Chitral Times

صوبائی اسمبلی کی نشست بحال نہ ہونے کی صورت میں انتخابات کا بائیکاٹ کرینگے ۔۔ایم پی اے سردار حسین

چترال (نمائندہ چترال ٹائمز) چترال سے صوبائی اسمبلی کے رکن سید سردار حسین شاہ نے کہا ہے کہ چترال ضلعے سے صوبائی اسمبلی کی ایک نشست کو کم کرنے کا فیصلہ چترال کے عوام کو کسی بھی طور پر قبول نہیں او ر اس کی بحالی نہ ہونے کی صورت میں وہ آنے والے عام انتخابات کا مکمل طورپر بائیکاٹ کرنے پرمجبور ہوں گے جس کے بہت ہی بھیانک نتائج برامد ہوں گے۔ ہفتے کے دن چترال پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ چترال کا رقبہ پوری صوبے کا پانچواں حصہ ہونے کے ساتھ یہ پسماندہ تریں ضلع ہے جوکہ ارندو سے لے کر بروغل تک پھیلا ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وسیع وعریض ضلعے کودوممبران اسمبلی بھی نہیں سنھبال سکتے تھے تو اب ایک نشست کو ختم کرنا سراسر ذیادتی ہے ۔ انہوں نے کہاکہ اس ضلعے کی سابق حیثیت ایک ریاست کی تھی جوکہ قیام پاکستان کے بعد اپنی مرضی سے اس میں شامل ہوا تھا اور ساتھ ساتھ افغانستان کے ساتھ چار سو کلومیٹر کا مشترکہ سرحد رکھنے اور واخان کے ساتھ جاملنے کی وجہ سے اس کی اسٹریٹیجک حیثیت بھی منفرد ہے اور ا س ضلعے سے محض آبادی میں معمولی سی کمی کا بہانہ بناکر اس کی ایک سیٹ کو ختم کرنا کسی بھی طور پر درست اور عوام کو قبول نہیں۔ سید سردار حسین شاہ کا کہنا تھا کہ ستر سال تک سڑک کی سہولت سے محروم تھا اور ساٹھ سال تک اس پر پاٹا کا کالا قانون لاگو تھا اور اس ضلعے کے عوام کو محرومیوں کے سوا ملا ہی کیا تھا اور اب صوبائی اسمبلی کی نشستوں میں ایک اضافے کی بجائے ایک کی کمی کرنا ا ن کی احساس محرومی میں مزید اضافہ کردے گا۔ انہوں نے کہاکہ وہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ساتھ پیٹیشن دائر کردیں گے اور صوبائی حکومت پر بھی یہ فرض عائد ہوتی ہے کہ وہ بھی اس معاملے کو غیرمعمولی بنیادوں پر لیتے ہوئے اس نشست کو بحال کردے۔ انہوں نے کہاکہ چترال کی آبادی سات لاکھ سے بھی ذیادہ ہے کیونکہ تین لاکھ سے ذیادہ چترال سے تعلق رکھنے والے لوگ پشاور، کراچی،لاہور، راولپنڈی اسلام آباد اور گلگت بلتستان میں کام اور کاروبار کے سلسلے میں مقیم ہیں مگر مردم شماری کے وقت ان کو چترال میں شامل نہیں کئے گئے ۔ انہوں نے مزید کہاکہ چترال میں لٹریسی عام ہونے اور یہاں کے عوام ذمہ دار شہری ہونے کے ناطے آبادی میں اضافے سے احتراز کرتے ہیں جس کا انہیں یہ صلہ دیا جارہاہے۔ اس موقع پرپارٹی کے دوسرے رہنما امیر اللہ خان، انجینئر فضل ربی ، شریف حسین بھی موجود تھے۔

[fbvideo link=”https://www.facebook.com/chitraltimes/videos/1615151425212148/” width=”500″ height=”400″ onlyvideo=”1″]

 

[fbvideo link=”https://www.facebook.com/chitraltimes/videos/1615119998548624/” width=”500″ height=”400″ onlyvideo=”1″]

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
3554

گولین گول بجلی سے سب ڈویژن مستوج کو بجلی دینے کے سلسلے میں محکمہ پیڈو سنجیدہ نہیں ہے ۔ اس کے بیانک نتائج نکلیں گے۔۔ ایم پی اے سردا رحسین

Posted on

چترال (نمائندہ چترال ٹائمز) مستوج سے صوبائی اسمبلی کے رکن سید سردار حسین شاہ نے صوبائی حکومت کو سخت تنبیہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر جنوری کے پہلے ہفتے میں وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے دورہ چترال اور گولین گول ہائڈل پراجیکٹ کی افتتاح کے بعد مستوج سب ڈویژن کے عوام کو بجلی نہ ملی تو عوام سڑکوں پر نکلنے پر مجبور ہوں گے جن کی قیادت وہ خود کریں گے اور اس صورت میں صورت حال کسی کے قابو میں نہیں رہے گی۔جمعہ کے روز بونی کے مقام پر ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ صوبائی حکومت کے زیر اہتمام ریشن کے مقام پر پیڈو کے 4.2میگاواٹ بجلی گھر کی سیلاب بردگی کے بعد گزشتہ تین سالوں سے اپر چترال کے 21ہزار صارفین بجلی سے محروم ہیں جبکہ ان کو بجلی کی فراہمی صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے کہاکہ گولین گول بجلی گھر سے چترال کے لئے 36میگاواٹ بجلی کی منظوری سابق وزیر اعظم نواز شریف نے دی تھی جو چترال ٹاؤن اور مضافات میں پیسکو کے صارفین کی ضرورت پورا کرنے کے بعد بھی اتنی مقدار میں بچ جاتی ہے کہ اپر چترال کے 21ہزار صارفین کی مہیا جاسکتی ہے۔ انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہا رکیا کہ پیڈو اس معاملے میں سنجیدہ نہیں ہے اور ابھی تک پیسکو کے ساتھ معاہدے کرکے اس سے بجلی خریدنے کے لئے بات بھی شروع نہیں کی۔انہوں نے کہاکہ صوبائی حکومت کی طرف سے سیلاب زدہ ریشن بجلی گھر کی بحالی کا کام شروع بھی نہیں ہوا جبکہ اسے بحال میں چار سال سے ذیادہ کا عرصہ لگ سکتا ہے اور اتنی طویل مدت تک اس کے صارفین کو انتظار میں نہیں رکھا جاسکتا۔ انہوں نے کہاکہ صوبائی اسمبلی میں بھی اس بارے میں ایک قرارداد پاس ہوئی تھی کہ ریشن بجلی گھر کی تعمیر نو تک پیسکو کے گولین گول پراجیکٹ سے بجلی خرید کر اپر چترال کو دی جائے لیکن ا س پر بھی کوئی عمل نہیں ہوا۔

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریںTagged
3515