوں تک وزیر اعلیٰ کا اپر چترال کا دورہ نہ کرنا ہے۔ اپر چترال کو ضلع کا درجہ دے کر اس کے لیے کوئی ترقیاتی فنڈ جاری نہیں کیے گئے ہیں اور نہ ہی ان چار سالوں میں ضلعی دفاتر کا قیام عمل میں آیا ہے۔پی ٹی آئی کی حکومت میں بدترین مہنگائی اور بے روزگاری کی وجہ سے حکومت کے خلاف عوام میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔اس وجہ سے پی ٹی آئی کے امیدواروں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پیپلز پارٹی کی طرف سے تحصیل کونسل موڑکھو کے لیے مستنصر الدین صاحب کو نامزد کیا گیا ہے۔وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ با شعور نوجوان ہیں اور اپنے علاقے کی تعمیر و ترقی کے لیے ہر وقت کوشاں رہتے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں پہلے مرحلے کے بلدیاتی انتخابات میں پیپلز پارٹی یتیم ہو چکی ہے۔ پیپلز پارٹی کے امیدوار تحصیل کونسل کے صرف ایک سیٹ جیتنے میں کامیاب ہوا ہے۔ موڑکھو میں مذہبی جماعتوں کا اثر و نفوذ زیادہ ہونے کی وجہ پیپلز پارٹی کے امیدوار کی کامیابی مشکل نظر آرہی ہے۔


تحصیل مستوج میں مذہبی جماعتوں نے تحصیل کونسل کے لیے اپنے امیدوار کھڑے نہیں کیے ہیں۔ جے یو آئی نے مسلم لیگ نون کے ساتھ اتحاد کیا ہے۔ مسلم لیگ نون اور جے یو آئی کا اتحاد کیا رنگ لائے گا؟ اور اس کا انجام کیا ہوگا؟ یہ آنے والے وقت میں معلوم ہوجائے گا۔تحصیل مستوج میں تحصیل کونسل کے لیے پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی اور مسلم لیگ نون کے امیدواروں کے درمیان مقابلے کا امکان ہے۔ بیار تحصیل کونسل میں پیپلز پارٹی کا پلہ بھاری دیکھائی دے رہا ہے۔حکمران جماعت پی ٹی آئی کے امیدواروں کو لوئر اور اپر چترال میں عوام کی طرف سے سخت ردعمل کا سامنا کرنے کا امکان ہے کیونکہ پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت گزشتہ آٹھ سالوں سے چترالی عوام کے ساتھ سوتیلی ماں کا سلوک کر رہی ہے۔ خاص کر لوئر چترال میں مسلم لیگ نون کے اقتدار میں منظور شدہ گیس پلانٹس منصوبے کو ختم کرکے چترالی عوام کے ساتھ ظلم و زیادتی کی ہے۔اس وجہ سے چترالی عوام میں پی ٹی آئی حکومت کے خلاف سخت ناراضگی پائی جاتی ہے اور پی ٹی آئی کا بلدیاتی انتخابات میں پشاور جیسا حشر ہونے کا قوی امکان ہے۔تحصیل مستوج میں مسلم لیگ نون کی طرف سے تحصیل کونسل کا امیدوار پرویز لال معروف سماجی کارکن ہیں۔ تحریک حقوق اپر چترال کے پلیٹ فارم سے اپر چترال کے مسائل حل کرنے کے لیے کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ پرویز لال حال ہی میں مسلم لیگ نون میں شامل ہوکر تحصیل کونسل کا ٹکٹ حاصل کیا ہے اور انھیں برادری کا تعاون بھی حاصل ہے۔مگر مسلم لیگ نون کی پارٹی اپر چترال میں فعال اور منظم نہ ہونے کی وجہ سے انتخابی مہم کے دوران مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

۱۲ فروری ۲۲۰۲

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
58742

حسن اور امیون سسٹم کا باہمی تعلق ۔ محمد شریف شکیب

حسن اور امیون سسٹم کا باہمی تعلق ۔ محمد شریف شکیب

امریکی سائنسدانوں نے انکشاف کیا ہے کہ ظاہری طور پر خوبصورت اور پرکشش نظر آنے والے لوگوں میں بیماریوں سے بچانے والا قدرتی نظام (امیون سسٹم)بھی مضبوط ہوتا ہے۔ٹیکساس کرسچن یونیورسٹی میں 159 رضاکار طالب علموں کی مدد سے کی گئی تحقیق سے معلوم ہوا کہ جن چہروں کو لوگوں کی اکثریت نے خوبصورت اور پرکشش قرار دیا تھا، ان رضاکاروں کا امیون سسٹم بھی دوسروں سے زیادہ بہتر نکلا۔اس تحقیق سے خوبصورت چہروں اور مضبوط امیون سسٹم کے مابین واضح تعلق سامنے آیا ہے۔یہ بات ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ امیون سسٹم صرف فطری حسن رکھنے والوں کا مضبوط ہوتا ہے مصنوعی طریقے اور سولہ سنگھار کے ذریعے خوبصورت نظر آنے والوں نے اصلی چہرے پر نقلی چہرہ سجایاہوتا ہے ان کا امیون سسٹم دیگرعام لوگوں کی نسبت کمزور ہوتا ہے انہیں ہر وقت یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ ان کا پول کہیں کھل نہ جائے۔

خوبصورت اور پرکشش نظر آنا ہر ذی ہوش مرد و زن کی دلی خواہش ہوتی ہے اس فطری خواہش کے پس پردہ بہت سے مقاصد ہوتے ہیں جن میں کچھ مذموم اور کچھ غیر مذموم مقاصد شامل ہیں۔شادی سے پہلے جاذب نظر آنے کا بنیادی مقصد صنف مخالف کو دام الفت میں پھنسانا ہوتا ہے۔ اور شادی کے بعد پرکشش نظر آتے رہنے کی شدید خواہش کے پس منظر میں ایک لمبی اور دردناک کہانی ہوتی ہے۔ کچھ لوگ اپنی اندرونی خلفشار کو چھپانے کے لئے ہونٹوں پر مصنوعی مسکراہٹ سجاکر دلکش دکھائی دینے کی کوشش کرتے ہیں۔کچھ لوگ اپنے جیون ساتھی کی لاج رکھنے کے لئے خود کو سنوارتے ہیں تاکہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ کون کم بخت اس کے پالے پڑگیا کہ اس کی عادات و اطوار کے ساتھ صورت بھی بدل گئی۔دنیا والے انسان کی داخلی خصوصیات میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔ وہ ظاہری صورت کو دیکھ کر اس کے بارے میں رائے قائم کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عام لوگ بالعموم اور خواتین بالخصوص ظاہری طور پر پرکشش اور خوبصورت نظر آنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگادیتی ہیں۔سرکے بالوں سے لے کر پاؤں کے ناخن تک سب کچھ تبدیل کرنے اور کچھ مختلف دکھائی دینے کے جنون میں مبتلا ہوتی ہیں ایسی ہی خواتین کے بارے میں شاعر نے کہا تھا کہ”ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ۔ دھوکہ دیتے ہیں یہ بازی گر کھلا“۔

یہاں ایک نئی الجھن پیدا ہوگئی ہے۔انسان خود کو سجاتا سنوارتا اس لئے ہے کہ کوئی اس کی تعریف کرے۔ خاص طور پر خواتین تعریفیں سمیٹنے کی بہت خواہش مند ہوتی ہیں۔کوئی اگر کسی کا دل رکھنے کے لئے بھی کہے کہ آج تو آپ قیامت ڈھارہی ہیں بہت خوبصورت لگتی ہیں۔ یہ الفاظ کانوں میں رس گھولتی ہوئی دل میں اتر جاتے ہیں اور انسان اتنا مدہوش ہوتا ہے کہ اسے کچھ کھانے پینے کا بھی ہوش نہیں رہتا۔ حال ہی میں وفاقی محتسب برائے ہراسیت نے یہ فرمان جاری کرکے لوگوں کو مخمصے میں ڈال دیا ہے کہ کسی غیر خاتون کو چھونا، گھورنا، گڈمارننگ کہنا اور سلام کرنا بھی ہراساں کرنے کے زمرے میں آتا ہے جو قابل دست اندازی پولیس جرم ہے۔ ابھی تک اس بیان کے خلاف خواتین کی تنظیموں کی طرف سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ تاہم وہ اس وسوسے کا شکار ضرور ہوئی ہیں کہ اگر کوئی پکڑے جانے کے خوف سے ان کی طرف مائل ہی نہیں ہوتا۔ تو پھر بناؤ سنگھار کا کیا فائدہ ہے۔ اگر یہی رجحان پروان چڑھتا رہا تو کم از کم ہمارے ملک میں کاسمیٹکس کی دکانیں اور بیوٹی پالرزبند ہوجائیں گی۔شادی بیاہ اور دیگر تقریبات میں نئے جوڑے پہن کر اور سولہ سنگھار کرکے جانے کی روایت بھی دم توڑ دے گی۔اگرچہ ایسی روایت کے بے شمار معاشی فوائد ہیں لیکن دنیا کا حسن ماند پڑجائے تو دولت بچا کر اس کا اچار تو نہیں ڈالنا۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
58740

ابن بطوطہ-( 24فروری تاریخ پیدائش پر خصوصی تحریر)۔ڈاکٹرساجد خاکوانی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ابن بطوطہ

24(فروری تاریخ پیدائش پر خصوصی تحریر)

ڈاکٹرساجد خاکوانی

                اللہ تعالی نے قرآن مجید میں سورۃ الانعام آیت 11میں کہا ہے کہ”ان سے کہو زمین میں چل پھر کر دیکھوکہ جھٹلانے والوں کاکیا انجام ہوا“۔یہ گویا بامقصد سیروتفریح کا اذن ہے۔انبیاء علیھم السلام کی حیات ہائے مبارکہ میں بھی کثرت اسفار کا ذکر ملتاہے۔حضرت آدم علیہ السلام نے آسمان سے زمین کا سفر کیا،حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی ایک زمانے تک پانی کے سفر پر رہی،حضرت ابراہیم علیہ السلام نے عراق سے فلسطین کا اور پھر متعدد بار حجازمقدس کا سفر کیا،حضرت موسی علیہ السلام کے سفر کے تذکرے تو قرآن مجیدنے بھی تفصیل سے بیان کیے ہیں اور خاتم الانبیاء محسن انسانیت ﷺکی سیرت طیبہ کے حالات ہجرت و غزوات کے عنوان سے متعدداسفاربابرکات سے بھری پڑی ہے۔پھر کل آسمانی کتب کا عقیدہ آخرت بھی ایک لحاظ سے اس دنیاسے اس دنیاکا سفر آخریں ہے جو ہر نفس پر لازم ہے۔ ہرزندہ قوم جو دنیامیں اپنا وجود قائم رکھنا چاہتی ہے وہ دنیاکے حالات سے آگاہی چاہتی ہے۔سیاحت زندہ قوموں کے زندہ افرادکا ہمیشہ سے وطیرہ رہاہے۔سیاحت کے ذریعے معلوم دنیاؤں کا سفر اور غیرمعلوم دنیاؤں کی دریافت انسان کے ذہن و فکر کی وسعت اورتہذیبی و ثقافتی اشتراک کاباعث بنتاہے۔ایک ہزارسالہ مسلمانوں کے دور میں بے شمار سیاح پیداہوئے۔اس زمانے میں حصول تعلیم میں سیاحت ایک طرح سے سند کا درجہ رکھتی تھی۔

                ابن بطوطہ نام کا مسلمانوں کا عظیم سیاح گزراہے۔انکاپورانام عبداللہ ابن عبداللہ المعروف ”ابن بطوطہ“ہے۔13فروری 1304ء کو مراکش کے ایک چھوٹے شہر”نانگیر“میں پیداہوئے۔قرون وسطی کے عالمی تاریخی شہرت کے حامل سیاح تھے۔انہوں نے ایک مایہ ناز سفرنامہ ”رحالہ“بھی تصنیف کیا۔اس کتاب میں 75,000میل طویل سفر کی روداد نقل کی ہے۔یہ سفر قافلوں کی شکل میں اور کبھی کبھی تنہا بھی کرتے رہے۔اس دوران انہوں نے کل اسلامی ممالک دیکھے اور سمارٹا اور چین کے کچھ علاقوں میں بھی سیاحت کی غرض سے گئے۔ابن بطوطہ ایک علمی گھرانے کے چشم وچراغ تھے،انکاساراخاندان محکمہ قضا سے متعلق تھا، مقامی علاقے کے قاضیوں کی اکثریت ابن بطوطہ کے خاندان سے تعلق رکھتی تھی۔انہوں نے بھی اپنے بچپن اورآغاز شباب میں اسلامی فقہ وقضا کی تعلیم حاصل کی۔1325ء میں جب ان کی عمر 21برس کی تھی تو فریضہ حج کی ادائگی سے انہوں نے اپنی سیاحت کاآغاز کیا۔اس دوران انہوں نے مصر،شام اور حجازکے متعدد شافعی المسلک فقہا سے بھی علم  حاصل کیااور اس فقہی مکتب فکر سے متعلق جید علماء کے دروس میں شریک ہوئے۔اس تعلیمی کاوش کے باعث علم فقہ و قضا میں انہیں یدطولی حاصل ہوااور وہ کسی بھی عدالت میں منصب قضا کے اہم مقام پر بیٹھنے کے قابل ہوگئے۔

                منصب قضا کے لیے انہوں نے مصر کا انتخاب کا،وہاں پہنچے لیکن سیلانی طبیعت کوسیروسفرپر آمادہ پایا اور طلب علم و تجارت کو حصول مقصد کا ذریعہ بناتے ہوئے ملک ملک کے سفر پر چل نکلے اور اصولی طور پر یہ طے کرلیا کہ ایک راستے سے دوبارنہیں گزریں گے۔اس سفر کے دوران وہ بادشاہوں سے،گورنروں سے،سلطانوں سے اور حکمرانوں سے ملتے رہے۔ان کے طویل اسفار کی داستانیں اس حکمران طبقے کے لوگوں کے لیے دلچسپی سے خالی نہیں ہوا کرتی تھیں۔ان ملاقاتوں میں ابن بطوطہ جہاں اپنے تفصیلی حالات بہت ہی دلنشین انداز میں پیش کرتے وہاں اگلے سفر کے لیے زادراہ کا انتظام بھی کر لیتے۔ یاد رہے کہ اس زمانے میں اخبارات اور معلومات کے دیگر ذرائع جو آج میسر ہیں نہیں ہوا کرتے تھے اور دوسری دنیاؤں کے حالات اسی طرح کے سیاحوں کی زبانی ہی معلوم ہوتے تھے چنانچہ جب بھی کسی سیاح کی آمد ہوتی تو لوگ،حکمران اور عوام سب کا جم غفیر انکے گرد اکٹھا ہو جاتاتھااورسیاحوں کی زبانی ملک ملک اور قریہ قریہ کے حالات سے آگاہی حاصل کرتا۔

                ایک طویل عرصے تک وہ افریقہ،صحرائے عرب اور وسطی ایشیائی علاقوں میں سیاحت کرتے رہے۔اس دوران انہوں نے ریگستانی اور دریائی و سمندری ہر طرح کے راستے طے کیے۔ان کی تحریروں کے مطابق وہ صحرائے گوبی سے اٹھنے والے طوفان، چنگیزی سرداروں سے بھی ملے۔تین سالوں تک حجاز میں بھی قیام کیا لیکن ایک بار پھر سیلانیت غالب آگئی۔اب کی بار انہوں نے سنا کہ دہلی میں محمد بن تغلق نامی حکمران برسراقتدار ہے۔اس بادشاہ کی علم دوستی اورعلماء نوازی بہت مشہور تھی تب ابن بطوطہ نے دہلی کا قصد کیا اور اس بادشاہ کے دربار میں جانے کے لیے کمر ہمت باندھ لی۔اس بار انہوں نے نئے راستوں کا انتخاب کیا اور ترکی کے راستے وہ روسی علاقوں میں سمرقندوبخارا سے ہوتے ہوئے افغانستان اور پھر کوہ ہندوکش کو عبور کر کے تو دریائے سندھ کے راستے جنوبی ایشیا میں داخل ہوئے۔جب وہ سرزمین ہند میں داخل ہو رہے تھے تو خود ان کے مطابق یہ 12ستمبر1333کی تاریخ تھی۔ایک اندازے کے مطابق انہوں نے اتنا طویل سفرایک سال کی مختصر مدت میں طے کر لیاتھا۔

                دہلی میں آمد سے پہلے ہی ابن بطوطہ کا شہرہ یہاں پہنچ چکاتھا۔شاہ محمد بن تغلق نے دہلی سے باہر نکل کر ابن بطوطہ کا استقبال کیا اور انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا۔بہت سے تحائف و ہدایا پیش کیے گئے۔بادشاہ نے ابن بطوطہ کی فضیلت علمی کے باعث انہیں دہلی کا منصب قضا پیش کیا جس پر سالوں تک ابن بطوطہ اپنے فرائض منصبی اداکرتے رہے۔شاہ محمد بن تغلق اپنے مزاج میں بیک وقت بہت رحم دل اور بہت ظالم بھی تھا۔دشمنوں کو معاف کردینا اور دوستوں کو سولی پر لٹکا دینا اسکے ہاتھوں سے رونماہوتارہتاتھا۔ابن بطوطہ اسکی اس فطرت سے بہت خائف رہتے۔ایک بار جب بادشاہ نے ابن بطوطہ کو مملکت چین کی طرف اپنا سفیر بناکر بھیجا تو راستے میں ڈاکؤوں نے ان کے قافلے کو آن گھیرا۔جان تو بچ گئی لیکن سرکاری تحائف لوٹ مار کی نظر ہوگئے۔ابن بطوطہ سلطان کے خوف سے جزائر مالدیپ سدھارگئے اور وہاں دو سال تک روپوش رہے،تاہم اس دوران بھی قضا کا منصب انکی طشتری میں موجودرہا۔مالدیپ،بنگال اور آسام کی سیاحت اور اسکے حالات بھی انہوں نے اپنی کتاب میں تفصیل سے لکھے ہیں۔ان ملکوں میں وہ سیاست میں بھی دخیل رہے،شاہی خاندان میں شادی بھی کی اور جنگوں میں بھی حصہ لیتے رہے۔ایک عرصے کے بعد سفر چین کا شوق انہیں چرایا،وہ ”زیتان“ کی بندرگاہ پر لنگرانداز ہوئے اور وہاں کے مقامی مسلمان بادشاہ نے انہیں درائی راستے سے چین کی سیر کے لیے مددفراہم کی اور وہ اس وقت کے بیجنگ کا بھی نظارہ کر آئے۔وہاں سے وہ سمارٹا،مالابار اور آبنائے فارس کے راستے واپس بغداد پہنچے۔بغداد سے شام اور پھر مصر سے ہوتے ہوئے 1348ء میں انہوں نے اپنی زندگی کا آخری حج اداکیاجس کے لیے انہوں نے حجاز مقدس کا سفر مبارک کیا۔

                لیکن اب تک انہوں نے دو مسلمان ممالک نہیں دیکھے تھے،چنانچہ 1350کے لگ بھگ انہوں غرناطہ کا ارادہ کیاجو مسلم اسپین کا آخری شہر تھا۔اسکے بعد وہ مغربی سوڈان سدھار گئے۔اس دوران انہوں نے ایک سال کا عرصہ افریقہ کے ملک ”مالی“میں گزارا۔ان کی تحریریں اس زمانے کے افریقی حالات کا سب سے بڑا مستند ذریعہ ہیں۔اب کی بار بڑھاپا ان کی دہلیز پر دستک دے رہاتھااور جوانی اپنی توانائیوں اور طاقتوں سمیت ساتھ چھوڑ رہی تھی۔ واپس اپنے وطن مراکش میں آگئے اور بادشاہ کے کہنے پر اپنی یادداشتیں قلم بند کرنے لگے اور ساتھ ساتھ منصب قضا بھی نبھاتے رہے۔آخری عمر میں انکی بینائی جاتی رہی اور1368میں یہ عظیم سیاح داعی اجل کو لبیک کہ گیا۔انہیں آبائی گاؤں میں ہی دفنادیاگیا۔

                انکی کتاب”رحلہ“اپنی طرز کی واحد کتاب ہے۔اپنے زمانے کے تاریخی،ثقافتی اور سیاسی حالات اس کتاب میں بڑی تفصیل میں درج ہیں۔ابن بطوطہ 60بادشاہوں کو،بہت سے وزیروں اور گورنوں کو ملے اور کم و بیش دوہزار افراد ایسے تھے جن کے ابن بطوطہ کے ساتھ ذاتی نوعیت کے تعلقات تھے۔یہ افرادپوری اسلامی دنیا سے تعلق رکھتے تھے۔ایشیا،افریقہ اور کچھ یورپ کے حصے انکے پاؤں تلے روندے گئے اور کتنے ہی سمندروں اور دریاؤں کی موجوں نے ابن بطوطہ کا نظارہ کیا۔انکی کتاب میں جغرافیائی معلومات کی کمی محسوس ہوتی ہے اس لیے کہ شاید وہ بنیادی طور پر قانون کے میدان کے آدمی تھے اور محض شوق سفر نے انہیں سیاح بنایاتھا۔ان کی کتاب میں کسی نئی سرزمین کی تلاش کا ذکر بھی نہیں ملتا۔

                محسن انسانیت ﷺجب کہیں ایک راستے سے تشریف لے جاتے تو واپسی کے لیے دوسرے راستے کاانتخاب فرماتے تھے،یہ امت کے لیے سبق ہے کہ مشاہدہ کی عادت کو وسعت دی جائے۔سفر کرنے سے دیگردنیاؤں کے راز انسان پر آشکارہوتے ہیں،وسعت نظر اور مطالعاتی ذوق میں اضافہ ہوتاہے۔سیاحت کرنے والا انسان قوموں کی تاریخ و جغرافیہ سے آگاہی حاصل کرتاہے جس کے نتیجے میں جہاں نفسیاتی طورپر اعتمادنفسی حاصل ہوتاہے وہاں قائدانہ صلاحیتوں میں بڑھوتری ہوتی ہے اور انسان جب بھی کسی اجتماعی فیصلہ کے مقام پر پہچتاہے تو دنیائے گزشتہ کے اسرارورموزاور تجربہ ہائے انسانیت اس کے سامنے ہوتے ہیں اور وہ اپنی ملک و قوم و ملت کی صحیح تر راہنمائی کرپاتاہے۔اس سب سے بڑھ کر یہ کہ سفر کے بعد قلم بندکیے جانے والے حالات آنے والوں نسلوں کی امانت ہوتے ہیں اور گزرے ہوئے ایام کے حالات جاننے کا مسند ترین ذریعہ بن جاتے ہیں۔اللہ کرے کہ امت مسلمہ اپنے شاندار ماضی کی طرح آئندہ بھی بامقصد سیاح پیدا کرتی رہے،آمین۔

[email protected]

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
58738

داد بیداد ۔ ہنر مند بننے کے مو اقع ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

خیبرپختونخوا کی حکومت نے نو جوا نوں کو ہنرمند بنا نے کے لئے 5ارب روپے کے میگا پرا جیکٹ یعنی بڑے منصو بے کا اعلا ن کیا ہے اس منصو بے کے تحت حکومت صو بے کے ایک لا کھ جوا نوں کو اٹھا رہ شعبوں کے اندر ہنر (Skills) میں تر بیت دے کر سر ٹیفیکیٹ جا ری کر ے گی اس سر ٹیفیکیٹ پر نو جوا نوں کو ملک کے اندر اور ملک سے با ہر با عزت روز گار ملے گا اس منصو بے میں نئے ضم شدہ اضلا ع کو ملا کر صوبے کے 34اضلا ع سے تعلق رکھنے والے نو جوا نوں کو فائدہ ہو گا 2017ء کی مر دم شما ری کی رو سے صوبے میں نو جوا نوں کی آبا دی کل آبا دی کا 65فیصد ہے یعنی بہت بڑی تعداد نو جوا نوں کی ہے جن شعبوں کے ہنر نو جوا نوں کو سکھا ئے جا ئینگے ان میں پلمبر، تر کھان، مستری، الیکٹریشن، مو ٹر مکینک، ڈرائیور، باور چی، سلا ئی کڑھا ئی بُنا ئی، کمپیو ٹر پر فیشنل، ویلڈنگ، زراعت، مویشی با نی، مرغ با نی، باغبا نی وغیرہ شا مل ہیں تر بیت حا صل کرنے والے نو جوا ن با عزت روز گار کما نے کے قابل ہو جائینگے

اس وقت مشرق وسطیٰ کے عرب مما لک میں ہنر مند افراد کی بڑی ما نگ ہے عمو ما ً اس ما ر کیٹ سے بھا رت، نیپا ل اور سر ی لنکا زیا دہ فائدہ اٹھا رہے ہیں اس ما رکیٹ میں پا کستانی کا ریگروں کا حصہ بہت کم بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے و جہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں افرادی قوت کو تر بیت دیکر ما رکیٹ میں لا نے کی سنجیدہ کو شش نہیں کی گئی ایک مشہور مقو لہ ہے اگر تم چا ہتے ہو کہ تمہارا دوست ہر روز مچھلی کھا ئے تو اس کو روزانہ مچھلی نہ بھیجو، تم اپنے دوست کو مچھلی پکڑ نے کا ہنر سکھا ؤ وہ روز مچھلی لا ئے گا اور رو ز مچھلی کھا ئے گا ہماری صو با ئی حکومت نو جوا نوں کے منہ میں لقمہ ڈا لنے کے بجا ئے نو جو ا نوں کو تر بیت دے کر اپنا لقمہ خو د پیدا کر نے کے قا بل بنا نا چا ہتی ہے ایک بار تر بیت پا کر ہنر مند افراد ما ر کیٹ میں آگئے تو و ہ آسا نی سے ما ر کیٹ میں اپنا مقا م بنا سکتے ہیں اور وقت گذر نے کے ساتھ آگے بڑھ سکتے ہیں ایک بڑی یو نیور سٹی میں وسائل کے استعما ل پر مذا کر ہ ہو رہا تھا پرو گرا م کے سہو لت کا ر نے شر کاء سے سوال کیا، پا کستان کا سب سے قیمتی وسیلہ کیا ہے؟ شر کا ء نے جو رد عمل دیا وہ متنوع اور مختلف تھا کسی نے کہا معدنیات، کسی نے کہا انا ج کسی نے کہا پھل، کسی نے کہا بندر گاہ، کسی نے کہا پا نی، کسی نے جنگلا ت کسی نے کہا صحرا، کسی نے کہا پہاڑ الغرض جتنے منہ اتنی با تیں شر کا کی اراء کو یکجا کر نے کے بعد سہو لت کار نے وائٹ بورڈ پر لکھا ”انسا نی وسیلہ“ اس کی وضا حت کر تے ہوئے سہو لت کا ر نے کہا پا کستا ن کی آبا دی 22کروڑ سے تجا وز کر چکی ہے.

اس آبا دی میں 65فیصد نو جو ان شا مل ہیں جنکی مجمو عی تعداد چودہ کروڑ سے اوپر ہے آبا دی کا یہ حصہ پا کستان کا سب سے قیمتی وسیلہ ہے فیلڈ مار شل ایو ب خا ن اور غلا م فاروق خا ن نے 1960ء کی دہا ئی میں ہا ئی سکولوں کے اندر فنی تعلیم کے ور کشاپ رکھنے کا منصو بہ تیا ر کیا تھا، 1970کی دہا ئی میں ور کشاپ بن گئے زراعت کے ورکشا پ تھے، الیکٹر یشن کے ور کشاپ تھے، تر کھا ن اور پلمبر کے ورکشاپ تھے اساتذہ کو تر بیت دینے کا مر بوط نظا م تھا ور کشا پ بننے کے بعد اساتذہ تر بیت پا کر آگئے اور ہا ئی سکو لوں میں اس منصو بے پر عمل شروع ہوا ایک ضلع میں ایک سا لا نہ امتحا ن میں اگر 65ہزار طلباء میٹرک پا س کر تے تھے وہ سب کے سب ہنر مند بھی ہو کر نکلتے تھے ان کے پا س ہنر بھی ہو تا تھا ہنر کا سر ٹیفیکیٹ بھی ہو تا تھا لیکن 1977میں اس منصو بے کو ختم کر دیا گیا، ورکشاپ بر باد ہوئے ور کشاپ کے آلا ت چوری ہو گئے کچھ بھی نہیں بچا شکر کا مقا م ہے کہ مو جو دہ حکومت نے نو جوا نوں کو فنی تر بیت دینے کا پر و گرام بنا یا ہے اگر چند سا لوں تک اس پر عمل ہوتا رہا تو آنے والے وقتوں میں پا کستان خطے میں افراد ی قوت کا اہم برآمد کنندہ بنے گا۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
58722

کاروبارکے لئے قرضہ سکیم ۔ محمد شریف شکیب

کاروبارکے لئے قرضہ سکیم ۔ محمد شریف شکیب

خیبر پختونخوا حکومت نے صوبے میں چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کو مزیدفروغ دینے کے لئے آسان قرضوں کی سکیم کا اعلان کیا ہے۔یہ قرضے بینک آف خیبر کی وساطت سے کاروباری طبقے کو فراہم کئے جائیں گے۔ان قرضوں پر سٹیٹ بینک کی جانب سے چھ فیصد شرح منافع ہوگا اور صوبائی حکومت اس کا چار فیصد خود برداشت کرے گی جبکہ صرف دو فیصد ہی تاجروں کو ادا کرنا ہوگا۔اس حوالے سے بینک آف خیبر اور محکمہ صنعت و تجارت کے درمیان مفاہمتی یادداشت پر دستخط کردیئے گئے وزیر خزانہ نے قرضہ سکیم کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہاکہ راست اسلامک بینکنگ ری فنانسنگ سکیم برائے ماڈرانائزیشن کے تحت صوبے کے چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کے لئے قرضہ جات مہیا کئے جارہے ہیں بینک آف خیبراگلے 8 سالوں تک صو بے کے تاجروں کو 2 مدوں میں 12ارب روپے کاقرضہ دے گا۔ یہ قرضہ جات کاروبار کو بڑھانے،

مشینری کی خریداری، یا روزگار کو چلانے کیلئے ورکنگ کیپٹل کی فراہمی کی مد میں دئے جائیں گے۔ سمال اینڈمیڈیم انٹرپرائزز کوورکنگ کیپٹل اورماڈرنائزیشن کی مدمیں 2،2کروڑ روپے تک قرضے دئے جائینگے ان قرضوں پرپہلے سال کوئی شرح منافع نہیں جبکہ ادائیگی کے دوسرے سال دوفی صدشرح منافع نافذہوگا۔ قرضے کی مدت پانچ سال تک ہوگی صوبائی حکومت ان قرضہ جات پر پہلے سال چھ فیصد جبکہ اگلے تین سالوں میں چار فیصد نافذ العمل شرح منافع خود برداشت کرے گی۔کمرتوڑ مہنگائی اور بے روزگاری کے موجودہ دور میں حکومت کی جانب سے آسان شرح منافع پر کاروبار کے لئے قرضوں کی سکیم نوجوانوں کے لئے بڑا ریلیف ہے۔جس کی بدولت تعلیم یافتہ نوجوان عزت کی روزی کمانے کے قابل ہوجائیں گے۔ کاروباری قرضوں کے حصول کے لئے طریقہ کار بینک وضع کرے گا۔ماضی میں بھی سرکاری سطح پر قرضوں کی سکیمیں متعارف کی جاتی رہی ہیں جن سے صرف مالدار لوگ ہی استفادہ کرسکتے تھے۔

عام لوگوں کے لئے بینکوں سے قرضوں کا حصول جوئے شیر لانے کے مترادف تھاقرضہ حاصل کرنے کے لئے مجاز سرکاری افسر کی ضمانت طلب کی جاتی تھی جس نے کسی دوسرے کی ضمانت نہ دی ہو یا اس کی ضمانت سے قرضہ حاصل کرنے والا نادہندہ قرار نہ دیاگیا ہو۔ قرضہ لینے والے کی تصدیق دو مجاز سرکاری افسران اورضمانت بھی کسی بڑی کاروباری شخصیت یا سرکاری ملازم کی طلب کی جاتی تھی ساتھ ہی ضمانتیوں کو تنبیہ کی جاتی تھی کہ قسطوں کی ادائیگی میں ناکامی یا نادہندہ ہونے کی صورت میں قرضے کی پوری رقم بمع سود ضمانت دینے والے سے وصول کی جائے گی۔ ان سخت شرائط کی وجہ سے مستحق، تعلیم یافتہ اور ہنرمند نوجوان کاروبار کے لئے قرضوں کے حصول میں ناکام رہتے تھے۔ توقع ہے کہ صوبائی حکومت نوجوانوں اور ہنرمند خواتین و حضرات کے لئے قرضوں کے حصول کی شرائط میں نرمی کرے گی تاکہ زیادہ سے زیادہ نوجوان اس فلاحی سکیم سے استفادہ کرکے اپنے لئے عزت کی روزی کماسکیں۔

صوبے میں بلدیاتی ادارے قائم ہوچکے ہیں اگر قرضہ لینے والوں کے کاغذات کی تصدیق کی ذمہ داری منتخب بلدیاتی نمائندوں کے سپرد کی جائے تو وہ عام لوگوں کے لئے قابل رسائی ہیں اس طرح منتخب عوامی نمائندوں کو تعمیر و ترقی کے کاموں میں اپنے حصے کا کردار ادا کرنے کا بھی موقع ملے گا۔کاروبار کے لئے قرضہ سکیم میں ان نوجوانوں کو ترجیح دینی چاہئے جو دوسرے نوجوانوں کے لئے روزگار کے مواقع پیدا کرنا چاہتے ہیں یا جو خواتین کو سلائی، کڑھائی،کشیدہ کاری، گلاس اور لیدر ورک کی تربیت دینے کے ادارے قائم کرنا چاہتے ہیں کیونکہ ہنر مند افرادی قوت اپنے خاندان، علاقے اور ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
58720

ٹانگیں کانپ رہی ہیں – قادر خان یوسف زئی کے قلم سے

ایک وقت تھا کہ کراچی میں بھتہ خوری، قتل و غارت اور لاقانونیت پر ایوانوں سے احتجاجاََ واک آؤٹ اور کبھی کبھار اقتدار سے الگ بھی ہو جایا کرتے تھے کہ پیٹرول کی قیمت اور بھتہ خوری بڑھنے سے کاروبار کرنا اور عوام کو ریلیف ملنا ناممکن ہوگیا ہے۔ صرف شیر شاہ کباڑی مارکیٹ سے یومیہ6 لاکھ روپے بھتہ اکھٹا کیا جاتا اور نہ دینے پرقتل عام بھی کیا گیا۔ کیا کچھ نہ ہوتا رہا لیکن ایسا کبھی نہ ہوا، جیسے اب ہورہا ہے۔ نہ کوئی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے بائیکاٹ کرتا ہے نہ کوئی اقتدار چھوڑتا ہے بس بیانات داغ دیتے ہیں۔ بھتہ خوری ختم تو نہیں ہوسکی لیکن کم ضرور ہوئی ہے۔ ٹارگٹ کلنگ کی تعداد ماضی کے مقابلے میں کم ہے لیکن اب اسٹریٹ کرائم کی شکل میں اپنے مہیب سائے سے معصوم انسانوں کو خوف زدہ کررہا ہے۔

اہل کراچی نے دہشت اور خو ف کے ساتھ بھتہ مافیا، پرچی مافیا اور جرائم پیشہ عناصر کے خلاف تاجروں کا احتجاج بھی دیکھا تو شہریوں کا جینا دوبھر کرنے والوں کے خلاف کئی بے رحم آپریشن بھی۔کراچی امن کا بحالی اورمعیشت کو بچانے کے لئے اپیلیں کی جاتی ہیں کہ وفاق توجہ دے اورصوبائی حکومت کراچی کو اپنی ترجیحات میں شامل کرے لیکن درد انگیز امر یہ ہے کہ اسٹریٹ کرائمز کا جن بوتل سے بے قابو ہوچکا ہے جو دراصل قانون شکنی کے ملک گیر سنگین سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ ضرورت اس عفریت کا سر ابتدا میں کچلنے کی تھی مگر تساہل، مصلحت اور بدقسمتی سے مجرموں کی سیاسی سرپرستی کے باعث حالات بدتر ہوتے گئے۔ ایک بار پھر کراچی متقاضی ہے کہ جرائم پیشہ عناصر کے خلاف بلا امتیاز کریک ڈاؤن کیا جائے۔ عوام کو اسٹریٹ کرائم کے مجرموں پر کسی طور تنہا نہ چھوڑا جائے لیکن” عمران یعقوب منہاس کا کہنا ہے کہ کراچی میں پولیس کی نفری دُگنی بھی کر دیں تو بھی جرائم پر قابو نہیں پایا جاسکتا،کراچی پولیس چیف کا مزیدکہنا تھا کہ شہر کو ڈیڑھ سے دو لاکھ کیمروں کی ضرورت ہے، جب تک شہر میں ہر جگہ کیمرے نہیں لگیں گے اس وقت تک جرائم کی شرح پر قابو نہیں پایا جا سکتا“۔

یہ اعتراف اہل کراچی کے لئے باعث تشویش  ہے کہ سیکورٹی ادارے کے اعلیٰ حکام وسائل اور جدید ٹیکنالوجی کے ہوتے ہوئے بھی حکومتی اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے جرائم پر قابو پانے کے لئے اپنی معذوری کا اعتراف ٹاک شوز میں کرتے نظر آتے ہیں۔سندھ حکومت بھی اپنی کوتاہی کا کھلا اعتراف کرتی نظر آئی۔ صوبائی وزیرِ اطلاعات سندھ کا کہنا تھاکہ لوگوں کی جان جا رہی ہے، یہ تشویش ناک بات ہے۔سعید غنی نے یہ بھی کہا کہ سیف سٹی منصوبے میں بد قسمتی سے تاخیر ہوئی۔ پاکستان کے معاشی حب میں سیف سٹی منصوبہ قریباََ کئی برسوں سے تاخیر کا شکار ہے۔ میڈیا میں بارہا رپورٹ کی جاتی رہی کہ کراچی میں چند کیمرے بھی جو لگے ہوئے ہیں وہ بھی ناکارہ ہیں اور فعال نہیں۔ دو لاکھ سی سی ٹی وی کیمروں کی ضرورت ناگزیربتائی جارہی ہے، یہ اربوں روپوں کا پراجیکٹ ہے لیکن سندھ حکومت کی جانب سے اس اہم منصوبے پر تاخیر یا  بد قسمتی کی کیا وجہ رہی یہ کوئی ڈھکا چھپا معمہ نہیں۔  سی سی ٹی وی کیمروں کا نظام سوک سینٹر میں لگایا گیا تھا پھر اس کو ایم کیو ایم کے گورنر ڈاکٹر عشرت العباد نے گورنر ہاؤس منتقل کرادیا۔ ان کیمروں کی نگرانی سٹی گورنمنٹ کررہی تھی،

بعدازاں ان کیمروں کے استعمال پر بعض سیاسی جماعتوں کے شدید تحفظات سامنے آئے۔ اب بھی یہ نظام وزیراعلیٰ ہاؤس اور سوک سینٹر میں موجود ہے۔ ان گنت واقعات رونما ہوتے ہیں، موبائل فون یا کسی کے مکان، دوکان،دفتر یا بلڈنگ وغیرہ میں لگے سی سی ٹی وی فوٹیج بھی منظر عام پر آجاتی ہے، کئی ایسے واقعات ہیں کہ جس میں دوران ڈکیتی چھینا چھپٹی اور مزاحمت کے دوران قتل کئے جانے کے مناظر بھی ریکارڈ ہوجاتے ہیں، لیکن ایک سوال اپنی جگہ پر موجود رہے گا کہ یہ سی سی ٹی وی کیمرے لگانے کا مقصد واردات کے بعد مجرموں کو تلاش کرنے کے لئے  ہے یا  جرم کو بروقت روکنے کے لئے۔سی سی ٹی وی کیمروں کی افادیت اپنی جگہ ہوگی، لیکن اس میں بڑی کوتاہی بھی سامنے آتی ہے، مثال کے طور پر اے ٹی ایم مشین روم میں لوٹ مارکے ان گنت واقعات ہیں، بنک میں سیکورٹی گارڈ چوبیس گھنٹے موجود رہتا ہے، اے ٹی ایم مشین روم میں کیمرہ بھی لگا ہوا ہے لیکن جرم کرنے والے نہ صرف وہاں لوٹ مار کرتے ہیں بلکہ ایک ویڈیو میں دیکھا کہ ایک مجرم ائیر کنڈیشن تک اکھاڑ کر لے گیا،

جسے بعد میں کراچی پولیس نے گرفتار کیا۔ بنک کے اندر جدید سیکورٹی سسٹم اور گارڈ ہونے کے باوجود بروقت جرم کرنے والے کو روکا نہیں جاسکتا تو دو لاکھ کیمرے لگا کر کس طرح بروقت کاروائی کی جاسکے گی۔ دراصل یہی اصل مسئلہ ہے۔ بلاشبہ جب استعداد کار نہ ہو تو نفری دو گنی تو کیا، سو گنا اضافہ کردیں اس کے مثبت نتائج اس وقت تک سامنے نہیں آئیں گے جب تک جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ قانون نافذ کرنے والے ادارے بالخصوص پولیس میں اصلاحاتی عمل نہ ہو۔ سندھ حکومت اگر دو لاکھ کیمرے لگا بھی دیتی ہے تو کیا  لاکھوں گلی کوچوں اور شاہراؤں کی مکمل نگرانی ممکن ہے؟،  تو اس کا جواب یقیناََ ناں میں ملے گا۔ گلی کوچوں، محلوں، بازاروں وغیرہ میں کہاں کہاں کیمرے لگا کر جرائم کو روکا جاسکتا ہے۔ اس کی مانٹرنگ کا ایک نظام بھی وضع کرنا ہوگا اور ایمرجنسی کی صورت میں پولیس کا بروقت جائے وقوع پر پہنچنا، تاہم گرجرم ہونے کے بعد مجرموں کے فرار ہونے والے راستوں کی نگرانی میں انہیں پکڑنا ایک جدید نظام کے تحت ہی ممکن ہے۔

پولیس کے پاس ایسا کوئی مربوط نظام نہیں کہ وہ ہر جگہ کی نگرانی کرے، مانٹرنگ سسٹم کے تحت جرم کو ہوتا دیکھ کر مددگار پولیس کو بھیجے یا پھر جرم ہونے کے بعد فرار ہونے والوں کو سسٹم کے تحت دیکھتے ہوئے گرفتار کرے۔ یہ بہت مشکل اور ناممکن عمل لگتا ہے، ہالی وڈ کی فلموں میں یہ مناظر متاثر کن ضرور ہیں لیکن ترقی یافتہ ممالک میں بھی پولیس ہوتے جرم کو بروقت روک نہیں پاتی۔ جرائم کو کم ضرور کیا جاسکتا ہے اور اس کے لئے علاقائی سطح پر کیمونٹی پولیسنگ  نظام کو لانا ہوگا ۔  محلے کے سطح پر سیکورٹی اقدامات کو بڑھانے سے ہی صورت حا ل میں کمی آسکتی ہے۔ اس کے لئے سنجیدہ اقدامات کئے بغیر صرف اعلانات کرنا کافی نہیں۔ یقین کیجئے سیاسی جماعتوں کی نہیں بلکہ اہل کراچی کی ٹانگیں کانپ رہی ہیں۔

Posted in تازہ ترین, مضامین
58654

حضرت رقیہ بنت امام حسین ۔ ڈاکٹر ساجد خاکوانی (اسلام آباد،پاکستان)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حضرت رقیہ بنت امام حسین

(المعروف بی بی پاک سکینہ)

(20رجب یوم پیدائش کے موقع پر خصوصی تحریر)

ڈاکٹر ساجد خاکوانی(اسلام آباد،پاکستان)

                 اللہ تعالی نے اپنی آخری کتاب میں فرمایا کہ اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَہْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیْرًاترجمہ:”اللہ تعالی تویہ چاہتاہے کہ تم اہل بیت نبویﷺسے گندگی کو دورکردے اور تمہیں پوری طرح پاک کردے“۔بی بی سکینہ اسی پاک گھرانے کی ایک خاتون مقدس ہیں۔آپ نواسہ رسول امام عالی مقام امام حسین کی صاحبزادی تھیں۔آپ کو ”آمنہ“ بھی کہاجاتاتھا،والدہ محترمہ کا نام نامی رباب بنت امراوالقیس تھا۔ولادت باسعات 20رجب 54ھ کو ہوئی،آپ کا  بچپن مدینہ منورہ جیسے مرکزاسلام میں گزرا۔امام عالی مقام کو اپنی اس شہزادی سے بہت پیار تھا،بہت چھوٹی عمر میں حضرت بی بی سکینہ اپنے والد بزرگوارکے سینے پر ہی کھیلتے کھیلتے سو جایاکرتی تھیں۔جب کبھی بی بی سکینہ گھرپر نہ ہوتیں تو امام عالی مقام گھر کو خالی خالی قراردیتے۔جب بی بی پاک تھوڑی سی بڑی ہوئیں تو وہ رات کے ابتدائی حصے میں اپنے والد کے پاس باقائدگی سے جاتیں اور امام عالی مقام بی بی کو اپنے ناناﷺ،دیگرانبیاء علیھم السلام اور اپنے والد حضرت علی کرم اللہ وجہ کے ایمان افروزواقعات سناتے تھے۔بی بی سکینہ اپنے چچا،عباس بن علی بن ابی طالب، کی بھی بہت لاڈلی تھیں،یہ چچا حضرت علی کی دوسری زوجہ ام البنین کے بطن سے تھے۔مدینہ منورہ میں قیام کے دوران دن میں کئی بار بی بی صاحبہ اپنے اس چچا کے گھر جاتی تھیں اور جب کبھی بی بی صاحبہ کوئی فرمائش کردیتیں تو چچا عباس بن علی ہر قیمت پر اس فرمائش کو پورا فرماتے تھے۔چچا کی محبت کا یہ عالم تھا کہ مدینہ سے مکہ اور مکہ سے کربلا کے سفر کے دوران باربار محمل میں جھانک کر دیکھتے تھے کہ پیاری بھتیجی کو کوئی دقت اور پریشانی تو نہیں۔

                قیام کربلاکے دوران جب یزیدی افواج نے جب اہل بیت مطہرین کامحاصرہ کرلیاتوامام عالی مقام نے اپنی بہن محترمہ بی بی حضرت زینب بنت علی سے کہا کہ اب سکینہ کومیرے بغیرسوناہو گااوربی بی سکینہ کی انگلی پکڑ کر انہیں بی بی زینب کے سپردکر دیا۔پہاڑ جیسے صبرکے وارث اس گھرانے کی لخت جگرنے چوں بھی نہ کی اور اطاعت وفرمانبرداری کی مجسم مثال بنتے ہوئے اپنے بابا کی جدائی برداشت کر لی۔7محرم الحرام کو جب اہل بیت مطہرین پر پانی کی بندش کر دی گئی تو کربلا کے اس گرم ترین ماحول میں بچے  جاں بلب پیاس سے بلک گئے،وہ سب بچے،جنت کے پھول،جمع ہو کر بی بی سکینہ کے پاس آئے اور پانی کی فرمائش کی،جب کہ بی بی پاک کے اپنے ہونٹ بھی پیاس کے مارے سوکھ کر کانٹا ہو رہے تھے۔بی بی سکینہ نے کم و بیش بیالیس بچوں کی قیادت میں پانی کی ایک مشک اٹھائی اوراپنے پیارے چچا عباس بن علی کے پاس گئیں کہ پانی لائیں۔راج دلاری بھتیجی کی فرمائش پر عباس بن علی نے امام عالی مقام سے اجازت چاہی تو اجازت نہ ملی،عباس علمدار نے بی بی پاک سے کہا اپنے والد سے اجازت لے دو،پہلی دفعہ تو انکارہوالیکن باردیگرحالات پر جذبات غالب آ گئے اور اجازت مرحمت ہوگئی۔حضرت عباس بن علی نے مشکیزہ اپنے علم پر دھرااوریزیدی افواج کو چیرتے ہوئے کناردریاجا پہنچے،تمام بچوں کی نظرعلم پر لہراتے ہوئے مشکیزے پر تھی۔ مشکیزہ دریاکے پانی میں ڈالنے پربچے پریشان ہوگئے لیکن امام عالی مقام نے فرما یاگھبراؤنہیں مشکیزہ دریامیں ڈالنے کے باعث نظروں سے اوجھل ہواہے۔بھراہوامشکیزہ جب دوبارہ علم پر نظر آیاتو تمام بچے اپنے ننھے منے ہاتھوں میں پانی کے چھوٹے چھوٹے برتن لیے امید میں انتظارمجسم بن گئے۔حضرت عباس بن علی جیسے ہی خیموں کی طرف بڑھے توابن سعد کی مکروہ و منحوس آواز گونجی کی اگرپانی خیموں میں پہنچ گیاتو بنی ہاشم کے ان جانبازوں سے جیتنا ممکن نہیں رہے گا،چنانچہ اس کے حکم پر یزیدی فوج نے خانہ نبوت کے اس چشم و چراغ پر پے درپے حملے شروع کر دیے۔مشکیزہ بچاتے ہوئے حضرت عباس بن علی کے دونوں ہاتھ کٹ گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے علم زمین پر گرااور پھر بی بی سکینہ اپنے اس پیارے چچا کو کبھی نہ دیکھ سکی۔پیاری سکینہ نے اپنے والد بزرگوارکی طرف نظر کی انہوں نے چہرہ دوسری طرف پھیرلیااورحوض کوثرکے وارث بچے اپنے پیاسے ہونٹوں کے ساتھ خیموں میں لوٹ گئے۔

                دس محرم الحرام کی شام یزیدی افواج خیموں پر ٹوٹ پڑیں،بدبخت شمرنے بی بی سکینہ کے چہرہ انور پر زوردارطمانچہ رسیدکیااور ان کے کانوں سے جھمکے نوچ لیے،بی بی کا چہرہ خوف زدہ اورکان لہولہان ہو گئے،ان ظالموں نے اسی پر بس نہ کی اور خیموں کو نذرآتش کرناشروع کردیا،نسل آد م کی مقدس ترین خواتین دوسرے خیمے میں تشریف لے جاتیں تواس کوبھی آگ میں جھونک دیاجاتا۔بی بی پاک زینب نے سب بچوں اور خواتین کو ایک جگہ جمع کیاجب کہ امام عالی مقام کا جسم اطہر سر سے جداہوامیدان کرب و بلامیں خاک و خون سے آسودہ راحت فردوس ہورہاتھااور یتیم اور بیوگان اس کے گرد جمع تھیں۔بی بی زینب کو اچانک ننھی سکینہ کاخیال آیاتو وہ غیرموجود پائی گئیں،دو خواتین اہلبیت کو فوراََدوڑایاگیا،انہوں نے جلتے خیموں میں خوب چھان بین کی لیکن ننھی بی بی کا کوئی سراغ نہ ملا،بی بی پاک زینب پریشان حالت میں میدان کی طرف لپکیں تو پیاری سکینہ کو اسی طرح باپ کے سینے سے چپکاہواپایا جس طرح بچپن میں وہ اس شناسا سینے پر استراحت فرمایا کرتی تھیں۔بی بی زینب نے انہیں پانی بھرا برتن پیش کیاتوننھی بی بی نے پوچھا کیا چچا عباس بن علی لوٹ آئے،تو انہیں جواب دیاگیا کہ نہیں یہ پانی حر کی بیوہ نے بھیجاہے تو انہوں نے پہلے حرکی بیوہ کا شکریہ اداکیااورپھر پانی نوش جان کیا۔اگلے دن یہ کاروان کوفہ کی طرف روانہ ہواتو بی بی زینب نے اپنے بھائی کی امانت،بی بی سکینہ،کواپنی ہی اونٹنی پر بٹھایا۔کوفہ میں ایک عورت نے اپنے گھرکی چھت سے اونٹنی پر بیٹھی بی بی سکینہ کو پانی پیش کیا۔کوفہ کے بعد یہ قافلہ سخت جاں دمشق کے لیے روانہ ہواتودوران سفربی بی سکینہ بچی ہونے کے ناطے تمام خواتین اہل بیت کی خدمت داری کرتی رہیں،خاص طور پراگرکوئی بچہ روتاہوا نظر آتا تو بی بی فوراََ اسے اپنی گود میں سمو لیتی تھیں،دوران سفر وہ اپنے چھوٹے شہید بھائی علی اصغرکو بھی بہت یادکرتی رہیں۔کربلا سے دمشق تک عموماََایک ماہ کا طویل سفرتھا لیکن اس بابرکت گھرانے کے طفیل یہ سفرمحض سولہ دنوں میں ختم ہوا۔

                اس مقدس ترین قافلے کے ساتھ جو دردانگیزسلوک روارکھاگیااسے تاریخ نے اپنے سینے میں محفوظ رکھاہے۔چار پانچ سالہ ننھی سکینہ اپنے والد کی جدائی برداشت نہ کر سکی۔وہ شام کے قیدخانوں میں اکثراپنے والد،شہیدکربلا کوخواب میں دیکھتی تھیں کہ وہ کہ رہے ہیں کہ تم بہت جلد میرے پاس پہنچ جاؤگی۔بادی النظر میں دیکھا جائے تو محبت کرنے والے والد محترم بھی اس ننھی سکینہ کے بغیربہت اداس تھے۔دمشق کے قید خانے میں ایک دفعہ ننھی سکینہ نیندسے بیدارہوئی اور شہید والد کو شدت سے یادکرنے لگی،ماں،پھوپھی،بھائی اور دیگر رشتہ داروں نے بہت دلاسے دیے لیکن تسلی نہ ہو سکی۔روایات میں لکھا ہے کہ ملعون یزید نے امام عالی مقام حضرت امام حسین کاسر مبارک قیدخانے میں بھیج دیا،اہل بیت نبوی کواذیت دینے کا یہ بھی ایک طریقہ تھا۔باپ کی شفقت سے محروم یتیم سکینہ اپنے والد کی اس حالت کو دیکھ کر سو گئی۔امام زین العابدین نے جب ماتھے پر ہاتھ رکھا تو انہیں اندازہ ہو گیا کہ یہ ابدی نیند ہے۔یہ ماہ صفرالمظفرکی 10یا11تاریخ تھی اور زندان شام کامقام تھا۔باپ بیٹی کا فراق ختم ہو چکاتھا۔قید خانے میں ہی کربلا کے خیموں سے جلے ہوئے اور خون آلود کپڑوں میں اہل بیت کی اس شہزادی کوموتیوں سے بنی جنت میں حریرودیبا اورمخمل کے لباس پہننے کے لیے عازم سفرآخرت کردیاگیا۔بی بی زینب نے ننھی کا جسد مبارک ہاتھ میں تھامے رکھااور امام زین العابدین نے قبر کھودی۔قیدخانے میں ہی قبر مبارک بنی اورصدیوں بعد جب اس قبر میں پانی چرانے لگا تووقت کے رحم دل حکمران نے ننھی شہزادی کی قبر کشائی کی اور صدیوں کے بعد بھی تروتازہ جسم اطہرکو موجودہ جائے مقبرہ میں دفن کر دیاگیا۔یہ مقبرہ آج مرجع خلائق ہے،زائرین دوردراز سے اس کم عمرمعصوم پاک بی بی کی عزم و ہمت اور استقامت کو سلام کرنے کے لیے جوق درجوق آتے ہیں اور اپنا ایمان تازہ کر کے چلے جاتے ہیں کہ یہ وہ خانوادہ ہے جسے سند طہارت اللہ رب العزت کی طرف سے عطا ہوئی ہے۔

                                اے جان سکینہ  بے جان سکینہ                                             ماں ننھی سی میت پہ ہو قربان سکینہ

                                جھیلی نہ گئیں بچی سے زنداں کی جفائیں                                            اماں کو چلیں چھوڑ کے نادان سکینہ

                                بابا سے مری جان،نہ شکوہ مراکرنا                                      سب رہ گئے دل میں مرے ارمان سکینہ

                                قیدی ہوں بلاکش ہوں کفن دے نہیں سکتی                                            دفنانے کاکیوں کرکروں سامان سکینہ

                                تنہامجھے تم چھوڑ کے جنت کو سدھاریں                                           اب ماں ہے تری اور یہ زندان سکینہ

                                رخساروں پہ ظالم نے طمانچے ترے مارے                                          کچھ صغرسنی کانہ کیادھیان سکینہ

                                کانوں کے ترے چیرکے بندوں کواتارا                                  اورخوں سے بھراتیراگریبان سکینہ

                                                                                نیندآئے گی کیونکرمیری بی بی کو لحد میں

                                                                                کیاگزرے کی تجھ پرمیری نادان سکینہ

[email protected]

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
58610

چترال کے مشہور شاعر اور ادیب عنایت اللّٰہ اسیر کی کتاب: ژیر غست؛ کی تقریب رونمائی – تحریر:اشتیاق چترالی


کسی بھی زبان کی ترویج و اشاعت اور پذیرائی میں وہاں کے مقامی ادباء،شعراء اور قلم کاروں کا ایک اہم رول ہوتا ہے اور یقیناّ یہ آگے جاکے کامیابیوں اور کامرانیوں کا ثمر ضرور کاٹے گی کہ جس سے ہماری پیاری زبان کہوار کو مزید درجہ ملے گا جس سے اس کی شیرینی اور لطافت سے دوسرے لوگ بھی محظوظ ہونگے۔چترال کے اندر بھی اس ذمہ داری کی بحسن وخوبی انجام دہی کی طرف ہمارے شعراء جس خلوص اور محبت سے گامزن ہیں یقیناّ ان کا یہ عمل لائق صد تحسین ہے۔
چترال سے تعلق رکھنے والے مشہور شاعر،ادیب جو بیک وقت استاد، سوشل ورکر،مقررومربی،سماجی کارکن کے علاوہ دیگر خوبیوں اور صلاحیتوں کے بھی مالک ہیں وہیں پہ قلم کاری کا ہنر پت بھی خوب دسترس رکھتے ہیں۔چترال اور یہاں کے مسائل پر آہ و فغان بلند کرنے اور ان کو منظر عام پر لاکر حل کرنے کیلئے جس جدوجہد میں برسر و پیکار ہیں اس میں اپنی کتاب کو اپنا ہم رکاب بنانے کیلئے اس کا نام بھی :ژیرغست؛ رکھ دیا۔


اس کتاب کی تقریب رونمائی آیون کے مقامی سکول میں منعقد ہوا۔ تقریب کو جس خوبصورتی سے وہاں کے مقامی تنظیم :انجمن شمع فروزان؛ نے ترتیب دیا تھا وہ بھی قابل داد ہے۔
صاحب کتاب ویسے تو کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں جو آج سے نصف صدی قبل اسٹیج پہ آکے اپنے کلام سنانے شروع کئے اور ہنوز اس کام کو بحسن و خوبی انجام دہی کی جانب گامزن ہیں۔


موصوف نے اس کتاب میں حمد،نعت،نظم،غزل،اسلامی اقدار کے فروغ،علاقائی اور قومی سطح پر وطن سے محبت کا درس،علاقائی،قومی،نسلی، مذہبی تعصب سے پاک معاشرے کی بنیاد کے علاوہ دیگر اہم امور زیر بحث لائے ہیں یقیناّ یہ ان کی دین سے محبت،اللّٰہ کی وحدانیت، مملکت خداداد سے محبت،کہوار ادب سے محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔دیگر موضوعات میں اخلاقی اقدار کی پامالی،تعلیم کے اہمیت، تربیت پر زور، مذہبی ہم آہنگی، سیاست میں تقسیم در تقسیم کی روش،قبیلوں میں تقسیم کی مخالفت ایسے موضوعات ہیں کہ جن پر جس خوبصورتی سے روشنی ڈالی ہے وہ ان کے دل میں موجود درد کو عیاں کرتی ہے اس کے علاوہ فکری مطابقت میں تقسیم،خودداری،غیرت کا پیغام،خلیفہ،غریب بچے کی فریاد،پاک چین دوستی،مرثیہ خالد بن ولی،مزدور شہری کی فریاد بھی اس کا آہم جزو ہیں جس میں کہوار کے علاوہ ہماری قومی زبان کے نظم بھی شامل ہیں جو ان کی قومی زبان سے محبت کا بھی مظہر ہے۔


اس کی رونمائی کی تقریب آیون کے ایک مقامی سکول میں منعقد کی گئی جس کے مہمان خصوصی انجمن ترقی کہوار کے مرکزی صدر شہزادہ تنویر الملک تھے اور محفل کی صدارت صدارتی ایوارڈ یافتہ معروف شاعر محمد عرفان عرفان نے کی۔اس کے علاوہ آیون سے تعلق رکھنے والے معززین اور نوجوان شعرائے کرام نے بھی تقریب میں شرکت کی اورمہمان شعراء میں مشہور شاعر افضل اللّٰہ افضل،سعید الرحمٰن سعیدی اور حسنین زین شامل تھے۔
اسٹیج کی ذمہ داری انجمن شمع فروزان آیون کے صدر عبدالصمد اور صفی اللّٰہ آسی صاحب نے انجام دئے۔آسی صاحب نے جس خوبصورت انداز میں کتاب پر اپنا مقالہ پیش کیا یقین جانئے اس کے بعد مزید کچھ لکھنے کی جسارت سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔انھوں نے جس احسن انداز میں اس کتاب پر روشنی ڈالی سن کے دل باغ باغ ہو گیا جس سے صاحب کتاب کے دل کو بھی تسکین ملنا فطری امر ہے اور آخر میں انھوں نے صاحب کتاب کو زبردست الفاظ میں خراج تحسین بھی پیش کیا۔


مہمان خصوصی شہزادہ تنویر الملک نے کتاب کی چھپائی کے حوالے سے مسائل اور صاحب کتاب کی کہوار ادب اور شاعری کیلئے خدمات پر ان کا شکریہ ادا کیا اور اس طرح کے کہوار آدب کیلئے خدمات کی سرپرستی کا بھی آعادہ کیا۔صدر مجلس جو صاحب کتاب کے دیرینہ ساتھیوں میں بھی شامل ہیں نے زبردست الفاظ میں خراج تحسین کے پھول نچھاور کئے۔


عنایت اللّٰہ صاحب نے اپنے خطاب میں انجمن ترقی کہوار کے ذمہ داران کا شکریہ ادا کیا کہ جنھوں نے اس کتاب کی اشاعت کو ممکن بنایا اور منظر عام لانے اور اس میں مزید نکھار لانے کے عزم کا اعادہ کیا۔اپنے خطاب میں ان کا مزید کہنا تھا کہ اس مملکت خداداد پاکستان کی تعمیر و ترقی میں نوجوانوں کا اہم رول ہے جس کو اگر نوجوان پہچان لیں تو یہ چترال کے لئے ہی نہیں پورے ملک کے لئے خدمات کے نہ ختم ہونے والے سلسلے کو جنم دے گی۔نوجوانوں پر انھوں نے زور دیا کہ موجودہ پر فتن دور میں ان کو حالات سے خوف کھانے اور گھبرانے کی چندان ضرورت نہیں ہے وہ اسلامی احکامات اور پیغمبر اسلام محمد الرسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے اصولوں پر عمل پیرا ہو کر دنیا اور آخرت دونوں میں کامیابی سمیٹ سکتے ہیں اور پہلے مسلمان پھر ہر شعبہ ہائے زندگی میں نام کما سکتے ہیں۔اس کے بعد اس تقریب کو منعقد کرنے پر شمع فروزان کے ذمہ داران کا بھی شکریہ ادا کیا کہ انھوں نے ان کے اعزاز میں زبردست پروگرام ترتیب دئے اور گزشتہ دس سالوں سے یہ تنظیم کسی بھی علاقائی تعصب،سیاسی ومذہبی تعصب سے پاک ہو کر اصلاح معاشرہ کی جانب جس انداز سے برسر پیکار ہیں اس پر اس تنظیم کے ذمہ داران اور اکابرین بھی داد و تحسین کے مستحق ہیں اور ان کی دس سالہ کارکردگی کا کیک بھی کاٹا گیا۔


اس پروگرام کا آخری حصہ مشاعرے پر مشتمل تھا آیون سے اور آیون سے باہر سے آنے والے شعراء جن میں قابل ذکر افضل اللّٰہ افضل، سعید الرحمٰن سعیدی اور نوجوان شاعر حسنین زین نے شرکت کی۔اس کے علاوہ عبدالحسیب حسیب،صدرالدین صدر،طاہر شادان کے علاوہ دوسرے شعرائے کرام نے اپنے اپنے کلام پیش کئے اور شرکاء محفل سے داد سمیٹے،خصوصاّ نوجوان شاعر حسنین زین نے اپنے کلام میں محفل کے رونق کو چار چاند لگا دئے جن کی شعری مجموعوں میں جس حقیقت پسندی اور ان کے اوپر گزرے ہوئے حالات کی منظر کشی کی گئی ہوتی ہے وہ صدائے صد آفرین ہے اور وہ وقت بھی دور نہیں جب اعلٰی پائے کے اخلاق سے مزین یہ نوجوان اپنے کردار اور اپنے شعری مجموعوں سے اس دیس کے نوجوانوں کے دلوں میں راج کریں گے۔


ضرورت اس امر کی ہے کہ اس طرح کے پروگرامات سے جہاں کہوار زبان کی ترویج کے عمل کو مہمیز ملے گی وہیں پہ نوجوانوں کے اندر اپنے ملک اور چترال خصوصاّ اپنی زبان سے محبت اور لگاو بھی مزید بڑھے گی اور ان کے اندر ایک نیا جوش اور ولولہ جنم لے گی جو آگے جا کر ان کی کامیابی اور علاقے کی عالمی افق پر سرخروئی کا باعث بنے گا۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
58623

مادری زبان، پس منظر و پیش منظر -ڈاکٹرساجد خاکوانی (اسلام آباد،پاکستان)

بسم اللہ الرحمن الرحیم
مادری زبان،پس منظر و پیش منظر
International Mother Language Day
(21فروری:مادری زبان کے عالمی دن کے موقع پر خصوصی تحریر)


زبان وہ ذریعہ ہے جس سے ایک انسان اپنے احساسات،خیالات اور اپنے جذبات دوسرے انسان تک منتقل کرتاہے۔زبان انسان کے اندر کی نمائندگی کرتی ہے،یہ مافی الضمیر کے اظہار کاایک وقیع ذریعہ ہے۔زبان کے ذریعے انسان اپنی حاجات اور اپنی ضروریات کا بھی اظہار کرتا ہے۔انسانی معاشروں میں بولی جانی زبانیں انسانی باہمی ربط و تعلق کی ایک اہم بنیاد ہوتی ہیں۔زبان کے ذریعے جہاں ایک انسان اپنی کیفیات کااظہار کرتاہے وہاں دوسراانسان بھی زبان کے ذریعے سے ہی پہلے کے ما فی الضمیر کادراک کرتاہے۔کسی انسان کے پاس یہ طاقت نہیں کہ وہ دوسرے انسان کے اندر جھانک کر اسکاانداہ لگاسکے پس یہ زبان ہی ہے جس کے الفاظ انسانوں کو دوسرے انسانوں کے ساتھ تعلق قائم کرنے میں ممدومعاون ثابت ہوتے ہیں۔انسان کی پہلی زبان ”رونا“ہے۔ماں کے پیٹ سے جنم لے کر وہ سب سے پہلے روتا ہے اور اپنی ضروریات کا رو رو کر اظہار کرتاہے۔اسی رونے میں اسکی بھوک پوشیدہ ہوتی ہے،اسی رونے میں اسکی پیاس ہویداہوتی ہے،اسی رونے سے وہ اپنی تکلیف اور درد کااحساس دلاتاہے اور اسی رونے سے ہی وہ سوکرجاگنے کااعلان کرتاہے۔

اللہ تعالی کی شان ہے کہ اس بچے کی سب سے ابتدائی زبان اسکی ماں ہی سمجھ پاتی ہے حالانکہ رونے کے کوئی الفاظ نہیں ہوتے،رونے کی کوئی تراکیب نہیں ہوتیں اور رونے کے کوئی اصول و قوائدبھی نہیں ہوتے لیکن پھر بھی یہ ایسی زبان ہے جسے بچے کی ماں آسانی سے سمجھ جاتی ہے۔بہت تجربہ کار ڈاکٹر اور طبیب بھی بچے کی جس کیفیت کو نہ سمجھ سکے ماں اسکا بخوبی ادراک کرلیتی ہے،حالانکہ ”ماں“ نے ”ماں“بننے کاکوئی کورس نہیں کیاہوتابس ماں کے سینے میں ایک دل ہوتا ہے جو بچے کے رونے کی زبان کو ماں کے جذبات میں ترجمہ کر کے اس تکلیف کی وضاحت کردیتاہے۔بچے کی سب سے پہلی تربیت گاہ اسکا سب سے پہلا تعلیمی ادارہ ماں کی گود ہوتی ہے۔ ماں کی گود میں سیکھاہواسبق وہ بڑھاپے کی دہلیزپر بھی بھلانا چاہے تو ممکن نہیں ہے۔ماں کی گود کے اثرات بچے کے ذہن پر ایسے نقش ہو کر پختہ ہوجاتے ہیں جیسے پتھر پر کوئی تحریر کندان کر کے توہمیشہ کے لیے امر کردی جائے۔

یہ اولین تعلیمی ادارہ بچے کو جس طرف بھی موڑنا چاہے بچہ اسی طرف ہی مڑتاچلاجاتاہے۔اسی لیے ہمیشہ یاد رکھے جانے والے سبق کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ وہ انہیں ماں نے دودھ میں پلایاہے۔جیسے امریکی بچوں کو اسامہ کاخوف مائیں اپنے دودھ میں پلاتی تھیں اور اسرائیلی ماؤں نے حماس کاخوف یہودی بچوں کو دودھ میں پلایاہے وغیرہ۔مادری زبان بھی اسی طرح کاپڑھایاہواسبق ہوتاہے۔
ماں کی گود میں بچہ جو زبان سیکھتاہے وہ ماں کی نسبت سے مادری زبان کہلاتی ہے کیونکہ ”مادر“فارسی زبان میں ”ماں“کوکہتے ہیں۔زبان سیکھنا ایک طویل مرحلے کامرہون منت ہوتاہے۔کوئی زبان،اسکے قوائد،اسکی لغت اور اسکے دیگراسرارورموزایک تھکادینے والا کام ہے لیکن اللہ تعالی کی قدرت ہے کہ بچہ ماں کی گود میں زبان کے ان سب امور پر یوں دسترس حاصل کر لیتا ہے کہ ساری عمر کے لیے وہ نہ صرف اس زبان کا ماہر بن جاتا ہے بلکہ بعض اوقات تواس زبان کے مصدر تک کی اہمیت حاصل کرلیتاہے۔خاص طور پر ایسے علاقے جہاں کی زبان خالص ہوتی ہے اور دیگرزبانوں کے ساتھ خلط ملط ہوکر وہ زبان اپناآپ گم نہیں کر بیٹھتی توایسے علاقوں میں تو مادری زبان کا واحد وقیع و مستند ذریعہ ماں کی گود اور روٹیاں پکانے والے چولھے کے گرد بچوں کاجھمگٹاہوتاہے جہاں وہ زبان اپناتاریخی ارتقائی سفر بڑی عمدگی سے طے کر رہی ہوتی ہے۔مادری زبان صرف بولنے تک ہی محدود نہیں ہوتی بلکہ اسکے پس منظر میں اس علاقے کا،اس تہذیب کا،اس ثقافت کا اور انکی روایات کا عظیم اور صدیوں پر محیط ورثہ بھی موجود ہوتاہے۔زبان دراصل کسی بھی تہذیب کا سب سے بڑا اظہار ہوتی ہے۔مادری زبان میں ہی بچے کو ایک نسل اپنا ماضی منتقل کر رہی ہوتی ہے اور مادری زبان میں ہی ایک نسل اپنے ثقافتی مستقبل کی تعمیر کر رہی ہوتی ہے۔مادری زبان کے محاورے بچے کے مزاج کا پتہ دیتے ہیں،مادری زبان کی تراکیب انسان کی زبان کے علاقائی پس منظر کا اندزاہ لگانے میں ممدو معاون ثابت ہوتی ہیں اور مادری زبان کی شاعری جو ماں بچوں کو سلاتے ہوئے لوری میں سناتی ہے یا روتے ہوئے بچے کو چپ کرانے کے لیے گنگناتی ہے اور بہت ہی چھوٹی عمر میں کھیل تماشوں میں پڑھے جانے والے ٹوٹے پھوٹے اشعار کسی بھی زبان کی وہ بنیادیں ہیں جن پر اسکا شاندار محل تعمیر ہوتا ہے۔


مادری زبان کے معاملے میں کتنی احتیاط پرتی جاتی ہے اس کا اندازہ ہمیں سیرت النبی ﷺ کے واقعات سے بخوبی میسر آتاہے۔یہ ایک معاشرتی انسانی حقیقت ہے کہ دیہاتوں کی زبان،دیہاتوں کا لہجہ اور دیہاتوں میں استعمال ہونے والے کسی زبان کے محاورے اور تراکیب شہروں کی نسبت بہت عمدہ اور خالص ہواکرتے ہیں۔عرب قبائل اپنے بچوں کی زبان کی حفاظت کے لیے انہیں بہت ابتدائی عمر میں ہی دیہاتوں میں بھیج دیاکرتے


تھے۔اس طرح بچوں کی مادری زبان میں ہونے والی پرورش انکی زبان کے پس منظر میں انکی روایتی و ثقافتی اقدار کی حفاظت کی ضامن ہوجاتی تھی کیونکہ مادری زبان صرف بولنے تک تو محدود نہیں ہوتی اسکے اثرات انسانی رویوں میں واضع طور پر اثر پزیر رہتے ہیں۔شاید انہیں مقاصد کی خاطر آپ ﷺ کی پرورش بھی بنواسد کے دیہاتی ماحول میں ہوئی۔اسی طرح دنیا بھر میں ابتدائی تعلیم مادری زبان میں دیے جانے کا انتظام ہوتا ہے کیونکہ بچے کے ذہن میں راسخ الفاظ اسکے اورنظام تعلیم کے درمیان ایک آسان فہم اور زوداثر تفہیم کا تعلق پیدا کر دیتے ہیں۔مادری زبان میں تعلیم سے بچے بہت جلدی نئی باتوں کو سمجھ جاتے ہیں انہیں ہضم کر لیتے ہیں اور پوچھنے پر بہت روانی سے انہیں دھراکر سنا دیتے ہیں۔مادری زبان میں دی جانے والی تعلیم بچوں کی تعلیمی صحت پر خوشگوار اثرات مرتب کرتی ہے جس کے نتیجے میں وہ خوشی خوشی تعلیمی ادارے میں بھاگتے ہوئے آتے ہیں اور چھٹی کے بعد اگلے دن کا بے چینی سے انتظارکرتے ہیں۔معلم کے لیے بھی بہت آسان ہوتا ہے کہ مادری زبان میں بچوں کو تعلیم دے اسکے لیے اسے اضافی محنت نہیں کرنی پڑتی اور مہینوں کاکام دنوں یا ہفتوں میں مکمل ہوجاتا ہے۔اوراگربچوں کو غیرزبان میں تعلیم دی جائے تووہ اسی قوم کے ذہنی غلام بن جاتے ہیں اورنفسیاتی فرارکے باعث تعلیم میں سختی،زبردستی،رٹے بازی اور ڈنڈے کااستعمال ان میں تعلیمی عدم دلچسپی ان کی عملی و پیشہ ورانہ زندگی میں جہالت کاباعث بن جاتی ہے اگرچہ بڑی بڑی تعلیمی اسنادہی ان کے ہاتھوں میں موجود ہوں۔


مادری زبان کی تعلیم سے خود زبان کی ترویج واشاعت میں مددملتی ہے،زبان کی آبیاری ہوتی ہے،نیاخون داخل ہوتا ہے اورپرانا خون جلتارہتاہے جس سے صحت بخش اثرات اس زبان پر مرتب ہوتے ہیں۔انسانی معاشرہ ہمیشہ سے ارتقاء پزیر رہا ہے چنانچہ مادری زبان اگر ذریعہ تعلیم ہو تو انسانی ارتقاء کے ساتھ ساتھ اس علاقے کی مادری زبان بھی ارتقاء پزیر رہتی ہے،نئے نئے محاورے اور روزمرے متعارف ہوتے ہیں،نیا ادب تخلیق ہوتا ہے،استعمال میں آنے والی چیزوں کے نئے نئے نام اس زبان کا حصہ بنتے رہتے ہیں۔جس طرح قوموں کے درمیان اور تہذیبوں اور مذاہب کے درمیان جنگ رہتی ہے اسی طرح زبانوں کے درمیان بھی ہمیشہ سے غیراعلانیہ جنگ جاری رہی ہے،جوجوزبانیں تعلیم کا ذریعہ بن کر انسانی رویوں میں شامل ہوجائیں وہ اس جنگ میں اپنا وجود باقی رکھتی ہیں بصورت دیگر تاریخ کی کتب اورآثارقدیمہ کے کھنڈرات بے شمار زبانوں کی آخری آرامگاہ کے طور پر اس کرہ ارض پر موجود ہیں۔وطن عزیز،اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بہت سی مادری زبانیں ہیں جنہیں علاقائی زبانیں بھی کہا جاسکتا ہے،لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بہت کم علاقوں میں ان زبانوں کی سرپرستی کی جاتی ہے۔پاکستان کا تعلیمی نظام،عدالتی نظام اور دفتری نظام سب کا سب،دورغلامی کی باقیات،انگریزی زبان میں ہے۔بعض اوقات تو اس غیرضروری حد تک انگریزی زبان کو استعمال کیا جاتا ہے کہ اگرانگریز بھی ہوتے تو شرماجاتے۔سوال یہ ہے کہ کیا ہم ابھی آزاد نہیں ہوئے؟دنیابھر جہاں بھی کوئی تعلیم حاصل کرنے جائے تو پہلے اسی وہاں کی قومی زبان سکھائی جاتی ہے اور پھر اسی زبان میں اسے تعلیم دی جاتی ہے۔جبکہ پاکستان کا معاملہ بالکل الٹ ہے۔


چین کے انقلابی راہنماماؤزے تنگ بہت اچھی انگریزی جانتے تھے لیکن عالمی انگریزراہنماؤں سے بھی جب ملتے تو درمیان میں اپنی زبان کا مترجم بٹھاتے،وہ سب سمجھتے تھے کہ انگریزکیاکہ رہا ہے لیکن مترجم کے ترجمے کے بعد جواب دیتے۔انگریزکوئی لطیفہ سناتاتو سمجھ چکنے کے باوجود مترجم کے ترجمہ کرنے پر ہی ہنستے تھے۔دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکیوں نے جب جاپان فتح کیاتو شاہ جاپان نے ان سے ایک ہی بات کہی کہ میری قوم سے میری زبان مت چھیننا۔نشے کی ماری ہوئی چینی قوم اور جنگ میں تباہ حال جاپانی قوم اپنی زبان کی مضبوط بنیادوں کے باعث آج دنیا میں صف اول میں شمار ہوتی ہیں جبکہ انگریز کی تیارکردہ غلامانہ مصنوعی سیکولرقیادت کے مقروض لہجوں نے آج پاکستان کوذلت کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل رکھاہے۔قوم پوری شدت سے چاہتی ہے کہ مقابلے کے امتحانات قومی زبان میں منعقدکیے جائیں،ابتدائی تعلیم مادری و علاقائی زبان میں اور ثانوی و اعلی تعلیم قومی زبان میں دی جائے۔مادری وعلاقائی اور قومی زبانوں کے ادباء و شعراومحققین کو سرکاری سرپرستی دی جائے انکی تخلیقات کو سرکاری سطح پر شائع کیاجائے اور انکے لیے بھی سرکاری خزانے کے دروازے کھولے جائیں،دیگرعالمی زبانوں کی کتب کو تیزی سے قومی و علاقائی زبانوں میں ترجمہ کیاجائے تاکہ ہماری قوم اندھیروں سے نکل کر وقت کے ساتھ ساتھ دنیامیں اپنا آپ منوا سکے۔لیکن وطن عزیزکامقتدر سیکولرطبقہ جو ذہنی غلامی کی بدترین


مثال ہے قومی ترقی کی راہ میں بدیسی و غلامانہ زبان کی بیساکھیوں کے باعث سدراہ ہے۔یہ طبقہ اپنے سیکولر خیالات کوانگریزی تہذیب کے مکروہ لبادے میں ”جدیدیت“کی ملمع کاری کو قوم میں نفوذکرناچاہتاہے لیکن اب اس طبقے کی الٹی گنتی شروع ہو چکی ہے،انشاء اللہ تعالی۔


کیایہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہے کہ اقوام عالم کوان کی مادری یاقومی زبان سے محروم کردیاجائے۔وطن عزیزمیں ایک وقت کے اندر کئی کئی زبانیں اپنا وجود رکھتی ہیں جو صریحاََنسل نوپرناروابوجھ ہیں۔ایک بچہ مادری زبان سیکھتاہے،اسی میں سوچتاہے،اسی میں خواب بھی دیکھتاہے،اسی مادری زبان میں دل اور جذبات کو بھی دخیل کرتاہے۔جب تھوڑاسابڑاہوتاہے تواسے مسجد بھیج دیاجاتاہے،یہاں اسے مذہبی زبان،عربی،سے واسطہ پڑتاہے۔اسے عربی کے حروف تہجی سکھائے جائے ہیں،ان کا تلفظ ازبر کرایاجاتاہے،عربی قوائد لسانیات سے جزوی واقفیت کرائی جاتی ہے جس کے باعث وہ قرآن مجید کی قرات و تلاوت اور اپنی مذہبی رسوم و عبادات کی بجاآوری کے قابل ہوجاتاہے۔اسی دوران اسے گلی محلے کی دکانوں پر ”چیز“لیتے ہوئے یا راستہ پوچھتے بتاتے ہوئے یا کسی انکل سے یامسجدکے کے مولانا صاحب سے یاکسی باجی یاآنٹی سے بات کرنی ہویاگھرمیں آئے مہمانوں سے کوئی سوال جواب یاتعارف کا مرحلہ درپیش ہوتواسے اردوکاسہارالینا پڑتاہے کہ یہ اردوزبان پورے جنوبی ایشیاء میں کم وبیش سوفیصدلوگ کسی نہ کسی درجے میں سمجھتے،بولتے اور لکھتے ہیں اور رابطہ کاسب سے بڑاذریعہ ہے۔پھرجب اسے کسی تعلیمی ادارے میں داخل کرایاجاتاہے تو یہ لسانی دہشت گردی وستم اپنی انتہاکو پہنچ جاتاہے جہاں سات سمندرپارکی زبان آکاس بیل کی مانندایک ناسوربن کر اس سے تاحیات چمٹ جاتی ہے۔اسے انگریزی زبان کا بے مقصد بوجھ اپنی تعلیمی کمرپر لادناہوتاہے،بدیسی قوم کی طرح اسی کے لہجے میں اپنامنہ ٹیڑھاکر کرکے اس کی زبان بولنی پڑتی ہے۔جوبچہ اس غلامانہ زبان کواپنااوڑھنابچھونابنالے،اسی میں اپنامافی الضمیربیان کرنے کامصنوعی رنگ ڈھنگ اختیارکرلے،اسی زبان کے نشیب و فراز میں اپنے لہجے کوڈھال لے تووہ طالب علم اپنے اساتذہ کاچہیتااوراس تعلیمی ادارے کے ماتھے کاجھومر بن جاتاہے،وہ اپنے تعلیمی درجے تعلیم کے اعلی مقامات اورانعامات کامستحق بھی گرداناجاتاہے اور اوراگلے تعلیمی مرحلوں میں بھی اسے ترجیحی تفوق حاصل رہتاہے۔


دیگرزبانوں میں اچھے مقامات کاحامل کسی زبان کاماہرتوشاید ہوجائے لیکن اس زبان میں پڑھائے جانے والاموادکس حد تک اس کے ذہن نشین ہواہے؟؟؟اس کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔اس کی وجہ ایک سادہ سا نفسیاتی جائزہ ہے کہ بچے کی بچگانہ اور محدود ذہنی صلاحیت کواگر صرف موادکے سمجھنے پر لگاجائے تب اس میں کامیابی کے کتنے فیصد امکانات ہوں گے اور جب اس کی ذہنی صلاحیت پر پہلے غیرزبان سمجھنے کا اضافی وغیرفطری بوجھ اور پھر مواد کے سمجھنے کاکام اس کے ذمہ لگایاجائے تب اس کی کارکردگی کتنے فیصد ہو پائے گی۔اس تجزیے کے نتائج اظہرمن الشمس ہیں جنہیں بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔کوئی غیرزبان سیکھنے میں آدھی صدی بھی صرف کردے تب بھی اس زبان کوبطورمادری زبان کے بولنے والوں کے برابرتودورکی بات ہے اس کے عشرعشیر جتنابھی کچھ مقام حاصل نہیں کرپائے گا۔انسان کی اصل زبان وہی ہے جواس کی مادری زبان ہے۔تاہم کوئی بھی قوم اپنی نسل کو غیرزبان سے نجات دلاکرہی اپنی مادری زبان میں تعلیم کے ذریعے علوم و معارف میں بہت اعلی مقام یقیناََحاصل کرسکتی ہے۔کیونکہ تخلیقیت کاتعلق ہمیشہ سے مادری زبان سے رہتاہے۔


مسلمانوں نے اس کرہ ارض پر کم و بیش ایک ہزارسال حکومت کی لیکن کسی قوم کواس کی مادری زبان یامقامی تہذیب سے محروم نہیں کیا۔سیکولرگوراسامراج تین سوسالوں تک انسانوں کی گردنوں پرمسلط رہااور ہر جگہ اس نے مقامی تہذیب کو تاراج کیااپنا تمدن زبردستی مسلط کیااور علاقائی و مادری زبان چھین کر قوموں کو گونگابہرابنانے کاعالمی انسانی مجرم بن گیا۔اسلام نے فرد کو کسی حدتک غلام رکھنے کی مشروط و محدود اجازت دی تھی لیکن اس سیکولراورلبرل استبدادنے پوری کی پوری قوموں کو اپنا غلام بنایا اور تعلیمی غلامی،تہذیبی غلامی،لسانی غلامی،دفاعی غلامی اور ذہنی غلامی سمیت نہ معلوم کتنی غلامیوں کے طوق ان کی گردنوں میں ڈالے اور اپنی زبان کی ہتھکڑیاں انہیں پہناکر مغربی جمہوری نظام کی بیڑیوں کے ذریعے ان اقوام کی رفتارکارکو انتہائی سست بنادیاتاکہ وہ کبھی بھی ہمارے سے آگے قدم نہ بڑھاکرہمیشہ ہمارے دست نگررہیں۔مادری زبان کایہ عالمی دن ہرقوم کویہ احساس دلاتاہے کہ عالمی گاؤں ”گلوبل ویلج“کے نام پر لسانی دہشت گردی کاخاتمہ کیاجائے اورآنے والی نسلوں کو انسانی حقوق کی ایسی سنگین خلاف ورزیوں سے کلیتاََ بچایاجائے۔اقوام متحدہ کی ذمہ داری ہے کہ عالمی طاغوت کاآلہ کاربننے کی بجائے کل عصری علوم کودنیابھرکی مادری زبانوں میں منتقل کرنے کا عالمی انسانی فریضہ سرانجام دے تاکہ کل انسانیت کسی ایک زبان کی اجارہ داری سے نکل کر اس کرہ ارض کوآفاقی و آسمانی تعلیمات کے مطابق امن و آشتی اور پیارومحبت کی آماج گاہ بناسکے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
58554

 سماجی انصاف اوراسکے تقاضے -از:ڈاکٹر ساجد خاکوانی, اسلام آباد،پاکستان

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 سماجی انصاف اوراسکے تقاضے

World Day of Social Justice

(20فروری،عالمی یوم سماجی انصاف کے موقع پر خصوصی تحریر)

از:ڈاکٹر ساجد خاکوانی(اسلام آباد،پاکستان

                اللہ تعالی نے کل انسانیت کو ایک آدم علیہ السلام کی نسل سے جنم دے کر پہلے دن سے ہی سماجی انصاف کی بنیاد رکھ دی تھی۔اسی بات کو قرآن مجید نے یوں بیان کیا کہیٰٓأَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوْا َربَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّ خَلَقَ مِنْہَا زَوْجَہَا وَ بَثَّ مِنْہُمَا رِجَالًا کَثِیْرًا وَّ نِسَآءً(۴:۱) ترجمہ ”لوگو اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیااور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا،اور ان دونوں سے بہت سے مر وعورت دنیامیں پھیلا دیے“(سورۃ نساء،آیت1)۔اور اسی سماجی انصاف کو محسن انسانیت ﷺ نے اپنے آخری خطبے میں یوں بیان کردیا کہ تم سب ایک آدم علیہ السلام کی اولاد ہواور آدم علیہ السلام مٹی سے بنے تھے پس کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فضیلت نہیں اور کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی فضیلت نہیں سوائے تقوی کے کیونکہ اللہ تعالی نے فرمایا یٰٓاَیُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّ اُنْثٰی وَ جَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَآءِلَ لِتَعَارَفُوْا اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰکُمْ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ(۹۴:۳۱)ترجمہ:”لوگوہم نے تم کوایک مرد اور ایک عورت سے پیداکیاپھرتمہاری قومیں اور برادریاں بنادیں تاکہ تم ایک دوسرے کوپہچانو،درحقیقت اللہ تعالی کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والاوہ ہے جوتمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیز گارہے،یقیناََاللہ تعالی سب کچھ جاننے والااورباخبرہے“۔مذاہب کی تقسیم میں بھی اللہ تعالی نے کسی طرح کی تفریق سے کام نہیں لیا اوراپنی آخری کتاب میں برملا اعلان کر دیا کہ اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا َو الَّذِیْنَ ہَادُوْا وَ النَّصٰرٰی وَ الصّٰبِءِیْنَ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِوَ عَمِلَ صَالِحًا فَلَہُمْ اَجْرُہُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَ لَا ہُمْ یَحْزَنُوْنَ (۲:۲۶) ترجمہ ”بے شک ایمان والے ہوں یایہودی ہوں یا عیسائی ہوں یا صابی،جو کوئی بھی اللہ تعالی پراور روز آخرت پر ایمان لائے گااور نیک عمل کرے گااس کااجر اس کے رب کے پاس محفوظ ہے اور اس کے لیے کچھ خوف اور غم نہیں“(سورۃ بقرہ آیت62)۔اللہ تعالی کی ایک صفت ازلی ”عدل“ہے اور وہ رب کل کائنات کے ساتھ عدل کرنے والا ہے چنانچہ انسانی معاشرے میں بھی مہلت عمل کے آغازیعنی پیدائش تک اس عادل مطلق نے عدل کو انتہائی حد تک انسان کے اندر دخیل کیاہے۔بظاہر ایک طرف سے محرومی ہے تو دوسری طرف سے اس کا بہترین ازالہ کر دیا،جیسے بینائی سے محروم کیا تو بے پناہ حافظہ عطا کر دیا،ذہنی صلاحیتیں کم تر ملیں تو جسمانی وجود کو قوت و طاقت سے بھر دیا،رنگت اور شکل و صورت میں مقابلۃ کمی بیشی کا شکار ہواتوخاندانی وجاہت سے اس کمی کو پورا کر دیاعلی ھذاالقیاس، غرض قدرت کے ہاں سے کل انسان ایک عدل اجتماعی کا مجسم پیکر بن کر اس دنیامیں بھیجے گئے۔

                انبیاء علیھم السلام نے جو تعلیمات انسانیت تک پہنچائیں ان میں سماجی عدل اجتماعی کی ایک لحاظ سے مرکزی حیثیت رہی۔محسن انسانیت ﷺ نے فرمایاکہ تم سے پہلی قومیں اس لیے تباہ ہوئیں کہ جب ان کے چھوٹے (طبقے کے لوگ)جرم کرے تو انہیں سزا دی جاتی اور جب ان کے بڑے (طبقے کے لوگ)جرائم کرتے تو انہیں چھوڑ دیاجاتا۔جہاں جہاں انسانوں کے اس مقدس ترین طبقے کو اقتدار میسر آیا توانہوں نے انسانوں کے درمیان عدل و انصاف قائم کیا اور ظلم و جور سے انسانی معاشروں کو پاک صاف کرتے چلے گئے۔خاص طورپر محسن انسانیت ﷺنے جس معاشرے کی بنیاد رکھی اورصحابہ کرام نے خلفائے راشدین کی قیادت میں اس معاشرے کا تو خاصہ ہی سماجی عدل و انصاف ہے۔نماز کے اندرپہلے آئیے پہلے پائیے کی بنیاد پر جگہ ملتی ہے،کسی خان صاحب،چوہدری صاحب،ملک صاحب یا پیر صاحب وغیرہ کے لیے کسی طرح کی مراعات نہیں ہیں بس جو پہلے آئے گا وہ مقرب ومعززجگہ پر مقام پائے گااور جودیر سے پہنچے گاوہ پچھلی صفوں میں کھڑاہوگا۔اسی طرح روزے میں بھی معاشرے کے سب طبقات اورتمام افراد کے لیے ایک ہی وقت پر روزہ شروع ہوتاہے اور ایک ہی وقت پر اختتام پزیر ہوتاہے۔عدل اجتماعی کی ایک اور تاریخ سازاور عہد آفریں مثال مناسک حج ہیں جن میں صدہا سالوں سے ایک بڑے کے گھرمیں سب چھوٹے کلیۃ معاشرتی عدل کے پیمانوں کے مطابق مراسم عبودیت اداکرتے ہیں۔سیاست کے میدان میں محض اہلیت کی بنیادپر سب طبقات کے سب افرادکے لیے کل مناصب کے دروازے کھلے ہیں،معیشیت کے میدان میں حرا م و حلال سب کے لیے برابرہیں،معاشرت کے میدان میں صرف تقوی ہی معیار عزت و توقیر ہے،وغیرہ۔

                زکوۃ و صدقات سے سماجی انصاف کاقیام تواظہر من الشمس ہے۔امیراورغریب کے درمیان فاصلے کم ہونے سے سماجی انصاف کی منزل بہت قریب آن لگتی ہے۔آدھی رات کو امیرالمومنین حضرت عمربن عبدالعزیزؒکے گھرکادروازہ بجاتوسونے کی اشرفیوں سے منہ تک بھراتھیلاپکڑے ہوئے شخص نے چارسومیل دورکاعلاقہ بتاتے ہوئے کہاکہ وہاں سے یہ مال زکوۃ ساتھ لایاہوں،قبول فرمائیں۔امیرالمومنین نے کہاکہ اواللہ کے نیک بندے کہیں بانٹ دیاہوتا،مجھے دینے کے لیے یہاں کیوں پہنچ گیاہے؟؟؟آنے والے نے جواب دیا کہ خداکی قسم سارے راستے آواز لگاتارہاہوں لوگو مال زکوۃ ہے،کوئی تو لے لولیکن اتنے طویل سفرمیں کوئی زکوۃ لینے والا نہ ملا۔زکوۃ و صدقات کی فراوانی کے نتیجے میں اللہ تعالی کے وعدوں کی یہ تکمیل ہے کہ آدھی رات کو بھی حکمران کے دروازے پر کوئی دربان و نگران نہ تھا،چارسومیل تک نہ صرف یہ کہ کوئی چورڈاکو نہ ملا بلکہ کوئی مستحق زکوۃ بھی نہ تھااور دیانتداری کایہ عالم کہ صاحب نصاب نے وہ مال واپس بھی لے جانا مناسب خیال نہ کیااور بیت المال میں جمع کرادیا۔

                خلافت راشدہ میں محسن انسانیتﷺکی تعلیمات اپنے بام عروج پر نظر آئیں۔خلفائے راشدین نے جس طرح کاسماجی عدل کانظام عالم انسانیت کے سامنے پیش کیاویسااس آسمان نے پہلے کبھی دیکھااور نہ ہی شاید تاقیامت دیکھ پائے۔حضرت ابوبکر صدیق ؓپہلے تو ماہانہ مشاہرلینے پر آمادہ نہ ہوئے،شورائیت کے نتیجے میں صرف اتناوظیفہ قبول کیاجو ایک مزدورکی آمدن کے برابرتھااور دم آخریں یہ وصیت کر گئے کہ جتناکچھ وظیفہ کل دورخلافت میں وصول کیا،ترکے میں سے پہلے اس کی ادائگی کی جائے اور پھر باقی ماندہ جایداد تقسیم کی جائے۔حضرت عمر فاروقؓ کا دورحکومت کل مورخین نے سنہرے حروف سے لکھاہے جب روم جیسی سلطنت کا سفیر یہ کہنے پر مجبورہواکہ تمہاراحکمران عدل و انصاف کرتاہے اور بے غم سوتاہے جبکہ ہمارے حکمران ظلم و ستم کرتے ہیں اور خوف زدہ رہتے ہیں۔حضرت عثمانؓ بن عفان نے دنیابھر کی تاریخ کی واحد مثال پیش کی کہ شہادت تو قبول کرلی لیکن سرکاری افواج تک کواپنی ذاتی حفاظت پر مامور نہ کیاحالانکہ آپ وقت کے حکمران تھے۔اور شیرخدا حضرت علی کرم اللہ وجہ جس تھان سے اپنے لیے کپڑا کٹواتے اسی تھان سے اپنے غلاموں کے لیے بھی کپڑے کٹواتے تھے اور لوگ آقااورغلام کو ایک ہی طرح کے کپڑوں میں دیکھ کر ششدر رہ جاتے۔

                صرف تاریخ اسلام نے ہی سماجی عدل و انصاف کو اپنے معاشروں میں جگہ دی کہ مسلمانوں کے عروج سے قبل اور مسلمانوں کے زوال کے بعد پھر ایسی مثالیں انسانوں کے ہاں پیش نہ کی جا سکیں۔کل انسانی تاریخ میں صرف مسلمانوں کے دور اقتدارمیں ہی ہندوستان میں خاندان غلاماں اور مصر میں مملوک خاندان کے لوگ برسراقتدار آئے اور اس زمین کے سینے پر پہلی بار غلاموں کو اقتدارکے تخت پر براجمان دیکھا۔ہندوستان میں خاندان غلاماں کے بادشاہان دراصل منڈی میں خریدے گئے غلام تھے اور اپنی قابلیت و اہلیت کی بنیادپر سیاست کے اعلی ترین منصب پر فائز ہوئے اور جب ایک بادشاہ اس دنیاسے رخت سفر باندھ چکتاتو تو اس کی اولاد کو بادشاہ بنانے کی بجائے عمائدین سلطنت کسی اہل تر فرد کو یہ منصب پیش کرتے،اور یوں یہ سلسلہ آگے کو بڑھ جاتا۔سلطان محمود غزنوی کو ایک شہری نے شکایت کی کہ رات گئے ایک فرد زبردستی اس کے گھر میں گھس کر اس کی بیوی سے زیادتی کرتاہے۔بادشاہ نے کہاکہ اب جیسے ہی وہ تمہارے گھر آئے مجھے بلالینا۔رات گئے بادشاہ اس شخص کے ساتھ اس کے گھرمیں دیوارپھلانگ کر داخل ہوا،کمرے میں داخل ہوکر پہلے چراغ گل کیا،پھراس بدمعاش کاسر قلم کردیااور گھروالے سے کہا فوراََمجھے پانی پلاؤاورپھراس بدمعاش کی شکل دیکھ کر شکر الحمدللہ کہا۔گھروالے نے پوچھاآپ گھرمیں دیوار پھلانگ کرکیوں داخل ہوئے؟؟بادشاہ نے کہا دروازے کے راستے کمرے تک پہنچنے میں  تاخیرہوجاتی اور ممکن دروازے سے کھٹکا سن کر وہ بدمعاش فرارہوجاتا۔گھروالے نے پوچھاچراغ کیوں بجھایا؟؟سلطان محمودغزنوی نے جواب دیاکہ مجھے شک تھا شاید یہ میرابیٹاہوگا جس کے دماغ میں شہزادگی کاخمار اسے اس بدمستی پر ابھارتاہو،روشنی میں شکل پہچان جانے سے انصاف کے درمیان شفقت بدری حائل ہو جاتی۔گھروالے نے پوچھا فوراََپانی کیوں مانگا؟؟بادشاہ نے جواب دیا کہ جب سے تم نے ظلم کی شکایت کی تھی میں نے انصاف کی فراہمی تک اپنے آپ پر کھانا پینا حرام کررکھاتھا۔اور آخر میں اس نے پوچھا کہ آپ نے شکرالحمدللہ کیوں پڑھاتو بادشاہ نے کہا کہ وہ بدمعاش میرا بیٹا نہ تھا اس پر میں نے اللہ تعالی کا شکر اداکیا۔مسلمانوں کاایک ہزار سالہ دور اقتداراس طرح کی بے شمار مثالوں سے بھراپڑاہے۔حتی کہ فی زمانہ جب کل دنیامیں یہودیوں،عیسائیوں،ہندؤں اور سیکولرافواج کے ہاتھوں مسلمان گاجر مولی کی طرح کٹ رہے ہیں تب بھی کسی مسلمان ملک میں ان اقلیتوں پر انتقاماََدست درازی نہیں کی گئی۔

اس سے بھی کہیں زیادہ شاندارمثام حضرت عمربن عبدالعزیزؒکی ہے۔مسلمان افواج نے بغیر کسی اطلاع کے آرمینیافتح کرلیا۔وہاں کے پادری نے ایک خط امیرالمومنین حضرت عمر بن عبدالعزیزؒکو لکھا کہ آپ کی افواج نے اسلام کی دعوت اور جزیہ پر آمادگی کی پیشکش کے بغیر ہمارے شہر پر یلغارکر کے توقبضہ کرلیاہے۔ہرکارہ جب دارالخلافہ میں واردہواتو آدھی دنیا کاحکمران اپنے گھرکی دیوارپر گارے کی لپائی کررہاتھا۔خط پڑھ کر سیڑھی پر کھڑے کھڑے کاغذکی پشت پر اسلامی فوج کے کماندارکے نام حکم نامہ لکھ دیاکہ فوج میں سے کسی عالم دین کو قاضی بناکراس معاملے کافیصلہ کرو۔خط ملتے ہی قاضی تعینات کردیاگیا،اس نے زوال آفتاب کے وقت فریقین کو طلب کرلیااورپادری کے حق میں فیصلہ سناکر سپہ سالاکو حکم دیاکہ غروب آفتاب سے قبل تمام سپاہیوں سے شہرخالی کروادیاجائے۔سب سے آخرمیں نکلنے والافرد وہ قاضی تھا جو سختی سے نگرانی کررہاتھاکہ شہرخالی کرنے والے کسی سپاہی کے ہاتھوں کسی مقامی پرزیادتی نہ ہو۔مورخین نے لکھاہے کہافواج اسلامی آرمینیاکی بستی خالی کررہی تھیں اور شہری ان کی چادریں پکڑ پکڑکر کھینچ رہے تھے کہ تم ہی یہاں رہواورحکومت کروکیونکہ ہمارے حکمران توہم پر ظلم کرتے ہیں۔اسپین پر مسلمانوں نے آٹھ سوسال حکومت کی۔یہاں پر مسیحی ملت ہمیشہ اکثریت میں رہی۔ایک موقع پر شاہ فرانس نے مسلمان اسپین پرحملہ کرناچاہاتواس نے یہاں کے ہم مذہب عیسائیوں پادریوں کو خط لکھاکہ میں باہر سے حملہ کروں گاتم اندر سے میراساتھ دینا۔تاریخ نگاروں نے لکھاہے کہ مسیحی پادریوں نے اپنے ایک اجتماع میں یہ فیصلہ کرکے شاہ فرانس کو خط میں جواب دیاکہ یہاں ہمیں مکمل معاشرتی،معاشی اورمذہبی آزادی میسر ہے اور ہمارے باہمی نزاعات کافیصلہ بھی حکومت کی طرف سے مقررکردہ مسیحی قاضی ہی کرتاہے،چنانچہ محض حکمرانوں کی تبدیلی کے لیے ہم  کسی کشت و خون میں تمہاراساتھ نہیں دے سکتے۔

                مسلمانوں کاایک ہزارسالہ دور اس کرہ ارض کے سینے پر سنہری الفاظ سے لکھاجانے والا دورہے جب ازشرق تاغرب سماجی عدل کے تمام تقاضے بدرجہ اتم پورے کیے جارہے تھے۔یہودیوں کی چارہزارسالہ تاریخ میں ان کے لیے جو بہترین وقت تھا اسلامی دورحکومت میں ہی انہیں میسرآیا۔حضرت داؤد اورحضرت سلیمان علیہھاالسلام کے بعد ان کی اپنی دوریاستوں اسرائیل اوریہودیہ میں جنگوں کاجوطویل سلسلہ چلا اور ان میں جوبے پناہ خون جو بہایاگیااس کی مثال بھی شاید مشکل ہو۔لیکن بنی اسرائیل نے اپنی تاریخ کابہترین وقت مشرق میں عباسیوں کا دورحکومت اورمغرب میں امویوں کادورحکومت تھا جب ان کی تجارت عروج پر تھی اوربڑے بڑے تعلیمی ادارے اور طبی تربیت کے ادارے بھی ان یہودیوں کے زیرنگرانی چل رہے تھے اور ان کو دربارشاہی تک براہ راست دسترس حاصل تھی۔ایک ہزارسالہ مسلمانوں کے دوراقتدارمیں بڑی قوم نے چھوٹی قوموں کو سماجی و تعلیمی غلام نہیں بنایاتھا،ایک ملک سے دوسرے ملک میں جانے کے لیے سیروں وزن کے کاغذ نہیں اٹھانے پڑتے تھے،حکمرانوں اورعوام کابودوباش ایک ہی تھا،دولت اوراقتدارچندہاتھوں یاکچھ مخصوس خاندانوں تک محدودنہیں تھے۔ملوکیت اور خاندانی بادشاہت کے باوجود آج کے سیکولرازم سے کہیں بہترحالات تھے،جھوٹی شہرت بازی (پروپیگنڈہ)اور قوموں اورحکومتوں کو بلیک میل کرنے کارواج نہیں تھا،بیک ڈورڈپلومیسی کے نام پر عالمی منڈی میں اقوام کی خریدوفروخت کے بازار کہیں نہیں لگتے تھے،تعلیم اورعلاج کے نام پر کاروبارنہیں چمکائے جاتے تھے،یہ سب سیکولر تہذیب،سرمایادارانہ نظم معیشیت اور مغربی نظام جمہوریت کے مکروہ نتائج ہیں جن کے باعث مسلمانوں کے قائم کردہ سماجی انصاف والے معاشروں کی جگہ آج پوری دنیاکے دریاؤں میں از شرق تاغرب پانی کی جگہ انسانی خون بہہ رہاہے۔

                ہندؤں نے چار ذاتوں کی آڑ میں سماجی انصاف کو ذبح کر دیا،بدھوں نے برما میں سینکڑوں نہیں ہزارہا مسلمان عورتوں،بچوں اور بوڑھوں کاقتل عام کیااورانکی بستیاں اور املاک نذر آتش کیں اور مسلمانوں کی عبادت گاہوں تک کو نیست و نابود کر کے توسماجی انصاف کا قلع قمع کر دیا،عیسائیوں کے کسی فرقے کاپوپ آج تک ایشیایاافریقہ ے نہیں آیاحالانکہ اس مذہب کے اکثریتی پیروکار ان دونوں براعظموں سے تعلق رکھتے ہیں اور صلیبی جنگوں وسقوط قرطبہ سے آج تک دامن صلیب انسانی خون سے رنگارنگ ہے۔یہودیوں نے تو انبیاء علیھم السلام جیسی ہستیوں کے بھی قتل سے دریغ نہ کیاتو باقی عدل و انصاف کے تقاضے وہ کہاں سے پورے کریں گے؟؟جب کہ سیکولرازم توان سب سے بازی لے گیاہے جس نے بدترین اخلاقی و علمی بددیانتی سے ان مذاہب کے عمدہ ترین تصورات کو چوری کر کے اپنے نام سے منسوب کر لیاہے اور کذب و نفاق اور ظلم و ستم کی وہ داستانیں رقم کی ہیں کہ الامان و والحفیظ۔انتہا تو یہ ہے کہ دیگر مذاہب بظاہر جو نظر آتے ہیں حقیقت میں بھی کم و بیش وہی ہی ہوتے ہیں جبکہ سیکولرازم انسانیت کا نعرہ لگا کر انسانوں کے خون سے ہولی کھیلتاہے،جمہوریت کا نعرہ لگا کر آمریت کو مسلط کرتاہے اور اسی طرح عدل و انصاف کا جھانسادے کر ظلم وبربریت اور کشت و خون کا بازار گرم کرتاہے۔آلودگی کے نام پر معاشی جنگ،خاندانی منصوبہ بندی کے نام پر معاشرتی جنگ،حقوق نسواں کے نام پر بدکاری کا فروغ،”چائلڈ لیبر“کے نام پرخاندانوں کی بربادی،تعلیم کے نام پر جہالت بھری سیکولر تہذیب کا پرچار اور گلوبلائزیشن کے نام پر کل انسانیت کوتہذیبی و ثقافتی غلامی کی زنجیروں میں ناک تک جکڑلینااس سیکولرازم کا ننگ انسانیت تاریخی کردار ہے۔پس اب توتاریخ انسانی اس بات پر گواہ ہے کہ انسان نقصان میں ہے سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے،نیک عمل کیے،حق بات کی نصیحت کی اور صبر کی تلقین کی۔سماجی انصاف صرف ایک ہی صورت میں اس عالم انسانیت کا مقد ربن سکتاہے جب قرآن و سنت کے اقتدارکاسورج مشرق سے طلوع ہوگااور وہ وقت اب قریب ہی آن لگاہے،انشاء اللہ تعالی۔

[email protected]

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
58556

مادری زبان کا عالمی دن – تحریر ۔ محمد اسلم

21فروری کو عالمی  مادری زبان کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے ۔ یونسکو کے سرپرستی میں مادری اور مقامی زبانوں کا دن منانے کا مقصد مادری زبان کی اہمیت ، ترویج و ترقی اور معدومیت کے ممکنہ خطروں سے آگاہی فراہم کرنا ہے ۔ یونسکو  رپورٹ کے مطابق ہر 15دن میں ایک زبان صفہ ہستی سے مٹ جاتی  ہے ۔ 1950 سے ڈائی ہزار زبانیں مٹ چکی ہیں ۔ ماہرین کے مطابق زبان معدوم ہونے کے پیچھے کئ وجوہات ہوسکتے ہیں ۔ اہم وجوہات  مندرجہ وجوہات ہیں ۔1۔ رسم الخط کا نہ ہونا۔ کسی بھی زبان کا  رسم الخط ہونا اس کے بقا کیلئے انتہائی ضروری  ہے ۔  زبان کے معدوم ہونے کے بڑی وجہ زبان رسم الخط نہ ہونا بھی ہے ۔  اس لئے کہ اس کو لکھنے والے لکھ نہیں سکتے اور بولنے والے بول نہیں سکتے۔ کتابی شکل میں محفوظ نہ ہونے کی وجہ سے زبان کی ترویج نہیں ہوتی اور آہستہ آہستہ زبانوں سے بھی مٹ جاتی ہے۔


2۔ ہجرت ۔ یہ عام بات ہے کہ کسی علاقے سے ہجرت کرنے پر اس کی زبان بھی بھول جاتی ہے۔چترالی لوگ  تعلیم اور روزگار کے سلسلے میں کئی مختلف ممالک اور شہروں میں  جاتے رہتے ہیں۔کسی اور جگہ جانے سے اس علاقے کی زبان کو سیکھنا اور اپنانا پڑتا ہے اور آہستہ آہستہ مادری زبان بھول جاتے ہیں۔


مونیکا فی الحال زبان کے بھولنے کے عمل پر تحقیق کر رہی ہیں۔ کہتی کہ بچے نئی چیزیں زیادہ آسانی سے سیکھتے ہیں پرانی باتیں بھولنا بھی ان میں عام ہے۔ 12 سال کی عمر تک کسی بھی بچے کی زبان میں بنیادی تبدیلیاں لائی جا سکتی ہیں۔ یعنی وہ اپنی مادری یا پیدائشی زبان کو مکمل طور پر بھول سکتا ہے۔لیکن بالغوں کا اپنی مادری زبان کو مکمل طور پر بھول جانا غیر معمولی بات ہے اور ایسا کم ہی دیکھا گيا ہے۔بالغ افراد اپنی مادری زبان انتہائی تکلیف کے بعد ہی بھول پاتے ہیں۔
3۔ مادری زبان تعلیمی نصاب میں شامل نہ ہونا۔زبان کی ترویج کیلئے ضروری ہے کہ اس کو پڑھائی اور لکھائ کیلئے عملی اقدامات کرے اور اہتمام کے ساتھ پڑھائی جائے۔  مقامی زبان نصاب میں شامل نہ ہو نے کی وجہ سے نئی نسلوں میں آہستہ آہستہ اس کی اہمیت ختم ہوجاتی اور زبان آہستہ آہستہ  معدومیت کی طرف بڑھتی رہتی ہے ۔


4۔زبان کے درست قاعدہ نہ ہونا۔کسی بھی زبان کی بقا کیلئے انتہائی ضروری ہے کہ الفاظ درست تلفظ اور املہ کے ساتھ نئی نسلوں کو منتقل ہو ۔ مادری/مقامی زبان  اس لئے  بھی مٹ جاتی ہیں کہ انکے قاعدے مقرر نہیں ہوتے۔ کوئ قاعدے نہ ہونے کی وجہ سے زبان میں  روز بروز بگاڑ پیدا ہوتی ہے۔
ماہرین لسانیات کے مطابق پاکستان میں بولی جانے والی 74 زبانوں میں سے 30 زبانیں شمالی پاکستان یعنی چترال، سوات، گلگت اور کشمیر میں بولی جاتی ہیں ۔چترال میں کھوار کے علاوہ 10 مادری زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں کلاشہ، یدغا، پالولہ، شیخانی، دامیلی، گواربتی، واخی، مداک لشٹی، گوجری اور پشتو شامل ہیں۔
 کہوار زبان چترال ،سوات،کلگت اور کئ علاقوں میں لاکھوں کی تعداد میں بولنے والے ہیں اس کے باجود بھی یہ معدومیت کے خطرے سے دوچار ہے کیونکہ ’یہ کہی پڑھائی نہیں جاتی اور حکومت کی سرپرستی بھی حاصل نہیں  ۔


چترال میں زبانوں کے تحفظ اور فروغ کے لیے قائم غیر سرکاری ادارے ’مدرٹنگ انیشیٹیو فار ایجوکیشن اینڈ ریسرچ‘(میئر) کے سربراہ فرید احمد رضا کا کہنا ہے کہ کلاشہ زبان کو  معدوم ہونے کا خطرہ ہے اس کی وجہ کلاش لوگوں کا مذہب تبدیل کرنا ہے۔ لوٹ کوہ میں بولی جانے والی ’ یدغا’ بھی قریب المرگ ہے ۔ایک ریسرچ کے مطابق چترال میں بولی جانے تقریبا سارے زبانوں کو یہی خطرہ لاحق ہے ۔ خاص کرکے یدعا،وخی،پالولہ،شیخانی شامل ہیں ۔
جدید دور میں دوسرے ترقی یافتہ زبانوں کے الفاظ کی آمد سے کہوار زبان بہت متاثر ہوئی ہے۔ خاص کرکے نئی نسل تلفظ جان بوجھ کر درست ادا نہیں کرتے ہیں انہیں مادری زبان کی اہمیت  اجاگر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اسلئے اہل قلم، گورنمنٹ، NGOs اور صاحب استطاعت حضرات  سے استدعا کہ کہوار زبان کی ترویج  اور مقرر کہوار گرائمر کی تشکیل کیلئے ایک کمیٹی تشکیل دیا جائے تاکہ پوری چترال  میں درست   املہ اور تلفظ کے ساتھ کہوار زبان بولنا ممکن ہوسکے۔


وماعلینا الاالبلاغ ۔

تحریر ۔محمد اسلم

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
58505

سائنس اور اسلام کی ترقی، فطرت کے مطابق ہے – خاطرات : امیرجان حقانی

سائنس اور اسلام کی ترقی، فطرت کے مطابق ہے – خاطرات : امیرجان حقانی

عموما یہ سوال بار بار کیا جاتا ہے کہ غیر مسلم سائنس دانوں کی ایجادات اور ان کی پروڈکشن روز بروز ترقی کیوں کررہی ہیں اور مسلمانوں کو زوال کیوں آرہا ہے.؟


ایک تو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ موجودہ دور میں جتنی بھی سائنسی اور مشینی ترقیاں ہورہی ہیں ان میں بہرحال مسلمانوں کی برابر کنٹری بیوشن ہوتی ہے. اس میں دو رائے نہیں کہ مغربی تعلیمی و صنعتی اداروں میں یہ سب کام ہورہے ہیں لیکن ان اداروں میں بالخصوص سائنسی ایجادات کی جملہ کامیابیاں کسی ایک فرد کی نہیں ہوتی بلکہ اداروں سے وابستہ سینکڑوں بعض دفعہ ہزاروں افراد کی سالوں کی شبانہ روز محنت کا نتیجہ ہوتی ہیں. ان سینکڑوں یا ہزاروں افراد میں بہر حال کسی نہ کسی سطح پر مسلمانوں کا کوئی اعلی دماغ موجود ہوتا ہے. اس لیے اس کامیابی میں عملاً مسلمان بھی شریک ہوتے ہیں ، تاہم مسلمان کا حصہ کم ہوتا ہے.مگر حصہ ضرور ہوتا ہے. یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کا اعلی دماغ مغربی تعلیمی و سماجی اداروں میں کام کررہا ہے.


اصل نکتہ یہ ہے کہ سائنسی ایجادات اور دیگر پروڈکشن مثلاً صنعت و حرفت وغیرہ ترقی کیوں کررہی ہیں تویہ اللہ کا اک فطری اصول ہے.اللہ کا ارشاد ملاحظہ کیجے:


فَاَمَّا الزَّبَدُ فَيَذۡهَبُ جُفَآءً‌‌ ۚ وَاَمَّا مَا يَنۡفَعُ النَّاسَ فَيَمۡكُثُ فِى الۡاَرۡضِ‌ پس رہا جھاگ تو وہ بےفائدہ ہونے کی وجہ سے زائل ہوجاتا ہے، اور رہی وہ چیزجو لوگوں کو فائدہ پہنچاتی ہے تو وہ باقی رہتی ہے(الرعد آیت نمبر 17) 


اس آیت کی روشنی میں سائنس اور دیگر جملہ صنعتی ترقیاں جو انسان کے نفع کے لیے ہیں برقرار بھی رہیں گی اور مزید ترقی بھی کریں گی. اللہ نے یہ نہیں دیکھنا کہ انسان کی بھلائی و فلاح کے لیے کوشش مسلمان نے کی ہے یا کافر نے. اللہ کے اصول فطری ہوتے ہیں.اس آیت کے ذریعے ایک اور بات کو بھی سمجھا جاسکتا ہے. مثلا فی زمانہ دنیا کے جملہ ادیان جو انسانیت کی فلاح و بہبود کی بجائے انسان کی تذلیل و تخریب  سے معنون ہیں. ان ادیان کے پیروکاروں نے اصل الہی تعلیمات کی بجائے خودساختہ تعلیمات شامل کی، جو بہر حال انسان کو انسان کے سامنے جھکا کر رکھ دیتی ہیں اور انسان کو اللہ کی بجائے کسی اور شئی کا معبود بناکر رکھ دیا ہے. اب سماوی اور اصلاحی تعلیمات کو ختم ہونا تھا ختم ہوئیں مگر اسلام اپنی اصل حالت میں موجود ہے اس لیے روز بروز بڑھتا اور ترقی کرتا جاتا ہے.جیسے سائنس اور صنعتی ترقیاں انسان کے فائدے اور بھلائی کے لیے ہیں اور اسلام بھی انسان کو دو جہانوں میں فائدہ پہنچانے کے لیے ہے. دونوں فطری و الہی اصولوں کے مطابق ترقی کرتے جاتے ہیں.

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
58565

اپر چترال میں مسلم لیگ (ن) کو فعال کرنے میں پرنس سلطان الملک کا کردار ۔ تحریر:جمشیداحمد

اپر چترال میں مسلم لیگ (ن) کو فعال کرنے میں پرنس سلطان الملک کا کردار ۔ تحریر:جمشیداحمد

کسی زمانے میں اپر چترال کو مسلم لیگ کا گھڑ سمجھا جاتا تھا بعد میں کسی وجوھات اور سیاسی کمزوری اور رہنماوں کی عدم دلچسپی کی وجہ سے پارٹی فعال نہیں رہا تھا۔ مسلم لیگ کو اپر چترال میں دوبارہ مستحکم مظبوط اور فعال کرنے میں بونی سے تعلق رکھنے والامعروف سماجی اور سیاسی شخصیت اور مسلم لیگی کارکن موجودہ جنرل سکر یٹری مسلم لیگ اپر چترال پرنس سلطان الملک کا کردار قابل تعریف ہے انہوں نےمسلم لگ کو دوبارہ منظم کرنے کےلیے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کیا اور کسی بھی موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا ۔ہر حال میں ہر ممکن کوشش کی اس سلسلے میں لوگوں سے رابطہ کرنے، کارکنان کو اکھٹے کرنے اور پارٹی کو فعال اور مستحکم کر نے کی کوشش کی۔

جن علاقوں میں مسلم لیگ کی پرانے کارکنان تھے ان کے پاس جاکے ان سےملاقات کی۔ ان سے پارٹی کی کامیابی کے لیے مشورہ حاصل کیے کارکنان اور نوجوانوں کو واٹسپ گروپ اور دوسرے زریعوں سے اکھٹے کر نے کی کوشش کی۔ وقتا فوقتا اپنے دولت خانے میں پارٹی اجلاس اور میٹنگز بلاکر پارٹی کے حق میں مشورے سنے کو موقع فراہم کیا اور ان پر عمل کرتے ہوۓ پارٹی کے کارکنان کو اکھٹا کیا ناراض کارکنان کو دوبارہ راضی کروایا ۔

اس کے ساتھ ساتھ اعلی سطح پر مخلصانہ تعلقات جاری رکھا جس کےباعث پارٹی اپر چترال میں دوبارہ مظبوط ہوکر سامنے آیی اور دوسرے پارٹیوں
کے لوگ بھی اپنے اپنے پارٹی چھوڑ کر پاکستان مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کر نے لگے۔ یہ سب کچھ جنرل سکرٹری پاکستان مسلم لیگ اپر چترال پرنس سلطان کی جدوجہد اور کاوشوں کی وجہ سے بھی ہے۔ اب موجودہ حالت میں مسلم لیگ دوبارہ ایک مظبوط اور منظم پارٹی بن کر اپر چترال میں سامنے آءی ہےلگتا ہے کہ حالٕیہ بلدیاتی انتخابات میں تحصیل مستوج نظامت کی سیٹ بھی پاکستان مسلم لیگ ن کے حصے میں آۓ گی۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
58562

داد بیداد ۔ سودی قرضوں سے نجا ت ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

داد بیداد ۔ سو دی قرضوں سے نجا ت ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

فروری کا میہنہ نئے بجٹ پر کا م شروع کر نے کا مہینہ ہے اس ما ہ نئے ما لی سال کے بجٹ کا خا کہ تیار ہو تا ہے اگلے تین مہینوں میں بجٹ کی نو ک پلک سنوار کر پوری بجٹ دستا ویز تیار کی جا تی ہے عموماً جو ن کے مہینے میں بجٹ پیش کیا جا تا ہے ہر سال بجٹ کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہو تا ہے کہ پرانے قر ضوں پر سود کی ادائیگی کے بعد بچ جا نے والے آمدن میں سال کس طرح گذارا جا ئے اس کا آسان حل یہ ہے کہ مزید قرضہ لیا جا ئے عموماً ایسا ہی ہو تا ہے اسلا م اباد میں اس وقت یہ بات زیر بحث ہے کہ قر ضوں کے جا ل سے نجا ت کس طرح ملے گی؟ کو نسا راستہ اختیار کیا جا ئے کہ مو جو دہ قرضہ ادا ہو جا ئے آئیندہ قرض لینے کی ضرورت نہ پڑے اس کا آسان اور بہترین حل یہ ہے کہ ملک کے 200کھرب پتی خا ندان آگے آکر ملک کے ذمے قرضہ ادا کریں صرف سیا لکوٹ شہر کے صنعتکار وں نے دو سے زیا دہ مو اقع پر اپنے سر ما یے سے حکومت کی مدد کا فریضہ انجا م دیا ہے

اگر ایک شہر کے صنعتکار حکومت کی مدد کر سکتے ہیں تو ملک کے 12صنعتی اور تجا رتی شہروں کے صنعتکار اور تا جر آگے آکر اپنا کر دار ادا کریں تو ملک کے ذمے واجب لادا قرضوں سے قوم کو نجا ت دلا ئی جا سکتی ہے اور یہ کا م مشکل نہیں اسلا م اباد کے جو حلقے ان خطوط پر سوچ رہے ہیں وہ ملک کے معتبر حلقے ہیں ان حلقوں میں اس بات پر تشویش ظا ہر کی جا رہی ہے کہ پا کستان 50کھرب روپے کا قرض دار ہوا ہے پا کستان کی کل آمدن کا 85فیصد قرضوں پر سود کی ادائیگی میں صرف ہوتا ہے بجٹ بنا نے والے بقا یا 15فیصد پر مزید قرض لیکر ملکی دفاع، تر قیا تی پرو گرام اور دیگر اخرا جا ت کے لئے وسائل فرا ہم کرتے ہیں اگر مزید قرضہ نہ لیا جا ئے تو ملک چلا نا ممکن نہیں ہو تا، ہر سال یہ مسئلہ پیش ہو تا ہے اور ہر سال اس کا یہی حل نکا لا جا تا ہے .

انگریزی میں اس کو ویشسیس سائیکل کہا جا تا ہے جس کا اردو تر جمہ ”شیطا نی چکر“ کیا گیا ہے اس شیطا نی چکر سے با ہر آنے کے دو سے زیا دہ راستے ہو سکتے ہیں تا ہم سیا سی مصلحتوں اور جمہوری تقا ضوں کو سامنے رکھ کر دو ممکنہ راستوں پر غور کرنا منا سب ہو گا پہلا راستہ یہ ہے کہ امپورٹ میں کمی کی جا ئے با ہر کے ملکوں سے عیش و عشرت کے لئے منگو ا ئی جا نے والی قیمتی سا ما ن اور گا ڑیوں کی در آمد پر مکمل پا بندی لگا ئی جا ئے اس اقدام سے زر مبا دلہ کی بچت ہو گی اور ملکی معیشت کو استحکا م ملے گا دوسرا قدم یہ ہو سکتا ہے کہ اندرون ملک محا صل جمع کر نے کے نظام میں اصلا حا ت کے ذریعے محا صل کو دگنا کیا جا ئے تا کہ ملکی دفاع، تر قی، خوشحا لی اور دیگر امور ملکی وسائل سے حل ہو جا ئیں یہ دونوں اقدامات بیک وقت اٹھا ئے جا سکتے ہیں.

اس وقت صورت حال یہ ہے کہ خواتین کے میک اپ سے لیکر دولت مند گھر انوں میں کتے اور بلی کی خوراک تک 228غیر ضروری اشیا ء بیرونی ملکوں سے در آمد کی جا تی ہیں بنگلہ دیش کی حکومت نے غیر ضروری درآمد ات پر پا بندی لگا ئی ہے ان کی ملکی آمدن کا صرف 20فیصد قر ضوں کی ادائیگی پر لگتا ہے با قی 80فیصد ملکی تر قی پر لگا یا جا تا ہے اخباری رپورٹوں کے مطا بق سال 2022-23کے بجٹ میں کئی انقلا بی اقدامات تجویز کئے جا رہے ہیں ان انقلا بی اقدامات کو کا میاب بنا نے کے لئے 50کھرب روپے کے قر ضوں کا مو جو دہ بو جھ گردن سے اتار نا ہو گا، صنعت و تجا رت سے وابستہ لو گوں کا خیال ہے کہ صنعتکار وں کا تعاون حا صل کر کے 200بڑے سر ما یہ داروں کو پا کستان کا قرضہ اتار نے پر ما ئل کرنے کے لئے سیا سی تنا ؤ کی کیفیت کو ختم کر کے کاروباری طبقے کا اعتما د بحا ل کرنا ہو گا اعتما د کی بحا لی کے بعد ملک کے صنعت کار اور تا جر دست تعاون بڑ ھا نے پر اما دہ ہو جا ئینگے تناؤ اور دباؤ کے ما حول میں ایسا کرنا ممکن نہیں ہو گا۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
58552

چترال کا کشمیر ۔ تحریر: تقدیرہ خان

چترال کا کشمیر ۔ تحریر: تقدیرہ خان

نولکھی کوٹھی کا مصنف ایک انگریز سول سرونٹ ولیم کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر نظر ڈالتے ہوئے آزادی سے پہلے کے پنجاب، یہاں کی ثقافت اور طرز زندگی پر جس طرح کمنٹری کرتا ہے لگتا نہیں کہ وہ لکھ رہا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ناطق کی جگہ میر سبحانی بیٹھا ہمیں ایک ایسی داستان سنا رہا ہے جس کا ہم سب حصہ ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ سودھا سنگھ کی جگہ اب نودولیتے اور کرپٹ سیاستدان آ گئے ہیں جن میں کوئی بھی سر ذوالفقار ممدوٹ اورافتخار ممدوٹ جیسا حب الوطن نہیں۔ چوہدری غلام حیدرجیسا غیرت مند اور اپنی رعایا کے لئے جان لینے اور دینے والا بھی کوئی نہیں مگر بیورو کریسی پہلے سے بھی بدتر ہے۔ اسسٹنٹ کمشنر ولیم کا دادا او رباپ بھی ہندوستان میں بیورکریٹ تھے جنہوں نے تب اوکاڑہ میں ایک فارم ہاؤس بنایا اور نولاکھ روپے کی لاگت سے ایک عالیشان محل نما کوٹھی بھی تعمیر کی جونولکھی کوٹھی کے نام سے مشہور تھی۔ ولیم اگرچہ انگریز بیورو کریٹ تھا جسے تکبر، رعونت، اکھڑپن اور دیسی لوگوں سے نفرت کرنے کی تربیت دی گئی تھی مگروہ اس ساری تربیت کے باوجود کھبی کھبی انسان دوست بن جاتا اور لوگوں کی ویلفیئر کے کام کرتا۔


ولیم کی عوام دوستی کی وجہ سے اُس کی تحصیل میں کئی ایسے کام ہوئے جو عوام کے لئے خوشحالی اور ولیم کے لئے پریشانی کا باعث بنے۔ ولیم کی کوششوں سے ایک بڑی نہرنکالی گئی اور ساری بنجر اور بیکار زمینوں پر کھالوں اور راج واؤں کے ذریعے پانی کا انتظام ہوا۔ ساری تحصیل میں ہر سو ہریالی کا سماں پیدا ہو گیا۔ غلہ وافر مقدار میں پیدا ہونے لگا اور غربت کا خاتمہ ہو گیا۔ ولیم کی کوششوں سے رابطہ سٹرکیں اگرچہ کچی تھیں مگر تعمیر ہوئیں۔ سکولوں کی حالت بہتر کی گئی اور والدین کو احساس دلایا کہ وہ بچوں کو سکولوں میں داخل کروائیں۔ ولیم نے نئے استاد بھرتی کیے اور تحصیل میں امن و امان قائم کرنے کی بھر پور کوشش کی۔ ولیم کی انسان دوستی اور ترقیاتی کاموں میں دلچسپی کی سزا اُسے بھگتا پؤڑی اور چیف سیکرٹری نے اُس کا تبادلہ لاہور سیکریٹریٹ میں کر دیا۔ عرصہ تک بیکا رہنے کے بعد اسے ڈپٹی کمشنر تو بنا دیا گیا مگرکوئی ایسا ضلع نہ دیا گیا جہاں وہ دلجمعی سے عوام کی خدمت کرتا۔ تاہم وہ جہاں بھی رہا کچھ نہ کچھ کر تارہا اور زیر عتاب ہی رہا۔ تقسیم ہند کے بعد وہ پاکستان میں ہی رہا اور پنجاب کے چیف سیکرٹری کو درخواست دی کہ اسے پاکستان میں رہنے اور ڈپٹی کمشنر کے عہدے پر کام کرنے کی اجازت دی جائے۔ پنجاب حکومت نے اسے ملک بدر تو نہ کیا مگر اسے نہ نوکری اور نہ ہی ملک میں رہنے کی سرکاری اجازت دی۔ بعد میں اُس کی ساری زمین فوجی افسروں کو الاٹ کر دی گئی اور نولکھی کوٹھی بھی کسی پیر گیلانی نے ہتھیالی۔


ولیم کی کہانی ختم نہیں ہوئی بلکہ جاری ہے۔ہماری بیورو کریسی کی تربیت بھی ویسی ہی ہے جیسی کبھی تھی۔ عوام سے نفرت اور تکبر ورعونت کا لبادہ، کرپشن، بددیانتی اورکام چوری۔ ہمارے ہاں کئی غلام اسحاق خان، روئیداد خان، سرتاج عزیز، شوکت عزیز، شوکت ترین، اعظم اور عظیم آئے مگر ولیم جیسا کوئی نہ آیا۔ تقسیم سے پہلے روہتک، کا نگڑا اور راجستان کے کئی اضلاع پسماندہ اور غربت زدہ تھے تو تقسیم کے بعد چترال جیسے اضلاع کی حالت اُن سے بھی بد تر تھی۔ ڈوگرہ دور میں رابرٹ تھروپ نامی انگریز صحافی کشمیر، بلتستان اور گلگت سے ہوتا چترال آیا اور یہاں کے عوام کی زبو حالی پر مفصل رپورٹ انگلینڈ اور ہندوستان کے اخباروں میں شائع کروائی۔ بدلے میں ڈوگرہ حکومت نے رابرٹ تھروپ کو قتل کروا دیا۔
کرنل ڈیورنڈ اور لیفٹینٹ ینگ ہاسبنڈ نے بھی چترالی عوام کا خیال رکھا اور انہیں جنڈولی کے عمراخان اور افغانستان کے بادشاہوں کی دستدرازی سے بڑی حدتک محفوظ کیا۔


قیام پاکستان کے بعد بھی چترال کے عوام کی پریشانیاں اپنی جگہ برقرار رہیں۔ چترالی عوام کے دکھ درد سمجھنے والے بیورو کریٹ ناپیدرہے اور جو بھی اس ملک میں آیا انگریز کا نمائندہ اور وائسرائے بن کرآیا۔ شکیل درانی جیسے لوگ جو بعد میں چیف سیکرٹیری اور وفاقی سیکرٹیری بھی رہے چترال میں چھٹیاں گزارنے آئے اور چلے گئے۔ چترال کے لوگوں سے بیورو کریسی کا وہی رشتہ رہا جو کبھی مشرقی پاکستان کے عوام سے تھا۔
ایک وقت ایسا آیاکہ چترال سکاؤٹ میں کرنل نئیر مراد بحیثیت کمانڈنٹ پوسٹ ہوئے اور پھر یہاں کے ہی ہو گئے۔اپنی حیثیت اور عہدے سے بڑھ کر چترالی عوام کی خدمت کی اور اہل چترال نے بھی اُن کی عزت و تکریم میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی۔


ڈپٹی کمشنر اسامہ وارئچ سے کون واقف نہیں۔ پنجاب کا یہ سپوت اہل چترال کے دلوں میں بس گیا اور تا قیامت بسا رئیگا۔ اسامہ وارئچ نے مختصر عرصہ میں عوامی فلاح و بہبود کے اتنے کام کیے جتنے کبھی پچھلے ادوار میں نہیں ہوئے تھے۔ چترال کے اس محسن کو قدرت نے زیادہ وقت نہ دیا اور وہ ہوائی حادثے میں جان بحق ہو گیا۔

chitraltimes dc upper muhammad ali 2


ایسا ہی ایک ڈپٹی کمشنر آزادکشمیر کے ضلع نیلم میں پوسٹ ہوا تھا جسے اہل نیلم و مظفرآباد کبھی بھول نہ سکیں گئے۔ نوکر شاہی اور سیاسی جنتا ایک تھیلی کے چٹے بٹے نہ ہوں تو کرپشن کی سیاست اور مافیا کی حکومت چل ہی نہیں سکتی۔ چترالیوں کے مصائب و مشکلات سے کون واقف نہیں۔ لواری ٹاپ کا نام سنتے ہی اہالیان چترال پر خوف طاری ہو جاتا تھا۔ سردیوں میں لواری ٹاپ پر کھڑی گاڑیوں میں رُکے مسافر اور مریض جان کی بازی ہا ر جاتے اورجو بچ جاتے برف کے طوفانوں میں چل کر بمشکل چترال یا دیر تک پہنچتے۔ افغانستان میں کرزئی کی حکومت آئی تو افغانستان کے علاقے سے چترالیوں کا گزرنا مشکل ہو گیا۔ تیس سالوں تک چترالی عوام افغانوں کی مہمان نوازی کرتے رہے مگر افغانوں نے صلح میں ان کے علاقوں سے گزرنے والے چترالیوں کو اغوا کرنا شرو ع کر دیا۔ وہ بھول گئے کہ چترال کی سرحد سے ملحق تین اضلاع اور واخان سے سری کول تک کا علاقہ ریاست چترال کا ہی حصہ ہے۔
جنرل پرویز مشرف کا شمار بھی اہل چترال کے محسنوں میں ہوتا ہے۔لواری ٹنل پر بھٹو سے لیکر نواز شریف تک بیان بازی تو ہوتی رہی مگر عمل کسی نے نہ کیا۔ بیگم بھٹو اورجی آلانہ خاندان یہاں سے الیکشن لڑتے اور کامیاب ہوتے رہے مگر لواری ٹاپ کی مشکلات پر کسی نے توجہ نہ دی۔ جنرل پرویز مشرف نے ہی یہ مشکل آسان کی اور لواری ٹنل کی تعمیر کے بعد اب چترال جانا انتہائی آسان اور محفوظ ہے۔ جنرل پرویز مشرف کا یہ عظیم کارنامہ سنہری حروف میں لکھنے کے قابل ہے۔ چترال، دیراور سوات کے راستے میں مالا کنڈ کا پہاڑ ایک بڑی رکاوٹ تھی۔ درگئی سے چکدرہ تک پہنچنے میں اتنا ہی وقت لگتا تھا جتنا پشاور سے در گئی تک۔مسلسل چڑھائی، گاڑیوں کی سست رفتاری اور بریک ڈاؤن کی وجہ سے سٹرک بند ہونے سے گھنٹوں کا انتظار ایک مشکل مرحلہ تھا۔ سوات آپریشن کے بعد پاک فوج نے اس مشکل کو بھی آسان کر دیا۔ما لاکنڈ ٹنل جنرل راحیل شریف اور جنرل باجوہ کا عظیم کارنامہ ہے۔ اب اسلام آباد سے چکدرہ تک صرف دو گھنٹے کی مسافت ہے۔ چارگھنٹوں میں سوات اور آٹھ سے کم گھنٹوں میں چترال پہنچ سکتے ہیں۔ پاک فوج کا یہ عظیم کارنامہ ہماری تاریخ کا حصہ ہے جس کی وجہ سے ان علاقوں میں سیاحت اور ترقی کی رائیں کھل گئی ہیں۔

chitraltimes dc upper muhammad ali 1


اہالیان چترال کے محسنوں میں ایک نام ڈپٹی کمشنر محمد علی خان کا بھی ہے جس نے رعونت، تکبر او رنفرت کے بجھائے اہل چترال سے محبت، اخوت اور بھائی چارے کا رشتہ قائم کیا۔ محمد علی خان صاحب نے عوام کی خدمت، ترقی اور خوشحالی کے منصوبوں پر کام کیا اور مقامی لوگوں سے ملکر سیاحت کی صنعت کو فروغ دیا۔ امن وامان کے سلسلے میں حائل رکاوٹیں دورکیں اور لوگوں کے دلوں میں احساس ذمہ داری کا بیج بو یا۔ڈپٹی کمشنر محمدعلی خان نے جلدہی عوام کے دلوں میں اپنا مقام پیدا کر لیا اور ڈپٹی کمشنر کے دفتر اور گھر کے دروازے ہر حاجت مند اور ضرورت مند کے لیے کھول دیے۔
ولیم کی طرح ڈپٹی کمشنر محمد علی خان کی عوام دوستی سے نہ صرف اعلیٰ بیوروکریسی بیزار تھی بلکہ مقامی سیاسی مافیا اور ٹاؤٹ بھی نالاں تھے۔ کمیشن خوروں اور رشوت خوروں کی کمائی میں کمی واقع ہوئی تو سب نے ملکر ڈپٹی کمشنر کے گرد گھیرا تنگ کر دیا۔ جنا ب عمران خان نے الیکشن سے پہلے اور اپنے پارٹی منشور میں جو وعدے کیے تھے جناب محمد علی خان نے اُن پر بھر پور توجہ دی تو پی ٹی آئی کے مقامی عہدے داروں کو یہ بات پسند نہ آئی۔ جو لوگ اپنی چٹ چلانے اور کام رکوانے کی سیاست کے عادی تھے انہیں کام کرنیوالا ڈپٹی کمشنر ہر گز قبول نہ تھا۔ ولیم کی طرح محمد علی خان کو بھی صوبائی سیکرٹریٹ میں تبدیل کر دیا گیا تاکہ کام کرنے والا کوئی افسر فیلڈ میں نہ رہے۔


ڈپٹی کمشنر محمد علی خان کی انتھک محنت اور عوامی کاموں میں دلچسپی کے نتیجے میں بہت پرانے اوررکے ہوئے کام مکمل ہوئے اور درجنوں نئے پروجیکٹ جن پر کام ہونا تھا ان کی پوسنگ کی وجہ سے ادھورے رہ گئے۔

ڈی سی اپر چترال


استو رو پل کی تعمیر کا کام 2010سے رکا ہو اتھا جس کی تکمیل ڈپٹی کمشنر محمد علی خان کے دور میں ہوئی۔ اگر ڈپٹی کمشنر اس کام میں دلچسپی نہ لیتے تو یہ پل تاحال زیر تعمیر ہی ہوتا۔ پیرا گلائیڈنگ اور فری سٹائل پولو کو عالمی سطح پر متعارف کروانے کا کام بھی اسی ڈپٹی کمشنر نے کیا جسے نیشنل سروس نہ کہنا زیادتی ہو گی۔ سیاحوں اور شائقین کے لیے سہولیات اور عارضی کیمپوں کا انٹرنیشنل سٹنڈر کے مطابق قیام بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔کھیلوں کے دوران امن و امان قائم رکھنا اور صحت کی سہولیات فراہم کرنا بھی کوئی آسان کام نہیں ہوتا۔ ایسے تہواروں پر مقامی لوگوں کے علاوہ ملکی اور غیر ملکی کھلاڑیوں اور شائقین کے لیے جو سہولیات فراہم کی گئیں اُسے ہر سطح پر سراہا گیا مگر حاسدین کو یہ سب کچھ ہضم نہ ہوا۔
جناب محمد علی خان کے دورمیں ہی ریسکیو 1122کا قیام عمل میں آیا۔ اسی طرح 4.5میگاواٹ ریشون ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کا کام بھی ڈپٹی کمشنر کی ذاتی نگرانی میں پائیہ تکمیل کو پہنچا۔ ڈپٹی کمشنر محمدعلی جیسا افسر تمغہ حسن کارکردگی کا حقدار تھا مگر سیاسی ٹھیکیداروں اور کام نہ کرنے کی عاد ی بیورو کریسی کو ایسے لوگ ایک نظر نہیں بہاتے۔ بدقسمتی یہ کہ صوبے اور مرکز میں بیٹھے لوگ بھی سفارشیوں کے نرغے میں ہیں۔ اہلیان چترال کی بد قسمتی کہ اب موجودہ حکومت کے دور میں کوئی ایساشخص نہیں آئیگا جسے اس خطہ زمین کے لوگوں سے ہمدرد ی ہو۔ محمد علی خان چترال کی تاریخ میں تو نام لکھوا گئے مگر کئی سالوں تک شاید کوئی ایسا شخص نہ آئے جو عوام کی خدمت کے صلے میں اپنی نوکری خراب کرنے کی ہمت کرسکے۔

ڈپٹی کمشنر
Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
58518

دشمن بھی غم ناک ہوگئے – قادر خان یوسف زئی کے قلم سے

دشمن بھی غم ناک ہوگئے – قادر خان یوسف زئی کے قلم سے

ملک کے ارباب ِ درد اور اہل ہوش طبقہ سے بار ہا اپیل کرتے رہتے ہیں کہ وہ وقت کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے ملک میں عدم برداشت کے سوال پر سنجیدگی سے غور اور احساس کریں کہ اس باب میں ان پر کس قدر عظیم ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ سوچئے کہ ہم میں سے کس کی خواہش نہیں کہ دین اسلام کے سلامتی اور امن کے پیغام کو دنیا بھر میں پھیلائیں اور اس کے مطابق زندگی بسر کریں۔ یہ صرف اسی صورت ممکن ہوسکتا ہے کہ جب ہم دین اسلام کی تعلیمات کو سمجھیں، سمجھائیں اور اس پر عمل کرتے ہوئے دعوت فکر بھی دیں۔ ملکی آئین میں انسانی حقوق کی شقیں تو موجود ہیں، انسانیت کا احترام کا دعویٰ بھی کرتے تھکتے نہیں، مگر فکر و عمل سے عاری ہوکر وہ اقدام کرجاتے ہیں جس کی اجازت نہ اسلام دیتا ہے اور نہ ہی دنیا کا کوئی مذہب یا انسانی اقدار۔ہم میں سے بیشتر نہ تو ملکی قانون کے تحت چلتے ہیں اور نہ ہی اسلام کے ضابطہ حیات کو خود پر لاگو کرتے ہیں۔ کسی ایک درست سمت پر چلنے سے نہ جانے کیوں گریزاں ہیں۔ یہ عدم برداشت کی خو، نہ جانے کب جائے گی۔

جب تک درست سمت کا تعین نہیں کریں گے تو نہ ہی  کوئی معاشرتی زندگی میں تبدیلی آئے گی اور نہ ہی ہماری معاشی حالت موجودہ سطح کے مقابلے میں نسبتاََ بہتر ہوسکتی ہے۔ بلاشبہ روزے، نمازکی ادائیگی کے لئے آزادی حاصل ہے لیکن عملی طور پر ہجومی تشدد سے کسی شخص کو ماورائے عدالت قتل کردینے کا حق کس نے کس کو دیا۔ ایک ریاست کے ہوتے ہوئے قانون کو اپنے ہاتھوں میں لے لینے کا مطلب ریاست کی رٹ کو تسلیم نہ کرنا ہے۔ سڑکوں پر اپنی عدالت لگا کر خود ساختہ فیصلے کرنا دراصل انصاف فراہم کرنے والی عدالتوں سے بغاوت کا کھلا اعلان ہے۔ ریاست کے اندر ہر گلی کوچوں میں ریاست بنانے کی روش سے انسانیت سے ہی دور ہوتے جارہے ہیں۔ اسلامی زندگی میں صرف روٹی مل جانا، نماز اور روزہ رکھ لینے کے علاوہ بھی آداب معاشرت او ر حقوق العباد شامل ہیں۔ روٹی تو امریکہ اور غیر مسلم آبادی والے ممالک میں ہم سے بہتر اور با آسانی مل جاتی ہوگی لیکن اسلامی زندگی کے ہر شعبہ میں اللہ تعالی اور سنت رسول ﷺ کی اطاعت ہم پر فرض ہے کیونکہ ہم خود کو اسلام کے نام لیوا کہلواتے ہیں۔

اس مقام پر اُن تمام لوگوں سے جو ہجومی تشدد کا حصہ بن جاتے ہیں، گذارش کروں گا کہ وہ کچھ وقت کے لئے جھوٹی عزت نفس اور خود ساختہ قانون کا ٹھیکے دار بننے سے گریز کریں، جذبات منافرت اور عناد کو الگ کرکے خالصتاََ  خوف خدا سوچئے کہ ہم اس وقت کس نازک دور اہے پر کھڑے ہیں۔ (قرون اوّل کے بعد) ہماری تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ ایک مملکت اسلام اور مذہبی آزادی کے نام پر حاصل کی گئی۔ شائد کچھ لوگ اس حقیقت کو تسلیم نہ کریں لیکن آنے والا مؤرخ شہادت دے گا کہ اس ناکامی کی بڑی وجہ آپ حضرات کے باہمی اختلافات تھے۔ اگر آپ اُس وقت، اپنے اپنے لسانی، صوبائی عصبیت، نسل پرستی اور فرقہ وارانہ رجحانات سے بلند ہوکر اسوہ حسنہ ﷺ پر چلتے تو اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ ملک وقوم کو کس قدر کامیابی نصیب ہوتی۔ عدم برداشت اور ہجومی تشدد کی ضد اوروتیرے نے ہم سے ہماری شناخت چھین لی ہے۔ قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے سے پورے معاشرے کو لاقانونیت کے گہرے اندھے کنوئیں میں دھکیل دیا ہے۔نہیں معلوم کس کس کا لہو پانی ہوا ہوگاقیامت ہے سرشک آلودہ ہونا تیری مژگاں کاہمیں اس کا علم ہے کہ آپ میں ایسے لوگ بھی ہیں جو یہ کہتے پھرتے ہیں کہ اختلاف انسان کی فطرت ہے اس لئے اختلافات مٹ ہی نہیں سکتے۔

میں ان لوگوں سے کچھ نہیں کہنا چاہتا، لیکن یہ سوال کرنے کا حق ضرور رکھتا ہوں کہ ایک ریاست میں حکومت ہوتے ہوئے سڑکوں پر خود ساختہ عدالتیں لگا کر موت کی سزائیں دینے کا اختیارکس نے کس کو دیا اور اس کے نتائج کی ذمے داری کس کی گردن پر ہوگی۔  ارباب ِ درد اور اہل ہوش طبقہ سے پوری درد مندی سے بار بار یہی گذارش کروں گا کہ انصاف کو انصاف کے دروازے سے ہی حاصل کرنے کا شعور اجاگر کرنے میں مدد دیں۔ وقت کی نزاکت کا احساس کرائیں۔عدم برداشت کے اس کلچر کو ختم کرنے کے لئے اپنے اختلافات کو دفن کریں۔ہمارے اختلافات مٹ سکتے ہیں، یہی حق و باطل کے پرکھنے کا معیار بھی ہے کیونکہ اسلام ہی ہمیں سلامتی و امن کا وہ پیغام و حکم دیتا ہے جو دنیا میں کسی مذہب اور نظام میں نہیں۔ اسلامی قوانین اور اصولوں میں تغیر و تبدیلی کا اختیار کسی کو حاصل نہیں، نہ کسی جمہوریت کو نہ آمریت کو۔کہتا ہے کون نالہ  گل کو بے اثرپردے میں گل کے لاکھ جگرچاک ہوگئےعدم برداشت کی وجہ سے ہم اپنے ملک و قوم اور دین کے برخلاف جا کر مقبوضہ کشمیر اور بھارت سمیت پوری دنیا میں مذہبی اقلیتوں پر ہونے والے مظالم پر آواز اٹھانے کا حق کھو رہے ہیں۔

ہمیں اس امر پر شرمندگی کا احساس ہوتا ہے کہ جس عمل پر شدت کے ساتھ احتجاج  اور مذمت کرتے ہماری زبان نہیں تھکتی، وہی روش ہم میں بھی موجود ہے۔ ہم مذہبی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں پر جورو ستم پر سراپا احتجاج ہوجاتے ہیں، جب خود ہمارے علاقوں، گلی کوچوں میں ہجومی تشدد اور عدم برداشت کے واقعات ہوتے ہیں تو یقین کیجئے کہ اس حق کو کھو بیٹھتے ہیں کہ کسی دوسرے کو مورد ِ الزام ٹھہرائیں۔ ہم نے تو اپنے اکابرین سے یہی سیکھااور اسوہ حسنہ ﷺ  کو پڑھا ہے کہ مسلم مرد مومن کی قابل رشک زندگی کو دیکھ کر غیر مسلم اقوام عالم اسلام کے قریب آجائیں تو یہ سعادت کس قدر عظیم اور اس کا اجر کیسا جلیل ہوگا۔ لیکن یہ سعادت اس لئے ہمارے حصے میں نہیں آرہی کیونکہ عدم برداشت کی روش رکھنے والوں کی قسمت میں یہ طالع مندی اور فیروز بختی (شاید) جو ہمارے مختص تھی اس کی فقید المثال بختاوری سے ہم نے خود اپنے آپ کو محروم کرلیا ہے۔اب بھی وقت ہے کہ اسلام کی اس آئیڈیالوجی کو پہلے خود پر لاگو کریں، پھر دنیا کے سامنے پیش کریں کہ اسلام کس طرح روح ِ انسانیت کو ہلاکت سے بچانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ عدم برداشت کے ہجومی تشدد کے رویوں کا دفاع نہیں کیا جاسکتا۔  شب ہجراں کے جاگنے والوکیا کرو گے اگر سحر نہ ہوئی

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
58511

انتخابی اشعار کی تشریح – شمس الرحمن تاجک

ستم ظریفی یہ نہیں کہ ہمیں ہر ستم قبول ہے ستم یہ ہے کہ صدیوں سے ہم ستم گروں کو مسیحا سمجھتے آئے ہیں۔ان کا ستم مستقل ہوتا ہے۔ بوقت ضرورت وہ اپنی طرف سے روا رکھے گئے ستم کے لئے موجود تریاق کا عوام کو صرف دیدار کروا دیتے ہیں۔ عوام تریاق کے دیدار کی مستی میں پھر سے اس خوب صورت جال کو اپنے پہ ڈھائے جانے والے ہر ستم کا واحد علاج سمجھ کر ووٹ دینے پر رضامند ہوتی ہے اور یوں ہر ستم کے ساتھ کچھ مستقل نعرے وجود میں آتے ہیں۔ ان نعروں اور تشہری مہم میں استعمال کئے جانے والے کچھ اشعار کی تشریح کا ایک اور زاویہ پیش خدمت ہے۔ یہ سلسلہ کافی عرصہ جاری رکھنے کا ارادہ ہے آپ لوگوں کی دعاوؤں سے۔ لیجئے شروع کرتے ہیں۔


اے عرش والے میری توقیر سلامت رکھنافرش کے سارے خداؤں سے الجھ بیٹھا ہوں میںاس شعر کا پس منظر کچھ بھی رہاہوں،ہمیں انتخابی امیدوار کے پس منظر و پیش منظر کو سامنے رکھتے ہوئے اس کی تشریح کرنی چاہئے اور وہ تجزیہ و تشریح انتہائی تکلیف دہ بھی ہوسکتی ہے۔ ہماری تشریح کے حساب سے اس شعر کے ذریعے الیکشن لڑنے والا شخص اپنی فطرت کے بارے میں عام عوام کو اشاریوں کنایوں میں بتا رہا ہے کہ وہ کسی سے بھی بنا کر رکھنے والا شخص نہیں۔ فضول میں لڑنا، اپنے لئے دشمن اور مسائل پیدا کرنا ان کی فطرت کا حصہ ہے۔ مذکورہ شخص بتا رہا ہے کہ اسے دنیا میں اپنے سوا کوئی دوسرا شخص نیک، دیانت دار اور انسان نہیں لگتا۔ یہ انسانوں کو دو حصوں میں تقسیم کرچکا ہے۔ پہلے خانے میں معاشرے کے وہ افراد ہیں جو کسی صورت مذکورہ شخص کو گھاس ڈالنے پر تیار نہیں۔ وہ ان کی نظر میں فرش کے خدا ہیں۔ دوسرے خانے میں عام عوام ہیں جنہیں یہ کیڑے مکوڑے سمجھتا ہے۔ چونکہ یہ شخص خود بیچ میں کھڑاہے اس لئے اسے اپنی منزل کا ہی نہیں پتہ۔ دوسروں کو منزل تک کیسے پہنچائے گا۔ قرائن بتاتے ہیں کہ خدا اس کی دسترس سے باہر ہے ورنہ یہ باکمال شخص اس سے بھی الجھنے میں دیر نہیں کرتا۔


اے میرے دیس کے لوگو شکایت کیوں نہیں کرتےتم اتنے ظلم سہہ کر بھی بغاوت کیوں نہیں کرتےیہ شعر عموما وہ امیدوار استعمال کرتے ہیں جو انتخابات کے موسم کے علاوہ ہر موسم میں بے بسی کی تصویر بنے پھرتے ہیں۔یہاں تک کہ ان کے گھر والوں کو بھی پتہ ہوتا ہے کہ موصوف کو بھوکوں مار بھی دو تو بغاوت دور کی بات اس کے اشارے اور اثرات تک کہیں نظر نہیں آئیں گے۔ اگر کوئی امیدوار یہ شعر اپنا اصولی موقف بتائے تو سمجھ لینا کہ نہ تو ان کے پاس کوئی اصول ہے اور نہ ہی موقف۔ورنہ ایک ویلیج کونسل کا الیکشن لڑنے والا شخص جس کی اس کے گھر والے تک سننے کو تیار نہیں وہ کم از کم دیس میں کسی انقلاب کا موجب تو نہیں بن سکتا۔عوام سے بھی گزارش ہے کہ اگر ان کا ساتھ دینا بھی چاہیں تو انقلاب جتنا اندرخانہ ہو وہ اس بے چارے کے حق میں بہتر ہے، وہ اصل میں اپنے ذاتی حالت بتا رہا ہوتا ہے ان حالات کو قومی یا علاقائی سمجھنا غیر ضروری ہے۔ ن کی بے بسی کا افاقہ ووٹ کے بجائے صرف ہمدردی سے بھی ہوسکتا ہے۔


امن خوشحالی اور استحکام کی جدوجہد کا علم بردارمیرا ماضی، پھر میری گواہیان جملوں کی تشریح علم و دانش کے بجائے معروضی حالت کو مدنظر رکھ کر کریں گے تو آسانی ہوگی۔ جیسے ملک کو بنے 75 سال ہونے والے ہیں، امن، خوشحالی اور استحکام کہیں بھی موجود نہیں۔ اب جو چیز وجود ہی نہیں رکھتی اس کے لئے جدوجہد کرنے والے کو آپ ووٹ کیسے دے سکتے ہیں۔ امیدوار سے ”علم بردار“ اور ”علم و دانش“کے معنی اور تلفظ پوچھ کر دیکھیں تو سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں ہوگی کہ ہم نے کیسے کیسے نمونے اسمبلیوں تک پہنچائے ہیں، اور خود ان حالوں کو پہنچے ہیں۔ جدوجہد کے علم بردار کی اصلیت جاننے کے لئے دوسری والی لائن پر غور کرناکافی ہے۔ جو  ہمارے لیڈرز کی شفاف ماضی، بہترین حال اور صرف انہی کے نسل کے شاندار مستقبل کی گواہی دے رہا ہوتا ہے۔


میں تمام بندشیں کھولنے آیا ہوں، انتخابی نشان تالاجب انتخابی نعروں کے لئے گوگل بابا سے پوچھیں تو سب سے حیرت انگیز یہ ”بندشیں کھولنے اور انتخابی نشان تالا“والا جملہ برآمد ہوتاہے۔ایک ہی جملے میں سب کچھ کھول دینے کا دعوی۔ ساتھ میں عوام جیسے جن کو قید کرنے کے لئے تالا بھی موجود ہے۔لیڈر کو ایسا ہی ہونا چاہئے ایک ہاتھ میں پانی ایک ہاتھ میں آگ۔غالب نے انگریزوں کی ماچس والی ڈبیا کو دیکھ کر کیا خوب کہا تھا کہ جو قوم آگ جیب میں رکھ کر چل رہا ہو اس سے ڈرنا چاہئے۔ ہمیں بھی ایک ساتھ دو دو بیان دینے والے اپنے نمائندوں سے ڈرنے کی ضرورت ہے۔ورنہ ہمارے لیڈرز بندشیں کھولنے کے بعد عوام کی زبانوں کو تالا لگا دیں تو ہم کسی کا کیا بگاڑ سکتے ہیں۔(جاری ہے)

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
58509

کیا تم رسول اللہ سے بڑے مسلمان ہو؟ – خاطرات: امیرجان حقانی

کیا تم رسول اللہ سے بڑے مسلمان ہو؟ – خاطرات: امیرجان حقانی

رسول اللہ ہی دین اسلام کا پیغمبر، شارح اور بانی ہیں. اللہ نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مصطفیٰ بنایا ہے.آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد نبوی  میں تشریف فرما ہیں. حضرات صحابہ کرام آپ کی خدمت میں حاضر ہیں. اتنے میں ایک اعرابی (دیہاتی) مسجد میں داخل ہوتے ہیں. آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے جانثاروں کو دیکھ لیتے ہیں. حضرات صحابہ کرام رسول مصطفی و مخلَص کے سامنے زانوئے تملذ تہہ کیے ہوئے ہیں. اعرابی اچھی طرح جانتا بھی ہے کہ یہ صحابہ اسلام اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جان فدا کرنا اجر عظیم سمجھتے ہیں اور کر گزرجاتے ہیں.پھر یوں ہوتا ہے کہ اعرابی مسجد کے ایک کونے میں کھڑے ہوکر پیشاب کرنے لگ جاتے ہیں. حضرات صحابہ کیساتھ رسول اللہ بھی یہ سب دیکھ رہے ہوتے ہیں. سیدنا رسول اللہ خاموش ہیں. صحابہ نے سوچا، شاید رسول اللہ اس لیے خاموش ہیں کہ ہم اس اعرابی کو مسجد میں پیشاب کرنے سے منع کر دیں. یہی سوچ کر اصحاب مصطفیٰ، اعرابی کی طرف متوجہ ہوتےہیں.اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم درمیان میں حائل ہوجاتے ہیں اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ کو روک دیتے ہیں اور اعرابی کو اطمینان کیساتھ پیشاب پورا کرنے دیتے ہیں.پھر رسول اللہ انتہائی محبت سے انہیں اپنے پاس بلاتے ہیں.

احترام سے بٹھاتے ہیں اور نرمی سے سمجھاتے ہیں. یہ واقعہ  مختلف کتب حدیث میں موجود ہے. اور یہ صحیح حدیث ہے. کوئی ضعیف روایت بھی نہیں. امام بخاری نے یوں نقل کیا ہے.”ایک اعرابی کھڑا ہو کر مسجد میں پیشاب کرنے لگا۔ تو لوگ اس طرف متوجہ ہونےلگے۔  ( یہ دیکھ کر )  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے فرمایا کہ اسے چھوڑ دو اور اس کے پیشاب پر پانی کا بھرا ہوا ڈول یا کچھ کم بھرا ہوا ڈول بہا دو۔ کیونکہ تم نرمی کے لیے بھیجے گئے ہو، سختی کے لیے نہیں۔(بخاری شریف حدیث نمبر 220)امام مسلم نے اپنی صحیح مسلم میں یوں بیان کیا ہے:”حضرت انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بیان کرتے ہیں : ہم مسجد میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ اس دوران میں ایک اعرابی آیا اور اس نے کھڑے ہو کر مسجد میں پیشاب کرنا شروع کر دیا تو رسول اللہ ﷺ کے ساتھیوں نے کہا :کیا کر رہے ہو ؟کیاکر رہے ہو ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اسے ( درمیان میں ) مت روکو ، اسے چھوڑ دو ۔ ‘‘صحابہ کرام نے اسے چھوڑ دیا حتی کہ اس نے پیشاب کر لیا ، پھر رسول اللہ ﷺ نے اسے بلایااور فرمایا :’’ یہ مساجد اس طرح پیشاب یا کسی اور گندگی کے لیے نہیں ہیں ، یہ تو بس اللہ تعالیٰ کے ذکر نماز اور تلاوت قرآن کے لیے ہیں ۔

‘‘ یا جو ( بھی ) الفاظ رسول اللہ ﷺ نے فرمائے ۔ ( انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ) کہا : پھر آپ نے لوگوں میں سے ایک کو حکم دیا ، وہ پانی کا ڈول لایا اور اسے اس پر بہا دیا ” ( مسلم شریف حدیث نمبر:661)میاں چنوں میں مشتاق احمد نامی شخص کو توہین مسجد یا توہین قرآن کے الزام میں مار مار کر ختم کر دیا گیا. سینکڑوں کے ہجوم نے اس پاگل کو باندھ کر پتھروں سے سنگسار کردیا. جب سے یہ سنا ہے عجیب سی کیفیت میں مبتلا ہوں.کئی دوستوں نے اس پر لکھنے کا کہا لیکن لکھتا تو کیا لکھتا. یہ کیسے مسلمان ہیں جو اپنے نبی کی تعلیمات سے مکمل عاری ہیں.کاش کہ یہ سننے کو ہی نہیں ملتا.پھر روایت یہ بھی ہے کہ مشتاق احمد نفسیاتی مریض تھا، پاگلوں کی طرح گھوما کرتا تھا اور اس کا علاج بھی ہورہا تھا. کاش ان نام نہاد غیرت مند مسلمانوں کو یہ معلوم ہوتا کہ مجنون پر احکام لاگو نہیں ہوتے، جب تک اس سے جنون ختم نہ ہو وہ احکامات الہی اور فرامین رسول کا مخاطَب ہی نہیں. سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا:


”تین قسم کے لوگ مرفوع القلم ہیں: نائم (سوئے ہوئے شخص، بچہ اور مجنون یہاں تک کہ اسے جنون سے افاقہ نہ ہوجائے۔“(سنن ابی داؤد، حدیث نمبر :4401). کاش کہ حدیث کا یہ ٹکڑا ہی ان نام نہاد مسلمانوں کے سامنے ہوتا.. اے کاش. اگر وہ شخص مجنون یا پاگل نہ بھی ہوتا، اور واقعتا اس نے توہینِ قرآن یا مسجد کیا بھی ہوتا، لوگوں کے پاس ٹھوس شواہد بھی موجود ہوتے، تب بھی ہجوم کے ہاتھوں کسی صورت قتل نہیں کیا جاسکتا.یہ نری بربریت ہے. پاکستان ایک اسلامی ملک ہے. اس میں آئین اور قانون موجود ہے. تعزیرات پاکستان کا ہی سہارا لیا جاتا اور ایسے شخص کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کر دیا جاتا.مگر ظالم ہجوم نے مار دیا اور اپنی دنیا کے ساتھ عاقبت بھی خراب کر دی.اگر کل قیامت کے دن وہ میاں چنوں کا مشتاق احمد نامی مجنون شخص، اللہ اور رسول کی دربار میں کھڑا ہوکر ان سب سے حساب مانگ لے تو ایسے خودساختہ مسلمانوں کی کیا کیفیت ہوگی؟اور اگر اس نے یہ مطالبہ بھی کردیا.یا رسول اللہ!تیرے وراثین(علماء کرام) اور پاکستان کے لاکھو‌ں محدثین نے بھی لاکھوں مساجد میں تیری یہ حدیث تک اپنے ماننے والوں کو نہیں بتایا تھا، نہیں سمجھایا تھا؟تو جانتے ہو، پھر کیا ہوگا؟اللہ اس مشکل سے ہم سب کو بچائے.بہر حال دونوں احادیث آپ تک پہنچایا ہے. میں تو اللہ اور اس کے رسول سے کہونگا.میں نے بیسوی دفعہ اپنی کلاس میں اور اپنی مسجد میں یہ احادیث سنائیں ہیں اور آج سوشل میڈیا اور اخبارات کے ذریعے بھی سب کو بتارہا ہوں. ان شاء اللہ پھر امید رکھتا ہوں اللہ اور رسول اللہ مجھے معاف فرمائیں گے. میری علماء کرام اور اپنے احباب سے بھی گزارش ہے کہ اس بات کو پھیلائیں تاکہ کل آپ بھی اللہ اور رسول اللہ کے سامنے شرمندہ نہ ہوں. اور ہم سب کو ایسے ظالموں سے علی الاعلان برآت کا اظہار کرنا چاہیے تاکہ کسی اور غنڈہ یا غنڈوں کو اسلام، قرآن اور مسجد کے نام پر ظلم عظیم برپا کرنے کی جرآت نہ ہو.میں برآت کا اعلان کرتا ہوں. آپ سب بھی اعلان کیجے. اللہ ہم سب کو دین اور پیغام محمدی سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے . آمین

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
58507

مختصرسی جھلک – زندگی کی مہارتیں – فریدہ سلطانہ فّریّ

مختصرسی جھلک – زندگی کی مہارتیں – فریدہ سلطانہ فّریّ

دوسرا حصہ

خود اعتمادی:

انسانی معاشرہ اس وقت ایک کامیاب ومثالی معاشرہ تصورکیا جاتا ہےجب وہاں کےبسنے والےاپنی ذات سےبالاترہوکراپنےارد گرد بسنےوالے لوگوں کےمتعلق اچھا سوچنےلگےاوراپنےمفادات وخواہشات کوپس پشت ڈال کردوسروں کےبارےمیں فکرمند ہو۔ دنشورلکھتے ہیں کہ یہ ساری خوبیاں صرف اسی انسان میں ہوسکتی ہیں جوایک مثبت شخصیت کا مالک ہواوراسےاپنےاپ پریقین واعتماد ہوکیونکہ جس انسان میں خود اعتمادی کاعنصرپایا جاتا ہے وہ ایک بہترین انسان تصورکیا جاتا ہےخود اعتمادی انسان کواپنی ذآت پریقین اوربھروسہ کرنےکا حوصلہ عطا کرتی ہےخصوصا بچوں میں خود اعتمادی پیدا کرنا بے حد ضروری ہےکیونکہ یہ بچوں کے لئے وہ بینادی محرک ہے جوانہیں زندگی کے مختلف مواقع پراگے بڑھنے،مشکلات ومسائل کا بہادری سے سامنا کرنےاوردوسروں کے لئے مثآل بننےمیں معاونت دیتا ہےاورساتھ ہی یہ بچوں کے رویے، ان کی ذاتی توانائی اورہم عمربچوں کے پریشرکا سامنا کرنے میں اہم کردارادا کرتی ہےسب سےاہم یہ ان کے سیکھنے، شخصی و جسمانی نشوونما اورتخلیقیت کے لیے بھی نہایت سود مند ہے۔

والدین اوراساتذۃ کوچاہِیےکہ وہ بچوں کے اندرخود اعتمادی کےعنصرکوپیدا کرنے کی کوشش کریں۔ اس مقصد کے لئے انہیں چند بنیادی باتوں کا خیال رکھنا بے حد ضروری ہے۔

 بچوں کوزیادہ سے زیا دہ خیالات کےاظہارکا موقع دیں

ان کی پسند نہ پسند کوترجیح دیں۔

بچوں کے سامنےاللہ پاک کی دی ہوئی نعمتوں کا شکرادا کریں تاکہ ان کےاندربھی یہ احساس پیدا ہوسکیں کہ اللہ پاک نے ہمیں بے شمارنعمتیں عطا کی ہیں اس صورت میں اللہ پاک کے ہم پربہت سارے احسانات ہیں کیونکہ پراعتماد ہونے کے لِئےجو اپ ہیں اورجو کچھ اپ کے پاس ہیں ان سب سے مطمین ہونا بےحد ضروری ہے۔

 بچوں پرغصہ ہرگزنہ کریں نہی اونچی اواز میں ان سے بات کریںکیونکہ غصہ و اونچی اواز سے ان کی صلاحیتیں دب سکتی ہیں بہتر یہی ہے کہ انہیں نرمی اور پیار سے سمجھایا جائے اورانہیں اپنی غلطیوں سے سیکھنےکاموقعہ بھی دیں اوران کی مثبت تنقید کریں ۔

اکثربچےکسی بھی نئےماحول میں بہت دباواورپریشانی کا شکارہوتے ہیں کیونکہ ان کے اندر نئے موحول کا ڈراورخوف ہوتا ہے۔ اگرممکن ہوسکے توایسے بچوں کو والدین اور اساتذۃ اپنی نگرانی میں مثبت سماجی سرگرمیوں میں حصہ لینے کا موقعہ دیںاوران  کےاندر یہ احساس بھی پیدا کرنے کی کوشش کریں کہ اللہ نے ہمیں بہترین صلاحیتوں سے نوازا ہے۔اس لئے ہم دوسروں سے بلکل بھی کم نہیں تاکہ ان کے اندرنئے موحول اور نئے لوگوں کا خوف ختم ہوسکیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
58516