Chitral Times

داد بیداد ۔ سنسربورڈ کی یا دیں ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

ایک زما نے میں فلم سینما گھروں میں دکھا ئی جا تی تھی 12کروڑ کی آبا دی میں بمشکل دو لا کھ شہری سینما گھروں میں جا کر فلم دیکھتے تھے جن میں 90فیصد سے زیا دہ تما شا ئی با لغ اور سنجیدہ لو گ ہوتے تھے اس کے با و جو د ملک میں فلم سنسر بور ڈ ہوا کر تا تھا جو فلم آجا تی وہ پہلے سنسر بورڈ کے ارا کین کو دکھا تی جا تی اس میں اگر اخلا ق سے گری ہوئی کوئی حرکت ہو تی تو اُس کو فلم سے نکا ل کر فلم کی منظوری دی جا تی تھی 1964کے بعد پا کستان ٹیلی وژن کے ڈرا موں کے لئے بھی اس طرح کی پا لیسی نا فذ تھی ٹیلی وژن حکام، پرو ڈیو سر اور ڈائریکٹر کو اس پا لیسی کا پا بند بنا دیتے تھے کوئی قابل اعتراض منظر ہوا کے دوش پر نا ظرین کو نظر نہیں آتا تھا پھر ایسا ہوا کہ پرائیویٹ چینل آگئے پھر یوں ہوا کہ غیر ملکی فلموں کی اردو، پشتو اور پنجا بی ڈبنگز (Dubbings) آگئیں مگر فلم سنسر بورڈ کا نا م سننے میں نہیں آیا کوئی فلم سنسر بورڈ کو نہیں دکھائی گئی کسی فلم کے بارے میں یہ نہیں دیکھا گیا کہ یہ گھر کے افراد کے ہمراہ دیکھنے یا بچوں کو دکھا نے کے قا بل ہے یا نہیں؟ آج کل کے دور میں فلم گھروں میں آگئی ہے قسط وار دکھا ئی جا تی ہے اس کو عرف عام میں ڈرامہ کا نا م دکھا یا گیا ہے .

اس میں اخلا ق سے گر ی ہوئی ہر وہ بات ہو تی ہے جو نا با لغ بچوں سے دور رکھنی چاہئیے مگر ہماری مو جو دہ 22کروڑ کی آبا دی میں 8کروڑ نا با لغ بچے ان فلموں کو بلا روک ٹو ک دیکھتے ہیں اس کے تین نتیجے ہمارے اخبارات میں رپورٹ ہوتے ہیں، لڑ کیوں کا اغوا، بچوں کے ساتھ زیا دتی کے واقعات، خواتین کو ہرا ساں کرنے کے وا قعات ہر روز خبروں میں آتے ہیں دہشت گر دی، خو د کشی اور شر انگیز ی کے واقعات خبروں میں جتنے آتے ہیں ان سے زیا دہ دیہات اور شہروں میں زبا ن زد عام ہو تے ہیں کسی بھی گاوں اور شہر کے پرائمیری سکول میں جا کر اساتذہ کا حال پوچھیں تو پتہ لگتا ہے کہ اساتذہ کا زیا دہ وقت بچوں اور بچیوں کو لا قا نو نیت اور دہشت گر دی سے روکنے میں صرف ہو تا ہے ہر روز ہر جما عت کے کمرے میں دس بارہ بچوں کے پا س کوئی نہ کوئی آلہ قتل ہو تا ہے چا ہے لکڑی اور ربڑ کا ہی کیوں نہ ہو لکڑی کی تلوار، لکڑی کی چُھری، لکڑی کا چا قو، ربڑ کے تیر کمان، پلا سٹک کے کلا شنکوف اور پستول بچوں اور بچیوں کے پا س ہوتے ہیں.

اسا تذہ اس بات پر شکر بجا لا تے ہیں کہ با ر بار کی تنبیہہ کے بعد لو ہے کے آلا ت جنگ لیکر سکول نہیں آتے دیہات میں ایسے کئی واقعات ہوئے ہیں جن میں سکول یا مدرسہ سے گھر آتے وقت ایک بچہ غا ئب ہوا، رات کو پتہ لگا کہ ساتھیوں نے اس کو جنگل میں درخت سے با ندھ دیا تھا کیونکہ فلم میں ایسا ہوتا ہے، گھر کے صحن میں کھیلتے ہوئے پا نج بچوں میں دو زمین پر گر کر بے سُد ھہ ہو جا تے ہیں پو چھنے پر معلوم ہو تا ہے کہ دشمن کو مار نے کا ڈرامہ ہو رہا تھا لا ہور کی نواحی بستی میں ایک 14سالہ لڑکے نے اپنی ماں، بہن اور بھا ئی کو قتل کر دیا پو چھنے پر معلوم ہوا کہ کمپیوٹر کے کھیل پب جی (PubG) میں مر نے والا زندہ ہو تا ہے، بچے کا خیال تھا کہ میری ماں بھی زندہ ہو جا ئیگی بہن بھا ئی بھی جلدی جی اُٹھینگے یہ لا قا نو نیت اس وجہ سے ہو رہی ہے کہ ”فلم سنسر بورڈ“ نہیں رہا قوم کے نو نہا لوں کو بد تمیز، بد اخلا ق اور بد کردار کہا نیوں کے حوالے کیا گیا ہے، ان کہانیوں کو بچے گھر میں بھی دہرا تے ہیں سکول میں بھی، اس وجہ سے آج کل فلم سنسر بورڈ کی یا د آتی ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57902

میری ڈائری کے اوراق سے- آغا خان یونیورسٹی ہسپتال کراچی اور ہم – تحریر : شمس الحق قمرؔ


یہ اگست 2021 کا کوئی دن تھا کہ ہمیں معلوم ہوا کہ میری شریک حیات کےبائیں گردے میں پتھر جمع ہونے کی وجہ سے انفکشن ہوا ہے ۔ الٹرا ساونڈ کے ڈاکٹر نے وقت ضائع کیے بغیر کسی ماہر امراضِ گردہ کے پاس جانے کا مشورہ دیا۔ گردے کے ڈاکٹر نے مزید طبی آزمائش کا مشورہ دیا یوں گردے میں بے شمار پتھروں کی تشخیص کے بعد ہمارے معالج نے کسی اچھے ہسپتال سے اپریشن کروانے کا مشورہ دیا اور ہم نے سیدھا آغا خان ہسپتال کا رخ کیا ۔ ہمیں دوستوں نے مشورہ دیا تھا کہ ایک سے زیادہ ڈاکٹروں سے رائے لی جائے ۔ لہذاہم نے آغا خان ہسپتال میں دو ڈاکٹروں کی رائے لی ۔ رائے لینے کا ہمارا تجربہ انوکھا رہا ۔ اس انوکھے پن کے دو بالکل متضاد پہلو تھے ایک رُخ تاریک جبکہ دوسرا روشن تھا ۔ میں ان دونوں کا ذکر آگے جاکر کروں گا-


ہمیں اس بات میں شک کی گنجائش نہیں کہ صحت کے معاملے میں ایشا اور باالخصوص پا کستان میں آغا خان یونیورسٹی ہسپتال کی مثال کہیں اور نہیں ملتی کیوں کہ یہی وہ جگہ ہے جہاں گل ہوتے چراغوں کو اُمید کی کرن نظر آتی ہے ۔ یہاں کے علاج سے زیادہ یہاں کے عملے کا اخلاقی رویہ بہت سوں کے لیے شفا و صحت کا ضامن رہا ہے ۔ ہم نے لوگوں کو کہتے سنا تھا کہ آغا خان ہسپتال میں داخل ہونے والا مریض اس یونیورسٹی کا مہمان خاص ہوتا / ہوتی ہے لیکن اس بار ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا یہاں جو بھی مریض کسی بھی عارضے کے ساتھ داخل ہوتا ہے اُسکا تسلی بخش طبی علاج ہوتا ہے ۔ لوگوں کو یہ بھی کہتے سنا تھا کہ یہاں علاج بہت مہنگا ہے لیکن لوگوں کی اس بات میں کوئی وزن نہیں پایا ۔ صفائی کا مثالی معیار ، 99 فیصد سے زیادہ عملے کا اعلی ٰاخلاقی رویہ اس ہسپتال کو پاکستان کے تمام صحت کے مراکز سے ممتازکرتا ہے یہی سہولیات کسی اور جگہ ہوتیں تو شاید اخراجات کے نیچے ہمارے کمزور شانے زندگی بھر کےلیے دب جاتے ۔ یہ میرے دل کی بات ہے کہ ہم آغا خان ہسپتال کے صدر ، سی ای او، ڈاکٹرز ، نرسز اور یہاں تک کہ صفائی کرنے والوں سے لیکر کنٹین میں چائے بنانے والوں تک کی محبتوں کے مقروض ہیں ۔


کسی کی نیکی اور اچھائی کو عیاں کرنے کےلیے بدی و برائی کی طاقتوں کا ہم رکاب ہونا لازمی ہے ورنہ موازنہ کرنا مشکل ہوگا ۔ ہم یہاں کی خامیوں کے بھی معترف ہیں کہ جن کی وجہ سے بہت سوں کو پرکھنے کا موقع ملا۔ آغا خان ہسپتال میں ایک تلخ تجربہ ہوا جو شاید ذہن پر سوار رہے گا ۔ کہانی کچھ یوں ہے کہ ہمیں جب یہ خیال آیا کہ ایک سے زیادہ ڈاکٹروں کی رائے لینی ضروری ہے تو ہم پہلے آغاخان یورالوجی کی ایک ڈاکٹر کے پاس گیے لیکن اپنے انتخاب پر ہمیں بے حد شرمندگی ہوئی ہماری نظر میں اس ڈاکٹر کا آغا خان یونیورسٹی جیسے ادارے میں وجود رکھنا اس ادارے کے اعلیٰ حکام پر ایک سوالیہ نشان تھا ۔ میں شاید اس ڈاکٹر کے پیشے اور قابلیت پر سوال نہیں اُٹھا سکتا ہے لیکن ہم نے یہ سنا اور دیکھا ہے کہ یہاں کے ڈاکٹر علاج سے زیادہ اپنے اخلاقی رویے سے مریضوں کی مسیحائی کرتے ہیں اور یہ بھی سنا تھا کہ کسی ڈاکٹر کو ڈاکٹر کی سند دینے سے پہلے اسے اخلاقیات کا وہ درس دیا جاتا ہے اور اُسے اخلاقیات کا امتحان پاس کرنا ہوتا ہے۔ گو کہ ہم نے اس اعلیٰ اخلاقی رویہ کی گہر چھاپ گیٹ میں داخل ہونے سے لیکر اپریشن سے فراغت تک سب کے اندر ہر جگہ دیکھی لیکن صد افسوس کہ مذکورہ ڈاکٹر اس عظیم نعمت سے عاری تھا / تھی ۔ اس نا معقول پیشہ ور سے اپنی صحت کے بارے میں سوال پوچھنا گویا جرم کے مترادف تھا ۔ ہم جب ڈاکٹر کے پاس گیے تو وہ اپنی کرسی پر براجماں تھے/ تھیں ۔ اُن کے چہرے کے شکنوں سے صاف معلوم ہوتا تھا وہ تمام تر خاندانی ناچاقیوں کے ہمراہ آغا خان ہسپتال تشریف ف لائی تھی / تھا ۔ اس ڈاکٹر سے پہلے کسی نے مریضہ کی طبی تاریخ کی تفصیل نہیں پوچھی ۔ ڈاکٹر کی طرز کلام سے ہمیں یہ جاننے میں کوئی دشواری نہیں ہوئی کہ اُس نے ہمیں اچھوت سمجھنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی تھی ایک سوال کے جواب میں میری شیریک نے ڈاکٹر سے کہا ” دن میں تین سے چار لیٹر پانی پیتی ہوں ” بولے، ” تمہیں معلوم ہے ایک لیٹر کتنا ہوتا ہے ” اس سے مجھے یہ اندازہ لگانے میں کوئی دشواری نہیں رہی کہ موصوفہ سکول میں ریاضی میں کتنی کمزور رہی ہوگی ۔

ڈاکٹر کا ایک سوال یا جواب ایسا نہیں تھا کہ جس سے وہ ڈاکٹر معلوم ہو ۔مریضہ نے ڈاکٹر سے پوچھا ” ڈاکٹر میرے گردے میں پتھر ہیں، میں یہ جاننا چاہتی ہوں کہ کیا اپریشن کے بغیر بھی میرے گردے ٹھیک ہو سکتے ہیں ؟” ڈاکٹر کا جواب انتہائی افسوس ناک اور بے حد احمقانہ تھا بولے ” گردے تمہارے ، پتھر تمہارے اور مرضی تمہاری ” اپریشن تو ہوتا رہے گا اگر نہیں کرنا ہے نہ کریں ۔ ڈاکٹر کی یہ بات اُ س کی اپنی ذہنی سطح کے اعتبار سے شاید درست تھی ۔ لیکن ستم ظریفی یہ تھی کہ مریضہ اس ڈاکٹر کو اُمید کی آخری کرن سمجھ کر دو ہزار کلومیٹر سے زیادہ مسافت کا مشکل سفر طے کرکے پاکستان کے انتہائی شمال سے جنوب تک آئی تھی ۔ ڈاکٹر نے دوسرا سوال پوچھا ” سی ٹی اسکین ساتھ لائی ہو؟ ” مریضہ نے کہا ” ڈاکٹر سٹی اسکین تو میں گلگت چھوڑ آئی ہوں البتہ سٹی اسکین کی رپورٹ میرے پاس ہے اگر حکم ہو تو ادھر ہی سٹی اسکین کروا لیتے ہیں ” اب کی بار ڈاکٹر نے مریضہ کو کچھ اس انداز سے مخاطب کیا گویا کہ مریض کوئی جرم کا ارتکاب کر کے آئی تھی، بولے ” تو پھر تم یہ سارے کچھرے لے کر کیوں آئی ہو ؟” ڈاکٹر کو چار ہزار فیس برائے مشاورت شاید اسی اخلاقی رویے کےلئے ہم نے ادا کی تھی جو کہ تین منٹ کی ملاقات میں اپنی بد تمیزی کے عوض ہم سے بٹورا ۔ ہم اس سے زیادہ بد مزہ گفتگو کے شاید متحمل نہیں ہو سکتے تھے لہذا بڑے بے آبرو ہو کر اُن کے آفس سے نکلنے والے ہی تھے کہ پیچھے سے آواز دی ” پرسوں دوبارہ اپوائنٹمنٹ لے کے آو” یاد رہے کہ یہاں ڈاکٹر سے ایک ملاقات کی فیس کم و بیش 4 ہزار روپے رائج الوقت پاکستانی ہے جوکہ ایک عام آدمی اوسطاً پانچ دنوں میں کما سکتا ہے ۔ اس نامعقول معالج سے ملنے کے بعد ہمارا دل بھر گیا تھا اورہم یہاں سے جلد از جلد گلو خلاضی کا سوچ رہے تھے کہ خیال آیا کہ ہمیں دوسرے ڈاکٹر سے بھی رائے لینی ہے ۔ پر ہم پریشان تھے کہ خدا نخواستہ دوسرے ڈاکٹر کا رویہ بھی ایسا ہی نکلا تو ہم کہاں جائیں ؟۔ ہم نے آپس میں فیصلہ یہ کیا تھا کہ خدا نخواستہ دوسرے ڈاکٹر کا رویہ بھی ایسا ہی نکلا تو ہم کسی ایسے جگہے پر جائیں گے جہاں سہولیات بھلے نہ ہوں لیکن ڈاکٹر کا رویہ دوستانہ ، رحم

دلانہ اور پیشہ وارانہ ہو ۔
اس کے بعد ہم جس ڈاکٹر سے ملنے جا رہے تھے اُس کا نام پروفیسر ڈاکٹر عمران خان جلبانی تھا ۔ اُن کے آفس جانے سے پہلے اُن کی ٹیم کے ایک ڈاکٹر نے مریضہ کی مکمل ہسٹری لی جو کہ پہلے ڈاکٹر نے نہیں لی تھی ۔ پھر مریضہ کو ڈاکٹر کے آفس میں بٹھایا گیا ۔ کچھ ہی لمحے بعد ڈاکٹر عمران جلبانی اپنے آفس میں داخل ہوئے ۔ و ہ سر تا پا پرخلوص تبسم کا ایک مکمل مرقع تھے ۔ دفتر میں داخل ہوتے ہوئے اُنہوں نے تسلیمات بجا لانے کے بعد پرتپاک انداز سے مریض کا نام لیکر اُن سے مخاطب ہوئے اور کہا ” حبیبہ مجھے بہت افسوس ہے میں نے آنے میں تاخیر کی ” اُن کی پوری توجہ اپنی مریضہ کی جانب مبذول تھی۔ وہ مریضہ کے لفظ لفظ کو غور سنے جا رہا تھا ۔ اُنہوں نے بھی گلگت والی سٹی اسکین کا پوچھا اور ہم نے وہی جواب دیا جو پہلے والے ڈاکٹر کو دینے کے بعد شرمندہ ہوئے تھے لیکن ڈاکٹر عمران جلبانی کا انداز الگ تھا انہوں نے کہا ” کوئی بات نہیں روپورٹ دکھایئے گا ” ہم نے رپورٹ دکھائی اور ڈاکٹر میری شریک حیات سے یوں مخاطب ہوئے ” مری بہن آپ کے گردے میں پتھر ہیں کھلا آپریشن ہوگا اور ہم کوشش کریں کے کہ آپ کو کوئی تکلیف نہ ہو اور ہاں کوئی تکلیف نہیں ہوگی ۔ ہم پر فرض ہے کہ ہم مریض کو اپریشن کی پیچیدگی بتا دیں لہذا ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ آپ کا اپریشن پچیدہ ہے ۔ آپ کے گردے میں 20 فیصد پتھر ایسے مقامات پر موجود ہیں کہ جنکا انخلا اس اپریشن میں ممکن نہیں ہوگا ۔ ہم کوشش کریں گے کہ ہم آپ کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچا سکیں “اُنہوں نے اپریشن کے تمام مراحل بتادیے ۔ اُن کی گفتگو میں ملائمت تھی ۔ اُن سے ملنے اور اُ ن کو سننے کے بعد ہم پر ایک روحانی آسودگی کی سی کیفیت طاری ہوئی کیوں کہ اُن کے چہرے کی تمانیت سے ہمیں برابر شفا نظر آرہی تھی ۔ آپ یقین جانیے کہ مریضہ بے حد دلجمعی سے اپریشن کے لیے تیار ہوئی ۔ یہ اپریشن کافی مشکل تھا ۔ ڈاکٹر جلبانی صاحب چار گھنٹے سے زیادہ اپریشن میں مصروف رہے اور اپریشن کے بعد دوران اپریشن حائل تمام پچیدگیوں کا ذکر بھی فرمایا ۔


اگر کوئی مجھ سے یہ پوچھے کہ ایک د و الفاظ میں آغا خان ہسپتال کی کمزوریاں بتادیجئے تو میں کہوں گا کہ 10 جنوری 2022 کو جنا بائی فرسٹ فلور میں صبح 10:22 کے ID نمبر167521779 کی ذیل میں مریضہ کی جس ڈاکٹر سے ملاقات ہوئی ایسے پیشہ ور اس ادارے کے چہرے پر داغ ہیں اور اگر کوئی خوبیاں بیاں کرنے کا سوال پوچھے تو میں مختصراً ڈاکٹر برائے امراض گردہ پروفیسر ڈاکٹر عمران جلبانی ، جنہوں نے میری رفیقہ حیات کے گردوں کا آپریشن کیا اور ڈاکٹر برائے امراض چشم ڈاکٹر عرفان جیوا ،جنہوں نے 2018 میں میری آنکھوں کا آپریشن کیا تھا ،کے اسمائے گرامی لوں گا ۔ یہاں بہت سارے پیشہ ور اچھے ہوں گے لیکن مذکورہ شخصیات سے میرا بالمشافہ ملاقاتیں ہوئی ہیں ۔یہ دو پیشہ ور آغا خان یونیورسٹی ہسپتال کے وہ تابناک ستارے ہیں کہ جن کی پرخلوص مسکراہٹ اور ڈھارس سے نہ صرف مریضوں کو ہمت اور حوصلہ ملتا ہے بلکہ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ اس یونیورسٹی پر گہری مثبت چھاپ کے بھی یہی پیشہ ور ضامن ہیں ۔ ہماری دعا ہے کہ آغا خان ہسپتال کامیابی وکامرانی سے ہمکنار رہے اور اس کے تمام پیشہ ور ہنستے مسکراتے رہیں اور اسی طرح زندگی بانٹتے رہیں ۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57899

قومی سلامتی کے لئے اقتصادی استحکام ناگزیر- قادر خان یوسف زئی کے قلم سے

پاکستان کو بنیاد ی دیرینہ چیلنجوں کا سامنا ہے، جس میں شدت پسندی، انتہا پسندی کا رجحان، معیشت اور توانائی کا بحران، صحت عامہ اور بنیادی اور اعلیٰ تعلیم کی فراہمی اور نوجوان نسل کو ٹیکنیکل مہارت سے آراستہ کرکے ہنر مند پاکستان بنانے کے علاوہ آبادی پر بڑھتے دباؤ اور موسمیاتی تبدیلیوں کے منڈلاتے خطرات شامل ہیں۔ پاکستان کی جغرافیائی اہمیت و محل و قوع کی وجہ سے داخلی اور بیرونی چیلنجز ہمیشہ قومی ایجنڈے میں دفاعی سلامتی کے طور پر سرفہرست رہا ہے۔ ریاست درپیش چیلنجز کو رسمی، روایتی،غیر روایتی، سخت اور نرم خطرات  کو نمٹنے کے لئے مسلسل سرگرم عمل ہے۔ دفاعی بنیادوں پر مملکت کو دو بڑے محاذ پر مکمل توجہ مرکوز رکھنا پڑتی ہے جس میں بھارت کے بعد افغانستان کا محاذ بھی شامل ہے۔  خطے سے عالمی طاقت کی منتقلی اور پراکسیز کی وجہ سے بڑے عالمی اسٹریجک معاملات پاکستان کی سلامتی کے لئے اہمیت کے حامل ہیں۔ مشرق وسطیٰ کا حل نہ ہونے والا بحران ہو یا چین کا اقتصادی عالمی قوت کے طور پر ابھر کر آنا، اس کے علاوہ روس اور یورپ کے درمیان بڑھتی کشیدگی کی سرد جنگ کے بعد یوکرائن کی شکل میں تصادم کے خطرات  کے اثرات سے پاکستان کے براہ راست متاثر ہونے کے خدشات کو دفاعی سلامتی کے منصوبہ سازوں نے سنجیدگی سے لیا ہے۔


دفاعی سلامتی کا دار و مدار مضبوط معیشت سے بھی جڑا ہوا ہے اور مضبوط معاشی پالیسی کو برقرار رکھنے کے لئے آبادی میں توازن کا ہونا ضروری خیال کیا جاتا ہے۔ اسباب ذرائع میں تناسب کا ہونا کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ پاکستان اس وقت معاشی دشواریوں کا سامنا کررہا ہے اور اس سے نمٹنے کے لئے عالمی مالیاتی اداروں کے مقروض در مقروض ہوتا جارہا ہے جس سے براہ راست قومی سلامتی کی پالیسیوں پر بیرونی مداخلت کے امکانات بڑھ رہے ہیں۔ پاکستان میں دیگر چیلنجوں کے علاوہ سب سے بڑا اہم مسئلہ آبادی کا بڑھتا دباؤ بھی سمجھا جاتا ہے۔ بڑھتی آبادی کے لئے تعلیم، صحت، ہاؤسنگ، پولیس اور دیگر انفرا اسٹرکچر کا مہیا کرنا ضروری ہے۔ بڑھتی آبادی کے قریباََ60فیصد حصے کو مناسب خوراک نہ ملنے کا سامنا ہے۔ عدم تحفظ اور قریباََ50  فیصد خواتین  غذائی قلت کا شکار ہے۔ نسلی بنیادوں پر عدم مساوات، کم ذرائع آمدنی اور بے روزگاری  کے خاتمے کے لئے قومی سلامتی میں ملکی ترقی، سماجی اور سیاسی استحکام ناگزیر ہے۔


آئی ایس پی آر  نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کے حوالے سے پیغام میں کہا کہ”پاک فوج امن کے لیے خدمات میں ہمیشہ پیش پیش رہی ہے، ہمارے جوانوں نے ہر آزمائش کی گھڑی میں قربانیاں دی ہیں۔جنرل قمر جاوید باجوہ کا کہنا تھا کہ عالمی امن کے فروغ کے لیے ہماری قربانیاں دنیا کے سامنے ہیں۔ ہماری قربانیاں بابائے قوم کے وژن کے مطابق ہیں، ہماری قربانیاں عالمی امن کے ہمارے غیر متزلزل عزم کی عکاس ہیں“۔ دفاعی سلامتی کا اہم جز و امن کا مستحکم ہونا ہے، کسی بھی ہدف کو پانے کے لئے امن پالیسوں کو کلیدی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ چونکہ پاکستان جغرافیائی طور پر ایک ایسے اسٹریجک مقام پر ہے، جہاں امن و امان کو پائدار بنانے کے لئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کا مستحکم ہونا اہمیت رکھتا ہے۔ لیکن اس کے لئے اقتصادی طور مضبوط ہونا ضروری ہے، کیونکہ اقتصادی استحکام نہ ہونے سیفاعی سلامتی کو لاحق خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ پاکستان پڑوسی ممالک سمیت دنیا کے کسی بھی ملک کے ساتھ ’وقار کے ساتھ امن‘کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور بارہا اس عزم کا اظہار کرچکا کہ پاکستان کی سیکورٹی پالیسیوں کا تعلق صرف ملک کے دفاع  سے مربوط ہیں۔ خطے میں مقبوضہ کشمیر، سمیت تمام تنازعات کا حل پر امن طریقے سے کرنا، دفاعی سلامتی کا پلان، قومی سلامتی کا اہم حصہ ہے۔ نائن الیون کے بعد پاکستان جس طرح عالمی قوتوں کی پراکسی وار کا نشانہ بنااور دہشت گردی کی آگ سے وطن عزیز کا ہر حصہ بُری طرح متاثر ہونے لگا، اس سے سیکورٹی چیلنجز بڑھتے چلے گئے۔ ریاست کے لئے جہاں بیرونی خطرات ایک بڑا چیلنج رکھتے ہیں تو عام شہری کے جان و مال کے تحفظ، سماجی اور اقتصادی ماحول کی آبیاری کے لئے مربوط حکمت عملی کو اپنانا ملکی سلامتی کے عظیم مفاد کے لئے  ناگزیر بن جاتا ہے۔


قانون کی حکمرانی ہی پائدار ترقی اور امن کو فروغ دیتی ہے۔ ایک ایسے ماحول میں جہاں لاقانونیت اور عدم تحفظ ہو، حکمرانی کی بالادستی کا قیام دشوار ہوجاتا ہے۔ بنیادی حقوق کے تحفظ کے لئے ریاستی رٹ جس طرح ضروری ہے اسی طرح شہری حقوق کا تحفظ بھی ریاست کے فرائض کے اہم زمرے میں آتا ہے۔ حقوق اور فرائض کی ادائیگی سماجی انصاف کے لئے بلا امتیاز رنگ و نسل و مذہب کئے جانا ہی ترقی کی راہ ہموار کرتا ہے۔ عدم مساوات، استحصال اور تنازعات کا بڑھنا دفاعی سلامتی کے تقاضوں کو مزید بڑھا دیتا ہے۔ دفاعی سلامتی کے ضمن میں سیکورٹی اداروں کو دو محاذوں پر کام کرنا پڑرہاہے، تاہم شدت پسندی اور پر تشدد انتہا پسندی کے خلاف سیکورٹی اداروں کے اولین ہدف ہی اصل چیلنج کا درجہ رکھتے ہیں۔


  ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے 2021 کے دوران مسلح افواج کی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہوئے اسے شاندار قرار دیا۔انہوں نے بتایا کہ 2021 میں انٹیلی جنس ایجنسیوں نے 890 تھریٹ الرٹ جاری کیے، جن کی بنیاد پر 70 فیصد واقعات کو روکا گیا اور دہشت گردی کے ماسٹر مائنڈ اور ان کے سہولت کار بے نقاب ہوئے، قبائلی علاقوں میں 70 ہزار سے زائد بارودی سرنگیں ناکارہ بنائی گئیں اور جانیں بچائی گئیں، اس تمام عمل کے دوران کئی اہلکار شہید اور زخمی بھی ہوئے۔ڈی جی آئی ایس پی آر کا مزید کہنا تھا کہ 2021 میں 248 فوجی شہید ہوئے۔  سینٹر فار ریسرچ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز (CRSS) کی جنوری  2022 میں جاری رپورٹ کے مطابق سال 2021 میں  سیکورٹی فورسز نے 146آپریشنز کئے گئے، سال 2021 میں 260 حملوں کے مقابلے میں 403 دہشت گردوں کو بھی ہلاک کیا گیا۔  سیکیورٹی حکام نے سال2021 کے دوران بڑی تعداد میں دہشت گرد اور شدت پسندوں کو گرفتار کیا اور ان میں سب سے زیادہ تعداد کالعدم ٹی ٹی پی کے 44دہشت گرد،  داعش کے 30 القاعدہ کے 7، القاعدہ (برصغیر) کا ایک، حزب التحریر، کالعدم سپاہ محمد، کالعدم لشکر جھنگوی، کالعدم لشکر طیبہ،سے تعلقرکھنے والے ایک ایک اورکالعدم زنبیون بریگیڈ کے پانچ اوردیگر عسکریت پسندگروپوں سے 77  ملزمان کو گرفتار کیا گیا۔  

سیکورٹی فورسز نے نام نہاد قوم پرست علیحدگی پسندکالعدم تنظیموں سے تعلق رکھنے والے کالعدم بلوچستان لبریشن آرمی کے 7، کالعدم جئے سندھ متحدہ محاذ کا ایک، کالعدم سندھو دیش ریولوشنری کے 17اور کالعدم یونائیٹڈ بلوچ آرمی کے دو دہشت گردوں کو گرفتار کیا گیا۔قانون نافذ کرنے والے اداروں نے جرائم پیشہ افراد میں کچے  علاقے کے ڈاکوؤں کے چار، لیای گینگ وار کے 5 شیراز کامریڈ گینگ کا ایک اور زاہد لاڈلا گینگ کے 4ملزمان کو بھی گرفتار کیا۔  اسپیشل سیکیورٹی یونٹ (ایس ایس یو)کے کمانڈوز نے سال2021 میں خطرناک مجرموں اور دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مجموعی طور پر 65 چھاپے مارے گئے جس کے نتیجے میں 71 ملزمان کو گرفتار کیا گیا۔دہشت گردی اور انتہا پسندی نے مملکت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا، اس کے مضر اثرات نے معیشت کو کمزور کرنے کے لئے اپنے شکنجے میں جکڑا۔ شدت پسندوں کے خلاف منظم آپریشنز نے امن و سلامتی کے قیام کے لئے کلیدی کردار ادا کیا، امن و سلامتی کے لئے حکومت نے مذاکرات کی راہ بھی اپنائی، سابق حکومتوں سے لے کر موجودہ ریاست تک، امن کو ایک اور موقع دینے کے اصولی موقف پر قائم بھی رہا گیا، لیکن من چاہے شرائط پر اجارہ داری کرنے خواہاں شدت پسند گروپوں کے مطالبات تسلیم کرنا ملکی سلامتی کے لئے مزید خطرناک ہوسکتا ہے۔

دفاعی پالیسی کے لئے مضبوط حکمت عملی وقت کی ضرورت رہی ہے۔ بالخصوص ایک ایسے ملک کے لئے جو چار دہائیوں سے پڑوسی ممالک میں انارکی و انتشار کی وجہ سے بری طرح متاثر رہا اور مزید ہورہا ہے۔ سیکورٹی بحران کو حل کرنے کے لئے وقت کے ساتھ ساتھ قلیل المدت پالیسیاں اختیار کی گئی، تاہم پالیسی ساز کامل آگاہ تھے کہ ملکی معیشت کسی براہ راست جنگ کی متحمل نہیں ہوسکتی اور نہ ہی کسی عالمی قوت کے خلاف ان حالات میں کھڑے ہوجائیں کہ سیاسی عدم استحکام اپنے عروج پر ہو۔ ملک کو سیاسی عدم استحکام سے نکالنے کے لئے پالیسی سازی اور منصوبہ بندی میں اصلاح کا عمل بھی جاری رہا اور بتدریج عالمی قوتوں کو باور کرانے میں کامیابی ملی کہ پاکستان کی اہمیت کا اندازہ لگانے کے لئے غیر متوازن  اور جانب دارنہ رویوں کو تبدیل کرنا ہوگا۔ خطے میں امن اور ترقی کے پائدار قیام کے لئے عالمی قوتوں کو ’ڈومور‘ کی پالیسی کو ختم کرنے سے ہی،عالمی قوتوں کے فروعی مفادات کو بھی تحفظ مل سکتا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کا دفاعی سلامتی کے حوالے سے واضح موقف بھی آچکا کہ”ہمسائے میں جارحانہ اور خطرناک نظریئے کا پرچار پرتشدد تنازعہ کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے اور دشمن کی جانب سے کسی بھی وقت بطور پالیسی آپشن طاقت کے استعمال کے ممکنات موجود ہیں۔جنگ مسلط کی گئی تو مادر وطن کے دفاع کے لیے قومی طاقت کے تمام عناصر کے ساتھ بھرپور جواب دیا جائے گا اور پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں کا ہر قیمت اور ہر صورت میں تحفظ کیا جائے گا۔ہر جارحیت کا جواب دینے کے لیے خود انحصاری پر مبنی جدید دفاعی ٹیکنالوجی پر توجہ مرکوز کی جائے گی اور مسلح افواج کو مزید مضبوط بنانے کے لیے روایتی استعداد کار کو تقویت دی جائے گی جبکہ دفاعی پیدوار، مواصلاتی نیٹ ورک کی مرکزیت، جنگی میدان کی آگہی اور الیکٹرانک وار فیئر صلاحیت کو بھی تقویت دیں گے“۔


دفاعی سلامتی کی واضح پالیسی کے تحت ملک کی سلامتی و بقا کے لئے سیکورٹی فورسز اپنا بھرپور کردار ادا کرتی رہیں اور کررہی ہیں۔ مستقبل میں ملک و قوم کو درپیش مسائل کے حل کے لئے سیکورٹی فورسز کو مضبوط کرنے کی مزید ضرورت ہے۔ عالمی قوتوں کی پالیسیاں ریاست سے ایسے مطالبات بھی کرتی چلی آرہی ہیں جس سے خارجہ پالیسی برا ہ راست متاثر ہوتی ہے۔ تاہم دفاعی اداروں اور حکومت کا مثبت بیانیہ ان توقعات کو فروغ دیتا ہے کہ جب تک پاکستان پر جنگ مسلط نہیں کی جاتی،ریاست پہل نہیں کرے گی، مملکت دفاع کے لئے ہر دم تیار رہے گی تاہم اقتصادی عدم استحکام سے اس وقت جن دشواریوں اور مشکلات کا سامناہے اس سے دفاعی ضروریات کو پورا کرنے میں دقت بھی ممکنات میں شامل ہوسکتی ہے۔ بھارت اپنی انتہا پسندی کے نظریہ کے تحت جنگی اور جارح پسند اقدامات رکھتا ہے۔ گو کہ افغانستان میں این ڈی ایس اور را کو شکست ہوچکی ہے لیکن اب بھی ان کے سہولت کار کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں۔ دہشت گردوں کے سہولت کاروں کو تلاش کرکے کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے سیکورٹی اداروں کو بڑے چیلنجز کا سامنا ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا جارہا ہے۔ سیکورٹی اداروں کے افسران و اہلکاروں کو دہشت گردی کا سامنا ہے، اس کے سدباب کے لئے ملکی سرحدوں کے ساتھ نظریاتی حدود کا دفاع بھی سیکورٹی اداروں کے فرائض میں شامل ہے۔ کسی قسم کی انارکی یا انتشار، ریاست کے لئے پریشان کن امر اس صورت میں ہوتا ہے کہ ملک کی سرحدوں پر ایسے عناصر موجود ہوں جو کسی بھی کمزور لمحے کا فائدہ اٹھانے سے گریز نہیں کریں گے تو دوسری جانب سافٹ ٹارگٹ کو شدت پسندوں کی مذموم  کاروائیوں سے روکنا بھی اہمیت رکھتا ہے۔


 سیاسی عدم استحکام کسی بھی حکومت کی توجہ طویل المدت پالیسیوں اور سٹریجک پلان پر عمل درآمد کے لئے مشکل امر بن جاتا ہے۔ سیاسی فضا میں استحکام ہی اقتصادی ترقی کے لئے مضبوط درجہ رکھتاہے۔ پر تشدد  واقعات اور شدت پسندی کے رجحانات سے سرمایہ کاری اور صنعتوں کو نامساعد حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سیاسی استحکام اور اقتصادی مضبوطی ہی دفاعی سلامتی کو یقینی بنانے میں موثر ثابت ہوتی ہے۔  ریاست کو دفاعی ضروریات پورا کرنے کے لئے جہاں محدود وسائل استعمال کرنا اہم ضرورت بن جاتے ہیں تو دوسری جانب ان کا انحصار ایسے ممالک پر بڑھ جاتا ہے جن سے سفارتی تعلقات مدوجزر کا شکار رہے۔ امریکی ہاؤس انٹیلی جنس کمیٹی میں الینوائے کے ڈیموکریٹ نمائندے راجہ کرشنمورتی کا کہنا تھا، ”پچھلے بیس برسوں میں پاکستان امریکی فوج کی رسد جیسے کئی مختلف مقاصد کے لیے اہم رہا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے پریشان کن بات یہ ہے کہ اس دوران اعتماد کی کمی ہوئی ہے۔“ تاہم ان کا مزید کہنا تھا، ”میرے خیال میں سوال یہ ہے کہ کیا ہم تعلقات کی ایک نئی تفہیم پر پہنچنے کے لیے ماضی کو بھلا سکتے ہیں؟  ”دا ریکروٹر“ کے مصنف ڈگلس لندن کہتے ہیں کہ امریکا اور پاکستان کے مابین تعاون کے اب محدود شعبے ہی باقی بچے ہیں۔ ان کے مطابق یہ دونوں ملک القاعدہ یا پھر ”اسلامک اسٹیٹ خراسان“ کے خلاف پارٹنرشپ کر سکتے ہیں کیوں کہ اسے یہ دونوں ہی ایک مشترکہ دشمن سمجھتے ہیں۔ امریکہ ساتھ مفاداتی تعلقات کے مقابل چین کے ساتھ پاکستان کے ساتھ کئی شعبوں، بالخصوص دفاعی ساز و سامان کے حصوؒ ل میں اضافہ ہوچکا ہے۔

2019 میں پاکستان نے بھارت کی جانب سے کسی بھی ممکنہ جارحانہ اقدام کو روکنے کیلئے فضائی اور زمینی حدود کی حفاظت کیلئیایل وائے 80′ میزائل ڈیفنس سسٹم ‘حاصل کرچکا  جب کہ چین نے پاکستان کی سمندری حدود کو مزید مضبوط اور محفوظ بنانے کے لئے بحری جہازوں کے علاوہ آٹھ آبدوزیں دینے کا بھی اعلان کیا  جس میں چار آبدوزوں پر چین میں اور ایک پاکستان میں تیار ہورہی ہیں اور2024 تک ممکنہ طور پر بحری بیڑے میں شامل ہوجائیں گے، جب کہ پی این ایس طغرل بحری جہاز شامل ہوچکا ہے۔ ذرائع کے مطابق پاکستان نے اپنے دفاع کو مزید مضبوط بنانے کیلئے آئندہ سال چین کا جدید سنگل انجن، ڈیلٹا ونگز کا حامل جنگی طیارہ ”جے 10 سی” بھی پاک فضائیہ کے بیڑے میں شاملکیا جائے گا۔ یہ جدید لڑاکا طیارہ  جو بیک وقت کئی اہداف کی نشاندہی کرنے والی ٹیکنالوجی اور 200 کلومیٹر تک اہداف کو نشانہ بنانے والے میزائلوں سے لیس ہے۔ 23مارچ کو پاکستان پریڈ میں پاکستانی پائلٹ ‘جے 10 سی”  اڑانے کا مظاہرہ بھی کریں گے۔ ریاست ملک و قوم کی حفاظت کے لئے اپنے دفاع سے غافل نہیں بلکہ اقتصادی بحران کے باوجود ہر چیلنج سے نمٹنے کی بہترین صلاحیت رکھتے ہیں۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57897

انسانیت ۔ مختار احمد

میں درمیان میں کھڑا ہوں، درمیانی ویرانے پر ____ ایک طرف سے پھولوں کی خوشبو آتی ہے اور دوسری طرف سے جلے ہوئے ماس کی باس اٹھتی ہے۔ ایک طرف ہوشربا قہقہے ہیں تو دوسری سمت دلدوز چیخیں۔ میں مہک سے لطف اندوز ہو جاؤں کہ باس سے دامن بچاؤں، قہقہوں کا سامع بنوں یا پھر چیخوں کی طرف کان دھروں____ اور پھر مری پہچان بھی تو ویرانے سے ہے________ درمیانی ویرانے سے”.


اسد عجیب شخص تھا۔ اس کی پوری زندگی بادلوں کی اوٹ میں گزی تھی جسکی دھندلاہٹ اسے باہر کی دنیا کے لیے غیر واضح رکھتی ہے۔ وہ بلا کا باتونی تھا مگر حیرت انگیز طور پر پراسرار۔ علاقے کے ہر فرد سے اچھی واقفیت اور اٹھنا بیٹھنا تھا۔ ہر ذات کو خود سے مقدم گرداننا اس کی بہت ساری پوشیدہ خوبیوں میں سے ایک تھی۔ بچوں سے جس قدر محبت تھی شور سے اس قدر نفرت۔چوبیس سال کی عمر میں بال ایسے سفید ہو گئے جیسے چونے کے پانی میں بھگوئی ہوئی کھاس۔ شادی کے متعلق سوچ سے آگے نہیں بڑھ پایا۔ گھر والوں کی بڑی عزت و تکریم کرتا، اتنی عزت کہ ان سے ہمیشہ دور رہتا ۔ ” قربت رنجشوں کو جنم دیتی ہے” یہ کہتے کہتے نہیں تھکتا۔اٹھائیس سال کی عمر میں وفات ہوا تو اس کی ڈائری کے صفحات نے ساری خاموشی توڑ ڈالی اور حقیقت اور اصلیت نے اپنے عدم کا وہ ماتم منایا کہ فرشتوں کی سلطنت لرز کر رہ گئی۔ ڈائری کے صفحات میں سے ایک بہ عنوان ” انسانیت” تھا۔


“بڑے بھائی کے بھیجے ہوئے پیسے آ گئے تھے۔ رات کو گھر میں گوشت کے ساتھ شوربہ کا دور تھا۔ سالوں سے اپاہچ پڑے ہوئے صلاح الدین بھائی کے یہاں سے بچوں کے رونے کی وہ آوازیں آئیں کہ پورا محلہ گونج اٹھا۔ سب نے پیٹ بھر کر کھایا اور دعا کی کہ اللہ کسی کو محتاجی کے دن نہ دکھائے۔ پڑوس کے مولوی صاحب کی بابلند قرات نے لوری کا کام کر دکھایا۔ کچھ وقت بعد خاموشی طاری ہوگئی۔ شاید بھوکے بچے سو گئے تھے۔ مگر ہر بار کی طرح اس بار بھی انسانیت گوشت اور شوربہ کے ہاتھوں بک گئی۔اگلی صبح مولوی صاحب نے جمعہ کی نماز سے پہلے لاؤڈ سپیکر پر پڑوسیوں کے حقوق کے متعلق بڑی پرجوش تقریر کی اور بھوکوں کو کھلانے پر خصوصی ثواب کا ذکر کیا۔ ماں نے پچھلے سال قربانی کے بھیجے ہوئے گوشت سے اپنی دلیل پوری کی۔ کچھ دن بعد نامعلوم وجوہات کی بنا پر بڑے بھائی کا کام چھوٹ گیا۔ گھر میں فاقوں کی نوبت آ گئی۔ جھوٹا بھائی بھی کام تو کرتا تھا مگر کم پیسے بھیجنے کی وجہہ سے نافرمان کہلاتا تھا۔ اب دن پھر گئے تھے، چھوٹے بھائی نے بڑے کی جگہہ لے لی۔ چھوٹے کی بلائیں لی جانے لگیں۔ میرے گھر چھوڑنے تک چھوٹے بھائی کے پیسے آتے رہے، گوشت پکتا رہا، مولوی صاحب کی بابلند قرات ہوتی رہی اور بچوں کا شور بھی برابر مچتا رہا۔میں ہمیشہ سے سوچتا تھا کہ انسان کیونکر پیدا ہوئے اب سوچتا ہوں کہ انسان پیدا کیوں کر نہ ہوئے”.

مختار احمد سائر چترال سنوغر

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57885

داد بیداد۔ سفارتی عملے کا اخراج ۔ ڈاکٹرعنا یت اللہ فیضی

دو خبریں ایک ساتھ ایک ہی رو ز آگئی ہیں اور میڈیا پر چھا گئی ہیں پہلی خبر یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے سکر ٹری جنرل انتو نیو گو تریس نے افغا نستا ن میں غر بت، بے روز گاری اور قحط کی صورت حا ل پر تشویش کا اظہار کر تے ہوئے عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ امریکہ میں افغا نستان کے منجمد اثا ثوں پر پا بندی ہٹا ئی جا ئے اور افغا نستان میں سر کاری شعبے کے ملا زمین کی تنخوا ہیں ادا کرنے کے لئے فنڈ جا ری کیا جا ئے تا کہ انسا نی المیہ رونما نہ ہو دوسری خبر بھی امریکہ اور افغا نستا ن کے حوالے سے ہے خبر میں بتا یا گیا ہے کہ سکر ٹری جنرل کی اپیل شائع ہونے کے دو گھنٹے بعد امریکہ نے واشنگٹن میں افغا نستا ن کا سفارت خا نہ بند کر کے سفارتی عملے کو ملک سے نکل جا نے کا حکم دیا عالمی قوا نین کی رو سے کسی ملک کا سفارت خا نہ بند کر نا اور سفارتی عملے کو ملک سے نکا ل دینا کسی ملک سے دشمنی کا آخر ی در جہ اور آخری قدم ہو تا ہے اسے بین الاقوا می تعلقات میں تہذیب اور شا ئستگی کے خلا ف سمجھا جا تا ہے.

یہ بات طے ہے کہ امریکہ اورافغا نستا ن دونوں آزاد مما لک ہیں دونوں کو دوست اور دشمن رکھنے کا حق ہے دونوں کو اپنی پسند کے سیا سی اور ما لیاتی نظا م کو اختیار کرنے کا حق ہے دونوں کو کسی تیسرے ملک کے ساتھ تعلقات قائم کر نے یا توڑ نے کا حق ہے تا ہم اس حق کو استعمال کرنے کے اسلوب اور اداب متعین ہیں جنہیں سفارتی آداب کہا جا تا ہے 15اگست 2021کو سابق افغا ن صدر اشرف غنی کے فرار کے بعد افغا نستا ن کی حکومت ان جنگجو سرداروں کو مل گئی جن کے ساتھ 4سا لوں سے قطر کے شہر دوحہ میں امریکی حکومت مسلسل مذاکرات کر رہی تھی مذا کرات کا مقصد یہ تھا کہ جنگجو ہتھیار پھینک دیں حکومت میں آجا ئیں اور افغا نستا ن کا اقتدار سنبھا لنے کے لئے پر امن راستہ اختیار کریں اشرف غنی کے فرار کے بعد افعان جنگجو پر امن طریقے سے کا بل میں داخل ہوئے اقتدار سنبھال لیا اور امن کے ساتھ کا روبار مملکت چلا نے لگے اب عا لمی طاقتوں کو مل کر افغا نوں کا ساتھ دینا چا ہئیے اور دوحہ امن معا ہدے کی رو سے افغا نستا ن کی نئی حکومت کو تسلیم کرنا چا ہئیے،

منجمد اثا ثوں کو عا م استعمال کے لئے کھول دینا چا ہئیے اور افغانستان کی نئی حکومت کے ساتھ سفارتی، دفاعی، معا شی اور سما جی تعلقات میں پہلے سے زیا دہ سر گر می دکھا نی چا ہئیے مگر ایسا ہو تا ہو ا نظر نہیں آتا عالمی طا قتوں کو افغا نستا ن کی نئی حکومت سے 5شکا یتیں ہیں پہلی شکا یت یہ ہے کہ ان کے لیڈر پینٹ شرٹ اور نکٹا ئی کیوں نہیں پہنتے، شلوار قمیص اور پگڑی کیوں پہنتے ہیں؟ دوسری شکا یت یہ ہے کہ نئی حکومت کے امیر، وزیر اعظم اور وزرا اپنی مذہب کے مطا بق نما ز کیوں پڑھتے ہیں،مسجدوں میں کیوں جا تے ہیں؟ تیسری شکا یت یہ ہے کہ افغا نستا ن کی نئی حکومت نے شراب اور سود پر کیوں پا بندی لگا ئی ہے؟ چو تھی شکا یت یہ ہے امارت اسلا می افغا نستا ن نے کو کنا ر کی فصل، افیون، تریاق اور ہیروئین پر کیوں پا بندی لگا ئی ہے؟ پا نجویں شکا یت یہ ہے کہ امارت اسلا می افغا نستا ن نے عورتوں کو پر دے کی پا بندی کا حکم کیوں دیا ہے؟ ان شکا یتوں کا تعلق مذہب اور ثقا فت سے ہے اگر امریکہ جمہوریت کا علمبر دار ہے تو اس کو چا ہئیے کہ افغا نوں کے مذہبی اور ثقا فتی اقدار (Values) کا احترام کرنا سیکھے جمہوری اصولوں کے مطا بق اقوام متحدہ کے سکر ٹری جنرل کی اپیل پر غور کر ے اور افغا نستا ن کے ساتھ ایسے ہی تعلقات قائم کرے جیسے برازیل، پر تگال، سعودی عرب اردن، بحرین اور متحدہ عرب اما رات کے ساتھ تعلقات قائم رکھتا ہے مذہبی اور ثقا فتی امتیاز کی وجہ سے کسی قو م کو زندہ رہنے کے حق سے محروم نہیں رکھا جا سکتا، ایسا کرنا نسلی امتیاز (Apartheid)کہلا تا ہے جمہوری رویہ نہیں کہلا تا۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57883

جرائم اورعدم تحفظ گھمبیرانسانی معاملہ – قادر خان یوسف زئی کے قلم سے

کسی بھی ملک کی انسانی سیکورٹی کی صورت حال کا اندازہ جرائم کی شرح سے کسی بھی قسم کی رپورٹ سے لگایا جاتا ہے۔ عمومی طور پر تجزیہ کے لئے جرائم کی شرح کو ایک لاکھ نفوس پر منقسم کرکے جرائم کی تعداد طے کی جاتی ہے۔ کسی بھی ملک کے حالات  اورسماجیات دوسرے ملک سے قطعی مختلف ہوتے ہیں، اسی طرح جرائم کی وجوہ بھی بہت سے عوامل سے جڑی ہونے کے باعث ریکارڈ کا حصہ بنتی ہے۔ عموماََ جرائم کی وجوہ میں غربت کی بلند سطح، بے روز گاری جرائم کی شرح کو بڑھانے کا سبب اور قانون کے نفاذ کے لئے سیکورٹی اداروں کا عملی کردار اور سخت سزائیں جرائم کی کمی شرح کو کم کرنے کے رجحان میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ عالمی جائزہ رپورٹوں میں زیادہ جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کی عمریں 20سے30 برس کے درمیان ہوتی ہیں، امریکہ میں جرائم  کی مجموعی شرح 47.70 ہے۔ امریکہ میں گذشتہ 25 برسوں میں پرتشدد جرائم کی شرح میں نمایاں کمی بتائی جاتی ہے، لیکن امریکی ریاستوں میں جرائم کی شرح کی وجوہ مختلف ہونے کی وجہ سے بہت زیادہ بھی ہے۔ الاسکا، نیو میکسیکو اور ٹینیسی جیسی ریاستوں میں مائن، نیو ہیمپشائراور ورمونٹ میں جرائم کی شرح بہت زیادہ بتائی جاتی ہے جب کہ دنیا کی سب سے کم جرائم کی شرح سوئٹزر لینڈ، ڈنمارک، ناروے، جاپان اور نیوزی لینڈ میں ان کے مقابلے میں کم ہے۔ جرائم کی شرح کی کمی و بیشی کا اہم محرک موثر قانون نافذ کرے والے ادارے ہیں۔  ڈنمارک، ناروے اور جاپان نے اپنے معاشرے کو قانون کا سخت پابند بنانے کے لئے قوانین کی رٹ کو قائم بھی کیا ہے۔


ورلڈ کرائم انڈکس کے مطابق براعظم جنوبی امریکہ میں واقع وینزویلا جرائم کا انڈیکس 83اعشاریہ 76 کے ساتھ دنیا میں پہلے نمبرپر ہے۔ زیر زمین 300 اعشاریہ 787ملین بیرل تیل محفوظ رکھنے والے ملک کو امریکی محکمہ خارجہ کی ٹریول ایڈوائزری کے لیول 4 کے مطابق اپنے شہریوں کووینزویلا کے سفر نہ کرنے کی ہدایت جاری کی گئی۔ وینزیلا میں جرائم کی شرح بڑھنے کے اسباب میں بدعنوان حکام، عدلیہ کا ناقص نظام اورپرتشدد رجحانات قرار دیئے جاتے ہیں۔  پاپوا نیو گنی جزیروں پر مشتمل ملک ہے، اس کا دارالحکومر پورٹ مورسبی ہے۔ آٹھ کروڑ 93 لاکھ پانچ ہزار نفوس کا یہ ملک 80 اعشاریہ  79 پوائنٹس کے ساتھ دنیا میں دوسرے نمبر ہے، گینگ وار، پرتشدد واقعات، مجرمانہ سرگرمیاں، کم تعلیم اور روزگار کے محدود مواقع نے بدعنوانی کے ساتھ جرائم کی شرح میں اضافہ کیا ہے۔ بالخصوص منشیات اور انسانی اسمگلنگ میں پاپوا نیو گنی پرکشش شمار کیا جاتا ہے۔، جنوبی افریقہ 76 اعشاریہ 86 انڈکس پوائنٹ کے ساتھ دنیا میں سب سے زیادہ جرائم کی شرح رکھنا تیسرے نمبر پر آنے والا ملک ہے۔ جنوبی افریقہ میں جرائم کی شرح میں عصمت دری، ٹارگٹ کلنگ، پرتشدد واقعات میں اضافہ ہے، جنوبی افریقہ کی میڈیکل ریسرچ کونسل کے سروے کے مطابق 4میں سے 1سے زیادہ مردوں نے عصمت دری کا اعتراف کیا۔دنیا میں جرائم کی اضافی شرح کے پیمانے پر،افغانستان  76 اعشاریہ 31 پوائنٹس کے ساتھ دنیا میں چوتھے نمبر پر موجود  ہے، افغانستان میں زیادہ تر جرائم کا تعلق بدعنوانی، منشیات کی اسمگلنگ، اغوا اور منی لانڈرنگ سے ہے۔ تاہم 2021 میں افغان طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد جرائم کی نوعیت تبدیل ہوسکتی ہے، لیکن سال 2021 کے اعداد و شمار کے مطابق افغانستان دنیا کو  85 فیصد افیون سپلائی کرنے ملک رہا ہے۔ افغان طالبان کو اس وقت معاشی بحران کا سامنا ہے، اگر حالات تبدیل نہ ہوئے تو ملک میں جرائم سمیت کئی غیر قانونی عوامل بڑھنے کے امکانات بڑھ سکتے ہیں۔ عالمی سطح پر جرائم کی بلند شرح میں مرکزی امریکا کا ہسپانوی زبان بولنے والا ہونڈوراس 74 اعشاریہ  54 پانچویں نمبر پر ہے۔ 9 کروڑ 26 لاکھ   5067 افراد پر مشتمل ملک کو امریکہ میں منشیات کا ایک بڑا راستہ بھی سمجھا جاتا ہے۔ جرائم کی نوعیت میں گینگ وار کے نتیجے میں روزانہ کی بنیاد پر18سے20 افراد قتل کے واقعات رونما ہوتے تھے۔ امریکہ محکمہ خارجہ کی ایڈوئزری کے لیول 3کے تحت مسافروں کو ہونڈوراس کا دورہ کرنے کا انتباہ جاری کیا ہوا ہے۔ جمہوریہ ٹرینیڈاڈ اور ٹوباگو براعظم امریکہ کا ملک ہے جو بحیرہ کیریبین کے جنوب میں وینزیلا سے محض 11 کلو میٹر کی دوری پر واقع ہے۔


ٹرینیڈاڈ اور ٹوباگو71 اعشاریہ 63  پوائنٹس کے ساتھ دنیا میں چھٹے نمبر پر ہے۔ اس ملک کو جرائم کی مختلف نوعیت میں نوکر شاہی کی مزاحمت، گینگ وار، منشیات، معاشی کساد بازای، اور غیر قانونی ہتھیاروں کی بڑی اور آزاد منڈی کو طور پر دیکھا جاتا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ نے اپنے ایڈوئرزی لیول میں اسے لیول 2پر رکھتے ہوئے مسافروں کو زیادہ احتیاط برتنے کی ہدایات جاری کیں، جس میں زیادہ تر جیب تراشی، حملہ، چوری اور دھوکہ دہی کے معاملات زیادہ بتائے گئے ہیں۔،گیانا جنوبی امریکہ کے شمالی ساحل پر ایک ایسی ممالکت ہے جس کی سرحدیں وینزیلا، سرینام اور برازیل سے ملتی ہیں۔گیانا 68   اعشاریہ 74 پوائنٹس پربلند شرح جرائم کے ساتھ دنیا میں ساتویں نمبر پر ہے۔ یہاں قتل کی شرح امریکہ سے چار گنا زیادہ ہے، آتشیں اسلحہ کے غیر قانونی اور جرائم پیشہ عناصر کی جانب سے عام استعمال سمیت گھریلو تشدد کے واقعات میں اضافہ، کمزور قوانین، مسلح ڈکیتیوں اور ہوٹلوں میں سیاحوں کے ساتھ بدسلوکی اور تھوڑ پھوڑ کے واقعات اور حملوں میں اضافے کے سبب دارالحکومت جارج ٹاؤن کو غیر محفوظ اور مجموعی طور پر پورے ملک میں جرائم کی شرح میں لاقانونیت کو اہم سبب قرار دیا جاتا ہے۔ وسطی امریکہ کا سب سے چھوٹا اور گنجان آباد ملک ایل سلواڈور67 اعشاریہ 79  پوائنٹس پر آٹھویں نمبر پر ہے۔ یہاں جرائم کی نوعیت میں گینگ وار ہے جو سماجی تشدد میں ملوث ہونے کے علاوہ منشیات فروش گروہوں اور علاقائی تنازعات اہم اسباب میں شمار کئے جاتے ہیں۔ بے روزگاری کی بلند ترین سطح اور کم اجرت نے پس ماندگی میں اضافہ کیا ہے جس کی وجہ سے ڈکیتی، چوری بالخصوص گاڑی چھیننے کے بڑھتے واقعات سب سے زیادہ عام ہیں۔  برازیل67 اعشاریہ 49 پوائنٹس پرتشدد واقعات کے ساتھ غیر معمولی شرح کے ساتھ جرائم کی شرح میں دنیا کے نویں نمبر پر آنے والا ملک ہے۔ 2020 میں برازیل 23.6 قتل فی ایک لاکھ باشندوں کے حساب سے بلند رہی۔ حریف گروپوں کے درمیان تشدد ایک معمول سمجھا جاتا ہے  منشیات کی سمگلنگ، بدعنوانی اور گھریلو تشدد برازیل میں مسائل کا سب سے گھمبیر معاملہ ہے۔
بنگلہ دیش جرائم کی بلند شرح میں 63.9 پوائنٹس کے ساتھ عالمی فہرست پر17 ویں نمبر،ایران

49.38 پوائنٹس پر48ویں،عراق48.42 میں 53ویں، امریکہ 47.81 پوائنٹس کے ساتھ 56ویں،بھارت 44.43 کے ساتھ71 واں،نیوزی لینڈ  42.88پوائنٹس کے ساتھ 77ویں اور پاکستان عالمی سطح پر بلند شرح کے 42.51 پوائنٹس کے ساتھ 79ویں نمبر پر آتا ہے۔137ممالک پر ترتیب دئیے جانے والے جرائم میں اضافے کی اس فہرست میں 136نمبر متحدہ عرب امارات کا نمبر15.23پوائنٹس کے ساتھ136ہے اور کم ترین جرائم کا شکار ملک قطر ہے جو 137ویں نمبر پر12.13پوائنٹس پر آیا ہے۔


عالمی شرح کو مد نظر رکھتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے کہ لاقانویت، قانون کی رٹ قائم نہ ہونے کی وجہ سے جرائم کی شرح میں اضافہ ہوتا ہے اور اس سے عام انسان کی زندگی کو تحفظ فراہم کرنا دشوار ہوجاتا ہے۔  انسانی تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی پیشہ وارنہ تربیت اور نظام انصاف کا موثر و فعال کردار سب سے اہم خیال کیا جاتا ہے۔ جرائم پیشہ عناصر جدید دور میں دستیاب سہولیات کا غلط استعمال کرکے عام انسانی تحفظ کو بھی مشکل بنا رہے ہیں۔  بدعنوانی، منشیات کی اسمگلنگ، اغوا اور منی لانڈرنگ، ڈکیتی، چوری، بے روزگاری، نوکر شاہی کی مزاحمت، گینگ وار، منشیات، معاشی کساد بازای، اور غیر قانونی ہتھیار،  جیب تراشی، حملہ، چوری اور دھوکہ دہی،سماجی و گھریلو تشدد اور پرتشدد واقعات، مجرمانہ سرگرمیاں، کم تعلیم  ایسے نمایاں جرائم ہیں جن سے شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے تکنیک، پیشہ وارنہ استعداد کار، قابلیت، اہلیت اور مخلص اہلکاروں سمیت کمیونٹی کی سطح پر محافظ کمیٹیاں وغیرہ بنانے سے انسانی تحفظ کو یقینی بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔ سیکورٹی فورسز کے تمام اداروں کی باہمی ربط سے انٹیلی جنس ذرائع کا مربوط ہونا بھی ناگزیر ہے۔ قومی سلامتی پالیسی میں انسانی تحفظ کے لئے بیشتر مسائل پر قابوپانے کے لئے کیمونٹی کی سطح سے لے سیکورٹی ہائی  پروفائلنگ تک مصدقہ اطلاعات پر ٹارگٹڈ کاروائیاں اور  فوری انصاف ہی کارآمد ہوسکتا ہے۔ عالمی سطح پر مبنی جرائم کی بلند شرح کی وجوہ کو مد نظر رکھتے ہوئے ناممکن نہیں ہوگا کہ کیمونٹی کے ساتھ مل کر سیکورٹی فورسز، ریاست اور حکومت انسانی تحفظ کو یقینی بنا سکتے ہیں۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57881

مسلم لیگ نواز کی اپر چترال میں تنظیم سازی باامرِ مجبوری۔ ذاکر زخمی بونی اپر چترال

مؤرخہ 28 جنواری 2022 کو بونی اپر چترال میں مسلم لیگ کا اجلاس ہوکر ایک عبوری کابینہ وجود میں لائی گئی۔ نا موافق اور انتہائی سرد موسم کے باوجود اپر چترال سے کثیر تعداد میں معزز حضرات مختلف علاقوں سے قربانیاں دیکر میٹنگ میں شرکت کی۔اس سے ان لوگوں کو ایک پیغام ضرورملا جو مسلم لیگ کو زمین بوس اور ختم ہونے کی شادیانے بجا رہے تھے اور خواب دیکھ رہے تھے۔ انہیں اندازہ ہوا کہ نہیں مسلم لیگ غیر فعال ضرور ہوئی ہے ختم نہیں ہوسکتی کیونکہ یہ ان لوگوں کی جماعت ہےجو اپنی علاقائی عظیم روایات کی پاسداری کرتے ہوئے علاقے میں مثبت سوچ اور کردار کی ترجمانی کرتے ائیے ہیں اور علاقے کی تعمیر و ترقی میں ان کا ناقابل فراموش حصہ رہاہے ۔وہ غیر فعال ہوسکتے ہیں ختم نہیں۔

کل کی اجلاس ایک شوق نہیں مجبوری تھی بلدیاتی انتخابات شہہ رگ سے بھی زیادہ قریب اچکے ہیں علاقے میں موجود تمام پارٹیز انتہائی متحرک ہوئے ہیں اور بھر پور تیاری کے ساتھ الیکشن میں کودنے کے لیے سرگرم عمل ہیں ایسی صورت حال میں مزید خاموشی کا مقصد ان لوگوں کی دعووں کو تقویت پہنچانا ہی تھا جو کہتے تھے کہ مسلم لیگ ختم ہو چکی ہے۔ ان کے باتوں میں وزن اس لیے تھی کہ گزاشتہ کئی سالوں سے اپر چترال میں مسلم لیگ کے لیے آواز بلند کرنے والا ان کی خدمات کا دفاع کرنے والا کوئی لیڈر اور ورکر متحریک نہیں تھے۔ تنظیم تو سرے سے موجود ہی نہیں تھا منتشر ورکرز کا ایک فی فیصد زیرِ لب اور دھیمے لہبجے پارٹی کی دفاع کر رہے تھے اور چند معزز حضرات سوشل میڈیا کے ذریعے طوفان کے اگے بند باندھنے میں مصروف تھے۔۔

ان میں خصوصاً خالد حسین تاج ایڈوکیٹ بابنگ دھل باآواز بلند ہمہ وقت مسلم لیگ نواز کے دفاع میں حقائق اجاگر کرتے دیکھائی دی اُن کے لیے ہمیشہ دل میں احترام رہا اس لیے نہیں کہ وہ پارٹی کا حصہ تھا۔بلکہ اس لیے کہ بُرے وقت میں پارٹی کے دفاع میں توانا کردار ادا کرتے رہے اور ورکروں کو حوصلہ دیتے رہے اس لیے میں اپنی طرف سے خالق حسین تاج ایڈوکیٹ کو سلام پیش کرتا ہوں۔ میرے دل میں ان کے لیے بےپناہ محبت اور احترام ہے اور رہیگا ساتھ ہی تر جمان مسلم لیگ چترال نیاز اے نیازی ایڈوکیٹ ،محترم ایڈوکیٹ محمد کوثر اور نوجوان سرگرم لیگی برخوردار انعام الله حتہ القدور پارٹی کے دفاع میں سرگرم رہے۔اب آتے ہیں اصل صورت حال کل کے پارٹی انتخابات کی طرف۔انتخابات کے بعد چند معزز مخلص اور وفادار حضرات اپنی روایتی شرافت،اخلاق اور شائستگی کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے تحفظات کا اظہار کررہے ہیں۔ان کا سوچ فکر مخلصانہ ہے ۔

ان کے رائے کا احترام کرتے ہوئے ان سے متفق ہونے کے سیوا کوئی کوئی دوسری رائے نہیں۔البتہ اصل مجبوری اور درپیش صورت حال کے تناظر میں جو کچھ ہوا اس کی وضاحت ضروری ہے۔کل کی میٹنگ کسی زمہ دار فرد کی بلائی ہوئی میٹنگ نہیں تھی کیونکہ اپر چترال ضلع بننے کے بعد یہاں زمہ داری کسی کو تقویض نہیں ہوئی تھی یہ صرف مسلم لیگ کے بہی خواہ درد رکھنے والے چند مخلص ورکروں کی مسلسل جدوجہد کے نتیجے ٹیلی فونک رابطے یا واٹسپ گروپ کے ذریعے اطلاع دینے کے بعد میٹنگ منعقد ہوئی تھی جس میں حالات اور توقع سے بڑھکر انتہائی معزز لوگ موسم کی خرابی کے باوجود شرکت کی ان میں وہ شخصیات بھی شریک تھے جو مسلم لیگ کو کندھا دیکر شروع سے تا اندام اگے بڑھا رہے ہیں۔اور چترال میں مسلم کے پہچان اور عرصے تک پارٹی سے منسلک رہ کر خدمات انجام دینے والے شخصیات بھی شریک ہوئے جو میٹنگ کی سب سے بڑی کامیابی تھی ان کی شرکت کی وجہ اپر چترال سے اتفاق و اتحاد کے ساتھ روادری اور روایتی اقدار کا پیغام صوبہ اور مرکز تک گیا۔ جسے دوران میٹنگ صوبائی صدر پاکستان مسلم لیگ نواز محترم امیر مقام صاحب نے ٹیلیفونک خطاب کے دوران سراہتے ہوئے اپر چترال کے لیگی رہمناوں کا شکریہ ادا کیا اور شاباش دی۔ جو کہ خوشگوار آغاز کی نوید ہے۔

آپ روادری ،برداشت ایک دوسرے کے رائے کے احترام کا اس بات سے اندازہ بھی لے سکتے ہیں۔ کہ طویل عرصے بعد ایک ہی میٹنگ کے ذریعے کابینہ سازی کرنا شاید دوسروں کی بس کی بات نہ تھی یہ صرف مسلم لیگ نواز ہی کرکے اوروں کے لیے مثال قائم کی ۔یقیناً اس میں کوتاہیاں ضرور ہوئی ہیں جو قصداً ہر گِز نہیں البتہ اس میں نیک نیتی اور مجبوریاں ضرور شامل ہیں۔دو تحصیلوں کا مسلہ اور دونوں کمیونٹی کا خیال رکھنا سب سے مشکل مرحلہ تھا اور عہدے کم تھے،بلدیاتی انتخابات قریب تھی ان سب چیلینجز سے نمٹنا انتہائی مشکل مرحلہ تھا ۔اللہ الله کرکے جو کچھ بھی وجود میں آئی ہے۔ یہ کوئی حرفِ آخر نہیں۔وقت گزرنے کے ساتھ انشاء الله اس میں بہتری آنے کی امید کی جاسکتی ہے ۔نا امیدی امید میں بدل سکتی ہے ۔احساسِ محرومی کاازالہ کیا جاسکتا ہے ۔اس وقت مسلم لیگ اپر چترال میں ایک پودے کی مانند ہے اسے تناور اور پھلدار درخت بنانے کے لیے ابیاری کی ضرورت ہے ائیے رنجشیں بھلاکر دل میں کدورتیں مٹا کر دن رات اس کی ترقی کے لیے کمر بستہ ہوتے ہیں۔اور اس پارٹی کو اپر چترال کے لیے ذریعہ رحمت بنانے میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں آنے والا وقت انشاء الله پاکستان مسلم لیگ نواز کا ہوگا ۔اور علاقے کی تعمیر و ترقی میں ہم سب کا کردار ادا کرنا ہو گا۔
الله آپ سب کا حامی و ناصر ہو۔


Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57879

شہزادہ خالد پرویز اور پاکستان پیپلز پارٹی۔ محکم الدین ایونی

انسانی زندگی میں بعض اوقات رونماہونے والے واقعات انہونی لگتے ہیں ۔ خصوصا سیاست اور جنگ میں سب کچھ جائز ہونے کے باوجود بھی کچھ ایسے حالات دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ کہ انسان محو حیرت بن جاتا ہے۔ شہزادہ خالد پرویز کی حالیہ دنوں میں پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت بھی چترال کے لوگوں کیلئے کچھ ایسا ہی باعث حیرت و تعجب ہے ۔ اور اس حوالے سے مختلف قسم کی قیاس آرائیاں بھی کی جا رہی ہیں ۔

چترال کی سیاست پر تین عشروں سے زیادہ بحیثیت سابق وفاقی وزیر مملکت برائے سیاحت، ایم این اے ، چیرمین ڈسٹرکٹ کونسل اور ضلع ناظم کے منصب پر رہنے والے معروف سیاسی شخصیت شہزادہ محی الدین کے تعلقات و سیاسی اثرات سے آج بھی اس کے فرزندان ارجمند سابق ایم این اے شہزادہ افتخار الدین اور سابق ناظم شہزادہ خالد پرویز فوائد حاصل کر رہےہیں ۔ گو کہ دونوں شہزادگان میں بے پناہ صلاحیتیں موجود ہیں ۔ تاہم بڑے شہزادہ کی وسیع سیاسی زندگی کے ثمرات سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔ اس وقت دلچسپ امر یہ ہے ۔ کہ شہزادہ خالد پرویز جو چترال میں آل پاکستان مسلم لیگ اور پاکستان مسلم لیگ ن کے آمیزش سے جنم لینے والی دو رنگی مسلم لیگ کے گھوڑے پر سوار معلق سیاسی زندگی گزار رہےتھے۔ پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کر چکا ہے ۔ جس میں پاکستان پیپلز پارٹی کے صوبائی صدر نجم الدین خان کی خصوصی دلچسپی نظر آتی ہے ۔ نجم الدین خان اور شہزادہ خالد پرویز نے گذشتہ روز پارٹی کے قائد بلاول بھٹو زرداری سے ملاقات کی ۔ اور شہزادہ خالد پرویز نے مفلر گلے میں ڈال کر بلاول بھٹو زرداری کے ہاتھ بیعت کر لی ۔ اس مختصر شمولیتی تقریب میں بات نوٹ کرنے کی یہ تھی ۔ کہ دو عشروں تک چترال میں پاکستان پیپلز پارٹی کے صدر اور موجودہ صوبائی رہنما سلیم خان موجود تھے اور نہ موجودہ صدر پی پی پی چترال انجنیئر فضل ربی تقریب میں نظر آئے ۔ جس سے بعض کارکنان کی طرف سے یہ سوال اٹھایا جارہا ہے ۔ کہ اس اہم شمولیتی تقریب میں کم از کم موجودہ ضلعی صدر اور سابق صدر کو شرکت کی دعوت دی جانی چاہیے تھی ۔ لیکن نامعلوم ایسا مناسب کیوں نہیں سمجھاگیا ۔

شہزادہ خالد پرویز منجھےہوئے سیاستدان کے فرزند اور افتخارالدین ایم این اے کے بھائی ہیں۔ اور خود بھی سیاست پر کافی تجربہ رکھتے ہیں انہوں نے نجم الدین خان کی یقین دھانی اور سیاسی حالات کا رخ بھانپتے ہوئےہی پی پی پی میں شمولیت اختیار کی ہو گی ۔ یہ بھی ممکن ہے۔کہ عنقریب منعقدہونے والے بلدیاتی انتخابات میں تحصیل ناظم دروش کیلئےبطور امیدوار بھی نامزد کئے جائیں گے۔ اگر ایسا ہوا ۔ تو وہ اپنی تحصیل میں مضبوط امیدوار کے طور پر سامنے آ سکتے ہیں ۔ دروش ایک جنگلاتی علاقہ ہے ۔ اس میں پارٹی مفادات سے زیادہ جنگلاتی مفادات کےحوالے سے فیصلےکئےجائیں گے ۔ جس میں شہزادہ فیملی کا مضبوط حلقہ موجود ہے ۔ لیکن پیپلز پارٹی کے اندربعض ناقدین جن کو شہزادہ فیملی سے خدا واسطے کا بیر ہے ۔ پیپلز پارٹی میں ان کی شمولیت سے کچھ زیادہ خوش نہیں آتے۔ اور ان کا کہنا ہے۔ کہ در اصل پیپلز پارٹی سے ان کی وابستگی کی بنیادی وجہ شہزادگان سے مخاصمت ہے۔ اب ان کیلئے پیپلز پارٹی میں بھی کوئی جگہ نہیں رہی ۔ لیکن اس قسم کی سوچ رکھنے والوں کی تعداد بہت کم ہے ۔


پاکستان پیپلز پارٹی چترال کے سابق صدر سلیم خان کی صوبائی قیادت میں شامل ہونے کے بعد جس قسم کے رہنما کی ضرورت تھی ۔ اس خلا کو ” رائٹ پر سن فار دے رائٹ جاب ” کے مصداق پیپلز پارٹی چترال نے پر کر لیا ہے۔ انجینئیر فضل ربی جان ایک سنجیدہ ، با کردار ، مثبت سوچ کے حامل، انتہائی متحرک ، ورکرز کو احترام دینے والے رہنما ہیں۔ چترال بھر میں وسیع تعلق رکھتےہیں ۔ سیلف میڈ شخصیت ہیں۔ انہوں نے اپنی صدارت کے مختصر عرصے میں عوام میں جگہ بنالی ہے ۔ وہ خاندانی طور پر پیپلزپارٹی سے تعلق رکھتے ہیں ۔ گو کہ کچھ وقت انہوں نے دوسری پارٹی کے ماحول میں گزارا ۔ لیکن صبح کا بھولا شام کو واپس آئے تو اسے بھولا نہیں کہتے ہیں کے مصداق وہ پیپلز پارٹی ہی سے ہیں ۔


انجینئر فضل ربی کیلئے حالیہ بلدیاتی انتخابات ایک چیلنج کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ یہ ان کی صدارت کا پہلا امتحان ہے ۔ کہ وہ بطور صدر پاکستان پیپلز پارٹی چترال ایک کامیاب کوچ کی طرح پہلے اپنے انتخابی امیدواروں کے ناموں کا فیصلہ کرنے میں کس حد تک کامیاب ہوتےہیں ۔ اس کے بعد مقابلے کی ٹیموں کیلئے کیسی حکمت عملی ترتیب دیتےہیں ۔ ان کی صلاحیتوں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔ ک وہ ایسا کرنے کی بھرپور قابلیت رکھتے ہیں۔
بلدیاتی الیکشن سے اگرچہ کوئی انقلابی تبدیلی کی امید نہیں ہے ۔ لیکن یہ بات طے ہے۔ کہ اس کے براہ راست اثرات جنرل الیکشن پر پڑیں گے ۔ اب چونکہ جنرل الیکشن کیلئے وقت بہت کم رہ گیا ہے۔ تو گویا بلدیاتی الیکشن جنرل الیکشن کا ریہرسل ہیں ۔ چترال میں ملک کے نامور پارٹیوں کے مقابلےہوں گے ۔ اب دیکھنا یہ ہے۔ کہ کونسی پارٹی عوام کو رام کرنےمیں کامیاب ہوتی ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامین
57860

صدارتی نظام کی پیشنگوئیاں ۔(اکبر حسین)

رواں سال کے وسط تک تحریک انصاف کی حکومت اپنی  مدت کا تقریباً 80 فیصد حصہ مکمل کرنے جا رہی ہے۔ اگر کوئی نا دیدہ قوت آڑے نہ آئی ،خود وزیراعظم کسی سیاسی مصلحت کا شکار نہ ہو جائے یا پھر اپوزیشن کی طرف سے کوئی دبنگ قدم نہ اٹھایا گیا تو قرین قیاس یہی ہے کہ خان صاحب  بطور وزیراعظم اپنی آئینی مدت یعنی پانچ سال پوری کر لے۔یہ ہماری پارلیمانی تاریخ میں ایک سنگ میل ہے جواب تک ہم عبور کرنے سے قاصر ہیں۔
ملک کے پہلے وزیراعظم  قائدملت لیاقت علی خان ایک غیر ملکی شدت پسند کے ہاتھوں جب شہید ہوئے تو اس وقت  عہدے کا چارج سنبھال کر آپ کے چار سال اور تیرسٹھ دن ہو گئے تھے۔


جنرل ضیا الحق نے جب فوجی طاقت کے بل بوتے پر ملک کی منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو معزول کیا تو اس وقت بھٹو صاحب  کو “ادھر” والی پاکستان کے  وزیراعظم کی کرسی سھنبالے  تین سال اور  325دن ہو چکے تھے۔ اس کے بعد صدر غلام اسحاق خان نے اپنی ایک ہی مدت صدارت میں جنرل ضیاء کی اختراع، آرٹیکل 58(2b) کو بروئے کار لاتے ہوئے بالترتیب محترمہ بینظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کی حکومتوں کو آئینی مدت پوری ہونے سے  دو یا تین سال پہلے ہی چلتا کر دیا۔ بےنظیر بھٹو کو دوسری مرتبہ صدر فاروق لغاری نے غلام اسحاق خان کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے اسمبلی و کابینہ سمیت گھر کا راستہ دکھایا تو اس وقت اس کی مدت کے بمشکل تین سال اور سترہ دن گزر گئے تھے۔ 1997 کی عام انتخابات میں میاں نواز شریف بھاری مینڈیٹ سے دوسری مرتبہ وزیراعظم منتخب ہوئے لیکن دو سالوں کے اندر ہی سپہ سالار وقت سے اس کا نہ بن پایا۔ اکتوبر 1999 کو فوجی طالع آزما جنرل پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کرلیا اور ساتھ ہی آئین کو بھی متروک کر دیا۔

جنرل مشرف اپنی پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ ساتھ کسی حد تک خود کو ایک نابغہ روزگار سیاستدان کے طور پر منوانے کی کوشش بھی کی۔ اپنی پالیسی بیان میں ہی انہوں نے جمہوریت کے قریب تر نظام کا عندیہ دیا تھا۔ اقتدار چھین لینے کے تین سال بعد ہی انہوں نے ملک میں عام انتخابات کروایا جس میں اس کی منظور نظر جماعت مسلم لیگ ( ق) کو وفاق میں حکومت بنانے کا موقع ملا ۔ مشرف نہ صرف پارلیمنٹ سے ووٹ کے ذریعے خود کو صدر چنوا لیا بلکہ آئین میں سترھویں ترمیم کے ذریعے سے اسمبلی اور کابینہ کو برطرف کرنے کا استحقاق بحال کر لیا لیکن ایسے فیصلے کو پندرہ دنوں کے اندر عدالت عظمیٰ ریفر کرنے اور تیس دنوں میں حتمی فیصلہ دینے سے مشروط کر دیا گیا۔ گو کہ مشرف ایک فوجی آمر تھا لیکن یہ انہی کا دور تھا جب تاریخ میں پہلی بار قومی وصوبائی اسمبلیاں اپنی آئینی مدت پوری کر لیں۔ اپنی نیم جمہوری روش اور سیاسی جماعتوں کی دباؤ سے مشرف ملک میں عام انتخابات کروانے پر مجبور تھے۔ لہذا ملک میں عام انتخابات کا انعقاد ہوا جس کے نتیجے میں پاکستان پیپلز پارٹی نے مرکز میں اکثریت حاصل کی اور سید یوسف رضا گیلانی صاحب وزیراعظم منتخب ہوئے۔ دریں اثنا پرویز مشرف کو بھی مواخذے سے بچنے کے لیے صدارت سے استعفیٰ دینا پڑا۔ گیلانی صاحب کے وزارت عظمیٰ کے منصب پر چار سال اور تین مہینے ہونے کو ہی تھے کہ توہین عدالت کیس میں اسے عہدے سے ہاتھ دھونا پڑا۔


میثاقِ جمہوریت کے نام سے ملک کے دو بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین کی طرف سے ملک میں جمہوریت بحال کر نے اور اقتدار تک دوبارہ رسائی کے لیے ایک اہم معاہدہ طے پاگیا تھا۔ اس کی رو سے تیسری بار وزیراعظم بننے کی آئینی قدغن کو پیپلز پارٹی کے دور میں آٹھارویں ترمیم کے ذریعے ختم کر دیا گیا۔ چنانچہ 2013 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ(ن) کی کامیابی سے میاں محمد نواز شریف تیسری بار وزیراعظم کی کرسی پر براجمان ہوئے۔منتخب وزیراعظم کو عہدے پر فائز ہوئے چار سال اور لگ بھگ دو مہینے ہوئے تھے کہ 28 جولائی 2017 کو سپریم کورٹ نے نواز شریف کو پانامہ کیس میں سزا سناتے ہوئے کسی بھی پبلک آفس کے لیے تا حیات نا اہل قرار دے دیا۔


2018 کے عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کو کامیابی ملی تو ابھرتے ہوئے سیاسی جماعت کے سربراہ جناب عمران خان صاحب وزیراعظم منتخب ہوئے۔ خان صاحب ملک میں کرپشن اور حسب حال کی سیاست کو مات دینے کا مصمم ارادہ لے کر آئے تھے لیکن تاحال اس میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کر سکے ہیں۔  یہ بھی ایک نا قابل تردید حقیقت ہے کہ اپنی پارلیمانی اکثریت حاصل کرنے کے لئے عام انتخابات میں زیادہ تر روایتی قابل انتخاب سیاستدانوں پر ہی خان صاحب کو انحصار کرنا پڑا۔ پارلیمانی نظام کی مجبوری یہ ہے کہ اس میں وزیراعظم کو اپنی کابینہ بناتے ہوئے منتخب افراد کو چننا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خان صاحب کو ٹیم تشکیل دیتے وقت کافی دقت اور پس وپیش سے کام لینا پڑا اور بلا چون وچرا ماضی میں آزمائے ہوئے چہروں کو ہی کابینہ کا حصہ بنا دیا گیا۔
حال ہی میں میڈیا میں صدارتی نظام متعارف کرانے کی چی میگوئیاں ہو رہی ہیں۔ خیال کیا جارہا ہے کہ چونکہ خان صاحب موجودہ نظام سے ہی مطمئن نہیں ہیں جہاں پر وہ ٹھیک طرح سے ڈیلیور نہیں کر پا رہے ہیں۔ لہذا مقتدر حلقوں کی طرف سے پس پردہ کہیں صدارتی طرز حکومت رائج کرنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہو۔ حکومتی نمائندوں کی جانب سے ایسے کسی منصوبے سے لا علمی کا بار بار اظہار کیا جا رہا ہے۔


میڈیا میں بھی یہ موضوع آج کل زیر بحث ہے۔ سیاسی دانشور ، صحافی، تجزیہ کار حتیٰ کہ عام آدمی بھی پارلیمانی اور صدارتی نظام کا موازنہ کر رہے ہیں۔ بعض لوگ صدارتی نظام کو ملک کے لیے بہتر قرار دیتے ہیں اور بعض اس پارلیمانی نظام کو ہی اصلاحات کے ساتھ مضبوط خطوط پر استوار کرنے کی تجویز دیتے ہیں۔ پارلیمانی نظام کی بھی  اپنی خوبیوں کے ساتھ خامیاں اور کچھ قباحتیں ہیں۔ ایسا ہی صدارتی نظام بھی مثبت پہلوؤں کے ساتھ کچھ کمزوریاں  رکھتا ہے۔  ہماری جمہوری روایات زیادہ تر علاقائیت اور لسانیت کے گرد ہی گھومتی ہیں چنانچہ صدارتی نظام حکومت میں فائدہ تو بڑی وفاقی اکائیوں اور لسانی گروہوں کو ہی ہو سکتی ہے۔


مملکت خدا داد کی تاریخ تو ویسے بھی مختلف قسم کے سیاسی تجربات سے بھرپور ہے تو کیوں نہ اس تجربے کا خطرہ بھی مول کر ایک بار دیکھا جائے؟ صدارتی نظام کے مخالف یہ حجت پیش کرتے ہیں کہ صدارتی نظام دو تین بار پہلے بھی آزمایا گیا ہے۔ سیاسیات اور تاریخ کی ایک ادنیٰ طالب علم ہونے کی حیثیت سے مجھےان سے اس نکتے پر تھوڑا اختلاف ہے۔ چونکہ جنرل ایوب والا صدارتی نظام اس لیے خالص نہیں کہا جاسکتا کیونکہ یہ ایک فوجی آمر کے ذہن کی پیداوار تھی۔ جنرل ضیاء اور مشرف ایڈمنسٹریشن کے لیے تو نیم صدارتی اصطلاح ہی موزوں ہے۔ ہر چند کہ دونوں کے پاس اختیارات کی کوئی کمی نہیں تھی۔


نظام پارلیمانی ہو یا صدارتی اس کی کامیابی کا دارومدار صرف اور صرف جمہوریت کے اصولوں پر من و عن عمل پیرا ہونے سے ہی ممکن ہے۔ افراد میں جمہوری رویوں کو پروان چڑھانے، لوگوں میں سیاسی شعور بیدار کرنے، اداروں کے اندر جمہوری روایات کا احترام اور سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوری بنیادوں کو مضبوط کرنے سے ہی ایک خالص جمہوری نظام قائم کیا جا سکتا ہے۔ جہاں تک جمہوریت کی درجہ بندی کا تعلق ہے تو اس کے عموماً چار اقسام پائی جاتی ہیں۔ جن میں خالص جمہوریت، ناقص جمہوریت،ہائبرڈ جمہوریت اور استبدادی جمہوری نظام شامل ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں تیسرے درجے کی جمہوریت رائج ہے۔
تو بات ہو رہی تھی صدارتی نظام متعارف کرانے کی۔ اگر موجودہ حالات میں بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان کسی طرح سے ایک پر اثر سیاسی مفاہمت پیدا کی جائے تو آئینی طریقے سے کوئی “پیرےڈائم” شفٹ ممکن ہو سکتا ہے۔
اگر ایک خالص صدارتی نظام جس میں حکومت و ریاست کے سربراہ کو اگر لوگ براہ راست حق رائے دہی استعمال کرتے ہوئے منتخب کر لیں تو ایسے نظام پرلوگوں کا اعتماد بحال ہو سکتا ہے۔


ان قیاس آرائیوں کے بیچ حالیہ کچھ قانونی و سیاسی نوعیت کے واقعات بھی دلچسپی اور اہمیت کے حامل ہیں۔ مثال کے طور پر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر جناب احسن بھون صاحب نے نواز شریف اور جہانگیر ترین کے تا حیات نا اہلی کے مسئلے کو عدالت لے گئے ہیں۔ علاوہ ازیں اٹارنی جنرل صاحب کا یہ بیان کہ “اس مسئلے کو پارلیمان میں ہی لے جایا جا سکتا ہے” کسی بڑی سیاسی مفاہمت کا اشارہ دے رہا ہے۔ فی الحال تو یہ سب چی میگوئیاں ہیں لیکن آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ اونٹ کو نسی کروٹ بیٹھتا ہے؟

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57853

شکوہ ارباب وفا ۔ محمد شریف شکیب

شکوہ ارباب وفا ۔ محمد شریف شکیب

وزیراعظم عمران خان نے شہریوں کے ساتھ ٹیلی فونک گفتگو میں انکشاف کیا ہے کہ مہنگائی کی وجہ سے اس کی اپنی بھی رات کی نیندیں اڑگئی ہیں۔ملک کے اعلیٰ ترین انتظامی عہدے پر موجود شخص کو اگر پھولوں کی سیج پر نیند نہیں آتی تو خالی پیٹ فرش پر سونے والوں کی کیاحالت ہوتی ہوگی اس کا تصور بھی رونگھٹے کھڑے کرنے والا ہیں۔اگرچہ ہمارے وزیراعظم بھی لاڈ پیار میں پلے ہوئے ہیں انہوں نے دنیا کی بہترین درس گاہ سے تعلیم حاصل کی ہے اور کرکٹ کی دنیا پر بھی راج کرتے رہے ہیں۔لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کے دل میں عوام کا درد موجود ہے۔ یہ شاید عوام کی اپنی شومئی قسمت ہے کہ حکومت انہیں جتنا ریلیف دینا چاہتی ہے ان کے مسائل کم ہونے کے بجائے بڑھتے جارہے ہیں۔گذشتہ تین سالوں میں حکومت نے عوام کو ریلیف پہنچانے کے لئے کیاکچھ نہیں کیا۔ کورونا سمارٹ لاک ڈاؤں سے متاثر ہونے والے محنت کشوں کو احساس کفالت پروگرام کے ذریعے کئی مہینوں تک بارہ ہزار روپے فی خاندان امداد دیتا رہا۔ گھر بنانے کے لئے آسان شرائط پر قرضے فراہم کر رہا ہے۔

مفت علاج کے لئے صحت کارڈ پروگرام شروع کیا ہے۔ نادار طلبا کے لئے سکالرشپ سکیم شروع کی ہے۔ کسانوں کے لئے خصوصی کارڈ جاری کئے جارہے ہیں کم آمدنی والے خاندانوں کو راشن کی خریداری پر سبسڈی دی جارہی ہے۔دوسری جانب خفیہ ہاتھ اس ریلیف پروگرام کو بے نتیجہ بنانے کے لئے مسلسل متحرک ہے۔ کبھی بجلی کی قیمت بڑھائی جاتی ہے۔کبھی گیس کے نرخ بڑھائے جاتے ہیں۔ کبھی پٹرولیم مصنوعات کے دام بڑھاکر عوام کی مشکلات میں اضافہ کیاجاتا ہے۔ شوگر مافیا نے چینی کی قیمت 170روپے کلو تک پہنچا دیا تھا۔حکومت نے بڑی مشکل سے اس کے دام گرادیئے تو گھی اور پکانے کے تیل کی قیمتوں کو 125روپے کلو سے اٹھا کر 430روپے کلو تک پہنچا دیا گیا۔ جب خفیہ ہاتھوں تک یہ خبرپہنچی کہ دال اور سبزیاں مہنگی ہونے کی وجہ سے غریبوں نے مرغی کا گوشت کھاکر گذارہ کرنا شروع کردیا ہے تو چکن کی قیمت 110روپے کلو سے بڑھا کر 260روپے کلو کردی گئی۔

وزیر اعظم سے ہمدردی رکھنے والوں کا خیال ہے کہ کورونا کی وباء بھی انہی خفیہ ہاتھوں کی پھیلائی ہوئی ہے۔ وباء کی پہلی، دوسری، تیسری اور چوتھی لہر سے لاک ڈاؤن لگائے بغیر ہم سرخرو ہوکر نکلے تو اومی کرون کے نام سے پانچویں لہر دوڑائی گئی۔ تاکہ کاروبار، ٹرانسپورٹ، شادی ہال بند ہوجائیں اور عوام خوشیاں منانے سے محروم رہ جائیں۔اپنی تقریر کے دوران وزیراعظم نے شکوہ کیا کہ وہ ٹیلی فون پر عوام سے جو باتیں کر رہے ہیں یہی باتیں پارلیمنٹ میں کہنے چاہئے تھیں مگر وہاں این آر او کے متلاشی بیٹھے ہیں وہ بات کرنے ہی نہیں دیتے۔وزیراعظم کا یہ شکوہ بالکل بجا ہے۔عوام نے اپنے مسائل قومی ایوانوں میں اجاگر کرنے اور ان کا حل نکالنے کے لئے لوگوں کو منتخب کرکے قومی و صوبائی اسمبلیوں میں بھیجا ہے۔ اول تو وہ اسمبلیوں میں آتے ہی نہیں، کورم کی کمی کے باعث اسمبلیوں کے اجلاس ملتوی ہونا اور سپیکروں کا اظہار برہمی معمول بن گیا ہے۔

جب اپنے نجی کام نمٹا کر ایوان میں آتے بھی ہیں تو شورشرابہ، نعرے بازی اور ہنگامہ آرائی کرنے سے باز نہیں آتے۔ملک کے صدر اور وزیراعظم کو بولنے نہیں دیا جاتا تو ایک عام ایم این اے اور ایم پی اے کی کیاحالت بنائی جاتی ہے۔ اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق وزیراعظم نے اپنے سیاسی مخالفین کو خبردار کیا کہ اگر انہیں حکومت سے نکالا گیا تو ان کے لئے زیادہ خطرناک ثابت ہوگا۔ وہ سڑکوں پر نکل آیا تو مخالفین کو چھپنے کی جگہ بھی نہیں ملے گی۔ اس میں کسی کو شک و شبہ نہیں ہونا چاہئے کہ تحریک انصاف کی سٹریٹ پاور کسی بھی جماعت سے زیادہ ہے۔ انہوں نے 126دنوں تک ڈی چوک پر دھرنا دے کر ثابت کیا ہے کہ وہ سڑکوں پر راج کرنے کا فن جانتا ہے۔ میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ کوئی بڑی اپوزیشن جماعت بھی حکومت کی چھٹی کرانے کی روادار نہیں۔ انہیں بخوبی معلوم ہے کہ موجودہ عالمی بحران کا حل کسی کے پاس بھی نہیں ہے۔ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی نے اسمبلیوں سے استعفے دینے کا مولانا کا مطالبہ قبول کرنے سے معذرت کی ہے۔لانگ مارچ اور احتجاجی مظاہروں کے پروگرام صرف وقت گذاری کے لئے ہیں۔ جب تک کورونا کا عالمی بحران نہیں ٹلتا۔ موجودہ حکومت کو کوئی سیاسی خطرہ نہیں۔ اس لئے وزیراعظم کو اپوزیشن کے الزامات، بیانات، احتجاج، دھرنوں اور لانگ مارچ کی دھمکیوں سے پریشان ہونے کی قطعی ضرورت نہیں۔انہیں مہنگائی سے عوام کو ریلیف پہنچانے کے نئے طریقوں پر غور کرنا ہوگا۔

Posted in تازہ ترین, مضامین
57848

امام علی نقی ۔ ڈاکٹر ساجد خاکوانی(اسلام آباد،پاکستان)

امام علی نقی ۔ ڈاکٹر ساجد خاکوانی(اسلام آباد،پاکستان)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

امام علی نقی

(72جمادی الثانی یوم وفات کے موقع پر خصوصی تحریر(

ڈاکٹر ساجد خاکوانی(اسلام آباد،پاکستان)

                 امام علی نقی کاشمار امت مسلمہ کے عظیم ائمہ کرام میں ہوتاہے۔آپ کااسم پاک ”علی“تھا،کنیت ”ابولحسن“اور لقب مبارک ”نقی“تھااس کے علاوہ آپ کو ”ہادی“کے نام سے بھی یاد کیاجاتاہے۔آپ سے قبل چونکہ حضرت علی بن ابی طالب اور حضرت امام رضا کی کنیت بھی ”ابوالحسن“تھی اس لیے آپ کو ”ابولحسن ثالث“بھی کہاجاتاہے۔آپ خاص اہل بیت مطہرین میں سے تھے۔آپ کی پیدایش 5رجب 214ھ کو مدینہ منورہ جیسے مقدس شہر کے جوار میں ”ثریا“نامی گاؤں میں ہوئی۔آپ کے والد بزرگوار کانام ”محمدالتقی“تھا لیکن وہ ”محمدالجواد“کے نام سے زیادہ معروف ہیں۔حضرت امام علی نقی کی والدہ ماجدہ کا نام نامی ”سمانہ“تھا اور وہ شمال مغربی افریقہ کے بربر قبائل سے تعلق رکھتی تھیں۔آپ کی والدہ کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ صائمۃ الدہر تھیں۔حضرت امام علی نقی کواپنے والد محترم کی رفاقت کازمانہ بہت کم مدت تک نصیب ہوا۔آپ چھ سال کی عمر میں تھے جب آپ کے والد بزرگوارعراق تشریف لے گئے اور پھر وہیں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔یہ عباسی خلفاء کازمانہ تھااور مدینہ منورہ سمیت کل بلاد اسلام کے مراکزو تعلیم و جامعات و مدارس میں تفسیر،حدیث،منطق اور دیگر علوم عقلیہ و علوم نقلیہ کے بازار گرم تھے۔حضرت امام علی نقی نے اپنے خانوادہ نبوت کی وراثت کے طور پر علوم دینیہ میں کسب کمال کیااور اپنی اجداد کی پیروکاری میں مسند درس و تدریس پر براجمان ہوئے۔عمرعزیزکے تیس برس پورے ہونے تک عراق،مصر،ایران اور مغرب تک سے طالبان دین کی لمبی فہرست ہے جس نے حضرت امام علی نقی سے کسب فیض کیا۔شرق و غرب میں آپ کی فہم دین و دنیاایک مثال بن کرابھر رہی تھی اور طلبہ کے ایک کثیر تعدادہمیشہ آپ کے یمین و یسارقلمبندرہتی تھی اورآپ کے ارشادات و فرمودات کو ہوا میں تحلیل ہونے کی بجائے ضبط تحریر میں لے آیاجاتاتھا۔عوام الناس میں بے پناہ پزیرائی کے باعث اہل بیت کے ابھرتے ہوئے اور خورشیدجہاں سے بغدادمیں وقت کااقتدار خوف کھانے لگا اور آنے والے عباسی بادشاہ ”ابوالفضل جعفرالمتوکل علی اللہ“(205-247ھ)نے حضرت امام علی نقی کی نگرانی سخت کر دی۔

                نئے خلیفہ کو تخت نشین ہوئے ابھی بمشکل چاربرس ہی ہوئے تھے کہ مدینہ کے حاکم نے حضرت امام علی نقی کے بارے میں عوامی عقیدت ومحبت کی ایسی خبریں ارسال کیں کہ حاکم وقت کو اپنے پاؤں تلے سے زمین کھسکتی ہوئی محسوس ہوئی۔والی مدینہ نے اپنی اطلاعات میں بتایاتھا کہ حضرت امام علی نقی نے اپنے گرد اتنے افراد،سرمایااوراسلحہ جمع کرلیاہے کہ وہ کسی بھی وقت حکومت سے ٹکرانے کاارادہ کر سکتے ہیں۔حضرت امام علی نقی کو ان اطلاعات کی خبر ہوگئی اور انہوں نے خلیفہ متوکل کو اپنے ایک خط کے ذریعے ان اطلاعات کی تردیدی وضاحت بھی ارسال کر دی۔لیکن اہل بیت مطہرین کی تاریخ عزیمت سے خائف اس حکمران نے دہری چال چلی،حاکم مدینہ کو گستاخی کی فرد جرم لگا کربرخواست کر دیااورلگے ہاتھوں حضرت امام علی نقی کوبھی دارالحکومت میں طلب کرلیا۔اس مقصد کے لیے اس نے شاہی افواج کے ایک قابل اعتماد افسر،یحی بن ہرثمہ، کو مدینہ منورہ کی طرف ہمراہ ایک رسالے کے روانہ کیا۔اس کے ذمے لگایاکہ گورنر کی معلومات کی تفتیش کرے اور حضرت امام علی نقی کو اپنے ساتھ دارالحکومت میں لے آئے۔اس فوجی افسرنے مدینہ منورہ میں امام صاحب کے گھرکے ایک ایک کونے کی بالتفصیل تلاشی لی،اگرچہ یہ کام بھی ایک توہین آمیزامرتھا،لیکن اسے سوائے کتب تدریس کے کچھ نہ ہاتھ لگا۔اس فوجی افسر نے حضرت امام علی نقی سے عرض کی کہ خلیفہ نے آپ کو داراحکومت میں دعوت دی ہے۔امام صاحب اس دعوت کی حقیقت،جلاوطنی، سے اچھی طرح واقف تھے،اور انکار کی کوئی گنجائش نہ تھی۔بغدادمیں حضرت امام علی نقی کی آمد کی اطلاع امام سے پہلے پہنچ چکی تھی۔عوام کاایک جم غفیرتھاجوآپ کے دیدارکے لیے شہر سے باہر تک ایک ہجوم کی شکل میں موجود تھا۔والی بغدادخود بھی بنفس نفیس آپ کے استقبال کے لیے شہر سے باہر آیا،شاہی حکم نامے کے مطابق آپ کا قیام سامرہ نامی فوجی اڈے میں تھا،والی بغداد نے احتراماََایک رات بھی آپ کے ساتھ بسر کی۔بادشاہ وقت کی یہ بدبختی تھی کہ خانوادہ اہل بیت کا ایک چشم و چراغ خود اس کی دعوت پر بغدادکے جوار میں موجود ہے لیکن بادشاہ کو ملاقات تک کی توفیق نہ ہوئی۔

                یہاں پر حضرت امام علی نقی کوعتاب شاہی کاسامنارہا۔بادشاہ کے حکم پر انہیں سامرہ نامی فوجی چھاؤنی کے ایک مکان میں نظر بندکردیاگیا۔لیکن بعض مورخین کے نزدیک ابتدامیں وہ شہر جاتے تھے،اپنے عقیدت مندوں سے ملتے تھے اور ان سے خمس بھی وصول کرتے تھے۔بادشاہ وقت ان کو اپنے دربار میں بلاتا تھا اور وقت کے بڑے بڑے خوشامدیوں کو بھاری رقومات دے کر کہتاتھا کہ امام صاحب سے ایسے سوالات کرو کہ وہ لاجواب ہوجائیں۔تاریخ نے بڑے بڑے مناظرے روایت کیے ہیں لیکن کوئی بڑاسے بڑا درباری بھی حضرت امام علی نقی کو لاجواب نہیں کرسکا۔امام صاحب سے تاریخ،فقہ اورفلسفہ تک کے بارے میں بڑے دقیق سے دقیق تر سوالات کیے گئے لیکن امام صاحب نے چٹکیوں ہی چٹکیوں میں ان علماء کو لاجواب کر کے بادشاہ کو مایوس کیا۔خلیفہ متوکل بعض اوقات مجبور ہوجاتا تھاکہ اسے حضرت امام علی نقی کے فتوی پر فیصلہ دینا پڑتاتھاکیونکہ اس کے علاوہ کوئی چارہ کار نہ تھا۔بعض مورخین نے لکھاہے کہ بادشاہ نے  حضرت امام علی نقی کوقتل کرانے کی بھی سازشیں کیں لیکن بوجوہ کامیاب نہ ہوسکا۔بادشاہ امام صاحب سے حد درجہ نفرت کرتاتھااور ان کی توہین کاکوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتاتھا،تاہم  فتح بن خاقان جو بادشاہ کاقابل اعتماد وزیر تھا اس نے امام صاحب کی عوام میں مقبولیت کے باعث بادشاہ کو کسی براہ راست انتقامی اقدام سے روکے رکھا۔اس کے باوجود بادشاہ کاگھوڑے پر سوار ہوکر جانا اور امام صاحب کو باسرارننگے پاؤں پاپیادہ چلانا،شراب کی محفلوں میں امام صاحب کو دعوت دینا،امام صاحب کے سامنے لوگوں کی زبانی اکابرین اہل بیت کی تحقیرو تذلیل کرواناجیسے واقعات بکثرت ملتے ہیں۔ان سب کے باوجود امام صاحب نے کبھی بھی تبلیغ و ارشاد کاموقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ایک موقع پر بادشاہ نے شعر سننے کی خواہش کااظہار کیاتو حضرت امام علی نقی نے ایسے ایسے اشعار سنائے کہ کل شرکائے محفل کی داڑھیاں خوف خدااور فکرآخرت سے بہنے والے آنسؤں کے باعث ترہوگئیں۔امام صاحب سے بغض رکھنے والا یہ عباسی حکمران  ”ابوالفضل جعفرالمتوکل علی اللہ“اپنے ہی بیٹے کے ہاتھوں قتل ہو گیاکہ اللہ تعالی کی لاٹھی بے آواز ہے،اللہ تعالی اپنی توہین برداشت کرلیتاہے لیکن اپنے نیک بندوں کی توہین واستہزاء برداشت نہیں کرتا۔

                 حضرت امام علی نقی اپنی خلوت کے لمحات کو یادالہی میں بسر کرتے تھے۔دن روزے میں اوررات نماز میں بسر ہوتی تھی۔آپ نے اپنے مصلے کے سامنے قبر کھود رکھی تھی اور فرماتے تھے کہ میں ہر وقت اپنی آخری آرام گاہ کو اپنے سامنے پاتاہوں۔اہل بیت نبوی کی وہ خصوصیت جو باقی تمام دنیاسے اس خانوادے کو نمایاں کرتی ہے وہ ”سخاوت“ہے۔سخاوت کی صفت اپنے بزرگوں کی طرح حضرت امام علی نقی میں بھی بدرجہ اتم موجود تھی۔دنیااوراہل دنیاسے استغناآپ کو وراثت میں ملاتھا۔”اخلاق حسنہ“کی دولت آپ نے ترکہ نبوی ﷺ سے پائی تھی چنانچہ ظالم بادشاہ ساری عمر انتظارہی کرتا رہا کہ آپ کی زبان مبارک سے کچھ ایسے الفاظ برآمد ہوں کہ جن کی پاداش میں آپ کا سر قلم کر دیا جائے لیکن صاحب خلق عظیم کے اس فرزند ارجمند نے کبھی ایسا موقع نہیں آنے دیا اور صبر واستقامت کے پہاڑ سے بادشاہ کے بہتے ہوئے غضب سیل رواں کے سامنے بند باندھے رکھا۔ حضرت امام علی نقی کے ہاں اہل علم حضرات کی بہت قدر تھی۔ایک بار آپ اہل بیت کے عمائدین میں تشریف رکھتے تھے اور ایک بہت بڑے تکیہ پر نیم دراز تھے۔آپ نے ایک عالم دین کو دیکھاتو اس کے احترام میں اٹھ کھڑے ہوئے اسے ہاتھ سے کھینچ کر اپنے تکیے کے ساتھ بٹھا لیا۔سادات کے ایک بزرگ نے اعتراض کیا کہ سیدوں کے ہوتے ہوئے ایک غیر سید کااتنا احترام کیوں ہے؟؟ حضرت امام علی نقی نے قرآنی آیات سے اہلبیت کے افراد کی تسلی فرمائی،ان آیات میں اہل علم کی فضیلت ذکر کی گئی تھی۔

                امام صاحب حضرت امام علی نقی کی وفات کے بارے میں کہاجاتاہے کہ انہیں زہردی گئی تھی۔جن بادشاہوں کو اس زہر خوانی کا ذمہ دار قرار دیاجاتا ہے وہ توامام صاحب کی حیات بابرکات کے دوران ہی انتقال کر گئے تھے۔ تاہم 26جمادی الثانی 254ھ کو سامرہ کے مقام پر ہی آپ نے داعی اجل کو لبیک کہا۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔آپ کی تاریخ وفات کی کچھ دیگر روایات بھی موجود ہیں لیکن ان میں ہفتہ عشرہ سے زیادہ کافرق نہیں۔اس وقت تخت بغداد پر خلیفہ”محمد المعتزباللہ“(252-255ھ)براجمان تھا،اس نے اپنے بھائی کو جنازہ میں اپنی نمائندگی کے لیے بھیجا۔جنازہ میں انسانوں کے سروں کاایک نہ ختم ہونے والاسمندر تھاجو مشرق سے مغرب تک محیط تھا۔اس کثرت نفوس کے باعث حضرت امام علی نقی کو کسی قبرستان میں دفن نہ کیاجاسکا اور آپ کے گھر میں ہی مٹی کی امانت مٹی کے سپرد کر دی گئی۔آپ کی متعدد شادیاں تھیں۔آپ کا ایک بیٹا ابوجعفرمحمد آپ کی حیات طیبہ میں رحلت فرماگیاتھا۔حسن، جعفر،حسین،عبداللہ،زید،محمداور موسی آپ کے مزید فرزندان تھے۔ایک ”عائلہ“نامی لخت جگرکابھی کتابوں میں تذکرہ موجود ہے۔خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را۔

[email protected]

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57807

کاغذ بکھر رہے ہیں پرانی کتاب کے- قادر خان یوسف زئی کے قلم سے

کاغذ بکھر رہے ہیں پرانی کتاب کے- قادر خان یوسف زئی کے قلم سے

سیدنا حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کے عہد خلافت میں قحط پڑ گیا، نئی ریاست مدینہ کو چیلنج درپیش تھا۔ اہل مدینہ کی حالت قدرے بہتر تھی لیکن بدوں کے پاس کوئی اندوختہ نہ تھا، اردگرد کی ساری آبادی سمٹ کر مدینے میں جمع ہوگئی، ان پناہ گیروں کی اتنی کثرت ہوگئی کہ مدینہ منورہ میں تل دھرنے کی جگہ نہ رہی اور اہل مدینہ بھی آزمائش میں مبتلا ہوگئے، آپ ؓنے حکم دیا کہ مدینے میں کوئی شخص اپنے گھر کھانا نہیں کھائے گا، نہ ہی کسی کے ہاں انفرادی طور پر کچھ پکے گا۔ جو کچھ کسی کے پاس ہے، سب ایک جگہ جمع ہوگا اور سب کو ان ’پناہ گزینوں‘ کے ساتھ مل کر ایک دستر خوان پر کھانا ہوگا۔ اس حکم کی تعمیل میں خود امیر المومنین ؓ  کا گھرانہ پیش پیش تھا، مسلسل فاقوں اورکم خوراک کی وجہ سے آپ ؓ بیمار ہوگئے، چہرے کی رنگت سیاہ پڑگئی، رفقاءؓ نے کئی مرتبہ کہا کہ آپؓ  نسبتاََ اچھی غذا کھایئے، ملت کو آپؓ  کی صحت کی بڑی ضرورت ہے، آپ ؓ یہ سنتے اور انہیں اپنی بصیرت اور دور اندیشی سے خاموش کردیتے،  بقول اقبال کہ:خون شہ رنگین تراز معمار نیست (بادشاہ کا خون معمار کے خون سے زیادہ رنگین تو نہیں ہوتا)۔


ایک دن آپ ؓ نے دیکھا کہ آپ ؓ  کا پوتا خربوزہ کھارہا ہے۔اپنے بیٹے (حضرت عبداللہ بن عمر ؓ) کو بلایا اور کہا کہ مسلمانوں کے بچے روٹی کو ترس رہے ہیں اور عمر  ؓ کا پوتا پھل کھارہا ہے؟، اس کا جواب ہے تمہارے پاس؟، انہوں ؓ نے کہا کہ بچے کو صبح (دوسرے بچوں کے ساتھ) جو کھجور کی گٹھلیاں ملی تھیں، اس نے ان کے بدلے ایک بدّو لڑکے سے خربوزہ لے لیا تھا۔ یہ ہے حقیقت اس ’میوہ خوری‘ کی ورنہ عمر ؓ کے گھر والوں کو بھی وہی کچھ ملتا ہے جو دوسرے قحط زدہ مسلمانوں کو۔آپ ؓ ریاست مدینہ کے لوگوں کے غم میں اس قدر نڈھال تھے کہ (حضرت اسامہؓ  بن زید کے مطابق) صحابہ  ؓ کو یہ فکر لاحق ہوگئی کہ اگر قحط رفع نہ ہوا تو حضرت عمر ؓ  مسلمانوں کے غم میں جان دے دیں گے۔  قحط کے دور کرنے کی دوسری تدابیر بھی اختیار کی جارہی تھیں، چنانچہ تھوڑے ہی عرصے کے بعد قحط رفع ہوگیا۔


 ریاست مدینہ کے اس سخت آزمائشی دور سے سبق ملتا ہے کہ صرف باتوں سے کچھ نہیں ہوتا،جب تک پہلے خود اور اپنے گھرانے پر عمل درآمد نہیں کیا جائے اُس وقت تک کسی بھی کڑے امتحان اور بحران سے نہیں نکلا جاسکتا۔ اب اپنی اپنی جماعتوں کے لیڈروں کے قول و فعل کا موازنہ کرلیجئے کہ کیا  ’عوام کے غم میں دبلے ہونے والوں‘کی بھی وہی حالت ہے جو قوم کی ؟۔  ان کے رہن سہن اور تعیشات حیات  اورمراعات یافتہ طبقے کا غریب اور متوسط طبقے سے موازنہ فرمالیجئے  تو تلخ حقیقت کو سمجھنے میں قطعاََ دقت نہ ہوگی کہ دنیا کی تاریخ اس پر شاہد ہے کہ بعض افراد نے اپنے مخصوص جذبات و مفادات کے لئے کس طرح قوم کی قوم کو تباہ و برباد کیا۔  بعینہ یہی کچھ پاکستان کے ساتھ ہورہا ہے، بد قسمتی سے ارباب حل و عقد میں صلاحیتوں کی پہلے ہی کمی تھی، اس پر ان لوگوں نے ملک میں اس قدر ہڑبونگ مچا رکھی کہ کئی موقعوں پر ارباب ِ نظم و نسق بوکھلا گئے،  در دیدہ دہن کا طوفان اٹھاتے وقت لمحہ بھر مہلت نہیں رکھتے، بد گوئی اور عدم برداشت کے ماحول میں جب ایک ایسا ملک جس میں آبادی کا بیشتر حصہ جذباتی ہو اور وہ  بلخصوص مذہب کے نام پر بلا سوچے سمجھے سب کچھ کردینے پر آمادہ ہوجاتا ہو، اس صورت حال میں لوگوں کے جذبات کا استحصال والے عناصر بڑی آسانی سے تخریب پیدا کرسکتے ہیں۔


لیکن اگر آپ ٹھنڈے دل سے غورکریں گے تو یہ حقیقت آپ کے سامنے آجائے گی کہ ان بے چارگیوں میں سے بیشتر ہماری اپنی پیدا کردہ ہیں، ہم نے اس وقت تک کوئی قدم ایسا نہیں اٹھایا، جس سے پورے ملک کے سامنے ایک مشترکہ نصب العین آجائے، اس کے برعکس ہم نے ہر ممکن طریقے سے ملک کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے ہیں، سب سے پہلی تفریق بنگالی اور غیر بنگالی کی گئی، یہ ایسی گہری تفریق تھی کہ ہم اس مسئلہ کا حل آل پاکستان کی سطح پر کر ہی نہیں سکے۔ پھر ملک میں سندھی، پنجابی، پختون، بلوچ وغیرہ کی تفریقات ایسی بنی کہ ہم اس حصہ ملک میں ایک وحدت بھی قائم نہیں کرپا رہے۔ پھر صوبوں کی سیاسی و مذہبی جماعتوں میں کس قدر حساس تفریقات ہیں، اس سے نیچے اتریئے تو میونسپل کمیٹیوں اور لوکل بورڈوں میں چوہدری، خوانین، ملکوں، سرداروں، صنعت کاروں اورجاگیر داروں کی تفریقات کے علاوہ مہاجروں اور غیر مہاجروں کی تفریقات بھی شامل ہوچکی ہیں۔ معاشی تفریقات اور مذہبی تفریقات ان سے الگ ہیں، سوچئے کہ جو ملک اپنے اندر اس طرح سے بٹ رہا ہو، اس میں طاقت کہاں سے پیدا ہوسکتی اور خوش حالی کیسے آسکتی ہے۔  لسانیت کے پُر تشدد دور کے نئے آغاز کے لئے جس طرح باطنی خصائص کھل کر ایک بار پھر سامنے آرہے ہیں، اس پر ملت کو بلا امتیاز رنگ و نسل غور کرنا ہوگا کہ فسطائیت کا یہ کھیل دوبارہ رچانے کے لئے مذموم مقاصد کیا اور کیوں ہیں؟۔
بعض حساس طبائع نے اس عالمگیر خرابی کا علاج افراد کی تبدیلی سمجھا، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ افراد کی تبدیلیاں تھوڑی بہت اصلاح کا موجب ہوجاتی ہیں لیکن جن حالات سے ہم گذر رہے ہیں، ان کا علاج افراد کی تبدیلیوں سے ممکن نہیں، ان کا علاج پورے کے پورے نظام کی تبدیلی ہی ہوسکتا ہے، ایک ایسا نظام جس میں سرمایہ داری، زمین داری، کارخانہ داری غرض یہ کہ ہر قسم کی انفرادی مفاد پرستیوں کا خاتمہ ہوجاتا ہو۔ ایک ایسا نظام جس میں صوبائی عصبیت، نسلی، مذہبی، فرقہ پرستی اور طبقاتی تفریقات مٹ جاتی ہوں، ریاست مدینہ کی طرح فلاحی مملکت کا تصور اور مثال ہمارے سامنے موجود ہے لیکن کیا ہم وہی کچھ کررہے ہیں جو ریاست مدینہ والوں ؓ نے کیا تھا۔ تو اس کا واضح جواب نہیں ملے گا۔پہلے ہمیں اپنے قول و فعل کے تضاد کو ختم کرنا ہوگا۔ جب تک تفریقات کا خاتمہ نہیں کرتے، مثالی معاشرہ نہیں بن سکتا۔ مثالی معاشرہ بنانے کے لئے تبدیلی نیچے کے بجائے اوپر سے لانا ناگزیر ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57805

مختصرسی جھلک ۔ تنہاِئی ۔ فریدہ سلطانہ فّریّ

انسان کواگرغورسےدیکھا جا ئے تواس میں عجیب سی عاداتیں بسی ہوتی ہیں۔نجانےکب،کس سانچےمیں ڈھل کرکونسا روپ اختیارکرجائےاوراس کے رویے میں کب کونسی تبدیلی دیکھنےکوملے۔کیونکہ انسان کےاندرقدرت نےایک ایسی نمایاں لچک رکھی ہےکہ وہ حالات اورواقعات کےمطابق خود کو بدلنےکا ہنراچھے سےجانتا ہےاوراس بات پربھی ہم سب کا پکاایمان ہے کہ یہ دنیا ازمائش گاہ ہےاوریہاں انسان کوہرقسم کے حالات و واقعات کے لئے زہنی طورپرامادہ رہنے کی ضرورت ہے۔

میں جن ازمائشوں کی بات کررہی ہوں ان میں سےایک تنہائی کی ازمائش ہے ۔ تنہائی زہرکی طرح کی ہوتی ہےکسی بھی صورت میں انسان کے لئے نفع بخش نہیں ہوتی مگربعض حالات میں تنہائی نعمت بھی ہوتی ہےکیونکہ یہ اپ کو اپنی ذات کو پہچاننے اورخدا کی دی ہوِئی نعمتوں کا اعتراف کرنے کا بہترین موقعہ فراہم کرتی ہے۔مگراس کیفیت تک پہنچنے کے لئے انسان کے پاس دوچیزوں کا ہونا لازمی ہے ایک پرسکون زہنی کیفیت اوردوسرا سازگار ماحول ۔ان دونوں کا فقدان ہو تو اس معیار تک پہنچنا ہرگز ممکن نہیں ۔


منفی معنوں میں ہی سہی ادب میں بھی تنہاِئی کا اپنا معیاراورمقام ہے۔ بعض شعرا اورادیبوں نے توتنہائی کوانسان کے لئے جان لیوا قراردی ہے کیونکہ تنہائی انسان کو معاشرہ، سماج اور ماحو ل سے دورکردیتی ہے اورانسان اپنے حصار میں رہ کرجینا شروع کردیتا ہے جوکہ اچھی علامت نہیں۔ مگرمیں جس تنہائی کی بات کررہی ہوں وہ ان سب سے بلکل الگ تھلک ہے۔ یہ وہ تنہائی ہے جس میں انسان نہ صرف خود کی قدر کرنے لگتا ہےبلکہ خدا کی ذات کو بھی پہچاننے کی کوشش کرتا ہے۔کیونکہ اس میں نہ اپ کسی کے پاس جاسکتے ہیں نہ اپ کے پاس کوئی اسکتا ہے بس ایک نفسہ نفسی کا سا عالم ہوتا ہے اورسب کواپنی جان کی پڑی ہوتی ہے یہی سوچ کراگر اس کے پاس گئی توخدا نخواستہ یہ بیماری مجھے لگ جاَئے گی۔ بس اسی ڈر اورخوف کے مارے سبھی ایک دوسرے سے دور رہنے کی کوشش کرتے ہیں ۔جی ہاں میں دوران کویڈ ایسولیشن کی بات کررہی ہوں۔ کیونکہ اجکل میں بھی کویڈ میں مبتلا ہوکراس بے بس سی تنہائی کا شکا رہوں جومیری سوچ کے ہر زاوئے میں ایک عجیب سی تبدیلی لا چکا ہے ۔۔


کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ انسا ن اس دنیا میں تنہا اتا ہے اورتنہا چلا جاتا ہے مگر اس بیچ کےسفرمیں بھِی اتنی ازیت ناک تنہائی ہوگی اس کا اندازہ بھی مجھے نہیں تھا۔

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
57782

شکوہ ارباب وفا ۔ محمد شریف شکیب

شکوہ ارباب وفا ۔ محمد شریف شکیب

وزیراعظم عمران خان نے شہریوں کے ساتھ ٹیلی فونک گفتگو میں انکشاف کیا ہے کہ مہنگائی کی وجہ سے اس کی اپنی بھی رات کی نیندیں اڑگئی ہیں۔ملک کے اعلیٰ ترین انتظامی عہدے پر موجود شخص کو اگر پھولوں کی سیج پر نیند نہیں آتی تو خالی پیٹ فرش پر سونے والوں کی کیاحالت ہوتی ہوگی اس کا تصور بھی رونگھٹے کھڑے کرنے والا ہیں۔اگرچہ ہمارے وزیراعظم بھی لاڈ پیار میں پلے ہوئے ہیں انہوں نے دنیا کی بہترین درس گاہ سے تعلیم حاصل کی ہے اور کرکٹ کی دنیا پر بھی راج کرتے رہے ہیں۔لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کے دل میں عوام کا درد موجود ہے۔ یہ شاید عوام کی اپنی شومئی قسمت ہے کہ حکومت انہیں جتنا ریلیف دینا چاہتی ہے ان کے مسائل کم ہونے کے بجائے بڑھتے جارہے ہیں۔گذشتہ تین سالوں میں حکومت نے عوام کو ریلیف پہنچانے کے لئے کیاکچھ نہیں کیا۔ کورونا سمارٹ لاک ڈاؤں سے متاثر ہونے والے محنت کشوں کو احساس کفالت پروگرام کے ذریعے کئی مہینوں تک بارہ ہزار روپے فی خاندان امداد دیتا رہا۔ گھر بنانے کے لئے آسان شرائط پر قرضے فراہم کر رہا ہے۔

مفت علاج کے لئے صحت کارڈ پروگرام شروع کیا ہے۔ نادار طلبا کے لئے سکالرشپ سکیم شروع کی ہے۔ کسانوں کے لئے خصوصی کارڈ جاری کئے جارہے ہیں کم آمدنی والے خاندانوں کو راشن کی خریداری پر سبسڈی دی جارہی ہے۔دوسری جانب خفیہ ہاتھ اس ریلیف پروگرام کو بے نتیجہ بنانے کے لئے مسلسل متحرک ہے۔ کبھی بجلی کی قیمت بڑھائی جاتی ہے۔کبھی گیس کے نرخ بڑھائے جاتے ہیں۔ کبھی پٹرولیم مصنوعات کے دام بڑھاکر عوام کی مشکلات میں اضافہ کیاجاتا ہے۔ شوگر مافیا نے چینی کی قیمت 170روپے کلو تک پہنچا دیا تھا۔حکومت نے بڑی مشکل سے اس کے دام گرادیئے تو گھی اور پکانے کے تیل کی قیمتوں کو 125روپے کلو سے اٹھا کر 430روپے کلو تک پہنچا دیا گیا۔ جب خفیہ ہاتھوں تک یہ خبرپہنچی کہ دال اور سبزیاں مہنگی ہونے کی وجہ سے غریبوں نے مرغی کا گوشت کھاکر گذارہ کرنا شروع کردیا ہے تو چکن کی قیمت 110روپے کلو سے بڑھا کر 260روپے کلو کردی گئی۔

وزیر اعظم سے ہمدردی رکھنے والوں کا خیال ہے کہ کورونا کی وباء بھی انہی خفیہ ہاتھوں کی پھیلائی ہوئی ہے۔ وباء کی پہلی، دوسری، تیسری اور چوتھی لہر سے لاک ڈاؤن لگائے بغیر ہم سرخرو ہوکر نکلے تو اومی کرون کے نام سے پانچویں لہر دوڑائی گئی۔ تاکہ کاروبار، ٹرانسپورٹ، شادی ہال بند ہوجائیں اور عوام خوشیاں منانے سے محروم رہ جائیں۔اپنی تقریر کے دوران وزیراعظم نے شکوہ کیا کہ وہ ٹیلی فون پر عوام سے جو باتیں کر رہے ہیں یہی باتیں پارلیمنٹ میں کہنے چاہئے تھیں مگر وہاں این آر او کے متلاشی بیٹھے ہیں وہ بات کرنے ہی نہیں دیتے۔وزیراعظم کا یہ شکوہ بالکل بجا ہے۔عوام نے اپنے مسائل قومی ایوانوں میں اجاگر کرنے اور ان کا حل نکالنے کے لئے لوگوں کو منتخب کرکے قومی و صوبائی اسمبلیوں میں بھیجا ہے۔ اول تو وہ اسمبلیوں میں آتے ہی نہیں، کورم کی کمی کے باعث اسمبلیوں کے اجلاس ملتوی ہونا اور سپیکروں کا اظہار برہمی معمول بن گیا ہے۔ جب اپنے نجی کام نمٹا کر ایوان میں آتے بھی ہیں تو شورشرابہ، نعرے بازی اور ہنگامہ آرائی کرنے سے باز نہیں آتے۔

ملک کے صدر اور وزیراعظم کو بولنے نہیں دیا جاتا تو ایک عام ایم این اے اور ایم پی اے کی کیاحالت بنائی جاتی ہے۔ اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق وزیراعظم نے اپنے سیاسی مخالفین کو خبردار کیا کہ اگر انہیں حکومت سے نکالا گیا تو ان کے لئے زیادہ خطرناک ثابت ہوگا۔ وہ سڑکوں پر نکل آیا تو مخالفین کو چھپنے کی جگہ بھی نہیں ملے گی۔ اس میں کسی کو شک و شبہ نہیں ہونا چاہئے کہ تحریک انصاف کی سٹریٹ پاور کسی بھی جماعت سے زیادہ ہے۔ انہوں نے 126دنوں تک ڈی چوک پر دھرنا دے کر ثابت کیا ہے کہ وہ سڑکوں پر راج کرنے کا فن جانتا ہے۔ میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ کوئی بڑی اپوزیشن جماعت بھی حکومت کی چھٹی کرانے کی روادار نہیں۔ انہیں بخوبی معلوم ہے کہ موجودہ عالمی بحران کا حل کسی کے پاس بھی نہیں ہے۔ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی نے اسمبلیوں سے استعفے دینے کا مولانا کا مطالبہ قبول کرنے سے معذرت کی ہے۔لانگ مارچ اور احتجاجی مظاہروں کے پروگرام صرف وقت گذاری کے لئے ہیں۔ جب تک کورونا کا عالمی بحران نہیں ٹلتا۔ موجودہ حکومت کو کوئی سیاسی خطرہ نہیں۔ اس لئے وزیراعظم کو اپوزیشن کے الزامات، بیانات، احتجاج، دھرنوں اور لانگ مارچ کی دھمکیوں سے پریشان ہونے کی قطعی ضرورت نہیں۔انہیں مہنگائی سے عوام کو ریلیف پہنچانے کے نئے طریقوں پر غور کرنا ہوگا۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57772

ہالوکاسٹ (مرگ انبوہ ) ۔ ڈاکٹر ساجد خاکوانی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ہالوکاسٹ (مرگ انبوہ )

Holocaust

(27جنوری ہالوکاسٹ کے عالمی دن کے موقع پر خصوصی تحریر)

ڈاکٹر ساجد خاکوانی

                ہالوکاسٹ یہودیوں سے متعلق دوسری جنگ عظیم کے دوران عبرت آموزواقعات کاایک مجموعہ ہے۔یہودی وہ قوم ہیں جن کے بارے میں دنیا کے کسی کونے میں کوئی اچھی رائے نہیں پائی جاتی۔شیکسپئر جیسے ڈرامہ نگار نے بھی ”شائلاک“نامی سود خور اور ننگ انسانیت کردارکو یہودی مذہب کا پیراہن پہنایاہے۔قرآن مجید نے یہودیوں پرجوسب سے بڑا الزام دھرا ہے کہ وہ قاتلین انبیاء علیھم السلام ہیں اور حد تو یہ کہ ان یہودیوں نے محسن انسانیتﷺ کے ارادہ قتل سے بھی دریغ نہ کیا۔دنیاپرمسلمانوں کے ایک ہزارسالہ دور اقتدارمیں یہودی بہت عافیت میں رہے اوریہ دور ختم ہوتے ہی انہوں نے اپنی سازشوں کانشانہ مسلمانوں کو ہی بنایااور فلسطینیوں کی کمرمیں چھرا جاگھونپا۔دنیا کی ہرقوم ان کی پس پردہ ذہنیت سے خائف ہے اور انہیں اپنے سے دور رکھنا چاہتی ہے اسی لیے مغربی اقوام نے انہیں اپنے ہاں جگہ دینے کی بجائے مسلمانوں کے سر پر لا تھونپاہے۔ان کی ذہنیت،انکی تاریخ،انکے عقائد اور انکا انجام اس قرآنی آیت کا مصداق ہیں کہ ”ہم نے ان پر ذلت اور مسکنت مسلط کردی ہے“۔

                ”ہولوکاست“یونانی الفاظ سے ماخوذایک مرکب ہے جس کا مطلب ”مکمل طورپرنذرآتش کردینا“یا”راہ خدامیں جان قربان کردینا“ہے۔اس سے مرادیہودیوں کا یہ دعوی ہے کہ کم و بیش ساٹھ لاکھ یورپی بنی اسرائیلوں کودوسری جنگ عظیم کے دوران قتل کیا گیاجس کا الزام نسل کشی کے ضمن میں نازی جرمنوں پر لگایا جاتا ہے۔کچھ محققین کے نزدیک ”ہالوکاسٹ“سے مراد صرف یہودی مقتولین نہیں ہیں بلکہ وہ تمام مقتولین جنگ عظیم ثانی ہیں جو اتفاقی قتل نہیں ہوئے بلکہ جنہیں نازیوں نے کسی پروگرام کے تحت باقائدہ سے قتل کیا ہے جن میں دوسری اقوام کے چیدہ چیدہ لوگ،مذہبی راہنما،جنگی قیدی،ہم جنسیت کے دوران معذورہونے والے مرد،اشتراکیت پسند،غلام طبقہ،اور دیگرمذہبی، عسکری و سیاسی مخالفین بھی شامل ہیں۔اس تعریف کے تحت ہولوکاسٹ کے مقتولین کی تعداد ایک کروڑ تک جا پہنچتی ہے۔ان دونوں آرا ء میں کون سی قرین قیاس ہے؟یہودی سچ بولتے ہیں یا دیگر محققین؟اور کیا یہودیوں نے دنیا کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے اور خود کو مظلوم ثابت کرنے کے لیے دوسرے مقتولین کو بھی اپنا بنا لیا؟ یہ اللہ تعالی ہی بہتر جانتا ہے۔لیکن تاریخی حقائق بتاتے ہیں کہ دوسری جنگ عظیم سے قبل یہودیوں نے جرمن معیشیت کی گردن پر اپنے خونین پنجے گاڑھ رکھے تھے اوراپنے مالیاتی اثرورسوخ کے باعث وہ جرمنی کے عسکری وسیاسی فیصلوں پربھی پوری قوت سے اثراندازہوتے تھے۔بات یہاں تک ہوتی تو شاید قابل برداشت تھی،لیکن جنگ کے دوران ان یہودیوں نے بنی قریظہ کااپناتاریخی کرداراداکرناشروع کر دیااور غداری کے مرتکب ہوکر اتحادیوں کو خفیہ معلومات فراہم کرنے لگے۔یہ بات ایڈولف ہٹلرکے لیے ناقابل برداشت تھی جس کے باعث ہولوکاسٹ کامنصوبہ قانونی طورپر منظورہوااوراس پر عمل درآمد کیاگیا۔

                صہیونیوں کے مطابق جنگ عظیم دوم سے سالوں قبل یہودیوں کو سول سوسائٹی سے نابود کرنے کی منصوبہ بندیاں ہو رہی تھیں۔1930کی دھائی میں ایسے ایسے قوانین بنائے گئے کہ آہستہ آہستہ یہودیوں کے معاشی،معاشرتی اور قانونی حقوق ماند پڑنے لگے اور انہیں جرمن یورپی معاشرے میں تنہاکیاجانے لگا۔ان قوانین کا مقصدیورپ کو غیریورپیوں سے پاک کرنا تھا۔1933میں قوانین کا ایک مجموعہ منظور کیا گیا جن کے مطابق اہم علاقے اور اہم مناصب یہودیوں سے خالی کرالیے گئے۔چنانچہ زرعی فارموں میں یہودی مزارعین سے لے کر کچہریوں میں یہودی وکلاء اور یہودی ججوں تک کو باہر نکال دیا گیا اور انہیں بری طرح مارا پیٹا گیا۔سکولوں،کالجوں اور اخبارات کے دفاتر اور مختلف انجمنوں سے بھی انہیں قوانین کے تحت یہودیوں کا اخراج عمل میں آیا۔1935میں ہٹلر نے ایک تقریر کے ذریعے یہودیوں کو رہے سہے تمام سول حقوق سے بھی محروم کردیا۔یہودیوں کے خلاف نازیوں کایہ آغاز انجام تھا۔اس مقصد کی خاطرایسے کیمپس بنائے گئے جہاں یہودیوں کو غلام بناکرلے جایا جاتا اور ان سے اتنی مشقت کرائی جاتی کہ وہ تھکا کر مار دیے جاتے یا پھر بیمار ہو کر اور بھوکے رہ رہ کر مار دیے جاتے۔بچ جانے والوں پر جرمنی کے دوائی ساز ادارے اپنی نئی بنائی گئی دوائیوں کے جان لیواتجربات کرتے اورطبی تجربات کر کر کے انہیں معذورکردیاجاتااور پھر انہیں موت کی آغوش میں پہنچادیاجاتا۔ان طبی تجربات میں انسانوں کو ٹھنڈے یخ پانی میں ڈال کر برف کی مانند مکمل طورپر منجمد کردینا،آنکھوں کی پتلیوں کا رنگ تبدیل کرنے کے لیے کیمیائی محلول ڈالنا اور کسی ایک مشاہدے کے لیے کئی بچوں کے جسموں کوچیرپھاڑ دیناسمیت ایسے ایسے غیرانسانی تجربات تھے جنہیں سپردقلم کرنا ممکن نہیں۔جن صحافیوں نے اس طرح کے آنکھوں دیکھے واقعات نقل کیے ہیں انہوں نے بھی ایک موقع پر آکر اپنے قلم کو روک لیاہے کہ مزید تفصیل لکھناگویاانسانیت سوزہے۔ اس سب کے باوجود بھی اگر کچھ لوگ بچ جاتے تو نازی جرمن انہیں گیس چیمبروں میں ڈال کرہلاک کر دیتے۔پس جرمنی کاملک یہودیوں کے لیے عام قتل گاہ بن چکاتھااورمفتوحہ علاقے انسانی مذبح خانے تھے جہاں یہودیوں کے پوتوں یاپڑپوتوں کو بھی موت کے گھاٹ اتاردیاجاتا۔یورپ کے بعض عجائب گھروں میں نازی جرمنوں کے گیس چیمبروں کی باقیات اب بھی زائرین کے لیے رکھی گئی ہیں۔جنگ عظیم دوم کے دوران جرمن نازیوں نے ہالو کاسٹ کے لیے جو اصطلاح استعمال کی اس سے مراد ”یہودیوں کے مسئلے کا آخری حل“تھا،یہ اصطلاح جرمن زبان سے متعلق تھی۔صہیونی تاریخ دانوں کے مطابق جرمنی کا ہر ادارہ یہودیوں کے اتنے بڑے قتل عام میں ملوث تھا۔جرمن وزارت داخلہ اورمسیحی چرچس نے یہودیوں کا پیدائشی ریکارڈ دیا اور اس بات کی تعیین کی کہ کوکون کون سی بستی میں کون کون یہودی ہے،جرمن محکمہ ڈاک نے وہ خطوط متعلقہ حکام تک پہنچائے،جرمن وزارت خزانہ نے یہویوں کی جائدادوں کی تفصیلات مہیا کیں،جرمن کاروباری اداروں نے یہودی تاجروں،یہودی ملازموں اوریہودی مزدوروں کے بارے میں جامع معلومات فراہم کیں،جرمن محکمہ مواصلات نے یہودیوں کو انکے ہلاکتی کیمپوں میں لے جانے کے لیے ٹرانسپورٹ اور ریل گاڑیاں مہیا کیں۔یہاں تک کہ جرمن جامعات تک نے یہودی طلبہ کو داخلہ دینے سے انکار کر دیا اور یہودی تعلیمیات واسرائیلی لٹریچرکونذرآتش کر دیا۔

                جب نازی فتوحات کادائرہ مشرقی یورپ تک وسیع ہوا تو”انسائزگروپین“نامی جرمنی کی ایک خصوصی فوج کو مخالفین کے وسیع قتل عام کا خصوصی ہدف سونپاگیا۔چنانچہ یہودیوں کا قتل عام اس تمام علاقے میں ہواجو نازی جرمنوں کے زیرقبضہ تھے،جہاں اب کم و بیش 35 یورپی ممالک کی سلطنتیں قائم ہیں۔اس سے قبل یہاں یہودیوں کی بستیاں آباد تھیں اور 1939میں سات ملین یہودی نفوس یہاں ہنستے بستے گھروں میں آبادتھے،جن میں پانچ ملین کو یہاں قتل کردیاگیا۔پولینڈ اورروس میں قتل ہونے والے یہودیوں کی تعداداس کے علاوہ ہے۔دیگرافراد اگر اپنا مذہب یا رائے تبدیل کر لیتے تو انہیں قتل سے بچالیاجاتا تھا لیکن یہودیوں کے لیے یہ رعایت بھی نہیں تھی۔یہودیوں کے قتل میں عورتوں،بوڑھوں اور بچوں کے لیے بھی کوئی تخصیص نہیں تھی،قبائل کے قبائل کو قتل کردیاجاتااور انکے بچوں پر طبی تجربات کر کے توانہیں بھی موت کی وادی میں دھکیل دیاجاتا۔اس دوران فری میسنریزکو بھی گرفتارکر کر کے ہلاکتی کیمپوں میں بھیجاگیا۔ہٹلرکاپختہ نظریہ تھا کہ فری میسنریزبھی یہودیوں میں سے ہیں چنانچہ ان کیمپوں میں انہیں زبردستی سرخ کپڑے پہنائے جاتے اور ایک لاکھ سے دولاکھ تک کی تعدادمیں انہیں ان ہلاکتی کیمپوں میں نازیوں نے قتل کیا۔نازی جرمن جن جن علاقوں کو فتح کرتے وہاں وہاں سے یہودیوں کو ختم کرتے جاتے یہاں تک کہ جب پولینڈ کو فتح کیاتو اتنی بڑی تعداد کے پول یہودیوں کو قتل کرنا آسان نہ تھاچنانچہ طویل غوروحوض کے بعد کم وقت اور کم لاگت میں قتل کرنے کے لیے زہریلی گیس استعمال کی گئی۔پولینڈ کی سرزمین قتل یہود کی بہت بڑی امین ہے۔چھ ہلاکتی کیمپوں سے شروع ہونے والے ہولوکاسٹ کے پولینڈ سمیت مقبوضہ ممالک میں پندرہ ہزارسے زیادہ کیمپ بن گئے۔ان کیمپوں میں یہود سے بدترین مشقت لی جاتی اور پھر ضرورت ختم ہونے پر انہیں قتل کردیاجاتاجبکہ بے شمار یہود دوران مشقت ہی دم توڑ دیتے۔شروع میں یہ کیمپس شہروں سے باہر تھے لیکن ٹرانسپورٹ کے وسیع اخراجات کے باعث بعد میں ان کیمپوں کویہودی آبادیوں کے قریب ہی منتقل کردیاگیا۔

                اس سے شدید ترحالات روس کے مفتوحہ علاقوں میں بھی پیش آئے۔یہاں یہودیوں کو زندہ بھی جلایا گیااور جب گولی مارنے اور زندہ جلانے کا سامان میسر نہ آیا یا اسے مہیاکرنا مہنگاتصور کرلیاگیاتو لاکھوں یہودیوں کو روس کے شدیدترین ٹھنڈے سائیبیریا جیسے علاقوں میں بے آب و گیاہ تنہاچھوڑ دیاگیااور یہ لوگ یخ بستہ اورجان لیواٹھنڈی ہواؤں سے زندگی کی بازی ہار گئے۔اس سب کے باوجود1941ء کے آخر تک روس کے صرف 15%یہودی مارے گئے تھے،اس رفتار کو تیزکرنے کے لیے ایک بار پھر وسیع پیمانے پر زہریلی گیسوں کا تجربہ کیا گیااور ظاہر ہے یہ تجربہ شہری علاقوں میں ممکن نہ تھا چنانچہ اس کے لیے شہر سے باہر بہت بڑی بڑی جگہیں بنائی گئیں جہاں یہودی نسل کو نیست و نابود کرنے کا عمل سالوں تک دہرایاجاتارہا۔یہودیوں نے اس سارے ظلم و ستم کے خلاف آواز بھی بلند کی لیکن بے سود۔کچھ کیمپوں میں نوجوان یہودیوں نے ہتھیارتک بھی اٹھائے لیکن ظاہر ہے نازی جرمن اس وقت پوری دنیاسے قابومیں نہ آنے والاطاقت کاطوفان تھاتو بزدل اور ذلت و مسکنت کے حامل یہود اس سے کیسے ٹکراسکتے تھے۔پھر ایک پہلو یہ بھی ہے کہ دنیاکے کسی کونے سے اس وقت اورآج بھی یہودیوں کے حق میں کوئی آواز بلند نہ ہوئی۔اس قوم نے جس برتن میں کھایا اسی میں سوراخ کیا،ہرقوم کو ڈسنے کی کوشش کی،ہرگروہ کو بلیک میل کیا،دولت کی خاطرانسانیت کو داؤ پر لگایا۔دوسری جنگ عظیم کے اس المناک پہلو کا دوسرا تاریک ترین رخ یہ ہے کہ جنگ عظیم کے دونوں متحارب فریقوں کو سرمایافراہم کرنے والی بہت بڑی فرم یہودیوں کی ہی ملکیت تھی۔کیااپنے ہم مذہب بلکہ ہم نسل رشتہ داروں پر اتنا بے پناہ ظلم ہونے دیکھ کر وہ سرمائے کی فراہمی بند نہیں کر سکتے تھے؟؟؟اس ہولوکاسٹ کے قیمت میں صہیونی ریاست ”اسرائیل“کاحصول وہ منزل تھی جس کے لیے یہودی شرپسندذہنیت نے اس قتل عام کو برداشت کیا،جاری رہنے دیا بلکہ وسیع پیمانے پر اس کی مبالغہ آمیزتشہیرکرکے یہودیوں کے ناپاک خون سے ناجائزفوائد بھی سمیٹے۔چنانچہ ابھی ہولوکاسٹ کے یہودیوں کاخون رس رہاتھا کہ نیشنل جیوش کانفرنس نے یورپی اقوام سے مطالبہ کیا یہودیوں کی اتنی زیادہ نسل کشی ہو چکی ہے کہ اب انہیں اپنی افزائش وبقائے نسل کے لیے علیحدہ ریاست فراہم کی جائے۔اگران کا مطالبہ درست بھی تھاتوتاریخ کاکیساعجوبہ ہے کہ قاتل جرمنی تھا،مقتول یہودی تھے،مقتل یورپ تھا اور اسرائیل کا خنجرفلسطینیوں کے سینے میں گھونپاگیا،کیاخوب بندربانٹ کی حقوق انسانیت کے ان سیکولرٹھیکیداروں نے۔پس ہولوکاست قطعاََبھی اتفاقی امر نہیں ہو سکتا،یہ دراصل اسرائیل کے قیام کاسوچاسمجھامنصوبہ نمامقدمہ تھا۔

                دنیاکی چارقیمتی ترین اوصاف ان یہودیوں کے پاس ہیں؛دنیاکے سب سے دولت مندترین لوگ ہیں،یہودیوں کے مالیاتی اداروں نے ساری دنیاسے زرسنہری سلب کرکے تواپنے دوزخ نماشکم بھررکھے ہیں۔دنیاکی سب سے زیادہ تعلیم یافتہ لوگ اسی قوم کے پاس ہیں اورباقی اقوام کی اعلی ترین تعلیمی سطح ان کے ہاں معمولی حیثیت کی حامل سمجھی جاتی جاتی ہے۔دنیابھرکا حسن اس قبیلہ بنی اسرائیل پر ختم ہے،آخرکو حضرت یوسف علیہ السلام کی نسل سے ہیں۔اور دنیابھرکی ذہانت اس قوم کے دماغ میں ایسے سمٹ آئی ہے کہ اس قوم کے دانشوروں نے کل انسانوں کو آگے لگارکھاہے۔سارے انسان،ان کی قیادت،ان کا علم،حلم،تجربہ اور کل انسانوں کی فکر فرداورغم دوش سب کاسب اس قوم کی صدیوں اور نسلوں پر محیط سازشوں کے سامنے بے بس ہیں۔یہ چار قیمتی ترین اوصاف کے باوجود اس قوم کی بدقسمتی اور سیاہ بختی ہے کہ یہ بے فیضی قوم ہے اوران کے ہاتھوں ہمیشہ انسانوں کا نقصان ہی ہوتاہے۔اس آسمان نے یہودیوں کے ہاتھوں انسانوں کی تباہی ہی دیکھی ہے اور یہاں سے کبھی انسانوں کا بھلا میسر نہیں آسکا۔یہی وجہ ہے کہ کل اقوام عالم خواہ وہ تاریخ کے کسی دورانیے سے تعلق رکھتی ہوں،یہودیوں سے ہمیشہ خائف ہی رہی ہیں اور نوبت یہاں تک پہنچی ہے کہ از شرق تاغرب لفظ”یہود“ ایک طعنے اورگالی کے طورپر استعمال ہوتاہے۔

                اگریہ قوم اپنے منصب و مقام کا لحاظ رکھتی تو حق تعالی نے انہیں اقوام کی قیادت و سعادت سونپی تھی،کم و بیش چارہزارانبیاء علیھم السلام اس قوم میں تشریف لائے،تین مقدس کتب اور کتنے ہی صحائف اس قوم میں نازل ہوئے،اللہ تعالی نے جتنے لاڈ اس قوم بنی اسرائیل سے کیے شاید ہی کسی اور قوم کے مقدر میں آئے ہوں۔شرک جیسا گناہ امت مسلمہ کو بھی معاف نہیں لیکن اللہ تعالی نے ان کو شرک بھی معاف کر دیاتھا۔امت مسلمہ کو غلامی سے نجات کے لیے لمبی لمبی تحریکیں اور بے شمار قربانیاں دینی پڑیں جبکہ فرعون جیسے ظالم بادشاہ سے نجات کے لیے انہیں عصائے موسی ہی کافی ہو گیا۔من و سلوی سمیت بے شمار دیگراحسانات ہیں جن کی لمبی فہرست قرآن مجید اور طالمود میں ذکر کی گئی ہے لیکن حیرت و استعجاب کاسمندرہے کہ پھربھی اس قوم  کوانسانوں کے ہاتھوں نفرین و رسوائی اور بارالہ سے ذلت ومسکنت کے مکروہ تحفے ہی میسر ہیں۔یورپ میں ہونے والا ہولوکاسٹ خالصتاََ حکومتی نوعیت کا تھا اور یورپی حکومتوں نے ان یہودیوں کی جڑ کاٹنے کی بھرپور سعی کی تھی۔آج کل ریاست ہائے متحدہ امریکہ ان یہودیوں کے زیرعتاب ہے۔سینٹ،پنٹاگان،وائٹ ہاوس،صدریہ اور دیگرحکومتی ادارے محض دکھانے کے دانت ہیں،اصل میں ”کارپوریٹ امریکہ“یہاں حقیقی حکمران ادارہ ہے جس پریہودیوں کا سوفیصدتسلط ہے۔یہودیوں نے بڑی چابکدستی سے امریکہ کے تمام بڑے بڑے مقتدراداروں کے اہم ترین مقامات پر اپنے پنجے گاڑھ رکھے ہیں۔امریکیوں میں آگ لگاتے ہوئے یہ حقائق بڑی تیزی سے امریکہ کو ایک اور بہت بڑے ہولو کاسٹ کی طرف دھکیل رہے ہیں۔یورپی ہولوکاسٹ سے سوگنابڑاہولوکاسٹ مستقبل قریب میں امریکہ کے اندروقوع پزیرہے جس میں حکومت کی بجائے امریکی عوام کے گروہ کروہ بے قابوہوکر ان یہودیوں کو گھروں سے گھسیٹ گھسیٹ کرباہر نکالیں گے اور امریکہ سے ان کا صفایاکردیں گے۔

                یہ صرف مسلمانوں کا ظرف ہے کہ ماضی بعید سے الیوم،انہوں نے اس قوم کوبرداشت کیاہے۔یہودیوں کی چارہزارسالہ تاریخ کا بہترین دور مسلمانوں کادورعروج ہے جب انہیں ہر طرح کی مراعات حاصل تھیں،ان کے ماہرین طب اپنے فن کی بنیاد پر مسلمانوں کے شاہی خاندانوں تک رسائی رکھتے تھے اوراس بہانے انہیں وظائف بھی ملتے اور انہوں نے طبی تعلیم و تربیت کے ادارے بھی چلائے۔مسلمانوں کے پورے ایک ہزارسالہ دورمیں کہیں بھی یہودیوں کی نسل کشی نہیں ہوئی،کہیں بھی مسلمان سپاہ کے ہاتھوں ان کی قتل و غارت گری کاعمل دہرایانہیں گیا،ان کے زہرخوردہ رویے کے باعث ان کی شہربدری بھی کہیں پڑھنے کو نہیں ملتی گویا تاریخ کا طویل ترین دورانیہ ان یہودیوں پر مسلمانوں کے زیرسایہ بڑے امن و آشتی کے ساتھ گزارا۔ان کے مقابلے میں عیسائیوں کے ساتھ مسلمانوں کی صدی بھر مسلسل عسکری کشمکش رہی اور بیت المقدس کے معاملے میں صلیبی جنگیں لڑی گئیں۔اگریہودی قوم ہوش کے ناخن لیتی تو مسلمانوں کے دورعروج میں دودھ پینے والا مجنوں نہ بنتی اور دورزوال میں مسلمانوں کا ساتھ دیتی۔نسلی طورپر اور عقائدکے میدان میں یہودیت اور اسلام بہت قریبی مذاہب ہیں۔لیکن ان یہودیوں نے عیسائیوں کی شہ میں آکرعثمانی خلافت اسلامیہ کی کمر میں چھراگھونپااور مسلمانوں کے ساتھ دشمنی مول لی۔اس کے بعد سے فلسطین میں آئے روز ایک مشق ستم جاری ہے جو تیسری نسل کے تسلسل میں ختم ہونے کانام نہیں لیتی۔اسلام دشمنی میں یہودیوں نے انسانیت کا دامن بھی تارتارکیا۔

                بہرحال،یورپ کے ہالوکاسٹ کے بعد بے پناہ ہلاکتوں اوراموات کے نتیجے میں قریب تھا کہ یہودیوں کی نسل ہی اس دنیا سے اس کرہ ارض سے نابود ہو جاتی لیکن اللہ تعالی نے قتل انبیاء علیھم السلام، ناشکری،ذلت و مسکنت  اورعبرت کے اس نشان کو قیامت تک باقی رکھناہے۔خدائی انتقام کاشکار اس قوم کوشاید اسی حکمت کے تحت مشیت ایزدی نے انہیں فلسطین میں عارضی جگہ دی تاکہ ان کی نسل قیامت تک باقی رہے۔اگر ان میں تھوڑی سی

عقل ہوتی تواس جگہ کو غنیمت سمجھ کر امن اور سکون سے رہ لیتے،فلسطینیوں نے انہیں کھاتو نہیں جانا تھالیکن تف ہے ان کی دانش معکوس پر کہ اپنے میزبانوں پر آج بھی انہوں نے عرصہ حیات تنگ کر رکھاہے،چندٹکڑے زمین کے خرید کر مالکان کو باجگزاربنالینااور سازشوں سے عالمی طاقتوں کو اپناہم نوابنانے والا کھیل زیادہ عرصہ چلنے والا نہیں ہے۔صاحبان بصیرت کے مطابق ہم بھی چڑھتے ہوئے سورج کے پیچھے بہت جلد طلوع ہونے والے اس دن کو ان آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ سرزمین فلسطین ایک بار پھر اپنے حقیقی وارثوں،فرزندان امت مسلمہ، کے قبضہ قدرت میں ہو گی اور یہوداپنی بداعمالیوں کے باعث ایک بار پھردنیاوآخرت میں ذلت و مسکنت کانشان عبرت ہوں گے انشاء اللہ تعالی۔

[email protected]

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57769

فوڈ سیکورٹی- غذائی قلت کا بحران دنیا بھرمیں بقائےامن وسلا متی کیلئےمستقل خطرہ!- قادر خان یوسف زئی

 اقوام متحدہ کی رپورٹ اسٹیٹ آف دی ورلڈ پاپولیشن کے مطابق دنیا میں مجموعی آبادی 7ا عشاریہ 7ارب سے زائد نفوس پر مشتمل ہے، جس میں ہر برس اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔2050 تک دنیا کی آبادی 9اعشاریہ7ارب تک پہنچ سکتی ہے، جب کہ صدی کے آخر تک 11ارب نفوس تک پہنچے کے اندازے لگائیگئے۔ ایک اندازے کے مطابق 3   ارب سے زائد لوگ خطہ ئ  غربت سے نیچے زندگی گذار رہے ہیں۔تاہم 30 برس بعدہر سال تیزی سے بڑھنے والی آبادی میں اضافے کی امکانات کم ظاہر کئے جا رہے ہیں۔ 2050 کے بعددنیا کی اس کثیر آبادی میں 24برس کے عمر کے لوگوں کو تنوع مشکلات کا سامنا  وسکتاہے۔ دنیا کی مجموعی آبادی ایک اعشاریہ ایک فیصد کے حساب سے بڑھ رہی ہے۔ دنیا میں 10برس تک عمر والے بچوں کی تعداد125ملین ہے۔ جس کا اہم توجہ طلب پہلو یہ ہے کہ نوجوانوں اور بچوں کی 89 فیصد آبادی ترقی پذیر ممالک میں رہتے ہیں۔صنفی امتیاز کی وجہ سے لڑکیوں کو لڑکوں کی با نسبت زیادہ مسائل کا سامنا ہے۔ تاہم دنیا کو اس وقت سب سے بڑا مسئلہ فوڈ سیکورٹی کا ہے۔ جس سے تمام عمر کے لوگ یکساں متاثر ہورہے ہیں۔ غذائیت کی کمی اور قلت کی وجہ سے دنیا کو آنے والی نسل میں کمزور اور کم صلاحیت والے انسانوں کا سامنا رہنے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔ غذائی قلت اور کمی کی وجہ سے صورت حال اس وقت مزید سنگین نظر آتی ہے کہ دور جدید میں خوراک کے مسائل حل نہ کرنے کی وجہ سے رواں صدی تک 11ارب انسانوں کے آباد ہونے کے اندازوں میں کروڑوں انسانوں کو بدترین غذائی قلت کا سامنا ہوگا اور خوراک کے حصول کے لئے ترقی یافتہ ممالک اپنے وسائل سے خوراک کا بڑا حصہ ترقی یافتہ ممالک بالخصوص زرعی مملکتوں سے حاصل کرنے کی وجہ سے انسانی بحران میں اضافے کا موجب بن سکتے ہیں۔


انسانی آبادی میں اضافے میں نو ممالک کا بڑا حصہ خیال کیا رہا ہے۔ جس میں پاکستان، بھارت، نائجیریا، ایتھوپیا، تنزانیہ، انڈونیشیا، مصر اور امریکا شامل ہیں۔صرف براعظم افریقہ میں 13ملین سے زائد لوگ فاقہ کشی کا شکار ہیں۔تنگ دست افراد کی تعداد جنوبی ایشائی ممالک پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش میں بستے ہیں۔2019 میں سامنے آنے والے پاکستان غذائی سروے کے مطابق ملک میں ایک تہائی سے زیادہ بچے خوراک کی کمی کا شکار ہیں، 29 فی صد کے قریب وزن کی کمی جب کہ 17 فی صد سے زائد کمزور ہیں۔ ان بچوں میں بڑی تعداد صوبہ سندھ اور بلوچستان سے تعلق رکھتی ہے۔ تیزی سے بڑھتی آبادی کے مقابلے میں خوراک کی کمی دور کرنے کے لئے مناسب اقدامات نظر نہیں آرہے،بلکہ موسیمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے فصلوں کو نقصانات سے خوراک کے وسائل میں خطرناک حد تک کمی واقع ہو رہی ہے۔ غربت کی کمی کے عالمی منصوبے پر اگر درست طریقے سے عمل کیا جاتا تو لاکھوں انسانوں کو اس وقت اور مستقبل میں غذائی قلت کے بحران کا سامنا نہ ہوتا۔ غذائی قلت کا بحران دنیا بھر میں بقا ئے امن و سلامتی کے لئے مستقل خطرہ بن چکا ہے۔ مہنگائی، غربت نے معاشرے میں بے روزگاری،ٖچوری ڈکیتی، اغوا برائے تاوان، قتل و غارت، شدت پسندی سمیت گھمبیر مسائل میں اضافہ کیا ہے۔ خوراک کی کمی کا مسئلہ عالمی بنیادوں پر بڑی اہمیت اختیار کرچکا ہے۔ قومی سلامتی کے حوالے سے غذائی بحران کو قابو کرنے کے لئے دنیا کے ہر ممالک کو چینلجز درپیش ہیں، پاکستان میں بھی فوڈ سیکورٹی ایک ایسا سنگین مسئلہ بن چکا ہے جس کے کئی وجوہ ہیں۔ جن سے نمٹنا ریاست کی ترجیحات میں شامل تو ہیں لیکن اس کے خاتمے کے لئے مافیائی گروہوں کے خلاف ریاستی قوت کا سخت شکنجہ ہی کار گر ہوسکتا ہے۔ سرکاری سطح پر حکمت عملیاں، پالیسیاں اور اقدامات ہی کسی بھی ملک کی فوڈ سیکورٹی کو یقینی بنا سکتا ہے۔ بد قسمتی سے پاکستان غذائی قلت اور خوراک کی کمی کے بدترین بحران سے گذر رہا ہے، اشیا ء خورد نوش میں گرانی، زراعت میں فصلوں کی ترجیحات میں تبدیلی اور مافیاکے ہاتھوں ذخیرہ اندزوی سے کمیابی جیسے مسائل مملکت کے لئے کڑے چیلنج ہیں۔


1974میں عالمی سطح پر دنیا کو خوراک کی کمی کے چیلنج کا ادارک ہوچکا تھا کہ آنے والی دہائیوں میں دنیا کی بڑھتی آبادی کو غذائی قلت کا سامنا ہوگا۔ فوڈ سیکورٹی کانفرنس میں اس اہمیت کو اجاگر کیا گیا تھا کہ دنیا کے جملہ افراد تمام اوقات میں اپنی بنیادی ضروریات کے مطابق خوراک کے طبیعی اور معاشی دسترس رکھتے ہیں۔ 1986 میں جب عالمی بنک کی رپورٹ میں جنگوں اور خانہ جنگیوں، قدرتی آفات اور معاشی بحران سے دوچار ممالک کے مسائل کو اجاگر کیا تو ایک فعال اور صحت مند زندگی گذارنے کے لئے بہتر اور مکمل خوراک کی اہمیت کو شدت سے محسوس کیا گیا۔ 1996میں خوراک اور نشو ونما کے لئے بہتر غذا کے تصور نے مزید وسعت اختیار کی اور فعال اور صحت مند معاشرے کے لئے غذائیت کے معیار ی و توانائی کے اجزا پر خصوصی اہمیت پر توجہ مرکوز کی جانے لگی۔ 2001 میں خوراک کی کمی اور تحفظ کے لئے طبیعی، سماجی اور غذائیت سے بھرپور ترجیحات کو اپنانے کی ضرورت اپنانے کا رجحان پیدا ہوا۔ 2000کے آغاز میں اقوام متحدہ کے189ممالک نے ملینئیم ترقیاتی اہداف کو طے کرتے ہوئے بنیادی تعلیم، زچہ و بچہ کی صحت، صنفی مساوات اور دیگر شعبوں میں بہتری کے ساتھ 2015میں غربت کی شرح کو نصف کرنے کا عہد کیا تھا، لیکن ایسا ممکن نہیں ہوسکا اور غربت میں اضافے سمیت فوڈ سیکورٹی کے مسائل میں خطرناک حد تک بڑھے، یہاں تک کہ افغانستان جیسے ملک کے ڈھائی کروڑ افراد کو غذئی قلت کا سامنا ہے۔ جیسے اس صدی کا سب بڑا بحران قرار دیا جارہا ہے۔ وفاقی وزارت خزانہ کی اکنامک اپ ڈیٹ 2021 کے مطابق مالی سال 2015-16 میں ملک میں خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی مجموعی شرح 24.3 فیصد تھی جس میں شہروں میں غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی شرح12.5فیصد تھی جبکہ دیہی علاقوں میں خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی شرح30.7 فیصد تھی۔


پاکستان کی آبادی 22کروڑ سے زائد ہے ایک اندازے کے مطابق  203تک آبادی 26کروڑ تک پہنچ جانے کا امکان ظاہر کیا گیا۔ پاکستان کو آبادی میں اضافے کے اعتبار دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے۔ قدرت کی تمام وسائل اور دنیا کا بہترین قدرتی نہری نظام، زرخیز زمین، چار وں موسم کے علاوہ ہر نعمت سے مالامال ملک ہونے کی وجہ سے دنیا میں بہترین ممالک میں پاکستان کا شمار کیا جاتا ہے۔لیکن توجہ طلب پہلو یہ ہے کہ آبادی کے مسلسل اضافے اور 80 کے دہائی سے غیر قانونی تارکین وطن سمیت لاکھوں مہاجرین کی آمد نے مملکت کے مسائل میں غیر متوقع اضافہ کردیا۔ بالخصوص ہمسایہ ممالک میں خوراک کی ضروریات پوری کرنے کے لئے اسمگلنگ نے پاکستان میں فوڈ سیکورٹی کے بحران میں شدت سے اضافہ کیا۔ملک کی قریباََ 68 فیصد دیہی آبادی اور ملک کے مجموعی21فیصد قومی پیداوار میں زرعی شعبہ پر انحصار کیا جاتا ہے۔ چھوٹے بڑے 86 فیصد کاشت کار زرعی رقبے کے48 فیصد مالک اور52 فیصد کی اراضی پر صرف14فیصد جاگیردار کاشت کاری کرتے ہیں۔ ملک کے بڑے حصے، جاگیر داروں کی ملکیت ہونے کے باعث ان کی ترجیحات نے بھی خوراک کی کمی بڑا منفی کردار ادا کیا ہے۔ دوسری جانب افغان جنگ، توانائی بحران، مہنگی بجلی اور زرعی و صنعتی آلات میں جدید ذرائع کا کم استعمال اور صارفین کی قوت خرید کی کمی، موسیماتی تبدیلوں سے بارشوں اور سیلابی صورتحال نے زرعی و صنعتی شعبے کو بری طرح متاثر کیا ہے۔  وفاقی وزارت خزانہ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملک میں خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی مجموعی شرح 21.9 فیصد ہے جس میں سے شہروں میں خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی شرح 11فیصد ہے جبکہ دیہی علاقوں میں خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی شرح 28.2 فیصد ہیبالخصوص افرادی قوت کی بے روزگاری اور کم اجرت نے خوراک اور بھرپور غذائی قلت کی کمی نے غریب اور متوسط طبقے کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔

خوراک تک رسائی میں دشواریوں میں پیٹرولیم مصنوعات میں مسلسل اضافہ، نقل و حرکت کے ذرائع میں اخراجات بڑھنے اور کم اجرت رکھنے والوں کو ضروری اشیا ء کا حصول کسی بھی طبقے کے لئے مشکل بنا دیا ہے۔ سرکاری محصولات میں اضافہ اور دوسری جانب پیداواری لاگت میں بھی اضافے نے قوت خرید پر اثر ڈالا ہے۔ خطے میں تبدیل ہوتی صورت حال کی وجہ سے بین الصوبائی سطح سے ہمسایہ ممالک میں غذائی اسمگلنگ نے درآمدات کو بڑھایا، جو روپے کی قدر کم ہونے کی وجہ سے عام فرد کے لئے بدترین مہنگائی کا باعث بنا اور کرونا جیسی عالمی وبا کی وجہ سے سفید پوش طبقہ بھی خوراک کے حصول کے لئے اپنی چادر کو پیروں سے باہر جانے کی کوشش میں جتا ہوا ہے۔ پاکستان اس وقت بدترین غذائی قلت کا شکار ہورہا ہے، جو زرعی اجناس برآمد کی جاتی تھی، اب گراں نرخوں پر درآمد کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں، پاکستانی معیشت سخت دباؤ کا شکار ہے۔ بلند مالیاتی خسارہ اور قرضوں کے بوجھ نے ریاست کی کمر دوہری کردی ہے۔ توانائی کی قلت نے فوڈ سیکورٹی کے سنگین چیلنجز پیدا کئے ہوئے ہیں۔ کم سرمایہ کاری کی تشویش ناک شرح کی وجہ سے عالمی مالیاتی اداروں سے کڑی شرائط پر لئے جانے والے قرضے اور سود کی ادائیگیوں اور سود ادا کرنے کے لئے بھی قرضے حاصل کرنے کی وجہ  کے باعث عوام کو مہنگائی کے سونامی کا سامنا ہے۔ افلاس، بھوک اور غذائی عدم تحفظ کے شکار عوام کو جہاں بھرپور غذائیت کی کمی کا سامنا ہے تو پینے کے صاف پانی کی عدم فراہمی نے بھی مشکلات میں اضافہ کیا ہوا ہے۔


پاکستان کو غذائی قلت کے خاتمے کے لئے زرعی ایمرجنسی نافذ کرنا ہوگی، صنعت کو مقامی سطح پر فروغ دینا ہوگا۔ خوراک سے متعلقہ تمام درآمدی اجناس کی پیداوار کو ملک کے مخصوص علاقوں میں افزائش کے رجحان کو اپنانے کی اہمیت بڑھانا ہوگا۔ ملک کا بڑا حصہ دیہی علاقوں پر مشتمل ہے۔ فوڈ سیکورٹی کے لئے جدید ٹیکنالوجی کو اپنانے کے لئے اقدامات بڑھانا ہوں گے۔ مستقبل کی خوراک میں شہری ضروریات میں ملٹی نیشنل کمپنیوں، اور مخصوص اقسام کی مہنگی خوراک کی حوصلہ شکنی کی ضرورت صحت عامہ کے مسائل کو قابو کرنے میں بھی مدد دیں گے۔ پیداواری عمل میں تکینکی خامیوں کو دور کرنے کے لئے سرکاری ریاستی اقدامات کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ گندم کی کاشت کے علاوہ دیگر غذائی اجناس کے لئے نئی ٹیکنالوجی کو اپنانا ہوگا۔ خوردنی تیل، فصلات، اور ادویاتی اہمیت اور افادیت کو اختیار کرنے سے قیمتی زر مبادلہ بچایا جاسکتا ہے بلکہ اضافی کاشت کے فوائد سے زر مبادلہ حاصل بھی کیا جاسکتا ہے۔ قومی وسائل کو جو ذرائع اپنے فروعی مقاصد کے لئے استعمال کررہے ہیں ان کی حوصلہ شکنی کرنا ہوگی۔ معاشی پالیسیوں کے تسلسل کو برقرار رکھنے کے لئے قلیل المعیاد پالیسیوں کے ساتھ طویل المدت آزاد پالیسی اور اسٹریجی پر عمل درآمد ناگزیر ہے۔


گندم کی پیدواری لاگت اورامدادی قیمتوں پر خریداری کی پالیسی میں دیکھنا چاہے کہ چھوٹے کاشت کاروں کے بجائے اس سے بڑے کاشت کار زمین دار کو دوہرا فائدہ تو نہیں پہنچ رہا۔ مربوط نظام کو اپنا نا ہوگا۔ غذائی قلت پیدا کرنے والے سٹے بازوں اور ذخیرہ اندوزوں کو قانونی گرفت میں لانے کے لئے حکومت کو ایسے عناصر پر نظر رکھنا ہوگی جو اپنے اثر رسوخ کا فائدہ اٹھا کر بے پناہ مراعات بٹورتے ہیں، مفادات کے ٹکراؤ کا شکار ہونے والے سیاسی شخصیات کو ایسے عمل سے دور رکھنا ضروری ہے جس میں ان کا مالی فائدہ قومی ضرورت پر حاوی نظر آتا ہو۔ فوڈ سیکورٹی کو ڈیجیٹل سسٹم کے تحت حکومتی رٹ میں لانا ہوگا۔ خصوصی منصوبے برائے خوراک میں شفافیت کو مد نظر رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ نقد رقوم اور امدادی پیکجز پر اربوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں لیکن نچلی سطح پر اس طرح کی تقسیم سے کسی خاندان یا فرد کو مستقل فائدہ نہیں پہنچتا، کم مالیت کی گھریلو انڈسٹری کے ذریعے کم آمدنی والی خاندانوں کی حوصلہ افزائی کی جاسکتی ہے اس طرح انہیں اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی قوت فراہم ہوگی اور اربوں روپے غربت کے خاتمے کے نام پر خرچ کئے جاتے ہیں انہیں بتدریج ڈیجیٹل طریقے سے منقسم کیا جائے تو شارٹ ٹرم اور طویل المدت اقدامات سے غربت کے خاتمے اور خوراک کی کمی پر قابو پانے میں مدد مل سکتی ہے۔ دنیا میں ساڑھے تین کروڑ لڑکیاں تعلیم سے محروم ہیں اور بدقسمتی سے ان میں 50 لاکھ سے زائد بچیوں کا تعلق پاکستان سے ہے۔محکمہ تعلیم سندھ اور جاپان انٹرنیشنل کارپوریشن ایجنسی (جائیکا) کی تیار کردہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان میں 2 کروڑ 2 لاکھ بچے اب بھی اسکول سے باہر ہیں۔ تعلیم سے محروم رہ جانے والے بچوں کی سب سے زیادہ تعداد سندھ میں ہے۔ انہیں تعلیمی وظائف دے کر ان کے والدین کو کاٹیج انڈسٹری کا حصہ بنا کر، انٹر نیٹ کی جدید سہولت سے فوائد اٹھانے کی خصوصی تربیتی ورکشاپ علاقائی سطح پر منعقد کی جائیں تو معاشی تنگ دستی کے شکار خاندان، مالی دشواریوں کی وجہ سے لڑکیوں کو بوجھ سمجھ کر آنے والی نسل کو بھیڑ میں بدلنے کا رجحان تبدیل کرسکتے ہیں۔ دیگر اقدامات میں ووکیشنل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ،دستکاری اسکول،اسکول فیڈنگ،محفوظ مامتا اوربچوں کا غذائی پروگرام،صوبوں میں عالمی ادارہ خوراک،عالمی ادارہ صحت، یونیسیف اور یونیسکو کی مدد سے تخفیف غربت کے مختلف منصوبے شامل ہیں۔


پالیسی ساز اداروں کو گندم کے علاوہ متبادل ذرائع مثلاچاول، مکئی، باجرہ، اور جوار، مرغبانی، مچھلی بانی اور حلال جانوروں کی افزائش، سبزیات اور غذائی بیجوں کو محفوظ بنانے اور تجارتی بنیادوں پر استعمال کو ثانوی طور پر قومی سطح پر فوڈ سیکورٹی کے لئے استعمال کرنے کے رجحان کو بڑھانا ہوگا۔ ملک کے ہر حصے کی آب و ہوا کے مطابق خوراک کے تحفظ کو ممکن بنانے کے لئے تحقیقاتی اداروں کی استعداد کو بڑھانا ہوگا۔ ملک کے ہر حصے میں موسم کی نوعیت مختلف ہوتی ہے، کم زرخیز زمینوں پر جن اجناس کی افزائش ہوسکتی ہے انہیں بنجر بننے سے بچانے کے لئے سائنسی طریق کار کو اپنانا ہوگا۔دیہی سطح پر فوڈ سیکورٹی کو یقینی بنانے کے لئے نئی ٹیکنالوجی کو رواج دینا ناگزیر ہے۔ ماڈل ولیج جہاں کاشت کاروں میں خوش حالی کا باعث بن سکتے ہیں تو دوسری جانب ملک کو درپیش غذائی مسائل کے حل کے لئے معاون کار ثابت بھی ہوسکتے ہیں۔ فوڈ سیکورٹی کی پالیسیوں میں چھوٹے بڑے کاشت کاروں کو براہ راست مشاورتی عمل میں شریک کرنے سے مڈل مین کا کردار ختم کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح انہیں براہ راست نمائندگی کے ساتھ ساتھ جدید سائنس کو سمجھنے کے مواقع و ذرائع بھی میسر ہوں گے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57767

محکوموں کا انقلاب، چی معنی دارد -تحریر: شمس الرحمن تاجک

کاروبار کو جب نظریے کا نام دیا جائے تو بڑے فیصلوں کے لیے راہ ہموار کرنا ناممکن ہوجاتا ہے ثبوت کے طور پر ہم اپنے ملک میں آج تک حکمرانی کے مختلف ماڈلز کو پیش کرسکتے ہیں، حکمرانی کا ماڈل کچھ بھی رہا ہو گراس روٹ لیول پر اس کے فوائد کا آنا خواب و خیال ہی ثابت ہوتا رہا ہے۔ بہتری کی امید میں عام عوام نے ہر اس نعرے کا بھی ساتھ دیا جو ذرہ سا بھی معاشرے کو انسانوں کے رہنے کے قابل بنانے کا دعوی کررہا ہو مگر لاحاصل۔ ”آلو لے لو، پیاز لے لو“ کے خالصتا کاروباری نعرے سے لے کر ”روٹی لے لو، مکان لے لو“ تک سب کچھ کاروبار ہی تو ہے۔ ”مجھے کیوں نکالا“ جب نہیں چلا تو ”ووٹ کو عزت دو“ ایجاد ہوا۔ ووٹ کو عزت دینے کے بجائے تخلیق کاروں کو کچھ مہینوں کے لئے وزیر اعظم ہاؤس کی چابیاں دی جائیں تو کیا وہ خود ووٹ کو عزت دیں گے۔ جن ناتواں کندھوں نے ”تبدیلی لے لو“  والے نعرے کا بوجھ اٹھایا تھا ان کا سفر عظیم ”مجھے اگر نکالا“ تک پہنچا ہے۔

کیا ہی اچھا ہوتا کم از کم تبدیلی والوں کے لئے آج عوام کہہ اٹھتے کہ اگر ”انہیں نکالا گیا“۔ مگر نہیں اس ملک میں انسانوں والے خواب دیکھنے کی اجازت نہیں۔شعور و آگاہی کی وہ منزل بہت دور ہے جہاں ہم یہ سوچیں کہ عوام اپنے ووٹ کے ذریعے ایسے افراد اور پارٹیوں کا احتساب کریں گے، نہ ہی اصل حکمران اس بات کی اجازت دیں گے۔ پھر ہر ذاتی نعرے پر غیروں کی شادی میں عبداللہ دیوانہ والا رویہ کیوں؟ ہر پانچ سال بعد ایک عجوبے کو پکڑ کر اختیار کے اعلی ترین مسند پر بٹھایا جاتاہے پھر ڈگڈگی والا تماشا شروع۔ سڑکوں پر مرد آہن کی تمام تر صفات کا مظاہرہ کرتا ہوا شخص اقتدارکے حصول کے بعد ڈگڈگی کے اس تماشے میں ہمیشہ سے لاچار ہی دکھائی دیتا ہے۔ مگر ایسی بھی کیا لاچارگی اور ایسی بھی کیا دھمکی، جو مسند سے اترنے کے بعد دی جائے۔ اختیار کی تمام تر غلام گردشوں سے دوری کے بعد دی جائے۔ پتہ نہیں اس مسند کے ساتھ کیا مسئلہ ہے کہ یہاں تک پہنچنے والا ہر شخص اتنا بے اختیار ہوجاتا ہے کہ پھر بیوی اور بچے تک اس کی بات کو کوئی وقعت دینے پر تیار نہیں ہوتے۔اتنا اپاہج شخص دوبارہ بھی اس مسند تک پہنچنے میں کامیاب ہو تو کیا تیر مار سکتا ہے۔

سوائے اس کے کہ ”میں خاموشی سے تماشا دیکھ رہا ہوتا ہوں“۔ سیاسی لیڈرشپ کی سب سے احمقانہ اور بچگانہ سوچ کہ عوام ان کے لئے باہر نکلیں گے، عوام جانی و مالی قربانی دیں گے، لوگ کٹ مریں گے، ملک میں انقلاب آئے گا اور انہیں دوبارہ سے اقتدار کے سنگاسن پر بٹھایا جائے گا۔ کیا اس سے بڑھ کر بھی کوئی احمقانہ سوچ ہوسکتی ہے۔ جس عوام کی آپ نے چوپایوں جیسی تربیت کی ہے۔ان کی قیمت ایک پلیٹ بریانی رکھی گئی ہو۔ بیس بیس سال باریاں بھگتانے کے بعد اپنے لئے جزائر خریدلے عوام کو روٹی کے لالے پڑے ہوں۔آپ کے سفر کے دوران لگے ہوئے روٹ کی وجہ سے رکشوں میں اور شاہراہوں پر پیدا ہونے والے بچے اور ان کے ماں باپ کیا واقعی میں کسی انقلاب کا سبب بن سکتے ہیں؟اگر بن بھی گیۓتو کس سے نجات کے لئے ہوگا یہ انقلاب۔ یہ سوچنے میں کیا حرج ہے کہ ایسے کسی بھی انقلاب کے سب اہم ترین شکار”نعرے“ والے ہی ہوں گے۔ مگر ٹھہریے، اس قوم کی تربیت میں آپ بھی اتنے ہی حصہ دار ہیں جتنا کہ آپ ”ان“ کو سمجھتے ہیں۔ تو سن لیں دنیا کی دستیاب تاریخ میں ایسے کسی انقلاب کا ذگر تک نہیں ملتا جو ”چوپایوں“ نے برپا کی ہو۔اگر ہمارے حکمرانوں کو انقلاب درکار ہے تو پہلے عوام کو یہ احساس دلانا پڑے گا کہ وہ بھی انسان ہیں۔

اپنا رویہ ان کے ساتھ انسانوں جیسا رکھنا ہوگا۔ جلسے جلوسوں میں زندہ باد کے نعرے لگوانے اور ہاتھ پیروں پر بوسہ لینے کے بعد گھر جا کر ڈیٹول کے ٹپ میں گھنٹوں گزارنے سے گریز کرنا پڑے گا۔قوم کہیں، عوام کہیں یا کچھ اور، جن سے آپ یہ توقع لگائے بیٹھے ہیں کہ وہ آپ کو راج سنگھاسن پر بٹھانے کے ذمہ دار ہیں چاہے اس کے لئے ان کو اپنی جانوں کا نذرانہ دینا پڑے۔ اقتدار کی راہداریوں میں اپنی موجودگی کے دوران ان کی تربیت کرچکے ہوتے۔ عزت اور بے عزتی میں فرق کرنا سکھاچکے ہوتے۔ حق اور نا حق کا تصور سمجھاتے۔ ایک قوم ہی بنالیتے اس ملک کے باسیوں کو، انسان ہونے کے فخر کا احساس دلاچکے ہوتے۔ان صفات کے بجائے آپ سب نے مل کر بہت محنت سے عوام کو ”کمی کمین“ بنادیا ہے۔ لیڈرہجوم کو قوم میں بدلنے پر جب تیار ہوجائے تو اسے کچھ زیادہ نہیں کرنا پڑتا۔ بس ذات کے خول سے باہر آکر فیصلے کی دیر ہوتی ہے، ایک سچ بولنے کی دیر، دل و دماغ مجتمع کرکے صرف ایک نا کہنے کی ہمت۔ ذاتی فائدے کے بجائے ملکی مفاد کو مقدم رکھنے کی ریت ڈالنے کی دیر، میرے بعد میرے بیٹے، بیٹی کی باری کے بجائے میرٹ پر فیصلے کے حامی ہونے کی دیر، ہمارے ملک میں ایسا فیصلہ کرنے والا کوئی ہے، کوئی ایسا شخص جو ذات سے باہر آکر سوچ سکے، ذات کو ملکی بہبود، عوام کی بہتری پر قربان کرنے کے فن سے آگاہ ہو۔نہیں نا؟ تو پھر جس کسی کو جو کوئی بھی جہاں کہیں سے نکالے، عوام کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57764

ثقافتی یلغار کی نئی لہر ۔ محمد شریف شکیب

پڑوسی ملک بھارت کی ریاست آندھرا پردیش سے تعلق رکھنے والے ایک خاندان نے اپنے ہونے والے داماد کی خاطر مدارت کی مثال قائم کردی۔اس خاندان نے اپنے مذہبی تہوارکے روز اپنے ہونے والے داماد کوپرتکلف ظہرانے پر مدعو کیا اور اس کے آگے انواع و اقسام کے کھانوں کا ڈھیر لگادیا۔دسترخوان پر سجے کھانوں کی مجموعی تعداد365 تھی۔میزبانوں کا کہنا تھا کہ اتنے سارے کھانوں کے انتظام کا مقصد ہمارے خاندان سے جڑنے والے نئے فرد کو اپنی محبت کا احساس دلانا تھا،اتنے سارے کھانے چکھنے کے بعد بیچارے داماد کی کیاحالت ہوئی ہوگی اس بارے میں کوئی معلومات نہیں۔اس شاہانہ دعوت کی ویڈیو میں لڑکی سمیت اس کے پورے خاندان کو ہونے والے داماد کی تواضع کرتے دکھایاگیا ہے۔یہ وڈیودیکھ کر بہت سے لوگوں کا دل دوسری یا تیسری شادی کے لئے مچل گیا ہوگا۔لیکن ہر داماد کی قسمت آندھراپردیش والے دولہا بھائی جیسی کہاں ہوتی ہے۔ہمارے دیہی علاقوں میں بیٹی کی شادی سے متعلق یہ تصور ہے کہ ہم نے بیٹی کے بدلے بیٹالے لیاہے۔

موبائل کی وباء پھیلنے اور سوشل میڈیا کی یلغار سے دیہی علاقوں کی زریں روایات ایک ایک کرکے معدوم ہوتی جارہی ہیں بعید نہیں کہ دولہا کی دعوت سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ بن جائے اور شہروں سے ہوتی ہوئی یہ روایت ہمارے دیہی علاقوں تک بھی پہنچ جائے۔ کیونکہ دیکھا گیا ہے کہ منگنی پر دلہن کو سونے کی انگوٹھی، گھڑی، قیمتی موبائل کا تحفہ دینا، لڑکے والوں کی طرف سے اسے عروسی لباس پہنانا، جہیز کے مطلوبہ سامان کی فہرست لڑکی والوں کو بھیجنا، حق مہر میں سونا رکھنا، چوری کی مہندی، شادی کے چند مہینوں کے اندر لڑکی کو الگ گھر دلوانے جیسی رسومات پڑوسی ملک سے ہی سمگل ہوکر ہمارے پاس پہنچی ہیں اور شہروں کو یہ رسومات آلودہ کرتے ہوئے دیہات تک پہنچ گئی ہیں۔جہیز کی لعنت کی وجہ سے ہزاروں لڑکیاں ہاتھوں میں حنا کا رنگ سجنے کا خواب آنکھوں میں سجائے بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھتی ہیں۔

دیہی علاقوں میں دس بارہ بیٹیاں بھی باپ پر بوجھ نہیں تھیں۔شادی بیاہ کی رسومات نہایت سادہ اور اسلامی طریقے سے ہوتی تھیں۔مہنگی کے لئے لڑکے والوں کی طرف سے دو تین بندے لڑکی والوں کے پاس جاتے تھے۔ بات طے ہوجاتی تو مہمانوں کو کھانا کھلایاجاتا تھا۔شکرانے کی دعا کو مہنگی کی رسم قرار دے کر بات پکی کی جاتی تھی۔ لڑکی والوں کے رشتہ داروں اور گاؤں والوں کی دعوت کے لئے لڑکے والے دو چار دنبے، بکرے یا ایک بیل پیش کرتے تھے۔

شادی کے دیگر اخراجات بھی لڑکے والے اٹھاتے تھے۔نکاح کے وقت لڑکے والے دولہا کو لے کر دلہن کے گھر جاتے تھے۔ حق مہر باہمی مشاورت سے طے کرنے کے بعد نکاح پڑھائی جاتی تھی۔ شام کو دولہا اور اس کے ساتھ آئے ہوئے مہمانوں کے لئے لڑکی کے ہاں پرتکلف دعوت کا اہتمام کیاجاتا تھا۔عشائیے کے بعد دولہا کو مہمان خانے سے زنان خانے بلایاجاتا تھا۔ تاکہ گھر کے تمام افراد، رشتہ دار اور گاؤں کی خواتین انہیں دیکھ سکیں۔اس موقع پر دولہا کے جوتے چھپاتے کا مذاق بھی ہوتا تھا۔صبح سویرے لڑکی کی رخصتی ہوتی تھی۔

یہ خوبصورت رسومات اب معدوم ہوچکی ہیں۔شادی کرنا اب لڑکے اور لڑکی والوں کے لئے بوجھ بنتا جارہا ہے۔جہیز میں گاڑی، بائیک، ٹی وی، فریج، واشنگ مشین، فرنیچر، بیڈزسمیت گھر کی ضرورت کی ہرچیز، بسترے اور سینکڑوں جوڑے کپڑے، جوتے اور بناؤسنگھار کا سامان بھی دینا پڑتا ہے۔ہمارا دعویٰ تھا کہ ہماری تہذیب و تمدن پر بیرونی ثقافتی یلغار کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔ مگر یہ ہماری خوش فہمی تھی۔ ہم دوسروں کی طرح بننے کو ترقی پسندی قرار دیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہم دیگر اقوام کا طرز زندگی اور رہن سہن اختیار کرنے میں زرا بھی تامل نہیں کرتے۔ نقالی کی اسی بری عادت کی وجہ سے ہمارے دل میں یہ وسوسہ پنپ رہا ہے کہ داماد کی پرتکلف دعوت کی اس روایت پر ہمارے ہاں بھی عمل شروع نہ ہوجائے۔ہمارے لئے تو سال بھر کے دنوں کے برابر تو کیا، مہینے کے دنوں کے مساوی اقسام کے طعام تیار کروانا بھی مہنگائی کے اس دور میں سوہان روح ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامین
57738

آسٹریلیا (Australia)ایک ملک ۔ ایک براعظم-ڈاکٹرساجدخاکوانی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

آسٹریلیا (Australia)ایک ملک ۔ ایک براعظم-

(26جنوری قومی دن کے موقع پر خصوصی تحریر)

ڈاکٹرساجدخاکوانی

                لفظ”آسٹریلیا“لاطینی زبان سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ”جنوبی علاقہ“ ہے۔یہ دنیا کا سب سے چھوٹا براعظم ہے جس کے کچھ جزائربحراوقیانوس اور بحر ہند میں بھی واقع ہیں۔انڈونیشیا،مشرقی تیمور اور نیوزی لینڈاس سرزمین کے ہمسایہ ممالک ہیں۔1901میں چھ خطوں پر مشتمل حکومتوں نے باہم مل جانے کا فیصلہ کیا اور یوں ”دولت ہائے مشترکہ آسٹریلیا“ وجود میں آئی۔ یہاں آزاد جمہوری سیاسی نظام ہے جس کے تحت ان چھ علاقوں کے عوام ایک ہی نام سے دنیا میں پہچانے جاتے ہیں۔آسٹریلیا کی آبادی کم و بیش 22,812,531نفوس پر مشتمل ہے۔یہ ایک کثیرالقومی مملکت ہے جس میں متعددقبائل کے لوگ صدیوں سے رہائش پزیر ہیں۔یہ سرزمین زیادہ تر نیم صحرائی علاقے پر مشتمل ہے کہیں کہیں وسیع جنگلات بھی ہیں۔بیسویں صدی کے وسط سے اس خطہ کی تہذیب امریکہ کے زیراثر ہے۔صدیوں قبل اس خطے کو جنوب مشرقی ایشیاسے آئے ہوئے ماہی گیروں نے آباد کیاتھا۔یہ بنیادی طور پر شکاری لوگ تھے۔بعد کے آنے والے دنوں میں ڈچ اور برطانوی سیاحوں نے بھی یہاں پڑاؤڈالے اور کچھ نے یہاں اپنا سکہ جمانے کی کوشش بھی کی۔26جنوری1788ء کو برطانیہ نے اسے اپنی باقائدہ کالونی قرار دے دیا،یہ عمل اگرچہ آسٹریلیا کے جنوب میں کیا گیالیکن جلد یا بدیر آسٹریلیاکے تمام علاقوں نے اسی نظم کے تحت اپنے آپ کو پرو لیااور کم و بیش ایک صدی کے اندر اندر پوے آسٹریلوی علاقے ایک ہو گئے۔تب سے یہ تاریخ آسٹریلیا میں قومی دن کے طور پر معروف ہوئی اورآج تک اس مملکت میں 26جنوری کو ایک قومی تہوار کی حیثیت حاصل ہے۔

                دوسری جنگ عظیم کے بعد سے آسٹریلیااوربرطانیہ کے تعلقات کمزور پڑنے لگے اور یوں آسٹریلیااپنے دفاع کے لیے امریکہ کی چھتری تلے آنے پر مجبورہو گیا۔دوسری جنگ عظیم کے بعد سے ہی آسٹریلیانے یورپیوں کے لیے اپنے ملک کے دروازے کھول دیے۔1970کے بعد آسٹریلیانے یورپیوں کے ساتھ ساتھ باسیان ایشیااور دنیا کے دیگر خطوں میں بسنے والوں کو بھی اپنی سرزمین پر خوش آمدید کہا۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آسٹریلیاکی مملکت دنیا بھر کی تہذیبوں،مذاہب اور مختلف رنگ و نسل کے لوگوں کی آماجگاہ بن گئی۔اس کثرت آبادی کا یہ نتیجہ نکلا کہ آسٹریلین ایکٹ 1986ء کی منظوری کے بعد برطانیہ سے آئینی تعلقات نہ ہونے کی حد تک رہ گئے اور برطانوی حکومت کا آسٹریلوی ریاستوں میں عمل دخل تقریباََ ختم ہی ہوگیا۔

                دولت ہائے مشترکہ آسٹریلیا دراصل ایک آئینی جمہوریہ ہے جووفاقی تقسیم اختیارات پر مشتمل ہے۔یہاں پارلیمانی نظام حکومت ہے۔ملکہ ایلزبتھ ثانی یہاں کی بادشاہی آئینی سربراہ ہے۔مرکز میں گورنرجنرل اورریاستوں میں گورنرزملکہ کے نمائندوں کے طور پر موجود ہوتے ہیں۔اگرچہ آسٹریلیاکے گورنر جنرل کے پاس اختیارات موجود ہیں لیکن یہ صرف وزیراعظم کو مشورہ دینے کی حد تک ہی ہیں،تاہم ایک بہت ہی اہم اختیارجو گورنرجنرل آسٹریلیاکے پاس ہے وہ حکومت کی برخواستگی کا ہے اسکے علاوہ ہائی کورٹ کے ججزکی تقرری بھی اسی منصب کا حامل دارکرتاہے۔حکومت کے تین بڑے بڑے ادارے ہیں،مقننہ:جس میں دولت مشترکہ کی پارلیمان جو ملکہ،سینٹ اور ایوان نمائندگان پرمشتمل ہے، جبکہ ملکہ کی نمائندگی گورنرجنرل کرتا ہے،انتظامیہ جس میں وزیراعظم اور کابینہ کے وزرا شامل ہیں اورحکومت کا تیسرا ادارہ عدلیہ ہے جس میں آسٹرلیوی ہائی کورٹس اوراعلی وفاقی عدالت شامل ہیں۔آسٹریلوی ریاستوں میں نیوساؤتھ ویلی،کوئین لینڈ،جنوبی آسٹریلیا،طسمانیہ،وکٹوریہ اورمغربی آسٹریلیا شامل ہیں۔دو اہم علاقے،شمالی علاقہ اور آسٹریلوی دارالسلطنت بھی شامل ہیں،بہت حد تک یہ دو علاقے بھی ریاستوں کی طرح کا ہی کردار اداکرتے ہیں۔ہر ریاست کی اپنی پارلیمنٹ ہوتی ہے چنانچہ ہر ریاست کو آئین کے تحت ایک حد تک اپنی حاکمیت اعلی کے اختیارات میسر ہیں جس کے تحت وہ اپنے قانونی وانتظامی معاملات کی دیکھ بھال کرتی ہیں۔ہر ریاست کا نگران وزیراعلی کہلاتا ہے اور ریاست میں ملکہ کا نمائندہ، گورنر،وہاں کا آئینی حکمران ہوتا ہے جسے محدود اختیارات حاصل ہوتے ہیں۔

                آسٹریلیا کا سرکاری مذہب کوئی نہیں۔سکول کی تعلیم پورے آسڑیلیامیں لازمی ہے جس کا دورانیہ 6سے 16سال کی عمر تک ہے۔اسی کے باعث یہاں کی شرح خواندگی 99%تک جا پہنچی ہے۔یہاں 38کی تعدادمیں سرکاری جامعات ہیں اور بہت ساری نجی اداروں کے تحت چلنے والی جامعات بھی قائم ہیں جبکہ یہاں کی حکومت سرکاری اور نجی تمام جامعات کو اپنی طرف سے بھرپورمالی امداد مہیا کرتی ہے تاکہ تعلیم کا سلسلہ رکنے نہ پائے۔حکومت اپنی بنیادی آمدن کا 4.5%تعلیم پر خرچ کرتی ہے۔حکومت نے فنی تعلیم پر بھی بے پناہ سرمایاخرچ کیا ہے چنانچہ ایک سروے کے مطابق 58%آسٹریلوی باشندے فنی تعلیم سے آراستہ ہیں اور یہ تعداددنیا میں کسی بھی ملک سے سب سے زیادہ ہے لیکن اس کے باوجود بھی 4.4%بے روزگاری کا تناسب بھی موجود ہے۔آسٹریلیا دنیاکا سب سے زیادہ کوئلہ برآمد کرنے والا ملک ہے،اسکے علاوہ ہاں پٹرولیم،سونا،چاندی اور کاپر وغیرہ جیسی دھاتیں بھی بکثرت ہیں۔یہاں 92%سفید نسل کے لوگ اور 7%ایشیائی لوگ آباد ہیں 1%کچھ اور نسلوں کے لوگ بھی ملتے ہیں۔61.1%عیسائی،2.5%بدھ مذہب کے لوگ اور2011کی مردم شماری کے مطابق 2.2%مسلمان آباد ہیں۔یہاں کی اکثریت انگریزی بان ہے اگرچہ چینی اور دیگر ایشیائی زبانیں بھی بہت کم تعداد میں بولنے والے ملتے ہیں۔گندم،گنامختلف قسم کے پھل اور مرغی،بکری اور دیگر چوپائے یہاں پائے جانے والے معروف جانور ہیں۔یہاں 461ہوائی اڈے موجود ہیں جس سے اس مملکت کی خوشحالی کا پتہ چلتا ہے۔یہاں کی افواج ”آسٹریلین ڈیفنس فورس“کے نام سے جانی جاتی ہیں جس میں آسٹریلین آرمی،شاہی آسٹریلوی بحریہ شاہی آسٹریلوی فضائیہ اورخصوصی دفاعی دستے شامل ہیں جبکہ دفاع پر ملکی آمدن کاصرف 2.4%خرچ کیا جاتا ہے۔

                آسٹریلیا میں اسلام کی آمدکا سراغ  سترہویں صدی میں ملتا ہے جب انڈونیشین مسلمان تاجروں کے تعلقات اس خطے میں موجود لوگوں سے بڑھنے لگے۔اگرچہ اس سے پہلے بھی افریقی غلاموں کے ساتھ اسلام کے کچھ اثرات اس علاقے میں پہنچے تھے لیکن تاریخ نے انہیں محفوظ نہیں کیا۔تاہم 1860 میں افغانی باشندوں کی ایک کثیر تعدادشتربانی کی خاطر یہاں آئی،انہوں نے مقامی افراد کے ہاں شادیاں کیں اور یوں مسلمانوں کی ایک نسل یہاں پروان چڑھنے لگی۔شاید انہیں کی تعمیر کردہ آسٹریلیا کی پہلی اورقدیمی مسجد جنوبی آسٹریلیا میں آج بھی موجود ہے۔بوسنیائی اور کوسوویائی مسلمانوں کا بھی یہاں اسلام کے پھیلاؤ میں بہت عمل دخل رہا ہے۔اس وقت بہت سے مسلمان جو آسٹریلیا میں آباد ہیں یہاں کے مقامی ہونے کے ساتھ ساتھ دنیا کے دوسرے ملکوں سے آئے ہوئے ہیں جن کی اکثریت نے یہاں کی شہریت بھی اختیار کر لی ہے۔آسٹریلیا کے مسلمانوں نے متعدد تنظیمیں بھی قائم کر رکھی ہیں جو مسلمانوں کی جملہ ضروریات کاخیال رکھتی ہیں جن میں مساجد کی تعمیراوربچوں کی دینی تعلیم وغیرہ شامل ہیں۔1963میں مسلمانوں کی تمام تنظیموں نے مل کر آسٹریلین فیڈریشن آف اسلامک سوسائیٹیز کی بنیاد رکھی۔1976میں بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر اس میں کچھ تبدیلیاں کی گئیں اور ہر ریاست کے اندر اس تنظیم کو انتظامی اختیارات میں محدود آزادی دے دی گئی اورہر ریاست کی اسلامک کونسل کو اسٹیٹ اسلامک کونسل کا نام دیاگیااور ان کونسلز کے مرکزی نظم کوآسٹریلین فیڈریشن آف اسلامک کونسلزکہاجانے لگاجس کا صدر دفترسڈنی میں واقع ہے۔

آسٹریلین فیڈریشن آف اسلامک کونسلزآسٹریلیا کے مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم ہے جو ملک میں اور بیرون ملک وہاں کے مسلمانوں کی نمائندگی کرتی ہے۔وہاں کی مقامی مسلمان تنظیمیں،علاقائی مسلمان تنظیمیں اورمرکزی مسلمان تنظیمیں سب کی سب رجسٹرڈ ہیں اور ان میں جمہوری شورائی اسلامی نظام نافذ ہے۔آسٹریلوی مسلمان جو اپنے ملک کے کثیرالقومی معاشرے کا حصہ ہیں وہ تمام آبادی کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ اسلام کا مطالعہ کرے اوراس دین کو سمجھنے کی کوشش کرے۔یہاں کے مسلمان اپنے ملک کی ترقی میں اہم کردارادا کرتے ہیں۔آسٹریلوی قانون کے تحت مسلمانوں کو مذہبی آزادی حاصل ہے جس کے باعث انکی مذہبی تقریبات آسانی سے منعقد ہوتی ہیں۔ہر سال کثیر تعداد میں لوگ یہاں سے حج کرنے کے لیے بھی حجازمقدس کا سفر بھی کرتے ہیں۔گیارہ ستمبر کے امریکی واقعہ کے بعد پوری دنیاکی طرح آسٹریلیاکے مسلمانوں کی بھی مشکلات میں اضافہ ہوگیالیکن وہاں کی حکومت نے اپنے ملک کے حالات بہت اچھے طریقے سے قابومیں کر لیے اور جنوری2007میں وہاں کے وزیرتعلیم نے اعلان کیاکہ ملک کی تین بڑی جامعات میں اسلامیات کی تعلیم کے بارے میں مراکزکھولے جائیں گے اوراس مقصد کے لیے حکومت نے ایک خطیررقم کی مختص کر دی۔اس سے پہلے دسمبر2005میں مسلمان نوجوانوں کا ایک میلہ بھی منعقدکیاگیااور مسلمان ائمہ کرام کی ایک کانفرنس بھی2006میں منعقدہوئی۔یہ تمام تقاریب بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ کے لیے منعقدکرائی گئیں جس میں مسلمانوں کی تنظیم آسٹریلین فیڈریشن آف اسلامک سوسائیٹیزنے بھی اپنا بھرپور کردار اداکیا۔بہرحال حالات جیسابھی رخ اختیارکریں اہل ایمان بہتے دریاکی طرح اپنا راستہ نکال لیتے ہیں۔

[email protected]

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57735

داد بیداد ۔ اقتصادی رابطہ کمیٹی ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

داد بیداد ۔ اقتصادی رابطہ کمیٹی ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلا س میں نسوار کا نر خ مقرر کرنے پر طویل مشاورت ہوئی غا لب نے چارگرہ کپڑے کی قسمت پر حیف کا اظہار کیا تھا جو عاشق کا گریبان ہونے کے بعد تارتار ہو اضمیر جعفری اگر آج بقید حیات ہو تے تو نسوار کی خوش قسمتی پر رشک کر تے ہوئے قطعہ ارشاد فر ما تے اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلا س میں گیس اور بجلی کی رائیلٹی کے معا ملا ت آتے رہے ہیں نیشنل فنا نس کمیشن کے ایوارڈ کا مسئلہ زیر بحث آتا رہا ہے، سما جی شعبے کی تر قی کے امور ایجنڈے کا مستقل حصہ رہے ہیں یہ تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ پان، گٹکہ اور سگریٹ یا حقہ سے پہلے نسوار کو ایک اہم قو می کمیٹی کے ایجنڈے پر رکھا گیا اور اس پر سیر حا صل گفتگو کے بعد نسوار کے لئے قو می سطح پر نر خنا مہ بھی دیا گیا شا عر کا مصرعہ ہے ”میرا ذکر مجھ سے بہتر ہے کہ اُس محفل میں ہے“ یہ شا عر کا خیا ل ہے عین ممکن ہے کہ اُس محفل میں نسوار خود بھی مو جود ہو ہمارے دوست ظفر صاحب امریکی شہریت حا صل کرنے سے پہلے وطن عزیز میں مار کیٹنگ کے شعبے سے وابستہ تھے ان کے ہینڈ بیگ سے نسوار کے سیمپل خوب صورت لیبل کے ساتھ بر آمد ہوتے تھے.

نسوار کا یہ برانڈ ایف16-کہلا تا تھا ظفر صاحب کہتے تھے کہ میں معمو لی مصنو عات کی ما ر کیٹنگ نہیں کر تا ایسی مصنو عات کی ما رکیٹنگ کرتا ہوں جو منفرد خصو صیات کی حا مل ہو تی ہیں اور ایف 16کے بارے میں ان کا دعویٰ تھا کہ نسوار کی یہ قسم پوری دنیا میں منفرد ہے سعودی عرب جا نے والے کار کن، سیا ح، زائرین اور حج و عمرہ پر جا نے والے مسافر اس بات کا تجربہ رکھتے ہیں کہ نسوار کے حوالے سے سعو دی قوانین میں زیر و ٹا لرنس پا ئی جا تی ہے ہمارے دوست بیگ صاحب نے سفر نا مہ حج کی روداد میں لکھا ہے کہ ہمارے گروپ کے ایک بزرگ حا جی کو نسوار کے فراق میں سردرد کا شدید دورہ پڑا، ایک ٹیکسی ڈرائیور 40کلو میٹر دور پہا ڑی غار سے اس کے لئے نسوار لے آیا.

یہ دلچسپ تجربہ تھا اگلی بار ہم بھی غار دیکھنے گئے تو معلوم ہوا کہ اس غار نما سر نگ میں نسوار کا با قاعدہ پلا نٹ لگا ہوا ہے ٹیکسی ڈرائیور و ں کو اس جگہے کا علم ہے سعودی انٹیلی جنس کو اس کی خبر نہیں ہم نے دل ہی دل میں کہا ”گر فتہ چینیاں احرام و مکی خفتہ در بطحا“ اب جبکہ قو می اسمبلی اور سینٹ سے منظور شدہ فنا نس بل عرف منی بجٹ میں گوشت اور لنڈے پر ٹیکس لگا یا گیا ہے بعید نہیں کہ اقتصادی رابطہ کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں اگلے بجٹ کے اندر نسوار کو بھی ٹیکس نیٹ میں لا یا جا ئیگا حقے پر بھی ٹیکس لگے گا بلا شبہ ٹیکس ادا کرنا قو می خد مت ہے جب سب لو گ اس خد مت میں جُتے ہوئے ہیں تو ہم نسوار کے مارے ہوئے بے چارے اس خد مت سے کیوں پیچھے رہیں ؎


زما نہ عہد میں اُس کے ہے محو ارائش
بنیں گے اور تارے اب آسمان کے لئے

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57732

کیازمانے میں پَنپنے کی یہی باتیں ہیں – تحریر: ثمر خان ثمر

پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جو قدرتی وسائل سے مالامال ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے وطن عزیز کو ہر ہر نعمت سے نواز رکھا ہے۔ جغرافیائی اعتبار سے جو چیزیں اہمیت رکھتی ہیں وہ یہاں میسر ہیں۔ بحربیکراں، وسیع و عریض میدان، سرسبز وشاداب جنگلات اور تاحدنگاہ پھیلے ہوئے ریگستان۔ ایسی کون سی نعمت ہے جو ہمارے ملک میں دستیاب نہیں ہے۔ جہاں قدرت نے ہمیں نوازنے میں بخل سے کام نہیں لیا وہیں ناسپاسی کا مظاہرہ کرنے میں بھی ہم نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ہم انتہائی ناشکرے لوگ ہیں۔ سوہنی دھرتی(پاکستان) کو اگر ایک حسین وجمیل دوشیزہ سے تشبیہ دیں تو گلگت بلتستان اس کے ماتھے کا جھومر ہے۔ گلگت بلتستان اپنے بلند وبالا پہاڑوں، منہ زور ندی نالوں، دریائے سندھ کے نیلگوں پانیوں، پہاڑوں کے سینے چیر کر اُبلنے والے صاف و شفاف پانی کے چشموں، سرسبز وشاداب چراگاہوں، نایاب درختوں پر مشتمل جنگلوں، بلندیوں سے گرتے آبشاروں ، گہری گہری جھیلوں، پھلدار درختوں اور آثار قدیمہ کے لیے دنیا بھر میں اپنی شناخت اور پہچان رکھتا ہے۔


 جس گلگت بلتستان کو آپ نے آج دیکھا ہے، چین، برطانیہ وغیرہ نے برسوں قبل دیکھا تھا۔ اس کی اہمیت و افادیت جتنی غیروں کی نظر میں ہے، بدقسمتی سے ہمارے اندر نہیں ہے۔ دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی “K2” آپ کے پاس ہے، تین عظیم پہاڑی سلسلے آپ سے ہو کر گزرتے ہیں۔ دنیا کی بلندترین اور وسیع وعریض چراگاہ “دیوسائی” آپ کے پاس ہے۔ ننگا پربت، فیرومیڈو، بابوسر ٹاپ، ہنزہ، اسکردو، استور، غذر، داریل، تانگیر ۔۔۔کیا کیا نہیں ہے اس خطہ جنت نظیر میں؟ جتنا کچھ منظر عام پہ آگیا ہے اتنا ابھی نظروں سے اوجھل بھی ہے۔ انٹرنیٹ کی سہولت میسر آتے ہی گلگت بلتستان کی شہرت کو گویا پر لگ گیے۔ میں اس تحریر کے توسط سے نوجوانان گلگت بلتستان سے مخاطب ہوں۔ کچھ باتیں عرض کرنا مقصود ہے، ممکن ہے میری باتیں ناگوار بھی گزریں لیکن سچ سچ ہی ہوتا ہے جو اکثر کڑوا ہوتا ہے۔


انتہائی دکھ درد اور عالم کرب میں کہنا پڑتا ہے کہ رفتہ رفتہ باشندگان شمال اپنی تہذیب و ثقافت کھو رہے ہیں۔ ہماری صدیوں پر محیط شاندار ثقافت ایک عدد “ڈھول” میں سمٹ رہی ہے۔ ڈھول باجا اور رقص و سرود ہماری ثقافت ہرگز ہرگز نہیں ہے۔ کچھ لوگ زبردستی ان خرافات کو ثقافت کا نام دے کر سماج میں گھسیڑنا چاہتے ہیں۔ نوجوان نسل تیزی سے ان خرافات میں پڑ رہی ہے۔ ہماری پہچان ڈھول باجوں اور ناچ گانوں سے وابستہ نہیں ہے۔ اہلیان گلگت بلتستان اپنی شجاعت و بہادری، جود وسخا، مہمان نوازی، انسانی ہمدردی، خلوص و محبت، ایثار و قربانی، جفاکشی اور رحمدلی کے لیے مشہور تھے۔ یہ مسخراپنی اور میراثی خصلت کیسے در آئی؟  یقین کیجئے سوشل میڈیا عصر حاضر کا موثر ترین اور مہلک ترین ہتھیار ہے۔ گلگت بلتستان کو اس نے جتنا “نام” بخشا ہے اتنا ہی “بدنام” بھی کردیا ہے۔ دانستہ یا نادانستہ بہت سے انٹرنیٹ صارفین منفی چیزوں میں پڑ کر اپنی توانائی صرف کررہے ہیں۔ 


کسی جھیل کنارے پڑاؤ ڈالا تو ناچا، کسی چراگاہ پر قدم رکھا تو رقص، کسی پہاڑی پر چڑھا تو ڈانس، ادھر برف پڑی اور اُدھر ناچنا شروع کیا۔ الغرض جہاں جہاں قدم پڑا، عمل رقص شروع ہوا اور ثقافت کا نام دے کر نذر فیس بک کر دیا۔ یہ کیسی پہچان بنائی جارہی ہے؟  ایسے بہت کم صارفین ہیں جو ان خوبصورت مقامات پر جاکر مثبت انداز میں تعارف پیش کرتے ہیں ورنہ خرافات ہی خرافات ہیں فقط۔ ان خوبصورت مقامات پر جائیں، بہترین انداز میں تعارفی ویڈیوز اور تحریریں شیئر کریں۔ ناچ گانا بخدا ہماری ثقافت نہیں ہے۔ ہم ایک زندہ قوم ہیں، ہماری اپنی عظیم روایات ہیں، رسوم ورواج ہیں۔ ہم میراثی نہیں ہیں ہرگز نہیں ۔ سوشل میڈیا کا منفی استعمال ہمارے یہاں زوروں پر ہے۔ یہ ہماری تعلیم و تربیت کے فقدان کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ کہیں نہ کہیں والدین اور اساتذہ اپنی ذمہ داریوں میں غفلت برت رہے ہیں۔ کل ہی کی بات ہے، ایک مجذوب فرد پر ایک پولیس والے نے دانستہ یا نادانستہ تشدد کیا۔ سوشل میڈیا پر فرد واحد کے ذاتی فعل کو آڑ بنا کر ادارے کو جس تضحیک کا نشانہ بنایا گیا اور جو تمسخُر اُڑایا گیا، الحفیظ والامان۔ کسی ایک صارف کی نظر ہجوم کی کارستانی پر نہیں پڑی کہ کیسے اس نیم پاگل فرد کو ہجوم اُکسا رہا ہے؟  کیسے پولیس والوں سے بھڑنے کا درس دیا جارہا ہے؟  کسی نے بھی ایک سطری تحریر لکھنا گوارا نہیں کیا۔ میں نہیں کہتا کہ گلیا نامی شخص کو انصاف نہ ملے لیکن جو رویہ اپنایا گیا وہ قابل تحسین ہرگز نہیں تھا۔ گلگت بلتستان کی پولیس واقعی مثالی ہے،  اس بات کے شاہد اس خطے کی سیاحت پر آنے والے لوگ ہیں۔ اچھے برے لوگ کہاں نہیں ہوتے؟  جب منبر ومحراب ایسے لوگوں سے خالی نہیں ہیں تو کسی ادارے میں بھی کالی بھیڑوں کا پایا جانا کوئی انہونی بات نہیں ہے۔


سوشل میڈیا کے ذریعے آپ دنیا کو مثبت پیغام دے سکتے ہیں۔ اپنی صدیوں پر محیط ثقافت سے لوگوں کو روشناس کرا سکتے ہیں۔ شومئی قسمت کہ ہمارے کرتوت تخریبی ہیں۔ کہیں بےنامی اکاؤنٹ بنا کر عزت دار لوگوں کی ناموس ُاچھالی جاتی ہے، کہیں ذات پات کا درس دیا جاتا ہے تو کہیں تفرقہ بازی کی باتیں ہورہی ہیں۔ ذات پات اور قومیت اترانے کی چیزیں نہیں ہیں۔ قوم عاد و ثمود زیادہ طاقتور تھے، لیکن ان کی طاقت انہیں بچا نہ سکی۔ وہ زمانے کے لیے نشان عبرت بنا دیے گئے۔
            فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں             کیا  زمانے میں  پَنپنے کی  یہی  باتیں ہیں


 اجتماعی سوچ رکھنے والے افراد انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں۔ بہت کم لوگ ہیں جو اجتماعیت پر لکھتے، بولتے ہیں ورنہ ہر کوئی اپنی ذات کے خول میں مقید ہے۔ ہر علاقے میں کئی کئی مسائل ہیں لیکن گلگت بلتستان میں بلحاظ ضلع اگر دیکھا جائے تو دیامیر مسائل کا گڑھ ہے۔ صحت، تعلیم، پینے کا پانی،بجلی، سڑکیں وغیرہ یہاں کے اہم مسائل ہیں لیکن افسوس کبھی کوئی میڈیا ٹرینڈ بنا ہو۔ ضلع بھر کا اکلوتا ہسپتال کس کسمپرسی کے عالم میں ہے، کبھی کوئی ٹرینڈ بنا؟ چلاس شہر اکثر وبیشتر اندھیرے میں ڈوبا رہتا ہے، کبھی یک آواز ہو کر صدا بلند کی؟  سڑکوں کی خستہ حالی پر لب وا ہوئے؟  آلودہ پانی کے خلاف کبھی احتجاج کیا؟  کبھی تعلیم کی راہ میں درپیش مسائل پر بات کی؟  مجھے معلوم ہے بہت کم لوگ ہیں جن کے اندر اجتماعی سوچ ہے، اکثریت ان چیزوں سے یکسر غافل ہے۔ سوشل میڈیا کو ہتھیار سمجھنے والے تو بہت ہیں لیکن ہتھیار کو مثبت استعمال میں لانے والے بہت کم ہیں۔ سوچ بدلنا ہوگی،  سوشل میڈیا کو سمجھنا ہوگا۔ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ کہیں ہم پاکستان کے جھومر پہ کالک تو نہیں مل رہے؟  ہم داغ رسوائی کا باعث تو نہیں بن رہے۔ گلیا والا واقعہ یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ ہماری سوچ کا معیار کیا ہے؟

Posted in تازہ ترین, مضامین
57730

ہٹلر کی جموریت اور ریپستان ۔ تحریر: راجہ منیب

جمہوریت کا لفظ جمہور سے بنا ہے جو اکثر کا معنی دیتا ہے اور جمہوریت سے اکثریتی رائے مراد لی جاتی ہے ،جمہوریت کو انگریزی زبان میں Democracy  کہا جاتا ہے جو یونانی زبان کے دو الفاظ سے مل کر بنا ہے جس کے معنی عوام اور طاقت کے ہیں اس لحاظ سے جمہوریت ایک ایسا نظامِ حکومت ہے جس میں اقتدار عوام کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور ان کے منشاء کے مطابق حکومت فرائض انجام دیتی ہے۔26 جنوری 1950 کو ہندوستان کے آئین کا نفاذ کیا گیا اور ہندوستان ایک رپبلکن یونٹ بن گیا اوراس دن کو بعدازاں ”یوم جمہوریہ“ کا نام دیتے ہوئے دعویٰ کیا گیا کہ بھار ت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے۔ مگر آج بھی حالات سب کے سامنے ہیں ۔بھارت کے اسی آئین تلے مقبوضہ کشمیر میں 1952ء میں نام نہاد انتخابات کروائے گئے اور یہ باور کروانے کی کوشش کی گئی کہ کشمیری عوام نے مرکزی دھارے میں شمولیت کی خاطر نہ صرف بخوشی سیاسی جماعتوں کے پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصہ لیا بلکہ انہوں نے بڑے پیمانے پر ووٹ بھی ڈالے۔ وقتی طور پر بھارت یہ جھوٹ بولنے میں کامیاب ہوگیا لیکن جلد ہی اسے اس وقت سخت ہزیمت اٹھانا پڑی جب نہتے کشمیریوں نے بھارت کے خلاف بندوق اٹھالی۔ کشمیری عوام انتخابات کے خلاف تھے۔ انکی ایک ہی خواہش تھی کہ کشمیر میں استصواب ِ رائے کروایا جائے تاکہ کشمیری اپنے مستقبل کا ازخود فیصلہ کرسکیں۔

استصواب ِ رائے کے نتائج کا بھارت کو بخوبی علم تھا، اس لیے اُس نے ایسا اقدام اٹھانے سے گریز کیا۔ جب کبھی عالمی برادری کی طرف سے دباؤ ڈالا گیا‘ تو بھارت ہمیشہ ایک ہی جملہ کہہ کر اپنی جان چھڑاتا رہا کہ ”استصوابِ رائے کیلئے حالات سازگار نہیں“۔جس آئین کے تحت کشمیر میں انتخابات کا ڈھونگ رچاتے ہوئے بھارت کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا علم بردار قرار دیا گیا‘ کشمیریوں نے اس حقیقت کو طشت ازبام کرنے کیلئے بھارت کے یوم جمہوریہ کو ’یوم سیاہ‘ کے طور پرمنانا شروع کردیا۔ پچھلی کئی دہائیوں سے یہ دن بڑے اہتمام کے ساتھ منایا جارہاہے۔ اس دن صرف مقبوضہ کشمیر میں ہی نہیں‘ پاکستان سمیت دنیا بھر میں بسنے والے کشمیری زبردست احتجاج کرتے ہیں۔ مظاہروں‘ جلسے جلوسوں اور سیمینارز کے ذریعے عالمی برادری کو باور کروایا جاتاہے کہ بھارت نے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا لبادہ اوڑھ کر عالمی برادری کو بے وقوف بنارکھا ہے۔

وہ آئے دن کشمیریوں پر نت نئے مظالم کے حربے آزماتے ہوئے انہیں اپنے ازلی اور پیدائشی حق سے محروم رکھنے کی کوششیں کررہاہے۔ کشمیری صرف اور صرف بھارت سے آزادی چاہتے ہیں۔ انہیں آزادی سے کم کوئی چیز قبول نہیں۔کئی سال سے بھارت کشمیریوں کی تحریکِ حریت کو مکمل طور پر کچلنے کے لئے روح فرسا اقدامات کررہاہے۔ کئی اقدامات ایسے ہیں جن کی تاریخ میں نظیر نہیں ملتی۔ مثلاً پچھلے کچھ سالوں سے کشمیر میں بھارتی فوج پیلٹ گن کا استعمال کررہی ہے۔ اس گن سے نکلنے والے چھرے جسم کے اندر تک پیوست ہو کر دھیرے دھیرے زہر پھیلانے کا باعث بنتے ہیں۔ یہ چھرے جسموں پر ایسے نشان چھوڑ جاتے ہیں جن کا مندمل ہونا ممکن نہیں۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ چھرے آنکھ کے اندر دھنس کر بینائی ختم کردینے کا سبب بھی بن رہے ہیں۔

پچھلاسال اگرچہ کشمیریوں پر ماضی کی طرح آسیب بن کر چھایارہا اور ان کے زخموں سے خون کی پھوار مسلسل بہتی رہی لیکن اس کے باوجود ان  کے عزم اور حوصلے میں کوئی فرق نہیں پڑا بلکہ وہ پہلے سے کہیں زیادہ توانا جذبوں کے ساتھ اپنی تحریک آزادی کی آبیار ی میں مصروف عمل ہیں۔ہندوستان کے37ویں یوم جمہوریہ پر بھارتی شہری اپنی شناخت تلاش کرنے پر مجبور ہیں۔ مودی نے لاکھوں اقلیتوں کو پناہ گزین بنا کررکھ دیا ہے۔اس یوم جمہوریہ کے موقع پر عام ہندوستانی سوال کر رہے ہیں کیا یہ نہرو اور گاندھی کا سیکولر ہندوستان ہے یا آرایس ایس کا ہندو راشٹرا؟ یہ شائننگ انڈیا ہے یا ریپستان کہ جہاں غیر ملکی سیاح بھی محفوظ نہیں؟مودی نے لاکھوں مسلمان کو ہندوستانی ریاست سے بے دخل کرکے پناہ گزین بنا دیا ہے۔

ہندوستان کی خدمت کرنے والے سائنسدان، شعرا اور آرٹسٹ اپنی شناخت کھو بیٹھے ہیں۔اقلیتیں ہوں یا مقبوضہ وادی، کسان احتجاج ہو یا طلبہ بھارت میں موجودہ حکومت سے آزادی کے نعرے گونجنے لگے ہیں۔اس یوم جمہوریہ  کا سورج ایک ایسے ہندوستان پر طلوع ہوا کہ جس کا شیرازہ بکھر رہا ہے۔ ہندوستان تقسیم ہو رہا ہے۔ بھارت کا 73واں یوم جمہوریت اس مرتبہ  بیشتر بھارتیو ں کےلیے یوم سیاہ ہے۔آج مودی کے ہندو راشٹرا میں مذہبی اقلیتوں کے لیے زمین تنگ ہو چکی ہے۔ مودی کے آمرانہ اوریکطرفہ فیصلوں کے باعث ہندوستان میں جمہوریت دم توڑ رہی ہے۔بھارت کے اندر اور باہرسکھ اپنے ساتھ بڑھتے تعصب اور ناانصافی پر آگ بگولہ ہیں۔ کسانوں کی احتجاجی تحریک 120لاشیں اُٹھا کر بھی پورے زور شور سے جاری ہے۔

مقبوضہ جموں و کشمیر سمیت شمال مشرقی بھارت کی ریاستوں میں یہ دن یوم سیاہ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ مگر اس کی کم تشہیر ہوتی ہے۔ انڈیا کی دیگر ریاستوں کے برعکس مقبوضہ جموں و کشمیر میں لاکھوں لوگوں کو  جو پہلے سے تاریخ کی طویل ترین پابندیوں کی زد میں ہیں،کریک ڈائون اور ناکہ بندیوں، گرفتاریوں کا شکار بنایا جاتا ہے۔  انہیں ان کے گھروں میں بند رکھ کر اور سخت محاصرے میں پریڈوں کا بندو بست کیا جاتا ہے۔ سب سے بڑی تقریب سرینگر کے بخشی اسٹیڈیم میں ہوتی ہے۔ بھارتی فورسز ہفتوں پہلے ہی بخشی اسٹیڈیم اور اس کے نواحی علاقوں پر قبضہ جما لیتے ہیں، سرکاری عمارتوں کے ساتھ ساتھ رہائشی عمارتوں پر بھی جبری قبضہ کرکے چھتوں پرمورچہ بندی کی جاتی ہے۔ بخشی اسٹیڈیم کے نزدیک لعل دید چلڈرن ہسپتال کے مریضوں تک کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔مریض اور ان کے تیماردار گرفتار کئے جاتے ہیں۔

آج بھی یہی حال ہے۔ کشمیری عوام بھارتی پابندیوں اور  ناجائز قبضے کے خلاف اور آزادی کے حق میں مکمل ہڑتال پر ہیں۔ دن کو یومِ سیاہ اور رات کو مکمل بلیک آئوٹ کیا جاتا ہے۔ اس طرح کشمیری عوام بھارتی جبری قبضے اور نسل کش پالیسی و مظالم کے خلاف اپنے سخت ردّعمل کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ سلسلہ جاری ہے۔ لوگ کرفیو کو توڑ کر احتجاجی مظاہرے کرتے ہیں۔ جگہ جگہ سیاہ پرچم لہراتے ہیں اور ہندوستانی پرچم کو اور بھارتی حکمرانوں کے پتلوں کو نذر آتش کیا جاتا ہے۔ اس طرح کشمیری جنگ بندی لائن کے آرپار اور دنیا بھر میں ہندوستانی نام نہاد جمہوریت کو بے نقاب کرتے ہیں۔ کشمیری ہر روز بھارتی ریاستی دہشت گردی کا نشانہ بنائے جاتے ہیں۔دنیا کی ایسی جمہوریت کا جشن جس نے کشمیر ہی نہیں بلکہ شمال مشرقی بھارت کی ریاستوں میں کروڑوں عوام کی آزادی سلب کر رکھی ہے۔ بھارت کا73واں یوم جمہوریہ بیشتر بھارتیوں کے لیے سیاہ دن ہے، جہاں ہندو توا کا چوپٹ راج ، اقلیتوں کی بدحالی اور قائد اعظم کی بصیرت کو صحیح ثابت کرتی نظر آتی ہے۔

مودی کےآمرانہ ون پارٹی رول سے بھارت میں جمہوریت دم توڑ رہی ہے،ہندو اکثریت کی اجارہ داری کے ریلے میں نام نہاد سیکولر ازم خاشاک کی طرح بہہ گیا بھارت میں یوم جمہوریہ تقریبات دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔ بھارت کے بدصورت اور اصلی چہرے کو چھپانے کے لیے مودی حکومت نے کچی آبادیوں کو دیواریں کھڑی کرکے اور گندے دریا میں میٹھا پانی ڈال کر چھپا دیا۔ بھارت کو خواتین کے لیے خطرناک ترین ملک قرار دیا جا چکا ہے لیکن اس کے باوجود وہ بالی ووڈ کی فرضی کہانیوں کے ذریعے خود کو فیمنسٹ ملک کے طور پر پیش کر رہا ہے۔ بھارتی مقبوضہ جموں و کشمیر  میں مودی سرکار کے ظالمانہ اقدامات نے دنیا کے سامنے اس کا اصل چہرہ بے نقاب کر دیا ہے اور اس مسئلے کو امریکہ کے سامنے اجاگر کرنے کا وقت آگیا ہے ۔ بابری مسجد کے فیصلے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہندوستان کی عدلیہ حکومت کے ہاتھ میں کٹھ پتلی ہے۔بھارت اسے ایک آزاد پریس اور آزاد عدلیہ والے ملک کے طور پر پیش کرتا ہے لیکن حقیقت میں اس کا میڈیا مکمل طور پر حکومت کے زیر کنٹرول ہے۔ میڈیا کو سیاسی فائدے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

حقیقی ہندوستان نسل پرست ہندوتوا، انتہائی غربت اور انتہائی بدعنوان ہے۔حکومت نے ایک قانون بھی پاس کیا جس کے تحت پہلی بار ہمسایہ ممالک سے آنے والے تارکین وطن کے لیے رسمی طور پر ہندوستانی شہریت حاصل کرنے کے لیے مذہب کو ایک معیار بنایا گیا ہے۔ اس سب کے پیچھے امت شاہ کا ہاتھ ہے۔مودی کے دور میں کشمیریوں کا زندہ رہنا ناممکن ہو گیا، جسمانی تشدد کو چھوڑ دیں کشمیریوں کے ذہنوں پر نفسیاتی اثرات کئی دہائیوں تک رہیں گے۔کشمیر میں انٹرنیٹ کی جزوی بحالی صحرا میں پانی کی بوند کی طرح ہے۔ دوسری بار وزیر اعظم بننے کے بعد سے مودی زیادہ سے زیادہ مہلک ہوتے گئے، گجرات 2002 کے ڈراؤنے خواب بھارت کے کئی حصوں میں لوٹ آئے۔ مودی بھارت میں ایک انتہا پسند اور فاشسٹ گروپ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے نظریے کو اکساتا اور پھیلاتا رہا ہے۔مودی مسلمانوں کی لاشوں پر ہندو ریاست بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔

عالمی رہنما مودی سے ان 200 خواتین کے بارے میں پوچھیں جنہیں کشمیر میں آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد سے عصمت دری اور جسمانی تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ کشمیر کے حوالے سے موجودہ منظر نامے پر ایک نظر ڈالیں تو نظر آتا ہے کہ یہ بھارت نریندر مودی کے مظالم اور بربریت کی وجہ سے جل رہا ہے۔ سیکولر ہندوستان کا اصلی چہرہ یہ ہے کہ وہاں دنیا میں سب سے طویل فاشسٹ تحریک چل رہی ہے۔انڈیا میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہورہی ہے ۔بھارتی حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت ملک میں ہر 16 ویں منٹ میں ایک خاتون کہیں نہ کہیں ’ریپ‘ کا شکار بن رہی ہے، جب کہ ملک کی کوئی ایسی ریاست نہیں جہاں خواتین محفوظ ہوں۔اگرچہ ریپ کیسز میں نئی دہلی سب سے آگے ہے تاہم خواتین کے خلاف تشدد، استحصال اور بعض جرائم کے کچھ واقعات میں ممبئی سرفہرست ہے۔مسلمان عورتوں کو قبروں سے نکال کر ریپ کرنا چاہیے۔‘ جی ہاں یہ فتویٰ کسی عام شخص کا نہیں بلکہ 2007 میں یوپی میں سدھارتھ نگر کے مقام پر ویرات ہندوستان نامی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ایک رہنما نے دیا تھا۔اس ریلی کی صدارت یوگی ادیتیہ ناتھ کر رہے تھے جو اب بھارت کے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑی ریاست اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ ہیں۔ اس پر سخت تنقید کے بعد بھی یوگی نے کبھی اس بیان کی مذمت نہیں کی۔

ہندوستانی معاشرہ ہوس کا کتنا پجاری اس کے لیے آپ کے سامنے صرف ایک مثال رکھتا ہوں۔انڈیا ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق گوگل پر’کشمیری لڑکیاں‘ سرچ کرنے میں کیرالہ پہلے نمبر پر، جھار کھنڈ دوسرے اور ہماچل پر دیش تیسرے نمبر پر تھا۔ یہاں یہ واضح کرنا لازمی ہے ریاست کیرالہ 96.2 فی صد شرح خواندگی کے ساتھ بھارت میں پہلے نمبر پر ہے۔ اس سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ جنسی ہوس کا تعلق تعلیم یا جاہلیت سے نہیں بلکہ یہ ہمارے معاشرے میں رس بس چکی ہے۔اسی طرح ’کشمیری لڑکیوں سے شادی‘ کو گوگل سرچ کرنے میں بھارت کی راجدھانی دہلی پہلے نمبر پر جبکہ مہاراشٹر اور کرناٹک کا بالترتيب دوسرا اور تیسرا نمبر تھا۔آئین کی شق 370 اور 35 اے کی منسوخی کے بعد بھارت میں حکمراں جماعت سے تعلق رکھنے والے بہت سے رہنماؤں نے، جن میں ایم ایل ایز و ایم پیز بھی شامل ہیں، یہ تک کہہ دیا تھا کہ اب ہماری موج ہو گی، کشمیر کی گوری لڑکیوں سے شادی کریں گے۔ہریانہ کے وزیراعلیٰ منوہر لال کھٹر کا بیان ’جموں و کشمیر کی لڑکیوں کو اب بہو بنائیں گے‘ بھی ریکارڈ کا حصہ ہے۔یہ کام ایک سازش کے تحت کروایا گیا تھا تاکہ جموں و کشمیر کے اندر مذہبی ہم آہنگی کو توڑ کر مذموم سیاسی مقاصد حاصل کیے جا سکیں۔ ابھی حال میں اتر پردیش میں ایک پجاری نے مندر میں ایک عورت کے ساتھ ریپ کیاـ اتر پردیش کے لئے ایسے حادثے کوئی نئے نہیں ہیں، ہاتھرس ، بلرام پور اور بیشتر شہروں میں ایسے حادثے پہلے بھی ہوتے رہے ہیں ـ لیکن انصاف کون کرےگا ؟ وہ شخص جس نے وزیر اعلی بننے سے قبل یہ بیان دیا ہو کہ مسلم عورتوں کو قبر سے نکال کر ریپ کروـ میں اس بیان پر کچھ دیر ٹھہرنا چاہتا ہوں ـ

ایک مردہ عورت جو قبر میں دفن ہے، وہ جس قوم کی بھی ہو ، مگر اب وہ مر چکی ہے اور قبر کی تنہائیوں میں آرام کر رہی ہےـ کیا ایسی فکر رکھنے والا انسان ہو سکتا ہے ؟ ایسی سوچ رکھنے والا تو بھیڑیا اور جنگلی جانور بھی نہیں ہو سکتا،مگر ایک فاشسٹ تنظیم نے اتر پردیش جیسی بڑی ریاست اس کے سپرد کر دی اور مسلمانوں سے نفرت کرنے والے شخص نے جب بھی بیان دیا ، مسلمانوں کے خلاف بیان دیاـ  آر ایس ایس نے اس جاہل ڈھونگی کو وزیر اعلی کی کرسی دیتے ہوئے یہ ضرور غور کیا ہوگا کہ اسی جاہل شخص نے اپنی تقریر میں مسلمان عورتوں کو قبر سے نکال کر بلاتکار کرنے کو کہا تھا، جو مسلمانوں کو قبرستان بھیجے وہ وزیر ا علیٰ،جو قبر سے نکال کر ریپ کرنے کو کہے ، اسے ہندوستان کی سب سے بڑی ریاست تحفے میں دی جائے، ملک غارت ہوا ، کوئی آواز نہیں، ملک تباہ ہوا، کوئی آواز نہیں، کروڑوں کے روزگار گئے ، کوئی آواز نہیں ـ کسانوں کو کمزور کرنے کے لئے قانون آیا ، کوئی آواز نہیں،مسلمان سڑکوں ، شاہراہوں ، گلیوں میں مارے جاتے رہے اور اب ملک کے موجودہ حالات مسلمانوں کے لئے بد تر ہوئے جا رہے ہیں ـ حکومت کی فسطائی منطق کے سامنے بے بس اور مجبور ہیں۔نریندرا مودی/بی جے پی/آر ایس ایس حکومت نے اپنے نازی فاشسٹ نظریے کے مطابق دہشت گردی اور وحشیانہ قتل و غارت کا راج شروع کیا ہے۔  

کشمیری عوام  ہٹلر  (ہٹلر  دوئم یا مودی کے نام سے دوبارہ جنم لینے والے) کے ہاتھوں تازہ ترین ہولوکاسٹ کا شکار ہیں۔ ہرسال بھارت کے یوم جمہوریہ پرمقبوضہ کشمیر میں قابض سیکیورٹی فورسز کی پیشگی کارروائیوں سے ماحول کشیدہ ہوجاتا ہے۔ بھارتی سیکیورٹی فورسز بیگناہ کشمیریوں کو گرفتار کرنا شروع کردیتی ہیں جس کے باعث وادی میں حالات کشیدہ ہوجاتے ہیں۔ سیکیورٹی فورسز کشمیریوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بھی اتر آتی ہیں اورکئی کئی روز تک وادی کی کٹھ پتلی حکومت نے انٹرنیٹ اورموبائل فون رابطوں پر پابندی عائد کردیتی ہے۔ بھارتی جمہوریت کے پیروکاروں نے ایک لاکھ سے زائد کشمیریوں کو صرف اس لیے شہید کیا کہ وہ اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ خود کرنا چاہتے ہیں۔ نئی دہلی کے حکمران مقبوضہ کشمیر کے لوگوں پر ظلم و ستم جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ انکی آزادی سلب کر کے 26 جنوری کو یوم جمہوریہ منا کر دراصل جمہوریت کے ساتھ مذاق کرتے ہیں۔ اس کے باوجود بھی بھارت جانتا ہے کہ اگر وہ آٹھ کی بجائے پندرہ سولہ لاکھ بھی فوج کشمیر بھیج دے تو کشمیریوں کی جدوجہد آزادی ختم نہیں ہوگی۔ آج تک کشمیری قوم بھارتی فوج کے ظلم و جبر کیخلاف جدوجہد کررہی ہے۔

مسئلہ کشمیر ہی بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کی بڑی وجہ ہے اور اس دیرینہ مسئلے کو حل کیے بغیر دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات معمول پر نہیں آسکتے۔ عالمی برادری کشمیر میں بھارتی مظالم روکنے کے لئے اپنا کردار ادا کرے اور کشمیریوں کو ان کا بنیادی حق خودارادیت دیا جائے۔ مقبوضہ کشمیر کے قبرستانوں میں ہر سال کئی ہزار نئی قبروں کا اضافہ ، جن پر شہداء کے نام اور پتے درج ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بھارتی فوج نے کشمیر میں قتل و غارت کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ ایک جمہوری ملک ہونے کے دعویدار کی حیثیت سے بھارت کا فرض تھا کہ وہ کشمیر کا مسئلہ جمہوری انداز سے حل کرتا لیکن اس نے ہمیشہ غیر جمہوری ہتھکنڈوں کے ذریعے کشمیریوں کی آواز کو دبانے کی کوشش کی۔

سری نگر سمیت متعدد علاقوں میں جگہ جگہ بھارتی یوم جمہوریہ کے جشن کے بائیکاٹ کی اپیل والے پوسٹرز آویزاں کر دیے گئے ہیں۔ حریت رہنماؤں نے کشمیریوں سے گھروں، دکانوں اور دیگر عمارتوں پر سیاہ پرچم لہرانے کی اپیل کی ہے۔اس دن کی مناسبت سے جہاں ایک طرف سارے بھارت میں خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ثابت کرنے کیلئے مختلف تقاریب کاا نعقاد کیا جاتا ہے تو وہاں دوسری طرف مقبوضہ کشمیر میں آٹھ لاکھ کے لگ بھگ فوجی اور نیم فوجی دستوں کی بندوقوں اور ٹینکوں کے سائے تلے خطہ کشمیر کو متحدہ بھارت کا حصہ قرار دینے کیلئے تقریب منعقد کی جاتی ہے جب کہ اس موقع پر آل پارٹیز حریت کانفرنس کی کال پر مقبوضہ و آزاد کشمیر کے علاوہ پاکستان اور دنیا بھر میں مقیم کشمیری بھارت کے یوم جمہوریہ کو “یوم سیاہ” کے طور مناتے ہیں۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57728

الہ دین کا جن ! – قادر خان یوسف زئی کے قلم سے

الہ دین کا جن ! – قادر خان یوسف زئی کے قلم سے


 ہندوستان کی تاریخ میں ایک ایسا سیاسی فلاسفر پیدا ہوا جس کا نام تو چانکیہ تھا لیکن وہ اپنے آپ کو بہت فخر سے کوٹلیا ؔ کہتا اور زیادہ تر اسی لقب سے اس کو یاد کیا جاتا ہے۔ کوٹلیا ؔ کے معنی ہیں مکار اور فریب کار۔ اس نے اصول سیاست پر ایک کتاب لکھی تھی جس کا نام ’ارتھ شاستر‘ ہے۔ کو ٹلیا ؔ نے سیاست کے چند بنیادی اصول دیئے،  جس میں بتا یا گیا کہ حصول اقتدار اور ملک گیری کی ہوس کبھی ٹھنڈی نہ ہونے پائے، ہمسایہ سلطنتوں سے وہی سلوک روا رکھا جائے جو دشمنوں سے رکھا جاتا ہے۔ غیر ہمسایہ سلطنتوں سے دوستانہ تعلقات قائم کئے جائیں، جن سے دوستی رکھی جائے ا س میں بھی ہمیشہ اپنی غرض پیش نظر رہے اور مکارانہ سیاست کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑا جائے۔  دوسرے ملکوں میں مخالفانہ پراپیگنڈا، تخریبی کاروائیوں اور ذہنی انتشار پیدا کرنے کی مہم جاری رکھی جائے،وہاں اپنے آدمی ناجائز طریق سے داخل کرکے ففتھ کالم بنایا جائے اور سب کچھ مسلسل اسی انداز سے کیا جائے۔

 رشوت اور دیگر اسی قسم کے ذرائع سے اقتصادی جنگ جاری رکھی جائے،  دوسرے ملکوں کے آدمیوں کو خریدنے کی کوشش کی جائے  اور امن کے قیام کا خیال تک بھی دل میں نہ لایا جائے، خواہ ساری دنیا تمہیں اس پر مجبور کیوں نہ کرے۔بد نصیبی یہ ہے  ملک خدا داد میں جو کچھ ہورہا ہے  اس فغان ِ جگر کو درخو اعتنا نہیں سمجھا جاتا۔ اس کے برعکس وطن عزیز میں ہر ایک نے اپنے اپنے جن ؔ بوتلوں سے نکالنے شروع کردیئے، چنانچہ اب یہ کیفیت ہے کہ ملک ان جنات ؔکی وحشت سامانیوں اور خرمن سوزیوں کی آماجگاہ بن چکا اور جس آگ سے یہ کھیل کھیلا جارہا ہے اس کی شعلہ انگیزیاں دن بدن بڑھتی چلی جا رہی ہیں۔

ہر صبح جو اخبار میں آتا ہے اس میں شہ سرخیوں سے، ان کی پیدا کردہ تباہوں اور بربادیوں کی خبریں آتشیں حروف میں لکھی ملتی ہیں۔ ایک توہم، ان خبروں کے عادی سے ہوگئے اور دوسرے اخبارات کی اثر انگیزی کی عمر صرف ایک دن ہوتی ہے، اس لئے ہمیں مجموعی طور پر اندازہ نہیں ہوتا کہ ہماری تباہیاں کس حد تک بڑھ چکی ہیں۔ کبھی کبھار گرمیوں میں سرخ آندھی آیا کرتی تھی، جب آندھی آتی تو مشہور ہوجاتا کہ کہیں کو قتل ہوا، جو بے گناہ کا خون آسمان پر چڑھ کر بول رہا ہے۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب قتل کی واردتیں شاذ و نادر ہوتیں کہ ان کی خبر معاشرہ میں سنسنی پیدا کردیتی تھی۔

پھر ایک ایسا دور بھی آیا کہ صرف شہر قائد میں سینکڑوں قتل اس طرح ہوئے کہ مرنے والے کو علم نہ ہوتا کہ اُسے کیوں مارا اور نہ مارنے والا جانتا کہ وہ کیوں مار رہا ہے۔ نجینیوز چینلز میں مسلسل ٹکرز اور خبریں ایسی چلتی کہ جیسے کسی الیکشن کے نتائج آرہے ہوں۔ بتدریج معاشرے کا خوگر بھی ایسا ہوگیا کہ ہم ان خبروں کو پڑھ یا سن کر یوں بے حسی سے آگے بڑھ جاتے کہ جیسے ٹمبکٹو کا کوئی واقعہ ہو۔ اب تو قتل،نقب زنی، ڈاکہ، رہزنی، قزاقی اور اغوا کی وارداتیں بھی  جیسے معاشرے کا معمول بن چکی۔معاشرہ میں کوئی امن پسند شریف آدمی اپنے آپ کو محفوظ نہیں پاتا۔ ملک میں قانون کا احترام کہیں باقی نہیں رہا۔ اگر کچھ تھوڑا بہت ہے تو متوسط طبقہ میں، جسے عرف عام میں سفید پوش طبقہ کہاجاتا ہے (یا کہا جاتا تھا ’کیونکہ اب تو وہ طبقہ بھی آہستہ آہستہ ”سیاہ پوش“ ہوتا جارہا ہے)۔  قتل کی واردتوں سے فسادات کی نئی نئی راہیں کھولی جاتی،

اس وقت بھی اگر سیاسی جماعتوں و تنظیموں کی کثیر تعداد کو دیکھا جائے تو کسی نہ کسی مقتول کا تعلق کسی نہ کسی پارٹی سے ضرور نکل آئے گا۔ ایک دہائی قبل کچھ ایسا ہی ہوتا رہا کہ ادھر قتل ہوا اور اُدھر ایک پارٹی نے مشہور کردیا کہ اس قتل کے پیچھے بہت بڑی سازش پنہاں ہے، اس کی نوعیت سیاسی ہے، اس میں فلاں مخالف پارٹی کا ہاتھ ہے، انہوں نے اس کا چرچا کیا اور ان کی پارٹی کے کسی سر پھرے نے اٹھ کر مخالف پارٹی کے کسی فرد پر گولی چلا دی۔سیاست کی فریب کاریوں میں مخالفانہ پراپیگنڈا، تخریبی کاروائیوں اور ذہنی انتشار پیدا کرنے کی مہم، رشوت، جوڑ توڑ،حصول اقتدار اور ملک گیری کی ہوس، ایسا سلوک روا رکھنا جیسا کہ دشمنوں کے ساتھ رکھا جاتا ہے۔ یہ سب کیا ہے، کیا یہ سب کو ٹلیا ؔ کی سیاسی اصول نہیں جو ہم اپنے ارد گرد روز انہ کی بنیادوں پر دیکھ رہے ہیں۔ ارباب ِ نظم و نسق نے ایک نہایت ابلہ فریب عذر تراش کررکھا ہے۔

اسے سمجھنے کے لئے یہ لطیفہ سنیے۔ کسی گاؤں میں چوری کی واردات ہوگئی، پولیس بھی آگئی، گاؤں کی پنجایت، چوہدری سمیت سب لوگ جمع ہوگئے، لیکن چور نے ایسی چابک دستی سے واردات کی تھی کہ ہزار عقل دوڑانے کے باوجود مجرم کا سراغ نہیں مل رہا تھا، ہر ایک اپنی اپنی رائے پیش کرتا لیکن بات آگے نہ بڑھتی، دور کونے میں ایک بوڑھا بیٹھا ان سب کی باتیں سن رہا تھا، جب وہ یہ کچھ سنتے سنتے تنگ آگیا تو اس نے کہا کہ مجھے حیرت ہے کہ ایسی آسان بات بھی تمھاری سمجھ میں نہیں آتی۔ میں بتاتا ہوں کہ کس کی کارستانی ہے،ہر ایک نگاہیں اُس کی طرف اٹھ گئیں، پولیس افسر نے بھی کان کھڑے کئے، بوڑھے نے حقے کا کش لگایا اور کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ کام کسی چور کا ہے۔یہی کیفیت ہمارے ارباب ِ نظم و نسق کی ہے، کہیں کچھ بھی ہوجائے تو فوراََ آواز آجائے گی کہ ہم جانتے ہیں کہ ایسا کون کررہا اور کون کرارہا ہے۔ یہ سماج دشمن عناصر کا کام ہے، جس کی پشت پر بیرونی طاقتیں ہیں۔ یہ کہہ کر انہیں اطمینان ہوجاتا ہے کہ ہم نے مفسدین کی نشاندہی کرکے اپنا فریضہ ادا کردیا۔ حقیقت یہ ہے کہ لاقانونیت کو قابل فخر اور موجب اعزاز سمجھنے سے قوم کی ذہنیت بگڑ چکی، اس کی اصلاح صرف چہرے بدلنے سے نہیں نظام بدلنے سے ہوگی، یوں یہ ’ الہ دین کا جن ؔ ‘ دوبارہ بوتل میں بند ہوسکے گا، اگر ایسا نہ کیا گیا تو یہ ملک بیرونی خطرات سے تو شاید محفو ظ رہ جائے، لیکن اس جن ؔ کی داخلی تباہ کاریوں کے ہاتھوں سے جو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا وہ کسی کے حق میں بہتر نہیں

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57703

حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی ولادت سعادت اور کردار ۔ محمد آمین

جناب فاطمہ ؑ نبی اقدس ﷺ کی پیاری اور لاڈلی بیٹی تھی اور آپ ﷺ آپ کی اپ سے گہری محبت و عقیدت تھی۔روایت میں اتا ہے کہ اپ کی عقد پیغمبر اسلام نے اللہ پاک کی منشاء سے جناب آمیروالمومنین علی ابن ابی طالبؑ سے کردی۔آپ کے بہت سے القاب ہیں جن میں زہرا،بتول،معصومہ،طاہرہ،صدیقہ،محدثہ،،ام الائمہ،زاکیہ اور سیدہ نساء عالمیں قابل ذکر ہیں۔آپ کی ولادت سعادت 20 جمادی ثانی 614ء؁ کو مکہ میں ہوئی تھی۔آپ کی والدہ محترمہ مہ جناب خدیجتہ الکبری ؑ تھی۔آپ کی ساری زندگی اللہ پاک کی حمد و ثنا،سخاوت اور ضرورت مندوں کی خدمت میں گزری۔آپ پاکیزگی اور تقوی کی علمبردار تھی،آپ کی پاک ذات برکتوں اور حکمتوں سے بھری ہوئی تھی۔حضورﷺ نے جناب فاطمہ سلام علیہا کے بارے میں فرمایا کہ فاطمہ جنت کے خواتیں کی سردار ہیں اور اپ کے دونوں شہزادے یعنی جناب حسنین کریمین کے حوالے سے فرمایا کہ یہ دونوں جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔لہذا اس میں کوئی شک نہیں کہ ان مقدس ہستیوں کے عظمت کیا ہیں؟کیونکہ جناب آدم علیہ السلام سے لیکر قیامت تک جتنے بھی امتی جنت میں داخل ہونگے ان کے سردار یہی پاک ذات ہونگے۔


اللہ تعالیٰ نے جناب فاطمہؑ کو بہت سے فضائل و خصائص سے نوازا تھا۔آپ ﷺ نے فرمایا
فاطمہ:جہاں تو ناراض ہوتا ہے وہاں اللہ بھی ناراض ہوتا ہے اور جہاں تو راضی ہوتی ہے وہاں اللہ بھی راضی ہوتا ہے
فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے جس نے اس سے ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔آپﷺ نے مذید فرمایا تھا کہ دنیا کے تمام انسانوں کی نسل ان کے بیٹوں سے چلتا ہے لیکن میرے نسل میرے بیٹی فاطمہ کے بیٹوں حسن اور حسین سے چلے گا۔
نبی ﷺ کو اپنی بیٹی سے اتنی محبت تھی کہ کہ جب فاطمہ اپنے ابا جان کے ہاں تشریف لاتے تو آپ (ص) اپ کی تعظیم میں کھڑے ہوتے۔اور جب کہیں آپ باہر تشریف لاتے تو سب سے اخر میں اپ سے ملاقات کرکے رخصت فرماجاتے اور واپسی پر سب سے پہلے اپ سے ملتے۔


آپ کی اولادجو سورہ کوثر کی عملی تفسیر ہیں۔قرآن مجید،احادیث مبارکہ اور تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی ﷺ کے گھرانے کو مختلف ناموں سے یاد کیا جاتا ہے جو سب الفاظ اپس میں ہم معنی اور لفظ آہلبیت کے مترادف ہیں یعنی کہ آہل بیت،آل محمد،آل یاسین،عترت،ذریت رسول،آل کسا ء اور ذوالقربی شامل ہیں۔
اللہ پاک قرآن مجید میں نبی اقدس کے گھرانے کو تمام ناپاکیوں اور نجاستوں سے پاک رکھنے کا اعلان کیا اور ارشاد باری تعالی ہے
اے اہل بیت رسول:اللہ پاک تو بس یہی چاہتا ہے کہ تم سے ہر قسم کی برائی اور نجس کو دور رکھے اور جیسے پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے ویسا ہی پاک و پاکیزہ رکھیں۔(سورہ احزاب آیت ۳۳)
اللہ پاک نے قرآن حکیم میں اپنے محبوب کو مختلف القاب سے پکاراہے کہیں مدثر،کہیں مزمل،کہیں طحہٰ اور کہیں یسین کہہ کر پکارا ہے اور فرمایا
ٓآل یاسین پر سلام ہو (سورہ صافات ایت ۰۳۱)


عترت بھی اولاد کے لیئے استعمال ہوتا ہے۔انحضرت کی عترت سے مرادوہ لوگ ہیں جن کی نسبت آپ (ص) کی طرف جاتی ہیں یعنی کہ سیدہ طاہرہ کے پاک نسل۔صحابہ رسول ذید ابن ارقم سے روایت ہے کہ آپﷺ سے فرمایا،،میں تمہارے درمیاں دو بھاری چیزیں چھوڑ کے جارہا ہوں ایک اللہ کی کتاب اور دوسری میری اہل بیت،ان سے تمسک رکھو گے تو کبھی گمراہ نہیں ہوں گے۔
زریت بھی آولاد اور انے والے نسل کے لیئے استعما ل ہوتی ہے۔جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے
اور ابراہیم علیہ السلام کی زریت مین سے داود،سلیمان،ایوب،یوسف،موسی اور ہارون علیہ السلام ہیں۔اور اس طرح ہم نیک لوگوں کو جزا دیتے ہیں،نیز زکریا،عیسیٰ اور الیاس جو سب کے سب صالیحین میں سے تھے (سورہ انعام،84,85)
صحابی رسول حضرت سعید ابو خدری نے حضورﷺ کی حدیث نقل کی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ خدا کا غضب اس شخص پر بھڑکتا ہے جو کہ مجھے میرے زریت کے بارے میں اذیت دیتا ہے۔


ہر ایک سبب اور نسب قیامت کے دن منقطع ہو جائے گا مگر میرا سبب اور نسب باقی رہے گا اور ہر ایک ماں کے بیٹوں کے لیئے عصبہ باپ کی جانب ہوتا ہے،بجز اولاد فاطمہ کی میں ان کا باپ اور عصبہ ہوں (المستدرک امام حاکم)
نجران کے عیسائی سرور کونین سے تین دن تک بحث و مباحثہ کرتے رہے اور نبی اکرم کے دلائل قبول کرنے کے لیئے تیا ر نہیں تھے پس قرآن کی یہ ایت نازل ہوئی،


پھر اے محبوب جو تم سے عیسیٰ کے بارے میں حجت کریں بعد اس کے تمیں علم اچکا ہے تو تم ان سے فرمادو کہ اوٗ ہم بلائیں اپنے بیٹے اور تمہارے بیٹے،اپنی عورتین اور تمہاری عورتین،اپنی جانین اور تمہاری جانیں پھر مباہلہ کریں اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ہو
مباہلہ کے دن حضور اس شان کے ساتھ نکلے کہ عورتوں کی جگہ جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا،بیٹوں کی جگہ امام حسن اور امام حسین اور نفس کی جگہ جناب شیر خدا ساتھ تھے۔ان نورانی چہروں کو دیکھ کر نجران کے عیسائی مباہلہ کرنے سے ڈر گئے۔حضرت حذیفہ سے مروی ہے کہ جب آیت مباہلہ نازل ہوئی تو انحضرت نے حضرت علی،فاطمہ اور حسنین کو بلا کر فرمایا اے پروردگار یہ میرے آہل بیت ہیں۔
ال نبی کو اہل عباء و کساء بھی کہتے ہیں۔عباء عربی زبان میں چادر کو کہتے ہیں،اور اس بارے میں یہ روایت مستند ہے،کہ ایت تطہیر کے نزول سے قبل انحضرت (ص) ایک چادر اوڑھے ہوئے تھے جس پر ہنڈیوں کے نقش سیاہ بالون سے بنے ہوئے تھے حسن ائے تو آپ نے ان کو بھی چادر میں لے لیااس کے بعد حسین ائے اپ نے ان کو بھی چادر میں لے لیا اس کے بعد علی ائے اپ نے ان کو بھی چادر میں لے لیا اور اس کے بعد فاطمہ ائے اور ان کو بھی چادر میں لے لیا اور ایت تطہہرکی تلاوت فرمائی۔
قرآن پاک میں ذوالقربیٰ کے بارے میں حکم ہے


اے رسول کہدیجیئے:کہ میں تم سے رسالت کا اجر کچھ نہیں مانگتا مگر یہ کہ میرے قرابتداروں سے محبت کریں۔(سورہ شورہ 23)
اس پاک گھرانے کے لیئے درد شریف کا تحفہ اللہ پاک نے تا قیامت مسلمانوں کو عطا کیا ہے۔اور اس کے بے شمار دنیاوی و روحانی فائدے ہیں،درود شریف میں انسانی دکھوں اور مصیبتوں کا علاج ہے۔رسول خدا نے فرمایا ہے کہ جس نے مجھ پر ایک مرتبہ درود ارسال کریں اللہ تعالیٰ اس پردس رحمتیں نازل فرماتا ہے کوئی عبادات،کوئی عمل و مناجات درود شریف کے بغیر اللہ پاک کی درگاہ قابل قبول نہیں ہوتی،،


بے شک اللہ اور اس کے فرشتے نبی اکرم پر درود بھیجتے ہیں،اے ایمان والو تم بھی ان پر خوب درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کرو اور ان کے فرمان پر سر تسلیم خم کرو (سورہ احزاب ۶۵)
دورد شریف میں اللہ پاک نے نبی ﷺ کے گھرانے کو شامل کر کے ان کو بڑی فضلیت سے نوازا ہے اور امت کے لیئے یہ درس رکھی گئی ہے کہ رسول پاک اور ان کی پاک آل ایک دوسرے لے لیئے لازم و ملزم ہیں اور جس نے نبی کے ساتھ آل نبی کو شامل نہیں کیا اس نے نبی پر ظلم کیا اور جس نے نبی پر ظلم کیا وہ عذاب الہی کا مستوجب ٹھرا۔اپ ﷺنے فرمایا کہ مجھ پر دم بریدہ صلواۃنہ پڑھا کرو،صحابہ کرام نے عرض کیاکہ یا رسول اللہ وہ کس طرح؟اپ نے فرمایا کہ تم صرف الھم صلے علی محمد کہتے ہو اور آل محمد کو ترک کرتے ہو۔یہ صلواۃ دم کٹی ہے بلکہ یوں کہو
الھم صلی علی محمد و علی ال محمد


حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی ذات پاکیزگیوں اور فضیلتوں سے بھری ہوئی ہے۔آپ کی ذندگی کا بیشتر حصہ نماز اور اللہ کی حمد و ثنا میں گزرتی تھی،کثرت سے روزہ رکھتی اور ہمہشہ قران پاک کی تلاوت میں مصروف ہوتی۔صحابی رسول جناب سلمان فارسی ؓ سے روایت ہے کہ ایک دن اپنے جناب فاطمہ کو دیکھا کہ وہ چکی کے قریب بیٹھ کر قرآن مجید کی تلاوت کررہی تھی اور چکی خود بخود چل رہی تھی۔جب سلمان فارسی نے یہ معجزہ نبی اقدس سے بیان کیا تو اپنے فرمایا کہ اللہ پاک نے جناب جبرائیل آمین کو اس کام کے لیئے بیھجا تھا۔ان جیسے ہستیون سے سے محبت ہمارے ایماں کا جز ہے اور دونوں جہانوں میں نجات کا زریعہ ہے اور قرآن کا بھی یہی حکم ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57701

داد بیداد ۔ نیشنل پارک ۔ ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی

داد بیداد ۔ نیشنل پارک ۔ ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی

مار خور پا کستان کا قومی جا نور ہے، دیودار پا کستان کا قومی درخت ہے چکور پا کستان کا قومی پرندہ ہے چمبیلی پا کستان کا قو می پھول ہے، بر فا نی چیتا دنیا بھر کا نا یاب درندہ ہے یہ تما م انواع چترال گو ل نشینل پار ک خیبر پختونخوا میں یکجا پا یے جا تے ہیں جو خیبر پختونخوا کا 38سال پرا نا نیشنل پار ک ہے وزیر اعظم عمران خا ن کی حکومت میں جن تر جیحات کو اولیت دی جا تی ہے ان میں بد عنوا نی کے خا تمے کے ساتھ جنگلات اور جنگلی حیات کی حفا ظت، ما حول کا تحفظ اور سیاحت کا فروغ سب سے نما یاں نظر آتے ہیں.

گذشتہ روز خبر آئی کہ ڈبلیو ڈبلیو ایف کے ما ہروں کی ٹیم نے جنوری2022کے پہلے پندرھوا ڑے میں چترال گول نیشنل پارک کے اثا ثہ جا ت کا سروے کر کے اس نیشنل پارک میں 2500مارخوروں کے ریوڑ کی کا میاب گنتی کا اعلا ن کیا، ما ہرین کی ٹیم نے اس بات پر اطمینا ن کا اظہار کیا کہ نیشنل پار ک میں انواع حیات یعنی با یو ڈائیورسٹی کی صورت حال تسلی بخش ہے ما ہرین نے سفا رش کی ہے کہ وزارت مو سمی تغیر منسٹر ی آف کلا ئمیٹ چینچ اور انسپکٹر جنرل فارسٹ کو نیشنل پا رک کے منجمد فنڈ سے پا بندی ہٹا دینی چا ہئیے اور پا رک کے انتظا می امور کی نگرا نی کے لئے مقا می کمیو نیٹی کی با اختیار کمیٹی کو منجمد فنڈ سے سٹا ف کو تنخوا ہیں ادا کر کے پا رک کے انتظا م میں مزید بہتری لا نے کی مکمل آزا دی اور اجا زت دینی چا ہئیے .

وزیر اعظم کے خصو صی پر گرام میں ملک کے اندر 21نیشنل پارکوں کا قیا م بھی شامل ہے وزیر اعظم چاہتے ہیں کہ انواع حیات کے لحا ظ سے پا کستا ن کو ایک ما ڈل بنا کر دنیا میں شہرت دی جا ئے وزیر اعظم کے اس وژن کی رو سے چترال گول نیشنل پارک کوملک کے پار کوں میں پہلا در جہ حا صل ہو گا مگر اس راہ میں کئی رکا وٹیں حا ئل ہیں.

چترال گول نیشنل پار ک کا قیا م جنرل ضیا ء الحق کے دور حکومت، 1984ء میں صو با ئی گور نر لفٹنٹ جنرل فضل حق کی کو ششوں سے عمل میں آیا تھا جنرل پر ویز مشرف کے دور حکومت میں صو با ئی گور نر افتخار حسین شاہ کی کو ششوں سے یو نا ئٹڈ نیشنز ڈیو لیپمنٹ پر و گرام (UNDP) اور گلو بل انوائر نمنٹ فیسیلیٹی (GEF) کے ما لی اور تکنیکی تعاون سے بلو چستان میں ہنگول نیشنل پار ک کے ساتھ چترال گول نیشنل پارک کے لئے پرو ٹیکٹیڈ ایریا ز منیجمنٹ پرا جیکٹ (PAMP) منظور کر ا یا گیا، پرا جیکٹ نے پار ک کے شراکت داروں پر مشتمل مقا می کمیو نیٹی کی 11تنظیموں کو ایک کمیٹی کی صورت میں منظم کر کے پار ک کا نظم و نسق کمیو نیٹی کے حوا لے کیا اور نگرا ن سٹاف، وارڈن، ہیڈ وا چر، جنرل وا چر وغیرہ کی تنخوا ہوں کے لئے انڈو منٹ فنڈ قائم کیا 2016ء تک یہ فنڈ کمیو نیٹی کو ملتا تھا 2016کے بعد کلا ئمیٹ چینج کی منسٹری نے فنڈ کو منجمد کر دیا، فنڈ منجمد ہو نے کے ساتھ ہی مقا می کمیو نیٹی اور انسپکٹر جنرل فارسٹ (IGF) کے درمیان تنا زعہ پیدا ہوا اس تنا زعہ نے اگر طول پکڑا تو پار ک کے نظم و نسق میں بحران پیدا ہو گا یہ رپورٹ وزیر اعظم کی نو ٹس میں آگئی تو طو فان بر پا ہو گا قو می جا نور ما رخور اور قومی درخت دیو دار کی وجہ سے یہ پا کستان کا قو می پا رک ہے اس پارک میں وزیر اعظم عمران خان کی خصو صی دلچسپی ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57699

دھڑکنوں کی زبان -“بلدیات اور بلدیاتی انتخابات”- محمد جاوید حیات

ہمارے ملک میں سارا کچھ بچوں کا کھیل ہے۔نام کے سسٹم موجود ہیں جب کام کی باری آجایے تو سارے فیل ہیں ۔۔ایوب خان کے دور میں بی ڈی کا تصور دیا گیا۔ بنیادی جمہوریت کا مقصد ہی یہ تھا کہ جمہوری نظام بہت نیچے عوام تک لایا جائے۔گلی کوچوں میں عوام کے نمائندے ہوں وہ ان کی آواز ان کے مسائل اور ان کے حقوق کی دھائی حکمرانوں تک پہچائیں ۔یہ بہت کامیاب کوشش تھی لیکن یہاں پر بھی وہی نتیجہ رہا کہ عمل پر آکے آکے سب دھرے کو دھرے رہ گئے۔ عوام اسی طرح بے آواز رہے ۔ان کے مسائل وہیں ٹکے رہے ۔بلدیا کے نمائندے اسی دھندے کے شکار ہوگئےمفادات ان کو لے اڑے ۔اسٹبلشمنٹ نے ان کو جھکڑ لیا اور تا حال یہ نظام بھی کار کردگی کےلحاظ سے زیرو رہا ۔۔دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں بلدیا ایک بہت کامیاب سسٹم ہے اور عوام کی خدمت ملک کی ترقی اور بنیادی سہولیات فراہم کرنے کا فعال ادارہ ہے ۔

اسی ادارے میں حکمرانی اور جمہوریت کی جڑیں ہوتی ہیں ۔ملک میں بلدیہ کی گاڑی جب روڈ پر ہوتی ہے تو ایمبولنس کی طرح اس کے لیے روڈ خالی کیا جاتا ہے سب سمجھتے ہیں کہ شہر میں کہیں ناکہیں کوئی مسلہ درپیش ہوا ہے ۔بجلی کی ترسیل رک گئی ہوگی ۔پانی کی پائپ پھٹ گئی ہوگی ۔ٹیلی فون بند ہوچکا ہوگا ۔کسی حادثے کی اطلاع ہوگی ۔عوام کے انتہائی بنیادی مسلہ یہی بلدیا حل کرتا ہے ۔اس کے دفتر میں ہر گھڑی فون تیار و ہوشیار رہتا ہے انفرادی طور پر کالی ہوتی ہے کہ فلان محلے میں گھرانہ نمبر فلانہ میں یہ مسلہ درپیش ہے ۔شہر کی صفائی ستھرائی گلی کوچوں ،بازاروں پارکوں اور ساتھ گلیوں سے روزانہ کی بنیاد پر ڈسٹ اٹھانا اسی بلدیے کا فرض ہوتا ہے ۔اس کے پاس فنڈ ہوتا ہے مشینیں ہوتی ہیں ہنرور ہوتے ہیں ۔اہلکار ہوتے ہیں ٹیکنیشن ہوتے ہیں ۔عوام کی زندگی کا ان پر انحصار ہے اس وجہ سے اسی بلدیے کے لیے عوام اپنا کارکن کارگزار اور محنت سے سرشار نمائندہ چنتا ہے تاکہ اس کو بنیادی سہولیات میسر ہوں ۔ہمارے ہاں بلدیے کی کارکردگی ایسی ویسی نہیں ہے ۔۔کبھی اس کو انتظامیہ کے ماتحت کرکے ٹریب میں بند کیا جاتا ہے کبھی انتظامیہ کو اس کے ماتحت کرکے دوراہا ڈیزائن کیا جاتا ہے عوام اور نمائندے دھوبی کا کتا بن جاتے ہیں ۔عوام بہرہ مند نہیں ہوتے ۔اس لیے جب بھی بلدیاتی انتخابات کا اعلان ہوتا ہے عوام انگشت بدندان ہوتے ہیں ۔۔۔یہ شعر زیر لب دھراتے ہیں
ان کے دل پر بھی کڑی عشق میں گزری ہوگی
نام جس نے بھی محبت کا سزا رکھا ہے۔۔۔۔
یعنی جس نے بھی بلدیہ نام رکھا ہے ۔


بات یوں بھی ٹیڑی میڑی نہیں ۔ کچھ شہروں کے ایسے میر گزرے ہیں جو ان شہروں کو روشنیوں کا شہر بنا کے چھوڑے ہیں ۔کچھ ایسے گزرے ہیں جو خود فلیٹوں میں رہے اور اپنی نیندیں عوام کے آرام پہ تج دیں ۔لیکن نظام کی کمزوریاں اور نمائندوں کی بے حسیاں اور دھندے اس نظام کو ناکارہ کرتے رہے ہیں ۔اب بھی الیکشن کا عمل جاری ہے تو وہی کارستانیاں ہیں ۔یہ الیکشن پارٹیوں سے بالاتر ہونی چاہیں صرف خدمت مطمع نظر ہو۔اور نمائندے بھی ایسے چنے جائیں تو خدمت سے سرشار ہوں لیکن ایسا نہیں ہوگا ۔۔یہ دنیا کے ان ممالک میں شمار نہیں ۔جس میں سیاست خدمت کا نام ہوتا ہے نمائندہ خادم کہلاتا ہے ۔اب یہاں عوام میں بھی وہ شعور نہیں کہ وہ ایسے نمائندوں کا انتخاب کریں۔ جو خدمت کرکے دکھائیں ۔۔پھر انتظامیہ کا بھی پتہ نہیں کہ ان کو کس نہچ پہ نچاتا ہے ۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57697

بجلی مزید مہنگی کرنے کی تیاریاں ۔ محمد شریف شکیب

بجلی مزید مہنگی کرنے کی تیاریاں ۔ محمد شریف شکیب

سنٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی نے بجلی کی قیمتوں میں 3 روپے 12 پیسے فی یونٹ اضافے کیلئے نیشنل الیکٹر ک پاور ریگولیٹری اتھارٹی میں درخواست دائرکردی ہے جو دسمبرکی ماہانہ فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں دی گئی ہے۔درخواست میں کہا گیا کہ دسمبر2021 میں 8 ارب 52 کروڑیونٹ بجلی پیدا ہوئی، بجلی کی پیداواری لاگت 73 ارب 84 کروڑروپے رہی، 22 روپے 24 پیسے میں فرنس آئل سے مہنگی ترین بجلی پیدا کی گئی، ایل این جی سے 17 روپے 80 پیسے فی یونٹ میں بجلی پیدا ہوئی، 14 روپے 8 پیسے فی یونٹ کے حساب سے ڈیزل سے بجلی پیدا ہوئی، کوئلے سے بجلی کی پیداواری لاگت 13 روپے 31 پیسے فی یونٹ میں ہوئی، ایران سے 13 روپے 26 پیسے فی یونٹ بجلی درآمد کی گئی،اس لئے فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں بجلی کی قیمت میں 3 روپے 12 پیسے فی یونٹ اضافہ کیا جائے۔نیپرا یکم فروری کوبجلی کی قیمتوں میں اضافے کی درخواست کی سماعت کریگا مطلوبہ اضافے کی منظور ی کی صورت میں صارفین پر30 ارب سے زائد اضافی بوجھ پڑے گا۔رواں مالی سال کے دوران بجلی کی قیمتوں میں یہ آٹھواں اضافہ ہوگا۔

فیول ایڈجسمٹ کی مد میں صارفین سے اب تک ڈیڑھ کھرب روپے بٹورے گئے ہیں۔میرے اپنے گھر کا دسمبر جنوری کا بل 12ہزار سے زائد آیا ہے اس میں استعمال شدہ یونٹ 527دکھائے گئے ہیں بجلی کی اصل قیمت 17روپے یونٹ ہے۔جبکہ بل میں مزید خرافات شامل کرکے 23روپے 73پیسے یونٹ کے حساب سے وصول کیاگیا۔ ان میں 1282روپے فیول ایڈجسٹمنٹ،869روپے کیو ٹی آر ایڈجسٹمنٹ، 226روپے ایف سی سرچارج،124روپے الیکٹریسٹی سرچارج،35روپے ٹی وی فیس، 1468روپے جنرل سیلز ٹیکس، 240روپے ایف پی اے اور851روپے لیٹ پے منٹ فیس شامل ہے۔ دسمبر کی فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں تین روپے بارہ پیسے فی یونٹ اضافے کی درخواست کے علاوہ 93پیسے فی یونٹ اضافے کی الگ درخواست بھی جمع کرائی گئی ہے۔ جس کے ذریعے صارفین سے دس ارب روپے بٹورنے کی تیاریاں ہیں۔

بجلی کی تقسیم کے نظام سے خود پیسکو حکام بھی پریشان ہیں ان کا کہنا ہے کہ جن گھروں میں چار بلب اور دو پنکھے چلتے ہیں اس کا ماہانہ بل بمشکل آٹھ سو روپے آتا ہے جبکہ بل میں ایف پی اے کے نام سے ڈھائی ہزار روپے صارفین سے اضافی وصول کئے جارہے ہیں۔ اور وہ صارفین کو اس کی وضاحت دینے سے بھی قاصر ہیں۔ملک میں بجلی کی پیداوار اور تقسیم کا نظام جب واپڈا کے پاس تھا تو سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا۔سابقہ حکومتوں نے ہر شہر کے لئے الگ پاور کمپنیاں قائم کیں۔ بجلی کی قیمت کا تعین کرنے کے لئے نیشنل پاور ریگولیٹری اتھارٹی قائم کی جو سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی کے ساتھ مل کر لوٹ مار میں مصروف ہے۔ ملک میں ہائیڈل پاور سٹیشن سے پیدا ہونے والی بجلی کی قیمت تین سے چار روپے فی یونٹ ہے۔ وطن عزیز میں پانی سے کم از کم پچاس ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی گنجائش موجود ہے مگر ہمارے حکمرانوں نے اپنے کمیشن کی خاطر سستی بجلی پیدا کرنے کے بجائے فرنس آئل، کوئلے، ڈیزل اور شمسی توانائی سے چلنے والے مہنگے پلانٹس کی خریداری کی۔ عوام کی جیبوں سے نکالی گئی رقم کا دو تہائی حصہ پرچیزنگ ایجنسی، ریگولیٹری اتھارٹی اور پاور پروڈیوسرز کی جیبوں میں چلی جاتی ہے۔

پچاس سال پہلے بچھائی گئی ٹرانسمیشن لائنیں اپ گریڈ کرنے کے لئے بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے پاس پیسے نہیں بچتے۔اگر ہم پانی سے تیس ہزار میگاواٹ بجلی بھی پیدا کریں گے تو ہماری ٹرانسمیشن لائنیں اٹھارہ ہزار میگاواٹ سے زیادہ لوڈ اٹھا ہی نہیں سکتیں یہی وجہ ہے کہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ سال بھر جاری رہتی ہے۔ بل نہ دینے والے اداروں سے کوئی نہیں پوچھتا،لائن لاسز کے نام پر نادہندگان کا بوجھ بھی باقاعدگی سے بل دینے والے صارفین پر ڈالا جاتا ہے۔ایسے قواعد و ضوابط بنائے گئے ہیں کہ بجلی کا نیاکنکشن لینا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے یہی وجہ ہے کہ لوگ قانونی طور پر کنکشن کے پیچھے خوار ہونے کے بجائے کنڈے لگانے کو ترجیح دیتے ہیں۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57695

نوائے سُرود – نفس کے خلاف جہاد – شہزادی کوثر

بعض دفعہ حیرت ہوتی ہے کہ انسان کتنی عجیب مخلوق ہے،اس کے وجود کا خمیر جن عناصر سے مل کر بنا ہے وہ اثرات اس کی زندگی پہ اپنی گرفت کبھی ڈھیلی نہیں چھوڑتے،اسے نفس ،عقل،روح، دل اور ضمیر دیا گیا ہے ۔ نفس اگر حدود میں رہے تو انسان فرشتوں کی صف میں شامل ہو جاتا ہے اگر اپنی حدود سے متجاوز ہو تو شیطان بھی اس سے پناہ مانگے۔ زندگی بھر نفس کا سر کچلنے کی کوشش کرتا  ہے کبھی تو نفس غالب آکر اسے اپنے پیچھے بھاگنے پر مجبور کرتا ہے اور کبھی وہ نفس کی گردن میں اطاعت کا طوق ڈالنے میں کامیاب ہو جاتا ہے مگر ایسا کرنا آسان نہیں ،یہ بہت ہی مشکل مرحلہ ہے جب وجود کی دنیا میں دو شدید جذبات باہم برسرپیکار ہوتے ہیں ۔۔

ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر            

کعبہ میرے پیچھے ہے کلیسا میرے آگے                  

اسلام کی نظر میں بھی سب سے بڑا جہاد انسان کا اپنے نفس سے لڑنا ہے ،اس لئے کہ فرشتوں کی طینت اور شیطان کی خصلت دونوں کو کسی معتدل مقام پر یکجا کرنے میں کامیاب ہو جانا ہی سب سے بڑی کامیابی ہے ۔ ہرانسان کے اندر ایسی جنگ کسی نہ کسی شکل میں ہوتی رہتی ہے ، باہر بڑا پُرسکون اور با وقار دکھنے والا انسان اپنے وجود میں کتنی بڑی شورش چھپائے ہوتا ہے یہ کوئی نہیں جان سکتا کیونکہ یہ دونوں طاقتیں انسانی وجود کو اپنا مشق ستم بناتی ہیں ۔۔۔                                                   

 عالم سے اختیار کی ہر چند صلح کُل                       

 پر اپنے ساتھ مجھ کو شب و روز جنگ ہے                    

اس جنگ کا نتیجہ کبھی بڑا واضح ہوتا ہے  اور فرد کی کامیابی یا ناکامی  کے پلڑے کی طرف جھکاو نظر آتا ہے لیکن بعض دفعہ تو نہ ختم ہونے والی لڑائی ذات کی دیواروں کو شکستہ کرنا شروع کرتی ہے اور زندان حیات کی دیوار پھاندنے تک اس سے گلو خلاصی نہیں ملتی ۔ کبھی فرد کی انا کا سانپ پھن پھلائے کسی دوسرے کی ہستی کو قبولنے کے لئے تیار نہیں ہوتا اور غرور و تکبر اپنی نخوت کے آگے دوسرے کی صلاحیتوں کو راکھ کے ڈھیر سے زیادہ حیثیت دینے کو تیار نہیں ہوتا ،کبی دل اپنی سلطنت کا اعلان کرتے ہوئے سب سے بڑی طاقت ہونے کا دعویۤ کرتا ہے ،اور کبھی عقل اس سلطنت کی بنیادوں کو نمک کی اینٹوں سے بنی عمارت سے زیادہ وقعت نہیں دیتی ۔                                                                                          

نگاہ ودل تیرے بارے میں متفق ہی نہ تھے                           

میں خود سے کتنا لڑا ہوں تیری محبت میں                        

اس طرح کی  لڑائی میں میدان کارزار انسان کی جان عزیز ہے جس میں خیر وشر کی مختلف حالتیں نظر آتی ہیں جن میں ایک جبلت ہے اس کی تربیت نہ ہو تو ساری عمر خباثت میں گزار دیتا ہے جبلت کو تہذیب کی بھٹی میں تپایا جائے تو ضمیر بن جاتی ہے ورنہ خبیثہی رہ کر برائیوں کی طرف دوڑتا اور دوڑاتا ہے ۔ضمیر کے ہاتھ میں وہ کیمیا گری ہے کہ خطاوں کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر کے کھارے پانی کو میٹھا بناتا ہے یہ موقع اسے نہ دیا جائے تو یہ جبلت کے کھردرے پیروں تلے کراہتا رہے گا ۔جبلت کو آسانی سے سمجھنا چاہیں تو اسے حیوانیت اور وحشیانہ طریقہ زندگی کہ سکتے ہیں جس میں حقوق وفرائض کا وجود کوئی نہیں مانتا ،قانون تہذیب، مذہب اور انسانیت کے اعلی اقدار کی حیثیت  اس کی نظر میں رینگتے کیڑے سے زیادہ نہیں ہوتی ۔ جس کے ہاتھ میں طاقت اور اقتدار کا چابک ہے وہی آقا ۔۔۔ باقی لوگ چوپایوں کا ریوڑ جسے باآسانی جدھر چاہیں ادھر ہانکا جا سکتا ہے ۔ابن آدم کی لغزشوں کی وجہ بھی جبلت ہی بنتی ہے کہ جو چیز بھی پسند آجائے اس کے حصول کے لئے حلال وحرام کی کوئی تمیز نہیں کی جاتی گویا جبلت کے ہاتھوں انسان بے دست وپا ہو کر رہ جاتا ہے ،اس سے بچنے کے لئے اپنے نفس کے خلاف جہاد کی حالت میں رہا جائے تا کہ ابن آدم انسانیت کے شرف سے   محروم نہ ہو۔                

2022۔1۔25۔                                                    

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
57693

افضل البشر بعدالانبیاء: حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ-ڈاکٹر ساجد خاکوانی(اسلام آباد،پاکستان)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

افضل البشر بعدالانبیاء:حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ

(22جمادی الثانی :یوم وفات کے موقع پر خصوصی تحریر)

ڈاکٹر ساجد خاکوانی(اسلام آباد،پاکستان)

                صحابی رسول ﷺحضرت دحیہ کلبی ؓایک وجیہ شخصیت کے مالک تھے،بلندوبالا قد،چوڑا چکلہ سینہ،لمبے لمبے بال اور سرخ و سفیدرنگت کے باعث آپ پوری محفل میں جدانظر آتے تھے، ان شخصی خصوصیات کے پیش نظر آپ ؓ کوسفیررسول ﷺ مقررکیاگیا چنانچہ دوسرے ملکوں کے بادشاہوں کے پاس آپ ﷺ کے دعوتی خطوط حضرت دحیہ کلبی ہی لے کرگئے۔قیصرروم جس کااپنانام ”ہرقل“تھاجو مذہباََ  عیسائی اور گزشتہ آسمانی کتب سے شد بدرکھتا  تھا،دربار کے برخواست ہونے پرحضرت دحیہ کلبی ؓ کو اپنے محل کے ایک خاص کمرے میں لے گیا جس کی دیوار وں پر بہت سی شبیہیں لٹکی تھیں،اس نے کہاکہ ان میں سے اپنے نبی کی شبیہ پہچانو،ایک جگہ انگلی رکھ کر حضرت دحیہ کلبی نے کہا یہ ہمارے نبی ﷺ کی شبیہ مبارک ہے۔ہرقل نے پوچھا اس کے دائیں بائیں کن کی شبیہیں ہیں،حضرت دحیہ کلبی ؓنے کہا کہ یہ دائیں حضرت ابوبکرؓاوریہ بائیں حضرت عمرؓ کی ہے۔ہرقل نے کہاکہ ہماری کتب میں لکھاہے کہ اللہ تعالی ان دو بزرگوں سے آخری نبی ﷺ کی مدد فرمائے گا۔اس واقعہ سے اندازہ ہوتا ہے اول دونوں خلفائے راشدین کا ذکر گزشتہ کتب میں بھی کتنی تفصیل کے ساتھ مذکور تھا۔

                محسن انسانیت ﷺ نے مدینہ آمد کے ساتھ ہی اسلامی ریاست کی تاسیس فرمائی اور خود اس کے اولین حکمران بنے،حضرت ابوبکر صدیقؓاس ریاست کے دوسرے حکمران اور آپ ﷺ کے اولین دینی جانشین بنے۔573ء میں مکہ مکرمہ میں پیدائش ہوئی،اسلام لانے سے قبل آپ کا نام ”عبدالکعبہ“تھا،مسلمان ہونے پر محسن انسانیتﷺ نے آپ کو ”عبداللہ“سے موسوم کیاتاہم آپ کی کنیت ہی آپ کی پہچان رہی اور آپ کو ”ابوبکر“کے نام سے یاد کیاجاتارہا،عربی میں بکر”جوان اونٹ“کوکہتے ہیں،حضرت ابوبکر چونکہ اونٹوں میں نہ صرف یہ کہ گہری دلچسپی رکھتے تھے بلکہ ان کی عوارض و علاج معالجہ اور دیگر امور میں بھی گہرا درک وشغف تھا اس لیے اہل مکہ آپ کو ”ابوبکر“یعنی”اونٹوں سے محبت کرنے والا“کہاکرتے تھے۔آپ کے والد کانام ”عثمان“اور کنیت ا”بوقحافہ“ تھی،والدہ محترمہ کا اسم گرامی”ام الخیر سلمی“تھا۔والد اور والدہ دونوں کی طرف سے چھٹی پشت پر حضرت ابوبکرصدیق کانسب محسن انسانیتﷺسے مل جاتاہے۔قریش کے قبیلہ ”بنوتمیم“سے تعلق تھااور اپنے قبائلی منصب،خون بہااوردیت کی رقوم کی جمع و ادائگی و ضمانت،پر آپ زمانہ جاہلیت سے فائز رہے تھے اور قتل کے مقدمات میں آپ کی رائے وثالثی آخری فیصلے کے طور پر تسلیم کی جاتی تھی۔بچپن سے ہی شریف النفس اورشرک وکبائر سے مجتنب تھے،محسن انسانیت ﷺ سے دو سال چھوٹے تھے اور اوائل عمری سے ہی دونوں کے درمیان گہرے مراسم رہے جو بعد میں ایمان سازاور جنت کے سنگ ہائے میل بن گئے۔

                مردوں میں آپ نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا،حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ سمیت متعدداہل ایمان لونڈی غلاموں کو خریدکرآزادکیا،سفرمعراج کی سب سے پہلے تصدیق کر کے ”صدیق“کا لقب حاصل کیا،سفرہجرت میں ہمنشینی نبی ﷺ،ثانی الثنین کا شرف بھی آپ کو حاصل ہوا،نبی ﷺ کے سسر بننے کی سعادت سے بہرہ ور ہوئے،ہر غزوہ میں نبی ﷺ کے شانہ بشانہ رہے،غزوہ تبوک میں گھرکاکل اثاثہ خدمت اقدسﷺ میں پیش کیا،فتح مکہ کے بعد والے حج میں امیرحج مقررہوئے،علالت نبوی ﷺ کے دوران مسلمانوں کی امامت کراتے رہے اوروصال نبی ﷺ پر آپ نے مسلمانوں کو سہارادیا اور انکے تازہ زخم پرمرہم رکھا۔مسلمانوں کے خواص نے آپ کو باہمی مشورے سے اپنا حکمران چن لیااور عوام نے اس فیصلے کی توثیق وتائید کردی۔ اگلے دن جب آپ کی خلافت کااعلان کیاگیاتو آپ کھڑے نہ ہوئے تب دو مسلمانوں نے آپ ؓ کو کندھوں سے پکڑ کر اٹھایااور ممبررسول ﷺ تک لے گئے۔ممبر کی تین سیڑھیاں ہوتی ہیں،آپ ﷺ تیسری پر تشریف رکھتے تھے اور دوسری پر اپنے قدمین مبارکین براجمان فرماتے تھے،حضرت ابوبکر احترام نبوی میں وہاں بیٹھے جہاں قدمین مبارکین ہواکرتے تھے،آج تک علماء امت ممبر کی آخری سیڑھی پر نہیں بیٹھے کہ یہ مقام نبوی ﷺ ہے اور دوسری سیڑھی پر ہی بیٹھتے ہیں کہ یہ سنت صدیقی ہے۔

                حضرت ابوبکر صدیق ؓکے زمام اقتدار سنبھالتے ہی متعدد نئے مسائل نے سراٹھانا شروع کردیا۔محسن انسانیت ﷺ نے انیس سالہ نوجوان ”اسامہ بن زیدؓ“کی قیادت میں ایک لشکر تیار کیا تھاتاکہ رومیوں سے سفیررسولﷺ کے قتل کا قصاص لیاجاسکے،یہ لشکر روانگی کے لیے پابہ رکاب تھا کہ وصال نبوی کا سانحہ بجلی بن کر مسلمانوں پر آن گرا۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے اقتدارکی باگ دوڑ سنبھالتے ہی اس لشکر کی روانگی کے احکامات صادر کر دیے،بہت سے لوگوں نے اختلاف کیااور حالات کی نزاکت کے باعث اس لشکرسپاہ کومرکزی دارالخلافہ میں رہنے کی رائے پیش کی۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے فیصلہ نبویﷺ سے ایک بال برابر بھی روگردانی سے انکارکر دیااور ایک منزل تک پاپیادہ اس لشکر کے ہمراہ دوڑتے ہوئے گئے۔امیرلشکرحضرت اسامہ بن زید کو نصیحتیں فرمائیں کہ”عورتوں،بچوں اور بوڑھوں کو قتل نہ کرنا،لاشوں کا مثلہ نہ بنانا،دشمن کے ساتھ خیانت،بدعہدی اور دھوکہ بازی نہ کرنا،پھل دار درختوں اور فصلوں کو نہ کاٹنا،جانوروں اور آبادیوں کو ہلاک نہ کرنا،عبادت گاہوں اور ان میں مصروف عابدوں سے کوئی چھیڑچھاڑ نہ کرنااور جولوگ اسلام قبول کر لیں ان کے جان،مال اور عزت و آبرو کا خیال رکھنا“۔

                 وصال نبویﷺ کے بعد عرب قبائل کی اکثریت کفروشرک کی طرف پلٹ گئی،انہوں نے کھلم کھلااسلام سے بغاوت کردی،اپنے قبیلے کے لوگوں کو بھی اسلام چھوڑ دینے پر مجبورکیااور جنہوں نے نہ چھوڑنا چاہا ان پر تشددکیااور بعض کو قتل بھی کیا،زکوۃ دینے سے انکارکردیا،کچھ نے نبوت کادعوی بھی کردیااورکچھ سرکش قبائل مدینہ پر چرحائی کرنے کی تیاریاں بھی کرنے لگے۔ان قبائل کی وجہ ارتداد پر سب سے پہلے تو خود قرآن نے سورۃ حجرات میں تبصرہ کردیاتھا کہ اسلام ان کے دلوں میں داخل نہیں ہوا،عرب کے بدوی قبائل فتح مکہ کے باعث مسلمان تو ہوگئے لیکن اسلام کے عملی تقاضوں کو نبھا نہ سکے۔ پس جب تک آپ ﷺ موجود رہے ان کی نبوت وشخصیت کے سامنے تو دبے رہے لیکن ان کے بعد فوراََ سر اٹھا لیا۔قبائلی تعصب ایک اوروجہ ارتداد تھی جسے ایک زمانہ بعد تک بھی ختم نہ کیاجاسکا،سرداروں کی شوریدہ سری اور جنگجؤں کی طالع آزمائیاں اور شوق اقتدار و شہرت و حصول دولت وغیرہ سمیت متعدد دیگروجوہات ہیں جنہیں تاریخ کے نقادوں نے ارتداد کے پس منظر میں سمیٹاہے۔اکثر قبائل نے زکوۃ کو تاوان سمجھ لیااور کہاکہ نبی علیہ السلام کو تو ہم اداکردیاکرتے تھے لیکن ان کے خلفا کو زکوۃ ادانہیں کریں گے۔بنوعبس،بنوذیبان اور بنوبکر اس انکار میں سرفہرست تھے۔منکرین زکوۃ کاایک وفد خلیفہ وقت کے ساتھ مزاکرات کے لیے مدینہ طیبہ بھی آیااور عرض کی کہ ہم نماز پڑھتے ہیں لیکن زکوۃ سے ہمیں رخصت دے دی جائے،حالات اس حد تک بگڑ چکے تھے کہ عرب کہاوت کے مطابق شہرمدینہ صحرامیں بھیگی ہوئی تنہابکری کی مانند ہوچکاتھا چنانچہ صحابہ کی اکثریت نے اس وفد کے موقف کی تائید کی جبکہ حضرت عمر ؓجیسے جید کی صحابی کی رائے بھی منکرین زکوۃ کے حق میں تھی لیکن حضرت ابوبکر صدیق نے فرمایاکہ زکوۃ کی ایک رسی کے لیے بھی مجھے جنگ لڑنی پڑی تو میں لڑوں گا۔اس وقت اگر خلیفہ اول زکوۃ میں رعایت دے دیتے تو اسکو جواز بناکر آج کہاجاسکتاتھاکہ مصروفیت کے باعث پانچ کی بجائے تین نمازیں پڑھ لیناکافی ہے،مہنگائی کے باعث اپنے ہی علاقے میں مناسک حج اداکرلیناکافی ہے وغیرہ لیکن حضرت ابو بکر کی ایک ”نہیں“ نے قیامت تک کے لیے تحریف دین کے دروازے بند کر دیے۔منکرین زکوۃ اس حد تک دلیر ہوچکے تھے کہ انہوں نے مدینہ پر چڑھائی کر دی  چنانچہ مسلمانوں کے لشکر نے اپنے خلیفہ کی قیادت میں انہیں شکست دی اور انکے قبائل تک انکا تعاقب کیا۔

                طلحہ بن خویلد اورمسیلمہ کذاب نے نبوت کا دعوی کر دیا،ان کا خیال تھا کہ مکہ سے ایک فردنے نبوت کادعوی کر کے تو اقتدار،شہرت اور افواج اکٹھی کرلی ہیں چلو قسمت آزمائی ہم بھی کرتے ہیں۔طلحہ نے اپنے قبیلہ بنواسد کو اپنے گرد اکٹھاکر لیااور شکست خوردہ منکرین زکوۃ بھی اس کے ساتھ آن ملے اور یوں یہ مرتدین اکٹھے ہوکر ایک جتھے کی شکل اختیارکرگئے۔حضرت ابوبکر ؓنے خالد بن ولید کی سالاری میں ایک لشکر ان کی سرکوبی کے لیے بھیجا”بزاخہ“کی وادی میں گھمسان کا رن پڑا،مرتدین کو شکست فاش ہوئی اور طلحہ اپنی بیوی سمیت فرارہوگیا۔بعد کے ادوار میں طلحہ نے توبہ کرلی اور مسلمان ہوگیااور دورفاروقی میں ایران و عراق کی مہمات میں بہت بہادری کے ساتھ جہاد کرتارہا۔مسیلمہ دراصل بنوحنیفہ کا سردارتھااور یمامہ کا رہنے والا تھا۔اس نے دورنبوت میں ہی نبی علیہ السلام کے ساتھ گستاخیاں شروع کر دی تھیں جس کے باعث دربار نبویﷺ سے اسے ”کذاب“کالقب مل چکاتھا۔ مرکزخلافت مدینہ منورہ سے شرجیل بن حسنہ اور عکرمہ بن ابوجہل کوالگ الگ دستے دے کرمسیلمہ کی سرکوبی کے لیے روانہ کیاگیادونوں نے ہزیمت اٹھائی اس کے بعد خالد بن ولید اپنا لشکر لے کر پہنچے اور مرتدین کا پتہ کاٹنے کے لیے فیصلہ کن حملہ کی تیاریاں شروع کر دیں۔مسیلمہ کے ساتھ چالیس ہزار کا لشکر تھا لیکن اس کے باوجود بھی وہ مسلمانوں کا ڈٹ کر مقابلہ نہ کرسکا اور ایک باغ میں محصور ہوگیا،مسلمان مجاہدین باغ کی دیواروں سے کود گئے اور اس کاکام تمام کردیا۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ جس ”وحشی“نے جنگ احد میں حضرت امیرحمزہ ؓکا قتل کیاتھا اسی نے اپنے بھالے کو اس طرح نشانے پر پھینکاکہ وہ مسیلمہ کذاب کے سینے سے آرپار ہوگیا۔

                دورصدیقی کی ابتدامیں بحرین کے لوگ بھی مرتد ہو گئے اور انکے دیکھادیکھی ان کے قریب کے دیگرقبائل بھی ارتداد کی طر ف مائل ہوئے اور دین حق کو خیرآباد کہ دیاان میں عمان،یمن اور حضرموت کے لوگ بھی شامل تھے۔یہ علاقہ یمامہ کے قریب ہی واقع تھاچنانچہ مسیلمہ کذاب کی شکست سے یہ لوگ خوفزدہ تو ہوئے لیکن جہالت کے باعث ابھی بھی آمادہ بغاوت ہی تھے۔ان میں سے ایک سردار جارود بن معلی عبدی اسلام پر قائم رہااور اس نے اپنے قبیلے بنوعبدالقیس کوبھی تبلیغ و ترہیب کے ذریعے اسلام پر قائم رکھا۔مرتدین نے سابقہ شاہی خاندان کے ایک شہزادے کو اپنا بادشاہ بنا لیاتھااور سلطنت اسلامیہ کے گورنر علاء حضرمی کو علاقہ بدر کردیاتھا۔ حضرت ابوبکر نے مرتدین کی سرکوبی کے لیے وہیں کے نکالے ہوئے گورنرعلاء حضرمی کو لشکر کا کماندار مقررکیا،دشمن کی تعداد بہت زیادہ تھی چنانچہ مسلمان افواج نے خندقیں کھود کر ان میں چھپ کر اپنا دفاع بھی کیااوردشمن پر حملے بھی کرتے رہے۔ایک ماہ کی طویل کشمکش کوئی نتیجہ برآمد نہ کرسکی اور یہ جنگ عسکری مقابلے کی بجائے اعصابی کشمکش کی صورت اختیار کر گئی۔ایک رات جب مرتدین شراب کے نشوں میں دھت غل غپارہ اور طوفان بدتمیزی برپاکر رہے تھے تو مسلمانوں نے موقع غنیمت جان کر بھرپوروار کیا،یہ حملہ کارگر ہوا اور دشمن کا اتنانقصان ہوا کہ انہیں میدان جنگ میں ہزیمت اٹھانا پڑی اور مسلمان افواج فتح مند ہوئیں۔اسو دعنسی ایک اور جھوٹامدعی نبوت تھااور اس نے دور نبوت میں ہی یہ دعوی کررکھاتھا،اسکاتعلق یمن سے تھا۔اسود عنسی نے اپنے بہت سے پیروکاروں کو اکٹھا کر رکھاتھا اور اسلامی حکومت کے عمال کو وہاں سے نکال کر اپنی حکومت قائم کررکھی تھی۔کم و بیش چار ماہ تک اس نے یہ ڈراما رچائے رکھااور وصال نبوی ﷺ سے ایک رات قبل راگ رنگ کی محفل میں اسی کے ایک چاہنے والے نے اسے ذبح کردیا۔اس کے بعد بھی یہ فتنہ ارتداد ختم نہ ہوااور عمروبن معدی کرب اورقیس بن عبد یغوث نے ان باغیوں کی قیادت سنبھال لی۔حضرت ابوبکر ؓنے عکرمہ اور مہاجر کو ان لوگوں کی بغاوت کچلنے کے لیے روانہ کیا۔مدنی افواج کے آنے سے اہل یمن بری طرح گھبراگئے اور ان میں پھوٹ پڑ گئی۔عمرو بن معدی کرب مسلمانوں سے مل گیااور اس نے قیس بن عبد یغوث کو گرفتار کرادیااور یوں یہ بغاوت بھی فروہوگئی۔عمرو بن معدی نے بعد کے دور فاروقی میں ایران اسلام جنگ میں بہادری کے خوب جوہر دکھائے۔

                خلافت راشدہ کی ایک اہم خصوصیت ”شورائیت“ہے چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے مشاورت کے لیے صحابہ کبار رضوان اللہ تعالی اجمعین کو متعین کیاہوا تھا۔جب بھی کوئی اہم مسئلہ درپیش ہوتاتوسب سے پہلے قرآن میں اس کا حل تلاش کیاجاتا،پھرسنت میں اور پھرباہمی مشورے سے قرآن و وسنت کی روشنی میں اجماع سے کام لیاجاتا۔جمع و تدوین قرآن مجیدکااعزاز بھی کاتب تقدیرنے آپ کے مقدرمیں لکھ دیاتھاچنانچہ آپ کے دوراقتدارمیں آپ ہی کے حکم سے قرآن مجیدکو حضرت زیدبن ثابت نے جمع کیا۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے دورخلافت میں سلطنت کو دس صوبوں میں تقسیم کیاہواتھااور ہر صوبے کاحکمران ”والی“ کہلاتاتھاجس کے تحت صوبائی انتظامیہ،مالیات اور سرحدی صوبوں کی صورت میں فوج بھی ہوتی تھی۔نومفتوحہ علاقوں میں انتظامی عملے کی بحالی تک سپہ سالار ہی جملہ امور کی نگرانی کرتاتھا۔بیت المال کاابھی تک کوئی باقائدہ نظام نہ تھا،آمدن میں اگرچہ بہت زیادہ اضافہ ہوگیاتھالیکن خراج و دیگر ذرائع سے آنے والی رقوم میں سے سرکاری اخراجات نکال کربقیہ مسلمانوں میں تقسیم کر دی جاتی تھیں چنانچہ وفات صدیقی کے بعد بیت المال میں کل ایک درہم ہی نکلاتھا۔اسی طرح فوجی نظام نے بھی ابھی تک کوئی باقائدہ شکل اختیارنہیں کی تھی اور قتال کے لیے لڑنے کے قابل مردان جنگی ایک دینی جذبے کے تحت اکٹھے ہوجاتے تھے اور حکومت وقت انہیں کسی خاص مہم پر روانہ کردیتی۔افواج میں اتنی اصلاحات ضرور ہوئی تھیں کہ سپاہیوں کی ایک خاص تعدادکوکسی ایک کماندار کے تحت کر دیاجاتااور پوری فوج کا بھی ایک سپہ سالاراعظم مقررکردیاجاتا۔مجتہدوفقیہ اصحاب رسولﷺکو قاضی مقررکیاجاتاتھااور وہ شریعت محمدیہ کے مطابق مقدمات کا فیصلہ کرتے تھے۔عدلیہ کی معاونت کے لیے محکمہ افتاء کاقیام بھی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کاایک کارنامہ گناجاتاہے جس میں حضرت عمرفاروق،حضرت عثمان غنی،حضرت علی مرتضی،حضرت عبدالرحمن بن عوف،حضرت معاذبن جبل،حضرت ابی بن کعب اور حضرت زیدبن ثابت  رضی اللہ تعالی عنھم جیسے جید صحابہ کرام اپنے فرائض منصبی اداکرتے تھے۔

                7جمادی الثانی 13ہجری کو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ بیمار پڑ گئے۔پندرہ دنوں بعد غسل فرمایا کہ شاید طبیعت سنبھل جائے لیکن بخارمیں شدید اضافہ ہو گیااور21جمادی الثانی 13ھ کو یہ آفتاب خلافت راشدہ تریسٹھ برس کی سنت عمر میں خالق حقیقی سے جا ملا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ جسمانی اعتبارسے ایک پر کشش شخصیت کے مالک تھے،رنگ سفید،میانہ قد،دبلابدن،شگفتہ چہرہ،کشادہ پیشانی اور روشن آنکھیں تھیں۔آواز نسبتاََ بھاری تھی جس سے شخصیت کے جلال کا اندازہ ہوتاتھالیکن طبعاََنرم خو،رقیق القلب اوررحم دل اور شفیق انسان تھے۔محسن انسانیت ﷺکی سادگی میں سے ایک بہت بڑاحصہ آپ کوبھی عطا ہواتھا چنانچہ دولت کی کثرت اور اقتدارواختیارات کے باوجود آپ نے اپنے معیارزندگی میں اضافہ نہ کیااوربہت تھوڑی اجرت پرتاحیات درویشی و فقر کو ہی ہم سفرجانااور وصیت کرتے ہوئے فرمایا کہ مجھے پرانی چادر میں ہی دفنا دینا کہ نئے کپڑوں کے حق دار زندہ لوگ ہوتے ہیں۔اسلام لانے سے پہلے اشعار بھی کہاکرتے تھے لیکن بعدازاسلام فنا فی القرآن ہی ہو گئے۔طبیعت و ذوق کا بہت بڑا حصہ حب نبویﷺ سے پر تھاچنانچہ ہجرت کے دوران اس کے بے شمار مناظردیکھنے کو ملے،اونٹنی پر آپ ﷺ کے پیچھے بیٹھے ہوتے لوگ پوچھتے تو آپ ﷺ کی طرف اشارہ کرکے کہتے یہ میراراہنما ہے،لوگ سمجھتے کہ اگلی منزل تک راستہ بتانے والاہے۔قبا پہنچنے کے بعد جب لوگوں کو پتہ نہ چلتاتھا کہ رسول اکرم ﷺاورحضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ میں سے نبی کون ہے تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے نبی علیہ السلام پرسایہ کی غرض سے ایک چادر تان لی جس سے لوگوں کو نبی اور امتی کی پہچان میسرآگئی۔وصال نبوی کے وقت فرمایاکہ آپ ﷺ کو دوسری موت نہیں آئے گی،گویادنیاسے آپ ﷺ کا ذکر کبھی ختم نہ ہوگا۔جس جگہ محسن انسانیت ﷺدوران سجدہ اپنی پیشانی مبارک جماتے تھے اسے بندکرادیاکہ مباداکسی کاپاؤں آجائے اور شان نبوی ﷺ میں گستاخی واقع ہوجائے اورجس جگہ آپﷺ کے قدمین مبارکین ہوتے تھے اسے بحیثیت پیش امام اپنی سجدہ گاہ مقررکیا۔

                 حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کادورحکومت دوسالوں کی مختصرترین پر ہی محیظ ہے۔اوریہ عرصہ بھی اندرونی و بیرونی خلفشاروں میں گزرااور ریاست کو مکمل استحکام نصیب نہ ہو سکا۔اس کے باوجود بھی آپ نے اسلامی سیاست کو بہت مضبوط اور ناقابل فراموش بنیادیں فراہم کیں۔اختیارات کے استعمال میں اپنے پیش رو نبی ﷺکے فیصلوں کی اس حدتک پابندی کہ یک سرمو یمین و یسارکاانحراف بھی ناقابل برداشت تھا،بیت المال کے استعمال میں امانت داری کا تصور قبیلہ بنی نوع انسان میں سب سے پہلے آپ نے ہی متعارف کرایا،اختیارات کلی کا مرقع ہونے کے باوجود اپنے آپ کو مشاروت کا پابندبنانا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے طرزحکمرانی کا ہی خاصہ ہے،اہم سرکاری مناصب پراپنے رشتہ داروں اور چہیتوں کو تعینات کرنے کی بجائے امانت و دیانت و شرافت کے پیمانوں کو ملحوظ خاطر رکھنا اورسب سے بڑھ کر یہ کہ انتقال اقتدارکے مرحلے میں انتہائی امن و احتیاط اور معیارمطلوب کاحد درجہ تناؤچندایسے امور ہیں جن کے باعث مسلمان اپنی اولین تاریخ میں آج کی نام نہادمہذب دنیاکے سامنے بھی یکتاوممتاز ہیں۔آپ چاہتے تو دنیاکی مروجہ روایات کے مطابق اپنے کسی بیٹے یا کسی رشتہ دارکو اپنا جانشین نامزد کر جاتے لیکن اس کے برعکس محض تقوی و انتظامی صلاحیتوں میں مقابلتاََبہترفردکویہ ذمہ داریاں سونپناانسانیت میں واقع ہونے والا سب سے پہلا اورکامیاب ترین تجربہ تھا۔

                خلافت راشدہ کے بعدمسلمانوں سمیت دنیائے انسانیت نے سیاست کے کتنے ہی نظام تجربہ کرلیے،ملوکیت،خاندانی وگروہی ونسلی و علاقائی بادشاہت،شخصی آمریت،اداراتی حکمرانی(پولٹ بیورو)اور عصرحاضر میں یورپی سیکولرتہذیب کی پروردہ حیوانی جمہوریت،لیکن امن وآشتی اور عدل اجتماعی و عادلانہ نظام معیشیت کی جوآسودگی و راحت خلافت راشدہ میں انسانیت کو میسرآئی اس کی مثال بعد کے ادوارمیں تادم تحریرنہیں ملتی۔خلافت راشدہ میں نافذشدہ کئی قوانین آج کی دنیا میں بھی صف اول کے کئی ممالک میں نافذ ہیں،خاص طور پر یورپی ممالک میں محتسب کا منصب خالصتاََدور خلافت راشدہ کے سیاسی و انتظامی نظام کاایک اہم باب ہے اور عدلیہ کوانتظامہ سے علیحدگی کا اولین تصور بھی خلافت راشدہ کے نظام ہی ملتاہے وغیرہ۔کتنی حیرانی کی بات ہے کہ جس کا ذکرعلامہ اقبال ؒنے بھی کیاہے کہ ہم اپنی تاریخ کے حوالوں کے لیے بھی مغرب کے محتاج ہو چکے ہیں

اوراتناشاندارماضی اور اس ماضی میں چھپے ہوئے ہیرے موتی اور لعل و گوہر کو تلاش کرنے کی بجائے سیکولرمغربی تہذیب کے بدبوداراور سڑاندسے بھرے ہوئے بوسیدہ،فرسودہ اور مرقع جہالت وانسان دشمن نظریات و معاشی و سیاسی نظاموں کو درآمدکرتے ہیں جس کے نتیجے میں سوائے تباہی و بربادی اور خون خرابے کے کچھ بھی میسر نہیں آتا۔پس اب غلامی کے یہ منحوس بادل اب چھٹنے کو ہیں کہ خلافت علی منہاج نبوت کاشہنشاہ خاور ایک بار پھر اپنی پوری آب و تاب سے عالم انسانیت پرطلوع ہواچاہتاہے،انشاء اللہ تعالی۔

[email protected]

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57673

اقتصادی سیکورٹی پالیسی – پاکستان معاشی اڈے سب کے لیے یکساں کھلے – قادر خان یوسف زئی

 پاکستان کی قومی سلامتی پالیسی2022-2026 میں ملک کو درپیش کئی چیلنجز کو محور بنایا گیا، وہاں اقتصادی سیکورٹی کے لئے بھی جامع منصوبہ بندی کو قومی پالیسی میں شامل کیا گیا ہے۔ موجودہ حکومت کو اقتصادی پریشانیاں ورثے ملیں اور قریباََ ہر حکومت کو بھی معاشی صورت حال کو درست کرنے کا مسئلہ درپیش رہا ہے۔ شاید یہی وجہ رہی کہ مستقل وزیر خزانہ سمیت کئی اہم معاشی عہدوں پر شخصیات تبدیل ہوتی رہیں۔ وزیراعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی معید یوسف کا کہنا ہے کہ پاکستان اب ‘فوجی اڈوں کی پیشکش کے دھندے میں نہیں مگر ہمارے اکنامک (معاشی) اڈے سب کے لیے کھلے ہیں۔’  ان کا مزید کہنا تھا کہ گوادر میں (چین کے) کوئی فوجی اڈے نہیں، بلکہ وہاں اکنامک بیسز ہیں جس کی پیشکش ہم نے امریکہ، روس، مشرق وسطیٰ کو بھی کی ہے اگر وہ یہاں سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں۔’ قومی سلامتی کے مشیر نے واضح کیا کہ ان کے ملک کی حکمت عملی اور سوچ میں بڑی تبدیلی آئی ہے جس میں اب جیو سٹریٹیجک کے بجائے جیو اکنامک ضروریات پر توجہ مرکوز کی گئی ہے، جس کے لیے رابطوں کے مسائل کا حل اور ترقیاتی منصوبوں کے لیے شراکت داری اہم ہوتی ہے“۔


 پاکستان کی معاشی ترقی کے حوالے سے جو اشاریے مہیاہیں ان میں سب سے اہم پہلو ترسیلات ِ زر میں اضافے میں اوورسیز پاکستانیوں کا اہم کردار کو سرہایا گیا ہے۔ اوورسیز پاکستانی کی جانب سے قانونی طریقے سے زر مبادلہ بھیجے جانے کی وجہ سے مملکت کو سہارا ملتا ہے۔ دوم اس کی ایک اور اہم وجہ ایف اے ٹی ایف کی جانب سے سخت شرائط پر عمل درآمد کی وجہ سے غیر قانونی طریقوں (ہنڈی،حوالہ، منی لانڈرنگ) کے ذریعے رقم بھیجنے کے رجحان میں کمی اور روشن پاکستان جیسے اکاؤنٹ اور قانونی طریقوں سے زر مبادلہ بھیجے جانا بھی شامل ہے، تاہم ملکی ترقی اور جی ڈی پی میں اضافے کے لئے صرف ترسیلات ِ زر پر اکتفا نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ جہاں اس کے مثبت اثرات تو دوسری جانب مضر اثرات بھی سامنے آتے ہیں، جس میں قابل، اور اعلیٰ ماہرین کا ملک سے باہر خدمات ہیں۔ جن کی قابلیت سے پاکستانی عوام کو براہ راست کوئی فائدہ نہیں پہنچ پاتا اور معاشی صورت حال کے پس منظر میں بتدریج اہل افراد کی کمی واقع ہو رہی ہے۔ افراد قوت کے بحران نے کئی ترقی یافتہ ممالک کو دشواریوں میں مبتلا کیا تاہم سرمایہ کی وافر پیمانے پر فراہمی اور پرکشش مراعات کی وجہ سے انہوں نے افرادی قوت کے بحران پر قابو پالیا، تاہم پاکستان اس وقت ترقی پذیر مملکت کے طور پر آزاد پالیسیوں سے قدرے دور ہے، کیونکہ اقتصادی مسائل کی وجہ سے عالمی قوتوں کے زیر ِ اثر مالیاتی اداروں کی کڑی شرائط نے عوام کو مہنگائی اور بے روزگاری سمیت تنوع مسائل میں الجھا رکھا ہے۔معید یوسف ایک انٹرویو میں اعتراف کرچکے ہیں کہ معاشی کمزوری کی وجہ سے خارجہ پالیسی آزاد نہیں ہے۔ بادی ئ النظر دیکھا جائے تو واضح نظر آتا ہے کہ عالمی مالیاتی اداروں کی کڑی شرائط کا اثر براہ راست اُن طبقات تک پہنچتا ہے جو کسی نہ کسی صورت بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔


روپے کی قدر مسلسل گرنے کے سے پاکستانی برآمدات میں قابل قدر اضافہ ہونا چاہے۔ ڈالر کی قدر میں اضافے سے درآمدات مہنگی ہوئیں، تیل مصنوعات کی گرانی ہوئی اور ماضی میں زرعی ملک ہونے کے باوجود جن اشیا خورد نوش میں پاکستان خود کفیل تھا، گندم، چینی، کپاس، خوردنی تیل، چائے سمیت اشیا ء ضروری درآمدات کرنے سے ملکی خزانے پر زر مبادلہ کی کمی کا اضافی بوجھ بڑا، اگر برآمدات کو مربوط حکمت عملی کے تحت بڑھائے جائے تو ڈالر کے قدر میں اضافے سے خاطر خواہ فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ اس کے لئے متعلقہ اداروں اور محکموں کو نئی تجارتی منڈیوں میں ’میڈان پاکستان برانڈ‘ کو قابل اعتبار بنانا ہوگا۔ روپے کی قدر گرنے کا دوسرا سب بڑا نقصان ملکی اور غیر ملکی قرضوں پر پڑتا ہے اور پہلے سے لئے گئے قرضوں اور ان کے سود کا توازن بگڑ جاتا ہے، جس کی وجہ سے روپے کی قدر کی گراؤٹ اور توانائی کی قیمتوں میں اضافہ بڑھتا جارہا ہے۔ روپے کی قدر کو مستحکم رکھنے کے لئے اقتصادی پالیسی کو ملکی معیشت، صنعت، زراعت، سیاحت کے شعبوں میں تبدیلی لانے ہوگی اور انہیں ترجیح دیتے ہوئے بلند سطح کو کم کرنا ہوگا۔ مشیر تجارت رزاق داؤد کا کہنا ہے کہ  موجودہ مالی سال (2021-2022 ) کے پہلے چھ مہینوں میں ملکی برآمدات 25 فیصد کی شرح سے بڑھتے ہوئے 15 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئیں جو گذشتہ سال 12 ارب ڈالر تھیں۔ خیال رہے کہ رواں مالی سال(2021-2022 ) کے پہلے چھ مہینوں میں ملک کا تجارتی خسارہ 100 فیصد بڑھا، ان چھ مہینوں میں تجارتی خسارہ تقریباً 25 ارب ڈالر تک بھی پہنچا۔
ملکی معیشت کی کمزوری کا اثر دفاعی ضروریات پر بھی بڑھتا ہے کیونکہ ملکی دفاع، بالخصوص انتہا پسندی اور دیرینہ دشمنوں کے خلاف جاری جنگ میں اخراجات ناگزیر ہوتے ہیں، اسی طرح جب بھارت جیسا ملک پاکستان کا دیرینہ دشمن ہو تو ملکی دفاع کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ بھارت نے اپنے توسیع  پسندانہ جارح اور انتہا پسند سوچ و نظریئے کی وجہ سے خطے میں ہتھیاروں کی دوڑ میں خود کو سب سے آگے رکھا ہوا ہے۔ دفاعی ضرورت میں خود کفیل ہونے اور کسی بھی ملک پر انحصار کم اور ختم کرنے کے لئے ملکی معیشت کی مضبوطی کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ پاکستان میں سیکورٹی اور سیاسی چیلنجز نے جہاں غیر ملکی سرمایہ داری میں کمی ہوئی ہے تو غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کو بھی بری طرح زک پہنچائی ہے، جس کی وجہ سے جدید دفاعی ساز و سامان کی خریداری کے لئے دفاعی بجٹ میں بڑا اضافہ نہیں ہوا،1970 ء کی دہائی میں دفاعی بجٹ کے لیے مختص کردہ رقم جی ڈی پی کا 6.50 فیصد،  2001-02 ء کے مالی سال کے دوران (گویا بیس سال پہلے) دفاعی بجٹ کے لیے مختص کردہ رقم جی ڈی پی کا 4.6 فیصد بجٹ 2020-21 میں دفاع کے لیے مختص کردہ 1,289 ارب روپے جی ڈی پی کا محض 2.86 فیصد ہیں۔
کمزور معاشی صورت حال کی وجہ سے عوامی فلاح و بہبود اور بڑے پراجیکٹ شروع اور مکمل کرنے میں دشواری ہے بالخصوص موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے آبی ذخائر جس تیزی سے کم ہو رہے ہیں اس کے لئے ضروری ہوگیا ہے کہ چھوٹے بڑے ڈیم بنائے جائیں، جہاں آبی ذخائر دستیاب ہوں گے تو دوسری جانب توانائی کے بحران کو ختم کرنے کے لئے پیٹرولیم مصنوعات پر انحصار کم ہوسکتا ہے۔ جس کا اثر پیداواری لاگت پر پڑے گا اور اس سے عوام میں مہنگائی کو برداشت کرنے کی سکت اور زر مبادلہ کی بچت بھی ممکن ہوپائے گی۔افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ آبی ذخائر کے لئے کسی بھی جمہوری حکومت نے بڑے پراجیکٹ شروع نہیں کئے، آمرانہ دور میں بڑے آبی ذخائر کو قابل عمل بنایا گیا، موجودہ حکومت بڑے آبی ذخائر پر کام شروع تو کرچکی لیکن اس کی رفتار انتہائی سست ہے، جس کی وجہ سے کوئی بڑا آبی منصوبہ کسی وقت پایہ تکمیل پر پہنچے گا، اس کی کوئی حتمی تاریخ نہیں دی جاسکتی۔ متوسط اور غریب طبقہ معاشی چیلنجز کی وجہ سے بدترین اقتصادی بحران سے صرف اس وقت ہی نکل سکتا ہے جب ان کے لئے طویل المدت منصوبہ سازی کی جائے۔


 خطہ غربت سے لاکھوں خاندانوں کو نکالنے کے لئے ٹیکس کلچر اور بچت کے رجحان میں آگاہی بڑھانا ہوگی تو دوسری جانب لاکھوں ایسے لوگوں کو ٹیکس کے دائرے میں لانا ہوگا، جو حکومت سے مراعات اور فوائد تو حاصل کررہے ہیں لیکن اس کے بدلے وطن عزیز کو کچھ نہیں دے رہے۔ تباہ شدہ مقامی صنعت کو عارضے سہاروں کے بجائے مضبوط کندھے فراہم کرنا ہی قومی سلامتی پالیسی میں اقتصادی بحران سے نکلنے کا اہم حل ہے۔ مقامی صنعت کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے سے سرکاری اداروں میں بے روزگار افراد کا ملازمت کے لئے سرتوڑ کوشش کرنے میں کمی واقع ہوگی اورخود کفالت کے رجحان سے جہاں بے روزگاری میں کمی واقع ہوگی وہاں متوسط اور نچلی سطح کے طبقات کو معاشی مسائل سے باہر آنے میں مدد ملے گی۔ عالمی بنک کی جائزہ رپورٹ کے مطابق، ”کاروبار کرنے کے لئے آسانیاں پیدا کرنے والے ممالک“ کی درجہ بندی کو بہتر بنانے اور مزید سرمایہ کاری کے حصول کیلئے پاکستان کو کسٹم قوانین کو آسان،ملکی سیکیورٹی میں بہتری کے ساتھ ساتھ سیاحت اور اس جیسی دیگر صنعتوں کیلئے پسندیدہ منزل کے طور پر اپنے بین الاقوامی تشخص کو ازسرنو شکل اورفروغ دینا چاہئے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57671

جہنم – تحریر- میر سیما امان

Utopia # 5 ۔۔

جہنم – تحریر- میر سیما امان


کبھی کبھار میں سوچتی ہوں کہ بچپن میں ہماری ماؤں نے جہنم کی اگ سے ہمیں ڈرانے کے بجائے ”پچھتاؤں کی اگ سے ہمیں ڈرایا ہوتا تو آج حالات مختلف ہوتے،کس قدر عجیب بات ہے کہ اُس اگ سے تو ہمیں با رہا خوفزدہ کیا جاتا رہا جس سے رہائی ممکن ہے کیونکہ اللہ ربٔ العزت ” معافی ” دینے والا ذات ہے۔لیکن افسوس کہ ہماری تربیت کے دنوں اس اگ کا ہمیں ہلکاسا اِشارہ بھی نہیں دیا جاتا جس میں ادمی ایک بار مُبتلا ہونے پر راکھ بنے بغیر رہائی نہیں پاتا۔۔ ہاں اگر پچھتاؤں کی اگ سے ہمیں بچنے کی ترغیب ملی ہوتی تو دنیا میں کوئی شخص خطاوار نہ ہوتا۔نہ ہی ماضی کی خطاوں پر پیشمان ہوتا۔۔

دُنیا انسانوں کی بنائی ہوئی جہنم نہ بنتی۔۔ اور آدمی آخرت کے جہنم کا ” ایندھن ” نہ بنتا۔۔۔۔۔ انسانی زندگی کا بد ترین المیہ ہی یہ ہے کہ ہمیں اپنی غلطیوں پر رب سے تو معافی مل جاتی ہے مگر انسانوں سے نہیں۔۔اللہ کہتا ہے تم پہاڑ برابر بھی گناہ کرلو لیکن پھر ایک بار آ کر مجھ سے معافی مانگ لو میں معاف کروںگا چاہے تمھارے گناہ سمندر کے جھاگ کے برابر ہوں یا اونچے پہاڑوں کے برابر بس ایک بار معافی مانگ لو اللہ نے معافی کا اعلان کر رکھا ہے۔۔لیکن انسان نہیں کرتا کر ہی نہیں سکتا۔۔اپ کسی کے ساتھ کتنا ہی اچھا ہو جاو۔کتنے ہی نیک ہوجاو۔لوگ آپکو آپکی غلطیاں بھولنے نہیں دیتے ۔۔

ہمارے معاشرے میں چور ڈاکو اور بد ذات بن کر رہنا بہت آسان ہے کیونکہ معاشر ہ اسکی اجازت دیتا ہے ۔ادمی برا بننا چاہے معاشرہ اسکو راستے دے دیتا ہے لیکن اچھائی کا راستہ نہیں ملتا ۔۔ادمی برائی سے نکل کر اچھائی کی طرف قدم اٹھاتا ہے تو اس پر راستے تنگ کردیے جاتے ہیں اسے واپس اند ھیروں میں دھکیل دیا جاتا ہے۔۔ آدمی جینا چاہتا ہے معاشرہ اسے اسکی ماضی کی قبر میں دفناتا رہتا ہے ۔ ۔کبھی کبھار مجھے یہ سوچ کر بھی حیرت ہوتی ہے کہ فرعون کو عبرت کا نشان کیوں بنایا گیا۔۔کیونکہ وہ خدا بننے کی کوشش کرتا تھا ۔۔۔وہ اس دور کا واحد ایک شخص تھا جو لوگوں کے لیے خدا بن بیٹھا تھا اور اللہ نے اسے قیامت تک کے لیے عبرت کا نشان بنادیا۔اج ہر شخص اپنی ذات میں فرعون ہے دوسروں کی زندگیوں کا فیصلہ کرنے والا ۔دوسروں کی غلطیوں پر سزا دینے والا دوسروں کی ہر ہر حرکت پر بکواس کرنے والا فرعون ۔۔

دوسروں کی گناہوں کی لسٹ یاد رکھنے والے اس معاشرے کو اللہ نے چھوٹ دے رکھی ہے ۔۔جانتے ہیں کیوں ۔۔کیونکہ ہم بد بختوں کو دنیا کی اس سب سے سفاک قوم کو رسول پاک صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی امت ہونے کے شرف نے اللہ کے قہر سے بچا رکھا ہے ورنہ مصر کے عجائب گھر میں عبرت کا نشان بننے والا فرعون تو صرف ایک ہے ہمارے عجائب گھر بھی ہماری عبرتناک مورتیوں کو سجانے کے لیے کم پڑ جاتے ۔۔۔۔


مورخہ ۱۶اکتوبر ۲۰۱۷

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
57650

لاوارث ۔ گل عدن چترال

لاوارث ۔ گل عدن چترال

 ہماری ڈکشنری میں لفظ “لاوارث” کے معنی یتیم یعنی بے سہارا کے ہیں.مگر نجانے یہ وقت کی خوبصورتی ہے یا بدصورتی کہ یہ مٹھی سے پھسلتے ریت کی مانند گزرتا ہوا وقت میری زاتی ڈکشنری اور ہماری نصابی ڈکشنری کے مابین اختلافات بڑھائے جا رہا ہے.نجانے کیوں مجھے والدین سے محرومی میں اولاد کی بدبختی نظر نیہں آرہی لیکن وہ لوگ مجھے انتہائی بدبخت اور قابل رحم محسوس ہورہے ہیں جن کے اردگرد بظاہر سرپرستوں کا ہجوم ہےمگر وہ حقیقی راہنمائی سے نابلد  یعنی محروم لاوارثوں سے بدتر زندگی گزار رہے ہیں..

والدین کا وجود ہر فرد کے لئے تپتی دھوپ میں ٹھنڈی چھاوں کی مانند ہے.اور بحثیت ایک سرپرست کے ہر باپ ہا ماں اپنی اولاد کو روٹی کپڑا اور مکان کے علاوہ بہترین تربیت دینے کی بھی بھرپور کوشش کرتا ہے.لیکن اس سب کے باوجود اگر کوئی گمراہ کن راستے کا انتخاب کرلے تو آپ کے والدین اساتذہ یا دیگر سرپرت آپکو ہاتھ سے پکڑ کر زبردستی گمراہی سے ‘برائی سے یا ظلم سے روک نہیں سکتے .یہ روکنے والا سر پرست تو ہمارے اندر ہوتا ہے .ہمارے اندر کی وہ آواز جو ظلم ڈھانے سے پہلے ہمیں روکتا ہے اور ظلم کرنے کے بعد ہماری سرزنش کرتا ہے.چاہے یہ ظلم ہم اپنے نفس پر کریں یا دوسروں پر.ہمارے اندر کی یہ آواز دراصل “ضمیر” کہلاتی ہے.

سو میں اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ انسان کا اصل سرپرست اسکا روحانی سرپرست ہوتا ہے یعنی” اسکا ضمیر”  . سو میری نظر میں اگر آپکا ضمیر زندہ ہے لیکن باپ مر جائے تو بھی یقین مانیں اس اندھیر نگری میں آپ بے یار و مدد گار اور تنہا  ہوتے ہوئے بھی “لاوارث” نیہں ہیں.لیکن اگر بد قسمتی سے آپکا ضمیر مردہ ہے تو مان لیجئے ماں باپ بہن بھائی دوست احباب اور رشتوں کے ہجوم میں گھر کر بھی آپ مکمل طور پر لاوارث ہیں.اسلئے خدارا اپنی ضمیر کو آواز دیں اسے جگائیں اسے زندہ رکھیں اور خود کو “لاوارث” یعنی” قابل رحم” ہونے سے بچائیں.


Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
57643

داد بیدا د ۔ بلدیاتی ووٹ کا دوسرامرحلہ ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

داد بیدا د ۔ بلدیاتی ووٹ کا دوسرامرحلہ ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

صو با ئی الیکشن کمشنر نے خیبر پختونخوا کے 18اضلا ع کے لئے بلدیا تی ووٹ کا شیڈول جا ری کیا ہے کا غذات کی وصولی، کا غذات نا مز د گی، کا غذات کی جا نچ پڑ تال 4فروری سے 23فروری ہو گی 23فروری سے 25ما رچ تک انتخا بی مہم کے لئے وقت دیا گیا ہے پو لنگ 27مار چ کو ہو گی دوسرے مر حلے کے حتمی سر کاری نتا ئج آنے کے بعد نئے بلدیا تی نما ئیندوں کی حلف برداری ہو گی اور 2019ء میں تحلیل ہونے کے بعد 2022میں بلدیا تی ادارے دوبارہ فعال ہو جا ئینگے اس اثنا میں حکومت دفتری قواعد و ضوابط میں تر امیم کے ذریعے نئے بلدیا تی نظا م میں حا ئل قا نو نی رکا وٹوں کو دور کرنے پر کا م کرے گی.

خیبر پختونخوا کا نیا بلد یاتی نظا م ایک مثا لی نظا م ہے بلدیا تی انتخا بات 5سال بعد دوبارہ کر ائے گئے تو پنجا ب، سندھ اور بلو چستان بھی ہمارے صو بے کے نظام کو اپنے ہاں متعارف کر ائینگے صو بائی حکومت اس وقت رولز آف بزنس اور دفتری قواعد و ضوا بط میں جن ترامیم پر کا م کر رہی ہے ان کا تعلق ڈسٹرکٹ گور نمنٹ، ضلع کو نسل اور یو نین کونسلوں کو ختم کرنے کے بعد تینوں دفاتر کے اختیارات، مرا عات اور ان کی ذمہ داریوں کو تحصیل، ٹاون، نیبر ہُڈ کونسل اور ویلیج کونسل کو منتقل کرنے کے احکا مات سے ہے حکومت چا ہتی ہے کہ پر ا ونشیل فنا نس کمیشن ایوارڈ ڈسٹرکٹ کونسل اور ڈسٹرکٹ گو رنمنٹ کی جگہ تحصیل اور ٹا ون کونسلوں کو دی جا ئے پر نسپل اکا ونٹنگ افیسر اسسٹنٹ کمشنر کو لگا یا جا ئے.

یہ ایک انقلا بی قدم ہے اس کے لئے قا نون سازی کی ضرورت ہے اور حکومت کے پا س قانون سا زی کے لئے صو با ئی اسمبلی میں مطلوبہ اکثریت بھی ہے فیلڈ میں کا م کرنے والے حکام اور سیا سی سطح پر عوامی خد مات کے لئے سر توڑ کو ششیں کرنے والے کار کن اس بات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ صو بائی حکومت کو نیے بلدیا تی نظام میں گیا رہ ضلعی دفاتر کو تحصیل کی سطح پر لا نے کی ضرورت ہو گی ڈسٹرکٹ کو نسل اور ڈسٹرکٹ گور نمنٹ گیا رہ محکموں کے ساتھ رابطہ کاری سے عوامی مسا ئل حل کرتی تھی اب تحصیل یا ٹا ون کونسل کا سر براہ عوامی مسائل کے حل کے لئے کس کے ساتھ را بطہ رکھے گا میٹنگ میں کس کو بلا ئے گا لا ئن ڈیپارٹمنٹ کی غیر مو جو د گی میں عوامی خد مت کے لئے کس طرح کی را بطہ کاری ہو گی؟

صو بائی حکومت اس حوالے سے رولز آف بزنس میں ترامیم کر کے نئے نظام کو قا بل عمل صورت میں سامنے لائیگی اسی طرح کا مسئلہ یو نین کونسل کے حوالے سے بھی درپیش ہے اب تک پیدا ئش، اموات، نکا ح، طلا ق وغیرہ معا ملا ت میں سول رجسٹریشن کا اختیا ر یو نین کونسل کے پا س تھا جو 15سے 20ہزار تک کی آبا دی کا دفتر تھا پہا ڑی علا قوں میں یو نین کونسل کے ایک سرے سے دوسرے، سرے تک 25کلو میٹر کا فا صلہ ہو تا ہے نئے بلدیا تی نظا م میں حکومت چاہتی ہے کہ سول رجسٹریشن کے اختیارات ویلج کو نسل اور نیبر ہُڈ کونسل کو دے دیئے جائیں جو 3ہزار سے لیکر 5ہزار تک کی آبادی پر مشتمل ہو تی ہے اس کی علا قائی حدود 10کلو میٹر کے اندر ہو تے ہیں سول رجسٹریشن کے قانون میں تر میم کر کے اس کا اختیار نیبر ہُڈ اور ویلیج کونسلوں کو دیدیا جا ئے گا اُمید ہے اپریل 2022میں نئے بلدیا تی ادارے فعال ہونے سے پہلے رولز آف بزنس میں ترا میم کے ذریعے اختیارات کی تقسیم کا عمل بھی مکمل ہو جا ئیگا.

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57641

پس وپیش ۔ دیرینہ کارکن ۔ اے.ایم.خان

وہ دن مجھے یاد نہیں جب میں اس پارٹی کے ساتھ منسلک ہوا اور اب تک اس کا ایک ادنیٰ کارکن ہوں، کیونکہ پارٹی سے میرا ربط گھر سے ہی شروع ہوئی جب والد صاحب گاوں اور باہر سےکوئی  آجاتا تو سیاسی بات ہوتے تھے وہاں سے میری سیاسی تعلیم  اور پارٹی سے تعلق شروع ہوئی ۔ میرا پارٹی اور سیاست سے لگاو کا آغاز بھی اسوقت ہوا ۔ اس پارٹی سے منسلک ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ میں بس اسے ووٹ دیتا ہوں بلکہ میں نے اُس کے لئے لوگوں سے بات کی ہے، الیکشن کے وقت  پارٹی کے راہنما کے ساتھ عوامی مہم میں جا چُکا ہوں۔ پارٹی کے اجلاس جب بھی، جہاں  اور جس معاملے میں ہوئے وہاں شرکت کی ہے۔ گزشتہ الیکشن کےدوراں جو وقت میں نے جلسہ جلوس اور سوشل میڈیا میں لوگوں کے ساتھ الفاظ کی جنگ کی ہے جس کا اندازہ آپ کر بھی نہیں سکتے۔

یہ تو مجھے نہیں معلوم کہ آپ اپنے جماعت کے لئے کتنا کام کرچُکے ہیں ، کر رہے ہیں، اور کسطرح کام کر چُکے ہیں۔ لیکن یہ معلوم ہے کہ آپ پارٹی کا دیرینہ کارکن ہیں، اور پارٹی کے لئے آپ کے خدمات ہیں۔اور  آپ جس جانور کے نام اور علامت سے منسلک ہیں یہ آپ کا ذاتی معاملہ ہے۔

میں صرف آپ سے یہ پوچھ رہا تھا کہ چند دن پہلے آپ چند دیرینہ کارکن،  جب میں دوکان سے واپس ہورہا تھا، تو آپ لوگ آپس میں غٹ پٹ ہو رہےتھے اور زور زور سے بات کر رہے تھے ۔ آخر بات کیا تھی۔

یار،شاید  آپ بھی کسی نہ کسی پارٹی ، لیڈر اور سیاسی سوچ کو پسند کرتے ہیں ۔آپ کو معلوم ہے ہماری حالت اس سے بھی سوا ہے۔ ہم تو کارکن ہیں۔ پارٹی کے اندر ہمارے ذاتی اختلافات اور مطالبات تو ہوتے ہیں لیکن جماعت کے وسیع تر مفاد میں ہم یہ پس پشت ڈالتے ہیں اور پارٹی میں اتفاق اور اتحاد کے لئے یہ ہماری قربانی ہے اور کوشش ہے۔ اُس روز بھی ہم اپنے ذاتی مطالبات اور پارٹی میں اختلافات جو سامنے آ چُکے تھے اس پر بات کررہے تھے۔

دراصل ہم پارٹی کے دفتر سے بحث و تکرار کے بعد  باہر وہاں روڈ پر آئے تھے کیونکہ دفتر میں اُس بات پر ہمارے آپس میں جب اختلافات شدید ہوگئے۔  اور ہم باہر وہاں اس موضوع پر آپس میں بات کررہے تھے جسمیں آپ کو غٹ پٹ نظر آگیا۔ آپ کو معلوم ہے اب الیکشن قریب نہیں بلکہ سر پر ہیں، اور پارٹی لیول پر الیکشن کی تیاری زور و شور پر ہیں۔ اور یہ بھی زیر بحث ہے کہ کون کون پارٹی ٹکٹ میں الیکشن لڑیں گے اور خاص کر یہ بات سنجیدہ حد تک پہنچ چُکی ہے کہ کسے ٹکٹ دیا جائے۔

اچھا، میں اندازہ کر سکتا ہے  یہ تو تہ کی بات ہے جس پر اب تو بات ہونے کا وقت ہے۔ مجھے تو اتنا معلوم ہے جو میں بھی یہ سیاسی گرما گرمی میڈیا کی حد تک دیکھ رہا ہوں ۔

 ایک خبر سامنے سے گزری جسمیں ایک جماعت کے راہنما الیکشن کمیشن کے سامنے الیکشن کو موخر کرنے کا مطالبہ بھی کر چُکا ہے۔

آپ کے خیال میں الیکشن مو خر ہونا چاہیے۔ 

بالکل نہیں ، یہ سیاسی جماعت  درحقیقت  الیکشن سے پہلے ہی خوف محسوس کی ہے؟

اچھا ، یہ حسب اختلاف کا ، اور آپ جیسے سیاسی کارکن کا سیاسی اختلاف کی بات ہوسکتی ہے۔ میرے خیال میں  ساحل کی وہ بات مناسب تھی  جب اُس نے لکھا کہ” اگر سارے سیاسی جماعت کے راہنما مل کر یہ مطالبہ کرتے” تو یہ ایک قوی مطالبہ ہوسکتا تھا۔

سلطان صاحب نے آج اس سے پہلے موسم سرما کے دوران ماہ نومبر، دسمبر، فروری، مارچ اور اکتوبر کے مہینے میں جو الیکشن ہوچُکے ہیں اُن کی پوری  تاریخ لکھ دی ہے اس سوچ سے یہ کوئی انہونی بات نہیں کہ ستائس مارچ کو اگر لوکل گورنمنٹ کےالیکشن ہو جائیں۔

خیر بات لمبی ہوگئی آپ یہ بتائیں کہ اب آپ لوگوں کا اصل مطالبہ کیا ہے۔

میرے دوست،  آپ کو معلوم بھی ہے اور میں نے آپ کو بتایا بھی کہ مجھے معلوم نہیں کہ میں کس عمر سے اس پارٹی کے ساتھ منسلک ہوں اور اب ایک بندہ الیکشن کے قریب ہوتے ہی حالات کو دیکھ کر ہمارے پارٹی میں شمولیت اختیار کی ہے۔ یہ صرف میری پارٹی میں نہیں بلکہ دوسرے جماعتوں میں بھی ہوتا ہے۔  صوبے اور ملکی سطح پر لوگ پارٹی کے عہدہ دار اسے سراہتے ہیں ۔ضلعی سطح پر لیڈرشپ اس پر خوش ہے اور نہیں بھی، اور ہم دیرینہ کارکن بھی پارٹی میں نئے آنے والوں کو پسند نہیں کرتے صرف اس لئے کہ اگر الیکشن کے وقت لوگ پارٹی میں آکر الیکشن لڑتے رہیں تو ہم کب الیکشن لڑیں گے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم کارکن کارکن ہی رہ جاتے ہیں ، وقت کے ساتھ بااثر لوگ پارٹی میں آجاتے ہیں اور الیکشن ، چاہے قومی یا لوکل گورنمنٹ کے ہیں، اس میں پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑتے ہیں اور جب چاہیں آتے اور واپس چلے جاتے ہیں۔

اچھا، مجھے اندازہ تھا کہ ایسی بات ہوسکتی تھی لیکن آپ نے اس کی توثیق کر دی۔ لیکن یہ تو اچھی بات نہیں کہ لوگ آپ کے پارٹی میں شامل ہو رہے ہیں جس کے اپنے ووٹ بھی ہوسکتے ہیں اور الیکشن کے دوران پارٹی پر بوجھ ہونے کے بجائے پارٹی کا بوجھ بھی ہلکا کرسکتے ہیں۔

مجھے آپ کی بات سمجھ آگئ جس چیز کی طرف آپ اشارہ کر رہے ہیں جو ایک کارکن میرے پاس نہیں ہے۔

تو پھر یہاں ایک بات طے کرنا پڑے گا کہ جس کے پاس وہ ہے اُسے ٹکٹ دیا جائے وہ لوگ جب بھی آئیں اور جہاں سے بھی آئیں ،لیکن کارکن کی بات کو ختم کرنا ہوگا۔

آپ قدیم زمانے کی بات اور سوچ میں ہیں جو آپ کے والد بحیثیت ایک پارٹی کارکن کرتا تھا جو آپ اپنے بچپن میں سُنتے آرہے تھے۔آپ کو معلوم ہے موجودہ سیاست کی ڈکشنری میں   کارکن کا اصطلاح جو ہے اس کی تشریح تبدیل  ہوگئی ہے۔آج کا  “کارکن  وہ فرد  ہے جو پارٹی کے ساتھ نہ صرف منسلک رہے گا بلکہ الیکشن کے دوران خصوصاً پارٹی کے لئے دن رات ایک کرکے کام کریگا لیکن وقت آنے پر اگر وہ آجائیں جس کے پاس وہ ہو تو اُن کو الیکشن لڑنے کا موقع نہیں بھی دیا جاسکتا ہے کیونکہ کارکن پارٹی کا رکن ہونے پر فخر کرتا ہے اور یہ کارکن ہونے کے لئے بنیادی شرط ہے”۔

اچھا ،تو بات یہ ہے۔

جی ہاں۔

تو، اس تشریح کے مطابق بحیثیت کارکن ہم  پارٹی کا اصل اثاثہ ہیں  اور ہمیں  ہر وقت اور حالت میں پارٹی کے ساتھ کھڑا ہونا چا ہیے۔ ہمیں کارکن ہونے پر فخر کرنا اور ہونا  چاہیے، اور ساتھ جماعتی  رُکنیت بھی رہے۔

اب تو الیکشن سر پر ہیں اس بار میں بحیثیت ایک دیرینہ کارکن اپنے پارٹی سے الیکشن لڑنا چاہتا تھا اب کیا کروں۔ آپ مجھے مشورہ دے دیں اس حالت میں میں کیا کرسکتا ہوں۔

عملی سیاست میں غیر سیاسی ہونے کی وجہ سے میں آپ کو کیا مشورہ دے سکتا ہوں لیکن سیاسیات پڑھا ہے اسلئیے میرا ایک مشورہ ہے جو آپ کرسکیں۔

جلدی بتائیں وہ کیا ہے۔

جلدی بتانے سے وہ جلدی  ہو نہیں سکتا ۔ اسمیں وقت لگے گا۔

اچھا، پھر بھی بتائیں بحیثیت پارٹی کا ایک دیرینہ کارکن میں اپنے پارٹی سے الیکشن لڑنا چاہتا ہوں اور  الیکشن سر پر ہیں اب مجھے کیا کرنا ہوگا۔

مشورہ یہ ہے جسطرح آپ کو بتایا اسمیں وقت لگ سکتا ہے، وہ یہ کہ  آپ کوشش کرکے پہلے کارکن کی جو تشریح آچُکی ہے اس کو تبدیل کر دیں،  تو آپ الیکشن لڑنے کا اہل ،  اور اپنا حق منوا سکتے ہیں۔  

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57639

میں بھی کبھو کسو کا سرِ پر غرور تھا ۔ تحریر: شکیل انجم ڈِرو

میں بھی کبھو کسو کا سرِ پر غرور تھا ۔ تحریر: شکیل انجم ڈِرو

یہ قبر میں میری پہلی رات تھی۔ ایک پرسکون نیند سے اس وقت بیدار ہوا جب برابر والے قبر سے کراہنے کی آواز آئی۔ مرنے والا کوئی بیوروکریٹ تھا۔ بار بار انگلی سے کچھ دبانا چاہ رہا تھا لیکن اُس کا جسم اُس کے اختیار میں نہیں تھا۔ اس کم مائگی کی توجیہہ پوچھنے پر پہلے تو حقارت سے میری طرف دیکھا (جس طرح عام طور پر دنیا میں اپنے دفتر میں آنے والے سائیلین کو دیکھتے ہیں) پھر بادلِ نخواستہ گویا ہوے اور کہنے لگے ” پتا نہیں کمبخت چپڑاسی کہاں مر گیا ہے، کہیں نظر ہی نہیں آرہا ہے، گھنٹی بجانے کی کوشش کررہا ہوں لیکن یہاں نہ کویٔ گھنٹی ہے نہ ہی کویٔ چپڑاسی کہنے لگا، عجیب طاقت کے نشے سے چور تھا اُس دنیا میں۔ ایک حکم پر بیک وقت کئی ملازم ہاتھ باندھ کر سامنے کھڑے ہوتے تھے اوراحکامات صادر کرنے کےلیے میرے اشارے اور کنائے کافی ہوتے تھے ، کسی سائل کی التجا کی شنوائی خلاف شان امر تھا، “صاحب میٹنگ میں ہے” کا بے معنی اور بھونڈا جملہ ،پرسنل سیکرٹری کو ازبر تھا ۔ صاحب کے گمان میں مرنے کی بیماری صرف غریبوں کو ہی لاحق ہوتی تھی جب میں چہل قدمی کرتے ہوۓ کچھ آگے نکلا تو دیکھا کہ ایک سیاستدان پریشان حال کھڑا ہے۔ شاید چند دن قبل ہی یہاں تشریف لائے تھے اس لیٔے اپنے واسکٹ کو ڈھونڈ رہا تھا۔ میرے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ پتہ نہیں یہ کیسا ویرانہ ہے، نہ کوئی زندہ باد کا نعرہ سنائی دے رہا ہے اور نہ ہی کوئی ہار پہنانے آیا ہے۔ اُدھر کیا مزے تھے۔ہمیشہ لوگوں کا ایک جمِ غفیر ہوتا تھا۔ بِچارے لوگ جھوٹی تسلیوں سے خوش ہو کر دعائیں دے کر جاتے تھے اور پھر الیکشن جیتنے کے بعد اقتدار کا ایسا نشہ چھا جاتا کہ روڈ پر چلنے والے ووٹرز چیونٹیوں سے بھی حقیر ںظر آتے۔


میں اِن لوگوں کی حالتِ زار دیکھ کر پریشانی کے عالم میں آگے بڑھا تو دیکھا کہ ایک جج صاحب اپنا احتجاج ریکارڈ کروانے چا رہے تھے۔ کہہ رہے تھے کہ کیسے وہ اپنی عدالت میں جاہ و حشمت سے براجماں ہوا کرتے تھے ۔ مجال تھی کسی کی کہ کوئی اُس کے سامنے زور سے بات کرنے کی جرات کرے۔ جس کو چاہتے گنہگار ٹھراتے اور جِسے چاہتے عزت دار۔ اُن کے قلم کی ایک جنبش سے کوئی عمر بھر کا قیدی بنتا تو کوئی آزاد پنچھی۔ صاحب چیخ چیخ کرفرشتوں سے کہہ رہے تھے کہ وہ ایک جج ہیں انہیں کیسے کٹہرے میں کھڑا کیا جا سکتا ہے، لیکن افسوس، اِس دفع اُس کی کوئی شنوائی نہی ہو رہی تھی۔ اب کے بار عدالت اُس کی نہیں “مںصفِ عالیٰ” کی تھی اور دو فرشتے اپنے اپنے دلائل تمام ثبوتوں کے ساتھ دے رہے تھے اوریہ تمام ثبوت (صاحب کے اعمال) فلم کی شکل میں دیکھاۓ جا رہے تھے۔ یہاں نہ ثبوتوں کو مرضی سے تبدیل کیے جانے کا کوئی سلسلہ تھا اور نہ ہی مرضی کے جھوٹے گواہ پیش کیے جا سکتے تھے۔ عجیب عالم تھا، بس صرف انصاف کی بات ہورہی تھی۔


گھبرا کےمیں نے جیب سے موبائیل نکالنے کی کوشش کی تاکہ کسی دوست احباب کو فون کر سکوں، پھرخیال آیا کہ میں تو مر چکا ہوں اوراِس دنیا میں کہاں جیب اور کہاں موبائل؟ بس سات گز کا کفن ہے، جِس میں لپیٹا گیا ہوں۔ کچھ فاصلے پر دیکھا تو ایک ڈاکٹر صاحب غالباً حال ہی میں کسی سرکاری ہسپتال میں جعلی دوا کھانے سے مرگئے تھے اور ہاتھ جوڑ کر فریاد کر رہے تھے کہ اُنہیں کہیں سےاصلی انجکشن لاکر دیا جاۓ تو شاید کچھ افاقہ ہو۔ کہہ رہے تھے کہ کاش ہسپتال کی ساری دوائیاں اپنے کلینک پر منتقل نہ کرتا اور مریضوں کو بے جا دوائیاں لکھ کر نہ دیتا تو جعلی دوائی اُس کے موت کا سبب نہ بنتیں ۔


کچھ اور قدم آگے بڑھانے پر دیکھا کہ ایک پٹواری صاحب ہاتھ میں جریِپ (پٹواریوں کا فیتہ) لے کر کچھ تولنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پوچھنےپرمعلوم ہوا کہ بندہ عجیب سی مشکل میں ہے، قبر کی سات فٹ کی جگہ کم پڑ رہی ہے اس لئے آس پاس سے کچھ اِضافی جگہ اپنے نام انتقال کرنا چاہتا ہے ، لیکن مجال ہے کوئی سنے۔ یہاں تو اُس کی اپنی قبر کا انتقال ہی مشکل تھا ۔ کہنے لگے، اُس دنیا میں تومیری بادشاہت تھی، کسی غریب، بیوہ، کمزور اور مفلس کی زمین کسی دوسرے کے نام کرنا میرے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ کام نہ کرنے کی تنخواہ لیتا تھا اور کام کرنے کی رشوت۔ کاش وہاں ناجائز قبضے نہ کرواتا تو آج قبر کی زمین کشادہ ملتی۔ اسی مٹر گشت میں ایک کوتوالی (تھانیدار) سے ملاقات ہوئی۔ مجّرم کو بےقصور اور مجبور سے زبردستی اقرارِ جرم کروانا معمول کی بات تھی ۔ اسی زعم میں پہلے تو دھمکی دے رہا تھا کہ اس کے ساتھ نہ چیھڑا جائے کیونکہ اُس کے مراسم بڑے بڑوں سے ہیں ، ۔ لیکن جب بات بنتے ںظر نہ آئی تو چلّاتے ہوئے کہنے لگا کہ خدا کے لئے مجھے چھوڑ دو میں بے گناہ ہوں، لیکن عالمِ انصاف میں کس کی سفارش کام آتی ہے۔ یہی کچھ فاصلے پر ایک ٹیچر ملا جو اِن سب کے مقابلے میں کچھ پرسکون تھا۔ علم کی شمّع جواُس نے دنیا میں پھیلائی تھی اب چراغاں بن کے اُس کو روشنی دے رہی تھی، البتہ کچھ مضطرب وہ بھی تھا۔ کہہ رہا تھا، کاش میں وقت پر کلاس میں حاضر ہوتا اور بچوں کو ٹیوشن پر بلانے کے بجائے سکول میں ہی دل سے پڑھاتا تو یہ جو تھوڑا بہت اندھیرا ہے وہ بھی روشن ہوجاتا۔


قبر میں میری اگلی ملاقات ایک نوجوان امیر کاروباری شخص سے ہوئی، جسے یہ یقین ہی نہ تھا کہ وہ مر گیا ہے۔ کہہ رہا تھا، ابھی تو میں نے دولت اکٹّھا کرنا شروع کیا تھا۔ میں کیسے مر سکتا ہوں۔ شائد فرشتوں سے کوئی بھول ہوئی ہو گی۔ لیکن،اللّہ کے برگزیدہ فرشتے کہاں غلطی کرتے ہیں۔ یہ تو انسانی صفّت ہے۔ جب اُس امیر نوجوان کو عدالتِ عظمیٰ میں لے جا یا جانے لگا تو، روتے ہوئے اپنی ماں کو آواز دینے لگا۔ لیکن کہاں سے وہ اپنی ماں کی آواز سنتا، اُسے تو وہ “اولڈ ہومز” چھوڑ چکا تھا، کیوں کہ وہ بوڑھی ہو چکی تھی، آئے روز بیمار پڑ جاتی تھی اور ماں کوڈاکٹر کے پاس لے جانے کے لئے وقت نہیں ملتا تھا ،چھٹی کرنے سے کاروبار کا نقصان ہوتا۔ خود کو کوس رہا تھا کہ کاش کچھ پل ماں باپ کے ساتھ بیتائے ہوتے، تو آج اُن کی دعائیں شاید بخشش کے کام آتیں ، لیکن اب پچھتانے کے لئے بہت دیر ہو چکی تھی۔


بہت سارے کرداروں کواِس حال میں دیکھ کر میرا بدن لرزنے لگا، کپکپکی طاری ہونے لگی اور ایک بے اختیار چیخ منہ سے نکلی۔ چیخ کی آواز سن کرامّی دوڑتے ہوئے کمرے میں آئی اور وہی ممتا کی شفقت سے بھرپور ہاتھ سر پر پھیرتے ہوئےآواز دینے لگی۔ امّی کی جادوئی آواز جب میرے کانوں میں پڑی تو لگا کہ مجھے پر لگے ہیں اور میں ہواؤں میں اڑنے لگا ہوں۔ والدہ کے وجود کو قریب پا کر عجب سا اطمینان چہرے پراتر آیا، آنکھ کھلی اور سامنے امّاں کو دیکھ کر پرسکون مُسکراہٹ ہونٹوں پر آئی اور اللّہ کا شکر ادا کیا۔ پھر بیتے ہوئے لمحوں پر غور کیا تو اندازہ ہوا کہ ہم انسان جب تک زندہ ہیں، ہمیں لگتا ہے کہ مرنا کسی اور کےلیے ہے اور ہم ہمیشہ زندہ رہنے کے لیے آئے ہیں۔ ہم بزبان شاعر بھول جاتے ہیں کہ “خاکِ میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں”دعا ہے کہ خداوندِ عالمین، ہم سب کوروزِ محشر کو ذہن میے رکتھے ہوئے اپنی زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین)


کل پاؤں ایک کاسئہ سر پر جو آگیا
یکسروہ اِستِخوان شکستوں سے چور تھا
کہنے لگا کہ دیکھ کے چل راہِ بے خبر
میں بھی کبھو کسو کا سرِ پر غرور تھا
(میر تقی میر)

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57622

نئی تحقیق کے ہوشرباء انکشافات ۔ محمد شریف شکیب

نئی تحقیق کے ہوشرباء انکشافات ۔ محمد شریف شکیب

نئی تحقیق سے یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ تنہا زندگی گزارنا مردوں کی صحت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ ڈنمارک کی کوپن ہیگن یونیورسٹی کی اس تحقیق میں 4835 افراد کے خون کے نمونوں کے ذریعے جسم میں ورم کی مجموعی سطح کی جانچ پڑتال کی گئی۔ خون کے ٹیسٹوں میں ایسے پروٹین کو دیکھا جاتا ہے جو جسم میں ورم کی سطح کا عندیہ دیتے ہیں۔ تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ شادی شدہ مردوں کے مقابلے میں تنہا یا شریک حیات سے الگ ہونے والے مردوں میں ورم کی سطح نمایاں ہوتی ہے، مگر خواتین میں ایسا اثر دیکھنے میں نہیں آیا۔تحقیقی رپورٹ میں بتایاگیا ہے کہ ورم کی زیادتی امراض قلب کا باعث بننے والا اہم عنصر ہے۔

حیرت انگیز طور پر تنہا زندگی گزارنے یا شادی ٹوٹنے والی خواتین کو جسمانی طور پر نقصان پہنچنے کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ ماہرین کا کہنا تھا کہ جب ورم کے خطرات کا علم ہوگا تب ہی لوگ صحت مند طرز زندگی اختیار کرسکتے ہیں۔ قبل ازیں برطانیہ کے آسٹن میڈیکل اسکول کی تحقیق میں بتایا گیا تھاکہ شریک حیات کا ساتھ ہائی بلڈ پریشر، ہائی کولیسٹرول اور ذیابیطس ٹائپ ٹو سے موت کا خطرہ کم کردیتا ہے۔جس کی بنیادی وجہ شوہر یا بیوی کی جانب سے اپنے شریک حیات کی نگہداشت ہے جو ان جان لیوا امراض کا اثر کم کردیتا ہے۔ شریک حیات ہی اپنے ساتھی کی ادویات،غذا اور مناسب جسمانی سرگرمیوں کا خیال رکھتی ہے تحقیق سے ثابت ہوا کہ شادی شدہ افراد میں ہائی کولیسٹرول کے عارضے سے موت کا خطرہ 16فیصد کم ہوجاتا ہے۔ بلڈپریشر سے موت کا خطرہ 14 فیصد اور ذیابیطس کا خطرہ 10 فیصد تک کم ہوجاتا ہے۔

معاشیات کا ایک مسلمہ اصول یہ ہے کہ ”اگر دیگر عوامل جوں کے توں رہیں تو“ معاشیات کا فارمولہ کارگر ہوتا ہے۔ازدواجی زندگی میں بھی یہی اصول کارفرما ہوتا ہے۔اگر میاں بیوی کے درمیان خارجی اور داخلی امور پر مکمل ہم آہنگی ہو۔تب ہی جان لیوا امراض سے موت کا خطرہ کم ہوسکتا ہے۔ دیگر عوامل جوں کے توں نہ رہنے کی صورت میں موت کے خطرات پہلے سے بھی بڑھنے کا اندیشہ ہوتا ہے اور کچھ لوگ اسی اندیشے کی بیماری میں مبتلا ہوکر عمر بھر تنہا رہتے ہیں۔ثابت ہوگیا کہ شادی کرنا مذہبی فرض اور سماجی ضرورت ہی نہیں۔بہت سی اخلاقی، معاشرتی، معاشی اور خاندانی خرابیوں سے نجات اور مہلک امراض سے بچاؤکا ذریعہ بھی ہے۔کہاجاتا ہے کہ بی بی حوا کو اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کی پسلیوں سے پیدا کیا۔ انسان کی پسلیاں چونکہ ساخت کے لحاظ سے ٹیڑھی ہوتی ہیں اس لئے عورت بھی پیدائشی طور پر ٹیڑھی فطرت کی ہوتی ہے۔

دانش مند مرد اس کے ٹیڑھے پن سے ہی فائدہ اٹھاتے ہیں اسے اپنی پسند کے سانچے میں ڈھالنے کے لئے بزور طاقت سیدھی کرنے کی کوشش کی گئی تو اس کے ٹوٹ جانے کے ننانوے فیصد خطرات ہیں۔ازدواجی زندگی کے حامیوں نے اپنے موقف کے حق میں کئی مقولے وضع کئے ہیں کہاجاتا ہے کہ میاں بیوی ایک گاڑی کے دو پہیے ہیں ناقدین کا کہنا ہے کہ گاڑی کے تو چار پہیے ہوتے ہیں گویا مرد کو یہ حق حاصل ہے کہ ضرورت پڑنے پر مزید دو پہیوں کا بندوبست کرسکتا ہے۔ ان کا یہ بھی موقف ہے کہ دین اسلام نے بھی مردوں کو بہ یک وقت چار شادیوں کی اجازت دی ہے۔ ضروری نہیں کہ اضافی بیویاں انسانی جسم میں ورم کی شدت کم کرنے میں ہی معاون ثابت ہوں گی۔ اکثر مواقع پر دیکھا گیا ہے کہ زیادہ بیویوں کے شوہر جلد انہیں داغ مفارقت دے جاتے ہیں۔سائنسی تحقیق سے سرمنہ انحراف تو نہیں کیاجاسکتا لیکن بندے کو اپنے مزاج، معروضی حالات، معاشی حالت اور سائیڈ ایفکیٹ کے خطرات کو پیش نظر رکھ کر دوسری، تیسری، یا چوتھی شادی کا فیصلہ کرنا چاہئے۔ ایک بلا کے ساتھ بند ہ لڑجھگڑ کر بھی گذارہ کرسکتا ہے مگر بہت سی بلاؤں کا مقابلہ کرنا آسان نہیں ہوتا۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57612

سوات، دیر، چترال موٹر وے ۔ تحریر: ظہیر الدین منیجر

کسی بھی ملک یاعلاقے کی ترقی کے لیے کشادہ اور صاف سڑکیں ہی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ جہاں بھی ذرائع مواصلات محفوظ اور قابل اعتماد ہونگے اُسی ملک یا علاقے کو معاشی استحکام حاصل ہوگا۔ زون ۳ کے عوام صدیوں سے سفری مشکلات سے دوچار تھے۔ عوام فرنگی دور کے دشوار گزار پہاڑی پہاڑی راستوں پر سفر کرنے پر مجبور تھے۔ یہ سڑک سفر کے لیے انتہائی خطرناک تھا۔دشوار گزار اور تنگ موڑیں خطرات سے خالی نہیں تھے۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے سوات، دیر، چترال کے عوام کے اس سفری مشکلات کا احساس کرتے ہوئے سوات، دیر،چترال موٹر وے پر کام کا آغاز کیا۔

سوات، دیر، چترال موٹر وے کی تعمیر پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کا احسن اقدام اور علاقوں کی پائیدار ترقی کی اصل بنیاد ہے۔ اس موٹروے کی تعمیر سے سوات، دیر اور چترال کے عوام کو سفری سہولتیں، روزگار کے مواقع اور ترقی کی راہیں میسر آسکتی ہیں۔ دیر اور چترال کے عوام تحریک انصاف کی حکومت سے توقع رکھتے ہیں کہ چکدرہ ٹو چترال موٹروے پر جلد از جلد کام شروع کرائینگے۔ چکدرہ ٹو چترال موٹروے ملک کی ترقی کے سنگ میل ثابت ہوگی۔

چترال، دیر کے عوام وفاقی وزیر مواصلات جناب مراد سعید صاحب سے بھی چکدرہ ٹو چترال موٹروے پر کام جلد از جلد شروع کرانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ سوات، دیر، چترال کے عوام سابق وزیر اعلیٰ صاحب کے پی کے جناب پرویز خٹک صاحب کے بھی بہت مشکور ہیں کہ انھوں نے اپنے دور اقتدار میں سوات، دیر، چترال موٹروے پر کام کا آغاز کیا۔چکدرہ تک موٹروے کا کام مکمل کیا گیا۔ اب بھی چترال، دیر کے عوام وزیر دفاع صاحب سے توقع رکھتے ہیں کہ محترم ڈیفنس منسٹر صاحب دیر، چترال موٹروے پر کام شروع کرانے کے لیے بھرپور کردار ادا کریں گے۔

چترال،دیر کے عوام وزیر اعلیٰ صاحب کے پی کے جناب محمود خان صاحب سے بھی پرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ چکدرہ ٹو چترال موٹروے پر جلد از جلد کام کا آغاز کیا جائے چترال، دیر کے عوام کو سفری مشکلات سے نجات مل سکے۔ چترال، دیر کے عوام وزیر آعظم پاکستان جناب عمران خان صاحب توجہ بھی چکدرہ ٹو چترال موٹروے کی جانب مبذول کرانا چاہتے ہیں کہ محترم وزیر آعظم صاحب چکدرہ ٹو چترال موٹروے پر کام جلد از جلد شروع کرانے کے لیے متعلقہ اداروں کو ہدایات جاری کرائیں۔ اور دیر چترال کا دیرینہ مسلہ حل کیا جائے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57610

چترال میں اسپیشل افراد کی حالت زار – محکم الدین ایونی

چترال میں اسپیشل افراد کی حالت زار – محکم الدین ایونی

چترال سپیشل افراد کیلئے سب سےمشکل جگہ ہے۔ جہاں لوگ تعاون کیلئے تیار ہیں اور نہ سرکاری ادارے سپشل افراد کے مسائل پر توجہہ دیتےہیں ۔ یوں چترال کے کم و بیش دس ہزار سپیشل افراد لوگوں اور حکومت کی بے حسی کا شکار ہیں۔ یہ خیالات ہیں چترال کے سپیشل فرد ثناء اللہ کےجو چترال کے ہزاروں اسپشل افراد کے مسائل کا درد لئے عزم و ہمت کے پہاڑ کی طرح میدان عمل میں ہیں ۔ اور ان کو یقین ہے۔کہ وہ سپشل افراد کے مسائل کم کرنے میں ضرور کامیاب ہوں گے ۔ ثناء اللہ نے 2014 میں اسپشل افراد کو یکجا کرنے اور اس پلیٹ فارم سے مسائل حکومت تک پہنچانے کیلئے چترال سپیشل پیپل آرگنائزیشن کی بنیاد رکھی ۔ اور خود بطور صدر خدمات سر انجام دے رہے ہیں ۔ ان کے مطابق چترال میں 3800 سپشل افراد ان کے ادارے کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں ۔ جبکہ اپر اور لوئر چترال میں سپشل افراد کی مجموعی تعداد دس ہزار سے کہیں زیادہ ہے ۔ لیکن معذوری ، دشوار گزار راستوں کی وجہ سے روابط میں مشکلات سپشل افراد کی بڑی آبادی کو یکجا کرنے کی راہ میں رکاوٹ ہیں ۔


ثناء اللہ نے گذشتہ روز میڈیا سے ایک ملاقات میں اپنی آہ و زاری بیان کرتے ہوئے حکومتی بے حسی پر شدید تنقید اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ۔کہ کسی بھی ادارے میں اسپشل افراد کی مجبوریوں کو پیش نظر نہیں رکھا جاتا ۔ سکول ہو کہ ہسپتال یا دیگر ادارے ان تک سپشل افراد کی رسائی انتہائی مشکل ہے ۔ یوں سپیشل افراد تعلیم کے حصول اور صحت کی سہولتوں سے محروم رہتے ہیں ۔ ہونا تو یہ چاہیے ۔ کہ سکولوں ، ہسپتالوں کی تعمیر کے وقت ہی سپیشل افراد کی آسان رسائی کو پیش نظر رکھا جائے ۔ ہر ادارے میں اسپیشل افراد کیلئے واش رومز کی سہولت موجود ہو ۔ یا پہلے سے موجود عمارتوں میں کچھ ترمیم کرکے اسپیشل افراد کے وہیل چیئر کے ذریعے پہنچنے کو ممکن بنایا جائے۔ لیکن یہاں تو اسپشل افراد کو انسان ہی نہیں سمجھا جاتا ۔ ان کے لئے سہولت پیدا کرنا تو بہت دور کی بات ہے ۔ انہوں نے کہا۔کہ اسپشل افراد کے مسائل حل کرنے کیلئے وہ لوگ بھی قدم نہیں اٹھاتے ۔ جن کے اپنے گھروں میں بہن ، بیٹا ، بیٹی اور بھائی کی صورت میں اسپشل افراد موجود ہیں ۔ کی موجودگی کو ظاہر کرنا عیب اور اپنے ساتھ توہین سمجھتے ہیں ۔ حالانکہ یہ ایسے صاحب حیثیت سیاسی و سماجی اور سرکاری شخصیات ہوتے ہیں ۔ کہ وہ اگر آگے بڑھیں ۔ تو وہ ان مجبور لوگوں کیلئےبہت کچھ کر سکتے ہیں۔

ثناءاللہ کے مطابق ملک کے دوسرے شہروں میں اسپشل افراد کو کچھ نہ کچھ سہولتیں دی جاتی ہیں ۔ لیکن چترال مکمل طور پر نظر انداز کیا جاتا رہا ہے ۔ یہاں ابھی تک سرکاری یا غیر سرکاری طور پر وہیل چئیر تقسیم نہیں کئے گئےہیں ۔ آگہی یا تفریحی پروگرام منعقد نہیں کئے جاتے ۔ جس کی وجہ سے چترال کے اسپشل افراد انتہائی احساس کمتری کا شکار ہیں ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ محکمہ زکواہ اور الخدمت فاونڈیشن کی طرف سے بھی کسی قسم کی امداد نہیں دی گئی ہے ۔ جو کہ چترال میں رفاہی کام کے بڑے ادارےہیں ۔ اسی طرح سوشل ویلفئیر بھی برائے نام ادارہ ہے ۔ جس سے اسپشل افرادکو کوئی امداد اور سہولت حاصل نہیں ۔

ثناء اللہ کا کہنا ہے ۔کہ چترال کے وہ اسپشل افراد جو دونوں ہاتھوں ، بازووں سے محروم ہیں ۔ انتہائی مایوسی اور محرومی کا شکار ہیں ۔ کیونکہ ان کے فنگر پرنٹ نہ ہونے کے باعث نادرا ان کے نام شناختی کارڈ جاری نہیں کر رہا ۔ جس سے وہ ایک طرف سے ذہنی دباو و مایوسی کا شکار ہیں اور دوسری طرف جو مخیر ادارے ان کی مدد کرنا چاہتے ہیں ۔ تو شناختی کارڈ نہ ہونے کے باعث وہ امداد سے محروم رہتے ہیں ۔ اس لئے بطور صدر چترال اسپشل پیپل آرگنائزیشن ثناء اللہ کا مطالبہ ہے ۔ کہ حکومت ایسے اسپشل افراد کے پاوں کی انگلیوں کو فنگر پرنٹ کے طور پر قبول کرکے انہیں شناختی کارڈ جاری کرے ۔ ایسے افراد شناختی کارڈ نہ ہونے کے باعث مردم شماری اور ووٹ سے بھی محروم رہتے ہیں ۔ جو کہ ناانصافی اور ریاستی جبر کے مترادف ہے ۔


انہوں نے اس بات پر بھی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ۔ کہ حکومت نے ملازمتوں میں اسپشل افراد کیلئے دو فیصد کوٹہ تو مختص کیاہے ۔ لیکن کسی بھی محکمےمیں اس پر عمل نہیں ہو رہا ۔ ڈی ایچ کیو ہسپتال چترال میں 84 پوسٹ میں سےایک پر بھی اسپیشل فرد بھرتی نہیں ہے۔ جو کہ ظلم کی انتہا ہے ۔ لوگ پیسے دے کر اور رشتے و تعلق سے پوسٹ لے لیتے ہیں ۔ اسپیشل افراد کا کوئی پرسان حال نہیں ہے ۔


ثناء اللہ کے مطابق اسپشل افراد کیلئے ڈس ایبل سرٹیفیکیٹ کا حصول بھی ایک بڑا مسئلہ ہے ۔ اور اسپشل افراد کو اس سرٹفیکیٹ کیلئے ایک دو اٹینڈنٹ کے ساتھ دور اور دشوار گزار راستوں پر بھاری کرایہ ادا کرکے یا گاڑی بکنگ کرکے چترال شہر آنا پڑتا ہے ۔ اور ہوٹلوں میں رہنا پڑتا ہے ۔ جو کہ ایسے افراد اور فیملی کیلئے ناقابل برداشت ہے ۔ اس لئے ان کا مطالبہ ہے ۔ کہ مختلف مقامات میں دس پندرہ اسپیشل افراد ڈس ایبل سرٹفیکیٹ کیلئے درخواست گزارہوں ۔ تو ان کو دور دراز سے چترال شہر بلانے کی بجائے ڈاکٹر اور متعلقہ اسٹاف اسی مقام پر ان کا معائنہ کرکے سرٹفیکیٹس جاری کریں ۔ تو یہ اسپشل افراد بھاری سفری اخراجات سے بچ سکتے ہیں ۔

ثناء اللہ کے مطابق پوری دنیا میں اسپشل افراد کے کام کو ترجیحی بنیادوں پر نمٹانےکا موقع فراہم کیا جاتاہے۔ اس کے مقابلے ہمارے ملک خصوصا چترال میں کسی بھی دفتر میں اسپشل افراد کا کام جلد انجام دینے کی زحمت گوارا نہیں کی جاتی ۔ نادرا اور دیگر دفاتر میں کوئی پرسان حال نہیں ۔ اسپشل افراد کے ساتھ کئی مسائل ہوتے ہیں ۔ وہ طویل انتظار نہیں کر سکتے ۔ واش رومز کی ضرورت زیادہ ہوتی ہے ۔ لیکن مجال ہے ۔ کہ کوئی ان پر توجہ دے ۔ اس لئے حکومت سےپر زور مطالبہ ہے ۔ کہ جس ادارے میں اسپشل افراد کو کسی کام کیلئے جانا پڑے ۔ تو ادارہ ان پر اولین توجہ دے ۔ اور ان کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی کوشش کرے ۔
ثناء اللہ کا حکومت سے یہ بھی مطالبہ ہے ۔ کہ کہ حکومت اسپشل افراد کو ڈرائیونگ لائسنس ایشو نہیں کرتی ۔ جبکہ بعض اسپشل پرسن ڈرائیونگ کرکے اپنی ضرورت خود پوری کرنے کے قابل ہیں ۔ اس لئے ایسے افراد کو ڈرائیونگ لائسنس ایشو نہ کرنا بھی حکومت کی طرف سے انتہائی زیادتی ہے ۔ انہوں نے اس بات پر انتہائی افسوس کا اظہار کیا۔کہ حکومت کی طرف سے اب تک اسپشل افرادکیلئے کئی اعلانات کئے گئےہیں ۔ لیکن تاحال کسی بھی اعلان پر عمل درآمد نہیں ہوا ہے ۔ جس کا ہم انتظار کر رہے ہیں ۔ اب تک صرف طفل تسلیاں ہی دی جارہی ہیں ۔ انہوں نےحکومت سے اسپیشل افراد کے مسائل حل کرنے کا مطالبہ کیا۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57607

جیالوں کی خوشی – تحریر:شہزادہ مبشرالملک

                                         

   معزرت۔۔

 فقیرکو اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ ہمارے بڑے اہل علم ۔۔۔ امریکہ بہادر۔۔۔ کے مقابلے میں اتنے حساس بھی ہوسکتے ہیں۔ گزشتہ تحریر میں ۔۔۔ خاغلی ہنری کسنجر۔۔ جو کہ اس وقت امریکہ کے وزیر خارجہ تھے میں نے غلطی سے صدر امریکہ بنادیا۔۔۔ اور ۔۔۔ لہروں۔۔۔ کی حوالگی کے بعد اس کی تلافی ممکن تھی۔   اچانک ایک فرنڈ لی۔۔۔ فایر۔۔۔ برادر محترم سرور صحراءی بھاءی نے داغ دی اس کے چند ہی مینٹ بعد ہمارے استاد صحافت انسٹیٹوٹ اف جرنلیزم اسلام اباد کے روح روان پرویز صاحب نے کپیٹل سے میزایل داغ دی اور امریکن کی ناراضگی سے ڈرایا۔۔۔  کام میرے ہاتھ سے نکل چکا تھا پھر بھی میں نے فیس بک میں جلدی سے۔۔۔ کسنجر۔۔۔ کو صدارت سے نکال کر دوباہ۔۔۔ وزیر خارجہ۔۔۔  بنا ہی دیا تھا کہ قریبی مورچے سے۔۔۔ ڈاکٹر فیضی صاحب ۔۔۔ ٹرسیر گولیاں۔۔۔ رہنمائی کے لیے فایر کیے ۔۔ میں ۔۔۔ جزوی نقصانات ۔۔۔ کا تخمیہ لگا ہی رہا تھا کہ میونخ۔۔۔ جرمنی سے سوات کے ہمارے دوست پروفیسر افتاب نے۔۔۔ ڈرون حملہ کیا ۔۔۔ میں نے موبایل کے دریچے بند کرکے سونے میں ہی عافیت محسوس کی ۔۔۔ مجھے اس بعد کا انداز نہیں تھا کہ اتنے بڑے لوگ بھی ہمارے ۔۔۔ اصلاح کے لیے ٹاءم نکال لیتے ہیں۔ میں دل کی گہرایوں سے ان سب مہربانوں کا ممنوں ہوں۔کہ اللہ ان سب کو سلامت رکھے اور ان کے علم سے استفادہ کرنے کا سلیقہ ہمیں نصیب کرے   ۔                

چنگاریان ۔    

   اہل علم ۔۔۔ کے غم سے ہی نہیں نکل پایا تھا کہ ۔۔۔ جیالوں۔۔۔ نے  فون ، مسیچ۔ چیو بازاز سے عدالت اور ورکشاب تک ۔۔۔ جشتان۔۔۔ کی طرح ۔۔۔ چنگاریان۔۔۔ لیے ہمارے منتظر نظر ایے کہ کیوں۔۔۔ اس الیکشن ذدہ موسم میں ۔۔۔ قاید عوام ۔۔۔ کی بے حرمتی کے مرتکب ہوے کم ازکم ۔۔۔ شہزادہ پرویز۔۔۔ کے گلے میں موجود ۔۔۔ پھول۔۔۔ خشک ہونے کا انتطار کرتے۔

ملکہ برطانیہ                                                                                     

تو جیالوں کی خوشی کی خاطر۔۔۔ کیتب کی زنبیل۔۔۔ سے یہ دوسرا کا نامہ پیش خدمت ہے کہ جناب نواز شریف کے دور زرین میں۔۔۔ ملکہ برطانیہ۔۔۔ پاکستان تشریف لاءیں تو ان کے اعزاز میں میاں صاحبان نے لاہور کے شاہی قلعے میں ڈنر کا اہتمام کیا اکبری قلعے کو ۔۔۔ بقہ نور بنانے اور پاکستان بھر کے لذیز کھانون، کھابون، کبابوں، سری پاءیون۔ بریانی پلووں، کالے بٹروں، ہرنوں، مچھلی جھینگون، لسیی پنیرون۔ حلووں کے بے شمار اقسام کیونکہ اس محفل میں ۔۔۔ حلووں۔۔۔ کے لیے۔۔۔ پلکیں۔۔۔ بچھانے اور۔۔۔ پیٹ۔۔۔ پھلانے والے بھی بلاءے موجود تھے۔۔۔                                                                  

پنجاب کے روایتی ڈھول رقص اور باجے مدھور ساز بجا رہے تھے۔۔۔ تسلیمات بجائے جارہے تھے ۔۔۔ کھانے کے میز سجاءے جاچکے تھے ۔۔۔۔ کھانے کے۔۔۔ چمچوں ۔۔۔۔ کےساتھ ساتھ ۔۔۔ انسانی چمچے۔۔۔۔ بھی۔۔۔ مکھن لگانے میں سردھڑ کی بازی لگانے میں مصروف تھے کہ ۔۔۔ بسم اللہ ۔۔۔ کا  اشارہ ملا ابھی ۔۔۔ چھوٹے میاں صاحب روایتی ادب واحترام کے ساتھ ۔۔۔ سر جھکا کے ۔۔۔ ملکہ ۔۔۔ سے مخاطب ہونے ہی والے تھے کہ ملکہ کے سیکٹری نے خادم اعلی کے قریب اکے کہا ۔۔۔۔ ملکہ کے لیے تیار کھانہ برطانیہ سے ساتھ لایا گیا ہے اور وہ پاکستانی کھانہ کھانے کی طاقت بھی نہیں رکھتیں لہزا انہیں زحمت نہ دی جاءے یہ کہتے ہوءے اس نے بیگ سے دو ۔۔۔ ٹیفن۔۔۔ نکالے اس میں ملکہ برطانیہ کے ۔۔۔ پرہیزانہ۔۔۔ چند ہی لقمے موجود تھے ۔۔۔۔ میاں صاحب نے دیگر بیسیوں پاکستانی۔۔۔۔ پہلوانوں۔۔۔۔ کو ۔۔۔ یلغار ۔۔۔ کے احکامات دیے ہی تھے کہ ۔۔۔ ملکہ۔۔۔ نے۔۔۔ ٹیفن ۔۔۔ واپس تھما دیے۔۔۔۔ تمام ۔۔۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف۔۔۔ پہلوان ہاتھ ملتے رہے کیونکہ ۔۔۔ ملکہ۔۔۔ ٹیشو پیپر سے ہاتھ منہ صاف کر رہیں تھیں اور مہمان خصوصی کے بعد ۔۔۔ ہاتھوں صفاءی ۔۔۔ دیکھانا ۔۔۔۔ نونیون۔۔۔ کے لیے ممکن نہیں رہا تھا۔                                                                                                                                                               

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57585

برق ِ خاطف ! – قادر خان یوسف زئی کے قلم سے

برق ِ خاطف ! – قادر خان یوسف زئی کے قلم سے

ذرا سوچئے کہ انتہا پسند ہندو آج اس قدر اوچھا کیوں ہو رہا ہے، جو کچھ یہ بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ کررہا، جو روش اس نے اختیار کررکھی اور جن عزائم کی بعض جھلکیاں ان کے اکابرین کے جوز ِ غیظ و غضب میں ان کی کف دہانی کے ساتھ دنیا کے سامنے آئی، اس کا اصل سبب کیا ہے، غور سے دیکھیں تو ان تمام بے انصافیوں اور دست درازیوں کی علت یہ نظر آئے گی کہ انتہا پسند ہنددوؤں نے یہ خیال کرلیا کہ مسلمان کمزور ہوچکا۔ بس یہ ایک زعم ِ باطل ہے جس میں ہندوؤں (انتہا پسند)کے اس تمام اوچھے پن کا راز پوشیدہ ہے۔ کم ظرف انسان کو جب یہ یقین ہو کہ اس کا فریق مقابل کمزور ہے تو وہ انتہائی سفاک اور قصاب کا روپ اختیار کرلیتا ہے۔ یہ ایک محکم اصول ہے، یہی اصول آج انتہا پسند ہندوؤں کی بے جا تلاطم خیزیوں کی تہ میں کارفرما ہے۔ ایک مثل تھی کہ  ’ مُسلے نوں ٹرخائے، ٹرخ جائے تو ٹرخ جائے نہیں تو آپ ٹرخ جائیے۔“ بمعنی کہ مسلمانوں کو گیدڑ  بھپکی دیجیے، اگر وہ اس کے رعب میں آجائے تو خوب ورنہ خود دب جائیے۔آج  شدت پسندہندو اپنی قوت  نشہ کے زعم باطن میں اسی قسم کی بھپکیاں دے رہا ہے، اگر مسلمانوں نے یہ سمجھ لیا کہ وہ واقعی کمزور ہوچکے  تو آر ایس ایس کی بھپکیاں فی الواقع کارگر ہوجائیں گی اور اگر اس کا اِ س پر ایمان ہے کہ:
باطل سے دبنے والے اے آسمان نہیں ہم


تو یقین کیجئے ہندو  توا کے پرچارک اس ضیغم نیسانی کی ایک دھاڑ کو بھی برداشت نہیں کرسکیں گے۔ اس میں شبہ نہیں کہ آج مصاف ِ حیات میں سپاہ اور اسلحہ بڑی چیز ہے، لیکن یاد رکھیے، قوموں کی قوت کا راز ان کی سپاہ اور اسلحہ کی فراوانی میں نہیں ہوتا، یہ راز ان کے عزم و ثبات اور ایمان و یقین میں پہناں ہوتا ہے۔ یقین کی قوت دنیا کی ہر قوت پر غالب ہوتی ہے، یہی وہ قوت ہے جس کی بنا ء پر تاریخ کی آنکھوں نے ناقابل یقین تماشے بھی دیکھے کہ اللہ کی نصرت، عزم و ثبات کا ساتھ دیتی ہے۔ یقین کی قوتیں مادی قوتوں کی کمی کو بھی پورا کردیتی ہیں۔مسلمان کسی پر زیادتی نہیں کرسکتا، وہ خوامخواہ جنگ کی آگ کو مشتعل نہیں کرتا، وہ دنیا میں امن و سلامتی چاہتا ہے لیکن وہ کسی اور کو بھی اجازت نہیں دے سکتا کہ وہ امن کو خراب کرے اور اللہ کی مخلوق کو ستائے۔


مودی سرکار انتخابات سے قبل ایک بار پھر متشدد ماحول بنانے میں جت گئی ہے جس میں بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کا جینا محال کردیا ہے۔ نریندر مودی سمجھ بیٹھا کہ مسلمان کمزور ہوچکا ، یہ انتہا پسندوں کا دماغی خلل ہے جس کا علاج یہ ہے کہ اس کے دل سے یہ زعم باطل نکال دیا جائے کہ مسلمان کمزور ہے اور یہ اسی صورت میں ہوسکتا ہے کہ مسلمان اس کا عزم کرلے کہ جو آنکھ ان کی طرف بری نیت سے دیکھے گی وہ آنکھ نکال لی جائے گی، خواہ وہ کسی سر میں کیوں نہ ہو۔ اگر مودی سرکار نے کسی سمت سے بھی اپنے قدم بڑھائے تو اس کا جواب وہی ہونا چاہیے جوابدالی کی تلوار نے پانی پت کے میدان میں مرہٹوں کو دیا تھا۔ یاد رکھئے اگر انتہا پسندوں کو ایک شکست مل گئی تو پھر وہ خود بھی امن سے رہے گا اور دنیا کا امن بھی بحال ہوجائے گا  اور اس کے بعد بھارت کے 20 کروڑ  کے لگ بھگ مسلمان بھی عزت و آبرو کی زندگی بسر کرسکیں گے۔ واضح رہے کہ اس کے لئے فوج اور اسلحہ پر ہی بھروسہ کئے نہ بیٹھے رہیے، جب تک پوری کی پوری قوم عزم و ثبات سے مقابلہ نہ کرے فوج اور اسلحہ کچھ بھی نہیں کرسکتا، مسلمانوں کی قوت کا راز  عزم و ثبات میں ہے۔


یہ درست کہ ہمارے اکابرین ہماری توقعات پر پورے نہیں اتر رہے جو ہم نے اُن سے وابستہ کی تھیں، یہ بھی ٹھیک ہے کہ ہماری حکومت کو عالمی دباؤ کا شدید سامنا ہے، لیکن یہ چیزیں قطعاََ اس کا جواز نہیں ہوسکتا کہ آپ پاکستان کے استحکام کی طرف سے بے نیاز ہوجائیں، پاکستان تمام ملت اسلامیہ کی مشترکہ امانت ہے، ہمارے اکابر و اعیان اس امانت کے واحد مالک نہیں کہ اس کے ضائع ہونے میں صرف انہی کا نقصان ہوگا ہمارا کچھ نہ بگڑے گا، یہ تو وہ آگ ہوگی جس کے شعلوں سے نہ خواص بچ سکیں گے نہ عوام۔ موجودہ فنون جنگ میں دشمن کا سب سے بڑا حربہ یہ ہوتا ہے کہ وہ فریق ِ مقابل میں خوف و ہراس پھیلا دیتا ہے کہ ان میں انتشار و اختلال پیدا ہوجائے۔ امن کے زمانے میں اس قسم کی وحشت انگیزی اور دہشت افشانی سے مقصود یہ ہوتا ہے کہ قوم مخالف کے عزم و ثبات کا جائزہ لیا جائے۔ اگر ہم ففتھ جنریشن وار فیئر کا شکار ہو کر اپنی ہی ریاست کے خلاف ہوجائیں تو یہ امر خواہ مخواہ دشمن کو حملہ کی دعوت دینا جیسا ہوگا۔


 اللہ تعالی نے پاکستان کے ذرائع پیدائش اتنے وسیع دیئے ہیں کہ ہمیں کسی کے در پر ہاتھ پھیلانے کی کبھی ضرورت نہ پڑے۔ نا مساعد حالات سے نکلنے کے لئے بس مخلص رہنما چاہے۔ انتہا پسند ہندوؤں کی طرف سے پاکستان کی سا  لمیت کو ختم کرنے کے لئے وقتاََ فوقتاََ ایسے اقدامات عمل میں آتے رہے ہیں جس سے اس نتیجہ پر پہنچا جاسکتا ہے کہ شدت پسند ہندو کی ذہنیت ایک نو دولتیے رئیس زادے یا بگڑے ہوئے شخص کی سی ہے جس کی تخریبی کاروائیوں سے محفوظ رہنے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ اسے شتر ِ بے مہار کی طرح بد لگام نہ ہونے دیا جائے بلکہ اس کے راستے میں رکاؤٹ ڈالی جائے۔اپنے گھر کی حفاظت فریضہ انسانیت ہے لیکن پاکستان تو ہمارے لئے گھر سے بھی زیادہ گراں بہا متاع ہے۔ اس سلسلے میں ملک کے ارباب ِ حل و عقد سے بھی گزارش کریں گے کہ وہ ملک کے دفاع کے لئے جس حسن تدبر کا ثبوت دے رہے ہیں اس کے ساتھ وہ بتدریج اقدامات بھی کرتے جائیں، جن سے اہل ملک کا یہ خیال یقین میں بدلتا جائے کہ ہمارا ہر قدم اس منزل کی طرف اٹھ رہا ہے جو حصول پاکستان کے لئے ہمارا منتہائے مقصود تھا، پھر دیکھئے کہ یہی پیکر ان آب و گل، مخالفت کے ہر خس و خاشاک پر کس طرح برق ِ خاطف(آنکھوں کو خیرہ کردینے والی بجلی) بن کر گرتے ہیں۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57583