Chitral Times

صدائے بازگشت………پاکستان زندہ باد ……….. تحریر: عنایت اللہ اسیر

Posted on

چترال کے باشندوں نے 1943ء میں ہی چاند ستارے کا نشان ریاستی جھنڈے کے ساتھ شاہی قلعے پر لہراکر پاکستان کو دل سے قبول کرکے اس میں شامل ہونے کا اعلان کیا۔ جبکہ پاکستان بنا ہی نہیں تھا۔ وہ نشان اب بھی شاہی قلعے پر لگا ہوا ہے مگر ہماری یک طرفہ محبت اخلاص امن شرافت اور پاکستان کے لئے والہانہ قربانی دینے کی جذبات کا جو صلہ ہمیں ملا وہ سب کے سامنے ہے۔ 1948ء میں چترال سکاوٹس اور چترال بارڈر پولیس کے جوانوں نے میجر مطاع الملک اور شہزادہ برہان الدین کی قیادت میں کشمیر کے محاذ پر ہندوستان کے غاصبانہ اور مکارانہ قبضے کے خلاف جس بے دردی ، بے جگری اور بہادری سے لڑے وہ تاریخ کا حصہ ہے اور اگر جنگ بندی نہ کی جاتی تو ہندوستان سے کشمیر کا واحد راستہ بھی کاٹ کر پورے کشمیر کو پاکستان کا بابضاطبہ حصہ بنا کر دم لیتے۔ مگر جنگ بندی کی وجہ سے آزاد کشمیر کا یہ حصہ ہندؤں کے قبضے سے چھڑوایا گیا ورنہ مقبوضہ کشمیر کا کوئی متنازعہ علاقہ ہندوستان کے قبضے میں نہ ہوتا۔ اس کامیاب جنگ کو بے سروسامانی کی حالت میں جیت کر واپس آتے ہوئے جو سلوک چترال کے جوانوں اور افسران سے روا رکھا گیا اور ان کامیاب جنگ جو کمانڈروں کو گلگت سے گرفتار کرکے پشاور جیل میں سالوں رکھا گیا اور ان باڈی گارڈ کی سپاہیوں کو انعامات ، تمغے اور بخشش دینے کی بجائے خالی ہاتھ ان کے گھروں کو بھیجا گیا حالانکہ دیر کے تیار خور سپاہیوں کو بخشش دیا گیا۔ تاریخ گواہ ہے کہ تمام ریاستوں کو اختیار دے دیا گیا تھا کہ وہ انڈیا اور پاکستان میں سے کسی ایک کا انتخاب کرے اور صوبہ سرحد کے بہت سے علاقوں میں ووٹ بھی کردیا گیا مگر چترال جیسے دورافتادہ علاقے میں فرد واحد بھی ایسا نہیں تھا جسے پاکستان سے الحاق کا مخالف کیا جائے ۔ 1895سے 1924ء تک بیس سال وادی چترال دو ریاستوں میں تقسیم رہا ، ریاست چترال کے والی حکمران اعلیٰ حضرت سر شجاع الملک اور ریاست مستوج کے ولی حکمران مہترجو راجہ بہادر خان رہے ۔ پاکستان سے باضابطہ اعلان کے بعد چترال کو پھر سے دو ضلعوں میں تقسیم کیا گیا ، ضلع چترال ڈپٹی کمشنر شہزادہ شہاب الدین اور ضلع مستوج کا پہلا ڈپٹی کمشنرشہزادہ اسدالرحمن مقرر ہوئے ۔ عجیب اتفاق اور حقیقت ہے کہ چترال کو پھر بھی والیاں ریاست کی نگرانی اور مکمل اختیار میں آزاد ریاست ہی کے طور پر اس کا اپنا وزیر اعظم ، اپنا کمانڈر انچیف ہوا کرتا تھا ۔ پہلا وزیر اعظم جو آخر تک رہے ، مہتر جو دلارم خان اور پہلا کمانڈر انچیف شہزادہ برہان الدین مقرر ہوئے اور چترال دو اضلاع ، چھ گورنریوں اور تحصیلوں میں انتظامی تقسیم رہا۔ ریاست چترال کے تین فل تحصیلیں دروش، چترال اور گرم چشمہ لوٹ کوہ تھے جن کا ڈی۔ سی شہزادہ شہاب الدین اور ضلع مستوج کی تین تحصیلیں مستوج ، تورکھو اور موڑکھو جن کا ڈی۔ سی شہزادہ اسد الرحمن تھے ۔ ہر تحصیل میں ایک اے۔ سی مقرر تھے ، دونوں الگ الگ اضلاع کو ایک پولیٹکل ایجنٹ نگرانی کرتا تھا ۔ 1947سے 1969چترال کے ضلع بننے تک یہی پوزیشن رہا مگر 1969ء میں اٹھ ہزار پا نچ سو کلومیٹر چترال اور سات ہزار کلومیٹر مستوج کو ایک ضلع قرار دے کر چترال کے چھ گورنریوں اور چھ تحصیلو ں کو سب تحصیل قرار دے کر چترال کے ساتھ بے جا ظلم اور ذیادتی کیا گیا ۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ صرف اس لئے کیا گیا کہ چترال کے باشندوں نے چترال کو قانونی ضلع بنانے کی تحریک چلائی اور ضلع بننے پر خوشیاں منائی اور مٹھائی تقسیم ہوئے جس کا بدلہ دو ضلعوں کو ایک ضلع بناکر دیا گیا جس سے اس وقت کے ڈی۔ سی کو اے سی اور اے سی صاحبان کو ای اے سی کی شکل میں سزا دے دی گئی حالانکہ دیر کے نواب کو گرفتار کرکے دیر کو ضلع بنایا گیا ، دیر کو چار صوبائی اور دو قومی اسمبلی کی سیٹیں دے دی گئییں ، دیر کے تمام سڑکوں کو پختہ کیا گیا ۔ آج دیر میں پختہ سڑکوں کی لمبائی آٹھ ہزار کلومیٹر ہے اور دیر کا رقبہ آٹھ ہزار کلومیٹر اور چترال کاچودہ ہزار ہے اور یہاں کی پختہ سڑکوں کی لمبائی 183کلومیٹر ہے۔ 1947سے 2004ء تک لواری ٹنل کے قابل عمل منصوبے کی منصوبہ نہ کی گئی حالا نکہ ملاکنڈ کی پہاڑی کے اندر سے تین کلومیٹر کے سات سرنگین نکالے گئے ۔ ہمارے ساتھ ایجنسی سے ضلعے کی حیثیت حاصل کرنے والے ضلع سوات کو چار اضلاع سوات ، شانگلہ ، بونیر اور کوہستان ، ضلع دیر کو اپر دیر اور لویر دیر کے دو اضلاع میں انتظامی تقسیم کرکے لوگوں کو سہولیات ، تعمیری، صحت اور تعلیم کے میدان میں دے گئے مگر چترال کے دو اضلاع کو ملاکر ایک ضلع بنایا گیا کیونکہ ہم شریف، پرامن ، مہذب ، قانون پسند اور پاکستان سے محبت رکھتے ہیں۔ دیر میں چکدرہ بورڈ ، یونیورسٹی ، ستر کی دہائی میں بنائے گئے ۔ چترال کے چار ہزار طلباء کے لئے اتنے دور افتادہ اور ستر سال تک ملک سے زمینی بارہ مہینہ زمینی راستہ نہ ہونے کے باوجود ایک انٹر اور یونیورسٹی نہیں دی گئی اور طلباء یو ایف ایم کیسز کی پیروی کے لئے اپنے والدین کے ہمراہ یونیورسٹی جانے پر مجبور ہیں کیونکہ ہم پاکستان سے محبت رکھتے ہیں۔ طلبا وطالبات چترال میں ان کا یونیورسٹی ،بورڈ دیر اور مردان میں ابھی تک حالانکہ پانچ سو طلباء یونیورسٹی کے چترال کیمپس میں اور شرینگل میں دو سو طلباء لے دے کے بھی چترال یونیورسٹی کا قیام عمل میں لایا گیا ہے مگر ابھی تک اس کو یونیورسٹی بورڈ کے طور پر سہولت نہیں ملی ہے۔

چترال کے واحد ڈی ایچ کیو ہسپتال میں کسی ایک شعبے کا بھی اسپیشلسٹ ڈاکٹر موجود نہیں، سی ٹی اسکین، ڈائلیسز ، ایکو ، ایم آر آئی ، نیورو اور ہارٹ کے مریضوں کو پشاور سے باہر لے جایاجاتا ہے ۔ اکثر مریض راستے میں ہی دم توڑ جاتے ہیں ، کوئی انجینئیرنگ یونیورسٹی، ٹکنیکل و میڈیکل کالج کا وجود اور کیڈٹ کالج کی فکر تک ہمارے حکمرانوں کو قائم کرنے کی نہیں ہے کیونکہ ہم شریف پاکستان اور امن پسند ہیں۔ چترال اپنی جعرافیائی حیثیت میں کراچی، چمن اور خیبر پاس کی طرح ہے۔ ا نٹرنیشنل تجارت سیاحت کے طور پرافغانستان، چمن اور تاجکستان اور سنٹرل ایشیاء کے مختلف ممالک تک مختصر تریں اور آسان ترین سال بھر کی زمینی راستہ فراہم کرتا ہے۔ مگر چترال میں کاربار کرنے والے افغانی اور مہاجر بھائیوں کو رہائش ، کاربار اور محنت مزدوری کے تمام مراعات اور سہولیات موجود ہیں مگر جو کروڑوں روپے وہ ضلع چترال میں محنت مزدوری سے کماتے ہیں، ان کو چترال کے دروش ، گرم چشمہ ، مستوج، ایون اور ارندو کے قریبی بازار وں سے جائز اور قانونی تجارت کا وہ مال جن کی افغانسنتان اور دیگرممالک میں لے جانے پر کسی بارڈر پر پابندی نہیں ہے اور پرمٹ لے کر ٹیکسز ادا کرکے پشاور اور دیگر علاقوں سے جائز تجارت کی اجازت ہے مگر چترال کے بازار سے ان افغانوں کاروباری حضرات اور مزدوروں کو چترال بازار سے فٹ بال، کنگی، پلاسٹک، پائپ، شیشے ، میخ، سینی ٹیشن کے سامان عمارتی سامان وغیرہ خریدکر لے جانے کی اجازت نہیں جس کی وجہ سے پاکستان کی کرنسی نقد افغانستان لے کر جلا ل آباد سے خریداری ہوتی ہے اور کروڑوں کا سرمایہ افغانستان نقدی کی صورت میں منتقل ہوتا ہے اور چترال بازار میں سامان خریدنا حرام ہے جس سے ہمارے بازار ماند پڑجانے کے ساتھ ہمارے ملک کو زرمبادلہ کا سخت نقصان اٹھانا پڑتا ہے ۔ چترال جعرافیائی اہمیت سے پاک وطن کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔ 1993ء کا سروے شدہ چترال ، گرم چشمہ، اشکاشم ہائی وے پراجیکٹ کا پی۔سی ون تیار منصوبہ این ایچ اے کی فائلوں میں سڑچکا ہے اور اب دوبارہ سروے کی اشد ضرورت پیدا ہوگئی ہے کیونکہ 23سالوں میں اس سڑک کی لاگت میں سو فیصد اضافہ ہوئی ہے۔ لواری ٹنل کے ساتھ ساتھ چترال سنٹرل ایشیاء راستے کی تعمیر کی اشد ضرور ت ہے تاکہ تیس ارب روپے کی ٹنل پر اخراجات کی واپسی کا ذریعہ بھی پید اکیا جاسکے۔ چترال گرم چشمہ اشکاشم ہائی وے کو فی الحال چین افغانستان اور پاکستان معاہدے سے تعمیر کی امید پیدا ہوگئی ہے کیونکہ افغانستان کو سی پیک کا حصہ بنایا گیا ہے ۔ قندہار سے گوادر کو راستہ پاکستان دے دے اور چترال گرم چشمہ سے بدخشان تاجکستان کا راستہ افغانستان سے لے کر سنٹرل ایشیاء کے ممالک کی مدد سے سے ایک اور سی پیک سنٹرل ایشیاء اکنامک کوریڈور تعمیر کیا جائے ۔ چترال مستوج یارخون واخان خوروگ ریلوے ٹریک اور شاہراہ کی تعمیر کے لئے بھی این ایچ اے منصوبہ بندی کرے ۔ تاکہ کاشغر، چین ، گلگت ، خنجراب تک افغانستان کو راستہ دیا جاسکے۔ چترال کے اعلان شدہ ضلعے کو ہرحال میں بحال کرکے انتظامی افسران کا تقررکیا جائے اور چترال کے وسیع وعریض مشکل ترین گزرگاہوں پر مشتمل چودہ ہزار 850کلومیٹر پر پھیلے ہوئے علاقے کو اس کی پسماندگی اور دورافتادگی کے پیش نظر اس کے دو صوبائی سیٹوں کو کم نہ کیا جائے بلکہ چترال کی کالاش منفرد تاریخ ، کالاش ثقافت اور مذہبی اقدار کے حامل برادری کو بھی صوبائی اور قومی اسمبلی میں الگ نمائندگی دے کر اس تاریخی indegenous کلچر کی حفاظت کا بھی فکر کرے ۔ الیکشن کمیشن اس بات کا لحاظ رکھے کہ چترال کے باشندے 50ہزار سے ذیادہ کراچی، بیس ہزار لاہور، پچاس ہزار سے ذیادہ پشاور اور کم وبیش 29ہزار ملک کے دیگر شہروں میں محنت مزدوری کے لئے آتے جاتے ہیں اور پھر بیرون ملک چترالیوں کی تعداد کو ملایا جائے تو سب ملاکر تین لاکھ سے ذیادہ افراد ان چترال ڈومیسائل ہولڈروں کو انتخابی فہرست میں شامل ہی نہ کیا گیا ۔ ان سب کا خیال رکھا جائے تو پھر چترال کے سب باشندوں کی تعداد آٹھ لاکھ سے ذیادہ ہوسکتی ہے ۔ لہٰذا چترال کے محب وطن باشندوں کو دو صوبائی سیٹوں سے محروم نہ کیا جائے اور چترال کو ہی ایک قومی اسمبلی کا حلقہ قرار دے کر ہمارے کم کئے ہوئے صوبائی سیٹ کو بحال کیا جائے کیونکہ ہم کٹر پاکستانی، قانون پسند، پرامن ، شریف اور مہذب شہری ہیں ، مراعات میں اضافہ کر نے کی بجائے حاصل مراعات کو بھی ختم کرنے سے مایوسیاں جنم لیتی ہیں۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , , , , ,
4610

صدابصحرا ……… 2019 کا چترال ………..ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ

Posted on

پولو گراونڈ چترال میں 50ہزار عوام کے مجمع سے خطاب کر تے ہوئے خیبر پختونخوا کے وزیر اعلی پر ویز خٹک نے سب ڈویژن مستوج کو ضلع کا درجہ دینے کا اعلان کیا اور وعدہ کیا کہ اس کا نوٹیفکشین چند روز میں ہو جائے گا اس سے قبل چترال کی سب تحصیل دروش کو تحصیل کا درجہ دینے کا نوٹیفکشین جاری ہو چکا ہے گرم چشمہ کو تحصیل کا درجہ دینے پر غور ہو رہا ہے اس طرح سب ڈویژن مستوج کو ضلع کا درجہ دینے کے بعد موڑکہو تحصیل اور تور کہو تحصیل کے نام سے دو نئی تحصیلیں بنینگی اور 2019 ؁ ء کے بلدیاتی انتخابات میں چترال کی نئی انتظامی یونٹوں میں دو ضلع ناظمین اور 6تحصیل ناظمین ہونگے اس حساب سے تحصیل کونسلروں کی تعداد میں اضافہ ہو گا ہر تحصیل میونسپل ایڈمنسٹر یشن کا عملہ الگ آئے گا اب اگر تحصیل میونسپل افیسر انفراسٹر کچر کے نام سے دو انجینئر پورے چترال کی 270کلو میٹر لمبی وادی کی 34الگ الگ گھاٹیوں کے اندر کاموں کو دیکھتے ہیں 2019ء میں یہ کام 6انجینئروں میں تقسیم ہو گا 6ناظمین اس کام کے لئے فنڈ مہیا کرینگے مگر یہ اتنا آسا ن نہیں جتنا لکھنے اور پڑھنے میں نظر آتا ہے علامہ اقبال نے کہا تھا
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں

موجودہ حالات میں صورت حال یہ ہے کہ چترال کے ایم این اے شہزادہ افتخارالدین ،ایم پی اے سلیم خان ،ایم پی اے سردار حسین اور ضلع ناظم حاجی مغفرت شاہ نے اپنے آپ کو نئے ضلع کے اعلان اور وزیر اعلی کے جلسہ عام ،دورہ چترال سے لا تعلق رکھا نو شو (No Show) کی تختی اویزاں رہی ،چترال کی سیاسی جماعتوں کے قائدین اور کارکنوں نے اپنے آپ کو لا تعلق ظاہر کیا اب یہ پاکستان تحریک انصاف کی واحد ایم پی اے بی بی فوزیہ ،پاکستان تحریک انصاف کے ضلعی صدر عبدالطیف ،جنرل سکرٹری اسرارالدین ،سینئرلیڈر حاجی سلطان محمد ،عبدالولی خان ایڈوکیٹ ضلع کونسل کے ممبر رحمت غازی ،غلام مصطفےٰ ،محمد یعقوب خان ،زلفی ہنر شاہ اور دیگر قائدین کے لئے امتحان کا درجہ اختیار کر گیا ہے ڈپٹی کمشنر چترال ارشاد علی سو ڈھر اس سلسلے میں کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں شہزادہ سراج الملک ،شہزادہ سکندر الملک اور شہزادہ امان الرحمان کے اثرورسوخ سے بھی کام لیا جاسکتا ہے سب ڈویژن مستوج کو ضلع کا درجہ دینے کے مخالفین نے پہلے ہی سے پروپگینڈاشروع کیا ہوا ہے کہ وزیر اعلی پرویز خٹک محض سیاسی اعلان کرینگے اس کو عملی جامہ نہیں پہنا سکینگے مخالفین کے ایک گروہ نے یہاں تک دعوی کیا ہے کہ چترال میں نیا ضلع نہیں بننے دینگے مخالفین نے یہ بھی کہا ہے کہ نیا ضلع بننے سے چترال کابٹوارا ہو گا وزیر اعلی پرویز خٹک سے ایک نشت میں اس موضوع پر بات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ خان صاحب کا وژن اور مشن ہی ایسے گروہوں کے خلاف جہاد ہے ہمارا نعرہ تبدیلی ہے اور یہ مفاد پر ست ٹولہ ’’ سٹیٹس کو‘‘ چاہتا ہے ان کا مفاد اجارہ داری اور داداگیری میں ہے ہم اجارہ داریوں کو توڑنا چاہتے ہیں دادا گیری کو ختم کرنا چاہتے ہیں اور ہم یہ کام کر کے رہینگے نوٹی فیکشین کے لئے جو تجویز اور پر بھیجی جائیگی اس میں پورا پیکیج دیا جائے گا اس پیکیج کے دو حصے ہونگے پہلے حصے میں سب ڈویژن مستوج کوضلع کا درجہ دیکر ضلعی محکموں کا قیام الگ ضلع کونسل کا قیام اور اس کے دیگر لوازمات کا بلیو پبرنٹ ہو گا اس پیکیج کے دوسرے حصے میں دروش ،گرم چشمہ ،موڑکھو اورتور کھو کی نئی مجوزہ تحصیلوں کے لئے الگ الگ انتظامی ڈھانچہ تجویز کیا جائے گا حدود پہلے سے متعین ہیں ہیڈ کوارٹر بھی متعین ہیں آبادی بھی متعین ہے 2019ء کے بلدیاتی انتخابات کی حلقہ بندیاں نئی انتظامی یونٹوں کے حساب سے ہونگی اور یہ مشکل کام نہیں ہے خیبر پختونخوا کے انتظامی حکام کے پاس ایسے کاموں کا تجربہ بھی ہے اور ایسے اقدامات کی صلاحیت بھی ہے نئے ضلع،نئی تحصیلوں اور نئے انتظامی دفاتر کے قیام کی مخالفت کرنے والوں کا دکھ ہم کوبھی معلوم ہے پی ٹی آئی کی قیادت کو بھی اس کا علم ہے اُن کا دکھ یہ ہے کہ اتنا بڑا کا م ہماری حکومتوں نے کیوں نہیں کیا؟ اس کام کا کریڈیٹ ہمیں کیوں نہیں ملا؟عمران خان اور پرویز خٹک نے جس طرح ریپڈٹرانزٹ بس کے منصوبے کو چھ ماہ میں مکمل کرنے کا بیڑا اُٹھایا ہے اسی طرح چترال کی نئی انتظامی یونٹوں میں تقسیم اور دو ضلعوں کے ساتھ6تحصیلوں کے لئے انتظامی ڈھانچہ کی فراہمی کا کام بھی اگلے 6مہینوں میں مکمل کر کے دکھا ئینگے بقول فیض
’’ جو فرق صبح پہ چمکے گا تاراہم بھی دیکھینگے ‘‘

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستانTagged , , ,
1466

ؓضلع مستوج یا ضلع اپر چترال۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سلیم بخاری

Posted on

چترال دو تحصیلوں پر مشتمل ضلع ہے۔ان دنوں پرنٹ اور سوشل میڈیا میں جتنی دشمنی ضلع چترال اور ضلع مستوج کے نام پر ہمارے پرامن ضلع میں پیدا ہوچکا اس سے کئی بہتر یہ تھا کہ اس کو تقسیم کرنے کا نام ہی نہ لیتے اور نہ ہی منصوبہ بندی کی جاتی۔ دوسرے علاقے جو ضلعوں میں تقسیم ہوچکے ہیں ان میں ابھی تک انتظامی امور ناگفتہ بہہ ہے ان ضلعوں کے لوگ دوبارہ سے الحاق چاہتے ہیں۔

ضلع چترال میں ابھی تک ترقیاتی کام جوں کے توں پڑے ہوئے ہیں مزید دو حصوں میں بٹنے سے ہمارے چترال کے مسائل میں کئی گنا اضافہ ہوسکتاہے۔ہمارے صوبے کا نام بدلنے کی جو وجہ ہے وہ انگریزوں کا رکھا ہوا بے معنی سا نام تھا جس کا کوئی مطلب نہیں تھااور نہ ہی ٖٖغ
ٰٗ ؁ثقافتی سطح پر کوئی پذیرائی۔شمال۔مشرقی۔سرحدی صوبہ، شاید اس نام کو کوئی بھی مہذب قوم برداشت نہیں کرسکتا۔اور ایسے ناموں کا شمار دنیا میں لاوارث قوموں کے ہوتے ہیں۔مشرقی پاکستان ، پاکستان کا حصہ نہیں رہا تبھی تو بنگلہ دیش کہلایا۔اب اگر خودانخواستہ ایسی کوئی بات ہمارے ضلعے میں ہوئی ہے کہ یہ ملک سے جدا ہورہاہے تو پھر اپنے مرضی کے نام رکھیں جائیں تو کوئی قباحت نہیں ورنہ پہلے سے موجود نام چترال کے بجائے بنگلہ دیش یا پھر کوئی دوسرا غیر مانوس نام رکھنا سراسر ناانصافی ہوگی۔ کم ازکم یہ بات اپنے ذہن سے نکالنا چاہیے کہ نہ چترال ملک سے جدا ہورہا ہے جیسا کے مشرقی پاکستان ہوا ۔لہذا ہم مانوس نام لوئر چترال اور اپر چترال کا ہی استعمال عمل میں لائیں گے۔

اب اگر خوامخواہ لوگ اس بات پر جھگڑا کررہے ہیں کہ اس ضلعے کا نام ضلع مستوج رکھا جائے تو پھر مصلحتا اس کو ضلع تورکہو یا ضلع موڑکہو بھی کہا جاسکتا ہے کیونکہ اگر ضلع کا تقسیم آبادی ،قومیت،نسل اور جغرافیائی زمینوں کی پیمائش پر ہو رہی ہے تو ضلع تورکہو اور موڑکہو کی آبادی مستوج کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے کئی گنا زیادہ رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں۔اس کے علاوہ کسی علاقے کی شہرت اس میں موجود کلچر اور تمدن کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ چترال، کلچر اور تمدن کے حوالے سے پوری دنیا میں اپنی شناخت رکھتی ہے اور اب نئے نام سے اپر چترال کی شناخت کوئی معنی نہیں رکھتا ۔ یہاں کوئی نئی کلچر عمل میں نہیں لایا جارہا ہے اس لئے مستوج نام دے کر اپر چترال میں نئی کلچر کی شروعات موجودہ چترالی کلچر کے ساتھ مذاق ہوگا۔

اس لئے میں تمام چترالی قوم کو اس سلسلے میں درخواست کرتا ہوں کہ کوشیش رہے کہ چترال دو ضلعوں میں تقسیم نہ ہو کیونکہ جیسا ہم سوچ رہے ہیں ویسا ممکن نہیں اور دو ضلعے بنیے سے ہمارے مسائل کم نہیں ہونگے۔اس کیوجہ یہ ہے کہ ہم ترقی پذیر ملک کے باسی ہیں اور پھر اس ملک میں خیبر پختوں خواہ کے کے باشندے ہیں اور اس صوبے مین بھی ہمارا شمار Backward ائرایا میں ہوتا ہے ان سب کے باوجود اگر چترال دو ضلعوں میں بٹ گیا تو خدانخواستہ ہمارے مسائل کم ہونے کے بجائے بڑھ جاءں گے جس سے نہ صرف ہمارے کلچر اور تمدن کو دھچکا لگے گا بلکے بہت سے ترقیاتی کاموں مین الجھنیں بھی پیداہوجائیں گے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
673

کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے ….. تحریر۔ سماجی کارکن عنایت اللہ اسیرؔ

Posted on

KPK گورنمنٹ کا ضلع مستوج کی بحالی کا فیصلہ اور نومبر میں خان صاحب کا چترال کا دورہ اور ضلع مستوج کے قیام کا اعلان
ُPTI کے لیے 2018 ء میں سرخروئی کا سبب اور چترال کے باشندوں کے لیے خوشحالی ، ترقی و سہولیات اور بہت سے آسانیوں کا ذریعہ ہوگا۔ جس کے لیے چترال کے عوام کو عمومی طور پر اور اہلیاں مستوج ، تورکھو موڑکھو کو دلی مبارک باد کے ساتھ ساتھ ہم چترال کے مخلص پاکستانی باشندوں کو جانب سے PTI گورنمنٹ کو شکریہ ادا کرتے ہیں۔ضلع مستوج 1895 ء سے 1914 ء تک الگ ریاست کے طور پر مہتر جو بہادر خان کی عملداری میں رہا اور اس کے بعد 1947 ء سے 1969 ء تک الگ ڈپٹی کمشنر کے تحت الگ ضلع رہا ۔ ڈپٹی کمشنر شہزادہ اسد الرحمان اس کے پہلے ڈپٹی کمشنر رہے پھر شہزادہ شہاب الدین ، معراج الدین ،سبحان الدین ،ظفر احمد اور اخر میں شہزادہ محی الدین صاحب اس ضلع کے ڈپٹی کمشنر رہے۔1969 ء میں صدرپاکستان جنرل یحیٰ خان کے دور میں چترال کے پاکستان دوست قانون پسند شہریوں کے بھر پور مطالبے پر جب چترال کو ایجنسی اور پولٹیکل راج سے ایک ضلع کی حیثیت دی گئی تو چترال کے باشندوں نے جشن مناکر ضلع کا اور قانون کی عملداری کا خیر مقدم کیا ۔ حالانکہ نواب دیر کو گرفتار کرکے دیر کو ضلع بنایا گیا اور نواب دیر مرتے دم اس فیصلے کو قبول نہیں کیا۔
مگر اس وقت کے ڈسٹرکٹ ناظر کے قلم دیدہ دانستہ یا نادانستہ غلطی سے ضلع مستوج کو سب ڈویژن قرار دیکر چترال کو ایک ضلع قرار دیا گیا حالانکہ سب ڈویژن میں اسسٹنٹ کمشنر متعین ہوتا ہے ڈی سی نہیں۔ اس غلط اور نامنصفانہ ریورٹ کی بنا پر 1969 ء سے آج تک 35 سال اہالیاں مستوج کو سینکڑوں میل مسافت طے کرکے چترال میں پیشی اور دیگر امور کے لیے آتے رہے اور صوبے میں چترال کا مالیاتی حصہ کم آبادی اور ایک ضلع ہونے کے ناطے نیایت ہی قلیل رہا اور چترال کے اس وقت کے AC فرزندان کو EAC کا درجہ دے کر ان کے آئینی اور قانونی ایگزٹیواسسٹنٹ کمشنر کے عہدے سے محروم کیا گیا ۔ اگر اس وقت چترال کو دو اضلاع پر مشتمل رکھا جاتا تو فرزندان چترال سردار ، معراج ، اسماعیل ، اعظم ، شہزادہ فخرالملک، حفیظ الرحمان، صلاح الدین، کریم علی شاہ، اپنے پنشن کی عمر تک ڈپٹی کمشنر کے عہدوں تک پہنچ کر پنشن لیتے۔ ایک قلم کی لغزش نے چترال کو بہت سے مالیاتی نقصانات میں آج تک مبتلا کیے رکھا ہے۔
ہم چترال کے باشندے PTI کے انصاف کے نام پر قائم صوبائی حکومت کے اس مستحسن اقدام اور اعلان کے ضلع مستوج کے شدت سے منتظر ہیں۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
531